سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 12 March 2024 08:58

ماہِ رمضان ماہِ فلسطین

ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اپنے آپ کو اس مقدس مہینہ میں وارد کرنے کے لئے بے تاب ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر اس مہینہ کا استقبال کر رہا ہے۔ ہر طرف ایک نیا ولولہ اور جوش ہے۔ یعنی رمضان المبارک کو خوش آمدید کرنے کے لئے ہر سطح پر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مسلمان اس ماہ میں اپنے آپ کو اللہ کے قریب تر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے، جو رحمت، برکت اور مغفرت کے مواقع سے بھرا ہوا ہے۔ سال 2024ء کا ماہ رمضان المبارک ایسے موقع پر آرہا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کے علاقہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ چھ ماہ سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں مصروف ہے۔ یہ نسل کشی امریکہ، برطانیہ اور مغربی حکومتوں کی باقاعدہ ایماء پر کی جا رہی ہے۔

دنیا میں کوئی ایسی مغربی اور عرب حکومت سمیت مسلمان ممالک کی حکومت موجود ہی نہیں ہے، جو غاصب صیہونی حکومت کے ناپاک ہاتھوں کو کاٹ کر پھینک دے۔ فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی ہیں، جو غزہ کے مظلوموں کا دفاع کر رہے ہیں۔ لبنان میں جنوبی لبنان اور شمالی فلسطین کی ایک سو بیس کلو میٹر کی سرحد پر حزب اللہ ہے، جو غزہ کا دفاع کرتے ہوئے غاصب صیہونی فوج سے مسلسل جنگ میں ہے۔ یمن میں انصار اللہ اور مسلح افواج ہیں، جو غزہ کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے بحیرہ احمر میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی جہازوں سمیت ہر اس جہاز کا راستہ روک رہے ہیں، جو غاصب اسرائیل کی طرف جا رہا ہو یا پھر وہاں سے آرہا ہو۔ اسی طرح عراق میں بھی غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لئے مزاحمت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔

بدقسمتی سے مسلمان اور عرب حکومتیں مکمل بے حس ہوچکی ہیں۔ بے حسی سے زیادہ بے شرمی ہے کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کرنے والی غاصب صیہونی حکومت کو ترکی جیسا ملک تیل اور گیس کی سپلائی دے رہا ہے۔ سعودی عرب، بحرین اور اردن سمیت دیگر اپنے اپنے تعلقات اسرائیل کے ساتھ ستوار کرنے میں مصروف ہیں۔ بہرحال ایسے ہی سنگین حالات میں ماہ رمضان المبارک کی آمد ہے۔ اس تحریر سے قارئین کے لئے یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ماہ رمضان جہاں عبادت کا مہینہ ہے، جہاں رحمت اور مغفرت سمیت برکتوں کا مہینہ ہے، وہاں یہ رمضان کا مہینہ بلا شک و تردید ”فلسطین کا مہینہ“ بھی ہے۔

موجودہ صورتحال میں فلسطین کے مظلوموں کی مدد کرنا ہمارا دینی، سیاسی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر انسانی فریضہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک میں عبادات اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ فلسطین کے مظلوموں کا غم بھی یاد رکھا جائے۔ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والی صیہونی مصیبت کو بھی یاد رکھا جائے۔ اس مصیبت کے خلاف آواز احتجاج بلند کی جائے۔ حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کریں۔ ماہ رمضان المبارک کا اصل فلسفہ یہی ہے کہ انسانیت کی بقاء اور حفاظت کی جائے۔ اسی لئے ماہ رمضان المبارک فلسطین کا مہینہ بھی ہے۔

آئیں اس ماہ رمضان المبارک میں فلسطین کے مہینہ کے عنوان سے معصوم اور بے یار و مدد گار فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ اپنی عبادات اور محافل میں فلسطین کے مظلوموں کا تذکرہ کریں، فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی کامیابیوں کو اجاگر کریں۔ غاصب صیہونی دشمن کے انسانیت مخالف ایجنڈا کو بے نقاب کریں۔ عالمی دہشت گرد امریکہ کی دوہری پالیسیوں اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں اسرائیل کے ساتھ دینے پر دنیا بھر میں سخت احتجاج کیا جائے۔ یہی رمضان فلسطین کا مہینہ ہے۔ ویسے بھی ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے، لیکن اس سال ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ منایا جائے۔

عوامی شعور کو بیدار کیا جائے۔ حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ غزہ کے مظلوموں کی عملی مدد کریں۔ اگر ہم نے اس ماہ رمضان المبارک کو فلسطین کا مہینہ تصور کیا اور اس راستے میں اقدامات کئے تو یقینی طور پر یہ اقدامات امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی حکومتوں اور تمام دشمن قوتوں کے لئے بڑی شکست سے تعبیر ہوگا۔ رمضان المبارک کا مہینہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی پایمالی ہے۔ آئین فلسطین کا مہینہ ہے، اس میں فلسطین کے انسانوں ک حقوق کا دفاع کریں۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے۔

آئیں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں۔ ان کے لئے آواز اٹھائیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے۔ لہذا یہ فلسطین کا مہینہ ہے، آئیں اس مہینہ میں ہم اپنی قیمتی ترین چیزوں کو فلسطین کی مظلومیت کے لئے قربان کریں۔ اپنے وقت کے ذریعے، اپنی صلاحیتوں کے ذریعے، فلسطین کی مدد کریں، فلسطینی مظلوموں کی حمایت کریں۔ یہی رمضان المبارک کا تقاضہ ہے، یہی فلسطین کا مہینہ ہے۔

تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

اقوام متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندہ دفتر نے عالمی یوم خواتین کے موقع پر اسرائيلی حکومت کے ہاتھوں 9 ہزار سے زائد خواتین کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صیہونی حکومت کو کمیشن برائے خواتین کی حیثیت  سے نکال باہر کیا جائے۔

عالمی یوم خواتین کے موقع پر خواتین کو مضبوط بنانے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے نا انصافیوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے : " 9 ہزار سے زائد فلسطینی خواتین، سلامتی کونسل کی بے عملی کے درمیان صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہید ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سیٹوں پرغاصب صیہونی حکومت کے قبضے کا راستہ روکنا ہوگا۔

فلسطین کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے غزہ کی پٹی پر صیہونی فوج کے حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد 30,800 اور زخمیوں کی تعداد 72,298 ہوچکی ہے۔

ارنا کے مطابق غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کو 153 دن گزر جانے کے باوجود جب کہ اس بحران کے حل کے لیے ثالثی کی کوششیں جاری ہیں، قابض افواج اپنے جرائم جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ ایک نئے سانحہ اور تباہی کو جنم دے رہی ہیں۔

