سلیمانی

سلیمانی

امامت آیہء مباہلہ کی روشنی میں

  •  

0 ووٹ دیں0.0 / 5

مقالے 

عقائدلائبریری 

اصول دین 

امامت

 

شائع 2011-11-19 11:00:09
مؤلف: مجمع جہانی اہل البیت

 

نجران کے عیسائی اوران کاباطل دعویٰ )آل عمران/۶۱)

”)پیغمبر!)علم کے آجانے کے بعدجو لوگ تم سے)حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں)کٹ حجتی کریں،ان سے کہ دیجئے کہ چلوہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کودعوت دیں اورپھرخداکی بارگاہ میں دعا کریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“
آیہء شریفہ میں گفتگونجران کے عیسائیوں کے بارے میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کوخداجانتے تھے اوران کے بغیرباپ کے پیداہونے کی وجہ سے ان کے خدا ہونے کی دلیل تصورکرتے تھے۔اس سے پہلی والی آیت میں ایاہے:
)آل عمران/۵۹)
”بیشک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہا کہ ہوجاؤ تو وہ خلق ہوگئے۔“
مذکورہ آیت ان کے دعوے کوباطل کرتی ہے۔یعنی اگرتم لوگ حضرت عیسی بن مریم علیہماالسلام کے بارے میں بغیرباپ کے پیداہونے کے سبب ان کے خدا ہونے کے قائل ہوتوحضرت آدم علیہ لسلام ماں اورباپ دونوں کے بغیرپیداہوئے ہیں،اس لئے وہ زیادہ حقدار وسزاوارہیں کہ تم لوگ ان کی خدائی کے معتقدہوجاؤ۔
اس قطعی برہان کے باوجود انہوں نے حق کوقبول کر نے سے انکارکیااوراپنے اعتقادپرڈٹے رہے۔
بعدوالی آیت میں خدائے متعال نے پیغمبراکرم (ص) سے مخاطب کر کے حکم دیاکہ انھیں مباہلہ کرنے کی دعوت دیں۔
اگرچہ اس آیت)آیہء مباہلہ)کے بارے میں بہت سی بحث ہیں،لیکن جوبات یہاں پرقابل توجہ ہے،وہ اہل بیت علیھم السلام،خاص کرحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں چندنکات ہیں،جوآنحضرت (ص) کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے تھے۔
مذکورہ آیہء شریفہ اوراس سے مربوط احادیث کی روشنی میں ہونے والی بحثیں مندرجہ ذیل پانچ محورپر استوارہے:
۱۔پیغمبراکرم (ص) ماٴمورتھے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساتھ لائیں؟
۲۔ان کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کامقصدکیاتھا؟
۳۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرت (ص) کن افراد کواپنے ساتھ لائے؟
۴۔آیہء مباہلہ میں حضرت علی علیہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء شریفہ میں حضرت علی علیہ السلام کونفس پیغمبر (ص)کہا گیاہے نیزاس سے مربوط حدیثیں۔
۵۔ان سوالات کا جواب کہ مذکورہ آیت کے ضمن میں پیش کئے جاتے ہیں۔

پہلامحور

 آیہء مباہلہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ پہلی بحث یہ کہ پیغمبراسلام (ص) کو مباہلہ کے سلسلہ میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تھی،اس سلسلہ میں ایہء شریفہ میں غوروخوض کے پیش نظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکھائی دیتے ہیں:
الف:”ابنائنا“اور”نسائنا“سے مرادکون لوگ ہیں؟
ب:”انفسنا“کامقصودکون ہے؟

ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بیٹے،اورچونکہ”ابناء کی“ضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“ کی طرف نسبت دی گئی ہے ۱ اوراس سے مرادخودآنحضرت (ص) ہیں،اس لئے آنحضرت (ص) کوکم ازکم تین افراد،جوان کے بیٹے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔

”نساء“اسم جمع ہے عورتوں کے معنی میں اورضمیرمتکلم مع الغیر یعنی ”نا“کی طرف اضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرت (ص) اپنے گھرانے میں موجود تمام عورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تین عورتوں کو)جوکم سے
۱۔اس آیہء شریفہ میں استعمال کئے گئے متکلم مع الغیر والی ضمیریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔”ندع“میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت علیہ السلام یعنی نصاریٰ مقصودہے،اور”ابناء“،”نساء“و”انفس“اس سے خارج ہیں۔اور”ابنائنا،”نسائنا“اور”انفسنا“میں خودپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقصودہیں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بھی اس سے خارج ہیں۔”نبتھل“ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہیں۔
کم جمع کی مقدار اور خاصیت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے۔
اس بحث میں قابل ذکرہے،وہ”اٴبنائناونسائناواٴنفسنا“کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالے جوابات محورمیں جومباہلہ کے ھدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بھی اس بحث کاتکملہ ہے۔
لیکن”اٴبناء“اور”نساء“کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ میں حاضرہوئے،ایک علیحدہ گفتگوہے جس پرتیسرے محورمیں بحث ہوگی۔

انفس،

نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضمیرمتکلم مع الغیر”نا“(جس سے مقصودخودآنحضرت (ص) کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہ پیغمبراسلام (ص) کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تین ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنے ساتھ لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے میں آتے ہوں۔ کیا”اٴنفسنا“خودپیغمبراکرم) ص)پرقابل انطباق ہے؟
اگر چہ”اٴنفسنا“ میں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقیقی معنی میںصرف رسول اللہ (ص) کے نفس مبارک پرہے،لیکن آیہء شریفہ میں موجود قرائن کے پیش نظر”اٴنفسنا“میں لفظ نفس کوخودآنحضرت (ص) پراطلاق نہیں کیاجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہیں:
۱۔”اٴنفسنا“جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہیں ہوتاہے۔
۲۔جملہءآنحضرت (ص) کواس کے حقیقی معنی میں دعوت دینے کاذمہ دارقراردیتا ہے اورحقیقی دعوت کبھی خودانسان سے متعلق نہیں ہوتی ہے،یعنی انسان خودکودعوت دے،یہ معقول نہیں ہے۔
اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکیاہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ“یا”دعوت نفسی“جیسے استعمال میں”دعوت“)دعوت دینا )جیسے افعال نفس سے تعلق پیداکرتے ہیں۔یہ اس نکتہ کے بارے میںغفلت کانتیجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس“خودانسان اوراس کی ذات کے معنی میں استعمال نہیں ہواہے،یا”دعوت سے مراد “(دعوت دینا)حقیقی نہیں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہ قتل اٴخیہ“کی مثال میں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنی یوں ہے ”اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بھائی کوقتل کرناآسان کردیا“اور”دعوت نفسی“کی مثال میں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہ کرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔
۳۔”ندع“اس جہت سے کہ خودپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اس لئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہیں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کا محورہو،اوروہ خودکوبھی دعوت دے دے۔

دوسرامحور:

مباہلہ میں اہل بیت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصد پیغمبراسلام (ص) کوکیوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبھی اپنے ساتھ لائیں،جبکہ یہ معلوم تھاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درمیان دعویٰ ہے اوراس داستان میں ایک طرف خودپیغمبر (ص) اور دوسری طرف نجران کے عیسائیوں کے نمائندے تھے؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آنحضرت (ص) کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے میدان مباہلہ میں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرت (ص) کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحیح ہونے کے سلسلہ میں لوگوں کواطمینان ویقین دکھلانا تھا،کیونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز ترین اشخاص کو اپنے ساتھ لاناصرف اسی صورت میں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کے صحیح ہونے پرمکمل یقین رکھتاہو۔اوراس طرح کااطمینان نہ رکھنے کی صورت میں گویا اپنے ہاتھوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے میں ڈالناہے اورکوئی بھی عقلمند انسان ایسااقدام نہیں کرسکتا۔
پیغمبراکرم (ص) کے تمام رشتہ داروں میں سے صرف چنداشخاص کے میدان مباہلہ میں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجیہ صحیح نہیں ہوسکتی ہے،کیونکہ اس صورت میں اس خاندان کامیدان مباہلہ میں حاضرہونااور اس میں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضیلت اورقدرمنزلت کاباعث نہیں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن میں بیان ہونے والی احادیث میں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجرامیں پیغمبراسلام (ص) کے ہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضیلت ہے۔
اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہیں:
”وفيه دليل لاشيئ اقویٰ منه علی فضله اصحاب الکساء“۱
”آیہء کریمہ میں اصحاب کساء)علیہم السلام)کی فضیلت پرقوی ترین دلیل موجود ہے“
آلوسی کاروح المعانی میں کہناہے:
”و دلالتها علی فضل آل اللّٰه و رسوله (ص) ممّا لايمتری فيهامؤمن والنصب جازم الايمان“۲
”آیہ کریمہ میں ال پیغمبر (ص)کہ جو آل اللہ ہیں ان کی فضیلت ہے اوررسول اللہ (ص) کی فضیلت،ایسے امور میں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہیں کر سکتا ہے اور خاندان پیغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے“
اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے لیکن اس کے بعد میں آنے والی سطروں میں اس نے ایک عظیم فضیلت کو خاندان پیغمبر (ص) سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔۳
اب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے کیوں حکم دیاکہ اہل بیت علہیم السلام پیغمبراکرم (ص) کے ساتھ مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہم پھرسے آیہء شریفہ کی طرف پلٹتے ہیں
آیہء شریفہ میں پہلے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے’اٴبناء“،”نسا ء“ اور”اٴنفس“کودعوت دینااورپھردعاکرنااورجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردینابیان ہواہے۔
آیہء مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کی فضیلت وعظمت کی بلندی مفسرین نے کلمہ”ابتھال“کودعامیں تضرع یانفرین اورلعنت بھیجنے کے معنی میں لیاہے اوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہیں رکھتے ہیں اور”ابتھال“کے یہ دونوں معافی ہوسکتے ہیں۔
آیہء شریفہ میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں،ایک ابتھال جو”نبتھل“کی لفظ سے استفادہ ہو تاہے اوردوسرے ”ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ میں جھوٹے ہیں“کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں میں سے ہرایک کے لئے خارج میں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجھوٹوں پرخداکی لعنت قراردیناہے پہلے فقرے ابتہال پر”فاء“کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببیت کے معنی میں ہے عطف ہے۔
لہذا،اس بیان کے پیش نظرپیغمبراکرم (ص) اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کا تضرع)رجوع الی اللہ)ہے اورجھوٹوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہ ایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانھیں سزادیناپیغمبراسلام (ص) اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرت (ص) کے اہل بیت)علیہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابر ہے۔
اگرکہاجائے کہ:میں”فاء“اگرچہ ترتیب کے لئے ہے لیکن ایسے مواقع پر”فاء“کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تیب کہ جس پر کلمہ ”فاء“ دلالت کرتا ہے وہ تر تیب ذکری ہے جیسے:
)ہود/۴۵)
”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگارامیرافرزندمیری اہل سے ہے۔“
یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔“جملہ ”فنادیٰ“ کوبیان )تفسیر)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:
اولاً:جس پرکلمہ”فاء“دلالت کرتاہے وہ ترتیب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقیقت یہ ہے کہ”جن دوجملوں کے درمیان”فاء“نے رابطہ پیداکیاہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرے جملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے“
اوریہ”فاء“کاحقیقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتیب ذکری پر”فاء“کی دلالت اس کے خارج میں دومضمون کی ترتیب کے معنی میں نہیں ہے،بلکہ لفظ اور کلام میں ترتیب ہے لہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہیں کر سکتے۔اس صورت میں ایہء شریفہ آنحضرت (ص) کے خاندان کے لئے ایک عظیم مر تبہ پردلالت رہی ہے کیونکہ ان کی دعاپیغمبراسلام (ص) کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ میں جھوٹ بولنے والوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔
دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ“میں مابعد”فاء“جملہء سابق یعنی ”نبتھل“کے لئے بیّن اورمفسّرہونے کی صلاحیت نہیںرکھتاہے،کیونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلب کر ناہے نہ جھوٹوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پیش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینی امر ہے) پہلے پیغمبراسلام (ص)اورآپکے اہل بیت علیہم السلام سے مستندہے اوردوسرے”فاء“تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقیقت کا ادراک خودنجران کے عیسائیوں نے بھی کیاہے۔اس سلسلہ میں ہم فخررازی کی تفسیر میںذکرکئے گئے حدیث کے ایک جملہ پرتوجہ کرتے ہیں:
”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: يامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوهاً لوساٴلو الله اٴن يزيل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها فلا تباهلوا فتهلکوا ولايبقی علی وجه الاٴرض نصرانّی إلیٰ يوم القيامة۔“4
”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکھ کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے نصرانیو!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ٹلنے کا٘ مطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کھسک جا ئیں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہ کرنا،ورنہ ھلاک ہوجاؤگے اورزمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔“
غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون میں درج ذیل امورواضح طور پربیان ہوئے ہیں:
۱۔پیغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بیت علیہم السلام کواپنے ساتھ لے آئے تاکہ وہ آپ کے ساتھ اس فیصلہ کن دعامیں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جھوٹوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے میں مؤثرواقع ہو۔
۲۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بیت (ع)کاایمان و یقین نیز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصد تمام لوگوں کے لئے واضح ہوگیا۔
۳۔اس واقعہ سے آنحضرت (ص) کے اہل بیت علیہم السلام کا بلند مرتبہ نیز اہل بیت کی آنحضرت (ص) سے قربت دنیاوالوں پرواضح ہوگئی۔
اب ہم یہ دکھیں گے کہ پیغمبراسلام)ص)”اٴبنائنا“)اپنے بیٹوں)”نسائنا“)اپنی عورتوں)اور”اٴنفسنا“)اپنے نفسوں)میں سے کن کواپنے ساتھ لاتے ہیں؟

تیسرامحور

مباہلہ میں پیغمبر (ص)اپنے ساتھ کس کو لے گئے شیعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پیغمبراسلام (ص) مباہلہ کے لئے علی، فاطمہ، حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساتھ نہیں لائے۔اس سلسلہ میں چندمسائل قابل غورہیں:
الف:وہ احادیث جن میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت علیہم السلام کامیدان مباہلہ میں حاضرہونابیان کیاگیاہے۔
ب:ان احادیث کا معتبراورصحیح ہونا۔
ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں میںذکرہوئی قابل توجہ روایتیں۔
مباہلہ میں اہل بیت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے میں حدیثیں ۱۔اہل سنّت کی حد یثیں:
چونکہ اس کتاب میں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانھیں کے منابع سے احادیث نقل کی جائیں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جا رہی ہیں:

پہلی حدیث:

 صحیح مسلم)۱)سنن ترمذی)۲)اورمسنداحمد)۳)میںیہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کی متفق اور مسلم لفظیں یہ ہیں:
۱۔صحیح مسلم،ج۵،ص۲۳کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابیطالب،ح۳۲،موسسئہ عزالدین للطباعةوالنشر
۲۔سنن ترمذی،ج۵،ص۵۶۵ دارالفکر ۳۔مسنداحمد،ج،۱،ص۱۸۵،دارصادر،بیروت
”حدثنا قتيبة بن سعيد و محمد بن عباد۔۔۔ قالا: حدثنا حاتم )و هو ابن اسماعيل ) عن بکير بن مسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبيه، قال: اٴمر معاويه بن اٴبی سفيان سعدا ًفقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالهنّ له رسواللّٰه (ص) فلن اٴسبّه۔ لاٴن تکون لی واحدة منهنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم۔سمعت رسول للّٰه (ص) يقول له لماّ خلّفه فی بعض مغازيه فقال له علیّ: يا رسول اللّٰه، خلّفتنی مع النساء والصبيان؟ فقال له رسول اللّٰه (ص):اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة هارون من موسی إلاّ انه لانبوة بعدی؟و سمعته يقول یوم خیبر: لاٴُعطیّن الراية رجلاً يحبّ اللّٰه و رسوله و یحبّه اللّٰه و رسوله۔ قال: فتطاولنا لها۔ فقال: اُدعو الی علياً فاٴُتی به اٴرمد، فبصق فی عينه ودفع الراية إليه،ففتح اللّٰه عليه۔
ولماّنزلت هذه الايةدعا
رسول اللّٰه-صلی اللّٰه عليه وسلم -علياًوفاطمةوحسناًوحسيناً،
فقال:اللّهمّ هؤلائ اهلی“۔
”قتیبةبن سعید اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،-- عامربن سعدبن ابی وقاص سے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمھیں ابوتراب)علی بن ابیطالب علیہ السلام)کودشنام دینے اور برا بھلا کہنے سے کو نسی چیز مانع ہوئی)سعدنے)کہا:مجھے تین چیزیں)تین فضیلتیں)یادہیں کہ جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے،لہذامیں انھیں کبھی بھی برابھلا نہیں کہوں گا۔اگرمجھ میں ان تین فضیلتوں میں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے محبوب ترہوتی:

۱۔میں نے پیغمبرخدا (ص) سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انھیں)حضرت علی علیہ السلام)مدینہ میں اپنی جگہ پررکھاتھااورعلی(علیہ السلام)نے کہا:یارسول اللہ!کیاآپمجھے عورتوں اوربچوں کے ساتھ مدینہ میں چھوڑرہے ہیں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کیاتم اس پرراضی نہیں ہوکہ میرے ساتھ تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)علیہ السلام )کے ساتھ تھی،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبرنہیں ہو گا؟ ۲۔میں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خیبر علی کے با رے میں فرمایا:بیشک میں پرچم اس شخص کے ہاتھ میں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکھتاہے اورخداورسول (ص)اس کو دوست رکھتے ہیں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراٹھاکر دیکھ رہے تھے)کہ آنحضرت (ص) اس امر کے لئے ہمیں مقررفرماتے ہیںیانہیں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو میرے پاس بلاؤ ۔ علی (علیہ السلام) کو ایسی حالات میں آپکے پاس لایا گیا، جبکہ ان کی آنکھوں میں دردتھا،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکھوں میں لگا یااورپرچم ان کے ہاتھ میں تھمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کوفتح عطاکی۔

۳۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:< قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم۔۔۔>توپیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین) علیہم السلام )کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ میرے اہل بیت ہیں۔“
اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:

۱۔حدیث میں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلهمّ ھٰؤلاء اٴ ھلی“خدایا!یہ میرے اہل ہیں،اس بات پردلالت کرتاہے”اٴبناء“”نساء“اور”اٴنفس“جوآیہء شریفہ میں ائے ہیں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل ہیں۔

۲۔”اٴبناء“”نساء“و”اٴنفس“میں سے ہرایک جمع مضاف ہیں)جیساکہ پہلے بیان کیاگیا)اس کا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بیٹوں،عورتوں اور وہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تھی،سب کومیدان مباہلہ میں لائیں،جبکہ آپ نے”اٴبناء“میں سے صرف حسن وحسیںعلیہما السلام کواور”نساء“سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہاکواور”اٴنفس“سے صرف حضرت علی علیہ السلام کواپنے ساتھ لایا۔اس مطلب کے پیش نظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ میرے اہل ہیں“اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت (ص) کے اہل صرف یہی حضرات ہیں اورآنحضرت (ص) کی بیویاں اس معنی میں اپکے اہل کے دائرے سے خارج ہیں۔

۳۔”اہل“اور”اہل بیت“کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہیں جوپنجتن پاک کہ جن کوآل عبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہیں ہو تاہے۔یہ مطلب،پیغمبراسلام (ص) کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہیر کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بیان کی ہیں گئی بخوبی استفادہ کیا جاسکتاہے۔

دوسری حدیث:

 فخررازی نے تفسیرکبیرمیں ایہء مباہلہ کے ذیل میں لکھاہے:
”روی اٴنّه - عليه السلام - لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّهم اٴصروا علی جهلهم، فقال - عليه السلام - إنّ اللّٰه اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباهلکم۔ فقالوا: يا اٴبا القاسم، بل نرجع فننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتيک۔
فلمّا رجعوا قالوا للعاقب - وکان ذاراٴيهم - :يا عبدالمسيح، ماتری؟ فقال: و اللّٰه لقد عرفتم يا معشر النصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰه ما باهل قوم نبياً قط فعاش کبيرهم و لا نبت صغيرهم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبيتم إلاّ الإصرار علی دينکم و الإقامة علی ما اٴنتم عليه فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم۔ و کان رسول اللّٰه (ص)خرج وعليه مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسين واٴخذ بيد الحسن، و فاطمه تمشی خلفه وعلی - عليه السلام - خلفها، و هو يقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: يا معشر النصاری! إنّی لاٴری وجوها ًلو ساٴلوا اللّٰه اٴن يزيل جبلاً من مکانه لاٴزاله بها! فلا تباهلوا فتهلکوا، و لا يبقی علی وجه الاٴض نصرانیّ إلی يوم القيامة۔ ثمّ قالوا: يا اٴبا القاسم! راٴينا اٴن لا نباهلک و اٴن نقرّک علی دينک فقال:- صلوات اللّٰه عليه - فإذا اٴبيتم المباهلة فاسلموا يکن لکم ما للمسلمين، و عليکم ما علی المسلمين، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحرب العرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن ديننا علی اٴن نؤدّی إليک فی کل عام اٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثين درعاً عادية من حديد، فصالحهم علی ذلک۔وقال: والّذی نفسی بيده إنّ الهلاک قد تدلّی علی اٴهل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة و خنازير و لاضطرم عليهم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰه نجران واٴهله حتی الطير علی رؤس الشجر و لما حالا لحوال علی النصاری کلّهم حتی يهلکوا و روی اٴنّه - عليه السلام -لمّ خرج فی المرط الاٴسود فجاء الحسن -عليه السلام - فاٴدخله، ثمّ جائ الحسين -عليه السلام - فاٴدخله ،ثمّ فاطمة - عليها السلام - ثمّ علی - عليه السلام - ثمّ قال:واعلم اٴنّ هذه الرواية کالمتّفق علی صحّتها بين اٴهل التّفسير والحديث۔“5
”جب پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں پردلائل واضح کردئے اور انہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکیا،تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:خدائے متعال نے مجھے حکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہیں کیا تو تمہارے ساتھ مباہلہ کروں گا۔“)انہوں نے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہیں تاکہ اپنے کام کے بارے میںغوروفکرکرلیں،پھرآپکے پاس آئیں گے۔
جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انھوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کا نام”عاقب“تھا اس سے کہا:اے عبدالمسیح!اس سلسلہ میں آپ کانظریہ کیا ہے؟اس نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا للہ کے رسول ہیں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام)کے بارے میں حق بات کہتے ہیں۔خداکی قسم کسی بھی قوم نے اپنے پیغمبرسے مباہلہ نہیں کیا،مگر یہ کہ اس قوم کے چھوٹے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کیاتو سب کے سب ہلاک ہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمھیں اصرار ہے توانہیں چھوڑکراپنے شہر واپس چلے جاؤ۔پیغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت میں باہرتشریف لائے کہ حسین(علیہ السلام)آپکی آغوش میں تھے،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے تھے،فاطمہ (سلام اللہ علیہا)آپکے پیچھے اورعلی(علیہ السلام)فاطمہ کے پیچھے چل رہے تھے۔آنحضرت (ص)فرماتے تھے:”جب میں دعامانگوں تو تم لوگ آمین کہنا“نجران کے پادری نے کہا:اے گروہ نصاریٰ!میں ایسے چہروں کودیکھ رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹ جائے تو وہ اپنی جگہ چھوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساتھ مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اور روی زمین پرقیامت تک کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اے اباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہیں کریں گے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہیں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصان میں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبھی قبول نہیں کیا۔آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت میں تمھارے ساتھ ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے۔لیکن ہم آپ کے ساتھ صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساتھ جنگ نہ کریں اورہمیں اپنادین چھوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ میں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایک ہزار لباس صفرکے مہینہ میں اورایک ہزارلباس رجب کے مہینہ میں اورتیس ہزارآ ہنی زرہ اداکریں گے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر لیااس طرح ان کے ساتھ صلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،اہل نجران نابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تھے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل میں مسنح ہوجاتے اورجس صحرامیں سکونت اختیار کر تے اس میں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجران اوراس کے باشندوں کو نیست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بھی ہلاک ہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عیسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت میں ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنے بیٹے)حسن(علیہ السلام)کوبھی اس میں داخل کر لیا،اس کے بعدحسین(علیہ السلام) آگئے انہیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعدعلی و فاطمہ )علیہما السلام) تشریف لائے اس کے بعد فرمایا: ”پس اللہ کاارادہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر طرح کی کثافت وپلیدی سے دوررکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جو پاک وپاکیزہ رکھنے کاحق ہے۔“علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے میں کہا ہے کہ تمام علماء تفسیر و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق علیہ ہے۔“

حدیث میں قابل استفادہ نکات:

 اس حدیث میں درج ذیل نکات قابل توجہ ہیں:
۱۔اس حدیث میںرسول (ص) کے اہل بیت کاحضور اس صورت میں بیان ہواہے کہ خودآنحضرت (ص) آگے آگے)حسین علیہ السلام)کوگود میں لئے ہوئے ،حسن(علیہ السلام)کاہاتھ پکڑے ہوئے جوحسین(علیہ السلام)سے قدرے بڑے ہیں اورآپکی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہاآپکے پیچھے اوران کے پیچھے(علیہ السلام) ہیں۔یہ کیفیت انتہائی دلچسپ اور نمایاں تھی۔کیو نکہ یہ شکل ترتیب آیہء مباہلہ میںذکرہوئی تر تیب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اس ہماہنگی کا درج ذیل ابعادمیں تجزیہ کیاجاسکتاہے:
الف:ان کے آنے کی ترتیب وہی ہے جوآیہء شریفہ میں بیان ہوئی ہے۔یعنی پہلے ”اٴبناء نا“اس کے بعد”نسائنا“اورپھرآخرپر”اٴ نفسنا“ہے۔
ب:یہ کہ رسول خدا (ص) اپنے چھوٹے فرزندحسین بن علی علیہماالسلام کوآغوش میں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی علیہماالسلام کاہاتھ پکڑے ہوئے ہیں،یہ آیہء شریفہ میں بیان ہوئے”بناء نا“ کی عینی تعبیرہے۔
ج۔بیچ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کاقرارپانااس گروہ میں”نساء نا“کے منحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپیچھے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ میں”نساء نا“کی مجسم تصویر کشی ہے۔
۲۔اس حدیث میں پیغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بیت علیہم السلام سے فرمایا:اذادعوت فاٴ منوا“یعنی:جب میں دعاکروں توتم لوگ آمین ۱کہنااوریہ وہی
۱۔دعا کے بعد آمین کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔
چیزہے جوآیہء مباہلہ میں ائی ہے:
یہاں پر”ابتھال“)دعا)کوصرف پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئی ہے،بلکہ”ابتھال“پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت میں اورآپ کے ہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمین کہنے کی صورت میں محقق ہونا چاہئے تاکہ )اس واقعہ میں)جھوٹوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جیساکہ گزر چکا ہے۔
۳۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بیت علیہم السلام کی عظمت وفضیلت کا اعتراف یہاں تک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکھنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔

تیسری حدیث:

 ایک اورحدیث جس میں”اٴبنائنا“،”نسائنا“اور”اٴنفسنا“کی لفظیںصرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام پر صادق آتی ہیں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری“ہے۔اس حدیث میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکیل ہوئی اورعثمان کی خلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہیں۔اس طرح سے کہ ان تمام فضیلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہیں خداکی قسم دیتے ہیں اور ان تمام فضیلتوں کو اپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف لیتے ہیں۔حدیث یوں ہے:
”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰه محمد بن إبرهم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنا اٴبوالحسن العتيقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعيد، اٴنا يحی بن ذکريا بن شيبان، اٴنا يعقوب بن سعيد، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰه،عن سفيان الشوری، عن اٴبن إسحاق السبيعی، عن عاصم بن ضمرةوهبيرة و عن العلاء بن صالح، عن المنهال بن عمرو، عن عبادبن عبداللّٰه الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب يوم الشوری: واللّٰه لاٴحتجنّ عليهم بمالايستطيع قُرَشيّهم و لا عربيّهم و لا عجميّهم ردّه و لا يقول خلافه۔ ثمّ قال لعثمان بن عفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبير و لطلحة وسعد - و هن اٴصحاب الشوری و کلّهم من قريش، و قد کان قدم طلحة - اُنشدکم باللّٰه الذی لا إله إلّاهو، اٴفيکم اٴحد وحّد اللّٰه قبلی؟ قالوا:اللّهمَّ لا۔ قال: اٴنشدکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰه - صلی اللّٰه عليه وسلم - غيری، إذ آخی بين المؤمنين فاٴخی بينی و بين نفسه و جعلنی منه بمنزلة هارون من موسی إلّا اٴنی لست بنبیً؟قالوا:لا۔قال:اٴنشدکم باللّٰه،اٴفيکم مطهَّرغيری،إذسدّ رسول اللّٰه (ص) اٴبوابکم و فتح بابی و کنت معه فی مساکنه ومسجده؟ فقام إليه عمّه فقال: يا رسول اللّٰه، غلّقت اٴبوابنا و فتحت باب علیّ؟ قال: نعم، اللّٰه اٴمر بفتح با به وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا:اللّهمّ لا۔ قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد اٴحب إلی للّٰه و إلی رسوله منّی إذ دفع الراية إلیّ يوم خير فقال : لاٴعطينّ الراية إلی من يحبّ اللّٰه و رسوله و يحبّه اللّٰه و رسوله، و يوم الطائر إذ يقول: ” اللّهمّ ائتنی باٴحب خلقک إليک ياٴکل معی“، فجئت فقال: ” اللّهمّ و إلی رسولک ، اللّهمّ و إلی رسولک“
غيری؟ 6 قالوا:اللّهمّ لا قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد قدم بين يدی نجواه صدقة غيری حتی رفع اللّٰه ذلک الحکم؟ قالوا: اللّهمّ لا۔قال:نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم من قتل مشرکی قريش و العرب فی اللّٰه و فی رسوله غيری؟ قالوا:اللّهمّ لا۔قال: نشدتکم باللّٰه، اٴفيکم اٴحد دعا رسول اللّٰه (ص) فيالعلم و اٴن يکون اُذنه الو اعية مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّهمّ لا قال: نشدتکم باللّٰه، هل فيکم اٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰه (ص) فی الرحم و من جعله و رسول اللّٰه (ص) نفسه و إبناء اٴنبائه و۔۔۔غيری؟ قالوا:اللّٰهم لا۔۔۔“7
اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبیرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:
”خداکی قسم بیشک میں تمہارے سامنے ایسے استدلال پیش کروں گا کہ اھل عرب و عجم نیز قریش میں سے کوئی شخص بھی اس کومستردنہیں کرسکتااورمذھبی اس کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے۔میں تمھیں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہیں ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس نے مجھ سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟ انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہیں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جورسول (ص) کا بھائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنین کے درمیان اخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجھے اپنا بھائی بنایااور میرے بارے
میں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجھ سے ویسی ہی جیسے ہارون کی موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میں نبی نہیں ہوں “۔ انہوں نے کہا:نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کیامیرے علاوہ تم لوگوں میں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکیزہ قراردیاگیاہو،جب کہ پیغمبرخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمھارے گھروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئیے تھے اورمیرے گھرکادروازہ کھلارکھا تھااورمیں مسکن ومسجدکے سلسلہ میں انحضرت (ص)کے ساتھ )اور آپ کے حکم میں)تھا،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اٹھے اورکہا:اے اللہ کے رسول !ہمارے گھروں کے دروازے بند کر دئیے اورعلی) علیہ السلام )کے گھرکاادروازہ کھلارکھا؟
پیغمبر (ص) نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہ کوکھلارکھنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟
انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیا تمہارے درمیان کوئی ہے جسے خدااوررسول مجھ سے زیادہ دوست رکھتے ہوں،جبکہ پیغمبر (ص)نے خیبرکے دن علم اٹھاکرفرمایا”بیشک میں علم اس کے ہاتھ میں دونگاجوخداورسول (ص) کودوست رکھتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکھتے ہیں“اورجس دن بھنے ہوئے پرندہ کے بارے میں فرمایا:”خدایا!میرے پاس اس شخص کو بھیج جسے توسب سے زیادہ چاھتا ہے تاکہ وہ میرے ساتھ کھا نا کھائے۔“اوراس دعاکے نتیجہ میں،میں اگیا۔میرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہ اتفاق پیش آیا ہو؟
انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم دلاتاہوں،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے پیغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کو منسوخ کر دیا؟
انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریش اورعرب کے مشرکین کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ میں قتل کیاہو؟
انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔
فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں میرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حق میں پیغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ میں دعاکی ہواوراذن واعیہ)گوش شنوا)کا خدا سے مطالبہ کیاہو،جس طرح میرے حق میں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔فرمایا:تمھیں خداکی قسم ہے،کیاتم لوگوں میں کوئی ہے جوپیغمبراکرم (ص)سے رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپیغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بیٹوں کواپنے بیٹے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہیں۔“
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث میں مباہلہ میں شریک ہو نے والے افراد،کہ جنھیں پیغمبراکرم (ص)اپنے ساتھ لائے تھے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسین )علیہم السلام)کی ذات تک محدود ہیں۔

حدیث کامعتبرراورصحیح ہونا:

 ا ہل سنت کی احادیث کے بارے میں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہیں،اوران احادیث کے مضمون کی صحت کے بارے میں یعنی مباہلہ میں صرف پنجتن آل عبا)پیغمبر کے علاوہ علی،فاطمہ حسن وحسین علیہم السلام)ہی شا مل تھے اس حوالے سے صرف حاکم نیشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث“۱میں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقل کرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی علیہ السلام،”نسائنا“سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہااور”اٴبناء نا“سے حسن وحسین علیہما السلام مراد لیتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اور دوسروں سے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بیت(ع)کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”ہؤلائ اٴبنائناواٴنفسنا ونسائنا“کے سلسلہ میں یاددہانی کراتاہے۔8
چنا نچہ اس باب میں اصحاب کے ایک گروہ جیسے جابربن عبداللہ،ابن عباس اور امیرالمؤمنین کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہیں،اس مختصرکتاب میں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے،اس لئے ہم حاشیہ میں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنے ہی پر اکتفاکرتے ہیں9

۲۔شیعہ امامیہ کی احادیث شیعہ روایتوں میں بھی اس واقعہ کے بارے میں بہت سی فراوان احادیث موجود ہیں،یہاں پرہم ان میں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہیں:

پہلی حدیث

 امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عیسائی پیغمبراسلام (ص) کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گیاوہیں پرگھنٹی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑھنا شروع کےا۔اصحاب نے کہا:اللہ کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد میںیوںعمل کررہے ہیں!آپ نے فرما یا: انھیں عمل کر نے دو۔
جب نمازسے فارغ ہوئے،پیغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہمیں آپ کس چیزکی دعوت دیتے ہو؟

النيشابوری/ج۳/ص۲۱۳/دارالمعرفة بيروت،تلخيص المستدرک/ج۳/ص۱۵۰/دارالمعرفة بيروت،جامع احکام القرآن/قرطبی/ج۴/ص۱۰۴/دارالفکر، جامع الاصول/ج۹/ص۴۶۹داراحياء التراث العربی،الجامع الصحيح للترمذی/ج۵/ص۵۹۶/دارالفکر، الدرالمنثور/ج۲/ص۲۳۳۔۲۳۰/دارالفکر، دلائل النبوة ابونعيم اصفهانی/ص۲۹۷، ذخائر العقبی/ص۲۵/مؤسسةالوفائ بيروت، روح المعانی/ج۳/ص۱۸۹/داراحيائ التراث العربی، الرياض النضرة/ج۳/ص۱۳۴/دارالندوة الجديد بيروت، زاد المسير فی علم التفسير/ج۱/ص۳۳۹/دارالفکر، شواهد التنزيل/حاکم حسکانی/ج۱/ص۱۶۷۔۱۵۵/مجمع احيائ الثقافة الاسلامية، صحيح مسلم/ج۵/ص۲۳/کتاب فضائل الصحابة/باب فضائل علی بن ابی طالب /ح۳۲/مؤ سسة عزّالدين، الصواعق المحرقة/ص۱۴۵/مکتبة القاهرة، فتح القدير/ج۱/ص۳۱۶/ط مصر )به نقل احقاق)، فرائد السمطين/ج۲/ص۲۳،۲۴/مؤ سسةالمحموديبيروت، الفصول المهمة/ص۲۵۔۲۳،۱۲۶۔۱۲۷/منشورات الاعلمی، کتاب التسهيل لعلوم التنزيل /ج۱/ص۱۰۹/دارالفکر، الکشاف/ج۱/دارالمعرفة بيروت، مدارج النبوة/ص۵۰۰بمبئی)به نقل احقاق)،المستدرک علی الصحيحن/ج۳/ص۱۵۰/دارالعرفةبيروت،مسند احمد/ج۱/ص۱۸۵/دار صادربيروت، مشکوةالمصابيح/ج۳/ص۱۷۳۱/المکتب الاسلامی، مصابيح السنة/ج۴/ص۱۸۳/دارالمعرفة بيروت، مطالب السئول/ص۷/چاپ تهران، معالم التنزيل /ج۱/ص۴۸۰/دارالفکر، معرفة اصول الحديث/ص۵۰/دارالکتب العلمية بيروت، مناقب ابن مغازلي /ص۲۶۳/المکتبة الاسلامية تهران

آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، میں خدا کارسول ہوں اورعیسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہیںوہ کھاتے اورپیتے ہیں نیزقضائے حاجت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہیں تواس کاباپ کون ہے؟
پیغمبرخدا (ص) پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں کیاکہتے ہیں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہیں اورکھاتے اورپیتے ہیں…اورنکاح کرتے ہیں۔
آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم علیہ السلام کا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتیں نازل فرمائیں:
(آل عمران /۶۱)
”عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے کہ انھیں مٹی سے پیداکیااورپھرکہاہوجاتو وہ پیداہوگئے…اے پیغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہدیجئے کہ ٹھیک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بھی اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں پھرخداکی بارگاہ میں دونوں ملکردعاکریں اورجھوٹوں پرخداکی لعنت کریں“
پیغمبراکرم (ص) نے فرمایا:”میرے ساتھ مباہلہ کرو،اگر میں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوں پرعذاب نازل ہوگااوراگرمیں نے جھوٹ کہاہوگاتومجھ پر عذاب نازل ہوگا“
انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پیش کیاہے اورمباہلہ کوقبول کیا۔جب وہ لوگ اپنے گھروں کولوٹے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کے لئے تشریف لا ئیں ،تووہ پیغمبرنہیں ہیں،اس صورت میں ہم ان کے ساتھ مباہلہ کریں گے،لیکن اگر وہ اپنے اہل بیت)علیہم السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئیں توہم ان کے ساتھ مباہلہ نہیں کریں گے۔
صبح کے وقت جب وہ میدان مباہلہ میں اگئے تودیکھاکہ پیغمبر (ص) کے ساتھ علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام ہیں۔اس وقت انہوں نے پوچھا:یہ کون لوگ ہیں؟ان سے کہاگیا:وہ مردان کاچچا زادبھائی اورداماد علی بن ابیطالب ہیں اور وہ عورت ان کی بیٹی فاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسین )علیہماالسلام)ہیں۔
انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کیا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طا لب ہیں۔ہمیں مباہلہ سے معاف فرمائیں۔“آنحضرت (ص) نے ان کے ساتھ صلح کی اورطے پایاکہ وہ جزیہ اداکریں۔10

دوسری حدیث

 سیدبحرانی،تفسیر”البرہان“میں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں:
”حضرت)امام رضا علیہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساتھ)عترت وامت میں فرق اورعترت کی امت پرفضیلت کے بارے میں)اپنی گفتگو میں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال

ان افرادکے بارے میں بیان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکیزگی کے مالک ہیں،اور خدااپنے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بیت کو اپنے ساتھ لائیں اورفرماتاہے:
علماء نے حضرت سے کہا: آیہ میں’اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبر (ص) ہیں!امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجھا ہے۔بلکہ”اٴنفسنا“ سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام)ہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص) نے بنی ولیعہ سے فرمایا: ”اٴولاٴبعثنّ إليهم رجلاً کنفسی“یعنی:”بنی ولیعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے، ورنہ میں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔“
”اٴبنا ء نا“ کے مصداق حسن وحسین)علیہماالسلام)ہیں اور”نساء نا“سے مراد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہیں اوریہ ایسی فضیلت ہے،جس تک کوئی نہیں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندی ہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہیں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئی حاصل نہیں کرسکتاہے۔یعنی علی(علیہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔11

