سلیمانی

سلیمانی

قرآنی علوم ومعارف سے سرشار عورت جس نے ایمان و تقوی اور فضائل و کمالات کے اعلی مراتب حاصل کئے ہیں اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور توحید کا پیغام نشرکرنے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہے وہ جلیل القدر خاتون خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سارہ ہیں آپ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے تینتیس سو اکسٹھ سال بعد اور پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت سے اٹھائیس سو پچپن سال پہلے عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئیں آپ کے والد ماجد لاہج تھے اور والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خالہ تھیں ۔ آپ نے ابھی زندگی کی چھتیسویں بہار ہی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی شادی حضرت ابراہیم سے ہوگئی اور آپ عمر کے آخری لمحہ تک ان کی مطیع و قرمانبردار رہیں۔ جناب سارہ اپنے زمانے کی مالدار خاتون اور بہت سی زمینوں اور مویشی اور جانوروں کی مالک تھیں مگر شادی کے بعد آپ نے اپنی تمام دولت وثروت حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کردی تاکہ وہ دین کی نشرو اشاعت میں صرف کریں ۔

حناب سارہ نے بچپن سے ہی یہ مشاہدہ کیاتھا کہ ان کے خالہ زاد بھائی ابراہیم ، اگر چہ جہالت و گمراہی سے پر اور بت پرست معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اوران کے ولی و سرپرست آزر خود ایک بت پرست تھے لیکن انہوں نے سن شعور ہی سے باطل خداؤں سے منھ موڑ رکھا تھا اور قوی ومستحکم دلیلوں کے ذریعے سورج ، چاند ستاروں اور ہرطرح کے خداؤں کی خدائی کو باطل قرار دیدیا تھا اور اپنے چچا آزر سے بحث و مناظرہ کرکے انہیں بت پرستی سے منع کیا تھا اس شرک و کفر کے ماحول میں جس چیز نے جناب سارہ کو اپنی طرف جذب کیا وہ انسانی اور توحیدی فضائل و کمالات تھے لہذا آپ نے ہزاروں پریشانی و مشکلات کے باوجود اپنے بھائی لوط کے ہمراہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق اور ان کی پیروی کی ۔

جناب سارہ بے شمار معنوی اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حامل خاتون تھیں اور قضائے الہی پر صبر و تحمل کے ساتھ راضي رہنا ان کی اہم خصوصیت تھی اور خدا پر اعتماد وبھروسہ ، عبادت و ریاضت میں خلوص اس خداپرست خاتون کی دوسری صفتیں تھیں اگر چہ آپ شادی سے پہلے ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں لیکن حضرت ابراہیم سے شادی کے بعد بے پناہ مصائب و آلام برداشت کئے اور اس راہ میں نہایت صبر وتحمل اور خدا پر مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو سر کیا اور اخلاص کے ساتھ عبادت و بندگی میں منزل کمال پر فائز ہوئیں جناب سارہ کے اخلاقی صفات خصوصا مصائب وآلام میں صبر و تحمل ، اپنی تمام دولت و ثروت کو اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرنا پیغمبر اسلام (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو تمام مصیبت و آلام میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہیں، کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ خلوص کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

 "

بے شک خدا پر ایمان ، انسان کے قلب کو قوت وطاقت فراہم کرتا ہے تاکہ انسان مشکلات و پریشانی کے عالم میں حلیم و بردبار رہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرودی میں ڈالاگیا تو اس وقت جناب سارہ موجود تھیں اور آپ کی سلامتی کے لئے بارگاہ پروردگار میں دعائیں کی تھی اور آگ خدا کے حکم سے گلزار ہوگئ اور دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور اس واقعے کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیم ، سارہ اور لوط کو شہر سے باہر نکال دیا اور وہ لوگ شام کی جانب چلے گئے جناب سارہ نے دربدری اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا تا کہ ابراہیم کے ذریعے دین کا پیغام زیادہ عام ہوسکے اور مدتوں شام میں رہے اور اس دوران حضرت ابراہیم لوگوں کو خدا کے دین کی دعوت دیتے رہے۔

ایمان و اخلاق کی پیکر حضرت سارہ عفت و پاکدامنی میں بے نظیر تھیں آپ نہایت جمیل تھیں عام طور پر صاحبان حسن وجمال اپنے فانی حسن پر بہت زیادہ اتراتے ہیں لیکن جناب سارہ ایمان و تقوی کی دولت سے مالا مال ہونے کی بناء پر ہمیشہ پورے حجاب میں رہتی تھیں اور غیر افراد کے ساتھ کبھی بھی نشست و برخواست نہیں کرتی تھیں

جناب سارہ ایثار وقربانی کی پیکر اور عفو و درگذر کرنے والی خاتون تھیں شادی کے چند سال بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں اور حضرت ابراہیم کے یہاں ایک بچے کا وجود ضروری ہے تاکہ نسل رسالت کا سلسلہ جاری رہے توآپ نے اپنی کنیز خاص ہاجرہ کہ جو ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں انہیں حضرت ابراہیم سے شادی کرنے کے لئے آمادہ کیا اور اس طرح پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل جیسا بیٹا عطافرمایا ۔

 

جناب سارہ بہترین شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ہر منزل پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاور و مددگار تھیں یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے ان کے ایثار اور جذبہ قربانی ، صبر و اطمینان اور اعتماد کے نتیجے میں ایسی عمر میں کہ جس میں عورتوں میں بچہ جننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جناب سارہ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور یہ ایک معجزہ الہی تھا ورنہ علمی اعتبار سے بھی اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا کہ ایک عورت نوے سال کی عمر میں ماں بن سکتی ہے ۔

حضرت ابراہیم اور جناب سارہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے جناب سارہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ تمام نیک امور بالخصوص مہمان نوازی میں حضرت ابراہیم کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک دن حضرت ابراہیم اور سارہ کے یہاں مہمان آئے لیکن یہ عام مہمان نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے مہمان ہوئے تھے ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورا ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لئے اسباب فراہم کئے اور بہترین بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت لائے سارہ نے بھی کھانا تیار کرنے میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور خوشی خوشی مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن مہمانوں کا ابراہیم کے گھر آنے کا مقصد ، انہیں بشارت و خوشخبری سنانا تھا ۔

وہ لوگ بڑھاپے کے عالم میں خداوند عالم کے فضل وکرم سے صاحب اولاد ہوئے ایسا فرزند جس کا سارہ مدتوں سے انتظار کررہی تھیں اور اس طرح فرشتوں نے جناب سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی خوشخبری سنائی سارہ نے جیسے ہی ماں بننے کی خبر سنی تو کہا : ” اب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تمہارے گھر والوں پر ہے وہ قابل حمد اور صاحب مجد و کرامت ہے ۔

 

اور پھر پروردگار عالم نے حضرت سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی شکل میں عطا فرمایا حضرت اسحاق جناب یعقوب علیہ السلام کے والد ماجد ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل ، حضرت موسی ، داؤد ، سلیمان ، زکریا ، عیسی، یحیی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جد امجد ہیں ۔

دین اسلام نے جنسیت کو لوگوں کی عظمت و برتری شمار نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں اور مردوں کے لئے خدا سے قربت کا بہترین ذریعہ تقوی اور پرہیزگاری کو قرار دیا ہے ۔ دین اسلام کی نظر میں مومن انسان اپنے نیک اعمال اور فضائل و کمالات کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کرتاہے اسی لئے پروردگار عالم نے انسان کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ، روئے زمین پر اپنا جانشین وخلیفہ بنانے کا مستحق و سزاوار قراردیا ہے ۔

جناب سارہ نے بھی بے انتہا کوشش و محنت کرکے آرام و سائش سے دوری اور مادیت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور خدا کی عبادت وبندگی میں اس درجہ کمال پر پہنچ چکی تھیں کہ پروردگارعالم نے ان کے عزت واحترام اور تعظیم کے لئے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے خطاب کیا بالآخر عظمت و رفعت کی پیکراور توحید پروردگار کی حامی جناب سارہ اپنی بابرکت ودرخشاں زندگی اور حضرت ابراہیم کی رسالت وولایت کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر میں راہی ملک ارم ہوگئیں۔

سلام ہو اس حامی خدا اور خلیل خدا پر ۔

نیشابورشہرسے 24 کلومیٹر کے فاصلے پرمشہد ـ نیشابور ہائی وے کے قریب مولا امام رضا علیہ السلام سے منسوب قدمگاہ شریف ہے۔[1]

قدمگاہ مولا امام رضا علیہ السلام، زائرین امام ہشتم ع کےعلاوہ عام سیاحوں کےلئے بھی نہایت پرکشش اور جاذب نظرمقام ہے، قدمگاہ کی جذابیت صرف مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے آس پاس کے نہایت خوبصورت اور قابل دید طبیعی نظارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ قدمگاہ کے ساتھ ایک خوبصورت باغ بھی ہے جس میں انتہائی قدیمی بلند و بالا درخت موجود ہیں۔

ایرانی بادشاہ ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں قدمگاہ میں موجود باغ کی توسیع کی گئی اور 1971 کو باقاعدہ طور پر اسے ایرانی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا۔[2]

باغ کی خصوصی حفاظت کی جاتی ہے اس کی ایک وجہ اس میں موجود بعض دیگر صفوی دور کے تاریخی یادگاروں کا موجود ہونا بھی بتایا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے قدمگاہ کی عمارت کے ساتھ کچھ اور عمارتیں بھی تعمیر کی گئی تھیں ان میں سے ایک میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا جبکہ ایک عمارت میں مسافروں کو جگہ دی جاتی تھی، جبکہ تیسری عمارت ایسی تھی کہ جس میں مویشی رکھے جاتے تھے۔

قدمگاہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جو خود تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور اس گاؤں میں ایک پرانے قلعے کے آثار پائے جاتے ہیں۔

قدمگاہ در اصل امام رضا علیہ السلام کی ایک عظیم یاد گارہے، اس قدمگاہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں ایک نہایت خوبصورت صاف شفاف پانی کا چشمہ بھی موجود ہے اور روایات کے رو سے یہ چشمہ، امام رضا علیہ السلام کے حکم سے ہی جاری ہوا ہےاور یوں یہ امام ہشتم علیہ السلام کے معجزات اور کرامات میں سے ایک ہے۔[3]

