سلیمانی

سلیمانی


23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد کو برصغیر کے مسلمانوں کی پرجوش حمایت حاصل تھی۔ پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی عوامی تحریک چل رہی تھی۔ ہندو مسلم انگریزوں سے آزادی کے لیے متحد تھے، تاہم مسلمان انگریزوں کے انخلا کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اپنے لیے علیحدہ وطن کے خواہاں تھے۔ اسی آرزو کو 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے عظیم الشان تاریخی جلسے میں ’’قرارداد لاہور‘‘ کی شکل دی گئی۔ پھر سات برس تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک ولولہ انگیز تحریک برپا کی۔ کانگریس اور اس کے حواریوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی، لیکن عوام کی زور دار اور بے تابانہ خواہش کے آگے کون بند باندھ سکتا تھا۔ آخرکار کانگریس اور انگریزوں کو اس کے سامنےجھکنا پڑا اور ہندوستان کے بٹوارے کا فیصلہ ہوگیا۔ ہندوستان: بھارت اور پاکستان دو ریاستوں میں تقسیم ہوگیا۔

ہندوستان انگریزوں سے فوجی طاقت سے آزاد نہیں کروایا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان کانگریس اور انگریزوں کے مقابلے میں لشکر کشی سے حاصل کیا گیا تھا۔ یہ آزادی بھرپور عوامی تحریک کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ عوام کی پرزور حمایت اور ریاست پر اعتماد سے ہی یہ آزادی محفوظ رہ سکتی ہے اور محفوظ رکھی جا سکتی ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش کی صورت اختیار کر لینا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کے قیام میں عالمی سازشوں اور بھارتی ریشہ دوانیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا تھا، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد کو پاکستان سے بدظن کیا جاچکا تھا۔ عوام کی اکثریت کو پاکستان کی ریاست پر اعتماد ہوتا اور وہ اس سے پرجوش طور پر وابستہ ہوتے تو مشرقی پاکستان کو پاکستان سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔

فوجوں کی کامیابی اور ریاستوں کی بقاء و حفاظت کا دار و مدار عوام کی حمایت اور اعتماد پر ہوتا ہے۔ فوج اہم ہوتی ہے، نہایت اہم ہوتی ہے اور ہر ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن فوج کو عوام کی طرف سے حمایت اور اعتماد حاصل نہ ہو تو وہ دشمن کے مقابلے میں معرکہ سر نہیں کرسکتی۔ یہ بات پاکستان کے لیے بھی اتنی ہی سچی ہے، جتنی کسی بھی اور ریاست کے لیے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام اگر اس ریاست سے محبت کرتے ہوں، اس میں ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ ہو، انھیں ترقی کے مناسب مواقع حاصل ہوں، انھیں قانونی مساوات دکھائی دیتی ہو، اچھی حکمرانی میسر ہو اور فوج انھیں اپنی لگتی ہو تو وہ اس ریاست سے والہانہ محبت کیوں نہیں کریں گے۔ وطن کی محبت کے فطری جذبے کو عدل و انصاف کی فطری ضرورت پورا کرکے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ جان، مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مساوی شہری حقوق کا حصول ہر شہری کی فطری آرزو ہے، اس آرزو کی تکمیل وطن سے اس کے رشتے کو پائیدار اور محکم کر دیتی ہے۔

ایک ہی ملک کے اندر علیحدگی کی تحریکیں یا کسی ملک سے وسیع پیمانے پر ہجرتیں وطن سے متعلق جذبوں کے سرد پڑ جانے یا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے کی وجہ سے ظہور میں آتی ہیں۔ خود پاکستان کی تحریک اس کی شاہد ہے۔ مسلمانوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد کے ہندوستان میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا، اسی لیے تحریک پاکستان برپا ہوئی۔ کانگریس کی قیادت کو کئی ایک مواقع ملے، جن میں وہ مسلمانوں کے لیے اپنی خیر خواہی کو ثابت کرسکتی تھی۔ اس کی قیادت نے تنگ نظری، شدت پسندی اور تعصب کے ایسے ایسے مظاہرے کیے کہ مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ متحدہ ہندوستان میں ان کا مستقبل محفوظ نہیں ہوگا۔ آزادی کی خاطر مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دیں، وہ اسی شعور اور احساس کی بدولت تھیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر 22 کروڑ عوام پاکستان کے ساتھ گہری محبت رکھتے ہوں اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں تو دنیا کی کوئی طاقت اس قوم کو غلام بنا سکتی ہے اور نہ اس میں دراڑیں ڈال سکتی ہے۔ پاکستانی عوام کو یہ احساس دلانا ضروری ہے یا دلائے رکھنا ضروری ہے کہ اس ملک کی فوج ان کی ہے، ان کے ارمانوں کی محافظ ہے، اس ملک کے آئین، قانون اور مفادات کی نگہبان ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے عوام کی آرزوئوں کی ترجمان پارلیمان اور حکومت جو فیصلے اس ملک کے مفاد میں کرے، فوج ان کا ساتھ دے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی عوامی نمائندگان اور عوامی حکومت ہی کو طے کرنا چاہیے۔ امریکہ ہو یا چین، بھارت ہو یا ایران، سعودی عرب ہو یا امارات، بحرین ہو یا اردن، اسرائیل ہو یا فلسطین تمام امور میں فیصلے کرنے کا حق اور پالیسی طے کرنے کا حق عوام کا ہے، جسے جائز طریقے سے معرض وجود میں آنے والی پارلیمان ہی بیان کرسکتی ہے۔

یہ تاثر درست نہیں کہ پاکستان ایک کلائنٹ ریاست (Client State) ہے، دوسری ریاستوں یا عالمی طاقتوں کے ایما پر فیصلے کرتی ہے۔ ماضی میں افغانستان کے بارے میں کیے گئے فیصلوں اور امریکی ایما پر جنگی حکمت عملی پر خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بارہا تنقید کرچکے ہیں۔ اپنے عوام کو اعتماد میں نہ لے کر ان امور میں کیے گئے فیصلے ریاست کے استحکام پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ ماضی کے فیصلوں کے برے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ یہی حال عالمی اداروں سے لیے گئے قرضوں کی دلدل کا ہے۔ اس میں سے نکلنے کے لیے ہم ایک پائوں اٹھاتے ہیں تو دوسرا زیادہ دھنس جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی اداروں جنھیں استعماری جال ہی کہنا چاہیے، نے ہمیں الگ جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں پاکستان آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتا ہے۔

جو ریاست آزادانہ فیصلے نہ کرسکے، اسے کس طرح سے اور کس معنی میں آزاد کہا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان کے عوام کو اعتماد میں لے کر ان زنجیروں کو توڑ سکتے ہیں۔ قرض کی زنجیر اور غلط خارجہ پالیسی کی رسی ہے، جس نے ہمیں ایک طرف سے کھینچا تو ہم کوالالمپور کانفرنس میں نہیں جا پائے۔ کیا اسی کو آزاد ریاست کہتے ہیں۔؟ آزادی کا ایک نیا شعور اور ولولہ پیدا کرکے اور ایثار و قربانی کے لیے قوم کو آمادہ کرکے ہم اس غلامی کے بندھن کو توڑ سکتے ہیں۔ عالمی سامراجی جال ہمیں ہمیشہ الجھائے رکھے گا۔ استعماری قرضوں کے بارے میں ہمیں جرات مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔ سود کی ادائیگی کو ترک کرکے اصل زر کی واپسی کا اصول اختیار کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے عوام کو ایثار اور امتحان کے لیے آمادہ کرنا ضروری ہوگا۔

