سلیمانی
اسلام میں عورت اور مرد کے مساوی حقوق
اسلام نے عورت کو مرد کے برابر حقوق چودہ سو سال قبل اس وقت دئیے تھے۔ جب عورت کے حقوق کا تصور ابھی دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا نھیں ھوا تھا۔
عورت اور مرد کی مساوات کا نظریہ دنیا میں سب سے پھلے اسلام نے پیش کیا اور اس طرح عورت کو مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ھوئی تھی اس مساوات کی بنیاد قرآن مجید کی اس تعلیم پر ہے جس میں فرمایا گیا کہ
" تم (مرد ) ان کے (عورت ) کے لئے لباس ھو اور وہ تمھارے لئے لباس ہیں"۔
اس طرح گویا مختصر ترین الفاظ اور نھایت بلیغ انداز میں عورت اور مرد کی رفاقت کو تمدن کی بنیاد قرار دیا گیا اور انھیں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر بتاتے ھوئے عورت کو بھی تمدنی طور پر وھی مقام دیا گیا ہے جو مرد کو حاصل ہے اس کے بعد نبی کریم(ص) نے حجتہ الودع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ۔
"عورتوں کے معاملہ میں خدا سے ڈرو تمھارا عورتوں پر حق ہے اور عورتوں کا تم پر حق ہے"۔
یھاں بھی عورت کو مرد کے برابر اھمیت دی گئی ہے اور عورتوں پر مردوں کی کسی قسم کی برتری کا ذکر نھیں ہے اس طرح تمدنی حیثیت سے عورت اور مرد دونوں اسلام کی نظر میں برابر ہیں۔ اور دونوں کو یکساں اھمیت حاصل ہے۔
یہ تعلیمات اس کائناتی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ھر شے ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے۔ اور اس طرح سب کو یکساں اھمیت حاصل ھوتی ہے۔
لیکن ساتھ ھی اس بات سے بھی انکار نھیں کیا جا سکتا کہ دنیا کا کوئی بھی تعلق ھو اس میں ایک فریق کو کچھ نہ کچھ غلبہ حاصل ھوتا ہے یہ ایک فطری اصول ہے۔ اور اسی بناء پر چند چیزوں میں مرد کو عورت پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔
اس کی وجہ حیاتیاتی اور عضویاتی فرق بھی ہے اور فطرت کے لحاظ سے حقوق و مصالح کی رعایت بھی ہے اسی لئے قرآن نے مرد کو عورت پر نگران اور"قوامیت " کی فوقیت دی ہے۔
مگر دوسری جانب اسلام نے ھی عورت کو یہ عظمت بخشی ہے کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے بتایا ہے گویا کچھ باتوں میں اگر مرد کو فوقیت حاصل ہے تو تخلیقی فرائض میں عورت کو بھی فوقیت حاصل ہے۔ فرق صرف اپنے اپنے دائرہ کار کا ہے۔
یھی وہ تعلیمات ہیں جنھوں نے دنیا کی ان عظیم خواتین کو جنم دیا کہ زندگی کے ھر میدان میں ان کے روشن کارنامے تاریخ اسلام کا قابلِ فخر حصہ ہیں۔
اسلام میں نظریہ مھدویت
مھدی موعود (عج) کا عقیدہ تمام مذاھب اسلامی کے نزدیک مسلم ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول متواتر احادیث ہیں جن کے مطابق قیامت سے پھلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ایک فرد قیام کرے گاو جو آپ کا ھم نام ھوگا اور اس کا لقب مھدی ھوگا اور جو اسلامی قوانین کے مطابق عالمی سطح پر عدل و انصاف کی حکومت قائم کریں گے۔{یملاء الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجورا} “آپ (عج) زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ھوچکی ھوگی۔”
شیعہ امامیہ عقائد کے مطابق مہدی موعود (عج) ان کے بارھویں امام ہیں، جو 15 شعبان 255 ھ ق کو سامراء میں پیدا ھوئے۔ آپ (عج) نے پانچ سال تک اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ زندگی بسر کی اور 260 ھ ق میں اپنے والد بزرگوار کی شھادت کے بعد لوگوں کی نظروں سے غائب ھوگئے اور سال 329 ھ ق تک آپ (عج) کی طرف سے چار وکیل اور نائب شیعوں کے مسائل حل کرتے رھے۔ اس عرصے کو غیبت صغریٰ کھا جاتا ہے۔
اس کے بعد غیبت کبریٰ کا مرحلہ شروع ھوا اور اس عرصے میں شیعوں کے مسائل کے حل و فصل کی ذمہ داری آپ (عج) کی طرف سے شیعہ عادل فقھاء کے سپرد ھوگئی۔ پس آپ (عج) کی ولادت باسعادت ھوئی، آپ (عج) اس دنیا میں تشریف لائے اور آج تک زندہ ہیں، لیکن آپ (عج) لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں۔
امام مھدی (عج) کی ولادت باسعادت کا عقیدہ صرف اھل تشیع حضرات ھی نھیں رکھتے بلکہ اھل سنت کے بھت سے مشھور علماء نے بھی اپنی کتابوں میں آپ (عج) کی ولادت باسعادت سے متعلق تفصیلات تحریر فرمائی ہیں، جیسے: ابن حجر ھیثمی (الصواعق المحرقہ)، سید جمال الدین (روضۃ الاحباب)، ابن صباغ مالکی (الفصول المھمۃ)،سبط ابن جوزی (تذکرۃ الخواص)، عبدالرحمن جامی حنفی (شواھد النبوۃ)، حافظ ابو عبداللہ گنجی شافعی (البیان فی اخبار صاحب الزمان) اور (کفایۃ الطالب فی مناقب امیر المومنین{ع})، ابوبکر بیھقی (شعب الایمان)، کمال الدین محمد بن طلحۃ شافعی (مطالب السووٴل فی مناقب آل الرسول)، حافظ ابو محمد البلاذری (الحدیث المتسلسل) ابو محمد عبداللہ بن الخشاب (تاریخ موالید الائمۃ و و فیاتھم)، شیخ محی الدین بن عربی (الفتوحات المکیۃ)، شیخ عبدالوھاب شعرانی (الیواقیت و الجواھر)، حافظ محمد بخاری حنفی (فصل الخطاب)، حافظ ابو الفتح محمد بن ابی الفوارس (الاربعین)، عبد الحق دھلوی (مناقب و احوال الائمۃ)، حافظ سلیمان قندوزی حنفی (ینابیع المودۃ)، عبداللہ بن محمد المطیری (الریاض الزاھرۃ)، ابوالمعالی سراج الدین الرفاعی (صاح الاخبار فی نسب السادۃ الفاطمیۃ الاخیار)، محمد بن خاوند شاہ (روضۃ الصفا) وغیرہ۔ علاوہ ازیں کتاب منتخب الاثر میں بھت سارے علماء کا نام، جن کی تعداد ساٹھ سے بھی زیادہ ہے ذکر ھوا ہے۔