 

قدمگاہ میں 53 سینٹی میٹر سیاہ رنگ کا ایک پتھر موجود ہے جس میں دو قدموں کے نشانات پائے جاتےہیں اور لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس پتھر پر کھڑے ہوکرحضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام نے نماز ادا کی تھی اورعاشقان امام نے قدموں کے نشان والے پتھرکو محفوظ کرلیا تھا۔[4] جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ عاشقان امام رضا علیہ السلام نے اسے ایک یادگار کے طور پر بنایا ہے۔[5]

قدمگاہ کی تاریخی حیثیت

قدمگاہ تاریخی اعتبارسے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جب امام رضا علیہ السلام مدینہ منورہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے تو اس وقت نیشابور ایران کے ایک پررونق اور آباد شہر کے طور پر پہچانا جاتا تھا، جب امام ہشتم نیشابور پہنچے تو لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے امام علیہ السلام کا استقبال کیا بعض روایات میں استقتبال کرنے والوں کی تعداد، ایک لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔[6]

اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا(ع)، نیشابور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:‌ فرزند رسول ص ہمارے لئے کوئی حدیث بیان بیان فرمائیں، امام(ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا: میں نے اپنے والد گرامی موسی بن جعفر(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر بن محمّد(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی علی بن الحسین (علیہما السّلام) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی حسین بن علی(ع) سے؛ انہوں نے اپنے والد گرامی امیرالمؤمنین علی بن أبی طالب(ع) سے؛ انہوں نے رسول خدا(ص) سے آپ(ص) نے جبرئیل سے سنا جبرئیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں: “اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا.[7]

 

(ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: کلمہ “لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ” میرا مظبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو [امام رضا](ع) نے فرمایا: [البتہ] اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک ہوں۔

چونکہ اس حدیث شریف کے سارے راوی معصوم ہیں اس لئے اسے سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے، اور اس حدیث کو اس مقام پر ایک ساتھ بیس ہزار سے زائد افراد نے امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے بنفس نفیس سن کرقلم بند کیا ہے۔[8]

قدمگاہ کیسے جائیں؟

قدمگاہ تاریخی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ جب امام رضا علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کریں تو قدمگاہ کی زیارت سے بھی فیض یاب ہونے کی کوشش کیجئے۔

اگرآپ خود نیشابور شہر سے قدمگاہ کی زیارت پر جانا چاہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شہر سے قدمگاہ کی طرف عام طور پر ٹیکسی سروس موجود ہے جو بہ آسانی دستیاب ہے۔

مشہد مقدس سے اگر آپ جانا چاہیں تو ریل گاڑی، بس اور ٹیکسی کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔

 رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے صدارتی انتخابات میں عوام کی بھرپور اور پرجوش شرکت کو سراہتے ہوئے سنیچر کو اپنے ایک پیغام میں فرمایا ہے کہ انتخابات میں حاصل ہونے والی عظیم کامیابی دراصل عوام کی کامیابی ہے ۔آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا کہ نہ معاشی مشکلات کا شکوہ اور نہ ہی عوام کےحوصلے پست کرنے کے لئے مخالفین کے پروپیگنڈے نہ وبائی بیماری کورونا کے خطرات جیسے عوامل اور نہ ہی ووٹنگ شروع ہونے کے بعد ابتدائی لمحات میں پیش آنے والی بعض مشکلات، ان میں سے کوئی بھی چیز ووٹنگ میں بھر پور شرکت کے لئے عوام کے ارادوں کو کمزور نہ کرسکی ۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی عوام کو مخاطب کرکے فرمایا: اٹھارہ جون کے انتخابات میں بھر پور اور ولولہ انگیز شرکت نے آپ کے قابل فخر کارناموں میں ایک اور باب کا اضافہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اٹھارہ جون کے انتخابات میں اصل فاتح ایران کے عوام ہیں جو دشمنوں اور بدخواہوں کے زرخرید تشہیراتی اداروں کے پروپیگنڈوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور ملک کے سیاسی میدان میں اپنی موجودگی کا ثبوت پیش کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوند علیم و قدیر نے ایرانی عوام کو جو کامیابی عطا فرمائی ہے اور ایران نیز اسلامی جمہوریہ پر جو نظر کرم ڈالی ہے ،اس کے لئے میں بہت زیادہ شکرگزار ہوں اور ایرانی عوام کی قدردانی کرتا ہوں۔

آپ نے حالیہ صدارتی اور دیہی نیز شہری کونسلوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے افراد کے بارے میں فرمایا کہ ان حضرات کو جو عظیم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں ان پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے صدارتی الیکشن اور بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات میں جیتنے والوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ایران کے باوفا عوام کی قدر کریں ، اور قانون نے آپ کے لئے جو فرائض معین کئے ہیں، ان کی پابندی کریں ۔

 پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے نو منتخب ایرانی صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آپ کی مدبرانہ  قیادت میں پاکستان اور ایران کے مابین برادرانہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔

ایوان صدر کے میڈیا ونگ کے مطابق صدر عارف علوی نے نو منتخب ایرانی صدر کے نام مبارکباد کا خط ارسال کیا  ہے۔ پاکستانی صدر  نے ایران کے  نو منتخب صدر اور ایرانی عوام کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی اور کہا کہ ایرانی عوام نے امن، استحکام اور خوشحالی کیلئے آپکی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، اُمید ہے کہ آپکی قیادت میں پاکستان اور ایران کے درمیان برادرانہ تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم  ہوں گے۔صدر عارف علوی نے اپنے خط میں سید ابراہیم رئیسی اور ایرانی عوام کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

News Code 1907055

مہر خبررساں ایجنسی نے جنگ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان جنگ میں امریکہ کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ 20 برس میں افغانستان کے اندر سے جنگ نہ جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے یہ جنگ کیسے جیت سکے گا؟۔ پاکستانی وزير اعظم عمران خان نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ امریکہ کو افغانستان کےخلاف اڈے دیئے تو پاکستان میں ایک بار پھر دہشتگردی بڑھے گی اور پاکستان دہشت گردوں کا ہدف بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان عوام کے فیصلے سے بننے والی حکومت کی تائید کرے گا، پاکستان افغانستان میں کسی بھی دھڑے کی حمایت نہیں کرتا۔

عمران خان نے کہا کہ ماضی میں ایک دھڑے کی حمایت سے پاکستان نے غلطی کی جسے دہرایا نہیں جائے گا۔

عمران خان نے کہا کہ ہم افغانستان میں سیاسی امن عمل کے لیے کوششیں جاری رکھیں گے۔

حدیث سلسلۃ الذہب:

" اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،

خداوند کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ، میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا، وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔

اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا (ع) خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:‌

اے فرزند پیغمبر ! آپ ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں، کیا ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے ؟

اس مطالبے کے بعد امام (ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:

میں نے اپنے والد گرامی موسی ابن جعفر (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر ابن محمّد (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی ابن الحسین (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) سے، انہوں نے رسول خدا (ص) سے، آپ (ص) نے جبرائیل سے سنا، جبرائیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں:

اللَّه جَلَّ جَلَالُهُ یقُولُ لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِی‏ فَمَنْ دَخَلَ حِصْنِی أَمِنَ مِنْ عَذَابِی قَالَ فَلَمَّا مَرَّتِ الرَّاحِلَةُ نَادَانَا بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا،

خداوند نے فرمایا ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔

آج ہر طرف چراغانی ہے، مسرتوں کی انجمن ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہے، ہند و پاک ہو کہ ایران و عراق یا جہان تشیع و کائنات محبان اہلبیت اطہار علیھم السلام و محاذ حریت ہر طرف محفلیں سجی ہیں اور امام رضا علیہ السلام   کے فضائل و مناقب، آپکی تعلیمات سے آشنائی کے  ساتھ  آپ سے جڑا ہر دل یہ چاہتا ہے کہ عشرہ کرامت کے اس اختتامی دن کو یادگار بنایا جا سکے۔ یاد رہے کہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی یکم ذیقعدہ (1) سے ولادت کو لیکر ۱۱ذی قعدہ ولادت امام رضا علیہ السلام  (2) سے اس عرصے کو عشرہ کرامت کا نام دیا گیا ہے۔ اس لئے کہ جہاں بی بی حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کو کریمہ اہلبیت اطہار علیھم السلام کہا جاتا ہے، وہیں امام رضا علیہ السلام کریم اہلبیت (ع) ہیں یوں تو اہلبیت اطہار علیھم السلام کا ہر فرد کریم ہے لیکن چونکہ معصومہ قم کو کریمہ اہلبیت (ع) کہا جاتا ہے اور امام رضا علیہ السلام کا کرم بھی کسی پر پوشیدہ نہیں، آپ کریم اہلبیت ہیں، لہٰذا بہن کی ولادت سے لیکر بھائی کی ولادت کے اس عرصے کو عشرہ کرامت کے طور پر منایا  جاتا ہے۔ ہم اس عشرہ کرامت کی اختتامی منزل پر ہیں، لہٰذا بہتر جانا کہ اس کے اختتام پر مفہوم کرامت و کرم کو سمجھتے ہوئے ہم ان قدروں کو اپنے اندر اجاگر کرنے کی کوشش کریں، جو امام رضا علیہ السلام نے ہم تک منتقل کرنا چاہی ہیں، چنانچہ پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ مفہوم کرامت کو واضح کرتے ہوئے امام رضا علیہ کی حیات طیبہ کے گلستان کرم و فضل کے چند ان خوشوں کو پیش کیا جائے، جن سے آج بھی راہ کرم و فضل کے سالک استفادہ کر رہے ہیں  اور رہتی دنیا تک یہ تعلیمات کرامت و شرف کی راہ میں مشعل راہ رہیں گے    

