
سلیمانی
ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدہ خطے کے لئے بہت ہی اہم اور مفید
پاکستان کے سینیٹر اور سینیٹ کی بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے بہت ہی مفید اوراہم قراردیا ہے۔ مشاہد حسین سید نے سحر ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں تیزی کے ساتھ تبدیلی رونما ہورہی ہے اور قدرت و طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ مشاہد حسین سید نے ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدے کو خطے کے لئے مفید اور اہم قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران اور چین کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ، گہرے اور دوستانہ تعلقات ہیں اور چین اور ایران کے درمیان معاہدے پر پاکستان کوخوشی ہے ۔ مشاہد حسین سید نے امریکہ کی طرف سے چین کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اس قسم کے خصوصی اقتصادی متبادل منصوبے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ اندرونی اور بیرونی سطح اضمحلال کا شکار ہے اور اس کے پاس نہ چين جیسی پالیسی ہے اور نہ ہی چین جیسے وسائل اور امکانات ہیں اور بیشک 21 ویں صدی ایشیاء کی صدی قرار پائے گي ۔
ایٹمی معاہدہ میں مرحلہ وار نہیں مکمل واپسی
ایران کے اس باخبر ذریعے اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا کوئی بھی ایسا فیصلہ جو ایران کے خلاف امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ختم اور امریکہ کے ساتھ بالواسطہ طور پر مذاکرات پر مبنی ہوگا، قبول نہیں کیا جائے گا۔ ایران کے خلاف رفتہ رفتہ امریکی پابندیاں ہٹائے جانے سے متعلق ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہران نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایسا کوئی منصوبہ قبول نہیں کرے گا، جس میں امریکی پابندیاں رفتہ رفتہ ہٹائے جانے کی بات رکھی جائے گی اور نہ ہی ایران امریکا سے کسی طرح کے مذاکرات انجام دے گا۔ دوسری جانب ایران کے نائب وزیر خارجہ نے امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کے لئے پہلا قدم قرار دیا ہے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے جو اس اجلاس میں ایرانی وفد کی سربراہی کر رہے تھے، ایک بار پھر ایران کے اصولی موقف کی وضاحت کی اور امریکی پابندیوں کی منسوخی کو ایٹمی سمجھوتے کی بحالی کی سمت پہلا قدم قرار دیا۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران پابندیاں منسوخ ہوتے ہی ان تمام اقدامات کو روک دے گا، جو اس نے پابندیوں کی تلافی کے طور پر شروع کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کے واپس آنے کے لئے کسی گفتگو یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ جس طرح سمجھوتے سے باہر نکلا ہے، اسی طرح وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپس آسکتا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں لگائی ہیں، اسی طرح انہیں ختم کرسکتا ہے۔ ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے بھی جوہری معاہدے میں تعطل کے دور ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جوہری معاہدے میں گفتگو تکنیکی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور ماضی جیسی صورتحال اب نہیں رہی، جس سے دکھائی دیتا ہے کہ تعطل دور ہونے والا ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ، ایران کے خلاف پابندیوں اور زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی شکست خوردہ پالیسیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہے۔؟؟
ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے بارے میں ایران کے ردعمل کو دو زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زاویہ یہ ہے کہ ایران ایٹمی معاہدے کا حصہ ہے اور یہ معاہدہ ایک بین الاقوامی اور چند فریقی معاہدہ ہے، لہذا اس میں شریک تمام اراکین کے حقوق مساوی ہیں۔ اس معاہدہ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی عالمی ادارے سلامتی کونسل نے بھی قرار داد نمبر 2231 میں تائید کی ہے۔ ایران کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ جو اب ایک بند گلی میں پہنچ گیا ہے، اسے نتیجہ خیز بنائے۔ امریکہ نے ایک یکطرفہ فیصلہ کرکے اپنے آپ کو اس معاہدے سے نکال لیا ہے اور اس معاہدے کی روشنی میں ایران پر جو پابندیاں ختم ہوگئی تھیں، نہ صرف انہیں دوبارہ بحال کر دیا ہے بلکہ نئی پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک پر بھی دبائو بڑھا رہا ہے۔
ایران نے عالمی جوہری معاہدے سے ہٹ کر کچھ اقدامات رضاکارانہ بنیادوں پر انجام دیئے تھے۔ اس عالمی معاہدے کی شق 26 اور 36 معاہدے کے شریک فریقوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ اگر کوئی فریق معاہدہ کی تمام شقوں پر عمل درآمد نہ کر رہا ہو تو وہ بعض شقوں پر عمل درآمد روک سکتا ہے۔ ایران نے بھی انہی شقوں کی روشنی میں معاہدے کی بعض شقوں پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ بہرحال امریکہ نے معاہدے سے خارج ہو کر اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرکے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے اور اس کا واحد اور منطقی حل یہی ہے کہ وہ معاہدے میں واپس آجائے اور معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔ اسی لیے تو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ ایران اس وقت ایٹمی معاہدے کی شقوں پر عمل کرے گا، جب امریکہ تمام پابندیوں کے خاتمے کو نہ صرف کاغذ پر بلکہ عملی طور پر ختم کرے گا نیز ان پابندیوں کے خاتمے کو ایران کے سامنے باقاعدہ جائزے اور تحقیق کے لیے پیش کیا جائے گا۔
امریکہ اور اسرائیل زوال اور نابودی کے دہانے پر/ یمن کی جنگ کا شیعہ سنی سے کوئی تعلق نہیں: سید حسن نصر اللہ
سید حسن نصراللہ نے بدھ کی شام شیخ القاضی احمد الزین کی برسی کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت استقامت کا محاذ اپنی تاریخ کے سب سے دشوار اور خطرناک مرحلے کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اس نے خطروں کے مقابلے میں سنجیدہ اقدامات انجام دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ استقامتی محاذ نے اپنی صلاحیتوں کی تقویت کی ہے اور اسرائيلی، استقامت کے محاذ کی بڑھتی ہوئي طاقت سے سخت ہراساں ہیں اور جنگ کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ وہ جنگ سے سخت خوفزدہ ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکٹریٹری جنرل نے یمن میں امن مذاکرات کے بارے میں کہا کہ فریبی میڈیا، سعودی عرب کو مظلوم دکھانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ آل سعود امن کے خواہاں ہیں اور انصاراللہ امن کی پیشکش کو مسترد کر رہا ہے لیکن یمن میں جنگ کے بارے میں سعودی عرب کی نئي تجویز، یمن کے خلاف نئي میڈیا وار کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یمن کے لوگ سیاست اور عقلمندی میں کافی آگے ہیں اور انھیں سیاسی فریب نہیں دیا جا سکتا۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یمن کے محاصرے کے خاتمے کے بغیر فائر بندی کا مطلب یہ ہے کہ جارح افواج اس بات کی کوشش کر رہی ہیں کہ جو چیز وہ جنگ کے میدان میں حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں اسے سماجی دباؤ کے ذریعے حاصل کر لیں۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ یمن کے خلاف جنگ کا شیعہ سنی فرقوں سے کوئي تعلق نہیں ہے بلکہ یہ جنگ امریکہ کی خدمت اور خطے میں اس کی سازشوں کے تناظر میں شروع کی گئی ہے اور امریکی و صیہونی محاذ کے ترکش میں باقی بچا آخری تیرخطے میں فتنہ انگیزی اور یہاں جاری جنگوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ صیہونی - امریکی محاذ بدستور نیل سے فرات تک کے خواب کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کی حقانیت واضح اور ناقابل انکار ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہر انصاف پسند کو ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ شام کی جنگ کو دس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد شامی عوام کے سامنے اس عالمی جنگ کے حقائق روز بروز مزید کھل کر سامنے آرہے ہیں۔