البتہ اھلسنت کے نزدیک مشھور قول یہ ہے کہ آپ (عج) کی ولادت ابھی تک نھیں ھوئی ہے۔ آپ (عج) کی ولادت آخر الزمان میں ھوگی اور آپ (عج) اس وقت قیام فرمائیں گے، لیکن اھل تشیع نے آپ (عج) کی ولادت باسعادت اور آپ (عج) کی حیات پر عقلی و نقلی دلائل پیش کئے ہیں۔
بعض محققین کی تحقیق کے مطابق مھدی موعود (عج) کے بارے میں اھل سنت کے 60 سے زیادہ معتبر منابع، جن میں صحاح ستۃ بھی شامل ہیں، نیز اھل تشیع کی کتب اربعہ سمیت 90 سے زیادہ معتبر منابع میں احادیث بیان ھوئی ہیں۔ مسلمانوں نے اس مسئلے کی اھمیت کے پیش نظر اسے نہ فقط حدیثی اور کلامی کتابوں میں ذکر کیا ہے، بلکہ اس موضوع پر جداگانہ کتابیں بھی لکھی ہے۔
محمد بن اسحاق بن ابراھیم کوفی (متوفی 275ھ)، پھلا شخص ہے، جس نے پھلی مرتبہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب (صاحب الزمان) کے عنوان سے لکھی۔ مھدی موعود (عج) کےبارے میں موجود احادیث اس حد تک قطعی ہیں کہ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار بھی (جو عام طور پر اھل تشیع کے عقائد کو باطل قرار دیتے ہیں) ان احادیث کے صحیح ھونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ ابن تیمیہ نے مسند احمد، صحیح ترمذی اور سنن ابو داوو سے استناد کرتے ھوئے مھدی موعود (عج) کے بارے میں نقل شدہ احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابن خلدون ان احادیث کے بارے میں اعتراض کرتے ھوئے لکھتے ہیں: ان میں سے بعض احادیث کے علاوہ تمام احادیث قابل مناقشہ ہیں۔
اسلامی محققین (شیعہ و سنی) نے ابن خلدون کے کلام پر اعتراض کرتے ھوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اھل سنت کے محقق ڈاکٹر عبد الباقی لکھتے ہیں: مھدی موعود (عج) کے بارے میں تقریباً اسی (۸۰) روایتوں پر مشتمل ایک عظیم مجموعہ موجود ہے، جن کے راویوں کی تعداد ھزاروں تک پھنچ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں صحاح و مسانید کے مصنفین نے بھی ان احادیث کو ذکر کیا ہے۔ بنابریں کیا اس عظیم مجموعے کو باطل قرار دے سکتے ہیں؟ اگر ان احادیث کے بارے میں شک کرنا صحیح ھو تو تمام روایات شک کے دائرے میں ھوں گی، جس کے نتیجے میں سنت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حرف آجائے گا، جبکہ علمائے سلف کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسئلے پر خدشہ وارد نھیں کیا، بلکہ گذشہ علماء اس مسئلہ کی تفسیر اور تحلیل کیا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں ابن خلدون نے بھت سارے اعتراضات کرنے کے بعد ان احادیث میں سے بعض کے صحیح ھونے کا اقرار بھی کیا ہے۔ واضح ہے کہ اس عقیدے کے بارے میں اگر ایک حدیث بھی موجود ھو، تب بھی اسے چھوڑ نھیں سکتے، بلکہ اسے قبول کرتے ھوئے دوسری متواتر احادیث کو اس کے لئے موٴید قرار دینا چاھیے، اگرچہ یہ احادیث سند کے اعتبار سے کامل نہ بھی ھوں۔
ابن خلدون کے کلام سے بھی زیادہ مضحکہ خیز احمد امین کا کلام ہے، جو نہ فقط مھدی موعود (عج) سے مربوط احادیث کی نفی کرتا ہے، بلکہ کھتا ہے کہ شیعوں نے گھڑا ہے۔ اس کے خیال کے مطابق شیعوں نے بنی امیہ کے عکس العمل میں (کیونکہ انھوں نے عثمان اور دوسرے اصحاب کے فضائل میں احادیث گھڑ لی تھیں) بھت ساری احادیث حضرت علی علیہ السلام کے فضائل اور مھدی موعود کے بارے میں گھڑ لی ہیں، لیکن چونکہ یہ روایات علمائے اسلام کے نزدیک مورد قبول تھیں، اس لئے انھوں نے بھی ان جعلی احادیث کو قبول کر لیا ہے۔ (احمد امین کے اس من گھڑت کلام کا جواب)، پھلی بات یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل صرف اھل تشیع کی کتابوں میں موجود نھیں ہیں، بلکہ آپ کے وہ تمام فضائل جو شیعہ کتب میں موجود ہیں، اھل سنت کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
بنابریں اھل تشیع کو کیا ضرورت تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں احادیث جعل کریں۔ دوسری بات یہ کہ شیعہ بنی امیہ کی حکومت کے زمانے میں بدترین اجتماعی و سیاسی شرائط کے حامل تھے، یھاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام کے مسلم فضائل کو بھی نقل نھیں کرسکتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شیعہ کس طرح بنی امیہ کے ردعمل میں احادیث جعل کرسکتے ہیں۔۔ تیسری بات یہ کہ اھل سنت کے محدثین اور مولفین نے کس طرح شیعوں سے مھدی موعود (عج) کے بارے میں جعلی احادیث قبول کیں، حالانکہ ان کے نزدیک کسی روایت کے ضعیف ھونے کے لئے کافی ہے کہ اس کا روای شیعہ ھو۔
مھدی موعود (عج) کے نسب کے بارے میں متعدد روایات نقل ھوئی ہیں، جن میں حسب ذیل نکات کی تاکید ھوئی ہے:
1۔ مھدی موعود امت اسلامی سے ہیں، یہ مطلب بعض روایات میں خاص طریقے سے بیان ھوا ہے۔ علاوہ ازیں آپ (عج) کے نسب کے بارے میں موجود احادیث سے بھی یہ مطلب ثابت ھو جاتا ہے۔ بنابریں مھدی موعود (عج) کے امت اسلامی سے ھونے میں کوئی شک و تردید نھیں ہے۔ البتہ صرف ایک روایت اس طرح سے نقل ھوئی ہے (لا مهدی الا عیسی بن مریم) عیسٰی بن مریم کے علاوہ کوئی اور مھدی نھیں ہے۔ اسلامی محدثین نے اس حدیث کو یا جعلی قرار دیا ہے یا دوسری متواتر روایات کے ساتھ مطابقت نہ رکھنے کی بنا پر اسے غیر معتبر قرار دیا ہے یا اس حدیث کی تاویل کی ہے۔
2۔ مھدی موعود (عج) اھلبیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہیں۔ اس سلسلے میں 389 احادیث موجود ہیں۔
