سلیمانی

سلیمانی

Monday, 09 August 2021 07:01

اسلام اور حجاب

مرد اور عورت کي درمياني ’’حد‘‘ پر اسلام نے بہت  تاکيد  اور رہنمائی فرمائی ہے ۔ يہاں ايک بنيادي نکتہ ہے کہ جس پر اسلام نے بہت زيادہ تاکيد کي ہے اور وہ يہ ہے کہ تاريخ ميں مردوں کے مزاج ،عورتوں کي بہ نسبت سخت اور اِن کے ارادے مشکلات کا مقابلہ کرنے کي وجہ سے قوي اور جسم مضبوط رہے ہيں۔ اِسي وجہ سے انہوں نے اہم ترين کاموں اور مختلف قسم کي ذمہ داريوں کو اپنے عہدے ليے ہوا تھا اور يہي وہ چيز ہے کہ جس نے مردوں کيلئے اپني جنس مخالف سے اپنے فائدے کيلئے سوئ استفادہ کرنے کے امکانات فراہم کيے ہيں۔ آپ ديکھئے کہ بادشاہوں، ثروت مند، صاحب مقام و صاحب قدرت افراد ميں سے کون نہيں ہے کہ جس نے اپنے اپنے درباروں اور اپنے اپنے دارئرہ کار ميں اپنے مال و دولت اور مقام قدرت وغيرہ کے بل بوتے صنف نازک سے سوء  استفادہ ،دست درازي اور بے آبروئي کيلئے اقدامات نہ کيے ہوں؟!

يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام اپني پوري قوت و قدرت کے ساتھ احکامات جاري کرتا ہے اور معاشرے ميں مرد وعورت کے درميان حد اور فاصلے کو قرار ديتا ہے اور ان کے درميان تعلقات ميں سختي و پابندي کرتا ہے۔ اسلام کي رو سے کسي کو بھي يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ اِس حد کو پائمال کرے اور اس قانون کي بے احترامي کر ے ، کيونکہ اسلام نے خاندان اور گھرانے کو بہت زيادہ اہميت دي ہے۔ گھر کے گلشن ميں مرد و عورت کا باہمي رابطہ کسي اور قسم کا ہے اور معاشرے ميں کسي اور قانون کے تابع۔ اگر معاشرے ميں مردو عورت کے درميان حائل فاصلوں کے قانون کا خيال نہ رکھا جائے تو نتيجے ميں خاندان اور گھرانہ خراب ہوجائے گا۔ گھرانے ميں عورت پر اکثر اوقات اورمرد پر کبھي کبھار ممکن ہے ظلم ہو۔ اسلامي ثقافت ، مرد وعورت کے درميان عدم اختلاط کي ثقافت ہے۔ ايسي زندگي، خوشبختي سے آگے بڑھ سکتي ہے اورعقلي معيار وميزان کي رعايت کرتے ہوئے صحيح طريقے سے حرکت کرسکتي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلام نے سختي کي ہے۔

اسلام کي رو سے اگر معاشرے ميں (نامحرم) مرد اور عورت کے درميان فاصلے اور حد کو عبور کيا جائے، خواہ يہ خلاف ورزي مرد کي طرف سے ہو يا عورت کي طرف سے تو اسلام نے اِس معاملے ميں سخت گيري سے کام ليا ہے۔ اسي نکتے کے بالکل مقابل وہ چيز ہے کہ جسے ہميشہ دنيا کے شہوت پرستوں نے چاہا اور اس پر عمل کرتے رہے ہيں۔ صاحبان زر و زمين اور قدرت وطاقت رکھنے والے مرد،خواتين ، اُن کے ماتحت افراد اور اُن افراد نے کہ جنہوں نے اِن افراد کے ساتھ اور اِن کيلئے زندگي بسر کي، يہي چاہا ہے کہ مردو عورت کادرمياني فاصلہ اور حجاب ختم ہوجائے۔ البتہ خود يہ امر معاشرتي زندگي اورمعاشرتي اخلاق کيلئے بہت برا اور مُضّر ہے۔ يہ فکر و خيال اورعمل معاشرتي حيا و عفت کيلئے باعث زياں اور گھر و گھرانے کيلئے بہت نقصان دہ اور برا ہے اور يہ وہ چيز ہے کہ جو خاندان اورگھرانے کي بنيادوں کو متزلزل کرتي ہے

