سلیمانی

سلیمانی

امریکا اقوام عالم میں ایک عرصے تک ناقابل تسخیر فوجی طاقت تھا، سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تو یہ تاثر مزید گہرا ہوگیا۔ جاپان کے ہیروشیما سے لے کر سوویت یونین کے ٹکڑوں تک سب میں امریکا کا ہاتھ رہا۔ ہر ملک جس پر امریکہ نے چڑھائی کی، اس کا مقدر تباہی اور بربادی ٹھہرا۔ فوجی قوت کے علاوہ معاشی میدان میں بھی امریکہ نے دنیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ بات تو بدیہی ہے کہ دنیا میں جس قوم کے پاس مضبوط معیشت اور دفاع ہوں، وہ عالمی سیاست اور سفارت کے میدان میں بھلا کیسے پیچھے رہ سکتا ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکا عالمی سطح پر کچھ ایسے ہی مقام کا حامل ہے۔ اقوام عالم اقوام متحدہ میں بیٹھ کر امریکا کا منہ دیکھتے ہیں کہ مائی باپ جو موقف اختیار کریں، اسی موقف کی تائید کی جائے۔ کئی اقوام اپنے مسائل کے حل کے لیے امریکی اداروں، نمائندگان اور عہدیداروں کے تلوے چاٹتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ بہادر کا جب جی چاہتا ہے، ان پر ایک نظر کرم فرماتا ہے اور مسئلہ سے متعلق ایک آدھا بیان داغ دیتا ہے، جسے سن کر مسئلہ سے دوچار قوم کے قائدین اور عوام پھولے نہیں سماتے۔ پریشانی بہرحال دوسرے کو بھی لاحق ہوتی ہے، جسے امریکا سفارتکاری کے ذریعے دور کر دیتا ہے۔ یوں دونوں فریق خوش ہو جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا اقتدار مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔ گذشتہ کئی عشروں سے امریکا ہی ہے جو دنیا میں فیصلہ سازی کرتا ہے اور اس کے حواری نیز دیگر اقوام ان فیصلوں پر عمل کرنے کی پابند ہیں۔

