سلیمانی

سلیمانی

امن تعلقات کو معمول پر لانے ،جھگڑوں سے پرہیز کرنے  اور تمام فریقوں کا تناو کو ختم کرنے کا نام ہے۔اگر اسے عام اور سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ امن دراصل دوسرے فریق کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی حالت کو کہتے ہیں۔

امن ہی اصل زندگی ہے جنگ ایک غیر عادی امر ہے،امن ایک ہمیشہ رہنے والی حقیقت ہے اور جنگ آنےجانے والی جزئی ہے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امن زندگی اور جنگ موت کا نام ہے۔ شریعت اسلامی نے مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے درمیان اصل امن کو قرار دیا ہے۔جنگ کو دشمنی روکنے،دین،مال اور جسموں کے حفاظت کے لیے ہی کرنے کا کہا ہے۔

عربی میں امن کو السلام کہتے ہیں اور "السلام" اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس لیے یہ بھلائی اور سخاوت کا نشان ہے۔ جیسے اللہ کے اسمائے حسنی میں سے ایک دار السلام ہے یہ لفظ بھلائی،محبت اور لطف پر دلالت کرتا ہے ۔ جب مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک کہتا ہے السلام علیکم اور دوسرا جواب دیتا ہے وعلیکم السلام ۔ اسلام وہ دین ہے جو امن پر یقین رکھتا ہے اور جنگ،قتل اور افرا تفری سے روکتا ہے اسلام امن کو زندگی اور جنگ کو موت قرار دیتا ہے۔اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے کہ یہ زندہ رہیں نہ یہ کہ قتل و غارت کریں اور مر جائیں۔اس بنیاد پر اللہ امن کے ساتھ ہے اور جنگ والوں کے ساتھ نہیں ہے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے اسلام امن کو پسند کرتا ہے اور اسی کو چاہتا ہے تو نبی اکرمﷺ نے کفار اور مشرکین سے جنگیں کیوں کیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ جنگ جس میں نبی اکرمﷺ شامل ہوئے وہ دفاعی جنگ تھی اقدامی جنگ نہیں تھی جیسے جنگ بدر و احد اور دوسری جنگیں۔اسلام اس وقت بالکل نیا نیا تھا اور جو بھی آغاز کر رہا ہو اس کی ابتداء میں قوت کم ہوتی ہےایسے وقت میں اگر وہ چیلنجز کا مقابلہ نہیں کرتا تو اس کے آس پاس موجود  دشمنوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ  وہ اسے ختم کر دیں۔اس لیے آغاز میں اسلام نے جہاد پر اعتماد کیا،  اس لیے نہیں کہ اس کے ذریعے دوسروں پر حملہ کیا  جائے بلکہ اس لیے کہ  دوسروں کے حملوں سے خود کو بچایا جائے ۔

جہاد کے کافی فوائد ہیں ہم ان میں سے اہم کو ذکر کرتے ہیں:

۱۔جب کفار و منافقین نے  مسلمانوں کی تیاری اور ان کی قوت دیکھی کہ وہ دفاع کر سکتے ہیں تو خوفزدہ ہو گئے اور ان کے سامنے آنے سے قطرانے لگے یہیں سے امن متحقق ہوتا ہے۔

۲۔اگر وہ اسلام میں داخل ہونے سے انکار کرتے ہیں تو  انہیں جزیہ دینا پڑے گا۔

۳۔وہ ان کفار کی مدد سے اجتناب کریں گے جو  مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں۔

۴۔یہ بھی ہوتا ہے کہ  خوف ان کی دشمنی کو کم کرے دے اور وہ اسلام کو قبول کر لیں۔

جہاد کی اقسام :جہاد کی دو اقسام ہیں

۱۔جہاد دفاعی یعنی اپنا دفاع کرنا ،اس  کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں ہے کہ  مسلمانوں  اور ان کی  زمینوں سے  دشمنوں کو بچانے کے لیے جہاد کیا جاتا ہے۔اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(سورہ الحج۔۳۹)

 جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

۲۔جہاد طلبی ،اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اس  میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنا،پھر انہیں اسلام کی دعوت دیتا  کہ وہ اسلام  قبول کر لیں،اب یہ ان پر ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا اپنے دین پر باقی رہیں یہ بھی درست ہے۔

اسلام نے روم و فارس سے جنگ کیوں کی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فارس اور روم دو بڑی طاقتیں تھی جو باہم جنگیں کرتی رہتی تھیں ان دونوں طاقتوں کی عرب مملکت کی اسلامی زمینوں پر نطر تھی ،اسی لیے ان کا جواب دینا اور ان کی توسیع پسندی کو روکنا ضروری ہو گیا تھا کہ ان پر اچانک حملہ کر کے ان کے مراکز کو تباہ کر دیا جائے ۔ماہرین یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر پہلے حملہ کرنا پیچھے رہ کر حملہ کے انتظار کرنے سے بہتر دفاع ہوتا ہے۔ ماہرین جنگ یہ کہتے ہیں کہ آگے بڑھ کر حملہ کرنا دشمن کےمنصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ اسلام جنگ،قتل وغارت اور دشمنی پر یقین نہیں رکھتا اورنہ ہی اسے کسی کے مال و دولت میں کوئی دلچسپی ہے اس لیے اسلام نے جو جنگیں کی ہیں وہ سب کی سب دفاعی جنگیں تھی کوئی بھی اقدامی جنگ نہیں تھی۔

