
سلیمانی
اسلامی سیاست اور امام خمینی ؒ
تحریر: مرزا محمد حیدر، (لکھنؤ)
سیاست یعنی ملکی تدبیر و انتظام۔ اس سادہ سے لفظ کا مفہوم جہاں کچھ افراد کیلئے قابل فہم ہے، وہیں کچھ حضرات کیلئے مشکل اور الجھا ہوا ہے۔ وہ چیز جو سیاست کے مفہوم و معنی کو گنجلک بناتی ہے، اس کا تعلق انسان کے خود اپنے تصورات سے ہے اور یقیناً ان تصورات کو اقتدار و بادشاہت کے طلبگار افراد نے لوگوں کو فریب دینے کی غرض سے ان میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں، تاکہ ان کی مطلق شہنشاہی برقرار رہے اور لوگ سیاست کی حقیقی صورت سے ناواقف رہیں۔ اس کے مفہوم کو اتنا بگاڑ دیا کہ لوگوں نے لفظ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور دین و سیاست کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا۔
شہید مطہری کا کہنا ہے ہوای و ہوس کے خواہاں اور جو اسلام کے سرنگوں ہونے کے منتظر ہیں، ان کی ہمیشہ سے یہ آرزو رہی ہے کہ دین سیاست سے دور ہو جائے، جبکہ دین و سیاست کی نسبت ایسی ہے، جیسے بدن و روح، جس کا علیحدہ ہونا ہر ایک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ فہم سیاست کا فقدان ایک مہلک بیماری ہے، جو ایک رہبر اور بہتر معاشرتی نظام کے لئے مضر ہے۔ امام علی فرماتے ہیں: آفة الزعماء ضعف السياسة یعنی معاشرہ میں فہم سیاست کی کمزوری حکمران کیلئے ایک آفت ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ لوگوں کا در علیؑ کو چھوڑنا، جنگ سفین میں خوارج کے نام سے ایک گروہ کا (لا حکم الا اللہ) کا نعرہ لگانا، دور امام حسنؑ میں امام کو ایسے مقام پر تنہا چھوڑ جانا جہاں امام کو باطل سے صلح کی صورت زہریلا گھونٹ پینا پڑا اور سیاست سے انجان افراد نے آپ کے بھائی حسینؑ کو وہاں لا کھڑا کیا، جہاں انہیں اپنے چھ مہینے کے بچے اور چار سالہ بچی کی قربانی دینا پڑی، یہ سب واضح مثالیں ہیں۔
سیاست کے بدلتے رنگ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے، تاکہ ہم فرق کرسکیں کہ شیطانی اور الہیٰ سیاست کا معیار کیا ہے۔ سیاست سے ناواقفیت ہی وجہ بنی کہ کچھ افراد نے معاویہ کو امام علیؑ سے زیادہ سیاست داں کہا۔ امام نے ان کے جواب میں فرمایا: (وَ اللَّهِ ما معاویہ بادهى منّى، و لكنّهُ يَغْدِرُ وَ يَفْجُرُ، وَ لَوْلا كَراهِيَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ أَدْهَی النّاس) "خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ سیاست مند نہیں، لیکن وہ مکار و فریب دینے والا اور اگر مکر و فریب گناہ نہ ہوتا تو میں سب سے زیادہ سیاست مند ہوتا۔" یہ سیاست کی پہلی باطل صورت یعنی شیطانی سیاست ہے، جس کا معیار ظلم، مکر و فریب، جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ بنی امیہ اور بنی عباس ایسی خلافت تھیں، جنہوں نے سب سے پہلے سیاست کو دین سے جدا کیا اور پھر مفہوم سیاست میں تحریف کی۔
سیاست کی دوسری باطل صورت جس کا حقیقت سیاست سے کوئی تعلق نہیں، شیطانی سیاست ہے۔ فقط معاشرہ کی مادی ضرورتوں کو مکر و فریب اور تمام شیطنت کو بروئے کار لاکر بخوبی انجام دیا جانا۔ انسان کی تخلیق فقط کھانے پینے اور مادی خواہشات کی تکمیل کیلئے نہیں ہوئی، بلکہ انسان روحانی مراحل بھی رکھتا ہے اور جس عالم کی طرف انسان کا مستقبل ہے، اس میں روحانیت کافی اہمیت کی حامل ہے۔ لہٰذا معاشرہ میں فقط مادی سہولیات کا انتظام انسان کیلئے کبھی بھی کمال بخش نہیں ہوسکتا۔ سیاست کی وہ حقیقت جس سے بعض افراد نا آشنا ہیں، وہ اسلامی سیاست ہے۔ اگر اس کے اہداف اور ثمرات کے بارے بات کریں تو ہمیں امام خمینی ؒ جیسی شخصیت ملتی ہے، جس نے مکتب اہل بیت سے مستفید ہوکر اسلامی سیاست سے لوگوں کو آشنا کرایا، جس کے نتیجے میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا، جس نے طاغوتی نظام کی قلعی کھول دی۔ امام خمینی نے صحیح سیاسی فکر کو احیاء کیا اور اس پر عمل پیرا بھی ہوئے۔
امام خمینی نے اپنی کتاب "کشف الاسرار" میں دین و سیاست کے رابطہ کو بیان کیا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ سیاست کو دین سے جدا کرنا اور اس کی صورت کو بدنما بنانے کی ابتداء بنی امیہ و بنی عباس کی۔ ایسا شخص جو دین و سیاست میں جدائی ڈالے گویا وہ ایسا ہے کہ اس نے ان دونوں میں سے کسی کو بھی نہیں سمجھا۔ دیکھا جائے تو دین و سیاست میں جدائی لانے کے سبب ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہم نے ماضی میں ان الہیٰ رہنماؤں کو کھو دیا، جنہوں نے انسانیت کو نہایت بلند و بالا مقام تک رسائی دی تھی۔ امام خمینی اور اسلامی رو سے اساس زندگی یہ ہے کہ انسان معنویت اور اخلاق الہیٰ سے آراستہ ہو۔ وہ تمام مسائل جو انسانیت کے کمال و ہدایت کی راہ میں درپیش آئیں، ان سے آگاہی حاصل کرکے اسے معاشرے کیلئے فراہم کیا جائے۔ معاشرے کو سعادت کی راہ دکھانا، اسلامی سیاست کی حقیقی شکل و صورت ہے۔
امام خمینی کی نگاہ میں اسلامی سیاست کی بنیادی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