ایسے میں ایران میں ایک ایسا مرد قلندر اٹھا، جس نے نہ صرف امریکا کو نہ کہا بلکہ اسے ’’شیطان بزرگ‘‘ کا نام دیا اور دنیا کے مسائل کا حقیقی سبب امریکا کو قرار دیا۔ یہ بات کرنا اور اس پر قائم رہنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ روس جو سوویت یونین کا ایک حصہ تھا، اس کے لیے امریکی اجارہ داری کو تسلیم کرنا آسان نہ تھا، تاہم اسے بھی جرات نہ ہوئی کہ وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے نہ کہے اور اس نہ پر قائم رہے۔ یہ امام خمینی ؒ کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ اپنے بیان پر نہ فقط قائم رہے بلکہ اس بیان کے سبب امریکہ کی جانب سے آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اپنے فرزند کی شہادت سے لے کر ملت ایران کے لاکھوں فرزندوں کی شہادت، معاشی پابندیوں، سفارتی بائیکاٹ، اقتصادی، تعلیمی، پیداواری تعطل کو برداشت کیا لیکن اپنے موقف سے سر مو انحراف نہ کیا۔ امام خمینی ؒ کی رحلت کے بعد ملت ایران نے امام راحل ؒ کے نقش قدم کو حرز جاں بنایا اور امام کی قائم کردہ حکومتی پالیسیوں کو دوام بخشا، جس میں یقیناً ایران کی موجودہ قیادت کی بصیرت اور اخلاص کا ایک بڑا کردار ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکا کے سامنے کوئی ایسا قابل ذکر دشمن نہ تھا، جو امریکی طاقت اور تسلط کو چیلنج کرے، ہاں اسلام ایک مکتب کے طور پر اس کی آنکھ میں ضرور کھٹکا۔ اسلام بحیثیت مکتب مغرب کی نگاہ میں روز اول سے چبھتا ہے، لیکن عالم اسلام کی موجودہ صورتحال مغرب کے لیے کوئی ایسا خطرہ نہیں کہ جس سے وہ پریشان ہوں۔ خلافت عثمانیہ عالم اسلام کی ایک طاقت تھی جسے مغرب نے ایک صدی قبل ختم کر دیا۔ نئی ریاستوں کی تشکیل کے باوجود مغرب مسلمان معاشروں کو زیر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں ثقافتی نیز تعلیمی میدان میں مسلسل مصروف عمل ہے۔ اس کے باوجود اسلام اور اس کی تعلیمات میں یہ طاقت ہے کہ اس کے بطن سے ایسے بطل جلیل پیدا ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت مغرب کی بساط کو یکسر پلٹنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مغرب اچھی طرح سے جانتا ہے کہ 1400 سال قبل دنیا میں ابھرنے والی واحد سپر پاور کے پاس آج بھی وہ نسخہ کیمیاء موجود ہے، جو عالمی انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اسی نسخہ کیمیاء کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مغربی ممالک ہمارے ملکوں میں مصروف عمل ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان مجاہدین کو سوویت یونین کے خاتمے کے لیے استعمال کیا تھا، اسے خوف پیدا ہوا یا اس کے ذہن میں منصوبہ آیا کہ یہی جتھے خود امریکہ کے لیے بھی وبال جان بن سکتے ہیں، لہذا وہ اپنے ہی استعمال کیے ہوئے مجاہدین کے پیچھے پڑ گیا۔ مرحوم جنرل حمید گل (ر) اکثر کہا کرتے تھے ’’افغانستان بہانہ ہے پاکستان نشانہ ہے‘‘ ان کے اس جملے کو اگر زیادہ جامع بنایا جائے تو کچھ یوں ہوگا کہ ’’شدت پسندی بہانہ ہے اسلام اصل نشانہ ہے۔‘‘ امریکہ نے القاعدہ کا نام لے کر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، افغانستان کے بعد اس نے عراق کا رخ کیا، عراق کا حاکم صدام حسین بھی امریکہ کا استعمال شدہ مہرہ تھا، جسے ایران کے خاتمے کے لیے استعمال کیا گیا۔ صدام کا جرم وہی کیمیائی ہتھیار تھے جو خود مغربی ممالک نے عراق کو ایران کے خلاف لڑی جانے والی 8 سالہ جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے دئیے تھے۔ عراق میں حکومت کا تحتہ الٹنے کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے لیبیا اور شام کا رخ کیا۔

وہ اس وہم کا شکار تھے کہ جیسے انھوں نے افغانستان اور عراق میں اپنی مرضی سے اقوام عالم کو ہانکا اور ان معاشروں کو جانی و مالی نقصان پہنچا کر اپنے قبیح ارادوں کی تکمیل کی، ویسے ہی لیبیا اور شام میں بھی انھیں جلد کامیابی حاصل ہوگی۔ لیبیا میں تو کرنل قذافی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا، تاہم شام کی جنگ طول کھینچنے لگی۔ شام کا محاذ شام کی سرحدوں سے نکل کر عراق تک پھیل گیا۔ ساتھ کے ساتھ اس محاذ پر مغرب کی نقابیں الٹنی شروع ہوئیں۔ القاعدہ اور داعش کے دشمن ان کی ذیلی تنظیموں کو تربیت، اسلحہ، ٹارگٹ اور دیگر سہولیات دیتے نظر آئے۔ وہی لوگ جن کو افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا گیا تھا، مختلف ناموں کے ساتھ شام میں بشار الاسد کی حکومت اور عراق میں منتخب حکومت کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔

دور نہ تھا کہ جلد ہی افغانستان، لیبیا کی مانند شام اور عراق بھی ایک مرتبہ پھر روند دیئے جائیں، لیکن اس محاذ پر امریکا کا سامنا فرزند خمینی شہید قاسم سلیمانی سے ہوا۔ شہید قاسم سلیمانی نے ہمسایہ ممالک میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بہت جلد درک کیا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑے۔ شام اور عراق میں جتنی جلدی شہید قاسم سلیمانی نے مقاومت کو جنم دیا، یہ مقاومتی اور فوجی دنیا کی تاریخ کے معجزات میں سے ایک ہے۔ قاسم سلیمانی نے عراق اور شام میں دشمن کی پیش قدمی کو نہ صرف روکا بلکہ اسے ہزیمت سے دوچار کیا۔ قاسم سلیمانی زندہ رہتے تو یقیناً مقاومت نے انتہائی سرعت کے ساتھ دیگر خطوں میں بھی پھیلنا تھا۔ وہ مقاومت کی ایسی کلید تھے، جس کا توڑ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے پاس نہ تھا۔ یہ وہ شیر نر تھا، جس نے نہ صرف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ارادوں کو شام اور عراق کی سرزمین پر دھول چٹائی بلکہ امریکا کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کو بھی زائل کر دیا۔

جنرل قاسم سلیمانی نے ثابت کیا کہ اگر مسلمان ارادہ کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ شہید کی شہادت اس کی فتح کا اعلان ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اپنی مادی ترقی، فوجی قوت، سفارتی برتری اور سیاسی تسلط کے باوجود اس قابل نہ تھے کہ اسلام کے اس بطل جلیل سے مقابلہ کرسکتے۔ وہ اپنے وسائل اور گھمنڈ کے ساتھ اس فرزند خمینی ؒ کے سامنے بے بس ہوگئے، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راہ نہ بچی کہ وہ اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے قاسم سلیمانی کی سانسوں کی لڑی توڑ دیں۔ جنرل قاسم سلیمانی نے جاتے جاتے دشمن کے چہرے سے قانون پسندی، عالمی انسانی حقوق اور سفارتی وضع داری کی نقابیں بھی نوچ ڈالیں۔ قاسم سلیمانی کا خون شہید کو تو سرخرو کر ہی گیا، ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے حواریوں کے چہروں پر ذلت کی جو سیاہی مل گیا، اس کا ادراک اہل مغرب کو بہت جلد ہونے والا ہے۔۔۔ انتقام جاری ہے۔

تحریر: سید اسد عباس

انسانی زندگی میں عبدیت اور حریت کا مزاج بھی عجب ہے۔ جہاں انسان اپنے عبدی ماحول میں اطمینان محسوس کرتا ہے، وہاں حریت کے ماحول میں زندگی بسر کرنے میں نہ صرف زیادہ اطمیان محسوس کرتا ہے بلکہ فتح اور فخر و مباہات کے ساتھ خود کو کامیاب لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عارضی اور ابدی زندگی کی کامیابی جہاں بہترین عبدیت کے مرہون ِاحسان ہوتی ہے، وہاں ان دونوں زندگیوں کی کامیابیوں کو تکمیل کی انتہا اور بام ِعروج تک پہنچانے کے لیے حریت کا مقام بھی اپنے مقام پر مستند اور مسلّم ہے۔ ایک بہترین عبد تو بہترین حُر بن سکتا ہے، مگر ہر عبد کبھی حُر نہیں بن سکتا۔ اگرچہ عبودیت اور حریت دونوں ہی معبود ِبرحق و حقیقی کی اعلیٰ نعمات ہیں لیکن خود معبود نے یہ نعمات ہر عبد میں یکجا نہیں فرمائیں۔ یہ اس کا فیصلہ ہے کہ کس انسان کو عبد ہونے کا شرف عطا فرما دے اور کس انسان کو عبد کے ساتھ حُر ہونے کی فضیلت بھی بخش دے۔