3۔ مھدی موعود (عج) حضرت علی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 214 احادیث موجود ہیں۔
4۔ مھدی موعود (عج) حضرت فاطمہ علیھا السلام کی اولاد میں سے ہیں، اس سلسلے میں 192 احادیث موجود ہیں۔
5۔ مھدی موعود (عج) امام حسین علیہ السلام کی نسل سے نویں فرزند ہیں۔ اس سلسلے میں 148 احادیث موجود ہیں۔
6۔ مھدی موعود (عج) امام حسن عسکری علیہ السلام کی اولاد میں سے ہین، اس سلسلے میں 146 احادیث موجود ہیں۔
مھدی موعود (عج) کے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کی اولاد ھونے میں شیعہ اور اھل سنت کے درمیان کوئی اختلاف نھیں ہے، لیکن آپ (عج) کے امام حسن علیہ السلام کی اولاد ھونے یا امام حسین علیہ السلام کی اولاد ھونے کے بارے میں دو نظریے موجود ہیں۔
اھل تشیع اس بات پر متفق ہیں کہ آپ (عج) امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نظریہ اھلسنت کے یھاں بھی مشھور ہے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آپ (عج) امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق آپ (عج) امام حسن اور امام حسین علیھم السلام دونوں کے فرزند ہیں۔ مھدی موعود (عج) کے امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کی طرف نسبت قابل توجیہ ہے، یعنی آپ (عج) کا نسب باپ کی طرف سے امام حسین علیہ السلام اور ماں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام پر ختم ھوتا ہے، کیونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کی مادر گرامی جناب فاطمہ امام حسن مجتبٰی علیہ السلام کی بیٹی تھیں۔
بنابریں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے بعد امام زمانہ (عج) تک تمام ائمہ اھلبیت علیھم السلام امام حسن علیہ السلام کی نسل سے بھی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی نسل سے بھی۔
لھذا امام مھدی (عج) حسینی بھی ہیں اور حسنی بھی۔ لیکن جن روایات میں آپ (عج) کے نسب کو صرف حسنی قرار دیا گیا ہے، وہ قابل استناد نھیں ہیں، کیونکہ ابو داود سے جو روایت نقل ھوئی ہے، اس میں آپ (عج) کو امام حسن علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، جبکہ ترمذی، نسائی اور بیھقی سے جو روایت نقل ھوئی ہیں، اس میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔
بنابریں ابو داود کی نقل میں سھواً کلمہ (حسین) کی جگہ پر (حسن) لکھے جانے کا احتمال موجود ہے، کیونکہ ان روایتوں کی تعداد جن میں آپ (عج) کو امام حسین علیہ السلام کا فرزند قرار دیا گیا ہے، بھت ھی زیادہ ہیں اور سند کے لحاظ سے بھی یہ روایات دوسری روایات کی نسبت صحیح تر ہیں۔
بنابریں ان تمام روایات کو چھوڑ کر مذکورہ حدیث {جس میں جناب عیسٰی (ع) کو مھدی موعود قرار دیا گیا ہے} پر استناد نھیں کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: محمد لطیف مطھری کچوروی
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا ایک حصہ یمن سے متعلق ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا ایک حصہ یمن کے امور سے متعلق ہے۔
انھوں نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات ابھی تک بند دروازوں کے پیچھے ہورہے ہیں مذاکرات کو آشکار نہیں کیا گيا ۔ مذاکرات کے چار دور عراق کے دارالحکومت بغداد میں منعقد ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ کسی وقفہ کے بغیر جاری ہے۔ مذاکرات دو طرفہ ، علاقائي اور عالمی امور پر مشتمل ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صوبہ خراسان کے گورنر کے دورہ افغانستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے افغانستان کے ساتھ عوامی اور تجارتی سطح پر اچھے روابط ہیں۔ خطیب زادہ نے کہا کہ طالبان سمیت افغانستان کے تمام سیاسی گروہوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں ۔ ہم افغانستان میں امن و صلح کے خواہاں ہیں اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جو افغان عوام کے ارادوں پر مشتمل اور وسیع البنیاد ہو۔
خطیب زادہ نے ایران کے نائب وزير خارجہ علی باقری کے دورہ پاکستان کے بارے میں مہر نیوز کے نامہ نگار کے سوال کا جواب دیتے ہوئےکہا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ پاکستان کے نائب وزیرخارجہ کی دعوت پر انجام پذير ہوا اور علی باقری نے ایران اور پاکستان کے گیارہویں مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس سفر میں افغانستان کی تازہ ترین صورتحال ،دو طرفہ تعلقات کو مضبو ط بنانے اور علاقائي مسائل کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا گيا۔
خطیب زادہ نے قندوز میں دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےکہا کہ افغان میں امن و سکیورٹی کی ذمہ داری طالبان کے دوش پر ہے اور ایران نے بارہا اس بات پر تاکید کی ہے کہ ہم ایسے افغانستان کے خواہاں ہیں جہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا کوئی وجود نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ افغان عوام دہشت گرد اور قتل و غارت سے تنگ آچکے ہیں اور افغان عوام ہمہ گیر اور جامع حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں جس میں تمام افغان گروہ شامل ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ایرانی پہلوانوں کو کامیابی اور عوام کا دل شاد کرنے پر شاباش