یہ عوام آزادی کے موقع پر جتنی بڑی قربانی دے چکے ہیں، وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہی عوام آج بھی عظیم قوم میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انقلابی جذبے میں تعمیر کی بھی بے پناہ صلاحیت ہوتی ہے۔ 22 کروڑ عوام میں پیدا ہونے والی بیداری دنیا میں نئے معجزات رقم کرسکتی ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے مسائل اس بیداری کی وجہ سے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوامی رضاکار فورس کی شدید ضرورت ہوگی۔ بڑے پیمانے پر عوام کی ابتدائی فوجی تربیت کا اہتمام کرنا پڑے گا، چونکہ حالیہ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ استعماری سازشوں کے مقابلے کے لیے باقاعدہ افواج کو ناگزیر طور پر عوامی رضاکاروں اور انقلابی تربیت یافتہ محافظین وطن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ایک مثالی فلاحی اور مضبوط مملکت بنانے میں ہماری راہنمائی فرمائے۔

تحریر: سید ثاقب اکبر

 شعبان کا مہینا عظمتوں اور برکتوں والا مہینا ہے۔جس میں انسان اگر چاہے تو وہ اپنے چھوٹے اور بڑے گناہوں کی بخشش کروا سکتا ہے۔ لکین شرط یہ ہے کہ انسان اپنے پرودگار کی عبادت کرے اور اپنے گناہوں کی بخشش کی طلب کرے۔ اور جو اعمال اس مہینے میں بتائے گئے ہیں ان اعمالوں کو سرانجام دے۔

شعبان مہینے کی فضیلت روایات کی روشنی میں: 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
رجب خدا کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میرے امت کا مہینہ ہے۔
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:
شعبان میرا مہینہ ہے اور خدا رحم کرے اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے۔ 
امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
شعبان کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مہینہ ہے۔  

شعبان کے مہینے میں روز رکھنے کا ثواب اور اجر:

شعبان وہ عظیم مہینہ ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہے۔ حضور اس مہینے میں روزے رکھتے اور اس مہینے کے روزوں کو ماہ رمضان کے روزوں سے متصل فرماتے تھے۔ اس بارے میں آنحضرت کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے اور جو شخص اس مہینے میں ایک روزہ رکھے تو جنت اس کے لیے واجب ہو جاتی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب ماہ شعبان کا چاند نموردارہوتا تو امام زین العابدین علیہ السلام تمام اصحاب کو جمع کرتے اور فرماتے : اے میرے اصحاب ! جانتے ہو کہ یہ کونسا مہینہ ہے؟ یہ شعبان کا مہینہ ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ شعبان میرا مہینہ ہے۔ پس اپنے نبی کی محبت اور خداکی قربت کے لیے اس مہینے میں روزے رکھو۔ اس خدا کی قسم کہ جس کے قبضہ قدرت میں علی بن الحسین کی جان ہے، میں نے اپنے پدربزرگوار حسین بن علی علیہما السلام سے سنا۔ وہ فرماتے تھے میں اپنے والدگرامی امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا کہ جو شخص محبت رسول اور تقرب خدا کے لیے شعبان میں روزہ رکھے توخدائے تعالیٰ اسے اپنا تقرب عطا کرے گا قیامت کے دن اس کو عزت وحرمت ملے گی اور جنت اس کے لیے واجب ہو جائے گی۔

 

شیخ نے صفوان جمال سے روایت کی ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے قریبی لوگوں کو ماہ شعبان میں روزے رکھنے پر آمادہ کرو! میں نے عرض کیا، اس کی فضیلت کیا ہے؟ فرمایا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ جب شعبان کا چاند دیکھتے تو آپ کے حکم سے ایک منادی یہ ندا کرتا:
” اے اہل مدینہ ! میں رسول خدا کا نمائندہ ہوں اور ان کا فرمان ہے کہ شعبان میرا مہینہ ہے خدا کی رحمت ہو اس پر جو اس مہینے میں میری مدد کرے یعنی روزہ رکھے۔
صفوان کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے جب سے منادی رسول نے یہ ندا دی ہے، اس کے بعد شعبان کا روزہ مجھ سے قضا نہیں ہوا اور جب تک زندگی کا چراغ گل نہیں ہو جاتا یہ روزہ مجھ سے ترک نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ شعبان و رمضان دومہینوں کے روزے توبہ اور بخشش کا موجب ہیں۔

اسماعیل بن عبدالخالق سے روایت ہے کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر تھا جب کہ روزہ شعبان کا ذکر ہوا۔ اس وقت حضرت نے فرمایا: ماہ شعبان کے روزے رکھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

اعمال ماہ شعبان (اعمال مشترک)
1۔ روزہ رکھنا۔
2۔ صلوات بھیجنا۔
3۔ صدقہ دینا۔
4۔ مناجات شعبانیہ کا پڑھنا
5۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ وَ اَسْئَلُهُ التَّوْبَةَ کہنا۔
6۔ روزانہ 70 مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللهَ الَّذى لااِلهَ اِلاّ هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحیمُ الْحَىُّ الْقَیّوُمُ وَ اَتُوبُ اِلَیْهِ کہنا۔
7۔ اس مہینے میں ہزار دفعہ لا اِلهَ اِلا اللهُ وَلا نَعْبُدُ اِلاّ اِیّاهُ مُخْلِصینَ لَهُ الدّینَ وَ لَوُ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ کہنا۔
8۔ اس مہینے کی ہر جمعرات کو دو رکعت نماز پڑھنا جس کی ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد 100 مرتبہ سورہ توحید اور سلام کے بعد 100 مرتبہ صلوات بھیجنا۔
9۔ ظہر کے وقت اور نصف شب، صلوات شعبانیہ کا پڑھنا جو امام سجاد(ع) سے منقول ہے اور وہ یہ ہے:
اَللّهُمََّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ شَجَرَةِ النُّبُوَّةِ وَ مَوْضِعِ الرِّسالَةِ وَ مُخْتَلَفِ الْمَلاَّئِکَةِ وَ مَعْدِنِ الْعِلْمِ وَ اَهْلِ بَیْتِ الْوَحْىِ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ و َآلِ مُحَمَّدٍ الْفُلْکِ الْجارِیَةِ فِى اللُّجَجِ الْغامِرَةِ یَامَنُ مَنْ رَکِبَها وَ یَغْرَقُ مَنْ تَرَکَهَا الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ وَالْمُتَاَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ وَاللاّزِمُ لَهُمْ لاحِقٌ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الْکَهْفِ الْحَصینِ وَ غِیاثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَکینِ وَ مَلْجَاءِ الْهارِبینَ وَ عِصْمَةِ الْمُعْتَصِمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ صَلوةً کَثیرَةً تَکُونُ لَهُمْ رِضاً وَ لِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اَداَّءً وَ قَضاَّءً بِحَوْلٍ مِنْکَ وَ قُوَّةٍ یا رَبَّ الْعالَمینَ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ الطَّیِّبینَ الاْبْرارِ الاْخْیارِ الَّذینَ اَوْجَبْتَ حُقُوقَهُمْ وَ فَرَضْتَ طاعَتَهُمْ وَ وِلایَتَهُمْ. اَللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَاعْمُرْ قَلْبى بِطاعَتِکَ وَلا تُخْزِنى بِمَعْصِیَتِکَ وَارْزُقْنى مُواساةَ مَنْ قَتَّرْتَ عَلَیْهِ مِنْ رِزْقِکَ بِما وَسَّعْتَ عَلَىَّ مِنْ فَضْلِکَ وَ نَشَرْتَ عَلَىَّ مِنْ عَدْلِکَ وَ اَحْیَیْتَنى تَحْتَ ظِلِّکَ وَ هذا شَهْرُ نَبِیِّکَ سَیِّدِ رُسُلِکَ شَعْبانُ الَّذى حَفَفْتَهُ مِنْکَ بِالرَّحْمَةِ وَالرِّضْوانِ الَّذى کانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ آلِه وَ سَلَّمَ یَدْاَبُ فى صِیامِهِ وَ قِیامِهِ فى لَیالیهِ وَ اَیّامِهِ بُخُوعاً لَکَ فى اِکْرامِهِ وَاِعْظامِهِ اِلى مَحَلِّ حِمامِهِ. اَللّهُمَّ فَاَعِنّا عَلَى الاِْسْتِنانِ بِسُنَّتِهِ فیهِ وَ نَیْلِ الشَّفاعَةِ لَدَیْهِ اَللّهُمَّ وَاجْعَلْهُ لى شَفیعاً مُشَفَّعاً وَ طَریقاً اِلَیْکَ مَهیَعاً وَاجْعَلْنى لَهُ مُتَّبِعاً حَتّى اَلْقاکَ یَوْمَ الْقِیمَةِ عَنّى راضِیاً وَ عَنْ ذُنُوبى غاضِیاً قَدْ اَوْجَبْتَ لى مِنْکَ الرَّحْمَةَ وَالرِّضْوانَ وَ اَنْزَلْتَنى دارَ الْقَرارِ وَ مَحَلَّ الاْخْیارِ.