تیسری حدیث

 اس حدیث میں،ہارون رشید،موسی بن جعفر علیہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرح اپنے آپ کوپیغمبر (ص) کی اولادجانتے ہیں جبکہ انسانی نسل بیٹے سے پھیلتی ہے اورآپ پیغمبر (ص) کی بیٹی کے بیٹے ہیں؟
امام )علیہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اس مسئلہ میں اپ کواپنی دلیل ضروربیان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی علیہ السلام کا یہ دعوی
ہے آپ لوگ قرآن مجیدکامکمل علم رکھتے ہیں نیز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجیدکاایک حرف بھی آپ کے علم سے خارج نہیں ہے اوراس سلسلہ میں خداوندمتعال کے قول:12
سے استدلال کرتے ہیں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قیاس سے اپنے آپ کوبے نیاز جانتے ہو!
حضرت)امام مو سی کاظم علیہ السلام)نے ہارون کے جواب میں اس آیہء شریفہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوحضرت ابراھیم علیہ السلام کی ذریت تایاگیا ہے:
< و من ذرّيته داود و سليمان و اٴيوب و يوسف و موسی و هارون و کٰذلک نجزی المحسنين زکريا و يحی و عيسی وإلياس۔۔۔>13
”اورپھرابراھیم کی اولاد میں داؤد،سلیمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہیں۔اورزکریا،یحیٰ،عیسیٰ اورالیاس کو بھی رکھاجوسب کے سب نیک عمل انجام دینے والے ہیں ۔“
اس کے بعد امام (علیہ السلام)نے ہارون سے سوال کیا:حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کاباپ کون تھا؟اس نے جواب میں کہا:عیسیٰ(علیہ السلام)بغیرباپ کے پیداہوئے ہیں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عیسی کوحضرت مریم(سلام اللہ علیہا)کے ذریعہ ذریت انبیاء)علیہم السلام)سے ملحق کیاہے اسی طرح ہمیں بھی اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہاکے ذریعہ پیغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔
اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دلیل پیش کی اور اس کے لئے
آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہیں کیاہے کہ مباہلہ کے دوران، پیغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساء داخل کیاہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ میں”اٴبنائنا“سے مرادحسن وحسین) علیہماالسلام) ”نسائنا“سے مرادفاطمہ (سلام اللہ علیہا) اور”اٴنفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں۔14

چوتھی حدیث

 اس حدیث میں کہ جسے شیخ مفیدنے”الاختصاص“میںذکرکیاہے۔موسی بن جعفرعلیہ السلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کیاہے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے اہل نجران کومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نیچے اہل بیت رسول تشریف فرما تھے (علی، فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔اس بنائ پرخدائے متعال کے قول:< فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم> میں ”اٴبنائنا“سے حسن وحسین)علیہماالسلام)”نسائنا“سے فاطمہ سلام اللہ علیہااور ”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔15

شیخ محمدعبدہ اوررشیدرضاسے ایک گفتگو

 صاحب تفسیر”المنار“پہلے تو فر ما تے ہیں کہ”روایت ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے مباہلہ کے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بیٹوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخاب کیااورانھیں میدان میں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرمیں دعا کروں تو تم لوگ آمین کہنا“روایت کوجاری رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ مسلم اورترمذی کو بھی نقل کرتے ہیں اس کے بعد کہتے ہیں:
استادامام)شیخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ میںروایتیں متفق علیہ ہیں کہ پیغمبر (ص) نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بیٹوں کومنتخب کیا ہے اورآیہء شریفہ میں لفظ”نسائنا“ فاطمہئ کے لئے اورلفظ”اٴنفسنا“ کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔لیکن ان روایتوں کاسرچشمہ شیعہ منابع ہیں)اورانہوں نے یہ احادیث گھڑلی ہیں)اور اس سے ان کا مقصدبھی معلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہیں اوران کی یہ روش بہت سے سنّیوں میں بھی عام ہو گئی ہے!لیکن جنہوں نے ان روایتوں کوگھڑا ہے،وہ ٹھیک طریقہ سے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہیں کرسکے ہیں،کیونکہ لفظ”نساء“کا استعمال کسی بھی عربی لغت میں کسی کی بیٹی کے لئے نہیں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کی بیویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بھی زیادہ بعید یہ ہے کہ ”اٴنفسنا“سے مراد علی (ع)کو لیا جائے“16
استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحین میں ہوتا ہے انتہائی حیرت انگیزہے۔باوجوداس کے کہ انھوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہ ہونے کو تسلیم کیا ہے،پھربھی انھیں جعلی اور من گھڑت کہاہے۔
کیاایک عام مسلمان ،چہ جائیکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایک ایسی حقیقت کوآسانی کے ساتھ جھٹلادے کہ جورسول اللہ (ص) کی صحیح ومعتبر سنّت میں مستحکم اور پائداربنیادرکھتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانیدمیںصحیح سندکے ساتھ روایت نقل ہوئی ہے وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجیدکے بعددومعتبرترین کتابوں میں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہب اسلامی میں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ میں کس منبع و ماخذپراعتماد کیا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ
مذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہیں ہو ں گی توپھرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!
کیاحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوق وسلیقہ نیزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کیایہ عمل سنّت رسول (ص)کے ساتھ زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟
شیخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہیں کی ہے اورخیال کیاہے کہ لفظ ”نسائنا“حضرت فاطمہ زہراء )سلام اللہ علیہا )کے بارے میں استعمال ہواہے۔جبکہ”نسائنا“خوداپنے ہی معنی میں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خدا (ص) کی بیویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتھی ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ بلند مرتبہ صلاحیت موجودنہیں تھی اورخاندان پیغمبر (ص) میں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بیت میں شمارہوتی تھیں اورمذکورہ صلاحیت کی مالک تھیں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا)تھیں،جنھیں انحضرت (ص) اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے۔17
”اٴنفسنا“کے بارے میں اس کتاب کی ابتداء میں بحث ہوچکی ہے انشا اللہ بعد والے محور میں بھی اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی جائیگی ۔

ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکار

مذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگیاوہ یہ تھاکہ خامس آل عبا)پنجتن پاک علیہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض میدان مباہلہ میں نہیں لایاگیا تھا۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظربعض کتابوں میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئی روایت کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہے،جس میں کہاگیاہے کہ پیغمبراکرم (ص) ابوبکراوران کے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی علیہ السلام اوران کے
فرزندوں کواپنے ساتھ لائے تھے۔
ایک تو یہ کہ علماء ومحققین،جیسے آلوسی کی روح المعانی میںیادہانی کے مطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اس کی سندمیں چند ایسے افرادہیں جن پرجھوٹے ہونے کاالزام ہے،جیسے:سعیدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال18 میںیحییٰ بن معین کے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والا ہے“اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچ نہیں بولتاہے۔“اس کے علاوہ اس کی سندمیںھیثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے میںذہبی کاسیراعلام النبلاء19میں کہناہے:ابن معین اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جھوٹ بولنے والاہے“اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔
افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجھوٹامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امام باقر )علیہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کیاگیاہے!

چھوتھامحور علی(ع)نفس پیغمبر (ص)ہیں

گزشتہ بحثوں میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ”اٴنفسنا“سے مرادکاخودپیغمبراکرم (ص) نہیں ہوسکتے ہیں اورچونکہ مذکورہ احادیث کی بناء پرمباہلہ میں شا مل ہونے والے افرادمیں صرف علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام تھے،لہذاآیہء شریفہ میں”اٴنفسنا“کامصداق علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتاہے۔یہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی واضح بلکہ برترین فضیلتوں میں سے ہے۔
قرآن مجید کی اس تعبیرمیں،علی علیہ السلام ،نفس پیغمبر (ص)کے عنوان سے پہچنوا ئے گئے ہیں۔چونکہ ہرشخص کاصرف ایک نفس ہوتا ہے،اس لئے حضرت علی علیہ السلام کاحقیقت میں نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا بے معنی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق،اطلاق حقیقی نہیں ہے بلکہ اس سے مرادماننداورمماثلت ہے۔چونکہ یہاں پریہ مماثلت مطلق ہے اس لئے اس اطلاق کاتقاضاہے کہ جوبھی خصوصیت اورمنصبی کمال پیغمبراکرم (ص)کی ذات میں موجود ہے وہ حضرت علی علیہ السلام میں بھی پاےاجانا چاہئے،مگر یہ کہ دلیل کی بناء پرکوئی فضیلت ہو،جیسے آپ پیغمبرنہیں ہیں۔رسا لت و پیغمبری کے علاوہ دوسری خصوصیات اورکمالات میں آپ رسول کے ساتھ شریک ہیں،من جملہ پیغمبر (ص) کی امت کے لئے قیادت وزعامت اورآنحضرت (ص) کی سارے جہاں،یہاں تک گزشتہ انبیاء پرافضلیت۔اس بناء پرآیہء شریفہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پردلالت کر نے کے علاوہ بعد از پیغمبر ان کی امت کے علاوہ تمام دوسرے انبیاء سے بھی افضل ہو نے پر دلالت کرتی ہے۔

آیت کے استدلال میں فخررازی کابیان فخررازی نے تفسیرکبیرمیں لکھاہے:
”شہرری میں ایک شیعہ اثناعشری شخص۱ معلم تھاا س کاخیال تھاکہ حضرت علی(علیہ السلام) حضرت محمدمصطفی (ص)کے علاوہ تمام انبیاء)علیہم السلام)سے افضل وبرترہیں، اور یوں کہتاتھا:جوچیزاس مطلب پردلالت کرتی ہے،وہ آیہء مباہلہ میں خدا وندمتعال کایہ قول ہے کیونکہ”اٴنفسنا“ سے مرادپیغمبراکرم (ص) نہیں ہیں،کیونکہ انسان خودکونہیں پکارتاہے۔اس بناء پر نفس سے مرادآنحضرت (ص) کے علاوہ ہے اوراس بات پر اجماع ہے کہ نفس سے مرادعلی بن ابیطالب(علیہ السلام) ہیں لہذاآیہئ شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نفس علی(علیہ السلام)سے مراد درحقیقت نفس پیغمبر (ص)ہے،اس لئے ناچار آپ کا مقصدیہ ہے کہ نفس علی نفس رسول کے مانندہے اوراس کالازمہ یہ ہے کہ
۱۔یہ بزرگ مرد،کہ جس کے بارے میں فخررازی نے یوں بیان کیاہے،جیسے کہ اس کی زندگی کے حالات کی تشریح کتابوں میں کی گئی ہے،شیعوں کے ایک بڑے مجتہداورعظیم عقیدہ شناس اورفخر رازی کے استادتھے۔مرحوم محدث قمی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:شیخ سدید الدین محمودبن علی بن الحسن حمصی رازی ،علّامہ فاضل، متکلم اور علم کلام میں کتاب”التعلیق العراقی“کے مصنف تھے۔شیخ بہائی سے ایک تحریرکے بارے میںروایت کرتاہے کہ وہ شیعہ علماء ومجتہدین میں سے تھے اورری کے حمص نامی ایک گاؤں کے رہنے والے تھے،کہ اس وقت وہ گاؤںویران ہوچکاہے۔ )سفینة البحار،ج۱،ص۳۴۰،انتشارات کتاب خانہ محمودی)
مرحوم سیدمحسن امین جبل عاملی کتاب”التعليق العراقی،یاکتاب المنقذمن التقليد“کے ایک قلمی نسخہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس پرلکھا گیاتھا:”اٴنهامن إملائ مولانا ا لشيخ الکبير العالم سديد الدّين حجّةالاسلام والمسلمين لسان الطائفةوالمتکلمين اسد المناظرين محمودبن علی بن الحسن الحمصی ادام اللّٰه فی العزّبقائه وکبت فی الذّلّ حسدته واعداه۔۔“یعنی :یہ نسخہ استاد بزرگ اوردانشورسدیدالدین حجةالاسلام والمسلمین، مذہب شےعیت کے تر جمان اور متکلمین،فن منا ظرہ کے ماہرمحمود بن علی بن الحسن الحمصی کااملا ہے کہ خدائے متعال اس کی عزت کو پائدار بنادے اور اس کے حاسدوں اور دشمنوں کو نابودکردے۔ )اعیا الشیعہ ،ج۱۰،ص۵ہ۱،دارالتعارف للمطبو عات،بیروت)
فیروزآبادی کتاب”القاموس المحیط“میں کہتاہے:”محمودبن الحمصی متکلم اخذ عنہ الامام فخر الدین“)القاموس المحیط،ج۲،ص۲۹۹،دار المعرفة،بیروت)
فیروزآبادی کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم عقیدہ شناس فخررازی کا استاد تھالیکن فخررازی نے اس بات کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے۔
یہ نفس تمام جہت سے اس نفس کے برابرہے۔اوراس کلیت سے صرف دوچیزیں خارج ہیں:ایک نبوت اوردوسرے افضلیت،کیونکہ اس پر سب کااتفاق ہے کہ علی(علیہ السلام)پیغمبرنہیں ہیں اور نہ ہی وہ پیغمبر (ص) سے افضل ہیں۔ان دومطالب کے علاوہ،دوسرے تمام امور ومسائل میں یہ اطلاق اپنی جگہ باقی ہے اوراس پراجماع ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیائے الہٰی سے افضل ہیں،لہذاعلی(علیہ السلام)بھی ان سب سے افضل ہوں گے۔“
مزید اس نے کہاہے:
”اس استدلال کی ایک ایسی حدیث سے تائید ہوتی ہے،جس کو موافق ومخالف سب قبول کرتے ہیں اوروہ حدیث وہ قول پیغمبراکرم (ص) ہے کہ جس میں اپ نے فرمایا:جوآدم(علیہ السلام)کو ان کے علم میں،نوح(علیہ السلام)کوان کی اطاعت میں اورابراھیم(علیہ السلام)کو ان کی خُلّت میں،موسیٰ(علیہ السلام)کوان کی ہیبت میں اورعیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی صفوت میں دیکھناچاہے تواسے علی بن ابیطالب(علیہ السلام)پرنظرڈالناچاہئے۔“
فخررازی نے اپنی بات کوجاری رکھتے ہوئے مزید لکھاہے:
”شیعہ علماء مذکورہء آیہء شریفہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ علی(علیہ السلام)تمام اصحاب سے افضل ہیں۔کیونکہ جب آیت دلالت کرتی ہے کہ نفس علی (علیہ السلام)نفس رسول (ص)کے مانند ہے،سواء اس کے جو چیزدلیل سے خارج ہے اورنفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اصحاب سے افضل ہے،لہذانفس علی(علیہ السلام)بھی تمام اصحاب سے افضل قرار پائیگا“
فخررازی نے اس استدلال کے ایک جملہ پراعتراض کیا ہے کہ ہم اس آیہء شریفہ سے مربوط سوالات کے ضمن میں آیندہ اس کاجواب دیں گے۔

علی(ع)کونفس رسو ل جاننے والی احادیث

 حضرت علی علیہ السلام کونفس رسول (ص)کے طورپرمعرفی کرنے والی احادیث کوتین گروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:
پہلاگروہ:
وہ حدیثیں جوآیہء مباہلہ کے ذیل میں بیان ہوئی ہیں:
ان احادیث کا ایک پہلو خامس آل عبا علیہم السلام کے مباہلہ میں شرکت سے مربوط تھا کہ جس کو پہلے بیان کیاگیاہے اوریہاں خلاصہ کے طورپرہم پیش کرتے ہیں:
الف:ابن عباس آیہء شریفہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:”وعلی نفسہ“”علی(ع)نفس پیغمبر)ص)ہیں۔“یہ ذکرآیہء مباہلہ میں ایاہے۔ 20
ب:شعبی ،اہل بیت،علہیم السلا م کے بارے میں جابر بن عبداللہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:”اٴبناء نا“ سے حسن وحسین)علیہم السلام)”نساء نا“سے جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب)علیہ السلام ) مرادہیں۔21
ج:حاکم نیشابوری،عبداللہ بن عباس اوردیگر اصحاب سے،پیغمبراکرم (ص)کے ذریعہ مباہلہ میں علی،فاطمہ،حسن اورحسین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لانے والی روایت کومتواترجانتے ہیں اورنقل کرتے ہیں کہ”اٴبناء نا“سے حسن وحسین علیہم السلام،”نساء نا“سے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہااور”اٴنفسنا“سے علی بن ابیطالب علیہ السلام مرادہیں۔22
د۔حضرت علی علیہ السلام کی وہ حدیث،جس میں اپ(ع)اصحاب شوریٰ کوقسم دے کراپنے فضائل کا ان سے اقرار لیا ہے آپ فرماتے ہیں:
”نشدتکم اللّٰه هل فيکم اٴحد اٴقرب إلير سول اللّٰه (ص) فی الرحم ومن جعله رسول اللّٰه نفسه وإبناء ه ۔۔۔غيری؟“ 23
”یعنی:میں تمھیں خداکی قسم دیتاہوں!کیا تم لوگوں میں قرابت اور رشتہ داری کے لحاظ سے کوئی ہے جومجھ سے زیادہ رسول اللہ (ص)کے قریب ہو؟کوئی ہے جسے آنحضرت (ص)نے اپنانفس اوراسکے بیٹوں کواپنابیٹاقراردیاہو؟انہوں نے جواب میں کہا:خداشاہدہے کہ ہم میں کوئی ایسا،نہیں ہے۔“
دوسراگروہ:وہ حدیثیں جوقبیلہء بنی ولیعہ سے مربوط ہیں:یہ احادیث اصحاب کے ایک گروہ جیسے ابوذر،جابربن عبداللہ اورعبداللہ بن حنطب سے نقل ہوئی ہیں۔ان حدیثوں کامضمون یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے)ابوذر کے بقول) فرمایا:
”ولینتہینّ بنوولیعہ اٴولاٴبعثَنّ إلیہم رجلاًکنفسی یمضی فیہم اٴمری فیقتل المقا تلہ ولیسبی الذریة۔۔۔24
قبیلہء بنی ولیعہ کواپنے امور سے باز آجاناچاہئے،اگر انھوں نے ایسانہیں کیاتو میں ان کی طرف اپنے مانند ایک شخص کوبھیجوں گا جومیرے حکم کوان میں جاری کرے گا۔جنگ کرنے والوں کو وہ قتل کرے گااوران کی ذرّیت کواسیربنائے گا۔
عمر،جو میرے پیچھے کھڑے ہو ئے تھے انہوں،نے کہا:آنحضرت (ص) کااس سے مرادکون ہے؟میں نے جواب دیاتم اور تمہارادوست)ابوبکر) اس سے مرادنہیں ہے تو اس نے
اس کے محقق نے اس ضمن میں کہاہے:اس حدیث کی سند میں موثق راوی موجود ہیں۔
المنصف لاٴبن اٴبی شیبتہ، ج۶، ص۳۷۴، دارالتاج، المعجم الاٴوسط للطبرانی،ج۴،ص۴۷۷،مکتبة المعارف،الریاضی۔یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ”المعجم الاوسط“میں عمداً یا غلطی سے ”کنفسی“کے بجائے”لنفسی“آیا ہے،اورھیثمی نے مجمع الزوائد میں طبرانی سے ” کنفسی“روایت کی ہے۔مجمع الزوائد۔مجمع الزوائد ھیثمی ،ج۷،ص۱۱۰،دارالکتاب العربی و ص۲۴۰،دارالفکر۔
کہاکون مرادہے؟میں نے کہا:اس سے مرادوہ ہے جواس وقت اپنی جوتیوں کو پیوندلگانے میں مصروف ہے۔کہا تو پھرعلی(علیہ السلام)ہیں جواپنی جویتوں کوٹانکے میں مصروف ہیں۔تیسراگروہ:وہ حدیثیں جوپیغمبر)ص)کے نزدیک محبوب ترین افراد کے بارے میں ہیں۔
بعض ایسی حدیثیں ہیں کہ جس میں پیغمبراکرم صل (ص) سے سوال ہوتاہے کہآپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟جواب کے بعدآنحضرت (ص) سے علی(علیہ السلام)کی محبوبیت یاافضلیت کے بارے میں سوال کیاجاتاہے۔پیغمبراکرم (ص)اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکرفرماتے ہیں:”إنّ ہذایساٴلنی من النفسی“یعنی:یہ سوال مجھ سے خود میرے بارے میں ہے!یعنی علی(علیہ السلام)میرانفس ہے۔25ان میں سے بعض احادیث میں،حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)پیغمبراسلام (ص)سے سوال کرتی ہیں،کیاآپنے علی(علیہ السلام)کے بارے میں کچھ نہیں فرمایاہے؟آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
”علیّ نفسی فمن راٴیتہ اٴن یقول فی نفسہ شیئاً26“
یعنی:علی(علیہ السلام)میرانفس ہے تم نے کس کودیکھاہے،جواپنے نفس کے بارے میں کچھ کہے؟یہ احادیث عمروعاص،عائشہ اورجد عمروبن شعیب جیسے بعض اصحاب سے نقل ہوئی ہیں۔
اس طرح کی حدیثیں مختلف زبانوں سے روایت ہوئی ہیں اوران کی تعدادزیادہ ہے۔جس سے یہ استفادہ ہوتاہے کہ علی علیہ السلام،نفس پیغمبر (ص)ہیں اورآیہئ شریفہ کی دلالت پرتاکیدکرتی ہے، سواء اس کے کہ کوئی قطعی ضرورت اورخارجی دلالت کی وجہ سے اس اطلاق سے خارج ہوا جائے)جیسے نبوت جواس سے خارج ہے)لہذاآنحضرت (ص)کے
دوسرے تمام عہدے من جملہ تمام امت اسلامیہ پر آپ (ص)کی فضیلت نیز قیادت وزعامت ا س اطلاق میں داخل ہے۔

پانچواں محور آیت کے بارے میں چندسوالات اور ان کے جوابات

آلوسی سے ایک گفتگو:

 آلوسی،اپنی تفسیر”روح المعانی 27 “میں اس آیہء شریفہ کی تفسیر کے سلسلہ میں کہتاہے:
”اہل بیت پیغمبر (ص)کے آل اللہ ہونے کی فضیلت کے بارے میں اس آیہء شریفہ کی دلالت کسی بھی مومن کے لئے ناقابل انکارہے اوراگرکوئی اس فضیلت کوان سے جداکرنے کی کوشش کرتا ہے تویہ ایک قسم کی ناصبیت وعنادہے اورعناد و ناصبیت ایمان کے نابود کر نے کاسبب ہے۔“

شیعوں کااستدلال

 اس کے بعد)آلوسی)آیہء مذکورہ سے رسول خدا (ص)کے بعدعلی علیہ السلام کے بلافصل خلیفہ ہونے کے سلسلہ میں شیعوں کے استدلال کوبیان کرتاہے اوراس روایت سے استنادکرتاہے کہ آیہء کریمہ کے نازل ہونے کے بعد پیغمبراسلام (ص) مباہلہکے لئے علی،فاطمہ،اورحسنین علیہم السلام کو اپنے ساتھ لائے،اس کے بعدکہتاہے:
”اس طرح سے”اٴبناء نا“کا مراد سے حسن وحسین)علیہماالسلام)،”نساء نا“سے مرادفاطمہ(سلام اللہ علیہا)اور”اٴنفسنا“سے مرادعلی(علیہ السلام)ہیں۔جب علی(علیہ السلام)نفس رسول قرار پائیں گے تو اس کا اپنے حقیقی معنی میں استعمال محال ہو گا)کیونکہ
حقیقت میںعلی علیہ السلام خودرسول اللہ (ص)نہیں ہوسکتے ہیں) لہذا قھراً اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت (ص) کے مساوی اورمماثل ہیں۔چونکہ پیغمبراسلام (ص)امورمسلمین میں تصرف کرنے کے سلسلہ میں افضل اوراولٰی ہیں،لہذا جو بھی ان کے مماثل ہو گاوہ بھی ایساہی ہوگا۔اس طرح سے پوری امت کے حوالے سے حضرت علی(علیہ السلام)کی افضیلت اورامت پر ان کی سرپرستی اس آیہء شریفہ سے ثابت ہوتی ہے۔“

شیعوں کے استدلال کے سلسلہ میں الوسی کاپہلااعتراض

 اس کے بعدآلوسی شیعوں کے استدلال کاجواب دیتے ہوئے کہتاہے:شیعوں کے اس قسم کے استدلال کاجواب یوں دیاجاسکتاہے:
ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ”اٴنفسنا“سے مراد حضرت امیرالمؤمنین (علیہ السلام)ہوں گے،بلکہ نفس سے مرادخودپیغمبر (ص)ہی ہیں اورحضرت امیر (علیہ السلام) ”اٴبنائنا“میں داخل ہیں کیونکہ دامادکوعرفاًبیٹاکہتے ہیں۔
اس کے بعدشیعوں کے ایک عظیم مفسرشیخ طبرسی کابیان نقل کرتاہے کہ انہوں نے کہاہے کہ”اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبر (ص) نہیں ہوسکتے ہیں،کیونکہ انسان کبھی بھی اپنے آپ کونہیں بلاتاہے،اس نے)شیخ کی)اس بات کوہذیان سے نسبت دی ہے؟!

اس اعتراض کاجواب

 آلوسی اپنی بات کی ابتداء میں اس چیز کو تسلیم کرتاہے کہ آیہء کریمہ پیغمبر (ص)وکے خاندان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اس فضیلت سے انکار کو ایک طرح کے بغض و عناد سے تعبیر کرتاہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عظیم فضیلت کوآنحضرت (ص) کے خاندان سے منحرف کرنے کے لئے کس طرح وہ خودکوشش کرتاہے اوراپنے اس عمل سے اس سلسلہ میں بیان کی گئی تمام احادیث کی مخا لفت کرتا ہے اورجس چیز کوابن تیمیہ نے بھی انجام نہیں دیاہے)یعنی”اٴنفسنا“کے علی علیہ السلام پرانطباق سے انکارکرنا)اسے انجام دیتا ہے۔
اگرچہ ہم نے بحث کی ابتداء میں”اٴنفسنا“کے بارے میں اوریہ کہ اس سے مراد خودپیغمبراسلام (ص) نہیں ہوسکتے ہیں،بیان کیاہے،لیکن یہاں پر بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اگر”اٴنفسنا“سے مرادخودپیغمبراسلام (ص)ہوں اورعلی علیہ السلام کو”اٴبناء نا“کے زمرے میں داخل کر لیا جائے تو یہ غلط ہے اور دوسرے یہ کہ خلاف دلیل ہے۔
اس کاغلط ہونااس لحاظ سے ہے کہ آیہء شریفہ میں”بلانا اپنے“حقیقی معنی میں ہے۔اور جوآلوسی نے بعض استعمالات جیسے”دعتہ نفسہ“کورائج ومرسوم جا ناہے،اس نے اس نکتہ سے غفلت کی ہے کہ اس قسم کے استعمالات مجازی ہیں اوران کے لئے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور آیہء مذکورہ میں کوئی ایسا قرینہ موجودنہیں ہے،بلکہ یہاں پر”دعتہ نفسہ“کے معنی اپنے آپ کو مجبوراورمصمم کرناہے نہ اپنے آپ کو بلانااورطلب کرنا۔
اس کے علاوہ”اٴبنائنا“ کے زمرے میں امیرالمؤمنین(علیہ السلام)کو شامل کر نا صرف اس لئے کہ وہ آنحضرت (ص)کے داماد تھے گویالفظ کو اس کے غیر معنی موضوع لہ میں ہے اور لفظ کواس کے معانی مجازی میں بغیر قرینہ کے حمل کر تاہے۔
اس لئے”اٴبناء نا“کا حمل حسنین علیہما السلام کے علاوہ کسی اورذات پر درست نہیں ہے اور”اٴنفسنا“کا لفظ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اورپر منطتبق نہیں ہو تاہے۔
اگرکہاجائے کہ:کونسامرجح ہے کہ لفظ ”ندع“کا استعمال اس کے حقیقی معنی میں ہو اور”اٴنفسنا“کااستعمال حضرت علی علیہ السلام پر مجازی ہو؟بلکہ ممکن ہے کہا جائے”اٴنفسنا“خودانسان اوراس کی ذات پراطلاق ہو جوحقیقی معنی ہے اور”ندع“کے معنی میں تصرف کر کے ”نحضر“کے معنی لئے جائیںیعنی اپنے آپ کوحاضرکریں۔
جواب یہ ہے کہ:اگر”ندع“ کا استعمال اپنے حقیقی معنی ہےں ہوتوایک سے زیادہ مجاز در کارنہیں ہے اوروہ ہے”اٴنفسنا“کا حضرت علی علیہ السلام کی ذات پراطلاق ہو نالیکن اگر”ندع“کو اس کے مجاز ی معنی پر حمل کریں تو اس سے دوسرے کا مجاز ہونابھی لازم آتاہے یعنی علی علیہ السلام کا ”اٴبناء نا“پراطلاق ہونا،جوآنحضرت صلی (ص)کے داماد ہیں اوراس قسم کے مجاز کے لئے کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔
لفظ ”اٴنفسنا“ کے علی علیہ السلام کی ذات پر اطلاق ہونے کا قرینہ ”ندع“ و ”اٴنفسنا“ کے درمیان پائی جا نے والی مغایرت ہے کہ جوعقلاًوعرفاً ظہور رکھتی ہے۔اس فرض میں”ندع“بھی اپنے معنی میں استعمال ہواہے اور”اٴبناء نا“بھی اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہواہے۔
لیکن یہ کہ آلوسی کی بات دلیل کے خلاف ہے،کیونکہ اتنی سا ری احادیث جونقل کی گئی ہیںوہ سب اس بات پردلالت کرتی تھیں کہ”اٴنفسنا“سے مرادعلی علیہ السلام ہیں اوریہ دعویٰ تواترکے ذریعہ بھی ثابت ہے 28 لہذاوہ سب احادیث اس قول کے خلاف ہیں۔

شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسرااعتراض

 شیعوں کے استدلال پرآلوسی کادوسراجواب یہ ہے:اگرفرض کریں کہ”اٴنفسنا“کا مقصداق علی(علیہ السلام)ہوں،پھربھی آیہء شریفہ حضرت علی(ع)کی بلافصل خلافت پر دلالت نہیں کرتی ہے۔کیونکہ”اٴنفسنا“ کااطلاق حضرت علی(ع)پراس لحاظ سے ہے کہ نفس کے معنی قربت اورنزدیک ہو نے کے ہیں اوردین و آئین میں شریک ہونے کے معنی میں ہے اوراس لفظ کا اطلاق حضرت علی(ع)کے لئے شاید اس وجہ سے ہوان کا پیغمبر (ص) کے ساتھ دامادی کارشتہ تھااوردین میں دونوں کا اتحادتھا۔اس کے علاوہ اگرمقصودوہ شخص ہوجوپیغمبراکرم
(ص)کے مساوی ہے تو کیامساوی ہونے کامعنی تمام صفات میں ہے یابعض صفات میں؟اگر تمام صفات میں مساوی ہونامقصود ہے تواس کالازمہ یہ ہوگاکہ علی(علیہ السلام)پیغمبر (ص)کی نبوت اورخاتمیت اورتمام امت پرآپکی بعثت میں شریک ہیں اوراس قسم کامساوی ہونامتفقہ
طورپرباطل ہے۔اوراگرمساوی ہونے کامقصدبعض صفات میں ہے یہ شیعوں کی افضلیت وبلا فصل امامت کے مسئلہ پردلالت نہیں کرتاہے۔

اس اعتراض کا جواب

 آلوسی کے اس اعتراض واستدلال کا جواب دیناچند جہتوں سے ممکن ہے:

سب سے پہلے تو یہ کہ:”نفس کے معنی قربت و نزدیکی“اوردین وآئین میں شریک ہوناکسی قسم کی فضیلت نہیں ہے،جبکہ احادیث سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ اطلاق حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے ایک حدیث کے مطابق سعدبن ابی وقاص نے معاویہ کے سامنے اسی معنی کوبیان کیااوراسے حضرت علی علیہ السلام کے خلاف سبّ وشتم سے انکار کی دلیل کے طورپر پیش کیاہے۔

دوسرے یہ کہ :نفس کے معنی کا اطلاق دین و آئین میں شریک ہونایارشتہ داری وقرابتداری کے معنی مجازی ہے اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے اوریہاں پرایسا کوئی قرینہ موجودنہیں ہے۔

تیسرے یہ کہ:جب نفس کے معنی کااطلاق اس کے حقیقی معنی میں ممکن نہ ہوتواس سے مرادوہ شخص ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہواوریہ جا نشینی اورمساوی ہو نا مطلقاًہے اوراس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اوصاف اورعہدے شامل ہیں،صرف نبوت قطعی دلیل کی بناء پراس دائرہ سے خارج ہے۔

چوتھے یہ کہ:اس صورت میں آلوسی کی بعد والی گفتگو کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ مساوات تمام صفات میں ہے یا بعض صفات میں،کیونکہ مساوات تمام صفات میں اس کے اطلاق کی وجہ سے ہے،صرف وہ چیزیں اس میں شامل نہیں ہیں جن کو قطعی دلیلوں کے ذریعہ خارج و مستثنی کیا گیا ہے جیسے نبوت و رسالت ۔لہذا پیغمبراکرم (ص) کی افضیلت اور امت کی سر پرستی نیز اسی طرح کے اور تمام صفات میں حضرت علی علیہ السلام پیغمبر کے شریک نیز ان کے برابر کے جا نشین ہیں ۔

شیعوں کے استدلال پر آلوسی کا تیسرا عتراض

 آلوسی کا کہنا ہے:اگریہ آیت حضرت علی(علیہ السلام) کی خلافت پر کسی اعتبار سے دلالت کرتی بھی ہے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ:حضرت علی(ع)پیغمبر (ص) کے زمانہ میں امام ہوں اوریہ متفقہ طورپر باطل ہے۔ییی
اگر یہ خلافت کسی خاص وقت کے لئے ہے تو سب سے پہلی بات یہ کہ اس قید کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیںیعنی حضرت علی(ع)ایک خاص وقت، میں کہ جوان کی خلافت کازمانہ تھا،اس میں وہ اس منصب پرفائزتھے۔

اس اعتراض کاجواب

سب سے پہلی بات یہ کہ :حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی آنحضرت صل (ص)کے زمانہ میں ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو بہت سی احادیث سے ثا بت ہے اورا س کے لئے واضح ترین حدیث،حدیث منزلت ہے جس میں حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبر (ص) کی نسبت کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے ہارون کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، واضح ر ہے کہ حضرت ہارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ان کے جانشین تھے کیوں کہ قرآن مجید حضرت ہارون علیہ السلام کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ذکر کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ”اٴخلفنی فی قومی“ 29 ”تم میری قوم میں میرے جانشین ہو۔“
اس بناء پر جب کبھی پیغمبر اکرم (ص) حاضر نہیں ہو تے تھے حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہو تے تھے )چنانچہ جنگ تبوک میں ایساہی تھا)اس مسئلہ کی حدیث منزلت میں مکمل وضاحت کی گئی ہے۔30
دوسرے یہ کہ:حضرت علی علیہ السلام کا نفس پیغمبر (ص) قرار دیا جانا جیسا کہ آیہء شریفہ مباہلہ سے یہ مطلب واضح ہے،اوراگر کوئی اجماع واقع ہو جائے کہ آنحضرت کی زندگی میں حضرت علی علیہ السلام آپ کے جانشین نہیں تھے،تویہ اجماع اس اطلاق کوآنحضرت (ص) کی زندگی میں مقید و محدود کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پریہ اطلاق آنحضرت (ص) کی رحلت کے وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ باقی ہے۔
لہذایہ واضح ہوگیا کہ آلوسی کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں اورآیہء شریفہ کی دلالت حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور بلافصل خلافت پر بلا منا قشہ ہے۔

فخررازی کا اعتراض:

فخررازی نے اس آیہء شریفہ کے ذیل میں محمودبن حسن حصمی31کے استدلال کو ،کہ جو انھوں نے اسے حضرت علی علیہ السلام کی گزشتہ انبیاء علیہم السلام پرافضلیت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے،ٰٰنقل کرنے کے بعد)ان کے استدلال کو تفصیل سے ذکر کیا ہے)اپنے اعتراض کو یوں ذکر کیا ہے:
ایک تویہ کہ اس بات پراجماع قائم ہے کہ پیغمبر (ص)غیرپیغمبرسے افضل ہو تا ہے۔
دوسرے: اس بات پر بھی اجماع ہے کہ)علی علیہ السلام)پیغمبرنہیں تھے۔مذکورہ ان
دومقدموں کے ذریعہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آیہء شریفہ حضرت علی(علیہ السلام)کی گزشتہ انبیاء)علیہم السلام)پرافضلیت کو ثابت نہیں کرتی ہے۔

فخررازی کے اعتراض کا جواب ہم فخررازی کے جواب میں کہتے ہیں:
پہلی بات یہ کہ ا س پر اجماع ہے کہ ہر ”نبی غیر نبی سے افضل ہے“اس میں عمومیت نہیں ہے کہ جس سے یہ ثابت کریں کہ ،ہر نبی دوسرے تمام افرادپر حتی اپنی امت کے علاوہ دیگر افراد پر بھی فوقیت وبرتری رکھتا ہے بلکہ جو چیز قابل یقین ہے وہ یہ کہ ہر نبی اپنی امت سے افضل ہوتا ہے۔اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے یہ کہاجائے:”مرد عورت سے افضل ہے“ ا ور یہ اس میں معنی ہے کہ مردوں کی صنف عورتوں کی صنف سے افضل ہے نہ یہ کہ مردوں میں سے ہرشخص تمام عورتوں پرفضیلت وبر تری رکھتا ہے۔اس بناء پراس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ بعض عورتیں ایسی ہیں جو مردوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ:مذکورہ مطلب پر اجماع کاواقع ہونا ثابت نہیں ہے،کیونکہ شیعہ علماء نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے اوروہ اپنے ائمہ معصو مین) علیہم السلام) کو قطعی دلیل کی بناء پر گزشتہ انبیاء سے برتر جانتے ہیں۔
ابوحیان اندلسی نے تفسیر”البحرالمحیط 32“میں شیعوں کے استدلال پرآیت میں نفس سے مراد تمام صفات میں ہم مثل اور مساوی ہو ناہے)فخررازی 33 کا ایک اور اعتراض نقل
کیا ہے جس میں یہ کہا ہے:
”نفس کے اطلاق میں یہ ضروری نہیں ہے تمام اوصاف میںیکسانیت ویکجہتی
ہو،چنانچہ متکلمین نے کہا ہے:” صفات نفس میں یک جہتی اوریک سوئی یہ متکلمین کی ایک اصطلاح ہے،اورعربی لغت میںیکسانیت کابعض صفات پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔عرب کہتے ہیں:”ہذامن اٴنفسنا“یعنی:یہ”اپنوں میں سے ہے،یعنی ہمارے قبیلہ میں سے ہے۔“
اس کاجواب یہ ہے کہ تمام صفات یابعض صفات میں یکسا نیت ویکجہتی یہ نہ تو لغوی بحث ہے اور نہ ہی کلامی ،بلکہ یہ بحث اصول فقہ سے مربوط ہے،کیونکہ جب نفس کا اس کے حقیقی معنی میں استعمال نا ممکن ہو تو ا سے اس کے مجازی معنی پر عمل کرنا چاہٴے اور اس کے حقیقی معنی سے نزدیک ترین معنی کہ جس کو اقرب المجازات سے تعبیرکیا جاتا ہے )کواخذ کر نا چا ہیئے اور”نفس“کے حقیقی معنی میں اقرب المجازات مانندو مثل ہوناہے۔
یہ مانندو مثل ہونامطلق ہے اوراس کی کوئی محدودیت نہیں ہے اوراس اطلاق کاتقاضاہے کہ علی علیہ السلام تمام صفات میں پیغمبراکرم (ص) کے مانندو مثل ہیں،صرف نبوت ورسالت جیسے مسائل قطعی دلائل کی بناپراس مانندو مثل کے دائرے سے خارج ہیں۔اس وضاحت کے پیش نظرتمام اوصاف اورعہدے اس اطلاق میں داخل ہیں لہذامن جملہ تمام انبیاء پرفضیلت اورتمام امت پرسرپرستی کے حوالے سے آپ (علیہ السلام)علی الاطلاق رسول (ص) کے ما نندہیں۔

ابن تیمیّہ کا اعتراض

 ابن تیمیّہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت پرعلامہ حلی کے استدلال کوآیہء مباہلہ سے بیان کرتے ہوئے کہتاہے:
”یہ کہ پیغمبراکرم (ص)مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ اورحسن وحسین )علیہم
السلام)کو اپنے ساتھ لے گئے یہ صحیح حدیث میں ایاہے 34 ،لیکن یہ علی(علیہ السلام)کی امامت اور ان کی افضلیت پردلالت نہیں کر تاہے،کیونکہ یہ دلالت اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب آیہء شریفہ علی(علیہ السلام)کے پیغمبر (ص)کے مساوی ہونے پردلالت کرے حالانکہ آیت میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی شخص پیغمبر (ص)کے مساوی نہیں ہے،نہ علی(علیہ السلام)اورنہ ان کے علاوہ کوئی اور۔
دوسرے یہ کہ”اٴنفسنا“کالفظ عربی لغت میں مساوات کا معنی میں نہیں ایاہے 35 اورصرف ہم جنس اور مشابہت پردلالت کرتاہے۔اس سلسلہ میں بعض امور مشابہت،جیسے ایمان یادین میں اشتراک کافی ہے اوراگرنسب میں بھی اشتراک ہوتواور اچھا ہے۔ اس بناپرآیہئ شریفہمیں”اٴنفسنا“ سے مرادوہ لوگ ہیں جودین اورنسب میں دوسروں سے زیادہ نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے آنحضرت (ص)۔ بیٹوں میں سے حسن وحسین)علیہما السلام)اور عورتوں میں سے فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اورمردوں میں سے علی)علیہ ا لسلام)کواپنے ساتھ لے گئے اورآنحضرت(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے ان سے زیادہ نزدیک ترکوئی نہیں تھا۔دوسرے یہ کہ مباہلہ اقرباء سے انجام پاتاہے نہ ان افرادسے جوانسان سے دورہوں،اگرچہ یہ دوروالے افرادخداکے نزدیک افضل وبرترہوں۔
ابن تیمیہ کہ جس نے رشتہ کے لحاظ سے نزدیک ہونے کا ذکرکیاہے اوردوسری طر ف پیغمبر (ص)کے چچاحضرت عباس کہ جورشتہ داری کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام کی بہ نسبت زیادہ قریب تھے اورزندہ تھے۔ کے بارے میں کہتاہے:
”عباس اگرچہ زندہ تھے،لیکن سابقین اولین)دعوت اسلام کو پہلے قبول کر نے والے) میں ان کا شمارنہیں تھااورپیغمبراکرم (ص) کے چچیرے بھائیوں میں بھی کوئی شخص علی(علیہ السلام)سے زیادہ آپ سے نزدیک نہیں تھا۔اس بنا پرمباہلہ کے لئے علی(علیہ السلام)کی جگہ پرُ کر نے والاپیغمبر (ص)کے خاندان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو آپ انتخاب کرتے یہ مطلب کسی بھی جہت سے علی(علیہ السلام)کے آنحضرت (ص)سے مساوی ہونے پردلالت نہیں کرتاہے۔“