مفہوم کرامت:  
کرامت انسان کی ایسی خصوصیت ہے، جو انسان کی ایک  والا قدر اور اس کے  عظیم شرف کی ترجمان ہے، کرامت ہی کی بنیاد پر انسان ذاتا دوسری مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے، تمام ادیان و مکاتب فکر نے الگ الگ انداز سے انسان کی ذاتی کرامت کی تشریح کی ہے اور اسے عطائے رب جانتے ہوئے کرامت کو محفوظ رکھنے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اصولوں کو بیان کیا ہے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے سلسلہ سے قائم مطالعات کی جدید دنیا میں (Human digneity) کے نام سے انسان کے موضوع پر ایک نئے مطالعہ کا باب تک کھل گیا ہے، (3) حتٰی یہ وہ موضوع ہے جس پر شاعروں اور فلاسفہ نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے اس پر خاص توجہ دی ہے، (4) اور ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام خاص کر امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں جا بجا انسانی کرامت کے بارز نمونے نظر آتے ہیں، ان نمونوں کو بیان کرنے سے قبل  ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کرامت کہتے کس کو ہیں اور اسکا مفہوم کیا ہے جب ہم نے مفہوم کرامت  کو ڈھونڈا تو ملا کہ لفظ کرامت "کرم" سے ہے اور لغت میں اسکے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں کہیں یہ "بخشش و عطا" کے معنی میں ہے اور کہیں کسی کی "ارجمندی و بزرگی" کو بیان کرتا ہے کہیں "جلالت و شان" کو ابن منظور نے اسکے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کریم ایک ایسا اسم ہے جو اس ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے اندر تمام سراہے جانے والے صفات موجود ہوں (5) گو تمام تر صفات حمیدہ کے حامل کو کریم کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی نے کہا ہے کہ جب یہ خدا سے متصف ہو تو بخشش و عطا کے معنی میں ہوگا۔ جب انسان کے لئے استعمال ہو تو اچھے اخلاق و کرادر کے طور پر اسکے معنی بیان ہوں گے، (6) انہیں معنی کے پیش نظر علماء نے کرامت کے معنی کو ایسی صفت جس سے عقلاء راضی و خوشنود ہوں، (7) نیز پستیوں کی ضد،  (8) بلندی کردار، پاکیزگی روح اور گوہر جان کے طور پر بھی بیان کیا ہے، (9) قرآن کریم نے بھی اسی روح کی بلندی کو بیان کرنے کے لئے لفظ کرامت کا سہارا لیا  چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔"وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً": اسی لئے علماء اس آیت کے ذیل میں گفتگو کرتے ہوئے کہیں اسے انسان سے مخصوص روحانی فضیلت تو کہیں ذاتی شرف کے طور پر پیش کیا ہے،(10) مفہوم کرامت کی مختصر وضاحت کے بعد یہ تو واضح ہو گیا یہ انسان کی ایک ایسی صفت ہے جو اسے پستیوں سے دور کرتی ہے اور انسان کے گوہر وجود کو بیان کرتی ہے، بعض علماء نے مفہوم کرامت کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک ذاتی و وہبی کرامت جو خدا نے ہر ایک کو دی ہے، ذاتی کرامت سے مراد وہ بلندی کردار ہے جسکا ہر ایک انسان ذاتا حامل ہے مگر یہ کہ برائیوں اور رذائل کے ارتکاب کے ذریعہ اسے ختم کر دے اور پست ہو جائے، دوسرا مفہوم کرامت  اکتسابی ہے جہاں انسان اپنی ذات کی تعمیر و تطہیر اس طرح کرتا ہے کہ رذائل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور حصول کمالات کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے۔

یہی کرامت کا وہ مفہوم ہے جو انسان کی قدر و منزلت کو طے کرتا ہے [11] جب انسان کا کمال اسکی قدر و منزلت کو طے کرے تو تقوی سے بڑھ کر کمال اور کیا ہوگا جس کے لئے ارشاد ہو رہا ہے إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ: ...  (الحجرات/13)۔ خدا کے نزدیک برتری کی بنیاد تقوٰی پر ہے،بیشک وہ جاننے والا اور باخبر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم امام رضا علیہ السلام کی زندگی میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپکی نگاہ میں خاندانی پس منظر یا آزاد و غلام ہونا معیار نہیں تھا،  بلکہ آپکی نظر میں شرف انسانیت، کرامت انسان کی دلیل انسان کا باطن تھا، چنانچہ ابا صلت کہتے ہیں میں امام کے خراسان کے سفر میں ہمراہ تھا کہ امام علیہ السلام نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور تمام  غلاموں اور خادموں کو آواز دی کہ آجائیں  میں نے کہا آقا میری جان آپ پر قربان انکے لئے عیلحدہ دسترخوان لگا دیتے، آپ نے فرمایا ہمارا خدا ایک ہ،م ہمارے ماں باپ ایک ہیں اور انسان کی جزا اسکے اعمال پر موقوف ہے، (12) اور ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ایک مقام ہو جہاں امام علیہ السلام نے اپنے خادموں اور خود کے درمیان سے ہر فرق کو مٹا کر انہیں اپنے ساتھ بٹھایا ہو بلکہ آپکا شیوہ ہی یہی تھا آپ اپنے خادموں  اور اپنے یہاں  کام کرنے والوں سے بہت مانوس تھے، چنانچہ جب بھی آپکو فراغت ملتی تمام چھوٹے بڑے لوگوں کو اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے گفتگو فرماتے، یہاں تک کہ  اصطبل میں کام کرنے والوں تک کو آپ اپنے پاس بلا بھیجتے اور سب کے لئے دسترخوان لگا کر سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، (13)کرامت نفس کی اس بلندی پر آپ کی ذات تھی۔

خدمت خلق کو اپنا فریضہ سجمھتے تھے ہر ایک کے کام آتے اگر کوئی آپکو نہیں جانتا اور آپ سے اس نے کسی خدمت کے لئے بھی کہا تو آپ نے نہیں کہا کہ تم یہ کام مجھ سے لے رہے ہو جانتے نہیں میں کون ہوں؟ بلکہ تاریخ کہتی ہے کہ آپ کو نہ پہچان پانے کی وجہ سے حمام میں موجود کسی شخص نے عام آدمی خیال کر کے کیسہ ملنے کو کہا تو آپ نے اس سے بھی انکار نہیں کیا اور اسکا میل صاف کرنے تک میں عار محسوس نہیں کی اور جب اس نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ امام وقت سے کام لے رہا ہے تو اپنی جگہ سن رہ گیا اور معذرت کرنے لگا کہ مولا مجھے خبر نہیں تھی، امام علیہ السلام نے اس وقت بھی اس سے کہا کوئی بات نہیں ہے اور کوشش کی کہ اس کی شرمندگی کو دور کر سکیں، (14) یہ ہمارے امام علیہ السلام کی سیرت ہے، کیا ہم اپنے معاشرے کے نادار و غریب افراد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں جیسا کہ امام رضا علیہ السلام سب کے ساتھ فرماتے تھے؟ کیا ہم کسی کا بوجھ اس کے سر پر رکھنے کے لئے تیار ہیں؟ اٹھانے کی تو بات ہی دور ہے، کیا ہم اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ  ہمدردی و رواداری سے پیش آ سکتے ہیں، کیا ہم کسی غریب کا درد دل سن سکتے ہیں، کیا جب ہم کسی بڑی محفل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمارے اندر یہ بات نہیں پائی جاتی کہ ہمیں اونچی جگہ ملے بڑا مقام ملے ہماری آو بھگت ہو، کیا ہم کسی پروگرام میں فقراء کے ساتھ ہم  طعم میں ہم سفرہ ہو سکتے ہیں، کیا ہم کسی انسان کا خاموشی سے کوئی کام کر سکتے ہیں اور بس اپنے اللہ سے اجر کے طالب ہو سکتے ہیں، ہمارے اندر کتنی کرامت پائی جاتی ہے ہمارے اندر کتنا ظرف پایا جاتا ہے۔

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

روایت میں ہے کہ ایک کریم انسان  اگر کسی کے کام آتا ہے تو ضرورت مند کے سامنے منتیں نہیں کرتا بلکہ اسکی حاجت روائی کو اپنا قرض سمجھ کر ادا کرتا ہے۔ یسع بن حمزہ سے منقول ہے کہ ہم امام علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے تھے اور کافی مجمع تھا سب لوگ مسائل شرعیہ دریافت کر رہے تھے، حلال و حرام خدا کے بارے میں سوال کر رہے تھے اور مولا سب کو جواب دے رہے تھے کہ ہماری محفل میں ایک گندمی رنگت کا شخص داخل ہوا اور اس نے امام علیہ السلام کو سلام کیا اور کہا کہ میں آپکا شیعہ ہوں، میں اپنے وطن سے حج کی غرض سے آیا تھا لیکن راستے میں میری رقم کھو  گئی، آپکی خدمت میں آیا ہوں کہ فی الحال آپ میری ضرورت پوری کر دیں اور میں اپنے گھر کرج گھر پہنچ کر فورا آپکی طرف سے دی جانے والی رقم کو صدقے کے طور پر نکال دونگا، امام  علیہ السلام نے اس کی گفتگو سن کر کہا "رحمک اللہ" اور امام علیہ السلام نے اس کے ساتھ شفقت کا اظہار فرمایا، اسے اپنے پاس بٹھایا اور تھوڑی دیر کے بعد جب دو چار لوگ ہی بچے اور باقی اٹھ کر چلے گئے اور کچھ خلوت ہوئی تو  آپ نے وہاں بیٹھے لوگوں سے رخصت لے کر حجرے کا قصد کیا اور وہاں سے ایک تھیلی نکالی اور باہر  کی جانب رخ انور کر کے پوچھا وہ مرد خراسانی کہاں ہے، جو ابھی  آیا تھا وہ قریب آیا تو مولا نے اسے دو سو  درہم کی تھیلی دیتے ہوئے ہوئے کہا یہ لو یہ تمہاری رقم ہے، جسکا تم نے مطالبہ کیا تھا اور میری جانب سے صدقہ دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ تمہاری ہی ہے، اسے اپنے ضرورت کے حساب سے خرچ کرو۔