 

آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے کشمیر نیوز بیورو چینل پر ایک شیعہ سنی علمی مباحثے میں پوچھے گئے سوال کہ؛ اگر ایک شیعہ غلطی کرے کیا وہ تمام شیعوں کی غلطی ہوگی ؟ کے جواب میں کہا:جہاں تک شیعہ ہونے کا تعلق ہے وہ امامت کا قائل ہےاور ایک شیعہ کی طرف سے اپنی انفرادی حیثیت سے تشیع کا ترجمان ہونے کی کوئی حیثیت یا سند نہیں رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ ثابت کردے کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ اس کے امام کا قول ہے ۔

آغا سعحب نے آگے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا:اسوقت ہمارا عقیدہ جو ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دور کا امام اللہ کے حکم سے پردہ غیب میں ہیں ، اللہ سبحان و تعالی کے حکم سے ہی ظہور کریں گے اور اس غیبت کے زمانے میں ان کی جگہ ان کے نائبین قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، جسے ہم مرجع تقلید،مجتہد جامع الشرایط  کہتے ہیں اور اسوقت ہمارے مجتہد جامع الشرایط حضرت امام خامنہ ای ہیں، حضرت امام سید سیستانی ہیں،اگر وہ کچھ کہتے ہیں وہ شیعہ کی بات ہے اگر میں کچھ کہتا ہوں ، میں ایک دینی طالبعلم ہوں،شیعہ گھر میں پیدا ہوا ہوں، میری بات شیعہ کی بات نہیں ہے!اگر تشیع کی ترجمانی کی بات کریں گے۔حقیقت امر یہی ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ نگار اور اسلامی مبلغ آغا سعحب نے شیعہ ترجمانی کی وضاحت کرتے ہوئےخود سوال کرتے ہوئے کہ ایسا کیوں ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا:وہ اسلئے کہ اس کی دلیل قرآن میں ہے وہ یوں کہ جب عیسائی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور قرآن پر اعتراض کرنے کے لئے آئے اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑتے ہیں ہم مباہلہ کرتے ہیں،جو کوئی جھوٹا ہو، اس کے بارے میں دعا بد کریں گے کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ قرآن اس بات کی گواہی دے رہا ہے اور تاریخ نے اس حادثے کو نقل کیا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم امت لے کے مباہلے میں حاضر نہیں ہوئے[میں کیوں کہہ رہا ہوں کہ اگر میں کچھ کہتا ہوں میرا تعلق شیعہ گھرانے سے ہے، میں شیعہ طالبعلم ہوں لیکن پھر بھی میں تشیع کا ترجمان نہیں ہوں، مگر یہ کہ میں مستند طور مجتہد جامع الشرایط کے قول کو نقل کر سکوں ، امام کے قول نقل کر سکوں] یہ مباہلے کے میدان کا پیغام ہے مباہلے میں خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتے ہیں، کس کو ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت علی علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسن علیہ السلام کو۔اور کسے ساتھ لے کے نکلتے ہیں ؟ساتھ لے کے نکلتے ہیں حضرت حسین علیہ السلام کو۔ صرف پنجتن پاک میدان مباہلے میں نکلتے ہیں ،  اس کا مطلب کیا ہے ؟اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اسلام پر قہر الہی ٹوٹ پڑنی ہے تو پہلے پنجتن پاک پر گرے پھر جا کے امت پر نوبت آئے گی، اگر اسلام پر رحمت برسنی ہے پہلے پنجتن پاک پر برسے پھر امت پر۔ یعنی لیڈر ایسا ہونا چاہئے کہ بلاوں کا خود سپر بن جائے پھر پیچھے چلنے والوں کی نوبت آنی چاہئے، جب کہ ہم پہلے امت کو آگے دھکیل دیتے ہیں پیچھے سے امامت چمکاتے ہیں۔

آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" نے تشیع کی ترجمانی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: تشیع کے اعتبار سے ترجمانی کرنا ایک پہلو ہے اور شیعہ عوامی رد عمل دوسرا پہلو ہے، جیسا کہ مذکورہ مرتد شخص کے چھوٹے بھائی کا رد عمل سامنے آیا اس نے کہا کہ"وہ اسکا بڑھا بھائی جس نے قرآن میں تحریف کا دعوی کیا قرآن کیا جانے وہ تو نماز بھی نہیں پڑھتا ہے اور قرآن کی توہین کرنے کے پیش نظر اسے ہم نے گھروالوں عزل کردیا ہے ، میں نے بھی عزل کردیا ، میری بہنوں نے بھی عزل کردیا  اور میری ماں نے بھی عزل کردیا ہے اس کے ساتھ اب کوئی رشتہ نہیں رہا ہے"۔ یعنی شیعہ گھرانے نے اسی بات کا اعلان کردیا کہ جسے میں بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسی فکر کہ قرآن میں تحریف کی گئی ہے، قرآن میں سورہ حمد سے لے کر سورہ ناس تک کسی قسم کی تحریف ہوئی ہے،ایسا عقیدہ رکھنے والے کے لئے شیعہ گھر میں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے،وہ مرتد ہے۔ہم ایسے گھرانے کو مرحبا کہتے ہیں کہ جنہوں نے اسطرح دینداری کا مظاہرہ کردیا۔