 

اسلامی ثقافت کی تاریخ اور مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے تحقیق کاروں کے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کی خصوصیات نے بہت سارے ممالک اور شہروں میں رہنے والوں پر بہت سے آثار مرتب کئے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور ان کے آثار کو دیکھ کر لوگوں میں نہ صرف روحانی اعتبار سے تبدیلی آئی ہے بلکہ ان کی سوچ، فکر اورسماج پر ایک واضح تبدیلی آگئی ہے۔

دین اسلام تمام مذاہبِ عالم سے کامل و جامع اور آخری دین ہے۔ اس آخری اور کامل دین کے آثار ہر جگہ موجود ہیں۔ چونکہ ثقافت ِ اسلامی جامعیت اور جدیدیت پر مشتمل ثقافت ہے اس لئے دنیا میں موجود دیگر ثقافتوں کی نسبت اسلامی ثقافت میں وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ ثقافت انسانی رویوں، عادتوں، ذاتی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔  دین اسلام کے  پیرو کار  ہمیشہ احکام خداوندی  کی تعمیل  کے ساتھ  ان حقیقی راہوں پر گامزن ہوکر ان خصوصیات کو اپنے اندر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رضایت شامل ہو۔اسی لئے مسلمانوں کی نشست و برخاست اور اطاعت و بندگی غرض ان کے ہر سماجی و اخلاقی افعال میں ایک اعلیٰ رنگ نمایاں نظر آتا ہے، اس کو ثقافت اسلامی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت بھی الٰہی حکم کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔سماج میں مل جل کر بیٹھنے اور اسلام کی اصل راہوں پر چلنے سے اس معاشرے میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی فکری، عملی زندگی میں نہ صرف تبدیلی آجاتی ہے بلکہ قلبی طور پر وہ لوگ متاثر ہوکر انہی اسلامی راہوں اور تقاضوں کو اپنالیتے ہیں اور اس سے ایک بڑا مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اسلامی ثقافت ایک مستحکم، لازوال اور فطرت سے ہم آہنگ ثقافت ہے اس لئے یہ کبھی بھی ختم یا معدوم نہیں ہو سکتی۔ جبکہ دیگر ثقافتوں میں  کوئی دوام و بقا نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت دین اسلام کی طرح جامع اور لافانی ثقافت ہے۔ اس کی بنیاد عدل و انصاف اور شعورپر قائم ہے۔ مرور زمن کے ساتھ جدید رنگوں، اصولوں اور خیالوں کو منظم انداز میں اپنے اندر شامل کرنے کی وسعت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلامی ثقافت مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی قابل قبول ہے۔ جبکہ دیگر ثقافتوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ صرف اپنی اقوام وغیرہ کے ساتھ محدود نظر آتی ہیں۔ آخر الامر ان اقوام اور زمانوں کے گزرنے کے ساتھ  یہ تمام غیر اسلامی ثقافتیں معدوم ہوجاتی ہیں۔

اگر ہم اسلامی ثقافت کو دیگر ثقافتوں سے موازنہ کرے تو ہمیں واضح ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں کوئی جبرو اکراہ کا پہلو نہیں ہے۔ اسی لئے غور و فکر کرنے والے  لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن دیگر ثقافتوں سے لوگ نالاں اور گریزاں نظر آتے ہیں۔ اسلامی ثقافت، جس میں آزادی اور انسانیت کی عظمت اور فلاح کے لئے اصول پائے جاتے ہیں اور دوسری ثقافتوں میں ظلم و بربریت وغیرہ کا پہلو نمایاں نظر آتا  ہے۔ اسلامی ثقافت کی عمارت توحید کی بنیاد پر قائم ہےاس میں ذاتی اور اجتماعی عادات واطوار کے اصول منظم طریقے سے مرتب کئے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری ثقافتوں کی بنیاد جبر، ظلم اور ستم پر ہوتی ہے اور اس کا انجام و عاقبت اچھی نہیں ہوتی۔

اسلامی ثقافت اخلاق سے آراستہ ہے اور اخلاق کی نسبت سے ہی وہ ممتاز ہے۔ دنیا کے کسی ایسے معاشرے میں جہاں قانون ناپید ہو اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہوں وہاں اسلامی ثقافت کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔اسلامی ثقافت کی ایک خوبی خوشدلی ہے یعنی انفرادی واجتماعی تعلقات میں سامنے والے کو خوشحالی کے ساتھ قبول کرنا ہے۔جبکہ دیگر ثقافتیں پستی اور قید کاشکار ہیں جو انفرادی طور سے منفی اثرات مرتب کرتی ہے،بلکہ یہ اپنے ماننے والوں کے لئے دوسروں کے خلاف اس طرح بدگمانی پیداکرتی ہے۔