صیہونی حکومت نے اپنی مسلسل جارحیت کے علاوہ انسانی امداد اور خوراک کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈال کر صورتحال کو مزید تباہ کن بنا دیا ہے اور ہر روز غذائی قلت کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

واضح رہے 7 اکتوبر سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت میں اب تک  30 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہيں جن میں سے بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے ۔

45 دنوں تک جنگ جاری رہنے کے بعد 24 نومبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی ہوئي جس کے دوران قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔

7 دنوں تک جاری رہنے کے بعد عبوری جنگ بندی ہو گئي اور پہلی دسمبر سے صیہونی حکومت نے غزہ پر پھر سے حملے شروع کر دیئے
https://taghribnews.
اسلام میں عورتوں کی بیعت،خواتین کی ملکیت، ان بنیادی سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کا حق واضح بیان کیا گیا ہے۔

آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق اور مسائل پر بات کی جاتی ہے۔

ذیل میں رہبر معظم انقلاب کے "اسلام کے نقطہ نظر سے خواتین کے مقام و منزلت اور اسلامی انقلاب کی خواتین کے لئے خدمات" کے عنوان سے دئے خطبات کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

اسلام عورت کے وقار اور عورت ہونے کو اہمیت دیتا ہے

خواتین کے معاملے پر ہمیں ایک جامع نظرئے کا حامل ہونا چاہیے، اور یہ جامع نظریہ صرف اسلام کے پاس ہے۔ عورت کی اصالت کے احترام کا مسئلہ عورت ہونے کے ناطے خود عورت کے لیے بہت بڑی قدر ہے۔ یہ ایک اصول ہے۔

عورت کے لیے مردوں سے مشابہت اختیار کرنا کسی بھی طرح قابل قدر نہیں ہے۔

اسی طرح مردوں کو عورتوں کے مشابہ نہیں سمجھا جاتا۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک کردار، مقام اور فطرت ہے، اور خدا کی حکیمانہ تخلیق میں ان کا ایک خاص مقصد ہے، اور اس مقصد کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ نہایت اہم ہے۔

 سیاسی سماجی نقطہ نظر سے

اسلامی حکومت میں عورتوں کے لیے بیعت کا حق ثابت ہے۔

اسلام میں خواتین، مردوں کی طرح، تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں ذمہ دار ہیں، اور بیعت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

اسلام میں عورتوں کی بیعت، خواتین کی ملکیت، ان بنیادی سیاسی اور سماجی میدانوں میں خواتین کی موجودگی کا حق واضح بیان کیا گیا ہے۔

 پیغمبر اکرم ص نے یہ نہیں کہا کہ مرد بیعت کے لیے آئیں اور انہوں نے جس کو ووٹ دیا، جسے انہوں نے قبول کیا، عورتوں کو بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ نہیں. ایسا باالکل بھی نہیں فرمایا۔ بلکہ انوں نے فرمایا کہ عورتوں کو بھی بیعت کا حق حاصل ہے۔ وہ اس حکومت کو قبول کرنے، اس سماجی اور سیاسی نظام کو قبول کرنے میں بھی برابر کی شریک ہیں۔ 

مغرب والے اس میدان میں اسلام سے 1,300 سال پیچھے ہیں۔ اور وہ کھوکھلے دعوے کرتے ہیں! اسی طرح ملکیت اور دیگر سماجی و سیاسی مسائل سے متعلق شعبوں میں بھی وہ اسلام سے پیچھے ہیں۔

تمام سیاسی اور سماجی شعبوں میں مساوات

"اسلام جب کہتا ہے کہ اور مومنین اور مومنات اولیاء ہیں اور ایکدوسرے کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں۔

یعنی مومن مرد اور عورتیں معاشرتی نظام کو برقرار رکھنے اور نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں شریک ہیں۔ اسلام نے خواتین کو خارج نہیں کیا۔ ہم بھی خواتین کو خارج نہیں کر سکتے۔ اسلامی معاشرے کو سنبھالنے اور اسلامی معاشرے کی ترقی کی ذمہ داری سب کے کندھوں پر ہے۔ عورت کے کندھے پر، مرد کے کندھے پر؛ ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے مطابق یہ ذمہ داری ادا کرے۔

اسلام میں خواتین کی جائیداد کے حقوق اور معاشی آزادی

خواتین کی جائیداد اور آزادی کا حق اسلام میں ایک رسمی طور پر مسلمہ اور ثابت شدہ حق ہے۔اسلام میں عورت اپنے مال کی خود مالک ہے۔ اس کا شوہر راضی ہے یا نہیں؛ اس کا باپ راضی ہو یا نہ ہو- اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا- وہ اپنا مال و دولت خرچ کر سکتی ہے اور اس کا کسی اور سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔

خواتین کی معاشی آزادی کی حمایت میں دنیا تیرہ سو سال اسلام سے پیچھے ہے۔ اسلام نے یہ بات تیرہ سو سال پہلے کہی۔ لیکن یورپ میں تو صرف 40 سال، 50 سال اور کچھ ممالک میں اس مدت سے بھی کم عرصہ گزرا ہے کہ انہوں نے صرف عورتوں کو اپنی جائیداد میں تصرف کی اجازت دینا شروع کر دی ہے۔ اسلام اس معاملے میں بھی آگے ہے۔

خاندان میں کردار

شریک حیات کے انتخاب کے حق کے علاوہ، خاندان کی مدیریت اور بچوں کی پرورش میں عورت کا بنیادی اور مرکزی کردار ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں خصوصی حقوق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے شوہر کی ساتھی ہے اس کے ماتحت نہیں۔

شریک حیات کے انتخاب کے لیے عورت کے حق کو تسلیم کرنا

عورت ایک بیوی کے طور پر اسلام میں مختلف مراحل میں خصوصی توجہ حاصل کرتی ہے.