امام علیہ السلام نے اس گفتگو کے دوران اسکے چہرے پر نظر نہیں ڈالی، کسی نے پوچھا کہ مولا آپ نے اسے دے تو دیا لیکن چھپ کر کیوں دیا اس کے چہرے کی طرف کیوں نہیں دیکھا تو آپ نے جواب دیا میں نے نہیں چاہا کہ اسکے چہرے پر اسکی شرمندگی کو دیکھوں، مجھے خدا سے خوف آیا کہ اس کے بندے کے چہرے پر خفت کو دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا سے نہیں سنا ہے کہ جو اپنی نیکی کو پوشیدہ کرے اسے ۷۰ حج کا ثواب دیا جائے گا۔ امام علیہ السلام کا یہ عمل بتاتا ہے کہ کرامت و شرافت نفس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی کے کام آنے کے بعد ہرگز اسکی منت نہ رکھی جائے کہ ہم نے یہ کر دیا، ہم نے وہ کر دیا، بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ سوال  کرنے والے کی عزت نفس باقی رہے اور اسے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ عشرہ کرامت کے اس آخری دن جہاں ہم امام رضا علیہ السلام کی زیارت انکے ذکر و  فضائل و مناقب میں مشغول عبادت ہیں، وہیں  ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر کریمانہ مزاج پیدا کریں اور امام رضا علیہ السلام کی سیرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیکھیں کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام کرامت نفس کی کس منزل پر تھے اور ہم کہاں پر ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو امام رضا علیہ السلام کے کردار سے نزدیک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینا یہ وہ منزل ہوگی کہ عشرہ کرامت کا حسن اختتام بھی ہوگا  اور ہمارا اپنے امام علیہ السلام کے لئے حسن اتباع بھی، اگر ہم اپنے کردار کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے تو عشرہ کرامت میں جس طرح ہمارے گھروں، شہروں، امام بارگاہوں میں چراغانی ہے اسی طرح ہماری روحوں میں بھی معنویت و کرامت نفس کی چراغانی ہوگی۔ پروردگار ہم سب کو  توفیق دے کہ ہم عزت و کرامت نفس کے ساتھ راہ بندگی پر تعلیمات اہلبیت اطہار علیھم السلام کی روشنی میں مسلسل آگے بڑھتے رہیں۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:

ا۔ استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌حال او»، ص۳۰۱۔
2۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، جلد ۱ ص ۴۸۶ تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، چاپ پنجم، ۱۳۶۳ش۔
 3۔ رحیمی‌نژاد، اسماعیل و محمّد حبیب‌زاده، (1صفا387). "مجازات‌های نامتناسب؛ مجازات‌های مغایر با کرامت انسانی"۔ حقوق، دورة 2۔ ‌شمارة 115، صص 134ـ 115۔ صادقی، محمود۔ (1385)۔ کرامت انسانی؛ مبنای منع همانند سازی انسان در اسناد بین‌المللی۔ پژوهشنامة حقوق و علوم سیاسی۔ شمارة 2 و 3۔ صص 138ـ117۔
4۔ آساتوریان، فارمیک و محمّد آل‌ عصفور. (1386)۔ "کرامت انسان و محورهای اصلی  در مثنوی مولوی"۔ علوم اجتماعی و انسانی دانشگاه شیراز۔ دورة 51، شمارة 51، ص 46ـ27۔
5۔ ابن‌منظور، محمّد بن مکرم. ‌لسان‌العرب، ج 12: 75ـ74 بیروت: دار صادر. (1414ق.)۔
6۔ راغب اصفهانی، حسین بن محمّد. (1404ق.) معجم مفردات الفاظ القرآن۔ 428تهران: دفتر نشر کتاب۔
7۔ طریحی، فخرالدّین، مجمع‌البحرین..، ج 6: 152)،  تهران: مرتضوی. (1395ق.)۔
8۔ مصطفوی، حسن. ‌التّحقیق فی کلمات القرآن الکریم. ج 6: 148 تهران: وزارت ارشاد، (1416ق.)۔
9۔ جوادی آملی، عبدالله.. کرامت در قرآن. 22ـ21؛ تهران: نشر فرهنگی رجا۔ (1372)، یدالله پور، بهروز۔ (1388)۔ "معناشناسی کرامت انسان در قرآن"، پژوهش‌ نامة علوم و معارف قرآن (پیام جاویدان). دورة2۔ شمارة 2۔ صص 141ـ119)۔
10۔ جوادی آملی، عبدالله۔ (1372)۔ کرامت در قرآن۔ تهران: نشر فرهنگی رجا، جعفری، محمّدتقی۔ (1389). "حقّ کرامت انسانی"، مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔ سلطانی، محمّد علی۔ (1387)۔ "کرامت از نگاه قرآن". آیینة پژوهش. دورة 102۔ شمارة 78. ص 30۔
11۔ جعفری، محمّدتقی، (1389). "حقّ کرامت انسانی". مجلّة دانشکدة حقوق و علوم سیاسی (دانشگاه تهران). دورة 27، شمارة 27، ص 80۔
 12۔ "عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّلْتِ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَلْخٍ قَالَ: کُنْتُ‏ مَعَ‏ الرِّضَا (ع) فِی سَفَرِهِ إِلَى خُرَاسَانَ فَدَعَا یَوْماً بِمَائِدَةٍ لَهُ فَجَمَعَ عَلَیْهَا مَوَالِیَهُ مِنَ السُّودَانِ وَ غَیْرِهِمْ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ لَوْ عَزَلْتَ لِهَؤُلَاءِ مَائِدَةً فَقَالَ مَهْ إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى وَاحِدٌ وَ الْأُمَّ وَاحِدَةٌ وَ الْأَبَ وَاحِدٌ وَ الْجَزَاءَ بِالْأَعْمَالِ:  (کلینی، 1365، ج 8: 230 مجلسی، محمّد باقر۔ (1403ق.)۔ بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العرق.، ج 49: 141)،
13۔ ابن‌بابویه قمی (شیخ صدوق)، محمّد بن علی، ج‏2: 159 عیون أخبار الرّضا (ع)، قم: انتشارات جهان۔ (1378ق.). 
14۔ مجلسی، محمّدباقر، (1403ق.)، بحارالأنوار؛ الجامعة لِدُرَر أخبار الأئمة الأطهار. بیروت: دار إحیاء التّراث العربی..، 49: 99)۔
15۔ کُلینی، محمّد بن یعقوب.. اصول الکافی، تهران: دار الکُتُب الإسلامیّه۔ 1365، ج 4: 24)۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کے وقت امت مسلمہ پر سلطنت عباسی کے خلفاء کا خوف و ہیبت طاری تھی، یہاں تک کہ امام کے ایک صحابی محمد بن سنان فرماتے ہیں کہ “سیف ھارون یقطر الدم” ہارون الرشید کی تلوار سے خون ٹپکتا رہتا تھا۔ اس وقت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام تھے، جنہوں نے اس طوفانی دور میں تشیع کے شجرہ طیبہ کو گرنے نہیں دیا اور وہ نا امیدی جو امام موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام کی شہادت کی وجہ سے چھا رہی تھی، اس کو وہیں روک کر اس شجرہ طیبہ کو مرجھانے سے بچایا اور عاشورا کے بعد آئمہ علیہم السلام کی جو دشمن سے مقابلے کی روش تھی اس کو اہداف الہیٰ کی جانب تسلسل بخشا۔ 198ھ میں جب مامون الرشید اپنے بھائی امین کو اقتدار کی جنگ میں شکست دے دیتا ہے، اس وقت اسے اپنی حاکمیت کے لئے سب سے بڑے خطرہ کا احساس ہوتا ہے، یعنی وجود مبارک امام رضا علیہ السلام۔

مامون تاریخ کے زیرک، عقلمند، عالم، ہوشیار بادشاہوں کے ناموں میں سے ایک اہم نام ہے، سوچتا ہے کہ جو کام یزید سے لیکر ہارون تک ظلم و بربریت کے پہاڑ ڈھانے اور کٹے ہوئے گلوں کے مینار بنانے کے باوجود نہیں رک سکا، اس کے لئے کسی اور حکمت عملی کو اپنانا ہوگا۔ ساتویں امام کی قید اور شہادت جب ان علویوں کے قیام کو روک نہیں سکی تو صرف قتل کئے جانے سے یہ کام یقیناً نہیں روکا جاسکتا۔ امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان لانا اور زبردستی ولایت عہدی قبول کرانا، ان کاموں سے مامون کئی اہداف کا حصول چاہتا تھا اور اگر منصب ولایت من اللہ نہ ہوتا تو یقیناً ان سازشوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مامون کی زیر نظر یہ اہداف تھے:
قیاموں کی روک تھام:
تشیع اپنی مظلومیت اور تقدس کی بنیاد پر بنو عباس کے خلاف مختلف زمان و مکان میں مخفی یا علنی حالت قیام میں تھی، مامون ان اقدامات کے ذریعے اور امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی نظام کا حصہ بنا کر ان قیاموں کی روک تھام اور ان کو سیاسی طور پر خاموش کرانا چاہتا تھا، کیونکہ اگر کسی گروہ کا رہبر و پیشوا اس خلافت کو قبول کرلے، مطلق العنان بادشاہ کا ولی عہد اور حکومتی امور میں صاحب اختیار ہو تو وہ نہ مظلوم کہلائے گا اور نہ ہی مقدس اور اس کے پیرو اور شیعہ یقیناً اس بنیاد پر خلافت کے خلاف قیام سے گریز کریں گے۔

خلافت کی مشروعیت:
ایک اور ہدف تشیع کی بنیاد کو متزلزل کرنا تھا، یعنی بنو امیہ و بنو عباس کی ظالم حکومتوں کو غاصب سمجھنا، مامون ان اقدامات کے ذریعے اپنی اور اپنے آباو اجداد کی حکومتوں کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتا تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا کہ تشیع ایک بے بنیاد نقطہ پر کھڑی ہے، کیونکہ اگر وہ خلافتیں نامشروع تھیں تو مامون کی خلافت بھی جو ان کا تسلسل ہے، نامشروع قرار پائے گی، درحالیکہ امام رضا علیہ السلام اس سٹرکچر میں داخل ہونے اور مامون کی ولایت عہدی و جانشینی قبول کرکے اس کو مشروع اور جائز جانتے ہیں۔ پس اس کا مطلب یہ تھا کہ باقی خلیفہ بھی مشروع تھے اور یہ تشیع کا ایک جھوٹا ادعا تھا۔ نعوذ باللہ