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے کورونا ویکسین کا ٹیکہ لگوانے کے بعد عوام سے طبی دستورات کی رعایت کرنے پر زوردیا ہے۔

صدر رئیسی نے ایران کی تیار کردہ کورونا ویکسین لگوانے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں طبی عملے کی مجاہدانہ تلاش و کوشش پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور ہمیں ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ کورونا ویکسین کو تیار کرنا چاہیے۔

صدر رئیسی نے کہا کہ میں نے کورونا وائرس کامقابلہ کرنے والی قومی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں تاکید کی ہے اور آج پھر تاکید کرتا ہوں کہ ہمیں فصل سرما کے آنے سے پہلے عمومی سطح پر کورونا ویکسین لگانے کی تیاری کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ عوام کی صحت و سلامتی حکومت کی پہلی ترجیحات میں شامل ہے۔

صدر رئيسی نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہوا ایرانی ویکسین برکت سے استفادہ کیا جائے گا اور کمی کی صورت میں معتبر غیر ملکی ویکسین کو در آمد کیا جائےگا۔ ایرانی محققین نے کوایران برکت ویکسین ملک کے اندر تیار کی ہے جس کے بعد ایران کورونا ویکسین تیار کرنے والے چند ممالک کی صف میں شامل ہوگیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے جان ارنو نے حسین امیر عبداللہیان سے ملاقات اور گفتگو کی ۔ اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے بین الاقوامی امور کے مشیر حسین امیر عبداللہیان نے بین الافغان مذاکرات پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے لئے تمام افغان گروہوں کو مذاکرات میں حصہ لینا چاہیے۔

ایرانی اسپیکر کے بین الاقوامی امور کے مشیر نے افغانستان کے بارے میں ایرانی مؤقف کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ ایران بین الافغان مذاکرات میں تمام افغان گروہوں کی شرکت کو ضروری سمجھتا ہے اور افغانستان کے اندر امن و صلح قائم کرنے سے مہاجرین کی سرحدوں کی جانب موج کو روکا جاسکتا ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ اقوام متحدہ ، افغانستان میں امن و صلح برقرار کرنے کے سلسلے میں اپنا اہم کردار کرسکتا ہے اور ایران اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی بھر پور حمایت کرنے کے لئے تیار ہے۔

اس ملاقات میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے افغانستان کے مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعہ حل کرنے کے سلسلے میں تاکید کی۔

 حزب اللہ نے اسرائیل کے فضائی حملے کے ایک روز بعد جوابی کارروائی میں اسرائیلی ٹھکانوں پر کئي درجن راکٹ فائر کئے ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس نے حزب اللہ کے حملوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اسرائیل کے وحشیانہ ہوائی حملوں کے جواب میں اس نے اسرائیلی فوج کے ٹھکانوں پر درجنوں راکٹ فائر کئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل نے جنوب لبنان پر بمباری کے دوران  فاسفورس بموں سے استفادہ کیا ہے۔

صابرین نیوز کے مطابق حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ علاقوں  گولان اور مزارع شبعا پر 20 راکٹ فائر کئے ہیں ۔ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی اچانک جوابی کارروائی کا فلسطینی تنظیم حماس نے استقبال کیا ہے۔ ادھر حزب اللہ کی جوابی کارروائی پر اسرائيلی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

 مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے ایران کے نو منتخب صدر ابراہیم رئیسی کو عہدے کا چارج سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔انہوں نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ انتخاب دونوں ممالک کے مضبوط برادرانہ تعلقات کو مزید وسعت دینے میں معاون ثابت ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پاک ایران تعلقات یکساں مذہبی اور ثقافتی اقدار کے حامل ہیں۔پاکستان افغانستان سمیت خطے میں امن و صلح کی کاوشوں اور کوششوں میں شریک  ہے۔دونوں ممالک کے باہمی تعلقات، تجارت، سرمایہ کاری،تعلیم، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔پڑوسی ممالک ہونے کے باعث ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو شر انگیز طاقتیں منفی پروپیگنڈہ کے ذریعے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے بدگمان کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتی ہیں۔انہیں حکمت ،بصیرت اور دانائی کے ساتھ شکست دینا ہو گی۔انہوں نے کہا کہ خطے کے امن کو سبوتاژ کر کے عدم استحکام کی فضا ہموار کرنا اسلام دشمن عالمی طاقتوں کا ایجنڈا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری طاقت کی منتقلی کے عمل سے سخت خائف ہیں۔امریکہ اپنے اقتصادی ڈھانچے کو تباہی سے بچانے کے لیے مشرق وسطی میں سازشوں کے جال بچھا رہا ہے۔پڑوسی ممالک کے تعلقات جتنے مضبوط اور پائیدار ہوں گے دشمن طاقتوں کے بیانیے کو اتنی ہی شدید شکست ہو گی۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے نئے صدر کا انتخاب ایک اچھے اور خوشحال دور کا آغاز ثابت ہوگا۔

 

 

 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے ساتھ ملاقات میں سیف القدس جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں۔

صدر رئیسی نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں نے سیف القدس جنگ میں دوستوں کو خوشحال اور دشمنوں کو مایوس کیا۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کو اسلامی مزاحمت کی عظیم کامیابی کا وہم و گمان بھی نہ تھا لیکن اللہ تعالی نے اسلامی مزاحمت کو 12 روزہ جنگ اور اس سے قبل جنگوں میں فتح عطا کی۔

صدر رئیسی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور رہے گا ہم اپنے فلسطینیوں بھائیوں کو بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی تک تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

اس ملاقات میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے صدر رئیسی کے فلسطین کی حمایت میں بیان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ  ہم فلسطین کے بارے میں ایران کے صاف و شفاف اور ٹھوس مؤقف کی قدر کرتے ہیں ۔ امریکہ کو خطے میں شکست کا سامنا ہے ، عراق اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا امریکہ کی خطے میں شکست کا مظہر ہے۔ حماس کے سربراہ نے کہا کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کے خلاف ہماری جد وجہد کا سلسلہ جاری رہےگا۔

Saturday, 07 August 2021 07:18

جامع مسجد ، ٹوکیو -جاپان

ٹوکیو کے جامع مسجد کی تعمیر  ۱۹۳۸ میں جاپان کے ایک مالی ادارہ نے انجام دی ہے ، لیکن اس کی دوبارہ تعمیر پہلی مسجد کو شھید کرنے کے بعد ۲۰۰۰ ء  میں مکمل ہوئی۔

 

چاپان کی یہ مسجد اور اسلامی مرکز غیر مسلمان جاپانیوں کے لئے ایک سیر و تفریح کی جگہ بھی بن گئی ہے۔

 

پہلے اس مسجد کے امام عبد الرشید ابراھیم تھے ۔ اس کے بعد اس کی امامت کے فرائض عبد الھادی قربانعلی کے سپرد کئے گئے۔

 

 یہ مسجد ۱۹۸۶ کو قدیم ہونے کی وجہ سے شھید کی گئی اور اس کی زمین ترکیہ حکومت کی درخواست پر ترکوں کے سپرد کی گئی۔

 

ترکیہ میں اس زمانے کی  دیانت پارٹی کے سربراہ  نے اس کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کیا، جو ۱۹۹۸ میں شروع اور ۲۰۰۰ میں اختتام پذیر ہوا۔

 

اس مسجد کی تعمیر کا کام ”کاجیما کمپنی ”کے سپرد کیا گیا اور اس کا اندرونی ڈیزاین ترکیہ کے معماروں اور ماہرین کے ذریعے انجام پایا۔

