سلیمانی

سلیمانی

مہر خبررساں ایجنسی کے بین الاقوامی امور کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو میں امریکی یونیورسٹی مینہ سوٹا کے استاد ویلیم او بیمین نے 11 ستمبر 2001 کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کا سنجیدگی کے ساتھ  مقابلہ نہیں کیا اور مشرق وسطی میں امریکہ کی لشکر کش کا مقصد خاص گروہوں کو سکیورٹی اور تحفظ فراہم کرنا تھا۔

امریکہ ہر سال گیارہ ستمبر کی سالگرہ کے موقع پر اس واقعہ کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرنے کی بات کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ  نے گذشتہ 20 برسوں میں کبھی بھی 11 ستمبر کے واقعہ کے مخفی پہلوؤں کو اجاگر نہیں کیا ۔ امریکہ نے 11 ستمبر کے واقعہ میں سعودی عرب کے کردار کو ہمیشہ پوشیدہ اور مخفی رکھنے کی تلاش و کوشش کی ہے۔

11 ستمبر سن 2001 میں امریکی سرزمین پر بظاہر دہشت گردانہ حملہ ہوا  جس کے نتیجے میں امریکہ اور عالمی سطح پر عوام کو اس کے سیاسی، اقتصادی  اور سکیورٹی نتائج کا سامنا رہا ، بعض تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بھی امریکہ کی فوجی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملے جتنا مہم تھا۔ امریکہ کی فوجی بندرگاہ پرل ہاربر پر حملہ امریکہ کی دوسری عالمی جنگ میں مداخلت کا سبب بن گیا۔

اطلاعات کے مطابق 11 ستمبر کے واقعہ میں 19 افراد ملوث تھے جن میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب ، 2 کا تعلق متحدہ عرب امارات ، 1یک کا تعلق مصر اور ایک کا تعلق لبنان سے تھا۔ 11 ستمبر کی دہشت گرد ٹیم کا تعلق عرب ممالک اور القاعدہ سے تھا۔ لیکن امریکی صدر جارج بش نے افغانستان اور عراق کو نشانہ بنایا ، جن کا کوئی بھی فرد اس حملے میں ملوث نہیں تھا۔ امریکی صدر نے افغانستان اور عراق کو شرارت کا محور قراردیا اور انھیں عالمی امن کے لئے بہت بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا۔

11 ستمبر کے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب کے سیاسی عناصر کی مداخلت کے واضح ثبوت پیش کئے اور بعد میں مائیکل مور نے اپنی دستاویزی فلم میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ۔

مینہ سوٹا یونیورسٹی کے استاد نے  دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ کی کوششوں کی ناکامی کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ 11 ستمبر کے واقعہ کا منصوبہ القاعدہ نے بنایا تھا  اور القاعدہ کے اصلی عناصر کا تعلق سعودی عرب سے تھا نہ افغانستان ، عراق یا ایران سے تھا۔ القاعدہ کو امریکہ نے سویت یونین کی روک تھام کے لئے تشکیل دیا تھا اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے اس گروہ کو رہا کردیا۔ القاعدہ کا امریکہ پر حملے کا مقصد اسے مشرق وسطی اور خاص طور پر سعودی عرب سے نکالنا تھا ۔ القاعدہ کا سعودی عرب کے شاہی خاندان سے اختلاف تھا اور آج بھی ہے لیکن اس حقیقت کو امریکہ اور سعودی عرب دونوں نے چھپا رکھا ہے۔ امریکہ نے 11 ستمبر کے واقعہ میں کبھی سعودی عرب کی مذمت نہیں کی بلکہ اس کے عوض اس نے سعودی عرب سے خطے کی جغرافیائی صورتحال اور حکومتوں کی تبدیلی کا معاملہ شروع کیا جس میں سعودی عرب نے امریکہ کے نقشے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، سعودی عرب نے 11 ستمبر کے واقعہ میں کلیدی نکات کو چھپانے کے سلسلے میں امریکہ کو بھاری مقدار میں تاوان ادا کیا ہے۔ باراک اوبامہ کی حکومت تک امریکہ نے القاعدہ کے خلاف کوئي سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا۔ امریکہ اب بھی طالبان، القاعدہ اور داعش کے خطرے کو سنجیدگي کے ساتھ نہیں لے رہا ہے کیونکہ یہ تنظیمیں امریکہ نے خود تشکیل د ی ہیں اور ان تنظیموں میں امریکہ کے اہم جاسوس موجود ہیں۔

