سلیمانی

سلیمانی

جمعہ) صبح ،رہبر معظم آیت اللہ سید خامنہ ای کو ایران کی کوو ایران برکت ویکسین کی پہلی خوراک موصول ہوئی۔

افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو  لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔

طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔

صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔

انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔

ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔افغانستان میں ایک بار پھر طالبان اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑتے نظر آرہے ہیں، کئی اضلاع میں داخل ہونے کے مناظر، عام لوگوں کیساتھ سرکاری فورسز کے لوگوں کو ہتھیار ڈالتے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے اپنے سفید جھنڈے جن پہ کلمہ لکھا گیا ہے، کو  لہراتے فتوحات کے منظر سامنے لائے جا رہے ہیں۔ یہ فتوحات کے منظر دکھانا جنگوں میں پروپیگنڈا ویڈیوز اور میڈیا کا استعمال ہی تو ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر سرکاری افواج کی طرف سے بھی ایک ویڈیو میں دکھائے گئے ہیں کہ سینکڑوں طالبان اپنے ہتھیار ڈالتے اپنے پرچم کو رکھ کر افغانستان کا قومی پرچم اٹھاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ تو جنگوں میں چلتا رہتا ہے، فتوحات کے دعوے اور دشمن کی شکست کے اعلانات دونوں اطراف سے جاری رہتے ہیں، اس لئے کہ جنگوں میں سچ چھپ جاتا ہے اور پروپیگنڈا سامنے آجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان نے ملک کے بڑے حصے پر اپنا قبضہ کر لیا ہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ بھی رہے ہیں۔ اب یہ خطرہ سب ہی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ِافغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کا الارم ہے، جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے۔

طالبان کے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتہ میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان۔افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک۔افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان نے مختلف افغان اضلاع کو روندتے ہوئے لگ بھگ چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور جوز جان کے قچہ ضلع میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق تو نہی ہوسکتا۔ اس لئے کہ رشید دوستم وار لارڈ اور افغانستان کا ایک پرانا منجھا ہوا کھلاڑی ہے، مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور ازبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا، اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کی سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جا رہے ہیں اور لوگ جوق در جوق طالبان کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے معاملات قطر میں طے پائے ہیں۔ اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ میں لئے ہیں۔ ادھر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کسی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے (طالبان) کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام میں مدد کریں۔ یاد رہے کہ چند دن قبل یہ خبر میڈیا پر نشر ہوئی تھی کہ امریکہ نے کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی کا ٹھیکہ ترکی کو دیا ہے، جبکہ ترکی نے اس معاملے میں پاکستان سے مدد لینے کا کہا تھا۔

صورتحال کی اس سنگینی میں افغانستان کی موجودہ سرکار جس میں صدر عبدالغنی اور عبد اللہ عبد اللہ بھی شامل ہیں، دو روز سے امریکہ کے دورے پر پہنچے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ امریکی عہدیداران سمیت صدر امریکہ جو بائیڈن سے ملے ہیں۔ وہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، یہ تو جلد ہی سامنے آجائے گا، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلے میدان میں ہی ہونگے اور میدان اس وقت طالبان کے ہاتھ میں جا چکا ہے، بیس سال تک امریکہ افغانستان میں اپنے دو ہزار سے زیادہ فوجی مروا کر اور اتنا بھاری مالی نقصان کرکے اگر بھاگ رہا ہے تو اسے یہ سمجھ آچکی ہے کہ اب مزید نقصان نہیں کروانا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ سب امریکہ کی اپنی پلاننگ کا حصہ ہے کہ افغانستان کو آگ و خون کی وادی میں دھکیل کر خود باہر ہو جائے، اس مقصد کیلئے اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور طالبان سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا۔

انہیں قطر میں دفتر کی اجازت دی، ان کے اہم ترین افراد سے پابندیاں اٹھائیں اور انہیں دنیا بھر میں گھومنے کا اجازت نامہ دیا۔ اس دوران طالبان نے بھرپور سفارت کاری سے روس، ترکی، چین، ایران، پاکستان، ہندوستان سے اچھے تعلقات بنا لئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے قطر میں طالبان کے دفتر کو ان کے سفارت خانہ کی حیثیت دی گئی تھی، اسی طرح امریکہ نے دوحہ مذاکرات اور ڈیل کے نتیجہ میں ہزاروں طالبان کو جیلوں سے رہا کروایا اور ان کے حوصلوں کو تقویت بخشی، اب بھی جب طالبان مختلف اضلاع میں وارد ہو رہے ہیں تو ان کا ٹارگٹ نہ امریکی بیس ہیں نہ امریکی فوجی قافلے یا مراکز۔ جس سے واضح پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کو طالبان کی موجودہ پیش رفت کی مکمل مدد و حمایت حاصل ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ افغانستان کی سیاسی قیادت کو اپنے پاس بلا کر کیا نسخہ کیمیا دیتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک انٹرویو میں طالبان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر کہا ہے کہ اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو ہم اپنی سرحدیں بند کر دیں گے اور افغانستان میں صرف منتخب حکومت جسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی، کو ہی تسلیم کریں گے یاد رہے کہ ماضی میں جب طالبان کابل پر 1995ء میں قابض ہوئے تھے تو سب سے پہلے پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا، جس نے پختونوں کے علاوہ دیگر اکائیوں کے خلاف مظالم کی ایک نئی تاریخ لکھی تھی، جسے اہل مزار شریف، بامیان، بلخ اور شمالی علاقوں کے عوام کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب کی بار ایک طرف تو طالبان جن علاقوں میں پیش رفت کر رہے ہیں، وہاں عوام کو اپنا بظاہر اچھا طرز عمل دکھا رہے ہیں اور سرکاری افواج کے اہلکاروں کو ہتھیار ڈالنے پر عام معافی دے رہے ہیں، جبکہ اس کے باوجود بہت سے علاقوں میں عوامی سطح پر لشکر تشکیل پا رہے ہیں اور طالبان سے مقابلے اپنے شہر ان کے حوالے نہ دینے کیلئے جنگی حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے، بلکہ تخار، بلخ، مزار شریف اور دیگر ایریاز میں طالبان کو مزاحمت کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا۔