 اسلام کی رو سے عورت کو شریک حیات کے انتخاب میں آزادی ہے اور شریک حیات کے انتخاب کے حوالے سے کوئی بھی عورت پر اپنی رائے مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی عورت کے بھائی بھی، عورت کے والد - دور دراز کے رشتہ دار کی تو بات ہی نہیں ہے۔ اگر وہ اس پر اپنی رائے مسلط کرنا چاہیں کہ تم اس شخص سے شادی کرو، تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اور انہیں ایسا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ اسلام کی رائے ہے۔

ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ملک کے اندر اور باہر رائے عامہ کی توجہ کا ایک اہم موضوع، خواتین سے متعلقہ مسائل تھے۔ اسلامی انقلاب نے ایک ایسے ماحول میں کامیابی حاصل کی جہاں مختلف مکاتب فکر اور سیکولر حلقوں نے خواتین کے بارے میں ایک خاص نظرئے کو فروغ دیا اور دوسری تہذیبوں اور دینی نظریات کے سفارش کردہ طرز زندگی کو اپنے پرفریب نعروں سے رد کرنے کی کوشش کی۔

مشرقی تعریف میں عورت معاشرے کے حاشیے پر موجود ایک عضو معطل ہے جو تاریخ سازی میں کوئی فعال کردار نہیں رکھتا۔ جب کہ غالب

مغربی تعریف میں اسے ایک ایسے موجود کے طور پر متعارف کرایا گیا کہ جس کی جنسیت اس کی انسانیت پر غالب ہے اور وہ مردوں اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کی خدمت کا ایک جنسی آلہ ہے۔

لیکن اسلامی انقلاب نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے عورت کی ایک تیسری اور جداگانہ تعریف پیش کی جس کی بنیاد پر عورت کا ایک منفرد نمونہ سامنے آتا ہے۔ جو اپنی ذات میں نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی بلکہ مسلمان عورت ہے۔

ایران کی مسلم خواتین نے دنیا کی خواتین کی آنکھوں کے سامنے ایک نئی تاریخ رقم کر کے ثابت کر دیا کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ اپنی نسوانی اور انسانی عظمت کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کے ہر میدان میں اپنی فعال موجودگی کے ساتھ ساتھ خاندان کی تشکیل و تربیت، اور سیاسی و سماجی میدان میں فعال کردار ادا کرسکتی ہے۔

اسلامی نقطہ نظر یا اسلامی انقلاب کی رو سے عورت ایک "کھلونا یا غیر اہم موجود" نہیں کہ جو مردوں کے لئے ہوس کے اسباب فراہم کرے یا پھر پبلسٹی مٹیریل بنے۔ نہیں، باالکل بھی نہیں۔

بلکہ وہ اپنی نسوانی قوتوں کو ایمان اور عفت کے ساتھ جوڑ کر ایک منفرد اور صاحب عظمت وجود تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی رو سے خواتین، معاشرے میں ایک فعال عنصر کے طور پر، خاندان اور بچوں کی پرورش میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہیں، اور بچے کی پرورش کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ ماں کی آغوش میں پروان چڑھے اور اس کی محبت سے لطف اندوز ہو تا کہ ایک صحت مند معاشرے کا فرد بن سکے۔

 مائیں اپنے بچوں کی پرورش کرکے معاشرے کے ہر فرد کی تعمیر کرتی ہیں اور ملک کی شناخت کے عناصر کے تحفظ اور اسے برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ "کسی قوم کی شناخت، قوم کی شخصیت بنیادی طور پر ماؤں کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ زبان، عادات، آداب، روایات، اچھے اخلاق، اچھی عادات، یہ سب بنیادی طور پر ماں کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔ 

اسلامی انقلاب کی چار دہائیوں کے بعد، سماجی مسائل میں خواتین کے کردار اور سائنس، ثقافت، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں حیرت انگیز پیشرفت نے دنیا کو ایرانی (مسلمان) خواتین کی اجتماعی ترقی کی طرف توجہ دلائی ہے۔

 آج خواتین کی حقیقی شناخت اور ثقافتی آزادی کا پرچم مسلمان خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ آج حجاب رکھ کر ایرانی خواتین دنیا کے سامنے اپنی شناخت اور ثقافتی آزادی کا برملا اعلان کر رہی ہیں۔

ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔

اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کی ترقی کا جائزہ

 خواتین کے بارے میں پہلوی دور کے مغرب زدہ تصور نسوانیت (جہاں عورت کو مرد کی تسکین کا آلہ سمجھا جاتا ہے) کے برخلاف آج اسلامی جمہوریہ ایران اپنی الہی بنیادوں پر بھروسہ کرتے ہوئے مختلف شعبوں میں باصلاحیت خواتین کی تربیت کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ان خواتین کی تعلیم و ترقی خواتین کے مسئلے میں اسلامی انقلاب کے صحیح نقطہ نظر کو آگے بڑھانے اور باطل مغربی ثقافت پر قابو پانے کا ایک اہم ذریعہ ہے، جس کی مثالیں ایرانی خواتین کی اعلی ترقی پسند تحریک کو واضح کر سکتی ہیں:

صاحب فکر اور اچھے فہم و فراست کی حامل خواتین کی پرورش:

ایران بھر میں اعلی صلاحیتوں کی حامل خواتین اسلامی نظام کی کامیابی اور خواتین کے بارے میں اسلام کے ترقی پسند نقطہ نظر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ہمارے ہاں پہلوی رجیم کے دور میں اتنی اعلیٰ پائے کی خواتین نہیں تھیں۔ آج ملک بھر میں خواتین محققین، پروفیسرز، سائنسدانوں، مصنفین، ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، مصوروں کی قابل ذکر تعداد خواتین کی سائنسی اور فکری ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

طب کے میدان خواتین کی ترقی

"آج ایران کی طبی پیشرفت نے تقریباً ایک بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

 یہ پیش رفت ایسی ہے کہ آج ملک میں خواتین کو مرد ڈاکٹر سے علاج کرانے کی ضرورت نہیں پیش نہیں آتی جبکہ انقلاب سے پہلے یہ مسئلہ ایرانی معاشرے کے بڑے مسائل میں سے ایک تھا۔

اسلامی انسانی علوم کے شعبے میں خواتین کی زبردست موجودگی

آج حوزوی علوم، فقہ، فلسفہ، انسانی علوم میں اسی طرح نیچرل سائنسز اور ملک کے تمام سائنسی شعبوں میں خواتین کی موجودگی واضح اور شاندار ہے۔ یونیورسٹیاں ہماری طالبات سے بھری پڑی ہیں۔ سائنسی شعبہ جات میں خواتین کی فعال موجودگی ان کی ترقی کی نشاندہی کرتی ہے۔

کھیلوں کے میدان میں خواتین کی شاندار کارکردگی

اسلامی جمہوریہ ایران خواتین کے کھیلوں کی ترقی کے لیے ایک زبردست پلیٹ فارم فراہم کرنے میں کامیاب ہوا۔ تاکہ ایرانی خواتین اپنی عفت اور حجاب کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی مقابلوں میں شرکت کر سکیں۔ 

ہماری کھلاڑی خواتین کا حجاب پہننے کا معاملہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

 یہ واقعا حیرت انگیز بات ہے کہ ایک باپردہ خاتون چیمپیئن کے طور پر میدان میں کھڑی ہے اور سب کو احترام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

 سماجی ترقی میں خواتین کا کردار

 ایران کی مسلمان خواتین کا معاشرے کی ترقی میں نمایاں کردار ہے۔ وہ اسلامی قدروں پر پوری طرح کاربند رہتے ہوئے ملک کے سیاسی، سماجی شعبوں میں زیادہ فعال نظر آتی ہیں اور یہ ایران کی مسلمان خواتین کے لیے اسلامی انقلاب کے ثمرات اور خدمات میں سے ایک ہے۔