اول: تمام قوانین کی بنیاد انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی ہوگی۔ دوسرے: حقیقی سعادت کا حامل ہونا یعنی دونوں عالم دنیا و آخرت میں سعادت مند ہونا۔ تیسرے: ہر حال میں انسان کی تمام جہتوں (جسم و روح، مادیت و معنویت) کو کمال تک پہنچنا۔ چوتھے: مکر و فریب، دھوکہ، ریاکاری اور تمام صفات شیطانی سے پاک ہونا۔ پانچویں: حدود الہیٰ کو معاشرے میں نافذ کرنا۔ چھٹے: لوگوں کو مادی و معنوی دونوں طرح کی غلامی سے نجات دلانا، تاکہ معاشرہ باطل سیاست کا شکار نہ ہو جائے اور غلامی کا طوق نہ پہن لے۔ اسلامی سیاست کے اہداف کے بارے مین امام خمینی کا صحیفہ امام میں کہنا ہے کہ اولاً لوگوں کو عقل و عدل کی راہ پر گامزن کرنا ہے، تاکہ وہ کسی بھی صورت ظلم کے خلاف خاموش نہ بیٹھیں اور غلامی کی رسی ہرگز اپنی گردن پر قبول نہ کریں۔
تاریخ اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عاقل کبھی غلامی کی بدنامی اپنے سر نہیں لیتا اور فساد برپا ہونے پر اس چیز کی ممانعت کرنا کہ کہیں لوگ فطرت انسانی سے خارج نہ ہو جائیں، کیونکہ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مصیبت کہ وقت انسان، انسانیت سے عاری ہو جاتا ہے، جس کے سبب معاشرہ کی ساٹھ گانٹھ، زیرو زبر ہو جاتی ہے، جو کہ اسلامی سیاست کیلئے ضرر رساں ہے۔ اسلامی سیاست کی اگر بات کی جائے تو اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فقط مادیات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا، بلکہ معاشرے کو ملکوتی سیر کرانا اسلامی سیاست کی خصوصیات میں شامل ہے۔
دوسرا فائدہ عدالت ہے، جو یقیناً ایک بہترین معاشرہ کو تشکیل دینے کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: سیاست کا معیار ہی عدالت ہے۔
الغرض! دیکھنا یہ ہے کہ ہم سیاست کو کس صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں: شیطانی یا اسلامی۔ یقیناً جو افراد فطرت انسانی کی حدود سے تجاوز کرچکے ہیں یا مادیات میں الجھے ہوئے ہیں، وہ شیطانی سیاست کے خواہاں ہیں، لیکن جن کے اندر روحانیت ہے اور وہ مادیات کو فقط ضروریات زندگی جانتے ہیں اور صعودی راہ پر گامزن ہے، وہ یقیناً اسلامی سیاست کے طلبگار ہیں۔ ایسی سیاست جس میں ان کے مقصد تک پہنچنے کے قوانین شامل ہوں اور جو معاشرہ میں عدل و انصاف کے راستہ پر چل کر سب کو ان کے حقوق ادا کرے اور مظلوم کا ساتھ ، ظالم کے خلاف برسرپیکار رہے۔
یہ درحقیقت امریکہ کا اصلی چہرہ ہے
تحریر: مرضیہ ہاشمی (امریکی نژاد صحافی)
امریکہ میں نسل پرستی کا مسئلہ آج اور کل کا نہیں بلکہ یہ ملک گذشتہ 400 سال سے اس مصیبت میں مبتلا ہے۔ البتہ ہر دور میں نسل پرستی ایک خاص شکل میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ مثال کے دور پر دور حاضر میں غلامی کا تصور نہیں پایا جاتا کیونکہ قانونی طور پر اسے ممنوع قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود نسل پرستی مختلف صورتوں میں امریکی معاشرے میں پائی جاتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کیلئے بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت امریکہ میں چھوٹی سطح کے پیشوں میں مصروف شہریوں کی زیادہ تر تعداد سیاہ فام افراد پر مشتمل ہے۔ البتہ کامیاب سیاہ فام شہری بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو میری نظر میں استثنائی شمار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ کے سفید فام شہریوں میں خودپسندی کا جذبہ پایا جاتا ہے جو ماضی میں بھی تھا اور آج بھی موجود ہے۔ بعض سفید فام شہریوں کے دل میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ جب روایتی طور پر سفید فام شہری اس گمان کا شکار ہوں کہ وہ سیاہ فام شہریوں سے بہتر ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا جو ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں۔
جب یورپی شہری سرخ فام افراد کی سرزمین امریکہ میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس سرزمین کے حقیقی باسیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ ان میں سے بعض کا تصور یہ ہے کہ دیگر نسلیں کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتیں یا کم از کم یہ کہ ان کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ دوسری طرف امریکی ذرائع ابلاغ میں سیاہ فام افراد کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈہ پایا جاتا ہے۔ یہ ذرائع ابلاغ مسلسل لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر ڈالتے رہتے ہیں کہ سیاہ فام شہری مجرم، بے وقوف اور جرائم پیشہ ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا باسکٹ بالسٹ بن سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا میں جاری یہی منفی پروپیگنڈہ ملک میں نسل پرستانہ سوچ پیدا ہونے اور فروغ پانے کا باعث بنا ہے۔ جب ہم امریکہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو بہت سے اسباب اور عوامل پر توجہ دینا پڑتی ہے جس کے باعث موضوع پیچیدہ ہو جاتا ہے اور حالات کا تجزیہ بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ امریکہ میں جاری موجودی احتجاجی تحریک میں سیاہ فام شہریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ایک قابل اور واحد لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ ایک اچھے اور قابل لیڈر کے بغیر ملکی سطح پر سرگرم سیاہ فام شہریوں میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہونا بہت مشکل ہے۔