ان ایریاز میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادیاں ہیں، جو ہزارہ قبائل پر مشتمل ہیں، کچھ عرصہ پہلے انہی ہزارہ قبائل نے داعش کے پے در پے حملوں سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لئے تھے تو موجودہ عبد الغنی حکومت نے ان پر امریکی جہازوں کے ذریعے بمبارمنٹ کی تھی اور ہتھیار اٹھانے والے کمانڈرز کو گرفتار کیا تھا، آج یہی کمانڈرز اور عوام افغانستان کی عزت، حمیت اور غیرت کی علامت کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں اور صدر غنی اپنے آقا امریکہ کی گود میں جا بیٹھا ہے، دیکھیں اسے وہاں سے کیا ہڈی ملتی ہے۔ طالبان اگرچہ بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ اہل تشیع سمیت سب افغان ہیں اور شیعہ علاقوں میں شیعوں کو ہی کمان دی جائیگی اور سب کی جان و مال محفوط ہوگا، مگر جن لوگوں کے رہبر کو مذاکرات کیلئے بلا کر انتہائی بے دردی سے شہید کیا گیا، جن کے گھروں کو تہس نہس کیا گیا، جن کی بیٹیوں کو کنیزی میں لیا گیا، جن کے اموال کو جلا دیا گیا، جن کی عزتوں کو پائمال کیا گیا، ان کو آپ پر کیسے اعتماد ہوگا۔ یہ لوگ تو آپ کا سفاک چہرہ ماضی میں اور پھر شام و عراق میں دیکھ چکے ہیں، ان کیلئے تو مزاحمت ہی عزت کا راستہ ہے، جسے انہوں نے چن لیا ہے، ان کے سامنے اب عراق کی مثال ہے، ان کے سامنے شام کی مثال ہے، جہاں عوام مزاحمت سے ہی ملک و ریاست کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

تحریر: ارشاد حسین ناصر

Thursday, 24 June 2021 13:40

خواہشات کا علاج

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

 

 

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

 

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

 

 

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

 

 

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

 

 

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

 ونزوئلا کے صدرنکلس میڈورو نے اپنے ٹوئیٹر پیج پراعلان کیا ہے کہ انھوں نے ایران کے نو منتخب  صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر دوطرفہ اور عالمی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ ونزوئلا کے صدر نے ٹوئیٹر پر کہا ہے کہ میں نے ایران کے نئے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ ونزوئلا کے صدر نے کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا ہے انھوں نے کہا کہ ہم نے سامراجی طاقتوں کے خلاف مشترکہ جد و جہد جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ ونزئلا کے صدر نے اس سے قبل اپنے ایک ٹوئیٹر پیغام میں ایران کے نئے صدر کو مبارکباد بھی پیش کی تھی۔

 اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر مرندی نے آئندہ دنوں میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو ایرانی کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کے سربراہ نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نےکورونا وائرس سے بچاؤ کے سلسلے میں ویکسین لگانے کے لئے دو شرطیں رکھی تھیں، پہلی شرط یہ تھی کہ باری آنے پر انھیں ویکسین لگائي جائے اور دوسری شرط یہ تھی کہ وہ ایران کی تیار کردہ ویکسین لگوائیں گے۔

ڈاکٹر علی رضا مرندی نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی ایرانی ویکسین کوو ایران برکت کے استعمال کی منظوری وزارت صحت سے مل چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبرمعظم انقلاب کی ایرانی ویکسین لگوانے پر خاص تاکید ہے، یہ ویکسین ایران کے نوجوان سائنسدانوں کی محنتوں کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں 80 سال سے زائد عمر کے افراد کو کوروناو یکسین لگائی جاچکی ہے اور رہبر معظم انقلاب اسلامی آئندہ دنوں میں ایران کی تیار کردہ کوو برکت ویکسین لگوائیں گے واضح رہے کہ روس، امریکہ ، چين ، ہندوستان اور برطانیہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا چھٹا اور مغربی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں  فاش کیا ہے کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث سعودی اہلکاروں نے امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ جمال خاشقجی کو سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر 2018 میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصلخانہ میں بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اور اس کی لاش کو ابھی تک اس کے ورثاء کے حوالے نہیں کیا گیا۔ سعودی عرب کے اہلکاروں نے خاشقجی کو قتل کرنے سے ایک سال قبل امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ  اسرائيل اور سعودی عرب کے سنگین جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی اور کوشش کررہا ہے۔

 امریکہ نے اظہار بیان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مزاحمتی محاذ کی انٹرنیٹ سائٹوں العالم، یمن کی المسیرہ، پریس ٹی وی، کتائب حزب اللہ عراق، بحرین کی اللولوء ، فلسطین الیوم اورالکوثر کو بند کردیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق امریکی وزارت انصاف نے سامراجی اہداف کے تحت گذشتہ برس کے اواخر سے مزاحمتی تنظیموں کی سائٹوں کو بند کرنے کا آغاز کیا تھا تاکہ عراق، یمن ، فلسطین ، بحرین  اور دیگر علاقوں کے مظلوموں کی آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ امریکی حکومت کا یہ اقدام اظہار خیال اور اظہار بیان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اور ذرائع ابلاغ پر دہشت گردانہ حملہ ہے۔