آئمہ کے زہد و پاکیزگی کو غلط ثابت کرنا:
شیعوں کا دوسرا ادعا جو آئمہ علیہم السلام کے زہد و تقویٰ پر منحصر تھا اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا سے بے رغبتی کو ثابت کرتا تھا، اس کو غلط ثابت کرنا بھی ایک ہدف تھا کہ جب تک دنیا ان ذوات مقدسہ کے ہاتھوں میں نہیں تھی تو دنیا سے زہد کا درس دیتے تھے، اب جبکہ دنیا کا مال و دولت و حکومت کے دروازہ ان کے لئے کھل چکے ہیں تو یہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ نعوذ باللہ

امام کو اپنے زیر اثر لانا:
امام علی رضا علیہ السلام جو مسلسل حکومت کے لئے خطرہ اور مبارزہ و مقاومت کا سرچشمہ تھے، ان کو اپنے بندوں کے ذریعے زیر نظر رکھنا اور اس سے ان کے شیعوں اور پیروکاروں کو جو ان کے گرد جمع رہتے تھے، ان کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور یہ کامیابی اس سے قبل بنی امیہ اور بنو عباس کا کوئی خلیفہ حاصل نہیں کرسکا تھا۔

امام اور امت میں فاصلہ:
امام علیہ السلام جو لوگوں کی امید اور مرجع تھے، انہیں اپنے محاصرے میں لے لینا، تاکہ رفتہ رفتہ عوامی رنگ ان سے دور ہو جائے اور خلافت کے بہانے ان کے اور لوگوں درمیان فاصلہ ایجاد کیا جاسکے، جس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں امام علیہ السلام کی محبت کو کم کیا جاسکے۔

خود کو صاحب معنویت ثابت کرنا:
مامون کا ایک ہدف اپنے چہرہ کو صاف و پاکیزہ کرنا کہ جس کا جانشین ہی اس عالی مرتبہ پر فائز ہو کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و وآلہ، مقدس و معنوی مقامات کا حامل تو وہ خلیفہ بھی جو اپنے بھائی اور رشتہ داروں سے نکل کر ایسے شخص کو اپنا جانشین بنائے، یقیناً ایک نیک و باتقویٰ انسان ہوگا۔

غلطیوں کی توجیہ:
جب عوام دیکھے گی کہ ایک ایسی شخصیت جو علم و تقویٰ کی عالیترین منازل پر فائز ہے اور اس خلافت میں شریک ہے تو خلافت کے نام پر جو کچھ انجام دیا جا رہا ہے اور جو ظلم و ستم اور خلافکاریاں انجام پا رہی ہیں، ان کی ایک توجیہ عوام کے سامنے امام کی شکل میں موجود ہوگی۔ ان تمام تدابیر کے باوجود، امام نے مامون کی سیاست کو خداوند متعال کی مدد سے بازیچہ اطفال میں بدل دیا اور مامون کی تمام تر پلاننگ اور تدابیر اسلام کے حق میں بدل دی۔

اپنی نارضایتی کا اعلان:
جب امام علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف بلائے گئے تو امام نے مدینہ کی فضا کو افسردگی و غمگینی سے پر کر دیا، اس طرح کہ لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ مامون سوء نیت کے ساتھ امام کو ان کے وطن سے دور کر رہا ہے۔ امام علیہ السلام نے اپنے رفتار و گفتار، دعا اور اشک کی زبان سے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ سفر امام علیہ السلام کا آخری سفر ہے، جس سے لوگوں کے دلوں میں مامون کے لئے جو جگہ پیدا ہو رہی تھی، وہ کینہ اور بغض میں بدل گئی۔

مامون کے جبر کو عیاں کرنا:
جب مرو کے مقام پر امام علیہ السلام سے ولایت عہدی کا تقاضا کیا گیا تو امام علیہ السلام نے واضح طور پر اسے ٹھکرا دیا اور جب تک آپ کو قتل کی دھمکی نہ دی گئی تب تک قبول نہیں کیا۔ یہ خبر لوگوں میں پھیل گئی کہ امام کو زبردستی یہ عہدہ قبول کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ مامون کے افراد کیونکہ مامون کی ان سازشوں سے لاعلم تھے، اس خبر کو بعینہ منتشر کرتے گئے، حتی فضل ابن سہل لوگوں کے درمیان اس بات کو کہتا نظر آتا ہے کہ میں نے خلافت کو اتنا ذلیل و خوار کبھی نہیں دیکھا۔ امام علیہ السلام نے لوگوں کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ میں اس خلافت کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہوں اور یہ کام جبر و اکراہ کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے۔

امام علیہ السلام کی شرائط:
جبر و اکراہ کے باوجود امام علیہ السلام نے ولایت عہدی اس شرط پر قبول کی کہ خلافت کے کسی امور میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ، صلح، معزولی، منصوب کرنا، تدبیر امور کسی چیز میں امام رائے نہیں دینگے۔ مامون نے اس وقت سوچا کہ ابھی کام شروع ہوا ہے، قبول کر لیا جائے، بعد میں منوا لیا جائے گا اور اس طرح امام کو سیاست میں آہستہ آہستہ دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن امام علیہ السلام نے ایسا اہتمام کیا کہ مامون کی یہ سازشین پانی پر تحریر کی مانند ہوگئیں۔ امام خلافت میں رہتے ہوئے بھی یہ ظاہر کرتے کہ وہ اس منصب اور خلافت سے راضی نہیں ہیں اور کسی قسم کے حکم یا ذمہ داری، مشورہ اور مداخلت سے بچتے۔ مامون مسلسل کوششوں میں لگا رہا اور امام اس کی تدابیر کو ٹھکراتے رہے۔

نماز عید:
نماز عید کے واقعے میں بھی امام علیہ السلام کو اس بہانے کہ لوگوں کو آپ کی قدر معلوم ہو، عید کی نماز پڑھانے کی دعوت دی تو امام نے انکار کیا، جب امام کو اس کام کے لئے مجبور کیا گیا تو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ نمازِ عید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی طرز اور ان کی روش کے مطابق پڑھائیں گے۔ منظر یوں تھا کہ دروازہ کھلتا ہے اور امام علیہ السلام پا برہنہ باہر نکلتے ہیں، اس حال میں کہ ایک سادہ لباس، سفید عمامہ زیب تن ہے اور شباہت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیاں ہے، رخساروں پر آنسو رواں ہیں۔ لوگ امام علیہ السلام کے ہمرنگ ہونا شروع ہو جاتے ہیں، ننگے پاوں سادہ لباس سفید عمامہ، اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدا بلند ہوتی ہے اور امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہوتے جاتے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیسی نماز ہے؟ یہ کیسا امام ہے؟ اگر یہ نمازِ عید ہے تو اس سے قبل جو مامون کے پیچھے پڑھیں وہ کیا تھیں۔؟ امام ایسا سادہ ہوتا ہے تو مامون کیا ہے؟ امام نے ان تمام دیواروں کو توڑ دیا، یہاں تک کہ مامون کو انقلاب کا خطرہ محسوس ہوا اور وہ امام کو روکنے پر مجبور ہوگیا۔

ولایت عہدی کو فرصت میں تبدیل کرنا:
امام علیہ السلام نے اس ولی عہدی کے معاملے کو فرصت میں تبدییل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی تعلیمات اور تشیع کو تمام مسلمانوں اور دیگر مذاہب تک پہنچایا۔ امام کے دیگر مکاتب و مذاہب کے علماء سے مناظرے جو خود مامون، امام علیہ السلام کو نیچا دکھانے کے لئے منعقد کراتا تھا، امام علیہ السلام ان مناظروں کے ذریعے تشیع یعنی اسلام حقیقی کی ترویج کرتے تھے، اسی طرح مدح اہل بیت علیہم السلام جو اس سے قبل علی الاعلان انجام نہیں دی جاسکتی تھی، اسے ایک قانونی جواز مل گیا۔ تمام خطبوں میں اہل بیت علیہم السلام کے فضائل بیان ہونا شروع ہوگئے، لوگ حقانیت اہل بیت سے آشنا ہونے لگے اور آئمہ علیہم السلام کی شان میں اشعار و منقبت جگہ جگہ پڑھے جانے لگے۔

غیر شیعہ آبادیوں سے گزر:
مامون اتنا محتاط تھا کہ امام کو مدینہ سے خراسان ایسے راستوں سے لایا، جہاں شیعہ آبادی نہ ہو، یعنی قافلے کا گزر کوفہ اور قم کے نزدیک سے ہونے نہ دیا گیا لیکن امام نے تمام مقامات پر ولایت و اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی۔ اہواز میں امامت کی نشانیاں ظاہر کیں، بصرہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا، نیشاپور میں مشہور حدیث “سلسلۃ الذھب” کا بیان اور ولایت امام علیہ السلام کی شرط ان تمام تدابیر نے لوگوں کے دلوں حق کا بیج بو دیا۔

ولایت عہدی کے متن میں مامون نے امام علیہ السلام کی حقانیت اور انکے فضائل بیان کئے، سال بھر میں امام علیہ السلام کی شخصیت اتنی واضح ہوگئی کہ لوگ سمجھ گئے کہ ولایت عہدی کے باوجود امام علیہ السلام حکومت کی کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کا امام سے رابطہ قلبی بڑھتا گیا اور ایسے حالات ہوگئے کہ مامون کی خلافت خطر میں پڑگئی۔ آخر میں جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا اور ساری تدبیریں خاک میں ملتی نظر آئیں تو مامون نے بھی اپنے اجداد کی روش پر گامزن ہوتے ہوئے امام علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہم سب کو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کو جاننے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تالیف: سید محمد روح اللہ رضوی
 
 
 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تیرہویں صدارتی انتخابات میں کامیابی پر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پیش کی ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم بنانے پر بھی تاکید کی ہے۔