امریکہ کی سکیورٹی فورسز نے ہر زمانے میں ایسے سیاہ فام شخص کو گرفتار کیا ہے جس کے بارے میں انہیں تھوڑا سا بھی شک تھا کہ اس میں لیڈرانہ صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ حتی آج بھی اگر امریکہ کی سکیورٹی ایجنسیز کسی شخص پر حالیہ احتجاجی تحریک کا لیڈر ہونے کا شبہ کریں تو اسے فوراً گرفتار کر لیں گی۔ لہذا موجودہ احتجاجی تحریک کے مستقبل کے بارے میں کچھ بھی کہنا بہت مشکل ہے۔ لیکن موجودہ احتجاجی تحریک کئی لحاظ سے سابقہ تحریکوں سے مختلف ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث معرض وجود میں آنے والی بے روزگاری اور دیگر شدید مالی مشکلات نے سیاہ فام مزدوروں کو شدید دباو کا شکار کر ڈالا ہے جس سے تنگ آ کر وہ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ دوسری طرف کرونا وائرس کے نتیجے میں مرنے والے افراد میں سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس وجہ سے بھی سیاہ فام شہری حکومت کی جانب سے اپنے ساتھ امتیازی سلوک کا احساس کر رہے ہیں۔ یہ تمام وجوہات مل کر سیاہ فام شہریوں اور نچلے طبقے کے افراد میں شدید غم و غصے کا باعث بنے ہیں اور اب یہ لاوا آتش فشان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
امریکہ کے اکثر ذرائع ابلاغ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالف ہیں لہذا وہ بھرپور انداز میں امریکہ کی مختلف ریاستوں میں جاری عوامی احتجاج کو کوریج فراہم کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ سیاہ فام شہریوں کو نظرانداز کرنے میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں اور دونوں پارٹیاں نسلی تعصب کا شکار ہیں۔ امریکہ کے ریاستی اداروں میں نسلی تعصب پایا جانا، سفید فام طبقے کا خود کو برتر تصور کرتے ہوئے سیاہ فام طبقے کو گھٹیا اور پست جاننا اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نسل پرستانہ بیانات بھی موجودہ احتجاجی تحریک کے معرض وجود میں آنے میں موثر اسباب جانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں مظاہرین کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے احتجاج جاری رکھا تو ان پر فائرنگ کا حکم دیا جائے گا۔ واضح ہے کہ اس قسم کے بیانات مزید عوامی اشتعال کا باعث بنتے ہیں اور عوامی احتجاج میں مزید شدت آتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سوچے سمجھے بغیر بات کرتا ہے۔ امریکہ کا اصلی چہرہ یہی ہے۔ امریکہ کے تمام سیاست دان اسی انداز میں سوچتے ہیں البتہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی سوچ ظاہر کر دیتا ہے جبکہ باقی منافقت سے کام لیتے ہیں۔
امام خمینیؒ کی 31ویں برسی کے موقع پر رہبر انقلاب کا خطاب
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید روح اللہ خمینیؒ کی 31ویں برسی کے حوالے سے قوم سے براہ راست خطاب میں "تبدیلی کی طلب"، "تبدیلی کا محرک بننا" اور "تبدیلی لانا" کو امام خمینیؒ کی بنیادی خصوصیات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام خمینیؒ انبیاء علیہم السلام کے مانند انسانوں کی روحانی سرشت اور ضمیروں کو بیدار کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی یہ خصوصیت انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے دسیوں سال قبل ان کی طرف سے حوزۂ علمیہ قم کے اندر دیئے گئے پرتاثیر دروس اخلاق میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینیؒ کو "تبدیلی کا رہبر" (امام تحول) قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ نے انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے آغاز سے لے کر اپنی حیات مبارکہ کے آخر تک میدان عمل میں موجود رہ کر ایک بیمثال سپہ سالار کے مانند قوم کے اندر "تبدیلی کی امنگ" پیدا کی اور ایرانی قوم کے عظیم سمندر کو اپنے اہداف کی رسائی تک بھرپور رہنمائی کرتے رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عوام کے محدود مطالبات کو "خود مختاری و آزادی" جیسے مطالبات میں بدل دینے اور "لوگوں کی نظر میں دین اسلام کے انفرادی ہونے کے مفہوم کو نظامِ حکومت چلانے والے اور نئی ثقافت و تمدن کو قائم کرنے والے دین" میں تبدیل کر دینے کو امام خمینیؒ کی "تحول ساز" نگاہ کا ایک اور کرشمہ قرار دیا اور کہا کہ انقلاب اسلامی کی جدوجہد کے آغاز میں ایرانی قوم کے ذہن میں مستقبل کی کوئی واضح تصویر نہیں تھی تاہم امام خمینیؒ نے ایرانی قوم کی خالی نگاہوں کو آج کی ایرانی قوم کی ذہنی تصویر، یعنی امتِ اسلامی کی تشکیل اور نئے اسلامی تمدن کے قیام سے بدل دیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے "اطلاقی شناخت کی فکری بنیادوں میں تبدیلی اور فقہ (اسلامی) کے نظام حکومت اور ملک چلانے کے میدان میں عملی طور پر داخل ہو جانے" اور "مسائل کو جدید نگاہ سے پرکھتے ہوئے تعبّد و معنویت پر خصوصی توجہ" کو امام خمینیؒ کی "تبدیلی پر مبنی نگاہ" کے دو بنیادی نتائج قرار دیا اور کہا کہ اُس وقت جب کوئی امریکہ کی مرضی کے خلاف کلام کرنے کا تصور بھی نہیں کر پاتا تھا، امام خمینیؒ نے سپرپاورز کے بارے میں عوام کی نگاہ میں تبدیلی لا کر سپرپاورز کو ذلیل و خوار بنا دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ بین الاقوامی بدمعاشوں پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کی یہ فکر سابقہ سوویت یونین کے حشر اور آج کے امریکی حالات پر سوفیصد منطبق ہوتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جدیت، تبدیلی و ترقی کو انقلاب کی اصلی ماہیت اور دقیانوسیت کو انقلاب کا متضاد قرار دیا اور کہا کہ انقلاب میں ترقی یا تنزلی انسانوں کے ارادوں پر منحصر ہے کیونکہ اگر انسان صحیح رستے پر حرکت نہ کرے تو خداوند متعال بھی اپنی دی ہوئی نعمت واپس لے لیتا ہے۔ انہوں نے "صحیح تبدیلی" کو "فکری بنیادوں" کا محتاج قرار دیتے ہوئے "عدالت کے میدان میں تبدیلی کی ضرورت" پر زور دیا اور کہا کہ "تبدیلی" کی بنیاد ایک مستحکم (اور مدلل) فکر پر ہونا چاہئے جیسا کہ امام خمینیؒ کی طرف سے لائی جانے والی تبدیلی کی ہر ایک حرکت اسلام کی ٹھوس فکری بنیادوں پر استوار ہوا کرتی تھی کیونکہ اگر (تبدیلی کی بنیادوں میں) ایسی ٹھوس فکر موجود نہ ہو تو وجود میں آنے والا تغیّر غلط اور غیر مستحکم ہو گا۔ انہوں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "تبدیلی" کو "سوچ میں تبدیلی" نہیں سمجھ لینا چاہئے، کہا کہ تبدیلی ترقی کی جانب ہونا چاہئے جبکہ وہ جدیت اور مغرب پرستی جو پہلوی دور میں متعارف کروائی گئی تھی، ایرانی قوم کی دینی، قومی اور تاریخی شناخت کا خاتمہ تھا جسے "ثقافتی موت" بھی کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے لئے "رفتار" بھی ضروری ہے تاہم یہ "تیزی" عجلت اور جلد بازی پر مبنی سطحی کاموں سے مختلف ہے جبکہ تبدیلی کے دوران ایک اطمینان بخش رہبر کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "دشمن اور دشمنیوں سے نہ ڈرنے" کو تبدیلی کے لئے بنیادی شرط قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مثبت اور اہم کام کے مقابلے میں مخالفتیں ہمیشہ موجود رہتی ہیں جیسا کہ آج کے دور میں صیہونیوں کے ساتھ وابستہ اداروں کا وسیع پراپیگنڈہ ہے تاہم مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دیئے جانے والے مثبت کام کے دوران ان مخالفتوں کی فکر نہیں کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی آشفتہ حالی کو ایرانی قوم کے خدا پر بھروسے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران دشمنوں کا ایک محاذ سوویت یونین تھا جو برے طریقے سے بکھر چکی ہے جبکہ اس محاذ کا دوسرا حصہ امریکہ ہے جس کا شیرازہ بکھرتے پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ انہوں نے امریکہ میں آجکل وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو امریکی مصنوعی ثقافت کے اندر دبائی گئی حقیقت قرار دیا اور کہا کہ ایک سیاہ فام انسان کی گردن پر پولیس افسر کی جانب سے گھٹنا رکھ کر اس قدر دبایا جانا کہ اس کی جان ہی نکل جائے درحالیکہ دوسرے پولیس اہلکار بھی اس منظر کا تماشا کر رہے ہوں، (امریکی ثقافت میں) کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہ امریکی حکومت کا وہی اخلاق و سرشت ہے جسے وہ قبل ازیں افغانستان، عراق، شام اور ویتنام سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے اندر بارہا ظاہر کر چکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی عوام کے اس نعرے کہ "مجھے سانس نہیں آ رہا" (!I Can't Breathe) کو ظلم تلے پِستی تمام اقوام کے دل کی بات قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی اپنے بُرے سلوک کی بناء پر پوری دنیا میں رسوا ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف کرونا (وائرس) سے مقابلے میں ان کی وہ بدانتظامی جس کی اصلی وجہ امریکہ کے حکومتی نظام میں موجود وسیع کرپشن ہے اور جس کے باعث امریکہ میں اس بیماری سے متاثر و جانبحق ہونے والوں کی تعداد دنیا کے تمام ممالک سے کئی گنا بڑھ چکی ہے جبکہ دوسری جانب عوام کے ساتھ ان کی یہ شرمناک بدسلوکی کہ جس کے دوران وہ سرعام جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں اور پھر عذرخواہی بھی نہیں کرتے بلکہ انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں! انہوں نے امریکہ میں رائج نسل پرستی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا قتل ہونے والا وہ سیاہ فام شخص انسان نہیں تھا اور کیا اس کے کوئی حقوق نہیں تھے؟ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی حکومت کے گھناؤنے اقدامات پر امریکی قوم کے جھکے سروں اور ان کے اندر پائے جانے والے شرمندگی کے احساس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تازہ ترین صورتحال کے باعث وہ افراد جن کا مشغلہ ملک کے اندر و باہر امریکی حکومت کی حمایت اور اس کے مذموم اقدامات کو چار چاند لگانا تھا، اب اپنا سر اٹھانے کے قابل نہیں رہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنا خطاب امتِ مسلمہ سمیت ایرانی قوم کی کامیابی اور امام خمینیؒ و شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ارواج مبارکہ کو اولیائے الہی کے ساتھ محشور کئے جانے کی دعا پر ختم کی
اگر "بڑی جنگ" اسرائیل نے شروع کی تو حتما اسکے خاتمے پر ہی تمام ہو گی، سید حسن نصراللہ