اسلامی ثقافت کے اندر یکساں روحانی وجسمانی توازن کا تصور موجود ہے جودراصل دین اسلامی کا معیار ہے۔یہاں روح جسم سے الگ نہیں ہے اورنہ ہی بشری جسم کو روح پر کوئی فوقیت حاصل ہے،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں کے اپنے حقوق موجود ہیں بشری تقاضے کے مطابق جس کے اثرات اس کے ماننے والوں پرجسمانی اور روحانی اعتبار سے پڑتے ہیں ،جو انسان کی ضروریات کے توازن قائم کرتا ہے۔ دین اسلام جہاں دنیا سنوارنے کی تاکیدکرتا ہے وہاں آخرت کی درستگی اور خیر کی آرزو رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ دین اسلام اپنے والوں کوایک بہترین امت قرار دیتا ہے۔جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔آل عمران:110۔

 

 

مسجد براثا کی تاریخ

یہ ایک مقدس مقام ہے جو وسط عراق میں موجود ہے، اور اس کی بہت پرانی تاریخ ہے، ابتداءِ عصورِ اسلامی میں یہ مسیحیوں کی ایک عبادت گاہ (صومعۃ) تھی، بعد میں جب اس کے راہب نے اسلام قبول کیا تو صومعہ کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔ یہ یہ واقعہ سنہ ۳۷ ہجری قمری بمطابق ۶۵۴ عیسوی میں پیش آیا۔

براثا راہب کی کہانی

روایات میں آیا ہے کہ جب امیر کائنات سرکارِ امام علی ابن ابی طالب علیھما السلام نے جنگ نہروان میں خوارج کے ساتھ ہونے والا معرکہ فتح کرکے وسط عراق میں ( جسے آج کل بغداد کہا جاتا ہے) مسیحیوں کے صومعہ کے قریب  پڑاو ڈالا، جہاں پر ایک مسیحی راہب رہتا تھا جس کا نام براثا تھا۔  آپؑ نے وہاں نماز پڑھی اور چار دن تک وہیں سکونت اختیار کی۔ انہی دنوں میں آپؑ اور اس راہب کے درمیان مکالمے بھی ہوتے رہے، اور امام علیؑ کی باتوں نے اس پر بہت ہی گہرا اثر ڈالا، اور راہب نے متاثر ہوکر مولیٰ علیؑ سے پوچھا:

کیا آپ نبی ہیں؟

امام علیؑ نے جواب دیا: نہیں میں نبی نہیں ہوں۔

براثا پھر سوال کرتا ہے: پھر آپ نبی کے وصی اور جانشین ہیں؟

امام علیؑ نے فرمایا: ہاں، میں نبی آخر الزمان کا وصی ہوں۔

ان سوالوں کے جواب سننے کے بعد راہب نے مولیٰ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، اور یہ کہا: کہ ہماری کتابوں میں ایک روایت موجود ہے جو یہ کہتی ہے اس جگہ پر نبی برحق یا اس کا وصی و جانشینِ برحق ہی نماز پڑھے گا۔

مزید کہتا ہے کہ میں نے پڑھا ہے کہ اس جگہ پر نبی برحق جو نیکوکاروں کا محافظ اور نگہبان ہے کا جانشین برحق إیلیا یعنی علی نماز پڑھے گا  وہ نبی خاتم تمام گزشتہ انبیاء اور رسولوں کا خاتم ہوں گے، اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

اس دن سے یہ صومعہ (چرچ) مسجد بن گئی ہے۔ یہ واقعہ  سنہ ۳۷ ہجری بمطابق ۶۵۴ میلادی عیسوی میں پیش آیا۔ راہب نے اسلام کو قبول کرنے کے بعد مولیٰ کے ساتھ کوفہ تک مرافقت کی۔

مسجد براثا قرن سوئم کے آواخر اور قرن چہارم کی ابتداء سے ہی شیعہ مسلمانوں کی عبادت گاہ بن گئی تھی، اور مکتب اہل البیت ؑ کے پیروکار اس وقت سے لیکر آج تک اسی میں اقامہ نماز کے ساتھ ساتھ دیگر شعائر دینی کا انعقاد کرتے آرہے ہیں۔  اور اس میں شیعوں کی مذہبی رسومات کی ادائیگی کی وجہ سے بنی عباس کے خلفاء غضبناک ہوتے رہے، یہاں تک بادشاہ مقتدر عباسی نے سنہ ۳۱۳ ہجری بمطابق ۹۲۵ عیسوی میں  اس مسجد کو گراکر زمین بوس کردیا، اور اس میں موجود مؤمنین کو یرغمال  بناکر اسیر بنایا، جب کہ اس وقت  لوگ بڑی تعداد میں نماز جمعہ پڑھنے وہاں موجود تھے۔  