 

معماری کا کام محرم ھیلمی سنالب کے ہاتھ میں تھا، اس مسجد کی سب سے بڑے دروازے کے اوپر ایک سنگ مرمر رکھا گیا ہے جس پر اس مسجد کی تاریخ تعمیر ۱۴۲۰ ھ لکھی گئ ہے۔

 

اس مسجداور ثقافتی سینٹر کے اصلی دروازے پر جملہ ” ترکیہ ثقافتی سینٹر” لکھا گیا ہے، اس ثقافتی مرکز میں ترکیہ کے مساجد کی نمائش اور اس ملک کے ثقافتی اشیاء کو فروخت کرنے کے لئے رکھا گیا ہے۔

 

اس مسجد اور ٹوکیو کے اسلامی سینٹر کا طرز تعمیر  دورہ عثمانی کا ہے۔

 

ٹوکیو کی جامع مسجد میں دو ہزار آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے، اس کا اصلی ایوان ، عورتوں کے لئے مخصوص ایوان سے الگ ہے۔

 

اس مسجد کا گنبد ۲۳ میٹر بلند اور اس کے منارے کی بلندی ۴۱ میٹر ہے۔

 

ٹوکیو کی جامع مسجد ، کا دوسرا نام مسجد یویوگی بھی ہے یہ اس علاقے کا نام ہے جس میں یہ مسجد واقع ہوئی ہے لذا اس مسجد کا بھی یہی نام رکھا گیا ہے۔

 

اس مسجد میں اصلی ایوان ،کتاب خانہ ، آڈیٹوریم ، کانفرنس ہال ، کنٹرول روم اور امام جماعت کے رہنے کی جگہ ہے۔

 

یہ مسجد جاپان میں اسلام سے آگاھی حاصل کرنے کی جگہ جانی جاتی ہے، اور بہت سے جاپانی لوگ اسلام کے بارے میں اپنی جانکاری حاصل کرنے کے لئے اور اسلام کو پہچاننے کے لئے اس مسجد کی جانب رجوع کرتے ہیں۔

نجران یمن اور حجاز کے بارڈر پر  واقع ہے۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں فقط یہی علاقہ مسیحیوں کا تھا، جو بعض اسباب کی بنا پر بت پرستی کو ترک کرکے دین مسیح پر کاربند تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے بھی فتح مکہ کے بعد جہاں مختلف بڑے ممالک کے سربراہوں اور مختلف دینی مراکز کے سربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کی غرض سے خطوط لکھے، وہیں نجران کے بڑے اسقف ابو حارثہ کے لئے بھی ایک خط لکھا، تاکہ نجران کے عیسائیوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں۔ 
خط کا متن یہ تھا: ابراہیم، اسحاق، یعقوب کے رب کے نام سے شروع، خدا کے پیغمبر اور رسول محمد کی جانب سے نجران کے اسقف کے نام! ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے خدا کی حمد و ثناء بجا لاتا ہوں اور تمہیں بندوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ میں تمہیں بندوں کی ولایت سے نکل کر خدا کی ولایت کی طرف پلٹ آنے کا تقاضا کرتا ہوں۔ میری دعوت کو قبول نہ کرنے کی صورت میں تمہیں اسلامی حکومت کو جزیہ دینا پڑے گا۔ بصورت دیگر تم لوگوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے نمائندے نجران میں داخل ہوئے اور آپ کا خط اسقف تک پہنچا دیا۔ اس نے غور و خوض کے ساتھ اس خط کو مکمل پڑھا، پھر اس کے حوالے سے حتمی فیصلے کے لئے کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی کے ایک ممبر کا نام شرحبیل تھا۔ جو معاملہ فہمی اور عقل و درایت میں کافی شہرت رکھتا تھا۔ اس نے اسقف کے جواب میں کہا کہ اسلام کے بارے میں میری معلومات بہت ہی کم ہیں۔ لہذا میں اس پر اظہار نظر سے عاجز ہوں۔ اگر اس موضوع کے علاوہ کسی اور موضوع کے لئے مجھ سے مشورہ لینا چاہیں تو اس کے لئے کچھ راہ حل آپ کے لئے دے سکتا ہوں۔ البتہ میں مجبوراً ایک نکتے کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہم نے مکرر اپنے مذہبی پیشواؤں سے سنا ہے کہ ایک دن نبوت کا منصب حضرت اسحاق کی نسل سے نکل کر حضرت اسماعیل کی نسل میں منتقل ہوگا۔ یہ بات ہرگز بعید نہیں ہے کہ حضرت محمد حضرت اسماعیل کی نسل سے ہو اور پیغمبر موعود وہی ہو_"