لبنان کی اسلامی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے لبنان میں اسرائیلی شکست اور جنوبی لبنان کی آزادی کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ریڈیو النور کو انٹرویو دیتے ہوئے غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کی جانب سے جنگ کا عندیہ دیئے جانے پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی بڑی جنگ کا مطلب، اس رژیم (اسرائیل) کا مکمل خاتمہ ہے۔ سید مقاومت نے لبنان سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے (سال 2000ء) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سال 2000ء والا مزاحمتی فورسز کا حوصلہ تاحال قائم جبکہ غاصب صیہونی رژیم (کی قوت) سال 2000ء سے قبل والی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ حالات بدل جائیں جو غاصب صیہونی رژیم کے وجود میں آنے کے وقت سے موجود ہیں تو کسی بھی جنگ کے بغیر اسرائیل خودبخود ہی ختم ہو جائے گا۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے شام کے حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں شام کے صبر کی بھی ایک حد ہے گو کہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ جنگ چھیڑنا شام کے مفاد میں نہیں تاہم یہ بھی عین ممکن ہے کہ شامی حکام اسرائیلی حملوں کا بھرپور جواب دینے کا فیصلہ کر لیں۔ انہوں نے خطے میں امریکہ کی کھلی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ خطے کے اندر موجود مختلف مسائل میں سخت ناکامی سے دوچار ہوا ہے اور اس وقت خطے میں اپنی فوجی موجودگی پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ عراقی عوام نے امریکی فوج کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنے کا عزم بالجزم کر رکھا ہے جبکہ ایران کے خلاف امریکی جنگ کا امکان "انتہائی بعید" ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر (مبینہ) "بڑی جنگ" اسرائیل نے شروع کی تو یقینا یہ جنگ اس کے خاتمے پر ہی تمام ہو گی جبکہ اسلامی مزاحمتی محاذ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف بہت سے نئے محاذ کھولنے پر بھی غور شروع کر دے گا
ایران اور وینزویلا میں دوستانہ تعلقات اور امریکہ کی پریشانی
تحریر: عباس ہاشمی
امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف شدید قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران اور وینزویلا بھی شامل ہیں۔ امریکہ ان ممالک کو اپنے مفادات کیلئے خطرہ اور دشمن ملک تصور کرتا ہے۔ اس وقت جب پوری دنیا کرونا وائرس سے پیدا شدہ کووڈ 19 وبا کی لپیٹ میں ہے تب بھی امریکہ ان ممالک کے خلاف پابندیوں میں نرمی کرنے پر تیار دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے دباو کا شکار ممالک نے باہمی تعاون اور ایکدوسرے کی مدد کے ذریعے ان غیر منصفانہ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اپنا لی ہے۔ اسی ضمن میں حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران نے پٹرول کے حامل پانچ ٹینکر وینزویلا ارسال کئے ہیں جس پر امریکی حکام نے شدید ردعمل ظاہر کیا لیکن عمل کے میدان میں کچھ نہ کر سکا اور تازہ ترین رپورٹس کے مطابق اب تک دو ٹینکرز وینزویلا کی سمندری حدود میں داخل ہو چکے ہیں۔ وینزویلا کے صدر نکولس مادورو نے ایران کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اسے وینزویلا کے قومی مفادات کیلئے انتہائی اہم قرار دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ وہ امریکہ کو اس کی راہ میں روڑے اٹکانے کی اجازت نہیں دے گا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے 60 ملین گیلن پٹرول کے حامل ٹینکر اٹلانٹک اوشن کے ذریعے بہت جلد وینزویلا پہنچ جائیں گے جس کے نتیجے میں ایران اور وینزویلا کے درمیان دوستانہ تعلقات مزید گہرے ہو جائیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ وینزویلا نے اس کے بدلے ایران کو سونا دیا ہے لیکن ایرانی حکام نے یہ افواہ مسترد کی ہے۔ وینزویلا میں انرجی کا بحران اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ حتی اسپتال بھی متاثر ہو رہے ہیں اور مریضوں کی جان بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اسی طرح وینزویلا کا شعبہ زراعت بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔ امریکہ نے اعلان کر رکھا ہے کہ جو ملک بھی ایران سے خام تیل کی مصنوعات خریدے گا یا ان کی تجارت میں مدد فراہم کرے گا اسے بھی سزا کے طور پر شدید پابندیوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ٹرمپ حکومت مانرو ڈاکٹرائن پر عمل پیرا ہے جس کی رو سے مشرقی ممالک کو جنوبی امریکہ کے ممالک کے ساتھ تجارت کا حق حاصل نہیں ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ وینزویلا کی جانب جانے والی ایرانی ٹینکرز کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرے گا تو جواب میں اس کیلئے بھی مشکلات کھڑی کی جائیں گی۔ دوسری طرف وینزویلا نے بھی ایران کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اپنی سمندری حدود میں ایران کے آئل ٹینکرز کو سکیورٹی فراہم کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے وینزویلا پٹرول برآمد کرنے پر مبنی اقدام ٹرمپ حکومت کیلئے ایک کڑی آْزمائش ہے۔ امریکہ کی مسلح افواج کے وار کالج میں لاطینی امریکہ سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر ایوان ایلس اس بارے میں کہتے ہیں: "مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا ایران ان آئل ٹینکرز کے ذریعے امریکہ کو آزما رہا ہے۔" بہرحال امریکہ کی جانب سے ایران کے ٹینکرز کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ایران اور وینزویلا دونوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری طرف وینزویلا میں امریکہ نواز حکومت مخالف قوتیں یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ایران ممکن ہے پٹرول کے علاوہ بھی دیگر مصنوعات وینزویلا کو برآمد کرنا شروع کر دے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران پٹرول کی تجارت کے بہانے وینزویلا کے شمالی علاقوں میں ایک جاسوسی اڈہ قائم کرنا چاہتا ہے جس کے ذریعے خطے میں انجام پانے والی فضائی اور سمندری نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے گی۔