اسلامی تاریخ میں لمحہ موجود تک ہمیں بے شمار عابد بھی مل جائیں گے اور بے شمار زاہد بھی، با وصف بندے بھی مل جائیں گے اور باکردار شخصیات بھی، لیکن حریت پسندوں اور شہداء کی تعداد نسبتاً کم نظر آئے گی۔ انسان کی معراج ہی یہی ہے کہ اس کی دنیوی زندگی عبودیت اور حریت کے سائے میں بسر ہو اور اس کی موت کا وقوع شہادت کے ذریعے ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء و رسل سے لے کر ایک عام دین دار حتیٰ کہ عاصی انسان بھی خود کو ایک عبد اور حُر کی شکل میں زندہ اور ایک شہید کی صورت مرنے کی دعا اور خواہش رکھتا ہے۔ تاریخ نے ایسے لاکھوں انسانوں کا ذکر اپنے اندر سمویا ہے کہ جن کی زندگی تو عبدیت و حریت میں بسر ہوئی مگر موت کے وقت انہیں شہادت نصیب نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت کے راستے مالک ِحقیقی تک پہنچے۔

ان عرائض کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسان خوش بختی کے آخری مقام پر فائز ہوتا ہے، جو اپنی زندگی عبدیت و حریت کے سائے میں گزار کر زندگی کا اختتام شہادت پر کرے۔ انہیں محدود و مخصوص و گنے چُنے اور خوش بخت لوگوں میں شہید قاسم سلیمانی، شہید ابو مہدی مہندس اور شہید محسن فخری زادہ شامل ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے پہلے عبدیت کے راستے دین اور احکام ِدین پر عمل کرنے کو اپنی عادت بنایا۔ امام خمینی اور دیگر روحانی شخصیات سے علمی و فکر و اصلاحی و روحانی استفادہ کیا، اعلیٰ و شفاف کردار کے ذریعے اپنی شخصیت تعمیر فرمائی۔ ریاضت و اوراد و وظائف اور عبادت کے ذریعے اپنی عبدیت کو مضبوط و راسخ کیا۔ سیرتِ امامِ حسین (ع) اور قیادتِ امام راحل کی روشنی اور انقلابِ اسلامی کی موجودگی سے بھرپور استفادہ لیتے ہوئے خود کو حُرّیت پسندی کا عادی و عامل بنایا۔ جب اتنے اعلیٰ مدارج اور مراحل طے کر لئے جائیں تو شہادت خود منتظر رہتی ہے کہ وہ عبد ِحُر کب میری آغوش میں آتا ہے۔؟

شہید قاسم سلیمانی نے باسٹھ سالہ مختصر زندگی میں متعدد اور مختلف اہداف پر کام کیا۔ بیش جہاتی انسان نے جہاں انقلابِ اسلامی کی داخلی حفاظت کے لیے کام کیا، وہاں انقلابِ اسلامی کو خارجی حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی لاجواب حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے جہاں ایران میں موجود انقلابیوں کے حوصلے کا سامان کیا، وہاں ایران سے باہر ہر انقلابی کے لیے مشعل عمل بنے۔ شہید سلیمانی نے جہاں اپنے ملک کے حساس اثاثوں کو دشمن کی دسترس سے دور رکھا، وہاں امامینِ معصومین (ع) کے روضہ ہائے مبارک کی صورت مقاماتِ مقدّسہ کو ہر جارح کے نجس ہاتھ سے دور رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ جہاں ایران کی سرزمین کو امریکہ و اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ رکھا، وہاں شام و عراق کو بھی ان نجس ممالک کے وجود سے پاک کرنے میں زندگی صرف کر دی۔ جہاں اپنی دھرتی سے مجاہدینِ خلق اور جنداللہ جیسی استعماری کٹھ پتلیوں کو ناکام کیا، وہاں القاعدہ اور داعش جیسے خطرناک اور رسوائے زمانہ اسلام دشمن گروہوں کی نابودی اور رسوائی کا زبردست انتظام کیا۔