نیوز نور کے بانی چیف ایڈیٹر آغا سعحب نے لکھنو کے مرتد شخص جس نے ہندوستانی سپریم کورٹ میں قرآن کے تحریف ہونے کا مقدمہ دائر کیا ہے کے منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ؛اب اگر اس مرتد کی بات کریں جو کہ اس کھیل کا حصہ بنا ، وہ کام قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنا دشمن کے منصوبے کا ایک حصہ تھا، ابھی تک اسلام دشمن طاقتوں نے ایک طریقہ کار یہی اپنایا ہوا تھا کہ مسلمانوں کے جذباتوں سے کھیلنا، سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو نشانہ بنانا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان بعض مسائل میں اختلافات رہے ہیں،90 فیصد سے زائد مسائل میں ہمارے سنی شیعہ درمیان اتفاق ملتا ہے اور 10 فیصد سے کم مسائل میں ہمارے درمیان اختلاف ہیں اور وہ اختلافات بھی علمی ہیں ، ہمارے درمیان گالی گلوچ والے اختلاف نہیں ہیں بلکہ ہمارے درمیان علمی اختلاف ہے جیسے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت اصول دین میں شامل ہے جبکہ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ امامت فروع دین میں ہے ۔ کیا یہ بات گالی گلوچ والی بات ہے؟ ۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تشیع کی بات ایسے ہی قواعد و ضوابط کے مطابق ہونی چاہئے۔ اور مذکورہ شخص جو اسلام دشمن طاقتوں کے منصوبوں کے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش میں لگ گیا ہے اس نے بھی اسی 10 فیصد سے کم اختلافی مسائل کی آڈ میں منصوبہ بنایا ہے اور یہ نئی بات نہیں ہے ایسا کھیل پوری تاریخ میں اسلام کے خلاف کھیلا جاتا رہا ہے جس سے سنی شیعہ مسلمان مشتعل ہو جاتے تھے اور آپس میں دست بہ گریباں ہو جاتے تھے اور ایک دوسرے کی توہین کرتے تھے، جس میں جسقدر طاقت ہوتی وہ اسقدر طرف کو کچلتا وغیرہ۔۔۔ الحمدللہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ہے۔ اس بار مسلمانوں نے دکھایا کہ ہم میں سیاسی سوجھ بوجھ بڑ گئی ہے، ہمیں اب دشمن کی سیاست کاری اور منصوبہ بندی سمجھ میں آتی ہے اور اب سنی شیعہ مسلمانوں کے علمی اختلافات کو توہین آمیز اختلاف ثابت نہیں کیا سکتا ہے۔
آغا سعحب سے قرآن کے خلاف عدلیہ میں مقدمہ دائر کرنے سے عدلیہ کا رد عمل کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں کہا کہ؛چونکہ ہندوستانی عدالت عظمی کو قرآن کے بارے میں فیصلہ دینا ہے اسلئےپوچھا جا سکتا ہے کہ قرآن کی اس بات کو کہ؛" میں نےسب کچھ تمہارے لئے پیدا کیا"، " میں نے سب کچھ تمہارے لئے تمہارے تابع کردیا"، کس سے نسبت دے گا ، کیا یہ بات انسان کر سکتا ہے کہ یہ زمین و زمان تمہارے لئے بنایا اور آپ کو اپنے لئے بنایا ہوں۔ سپریم کورٹ اس بارے میں کیا فیصلہ دے گا؟ کیا یہ انسانی کلام ہے یہ تو "میٹا فیزیکس" کو "فیزیکس" میں بیان کیا گیا ہے ۔ہر زمانے میں قرآن اپنے معجزات کو ابھارتا رہا ہے آپ ملاحظہ کریں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ مفتی کرے تو اسے اس میں فقہ نظر آتا ہے ، کمسٹری سائنسداں ترجمہ کرے تو اسے کمسٹری نظر آتی ہے اور فیزیکس کا سائنسداں ترجمہ کرے اسے فیزیکس نظر آتی ہے، آپ ملاحظہ کریں جس مفسر نے بھی جو جس علم کی مہارت رکھتا ہے اسے اسی علم کے لئے علمی خزانے ملتے ہیں،ایسا کس کلام میں اثر ہے کہ 1400 سالوں سے ایک ایک حرف کی تفسیر ہوتی ہے اور نئی نئی باتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ ایسی کتاب کے ساتھ سپریم کورٹ کیا فیصلہ لیتی ہے۔ اس قرآن نے تو 1400 سال پہلے اپنا مقدمہ دائر کررکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت 23 اور 24 کے ذریعہ کہ؛" اگر کسی کو شک ہے کہ قرآن اللہ کی بات نہیں ہے تو اللہ کو چھوڑ کر سب جن اور انسان مل بیٹھ کر ایک آیت لے کے دیکھائيں اگر اپنے دعوے میں سچے ہیں"۔یعنی سپریم کورٹ کو اس چلینج کا جواب دینا ہے، کیا ایسی گھتی کو سپریم کورٹ کے ٹیبل پر رکھی گئی جس سے صرف سپریم کورٹ کا وقت ضایع ہوگا، جس سے سپریم کورٹ کے لئے آئے دن نئے مقدموں کا انبار لگنا شروع ہوگا،نئے نئے مسائل پیدا ہوں گے، سپریم کورٹ کی اینرجی ضایع ہوگی،سپریم کورٹ کی فکر مخدوش ہوگی،سپریم کورٹ کا پٹنشل ضایع ہوگا، اس موضوع کو حل کرنے کے لئے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص نے سپریم کورٹ کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے ! اس وقت ہندوستانی سپریم کورٹ کا اعتبار داو پر لگایا گیا ہےکہ وہ اپنے اعتبار کو کس طرح بچا سکتا ہے۔ کیا انڈین سپریم کورٹ میں یہ ثقت یہ صلاحیت ، یہ توانمندی ہے کہ وہ قرآن کو توڑ سکتا ہے؟ کیا وہ قرآن کو ثابت کرسکتا ہے کہ یہ کسی کی تالیف کردہ کتاب ہے ؟ کیا وہ ثابت کرکے دے سکتا ہے کہ قرآن میں ترمیم کرنے کی گنجائش ہے؟ قرآن کو چلینج کرنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے چلینج کوئی بھی کر سکتا ہے تب جب وہ اس کی صلاحیت رکھتا ہو، کیونکہ اللہ سبحان و تعالی اپنی طرف سے بھی چلینج کرتا ہے کہ آو میدان میں آو اور ثابت کردکھاو ، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے اگر ثابت کر سکتے ہو اور اپنے دعوے کے سچے ہو ۔ چودہ سو سالوں سے کوشش ہوتی رہی ہے ، عربی ادب کے ماہرین کوشش کرتے رہے ہیں۔چونکہ اللہ سبحان و تعالی کی طرف سے آسان نسخہ رکھا گیا ہے کہ اگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلط ثابت کرنا ہے اس کے لئے ایک معمولی سا کام کرنا ہے ایک چھوٹی سی آیت قرآن کے مقابلے میں لے کے آنا ہے ۔دشمنوں نے سوچا یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے اسطرح ایک آیت لانے کیلئے دن رات کوششیں  کرتے رہے لیکن ناکام ہوئے، ایسا نہیں کہ مذکورہ شخص نے کوئی نئی کوشش کی ہے 1400 سالوں سے دن رات کوشش ہوتی رہی ہے کہ ایک آیت بناتے ہیں اور قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت کرتے ہیں، جوکہ نہیں کر سکیں ہیں، جب 1400 سالوں سے کوئی ایک قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہ کر سکا ہے کیا ہندوستانی عدلیہ اب اسے ناکام کر دکھائے گی؟ جبکہ آیندہ 1400 کروڑ سالوں تک بھی کوئی قرآن کے چلینج کو ناکام ثابت نہیں کر سکتا ہے تو جب ایسا کرنا ممکن نہیں ہےتو ایسے میں مذکورہ شخص کو عدالت کا مذاق بنانے کے لئے کتنی سنگین سزا معین ہونی چاہئے جو ہر کسی کے لئے عبرت بن جائے ، جس سے عدالت کا احترام برقرار رہے ، جس عدالت کا اعتبار نہ صرف ہندوستان میں برقرار رہے بلکہ پوری دنیا میں محفوظ رہ سکے۔