شوریٰ نے رائے دی کہ ایک گروہ کو نجران کے عیسائیوں کی طرف سے نمائندے کے طور پر مدینہ بھیجا جائے، تاکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملے اور ان کی نبوت کے دلائل پر نزدیک سے تحقیق کرے۔ ان کے عقل مند ترین اور برجستہ ترین شخصیات پر مشتمل 60 رکنی وفد من جملہ تین مذہبی پیشواؤں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات کرنے کے لئے مدینے کا رخ کیا۔ نجرانی عیسائیوں کے یہ نمائندے مدینہ پہنچ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ہی محترمانہ انداز سے ان کے سلام کا جواب دیا۔ مناظرہ شروع کرنے سے پہلے ان نمائندوں نے کہا کہ ہماری عبادت کا وقت آن پہنچا ہے، لہذا مذاکرے سے پہلے ہم اپنی عبادت بجا لائیں گے۔ حضور  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں مسجد نبوی میں اپنی عبادت انجام دینے کی اجازت دے دی۔ انھوں نے مشرق کی طرف رخ کرکے اپنی نماز بجا لائی۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخلوق خدا اور بندہ خدا ہونے پر بحث و گفتگو کا آغاز کیا اور اسی پر دلائل دیئے۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ یکتا خدا کی طرف تمہیں دعوت دیتا ہوں، جس کی طرف سے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی اور مسیح علیہ السلام اس کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا اور ان میں انسانی خصوصیات پائی جاتی تھیں، دوسروں کی طرح کھانا کھاتے تھے۔ انہوں نے آپ کی اس بات کو ماننے سے انکار کیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ کی ولادت کو ان کی الوہیت کی دلیل قرار دیا۔ اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی: إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اللهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُنْ فَیَکُون( آل عمران/59) "بے شک عیسیٰ کی مثال خدا کے نزدیک آدم کی سی ہے، جسے خدا نے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اس سے کہا: ہو جا تو وہ فوراً ہوگیا۔"

اللہ تعالیٰ نے اسی مثال کے ذریعے یہ واضح کر دیا کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے متولد ہوئے ہیں تو یہ تعجب کا مقام نہیں اور یہ ان کے اللہ ہونے، یا اللہ کا بیٹا ہونے یا عین خدا ہونے پر ہرگز دلیل نہیں؛ کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کا معاملہ اس سے بھی تعجب آور ہے کہ جو ماں باپ دونوں کے بغیر دنیا میں آئے۔ پھر آیہ مباہلہ نازل ہوئی۔ یعنی دونوں گروہ ایک دوسرے پر نفرین کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ان میں سے جو بھی جھوٹا ہے، اسے ہلاک کر دے۔ پس یہ بد دعا جس کے حق میں بھی قبول ہو جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ باطل پر ہے اور اس کا مدمقابل برحق ہے۔ فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ﴿آلعمران/۶۱﴾ "آپکے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو_!"( آل عمران61)