سنہری مسجد – لاهور ، پاکستان
پاکستان کے شھر لاھور میں سنھری مسجد کو اسلامی دنیا کی سب سے بہترین مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہ خوبصورت مسجد لوگوں کے درمیان سنھری مسجد کے نام سے مشھور ہے، اور لاھور کے مشھور “کشمیری بازار ” کے وسط میں واقع ہے۔
یہ مسجد ۱۷۵۳ میں نواب میر سید خان جو کہ ادب، دین اور ھنر کے دلدادہ تھے نے تعمیر کی ہے ، مسجد کی چھت پر تین سھنرے گںبد سجائے گئے ہیں اور اسی وجہ سے اس مسجد کا نام سنھری مسجد رکھا گیا ہے۔
اس مسجد کے چاروں طرف ۵۴ میٹربلند چار مینار ہیں۔ جہاں سے پرانے زمانے میں جنگ کے ایام میں دیدہ بانی کا انجام دیا جاتا تھا، اس مسجد کی اندرونی دیواریں اور چھت کندہ کاری کے ذریعے پھولوں اور خوبصورت پودوں سے سجائے گئے ہیں۔
پنجاب میں سکھوں کے دور حکومت میں اس مسجد کو گوردوارہ میں تبدیل کیا گیا ، اور اس کے اطراف میں واقع بازار پر بھی سکھوں نے اپنا قبضہ جمایا۔
اس کے بعد دوبارہ مسجد کو واپس حاصل کیا ۔ لیکن اس کے اردگرد بازاروں پر سکھوں کا قبضہ جاری رہا ۔ البتہ حاکم نے اس شرط پر مسجد واپس کی کہ مسجد سے اذان کی آواز باہر سنائی نہ دی جائے۔
ھندوستان پر انگریزوں کی حکومت نے اس مسجد اور اس کے اردگرد بازاروں کو مسلمانوں کو واپس دیںے اور اس مسجد کی مناروں سے اذان کہنے کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے نزدیک ہوجائیں۔
اس مسجد کی بہترین معماری کے علاوہ ایک اور خصوصیت صوفیہ حضرات کے مختلف محافل کا انعقاد ہے ، جو محافل بہت سے لوگوں کو اپنی جانب جذب کرتی ہے
مہدوی معاشرے کی تہذیبی خصوصیات
امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد جو مثالی معاشرہ قائم ہوگا اسکی تہذیبی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں
1)علم و آگاہی میں ترقی: حضرت امام مہدی (عج)کے زمانہ حکومت میں انسان علم و دانش کا اس قدر پیاسا ہو جائے گا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں”مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں آپ سب کو علم و حکمت عطا کیا جائے گا، حتی کہ گھر میں بیٹھی خواتین اس قدر عالمہ ہو جائیں گی کہ کتاب الہی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں فیصلے کریں گی”(1)
2)الہی توحیدی تصور کائنات کا عالمی سطح تک پھیل جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، توحیدی اصول اور وحدانیت خدا پر ایمان کا پوری دنیا میں پھیل جانا ہے۔ اس بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: “خدا کی قسم (امام مہدی (عج) اور ان کے ساتھی اس قدر جہاد کریں گے کہ سب خدا کی توحید کا اقرار کر لیں گے اور کوئی شخص خدا کا شریک نہیں ٹھہرائے گا” اسی طرح ایک اور حدیث میں امام علی رضا علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “خداوند متعال نے فرمایا ہے: میری عزت اور جلال کی قسم، اس قدر اس (امام مہدی عج) کی مدد کروں گا کہ دنیا کے تمام انسان میری وحدانیت پر گواہی دینے لگیں گے۔”
3) دینی اور اسلامی اصولوں کا عالمگیر ہو جانا: امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد انسانوں میں عبادت، شرعی احکام کی پیروی، دین داری اور نماز جماعت کی طرف رغبت بڑھ جائے گی اور کوئی ایسا انسان نہ ہو گا جس کے دل میں اہلبیت پیغمبر علیھم السلام سے کینہ یا دشمنی پائے جائے۔”