«عمران خان» به «رئیسی» تبریک گفت

اسماعیلیہ ان فرقوں کا اسم عام ہے، جو امام صادقؑ کی شہادت کے بعد آپؑ کے فرزند اسمعیل یا امامؑ کے پوتے محمد بن اسمٰعیل بن جعفر الصادق کی امامت کے معتقد ہیں اور مختلف ممالک میں مختلف ناموں "باطنیہ، تعلیمیہ، سبعیہ اور حشیشیہ، ملاحدہ، قرامطہ کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ باطنیہ: بايں معنی کہ اسماعیلی دینی متون کے لئے باطنی معانی کے قائل ہیں، مقعتقد ہیں۔[1] گو کہ افواہ عامہ ميں انہیں اس لئے باطنی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعتقادات و احکام کو خفیہ رکھتے ہیں۔ تعلیمیہ: اس نام کا سبب یہ اسماعیلی عقیدہ ہے کہ خدا کی معرفت اور دینی تعلیمات اخذ کرنے کے لئے عقل کافی نہیں ہے، تمام متون و احکام اور عقائد و مفاہیم کی تعلیم "امام" معصوم یا امام کے داعیوں کی طرف سے دی جانی چاہیئے۔[2] بالفاظ دیگر: اسماعیلوں کو تعلیمیہ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا اعتقاد ہے بلکہ اس کے لئے ایک امام کی تعلیم و تدریس کی ضرورت ہے، جو درحقیقت معلم صادق ہے۔[3]۔[4]۔ سبعیہ: سبعیہ سبعہ سے ماخوذ ہے بمعنی (سات اماموں کے پیروکار) اور اس نام کا سبب یہ ہے کہ سات امامیوں کا فرقہ، مذہب شیعہ کے اہم مکاتب میں سے ایک تھا۔[5] حشیشیہ، ملاحدہ و قرامطہ لفظ "حشیشیہ" کا اسماعلیوں پر اطلاق، تاریخی حوالے سے ایک الزام کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔[6] ملاحدہ[7] اور انہیں قرامطہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حمدان قرمط کے پیرو تھے۔[8]۔[9] شہرستانی کے بقول اسماعیلیہ کا مشہور فرقہ باطنیہ تعلیمیہ ہے.[10]

اسماعیلیہ کا اجمالی تعارف:
ابوالخطاب محمد بن ابی زینب یا مقلاص بن ابی الخطاب، وہ شخصیت ہے، جس کو اسماعیلی مآخذ میں ایسے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا اسمعیل کی امامت میں ہاتھ تھا۔[11] ابوالخطاب کے تفصیلی عقائد اور نظریات اسماعلیوں کی خفیہ کتاب بعنوان "ام الکتاب" میں مذکور ہیں۔[12] سعد بن عبداللہ اشعری لکھتے ہیں: بڑے بیٹے کی امامت بظاہر ایک روایت بن چکی تھی، چنانچہ لوگوں کا خیال تھا کہ امام صادقؑ کے بعد ان کے بڑے بیٹے اسمعیل امام ہونگے، لیکن اسمعیل امام صادقؑ کی شہادت سے قبل ہی انتقال کرگئے۔ امامت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل اسمعیل کا انتقال امامؑ کے جانشین اور ساتویں امام کے تعین کے سلسلے میں اختلاف کا سبب بنا۔ اسماعیلی جو رائے قائم کئے ہوئے تھے کہ گویا امامؑ نے اسمعیل کی امامت کا اعلان کیا ہےـ امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے اعلان کے مخالف ہوئے اور کچھ لوگ اسمعیل کی جانشینی کے اعلان کو مانتے ہوئے بداء کے قائل ہوئے اور امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے قائل ہوئے اور سلسلۂ امامت ائمہ اثناء عشر انہی لوگوں سے چلا۔[13]

دیگر اقوال:
چونکہ امام صادقؑ کے کئی بیٹے تھے اور سب سے بڑے اسمعیل تھے، جن سے امام صادقؑ محبت کرتے تھے، چنانچہ بعض شیعہ تصور کرتے تھے کہ اگلے امام اسمعیل ہی ہونگے۔[14] لیکن اسماعیلیوں کا دعویٰ ہے کہ گویا امام صادقؑ نے اسمعیل کی امامت پر تصریح کی تھی۔[15] چنانچہ اس کے باوجود کہ اسمعیل امام صادقؑ کی حیات ہی میں دنیا سے رخصت ہوئے تھے، کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا ہی انکار کر دیا اور کہا کہ وہ مرے نہیں بلکہ غائب ہوئے ہیں اور امام صادقؑ تقیہ کر رہے ہیں اور یہ کہ اسمعیل ہی مہدی موعود ہیں۔ یہ لوگ اسماعیلیہ کہلائے۔ ان کے مقابلے کچھ لوگوں نے اسمعیل کی موت کا مسئلہ تسلیم کیا اور کہا کہ امامت اسمعیل کے بیٹے محمد کو ملی ہے۔ چنانچہ انھوں نے محمد بن اسمعیل کو ساتویں اور آخری امام کے عنوان سے تسلیم کیا۔ یہ لوگ اسماعیلیۂ عامہ اور سبعیہ کہلائے۔[16] یہ دونوں گروہ امام صادقؑ کی شہادت کے بعد امام موسیٰ کاظمؑ کی امامت کے منکر ہوئے اور امامیہ سے جدا ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ امامت بھائی سے بھائی کو نہیں بلکہ باپ سے بیٹے کو ملتی اور امام حسنؑ سے امام حسینؑ کو ملنے والی امامت ایک استثنا ہے، چنانچہ اسمعیل کے بعد امامت کا عہدہ امام موسیٰ کاظمؑ کے بجائے ان کے بیٹے محمد کو ملنا چاہیئے۔[17]۔[18] کچھ لوگ کوفہ میں تھے، جو ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اسدی اجدع کے گرد جمع ہوئے تھے اور بعد میں محمد بن اسمعیل کی امامت کے قائل ہوئے۔ ابوالخطاب ایک غالی فرد تھا، جو امام صادقؑ کے سلسلے میں غلوّ کررہا تھا اور آپؑ کو خدا اور اپنے آپ کو پیغمبر سمجھتا تھا، چنانچہ اس گروہ کو خطابیہ بھی کہا جاتا تھا اور بعد میں ان لوگوں نے مبارکیہ کے ساتھ ایک جماعت تشکیل دی۔[19] موجودہ زمانے میں اسماعیلی صرف نزاری فرقوں پر مشتمل ہیں اور ایشیاء، افریقہ، یورپ اور امریکہ کے 25 ممالک میں سکونت پذیر ہیں۔

اسماعیلی اعتقادات:
"قدمائے سبعہ" کا اعتقاد رکھنے کی وجہ سے اسماعیلیوں پر کفر کا الزام لگایا جاتا رہا، اس وجہ سے وہ اللہ کی ذات سے ہر قسم کی تعریف، صفت و صورت اور ماہیت، حتی کہ وجود خدا کے ایک صفت ہونے کے لحاظ سے اس کی نفی کرتے ہیں۔[20] وہ موجودات کے معرض وجود میں آنے کو ابدا‏ع اور ایجاد کی صورت میں قبول کرتے ہیں جبکہ اخوان الصفا کا خیال ہے کہ موجودات اللہ کے فیض سے وجود میں آتے ہیں۔[21] اسماعیلی بھی امامیہ کی طرح ختم نبوت کے قائل ہیں؛ تاہم وہ سات پیغمبروں کو انبیاء اولوالعزم سمجھتے ہیں اور ہر نبی کے لئے ایک وصی (امام) کے قائل ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق "ناطق" یا اولو العزم انبیاء آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسی اور محمد (ص) ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا ایک وصی ہے۔ ان کے اوصیاء بالترتیب شيث، سام، اسماعيل، ہارون يا يوشع، شمعون صفا اور امام علىؑ۔ اسماعیلی کہتے ہیں کہ اس کائنات کے سات ادوار کے ساتویں دور میں امام مرتبۂ ناطق پر ارتقاء پاتا ہے اور چھٹے دور کا ساتواں امام [22] محمد بن اسمعیل ہے، جو پردہ ستر میں چلے گئے (اور مستور ہوگئے) اور جب ظہور کریں گے تو وہی ساتویں ناطق اور مہدی اور قائم ہوںگے۔ وہ اس عالم کے آخری دور میں وجود کے حقائق کو آشکار کرینگے اور عدل کو دنیا میں نافذ کریںگے اور اس کے دور کے بعد جسمانی دنیا کا خاتمہ ہوگا۔[23]

اسماعیلیہ آیات، احادیث اور شرعی احکام کی تاویل کے قائل ہیں اور اسی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے، جو ان تاویلات اور باطنی معانی کو ان کے لئے واضح و آشکار کر دے۔ اسماعیلی اصطلاح میں امام کی دو قسمیں ہیں "امام مستقر" اور "امام مستودع"؛ امام مستودع وہ ہے، جو امام کا بیٹا ہو اور اس کے بیٹوں میں سب سے اہم ہو اور وہ امامت کے تمام اسرار سے واقف ہو اور اپنے زمانے کے انسانوں میں سب سے بڑا ہو۔ لیکن اس کا اپنے بیٹوں پر کوئی حق نہیں ہے اور امامت صرف اس کے ہاں ایک "ودیعہ" (اور امانت یا سپردہ) ہے؛ جبکہ امام مستقر وہ ہے، جو امامت کی تمام خصوصیات کا حامل ہو اور اس کو حق حاصل ہے کہ امامت کو اپنے بیٹوں اور جانشینوں کے سپرد کرے۔[24] اسماعیلی جسمانی جہنم اور جنت پر یقین نہیں رکھتے، لیکن وہ مبتدی افراد کے لئے ان الفاظ کی تشریح ان الفاظ کے معمول کے معانی کے مطابق کرتے ہیں۔[25] اسماعیلی تناسخ کو رد کرتے ہیں اور ان کے خیال میں اسلام اور ایمان کے قلمرو الگ ہیں اور ایمان میں کمی بیشی کے امکان کے قائل ہیں۔ وہ شریعت میں سات ارکان کے قائل ہیں: طہارت، نماز، زکٰوۃ، روزہ، حج، جہاد اور ولایت؛ البتہ وہ رکن ولایت کو بقیہ ارکان سے برتر و بالاتر سمجھتے ہیں۔[26]