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ناروے کے شہر اوسلومیں فرنگی کشتی کے عالمی مقابلوں میں ایرانی پہلوانوں کی شاندار کامیابی نیز عوام اور خاص طور پر جوانوں کا دل شاد کرنے پر انھیں مبارکباد اور شاد باش پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں فرمایا: آپ کو اور آپ کے کوچ کو شاباش اور مبارکباد ہو ۔ آپ نے عوام اور خاص طور پر جوانوں کے دل کو شاد کیا ہے۔ ان شااللہ ، آپ ہمیشہ کامیاب رہیں ۔
پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے پاکستان کے معروف سائنسداں ڈاکٹر عبدالقدیر کو اسلام آباد کے ایچ ایٹ قبرستان میں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا آج صبح 85 برس کی عمر میں انتقال ہوگيا ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نماز جنازہ اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے پڑھائی ، ڈاکٹر عبدالقدیر کی نماز جنازہ کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، نماز جنازہ کے دوران بارش بھی ہوتی رہی۔ نمازِ جنازہ میں قائم مقام صدر سینیٹر صادق سنجرانی اور وفاقی وزراء سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔
امریکہ افغان عوام کے خلاف ہونے و الے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئيسی نے افغانستان میں جمعہ کی نماز کے دوران مسجد پر داعش دہشت گرد تنظیم کے مجرمانہ ، بہیمانہ اور دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دشمن افغانستان میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہا ہے افغانستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے خانہ خدا میں عبادت اور بندگی میں مشغول نمازیوں پر دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افغان قوم اور عالم بشریت کو تعزيت اور تسلیت پیش کی ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکہ داعش دہشت گرد تنظیم کی بھر پور حمایت کررہا ہے امریکہ داعش کے ذریعہ افغانستان میں مذہبی اور قومی فسادات پیدا کرنے کی سازش میں مشغول ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ افغان قوم کو امریکہ کے معاندانہ اقدامات اور سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
افغان حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان کے صوبہ قندوزمیں مسجد پر حملے کی مذمت اور متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: افغانستان کے حکام کو قندوز کے دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے افغانستان کے صوبۂ قندوز کے علاقہ سید آباد کی ایک مسجد میں بم دھماکے اور بڑی تعداد میں نمازیوں کی موت کے دلخراش سانحے پر اپنے ایک پیغام میں فرمایا: اس دردناک اور دلخراش واقعہ میں ملوث مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ہمیں اس المناک واقعہ پر سخت صدمہ پہنچا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان کے حکام سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس بھیانک جرم کا ارتکاب کرنے والے خونخوار افراد کو قرار واقعی سزا دیں گے اور ضروری تدابیر اختیار کر کے مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کریں گے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اس سانحے کے شہداء پر رحمت و مغفرت نازل فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے، زخمیوں کو جلد از جلد شفاء عطا کرے اور پسماندگان صبر و سکون اور استقامت عطا فرمائے۔
داعش دہشت گرد تنظیم نے قندوز میں شیعہ مسجد پر بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی
مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ افغانستان میں سرگرم وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں شیعہ مسجد پر نماز جمعہ کے دوران دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے صوبہ قندوز کے علاقہ سید آباد میں نماز جمعہ کے دوران حملے کے نتیجے میں 20 نمازی شہید اور 30 زخمی ہوگئے لیکن تکمیلی اطلاعات کے مطابق داعش دہشت گردوں کے مجرمانہ اور بہیمانہ حملے میں 100 نمازی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔ الجزیرہ اور آوا کے مطابق داعش دہشت گردوں کے حملے ميں 60 نمازی شہید ہوئے ہیں ۔ ایکس پریس کے مطابق شہداء کی تعداد 100 تک پہنچ گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 250 کے قریب ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب سے منسلک وہابی دہشت گرد تنظیم داعش نے مسجد پرنماز جمعہ کے دوران مجرمانہ اور بہیمانہ حملے کی ذمہ داری قول کرلی ہے۔ داعش دہشت گرد تنظیم اس سے قبل طالبان پر بھی حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے۔
صلح امام حسن علیہ السّلام کے اسباب واثرات*
علمی اور دینی حوزات کی ترویج میں امام رضا (ع) کا کردار