Wednesday, 23 June 2021 07:28

کفرانِ نعمت

کفرانِ نعمت (احسانِ فراموشی) گناہِ کبیرہ ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اس کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور اسے چند مقامات پر کفر بھی کہا گیا ہے اور اسے پچھلی قوموں پر عذاب نازل ہونے کا سبب بھی بتایا گیا ہے۔
خدا سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "اور اے بنی اسرائیل اس بات کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے تم کو خبردار کیا تھا کہ اگر میری نعمتوں (ایمان اور نیک اعمال کی بدولت فرعون اور دوسروں کے شر سے نجات) پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا اور اگر ناشکراپن کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب (ناشکروں یا احسان فراموشوں پر) سخت ہو گا۔" (آیت۷)
خدا سورة البقرہ میں فرماتا ہے: "سو مجھے یاد کرو تاکہ میں تمہیں یاد کروں، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کافر نہ ہو۔" (آیت ۱۵۲)

قومِ سبا احسان فراموشی کرتی ہے عذاب بھگتی ہے خداسورة سبا کے باشندوں کے بارے میں یوں فرماتا ہے: "سبا کے قبیلے کے لیے (جو یمن میں تھا) لوگوں کے گھر (ان کی قوت وطاقت، خدا کی نعمتوں کی فراوانی اور ان کی ناشکری پر سخت عذاب اور سزاؤں) کی نشانی تھے اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے دو باغ تھے جو راہ چلنے والے کے دائیں بائیں یا ان کے گھروں کے دونوں طرف واقع تھے (اور کہتے ہیں کہ ان میں سانپ، بچھو، مچھر، چیچڑی اور جوں وغیرہ کی قسم سے کوئی ستانے والا کیڑا نہیں تھا اور اگر کوئی ان درختوں کے نیچے خالی ٹوکری رکھ آتا تھا تو وہ ٹوکری پھلوں سے بھر جاتی تھی) پیغمبروں نے ان سے کہا: "خدا کا رزق کھاؤ اور اس کی نعمت کا شکر ادا کرو، تمہارا شہر خوش حال ہے اور اور تمہارا خدا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔" انہوں نے سرکشی کی اور ناشکرا پن دکھایا (اور کہنے لگے ہم نہیں سمجھتے کہ خدا نے ہمیں کوئی نعمت بخشی ہے اور اگر یہ نعمتیں اسی کی دی ہوئی ہیں تو اس سے کہیے کہ وہ واپس لے لے)۔ چنانچہ ہم نے ان کے لیے عرم کا سیلاب بھیجا (بتایا گیا ہے کہ عرم ایک پشتے کا نام ہے جو سبا کی ملکہ بلقیس نے دو پہاڑوں کے بیچ میں پتھر اور تارکول سے بنوایا تھا جہاں بارش کا پانی اکٹھا ہوتا تھا۔ اس میں ایک کے اوپر ایک تین دروازے بنوائے تھے اور نیچے ایک بڑی سی جھیل تھی جس میں سے نکلنے والی نہروں کی تعداد کے مطابق بارہ موریاں بنوائی تھیں۔ جب بارش ہوتی تھی اس بند کے پیچھے پانی اکٹھا ہو جاتا تھا اس وقت اوپر کا دروازہ کھول دیتے تھے تاکہ پانی اس جھیل میں آ جائے اگر پانی کم ہوتا تھا تو درمیانی دروازہ کھول دیتے تھے اور اگر اور کم ہوتا تھا نچلا دروازہ اور جب پانی جھیل میں اکٹھا ہو جاتا تھا تو اسے نہروں میں بانٹ دیتے تھے۔ وقت یوں ہی گذرتا رہا یہاں تک کہ بلقیس کا انتقال ہو گیا۔ یہ لوگ باغی ہو گئے اور حد سے گذر گئے تو خدا نے ان پر بڑے بڑے چوہے مسلط کر دئیے جنہوں نے بند میں چھید کر دئیے۔ پانی میں طغیانی آ گئی جس نے اس پشتے کو منہدم کر دیا۔ کچھ لوگ ہلاک ہو گئے اور کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور ان کی بھگدڑ اور بے بسی عرب میں ضرب المثل بن گئی) اور ان دونوں باغوں کو ہم نے دو ایسے باغوں میں تبدیل کر دیا جن کے پھل کڑوے اور بدذائقہ تھے اور درختوں کو شورہ کھا گیا تھا جن میں سے کچھ درخت بیری کے تھے یہ سزائیں ان لوگوں کی احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی تھیں اور کیا ہم ناشکروں کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں؟" (آیات ۱۵ تا ۱۷)



نعمت نقمت ہو جا تی ہے

خدا سورة نحل میں فرماتا ہے: "خدا نے ایک گاؤں کی مثال بیان کی ہے جس کے باسی امن اور اطمینان سے رہتے تھے ۔ہر طرف سے ان کے پاس بافراغت روزی چلی آتی تھی (خشکی اور تری دونوں سے) پھر انہوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے بھوک اور خوف کو ان کا اور اوڑھنا (لباس) بنا کر ان کے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھا دیا۔" (آیت ۱۱۲) لباس کا ذکر عذاب کے ان کو گھیر لینے کی مناسبت سے کیا گیا ہے یعنی جس طرح لباس پہننے والے کو ڈھانک لیتا ہے اسی طرح عذاب نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت کے گاؤں سے شہر مکہ مراد ہے جس کے باشندے سات سال تک کال اور بھوک میں مبتلا رہے تھے اور مجبوری اور بھوک سے ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جلی ہوئی ہڈیاں، مردار گوشت اور خون کھاتے تھے۔