وینزویلا کے وزیر اطلاعات نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں لکھا: "وینزویلا اور ایران کے درمیان تجارتی تعلقات اور باہمی تعاون گذشتہ بیس سالوں سے جاری ہے۔" ایران کی جانب سے وینزویلا بھیجے گئے ٹینکرز میں سے پہلا ٹینکر ہفتہ 23 مئی کے دن وینزویلا پہنچا تھا۔ یہ ٹینکرز اس سمندری راستے سے آئے ہیں جہاں گذشتہ دس برس کے دوران امریکہ سب سے زیادہ فوجی موجودگی رکھتا ہے۔ پنٹاگون نے منشیات کی روک تھام کے بہانے اس علاقے میں جنگی بحری جہاز، موٹر بوٹس اور بڑے پیمانے پر فوجی اسلحہ تعینات کر رکھا ہے۔ پنٹاگون کے ترجمان جیناتھن ہافمین نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال ایرانی ٹینکرز کو روکنے کیلئے انہیں کسی قسم کا کوئی حکم موصول نہیں ہوا۔ لیکن ٹرمپ حکومت کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے نام فاش نہ ہونے کی شرط پر بتایا تھا کہ واشنگٹن ایران کی جانب سے نکولس مادورو کی حمایت برداشت نہیں کرے گا۔ یاد رہے امریکی حکومت وینزویلا کے اپوزیشن رہنما خوان گوایدو کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ خوان گوایدو نے نکولس مادورو پر الزام لگایا ہے کہ وہ 2018ء کے صدارتی الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے کامیاب ہوئے ہیں۔ امریکہ اب تک خوان گوایدو کی بھرپور مدد کرتا آْیا ہے اور نکولس مادورو کی حکومت کو کمزور کرنے کی بھی سرتوڑ کوششیں انجام دے چکا ہے۔
نسل پرستی کے چنگل میں جان دیتے سیاہ فام شہری
تحریر: علی احمدی
امریکہ میں پولیس کی جانب سے سیاہ فام شہریوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اب تک ان واقعات میں دسیوں سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس قسم کا تازہ ترین واقعہ ریاست منی سوٹا کے شہر میناپولس میں پیش آیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پولیس نے ایک سیاہ فام شہری جارج فلوریڈ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ گرفتاری کے دوران پولیس افسر نے اپنے گھٹنے سے اس کی گردن دبا رکھی تھی۔ جارج فلوریڈ سانس رکنے کی شکایت کرتا رہا لیکن پولیس افسر کے کان پر جوں نہ رینگی اور نتیجتاً یہ سیاہ فام شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ امریکہ اور دنیا بھر میں ہنگامہ اس وقت برپا ہو گیا جب اس واقعے کی دس منٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس افسر نے سیاہ پوست شہری کی گردن دبا رکھی ہے جبکہ دوسرا پولیس افسر اس کے قریب ہی کھڑے ہو کر تماشائی بنا رہا۔ اس افسوسناک واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور اس وقت امریکہ کی دو ریاستیں منی سوٹا اور لوزیانہ شدید عوامی احتجاج اور شدت پسندانہ مظاہروں کی لپیٹ میں ہیں۔
امریکہ جو خود کو جمہوری اقدار کا گہوارہ قرار دیتا ہے اور مغربی تہذیب و تمدن کی جنت تصور کیا جاتا ہے میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں بیگناہ نہتے سیاہ فام شہری کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ حتی موجودہ حالات میں جب امریکہ سمیت پوری دنیا کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی کووڈ 19 وبا کی لپیٹ میں ہے اور شدید بحران صورتحال کا شکار ہے، سیاہ فام شہریوں کے خلاف سفید فام پولیس افسروں اور اہلکاروں کے یہ غیر انسانی اقدامات جاری ہیں۔ اس حالیہ واقعے کے بارے میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان دس منٹس کے دوران سیاہ فام شہری کئی بار پکار پکار کر کہہ رہا ہے: "پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا، مجھے قتل مت کرو۔" اکثر ویب سائٹس نے یہ ویڈیو شائع کرتے وقت یہ وارننگ بھی لگائی ہے کہ ویڈیو دلخراش مناظر کی حامل ہے۔ اسی بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سیاہ فام شہری پر کیا گزری ہو گی۔ بعض افراد کچھ کہے بغیر ان کے قریب سے گزر جاتے ہیں جبکہ بعض پولیس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں: "تم نے تو اسے پکڑ رکھا ہے، کم از کم اسے سانس تو لینے دو۔"
امریکی پولیس کے تشدد آمیز واقعات ہمیشہ تنقید کا باعث بنتے رہتے ہیں لیکن کرونا وائرس کے پھیلاو سے پیش آنے والے بحران کے دوران ان شدت پسندانہ اقدامات پر زیادہ شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کووڈ 19 کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک امریکی تحقیقاتی ادارے ایپی ام کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت سفید فام شہریوں سے 6 یا 7 گنا زیادہ ہے۔ ان اعداد و ارقام سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حتی صحت کے مراکز بھی نسلی بنیادوں پر امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں کووڈ 19 وبا کی زد میں آکر ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہریوں کی تعداد سفید فام شہریوں سے چھ گنا زیادہ ہے جبکہ دیگر دو امریکی ریاستوں یعنی مچیگن اور میسوری میں یہ فرق پانچ گنا ہے۔ اسی طرح امریکی ریاست نیویارک جہاں سے کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا میں سیاہ فام شہریوں کی ہلاکت تین گنا زیادہ ہے۔ ایلی نوئے اور لوئیزیانا میں بھی یہ فرقی تین گنا ہے۔
