سلیمانی

سلیمانی

سپاہ اسلام کے عظيم الشان کمانڈر شہید میجر جنرل سلیمانی نے اپنے وصیت نامہ میں توحید، رسالت اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کی شہادت اورگواہی دیتے ہوئے امت مسلمہ کو خیمہ ولایت سے منسلک رہنے اور باہمی اتحاد اور یکجہتی برقرار رکھنے کی وصیت اور سفارش کی ہے۔

شہید قاسم سلیمانی نے اپنے وصیت نامہ میں اصول دین کی شہادت دیتے ہوئے کہا:

بسم الله الرحمن الرحیم

میں اصول دین کی شہادت اور گواہی دیتا ہوں کہ:

اشهد أن لا اله الّا الله و اشهد أنّ محمداً رسول الله و اشهد أنّ امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب و اولاده المعصومین اثنی عشر ائمتنا و معصومیننا حجج الله.میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق ہے، قرآن حق ہے۔ بہشت اور جہنم حق ہےسوال و جواب حق ہے ، معاد ، عدل ، امامت اور نبوت حق ہیں۔

اے اللہ تعالی میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ تونے مجھے ایک صلب سے دوسری صلب میں منتقل کرتے ہوئے ایک ایسے دور میں وجود عطا کیا جو تیرے عبد صالح خمینی کبیر (رہ) کا دور تھا اور مجھے اس کی سربازی کا شرف عطا کیا ، اگرچہ میں نے تیرے رسول اعظم (ص)  کے صحابہ کا دورہ نہیں دیکھا ، میں نے حضرت علی (رہ) اور ان کے مظلوم فرزندوں کے دور کو درک نہیں کیا لیکن تو نے مجھے ان کے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کی اورمجھے تیرے اور تیرے خاص بندوں کے راستے پر گامزن رہنے کا شرف ملا۔ خدا وندا میں تیری اس عظیم نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تو نے مجھے اپنے عبد صالح خمینی کبیر (رہ) کے بعد دوسرے عبد صالح  اور اس دور کے حکیم امت خامنہ ای عزیز کے پیچھے چلنے کی سعادت عطا کی ، میری جان بھی اس پر قربان ہو۔

اے اللہ میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے صالح والدین کا سایہ عطاکیا ، جو اہلبیت (ع) کے راستے پر گامزن تھے۔ پروردگارا ! میرا ہاتھ خالی ہے ، میں خالی ہاتھ تیر بارگاہ میں حاضر ہورہا ہوں۔ مجھے اپنی بارگاہ ميں قبول فرما، مجھے بخش دے ، میں ترے عفو و کرم کا امیدوار ہوں۔ اے اللہ میرے بدن کے تمام اعضاء و جوارح تیری رحمت اور بخشش کے امیداور ہیں۔

شہید قاسم سلیمانی کا اپنے مجاہد بھائیوں اور بہنوں کے نام پیغام:

اے میرے سر فروش بھائیو اور بہنو! اے عشق کے بازار میں اپنی جانوں کا سودا کرنے والے مجاہدو! آپ اس بات پر ضرور توجہ دیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اسلام اور تشیّع کا مرکز اور خمیہ ہے۔ آج حضرت امام حسین علیہ السلام کا ہیڈکوارٹر ایران ہے۔اسلامی جمہوریہ ایران حرم ہے اگر یہ حرم باقی رہا تو دوسرے حرم بھی باقی رہیں گے، اگر دشمن نے اس حرم کو برباد کردیا تو دوسرے حرم بھی باقی نہیں رہیں گے، نہ ابراہیمی حرم باقی رہےگا اور نہ محمدی (ص) حرم۔

میرے عزیز بھائیو اور بہنو! اسلام کو پیہم اور مسلسل رہبری کی ضرورت ہے ایسے رہبر کی ضرورت ہے جس کی رہبری  شرعی اور فقہی لحاظ سے معصوم (ع) سے متصل ہو۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت امام خمینی (رہ) متقی ترین ، پاک ترین اور پرہیزگار ترین عالم دین تھے جنھوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اسلام میں ایک نئی روح پھونک دی ، دین کو دوبارہ زندہ کردیا، امام خمینی (رہ) نے ولایت فقیہ کو امت مسلمہ کی نجات کا واحد نسخہ قراردیا ، آپ شیعہ ہیں تو آپ کا اس پر دینی اعتقاد ہے اگر آپ سنی ہیں تو آپ کا اس پر عقلی اعتقاد ہے، لہذا شیعہ اور سنی دونوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اسلام کی نجات اور بالا دستی کے لئے خیمہ ولایت سے ہمیشہ متصل اور منسلک رہیں۔ کیونکہ یہ خیمہ رسول اللہ کا خیمہ ہے۔ ایران کے ساتھ دشمن کی دشمنی اور عداوت کا اصلی مقصد اس خیمہ کو ویران کرنا ہے آپ اس خیمہ کے اردگرد رہیں ۔ واللہ ، واللہ ، واللہ اگر اس خیمہ کو نقصان پہنچا تو یاد رکھیں کہ بیت اللہ الحرام ، مدینۃ الرسول ،حرم رسول اللہ ، نجف ، کربلا اور مشہد باقی نہیں رہیں گے اور قرآن مجید کو نقصان پہنچےگا۔