طرفین مباہلے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ یہ طے پایا کہ کل سب مباہلے کے لئے آمادہ ہوکر حاضر ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی یہ طے پایا تھا کہ مباہلہ شہر سے باہر صحرا میں ہوگا۔ نجران کے عیسائیوں سے مباہلہ کرنا اتنا کوئی آسان کام نہیں تھا کہ جسے ہر کوئی انجام دے سکے، بلکہ ان سے مباہلہ کرنے والے افراد ایسے ہونے چاہیئے تھے، جو ایمان کے اعلیٰ درجے پر، یقین کی منزل پر فائز ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو شرف قبولیت عطا کرے۔ لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیٹوں کے عنوان سے حضرت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو، خواتین کے مصداق کے طور پر سیدۃ نساء العالمین حضرت فاطمہ علیھا السلام کو اور نفس رسول کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لیا۔ دوسری جانب نجران کے عیسائیوں کے نمائندے بھی مباہلے کے لئے معینہ مقام پر پہنچ چکے تھے۔ ان کے سب سے بڑے اسقف نے کہا کہ اگر کل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے بیٹوں اور اہل بیت کے ساتھ مباہلے کے لئے آئیں تو ان سے مباہلہ کرنے سے اجتناب کرنا، لیکن اگر آپ اپنے اصحاب اور دوستوں کے ہمراہ آئیں تو ان سے مباہلہ کرنا۔

اچانک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی اہل بیت کے چار مصادیق نجران کے مسیحیوں کے سامنے نمودار ہوئے۔ ان باعظمت ہستیوں کو دیکھتے ہی وہ سب ورطۂ حیرت میں پڑے، ایک دوسرے کی طرف تکنے لگے اور سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ اس شخص کو اپنی حقانیت پر سو فیصد یقین ہے۔ اس وقت نجرانیوں کے اسقف نے کہا: میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ ہستیاں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ بڑے بڑے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو فوراً ہٹ جائیں گے۔ ان نورانی چہرے والی باعظمت ہستیوں سے ہمارا مباہلہ کرنا بلکل غلط ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ نتیجے کے طور پر ہم سب نابود ہو جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ عذاب کا دائرہ وسعت اختیار کر جائے اور پوری دنیا میں موجود مسیحیوں کو اپنے لپیٹ میں لے۔ درنتیجہ یہ زمین مسیحیوں سے ہی خالی ہو جائے۔ آخرکار انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے پیش ہوکر اپنی شکست کا اعلان اور جزیہ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: عذاب نے اپنے بدترین سائے کو نصرانیوں کے نمائندوں کی طرف پھیلا دیا تھا۔ اگر وہ لوگ مباہلہ کر لیتے تو نتیجے کے طور پر اپنی انسانی شکل و صورت سے ہاتھ دھو بیٹھتے، صحرا میں جلنے والی آگ میں وہ راکھ بن جاتے اور عذاب کا دائرہ نجران تک پھیل جاتا۔ بعد ازاں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے صلح نامہ تحریر فرمائے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ مباہلے کے دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے چار افراد کو کالے رنگ کی عبا پہنائیں اور ان کو اپنے ہمراہ لیا، اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے مباہلے کے لئے چلے: إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً (احزاب/33) "بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ اے اہل بیتؑ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے، جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔"

مشہور مفسر فخر رازی آیہ مباہلہ کہ تفسیر میں لکھتا ہے کہ سفید بالوں سے بنی ہوئی عبا زیب تن کی، حضرت حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں لئے ہوئے، حضرت حسن علیہ السلام کے ہاتھوں کو تھامے ہوئے، حضرت فاطمہ علیہا السلام اور حضرت علی علیہ السلام بھی آپ کے پیچھے پیچھے مباہلے کے لئے تشریف لے گئے۔ اس حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں تلقین فرمائی کہ جونہی میں نفرین کرنے کے لئے اپنے ہاتھوں کو بلند کروں تو آپ لوگ آمین کہنا۔ بعد ازاں پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مباہلے کے مقام پر پہنچتے ہی حسن، حسین، علی اور فاطمہ (علیھم السلام) کو اپنی عبا کے اندر جمع کر لیا اور آیہ تطہیر کی تلاوت فرمائی۔ یوں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اہل بیت کا تعارف بھی کروایا اور ان کی عظمت و منزلت سے بھی آگاہ کیا۔ فخر رازی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ روایت اہل حدیث و تفسیر کے نزدیک متفقہ طور پر صحیح روایت ہے اور اس میں کسی قسم کا نقص نہیں پایا جاتا۔ علاوہ ازیں یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ حسن اور حسین (علیہما السلام) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے ہیں۔( تفسیر فخر رازی، ذیل آیہ آل عمران/ 61)

