سلیمانی

سلیمانی

سحر نیوز/ دنیا: ایک امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اس ملک کی حکومت خاموشی سے گوانتانامو جیل بند کر کے قیدیوں کو منتقل کر رہی ہے۔

فارس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی اخبار "وال اسٹریٹ جرنل" نے انکشاف کیا ہے کہ "جو بائیڈن" کی انتظامیہ بدنام زمانہ اور خطرناک گوانتانامو جیل کو بند کرنے کے عمل کو خاموشی سے مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

"رشا ٹوڈے" کی ویب سائٹ کے مطابق، اس اخبار نے لکھا ہے کہ اگرچہ اس جیل کی بندش بائیڈن کے انتخابی وعدوں میں سے ایک تھی لیکن وائٹ ہاؤس نے خفیہ طور پر اس عمل کی پیروی کی ہے تاکہ اس حوالے سے کوئی سیاسی تنازع پیدا نہ ہو۔

وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت اس حراستی مرکز کو بند کرنے کے قریب پہنچ رہی ہے اور قیدیوں کو دیگر امریکی جیلوں میں منتقل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

یہ خوفناک جیل 2002 میں کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے پر دہشت گردوں کو رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن اس کے فوراً بعد شائع ہونے والی تصاویر میں قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک دکھایا گیا تھا، جنہیں اکثر وہاں برسوں تک بغیر کسی الزام یا مقدمے کے رکھا جاتا تھا۔

جرمنی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ گوانتانامو جیل کو قانونی طریقہ کار اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بشمول تشدد اور جبری گمشدگیوں کے لیے دونوں لحاظ سے ایک "خطرناک مثال" سمجھا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس اہلکار نے مزید کہا کہ اس جگہ پر حراست میں لیے گئے لوگوں کو "قانون کی حکمرانی کے تحت منصفانہ عدالت" تک رسائی حاصل نہیں تھی اور انہوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ اس جیل کو بند کرنے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالے۔

پہلی بار گوانتانامو جیل سے قیدیوں کی منتقلی کی نگرانی کے لیے ایک سینئر امریکی سفارت کار کو مقرر کیا گیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ 11 ستمبر کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر متعارف ہونے والے "خالد شیخ محمد" سے متعلق عدالتی طریقہ کار میں مذاکرات میں مداخلت کا ارادہ نہیں رکھتی، یہ شخص اور 36 دیگر قیدی اب بھی گوانتانامو جیل میں قید ہیں۔

کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت نے گوانتانامو جیل میں قید سعودی قیدی "محمد القحطانی" کو رہا کر دیا تھا، جسے 11 ستمبر کے حملوں کے الزام ميں 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا، آزادی کے بعد اسے سعودی عرب منتقل کر دیا گیا تھا۔

شیکاگو میں رونما ہونے والے فائرنگ کے اس واقعے کے سلسلے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ فائرنگ کس نے اور کیوں کی ہے اور مجرم کا پتہ لگانے کے لئے پولیس کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔

شیکاگو کے ایک اور علاقے میں ایک 21 سالہ جوان کے مارے جانے کی خبر بھی شیکاگو پولیس نے دی ہے۔

امریکہ میں گن کلچر عام ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر سال امریکہ میں فائرنگ کے واقعات میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں 270 سے 300 ملین اسلحے موجود ہیں یعنی تقریبا ہر امریکی شہری کے پاس کم از کم ایک اسلحہ۔

2020ء میں صرف 19384 لوگ  بندوق سے فائرنگ کے نتیجے میں مارے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 35 فیصد زیادہ ہے اور ایک سال میں قتل کے بڑھتے واقعات کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔

امریکہ میں بندوق اور چھوٹے ہتھیاروں سے قتل وغارت کے اعداد و شمار کا جب دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امریکا اس فہرست میں سب سے جدا ہے اور یہاں فائرنگ سے تشددکے واقعات کی شرح پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اگرچہ امریکہ کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 5 فیصد ہے لیکن دنیا میں رونما ہونے والے مسلحانہ جھڑپوں، فائرنگ اور قتل و غارت کے 31 فیصد واقعات یہاں رونما ہوتے ہیں۔