مینہ سوٹا یونیورسٹی کے استاد نے امریکہ کے افغانستان سے 20 سال بعد خارج ہونے کے بارے میں مہر نیوز ایجنسی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امریکہ نے کوئی خاص کام انجام نہیں دیا۔ اور طالبان کی پورے افغانستان پر کنٹرول کی کوشش ناکام ہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ایرانی بحریہ کے 75 ویں بحری بیڑے کے کمانڈر اور اہلکاروں کی بحر اوقیانوس کے اہم اورعظیم مشن سے مقتدارانہ اور عزتمندانہ واپسی پر مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں  ایرانی بحریہ کے 75 ویں بحری بیڑے کے کمانڈر اور اہلکاروں کی بحر اوقیانوس کے اہم اورعظیم مشن سے مقتدارانہ اور عزتمندانہ واپسی پر مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: الحمد للہ ، آج اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ بین الاقوامی سمندر میں اپنی توانائیوں سے استفادہ کررہی ہے اور ایرانی بحریہ کے غیور ، بہادر اور بابصیرت اہلکار ملک اور قوم کے دفاع اور انقلاب اسلامی کے اعلی اہداف  کے لئے ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی بحریہ کی مزيد پیشرفت پر تاکید کرتے ہوئے اس مشن  کے کمانڈر اور اہلکاروں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں کئی مقامات پر اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور جاری مظالم  کے خلاف مظاہرین نےاحتجاج کیا جس میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے شرکت کی۔
 
 
 
 صہیونی فوج کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کر نے کے لیے بھاری مقدار میں آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی  تاہم مظاہرین نے نعرے بازی جاری رکھی جس کے نتیجے میں صہیونی فوج نے فلسطینیوں پر لاٹھی جارج کی  اور  بے دریغ ہر عمر کے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

ذرائع کے مطابق گذشتہ روز مقبوضہ فلسطین میں کئی مقامات پر اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات پر پابندی اور جاری مظالم  کے خلاف مظاہرین نےاحتجاج کیا جس میں ہزاروں فلسطینی باشندوں نے شرکت کی۔

احتجاج میں شریک فلسطینیوں نے ہاتھوں میں صہیونی ریاست کے خلاف پلے کارڈاور فلسطینی جھنڈے اٹھا رکھے تھے جبکہ مظاہرین کی جانب سے قابض ریاست اور فوج کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔

صہیونی فوجی تشدد کے باعث  28 سے زائد فلسطینی باشندوں کو  سنگین نوعیت کی چوٹین آئیں جس کے باعث انہیں اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے ۔

اب تک کی موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق  زخمی فلسطینیوں میں سے 6 افراد کی ہڈیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جبکہ دیگر فلسطینیوں کو  ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد گھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔

 عرب ویب سائٹ البوابہ الاخباریہ الیمنیہ کی رپورٹ کے مطابق ریاض نے صوبہ مارب سے پسپائی کے دوران بھاری ہتھیاروں و جنگی ساز و سامان کو نکالنا شروع کر دیا ہے۔ اس صوبہ میں صنعاء کی فورسز نے مضبوط دفاع کےساتھ اسنیپ اٹیکس کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں یمنی فوج اور صنعاء میں نیشنل سالویشن گورنمنٹ سے وابستہ عوامی افواج نے سعودی اتحادی افواج سے صوبہ مارب کے جنوب مغرب میں واقع رحبہ شہر کو صاف کرانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی اور صوبہ مارب کے دارالحکومت مارب کو مکمل طور پر آزاد کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔

مارب میں قبائلی ذرائع نے البوابہ الاخباریہ کو بتایا کہ جن مسلح افراد نے سعودی فورسز پر گھات لگا کر کاروائی کی ہے وہ غالبا صنعا کی مسلح افواج کے ہی مختلف گروپس تھے۔

 