4)دنیا بھر میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا: عصر ظہور کی ایک اور خصوصیت، مہدوی معاشرے میں اخلاقی اصولوں کا عام ہو جانا ہے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “جب ہمارا قائم (امام مہدی عج) قیام کرے گا تو انسانوں کے دلوں سے ایکدوسرے کی دشمنی اور کینہ ختم ہو جائے گا (3)اسی طرح احادیث و روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ جب امام مہدی (عج) کا ظہور ہو گا تو خداوند متعال اپنے بندوں کو اس قدر مال عطا کرے گا کہ وہ بے نیاز ہو جائیں گے اور جب امام مہدی(عج) یہ اعلان فرمائیں گے کہ محتاج اور ضرورت مند افراد آ جائیں تاکہ ان کی مدد کی جا سکے تو کوئی بھی نہیں آئے گا۔ لہذ ضرورت اس امر کی ہے کہ صبغۃ اللہ یعنی الہی سوسایٹی کے عملی قیام کے لئے ہم سب اپنی فردی واجتماعی ذمہداریوں کی طرف متوجہ ہوجائیں اور الہی حکومت کے قیام کے لے کوشش کریں۔
نتیجہ: مندرجہ بالا وہ چار اہم خصوصیات ہیں جو امام زمانہ (عج) کے ظہور کے بعد معاشرے میں تہذیبی وثقافتی طور پر نظر آینگی لہذا امام کا انتظار کرنے والے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں ان خصوصیات کو پیدا کرنے کے لے کوشش کریں تاکہ الھی معاشرے کا عملی قیام ممکن ہو۔
……………………………………
1: بحار الانوار جلد 52، صفحہ 352
2: بحار الانوارجلد 52، صفحہ 356
3:۔ بحار الانوارجلد 52صفحہ 316
فوائد غیبت مہدی موعود(عج)
ہم یہاں منکرین غیبت امام زمانہ (عج) کے اعتراض کا اجمالا جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
۱۔ امام زمانہ(عج) کی غیبت اور آپ (عج) کا شیعوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کے درمیان کوئی ملازمہ نہیں ہے۔ قرآن کریم انسان کے اولیاء خدا سے بہرہ مند ہونے کی داستان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے نقل کرتا ہے۔ بنابریں عصر غیبت میں بھی امام زمانہ(عج) کا لوگوں کے ساتھ خاص طریقے سے رابطہ قائم کرنے اور ان افراد کا آپ (عج) کے فرامین پر عمل کرنے اور آپ (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ امام زمانہ (عج) کا لوگوں کے امور میں تصرف نہ کرنے کا ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں، جو آپ (عج) کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ محقق طوسی (رہ) تجرید الاعتقاد میں لکھتے ہیں: (وجوده لطف و تصرفه لطف آخر و عدمه منا) "امام کا وجود بھی لطف اور امام کا تصرف کرنا ایک اور لطف اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔" {یعنی امام زمانہ(عج) بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی حضرت خضر علیہ السلام کی طرح ہیں، انہیں بھی کوئی نہیں پہچانتا تھا، لیکن پھر بھی وہ امت کے لئے فائدہ مند ہیں}
۲۔ امام (عج) کے پیروکاروں کا امام (عج) کے وجود سے کسب فیض کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ آپ (عج) تک تمام لوگوں کی رسائی ممکن ہو بلکہ اگر ایک خاص گروہ جو آپ (عج) کے ساتھ رابطہ قائم کرسکتا ہو اور وہ آپ (عج) کے وجود سے فیض حاصل کرے تو دوسرے لوگ بھی ان افراد کے ذریعے آپ (عج) کے وجود کے تمام آثار و برکات سے بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ یہ مطلب شیعوں کے بعض نیک اور شائستہ افراد کی آپ (عج) کے ساتھ ملاقات کے ذریعے حاصل ہوچکا ہے۔
۳۔ امام اور پیغمبر کے لئے حتی ان کے ظہور کے وقت بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کی ہدایت براہ راست اور بلا واسطہ انجام دیں بلکہ اکثر اوقات وہ اپنے نمائندوں کے ذریعے سے یہ کام انجام دیتے تھے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام اپنے دور میں دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندے معین فرماتے تھے، جو لوگوں کی ہدایت اور رہبری کا کام انجام دیتے تھے اور یہ روش صرف رہبران الہیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ طول تاریخ میں انسانوں کے درمیان یہ طریقہ رائج تھا۔ اسی وجہ سے امام زمانہ (عج) بھی اپنے نمائندوں کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں، جیسا کہ غیبت صغریٰ کے زمانے میں آپ (عج) نواب اربعہ (نیابت خاصہ) کے ذریعے اور غیبت کبریٰ کے زمانے میں عظیم المرتبت عادل فقہاء و مجتہدین (نیابت عامہ) کے ذریعے لوگوں کی رہبری کرتے ہیں۔