اسلامی مبلغ آغا سید عبدالحسین بڈگامی "آغا سعحب" سےموجودہ صورتحال کے پیش نظر مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد بنائے رکھنے کیلئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ کے جواب میں کہا کہ ؛جب تک ہم یہ نہیں سونچیں گے ، یہ سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گےکہ میرے کردار سے ، گفتار سے، رفتار سے کس کو فائدہ ہوگا۔ اگر اسلام کا فائدہ ہو گا؟ تو ٹھیک ہے ، اگر اسلام کے دشمنوں کو ہوگا ؟  تو کیا ٹھیک ہے کیا ٹھیک نہیں ہے یہ سوچنا ہے۔اسلئے ہمیں چاہئے کہ جسطرح میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ جو سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان دس فیصد سے کم اختلافات ہیں وہاں پر ہمیں سرخ لکیر کو پہچاننا ہوگا، شیعہ سنی سے کہے گا کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، سنی شیعہ سے کہے کہ یہ سرخ لکیر ہے اسے پار نہیں کرنا، خطرہ ہے، اگر ہم پہلے اس خطرے کو نا سمجھیں تب تک ہم دشمن کے منصوبوں کا شکار ہوتے رہیں گے ۔ اس حوالے سے میں عراق کی مثال عرض کرتا ہوں عراق میں جب شیعہ سنی فساد کرانے کی کوشش کی گئی تو حضرت آیت اللہ العظمی سید سیستانی نے فرمایا کہ: شیعوں کو چاہئے کہ وہ سنیوں کو اپنا بھائی نہ کہیں بلکہ اپنی جان کہیں،یہی لائن ہے اتحاد کی۔ شیعہ کو یہ نہیں کہنا ہے شیعہ تم سنی ہو جاو،نہیں، شیعہ کو چاہئے سنی کو اپنا بھائی نہیں بلکہ اپنی جان کہے ، یہ سمجھنا ہے ، ان ظرافتوں کو سمجھنا ہے ۔ہم نے نہ ایکدوسرے کے عقائد کو چھیڑنا ہے اور نہ اپنے عقیدے کو چھوڑنا ہے۔یہ سرخ لکیر سمجھ کر ہی ہم اس قابل بن جائيں گے کہ دشمن، جب بھی مسلمانوں کے خلاف منصوبہ تیار کرے گا اس کو شکست فاش حاصل ہو گی، جو ابھی الحمدللہ اس موضوع قرآن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کو لے کر بھی، مسلمانوں نے دکھایا کہ جہاں قرآن کی بات ہوگی اور قرآن پر ہم ایک ہیں، اس پر کوئی اختلاف نہیں ہے معلوم ہوا کہ اگر ہم قرآن کی طرف بڑھ جائيں گے وہاں پر ہم متحد ہیں اگر اس کے فروعات میں جائيں گے وہاں پر اختلاف ہے۔ ہمیں جمع کرنے والا قرآن ہے اس لئے ہمیں قرآن سمجھنے کی ضرورت ہے جب ہم سمجھیں گے تبھی جاکے ہم اس پر عمل کر سکیں گے جب ہم قرآن پر عمل کر سکیں گے تب ہم متحد ہونگے تب ہم صحیح مسلمان ہونگے۔

آغا سعحب نے آخر میں اپنے پیغام میں کہا کہ ؛قرآن خود ہی کہتا ہے کہ اگر آپ کو بلندیوں کو چھونا ہے تو آپ متقی بنیں،اللہ کے نزدیک وہی بلند مرتبہ ہے جس کا تقوی جتنا زیادہ  ہو، تقوی یعنی وہ اپنے آپ کو ہر کام میں اللہ سبحان و تعالی کو حاضر و ناظر جانے،قرآن کہتا ہے کہ کیا نہیں سمجھتے ہو کہ اللہ تمہے دیکھ رہا ہے، اس پر یقین حاصل ہو جائے اور جب مسلمان ایسا مسلمان بنا تو پھر وہ قرآن سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، قرآن نے فرمایا ہے کہ ؛ یہ کتاب ہدایت کا نسخہ ہے ۔ کن کے لئے ؟ متقین کے لئے۔اگر ہمیں متقین بننا ہے ، یعنی افضل انسان بننا ہے اور جسے قرآن کہتا ہے درمیانی امت ، ہم مسلمانوں کو انسانیت کا میزان بننا ہےیہ تبھی ممکن ہے جب ہم قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں گے۔

Sunday, 21 March 2021 19:58

ملیشیا کی کرسٹل مسجد

ملیشیا کی کرسٹل (شیشہ ) کی بنی مسجد ، دنیا کی خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس کا ہر حصہ کریسٹل یعنی شیشہ سے بنا ہوا ہے ، یہ مسجد ماڈرن ٹیکنولوجی سے بنی ہوئی ہے۔

میزان زین العابدین ” جو ۲۰۰۶ میں ترنگانو ، ریاست کا بادشاہ تھا اس نے یہ مسجد بنانے کا حکم دیا ، کرسٹل مسجد بنانے کا آغاز ۲۰۰۶ میں ہوا اور فروری ۲۰۰۸ میں اس کا افتتاح کیا گیا۔

یہ مسجد خالص کرسٹل سے بنی ہوئی ہے ، جو جنوب مشرقی ایشیاء میں جکارتا کی “استقلال جامع مسجد”  کے بعد  دوسری بڑی مسجد ہے اور  ملیشیاء کی  خوبصورت مسجدوں میں شمار کی جاتی ہے۔
 

یہ مسجد ریاست تیرینگانو  کے تین ھزار آبادی والے  شھرکوالا تیرینگانو میں پوتراجیا کی  مصنوعی جھیل کے کنارے “وان من” اسلامی ثقافتی باغ میں واقع ہے۔
 

کرسٹل مسجد کی اندرونی معماری بے نظیر ہے اور اس میں پچیس ھزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں یہ مسجد ریاست ترنگانو میں سیاحوں کے لئے دلکش  جگہ شمار ہوتی ہے۔

اس مسجد کی شیشہ والی دیواروں نے اس کی ظرافت اور شفافیت کو دوبالا کیا ہے۔ اگر چہ ہلکے مواد جیسے شیشہ کے استعمال نے اس کو ناپایدار اور قابل شکست  جیسا بنایا ہے لیکن اس کا اندرونی ڈیزائن بہت مضبوط اور طاقتور ہے۔
 

کرسٹل مسجد اپنے اطراف کے  ماحول، باغ، پانی کے فواروں کے ساتھ بہترین طریقے سے بنائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ھم آھنگ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے شمسی سال کے آغاز میں اپنے خطاب میں پیداوار کے شعبہ میں رکاٹوں اور موانع کو برطرف کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر عوام میں خریدنے کی قدرت بڑھ جائے تو اس سے پیداوار میں مدد مل سکتی ہے۔ رہبر معظم ہر سال نئے سال کے آغاز میںم شہد مقدس کا سفر کرتے تھے اور حرم رضوی میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے خطاب کرتے تھے لیکن کورونا وائرس اور طبی دستورات کی رعایت کی وجہ سے گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی یہ سفر انجام پذير نہیں ہوسکا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن عوام سے ٹی وی چینلوں پر براہ راست خطاب میں نئے سال کے شعار کو بھی پیداوار کا شعار قراردیتے ہوئےفرمایا: نئے سال میں پیداوار ساتھ  پشتپناہی اور موانع کو برطرف کرنے پر زوردیا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پیداوار سے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے مواقع ملیں گے بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف امریکہ کے اقتصادی محاصرے کو اقتصادی دہشت گردی اور ظالمانہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: طبی اور غذائی اشیاء پر پابندی سنگين جرم ہے ، امریکہ دنیا میں سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔  ہم نے امریکہ کی پابدنیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے لیکن بعض ممالک میں ایسا کرنے کی قدرت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی اقتصادی پابندیوں کے فوائد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ایران نے امریکی پابندیوں کو فرصت میں تبدیل کردیا ہے اور ایران بہت سے شعبوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا  ہے ہمارے جوانوں نے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے ہم بہت سے شعبوں میں غیر ملکی محصولات کی درآمد کے سلسلے میں بے نیاز ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی انتخابات کو اہمیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: صدارتی انتخابات کے بیرونی اور اندرونی اثرات ہیں داخلی سطح پر تازہ نفس کابینہ کی تشکیل اہمیت کی حامل ہے جبکہ بیرونی سطح پر بھی قوہ مجریہ قومی اقتدار کا مظہر ہے۔ امریکہ ، اسرائیل اور ان سے وابستہ خفیہ ایجنسیوں نے ایران کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کا سلسلہ ابھی سے سوشل میڈیا پر شروع کردیا ہے جبکہ ہمیں بھی سوشل میڈيا پر دشمن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں آگے بڑھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوگئی، ایران کو کمزور کرنے کے لئے یہ پالیسی امریکہ کے سابق احمق صدر نے وضع کی تھی ۔ اس نے امریکہ کو بھی عالمی سطح پر رسوا کیا اور خود بھی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگیا جبکہ ایران آج بھی استقامت کے ساتھ کھڑا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں جلد بازی اور عجلت سے کام لیا ، ہم نے عملی اقدامات انجام دیئے جبکہ امریکہ اور یورپ کے وعدے صرف کاغذ تک محدود رہے ۔ ہم نے اپنے وعدوں پر عمل کیا اور انھوں نے اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ۔