ابن تیمیّہ کے اعتراض کا جواب ابن تیمیہ کاجواب چندنکتوں میں دیاجاسکتاہے:
۱۔ اس کا کہناہے:”پیغمبر (ص)کے مساوی ومانند کوئی نہیں ہوسکتا ہے“۔اگرمساوی ہونے کا مفہوم و مقصدتمام صفات،من جملہ نبوت و رسالت میں ہے تویہ صحیح ہے۔لیکن جیسا کہ بیان ہوا مساوی ہونے کا اطلاق پیغمبر (ص)کی ختم نبوت پر قطعی دلیلوں کی وجہ سے مقید ہے اوراس کے علاوہ دوسرے تمام امورمیں پیغمبر کے مانند و مساوی ہونا مکمل طورپراپنی جگہ باقی ہے اوراس کے اطلاق کو ثابت کرتا ہے دوسری طرف سے اس کی یہ بات کہ”اٴنفسنا“کا لفظ عربی لغت میں مساوات کے معنی کا اقتضاء نہیں کر تا ہے“صحیح نہیں ہے اگرچہ اس نے قرآن مجید کی چند ایسی آیتوں کو بھی شاہد کے طورپر ذکرکیا ہے جن میں”اٴنفسهم یااٴنفسکم“کا لفظ استعمال ہوا ہے،حتی کہ ان آیتوں میں بھی مساوی مراد ہے۔مثلاًلفظ”ولاتلمزوا اٴنفسکم“يعنی”اپنی عیب جوئی نہ کرو“جب لفظ”اٴنفس“کا اطلاق دوسرے افرادپرہوتاہے،تومعنی نہیںرکھتاہے وہ حقیقت میں خودعین انسان ہوں۔ناچاران کے مساوی اورمشابہ ہونے کامقصد مختلف جہتوں میں سے کسی ایک جہت میں ہے اور معلوم ہے کہ وہ جہت اس طرح کے استعمالات میں کسی ایمانی مجموعہء یاقبیلہ کے مجموعہ کا ایک جزو ہے۔
اس بناء پران اطلاقات میں بھی مساوی ہونے کالحاظ ہوا ہے ،لیکن اس میں قرینہ موجودہے کہ یہ مساوی ایک خاص امر میں ہے اوریہ اس سے منافات نہیں رکھتاہے اور اگر کسی جگہ پرقرینہ نہیں ہے تومساوی ہونے کا قصد مطلق ہے،بغیراس کے کہ کوئی دلیل اسے خارج کرے۔

۲۔ابن تیمیہ نے قرابت یا رشتہ داری کو نسب سے مر تبط جانا ہے،یہ بات دودلیلوں سے صحیح نہیں ہے:
سب سے پہلے بات تو یہ، مطلب آیہء شریفہ ”نسائنا ونسا ئکم“سے سازگار نہیں ہے،کیونکہ ”نسائنا“کا عنوان نسبی رشتہ سے کوئی ربطہ نہیں رکھتا ہے۔البتہ یہ منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا آنحضرت (ص) کی دختر گرامی تھیں اورآپ سے نسبی قرابت رکھتی تھیں،کیونکہ واضح ہے کہ آنحضرت (ص) سے ”بنا تنا“ ”ہماری“ بٹیاں)جو نسبی قرابت کی دلیل ہے)کے ذریعہ تعبیر نہیں کیا گیا ہے،بلکہ ”نساء نا“کی تعبیر آئی ہے،اس لحاظ سے چونکہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاندان کی عورتوں میں سے ہیں اس لئے اس مجموعہ میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ کوئی اور عورت کہ جو اس لائق ہوکہ مباہلہ میں شریک ہو سکے وجود نہیں رکھتی تھی ۔
دوسرے یہ کہ اگرمعیارقرابت نسبی اور رشتہ داری ہے توآنحضرت (ص) کے چچاحضرت عباس(ع)اس جہت سے آنحضرت (ص) سے زیادہ نزدیک تھے لیکن اس زمرے میں انھیں شریک نہیں کیاگیاہے!
۔جیساکہ پہلے بیان کیاگیاہے۔
اس لحاظ سے قرابت،یعنی نزدیک ہونے سے مرادپیغمبراکرم (ص)سے معنوی قرابت ہے۔جس کاابن تیمیّہ نے مجبورہوکراعتراف کیاہے اورکہتاہے:
”علی(علیہ السلام)سابقین اوراولین میں سے تھے،اس لحاظ سے دوسروں کی نسبت آنحضرت (ص)سے زیادہ نزدیک تھے۔“
احادیث کی روسے مباہلہ میں شامل ہو نے والے افرادپیغمبراسلام (ص) کے خاص رشتہ دارتھے کہ حدیث میں انھیں اہل بیت رسول علیہم السلام سے تعبیرکیاگیاہے۔
ان میں سے ہرایک اہل بیت پیغمبر)علیہم السلام)ہونے کے علاوہ ایک خاص عنوان کا مالک ہے،یعنی ان میں سے بعض”اٴبنائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض”نسائنا“کے عنوان میں شامل ہیں اوربعض دوسرے”اٴنفسنا“کے عنوان میں شامل ہیں۔
مذکورہ وضاحت کے پیش نظریہ واضح ہوگیاکہ”اٴنفسنا“کے اطلاق سے نسبی رشتہ داری کا تبادر وانصراف نہیں ہوتاہے اورعلی علیہ السلام کاپیغمبرخدا (ص) کے مانندومساوی ہو ناتمام صفات،خصوصیات اورعہدوں سے متعلق ہے،مگریہ کہ کوئی چیزدلیل کی بنیادپراس سے خارج ہوئی ہو۔
اہل بیت علیہم السلام کے مباہلہ میں حاضر ہو نے کامقصدواضح ہوگیاکہ مباہلہ میں شریک ہونے والے افرادکی دعارسول خد ا (ص) کی دعاکے برابرتھی اوران افراد کی دعاؤں کا بھی وہی اثرتھاجوآنحضرت (ص) کی دعاکاتھااوریہ اس مقدس خاندان کے لئے ایک بلندوبرترمرتبہ ومقام ہے۔
___________________

۱۔تفسیرالکشاف،ج۱،ص۳۷۰،دارالکتاب العربی ،بیروت۔
۲۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،دارئ احیائ التراث العربی ،بیروت۔
۳۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ میں تنقید کریں گے۔
4۔التفسیر الکبیر،فخر رازی،ج۸،ص۸۰،داراحیائ التراث العربی۔
5۔تفسیرکبیرفخر رازی،ج۸،ص،۸،داراحیائ التراث العربی۔
6۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تیرے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بھی محبوب ترین مخلوق علی)علیہ السلام ہیں۔“
7۔تاریخ مدینہ دمشق،ج۴۲،ص۴۳۱،دارالفکر
8۔معر فة علوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیة،بیروت
9۔احکام القرآن /جصاص/ج۲/ص۱۴دارالکتاب العربی بیروت، اختصاص مفید/ص۵۶/من منشورات جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، اسباب النزول /ص۶۸/دارالکتب العلمیة بیروت،اسد الغابة/ ج۴/ ص۲۵/ داراحیائ التراث العربی بیروت الا صابہ/ج۲/جزء ۴/ص۲۷۱، البحر المحیط/ج۳/ ص۴۷۹/ داراحیائ التراث العربی بیروت،البدایة و النھایة/ ج۵/ ص۴۹ دارالکتب العلمیة بیروت، البرھان/ ج۱/ص۲۸۹/ مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، التاج الجامع للاصول/ ج۳/ ص۳۳۳/داراحیاء التراث العربی بیروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج۴۲/ص۱۳۴/ دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص۱۷/ چاپ نجف، تفسیر ابن کثیر/ج۱/ص۳۷۸/دارالنعرفة بیروت،تفسیربیضاوی/ج۱/ص۱۶۳/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیرخازن) الباب التاٴویل) /ج۱/ص۲۳۶/دارالفکر، تفسیر الرازی/ج۸/ص۸۰/داراحیاء التراث العربی بیروت، تفسیرالسمر قندی) بحرالعلوم)/ج۱ص/۲۷۴دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر طبری/ ج۳ /ص۳۰۱۔۲۹۹/دالفکر،تفسیر طنطاوی/ ج۲/ ص۱۳۰/ دارالمعارف القاہرة، تفسیر علی بن ابراہیم قمی /ج۱/ص۱۰۴، تفسیر الماوردی/ ج۱/ ص۳۸۹و۳۹۹/ مؤسسة ظالکتب الثقافیة/ دارالکتب العلمیة بیروت، التفسیر المنیر/ج۳/ ص۲۴۵ ،۲۴۸، ۲۴۹/ دارالفکر، تفسیرالنسفی) در حاشیہئ خازن)/ ج۱/ ص۲۳۶/دارالفکر،تفسیر
10۔تفسیر علی بن ابراھیم،مطبعة النجف ،ج۱،ص۱۰۴،البرہان ج۱،ص۲۸۵
11۔تفسیر البرہان،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عیلیان
12۔انعام/۳۸
13۔انعام/۸۴۔۵
14۔البرہان ،ج۱،ص۲۸۹،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعیلیان
15۔الاختصاص،ص۵۶،من منشورات جماعةالمدرسین فی الحوزةالعلمیة
16۔المنار،ج ۳،ص۳۲۲،دارالمعرفة بیروت
17۔اس سلسلہ میں بحث ،آیہء تطہیرکی طرف رجوع کیا جائے ۔
18۔روح المعانی،ج۳،ص۱۹۰،داراحیائ التراث ا لعربی
19۔میزان الاعتدال،ج۲،ص۱۵۴،دارالفکر
20۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
21۔اسباب النزول،ص۴۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت
22۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
23۔تاریخ مدینتہ دمشق،ج۴۲،ص۴۱۳۱،دارالفکر
24۔السنن الکبیر للنسائی،ج۵،ص۱۲۷،دارالکتب العلمیہ،بیروت۔
25۔جامع الاحادیث،سیوطی،ج۱۶،ص۲۵۷۔۲۵۶،دارالفکر،کنز العمال،ج۱۳،ص۱۴۳۔۱۴۲،مؤسسہ الرسالہ
26۔مناقب خوارزمی،ص۱۴۸،مؤسسہ النشرالاسلامی،مقتل الحسین علیہ السلام،ص۴۳،مکتبہ المفید۔
27۔روح المعانی،ج۳،ص۱۸۹،داراحیائ التراث العربی
28۔معرفةعلوم الحدیث،ص۵۰،دارالکتب العلمیہ،بیروت
29۔اعراف /۱۴۲
30۔اس سلسلہ میں مصنف کا پمفلٹ”حدیث غدیر،ثقلین ومنزلت کی روشنی میں امامت“ملاحظ فرمائیں۔
31۔شیعوں کاایک بڑا عقیدہ شناس عالم جس کا پہلے ذکرآیا ہے۔
32۔البحرالمحیط،ج۲،ص۴۸۱،مؤسسہ التاریخ العربی ،داراحیائ التراث العربی
33۔اگرابوحیان کارازی سے مقصودوہی فخررازی ہے توان اعتراضات کواس کی دوسری کتابوں سے پیداکرناچاہئے،کیونکہ تفسیرکبیرمیں صرف وہی اعتراضات بیان کئے گئے ہیں جوذکرہوئے۔
34۔ابن تیمیہ نے قبول کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں”انفسنا“مذکورہ حدیث کے پیش نظر علی علیہ السلام پرانطباق کرتاہے
35۔ابن تیمیہ نے اپنی بات کے ثبوت میں قرآن مجیدکی پانچ آیتوں کوبیان کیاہے،من جملہ ان میں یہ آیتیں ہیں:
الف۔و لولا إذسمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنات باٴنفسہم خیراً)نور/۱۲”آخرایساکیوں نہ ہواکہ جب تم لوگوں نے اس تہمت کوسناتومومن ومومنات اپنے بارے میں خیرکاگمان کرتے“مقصودیہ ہے کہ کیوں ان میں سے بعض لوگ بعض دوسروں پراچھاگمان نہیں رکھتے ہیں۔ب۔”ولا تلمزوا اٴنفسکم“)حجرات/۱۱)”آپس میں ایک دوسرے کوطعنے بھی نہیں دینا“

مؤلف: مجمع جہانی اہل البیت

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے الیکشن میں کامیابی  کے بعد سید ابراہیم رئیسی کی توثیق کر دی ہے اور انہیں ملک کے تیرہواں صدر کے طور پر  منصوب کر دیا ہے۔ انتہائی پرسکون اور روجانی ماحول میں اس تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کو دیکھ کر اسلام اور جمہوریت کے حسین امتزاج کا جلوہ دیکھنے کو ملا۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جس نئے سیاسی اور حکومتی ڈھانچے کو متعارف کرایا گیا، اس کی چند جھلکیاں اس تقریب میں نظر آئیں۔ سبکدوش ہونے والے اور نومنتحب ہونے والے صدر کا ایک تقریب میں انتہائی ملنساری اور مجبت سے موجود ہونا ان جمہوری نظاموں اور جمہوری لیڈروں کے لئے ایک تعمیری پیغام تھا، جو اپنے آپ کو جمہوریت کا چیمپئن کہتے ہوئے نہیں تھکتے، لیکن انتخابی معرکے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہوتے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے نومنتخب صدر سید ابراہیم رئیسی کی تقریب تقرری و توثیق منگل 3 اگست کو حسینیہ امام خمینی میں رہبر انقلاب اسلامی کی موجودگی میں سادہ لیکن انتہائي پروقار انداز میں منعقد ہوئی، جس میں سبکدوش ہونے والے صدر حسن روحانی اور ان کی کابینہ کے وزراء، عسکری قیادت اور دیگر سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ علماء ‏اور عمائدین نے شرکت کی۔ اس خوبصورت تقریب کے دوران رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی آئین کے مطابق حکمنامہ دیتے ہوئے نئے صدر کو باقاعدہ عہدہ صدارت کے لئے مقرر اور ان کی صدارت کی توثیق کی۔ نئے صدر کی  تقرری سے متعلق اپنے حکمنامہ میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوند عالم کے فضل و کرم سے ایرانی عوام ایک اور سخت و دشوار امتحان میں جو انتہائی پیچیدہ ماحول میں انتخابات کی شکل میں انجام پایا، سرفراز اور سرخرو ہوئے اور انہوں نے اپنے عزم و ارادے کی بدولت ایک بار پھر اپنی مرضی کا صدر منتخب کیا اور دنیا پر ثابت کیا کہ ایرانی عوام اپنی تقدیر اور مستقبل کا فیصلہ خود کرتے اور اس کا ہنر بھی خوب جانتے ہيں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح اس تقریب میں اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی شرکت بھی بہت ہی بصیرت آمیز اور اہم پیغامات کی حامل رہی ہے اور عوام نے اپنی بصیرت آمیز شرکت کے ذریعے دینی جمہوریت کا پرچم پھر لہرایا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم یہاں پر عوام کا شکریہ ادا کرتے ہيں، جنھوں نے صدارتی انتخابات میں تمام تر مشکلات کے باوجود حصہ لیا اور حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتے ہيں، جس نے صدارتی انتخابات کو شفاف ماحول میں بہترین طریقے سے منعقد کرایا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ سارا عمل ایران میں حکمفرما اسلامی اور دینی جمہوریت کے حسن کا مظہر  ہے، جہاں دنیا کے بعض دیگر ملکوں کے برخلاف انتقال اقتدار کا عمل انتہائی خوش اسلوبی اور دوستانہ ماحول میں انجام پاتا ہے اور پچھلی حکومت آنے والی حکومت کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کراتی ہے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران کے صدارتی انتخابات کے خلاف بڑے پیمانے پر کی گئی سازشوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ انتخابات کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی گئی، لیکن ایران کے غیور عوام نے انتخابات میں اپنی بھرپور شرکت سے اس قسم کی سازشوں کو ناکام بنایا اور انتخابات میں ووٹنگ کی شرح بھی اچھی رہی۔ آپ نے فرمایا کہ انتقال اقتدار کے بعد نئی حکومت بنے گی اور نئے عزم و ارادے اور نئے چہروں اور جذبے کے ساتھ نئے لوگ عوام کی خدمت کے لئے آئیں گے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے حکم نامے میں تمام شعبوں میں برق رفتار ترقی کے لیے ملکی آمادگی کا ذکر کرتے ہوئے، پیداوار میں اضافے کے درمیان حائل رکاوٹوں کو دور کرنے، قومی کرنسی کو مضبوط بنانے، پسماندہ اور متوسط طبقے کو سہارا دینے اور ملک کو شایان شان مقام پر پہنچانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے جاری کردہ حکم تقرری میں آیا ہے کہ جحت الاسلام جناب سید ابراہیم رئیسی کی توثیق اور انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کا صدر منصوب کرتا ہوں، خدا سے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی کامیابی کا طلب گار ہوں۔ آپ نے یاد دہانی کرائی ہے کہ عوامی مینڈیٹ اور میری تائید اس وقت تک معتبر رہے گی، جب تک وہ (منتخب صدر) اسلام اور انقلاب کے سیدھے راستے پر گامزن رہیں گے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوگا۔

اس تقریب میں نئے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے بھی اپنے خطاب میں گذشتہ چالیس برسوں کے دوران مختلف حکومتوں کے ذریعے انجام پانے والے اقدامات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلامی نظام کے سبھی خدمتگزاروں اور ان کے اقدامات کا احترام کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی عوام نے اٹھارہ جون کے صدارتی انتخابات میں اپنی شرکت کے ذریعے جو کورونا جیسے سخت حالات میں انجام پائے، دینی جمہوریت کا شاندارہ جلوہ پیش کیا اور دشمنوں کو جنھوں نے انتخابات کے خلاف پروپیگنڈے میں سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا، بری طرح مایوس کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایران کی پوری قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور جس مقصد و مطالبے کے پیش نظر انہوں نے مجھے صدر منتخب کیا ہے، اس کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

تیرہویں صدر کی حیثیت سے اپنی تقرری اور توثیق کے بعد خطاب کرتے ہوئے نئے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ اس سرزمین پر اسلامی جمہوریت کا تابناک سورج آج سے چالیس سال قبل عظیم المرتبت رہبر حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولولہ انگیز قیادت میں اور اس فرض شناس اور عظیم قوم کے عزم و ہمت کے نتیجے میں طوع ہوا تھا۔ ایران کے نئے صدر نے کہا کہ پچھلے چالیس برس کے دوران ایرانی حکام اور عہدیداروں نے اسلامی جمہوریت کی پائیداری کے لیے بے پناہ کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ چالیس برس کے دوران جب بھی امام خمینی (رہ) اور رہبر انقلاب اسلامی کی ہدایات اور نظام ولایت کے اصول و اقدار پر توجہ دی گئی، ملک نے ترقی، طاقت اور پیشرفت حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایران نے دنیا کے سامنے حکمرانی کا جو نیا ماڈل پیش کیا ہے، اس میں دنیا کے ساتھ دین، علم کے ساتھ اخلاق، انصاف کے ساتھ ترقی اور رفاہ و آسائش کے ساتھ عزت و سربلندی شامل ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ نئے صدر سید ابراہیم رئیسی کی تقریب حلف برداری جمعرات کو پارلیمنٹ ہال میں منعقد ہوگی، جس میں دنیا کے تہتر ملکوں کے سربراہاں اور اعلیٰ حکام نیز حکومتی مندوبین اور عالمی اداروں کے نمائندے شرکت کریں گے۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدارتی تقرری کا حکم آٹھویں صدر کے عنوان سے سید ابراہیم رئیسی کو اعطا کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے صدر کی تقرری کے حکم میں اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ایک بار پھر ایرانی عوام کو سخت ترین شرائط اور امتحان میں کامیاب قراردیا اور عوام نے انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے  ایک ایسی شخصیت کو انتخاب کیا جس کا ماضی مدیریت کے حوالے سے درخشاں ہے اور جو علم و تقوی ، پرہیزگاری  اور پختہ عزم کی صفات سے مزين ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تقرری کے حکم میں فرمایا: میں ممتاز اور تجربہ کار عالم دین حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی کو ایران کے آٹھویں صدر کے عنوان سے منصوب کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان  کی توفیقات میں اضافہ ، کامیابی اور کامرانی کے لئے دعا کرتا ہوں۔