مغرب کے شیطانی منصوبوں کا مقابلہ کرتی مسلم خواتین

اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی آئین کے بنیادی ستونوں میں سے ایک خواتین کی ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی حیثیت کا فروغ رہا ہے۔

 جس کے نتیجے میں ایرانی خواتین کو مکمل حقوق اور ترقی کے مواقع میسر آئے ہیں۔ 

اسلامی جمہوریہ نے ایرانی خواتین کو سائنس، کھیل، آرٹ وغیرہ سمیت تمام شعبوں میں بین الاقوامی سطح پر اپنے دینی اور قومی عقائد کی ترجمانی کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس اسلامی نقطہ نظر اور پالیسی نے خواتین کے بارے میں مغربی تصورات کو چیلینج کر دیا۔

 درحقیقت، مغربی پالیسیوں نے خواتین کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا، لیکن آج مغرب والے پوری بے حیائی کے ساتھ حقوق نسواں کے علمبردار ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہیں"! 

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نام پر استحصال کر رہے ہیں۔

 انقلاب کے بعد کے سالوں کے دوران دشمن نے خواتین کے حجاب اور اسلامی سرگرمیوں کے خلاف کام کیا۔ ان کی آخری کوششیں گزشتہ چند مہینوں اور حالیہ فسادات کے دوران ہوئیں، لیکن وہ خواتین کی عفت کو نقصان نہ پہنچا سکیں اور "خواتین ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں.

مغربیوں ​​کو امید تھی کہ جو خواتین آدھا حجاب پہنتی ہیں وہ حجاب اتار پھینکیں گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی انہوں کے مغرب پر طمانچہ رسید کیا اور انہیں منہ کی کھانی پڑی۔

لہٰذا یہ کہنا ضروری ہے کہ اگرچہ مغرب کئی سالوں سے ایرانی (مسلمان) عورت کی اسلامی ثقافت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن ایران کی تعلیم یافتہ خواتین اور مائیں ہمیشہ سماجی اور سیاسی میدانوں میں موجود رہ کر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہیں اور مغربیوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔

 آج ایرانی مسلمان خاتون، عزت و وقار کا استعارہ ہے۔ اگرچہ مغرب والے اس حقیقت کو برعکس دکھانے کے لیے میڈیا کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں،لیکن حقیقت یہی ہے۔

 آج ہماری سب سے زیادہ تعلیم یافتہ خواتین، دینی اور انقلابی خواتین ہیں۔ آج ہماری نوجوان خواتین سائنسی تجربہ گاہوں اور مراکز میں موجود اور سرگرم ہیں۔ اسی طرح سیاسی، سائنسی، سماجی میدان میں سب سے زیادہ سرگرم خواتین ہماری مذہبی اور انقلابی خواتین ہیں۔

ایرانی (مسلمان) خواتین نے دنیا میں رائج مشرقی اور مغربی تعریف کے طلسم کو توڑتے ہوئے عورت کا اسلامی نمونہ پیش کیا جو خالصتا انسانی عظمت اور نسوانی تشخص پر قائم ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا: 8 مارچ اور خواتین کا عالمی دن خواتین کے حقوق کی حمایت کے دعویدار بعض جھوٹے لوگوں کے مضحکہ خیز اور توہین آمیز بیانات کا موقع نہیں بننا چاہیے کہ جو خواتین کو ایک ٹول کے طور پر دیکھتے ہیں اور انسانی، ثقافتی اور سماجی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک شرمناک ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کے حقوق کے ان جھوٹے دعویداروں کا منافقانہ طرز عمل پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے کہ جنہوں نے فلسطین میں ہزاروں بے گناہ عورتوں اور بچوں کے وحشیانہ قتل پر آنکھیں بند کر کے خواتین اور بچوں کو بے دردی سے قتل کرنے والی دہشت گرد رجیم کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، 

کنعانی نے زور دے کر کہا کہ اس سال کا عالمی یوم خواتین فلسطین کی شیرل دل خواتین اور ماوں سے تعلق رکھتا ہے اور اسے ظالم اسرائیلی حکومت کی عالمی مذمت کی فرصت میں بدلنا چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کو ہیومن رائٹس کمیشن سے نکال باہر کرنا ہزاروں خواتین کے قتل، انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب، شہری آبادی خاص طور پر خواتین اور بچوں کو منظم بھوک کا شکار بنانے اور فلسطینی ماؤں کو ان کے بچوں کی تدریجی موت کے باعث شدید ذہنی اور نفسیاتی تکلیف پہنچانے کے باعث عالمی مطالبہ بن چکا ہے۔ 

تہران (ارنا) مغربی میڈیا نے آج بروز جمعہ (1 مارچ 2024) ایران میں ہونے والے الیکشن میں لوگوں کی پرجوش شرکت اور پولنگ اسٹیشن پر رش کو بیان کرتے ہوئے لوگوں کی اس موجودگی کو اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی اور عالمی اتھارٹی میں اضافے کا ایک عنصر قرار دیا۔

ارنا کے مطابق، قطر کے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل نے ایران کے انتخابات کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہ ایرانیوں نے آج پارلیمنٹ کے اراکین اور گارڈین کونسل کے انتخاب کے لیے الیکشن میں حصہ لیا۔

رائے دہندگان میں سے 34 سالہ ناصر رنجبر نےالجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور کہا کہ ان کے انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد رہبر کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔

 الجزیرہ نے آج کے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول اصول پسند، ریفارمرز(اصلاح پسند) اور موڈیریٹرز(اعتدال پرست) کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے پیش گوئی کی کہ اصول پسند اگلی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے۔

گارڈین نامی انگریزی اخبار نے ایران میں الیکشن کی شرائط میں نرمی اور گارڈین کونسل یے انتخابات میں گزشتہ ادوار کے مقابلے زیادہ افراد کی شرکت کو ہائی لائٹ کیا۔

گارڈین نے ایران میں گزشتہ سال کی بدامنی کا حوالہ دیتے ہوئے آج کے الیکشن کو ایرانی عوام کے اسلامی جمہوریہ ایران کی قانونی حیثیت کے لیے ووٹ اور خطے اور دنیا میں اس کی طاقت میں اضافے کا سبب قرار دیا۔

امریکی ٹی وی چینل اے بی سی نیوز نے ووٹ کاسٹنگ کے وقت رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات کی مکمل کوریج کی اور لکھا کہ ایران کی قیادت / رہبر نے انتخابات میں شرکت کو دوستوں کی خوشی اور دشمنوں کے غم کی وجہ قرار دیا۔