سپاہ قدس کے عظیم کمانڈر شہید میجر جنرل سلیمانی نے اپنے وصیت نامہ میں ایرانی جوانوں، ایرانی قوم اور ایرانی علماء کو بھی مخاطب کرتے ہوئے انقلاب اسلامی اور ولایت فقیہ کے تحفظ کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی (رہ) کا سب سے بڑا ہنر اور درخشاں کارنامہ یہ تھا کہ پہلے انھوں نے اسلام کے ذریعہ ایران کی حمایت اور پشتپناہی کی اور اس کے بعد ایران کو اسلام کی خدمت میں قراردیدیا ۔ اگر اسلام نہ ہوتا ، اگر ایرانی قوم میں اسلامی اور حسینی روح حکمفرما نہ ہوتی، تو صدام ایران کو بھیڑئيے کی طرح کھا جاتا اور امریکہ بھی ایران کو وحشی اور پاگل کتے کی طرح کاٹتا۔ حضرت امام خمینی (رہ) کا ہنر یہ تھا کہ انھوں نے اسلام اور ایرانی قوم کی پشتپناہی کے نتیجے میں اس دور کے وحشی جانوروں سے اسلام اور مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کی تحریک کی بنیاد قائم کی اور یہ تحریک اپنے اعلی اصولوں کی سمت گامزن ہے

بغداد میں امریکی فورسز کے ایک دہشتگردانہ اقدام میں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مھدی المھندس کی شہادت پر ایران کیطرف سے عراق میں واقع عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر ایرانی ابتدائی جوابی کارروائی کے حوالے سے انتہائی محتاط تحریر میں صیہونی اخبار "اسرائیل ٹائمز" نے اسرائیلی صحافی مایا جبیلی کے قلم سے لکھا ہے کہ عراق میں موجود عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر ایرانی بیلسٹک میزائلز کے پڑتے ہی وسیع آسمان پر موجود امریکی فوج کے قیمتی اور پیشرفتہ ڈرون طیاروں سے امریکیوں کا رابطہ منقطہ ہوگیا تھا۔

اسرائیل ٹائمز لکھتا ہے کہ 8 جنوری 2020ء کی رات 1 بجکر 35 منٹ پر جب ایرانی جوابی کارروائی کا آغاز ہوا, تب امریکی فوج کے 7 پیشرفتہ ڈرون طیارے عراقی آسمان پر محوِ پرواز تھے, تاکہ وہ عراق کے اندر موجود امریکی اتحادی اڈوں کو پوری رصد پہنچا سکیں, جبکہ ان ڈرون طیاروں میں ایم کیو ون سی گرے ایگل (MQ-1C Grey Eagle) نامی ڈرون طیارے بھی شامل تھے, جو  4 عدد ھیل فائر (Hellfire) میزائلوں کیساتھ 27 گھنٹے کی مسلسل پرواز کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ یہ اسرائیلی اخبار کیسٹن ھیروئنگ نامی امریکی ڈرون پائلٹ سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہم نے سمجھ رکھا تھا کہ ہم پر زمینی حملہ کیا جائیگا, لہذا ہم نے ڈرون طیاروں کو مسلسل اڑا رکھا تھا۔

اسرائیل ٹائمز نے ایرانی جوابی کارروائی کے وقت عین الاسد نامی امریکی فوجی اڈے پر موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 1500 بتائی ہے اور لکھا ہے کہ ان میں سے اکثر پہلے ہی الارم پر 2 گھنٹوں کیلئے بنکرز میں منتقل ہوگئے تھے لیکن ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے والے عملے کے 14 افراد اندھیرے کنٹینرز میں ہی موجود رہے، تاکہ ڈرون طیاروں کو اڑاتے اور تصاویر حاصل کرتے رہیں۔ اس صیہونی اخبار نے ڈرون پائلٹ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پہلے ایرانی میزائل کے پڑتے ہی بڑی مقدار میں دھول مٹی اور دھواں ہماری پناہ گاہ میں داخل ہوگیا، تاہم بعد میں ہونیوالے دھماکے نزدیک سے نزدیک تر آنے لگے، جبکہ ہم اس قدر ڈر چکے تھے کہ اپنی جگہ جمے ہوئے اپنی تقدیر کا انتظار کرنے لگے۔ اس ڈرون پائلٹ کا کہنا تھا کہ ہم نے سمجھا کہ اب ہمارا کام تمام ہے، البتہ اصلی بحران تو اسکے بعد آنیوالا تھا۔

امریکی فوجیوں کے مطابق ایرانی میزائل، ڈرون طیاروں کو کنٹرول کرنے والے پائلٹس کے کنٹینرز کے قریب قریب ہی پڑتے رہے، جبکہ یہ حملہ 3 گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ ویسلی کلیپاٹرک نامی ایک اور امریکی فوجی اپنے رابطوں کے منقطع ہو جانے کے بارے میں کہتا ہے کہ آخری دھماکے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ کمیونیکیشن سسٹم جل چکا ہے، جو پائلٹس کی ورچوئل کاک پٹس، اینٹیناز اور سیٹیلائٹس کا رابطہ "گرے ایگل" نامی ڈرون طیاروں کیساتھ برقرار کرتا اور ان سے نشر ہونے والی تصویریں موصول کرتا ہے۔ ویسلی کلیپاٹریک کہتا ہے کہ کمیونیکیشن سسٹم کے جل جانے کے باعث ڈرون طیاروں کیساتھ رابطہ منقطع ہوچکا تھا اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ کوئی ڈرون طیارہ کہاں ہے اور زمین پر کیا ہو رہا ہے، حتی ان ڈرون طیاروں میں سے اگر کوئی گر جاتا تو بھی معلوم نہیں ہوسکتا تھا۔

اسرائیل ٹائمز امریکی فوجی ویسلی کلیپاٹریک سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، کیونکہ یہ ڈرون طیارے بہت قیمتی ہیں، جبکہ انکے اندر بہت سا ایسا سازوسامان بھی موجود ہے، جس کے بارے میں ہم چاہتے ہیں کہ وہ کسی اور کے پاس نہ ہو اور خصوصاً یہ کہ وہ دشمن کے ہتھے بھی نہ چڑھے۔ امریکی فوج کے سال 2019ء کے بجٹ کے مطابق ہر ایک امریکی گرے ایگل نامی ڈرون طیارے کی قیمت 7 ملین ڈالرز ہے، جبکہ یہ ڈرون طیارے سال 2017ء سے عراق میں استعمال ہو رہے ہیں۔ صیہونی اخبار لکھتا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس امریکی ڈرون طیارے "گرے ایگل" کی پرواز کیلئے عراقی حکومت سے اجازت نامہ لیا جاتا ہے، جو ایرانی میزائل حملوں سے چند روز قبل ہی ختم ہوچکا تھا جبکہ ان دنوں عراقی آسمان پر اس طیارے کی تمام پروازیں غیر قانونی تھیں۔