شہید قاسم سلیمانی دورِ حاضر میں حُریت کی علامت اور آزادی کا نشان ہیں۔ وقت کے یزید کو نہ صرف للکارنے بلکہ ہر میدان میں شکست سے دوچار کرنے کا اعزاز صرف اور صرف قاسم سلیمانی کے حصے میں آیا ہے۔ چاہے وہ ایران کا محاذ ہو یا عراق کا۔ یمن کی تحریک ہو یا بحرین کی۔ عراق کا میدان ہو یا شام کا۔ کشمیر کی تحریک ہو یا فلسطین کی، ہر مقام اور ہر مرحلے پر قاسم سلیمانی صف ِاول میں نظر آئے گا۔ سیرتِ حسین (ع) پر عامل انسان کا ایسا رعب و دبدبہ استعمار و استکبار پر طاری ہوا کہ انہوں نے راستے سے ہٹانے کے لیے سازشوں کے شدید سخت جال نہایت تیزی سے بننا شروع کیے۔ تین بار بڑے حملوں کے باوجود شہید سلیمانی اور ان کے جانثار دوست محفوظ رہے، تاکہ خدا نے جو امور ان کے ذمہ کر دیئے تھے، انہیں مکمل کیا جا سکے۔ 

خیال کیا جا رہا تھا کہ قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹا کر اب امریکہ و اسرائیل سکھ کا سانس لیں گے اور اگلی طویل مدت تک ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے، کیونکہ ان کا سب سے بڑا دشمن اور ان کے راستے کا بڑا کانٹا نکل گیا ہے، لیکن محسن فخری زادہ کی شہادت نے ثابت کر دیا ہے کہ دونوں استعماری طاقتیں ابھی تک بوکھلائی ہوئی ہیں، انہیں دنیا کا ہر آزادی پسند بالخصوص ایران کے ہر حریت پسند انسان میں قاسم سلیمانی نظر آتا ہے، تبھی وہ جارحیت سے باز نہیں آتے، لیکن امریکہ و اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیئے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی حریت پسند زندہ ہے، ان دونوں کے خلاف مزاحمت اور مقاومت جاری رہے گی۔ چاہے غدار مسلمانوں بالخصوص بعض عرب ممالک کی سازشیں جاری رہیں۔

اسرائیل کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی رہیں۔ فلسطینیوں کے خون سے غداری کی جاتی رہے۔ قبلہ اول کا سودا کیا جاتا رہے۔ صیہونی ریاست کے استحکام کے لیے اسرائیل کی حمایت کی جاتی رہے، لیکن قاسم سلیمانی کے جانباز اور ہم فکر ہر دور میں ان دو فتنوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ دنیا کے ہر انسان کو بالعموم اور ہر مسلمان کو بالخصوص قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ جنہوں نے انہیں داعش جیسے فتنوں سے نجات دلائی۔ آج اگر داعش کو لگام نہ ڈالی جاتی تو داعش کا وجود دیگر ممالک کی

طرح پاکستان میں بھی نجاست پھیلا رہا ہوتا۔

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان

بدھ کو سپاہ قدس کے شہید کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے لیے قائم کمیٹی کے ارکان اور اس شہید والا مقام کے اہل خانہ سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا، شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قتل اور قتل کا حکم دینے والوں کو اپنے کیے کی سزا بھگتنا ہوگی اور جب بھی ممکن ہوا انتقام ہر حال میں لیا جائے گا اور یہ حتمی فیصلہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کو ایرانی عوام اور امت مسلمہ کا عظیم ہیرو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ عوامی شخصیت کے مالک تھے لہذا ان کی یاد بھی عوامی سطح پر منائی جانا چاہیے اور اس کےلئے پوری عوامی گنجائشوں اور ثقافتی کوششوں اور جدت ترازی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک تاریخی سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی شہادت کے بعد ایرانی قوم اور امت مسلمہ کے ہیرو میں تبدیل ہوگئے۔