 

اسلام ٹائمز۔ امام حسین علیہ السلام کے چہلم (اربعین) کی مناسبت سے تہران میں واقع حسینیہ امام خمینی میں طلبہ کے ماتمی دستوں نے عزاداری کی۔ سید الشہداء امام حسینؑ کی یاد میں منعقدہ مجلس میں رہبر انقلاب اسلامی بھی موجود تھے اور عزاداروں نے کربلا کے زائروں کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے "لبیک یا حسین" کے نعرے لگائے۔ عزاداری کے اختتام پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اپنی تقریر میں نوجوانوں کے پاکیزہ اور ایمان سے لبریز دلوں کو الہی ہدایت میں اضافے کی وجہ قرار دیا اور کہا کہ حضرت سید الشہداءؑ کا بلند پرچم یعنی اربعین کا پروگرام اس سال تاریخ کے کسی بھی دور سے زيادہ شاندار اور پر شکوہ طریقے سے منایا گيا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ کے معجز نما واقعے کو اہل بیت علیہم السلام کے اسلامی پرچم کو مزید بلند کرنے کے الہی ارادے کی علامت قرار دیا اور کہا کہ یہ تحریک کسی بھی انسانی منصوبے یا حکمت عملی کے ذریعے ممکن نہیں ہے، یہ تو دراصل خدا کی طاقت ہے جو ہمیں اس عظیم تحریک کے ذریعے یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہمارے سامنے کی راہ واضح ہے اور اس پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں کو، اپنی جوانی کو غنیمت سمجھنے اور ماتمی انجموں پر خاص توجہ دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ انجمنوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اہل بیت علیہم السلام کی یاد کو زندہ رکھیں اور اس کے ساتھ ہی وہ حقائق بیان کرنے کا مرکز بھی بنیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اربعین مارچ جیسے اہم واقعات کے خلاف ان بدخواہوں کی مسلسل سازشوں کا ذکر کیا جو حقائق پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور سب کو اپنی ذمہ داریوں سے واقفیت کی سفارش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ قرآن مجید کے دو بے حد اہم اور ابدی جملے یعنی حق کی نصیحت اور صبر کی سفارش، ہمیشہ کے لئے ہے اور یہ خاص طور پر عصر حاضر میں ایک بنیادی اصول ہے۔ انہوں نے صبر کے معنی، پائيداری، استقامت، نہ تھکنا اور خود کو بند گلی ميں نہ سمجھنا بتایا اور قرآن مجید اور انجمنوں کے دلدادہ نوجوانوں سے کہا کہ خود آپ لوگ بھی حق کی راہ پر چلیں اور کوشش کریں کہ یونیورسٹی سمیت مختلف مقامات کو نور خدا سے روشن کرکے، دوسروں کو بھی اس راہ پر لائيں۔

عزاداری کے اس پروگرام میں، حجت الاسلام عالی نے اپنی تقریر میں عالم بشریت کے منجی کے ظہور کے لئے اسلامی امت میں عام سطح پر آمادگی کو لازمی قرار دیا اور کہا کہ زیارت اربعین جو آج مومنوں کے درمیان اتحاد اور حق پسندوں کی یکجہتی کی علامت بن چکی ہے، اسلامی سماج کی تربیت، مومنین کے درمیان رابطے کے استحکام اور ظہور کی آمادگی کا بہت اچھا ذریعہ ہے۔ اس موقع پر محمد کاویان نے زیارت اربعین پڑھی اور میثم مطیعی نے امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ و نوحہ پڑھا۔
 
 
 