پھر بہت عرصے کے بعد دوبارہ تعمیر نو کی گئی،چونکہ بنی عباس کے خلفاء ، حضرت  علی ابن ابی طالب  علیھما السلام سے دشمنی کی وجہ سے ہمیشہ مؤمنین کے تعاقب میں رہتے تھے ان کی اس وحشت اور دہشت کی وجہ سے وہاں لوگ نہیں آتے تھے، یہاں تک سنہ ۴۵۰ ہجری بمطابق ۱۰۵۸ قمری کو ان سے یہ برداشت بھی نہیں ہوسکی اوربنی عباس کے خلیفہ کے حکم پر مسجد کو مکمل طور پر بند کردیا، یوں یہ عظیم عبادت گاہ بہت عرصہ تک بغیر کسی مصلی کے باقی پڑی رہی، اوردسویں صدی میں اس کی  تعمیر نو کی گئ ۔

گزشتہ صدی سنہ ۱۳۷۵ ھجری بمطابق ۱۹۵۰ عیسوی کو مؤمنین کی ایک جماعت نے اس کی پھر سے تعمیرنو آغاز کیا، اور اس وقت یہ مسجد، قبرستان اورضمیمہ جات سمیت ۴۰۰۰ مربع میٹر رقبہ پر مشتمل ہے، اور یہ مساحت اور ایریا ماضی کی نسبت بہت ہی کم ہے۔

مسجد براثا کی اہمیت

مسجد براثا  کو ایک اہم مذہبی اور ثقافتی ورثہ شمار کیا جاتا ہے، جس کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ روایات میں اس مسجد کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور روایات کہتی ہیں بہت سارے انبیاء کرام علیھم السلام اور صالحین نے اس کی زیارت کی، ان زیارت کرنے والوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت دانیال علیہ السلام، حضرت ذوالکفل علیہ السلام، حضرت عیسی ابن مریم علیھما السلام، اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام شامل ہیں۔

مسجد کے مختلف حصے

یہ مسجد ایک بہت بڑا ہال، دو مینارے، ایک صحن، اور ایک کنویں جسے بئر امام علی علیہ السلام کہا جاتا ہے پر مشتمل ہیں۔ اسی طرح ایک قدیم مقبرہ اور بہت پرانی لائبریری جس میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں کو بھی اس میں ضم کیا گیا ہے۔ عالم تشیع کے عظیم فقیہ، ممتاز شخصیت، اور عالم اسلام کے نامور مجتہد اور سکالر شیخ مفید اسی مسجد میں قیام فرماتے تھے، شیخ مفیدؒ اپنے زمانے میں علم، تقویٰ، اور کمال میں اپنی مثال آپ تھے، شیخ مفید خود ہی اس زمانے میں فکری اور اعتقادی کے لحاظ سے ایک عظیم مکتب تھے، جس کی گواہی دوست اور دشمن سبھی دیتے ہیں، مختلف مسالک، مکاتب، اقوام اور نسلوں کے  لوگ آپ سے اپنی علمی پیاس بجھانے کی غرض اسی مسجد میں  آتے تھے، یوں شیخ مفید کی زیرسرپرستی میں یہ مسجد ہروقت علمی مباحثے، مناظرے، مکالمے اور دروس پڑھنے والے علماء اور طلباء دینی  سے بھری رہتی تھی۔ شیخ مفید نے اپنی حیات مبارکہ  میں مختلف علوم  اور موضوعاتِ  فقہیہ پر دو سو سے زیادہ کتابیں مدون کی ہیں۔

 

مسجد النور 1

مسجد النور 3

ایکنا نیوز؛ المنار نیوز چینل کئ مطابق، لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے منگل کی شام ایک تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ «Storm Al-Aqsa» کی جنگ کی ایک اہم کامیابی اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں کمی کی وجہ ہے.


 سید حسن نصراللہ نے عاشورہ کی رات کے موقع پر اپنی تقریر کے آغاز میں سوگ کی تقریب میں لوگوں کی موجودگی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی. انہوں نے حسینی سوگواروں کی حفاظت کو برقرار رکھنے پر سیکورٹی فورسز کا شکریہ بھی ادا کیا اور ان کی تعریف کی.
نصراللہ نے کل رات عمان کے دارالحکومت مسقطق کے مضافات میں سید الشہدہ (ع) کی سوگ کی تقریب میں فائرنگ کے واقعے کا مزید ذکر کیا اور اس ملک کی حکومت اور عوام سے تعزیت کا اظہار کیا.


اپنے بیان کے ایک اور حصے میں انہوں نے الاقصیٰ طوفان کے آپریشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اس آپریشن کی نعمتوں میں سے ایک اور معاون محاذوں کی یکجہتی یہ ہے کہ اس کے فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے میں مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں، جب کہ مغربی جاسوسی ایجنسیوں نے گزشتہ دہائی میں اس کے لیے (فرقہ وارانہ کشیدگی) نے منصوبہ بندی کی تھی اور اس پر اعتماد کیا تھا.
انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا افق اور نقطہ نظر واضح ہو اور ہم نے قرآنی وعدہ پر عمل کیا ہے کہ صہیونی حکومت تباہ ہو جائے گی. طوفان الاقصیٰ کی جنگ ان طویل ترین اور سب سے بڑی لڑائیوں میں سے ایک ہے جسے دشمن نے تسلیم کیا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جنگ محور اور مزاحمتی ممالک کی لڑائی ہے.
 سید حسن نصراللہ نے کہا: ہم امام حسین (ع) کے ساتھ، ان کے وارث اور صاحب عصر کے ساتھ، ان کے حقیقی نمائندے امام خامنہ ای اور اپنے شہید علماء اور رہنماؤں کے ساتھ اپنی بیعت کی تجدید کرتے ہیں، اور ہم فتوحات کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور اس طرح، ہم موت سے بالکل نہیں ڈرتے اور ہمیں اس کا کوئی خوف نہیں ہے.