اس امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں ایرانی پارلیمنٹ امریکہ مخالف لوگوں کے کنٹرول میں رہی ہے اور ایرانی عوام نے آج انتخابات میں حصہ لیا تاکہ 15ہزار امیدواروں میں سے 290 نمائندوں کو منتخب کیا جا سکے۔

اے بی سی نیوز نے پارلیمنٹ میں مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ پارلیمنٹ میں 5  نشستیں مذہبی اقلیتوں کی ہیں۔

ایران کی اقتصادیات اور سماجی و سیاسی حالات کو انتخابات سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے روئٹرز نے لکھا کہ ایرانیوں نے جمعے کے روز انتخابات میں حصہ لیا اور یہ انتخابات اسلامی جمہوریہ کی حکومت کی قانونی حیثیت کا امتحان ہے۔

سی این این کے مطابق، ایران کے انتخابات میں حصہ لینا فلسطینی مزاحمت کو ووٹ دینا ہے۔

امریکی ٹیلی ویژن چینل CNN نے ایران میں ہونے والے انتخابات اور غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی مزاحمت کے علامتی اثرات کا ذکر کیا۔

اس امریکی ٹی وی چینل نے لکھا کہ ایران کے اکثر عوام اسرائیل مخالف جذبات رکھتے ہیں اور غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے خلاف ہیں اور انتخابات میں شرکت کو مزاحمت کے لیے ووٹ سمجھتے ہیں۔

آج کے انتخابات میں لوگوں کی بڑی شرکت کا حوالہ دیتے ہوئے اس میڈیا نے پیش گوئی کی کہ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں شرکت کی شرح دیگر علاقوں کے مقابلے زیادہ ہوگی۔

ایسے حالات میں جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور غاصب صیہونی فوج اور اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس میں فوجی جھڑپیں انجام پا رہی ہیں اور ہر لمحہ غزہ کے جنوبی شہر رفح پر ممکنہ فوجی حملے سے اس جنگ میں وسعت کا امکان پایا جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین سے موصول ہونے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں انتہاپسند صیہونی کابینہ ماہ مبارک رمضان کی آمد کے قریب مسجد اقصی کیلئے ایک نیا سکیورٹی پلان تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اگر یہ خبر حقیقت پر مبنی ہو اور صیہونی حکمران واقعی اس طرح کا منصوبہ لاگو کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پورے خطے اور حتی پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف وسیع جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔
 
ماہ مبارک رمضان کیلئے غاصب صیہونی کابینہ کے اس نئے سکیورٹی پلان کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکمران اس مبارک مہینے میں فلسطینی مسلمانوں پر مسجد اقصی میں داخل ہو کر عبادت کرنے کے خلاف ایسی پابندیاں عائد کرنے جا رہے ہیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ ابھی صرف اس منصوبے کی خبر آئی ہے اور اسی نے فلسطینیوں میں شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ البتہ بات صرف اس حد تک نہیں ہے اور مسجد اقصی سے متعلق صیہونی رژیم کے ممکنہ سکیورٹی پلان کے خلاف ظاہر ہونے والے شدید ردعمل نے خود صیہونی حکمرانوں کو بھی شدید ہراساں کر ڈالا ہے اور وہ سکیورٹی صورتحال کے مزید بحرانی ہو جانے سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ یہ سکیورٹی منصوبہ صرف مغربی کنارے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ 1948ء کی سرزمینوں میں مقیم فلسطینی مسلمانوں کو بھی شدید متاثر کرے گا۔
 
اگر یہ مسئلہ بحرانی صورتحال اختیار کر جاتا ہے تو چونکہ اس سے متاثر ہونے والے فلسطینی مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لہذا ایسے حالات میں ماضی کی نسبت زیادہ بڑا اور خطرناک بحران پیدا ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ مسجد اقصی کے بارے میں غاصب صیہونی رژیم کے اس نئے سکیورٹی پلان کی وجوہات کا جائزہ لینے کیلئے اس کے اصلی محرکات کو جاننا ضروری ہے۔ یہ منصوبہ نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہاپسند اور نسل پرست وزیر اتمار بن گویر نے تیار کیا ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے ماہ مبارک رمضان میں فلسطینی مسلمانوں کے مسجد اقصی میں داخل ہونے پر پابندی کا منصوبہ تیار کیا اور اسے نیتن یاہو اور کابینہ کو پیش کیا۔ لیکن اس بحران کی شدت میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو گیا جب نیتن یاہو نے اس منصوبے کی منظوری دے دی اور اسے لاگو کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
 
دوسری طرف تازہ ترین رپورٹس کے مطابق مسجد اقصی سے متعلق یہ نیا سکیورٹی پلان صیہونی رژیم کے اعلی سطحی حکومتی اور فوجی حکام کی میٹنگ میں بھی منظور کر لیا گیا ہے اور اسے ماہ مبارک رمضان میں لاگو کرنے کا حتمی فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح اس منصوبے میں یہ بھی طے پایا ہے کہ ماضی میں ماہ مبارک رمضان میں فلسطینی مسلمانوں پر عائد کی جانے والی ہمیشہ کی پابندیوں کے ساتھ ساتھ بعض نئی پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتمار بن گویر کے اس سکیورٹی پلان کا صیہونی کابینہ کی جانب سے اب تک باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا لیکن کچھ صیہونی میڈیا ذرائع کے مطابق اسرائیل کے حساس ادارے بھی اس منصوبے کے بارے میں وزراء کونسل کو اپنی تجاویز پیش کریں گے۔
 
البتہ صیہونی حکام نے اعلان کیا ہے کہ یہ منصوبہ ماہ مبارک رمضان کے پہلے ہفتے میں تجرباتی بنیادوں پر لاگو کیا جائے گا اور اس کے بعد حاصل ہونے والے نتائج کی روشنی میں اس کی مدت بڑھانے کا جائزہ لیا جائے گا اور مثبت نتائج کی صورت میں ماہ مبارک رمضان کے آخر تک لاگو رہے گا۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے سے آنے والے فلسطینی مسلمانوں کو مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے سے روکنا، چالیس سال سے کم عمر کے مردوں کو مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا، مسجد اقصی جیسے مقدس مقام کے اندر پولیس تعینات کرنا نیز صرف 70 سال سے زائد عمر رکھنے والے فلسطینوں کو مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اجازت دینا، اتمار بن گویر کے پیش کردہ اس نئے سکیورٹی پلان کا حصہ ہیں۔
 