ایران کے ساتھ امریکہ کی رفتار غلطی اور اشتباہ پر مبنی ہے امریکہ خطے کے مسائل میں بھی غلط راستے پر گامزن ہے ، امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی حمایت، امریکہ کی شام میں فوجی موجودگی ، یمن پر مسلط کردہ جنگ میں  امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کی حمایت بھی امریکہ کے غلط اور اشتباہی اقدامات کا حصہ ہے۔ امریکہ کو علاقائی اور عالمی سطح پر شکست سے دوچار ہونا پڑے گا اور ایران قدرت اور طاقت کے ساتھ اپنے اعلی اہداف کی سمت رواں دواں رہےگا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عید نوروز ایران اور اس کے ہمسایہ ممالک افغانستان، آذربائیجان،تاجیکستان، ازبکستان افغانستان، پاکستان ، کشمیر اور ہندوستان میں قومی جوش و ولولہ کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایران کا نیا سال عید نوروز سے شروع ہوتا ہے۔ نوروز ایران کا اہم قومی تہوار ہے۔

. نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔ اس موقع پر لوگ نئی چیزیں خریدنے کا بھی شوق رکھتےہیں ۔عید نوروز فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں تک  فارسی زبان کے اثرات ہیں وہاں وہاں نوروز کا جشن منایا جاتا ہے ۔  اسلامی تاریخ کے لحاظ سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا، درختوں پر شگوفے چٹخنے لگے،حضرت آدم علیہ السلام زمین پراترے، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پراتری اور طوفان نوح ختم ہوا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا اور نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی " صلی علیہ وآلہ وسلم " پر وحی کے نزول کا آغاز ہوا۔حضرت علی (ع) کو ولایت کے منصب پر نصب کیا گیا
ایران سمیت بہت سارے ممالک میں نوروز کو سرکاری طور پر منایا جاتاہے ،افعانستان،البانیا، آذربائیجان، جارجیا، کوسوو، قرقیزستان، ازبکستان ،عراق، قزاقستان، تاجیکستان، ترکمانستان، عراقی کردستان وغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے-
نوروز کے موقع پر مختلف دعائیہ اور سماجی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مخصوص پکوان تیار کیے جاتے ہیں، ایران میں یہ تہوار 13 دن تک منایا جاتا ہے جبکہ افغانستان میں نوروز کی تقریبات کے آغازکا سرکاری اعلان مزارشریف سے کیا جاتا ہے۔
وسط ایشیائی ممالک میں بھی نوروز کو تہوار کی طرح منایا جاتا ہے جبکہ پاکستان، کشمیر اور بھارت کے کچھ علاقوں میں نوروز کے دن خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غسل اور پاک و صاف لباس پہنا جاتا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور چترال میں جشن نوروز ثقافتی اور مذہبی عقیدت واحترام سے منایا جا تا ہے.
ہندوستان میں مغلوں کے دور حکومت میں نوروزکا تہوار سرکاری طورپر منایا جاتا تھا نامور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں چونکہ عرب کے تہوار ثقافتی طورپر اتنے رنگین اوردلکش نہیں تھےجبکہ ایران کے مسلمان بادشاہ اپنی روایات کو بطورورثہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کو جاری رکھا اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز کا تہوار بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا تھا۔

 اسرائیل میں عام انتخابات سے تین روز پہلے ہزاروں افراد نے وزیر اعظم نتن یاہو کے گھر کے سامنے مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے اسرئیلی وزیراعظم نتن یاہو سے استعفے کا مطالبہ کیا۔ واضح  رہے کہ اسرائیل میں تین روز بعد ہونے والے انتخابات دو سال کے اندر ہونے والے چوتھے انتخابات ہونگے، اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ جاری ہے۔

عید نوروز اور نئے  ایرانی شمسی سال کی مناسبت سے حضرت امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کے حرم مطہر کے تمام صحنوں میں قالینیں بچھائی گئیں اور پورا حرم عود، عنبراور گلاب کی خوشبو سے مہکا ہوا تھا،  تحویل سال( نئے سال  کے آغاز ) کے وقت نماز،دعا و قرآن خوانی میں شرکت کے لئے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔

عید نوروز کے اس خصوصی پروگرام کو اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام ٹی وی چینلوں پر براہ راست نشر کیا گيا ۔
اس پروگرام کے انعقاد کے وقت حرم مطہر کے تیس ہزاراعزازی خدام  پروگرام کو منظم کرنے،ماسک کی تقسیم،سینیٹائزر لگانے اور زائرین کوحفظان صحت سے متعلق نکات پرعمل کرنے کا مشورہ دینے میں مصروف رہے۔

آستان قدس  رضوی کے متولی حجت الاسلام احمد مروی نے جشن عید نوروز کے  پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہر سال دسیوں لاکھ زائرین کی  کوشش ہوتی ہے کہ خوشی و مسرت سے بھرپور ان لمحات کو حرم امام علی رضا علیہ السلام میں گزاریں لیکن کورونا کی وجہ سے گذشتہ سال بھی اور اس سال بھی ہم حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین و مہمانوں کی اس طرح پذیرائي نہ کرسکے جیسا کہ کورونا سے پہلے کے برسوں میں کیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ انشاء اللہ مومنین عید نوروز کے اس پر مسرت موقع پر اپنی توانائی کے مطابق غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد کریں گے تاکہ ہماری یہ عید نوروز حقیقی معنوں میں انسان دوستی، آپسی محبت و بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی و بھلائی کی مظہر ہو۔

حرم مطہر رضوی کے سربراہ اعلیٰ جناب محمد مہدی برادران نے اس بات پر تاکید فرماتے ہوئے کہ زائرین و مجاورین کی صحت و سلامتی کی حفاظت امام رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کی اولین ترجیح ہے ؛ کہا کہ جیسا کہ آستان قدس رضوی کے متولی نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ عید نوروز میں حفظان صحت کے نکات پرسختی سے  نگرانی کی جائے گی  اور صحت سے متعلق  نکات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا تا کہ زائرین بغیرکسی پریشانی کے امام علی رضا علیہ السلام کے حرم مطہر کی زیارت سے شرفیاب ہو سکیں۔
 

سنہ 1400 ہجری شمسی کے آغاز کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛

بسم اللّه الرّحمن الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّدٍ و آله الطّاهرین

یا مقلّب القلوب و الأبصار. یا مدبّراللّیل و النّهار. یامحوّل الحول و الاحوال. حوِّل حالنا إلی أحسنِ الحال