 
اس نے زور دے کر کہا: جو لوگ ہمیں امریکہ، اسرائیل، مغرب اور موت سے ڈرانا چاہتے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ہم ایسے لوگ ہیں جو نہ تو جنگ سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی موت سے ڈرتے ہیں، کیونکہ جنگ جو زیادہ سے زیادہ لا سکتی ہے وہ فتح ہے یا شہادت.
 

 
 

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ صہیونی نے گذشتہ نو مہینوں سے غزہ میں جارحیت کی انتہا کرتے ہوئے اب تک تقریبا 8600 طلباء اور 500 سے زائد اساتذہ کو شہید کردیا ہے۔

سکولوں کی عمارتوں میں کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی نہیں ہورہی ہے اس کے باوجود صہیونی حکومت مسلسل حملے کرکے عمارتوں کو بھی تباہ کررہی ہے۔

کنعانی نے کہا کہ صہیونی فوج نے تازہ ترین واقعے میں غزہ کے قصبے الزیتون میں ایک اسکول پر حملہ کرکے درجنوں کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت اور اس کے مغربی آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جنایات کے ذریعے کبھی بھی غزہ میں ہونے والی شکستوں پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو حکومت اپنی بقا کے لئے جنایت اور ظلم کا سہارا لے رہی ہے تباہی اور خاتمہ اس کا انجام ہے جو کہ بہت نزدیک ہے۔

شیعہ اور سنی مآخذ و منابع میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھوٹے نواسے امام حسین (ع) کی خوبیوں، کمالات اور فضائل کے بارے میں بہت سی روایتیں بیان کی گئی ہیں. چونکہ امام حسین (ع) کی پرورش پیغمبر (ص) کی بانہوں میں ہوئی تھی اور ان کی پرورش وحی کے خاندان میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے پیارے پوتے کے بارے میں پیغمبر مقدس کی روایات کا حوالہ کافی ہے. دوسری طرف، پیغمبر (ص) کے بیانات کو دنیا میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے قبول کیا ہے، اور اس لیے امام حسین (PBUH) کے القابات کے بارے میں پیغمبر کے الفاظ  و احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے سنی، شیعہ وغیرہ سند پیش کرتے ہیں۔
اس نوٹ میں جن احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے وہ سنیوں کی اکثریت زبانی یا روحانی تعدد کے لحاظ سے قبول کرتی ہے. لہٰذا، سنیوں کے قبول کردہ ذرائع میں امام حسین (ع) کے فضائل پر نظر ڈالنا مذاہب کے میل جول اور اہل بیت (ع) کے حوالے سے شیعہ اور سنی نظریات کے اتحاد کو پیدا کرنے میں اہم ہے۔
ریحانہ النبی
بخاری کی صحیح کتاب میں، جو سنیوں کی طرف سے قبول کردہ حدیث کے سب سے معتبر ذرائع میں سے ایک ہے، اس موضوع کے ساتھ ایک روایت بیان کی گئی ہے: «ابن ابی نعیم نے کہا: میں ابن عمر کے ساتھ تھا جب کسی نے ان سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا۔. ابن عمر نے اس سے کہا: تم کہاں سے ہو؟ اس نے جواب دیا: عراق. اس نے کہا: اس شخص کو دیکھو جو مجھ سے مچھروں کے خون کے بارے میں پوچھتا ہے، جب کہ عراق کے لوگ وہ تھے جنہوں نے خدا کے نبی کے بیٹے کو قتل کیا، جب کہ میں نے نبی (ص) کو یہ کہتے سنا: یہ دونوں حسن (ع) اور حسین (ع) میرے خوشبو ہیں ۔
یہ حدیث احمد ابن حنبل کی مسند اور ترمذی کی سنن سمیت دیگر اہم سنی ماخذوں میں معمولی فرق کے ساتھ بیان کی گئی ہے. جب کہ پیغمبر اسلام (ص) بچے کو والدین کے لیے خدا کی طرف سے ایک میٹھا اور خوشبودار پھول سمجھتے تھے اور ان سے محبت کرنے اور چومنے کی انتہائی سفارش کرتے تھے، وہ حسنین (ص) کے ساتھ اپنے رویے میں بھی ایسا ہی تھا. وہ حسنین (ع) کے ساتھ کھیلتا تھا اور کہتا تھا: «درحقیقت، وہ دنیا میں میرے خوشبودار پھول ہیں۔» سنان الکبری میں ایک عظیم سنی محدث ناصعی کی روایت کردہ ایک اور حدیث میں انس بن مالک کا حوالہ دیتے ہوئے نبی مہربانی کہتے ہیں: «یہ دونوں (حسنین)، میرے پھول اسی امت سے ہیں۔
آسمان کا عظیم نوجوان
ممتاز اور اولین درجے کے سنی علماء اور احادیث کے علماء جیسے احمد ابن حنبل نے اپنی مسند کتاب میں ابن ماجہ سنن میں اور حکیم نیشابوری مستدرک میں پیغمبر القدس (ص) سے منتقل ہونے والی احادیث میں امام حسین (ع) کے آقا ہونے کے حوالےسے۔ جنت کے نوجوانوں کے بیانات کے ساتھ مختلف لوگوں نے نشاندہی کی ہے: رسول خدا (ص) نے کہا: «الحسن اور الحسین سیدہ شباب اہل الجنہ
حسن و حسین جت کے جوانوں کے سردار ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں امام حسین (ع) کے خصوصی مقام کو ظاہر کرنے والی روایتوں میں مشہور حدیث «حسین منی اور وانا من الحسین" ہیں جو حرم سیدالشهدا(ع) کے مزار کے دروازے پر بھی کندہ ہیں۔ کتاب المصنف ابن ابی‌شیبه»،  جو سب سے قدیم ماخذ ہے اس میں یہ حدیث درج ہے.
حکیم نیشابوری نے سلمان فارسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر (ص) نے کہا: «حسن اور حسین میرے بیٹے ہیں. جو شخص ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو مجھ سے محبت کرتا ہے تو خدا اس سے محبت کرے گا اور جس سے خدا محبت کرتا ہے اسے جنت میں داخل کرے گا. جو شخص ان دونوں کو ناراض کرے گا تو مجھے ناراض کرے گا اور جو مجھے ناراض کرے گا وہ خدا کو ناراض کرے گا اور جو خدا کو ناراض کرے گا خدا اسے آگ میں داخل کرے گا۔