ایرانی مجلس خبرگان کے رکن آیت اللہ سید احمد حسینی خراسانی نے مشہد میں حضرت امام علی الرضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں جمعے کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی رحلت کے 10 روز بعد تک کے واقعات کو امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ حقیقت جو انسانی معاشرے کو پاک اور نورانی کرتی ہے، ایمان ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی اکائی یعنی خاندان اور افراد کے دلوں میں جسقدر ایمان زیادہ ہو گا، معاشرے پر الہی برکات نازل کا نزول بھی اسی قدر ہو گا۔

ایرانی سپریم لیڈر کی ایکسپرٹس کونسل کے رکن آیت اللہ سید احمد حسینی خراسانی نے استکباری قوتوں کیخلاف "جہاد" کو امتِ مسلمہ کے تمام مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہوئے کہا کہ امتِ مسلمہ کی جہادی طاقت کی ایک جھلک امریکی فوجی اڈے "عین الاسد" پر ایرانی جوابی کارروائی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے جس نے رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اس فرمان کو ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ "امریکہ کوئی غلطی کرنے کے قابل نہیں"۔ انہوں نے کہا کہ یہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے، شہید جنرل قاسم سلیمانی اور دوسرے شہداء جیسے لائق شاگرد ہی ہیں جنہوں نے اس میدان میں بھی جہادِ اسلامی کا دروازہ کھولا ہے جو عنقریب پوری امتِ مسلمہ کیلئے نجات کا ذریعہ ثابت ہو گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی صوبے شمالی آذربائیجان سے آئے ہزاروں عوامی باشندوں سے اپنے خطاب میں تبریز کے عوامی انقلاب کی 42ویں سالگرہ کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قم کے شہید انقلابیوں کے چہلم پر تبریز کے عوام کیطرف سے موقع پر میدان میں حاضر ہو جانا الہی برکتوں کے نزول کا سبب بنا اور یہ حاضری پورے ایران میں عوامی انقلابی جدوجہد کے آغاز، ایران پر مسلط پہلوی شہنشاہیت کے زوال اور ایران میں اسلامی حکومت کے قیام تک سلسلہ وار انداز میں جاری رہی۔

c

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوران امریکی معاشرے کی گہری اور وسیع اجتماعی و اقتصادی مشکلات کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اندرونی طور پر انتشار کیطرف بڑھ رہا ہے جبکہ اسکا ظاہری جاہ و حشم اُسے غرق ہونے سے بچا نہیں پائے گا۔ انہوں نے ایرانی رائے عامہ پر اثر اندازی اور ایرانی عوام خاص طور پر جوانوں کو اسلامی نظامِ حکومت سے دور کرنے کی امریکی سازشوں کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی یہ تمامتر کوششیں بےنتیجہ ثابت ہوئی ہیں جس کی بڑی مثال شہید جنرل قاسم سلیمانی اور انکے رفقاء کے تشیع جنازے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر انتہائی کثیر تعداد میں ایرانی عوام کا سڑکوں پر آ جانا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایرانی قوم کی ہوشیاری اور اسلامی اصولوں کی پابندی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ سے اسلامی انقلاب کے چاہنے والوں کو یہ کہتا ہوں کہ آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ ایرانی عوام دشمن کی چالوں کو سمجھتی ہے اور جانتی ہے کہ انکا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دشمن کی مایوسی کا واحد راستہ اسلامی جمہوریہ ایران کا طاقتور ہونا ہے۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ ایرانی عوام کے اندر قومی خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جبکہ بین الاقوامی مفکر اور عالمی سیاسی شخصیات بھی ایرانی قوم کو عقلمند، عظیم، طاقتور اور نڈر قرار دیتے ہیں۔



رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کیطرف سے ایرانی انتخابات کے بارے میں ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان ایک نمبر کے بےوقوفوں کے بیانات کا ایک مقصد ایرانی انتخابات کو اثرانداز کرنا اور ایرانی عوام کو ووٹ ڈالنے سے مایوس کرنا ہے جبکہ ان بیانات کی دوسری وجہ ایرانی عوام کیطرف سے اسلامی نظام حکومت کیساتھ بھرپور وفاداری پر بےساختہ ردّعمل ہے۔ انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی اور انکے رفقاء کی شہادت پر مبنی امریکی دہشتگردانہ اقدام پر امریکی پشیمانی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے میں امریکی صدر اور اسکے اردگرد کے لوگ پشیمان ہو چکے ہیں اور انہیں اب پتہ چلا ہے کہ انکا یہ کام حساب و کتاب سے کتنا عاری تھا کیونکہ امریکہ کے اندر اور پوری دنیا میں اُنہیں اپنے اس اقدام پر جواہدہ ہونا پڑا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ امریکہ ہمارے عزیز کمانڈر کو شہید کر کے خطے میں گہرے اثرات مرتب کرنا اور اسکی بنیاد پر خطے میں اپنا تسلط مزید وسیع کرنا چاہتا تھا لیکن اس اقدام کا نتیجہ برعکس نکلا ہے اور انکی یہ ہرزہ سرائیاں امریکیوں کی مرضی کے برعکس ایران و عراق سمیت پوری دنیا میں امریکہ مخالف احتجاجات، شام کے مسائل اور حلب سمیت پورے خطے میں آنیوالی تبدیلیوں کو چھپانے کیلئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی انتہائی عالیقدر، مفید اور قابل تعریف شخص تھے جبکہ انکی شہادت کا یہ حادثہ اللہ تعالی کا خاص لطف و کرم تھا کیونکہ وہ بزرگوار اسکے ذریعے "فتح" اور "شہادت" جیسی دو عظیم کامیابیوں پر فائز ہوئے ہیں کیونکہ اس خطے میں سالہا سال سے میدان کا فاتح جنرل سلیمانی اور شکست خوردہ امریکہ اور اسکے حواری تھے۔



ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ایرانی عوام کی 40 سالہ جدوجہد کے دوران دشمن نے ایرانی عوام کے ہاتھوں ہمیشہ طمانچہ کھایا ہے کہا کہ امریکیوں نے ان 40 سالوں کے دوران اسلامی نظام حکومت کو گرانے کیلئے سیاسی، فوجی، امنیتی، اقتصادی، ثقافتی اور میڈیا وار سمیت ہر قسم کا حربہ آزما لیا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اسلامی نظام حکومت نہیں گرا بلکہ پہلے سے ہزارہا گنا طاقتور ہو گیا ہے جبکہ اسکے مقابلے میں امریکہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور۔ انہوں نے کہا کہ آج امریکہ 22,000 بلین ڈالرز کے قرض کیساتھ دنیا کا مقروض ترین ملک ہے جسکے اندر طبقاتی اختلافات دوسرے تمام ملکوں سے زیادہ اور وحشتناک حد پر پہنچ چکے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کی زبوں حالی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی سینیٹر جان کیری کے پیش کردہ اعداد و شمار کیطرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ معروف امریکی سینیٹر خود کہتا ہے کہ ٹرمپ کی حکومت کے دوران امریکہ کے 5 دولتمند ترین افراد کی دولت میں 100 بلین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے جن میں سے 3 افراد کے پاس امریکہ کی آدھی عوام جتنی دولت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے نوکری پیشہ افراد میں سے 80 فیصد ایسے غریب لوگ ہیں جنکی تنخواہ سے انکا ماہانہ خرچ پورا نہیں ہوتا جبکہ ہر 5 امریکیوں میں سے صرف 1 شخص ایسا ہے جو ڈاکٹر کیطرف سے تجویز کردہ دواء خریدنے کی قوت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کے اپنے بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 50 سالوں کی نسبت سفید فام اور سیاہ فام امریکی شہریوں کے درمیان موجود دولت کا فرق 3 برابر بڑھ چکا ہے۔
c

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی اندرونی خلفشار اور وہاں موجود تبعیض، طبقاتی اختلاف، غربت و جرائم کے ہلا کر رکھ دینے والے اعداد و شمار کیطرف اشارہ کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ معروف برطانوی بحری جہاز ٹائیٹینک کا ظاہری جاہ و حشم اُسے غرق ہونے سے بچا نہیں پایا تھا، امریکی ظاہری جاہ و حشم میں اضافے کی تمامتر کوششیں بھی امریکہ کو غرق ہونے سے بچا نہیں پائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ آج طغیان و استکبار کا مرکز امریکہ ہے جو دولتمندوں اور صیہونی کمپنیوں کے مالکان کے ہاتھوں چل رہا ہے جبکہ دنیا میں اس کیلئے سب سے زیادہ نفرت پائی جاتی ہے۔

تیونس اور مراکش میں امریکی صدرٹرمپ کے فلسطین کے بارے میں صدی ڈیل کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں مظاہرین نے مسئلہ فلسطین کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے یکطرفہ صدی معاملے کو رد کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی بھر پور حمایت کا اعلان کیا ہے۔ مراکش کے دارالحکومت رباط میں امریکہ کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے۔ ادھر تیونس میں ہزاروں افراد نے امریکہ کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی اور صدی معاملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی حمایت کرنے والے عرب ممالک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ عرب ذرائع کے مطابق سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے امریکہ کے صدی معاملے کی حمایت کی ہے جبکہ دیگر عرب اور اسلامی ممالک امریکہ کے صدی معاملے کے خلاف ہیں۔ عرب اور اسلامی ممالک کے شہری سعودی عرب کے بادشاہ  شاہ سلمان کو خائن قراردے رہے ہیں جو خطے میں امریکی و اسرائیلی مفادات کو تحفظ فراہم کررہا ہے۔

خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران لاہور میں انقلابِ اسلامی ایران کی اکتالیسویں سالگرہ اور شہید کمانڈر قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے محفل تجلیل کا اہتمام کیا گیا۔ ایرانی قونصل جنرل محمد رضا ناظری نے تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ محمد رضا ناظری کا کہنا تھا کہ عالم اسلام میں پاکستان ایک چمکتا ہوا نگینہ ہے، جس نے ہمیشہ ایران کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا ہے۔ تقریب میں ڈی جی خانہ فرہنگ علی اکبر رضائی فرد، پرنسپل جامعۃ المنتظر علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، بیت رہبری علامہ علی رضا نقوی، سابق چیئرمین امامیہ آرگنائزیشن لعل مھدی خان، چیئرمین انجمن شھریان لاہور شفیق رضا قادری سمیت دیگر نے شرکت کی۔

تقریب میں قاسم سلیمانی کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی گئی۔ ایرانی قونصل جنرل محمد رضا ناظری کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی جیسی شہادت کی موت ہر مسلمان چاہتا ہے، قاسم سلیمانی کی شہادت عالم اسلام میں اتحاد لے آئی ہے، جس کی اشد ضرورت تھی، امریکی دہشتگردی کو ہر کسی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عالم اسلام میں پاکستان ایک چمکتے ہوئے نگینے کی مانند ہے، پاکستانی دلیر، شجاع اور بہادر قوم ہے، مجھے قاسم سلیمانی کی تعزیت پاکستانیوں سے کرنی چاہیئے۔