اپنے سبھی عزیز ہم وطنوں بالخصوص شہیدوں اور اپنے اعضائے بدن کی قربانی دینے والے  جانبازوں کے لواحقین اور خود  جسمانی معذوری سے دوچار جانبازوں اور (مسلط کردہ جنگ میں حصہ لینے والے) سبھی فداکارسپاہیوں کو اور ان سب اقوام کو جو عید نوروز مناتی ہیں، عید نوروز اور نئے سال کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس سال ہماری یہ عید (نوروز) شعبان کی عیدوں کے مبارک موقع پرآئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ مناسبت، ہمارے نئے  سال کے لئے مادی اور روحانی دونوں لحاظ سے، ان شاء اللہ بے شمار برکتوں کا باعث بنے گی ۔ سن 1400 (ہجری شمسی) اس لحاظ سے بہت متبرک ہے کہ اس میں  نیمہ شعبان دو بار آئے گی اور ہمارے عوام حضرت  ولی اللہ الاعظم یعنی امام مہدی (ارواحنا فداہ) کے یوم ولادت باسعات کا جشن دو بار منائیں گے۔

تیرہ سو ننانوے کے حوادث ، کورونا اور عوام کی زندگی پر اس کے اثرات

سن 1399 (ہجری شمسی) گوناگوں اور بعض ایسے حوادث کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا ہے جو بے نظیر ہیں۔ انہی حوادث میں سے ایک جو واقعی ہماری قوم کے لئے بالکل نیا ہے، کورونا کی وبا  ہے، جس نے پوی قوم کی زندگی کو متاثر کیا ہے، لوگوں کا کام کاج، پڑھائی کا ماحول، دینی اجتماعات، مسافرتوں، کھیل کود اور ملک کے گوناگوں دیگر امور کو متاثر کیا اور ملک میں روزگار کو سخت نقصان پہنچایا۔ لیکن سب سے
زیادہ تکلیف دہ ہمارے دسیوں ہزارعزیز شہریوں کا موت سے ہم آغوش ہو جانا ہے جس نے دسیوں ہزار کنبوں کو غمزدہ اور سوگوار کر دیا۔ میں ان تمام عزیز خاندانوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان کے غم میں شریک ہوں۔ خداوند عالم انہیں صبر و اجر عطا فرمائے اور مرحومین کی مغفرت  کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے۔

کورونا اور دشمنوں کے حداکثر دباؤ کے مقابلے میں ایرانی قوم کی توانائیاں

1399 (ہجری شمسی) ایک لحاظ سے قوم کی توانائیوں کے اجاگر ہونے کا سال تھا۔ اسی بڑے امتحان یعنی اسی کورونا کی وبا میں واقعی ہماری عزیز قوم، علاج و معالجے اور حفظان صحت کے مراکز سے لے کر، محققین اور سائنسدانوں تک، عوام کی ایک ایک فرد سے لے کر، جہادی تنظیموں اور رفاہی خدمات کے گروہوں تک، سبھی نے اس ناگوار حادثے کو کنٹرول کرنے میں، اپنی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو ثابت کر دیا اور وہ بھی پابندیوں کے زمانے میں،  دشمن کے حد اکثر دباؤ کی حالت میں۔ پابندیوں کے باوجود، ملک سے باہر کے وسائل سے استفادے کی سبھی راہوں کے بند ہونے کے باوجود ہماری قوم نے، ہمارے سائنسدانوں نے، ہمارے ڈاکٹروں اور نرسوں نے،  طبی مددگاروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے، تجربے گاہوں اور ایکسرے کے مراکز میں کام کرنے والے افراد نے اور ان سبھی لوگوں نے جو علاج معالجے کے شعبے سے وابستہ ہیں، واقعی بڑے  تجربات کئے اور عظیم توانائیوں کا ثبوت دیا۔ اسی طرح ایرانی قوم نے بھی دشمن کے حد اکثر دباؤ کے مقابلے میں اپنی توانائیوں کو ثابت کر دیا۔

ہمارے دشمن جن میں سب سے آگے امریکا ہے، اپنے حد اکثر دباؤ سے ہماری قوم کو جھکا دینا چاہتے تھے۔ آج وہ خود اور ان کے یورپی دوست کہتے ہیں کہ حد اکثر دباؤ ناکام ہو گیا۔ ہم تو جانتے ہی تھے کہ ناکام ہوگا اور ہم دشمن کو شکست دینے کے لئے پرعزم بھی تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ایرانی قوم استقامت دکھائے گی۔ لیکن آج وہ خود بھی اعتراف کر رہے ہیں  کہ یہ حد اکثر دباؤ ناکام ہو گیا۔

تیز رفتار پیداوار کا سلوگن توقع کے مطابق نہیں لیکن قابل قبول حدتک پورا ہوا

سن ننانوے (1399 ہجری شمسی) کا سلوگن "پیداوار میں تیزرفتار پیشرفت" تھا۔ میں اگر ان متعدد عوامی اور حکومتی اور مختلف مراکز اور اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر جو مختلف ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہیں، جائزہ لینا چاہوں تو کہوں گا کہ یہ سلوگن، ایک حد تک، کسی حدتک، قابل قبول حد تک پورا ہوا۔ یعنی مختلف میدانوں اور مختلف مسائل سے متعلق شعبوں میں پیداوار میں واقعی اچھال آیا ہے۔ اگرچہ اتنا  نہیں رہا جتنی توقع تھی۔ یعنی جن جگہوں پر یہ سلوگن پورا ہوا، جو زیادہ تر بنیادی  اور تعمیری امور میں تھا، اس کا نتیجہ، ملک کے عام اقتصادی حالات اور عوام کی معیشت میں نظر نہیں آیا۔ یعنی یہ رفتار محسوس نہیں ہوئی۔ جبکہ ہمیں یہ توقع تھی کہ پیداوار میں اچھال عوام کی حالت میں بہتری لائے گا۔ البتہ پیداوار میں اچھال کا سلوگن حقیقی معنوں میں ایک انقلابی اور بہت اہم سلوگن ہے۔ اگر واقعی ملک میں پیداوار میں اچھال آ جائے اور ان شاء اللہ آئے گا، تو ملک کے اقتصاد پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب کرے گا، ملک کی کرنسی کی قدر بڑھے گی اور دیگر اہم اقتصادی مسائل میں اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے علاوہ  قومی خود اعتمادی بھی آئے گی، عوامی رضا مندی بھی پیدا ہوگی اور قومی سلامتی کی ضمانت بھی ہو جائے گی ۔ یعنی اگر ملک میں پیداوارمیں اچھال ہو، ان شاء اللہ یہ ہو جائے اور امید ہے کہ یہ ہوگا، تو اس کے نتائج اور فائدے بہت عظیم ہوں گے۔

پیداوار میں تیز رفتار ترقی کا سلوگن پورا نہ ہونے کے  عوام ، رکاوٹیں پیداوار کی عدم حمایت