ناشکرا پن ایک قسم کا کفر ہے

ٍ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ناشکرے پن کو کفر میں ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ خداوند عالم سلیمان کی بات دہراتا ہے کہ خدا نے جو کچھ مجھے بخشا ہے اپنے فضل سے بخشا ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر گذار ہوں یا ناشکرا۔ جو کوئی شکر ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی لیے شکر ادا کرتا ہے (کیونکہ اس سے اس کی نعمت بڑھتی ہے) اور جو کوئی ناشکرا پن کرے تو کرے حقیقت یہ ہے کہ میرا خدا شکرگذاری سے بے نیاز اور کریم ہے۔ اس نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کر دوں گا اور جو ناشکرا پن کرو گے تو پھر بلاشبہ میرا عذاب بھی سخت ہو گا اور خدا یہ بھی فرماتا ہے کہ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر کرتے رہو ار میری ناشکری نہ کرو۔ (اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب وجوہ الکفر)
امام کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ خد نے ان تینوں گناہوں میں ناشکرے پن کرکفر کہا ہے۔ ان آیتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ناشکرے پن کے تین بڑے نتیجے نکلتے ہیں اس طرح کہ اس نے نعمت ختم ہو جاتی ہے ،اس کی وجہ سے سخت اور دردناک عذاب آتا ہے اور خدا ناشکرے کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

 


ناشکرا پن اور اہل بیت علیھم السلام کی روایات

اس بارے میں بہت سی روایتیں ہیں لیکن صرف چند کے بیان پر اکتفاء کیا جاتا ہے:
پیغمبر اکرم فرماتے ہیں "ہر گناہ کے مقابلے میں ناشکرے پن کی سزا ناشکرے کو بہت جلد مل جاتی ہے۔" (وسائل الشیعہ باب ۸ ص۵۱۷)
آپ یہ بھی فرماتے ہیں "تین گناہ ایسے ہیں جن کا ارتکاب کرنے والے آخرت سے پہلے اپنی سزا کو پہنچیں گے ۔ والدین کی نافرمانی، لوگوں پر ظلم اور احسان فراموشی"۔ (وسائل الشیعہ)
ٍ آپیہ بھی فرماتے ہیں: "خدا کا سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اور خدا کا سب سے زیادہ دشمن وہ ہے جو خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے۔" (مستدرک ص ۳۱۶)
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اپنی وصیت میں فرماتے ہیں: "کسی نعمت کی ناشکری نہ کرو کیونکہ حقیقت میں ناشکرا پن سب سے بڑا اور گھٹیا قسم کا کفر ہے۔" (مستدرک ص ۳۹۶)


کفرانِ نعمت کے معنی

کفرانِ نعمت کے معنی نعمت کو چھپانا ہیں اور اس کی تین قسمیں ہوتی ہیں:


(۱) نعمت سے ناواقفیت:

یہ سب سے بُری اور شدید قسم ہے اور اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک نعمت سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی نہ سمجھنے کی وجہ سے نعمت کو نہیں پہچانتا، اس کی پرواہ نہیں کرتا یعنی اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور اس کے ہونے نہ ہونے کو یکساں جانتا ہے۔ دوسرے نعمت بخشنے والے سے ناواقفیت یا بے خبری ہے یعنی دراصل اپنے پروردگار ہی کو نہیں پہچانتا یا یہ نہیں جانتا کہ اس کی ایک صفت نعمت بخشنا بھی ہے۔ چنانچہ یہ نہیں سمجھتا کہ نعمت صرف اسی کی طرف سے آتی ہے بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف سے آتی ہے۔ غرض یہ ہے کہ نعمت سے خبری ہو یا نعمت دینے والے سے دونوں بے خبریاں کفرانِ نعمت یعنی احسان فراموشی ہیں اور صاف سزاؤں کی مستحق ہیں کیونکہ کفرانِ نعمت کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ گناہِ کبیرہ ہے۔


(۲) حالت کے لحاظ سے کفر:

یہ اس طرح ہے کہ عاقل انسان کو اس نعمت کے ملنے پر خوش اور مسرور ہونا چاہیئے جو خدا اسے بخشتا ہے یہ سوچ کر کہ اللہ نے اس پر مہربانی کی اور اسے یاد رکھا اور وہ اس کے مسلسل فضل وکرم کا امیداوار ہے۔ (سورة یونس آیت ۵۸) اب اگر اس کے برعکس وہ اپنے پروردگار سے بدگمان رہے۔ اس کے فضل وکرم سے کوئی امید نہ رکھے یا اس سے خوش نہ ہو بلکہ اس سے بے تعلق اور نا امید ہو جائے تو یہ کیفیت یا حالت خدا کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔


(۳) اعضائے جسم سے کفر:

یعنی عملی کفر اس طرح کہ دل میں گناہ کی نیّت کرے اور زبان سے شکایت اور بُرائی کرے یعنی نعمتوں کا ذکر اور زبان سے ان کا شکر ادا کرنے کے بجائے سب کو نظر انداز کر دے (سورة الضحٰی آیت ۱۱) اور اپنی آرزوؤں کے پورا نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے خدا کے کاموں کی بُرائی کرے اور خدا کی نعمت کو وہاں صَرف کرے جس کے لیے وہ پیدا نہیں کی گئی اور اپنے اعضاء سے وہ کام لے جس سے خدا نے منع فرمایا ہے اور جو اس کی رحمت سے دُور کرنے والا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) (ایسے گناہ جو نعمتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "انہیں میں ناشکرا پن یعنی کفرانِ نعمت بھی شامل ہے۔" (معانی الاخبار)
پیغمبر اکرم بھی فرماتے ہیں "مومن کے لیے فشار قبر (قبر کا مردے کو بھینچنا) ان نعمتوں کا کفارہ ہوتا ہے جو اس نے ضائع کر دی ہیں۔" (بحار الانوار جلد ۳)
شکر نعمت کے واجب ہونے کے متعلق بہت سی آیتیں اور حدیثیں ملتی ہیں اور شکر کی حقیقت اور اس کی قسموں کی اس قدر تفصیل موجود ہے جس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لیے اصول کافی اور دوسری اخلاقی کتابیں ملاحظہ فرمائیے۔