یاد رہے اس سعودی قافلے میں سعودی فوجی افسر، سپاہی اور فوجی سازوسامان شامل تھا جو القرون علاقے کو عبور کرتے ہوئے وادی عبیدہ میں الرویک اور غوبریان کیمپوں کے نزدیک مسلح فورسز کا نشانہ بنا۔

ان ذرائع کے مطابق، اس حملہ میں جو گھات لگا کر کیا گیا ہے متعدد سعودی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں جبکہ قافلہ میں موجود فوجی سازوسامان تباہ ہو گیا۔

 

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ فوجی کاروائی مارب کی آزادی کے لیے جنگ کی شدت کو ظاہر کرتی ہے کیونکہ صنعا افواج نے آخری جنگی معرکہ کے قریب ہوتے ہوئے مختلف جنگی حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

پچھلے چند گھنٹوں میں، صنعاء کی افواج مختلف اطراف سے صوبہ مارب کے دارالحکومت کے قریب پہنچ چکی ہیں اور موجودہ صورتحال کے تناظر میں صنعاء کی افواج جلد ہی اس صوبے پر قبضہ مکمل کر لیں گی۔ یمن کا یہ صوبہ گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

 
 

بحرین نے اسرائیلی ریاست کےساتھ نام نہاد امن معاہدے کے بعد اسرائیلیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔

جمعرات کو بحرینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ منامہ نے اسرائیلی شہریوں کے لیے ویزے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عبرانی ریڈیو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلیوں کے ویزوں کے اجرا کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب دونوں ملکوں کی جانب سے ایک دوسرے کے لیے فضائی سروس شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

 

دوسری طرف سے بحرین نے باضابطہ طورپر اسرائیلیوں کے لیے ویزے جاری کرنے کی خبر پرکوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ خلیجی ریاست بحرین نے اکتوبر 2020ء کو اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی ثالثی کے تحت امن معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے پر فلسطین میں شدید رد عمل سامنے آیا اور اس اقدام کو فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا تھ

 صیہونی وزیر خارجہ کی بکواس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے تہران جواب کا حق اپنے لئے محفوظ رکھتا ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے جمعہ کو ایک ٹویٹ میں کہا: قوانین کی دھجیاں اڑانے والی صیہونی حکومت اپنے ایٹم بم سے ایران کو ایسی حالت میں دھمکی دے رہی ہے کہ وہ این پی ٹی میں شامل نہیں ہے جبکہ ایران این پی ٹی کا رکن اور اسکی جوہری تنصیبات معائنہ شدہ ہیں۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مغرب کے اس منھ لگے کو پھروتی کی عادت پڑ گئی ہے لیکن اب دنیا اسکی اصلیت کو سمجھ چکی ہے۔ دنیا سمجھ گئی ہے کہ وہ اس وقت عالمی سطح پر عدم استحکام کا باعث ایک عنصر ہے۔

سعید خطیب زادے نے کہا کہ ایران کے پاس جواب دینے کا حق محفوظ ہے۔

شیعیت نیوز: افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے شرکاء نے تاکید کی ہے کہ اس بین الاقوامی ادارے کو چاہئے کہ طالبان کے زیرکنٹرول افغانستان کے لئے انسان دوستانہ امداد کی فراہمی جاری رکھے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ افغانستان اس وقت ایک بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ افغانستان کی یہ صورت حال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی براہ راست مداخلت اور پھر افغانستان سے غیر ذمہ دارانہ انخلا کا نتیجہ ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ امریکی اور دیگر مغربی ممالک، جب افغانستان میں داخل ہوئے تو اس ملک کے عوام کے لئے مشکلات ساتھ لائے اور جب اس ملک سے انخلا کیا تو المیہ چھوڑ کرگئے ۔انھوں نے کہا کہ ایران، افغانستان کے لئے اپنے ملک کی بندرگاہوں، ہوائی اڈوں، ریلوے لائنوں اور سرحدی گذرگاہوں کے ذریعے انسان دوستانہ امداد منتقل کرنے میں سہولیات فراہم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔

مجید تخت روانچی نے کہا کہ عالمی برادری سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے گی اور اس پر عمل کرے گی اور پناہ گزینوں کے لئے امداد کی فراہمی کے لئے مزید اقدامات عمل میں لائے گی۔