مذکورہ بالا مطالب سے ظاہر ہوتا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف پابندیوں کی سطح میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکمران فلسطینی مسلمانوں کے خلاف زیادہ سختی والے اقدامات انجام دینا شروع ہو گئی ہے۔ آخری نکتہ یہ کہ مسجد اقصی سے متعلق غاصب صیہونی رژیم کا نیا سکیورٹی پلان جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو اس نے ابھی سے فلسطینی اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس بارے میں ابھی پورے اطمینان سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ماہ مبارک رمضان کے آغاز میں جب یہ سکیورٹی پلان لاگو کیا جائے گا تو مسلمانوں کی جانب سے کس قسم کا ردعمل سامنے آئے گا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مندرجہ بالا اقدامات اسرائیل کی غاصب اور ناجائز رژیم اور حماس کے درمیان جنگ کو خطے اور دنیا کے مسلمانوں کے خلاف ایک وسیع جنگ میں تبدیل کر ڈالیں گے۔

تحریر: علی احمدی

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بزرگ عالم دین مرحوم آيت اللہ الحاج شیخ محمد امامی کاشانی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر میں ان کے محترم اہل خانہ، پسماندگان، شاگردوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔

یہ متقی و خدمت گزار عالم دین، طویل عرصے تک، چاہیے انقلاب سے پہلے جدوجہد کرنے والے علمائے دین کے ساتھ یا انقلاب کے بعد شوری نگہبان، مجلسِ خبرگان، امام جمعہ تہران کی حیثیت سے خدمات، ادارۂ برائے اسلامی تبلیغات اور حوزہ علمیہ شہید مطہری کے سربراہ جیسے حساس منصبوں پر ملک اور اسلامی جمہوری نظام کی خدمت میں مصروف رہے ہیں اور امید ہے کہ ان کی یہ ساری نیکیاں، بارگاہِ پروردگار میں قبول و منظور قرار پائیں گی۔ خداوند عالم اپنی رحمت و مغفرت، مرحوم و مغفور کے شامل حال فرمائے۔

سید علی خامنہ ای

3 مارچ 2024ء

انسان کو اسمائے الہٰی کا مظہر کہا جاتا ہے۔ خداوند کریم نے انسان کو اپنا نائب بنایا تو اس کو اپنی صفات بھی ودیعت کیں، تاکہ اس منصب کے ساتھ عدل ہو اور ان صفات کو نکھار کر ہی انسان کمال حاصل کرسکتا ہے۔ چونکہ یکتائی صرف خدا کی ذات کو زیبا ہے اور اسی کا حق ہے، اس لیے اس نے کائنات میں موجود ہر چیز کو جوڑوں میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب مبین میں فرماتا ہے: "وَمِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَيۡنِ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ"، "اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں، تاکہ تم نصیحت پکڑو" (الذاريات:49)

اسی طرح انسان کو بھی اس نے جوڑے کی صورت میں پیدا کیا۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس میں سے مذکر اور مؤنث بنائے۔ یعنی ایک کامل مرد اور ایک کامل عورت کے ملاپ سے ہی "انسان کامل" وجود میں آتا ہے۔ کمال انسانی تک تنہاء مرد یا تنہاء عورت کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ معاشرے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ جب مرد اور عورت کو اتنی زیبائی سے خدا نے لازم و ملزوم قرار دیا ہے تو ان کے تعلق میں یہ خوبصورتی نظر کیوں نہیں آتی؟ یہ ایک دوسرے کی ارتقا و کمال کا موجب کیوں نہیں بنتے؟ کیوں ایک دوسرے سے اتنا بےزار ہیں۔؟

ایک جواب جو میری ناقص عقل میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی حقیقت اور فطرت سے ناآشنا ہیں۔ جیسے اقبالؒ کہتے ہیں:
تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے
یہاں ہر ایک دوسرے جیسا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر ایک دوسرے سے برتر ہونے کی کاوش میں مصروف ہے۔ جیسے کوئی دوڑ لگی ہو کہ WHO IS SUPERIOR? دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے ہم خود اتنا نیچے گر جاتے ہیں کہ اپنی ضروریات اور انفرادیت فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ آج میں یہاں فقط "انثی" کی بات کروں گی، کیونکہ میرا تعلق بھی اس صنف سے ہے اور میرا موضوعِ سخن بھی فی الحال یہی ہے۔

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے، مگر اس مصرعے کو سن کر میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ یہ عورت جس کی بدولت کائنات رنگین ہے، اس کا اپنا رنگ کیا ہے؟ اس کی شناخت اور اس کا مقام بحیثیت عورت کیا ہے۔؟ یہ سوالات ہر عورت کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے! موجودہ دور میں عمومی طور پر عورت کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ پہلی قسم کو "مشرقی عورت" کا نام دیتے ہیں اور اس کے تمغوں کی لسٹ میں رجعت پسندی، قدامت پسندی، فرسودہ سوچ اور غلامی آتے ہیں۔ یہ عورت ماضی کی روایات کی اندھی مقلد ہے اور یہ وہ گائے ہے، جسے جس مرضی کھونٹی سے باندھ دو، اسکو فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اسکی زندگی کا نہ کوئی مقصد ہے، نہ اسے اپنے مقام کا فہم ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک Dependent مخلوق ہے، جو نہ اپنے لیے کچھ کر سکتی ہے، نہ معاشرے کے لیے، چونکہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں منجمد ہوچکی ہیں۔۔۔

اس کے مقابلے میں دوسری قسم جو چمکیلی، بھڑکیلی "مغربی عورت" کی ہے، جو اس خام خیالی میں ہے کہ اس نے روایاتِ ماضی سے خود کو آزاد کروا لیا ہے اور وہ اپنی مرضی کی مالک ہے۔ اس لئے وہ "میرا جسم، میری مرضی" کے بےبنیاد نعرے لگا کر اپنی بےچارگی کا اظہار کرتی ہے، مگر اس نادان کو یہ نہیں معلوم کہ درحقیقت اس نے فقط چادر و عفت سے خود کو آزاد کیا ہے، وہ بھی کروایا گیا ہے۔ اس کا ذہن، اس کی فکر اور اس کی زندگی ابھی بھی مقید ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا کہ قیدخانہ بدل گیا۔ پہلے وہ ماضی کی فرسودہ روایات کی اسیر تھی، اب وہ سرمایہ دار طبقے اور استعمار کے لیے ایک کھلونا ہے، جسے وہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ دونوں صورتوں میں عورت کا اصل رنگ کونسا ہے؟ اس کی اپنی شناخت کونسی ہے؟ اور عورت کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ مشرقی یا مغربی رنگ اپنائے۔؟