 


اگر شکر نہ کرے تو انسان جانور سے بھی گھٹیا ہے

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "خاص تعریف اس خدا کے لیے ہے جو اگر اپنے بندوں کو ان نعمتوں کا شکر عطا نہ کرنا نہ بتاتا جو اس نے گاتار اور کھلم کھلا عنایت فرمائی ہیں تو اس میں شک نہیں کہ وہ ان نعمتوں کو لے کر ان کا شکرادا کیے بغیر انہیں اپنے کام میں لے آتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو انسانیت کے دائرے سے نکل کر جنگلی جانوروں اور چوپایوں کی حد میں پہنچ جاتے جیسا کہ قرآن میں خدا فرماتا ہے: کفار حیوانات کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گھٹیا اور گمراہ ہیں۔" (دعائے اوّل صحیفہٴ سجادیہ)
غرض یہ ہے کہ نعمت کا شکر ادا نہ کرنے والا انسان دراصل آدمیت سے ہی خارج ہے پھر ایسے شخص کے متعلق ایمان، صحیح معارف اور نیک اعمال کی بدولت حاصل ہونے والی انسانی سعادتوں اور برکتوں کا تو ذکر ہی کیا ہو سکتا ہے جو اس کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہوں گی۔


واسطوں اور ذریعوں سے انکار (کفران)

چونکہ خدا نے دُنیا کو اپنی حکمت ومصلحت سے دارالاسباب قرار دیا ہے اور اپنے بندوں تک ہر نعمت پہنچانے کا کوئی نہ کوئی واسطہ، سبب یا ذریعہ مقرر فرمایا ہے جس کی بدولت وہ نعمت بندوں تک پہنچتی ہے اس لیے عقل اور شرع کی رو سے واسطوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان کا بھی احسان ماننا چاہیئے البتہ یہ نہیں کہ اس واسطے ہی کو مستقل طور پر اور حقیقت میں اپنا منعم (نعمت بخشنے والا) سمجھے بلکہ اس کا احترام ضرور کرے کیونکہ وہ نعمت کا ذریعہ ہے اور اپنی زبان اور اپنی حالت و کیفیت سے خدا کا شکر ادا کرے کہ فلاں شخص نے مجھے تیری فلاں نعمت پہنچائی ہے۔ یہاں چند روایتوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "بلاشبہ خدا ہر شکرگذار بندے سے پسند فرماتا ہے اور قیامت میں اپنے ایک بندے سے پوچھے گا (دنیا میں) تو نے فلاں شخص کا (جو میری نعمت کا ذریعہ تھا) شکریہ ادا نہیں کیا اس لیے میرا بھی شکر ادا نہیں کیا۔" پھر امام نے فرمایا: "تم میں خدا کا سب سے زیادہ شکر گذار بندہ وہ ہے جو ان لوگوں کو بھی شکریہ ادا کرتا ہے جن کے واسطے سے خدا کی نعمتیں ملتی ہیں۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "حقیقت میں خدا کا شکر ادا کرنا اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ہے جس کے ذریعے سے تمہیں خدا کی نعمت ملی۔" (وسائل الشیعہ)
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو شخص ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا جن کے واسطے سے اسے نعمت الہٰی ملی ہے اس نے گویا خدا کا شکر ہی ادا نہیں کیا۔" (وسائل الشیعہ)
رسول خدا فرماتے ہیں: "قیامت میں بندے کو حساب کتاب کے مقام پر لائیں گے اور خدا حکم دے گا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ تو وہ کہے گا۔ اے پروردگار! مجھے دوزخ میں لے جانے کا حکم کس لیے دیتا ہے جبکہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہا ہوں؟ خدا فرمائے گا: اس لیے کہ میں نے تجھے نعمت بخشی اور تُو نے شکر نہیں کیا۔ وہ کہے گا: اے خدا! تو نے مجھے فلاں نعمت دی تھی تو میں نے یوں شکر کیا، اور فلاں نعمت بخشی تو میں نے یوں شکرگذاری کی۔ اس طرح وہ خدا کی نعمتیں اور اپنی شکرگذاریاں گنائے گا۔ خدا فرمائے گا تُو نے سب کچھ سچ کہا لیکن یہ بات بھی تو ہے کہ میں جن لوگوں کے واسطے سے تجھے نعمتیں بھیجیں تو نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ میں نے جس بندے کو اپنی نعمت عطا فرمائی ہے اس کا شکر اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک کہ وہ اس شخص کا شکریہ ادا نہ کرے جس کے وسیلے سے نعمت اس تک پہنچی ہے۔ (وسائل الشیعہ باب ۸ ص ۵۱۶)
پچھلی گفتگو میں حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی ایک حدیث نقل کی گئی تھی جس میں آپ فرماتے ہیں: "اس شخص پر خدا کی لعنت ہو جس کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اور وہ اس کا شکریہ ادا نہ کرے اور اس کی ناشکری گذاری (احسان فراموشی) کی وجہ سے نیکی کرنے والا پھر دوسروں کے ساتھ بھلائی نہ کرے۔" (۱)