۴۔ شیعہ عقائد کے مطابق امام معصوم کا وجود لطف الہیٰ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ امام انسان کو اطاعت و عبادت سے نزدیک اور گناہ و مفاسد سے دور کرتے ہیں۔ بے شک یہ اعتقاد (کہ امام معصوم ان کے درمیان موجود ہیں، گرچہ لوگ انہیں نہیں دیکھتے یا انہیں نہیں پہچانتے، لیکن وہ لوگوں کو دیکھتے ہیں اور انہیں پہچانتے ہیں اور ان کے اچھے اور برے کاموں سے بھی واقف ہیں، نیز آپ (عج) کسی وقت بھی ظہور کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ (عج) کے ظہور کا وقت معلوم نہیں ہے) انسان کی ہدایت و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
۵۔ امامت کے اہداف میں سے ایک ہدف امام معصوم کا لوگوں کی باطنی ہدایت ہے۔ امام لائق اور پاکیزہ دل رکھنے والے افراد کو اپنی طرف جذب کرکے انہیں کمال تک پہنچاتے ہیں۔ واضح ہے کہ انسان کے اس طرح ہدایت سے ہمکنار ہونے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ امام کے ساتھ ظاہری رابطہ برقرار کرے۔
گذشتہ بیانات کی روشنی میں امام زمانہ (عج) کو بادل کے پیچھے پنہان روشن آفتاب سے تشبیہ دینے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بادل کے پیچھے پنہان سورج سے انسان مکمل طور بہرہ مند نہیں ہوتا ہے،لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال امام زمانہ (عج) کے وجود کے آثار و برکات سے بہرہ مند نہ ہونے کا سبب انسانوں کی طرف سے خاص حالات کا فراہم نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اس عظیم نعمت کے فوائد سے محروم ہیں اور اس محرومیت کا سبب وہ خود ہیں نہ کہ خداوند متعال اور امام، کیونکہ خداوند متعال اور امام کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی مشکل در پیش نہیں ہے۔
خواجہ نصیر الدین طوسی (رہ) آپ (عج) کی غیبت کے بارے میں لکھتے ہیں: (واما السبب غیبته فلایجوز ان یکون من الله سبحانه و لا منه کما عرفت فیکون من المکلفین و هو الخوف الغالب و عدم التمکین و الظهوریجب عند زوال السبب) لیکن یہ جائز نہیں کہ امام زمانہ (عج) کی غیبت خدا کی طرف سے یا خود آپ (عج) کی طرف سے ہو، جیسا کہ آپ جان چکے ہیں۔ پس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں، کیونکہ ان کے اوپر خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہی اس کا سبب ہے اور جب بھی رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی تو ظہور واجب ہو جائے گا۔ گذشتہ بیانات امام زمانہ(عج) کے وجود کے تشریعی و تربیتی آثار تھے، لیکن حجت الہیٰ کے تکوینی آثار و برکات نظام خلقت اور کائنات کا باقی ہونا ہے۔ یعنی ان کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ اسی طرح حجت خدواندی اور انسان کامل کے بغیر کائنات بے معنی ہے۔
اسی بنا پر روایات میں موجود ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی، کیونکہ اگر ایک لحظہ کے لئے بھی زمین حجت خدا سے خالی ہو تو وہ اپنے اہل سمیت نابود ہو جائے گی۔(لو لا الحجة لساخت الارض باهلها) یہاں سے اس عبارت کا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے جو کہ بعض دعاوں میں موجود ہے:(بیمنه رزق الوری و بوجوده ثبتت الارض و السماء) "امام زمانہ(عج) کے وجود کی برکت سے ہی موجودات رزق پا رہه ہیں اور آسمان و زمین برقرار ہیں۔" امام اور حجت خدا واسطہ فیض الہیٰ ہیں، خدا اور بندگان کے درمیان واسطہ ہیں، جن برکات و فیوض الہیٰ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی، امام ان فیوض و برکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ لہذا امام زمانہ(عج) کی طولانی عمر اور ظہور سے صدیوں قبل آپ(عج) کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں کبھی بندگان خدا الطاف الہیٰ سے محروم نہ رہیں اور امام کے وجود کی جو برکات ہیں، وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ تجرید لاعتقاد، بحث امامت