آپ نے شجاعت و استقامت، ذہانت و درایت اور ایثار و انسان دوستی کو شہید قاسم سلیمانی کی اہم خصوصیات قرار دیا اور فرمایا کہ وہ روحانیت، اخلاص اور آخرت پر یقین رکھنے والے انسان تھے اور انہوں نے کبھی بھی ریا کاری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی میں بھی عالمی سامراج کو شکست دی اور شہادت کے بعد بھی اسے شکست سے دوچار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ عراق اور ایران میں شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے بے مثال اور ناقابل فراموش جلوس جنازہ اور ان دنوں شہدا کی یاد میں ہونے والے اجتماعات نے سامراجی محاذ کے سافٹ وار جرنیلوں کو حیران کر دیا اور امریکیوں کے منہ پر پہلا زور دار طمانچہ رسید کیا۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عین الاسد کی امریکی فوجی چھاؤنی پر میزائیل حملوں کے ذریعے رسید کیے جانے والے دوسرے طمانچے کا ذکر کر تے ہوئے فرمایا کہ سخت انتقام سے مراد عالمی سامراج کی ظاہری طاقت پر غلبہ پانا ہے جس کے لیے انقلابی جوانوں اور مومن دانشوروں کے عزم کی جبکہ علاقے سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے قوموں کے عزم و اردے اور استقامتی پالیسیوں کو  آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اغیار پر اعتماد نہ کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا قطعی مشورہ ہے کہ دشمن پر ہرگز اعتماد نہ کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ دیکھ چکے ہیں کہ ٹرمپ کے امریکہ اور اوباما کے امریکہ میں کوئی فرق نہیں ، امریکہ کی ایران دشمنی صرف ٹرمپ سے مختص نہیں جو اس کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گی۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپی ملکوں کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تین یورپی ملکوں (برطانیہ، فرانس، جرمنی) نے بھی ایٹمی معاہدے کے حوالے سے انتہائی بے عملی، لیت و لعل، دوغلے پن اور منافقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

 ایران کے ادارہ اوقاف کے قرآنی امور کے سربراہ قرہ شیخلو نے پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کی مناسبت سے قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ  رواں برس قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں کا حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے انعقاد کیا جائےگا۔

قرہ شیخلو نے کہا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ملک بھر میں قرآن کریم کے مقابلے آن لائن منعقد کئے گئے ، اورقرآن مجید کے 37 ویں بین الاقوامی مقابلوں کا انعقاد حضوری اور غیر حضوری دونوں طریقوں سے کیا جائےگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھر میں قرآن مجید کے 43 ویں مقابلوں میں کامیاب ہونے والے قراء اور حفاظ قرآن مجید کے  37 ویں بین الاقوامی مقابلوں میں ایران کی نمائندگی کریں گے۔

ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے آذربائیجان میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے ایرانی علاقے "آذربائیجان" کی جدائی سے متعلق ایک متنازعہ نظم کے پڑھے جانے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی فریق کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں۔ محمد جواد ظریف نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر جاری ہونے والے اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ کسی نے صدر اردوغان کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی جانب سے باکو میں "غلط طریقے سے پڑھی جانے والی" نظم؛ اَرس کے شمالی علاقوں کی مادرِ وطن ایران سے جبری جدائی سے متعلق ہے! انہوں نے لکھا کہ کیا انہیں نہیں پتہ چلا کہ وہ خود آذربائیجان کی خود مختاری کے خلاف ہی بات کر رہے ہیں؟ محمد جواد ظریف نے اپنے پیغام کے آخر میں لکھا کہ کسی کو ہمارے پیارے آذربائیجان کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہیں!

ایرانی ملکی ایئر ڈیفنس فورس کے ڈپٹی کمانڈر بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے ایئر ڈیفنس آپریشنز کمانڈ سنٹر کے دورے کے دوران تاکید کی ہے کہ ملکی فضائی حدود ہماری ریڈ لائن ہے اور جیسا کہ قبل ازیں بھی دشمن تجربہ کر چکا ہے؛ ملکی ہوائی حدود کی چھوٹے سے چھوٹی خلاف ورزی کا بھی شدید اور "آتشیں" جواب دیا جائے گا۔ بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے خطے کے باہر سے آئی فورسز کی خطے کے اندر ہوائی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی اور باہر سے آئی تمام فورسز کی ہوائی سرگرمیوں کا ملکی "فضائی دفاعی نیٹورک" کی جانب سے مکمل طور پر لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیا جا رہا ہے خصوصا ان امریکی B-52 بمبار طیاروں کی تمام سرگرمیوں کی بھی انتہائی قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے جو خلیج فارس کے جنوبی علاقے کے اندر ملکی حدود سے 150 کلومیٹر پر پائے گئے ہیں۔