نیکی کے واسطے شکریے کى حقیقت

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: "جب تجھے اپنے مومن بھائی سے کوئی نعمت یا نیکی حاصل ہو تو اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خدا آپ کو جزائے خیر (اچھا صلہ) عطا کرے اور اگر تیرا ذکر اس محفل میں کیا جائے جس میں تو موجود نہ ہو تو کہہ دے کہ خدا انہیں جزائے خیر عطا فرمائے تو نے گویا اس طرح اس کی تلافی کر دی یعنی حساب برابر کر دیا۔"
(وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: "جس نے تمہیں خدا کی قسم دلا کر تم سے کچھ مانگا اور جس سے تمہیں بھلائی اور نعمت ملی اس کی تلافی کر دو یعنی تم بھی اس کی طرح اس کے ساتھ بھلائی کرو اور اگر تمہارے پاس وہ چیز نہ ہو جس سے تم تلافی کر سکتے ہو تو اس کے لیے اس طرح دعا کرو جس سے وہ جان جائے کہ تم نے تلافی کر دی ہے۔" (وسائل الشیعہ۔ مستدرک)
غرض ہر احسان کا بدلہ احسان سے چکانا چاہیئے جیسا کہ خدا سورة رحمن میں فرماتا ہے: "کیا بھلائی کا بدلہ بھی بھلائی کے سوا کچھ ہو سکتا ہے؟" (آیت ۶۰) لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ بھلائی کی ابتداء کرنے والا افضل ہوتا ہے۔
روایتوں میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ اس ظلم کے تحت احسان کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی مومن ہو یا کافر عبادت گذار ہو یا گناہگار غرضیکہ کوئی ہو اور اس نے کیسی ہی بھلائی کی ہو اس کی تلافی کرنا چاہیئے۔


ولایت سب سے اعلیٰ نعمت ہے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی شخص کے بارے میں خدا کی دنیاوی اور آخرت کی، صوری اور معنوی نعمتیں گنی نہیں جا سکتیں جیسا کہ قرآن مجید میں خدا یاد دلاتا ہے: "اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا بھی چاہو تو گن نہیں سکو گے۔" (سورة ابراہیم آیت ۳۴ ) ان نعمتوں میں سے ہر نعمت کی ناشکری، جن معنوں میں ذکر کیا گیا ، گناہِ کبیرہ اور عذاب کی سزاوار ہے۔ لیکن یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ نعمت جتنی اہم اور بڑی اور اس کا اثر جتنا زیادہ ہو گا اس کی ناشکری کی سزا بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی اور اس کا گناہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔
ہر نعمت سے اعلیٰ اور اہم آلِ محمد علیھم السلام کی ولایت ہے (دیکھئے بحار الانوار جلد۷) اور اس نعمت کی ناشکری ہر گناہ سے سخت ہے اور اس کی ناشکری ان کی ولایت کا نہ ماننا یا ان حضرات کو بھول جانا اور یاد نہ کرنا، ان سے محبت نہ رکھنا اور ان کے اقوال اور اوامر ونواہی کے ماننے سے منہ موڑنا غرض ان کے منصب کی پرواہ نہ کرنا اور ان کی ولایت کی نعمت سے فیض حاصل نہ کرنا ہے۔
(۱) دیکھئے وسائل کتاب امر بمعروف جسکے باب ۸ میں اس موضوع پر ۱۶ حدیثیں، باب ۷ میں ۱۱ حدیثیں اور مستدرک میں ۱۴ حدیثیں اور باب ۷ میں ۹ حدیثیں بیان ہوئیں ہیں۔
تفسیر صافی اور برہان وغیرہ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ایمان سے متعلق زیادہ تر آیتوں کا اشارہ ولایت پر ایمان رکھنے سے ہے اور اسی طرح کفر کے موضوع سے متعلق آیتیں زیادہ تر ولایت کے انکار سے متعلق ہیں۔ مثال کے لیے دو ایک آیتوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
خداوندعالم سورة ابراہیم میں فرماتا ہے: "کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے خدا کی نعمت کی ناشکری کی اور اپنی قوم کو جہنم میں جھونک دیا۔" (آیت ۲۴)
یہ بات بہت سی روایتوں میں آئی ہے کہ نعمت معصوم اور پاک اہل بیت علیھم السلام ہیں اور کفر بنی امیہ اور آلِ محمد کے دشمن ہیں۔
خدا سورةتکاثر میں فرماتاہے : "قیامت میں تم سے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"(آیت ۸)
بہت سی روایتوں میں یہ بات ملتی ہے کہ اس بات میں لفظ نعیم (نعمت) سے جس کے بارے میں پوچھا جائے گا آلِ محمد کی ولایت مراد ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نعمت کی اصل اور حقیقت وہی ولایت کی نعمت ہے کیونکہ ہر نعمت کی فیض رسانی اسی پر منحصر ہے۔

 

قرآنی علوم ومعارف سے سرشار عورت جس نے ایمان و تقوی اور فضائل و کمالات کے اعلی مراتب حاصل کئے ہیں اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور توحید کا پیغام نشرکرنے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہے وہ جلیل القدر خاتون خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سارہ ہیں آپ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے تینتیس سو اکسٹھ سال بعد اور پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت سے اٹھائیس سو پچپن سال پہلے عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئیں آپ کے والد ماجد لاہج تھے اور والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خالہ تھیں ۔ آپ نے ابھی زندگی کی چھتیسویں بہار ہی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی شادی حضرت ابراہیم سے ہوگئی اور آپ عمر کے آخری لمحہ تک ان کی مطیع و قرمانبردار رہیں۔ جناب سارہ اپنے زمانے کی مالدار خاتون اور بہت سی زمینوں اور مویشی اور جانوروں کی مالک تھیں مگر شادی کے بعد آپ نے اپنی تمام دولت وثروت حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کردی تاکہ وہ دین کی نشرو اشاعت میں صرف کریں ۔