ایکنا:
 

حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (ارواحنا فداہ ) ، منجی آخر الزمان کے بارے میں تمام ابراہیمی ادیان کا اتفاق ہے کہ ایسی ہستی آئے گی جو ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو نجات دلائے گی، اس بات کو تمام ابراہیمی ادیان مانتے ہیں ، اسلام میں اس منجی کا نام بھی واضح ہوگیا ہے؛ اس غیر معمولی، اس عظیم اور الہی انسان کو تمام اسلامی مذاہب حضرت مہدی (عج) کے نام سے پہچانتے ہیں شاید اسلامی فرقوں میں کوئی ایسا فرقہ موجود نہ ہو جس کا اس بات پر اعتقاد نہ ہو کہ حضرت مہدی علیہ السلام ظہور کریں گے اور وہ پیغمبر اسلام کی اولاد میں سے ہیں حتی ان کا نام اور کنیت بھی واضح ہے اس سلسلے میں شیعہ اعتقاد میں ایک خاص خصوصیت موجود ہے کہ وہ اس شخصیت کو خاص اور معین طور پر معرفی کرتے ہیں اور اس کو آئمہ اہلبیت (ع) میں سے گیارہویں امام ،حضرت امام حسن عسکری (ع) کا فرزند مانتے ہیں۔ ان کی ولادت کی تاریخ شیعہ مؤرخین اور شیعہ متکلمین نے واضح طور پر بیان کی ہے؛دوسرے اسلامی فرقوں نے اس نظریہ کو بیان نہیں کیا ہے یا قبول نہیں کیا ہے لیکن شیعہ قطعی اور ٹھوس دلائل کے ساتھ  امام مہدی (عج) کے وجود اور ولادت کو ثابت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے استبعاد کیا ہے  اور بعید سمجھا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ انسان پیدا ہواور اتنے طولانی عرصہ تک زندہ رہے ، یہ واحد استبعاد اور اشکال ہے جسے مخالفین نے حضرت مہدی (عج) کے وجود کے بارے میں بیان کیا ہے اور اس کا بار بار تکرار کیا ہے؛  لیکن قرآن کریم خود اس استبعاد اور اشکال کو اپنی صریح نص کے ساتھ برطرف کرتا ہے۔ حضرت نوح پیغمبر (علیہ السلام ) کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے: فَلَبِثَ فیهِم اَلفَ سَنَةٍ اِلّا خَمسینَ عامًا؛ (۱) یعنی حضرت نوح نے اپنی قوم کے درمیان ۹۵۰ سال زندگی کی ہے نہ یہ کہ ان کی عمر اتنی تھی بظاہر معنی یہ ہے کہ حضرت نوح کی تبلیغی مدت اتنی تھی ؛ لہذا اس استبعاد اور اشکال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

شیعوں کے درمیان اس اعتقاد کی سب سے بڑی خاصیت امید آفرینی ہے۔ شیعہ معاشرہ صرف ماضی میں اپنے ممتاز کارناموں پر متکی نہیں ہے ، بلکہ اس کی مستقبل پر بھی نظر ہے شیعہ عقیدے کے مطابق مہدویت کے مسئلہ پر اعتقاد رکھنے والا شخص  سخت ترین شرائط میں بھی  دل کو امید سے خالی نہیں سمجھتا، اس امید کا نور ہمیشہ موجود ہے ؛ وہ جانتا ہے کہ یہ تاریکی و ظلمت کا دورہ ، یہ ظلم و ستم کا دور یہ باطل اور ناحق تسلط پسندی کا دورہ یقینی طور پر ختم ہوجائے گا ، اس اعتقاد کے یہ سب سے اہم نتائج اور آثار ہیں ، البتہ مہدویت کے بارے میں شیعوں کا اعتقاد یہیں تک محدود نہیں ہوتا ہے: بِیُمنِهِ رُزِقَ الوَری‌ وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الأرضُ و السَّماء ۔ (۲)