علم و دین کی قدامت اور ان کے درمیان ربط و تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ اس کے منابع اور مبادی پرانے ہیں اور ان کے درمیان تناسب یا عدم تناسب کی بحث بھی بہت ہی پرانی ہے- اس سلسلے میں مختلف مکاتب نے مختلف نظریات بھی پیش کئے ہیں اور مغربی دنیا میں اس سلسلے میں کافی وسیع بحث ہوئے ہوئے اور ہر کسی نے کسی ایک رجحان کی پیروی کی ہے-البتہ یہ مسئلہ ان معاشروں سے تعلق رکھتا ہے جو علم اور دین کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ سیکولر اور لادین معاشروں میں دین کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کو علم اور سائنس وغیرہ کے مقابل لانے یا اس کے ساتھ جوڑنے کا کوئی امکان نہیں ہے- نیز اگر کوئی معاشرہ بالفرض سائنس کے لئے کسی منزلت کا قائل نہ ہو وہاں بھی اس مسئلے پر بحث بےجا ہوگی کیونکہ ایسے معاشرے میں علم و سائنس کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ دین کے مقابل یا اس کے ہمراہ بحث کا موضوع قرار دیا جائے اور ان معاشروں میں سائنس کو دین کے بارے میں بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی-پس اس بحث کا تعلق ان معاشروں سے ہے جنہوں نے دین اور علم کی منزلت تسلیم کی ہو- بہرحال یہ امر مسلم ہے کہ علم و دین کی بحث ہر دور میں انسان کے ذہنی مشاغل میں اہمیت کے حامل تھے- اور اس بحث کو ہر دور میں ہر اس معاشرے میں شروع کیا جاسکتا ہے جو ان دو کے مقام و منزلت کو تسلیم کرتا ہو-علم و دین کی حالت کا مسئلہ جن ادوار میں قابل بحث ہے ان ہی ادوار میں ایک امام رضا (ع) کا دور ہے-ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ امام رضا (ع) کے دور میں علم کی کیا حالت تھی اور امام (ع) کا موقف اس حوالے سے کیا تھا؟ تا کہ علم و دین کے درمیان ربط کی عالمانہ اور محققانہ نظریئے تک پہنچ سکین-
عصر رضوی میں علم کا حال:
مورخین امام رضا (ع) کے دور کو علمی بالیدگی اور روئیدگی و بڑھوتری اور اسلامی تہذیب کی عالمگیریت کے حوالے سے سنہرے دور سمجھتے ہیں- اور اور اسلامی ادوار میں ایک تابناک اور سب سے حیرت انگیز دور قرار دیتے ہیں- اس دور میں مسلمانوں کی علمی اور سائنسی پبشرفت نے کرہ خاکی پر اپنا تسلط جمالیا تھا- مختلف شعبوں میں علمی و سائنسی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا تھا اور اس تاریخی دور میں اسلامی تہذیب کی ترقی اور فروغ نقطہ عروج تک پہنچا- اس عصر میں فروغ یافتہ علمی اور ثقافتی مظاہر اور نشانیان ہمیں مسلمانوں کی علمی حالت کے بارے میں بہتر انداز سے اس دور کے مسلمانوں کی علمی پوزیشن سے آگہی میں مدد پہنچاتی ہیں- اور ہم یہاں بعض مظاہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں-علمی نشستوں کا انعقاد، ان نشستوں کے عوامل میں اضافہ اور رکاوٹوں میں کمی کا اہتمام کیا جاتا تھا تا کہ اہل نظر آسانی اور آزادی سے تحقیق و مطالعہ کرسکیں- مختلف شعبوں میں علمی حلقے تشکیل دیئے جاتے تھے اور مختلف علمی موضوعات پر بحث ہوتی تھے- اسلامی دنیا کے مختلف علاقوں میں متعدد کتب خانوں کی بنیاد رکھی گئی؛ مسلم علماء کے لئے تحقیق اور تحصیل علم کے بھرپور مواقع فراہم کئے گئے اور اسلامی علماء اور دانشوروں کو اسلامی مملکت میں اکٹھا کیا گیا-حکومت نے تقریباً تیس بڑے اور اونچی سطح کے مدارس قائم کئے تھے جن میں مدرسہ نظامیہ سب سے زیادہ مشہور ہوا- ان مدارس میں عمومی کتب خانے قائم کئے گئے جن میں سب سے مشہور کتب خانہ دارالحکمہ تھا- (1)
تحریک ترجمہ:
امام رضا (ع) کے دور کی علمی تحریکوں میں سے ایک اہم تحریک - جس نے مسلمانوں کے علمی ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا - بیرونی زبانوں میں موجود کتابوں کی عربی زبان میں تراجم سے عبارت تھے- طب، ریاضیات، فلسفہ، سیاسی علوم Political Science ، علم نجوم Astrology وغیرہ جیسے درآمد شدہ علوم میں تحقیق نے علمی تحقیقات کے جذبے کو تقویت پہنچائے-"ابن ندیم" اپنی کتاب الفہرست میں کئی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور خاص طور پر تحریک ترجمہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مامون نے روم کے بادشاہ کے نام اپنے مراسلوں کے ضمن میں ان سے درخواست کی تھی کہ خیرسگالی اور تعاون کے عنوان سے اپنے گوداموں میں ذخیرہ ہونے والی کتابوں کو بغداد بھیجنے کی اجازت دے دیں؛ روم کے بادشاہ نے ابتدا میں ممانعت کی مگر آخر الامر اس درخواست کا مثبت جواب دیا اور مامون نے حجاج بن مطر، ابن بطریق اور دارالحکمہ کی سرپرست «سلم» کو کئی دیگر ماہرین کے ہمراہ روم روانہ کیا اور انہوں نے وہ تمام کتابین دارالحکمہ میں منتقل کردیں-(2) ان کتابوں کے تراجم نے مسلمانوں کے علمی حلقوں کی بڑی مدد کی؛ تمام اسلامی ممالک میں نئے علمی آراء ظہور پذیر ہوئے اور تنقید اور جائزوں کو وسعت ملی؛ اسلامی معاشرے کے علمی ارتقاء میں ان تراجم نے اہم کردار ادا کیا- اگرچہ ان کتابوں کے بعض موضوعات و مباحث - جو اسلامی افکار و عقائد سے متصادم تھے اور ان میں الحادیات کا شائبہ تھا جو - عالم اسلام کے علمی حلقوں کے افکار میں اعتقادی مسائل کا باعث بنے-
رصدگاہ (Observatory) (ستاروں کی حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لئے مناسب مقام) کی تعمیر اور علمی نقشہ جات کی ترسیم:
اس دور کے علمی مظاہر میں سے «عالمی نقشہ جات» کی ترسیم و تیاری اور رصدگاہوں کی تعمیر جیسے کا اقدامات بھی تھے- مامون نے حکم دیا تھا کہ پوری دنیا کا نقشہ تیار کیا جائے اور اس حکم کی تعمیل ہوئی- اور اس نقشے کو «نقشہ مامون» (یا صور المامونیہ) کا نام دیا گیا- اور یہ پہلا عالمی نقشہ تھا جو عباسیوں کے دور میں رسم کیا گیا-اسی طرح مامون نے ہی رصدخانے کی تعمیر کا بھی حکم دیا جو بغداد کے ایک محلے میں تعمیر ہوا جس کا نام شمسائیہ رکھا گیا-(3)امام رضا (ع) کے زمانے مرسوم علوم و فنون اور ان کی طرف مفکرین کی توجہ بھی ہمارے لئے امام رضا (ع) کے دور کی علمی حالت اور اس زمانے کے لوگوں کے علمی شغف کے ادراک میں ممدّ و معاون ثابت ثابت ہوسکتی ہے:اس زمانے میں علم تفسیر علوم مرسومہ میں سے ایک تھا جو اس زمانے کے علماء اس علم کی طرف خاص توجہ دیا کرتے تھے- اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ (ص) کے اوصیاء کے سوا کوئی بھی قرآن مجید کے تمام ظواہر اور بواطن کے ادراک کا دعوی نہیں کرسکتا ہے(4)؛ لہذا اس علم کا مشعل فروزان فطرتاً امام رضا (ع) اور دیگر ائمہ ہدایت (ع) کے فیض و برکت سے روشن تھا اور اسی بنا پر علماء اور دانشوروں نے امام رضا (ع) کے افاضات کے سائے میں علم تفسیر زبردست خیرمقدم کیا-