حناب سارہ نے بچپن سے ہی یہ مشاہدہ کیاتھا کہ ان کے خالہ زاد بھائی ابراہیم ، اگر چہ جہالت و گمراہی سے پر اور بت پرست معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اوران کے ولی و سرپرست آزر خود ایک بت پرست تھے لیکن انہوں نے سن شعور ہی سے باطل خداؤں سے منھ موڑ رکھا تھا اور قوی ومستحکم دلیلوں کے ذریعے سورج ، چاند ستاروں اور ہرطرح کے خداؤں کی خدائی کو باطل قرار دیدیا تھا اور اپنے چچا آزر سے بحث و مناظرہ کرکے انہیں بت پرستی سے منع کیا تھا اس شرک و کفر کے ماحول میں جس چیز نے جناب سارہ کو اپنی طرف جذب کیا وہ انسانی اور توحیدی فضائل و کمالات تھے لہذا آپ نے ہزاروں پریشانی و مشکلات کے باوجود اپنے بھائی لوط کے ہمراہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق اور ان کی پیروی کی ۔

جناب سارہ بے شمار معنوی اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حامل خاتون تھیں اور قضائے الہی پر صبر و تحمل کے ساتھ راضي رہنا ان کی اہم خصوصیت تھی اور خدا پر اعتماد وبھروسہ ، عبادت و ریاضت میں خلوص اس خداپرست خاتون کی دوسری صفتیں تھیں اگر چہ آپ شادی سے پہلے ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں لیکن حضرت ابراہیم سے شادی کے بعد بے پناہ مصائب و آلام برداشت کئے اور اس راہ میں نہایت صبر وتحمل اور خدا پر مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو سر کیا اور اخلاص کے ساتھ عبادت و بندگی میں منزل کمال پر فائز ہوئیں جناب سارہ کے اخلاقی صفات خصوصا مصائب وآلام میں صبر و تحمل ، اپنی تمام دولت و ثروت کو اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرنا پیغمبر اسلام (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو تمام مصیبت و آلام میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہیں، کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ خلوص کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

 "

بے شک خدا پر ایمان ، انسان کے قلب کو قوت وطاقت فراہم کرتا ہے تاکہ انسان مشکلات و پریشانی کے عالم میں حلیم و بردبار رہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرودی میں ڈالاگیا تو اس وقت جناب سارہ موجود تھیں اور آپ کی سلامتی کے لئے بارگاہ پروردگار میں دعائیں کی تھی اور آگ خدا کے حکم سے گلزار ہوگئ اور دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور اس واقعے کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیم ، سارہ اور لوط کو شہر سے باہر نکال دیا اور وہ لوگ شام کی جانب چلے گئے جناب سارہ نے دربدری اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا تا کہ ابراہیم کے ذریعے دین کا پیغام زیادہ عام ہوسکے اور مدتوں شام میں رہے اور اس دوران حضرت ابراہیم لوگوں کو خدا کے دین کی دعوت دیتے رہے۔

ایمان و اخلاق کی پیکر حضرت سارہ عفت و پاکدامنی میں بے نظیر تھیں آپ نہایت جمیل تھیں عام طور پر صاحبان حسن وجمال اپنے فانی حسن پر بہت زیادہ اتراتے ہیں لیکن جناب سارہ ایمان و تقوی کی دولت سے مالا مال ہونے کی بناء پر ہمیشہ پورے حجاب میں رہتی تھیں اور غیر افراد کے ساتھ کبھی بھی نشست و برخواست نہیں کرتی تھیں

جناب سارہ ایثار وقربانی کی پیکر اور عفو و درگذر کرنے والی خاتون تھیں شادی کے چند سال بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں اور حضرت ابراہیم کے یہاں ایک بچے کا وجود ضروری ہے تاکہ نسل رسالت کا سلسلہ جاری رہے توآپ نے اپنی کنیز خاص ہاجرہ کہ جو ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں انہیں حضرت ابراہیم سے شادی کرنے کے لئے آمادہ کیا اور اس طرح پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل جیسا بیٹا عطافرمایا ۔

 

جناب سارہ بہترین شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ہر منزل پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاور و مددگار تھیں یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے ان کے ایثار اور جذبہ قربانی ، صبر و اطمینان اور اعتماد کے نتیجے میں ایسی عمر میں کہ جس میں عورتوں میں بچہ جننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جناب سارہ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور یہ ایک معجزہ الہی تھا ورنہ علمی اعتبار سے بھی اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا کہ ایک عورت نوے سال کی عمر میں ماں بن سکتی ہے ۔

حضرت ابراہیم اور جناب سارہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے جناب سارہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ تمام نیک امور بالخصوص مہمان نوازی میں حضرت ابراہیم کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک دن حضرت ابراہیم اور سارہ کے یہاں مہمان آئے لیکن یہ عام مہمان نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے مہمان ہوئے تھے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورا ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لئے اسباب فراہم کئے اور بہترین بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت لائے سارہ نے بھی کھانا تیار کرنے میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور خوشی خوشی مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن مہمانوں کا ابراہیم کے گھر آنے کا مقصد ، انہیں بشارت و خوشخبری سنانا تھا ۔

وہ لوگ بڑھاپے کے عالم میں خداوند عالم کے فضل وکرم سے صاحب اولاد ہوئے ایسا فرزند جس کا سارہ مدتوں سے انتظار کررہی تھیں اور اس طرح فرشتوں نے جناب سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی خوشخبری سنائی سارہ نے جیسے ہی ماں بننے کی خبر سنی تو کہا : ” اب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تمہارے گھر والوں پر ہے وہ قابل حمد اور صاحب مجد و کرامت ہے ۔