میناپولس سٹی پولیس کے ترجمان نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سیاہ فام شہری پر جعلی دستاویزات تیار کرنے کا الزام تھا۔ جب پولیس اسے پکڑنے گئی تو اس نے آگے سے مزاحمت کی کوشش کی جس پر پولیس افسر نے اسے دبوچ لیا۔ کچھ دیر بعد پولیس افسر نے اچانک محسوس کیا کہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورتحال ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے پیش نظر واضح ہے کہ امریکی پولیس واقعے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ چند امریکی ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے شدت پسندی کا رخ اختیار کر چکے ہیں۔ میناپولس میں ایک پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔ مظاہرے میں شریک افراد نے ہاتھوں میں ایسے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔ یاد رہے 6 ماہ پہلے بھی امریکی پولیس نے ایک سیاہ فام شہری ایرک گارنر کو اسی انداز میں گلا دبا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اتفاق سے اس واقعے کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں واضح طور پر سنا جا سکتا تھا کہ ایرک گارنر بار بار یہی جملہ دہرا رہا تھا "میں سانس نہیں لے پا رہا"۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّي
دعائے رویت ہلال
ماخوذ ازکتاب "صحیفہ کاملہ سجادیه"
اَیُّہَا الْخَلْقُ الْمَطِیْعُ الدَّائِبُ السَّرِیْعُ الْمُتَرَدِّدُ فِیْ مَنَازِلِ التَّقْدِیْرِ الْمُتَصَرِّفُ فِیْ فَلَکِ التَّدْبِیْرِ اٰمَنْتُ بِمَنْ نَوَّ رَبِّکَ الظُّلَمَ وَ اَوْضَحَبِکَ الْبُہَمَ وَ جَعَلَکَ اٰیَةً مِّنْ اٰیَاتِ مُلْکِہ وَ عَلاَمَةً مِنْ عَلاَمَاتِ سُلْطَانِہ وَامْتَہَنَکَ بِالزِّیَادَةِ وَالنُّقْصَانِ وَ الطُّلُوْعِ وَ الْاُفُوْلِ وَ الْاِنَارَةِ وَ الْکُسُوْفِ فِیْ کُلِّ ذٰلِکَ اَنْتَ لَہ مُطِیْعٌ وَ اِلٰی اِرَادَتِہ سَرِیْعٌ سُیْحَانَہ مَآ اَعْجَبَ مَا دَبَّرَ فِیْ اَمْرِکَ وَ اَلْطَفَ مَا صَنَعَ فِیْ شَانِکَ جَعَلَکَ مِفْتَاحَ شَہْرٍ حَادِثٍ لِاَمْرٍ حَادِثٍ فَاَسْئَلُ اللهَ رَبِّیْ وَ رَبَّکَ وَ خَالِقِیْ وَ خَالِقَکَ وَ مُقَدِّرِیْ وَ مُقَدِّرَکَ وَ مُصَوِّرِیْ وَ مُصَوِّرَکَ اَنْ یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اَنْ یَّجْعَلَکَ ہِلاَلَ بَرَکَةٍ لاَ تَمْحَقُہَا الْاَیَّامُ وَ طَہَارَةٍ لاَ تُدَلِّسُہَا الْاٰثَامِ ہِلاَلَ اَمْنٍ مِنَ الْاٰفَاتِ وَ سَلاَمَةٍ مِّنَ السَّیِّئٰافِ ہِلاَلَ سَعْدٍ لاَ نَحْسٍ فِیْہِ وَ یُمْنٍ لاَ نَکَدَ مَعَہ وَ یُسْرٍ لاَ یُمَازِجُہ عُسْرٍ وَ خَیْرِ لاَ یَشُوْبُہ شَرٌّہِلاَلَ اَمْنٍ وَ اِیْمَانٍ وَ نِعْمَةٍ وَ اِحْسَانٍ وَ سَلاَمَةٍ وَ اِسْلاَمٍ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ وَ اجئعَلْنَا مِنْ اَرْضٰی مَنْ طَلَعَ عَلَیْہِ وَ اضزْکٰی مَنْ نَظَرَ اِلَیْہِ وَ اَسْعَدَ مَنْ تَعَبَّدَ لضکَ فِیْہِ وَ وَفِّقْنَا فِیْہِ لِلتَّوْبَةِ وَاعْصِمْنَا فِیْہِ مِنَ الْحَوْبَةِ وَاحْفَظْنَا مِنْ مُبَاشَرَةِ مَعْصِیَتِکَ وَ اَوْزِعْنَا فِیْہِ شُکْرَ نِعْمَتِکَ وَ اَلْبِسئنَا فِیْہِ جُنَنَ الْعَافِیَةِ وَ اَتْمِمْ عَلَیْنَا بِاسْتِکْمَالِ طَاعَتِکَ فِیْہِ الْمِنَّةِ اِنَّکَ الْمَنَّانُ الْحَمِیْدُ۔ وَ صَلَّی اللهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ اٰلِہ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ۔ دعائے رویت ہلال اے فرما نبردار، سرگرم عمل اورتیرز ومخلوق اور مقررہ منزلوں میں یکے بعد دیگرے واردہونے اورفلک نظم وتدبیر میں تصرف کرنے والے میں اس ذات پر ایمان لایا جس نے تیرے ذریعہ تاریکیوں کو روشن اور ڈھلی چھپی چیزوں کو آشکارا کیا اور تجھے اپنے شاہی وفرمانروائی کی نشانیوں میں ایک نشانی اوراپنے غلبہ واقتدار کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا اور تجھے بڑھنے گھٹنے نکلنے چھپنے او رچمکنے گہنانے سے تسخیر کیا۔ ان تمام حالات میں تو اس کے زیر فرمان اوراس کے ارادہ کی جانب رواں دواں ہے تیرے بارے میں اس کی تدبیر وکارسازی کتنی عجیب اورتیری نسبت اس کی صناعی کتنی لطیف ہے تجھے پیش آیندہ حالات کے لیے نئے مہینہ کی کلید قراردیا، تو اب میں اللہ تعالی سے جو میرا پروردگار اور تیرا پروردگار میر اخالق اور تیرا خالق ۔ میرا نفش آرا اورتیرا نقس آرا ، اور میرا صورت گر اورتیرا صورت گر ہے سوال کرتا ہوں کہ وہ رحمت نازل کرے محمد اوعر ان کی آل پر اورتجھے ایسی برکت والا چاند قرار دے ، جسے دنوں کی گردشیں زائل نہ کر سکیں اور ایسی پاکیزگی والا جسے گناہ کی کثافتیں آلودہ نہ کر سکیں ۔ ایسا چاند جو آفتوں سے بری او ربرائیوں سے محفوظ ہو سر سر یمن وسعادت کا چاند جسے تنگی وعسرت سے کوئی لگاؤ ہو اور ایسی آسانی وکشائش کا جس میں دشواری کی آمیزش نہ ہو اورایسی بھلائی کا جس میں برائی کا شائبہ نہ ہو،غرض سرتاپا امن ایمان ، نعمت ، حسن عمل ، سلامتی اوراطاعت وفرمانبرداری کا چاند ہو۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورجن جن پر اپنا پر تو ڈالے ان سے بڑھ کر ہمیں خوشنود ، اور جو جو اسے دیکھے ان سب سے زیادہ درست کا ر اور جو جو اس مہینہ میں تیری عبادت کرے ان سب سے زیادہ خوش نصیب قرار دے او ر ہمیں اس میں توبہ کی توفیق دے اور گناہوں سے دور اورمعصیت کے ارتکاب سے محفوظ رکھ ۔اور ہمارے دل میں اپنی نعمتوں پر ادائے شکر کا ولولہ پیدا کر اور ہمیں امن وعافیت کی سپر میں ڈھانپ لے او راس طرح ہم پر اپنی نعمت کو تمام کر کہ تیرے فرائض اطاعت کو پورے طور سے انجام دیں ۔ بیشک تو نعمتوں کا بخشنے والا اور قابل ستائش ہے رحمت فراواں نازل کرے اللہ محمد او ران کی پاک وپاکیزہ آل پر ۔ |
رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا پاکستانی ذرائع ابلاغ میں انعکاس
پاکستان سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ نے یہ شہ سرخی لگائی ہے: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت سے لڑنے والے ہر ملک اور گروہ کی مدد کریں گے۔
یوم القدس پر پیغام میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ ریفرنڈم کا حق ملنے تک فلسطینیوں کی سیاسی، فوجی اور ثقافتی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔
سپریم لیڈر کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو جیسوں کو نکالنا اسرائیل کو ختم کرنے کے مترادف ہے جو ہو کر رہے گا، صیہونی حکومت نے ثابت کیا ہے وہ کسی معاہدے اور منطق پرنہیں چلتی۔
روزنامہ ڈان کی شہ سرخی: ایران، اسرائیل کے خلاف لڑائی کرنے والی قوم کا ساتھ دے گا، آیت اللہ خامنہ ای
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ایسی قوم کی حمایت کرے گا جو اسرائیل کی صیہونی حکومت کی مخالفت اور اس کے خلاف لڑائی کرے گی۔
یوم القدس کے موقع پر خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کے لیے سیاسی، فوجی اور ثقافت پر مشتمل جامع جدوجہد جاری رکھیں جب تک غاصب (اسرائیل) فلسطینی قوم کے لیے رائے شماری پر آمادہ نہ ہوجائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ فلسطینی قوم کو طے کرنا چاہیے کہ وہ کون سے سیاسی نظام کے خواہاں ہیں اور پھر مقصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے گائیڈ لائنز بھی پیش کیں جس میں جدوجہد جاری رکھنے اور مغربی طاقتوں کے اوپرانحصار ختم کرنے پر زور دیا گیا۔
سچ ٹیوی ویب سائٹ کی شہ سرخی: مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا اہم اور ناقابل فراموش مسئلہ ہے: آیت اللہ خامنہ ای
عالمی یوم القدس کے موقع پر دنیا بھر کے عوام سےبراہ راست خطاب میں سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین ناقابل فراموش مسئلہ ہے۔ فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی جرائم میں مغربی ممالک برابر کے شریک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک نے اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح کیا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسئلہ فلسطین ایک نئےمرحلے میں داخل ہوگیاہے،امت مسلمہ نے یوم قدس کا شانداراستقبال کرکے فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم لیڈر ایران کا کہنا تھا کہ فلسطین جیسے عظیم اور با عظمت مسئلہ کو مسلمانوں کی عزت اورغیرت فراموش کرنے کی اجازت نہیں دےگی اور مسلمان مسئلہ فلسطین کے بارے میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ آگاہ اور ہوشیار ہیں۔
آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا امریکہ اور خطے میں موجود اس کے اتحادی کتنا بھی پیسہ کیوں نہ خرچ کریں وہ فلسطین کے بارے میں اپنے شوم منصوبوں میں ناکام ہوجائیں گے اوراسرائیلی وائرس کا علاقے کےمؤمن جوانوں کی ہمت سے خاتمہ ہوجائے گا۔
سید علی خامنہ ای کا موقف بھی اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا جائے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تحریک جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے عرب نیوز چینل المیادین کے ساتھ گفتگو کے دوران عالمی یوم فلسطین کو امتِ مسلمہ کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم موڑ قرار دیا ہے۔ جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل نے اپنے انٹرویو میں اس بات پر تاکید کی ہے کہ عالمی یوم فلسطین کے حوالے سے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کی اہمیت خود یوم القدس سے کسی طور کم نہیں۔
جہاد اسلامی فی فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے بیانات کو اہم اور تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی طرف سے عالمی یوم القدس کے اعلان کے ساتھ ساتھ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا موقف بھی اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف کے ساتھ لکھا جائے گا۔ زیاد النخالہ نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے آج کے خطاب کو بھی مزاحمتی محاذ کے لئے انتہائی حوصلہ افزاء اور اطمینان بخش قرار دیا اور کہا کہ ہمارا ہدف قدس کی آزادی ہے جبکہ ہم خدا پر اپنے تمام بھروسے کے ساتھ روز بروز اس کے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے انٹرویو کے آخر میں کہا کہ خطے میں موجود متحدہ مزاحمتی محاذ نے واضح طور پر یہ پیغام دے دیا ہے کہ آج وہ پہلے کسی بھی زمانے سے بڑھ کر طاقتور ہے۔