"علم حدیث " بھی اس دور کی علوم مرسومہ میں سے ایک تھا- اور شیعیان اہل بیت (ع) اور شیعہ علماء نے ائمہ طاہرین کی فیض رسانی کی بدولت معتبر احادیث کی تالیف اور تدوین کے سلسلے میں دیگر مکاتب کے علماء پر سبقت حاصل کی اور اس زمانے میں شیعہ علم حدیث کے سلسلے میں شیعہ علماء کا تخلیقی کارنامہ یہ تھا کہ امام رضا (ع) کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے معتبر احادیث کو ایک بڑی کتاب میں فراہم کیا اور یہ مسلمین اور خاص طور پر شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے پہلی جامع کتاب حدیث تھے- اور یہی کتاب جوامع اربعہ یا کتب اربعہ کی تدوین کے لئے بنیاد قرار پائی اور عالم اسلام کے تین بڑے علماء یعنی « شیخ الطائفة ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی» (متوفی 460ہ ،) «رئیس المحدثین شیخ صدوق ابی جعفر محمد بن علی بن الحسین بن بابویہ قمی» (متوفی سنہ 381) اور « ثقة الاسلام ابیجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی» (متوفی سنہ 328 یا329 ھ) نے شیعہ مکتب کی بنیادی کتابوں یعنی «الکافی»، «الاستبصار»، «التہذیب» اور «من لایحضرہ الفقیہ» کی تالیف اور تدوین میں اس کتاب سے استفادہ کیا-(5)
"علم کلام " [یا علم عقائد] بھی اس دور میں خاص توجہ کا مرکز بنا- اس دور میں مختلف فکری مکاتب کے علمائے کلام [متکلمین] نے اپنے عقائد و نظریات کے دفاع میں مختلف آراء قائم کئے اور یہ امر حقیقت کے طالب افراد کے درمیان کلامی موضوعات کے حوالے سے جذبہ تحقیق کی تقویت کا باعث ہوا-گو کہ اس دور میں مختلف فرقے ظاہر ہوئے یا انہیں فروغ ملا جو کسی نہ کسی لحاظ سے اعتقادی انحرافات کا شکار تھے اور اپنے دعووں کے اثبات کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرتے تھے- اور افسوس کا مقام ہے کہ ان انحرافی افکار نے بعض افراد کو شدید متاثر کیا تھا- البتہ ان فرقوں کے افکار و نظریات کو دلیل و برہان اور منطقی روشوں سے جھٹلانے اور باطل کرنے اور خداوند متعال کے واحد صراط مستقیم کی طرف مسلمانوں کی ہدایت کے حوالے سے امام رضا (ع) اور آپ (ع) کے اصحاب اور شاگردوں کے کردار کی اہمیت ناقابل انکار تھا اور دانشوروں اور متکلمین نے اس اہم کردار کا اعتراف کیا ہے-
علم طب:
علم طب بھی امام رضا (ع) کے دور کا خاصہ تھا اور علم طب کی ترویج میں بنیادی کردار امام (ع) نے ادا کیا- امام (ع) نے اس سلسلے میں اہم مباحث چھیڑے اور نہایت اہم مسائل مکتوب کر ڈالے- اس ضمن میں آپ (ع) کا ایک رسالہ، رسالہ ذھبیہ ہے- امام (ع) کی جانب سے اس رسالے کی تصنیف کے بعد عباسی خلیفہ نے بھی اس سلسلے میں تحقیق اور حصول علم کا حکم دیا اور لوگوں کو علم طب حاصل کرنے کی ترغیب دلائی اور خلیفہ نے خود بھی اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے اور اس سلسلے میں اچھی خاصی رقم خرچ کی اور اس علم کی حاملین کے لئے مالی امداد فراہم کی تا کہ اس سلسلے میں تحقیق اور بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری رہے- جبریل بن یختیشوع، دربار کا ماہر طبیب مامون کے ہاں خاصا مقبول تھا-
علم کیمیا: (Chemistry)
"علم کیمیا" کا چرچا بھی اس دور میں اپنی مثال آپ تھا- امام صادق (ع) کے شاگر جابر بن حیان اپنی تحقیقات میں اس مقام پر پہنچے تھے کہ دنیا انگشت بدندان رہ گئی- معاصر مغربی سائنسدانوں نے جابر بن حیان کو «عالم انسانیت کا سوچنے والا دماغ» قرار دیا ہے اور وہ اسی بنا پر دنیا میں علم کیمیا کے بانی سمجھے جاتے ہیں-
معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات:
"معماری اور انجنیئرنگ کی تحیققات" کو بھی اس دور میں کافی پیشرفت ملی اور اس زمانے کے مسلم انجنئیروں نے جیومیٹری اور ٹیکنالوجی میں عروج حاصل کیا اور مسلمانوں کی معماری اور انجنئرنگ کا دنیا میں چرچا ہوا-(6 ) امام (ع) کے دور میں علم نجوم کا ارتقاء اور اس کے فوائد عام ہونے سے متعلق تاریخی حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا-مذکورہ بالا حقائق امام رضا (ع) کے دور میں علوم و فنون کی ترقی کے مظاہر اور مثالیں ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تمدن و تہذیب نے کتنی ترقی کی تھی اور مسلم معاشرہ علم و سائنس کو کتنی اہمیت دی جاتی تھی! اس علمی اور سائنسی تحریک اور اسلامی تمدن کی ترقی میں امام رضا (ع) کے کردار کے دو پہلو ہیں: ایک علمی پہلو اور دوسرا عملی پہلو
الف: علم و دین امام رضا (ع) کی علمی سیرت