مہدویت پر اعتقاد کا مسئلہ ایک ایسی اہمیت کا حامل ہے ، یہ درخشاں اور فروزاں شعلہ، شیعہ معاشرے میں گذشتہ صدیوں میں بھی موجود رہا ہے اور اسی طرح موجود رہے گا اور انشاء اللہ منتظرین کے انتظار کا دور ختم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱: قران کریم ، سورہ عنکبوت ، ایت ۱۴ ۔

۲: : اصول كافی ، ج ۱ ص۱۷۷ ؛ و مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج ۲۳ ص ۳۸ ۔

 

جب حضرت امام حسین (علیہ السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی قبر مبارک سے صبح کے وقت گھر واپس تشریف لائے تو آپ علیہ السلام کے بھائی جناب محمد حنفیہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا: "میرے بھائی! آپ میرے لیے محبوب ترین اور عزیزترین شخص ہیں، اللہ کی قسم! میں کسی کے حق میں خیرخواہی کرنے سے دریغ نہیں کرتا، آپ سب سے زیادہ میری خیرخواہی کے لائق ہیں، اس لیے کہ میں اور آپؑ ایک جڑ سے ہیں اور آپؑ میرے گھرانہ کی جان، روح، آنکھ اور بڑے ہیں اور آپؑ کی اطاعت مجھ پر واجب ہے، کیونکہ اللہ نے آپؑ کو مجھ پر شرف بخشا ہے، اور آپؑ کو اہل جنت کے بزرگوں میں سے قرار دیا ہے"۔

نیز جناب محمد حنفیہؑ نے عرض کیا:

"مکہ تشریف لے جایئے، اگر وہاں آپ کے لئے امن ہو تو وہیں پر رہیں، اور اگر ایسا نہ ہو تو یمن چلے جایئے گا کہ وہاں آپ کے جدّ اور والد کے اصحاب ہیں ، وہ سب سے زیادہ مہربان، محبت کرنے والے اور مہمان نواز لوگ ہیں، اگر وہاں آپ کے لئے امن ہو تو رہیئے ورنہ ریگزاروں اور پہاڑ کے شکاف میں جایئے گا اور ایک شہر سے دوسرے شہر کوچ کیجئے گا تاکہ آپ دیکھیں کہ ان لوگوں کا کام کہاں پہنچتا ہے اور اللہ ہمارے اور اس فاسق گروہ کے درمیان فیصلہ کرے گا"۔

حضرت امام حسین (علیہ السلام) نے فرمایا: "يا أَخي وَاللَّهِ لَوْ لَمْ يَكُنْ في الدُّنْيا مَلْجَأً وَ لا مَأْوىً، لَما بايَعْتُ يَزيدَ بَنْ مُعاوِيَةَ"، "اے میرے بھائی، اللہ کی قسم اگر دنیا میں کوئی پناہگاہ اور امن کی جگہ نہ بھی ہو تو یزید ابن معاویہ سے بیعت نہیں کروں گا"۔

جناب محمد ابن حنفیہ خاموش ہوگئے اور رونے لگے، امام (علیہ السلام) بھی کچھ دیر روئے، پھر فرمایا: "يا أَخي جَزاكَ اللَّهُ خَيْراً، لَقَدْ نَصَحْتَ وَ أَشَرْتَ بِالصَّوابِ وَ أَنَا عازِمٌ عَلَى الْخُروُجِ الى‌ مَكَّةَ، وَ قَدْ تَهَيَّأْتُ لِذلِكَ أَنَا وَ إِخْوَتي وَ بَنُو أَخي وَ شيعَتي، وَ أَمرُهُمْ أَمْري وَ رَأْيُهُمْ رَأْيي، وَ أَمَّا أَنْتَ يا أَخي فَلا عَلَيْكَ أَنْ تُقيمَ بِالْمَدينَةِ، فَتَكُونَ لي عَيْناً عَلَيْهِمْ وَ لا تُخْفِ عَنّي شَيْئاً مِنْ أُموُرِهِمْ‌"، "اے میرے بھائی، اللہ آپ کو جزائے خیر دے، بیشک آپ نے خیرخواہی کی اور صحیح راستہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میں اب مکہ کی طرف جانے والا ہوں اور میں نے اس سفر کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور شیعوں کو تیار کیا ہے، اور ان کا کام (ارادہ) میرا کام ہے اور ان کی رائے میری رائے ہے، اور آپ اے میرے بھائی! آپ کے لئے مدینہ میں رہنے کا کوئی حرج نہیں تاکہ آپ ان پر میری آنکھ (خبررساں) رہیں اور ان کے تمام امور سے مجھے مطلع کریں"۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: شیرازی ، ناصر مکارم ، کتاب عاشورا ريشه‌ها، انگيزه‌ها، رويدادها، پيامدها، ص۳۲۷، ۳۲۸ ۔