دیگر مقررین کا کہنا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے ہمیشہ امت مسلمہ کا دفاع کیا اور عراق کا دورہ بھی اسی سلسلے میں تھا، جس میں انہیں شہادت مل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی جنرل قاسم سلیمانی کے شکر گزار ہیں کہ ان کی وجہ سے داعش کا فتنہ پاکستان میں داخل نہیں ہوا اور قاسم سلیمانی نے سپر بن کر پاکستان کا دفاع کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کی دوستی لازوال ہے، وقتی بحران اور بیرونی مداخلت اسے کم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو بھی دوست اور دشمن کی پہچان کرنی چاہیئے، مسئلہ کشمیر پر ایران نے کھل کر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے۔
 
 
 
Monday, 10 February 2020 21:58

انقلابِ اسلامی کا نور


گیارہ فروری 1979ء کو جب ایران میں انقلابِ اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا تو دنیا کے اکثر دانشور حضرات یہ کہتے نظر آئے کہ اس انقلاب کو امریکہ بس چند دنوں میں کچل دے گا۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم سے کسی نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں بات کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے  سوال کیا کہ شیعہ کتنے اماموں کو مانتے ہیں؟ جواب ملا  "بارہ" تو بگٹی صاحب نے کہا یہ انقلاب بارہ مہینے بھی نہیں رہ پاِئے گا۔ لیکن پھر نواب اکبر بگٹی سمیت دنیا بھر کے دانشوروں نے دیکھا کہ 11 فروری 1979ء کو انقلابِ اسلامی کا ایسا نور چمکا، جس نے آج تک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ انقلابِ اسلامی نے اسلام کا پرچم تھاما اور دنیا بھر کے مظلوموں کو اس کی چھاوں میں پناہ دی، استکبارِ جہانی کی مشکلات کا آغاز ٹھیک اسی وقت سے شروع ہوا۔ مستضعفینِ جہان کا حامی یہ انقلاب امریکہ و اسرائیل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوگیا، امریکہ اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ صدام کے ذریعے انقلابِ اسلامی پہ حملہ آور ہوا، لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، لیکن امریکہ کے یہ تمام حربے مٹی میں مل گئے۔

گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حقیقی انقلاب یوں راتوں رات سب کچھ تبدیل نہیں کر دیتے، یہ تو بس معاشرے پر چھائے جمود کو توڑتے ہیں اور پھر ارتقاء کا سفر شروع کرتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی مخصوص لابی یا تنگ نظر گروہ حقیقی انقلاب لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے، بلکہ حقیقی انقلاب تو صرف اور صرف عوام کی امنگوں اور معاشرے کی گہرائی سے نکلتے ہیں اور دنیا پر چھا جاتے ہیں۔ بانی ِ انقلابِ اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ امام خمینیرح کی سیاسی علنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز اکتوبر 1962ء میں ہوا، جب شاہ کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا، جس میں امیدواران اور رائے دہندگان میں غیر مسلموں کی شمولیت اور قرآن کریم کی بجائے دوسری آسمانی کتب پر حلف اٹھانے جیسے امور شامل تھے۔ امامرح کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی امامرح  شاہ  کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ بل پہ عملدرآمد روک دیا گیا۔

انقلاب کے لئے اگلا پیش خیمہ 1963ء میں یوم عاشور کے موقع پر امام کا وہ خطاب ثابت ہوا، جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا۔ قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا، امام کو گرفتار کر لیا گیا، لوگوں میں اشتعال مزید بڑھا تو حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا، لیکن عوام اپنے رہبر کے بغیر رہنے پہ آمادہ نہ تھے۔ عوامی دباو پر امام کو رہا کر دیا گیا، لیکن اب دیر ہوچکی تھی، امام کی انقلابی فکر شاہ کی ظلم سہتی ایرانی عوام کو اپنا گرویدہ بنا چکی تھی۔ ایسی صورتحال میں 1964ء میں ایک اور بل منظور کیا گیا، جس میں ایران کے اندر امریکی فورسز کی تعیناتی کے لئے تمام رکاوٹوں کا خاتمہ شامل تھا۔ امام خمینیرح نے ایک طاغوت شکن خطاب کے ذریعے اس بل کی زبردست مخالفت کی۔ شاہ کی حکومت امام کی اس مزاحمت سے سخت تذبذب کا شکار تھی، امام کی گرفتاری کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا، شاہ کے پاس اب ایک ہی رستہ بچا تھا، سو اس نے وہ آزما دیا۔

4 اکتوبر 1964ء کو امام کو جلا وطن کر دیا گیا، جلا وطنی کے دوران امامرح ترکی، نجف اشرف اور پیرس میں قیام پذیر رہے، لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود امام اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس دوران امام کے فرزند کو شہید کر دیا گیا۔ امام کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا، پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش لائے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے۔ بالآخر 14 سال کی جلا وطنی کے بعد یکم فروری 1979ء کو امام تہران کے مہر آباد ایئر پورٹ پہ اترے تو مناظر دیدنی تھے، عوام اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے۔ بختیار کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ اپنے رہبر کی آواز پہ لبیک کہتی ایران کی انقلابی عوام نے شاہی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ 11 فروری کا سورج انقلابِ اسلامی کی نوید لے کر طلوع ہوا اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام خمینی رح کی فکر اور ان کے راہنما اصولوں پر گامزن امام راحل کے نظریاتی و معنوی فرزند آیت۔۔۔ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کی بابرکت قیادت میں ایران تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا دنیا بھر میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔

انقلابِ اسلامی نے جہاں دنیا بھر میں اسلام و مسلمین کو سربلند رکھا، وہیں اہلِ اسلام کو ایسے فرزند بھی عطا کئے جنہوں نے سرفرازی کا درس کربلا سے حاصل کیا تھا۔ آج جب انقلابِ اسلامی اپنی 41ویں بہار دیکھ رہا ہے، ہمارے درمیان وہ دلوں کا سردار موجود نہیں، جس نے اپنی جان اس خطے کے امن و امان پہ قربان کر دی۔ درحقیقت فرزندِ انقلاب، مدافعِ اسلام و مسلمین شہید حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے۔ آج دنیا تکفیری فتنے داعش سے چھٹکارے کو شہید سلیمانی کی فدا کاریوں کا مرہون منت سمجھتی ہے۔ نیا مشرقِ وسطی بنانے کے ناپاک و منحوس امریکی و صیہونی عزائم کو خاک میں ملانے والے سردار قاسم سلیمانی کو ایک بزدلانہ حملے میں شہید کرکے امریکہ یہ سمجھ رہا تھا کہ انقلابِ اسلامی اب اپنے پاوں پہ کھڑا نہیں رہ پائے گا، لیکن سچ تو یہ ہے کہ 11 فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب کا جو نور چمکا تھا، شہید قاسم نے 3 جنوری 2020ء کی صبح بغداد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اسے جلا بخش دی ہے۔
پھونکوں سے یہ چراغ  بجھایا نہ جائے گا

Saturday, 08 February 2020 20:26

ابو مہدی المہندس کون تھے؟

تحریر: سید حسن بخاری

مہندس فارسی میں انجینئر کو کہتے ہیں۔ انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اسی سبب وہ مہندس یعنی انجینئر کے نام سے معروف تھے۔ ابو مہدی ان کا لقب تھا۔ ان کا اصل نام جمال جعفر محمد اور ان کا خاندانی نام آل ابراہیم تھا۔ یوں ان کا مکمل نام جمال جعفر محمد آل ابراہیم المعروف ابو مہدی مہندس ہے۔ وہ عراقی شہری تھے اور ایران میں انہیں جمال ابراہیمی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ گذشتہ ماہ بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں اسلامی مزاحمت کے اہم قائدین شہید ہونے کے بعد شہید قاسم سلیمانی کے زندگی نامے سمیت ان کی شخصیت کی خصوصیات اور ان کی جدوجہد کے حوالے سے خاطر خواہ لٹریچر اردو زبان میں سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیکھنے کو ملا ہے، لیکن اس دوران ابو مہدی المہندس کے زندگی نامے اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اردو لٹریچر کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ اب جب شہدائے مزاحمت کا چہلم نزدیک ہے تو اس مضمون کے ذریعے ہم شہید ابو مہدی کی زندگی کا ایک مختصر تعارف، ان کی مزاحمتی فکر اور چار عشروں پر مشتمل جدوجہد کے چند گوشے قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

یوں تو ان کے اجمالی تعارف کے لیے ان کے اس انٹرویو جو ان کی شہادت کے بعد وائرل ہوا، کا وہ ایک جملہ کافی ہے، جس میں وہ خود کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شہید قاسم سلیمانی کا سپاہی قرار دیتے ہیں اور اسی طرح ایک دوسرے ویڈیو انٹرویو میں شہید قاسم سلیمانی خود کو شہید ابو مہدی کا سپاہی قرار دیتے ہیں، لیکن قدرے تفصیلی تعارف کے لیے آج ہم اس مضمون کے ذریعے آپ احباب سے مخاطب ہو رہے ہیں۔ ایک اور ویڈیو انٹرویو میں شہید ابو مہدی لبنان کی مزاحمتی تحریک کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کو اپنا قائد اور آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ شہید ابو مہدی اس انٹرویو میں کہتے ہیں کہ وہ سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت سے انتہائی متاثر ہیں اور وہ عراق میں امریکی سامراج کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان طرز کی مزاحمت وجود میں لانا چاہتے ہیں۔

شہید ابو مہدی نے اسلامی مزاحمت کے ساتھ اپنے تعلق کو کبھی مخفی نہیں رکھا اور ہمیشہ خود کو اسلامی مزاحمت کا ایک حصہ اور ادنیٰ سپاہی قرار دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد یروشلم پوسٹ نے بھی اپنے ایک مضمون میں انہیں شہید قاسم سلیمانی اور سید حسن نصر اللہ کا ہم خیال اور ابو مہدی کو انہی کے خاندان کا فرد قرار دیا تھا۔ ابو مہدی کا نظامِ ولایت کے زیر سایہ وجود میں آنے والی اسلامی مزاحمت سے گہرا تعلق ان کے لیے افتخار تھا، جس کا اظہار انہوں نے خود اپنے ویڈیو انٹرویو میں کیا تھا۔ شہید ابو مہدی کے بقول عراقی قوم بالخصوص اور خطے کی اقوام کا بالعموم اصل دشمن امریکہ ہے اور وہ خطے سے مکمل امریکی انخلا تک امریکہ کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ شہادت کے وقت ابو مہدی حشد الشعبی کے نائب سربراہ تھے۔ حشد الشعبی کم و بیش 40 عراقی مزاحمتی گروہوں پر مشتمل ایک عسکری اتحاد ہے، جو  2014ء میں عراق پر داعش کے قبضے کے بعد وجود میں آیا۔ ایک لاکھ باقاعدہ اور دو لاکھ ریزرو فوج کا حامل یہ عسکری اتحاد (حشد الشعبی) 2014ء میں عراق کی دینی مرجعیت کے حکم پر وجود میں آیا۔