2۔ کمال الدین، شیخ صدوق، باب 45۔ حدیث 4، ص485
3۔ الرسائل، سید مرتضیٰ، ج2، ص297 – 298
4۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
5۔ اصول کافی، ج1، کتاب الحجۃ باب ان الحجۃ لا تقوم للہ علی خلقہ
6۔ نوید امن و امان، آیۃ اللہ صافی گلپایگانی، ص 148
دشمن خواب میں بھی ایرانی قوم سے جنگ کا نہیں سوچ سکتا، جنرل سلامی
سردار حسین سلامی نےصوبہ یزد کے شہداء کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یزد دارالعلوم اور دارالفقہ ہے اور یہ شہر ایسے جوانوں کا مسکن ہے جو ہمیشہ قوم کو پیش آنے والے امتحانات میں سرخرو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یزد اسلامی فنون لطیفہ اور فن تعمیر کی سرزمین ہے جسے دار الفنون بھی کہا جاسکتا ہے۔ یزد روحانیت، اخلاقیات اور جذبات کی سرزمین ہے اور یہ 4000 شہداء اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس سرزمین نے اسلام، اہل بیت اور ولایت کی خاطر ہمیشہ قربانی دی اور راستے کے ساتھ وفاداری کی اور اہل یزد ایران، ایران کی عزت و اقتدار اور استقلال وطن کے محافظ ہیں۔
ایران چائنہ معاہدہ امریکہ کو بڑا جھٹکا
اب دنیا نے اس کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے، انسانیت اس سے تنگ آچکی ہے۔ ہر قوم کا اپنا طرز زندگی ہوتا ہے، وہ اس کے مطابق اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے، امریکی نظام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ہر ایک سے یہ تقاضا کرتا ہے، اس کے نظام میں ڈھل جاو تو ٹھیک ہے، ورنہ سخت دنوں کے لیے تیار ہو جاو۔ امریکہ کے اس نظام کو بھی آزاد اقوام نے چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے اور آج کی دنیا بھی چالیس سال پہلے والی دنیا نہیں ہے۔ ایشیا میں دنیا کی بڑی معیشتیں پنپ رہی ہیں اور بڑی تیزی سے وسائل پیدا کر رہی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آزاد تجارت کے نعرے لگانے والے ٹیکسوں کی بھرمار کر رہے ہیں اور چیزوں کی درآمد و برآمد میں مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ آزاد تجارت کا نعرہ تب تک درست تھا، جب تک غریب ممالک کے وسائل کا خون چوس رہا تھا، جب اس کے مقابل چینی معیشت نے مسابقت دکھانی شروع کی اور وسائل کا رخ چین کا طرف ہونے لگا تو مسائل گھڑے کئے جانے لگے ہیں اور ان کے خلاف بی بی سی، سی این این اور فوکس نیوز پر ہر تیسرے دن کوئی فرضی کہانی آئی ہوتی ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ای اور ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ خطے میں تجارت و معیشت سے لے کر سکیورٹی تک کی صورتحال تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی طرف سے معاہدے کے لیے ایرانی پارلیمنٹ کے سابق سپیکر علی لاریجانی کو اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ پہلے یہ معاہدہ دس سال کے لیے کیا جانا تھا، مگر اب اس کی مدت کو پچیس سال تک بڑھا دیا گیا۔ اس معاہدے کی بنیاد چائنہ کے صدر کے 2016ء کے دورہ ایران کے موقع پر رکھی گئی، پھر فائیو پلس طاقتوں کے ساتھ معاہدے اور دیگر وجوہات سے یہ پس منظر میں چلا گیا، مگر ایرانی اور چینی قیادت اس پر مسلسل کام کر رہی تھی۔ اب اس معاہدے کا اعلان کیا گیا ہے اور دنیا بھر میں یہ موضوع بحث بن چکا ہے۔
اس معاہدے میں فوجی تربیت و مشقیں، ہتھیاروں کی تیاری اور اس سے متعلق تحقیقات میں تعاون، خفیہ معلومات کا تبادلہ، انسانی سگلنگ، ائرپورٹ، ہائی سپیڈ ٹرین، سب ویز، فری ٹریڈ زونز اور فائیو جی نیٹ ورک کا قیام شامل ہے۔ فائیو جی اور انٹرنیٹ کی چائییز نظام میں منتقلی سے سائبر سے متعلقہ معاملات میں مغرب پر انحصار ختم ہوگا۔ آج کی دنیا میں اصل جنگ سائبر کی دنیا میں لڑی جا رہی ہے اور مغرب اس پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ایشیائی ممالک اس میں بھی خود انحصاری کی طرف بڑھیں۔ امریکی اخبار نیو یارک پوائنٹ کا تجزیہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