یمنی اعلی رہنما نے تل ابیب پر حملے کو نیٹو کے لئے انتباہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یمن صہیونی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔

یمنی تنظیم انصاراللہ نے تل ابیب پر حملے کو نیٹو کے لئے انتباہ قرار دیا ہے۔

تنظیم کے اعلی رہنما محمد البخیتی نے کہا ہے کہ اسرائیل پر یمنی فوج کے حملوں کا مقصد غزہ میں فلسطینی عوام کا قتل عام روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر سناریو پر کام کیا ہے اور اسرائیلی حملوں کا بھرپور جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔

دوسری جانب یمن کے وزیراطلاعات فھمی الیوسف نے کہا ہے کہ یمن کے شدید اسرائیل کی شکست پر منتج ہوں گے۔ کل کے حملے نیٹو کے لئے پیغام ہیں کہ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر یمن خاموش نہیں رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یمن اسرائیل کے اندر گھس حملہ کرے گا اور صہیونی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔

یاد رہے کہ کل یمنی فوج نے تل ابیب کے حساس علاقے پر "یافا" ڈرون طیارے سے حملہ کیا تھا جس میں کم از کم ایک صہیونی ہلاک اور چھے زخمی ہوگئے تھے۔

https://taghribnews.com

وفاق ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ماہرین اسمبلی کے بورڈ کے رکن آیت اللہ عباس کعبی نے آج سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کہ عزاداری کی تقریب میں منافقت کو عاشورا کے درسوں میں سے ایک سبق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے ہاں منافقت کی کچھ اقسام ہیں، جس میں سیاسی،سماجی، اخلاقی، انفرادی اور عمومی منافقت جیسی اقسام شامل ہیں۔اور سورۃ المنافقون میں ’منافق کے لیے مردہ باد کا نعرہ ذکر کیا گیا ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ منافقت ایک خطرناک بیماری ہے۔ منافقت کی جڑ میں ایمان کی کمزوری ، تکبر، حسد، منفی مقابلہ، مفادات کا ٹکراؤ، حکومت، طاقت، سماجی اور سیاسی، حیثیت سے زیادہ فائدہ اٹھانا، اور دنیاوی مفادات ہیں۔،

آیت اللہ کعبی نے مزید کہا کہ منافق نقاب پوش ہوتا ہے اور اثر و رسوخ کے منصوبے کے ساتھ اہل ایمان لوگوں کی جماعت میں داخل ہوتا ہے اور موقع میسر ہوتے ہی اپنی جان لیوا ضرب لگاتا ہے۔ جن لوگوں کی منافقت کی جڑیں مضبوط تھیں وہ حضرت ابا عبد اللہ (ع) کے سامنے کھڑے ہو گئے اور امام علیہ السلام کو شھید کر دیا گیا مثال کے طور پر شمر، شبث اور عمر بن سعد جو کہ پہلے اصحاب میں سے تھے۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کہ سکے کے دو رخ ہیں کہا کہ؛ تحریک کا ایک رخ عالمگیر انسان کے لیے رحمت ہے اور انسانیت حسین علیہ السلام کی محبت کے سائے میں بدلتی ہے اور دوسرا رخ منافقت کی عالمگیر نفرت ہے، عالمی جبر اور تکبر ہے۔

اگر منافق نہ ہوں تو عالمی ظلم کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے جیسا کہ ہم نے غزہ میں دیکھا ہے، اگر منافقین نہ ہوتے تو صیہونیت اور یہ کھلم کھلا ظلم ختم ہو جاتا۔ منافقین دوست کے بھیس میں دشمنوں اور دشمنوں کہ درمیان حدیں ختم کر کہ اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

انہوں نے اس بات کہ امام حسین (ع) ہماری دشمنی شناسی، با بصیرت ہونا اور منافقت کی پہچان رکھنے سےخوش ہوتے ہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: منافقین نماز اور روزہ رکھ سکتے ہیں یا سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی اجازت بھی دے سکتے ہیں۔ اس طرح لوگوں پہ یہ معاملہ مشتبہ قرار ہو جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ اسلام کے دشمنوں کی حفاظتی ڈھال ہوتے ہیں۔

منافقت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ شرعی فریضہ پر عمل کیا جائے، فقہی احکام سے دوری اختیار نہ کی جائے۔

یہ شریعت کہ احکام پہ عمل کرنا ہی ہےجو ہمارے دلوں کو نورانی کرتا ہے۔

آیت اللہ کعبی نے مزید کہا کہ ہمیشہ وہ لوگ جو منافقین کی مدد کرتے ہیں وہ جاہل اور سادہ لوح لوگ ہوتے ہیں اور جو اسلام پر لشکر کی صورت میں خطرناک طریقے سے حملہ کرتے ہیں۔ عمر سعد کی فوج میں بہت سے جاہل لوگ ہی موجود تھے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دنیاداری کی گرفت میں اور دنیا داری کی تلاش میں ہے۔