اسماعیلیہ کی شاخیں:
رسول جعفریان[27] کے مطابق، اسماعیلی فرقے حسب ذیل ہیں:
اسماعیلیۂ خالصہ:
یہ وہ لوگ ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ چونکہ اسمعیل کی امامت والد کی طرف سے ثابت ہے اور امام حق کے سوا کـچھ نہیں کہا کرتا، پس ثابت ہوتا ہے کہ اسمعیل نہیں مرے بلکہ زندہ اور قائم ہیں۔
اسماعیلیۂ مبارکیہ:
یہ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ امام صادقؑ نے اسمعیل کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے اور اپنے پوتے محمد کو امامت کا عہدہ سونپ دیا ہے؛ کیونکہ بھائی (اسمعیل) کی امامت بھائی (امام کاظمؑ) کو منتقل نہین ہوتی اور امامت کی یہ منتقلی صرف امام حسنؑ اور امام حسینؑ تک محدود تھی۔ یہ فرقہ اپنے مؤسس "مبارک" کے نام پر مبارکیہ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مبارک محمد بن اسمعیل کا لقب ہے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ یہ اسمعیل ہی کا لقب ہے اور محمد جواد مشکور نے لکھا ہے کہ "اس گروہ کو مبارکیہ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اسمعیل کا غلام مبارک اس جماعت کی قیادت کرتا تھا اور اسمعیل کی امامت کی بات آگے بڑھاتا تھا۔[28]

قرامطۂ بحرین:
اسماعیلی دعوت کے تیز رفتار پھیلاؤ ہی کے موقع پر اچانک اسماعیلی تحریک میں اہم دراڑ پڑ گئی۔ حمدان قرمط، جو سنہ 260 ہجری سے عراق اور نواحی علاقوں میں اسماعیلی تحریک کا سربراہ تھا اور سلمیہ کے راہنماؤں کے ساتھ مسلسل خط و کتابت کرتا تھا،اس نے سنہ 286 میں عبیداللہ کے اسماعیلیہ کے سربراہ کے عنوان سے تعین پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے لئے بھی اور اپنے آباء و اجداد کے لئے بھی،جو کہ سابق مرکزی زعماء میں شمار ہوتے تھے، امامت کا دعویٰ کیا۔ حمدان نے سلمیہ اور مرکزی قیادت کے ساتھ قطع تعلق کیا اور اپنے ماتحت داعیوں کو حکم دیا کہ اپنے علاقوں میں دعوت کا سلسلہ بند کریں۔ کچھ ہی عرصہ بعد حمدان لاپتہ ہوا اور اس کا بہنوئی عبدان بھی عراق کے ایک اسماعیلی داعی "ذکرویہ بن مہدویہ"، جو ابتداء میں عبیداللہ اور اس کی اعتقادی اصلاحات کا حامی تھا، کی سازش سے مارا گیا۔

اسی سال ابو سعید جنابی، جو حمدان اور عبدان کی ہدایت پر بحرین میں متعین ہوا تھا، نے اس خطے کو قرمطی دعوت کا اصلی مرکز قرار دیا اور سنہ 470 عیسوی تک مشرقی علاقوں میں فاطمیون کے اثر و رسوخ کے سامنے رکاوٹ بنا۔ عبیداللہ کے پیروکاروں کا مرکز یمن تھا، جہاں علی بن فضل قرمطی دھڑے میں شامل ہوا اور مہدویت کا دعویٰ کیا، تاہم ابن حوشب آخر عمر تک عبیداللہ کا وفادار رہا۔ ذکرویہ، جو ابتداء میں عبیداللہ کا حامی اور وفادار تھا، بعد میں قرامطہ میں شامل ہوا اور عراق اور شام میں قرمطی بغاوتوں کا اہتمام کیا اور حتی کہ سنہ 290 میں سلمیہ میں عبیداللہ کے اڈے پر حملہ آور ہوا۔ قرمطی دھڑا جبال، خراسان،[[ماوراء النہر (وسطی ایشیا)، فارس اور دوسرے علاقوں میں پھیل گیا۔

مصر و مغرب (شمالی افریقہ) کے "فاطمیون":
مصر اور مغرب کے فاطمیون (حکومت: سنہ 297 تا 567 ہجری)، کی بنیاد ابتداء میں عبیداللہ مہدی نے رقادہ، میں، بعدازاں قیروان اور اس کے بعد قاہرہ میں رکھی۔ عبیداللہ مہدی کی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسماعیلی تاریخ کے "ائمۂ مستور" کا دور اختتام پذیر ہوا۔ یہ حکومت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئی۔ دروزی، نزاریان اور مستعلویان اس کی ذیلی شاخیں ہیں۔

دروزی اسماعیلی:
سنہ 408 ہجری چند اسماعیلی داعیوں نے قاہرہ (کی مسجد ریدان) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی، لیکن حمزہ بن علی بن احمد زوزنی المعروف بہ الباد، کو اس مذہب کا اصل بانی سمجھا جاسکتا ہے۔ وہ نہ صرف الحاکم بامر اللہ کو بلکہ القائم کے بعد کے تمام فاطمی خلفاء کے لئے الوہیت کے قائل تھے۔ اس مذہب کو زيادہ تر بانیان کے شمالی علاقے حاصبیا کی وادی تیم اور موجودہ شام اور لبنان کے علاقوں مغربی حلب، جبل ہرمن اور جبل حوران میں رواج اور فروغ ملا۔ سنہ 435 کے بعد دروزی دعوت ایک بند معاشرے میں بدل گئی، جس میں نہ ہی کسی نئے مائل بہ دروزی اسماعیلیت شخص کو قبول کیا جاتا تھا اور نہ ہی اس کے پیروکاروں میں سے کسی کو ارتداد کی اجازت دی جاتی تھی۔

نزاریہ یا نزاریان:
سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال پر فاطمیون میں اختلاف پیدا ہوا؛ جو لوگ مستنصر کی نص (اور حکم و اعلان) کے مطابق اس کے بیٹے نزار کی امامت کے قائل تھے، نزاریہ کے نام سے مشہور ہوئے۔

مستعلویہ:
سنہ 487 ہجری میں مستنصر فاطمی کے انتقال کے بعد مستعلی کی امامت کے معتقدین مستعلویہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اس کی درج ذیل دو شاخیں ہیں:

حافظیہ یا حافظیان(مجیدیہ):
سنہ 526 ہجری میں مقتول خلیفہ بنام "آمر" کے ایک چچا زاد بھائی بنام (عبدالمجید) الملقب بہ (الحافظ) تخت خلافت پر بیٹھا۔ سنہ 567 میں فاطمیون کے زوال تک آنے والے فاطمی خلفاء عبدالمجید حافظ کی اولاد میں سے تھے۔ اس سلسلے کی امامت کو مصر اور شام میں کافی فروغ ملا جبکہ فاطمیہ کے آخری خلفاء کو یمن میں عدن کے چند امراء اور صنعا کے چند حکام کے سوا کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ موجودہ اسماعیلیوں کے درمیان اس فرقے کا نام و نشان تک نہیں رہا۔

طیبیہ یا طیبیان (آمریہ):
سنہ 524 میں مستعلی کے جانشین "آمر" کے انتقال کے ساتھ ہی اسماعیلی دعوت میں مزید تقسیمات معرض وجود میں آئیں۔ آمر کا بیٹا "طیب" آٹھ ماہ کی عمر میں ان کا جانشین مقرر ہوا، لیکن حکومت کی باگ ڈور ان کے چچا زاد عبدالمجید ملقب بہ حافظ کے ہاتھ میں چلی گئی۔ جو لوگ طیب کی خلافت کے معتقد تھے، وہ طیبیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ طیبیہ دعوت کو ابتداء میں مصر و شام کے مستعلویوں کی قلیل تعداد نے قبول کیا، لیکن یمن کے اسماعیلیہ میں اس کو وسیع پذیرائی ملی۔ یمنی میں صلیحی باضابطہ طور پر طیب کے دعوے کی حقانیت کے قائل ہوئے۔ ابراہیم حامدی، جو سنہ 557 تک صنعا کے یام نامی غیر اسماعیلی فرقے (یا قبیلے) کے امراء کے درمیان سرگرم عمل تھا، طیبی فرقے کا مؤسس اور بانی تھا۔ رفتہ رفتہ طیبی جماعت مصر اور شام میں ناپید ہوگئی، لیکن یہ جماعت آج تک یمن اور ہندوستان (اور شاید پاکستان) میں زندہ اور فعال ہے۔

بوہری جماعت:
طیبیہ کی ذیلی شاخ "بوہری جماعت" کہلاتی ہے۔ طیبی داعی وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بڑی تعداد میں پیروکار اس فرقے میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ہندوستان میں اپنے مسلک کو "دعوت ہادیہ" کا نام دیتے ہیں اور لفظ "بوہرہ" (بمعنی تاجر) سے استفادہ کرتے ہیں۔ مدتوں تک یمن کا داعی مطلق مغربی ہندوستان کے طیبیوں کا مرجع بھی تھا۔ فاطمیوں کی دعوت غالباً ایک یمنی داعی بنام عبداللہ، کے توسط سے ہندوستان پہنچی اور کہا جاتا ہے کہ عبداللہ سنہ 460 ہجری میں گجرات پہنچا تھا۔ طیبی جماعت سنہ 999 ہجری داعی مطلق داؤد بن عجب شاہ کے انتقال پر دو شاخوں داؤدیہ اور سلیمانیہ میں بٹ گئی۔[29] بوہری جماعت کی دو :سلیمانی اور داؤدی شاخیں ہیں۔

داؤدیہ:
جن طیبی بوہریوں نے داؤد بن برہان الدین کی جانشینی قبول کرلی، وہ داؤدیہ کہلائے۔ ان کا سربراہ بمبئی میں ہوتا ہے اور ان کا مرکز "سورت" میں واقع ہے۔ ان کی مشہور زیارتگاہیں احمد آباد، سورت، جام نگر، مانڈوی، اجین اور برہانپور میں ہیں۔[30] موجودہ زمانے میں داؤدی بوہریوں کی نصف آبادی گجرات میں اور باقی ماندہ بمبئی اور ہندوستان کے مرکزی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ پاکستان، یمن اور مشرق بعید میں بھی داؤدیوں کے منتشر گروپ بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ وہ سب سے پہلے ایشیائی تھے، جو زنگبار[31] اور افریقہ کے مشرقی ساحلی علاقوں کی طرف ہجرت کرگئے۔ داؤدی بوہریوں کے پیشوا اور 52ویں داعی محمد برہان الدین[32] سنہ 2014ء میں انتقال کرگئے اور ان کے بیٹے مفضل سيف الدين کو داؤدی جماعت کا پيشوا اور 53واں داعی مقرر کیا گیا۔[33]