تحریر: سیدہ مرضیہ زہرا نقوی
کوآرڈینیٹر رائٹنگ کلب ہوپ سوسائٹی پاکستان

اسلام ٹائمز۔ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کے دوران امریکی فضائیہ کے پائلٹ آرون بشنیل کی خود سوزی کے ردعمل میں فلسطینی گروہوں نے اعلان کیا کہ یہ واقعہ امریکی حکومت کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف غاصبانہ جرائم میں براہ راست شرکت بند کرے۔ اسی تناظر میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے فلسطینی تحریک حماس نے اس امریکی پائلٹ کے اہل خانہ اور لواحقین کے ساتھ تعزیت اور مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو ہارون بشنیل کی خود سوزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ آرون بشنیل نے انسانی اقدار کے محافظ اور مظلوم فلسطینی قوم کے ظلم و جبر کے طور پر اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر دیا، بالکل اسی طرح جیسے 2003 میں رفح میں اسرائیلی بلڈوزر کی زد میں آ کر "ریچل کوری" نامی ایک امریکی کارکن ہلاک ہو گئی تھی۔ رفح وہی شہر ہے جس کے لیے بشنیل نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے امریکی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ مجرم صہیونی فوج کو رفح پر حملہ نہ کرنے دے۔

واضح رہے کہ ریچل کوری ایک 23 سالہ امریکی لڑکی تھی، جسے 16 مارچ 2003 کو فلسطین میں اسرائیلی بلڈوزر نے برے طریقے سے کچل دیا تھا، جب وہ رفح شہر میں فلسطینیوں کے مکانات کی تباہی کے دوران صیہونی حکومت کی کاروائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھی۔ یہ اس حقیقت ہے کہ امریکی حکومت کو ریچل کوری کے امریکی کارخانوں کے تیار کردہ بلڈوزر تلے کچلے جانے پر کبھی احساس نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے افسوس کا اظہار کیا۔ حماس نے زور دے کر کہا ہے یہ المناک واقعہ جس کی وجہ سے بشنیل اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، امریکی عوام میں بڑھتے ہوئے غصے کو ظاہر کرتا ہے، جو اپنے ملک امریکہ کی اس پالیسی سے ناراض ہیں کہ ان کی حکومتیں فلسطینی عوام کو قتل اور تباہ کرنے میں مدد دیتی ہیں اور یہ انسانی اقدار کی سنگین خلاف ورزی ہے، اسی طرح امریکی حکومت قابض صیہونی حکومت کے نازی رہنماؤں کو مدد اور سیکورٹی فراہم کرکے ان پر مقدمہ چلائے جانے اور سزا دلوانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ اس امریکی فوجی کا فلسطین کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا سب سے بڑی قربانی ہے اور امریکی حکومت کے لیے ایک موثر پیغام ہے کہ وہ فلسطین میں نہتے عوام کے خلاف قابض صیہونی گورسز کے جرائم میں براہ راست شرکت سے باز رہے، اس امریکی پائلٹ کی خود سوزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونیوں کی نسل کشی میں امریکہ کی مداخلت پر امریکی عوام کس قدر غصے میں ہیں اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اب عالمی اور اہم ایشو بن چکا ہے، خاص طور پر امریکی حلقوں میں، یہ واقعہ وحشی سامراج کے ہاتھوں میں استعماری آلہ کار کے طور پر صیہونی حکومت کی اصل نوعیت کو دنیا پر آشکار کرتا ہے۔

قبل ازیں نیویارک ٹائمز نے امریکی فضائیہ کے پائلٹ ایرون بشنیل کی غزہ میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کی خبر دی تھی، غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے امریکہ میں تل ابیب کے خلاف مظاہرے تقریباً روز کا معمول بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ویڈیو میں فوجی وردی پہنے ہوئے، بشنیل نے ایک لائیو ویڈیو میں اعلان کیا کہ میں اب اس نسل کشی میں حصہ نہیں لوں گا، اس کے بعد اس نے اپنے اوپر ایک صاف مائع انڈیلا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے کہا کہ فلسطین آزاد کرو۔ اس کے علاوہ دسمبر میں غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم اور اس علاقے کے بے گناہ لوگوں کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک خاتون نے اٹلانٹا میں صیہونی حکومت کے قونصل خانے کے باہر خود کو آگ لگا لی تھی۔

صیہونی حکومت کی غزہ پر جاری جارحیت کو 140 دنوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جنگ کو روکنے کے لیے غیر نتیجہ خیز بین الاقوامی کوششوں کے درمیان غزہ کے شہری مختلف قسم کے انسانیت سوز جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے اطلاع دی ہے کہ انہیں "معتبر اور قابل اعتماد" شواہد ملے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین اس واقعہ کے مزید پہلوؤں کو واضح کرنے کے لیے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گارڈین اخبار کے مطابق اقوام متحدہ کی ماہر کمیٹی نے بتایا کہ کم از کم دو کیسز ریپ اور دیگر کیسز میں جنسی تشدد، تذلیل اور ریپ کی دھمکیوں کے باقاعدہ شواہد ملے ہیں۔

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ریم السلم نے کہا کہ جنسی تشدد کی حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہوسکتا ہے کہ ہم متاثرین کی صحیح تعداد کو طویل عرصے تک نہ جان سکیں۔" انتقام کے خوف سے جنسی حملوں کے واقعات کی رپورٹنگ میں پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ میں فلسطینی خواتین، بچوں اور شہریوں کے ساتھ تشدد اور غیر انسانی سلوک اب ایک معمول بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے گذشتہ پیر کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہم خاص طور پر ان رپورٹس سے پریشان ہیں کہ حراست میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو بھی جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، مرد اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فلسطینی خواتین کو برہنہ کرنا اور تلاشی لینا بھی اس میں شامل ہے۔

غزہ میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 30،000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔ دوسری طرف بعض ماہرین ان رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ خودسرانہ سزائے موت کے خطرے سے دوچار کیا جاتا ہے، جن میں اکثر بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ "ان میں سیکڑوں انسانی حقوق کے محافظ۔ اور صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین کو غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک اور شدید مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں ماہواری کے دوران ضروری حفظان صحت کی اشیاء، خوراک اور ادویات کی فراہمی سے  بھی انکار کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے  کہ "ہم فلسطینی خواتین اور بچوں کو ان مقامات پر جہاں انہوں نے پناہ لی ہوتی ہے، دانستہ طور پر نشانہ بنانے اور غیر قانونی طور پر قتل کرنے کی خبروں سے حیران و پریشان ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بعض اوقات ایسے بھی ہوا کہ ان میں سے کچھ  فلسطینیوں نے سفید کپڑے (ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر) اٹھائے ہوئے تھے، اس کے باوجود انہیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی۔ ان نامہ نگاروں میں سے ایک نے فرانس 24 ٹی وی کو فلسطینی لڑکیوں اور خواتین کی جانب سے ملنے والی انتہائی چونکا دینے والی شہادتوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کا کہنا ہے ’’ہم تک پہنچنے والی رپورٹس کے مطابق غزہ میں فلسطینی خواتین اور لڑکیوں کو من مانی طور پر انفرادی یا گروہی طور پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہ خاندان کے افراد کے ساتھ اور کبھی کبھی اپنے بچوں کے ساتھ قتل کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے زیادہ واقعات دسمبر 2023ء اور جنوری 2024ء میں پیش آئے۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے اور غزہ میں غیر قانونی اور من مانی حراستوں میں خواتین کی وسیع پیمانے پر موجودگی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے اور غزہ میں گرفتار ہونے والی خواتین کو رات کے لباس  میں گھروں سے سڑکوں پر لے جایا گیا اور بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے انہیں حماس سے وابستہ جنگجو قرار دیا گیا۔