امام رضا (ع) کی علمی سیرت اور حوزہ درس میں علم و دین کی اہمیت ناقابل انکار ہے- آپ (ع) دین کی تبلیغ و احیاء کے ساتھ ساتھ علم و دانش کے اکرام اور علم و دانش کی طرف مسلمانوں کی ترغیب کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے-آپ (ع) نے مختلف دینی اور علمی موضوعات میں متعدد متون تحریر فرمائے؛ آپ نے مسئلہ توحید اور دین کے تمام اصولِ موضوعہ کی وضاحت و تشریح فرمائی؛ فقہ اور احکام دینی کے فلسفے کی وضاحت فرمائی؛ عالَم و زمین کی تخلیق پر آپ نے بحث کی؛ علم طب اور دیگر طبیعیاتی علوم سے متعلقہ موضوعات کی تشریح کی؛ چنانچہ ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ (ع) کا علم نہایت وسیع تھا اور علم و دین کی تمام شعبوں کی ترقی پر یقین رکھتے تھے-علم طب پر آپ (ع) کو عبور حاصل تھا؛ صحت عامہ اور مائکرو حیاتیات پر کامل عبور رکھتے تھے اور خلاصہ یہ کہ امام (ع) نے اس دور کی صحت عامہ اور علم طب پر گہرے نقوش مرتب کئے- بہر حال امام کے علم و دانش پر بحث کرتے ہوئے اس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے-امام (ع) کی معلومات کے دائرے ان امور میں سے ہیں جو امام (ع) کی ذات با برکات کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں- الہیات اور دینیات اور آسمانی ادیان و کتب کے بارے میں معلومات، قرآنی معارف و علوم سے مکمل آگہی، کلامی موضوعات پر امام (ع) کا مکمل احاطہ، طب کے بارے میں امام (ع) کے مباحث و آراء، اصول فقہ کی بنیاد رکھنا اور امام (ع) کی دیگر علمی کاوشیں امام (ع) کے علمی دائروں کی وسعت کی دلیلیں ہیں---فلسفہ احکام، فلسفہ غسل و وضو، فلسفہ حرمت زنا، فلسفہ زکواة اور فلسفہ حرمتِ شراب کے بارے میں امام (ع) کی بیانات و مباحث، احکام کے سلسلے میں سماجی اور اخلاقی مباحث ظاہر کرتے ہیں کہ امام (ع) برہانی اور استدلالی فکر کے مالک تھےاور خطابت، شعر و ادب اور فصاحت و بلاغت میں یگانہ روزگار تھے-(7)
ب: امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین
امام (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین کے درمیان نہ صرف کوئی تضاد یا اختلاف و گوناگونی کا کوئی نشان نہیں ملتا بلکہ ان دو کے درمیان نہایت قوی رابطہ برقرار ہے اور آپ (ع) کی عملی سیرت میں علم و دین ایک دوسرے کے معاون ہیں-حضرت رضا (ع) نے اس حقیقت کو - علمی اور دینی موضوعات پر بیش بہاء کتابیں لکھ کر - ثابت کیا ہے- آپ (ع) نے مناظروں اور علمی دوروں اور مسافرتوں کے ذریعے اس حقیقت کا اثبات کیا ہے کہ ان دو کے درمیان کوئی عناد اور دشمنی نہیں ہے-(جاری ہے)
آپ (ع) کی بعض کاوشیں:
1- صحیفة الرضا،(ع): یہ کتاب ان احادیث پر مشتمل ہے جو آپ (ع) نے اپنے والد ماجد امام موسی کاظم (ع) سے اور امام کاظم (ع) نے اپنے آباء و اجداد طیبین سے نقل کیا اور ان حدیثوں کا سلسلہ سند امیرالمومنین (ع) تک جاپہنچتا ہے اور علی (ع) نے یہ حدیثیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرمائی ہیں اور فضل بن حسن طبرسی نے یہ حدیثین محفوظ کرلی ہیں-
2- طب الرضا یا رسالة الذہبیة: مامون نے امام (ع) سے درخواست کی تھی کہ اپنے اور اپنی آباء و اجداد کے علم و دانش کی روشنی میں اس کو کھانے اور پینے کے سلسلے میں ہدایات دیں تا کہ اس کے جسم میں تمام قوتیں محفوظ رہیں اور بیماریوں اور کمزوریوں سے بچا رہے- امام (ع) نے ایک مفصل خط کے ضمن میں صحت کے سلسلے میں صحیح احکام، مختلف النوع غذاوں کی خصوصیات، ضروری مشروبات، اور ان کا صحیح وقت استعمال بیان فرمایا، امام نے اس رسالے میں مزاج کے اعتدال اور جسمانی خصوصیات و جزئیات کے بارے میں تمام امور بیان فرمائے، اور مامون پر اس خط کو دیکھنے کے بعد وجد و ہیجان کی کیفیت طارے ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ امام کے مکتوب کو سنہری حروف سے تحریر کیا جائے اور اس کے اس حکم کی فوری تعمیل ہوئی اور یہ خط «رسالة الذہبیة» کے نام سے مشہور ہوا- امام (ع) نے 201 ہجری میں یہ خط مامون کے لئے لکھا اور اس زمانے تک طبّ علمی صورت نہیں اپنا سکا تھا اور تجربات اور مسلسل معالجات کی بنا پر طبی معالجات کا اہتمام ہوتا تھا جس میں علمی و سائنسی دریافتوں کا کوئی کردار نہ تھا- اس زمانے میں جراثیم دریافت نہیں ہوئے تھے؛ ویٹامنز کے بارے میں آگہی نہ تھی اور جراثیموں کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی اہم سائنسی دریافت نہیں ہوئی تھی-(8) اور امام (ع) نے اس خط کے ذریعے معاشرے کو تحقیق اور جستجو کی راہ دکھائی اور نہ صرف امام (ع) کا یہ اقدام اسلامی تہذیب کی بالیدگی کا باعث ہوا بلکہ امام (ع) کے خط نے علم اور دین کے درمیان ربط و تعلق کی موجودگی کا بھی اثبات کیا-
امام رضا (ع) کے علمی دورے اور مناظرات
امام رضا (ع) کا دور نہایت حساس دور تھا؛ کیونکہ فکری انحراف کے عوامل اپنے عروج پر تھے- ان انحرافات کا سبب یہ تھا کہ اجنبی دنیا سے علوم و فنون خام صورت میں اسلامی معاشرے میں داخل ہوئے تھے اور ان کا تصفیہ نہیں ہوا تھا اور دوسری طرف سے عباسی سلطنت نے بیرونی افکار کی درآمد کی جو اجازت دی تھی اس کے لئے حدود کا تعین نہیں ہوا تھا- اسی وجہ سے امام (ع) مجبور ہوئے کہ دین خداوند کی محافظ اور شرک و الحاد سے امت اسلامی کی نجات دہندہ کے عنوان سے ضروری اقدامات کریں- امام (ع) نے اجنبی افکار کے فروغ کے مراکز یعنی کوفہ اور بصرہ کے دورے کئے اور الحادی افکار کے بانیوں اور حامیوں کے ساتھ مناظرے کئے اور جب ولیعہد ہوئے تو آپ (ع) کو ان مکاتب کے دانشوروں کے ساتھ مناظرات کے مواقع سے بھرپور استفادہ کیا اور دین اور ہدایت انسان کے لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کی تبلیغ فرمائی-