the partnership would create new and potentially dangerous flash points in the deteriorating relationship between China and the United States اس شراکت داری سے چین اور امریکہ کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات میں نئے اور ممکنہ طور پر خطرناک فلیش پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکہ خطے میں اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے خطے کے وسائل کی لوٹ مار جاری رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ دھمکیاں اور پابندیاں قوموں کی دشمنیاں ہی لاتی ہیں، ان سے کبھی بھی خیر برآمد نہیں ہوتی۔ امریکی اداروں میں پسماندہ ممالک میں مداخلت کرکے من پسند افراد کو نوازنے کی غلط روایت موجود ہے، جس کا خمیازہ ان ممالک کو بھگتنا پڑتا ہے۔ امریکہ کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ یہ تعاون اور باہمی مفادات کے تحفظ کا دور ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ اپنے مفادات کا تحفظ کریں اور دیگر اقوام کے ساتھ تیسرے درجے کا سلوک جاری رکھیں۔ معاشی دباو کی پالیسی کے نتائج آپ کے سامنے ہیں، اس نے آپ کے دوستوں میں کمی کی ہے اور دشمنوں میں اضافہ کیا ہے۔
چینی وزیر خارجہ ایران آنے سے پہلے سعودی عربیہ اور ترکی کا دورہ کرچکے ہیں اور ایران کے بعد عرب امارات، بحرین اور عمان کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ چائینہ کی اقتصادی سفارتکاری کے جارحانہ اظہار کا موقع ہے۔ چائنہ بڑی تیزی سے خظے میں اقتصادی رابطے کے لیے انفراسٹکچر پر کام کر رہا ہے۔ ون بیلٹ منصوبے میں چائینہ خلیجی ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے۔ چائینہ کے وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ چائینہ کے خطے کے ممالک اور ایران میں بات چیت کرا سکتا ہے۔ اس معاہدے سے چار سو ارب ڈالر کی انویسمنٹ آئے گی، جہاں ایران کے داخلی مالی مسائل درست ہوں گے، وہیں یہ معاہدہ مڈل ایسٹ میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ امریکی مقاصد پر کاری ضرب ہے، امریکہ یہ چاہتا تھا کہ ایران تنہائی کاشکار ہو جائے اور مالی مجبوریاں اسے امریکہ کے پاس لوٹنے پر مجبور کر دیں، مگر اس کے برعکس ہوا ہے، ایران مالی طور پر مزید مستحکم ہونے جا رہا ہے۔
شہداء کا پیغام خوف اور ناامیدی سے محفوظ رہنا ہے، آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے صوبہ یزد کے چار ہزار شہداء کی یاد میں منعقدہ کانفرنس کمیٹی کے اراکین سے ملاقات کی۔ اس اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے شہدائے یزد کانفرنس کے خوبصورت اور نئے انداز میں منصوبہ بندی جیسے پروگراموں کی تعریف کی جن میں شہداء کے نام پر پودے لگانا، جہیز کا اہتمام، مفت علاج، روزگار معاش اور ثقافتی پیکیج تیار کرنا اور قرآن خوانی وغیرہ جیسے پروگرامز شامل ہیں۔ آپ نے کہا کہ اہل یزد نے دفاع مقدس کےدوران بھی پانی کی کھدائی کے فن کا استعمال کرتے ہوئے زیرزمین نہروں کی کھدائی کرنا یا متعدد سلائی مرکز بنانا اور مجاہدین کو لباس مہیا کرنے میں خواتین کی شرکت وغیرہ جیسے نئے نئے منصوبہ انجام دیئے ہیں۔
رہبر انقلاب نے شہدا کے پیغام کو زندہ رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شہدا عالم برزخ میں ایک خاص زندگی کے حامل ہیں اور ان کے راستے پر چلنے والوں کے لئے ان کا اہم پیغام خوف اور نا امیدی سے محفوظ رہنے کی بشارت ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس پُر امید پیغام کو دنیا طلب لوگوں کے فتنوں کا مقابلہ سمجھا اور مزید کہا کہ شہداء کے میدان جہاد میں حاضر ہونے کا مقصد جو خود شہدا کے وصیت ناموں میں ذکر ہوا ہے انقلاب کی حمایت، امام خمینی کی حمایت کا اعلان، حجاب، دشمن کی شرارت کا خاتمہ اور نظام کو اس کے اہداف کے حصول کے نزدیک کرنا تھا کہ ہمیں اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ کچھ لوگوں کے ذریعہ ان نظریات کی تردید