2017ء میں پارلیمانی قرارداد اور حکومتی آرڈر کے تحت حشد الشعبی کو عراق کی دیگر مسلح افواج کی طرح سرکاری پیرا ملٹری فوج کا درجہ دے دیا گیا، جس کی آئینی کمان عراقی وزیراعظم کے پاس ہے۔ یوں شہید ابو مہدی عراق کے ایک سرکاری عہدیدار بھی تھے اور امریکہ نے صرف کسی رضاکار غیر سرکاری مسلح گروہ یا اتحاد کے کسی کمانڈر کو نہیں بلکہ عراق کی سرکاری پیراملٹری فوج کے نائب سربراہ کو شہید کیا ہے اور ایک ایسے ملک کے کمانڈر کو قتل کرنا، جس ملک کے ساتھ آپ حالتِ جنگ میں نہ ہوں، خود سے جنگی جرم محسوب ہوتا ہے۔ شہید ابو مہدی 1953ء میں عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ شہریت کے لحاظ سے ان کی والدہ ایرانی جبکہ ان کے والد عراقی تھے۔ 1977ء میں انہوں نے بغداد کے پولی ٹیکنیک کالج سے سول انجینرنگ میں ڈگری مکمل کی۔ 60 کی دہائی میں عراق میں دینی مرجعیت خصوصاً آیت اللہ محمد باقر الصدر کی قیادت میں حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ حزب الدعوۃ الاسلامیہ عرب دنیا میں عرب قوم پرستی کے مقابلے میں اخوان المسلمین کے بعد دوسری اسلامی تحریک تھی، جو عرب دنیا کے مسائل کو اسلامی تناظر میں دیکھتی تھیں۔

شہید محمد باقر الصدر کے نزدیک اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس کا سیاسی، معاشی، اخلاقی اور سماجی نظام عرب دنیا سمیت عالم اسلام کے مسائل کا واحد حل ہے۔ شہید ابو مہدی نے اپنی سماجی فعالیت کا آغاز شہید محمد باقر الصدر کی قیادت میں تشکیل پانے والی اس اسلامی تحریک میں شمولیت کے ساتھ کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے، جب آپ بغداد میں زیر تعلیم تھے۔ 80 کی دہائی میں عراق پر حاکم بعث پارٹی نے جب حزب الدعوۃ الاسلامیہ کے عوام میں اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عرب دنیا کی اس اہم اسلامی تحریک کو سرکوب کرنے کی ٹھانی اور حزب الدعوہ کی قیادت کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا تو پہلے مرحلے میں حزب الدعوہ کی قیادت کو گرفتار کرکے پھانسی دے دی‌ گئی۔ 1975ء میں حزب الدعوۃ الاسلامیه کے درجنوں قائدین کو سزائے موت دے دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں حزب الدعوہ کے کارکنوں کو پکڑ کر عقوبت خانوں میں بند کیا اور تختہ دار پر لٹکایا جانے لگا۔ شہید ابو مہدی اس زمانے کے بارے میں کہتے ہیں 1980ء تک حزب الدعوۃ الاسلامیہ سے وابستہ میرے 95 فیصد دوستوں کو سزائے موت ہوچکی تھی

1980ء‌ میں جب بعثی رجیم نے محمد باقر الصدر کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے شہید کر دیا تو شہید ابو مہدی مہندس عراق سے کویت چلے گئے، جہاں انہوں نے اسلامی مزاحمت کے عظیم کردار شہید مصطفیٰ بدرالدین کے ساتھ ملکر ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ کویت میں قائم امریکی اور فرانسوی سفارت خانوں پر بمب حملے ہوئے تو کویت میں مقیم مصطفیٰ بدرالدین سمیت متعدد عراقی مہاجرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ شہید ابو مہدی کویت سے ایران منتقل ہوگئے۔ بعدازاں ایک کویتی عدالت نے شہید ابو مہدی کی غیر موجودگی میں انہیں ان سفارت خانوں پر حملے کے الزام میں سزائے موت بھی سنائی تھی، جس کے بارے خود شہید ابو مہدی کا کہنا ہے کہ وہ کویتی سرزمین پر امریکہ مخالف کسی مسلح کارروائی میں ہرگز شریک نہیں تھے۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی نے اعلیٰ تعلیم مکمل کر لی۔ انہوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلے ایم فل تو بعدازاں پی ایچ ڈی مکمل کی۔

پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن جانے کے باوجود شہید ابو مہدی کو تا دمِ شہادت انجینئر (مہندس) کے لقب سے ہی جانا جاتا رہا۔ ایران میں قیام کے دوران شہید ابو مہدی ایران میں مقیم عراقی حریت پسندوں کی اہم سیاسی جماعت مجلس اعلاء کے رکن بھی رہے۔ مجلس اعلاء نے بعد میں عراقی سیاست میں بہت بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ نوے کی دہائی میں عراق میں بعثی رجیم کے مظالم کے خلاف مزاحمت کی غرض سے مسلح جدوجہد وجود میں آئی تو شہید ابو مہدی البدر کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ شہید ابو مہدی بھی عراق کے متعدد دیگر مزاحمتی اور سیاسی رہنماؤں کی طرح عراق میں صدام کے سقوط کے بعد عراق واپس پلٹے تو شہید ابو مہدی نے نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 2003ء میں عراق واپس جاتے ہی شہید ابو مہدی نے خود کو البدر سے علیحدہ کرکے کتائب حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ شہید ابو مہدی 2005ء میں عراقی صوبے بابل سے پارلیمنٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے، لیکن بعدازاں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب انہیں پارلیمانی نشست سے استعفیٰ دے کر عراق ترک کرکے ایک دفعہ دوبارہ ایران آنا پڑا۔