 

اور پھر پروردگار عالم نے حضرت سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی شکل میں عطا فرمایا حضرت اسحاق جناب یعقوب علیہ السلام کے والد ماجد ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل ، حضرت موسی ، داؤد ، سلیمان ، زکریا ، عیسی، یحیی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جد امجد ہیں ۔

دین اسلام نے جنسیت کو لوگوں کی عظمت و برتری شمار نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں اور مردوں کے لئے خدا سے قربت کا بہترین ذریعہ تقوی اور پرہیزگاری کو قرار دیا ہے ۔ دین اسلام کی نظر میں مومن انسان اپنے نیک اعمال اور فضائل و کمالات کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کرتاہے اسی لئے پروردگار عالم نے انسان کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ، روئے زمین پر اپنا جانشین وخلیفہ بنانے کا مستحق و سزاوار قراردیا ہے ۔

جناب سارہ نے بھی بے انتہا کوشش و محنت کرکے آرام و سائش سے دوری اور مادیت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور خدا کی عبادت وبندگی میں اس درجہ کمال پر پہنچ چکی تھیں کہ پروردگارعالم نے ان کے عزت واحترام اور تعظیم کے لئے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے خطاب کیا بالآخر عظمت و رفعت کی پیکراور توحید پروردگار کی حامی جناب سارہ اپنی بابرکت ودرخشاں زندگی اور حضرت ابراہیم کی رسالت وولایت کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر میں راہی ملک ارم ہوگئیں۔

سلام ہو اس حامی خدا اور خلیل خدا پر ۔

نیشابورشہرسے 24 کلومیٹر کے فاصلے پرمشہد ـ نیشابور ہائی وے کے قریب مولا امام رضا علیہ السلام سے منسوب قدمگاہ شریف ہے۔[1]

قدمگاہ مولا امام رضا علیہ السلام، زائرین امام ہشتم ع کےعلاوہ عام سیاحوں کےلئے بھی نہایت پرکشش اور جاذب نظرمقام ہے، قدمگاہ کی جذابیت صرف مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے آس پاس کے نہایت خوبصورت اور قابل دید طبیعی نظارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قدمگاہ کے ساتھ ایک خوبصورت باغ بھی ہے جس میں انتہائی قدیمی بلند و بالا درخت موجود ہیں۔

ایرانی بادشاہ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں قدمگاہ میں موجود باغ کی توسیع کی گئی اور 1971 کو باقاعدہ طور پر اسے ایرانی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔[2]

باغ کی خصوصی حفاظت کی جاتی ہے اس کی ایک وجہ اس میں موجود بعض دیگر صفوی دور کے تاریخی یادگاروں کا موجود ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے قدمگاہ کی عمارت کے ساتھ کچھ اور عمارتیں بھی تعمیر کی گئی تھیں ان میں سے ایک میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جبکہ ایک عمارت میں مسافروں کو جگہ دی جاتی تھی، جبکہ تیسری عمارت ایسی تھی کہ جس میں مویشی رکھے جاتے تھے۔

قدمگاہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو خود تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور اس گاؤں میں ایک پرانے قلعے کے آثار پائے جاتے ہیں۔

قدمگاہ در اصل امام رضا علیہ السلام کی ایک عظیم یاد گارہے، اس قدمگاہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں ایک نہایت خوبصورت صاف شفاف پانی کا چشمہ بھی موجود ہے اور روایات کے رو سے یہ چشمہ، امام رضا علیہ السلام کے حکم سے ہی جاری ہوا ہےاور یوں یہ امام ہشتم علیہ السلام کے معجزات اور کرامات میں سے ایک ہے۔[3]

 

قدمگاہ میں 53 سینٹی میٹر سیاہ رنگ کا ایک پتھر موجود ہے جس میں دو قدموں کے نشانات پائے جاتےہیں اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکرحضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی اورعاشقان امام نے قدموں کے نشان والے پتھرکو محفوظ کرلیا تھا۔[4] جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ عاشقان امام رضا علیہ السلام نے اسے ایک یادگار کے طور پر بنایا ہے۔[5]

قدمگاہ کی تاریخی حیثیت

قدمگاہ تاریخی اعتبارسے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت نیشابور ایران کے ایک پررونق اور آباد شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا، جب امام ہشتم نیشابور پہنچے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا بعض روایات میں استقتبال کرنے والوں کی تعداد، ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔[6]

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا(ع)، نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:‌ فرزند رسول ص ہمارے لئے کوئی حدیث بیان بیان فرمائیں، امام(ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفر(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّد(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالب(ع) سے؛ انہوں نے رسول خدا(ص) سے آپ(ص) نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: “اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.[7]

 

(ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: کلمہ “لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا](ع) نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔

چونکہ اس حدیث شریف کے سارے راوی معصوم ہیں اس لئے اسے سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے، اور اس حدیث کو اس مقام پر ایک ساتھ بیس ہزار سے زائد افراد نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے بنفس نفیس سن کرقلم بند کیا ہے۔[8]

قدمگاہ کیسے جائیں؟

قدمگاہ تاریخی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کریں تو قدمگاہ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہونے کی کوشش کیجئے۔

اگرآپ خود نیشابور شہر سے قدمگاہ کی زیارت پر جانا چاہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شہر سے قدمگاہ کی طرف عام طور پر ٹیکسی سروس موجود ہے جو بہ آسانی دستیاب ہے۔

مشہد مقدس سے اگر آپ جانا چاہیں تو ریل گاڑی، بس اور ٹیکسی کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