چینی وزارت خارجہ کی سرکاری ویب سائٹ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دعوت پر افغانستان کے 6 ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ کا ورچوئل اجلاس منعقد ہوا ، جس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گياہے مشترکہ اعلامیہ میں افغان سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ نہ بننے پر تاکید کی گئي ہے۔ اس اجلاس میں چين، ایران، پاکستان، ازبکستان، تاجیکستان اور ترکمنستان کے وزراء خارجہ نے شرکت کی۔

مشترکہ اعلامیہ میں تاکید کی گئی ہے کہ افغانستان کے موجودہ شرائط سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کے مسئلہ کو کوئي عسکری حل نہیں ہےبلکہ مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کا بہترین طریقہ مذاکرات میں ہی پوشیدہ ہے۔

افغانستان کے 6 ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ  افغانستان میں موجودہ تمام قبائل اور مذاہب نیز خواتین کے حقوق کی پاسداری اہمیت کی حامل ہے۔

افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ نے مشترکہ بیان میں افغان سرزمین کو دہشت گردگروہوں جیسے القاعدہ، داعش، حزب اسلامی ترکستان، تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی )، بلوچستان آرمی ( بی ایل اے ) اور جنداللہ  وغیرہ کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے پر بھی تاکید کی ہے۔

افغانستان کے 6 ہمسایہ ممالک نے افغانستان کے لئے اپنی بندرگاہیں کھلی رکھنے اور اس کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی معاملات جاری کررکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ہمسایہ ممالک کے وزراء خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان میں جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل پر بھی زوردیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان کو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عمل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے ۔

مہر خبررساں ایجنسی نے ایکس پریس کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کے لئےعالمی برادری کی توقعات کے قریب ہونا مفید ثابت ہوگا۔ پاکستان کے وزير خارجہ نے کہا کہ قطر کے وزیر خارجہ سے بھی افغانستان کے مسئۂہ پر تبادلہ خیال کیا گيا ۔ قطر نے افغان طالبان کو دوحہ میں سیاسی دفتربنانے کی اجازت دی، قطر بھی دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح اس بات کو سمجھتا تھا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔

قریشی نے کہا کہ اس وقت ہم سب کا مطمع نظر یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو اوروہاں خوشحالی آئے، افغانستان میں انسانی بحران، افغان شہریوں، خطے اور دنیا کے مفاد میں نہیں ہے، پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود کوشش کر رہا ہے کہ ہم اپنے افغان بھائیوں کی مدد جاری رکھیں،  کل پاکستان کی طرف سے، بذریعہ جہازادویات و خوراک کی شکل میں امداد کابل بھجوائ گئی، زمینی راستے سے بھی ہماری کوشش ہے کہ ان کو ادویات و خوراک بھجوائی جائے۔۔ افغانستان میں جامع اور وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل ضروری ہے طالبان بھی افغان قوم کا حصہ ہیں۔

ترجمان طالبان سہیل شاہین نے کابینہ کی تقریب حلف برداری منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ترجمان طالبان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ طالبان کی عبوری کابینہ کی حلف برداری کی تقریب اب پلان کا حصہ نہیں، پہلے پروگرام میں تھا کہ ہم حلف برداری کی تقریب رکھیں گے، اس کے لیے ضروری تھا کہ دوسرے ممالک سے وفد مدعو کیے جائیں جبکہ پروٹوکول کے انتظامات اور عوام کے لیے سروسز کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ لیڈر شپ نے فیصلہ کیا ہے کہ فوری طور پر وزراء کا اعلان کیا جائے، کیونکہ عبوری کابینہ کا اعلان ہوچکا، لہذا اب تقریب کینسل ہوچکی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل طالبان نے 11 ستمبر کو امریکا پر ہونے والے حملوں کے 20 سال مکمل ہونے پر حلف برداری تقریب کا اعلان کیا تھا جبکہ چند روز قبل طالبان نے افغانستان میں عبوری حکومت تشکیل دیتے ہوئے کابینہ کے ناموں کا اعلان کیا تھا، اسلامی حکومت کے قائم مقام وزیراعظم محمد حسن اخوند جبکہ ملا عبدالغنی برادر اور ملا عبدالسلام نائب وزرائے اعظم ہوں گے۔