رسول خدا حضرت محمد بن عبداللہﷺ نےحجاز اور یمن کے درمیان نجران نامی علاقےمیں مقیم عیسائیوں کو24 ذیحجہ 9 ہجری قمری کواللہ کی وحدانیت قبول کرنے کی دعوت دی جسے مباہلہ کہتے ہیں۔اور اس دن توحیدی عقیدے کا مشرکانہ عقیدے کا آمنا سامنا ہونا تھا ایکدوسرے کے عقیدے کے بارے میں خدا سے غضب کی دعا کرنی تھی اور توحیدی قافلے کو دیکھ کرہی مشرکوں نےدبے لفظوں میں اپنی شکست کا اعلان کیا ، اس طرح عقائد کا علمی اور عملی مناظرہ ہوا جس پر علم وعمل کا لا علمی وبی عملی پر غلبہ ہوا جسے اہل بصیرت عید مناتے ہیں۔کیونکہ اس کامیابی پر اللہ نے ایک آیت نازل فرمائی ہے۔
آیئے اس نورنی دن کے تاریخی منظر پر طائرانہ نظرکرکے اپنے اذہان اور عقیدے کو متبرک کرتے ہیں۔

 

نجرانی عیسائیوں کو اسلام کی دعوت

 ہجری کا نواں سال ہے، مکہ معظمہ اور طائف توفتح ہو چکا ہے ۔ یمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھی توحید کے دائرے میں آ چکے ہیں. حجاز اور یمن کے درمیان واقع نجران نامی ايک جگه ہے جہاں عیسائی مقیم ہیں اور شمالی افریقہ اور قیصر روم کی عیسائی حکومتیں ان نجرانی عیسائیوں کی پشت پناہی کررہے ہیں ، شاید اسی وجہ سے ان میں توحید کے پرچم تلے آنے کی سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہیں آتا ہے لیکن ان پر رحمۃ للعالمین مہربان ہورہے ہیں ۔
حضرت رسول رحمتﷺنجرانی عیسائیوں کے بڑے پادری “ابو حارثہ” کے نام اپنا خط روانہ کرتے ہیں ،جس میں عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ۔ رسول رحمت ﷺ کا خط سربمہر ایک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوتا ہے ۔
جب مدینہ سے آنحضرت کا نمایندہ خط لے کے نجران پہنچتا ہے جہاں وہ وہاں کےبڑے پادری ابو حارثہ کے ہاتھ آنحضرت کا خط تقدیم کرتا ہے ۔ ابوحارثہ خط کھول کر نہایت دقت کے ساتھ اس کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور فکر کی گہرایوں میں کھوجاتا ہے ۔ اس دوران شرحبیل جو کہ درایت اور مہارت میں مشهور تھا اسکو بلاوا بھیجتا ہے اس کے علاوہ علاقے کے دیگر معتبر اور ماہر اشخاص کو حاضر ہونے کو کہا جاتا ہے۔
سبھی اس موضوع پر بحث و گفتگو کرتے ہیں۔ اس مشاورتی مجلس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک ہیئت حقیقت کو سمجھنے کے لئے مدینہ روانہ کیا جاتا ہے جن کی قیادت ابوحارثہ بن علقمہ اورعبدالمسیح بن شرحبیل معروف بہ عاقب(علاقائی پادری)اوراهتم یا اہم بن نعمان معروف بہ سید (نجران کے سب سے بڑے قابل احترام بزرگ شخصیت) کر رہے تھے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلامﷺکے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔
نجران کا کارواں مسجد النبی میں داخل ہوتا ہے اور سبھوں کی نظر یں ان پر ٹک جاتی ہیں ۔پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کي نسبت بے رخی ظاہر کرتے ہیں ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی اور اب بے رخی دکھا رہے ہیں ! آخر کیوں ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی7نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیو ں سے کہا کہ آپ فاخرانہ لباس، تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عادی لباس میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔
اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام ﷺان کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اور انہیں اپنے پاس بٹھاتے ہیں اورمیر کارواں ابوحارثہ سے گفتگو شروع ہوتی ہے :
ابوحارثہ: آپکا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
پیغمبر ﷺ: جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سبھوں سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خداے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین، اسلام کو قبول کریں ۔
ابوحارثہ: اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہیں تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔
پیغمبر ﷺ: اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہیں تو عیسی7کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔
ابوحارثہ: اس بارے میں ہمارے پاس بہت ساری دلائل ہیں؛ از جملہ یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔
پیغمبر 6: آپ نے عیسی 7 کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خداے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسی7کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔
پادری “ابوحارثہ”یہ جواب سن کے خاموش ہوا۔ اور اس دوران کاروان میں شریک کسی اور نے ظاہرا شرحبیل(عاقب) نے اس خاموشی کو توڑا ۔
عاقب -عیسی، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے ۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی میں فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ{آل عمران /59}
عیسی کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے (ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا گیا۔
اس پر اچانک خاموشی چھا گئ اور سبھی بڑے پادری “ابو حارثہ” کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔
آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔
ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر ﷺ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش اُڑ گئے جب انہوں نے سنا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ{آل عمران/61}
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عيسی کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہه دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کوبلاو، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاو ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاو۔ پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
سچ اور جھوٹ کو اپنی حقانیت بیان کرنے کے لئے خطاب الہی ہوا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کے آئیں ؛ اسکے بعد مباہلہ کریں اور جھوٹے پر الہی لعنت طلب کریں گے ۔
حق ا و رباطل کی بے نظیر پرکھ قائم کرنی ہے۔ علم و عمل کا امتحان لینا ہے ۔ ظاہر اور باطن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دو آسمانی ادیان کے ماننے والوں کی حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ کس کا آسمان کے ساتھ ابھی رابطہ برقرار ہے اور کس نے یہ رابطہ منقطع کیا ہے ۔غرض طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع)صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں پہیل گئ ۔

 

مباہلے کا اہتمام

 24 ذیحجہ 9ہجری آ پہنچا۔مدینہ منورہ کے اطراف و اکناف میں رہنے والےلوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمایندے آپس میں کہتے تھے کہ ؛ اگر آج محمد ﷺاپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتا ہے تو وہ اپنے دعوے کا سچا ہے۔
سبھوں کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے ۔ پیغمبر خدا ﷺ ایک ہاتھ سے حسن بن علی 8 کا ہاتھ پکٹرے اور دوسرے ہاتھ سےحسین بن علی 8کو آغوش میں لئے بڑ رہے ہیں ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی حضرت فاطمۃ زہرا 3 چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے امیر المومنین علی7ہیں۔
صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبرﷺ اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے ۔
اس بیچ جب بڑے پادری ابو حارثہ کی نظریں پنجتن پاک : پر پڑی تو کہنے لگا : ہاے رے افسوس اگر اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اسی لمحے میں ہم اس صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔دوسرے نے کہا؛تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟
جواب ملا اس(پیغمبر خداﷺ) کےساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔ اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی ۔
مباہلہ پیغمبر کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے ۔ مباہلہ پیغمبر خدا 6کےاہل بیت: کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الہی منشور کا نام ہے ۔تاریخ میں ہم اس مباہلے کی تفسیر کبھی امام علی ، کبھی امام حسن کبھی امام حسین بن علی ، کبھی امام علی بن ، کبھی امام محمد ، کبھی امام جعفر صادق ، کبھی امام موسی کاظم، کبھی امام علی بن موسی رضا ، کبھی امام محمد تقی، کبھی امام علی نقی ، کبھی امام حسن عسکری: کی شہادت اور کبھی امام مھدی 7 کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں۔ جس سے غدیر خم میں کافروں کی اسلام کی نسبت نا امیدی کی نوید کو سنتے ہیں ۔
( الیوم ییس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوہم واخشون)[ مائدہ/1]۔
جی ہاں مباہلہ اور غدیر ہمیں اسلامی قیادت کی نشاندہی کررہے ہیں۔جسے امامت و لایت کہتے ہیں۔ اور یہی ولایت ہےجو کہاسلام کی بقا کیلئے ہر قسم کی قربانی پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسلام پر آنچ آنے نہیں دیتے ہیں ۔
آج امامت اورولایت کی آخری کڑی پردہ غیب میں ہیں اور انکی نیابت حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای مدظلہ العالی کررہے ہیں جن کی اتباع سے ہی حقیقی اسلام کی ترجمانی ممکن ہے ۔ جس طرح لبنان کے روحانی سنی عالم دین شیخ احمد الزین نے تقریب مذاہب اسلامی کی خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ:” شریعت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ولی فقیہ اور رهبر کے حامی اور تابع ہوں اسلئے ہماری صلاح اسی میں ہے کہ ہم امام خامنہ ای کے نسبت اپنےایمان اور محبت کا اظہار کریں” ایسے جذبے کا اظہار وقت کی ضرورت ہے تاکہ دور حاضر میں حق کے لبادے میں جھوٹوں کا پردہ فاش ہوسکے اور اسلام میں فوج ، فوج داخل ہونے کا سلسلہ وسیع تر ہوجائے اور مباہلہ کے جانشین بقیۃ اللہ اعظم امام مہدی عجل اللہ تعالی فرج الشریف کو خداوند اذن فرج عنایت کرکے ہر جگہ امن و امان ، صدق و صداقت اور حق و انصاف کا پرچم بلند ہو جائے ۔
اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں مباہلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر خداﷺکی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین: کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین

 

Tuesday, 03 August 2021 07:54

اعمال روز عید مباہلہ

چوبیسویں ذی الحجہ کا دن مشہور روایت کے مطابق24 ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہے اس دن حضرت رسول نے نصارٰی نجران سے مباہلہ کیا تھا واقعہ یوں ہے کہ حضرت رسول نے اپنی عبا اوڑھی ،پھر امیرالمؤمنین -،جناب فاطمہ (س)اور حضرت حسن و حسین (ع)کو اپنی عبا میںلے لیا ۔تب فرمایا کہ یا اللہ ! ہر نبی کے اہلبیت (ع)ہوتے ہیں اور یہ میرے اہلبیت(ع) ہیں ۔ پس ان سے ہر قسم کی ظاہری و باطنی برائی کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جیسے پاک رکھنے کا حق ہے ،اس وقت جبرائیل امین(ع) آیت تطہیر لے کر نازل ہوئے اس کے بعد حضرت رسول خدا نے ان چار ہستیوں کو اپنے ساتھ لیا اور مباہلہ کے لئے نکلے ،نصاریٰ نجران نے آپ کو اس شان سے آتے دیکھا ،اور علامات عذاب کا مشاہدہ کیا تو مباہلہ سے دست بردار ہو کر مصالحت کر لی اور جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے ۔
آج ہی کے دن امیرالمؤمنین - نے حالت نماز میں سائل کو انگوٹھی عطا فرمائی ۔اور آپ کی شان میں آیہ مبارکہ ’’اِنَّمَاْ وَلَیُّکُمُ اﷲِ...‘‘ نازل فرمائی۔
خلاصہ کلام یہ کہ یوم مباہلہ بڑی عظمت اور اہمیت کا حامل ہے اور اس میں چند ایک اعمال ہیں ۔
﴿۱﴾غسل ۔
﴿۲﴾روزہ۔
﴿۳﴾دورکعت نماز کہ جس کا وقت، ترتیب اور ثواب عید غدیر کی نماز کی مثل ہے ،البتہ اس میں آیۃالکرسی کو ھُمْ فِیْھَا خَالِدُوْنَ تک پڑھے ۔
﴿۴﴾ دعائے مباہلہ:یہ ماہ رمضان کی دعائے سحر کے مشابہ ہے اور اسکو شیخ و سید دونوں نے نقل فرمایا ہے چونکہ ان دونوں بزرگوں کے نقل کردہ کلمات دعا میں کچھ اختلاف ہے ،لہذا یہاں ہم اسے شیخ کی کتاب مصباح کی روایت کے مطابق تحریر کر رہے ہیں ،شیخ کا کہنا ہے کہ امام جعفر صادق - نے دعائے مباہلہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے اور وہ دعا یہ ہے :
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ بَهائِکَ بٲَبْهاه وَکُلُّ بَهائِکَ بَهیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے روشن ترین نور میں سے اور تیرا ہر نور درخشاں ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تیرے
کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَلالِکَ بِٲَجَلِّه وَکُلُّ جَلالِکَ جَلِیلٌ،
تمام نور کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے جلوے میں سے اور تیرا ہر جلوہ بہت بڑا جلوا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِکَ کُلِّه اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ جَمالِکَ بِٲَجْمَلِه وَکُلُّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام جلوہ کے واسطے اے معبود ! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہترین جمال میں سے
جَمالِکَ جَمِیلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بَجَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
اور تیرا ہر جمال پسندیدہ و بہترین ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تیرے پورے جمال کے واسطے اے معبود! میں پکارتا ہوں تجھے
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَظَمَتِکَ
جیسا کہ تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بڑی بزرگی میں
بِٲَعْظَمِها وَکُلُّ عَظَمَتِکَ عَظِیمَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَظَمَتِکَ کُلِّها ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
سے اور تیری ہر بزرگی ہی بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوںتجھ سے تیری پوری بزرگی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا
ٲَسْٲَلُکَ مِنْ نُورِکَ بِٲَنْوَرِه وَکُلُّ نُورِکَ نَیِّرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ بِنُورِکَ کُلِّه ۔
ہوں تجھ سے تیرے روشن نور میں سے اور تیرا ہر نور روشن ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پوری نور کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ رَحْمَتِکَ بِٲَوسَعِها وَکُلُّ رَحْمَتِکَ واسِعَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری وسیع تر رحمت میں سے اور تیری ساری رحمت وسیع ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِرَحْمَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔
تیری پوری رحمت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس میری دعا قبول کر جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَمالِکَ بِٲَکْمَلِه وَکُلُّ کَمالِکَ کامِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے کامل ترین کمال میں سے اور تیرا ہر کمال ہی کامل ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
بِکَمالِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ کَلِماتِکَ بِٲَ تَمِّها وَکُلُّ کَلِماتِکَ تامَّة،
تیرے پورے کمال کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سالم ترین کلمات میں سے اور تیرے سب کلمات ہی سالم تر ہیں
اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکَلِماتِکَ کُلِّھا اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ ٲَسْمائِکَ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے کلمات کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بہت بڑے
بِٲَکْبَرِها وَ کُلُّ ٲَسْمائِکَ کَبِیرَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِٲَسْمائِکَ کُلِّها اَللّٰهمَّ
ناموں میں سے اور تیرے سارے ہی نام بڑے ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر ناموں کے واسطے اے معبود
إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
عِزَّتِکَ بِٲَعَزِّها وَکُلُّ عِزَّتِکَ عَزِیزَة، اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِزَّتِکَ کُلِّها ۔
تیری بہت بڑی عزت میں سے اور تیری ہر عزت بہت بڑی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر عزت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَشِیئَتِکَ بِٲَمْضاها وَکُلُّ مَشِیئَتِکَ ماضِیَة، اَللّٰهمَّ إنِّی
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے ارادے میں سے جو نافذ ہونے والا ہے اور تیرا ہر ارادہ نافذ ہونے والا ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِمَشِیئَتِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ الَّتِی اسْتَطَلْتَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے ارادے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری قدر ت کا جس سے تو ہر چیز پر
بِھا عَلَی کُلِّ شَیْئٍ وَکُلُّ قُدْرَتِکَ مُسْتَطِیلَۃٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِقُدْرَتِکَ کُلِّها ۔
قبضہ و غلبہ رکھتا ہے اور تیری ہر قدر ت قابض اور غالب ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر قدرت کے واسطے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں
مِنْ عِلْمِکَ بِٲَ نْفَذِه وَکُلُّ عِلْمِکَ نافِذٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعِلْمِکَ
تجھ سے تیرے بہت جاری ہونے والے علم میں سے اور تیرا ہر علم جاری ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے تمام تر علم
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ قَوْ لِکَ بِٲَرْضاُه وَکُلُّ قَوْلِکَ رَضِیٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی
کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے بڑے خوش آیند قول میں سے اور تیرا ہر قول خوش آیند ہے اے معبود! میں
ٲَسْٲَلُکَ بِقَوْلِکَ کُلِّہِ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَسائِلِکَ بِٲَحَبِّها وَکُلُّها إلَیْکَ
سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے پورے قول کے واسطے اے معبود! میں طلب کرتا ہوں تجھ سے تیرے محبوب ترین سوالوں میں سے اور
حَبِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمَسائِلِکَ کُلِّها۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ
وہ سبھی تیرے نزدیک محبوب ہیں اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سبھی سوالوں کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ شَرَفِکَ بِٲَشْرَفِه
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بزرگی
وَکُلُّ شَرَفِکَ شَرِیفٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِشَرَفِکَ کُلِّه۔ اَللّٰهمَّ
میں سے اور تیری ہر بزرگی ہی سب سے بڑی ہے اے معبود !میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بزرگی کے واسطے اے معبود !
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ سُلْطانِکَ بِٲَدْوَمِه وَکُلُّ سُلْطانِکَ دائِمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے دائمی سلطانی میں سے اور تیری ہر سلطانی ہی دائمی ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ
بِسُلْطانِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مُلْکِکَ بِٲَ فْخَرِه وَکُلُّ مُلْکِکَ
سے تیری تمام تر سلطانی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی حکومت میں سے اور تیری تمام تر
فاخِرٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِمُلْکِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
حکومت بڑی ہے اے معبود ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری حکومت کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ عَلائِکَ بِٲَعْلاه وَکُلُّ
نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! طلب کرتا ہوں تجھ سے تیری سب سے بڑی بلندی میں سے اور تیری ہر
عَلائِکَ عالٍ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَلائِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ
بلندی بہت بڑی ہے اے معبود ! سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر بلندی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری
آیاتِکَ بِٲَعْجَبِها وَکُلُّ آیاتِکَ عَجِیبَة، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِآیاتِکَ کُلِّها
سب سے عجیب تر نشانیوں میں سے اور تیری سبھی آیات عجیب ہیں اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام تر آیتوں کے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ مَنِّکَ بِٲَقْدَمِه وَکُلُّ مَنِّکَ قَدِیمٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی
واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے سب سے قدیم احسان میں سے اور تیرا ہر احسان قدیم ہے اے معبود! میں سوال
ٲَسْٲَلُکَ بِمَنِّکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما
کرتا ہوں تجھ سے تیرے سارے احسان کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے
وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما ٲَ نْتَ فَیه مِنَ الشَّٲنِ وَالْجَبَرُوتِ
کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس کے واسطے جس میں تیری شان اور تیرا غلبہ ظاہر و عیاں ہے
اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِکُلِّ شَٲْنٍ وَکُلِّ جَبَرُوتٍ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِما
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری ہر شان اور تیرے ہر غلبے کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے اس نام کے
تُجِیبُنِی بِه حِینَ ٲَسْٲَلُکَ یَا اﷲُ یَا لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِبَهائِ لا إله
واسطے جس سے تو جواب دیتا ہے جب میں تجھ سے مانگتا ہوں اے اللہ اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں لاالہ الا
إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لا إلہَ إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِجَلالِ لاَ إله إلاَّ ٲَنْتَ، یَا لاَ إله
انت کے نور کے واسطے اے وہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں سوال کرتا ہوں تجھ سے لاالہ الا انت کے جلال کے واسطے اے وہ کہ
إلاَّ ٲَ نْتَ ٲَسْٲَلُکَ بِلا إله إلاَّ ٲَنْتَ ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی
تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے سوال کرتا ہوں لاالہ الا انت کے واسطے اے معبود میں دعا کرتا ہوں تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا
فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَ لُکَ مِنْ رِزْقِکَ بِٲَعَمِّه
پس قبول کر میری دعا جیسے تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے وسیع تر رزق میں سے
وَکُلُّ رِزْقِکَ عامٌّ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِرِزْقِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ
اور تیرا ہر رزق وسیع ہے اے معبود میں سوال کرتا ہوں تیرے تمام رزق کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے
مِنْ عَطائِکَ بِٲَهنَاه وَکُلُّ عَطائِکَ هنِیئٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِعَطائِکَ
تیری خوشگوار عطا میں سے اور تیری ہر عطا خوشگوار ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری تمام عطا کے واسطے
کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ خَیْرِکَ بِٲَعْجَلِه وَکُلُّ خَیْرِکَ عاجِلٌ، اَللّٰهمَّ
اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بھلائی میں سے جلد ملنے والی کااور تیری ہر بھلائی جلد ملنے والی ہے اے معبود! میں سوال
إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِخَیْرِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ بِٲَ فْضَلِه
کرتا ہوں تجھ سے تیری ساری بھلائی کے واسطے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیرے فضل میں سے بہت بڑا فضل کا اور تیرا
وَکُلُّ فَضْلِکَ فاضِلٌ، اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِفَضْلِکَ کُلِّه ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
ہر فضل بہت بڑا ہے اے معبود! میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری سارے فضل کے واسطے اے معبود! میں دعا کرتا ہوں
ٲَدْعُوکَ کَما ٲَمَرْتَنِی فَاسْتَجِبْ لِی کَما وَعَدْتَنِی ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی
تجھ سے جیسے تو نے حکم کیا پس قبول کر میری دعا جیسے کہ تو نے وعدہ کیا ہے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما
مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاََیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ برَسُولِکَ عَلَیْه وَآلِه اَلسَّلَامُ
اور اٹھا کھڑا کر مجھے جبکہ تجھ پر میرا ایمان ہو تیرے رسول کی تصدیق کروںان پر اور ان کی آل (ع)پر سلام ہو
وَالْوِلایَة لِعَلِیِّ بْنِ ٲَبِی طالِبٍ وَالْبَرائَة مِنْ عَدُوِّه وَالائتِمامِ بِالْاََئِمَّة مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ
اور تصدیق کروں علی (ع)ابن ابی طالب(ع) کی ولایت کی دورر ہوں ان کے دشمنوں سے اور ائمہ(ع) کی پیروکاری کا کہ جو آل محمد(ص) میں سے ہیں
عَلَیْهمُ اَلسَّلَامُ، فَ إنِّی قَدْ رَضیْتُ بِذلِکَ یَا رَبِّ ۔ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ عَبْدِکَ
ان سب پر سلام ہو پس میں راضی ہوں اس بات پر اے پروردگار اے معبود!حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما جو تیرے بندے اور تیرے
وَرَسُولِکَ فِی الْاََوَّلِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْاَخِرِینَ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی
رسول(ص) ہیں پہلے لوگوں میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پچھلے لوگوں میں حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما
الْمَلاََ الْاََعْلیٰ، وَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ فِی الْمُرْسَلِینَ ۔ اَللّٰهمَّ ٲَعْطِ مُحَمَّداً الْوَسِیلَه
افلاک اور عرش برین میں اور حضرت محمد(ص) پر رحمت فرما پیغمبروں میں اے معبود! حضرت محمد(ص) کو عطا فرما ذریعہ
وَالشَّرَفَ وَالْفَضِیلَة وَالدَّرَجَة الْکَبِیرَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَقَنِّعْنِی
بلندی بڑائی اور بلند سے بلند تر مقام اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت فرما اور مجھے قانع کر
بِما رَزَقْتَنِی، وَبارِکْ لَی فِیما آتَیْتَنِی، وَاحْفَظْنِی فِی غَیْبَتِی وَکُلِّ غائِبٍ هوَ لِی ۔
اس رزق پر جو تو نے دیا برکت دے اس میں جو تو نے مجھے دیامیری حفاظت کر میری غیبت میں اور اس میں جو مجھ سے غائب ہے
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَابْعَثْنِی عَلَی الْاِیمانِ بِکَ وَالتَّصْدِیقِ بِرَسُولِکَ
اے معبود! محمد(ص) وآل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھے اٹھا جبکہ میرا تجھ پر ایمان ہو اور تیرے رسول(ص) کی تصدیق کروں
اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وٲَسْٲَلُکَ خَیْرَ الْخَیْرِ رِضْوانَکَ وَالْجَنَّة وَٲَعُوذُ
اے معبود!محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میں سوال کرتا ہوں تجھ سے تیری بہتر سے بہتر خوشنودی اور جنت کااور پناہ لیتا ہوں
بِکَ مِنْ شَرِّ الشَّرِّ سَخَطِکَ وَالنَّارِ اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاحْفَظْنِی
تیرے سخت سے سخت غضب اور جہنم سے اے معبود! محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور میری حفاظت کر
مِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ بَلِیَّة وَمِنْ کُلِّ عُقُوبَة وَمِنْ کُلِّ فِتْنَة وَمِنْ کُلِّ بَلائٍ وَمِنْ کُلِّ
ہر ایک مصیبت سے ہر ایک مشکل سے ہر ایک سزا سے ہر ایک الجھن سے ہرایک تنگی سے ہر ایک
شَرٍّ وَمِنْ کُلِّ مَکْرُوه وَمِنْ کُلِّ مُصِیبَة وَمِنْ کُلِّ آفَة نَزَلَتْ ٲَو تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی
برائی سے ہر ایک ناپسند امر سے ہر ایک کھٹنائی سے اورہر ایک آفت سے جو نازل ہوئی یا نازل ہو آسمان سے زمین کی
الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ، وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی
طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن میں اور اس مہینہ میں اور اس رواں
هذِه  السَّنَة اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاقْسِمْ لِی مِنْ کُلِّ سُرُورٍ وَمِنْ کُلِّ
سال میں اے معبود! رحمت نازل فرما محمد(ص) و آل محمد (ص)پر اور نصیب کر مجھے ہر ایک راحت ہر ایک
بَهجَة، وَمِنْ کُلِّ اسْتِقامَة، وَمِنْ کُلِّ فَرَجٍ، وَمِنْ کُلِّ عافِیَة، وَمِنْ کُلِّ سَلامَة، وَمِنْ
مسرت ہر طرح کی ثابت قدمی ہر ایک کشادگی ہر ایک آرام ہر طرح کی سلامتی ہر طرح
کُلِّ کَرامَة وَمِنْ کُلِّ رِزْقٍ واسِعٍ حَلالٍ طَیِّبٍ وَمِنْ کُلِّ نِعْمَة وَمِنْ کُلِّ سعَة نَزَلَتْ ٲَو
کی عزت اور ہر قسم کی روزی وسیع حلال پاکیزہ ہر طرح کی نعمت اور ہر ایک وسعت جو نازل ہوئی یا
تَنْزِلُ مِنَ السَّمائِ إلَی الْاََرْضِ فِی هذِه السَّاعَة، وَفِی هذِه اللَّیْلَة، وَفِی هذَا الْیَوْمِ،
نازل ہو آسمان سے زمین کی طرف اس موجودہ گھڑی میں آج کی رات میں آج کے دن
وَفِی هذَا الشَّهرِ وَفِی هذِه السَّنَۃِ اَللّٰهمَّ إنْ کانَتْ ذُ نُوبِی قَدْ ٲَخْلَقَتْ وَجْهی عِنْدَکَ
اس مہینے میں اور اس رواں سال میں اے معبود !اگر میرے گناہوں نے تیرے سامنے میرا چہرا پژمردہ کردیا وہ میرے اور تیرے
وَحالَتْ بَیْنِی وَبَیْنَکَ وَغَیَّرَتْ حالِی عِنْدَکَ فَإنِّی ٲَسْٲَلُکَ بِنُورِ وَجْهکَ الَّذِی لاَ یُطْفٲُ
درمیان حائل ہو گئے اور تیرے سامنے میرا حال خراب کر دیا ہے تو میں سوالی ہوں تیرے نور ذات کے واسطے جو بجھتا نہیں
وَبِوَجْه مُحَمَّدٍ حَبِیبِکَ الْمُصْطَفی، وَبِوَجْه وَ لِیِّکَ عَلِیٍّ الْمُرْتَضی، وَبِحَقِّ ٲَولِیائِکَ
اور محمد(ص) کی عزت کے واسطے جو تیرے چنے ہوئے دوست ہیں اور تیرے ولی علی مرتضی (ع)کی عزت کے واسطے اور تیرے اولیائ
الَّذِینَ انْتَجَبْتَهمْ ٲَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَٲَنْ تَغْفِرَ لِی مَا مَضیٰ مِنْ
کے وسیلے سے جن کو تو نے پسند کیا ہے یہ کہ تو محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور یہ کہ میں جو گناہ پہلے کر چکا ہوں وہ
ذُنُوبِی، وَٲَنْ تَعْصِمَنِی فَیما بَقِیَ مِنْ عُمْرِی، وَٲَعُوذُ بِکَ اَللّٰهمَّ ٲَنْ ٲَعُودَ فِی شَیْئٍ
معاف کر دے اور باقی زندگی میں گناہوں سے مجھے محفوظ رکھ اور تیری پناہ لیتا ہوں اے اللہ اس سے کہ تیری نافرمانی کے کسی
مِنْ مَعاصِیکَ ٲَبَداً مَا ٲَبْقَیْتَنِی، حَتَّی تَتَوَفَّانِی وَٲَنَا لَکَ مُطِیعٌ وَٲَنْتَ عَنِّی راضٍ،
کام کیطرف پلٹوں جب تک تو مجھے زندہ رکھے یہاں تک کہ مجھے موت دے تو میں تیرا اطاعت گزار اور تو مجھ سے راضی ہو اور یہ کہ تو
وَٲَنْ تَخْتِمَ لِی عَمَلِی بِٲَحْسَنِه وَتَجْعَلَ لِی ثَوابَه الْجَنَّة وَٲَنْ تَفْعَلَ بِی مَا ٲَنْتَ ٲَهلُه
میرے اعمال نامے کو نیکی پر ختم کرے اور اس کے ثواب میں مجھے جنت عطا کرے نیز میرے ساتھ وہ سلوک کر جو تیرے شایاں
یَا ٲَهلَ التَّقْوی وَیَا ٲَهلَ الْمَغْفِرَة صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَارْحَمْنِی بِرَحْمَتِکَ
ہے اے بچانے والے اے پردہ پوشی کرنے والے محمد(ص) و آل محمد(ص) پر رحمت نازل فرما اور مجھ پر رحم فرما اپنی رحمت سے
یَا ٲَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ۔