حماس کا موقف
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے اقوام متحدہ سے بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے جواب میں ایک بیان میں کہا کہ یہ جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے علاوہ ہیں، جو قابضین  اور نیتن یاہو کو جنگی مجرم ثابت کرتے ہیں۔ نیتن یاہو کی نازی فوج ہمارے لوگوں کے خلاف اس طرح کے متعدد جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ قابض فوج فلسطینی خواتین کے خلاف جنسی جارحیت کے علاوہ خود سرانہ پھانسیاں، من مانی گرفتاریاں، شدید مار پیٹ اور دوران حراست خوراک اور ادویات سے محروم کرنے جیسے اقدام کو جائز سمجھتی ہے۔ تحقیقات کے دوران عصمت دری اور توہین کی دھمکیوں کے علاوہ کئی غیر انسانی اقدامات سامنے آئے ہیں۔

حماس اس بدمعاش حکومت کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے رہنماؤں کو ان کے وحشیانہ جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ واضح رہے کہ حالیہ رپورٹ واحد اور پہلی رپورٹ نہیں ہے، جس میں حالیہ جنگ کے دوران فلسطینی خواتین کے خلاف منظم جرائم کے امکان کا اعلان کیا گیا ہے، جیسا کہ اس سے قبل دسمبر 2023ء میں فلسطینی العودہ مرکز نے ایک بیان میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں عصمت دری اور جنسی تشدد کے واقعات سے مطلع کیا تھا۔ اس مرکز نے قابض فوج اور اس کے سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے جنسی حملوں کی طویل تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے اکثر فوجیوں کو سزا نہیں ملتی۔

بہت سی فلسطینی لڑکیاں اور خواتین اس مسئلے کے بارے میں شکایت کرنے کو تیار نہیں ہیں، کیونکہ اس کا تعلق ان کی عزت و آبرو اور ان کے خاندانوں سے ہوتا ہے، وہ ان جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف شکایت کرنے اور عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتیں، تاہم 2017ء میں ایک فلسطینی خاتون کی شکایت کے بعد مغربی کنارے میں اسرائیلی حراستی مراکز میں خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ حراستی مرکز میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور جنسی زیادتی سے متعلق اس خاتون کے چونکا دینے والے اعترافات کے بعد، "Haaretz اخبار" کے معروف اسرائیلی صحافی امر اورین نے 3 اپریل 2016ء کو ایک رپورٹ شائع کی، جس میں فوجی استغاثہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیلی فوج کی آرکائیو اور دستاویزات میں فلسطینی قیدیوں کے قتل، ان پر حملہ اور عصمت دری سمیت مختلف جنگی جرائم کے شواہد ملے ہیں۔

ان جرائم پر صہیونی حکام نے جرائم کے مرتکب افراد کو سزا دیئے بغیر ان کیسز پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس فلسطینی خاتون کو ان بے شمار مقدمات میں سے ایک قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوئی کہ عصمت دری اور جنسی حملے خاص طور پر خواتین کے خلاف منظم طریقے سے ہوتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی نے فلسطینی خواتین کے خلاف تشدد اور عصمت دری کے جائز ہونے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج کے چیف ربی "عیال کریم" نے "اسرائیلی فوجیوں کے لیے جنگ کے دوران فلسطینی خواتین اور لڑکیوں یعنی غیر یہودی خواتین کی عصمت دری کرنا جائز قرار دیا ہے۔"

بین الاقوامی عدالتوں میں فلسطینی خواتین کی عصمت دری کی پیروی
اقوام متحدہ کے نامہ نگاروں کی حالیہ رپورٹ غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کی طرف سے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کے بارے میں ایک وسیع اور مفصل بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ایک روزن اور ثبوت ثابت ہوسکتی ہے۔جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے بارے میں ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت کے بعد گذشتہ ہفتوں میں اس عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس عدالتی کارروائی نے حالیہ جنگ کے دوران غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیل کے جرائم کے خلاف دوسرے ممالک کی طرف سے مزید شکایات کے لیے راستہ کھول دیا ہے۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے آئین (آرٹیکل 7 کے پیراگراف 1) میں واضح طور پر جنسی تشدد کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس شق سے مراد عصمت دری، جنسی غلامی، جبری جسم فروشی، جبری حمل، جبری نس بندی یا کسی بھی طرح کا جنسی تشدد ہے۔

اس کے علاوہ، چوتھے جنیوا کنونشن (1949ء) اور اس کے ضمیموں میں، خواتین کے خلاف پرتشدد رویئے کی مذمت پر کئی بار زور دیا گیا ہے، اس بین الاقوامی دستاویز کے پیراگراف 27 میں، خواتین کے وقار کی خلاف ورزی، عصمت دری، جبری جسم فروشی اور کسی بھی خلاف عصمت و عفت اقدام کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جنگوں میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کو بڑھانے کے لیے کئی دیگر کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ویانا اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو جون 1993ء میں انسانی حقوق کی عالمی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی طرح بیجنگ اعلامیہ اور رہنماء خطوط، جو ستمبر 1995ء میں خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس کے ذریعے جاری کیے گئے تھے، اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان دونوں میں عورت کی تذلیل اور خواتین کے جنسی تشدد کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

صہیونی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت کی وجہ سے ہیگ کی عدالت کے حالیہ فیصلے سمیت بین الاقوامی فیصلوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔صیہونی تمام دنیا کی مخالفت کے باوجود رفح میں شہریوں پر نئے حملوں کی بڑی ڈھٹائی سے تیاری کر رہے ہیں۔ بہرحال جنگی جرائم کا کمیشن صیہونی حکومت کی حمایت کرنے والے ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنے کے لئے صیہونی مظالم کی حمایت کرنے والے ممالک کے سیاسی حکام اور تل ابیب کے رہنماؤں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرے، تاکہ انہیں ان کے اعمال کی سزا دی جاسکے۔
 
 ترتیب و تنظیم: علی واحدی