اس سلسلے میں آپ (ع) نے مختلف ادیان و فِرَق کے ساتھ بھی مناظرے کئے، البتہ یہ سلسلہ ولیعہدی سے پہلے بھی جاری رہا تھا اور ولیعہدی کے دور میں بھی جاری رہا- امام (ع) کا طرز مناظرہ اس دور کی دنیا میں شہرت خاصہ سے بہرہ مند تھا- آپ (ع) کے استدلالات عقل و منطق پر استوار تھے؛ ان مناظرات میں امام (ع) دین اور دینی اصول و فروع کا دفاع کیا کرتے تھے؛ جن کے لئے مختلف شعبوں اور مختلف مضامین و موضوعات میں حصول علم کی ضرورت ہوتی ہے اور امام کے یہ سارے اقدامات اور کارنامے ثابت کرتے ہیں کہ آپ (ع) کی علمی سیرت میں علم اور دین کے درمیان مکمل ہماہنگی پائی جاتی ہے-
بحث کا نتیجہ:
امام رضا (ع) کے دور میں علم و دین کے بارے میں مذکورہ بالا واقعات و حقائق اور ان دو کی ترویج میں امام رضا (ع) کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ (ع) کے دور میں علم اور دین کے درمیان نہ تو تمایز تھا اور نہ ہی تعارض بلکہ علم اور دین خدا کی طرف انسان کی ہدایت کے سلسلے میں ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں- نہ علم دین کی نفی کرتا ہے اور نہ ہی دین علم کی نفی کرتا ہے- ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہیں اور یہ دو ایک دوسرے کے مد مقابل نہیں ہیں اور اگر علم کا اثبات ہوجائے تو دین کی نفی نہیں ہوتی اور اگر دین کا اثبات ہو تو علم کی نفی نہیں ہوتی؛ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اگر کوئی دینی اصول ثابت ہوجائے تو کوئی سائنسی اور علمی اصول باطل ہوجائے-امام (ع) کے دور میں ایسا کوئی تعارض نظر نہیں آتا- علم و دین کے درمیان تمایز اور اختلاف بھی نظر نہیں آتا اور ایسا نہیں تھا ( اور نہ ہے) کہ علم و دین کے درمیان کوئی بھی وجہ اشتراک نہ ہو اور معنی کے لحاظ سے روش اور غایت مکمل مفارقت میں قرار پائی ہو؛ اور علم و دین الگ الگ اور ایک دوسرے سے غیر متعلق اور غیر مربوط فرائض کے عہدہ دار ہوں؛ اس دور میں ایسا بھی نہیں تھا بلکہ علم و دین کے آپس کی نسبت اس دور میں توافق اور ایک دوسرے کی تکمیل سے عبارت تھی- یعنی ان دو مقولوں کے درمیان مکمل سازگاری اور ہماہنگی تھی اور اس کے علاوہ وہ ایک دوسرے کو مکمل کرنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے- علماء اور دانشور جو اسلامی معاشرے کی نمائندگی کرتے تھے غالباً دین اور علم کے پیکر تھی اور علماء اور دانشوروں کی اکثریت دیندار افراد اور علمائے دین پر مشتمل تھی اور علمائے دین ہی دیگر علوم و فنون کے بھی استاد تھے-البتہ یہ ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی معاشروں کے لئے یہ عظیم نعمت ائمہ ہدایت (ع) اور حضرت امام علی بن موسی الرضا (ع) کے فیضان کا نتیجہ تھا- اور اسلامی تہذیب میں اعتلا و ارتقاء اور دینی تہذیب کی بالیدگی حضرت ثامن الحجج (ع) اور آپ (ع) کے آباء طیبین (ع) کی مرہون منت تھی کیونکہ اس زمانے میں دین کی ترویج و حفاظت اور علم و سائنس کی ترویج کا کام صرف ائمہ طاہرین (ع) کے توسط سے انجام پاتا رہا، دوسرے تو دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کسی حاکم نے علم کی ترویج کی حمایت کی ہے تو یہ اس کی مجبوری بھی تھی اور وجہ شہرت بھی ہوسکتی تھی!- اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہارون و مامون ان برکات کا سرچشمہ ہوں جیسا کہ بعض درباری مولفین نے تحریر کیا ہے-کیوں کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ "اس علمی اور دینی تحریک کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اور یہ کہ یہ پیشرفت و ترقی کہاں سے شروع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں ہارون اور مامون کے دور میں علم کا مقام و مرتبہ حد کمال کو پہنچا؟ اس دور میں علم کا چرچا اس لئے ہوا کہ صادقَین (امام باقر اور امام صادق) علیہماالسلام کے دور میں عظیم ترین علماء، فقہاء، قضات، ادباء اور شعراء ابھرے، علمی و سائنسی مقابلے اور ادبی مناظرے ہوئے، مفکرین اور ارباب علم و نظر وجود میں آئے اور انہوں نے نور وجود امام باقر اور امام صادق (ع) کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان ہی لوگوں نے دوسری اسلامی صدی کے نصف ثانی اور تیسری اسلامی صدی کے نصف اول کو اپنی کاوشوں اور آثار سے منور کیا اور ان دوخلفاء کی اہمیت کا سبب یہ ٹہرا کہ ان کے دور میں علم و دانش اپنے اصلی سرچشموں سے پھوٹتا رہا- اور بہت سے لوگ ائمہ طاہرین کے نورانی وجود سے پھوٹتے علم و دانش کے سرچشموں سے سیراب ہونے کل لئے تیار ہوئے اور رشد و کمال کے عروج پر پہنچے--- خلاصہ یہ کہ عصری تقاضوں ہی کا تقاضا ہوا کہ منصور عباسی اور ہارون و مامون علم کے طالب و خریدار ٹہریں جیسا کہ سرکاری جبر کے تقاضوں کا تقاضا ہے!!!- (ختم شد)
--------------
حوالے جات:
1- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، شریف قرشی، ج2، ص283
2- الفہرست، ابن ندیم، ص239
3- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص286
4- التبیان فی تفسیر القرآن، محمد بن حسن طوسی، ج1، ص4
5- مقدمہ النفع و الہدایہ، ص10
6- امام رضا (ع) کی زندگی میں باریک بینانہ تحقیق، ج2، ص290
7- حضرت حضرت رضا(ع) کی زندگی کی خصوصیات؛، داکتر علی شریعتمداری، ج3، ص119117
8- امام رضا (ع) کی حالات زندگی کا ایک تجزیہ، محمد جواد فضل اللہ ، ترجمہ سید محمد صادق عارف، ص161




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