زمخشری اس حوالے سے تفسیر کشاف میں رقمطراز ہیں کہ واقعہ مباہلہ اور یہ آیہ مجیدہ اصحاب کساء کی فضیلت کے سب سے بڑے گواہ اور اسلام کی حقانیت کی زندہ مثال ہے۔(تفسیر کشاف، ج1، ص433) مسلم نیشاپوری اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے اہل بیت اطہار علیھم السلام کی ایک اور فضیلت و منقبت نقل کرتا ہے: جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین (علیہم السلام) کو بلایا پھر فرمایا: اللھم ھؤلاء اھلی۔ "اے اللہ! فقط یہی افراد میری اہل بیت ہیں۔"(صحیح مسلم، باب فضائل الصحابہ) آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 24ذی الحجہ کو اپنی اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ فاتحانہ واپس مدینہ تشریف لائے جبکہ مسیحیوں کے ماتھے پر اس تاریخی شکست کے آثار آج بھی نمایاں ہیں۔ لہذا یہ دن تمام مسلمانان عالم کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل عید کا دن ہے۔

تحریر: ایس ایم شاہ

 تحریک بیداری امت مصطفیٰ (ص) اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا ہے کہ شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے سب سے پہلے پاکستانی قوم کو ولایت فقیہ سے متعارف کرایا، چار سال کے مختصر عرصہ قیادت میں شہید نے قوم کو ایک نئی جہت دی، قائد شہید آخری دم تک خط امام خمینی (رہ) پر قائم رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کی 33ویں برسی کی مناسبت سے جامعہ شہید عارف الحسینی پشاور میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ اجتماع جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور اور جامعہ عارف الحسینی پشاور کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا، اجتماع سے سابق سینیٹر اور بزرگ عالم دین علامہ سید جواد ہادی نے بھی خطاب کیا۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں سے آئے علمائے کرام اور شہید علامہ عارف الحسینی کے فرزند سید حسین الحسینی بھی شریک ہوئے۔ علامہ سید جواد نقوی تقریب سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امام خمینی (رہ) نے ملت کو تاکید کی تھی کہ افکار شہید عارف الحسینی کو زندہ رکھا جائے، لہذا ہم امام کے اس فرمان کے پابند ہیں، شہید قائد نے سب سے پہلے پاکستانی قوم کو ولایت فقیہ سے متعارف کرایا۔ شہید نے قوم کو امانت، شجاعت اور صداقت کا حقیقی سبق پڑھایا اور ولایت سمجھائی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ شہید قائد کا مزار پشاور میں انکی جائے شہادت پر ہوتا، شہید نے بہت مشکل حالات میں قوم کی قیادت سنبھالی، شہید کے دور میں آئیڈیل اتحاد تو قائم نہ ہوسکا، لیکن سنجیدہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے، علامہ عارف الحسینی حقیقی طور پر شہید ہونے کے بعد قائد بنے، یعنی لوگوں کی اکثریت نے انہیں شہید ہونے کے بعد قائد مانا، ان کی حقیقت شہادت کے بعد تسلیم کی گئی، قوم کو ان کی شہادت کے بعد احساس ہوا کہ کتنی اہم شخصیت کو ہم کھو بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید کا تفرقے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، لیکن آج تشیع کے منبر سے بھی شرک بیان ہوتا ہے، آج علماء سیاست میں لگے ہوئے ہیں، آج تشیع کو سوچی سمجھی سازش کے تحت مسخ کیا جا رہا ہے، لیکن شہید کے دور میں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا تھا۔

اسلام ٹائمز