ایرانی فضائی دفاعی فورسز کے ڈپٹی کمانڈر نے خطے کے اندر ایران کے تزویراتی جغرافیائی محل وقوع اور ایرانی اسلامی جمہوری نظام حکومت کے ساتھ برتی جانی والی مسلسل دشمنی پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ایئرڈیفنس فورس، پورے ملک میں موجود اپنے باہم متصل نیٹورک کے ذریعے پائلٹ کے ساتھ یا بغیر پائلٹ پرواز کرنے والے ہر طیارے کا لمحہ بہ لمحہ جائزہ لیتی اور اس کی مکمل نگرانی کرتی ہے جبکہ دشمن کے اہداف اور اس کے طرز عمل کا جائزہ لیتے ہوئے حالات کے مناسب دفاعی منصوبہ تشکیل دے کر اس پر فورا عملدرآمد شروع کر دیتی ہے۔

بریگیڈیئر جنرل قادر رحیم زادہ نے خطے کے اُن ممالک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو اپنی سکیورٹی کی خاطر خطے کے باہر سے آئی طاقتوں سے تعاون لے رہے ہیں جس کے باعث گذشتہ ہفتے خلیج فارس کے جنوبی علاقوں اور "پروازی معلومات کے علاقے" (Flight Information Region-FIR) سے باہر کئی ایک ہوائی سرگرمیاں انجام پائی ہیں، کہا کہ ہم ہمسایہ ممالک کے اندر انجام پانے والی ان تمام سرگرمیوں سے نہ صرف مکمل طور پر آگاہ ہیں بلکہ ملکی ہوائی دفاعی فورس کے انفارمیشن اینڈ آپریشن سنٹرز میں ان تمام سرگرمیوں کی لمحہ بہ لمحہ انتہائی کڑی نگرانی بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں ملکی ایئر ڈیفنس آپریشنز کمانڈ سنٹر کی قابلیت اور ہمہ وقت تیاری کو انتہائی قابل اعتماد قرار دیا اور کہا کہ ملکی "خاتم الانبیاء (ص)" ایئر ڈیفنس بیس کے حوالے سے یہ بات ہمارے لئے انتہائی قابل فخر ہے کہ اس بیس پر تعینات ممتاز و پرعزم جوان، ملکی ہوائی دفاع کی ذمہ داری کے ناطے فوج و سپاہ پاسداران کے شانہ بشانہ مسلح افواج کا ایک طاقتور بازو اور ملک و قوم کے لئے گہرے اطمینان و سکون کا باعث ہیں۔
 
 
 

شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے ایران کے ممتاز جوہری سائنسداں شہید محسن فخری زادہ کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایرانی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔

شامی وزیر خارجہ نے کہا کہ دشمن، ایران کے سائنسدانوں کو شہید کرکے ایران کی علمی پیشرفت اور ترقی کو روکنے کی مذموم تلاش و کوشش کررہا ہے۔ فیصل مقداد نے کہا کہ ایران میں ہونے والے ایسے دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور ہمیں علم ہے کہ ایران اس کا منہ توڑ جوابد ینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شامی وزیر خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کو دہشت گردی کے قوانین کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے اور عالمی برادری کو اس قسم کے دہشت گردانہ اقدام کی مذمت کرنی چاہیے۔

 رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ایران کے ممتازجوہری سائنسداں شہید محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے اور انھیں قرار واقعی سزا دینے پر تاکید کی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں شہید فخری زادہ کی ملک کی ترقی اور پیشرفت کے سلسلے میں علمی خدمات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شہید فخری زادہ کو ان کی علمی صلاحیتوں اور کامیابیوں کی بنا پر شہید کیا گيا ہے۔ دشمن ایران کی علمی اور سائنسی ترقی کو متوقف کرنے کی تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن شہید فخری کے ساتھی ، شاگرد اور دیگرایرانی ماہرین دشمن کی اس سازش کو ناکام بنادیں گے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید فخری زادہ کی شہادت کو ان کی علمی صلاحیتوں اور خدمات کے پیش نظر بہترین جزا اور پاداش قراردیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں شہید کے مجرمانہ قتل میں ملوث عناصر کو گرفتار کرنے اور انھیں سزا دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: شہید فخری زادہ کی علمی کوششوں اور سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے پیغام میں شہید فخری زادہ کے اہلخانہ ، شاگردوں اور دوستوں کو تعزیت او تسلیت پیش کی اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں شہید کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کی۔

 سپاہ قدس کے سربراہ جنرل اسماعیل قاآنی نے شہید فخری زادہ کے قتل کیم ذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید محسن فخری زادہ نے آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کو رسوا کردیا ہے شہید فخری زادہ نے تسلط پسند طاقتوں کے علمی انحصار کو توڑنے کا بھر پور مقابلہ کیا اور کامیاب رہے ۔

جنرل اسماعیل قاآنی نے اپنے پیغام میں شہید فخری زادہ کے بزدلانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہید ڈاکٹر محسن فخری زادہ مکتب اسلام کے لئے باعث فخر انسان تھے جنھوں نے عالمی سامراجی اور تسلط پسند حکومتوں کے علمی انحصاراور اجارہ داری کو توڑنے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام دشمن طاقتیں، مسلم ممالک اور مسلمانوں اقوام  کی علمی پیشرفت اور ترقی کے خلاف ہیں۔ لیکن ایرانی سرزمین کے فرزند اپنے عظيم دانشوروں کے راستے پر گامزن رہیں گے۔ شہید فخری زادہ کی شہادت دیگر شہیدوں کی طرح ایران کی دگنی طاقت اور علمی ترقی اور پیشرفت کا باعث بنے گی۔ انھوں نے کہا کہ جس پرچم کو شہیدوں نے اٹھایا ہے وہ پرچم زمین پر نہیں گرے گا۔

جنرل قاآنی نے اپنے پیغام میں حضرت ولیعصر (عج) ، رہبر معظم انقلاب اسلامی، ایرانی عوام اور شہید فخری زادہ کے اہلخانہ کو تعزیت اور تسلیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید فخری زادہ کے قتل کا سخت انتقام لیں گے۔

مسلم اقوام صیہونی حکومت کے ساتھ ذلت آمیز آشتی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گی۔ امریکی اگر اس خیال میں ہیں کہ مشرق وسطی کے مسئلے کو اس شکل میں حل کر لیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ جو بھی حکومت غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی اپنے عوام کے درمیان اس کی پوزیشن ختم ہو جائے گی اور علاقے میں عدم استحکام روز بروز بڑھتا جائے گا۔ قومیں اپنے راستے پر گامزن رہیں گی اور قوموں سے تضاد رکھنے والی حکومتوں کا وہی انجام ہوگا جو کل ہم نے کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات میں شریک لوگوں کا دیکھا ہے۔

31 جولائی 1991

اللہ کی لعنت ہو ان پر جو مجرم صیہونی حکومت کے ساتھ آشتی کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں

اللہ اور اس کے نیک بندوں کی لعنت ہو اس ہاتھ پر جس نے اسرائیل کے ساتھ پہلے امن معاہدے پر دستخط کئے اور اپنی سیاہ دنیاوی زندگی اور آخرت کو فرعون جیسا بنا لیا۔ نیک بندوں، فرشتوں، انبیا اور اولیا کی لعنت ہو ان لوگوں پر جو اسی راہ پر گامزن ہیں۔ خاص طور پر ان لوگوں پر جنہوں نے مظلوم فلسطینی قوم کو جھوٹی آس دلائی مگر انھیں مصیبتوں کی تاریکی میں دھکیل کر اپنے لئے وقتی عیش و عشرت حاصل کیا ہے۔