﴿۵﴾دورکعت نماز اور ستر مرتبہ استغفار کے بعد شیخ و سید کی نقل کردہ وہ دعا پڑھے ،جس کا آغاز الحمد للہ رب العالمین سے ہوتا ہے ،ہر مومن اور مومنہ حضرت امیر-کی پیروی کرتے ہوئے صدقہ و خیرات کرے نیز حضرت کی زیارت پڑھے اور اس روز زیارت جامعہ کا پڑھنا زیادہ مناسب ہے ۔

 

کیا اہل سنت کے کسی مفسر نے مولی کا اولی معنی کیا ہے؟

 

جواب:

نہ صرف اہل لغت نے لفظ «مولي» کا  «أولي» معنی کیا ہے ، بلکہ اہل سنت کے مفسرین اور بزرگوں میں جنہوں نے قرآن کریم آیات کی تفسیر اور تشریح میں  خدمات انجام دیے ہیں ،انہوں نے بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے۔

 ہم ذیل میں ان میں سے پندرہ شخصیات کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں ۔

1. محمد بن اسماعيل بخاري (متوفاي 256هـ(

انہوں نے سوره حديد کی تفسیر میں نقل کیا ہے  :

قال مُجَاهِدٌ ... «مَوْلَاكُمْ» أَوْلَي بِكُمْ .[1]

مجاهد نے کہا ہے  : (مولاكم) کا معنی (اولي) اور برتری ہے  .

ابن حجر عسقلاني نے بخاري کی شرح میں لکھا ہے  :

قوله مولاكم أولي بكم قال الفراء في قوله تعالي «مأواكم النار هي مولاكم» يعني أولي بكم وكذا قال أبو عبيدة وفي بعض نسخ البخاري هو أولي بكم وكذا هو في كلام أبي عبيدة .[2]

فراء نے آيه شريفه : (ماواكم النار هي مولاكم) کی تشریح میں کہا ہے  : مولي کا معنی تم پر اولي اور برتر ہونا ہے، ابوعبيده نے بھی یہی کہا ہے بخاری کے بعض نسخوں میں «  أولي بكم » یعنی تم لوگوں پر برتر کا لفظ آیا ہے ،اسی طرح ابوعبيده کا کلام بھی ۔۔

عيني  نے عمدة القاري میں مولی کا معنی اولی اور برتر کہا ہے  :

مَوْلاكُمْ أوْلَي بِكُمْ . أشار به إلي قوله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم»[3]أي : ( أولي بكم ) كذا قاله الفراء وأبو عبيدة وفي بعض النسخ : مولاكم هو أولي بكم ، وكذا وقع في كلام أبي عبيدة .[4]

2. أبو عبد الرحمن سلمي (متوفاي 412هـ) :

قرن پنجم هجري کے مشہور عالم سلمی نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی لکھا ہے  :

«مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي الأشياء بكم واقربها إليكم .[5]

تم لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے  ؛ ینعی تم لوگوں کے لئے زیادہ سزاوار اور تم لوگوں سے زیادہ نذدیک  .

3 . أبو القاسم القشيري (متوفاي 465هـ) :

أبو القاسم قشيري نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں مولی کا معنی اولی بکم کیا ہے : و «هي مولاكم» أي هي أوْلَي بكم .[6]

4 . علي بن احمد واحدي (متوفاي 468هـ) :

اهل سنت کے ہی مشهور مفسر ،واحدي نے اس سلسلے میں لکھا ہے :

مأواكم النار ( منزلكم النار ) هي مولاكم ( أولي بكم )[7]

تم لوگوں کا ٹھکانہ یعنی آگ تم لوگوں سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب تر ہے .

5 . محمد بن فتوح حميدي (متوفاي 488هـ) :

حميدي کہ جو اہل سنت کے محدث ، مفسر  اور صاحب كتاب " الجمع بين الصحيحين" بھی ہے وہ  كلمه مولي کے بارے میں کہتا ہے :

ومنه قوله «ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » أي وليهم والقائم بأمورهم والمولي الأولي بك ودليله قوله « مأواكم النار هي مولاكم » أي هي أولي بكم .[8]

لفظ مولي جہاں اولي کے معنی میں آیا ہے ان میں سے ایک یہ والی آیت ہے « ذلك بأن الله مولي الذين آمنوا » ؛ یعنی اللہ تم لوگوں کے کاموں کو سرپرست اور تم لوگوں کے امور کو قوام بخشنے والا ہے ، اس معنی پر دلیل یہ والی آیت ہے"« مأواكم النار هي مولاكم »  یعنی آگ تم لوگوں  سے برتر اور تم لوگوں کے مناسب ہے ۔

6 . ابن عطيه اندلسي (متوفاي 546هـ) :

ابن عطيه اندلسي ، مفسر اور  نامور سني اديب ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں کہا ہے  :

وقوله «هي مولاكم» قال المفسرون: معناه هي اولي بكم .[9]

مفسروں نے (هي مولاكم) کے بارے میں کہا ہے : اس کا معنی اولی بکم یعنی تم لوگوں سے برتر کہا ہے ۔

7 . بيضاوي (متوفاي 685هـ) :

عبد الله بن عمر بيضاوي نے «هي مولاكم» کی تفسیر میں یہی معنی کیا ہے  :

«هي مولاكم» هي أولي بكم كقول لبيد : فغدت كلا الفرجين تحسب * أنه مولي المخافة خلفها وأمامها .[10]

8 . أبو عبد الله قرطبي (متوفاي 671هـ) :

قرطبي ، کہ جو  اهل سنت کے مایہ ناز مفسر ہیں اور آپ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے مولی کا معنی«اولي» کیا ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ یہ لفظ اولی اور لوگوں کے امور کی سرپرستی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور پھر بعد میں یہ کسی چیز کے ہمراہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے

 ( هي مولاكم ) أي أولي بكم والمولي من يتولي مصالح الإ

نسان ثم استعمل فيمن كان ملازما للشيء .[11]

9. نسفي (متوفاي 710هـ) :

، اهل سنت کے مفسر مشهور نسفي کہ جو " عقائد النسفيه " کے مصنف بھی ہے اور یہ کتاب اہل سنت کے مدارس کے کورس میں شامل ہے ،انہوں نے اپنی تفسیر میں «مولي» کی تفسیر اولی کے ذریعے کی ہے :

«هي مولاكم» هي أولي بكم .[12]

10 . علاء الدين خازن (متوفاي 725هـ) :

انہوں نے بھی «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے :

«هي مولاكم» أي وليكم وقيل هي أولي بكم .[13]

یہ تم لوگوں کا مولی ہے یعنی تم لوگوں کا سرپرست ہے ،یہاں اولي اور  برتر کا معنی بھی کیا ہے ۔

11 . سعد الدين تفتازاني (متوفاي791هـ) :

تفتازاني ، اديب ، مفسر و  اہل سنت کا مایہ ناز متكلم  ہے ،انہوں نے بھی  «مولي» کا معنی «اولي» کیا ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ یہی معنی علم لغت کے بزرگوں کے نذدیک رائج معنی ہے ؛

ولفظ المولي قد يراد به المعتق والمعتق والحليف والجار وابن العم والناصر والأولي بالتصرف قال الله تعالي : «مأواكم النار هي مولاكم» أي أولي بكم . ذكره أبو عبيدة وقال النبي صلي الله عليه وسلم أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن مولاها أي الأولي بها والمالك لتدبير أمرها ومثله في الشعر كثير وبالجملة استعمال المولي بمعني المتولي والمالك للأمر والأولي بالتصرف شائع في كلام العرب منقول عن كثير من أئمة اللغة .[14]

12 . فيروز آبادي ، متوفاي 817هـ) :

اهل سنت کے معروف لغت شناس اور مفسر ،فيروز آبادي نے اس آیت «هي مولاكم» کی تفسیر میں لکھا ہے  :

«هي مولاكم» أولي بكم النار .[15]

 13 . ابن عادل حنبلي (متوفاي880هـ) :

انہوں نے بھی «هي مولاكم» کے بارے میں لکھا ہے  :

وقوله : «هِيَ مَوْلاَكُمْ» يجوز أن يكون مصدراً أي : ولايتكم , أي : ذات ولايتكم .[16]

یہ جائز ہے کہ یہاں مولاکم مصدر اور تم پر ولایت اور سرپرستی کے معنی میں ہو.

14 . جلال الدين محمد بن احمد المحلي (متوفاي 854هـ) :

جلال الدين المحلي ، نے تفسير جلالين کہ جس کو انہوں نے اور جلال الدين سيوطي نے مشترک تالیف کی ۔اس میں بھی یہی معنی نقل ہوا ہے ۔

«مأواكم النار هي مولاكم» أولي بكم .[17]

15 . محمد علي شوكاني (متوفاي 1250هـ) :

شوکانی نے بھی اصلی معنی یہی اولی بالتصرف اور سرپرستی کو قرار دیا ہے۔

«هي مولاكم» أي هي أولي بكم والمولي في الأصل من يتولي مصالح الإنسان ثم استعمل فيمن يلازمه .[18]

جیساکہ آلوسي نے اپنی کتاب میں دوسری جگہ تصریح کی ہے کہ: كلبي ، زجاج ، فراء اور أبو عبيده کہ جو علم لغت کے سب سے ماہر افراد ہیں ،انہوں نے بھی لفظ  «مولي» کا معنی «اولي» کو قرار دیا ہے  :

وقال الكلبي والزجاج والفراء وأبو عبيدة : أي أولي بكم كما في قول لبيد يصف بقرة وحشية نفرت من صوت الصائد : فغدت كلا الفرجين تحسب أنه مولي المخافة خلفها وأمامها أي فغدت كلا جانبيها الخلف والإمام تحسب أنه أولي بأن يكون فيه الخوف .[19]

مذھبی تعصب دیکھیں :

ہم ذیل میں آلوسي کی طرف سے حديث غدير پر اعتراض کو نقل کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ مذھبی تعصب کیا سے کیا کرتا ہے اور آلوسی جیسا عالم کس طرح دہرا معیار اپنا لیتا ہے :

ولايخفي أن أول الغلط في هذا الاستدلال جعلهم المولي بمعني الأولي وقد أنكر ذلك أهل العربية قاطبة بل قالوا : لم يجيء مفعل بمعني أفعل أصلا ولم يُجَوِّز ذلك إلا أبو زيد اللغوي ... .[20]

کسی پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اس {شیعہ موقف پر }استدلال میں پہلی غلطی یہ ہے کہ یہاں مولی کو اولی کے معنی میں قرار دیا ہے جبکہ سارے اہل لغت نے اس معنی کو قبول نہیں کیا ہے ،بلکہ اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ مفعل ،افعل کے معنی میں کہیں بھی نہی آیا ہے ،سوای ابوزید کے کسی لغت شناس نے اس کو صحیح نہیں کہا ہے ۔

نتيجه :

اگر  لغت ، تفسير ، تاريخی علمی آثار ، اہل سنت اور اہل عرب کے بزرگوں کے آراء کو دیکھا جائے تو آلوسی جیسے لوگوں کا یہ ادعا بلکل باطل ہے۔

   واضح ہے کہ مکتب خلفاء کی طرف سے حدیث غدیر کو قبول نہ کنے کی بنیادی مشکل اور مسئلہ یہی لفظ مولی کا اولی والا معنی ہے ۔

جیساکہ مشاہدہ کیا کہ لفظ «مولي» کو  «اولي» کے معنی میں استعمال کرنے میں نہ صرف کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ بہت سے علماء نے اس کا یہی معنی ہی لیا ہے اور بہت سے اہل لغت اور اہل تفسیر و تاریخ نے دوسری ہجری سے آج تک  اسی معنی پر تصریح کی ہے ۔

[1]. البخاري الجعفي ، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله (متوفاي256هـ) ، صحيح البخاري ، ج 4 ص 1358 ، تحقيق د. مصطفي ديب البغا ، ناشر : دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت ، الطبعة : الثالثة ، 1407 - 1987 .