2011ء میں شہید ابو مہدی دوبارہ عراق گئے اور سیاسی فعالیت کو ازسرنو شروع کیا۔ ان کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد الوطنی آج بھی عراقی پارلیمان کا ایک اہم اتحاد ہے۔ 2014ء میں داعش نے عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا تو عراق کی دینی مرجعیت آیت اللہ سیستانی کے حکم پر عوامی رضاکار فورس وجود میں آئی۔ اس فورس کی تشکیل میں شہید ابو مہدی اور ان کی مزاحمتی تحریک کتائب حزب اللہ کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کتائب حزب اللہ نے حشد الشعبی کی 45ویں اور 46ویں بریگیڈ کی تشکیل کو مکمل کیا جبکہ 47ویں بریگیڈ میں بھی ایک بڑا حصہ کتائب کی افرادی قوت کا ہے۔ داعش کے خلاف جہاد شہید ابو مہدی کی چار عشروں پر محیط جہادی زندگی کا ایک نیا دور تھا۔ وہ حشد الشعبی کے نائب سربراہ بنائے گئے، لیکن ان کا کنٹرول روم بغداد کے کسی محفوظ اور پوش علاقے کا کوئی عسکری اڈہ نہیں بلکہ اگلے مورچوں پر کھڑے ٹینک اور مورچے تھا۔ شہید ابو مہدی بطور ایک فوجی جنرل میڈلز اور ستارے سینے پر سجانے کی بجائے اگلے مورچوں پر اپنے سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانے لڑنے کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے۔ سامراء، کاظمین، کربلا اور نجف کے مزاراتِ آل رسول کی حفاظت کے علاؤہ آمرلی، جرف الصخر، اربیل اور موصل کی آزادی کے کامیاب آپریشنز میں بھی شہید ابو مہدی کا بنیادی کردار ہے۔

مئی 2019ء میں اسرائیل نے عراق میں قائم حشد الشعبی کے فوجی اڈے کو نشانہ بنایا تو شہید ابو مہدی نے اسرائیل کو جہاں جواب دینے کی بات کی، وہیں امریکی و اسرائیلی جارحیت کے مقابلے کے لیے حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی ضرورت پر بھی زور دیا اور یہ قوی احتمال تھا کہ اگر شہید ابو مہدی کچھ عرصہ مزید زندہ رہتے تو حشد الشعبی کے فضائی ونگ کی تشکیل ان کا ترجیح ایجنڈا ہوتا۔ عراق سمیت پورے خطے سے مکمل امریکی انخلاء، امریکی سامراج اور صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں اسلامی مزاحمت کی تقویت شہید ابو مہدی المہندس کی آرزو تھی۔ اس آرزو کی تکمیل کے لیے انہوں نے اسلامی انقلاب اور نظامِ ولایت کے زیر سایہ تشکیل پانے والی اسلامی مزاحمت کے قافلے میں شمولیت اختیار کی۔ خود کو ہمشیہ اسلامی مزاحمت کا ادنیٰ سپاہی قرار دیا اور اس پر فخر محسوس کیا۔ شہید ابو مہدی اپنی آرزو جو خطے کے تمام بے نواؤں کی آرزو ہے؛ کی تکمیل کی خاطر امریکی سامراج اور صہیون ازم کے ساتھ نبرد آزما تھے، جب امریکہ نے انہیں شہید قاسم سلیمانی کے ہمراہ گاڑی میں نشانہ بنایا اور اسلامی مزاحمت کے یہ دو عظیم مجاہد اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کرگئے۔

 ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے فلسطین کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کے صدی معاملے کو بہت بڑا المیہ قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ صدی معاملہ ناقابل قبول ہے۔ مہاتیر محمد نے کہا کہ صدی معاملے سے خطے میں کشیدگی بڑھ جائےگی یہ تاریخ کا بدترین معاملہ ہے جس میں کئي ملین مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ملائشیا کے وزير اعظم نے کہا کہ اس معاملے سے صرف اسرائیل کو فائدہ پہنچا ہے اور اس میں مظلوم  فلسطینیوں کے حقوق کومکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز سنیچر ) ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں، کارکنوں اور ایرانی فوج کے ایئر ڈیفنس کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں 19 بہمن سن 1357 کے واقعہ کو اللہ تعالی کے وعدے پر حضرت امام خمینی (رہ) اور مجاہدین کے اطمینان اور پختہ یقین کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر معاشرے میں اللہ تعالی کے وعدے پر یقین محکم اور پختہ ہوجائےاور حکام ہوشیاری اور بیداری کے ساتھ عمل کریں تو اس صورت میں دھمکیاں فرصت میں تبدیل ہوسکتی ہیں اور دشمن کی طرف سے عائد پابندیاں غیر مؤثر، ملک کے تیل پر انحصار ختم کرنے اور بہت سی مشکلات کوحل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں کی حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ 19 بہمن 1357 شمسی میں تاریخی بیعت کی 41 ویں سالگروں کے موقع پر ایرانی فضائیہ کے کمانڈروں اور بعض اہلکاروں نے رہبر معظم انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اس واقعہ کو ناقابل فراموش، حیرت انگیز ،مختلف اسباق اور عبرتوں کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ حکومت کے دور میں ایرانی فضائیہ طاقت کے مرکز کے سب سے زیادہ قریب اور  امریکہ سے وابستہ تھی، لیکن ایرانی فضائیہ نے ہی طاغوتی حکومت پر مہلک ضرب لگائي جس کا اسے تصور بھی نہیں تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ تعالی ایسی جگہ سے دشمن پرمہلک ضرب وارد کرتا ہے جس کا اسے تصور بھی نہیں ہوتا اور مؤمنین کی بھی ایسی جگہ سے حمایت اور مدد کرتا ہے جس کا انھیں تصور بھی نہیں ہوتا۔

اسے دینی ثقافت میں " رزق لا یحتسب " سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ وہی رزق ہے جس کی مادی اندازوں میں کوئی جگہ نہیں تھی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے دین کی مدد کرنے والوں کی نصرت کے بارے میں قرآن مجید کی آیات کی تاکید اور تصریح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے وعدے پر اطمینان رکھنا چاہیے اور مستقبل پر امید رکھتے ہوئے آگے کی سمت سفر جاری رکھنا چاہیے۔