سلیمانیہ:
جن بوہریوں نے "سلیمان بن حسن ہندی" کی جانشینی کو تسلیم کیا، وہ سلیمانیہ کہلائے۔ وہ شمالی یمن کے علاقوں حراز اور ملک سعودی عرب سے ملے ہوئے سرحدی علاقوں نیز سعودی عرب کے جنوبی سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہندوستان کے علاقوں بمبئی، بڑودھا اور احمد آباد میں پائی جاتی ہے اور یمن، ہندوستان اور پاکستان کے باہر ان کی موجودگی زیادہ محسوس نہیں ہے۔

اسماعیلی علماء:
ابو حاتم رازی،
ابو عبداللہ نسفی(نخشبی)،
قاضی نعمان،
ابو یعقوب سجستانی،
حمید الدین کرمانی،
مؤید الدین شیرازی،
ناصر خسرو قبادیانی[34]

اسماعیلی ائمہ:
اسماعیلی ائمہ کا سلسلہ خلافت فاطمیہ تک:
منابع نے شیعہ مکتب کی شاخیں گنواتے ہوئے لکھا ہے: اسماعیلی اپنے ائمہ کا آغاز علی بن ابی طالبؑ سے کرتے ہیں[35] اور امامت امام علیؑ کے توسط سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو ملی اور ان سے زین العابدینؑ، ان سے امام باقرؑ اور پھر امام صادقؑ کو ملی اور امام صادقؑ کے تین شاخیں نمودار ہیں اور امامت اسمعیل، عبداللہ اور امام موسیٰ کاظمؑ کے ذریعے جاری رہی۔ اسمعیل کے بعد امامت علی اور محمد مکتوم (میمون) کو ملی؛ محمد مکتوم کے بعد چھ شاخوں میں تقسیم ہوتی ہے اور احمد، اسمعیل، عبداللہ، علی لیث، حسین اور جعفر کو ملی؛ عبداللہ کے ذریعے ابراہیم اور احمد اور احمد کے ذریعے حسین اور محمد حکیم کو، حسین سے ابو محمد اور عبداللہ سعید المعروف بہ عبیداللہ مہدی کو اور محمد حکیم کے ذریعے ابوالقاسم محمد المعرف بہ القائم بامر الله کو۔ اسماعیلی اماموں یا خلفائے فاطمی کا سلسلہ القائم بامراللہ سے جاری ہو جاتا ہے۔[36]۔[37]

اسماعیلی امام خلافت فاطمیہ کے دور میں:
القائم بامر اللہ ابو محمد عبیداللہ
المہدی باللہ
ابوالقاسم محمد القائم بامر اللہ
ابوطاہر اسمعیل المنصور باللہ،
ابوتمیم معد المعز لدین اللہ،
ابو منصور نزار العزیز باللہ،
ابوعلی المنصور الحاکم بامراللہ،
الحسن علی الظاہر لاعزاز دین اللہ،
ابوتمیم معد المستنصر باللہ،
المستنصر باللہ کے بعد امامت تین افراد کے تحت تین شاخوں میں بٹ گئی:
نزار، المستعلی باللہ اور ابوالقاسم محمد۔
المستعلی باللہ سے امامت الآمر باحکام اللہ اور اس سے الطیب اور اس سے غائب طیبی اماموں کو پہنچی، جبکہ ابوالقاسم محمد سے عبدالمجید الحافظ کو ملی اور الحافظ سے یوسف اور الظافر کو منتقل ہوئی۔ یوسف سے العاضد کو اور پھر بعد کے حافظی اماموں کو پہنچی اور الظافر سے الفائز کو منتقل ہوئی۔[38]۔[39]

اسماعیلیہ کا مسکن:
اسماعیلیہ کی پہلی مسلحانہ دعوت کا آغاز سنہ 268 میں ملک یمن میں ہوا۔[40] اسماعیلیہ تشیع کے پیکر سے الگ ہونے کے بعد بہت جلد دو حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے مصر میں خلافت فاطمیہ کی بنیاد رکھی اور اندرونی تقسیم کے بعد اَلَمُوت میں نزاری حکومت قائم کی اور یہ دو حکومتیں عباسی سلطنت کے لئے مغرب اور مشرق میں بڑا خطرہ ثابت ہوئیں۔[41] فاطمی اور نزاری حکومتوں کے زوال کے بعد اسماعیلی ہرگز سابقہ طاقت اور اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور عالم اسلام کے دور افتادہ علاقوں، بالخصوص یمن اور برصغیر ہند و پاک میں پناہ حاصل کرکے بس گئے۔ موجودہ زمانے میں اسماعیلی دنیا کے پچیس ممالک میں منتشر ہیں اور ان کی زيادہ تر تعداد ہندوستان، پاکستان، افغانستان و تاجیکستان نیز مرکزی ایشیاء اور چین میں پامیر کے قریبی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔[42]

اسماعیلیہ آج دو فرقوں "آغا خانیہ اور بوہرہ میں بٹے ہوئے ہیں، جو بالترتیب نزاری اور مستعلوی فرقوں کے پسماندگان ہیں۔ اول الذکر فرقے کے تقریباً 10 لاکھ افراد ایران، وسطی ایشیاء، افریقہ اور ہندوستان میں منتشر ہیں اور ان کا پیشوا (پرنس) کریم آغا خان۔[43] ہے، مؤخر الذکر جماعت کی آبادی تقریباً 50000 ہے، جو جزیرۃ نمائے عرب اور خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں اور شام میں سکونت پذیر ہیں[44] جو بظاہر داؤدی بوہریوں سے مختلف ہیں۔ اسماعیلیہ شام کے علاقوں قلعۂ مصیاف، قلعۂ القدموس]] اور سلمیہ اور ایران کے علاقوں کہک، محلات، قم نیز خراسان کے شہروں بیرجند، قائن اور افغانستان کے علاقوں بلخ اور بدخشان جبکہ وسطی ایشیا کے شہروں خوقند اور قرہ تکین میں سکونت پذیر ہیں۔

افغانستان میں انہیں مفتدی کہا جاتا ہے اور ان کی خاصی آبادی کافرستان (نورستان)، جلال آباد علاقۂ جیحون اعلی، ساری گل، خوان اور یاسین میں سکونت پذیر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اسماعیلی مراکز دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہیں اور ہندوستان کے علاقوں مرواڑہ، اجمیر اور راجپوتانہ، بمبئی اور برودھا کھورج (Khoraj) نیز کشمیر میں اسماعیلی عبادتگاہیں واقع ہوئی ہیں۔ جان لینا چاہیئے کہ پاکستان اور ہندوستان کے تمام اسماعیلی آغا خانی نہیں ہیں اور بوہری جماعت کے داعی الگ ہیں اور وہ ہندوستان کے علاوہ عمان اور مسقط اور زنگبار اور تنزانیہ میں بکثرت آباد ہیں۔[45] بوہریوں کے بعض اصول اور عقائد و احکام ہیں، جن کی طرف حوالہ جات یا بیرونی حوالوں میں اشارہ ہوا ہے، جبکہ آغا خانیوں کے عقائد و عبادات زیادہ واضح نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص103۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 عطا ملک جوینـی، تاریـخ جهانگشای، ج3، ص195۔
 رشید‌الدین فضل‌الله، جامع التواریخ، ج1، ص105_107۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 | حشیشیہ، حقیقت کیا ہے؟
 ملاحدة. ملحد کی جمع (جمع منتہی الجموع) (غیاث اللغات) و (آنندراج ) مأخوذ از عربی، ملحد اور بےدین لوگوں اور دین سے پلٹے ہؤوں کو کہا جاتا ہے۔(ناظم الاطباء).
 صابری، وہی ماخذ۔
 اشعری، المقالات و الفرق، ص213
 شهرستانی، کتاب الملل والنحل، ص149
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص47۔
 مشکور، وہی ماخذ، ص48۔
 نک، اشعری، المقالات والفرق، ص14-213۔
 مفيد، الارشاد، ج2، ص209۔
 نوبختي، فرق الشيعه، ص36۔
 عبدالقاهر بغدادي، الفرق بين الفرق، ص34۔
 مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
 نوبختي، وہی ماخذ، ص39۔
 نوبختي، پيشين، صفحه 39۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص147۔
 بدوی، تاریخ اندیشه های کلامی در اسلام، ص4-322۔
 ابتدائی اسماعیلیوں کی رائے کے مطابق۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی ج2، صص152-151۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص49۔
 وہی ماخذ، ص3-52۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص153۔
 اطلس شیعه، ص 29۔
 مشكور، موسوعه فرق اسلامي، ص103۔
 | اسماعیلیہ (بوہرہ)۔
 | داودی بوہرہ۔
 زنگبار یا زنجبار (Zanzibar) (عربی: زنجبار، فارسی: زنگبار) مشرقی افریقہ میں تنزانیہ کا ایک نیم خود مختار حصہ ہے۔
 | بانی بوہری جماعت محمد برہان الدین۔
 | مفضل سيف الدين۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، صص74-153۔
 البتہ ابتدائی اسماعیلی عقائد میں امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے، لیکن بعض میں امامؑ کو اساس قرار دیا گیا اور امامت کا آغاز مام حسینؑ سے کیا گیا اور امام حسینؑ اسماعیلیوں کے پہلے امام ٹھہرے۔ گو کہ نزاریہ امام علیؑ کو امام اول سمجھتے تھے۔ رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص119۔
 صابری، وہی ماخذ۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص627۔
 صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص123۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه، ص628۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص50۔
 سایت اندیشه قم، متعلق به مرکز مطالعات و پاسخگویی به شبهات حوزه علمیه قم۔
 دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیه،‌ ص3۔
 | کریم آغا خان۔۔
 مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص53۔
 وہی ماخذ، ص51۔

ترتیب: محمد جان حیدری
ایم فل کلام و عقاید اسلامی
بشکریہ شیعہ ویکی پیڈیا