اب دیکھنا یہ ہے کہ 1399 (ہجری شمسی) میں یہ اچھال کیوں نہیں آیا؟ اس لئے کہ ایک طرف تو رکاوٹیں تھیں اور دوسری طرف سبھی شعبوں میں پیداوار کو حمایت اور سپورٹ نہیں ملی۔ یعنی پیداوار کو سبھی لازمی قانونی اور حکومتی حمایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ پیداوار کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اب مثال کے طور پر فرض کریں، کوئی ادھوری فیکٹری، ایسا کارخانہ جس میں گنجائش کا صرف تیس چالیس فیصد کام ہو رہا ہے یا بالکل بند ہو گیا ہے۔ چند نوجوانوں کی ہمت سے یہ کارخانہ چلایا جاتا ہے، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، ہمت بندھائی جاتی ہے اور کارخانہ چلنے لگتا ہے۔ جب پیداوار شروع ہوتی ہے تو اچانک نظر آتا ہے کہ اس کی جیسی مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کی جا رہی ہیں۔ خیانتکار اسمگلروں کے ذریعے یہ مصنوعات ملک میں لائی جاتی ہیں یا قانون میں پائی جانے والی  کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکے قانونی راستے سے درآمد کی جاتی ہیں ۔ تو ظاہر ہے کہ اس پیداوار کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی۔ یہ پیداوار کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یعنی جو کام کیا گیا اس میں ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔ اسی طرح حوصلہ افزائی اور حمایت کا نہ ہونا بھی ایک مشکل ہے۔ مثال کے طور پر سرمایہ کاری کے لئے حوصلہ افزائی کا فقدان۔ پیداواری کاموں میں سرمایہ کاری کے لئے ترغیبی پیکیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کر سکتے ہوں ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ضروری ہے کہ ملک میں کاروبارکے حالات ایسے ہوں کہ انہیں حوصلہ ملے کہ وہ یہ کام کریں۔ یا ان کے لئے پیداوار کے اخراجات نہ بڑھیں۔ لیکن افسوس کہ یہ امور انجام نہیں پائے۔ یعنی ضروری تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ نہ حوصلہ افزائی ہوئی اور نہ ہی پیداواری اخراجات کے بارے میں سوچا گیا۔ ایسے ہی کسی سال میں، شاید وہ 1399 نہیں تھا، اس سے پہلے کا، شاید 1398 کا سال تھا، پیداوار کے اخراجات فروخت کی  قیمت سے زیادہ تھے۔ یہ باتیں پیداوار کی پیشرفت میں رکاوٹ ہیں۔ ہم نے 1399 میں ایک طرح سے ملک میں یہ تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم نے ایک معین اور محدود پیمانے پر پیداوار میں اچھال کا خیر مقدم کیا۔ اس کو جاری رہنا چاہئے۔

ملکی مسائل کو طویل المیعاد نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت

سن 1400 (ہجری شمسی) جو اس نئے سال کی آمد سے شروع ہو رہا ہے، درحقیقت ایک لحاظ سے نئی صدی  کا آغاز ہے۔ درحقیقت ںئی صدی شروع ہو رہی ہے۔ بنابریں ملک کے مسائل کو طویل المیعاد  نقطہ نگاہ  سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کا دراز مدتی نگاہ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

چودہ سو ہجری شمسی سال کی اہمیت ، پیداوار میں اچھال اور تیز رفتار ترقی جاری رہنے کی ضرورت

 سن 1400 بہت ہی اہم اور حساس سال ہے۔ ان انتخابات کی وجہ سے بھی جو اوائل سال میں درپیش ہیں، سن 1400 کے (تیسرے مہینے) خرداد ماہ (مئی جون) میں اہم انتخابات ہوں گے۔ یہ انتخابات ملک کے حالات و واقعات اور مستقبل پر بہت زیادہ اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔  ںئی انتظامیہ اقتدار میں آئے گی۔ ان شاء اللہ تازہ دم اور گوناگوں جذبات کے ساتھ ملک میں نئی حکومت اجرائی امور کا انتظام سنبھالے گی۔ بنابریں ایک لحاظ سے اس سال کے انتخابات بہت حساس اور اہم ہیں۔ میں ان شاء اللہ انتخابات کے بارے میں بعد میں تقریر میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس گفتگو میں اتنے پر ہی اکتفا کروں گا۔ اس لحاظ سے کہ سن 1399 میں پیداوار میں ایک تحرک پیدا ہوا، پیداواری اچھال نے تحرک پیدا کیا-

چودہ سوہجری شمسی کا سلوگن ، پیداوار، اوررکاوٹوں کا ازالہ

 سن 1400 میں پیداواری اچھال کے اجاگر ہونے کے اچھے امکانات ہیں۔ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مشن کو سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہئے۔ پیداواری اچھال کی بھرپور قانونی حکومتی اور سرکاری پشت پناہی کی جائے۔  موجودہ حکومت بھی جب تک اقتدار میں ہے اور آئندہ حکومت بھی اپنی تشکیل کی ابتدا سے ہی پوری کوشش کرے کہ اس راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرے اور ضروری حمایت کرے تاکہ ان شاء اللہ حقیقی معنی میں پیداواری اچھال آئے۔ لہذا میں نے اس سال کا سلوگن "پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ" قرار دیا ہے۔ یعنی سلوگن پیداوار، حمایت اور رکاوٹوں کا ازالہ ہے۔ ہم پیداوار کو محور قرار دیں، ضروری حمایت کریں اور پیداوار کے راستے سے رکاوٹیں دور کریں۔

امید ہے کہ ان شاء اللہ  خدا کے لطف و کرم سے  یہ سلوگن پورا ہوگا۔   ان شاء اللہ میں بعد کی تقریر میں ،  اس بارے میں اور اسی طرح انتخابات کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

امید ہے کہ ہمارے عظیم امام کی روح پاک اور ہمارے عظیم الشان شہیدوں کی ارواح ہم سے راضی ہوں گی اور یہ سال ایرانی قوم کے لئے مبارک سال ہوگا اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ ایرانی قوم، حکام اور عوام کے لئے دعا کریں گے،  آپ کا فضل و کرم اس قوم کے شامل حال ہوگا اور جس طرح ماضی میں اس قوم پر آپ کی عنایت اور لطف و کرم رہا ہے، ان شاء اللہ اسی طرح جاری رہے گا۔

و السلام علیکم رحمت اللہ برکاتہ
 
 
 

امام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزندرسول (ص)تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونالازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرابھلاکہا، آپ نے فرمایابھائی میں نے توتیراکچھ نہیں بگاڑا،اگرکوئی حاجت رکھتاہے توبتاتاکہ میں پوری کروں ،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا
(مطالب السؤل ص 267) ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا، حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“میں جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں
(صواعق محرقہ ص 120)

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نےایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے
(نورالابصار ص 127 ۔ 126) ۔

علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہاتھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواۃ الحیوان جلد 1 ص 121) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایاافسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص 304) ۔ جب کوئی سائل آپ کے پاس آتاتھا توخوش ومسرورہوجاتے تھے اورفرماتے تھے خداتیرابھلاکرے کہ تومیرازاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص 263) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔

امام زین العابدین (ع) اورفقراء مدینہ کی کفالت

علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سوگھروں کی کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان کے گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص 265 ،نورالابصار ص 126) ۔

امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجودہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔ اسے علماء اسلام نے زبورآل محمداورانجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودۃ ص 499 ،فہرست کتب خانہ طہران ص 36) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں ان میں ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔

امام زین العابدین عمربن عبدالعزیزکی نگاہ میں

86 ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعداس کابیٹاولید بن عبدالملک خلیفہ بنایاگیایہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہدظلمت میں عمربن عبدالعزیزجوکہ ولیدکاچچازادبھائی تھا حجازکاگورنرہوایہ بڑامنصف مزاج اورفیاض تھا ،اسی کے عہدگورنری کاایک واقعہ یہ ہے کہ 87 ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیداہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد 1 ص 386) ۔ اسی نے فدک واپس کیاتھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بندکرائی تھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ 25 محرم الحرام 95 ھ مطابق 714 کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص128 ،صواعق محرقہ ص 120 ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص 444 ، مناقب جلد 4 ص 131) ۔ ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص 179 ، شہادت کے وقت آپ کی عمر57 سال کی تھی