[2] . العسقلاني الشافعي ، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفاي852هـ) ، فتح الباري شرح صحيح البخاري ، ج 8 ، ص 628 ، تحقيق : محب الدين الخطيب ، ناشر : دار المعرفة - بيروت .

[3] . الحديد : 51

[4] . العيني ، بدر الدين محمود بن أحمد (متوفاي855هـ) ، عمدة القاري شرح صحيح البخاري ، ج 19 ، ص 628 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

[5] . السلمي ، أبو عبد الرحمن محمد بن الحسين بن موسي الأزدي (متوفاي412هـ) ، تفسير السلمي وهو حقائق التفسير ، ج 2 ، ص 309 ، تحقيق : سيد عمران ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان/ بيروت، الطبعة : الأولي ، 1421هـ - 2001م.

[6] . القشيري النيسابوري الشافعي ، أبو القاسم عبد الكريم بن هوازن بن عبد الملك، تفسير القشيري المسمي لطائف الإشارات ، ج 3 ، ص 380 ، ، تحقيق : عبد اللطيف حسن عبد الرحمن ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت /لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1420هـ ـ 2000م .

[7] . الواحدي ، علي بن أحمد أبو الحسن (متوفاي468هـ) ، الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 2 ، ص 1068 ، اسم المؤلف: تحقيق : صفوان عدنان داوودي ، ناشر : دار القلم , الدار الشامية - دمشق , بيروت ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ .

[8] . الحميدي الأزدي ، محمد بن أبي نصر فتوح بن عبد الله بن فتوح بن حميد بن بن يصل (متوفاي488هـ) ، تفسير غريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم ، ج 1 ، ص 322 ، تحقيق : الدكتورة : زبيدة محمد سعيد عبد العزيز ، ناشر : مكتبة السنة - القاهرة - مصر ، الطبعة : الأولي ، 1415هـ - 1995م .

[9] . الأندلسي ، أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطية ، المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز ، ج 5 ، ص 263 ، تحقيق : عبد السلام عبد الشافي محمد ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان ، الطبعة : الاولي ، 1413هـ- 1993م .

[10] . البيضاوي ، ناصر الدين أبو الخير عبدالله بن عمر بن محمد (متوفاي685هـ) ، أنوار التنزيل وأسرار التأويل (تفسير البيضاوي) ، ج 5 ، ص 300 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .

[11] . الأنصاري القرطبي ، أبو عبد الله محمد بن أحمد (متوفاي671 ، الجامع لأحكام القرآن ، ج 17 ، ص 248 ، ناشر : دار الشعب - القاهرة .

[12] . النسفي ، أبي البركات عبد الله ابن أحمد بن محمود (متوفاي710 هـ)، تفسير النسفي ، ج 4 ، ص 217 .

[13] . البغدادي الشهير بالخازن ، علاء الدين علي بن محمد بن إبراهيم (متوفاي725هـ )، تفسير الخازن المسمي لباب التأويل في معاني التنزيل ، ج 7 ، ص 217 ، اسم المؤلف: ناشر : دار الفكر - بيروت / لبنان - 1399هـ ـ 1979م .

[14] . التفتازاني ، سعد الدين مسعود بن عمر بن عبد الله (متوفاي791هـ) ، شرح المقاصد في علم الكلام ، ج 2 ، ص 290 ، اسم المؤلف: ناشر : دار المعارف النعمانية - باكستان ، الطبعة : الأولي ، 1401هـ - 1981م .

[15] . الفيروز آبادي (متوفاي817 هـ)، تنوير المقباس من تفسير ابن عباس ، ج 1 ، ص 457 ـ 458 ، ناشر : دار الكتب العلمية - لبنان .

[16] . ابن عادل الدمشقي الحنبلي ، أبو حفص عمر بن علي (متوفايبعد 880 هـ) ، اللباب في علوم الكتاب ، ج 18 ، ص 628 ، تحقيق : الشيخ عادل أحمد عبد الموجود والشيخ علي محمد معوض ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان ، الطبعة : الأولي ، 1419 هـ ـ 1998م

[17] . محمد بن أحمد المحلي الشافعي + عبدالرحمن بن أبي بكر السيوطي (متوفاي911 هـ)، تفسير الجلالين ، ج 1 ، ص 628 ، ناشر : دار الحديث ، الطبعة : الأولي ، القاهرة .

[18] . الشوكاني ، محمد بن علي بن محمد (متوفاي1255هـ) ، فتح القدير الجامع بين فني الرواية والدراية من علم التفسير ، ج 5 ، ص 171 ، ناشر : دار الفكر - بيروت .

[19] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 27 ، ص 178 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

[20] . الآلوسي البغدادي ، العلامة أبي الفضل شهاب الدين السيد محمود (متوفاي1270هـ) ، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني ، ج 6 ، ص 195 ، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت .

 

 

شب کے نصف پہر وہ اچانک خواب سے بیدار ہو جایا کرتی تھی۔ دنیا کے سامنے بظاہر خوش نظر آنے والے لڑکی اندر ہی اندر کیسے کیسے طوفاں اٹھائے ہوئے تھی، کوئی نہ جانتا تھا۔ اکثر چند جملے اس کے ذہن میں بازگشت کرتے رہتے اور وہ شب بھر سو نہ پاتی، ایسا اضطراب تھا جسے وہ آج تک کوئی نام نہ دے سکی۔ وہ جب تھوڑی دیر زیر لب مسکراتی یا زندگی کو چند لمحے محسوس کرنے کی کوشش کرتی تو ایک عظیم ہستی کے جملے اُس کے ذہن میں ٹکڑاتے *ہمیشہ اس فکر میں رہو کہ خدا نے تم سے کوئی بڑا کام لینا ہے، اگر یہ سوچ تمہارے قلب اور ذہن میں رہے گی تو تھکاوٹ، کاہلی اور نکماپن تمہارے قریب نہیں بھٹکے گا، نیز اس بات کا  احساس اپنے اندر قوی کر لو کہ تمہیں کوئی دیکھ رہا ہے اور تمہاے ایک ایک لمحے کا مشاہدہ کر رہا ہے*

وہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی کہ بغیر ہدف کے زندگی گزارنا موت ہے، بس یہ خیال آتے ہی وہ اپنی حقیقی مادرِ جان جنابِ سیدہ فاطمہ زہراء سلام علیہا کا عطا کردہ انمول تحفہ یعنی سیاہ چادر اٹھاتی اور پھر سے خود کو کسی الہیٰ کام میں مصروف کر لیتی۔ وہ ہمیشہ خود کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتی کہ رب نے یقیناً اُس سے بڑا کام لینا ہے، اسی لیے بچپن میں وہ ایک دفعہ موت کے کنویں سے واپس پلٹ آئی تھی اور جوانی میں بھی ایک بار پھر موت کو بہت قریب سے دیکھا تھا، یقینا یہ رب کی طرف سے اشارہ تھا کہ وہ عام موت نہیں مر سکتی۔ ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی خوف ہر لمحہ مسلط رہتا ہے، اُسے بس عام موت مرنے سے خوف آتا تھا۔ شہید قائد کا یہ جملہ کہ *شہادت ہمارا ورثہ ہے، جو ہماری ماؤں نے ہمیں دودھ میں پلایا ہے* ہر وقت اس کے ذہن سے ٹکڑاتا اور وہ صدق دل سے رب سے مناجات کرتی کہ رب اُسے جلد قبول کرے اور اُس کے نفس کی بہترین قیمت لگائے۔

عشاق شہداء کی وادی میں قدم رکھنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ یہاں معاملہ کتنا سخت ہے۔ حق الناس کے ساتھ ساتھ حق النفس کی طرف بھی ہر لحظہ متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک شہیدہ کے حوالے سے ملتا ہے کہ وہ اپنی ڈائری کے ہر صفحے پہ لکھا کرتیں تھیں کہ *خدا دیکھ رہا ہے* سننے میں یہ جملہ کتنا مختصر ہے، مگر انسان ہر لمحہ اس جملے کو ذہن میں رکھے تو بہت سے امور کی انجام دہی سے خود کو روک لے۔ وہ جانتی تھی کہ اس وادی عشق میں ایسے ایسے نیک طینیت اور روشن چہروں والے جوان موجود ہیں، جو نہ صرف خدا کے مقربین میں سے ہیں بلکہ خدا اُن کا اس قدر عاشق ہے کہ انہیں اُن کی شہادت کی تاریخ تک سے آگاہ کر رکھا ہے۔

وہ اکثر گھنٹوں سوچتی کہ بہشتِ زہراء کا منظر کتنا پرکیف ہوتا ہوگا، جب شہداء سید الشہداء کے ہمراہ مومنین کی حاجت روائی کرتے ہوں گے اور اس سے بڑھ کر فرزندِ زہراء کی قربت نصیب ہونا کتنا بڑا اعزاز ہے۔ شہادت کے مقام و مرتبے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ مقامِ شہادت اللہ کی بارگاہ میں اتنا عظیم اور بلند ہے کہ برزخ میں داخل ہونے سے قبل اس مقام کو درک نہیں کیا جا سکتا۔ شہید مرتضیٰ آوینی کہا کرتے تھے کہ *نمازِ عشق دو رکعت ہے، پہلی رکعت دنیا میں اور دوسری رکعت جنت میں، لیکن اس کے لیے خون سے وضو کرنا پڑتا ہے۔* وہ کئی سالوں سے منتظر ہے کہ اپنے لہو سے نماز عشق ادا کرے اور اپنے حقیقی محبوب سے جاملے، مگر یہ راہ اس قدر آساں نہیں۔

شہداء جہاد اصغر سے قبل جہاد اکبر میں کامیاب ہوئے۔ جہاد اکبر یعنی اپنے نفس سے جہاد کرنا۔ ہم جہاد اصغر کے لیے آمادہ ہیں مگر کوئی بھی جہاد بالنفس کی طرف مائل نہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب تک اپنے دل کو دنیا کی تمام وابستگیوں سے خالی نہیں کریں گے، اُس وقت تک شہادت جیسی سعادت کو حاصل نہیں کرسکتے۔ عشق حقیقی کی راہ پر گامزن یہ لڑکی نہیں معلوم کب لقائے الہیٰ کا جام پیے، مگر اِس سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ خدا کے لیے جینا خدا کے لیے مرنے سے کہی زیادہ مشکل ہے۔ ہم سب خدا کے لیے مرنے پر تیار ہیں مگر کیا کوئی خدا کے لیے جینے پر بھی آمادہ ہے۔؟
زندگی کا سفر کاٹنا ہے اگر، آگ پر رقص کرنے کا فن سیکھ لو 
جسم چاہے جلے، روح پھلے پھولے، جینا چاہو تو مرنے کا فن سیکھ لو

 اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی نے آج تہران کے تختی اسٹیڈیم میں کورونا ویکسینیشن سینٹر کے دورے کے دوران ایرانی کورونا  ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگوا لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق میجر جنرل حسین سلامی نے آج سپاہ کے اعلی کمانڈروں کے ہمراہ تہران میں تختی اسٹیڈيم میں سپاہ کی بری فوج کی طرف سے عوامی ویکسینیشن مرکز کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام ہمارے ولی نعمت ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے جسم و جان میں ہے وہ ہم عوام کی خدمت میں پیش کریں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ کے تمام اہلکار کا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے اور ویکسین لگوانے کے سلسلے میں وزارت صحت کے عملے کے ساتھ  بھر پور تعاون جاری ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے عدی الخدران نے خطے میں امریکہ کی طرف سے دہشت گردوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

عراقی پارلیمنٹ کے نمائندے نے کہا کہ امریکہ نے عراق اور خطے کے اسلامی ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے اور علاقہ کی جغرافیائی صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کو تشکیل دیا۔ امریکہ تکفیری دہشت گردوں کو پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ عدی الخدران نے کہا کہ عراق کے بعض صوبوں میں داعش دہشت گردوں کی فعالیت امریکی منصوبے کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری اور وہابی دہشت گردوں کے پاس پیشرفتہ ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ آج بھی عراق میں دہشت گردوں کی پشتپناہی اور انھیں پیشرفتہ ہتھیار فراہم کررہا ہے۔

حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام ، رسول مقبول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتویں جانشین اور ہمارے ساتویں امام ہیں ۔سلسلہ عصمت كی نویں كڑی ہیں.

آپ کے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق علیه السلام اور مادر گرامی حضرت بی بی حمیده  خاتون هیں جو مکتب جعفری کے تربیت یافته هونے کے ناطے طهارت باطنی اور پاکیزگی روح کے اعلا درجات تک پهنچ گئی تھیں که امام جعفر صادق علیه السلام نے ان کے بارے میں فرمایا : «حمیدة مصفاة من الادناس کسبیکة الذهب ما زالت الاملاک تحرسها حتی ادیت الی کرامة من الله لی والحجة من بعدی » . [1]

حمیده خالص سونے کی مانند آلودگیوں سے پاک هیں مجھ تک پهنچنے تک فرشتے همیشه ان کی حفاظت کرتے تھے یه الله کی کرم هے مجھ پر اور میرے بعد والی حجت پر .

 امام محمد باقر علیہ السلام جناب حمیدہ خاتون كے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: آپ دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہیں ۔

ولادت با سعادت  :

ابوبصیر کهتا هے که هم حضرت امام صادق علیه السلام کے ساتھ حج په جا رهے تھے جب ابواء کے مقام پر پهنچے تو آپ نے همارے لئے ناشتے کا اهتمام کیا  هم ناشته کرنے میں مصروف تھے اتنے میں حضرت امام صادق علیه السلام کی زوجه کی طرف سے ایک شخص خبر لے کرآیا که ان کی حالت خراب هو گئی هے اور درد زه شروع هو چکا هے چونکه آپ نے فرمایا تھا جلدی اس بارے میں خبر دوں اس لئے حاضر هوا هوں.آپ علیه السلام اسی وقت کھڑے هو گئے اور اس شخص کے ساتھ زوجه کے پاس چلے گئے تھوڑی دیر بعد واپس آگئے آپ کو شاد مان دیکھ کر هم نے مبارکباد کها اور زوجه کی صحت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : الله تعالی نے حمیده کو سلامتی  عطا کی هے اور مجھے ایک بیٹا دیا هے جو مخلوقات میں سب سے بهتر هے میری زوجه نے اس بچه کے بارے میں ایک مطلب مجھے بیان کیا اور گمان کررهی تھی که مجھے معلوم نهیں هے لیکن میں اس بارے میں ان سے زیاده جانتا هوں.

میں (ابو بصیر) نے اس مطلب کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :" حمیده کهه رهی تھی که جب یه بچه پیدا هوا تو هاتھوں کو زمین پر رکھا اور سر آسمان کی طرف بلند کیا " تو میں نے حمیده  سے کها یه رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد والے وصی کی نشانی هے .[2]

اس طرح حضرت ابو الحسن موسی کاظم علیه السلام هفتم صفر المظفر سنه 128ھ (بمطابق ۱۰نومبر ۷۴۵ء) بروز هفته سر زمین ابواء (مکه اور مدینه کے درمیان ) میں پیدا هوئے .[3] ولادت كے فوراً بعد ہی آپ نے اپنے ہاتھوں كو زمین پر ٹیك كر آسمان كی طرف رخ كركے كلمہ شہادتین زبان پر جاری فرمایا۔ یہ عمل آپ نے بالكل اسی طرح انجام دیا جس طرح آپ (ع) كے جد بزرگوار حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انجام دیا تھا۔آپ كے داہنے بازو پر یہ كلمہ ” تمت كلمۃ ربك صدقا وعدلا “ لكھا ہوا تھا۔

حضرت امام موسی بن جعفر علیه السلام کے القاب :

آپ کا نام موسی  کنیت :ابو الحسن اول، ابو الحسن ماضی، ابو ابراهیم، ابو علی، ابو اسماعیل اورآپ کے القاب :کاظم، عبدصالح، نفس زکیه، زین المجتهدین، وفی، صابر، امین اور زاهر هے. ابن شهرآشوب کهتے هیں :چونکه آپ اخلاق کریمه کے ساتھ چمک گئے اس لئے «زاهر» اور چونکه غصوں کو پی لیتے تھے اس لئے  «کاظم » مشهور هو گئے .[4]

 ولادت سے امامت تک :

حضرت امام موسی کاظم علیه السلام اپنے اجداد طاهرین کے مانند ولادت کے وقت سے هی خاندان اهلبیت (علیهم السلام ) میں ایک خورشید تابنده کی طرح چمک رهے تھےدوران بچگی سے هی آثار امامت آپ میں نمایاں تھیں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے آپ کی ولادت کے بعد شیعوں کو حضرت امام موسی کاظم علیه السلام کی امامت کے متعلق آگاه فرمایا اور اس طرح فرمایا : «فعلقوا بابنی هذا المولود... فهو والله صاحبکم من بعدی ».میرے اس فرزند کے ساتھ لٹک جاو ...الله کی قسم یه میرے بعد تمهارے صاحب (امام )هیں. [5]

یعقوب بن سراج کهتا هے که "- ایک مرتبه -میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام کے پاس گیا تو دیکھا که آپ اپنے فرزند موسی کے گهوارے کے پاس کھڑے هیں اور آپ کا فرزند گهواره میں هے امام علیه السلام نے تھوڑی دیر ان کے ساتھ راز وگفتگوکی اور گفتگو تمام هونے کے بعد میں قریب گیا تو مجھ سے فرمایا : اپنے مولا کے پاس جا کر سلام کرو . میں نےگهواره کے نزدیک  جا کر سلام  کیا  تو موسی بن جعفر علیه السلام نے جبکه گهوارے میں تھا  اچھےانداز میں میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا " جا کر اپنی بیٹی کیلئے کل جو نام (حمیرا )انتخاب کیا هےتبدیل کرو  پھر میرے پاس آجاؤ  چونکه الله تعالی ایسا نام پسند نهیں کرتا  "تو میں جاکر ان کا نام تبدیل کر دیا .[6]

حضرت امام موسی کاظم اهلسنت علماء کی نظر میں:

إبن حجر الهیتمی، الصواعق المحرقة میں کهتا هے: امام موسی کاظم علیہ السلام  اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے [7] أبو الفرج کهتا هے : ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو (عبد صالح ) کہا جاتا تھا ۔ [8]
ذھبی لکھتا ہے : « قد کان موسی من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاء» (حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے) ۔ [9] تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :« کان موسی بن جعفر من اشد الناس عبادة »

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔[10]
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ان کی عبادت مشهور اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت مین گزارتے تھے روز کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔ [11]
شفیق بلخی کہتا ہے : سنه ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھے جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس پہنے ہوئے تھا اور اپنے پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا هے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھاے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انھوں نے فرمایا کہ «شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ» مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ، اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواهی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انھوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى»‏ پھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باهر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انھوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انھوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاهری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہں پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہے ۔ اس طرح وہ صبح تک تھے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باهر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہونگے ۔ [12]

 

 


[1] -) اصول کافی، ج 1 ص 477.

[2] - اصول کافی، ج 1 ص 385، حدیث 1، باب موالید ائمه و المحاسن ص 314.

[3] -  129 هجری بھی نقل هوا هے کافی ج 1 ص 476، بحار الانوار ج 48 ص 2، ارشاد مفید ص 269، کشف الغمه ج 2، ص 212 و اعلام الوری ص 286، و 310،

[4] - مناقب ابن شهرآشوب، ج 2 ص 382، کشف الغمة، ج 2 ص 212، الارشاد مفید ص 270 و فصول المهمة، ص 214.

[5] - محاسن برقی، ج 2، ص 314.

[6] - اصول کافی، ج 1، ص 310.

[7] - ابو عباس أحمد بن محمد بن محمد بن علی إبن حجر الهیتمی؛ الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593؛ تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط ، مؤسسة الرسالة – بیروت، اول ، 1997م.

[8] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت ، دوم ، 1399ق – 1979م.

[9] - ذهبی؛ میزان الاعتدال ، ج 4 ، ص 204؛ بیروت ، دار المعرفة ، { بی تا }.

[10] - احمد بن ابی یعقوب ؛ تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414 ، قم ، مؤسسه و نشر فرهنگ اهلبیت .

[11] - نقل از مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6 . عطاردی ، عزیز الله ، مسند الامام الکاظم ، اول ، مشهد ، 1409ق .

[12] - عبد الرحمن بن علی بن محمد أبو الفرج؛ صفة الصفوة؛ تحقیق : محمود فاخوری - د.محمد رواس قلعه جی، دار المعرفة – بیروت

تحریر :مصطفی علی فخری