یا تحریف نہ ہو۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نوجوانوں کو انقلاب کے راستے سے مایوس کرنے یا انہیں پیچھے ہٹانے کے لئے دشمن کی مستقل منصوبہ بندی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ دشمن اپنے فتنہ کیلئے نوجوانوں کو متاثر کر سکتے اور ان کو اپنا آلہ کار بنائے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے شہداء کے والدین اور ہمسران کی یادداشتوں کو محفوظ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس خاندان اور خاندان کی خصوصیات جنہوں نے اپنے اعلی حوصلہ افزائی اور ایمان کے ساتھ اپنے بچوں کی اس انداز میں پرورش کی اسے محفوظ کیا جانا چاہئے۔
آخر میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ کے سائے میں کام کرنے والے ایسے لوگوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ جو شہدا اور مجاہدین کی مجاہدت اور کی برکت سے اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ سلامتی اور آزادی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں لیکن ان پاک شہدا کے مقاصد کے برخلاف فعالیت کر رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ایسی کوششوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شہداء کے راستے پر اور حق کی خاطر (ہمیں بھی) اپنی کوششوں، فعالیت اور کام کو دو برابر کرنے کی ضرورت ہے۔
15 شعبان، یوم مستضعفین جہان
پندرہ شعبان کو اسلامی تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔ اہل اسلام کے مختلف فرقے اور مسالک اس دن کو اپنے اپنے عنوان سے مناتے ہیں۔ شب برات ہو یا شب نیمہ شعبان اس رات اور پندرہ شعبان کے دن کا انسانیت سے گہرا تعلق ہے۔ دنیا کا ہر آسمانی دین ایک نجات دہندہ کا منتظر ہے۔ عالم اسلام میں شیعہ مسلمان اس دن کو امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے روز ولادت باسعادت کے عنوان سے مناتے ہیں۔ علمائے تشیع نے پندرہ شعبان کی رات اور دن کے لیے مختلف اعمال تعلیم کئے ہیں، لیکن عالم اسلام میں اسلامی حکومت تشکیل دینے والی عظیم الشان شخصیت یعنی بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے اس دن کو محروموں اور مستضعفوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بانی انقلاب اسلامی کے اس فرمان کو مختلف حلقوں میں شایان شان طریقے سے پذیرائی ملی تھی۔
لیکن آج کے دور میں اس کی اہمیت میں دو چند اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں نے دنیا کو تیسری دنیا، ترقی پذیر، ترقی یافتہ اور غریب و محروم ممالک میں تقسیم کر رکھا ہے۔ نام نہاد سپرپاورز انسانیت کے استحصال میں مصروف ہیں۔ طاقت اور اقتصاد کے بل بوتے پر مخالفین پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ ڈکٹیشن قبول نہ کرنے والے ممالک کو دیوار سے لگانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، یہ سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ کرونا وائرس کے حالیہ حملے نے اس دنیا اور اس میں بڑی طاقت ہونے کا چرچا کرنے والی ریاستوں کے مکروہ اور کریہیہ چہرے سے مزید پردہ اتار دیا ہے۔ آج دنیا محروموں اور مستکبروں کے دو بلاکوں میں تقسیم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔
آج مستضعف اور محروم انسان سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں محرومین اور مستضعفین کو بلاتفریق مذہب، دین، قوم، ملت، رنگ، نسل اور علاقے کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک تمام محروم اور مستضعف یک زبان ہو کر وقت کے طاغوتوں، مستکبروں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائیں گے، عدل و انصاف کا سورج طلوع نہیں ہوگا۔ پندرہ شعبان کو یوم مستضعفین جہاں یعنی محروموں کا عالمی دن قرار دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عالم انسانیت کو جس نجات دہندہ کی ضرورت اور انتظار ہے، اس کا ظہور قریب ہے، اگرچہ مخالفین اس کے برعکس کہتے ہیں۔