اربعین عربی زبان میں چالیس کو کہا جاتا ہے اور امام حسینؑ کی شہادت کے چالیسویں روز کی مناسبت سے 20 صفر کو اربعین کہا جاتا ہے۔ 61 ھجری میں اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری امام حسین علیہ السلام کی قبر اطہر پر پہنچے تھے۔ اسی طرح بعض مآخذ کے مطابق اسیران کربلا بھی شام کے زندان سے رہا ہوکر اسی دن امام حسینؑ کی زیارت کیلئے کربلا پہنچے تھے، اس لئے اربعین کے موقع پر کربلا کی طرف پیدل چل کر سیدالشہداءؑ کی زیارت کیلئے جانا صدیوں سے عاشقان امام کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ مشی (کربلا واک) اہم ترین اور عظیم ترین مراسمات میں شامل ہو گیا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تہواروں میں شامل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان "إن الحسین مصباح الهدی و سفینة النجاة" کے عین مطابق بلاشبہ امام حسین علیہ السلام ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں اور راہ ہدایت کی تلاش اور نجات پانے کیلئے زائرین امام پورا سال جوق در جوق زیارت کیلئے کربلا جاتے رہتے ہیں اور خصوصاً اربعین کے موقع پر بین الاقوامی میڈیا اداروں کے مطابق یہ تعداد کروڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والے دیوانہ وار کربلا کا رخ کرتے ہیں۔ اگرچہ زائرین کربلا میں زیادہ تعداد شیعیان کی ہوتی ہے لیکن اہلسنت برادران بھی بڑھ چڑھ کر زیارات کیلئے کربلا کا رخ کر رہے ہیں۔ شاید سوشل میڈیا کی مہربانی ہے جس کی وجہ سے ان اہلسنت برادران کی زیارات کا اب پتہ چلنے لگا ہے۔ ورنہ نبی پاک کے اس فرمان کہ "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں" کے مطابق کون مسلمان ہے جو حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہونا نہیں چاہے گا۔

نتیجتاً اس سال بین الحرمین کربلا میں وحدت المسلمین کا ایک انتہائی خوبصورت پیغام دیکھنے میں آیا جب کارڈز اٹھائے ہوئے ہزاروں افراد نے انتہائی خوبصورتی سے "وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌" کو ایسے منظم طریقے سے خوبصورت شکل میں ترتیب دیا اور ظاہر کیا کہ جب ڈرون کیمرے نے بلندی سے شوٹ کیا تو یہ کسی ماہر خطاط کا خوبصورت شاہکار دکھائی دینے لگا۔ یقیناً کائنات کے مصور کو بھی اپنے محبوب کیلئے عشاق کی یہ عشق بھری کاوش حسین لگی ہوگی۔ کیونکہ اس کی محبوب ہستیوں سے محبت اس کی نظر رحمت کا سبب بنتی ہے۔ کربلا کی سرزمین پر یہ وحدت کا خوبصورت عملی مظاہرہ بھی تھا۔ زائرین نے بین الحرمین سے جہاں اس دلکش شاہکار کے ذریعے پوری دنیا کے مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور تفرقے میں نہ پڑنے کا پیغام دیا بیک وقت دشمنان اسلام کو بھی تنبیہ کیا کہ تم جتنا مرضی ہم مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کرو گے یاد رکھو ہم شیعہ ہوں یا سنی ھم مسلمان ہیں ھم حسینی ہیں اور ان شاء اللہ اس حسینی وحدت کو ختم کرنے میں یزیدیت کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔

کربلا کی طرف روانہ ہونیوالے ایران کے اہلسنت علماء و مشائخ کے ایک قافلے سے بات چیت کی گئی تو برادران اہلسنت کے احساسات انتہائی خوبصورت تھے ان علماء کے نزدیک امام حسین علیہ السلام عالم اسلام کے اتحاد کا محور ہیں۔ یہ قافلہ ایران کے مختلف صوبوں سے اربعین حسینی کی تقریب میں شرکت کیلئے اکٹھا ہوا تھا۔اس کاروان میں شامل ایک عالم کا کہنا تھا کہ "یقیناً امام حسینؑ کا راستہ امت اسلامیہ کیلئے منفرد تھا۔" شریک کاروان ایک عالم کا کہنا تھا۔ ہم اہلسنت ہیں، بے ساختہ ارمیہ میں اکٹھے ہوئے اور ایک کارواں تشکیل دیا، ہم بے ساختہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور عالم کا کہنا تھا اہلسنت کی اہلِبیت علیھم السلام سے محبت و الفت کی بنیاد دو مشترک اصولوں پر ہے، ایک کتابِ خدا تو دوسرا سنتِ رسولؐ ہے۔ ایک عالم کا کہنا تھا کہ آئمہ اطہار اور اہلبیت اطہار دینی طبقے کی توجہ کا مرکز اور تمام اسلامی مذاہب کا مشترکہ نقطہ ہیں۔ ایک اہلسنت برادر کا خوبصورت جملہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں تو ہمارے لیے پھر اور کیا رہ جاتا ہے؟ ایک اور عالم نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا کہ امام حسین علیہ السلام کیلئے ان کا خاص احترام ہے۔ غیر سنی کی عقیدت بھی کسی شیعہ بھائی سے کم نہیں۔

ایک برادر کے خوبصورت کلمات کچھ اس طرح سے تھے کہ "میں جو بھی تھا، جو بھی ہوں، کسی سے تعلق نہیں رکھتا، میں نے اپنے مہربان امام کی پناہ لی ہے۔ ان شاء اللہ ہم آگئے ہیں، حضرت حسین ؑ ہمارا خیال رکھیں گے اور قیامت کے دن شفاعت فرمائیں گے"۔ اس قافلے میں 240 سنی علماء کرام کربلا کے لیے کردستان سے روانہ ہوئے تھے۔ اور یہ صرف ایک جگہ یا ملک کی نہیں بلکہ ملکوں کی داستان ہے۔ پوری دنیا کے شہر شہر  نگر نگر سے لوگ قافلوں کی صورت میں اس وقت کربلا پہنچے۔ ایک فارسی نوحہ خواں کے کیا خوبصورت اشعار ہیں۔
این حسین کیست که عالم همه دیوانه اوست
 این چه شمعی است که جان‌ها همه پروانه‌ اوست
یہ حسین کون ہے جس کیلئے ساری دنیا دیوانی ہے؟
 یہ کیسی شمع ہے کہ تمام روحیں اس کا پروانہ ہیں
واقعی حسین علیہ السلام ہدایت کی ایسی شمع ہیں کہ سارا عالم ان کا پروانہ ہے دیوانہ ہے۔ جس جگہ امام عالی مقام نے صرف 72 رفقا کیساتھ قیام فرمایا تھا اور "ھـــل من ناصـــر ینصـــرنا" کی صدا بلند کی تھی وہ صرف کربلا تک محدود نہیں تھی بلکہ آج کروڑوں لوگ اس پر لبیک کہتے ہوئے کربلا کی طرف لپکتے ہیں۔ یا امام آپ کو کیا زبردست فتح حاصل ہوئی ہے کہ آج مسلمان تو کیا ہر قوم حسین حسین پکار رہی ہے اور اسی طرح یزید ملعون کو کیا بری شکست ہوئی ہے۔ جس کا آج نام لیوا کوئی نہیں اور وہ صرف ایک لعنت بن کر رہ گیا۔

آج یہ کربلا کا راستہ صراط عظیم ہے، صراط مستقیم ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے بظاہر اور بے شک عشق حسین سے ہم سرشار ہیں لیکن اس بات کی کوشش اور اپنا محاسبہ بھی ضرور کریں اور اپنے آپ کو اس کسوٹی پر پرکھتے رہیں کہ کیا ہم اس امام مظلوم کی مرضی کے مطابق بھی چل رہے ہیں یا نہیں۔ کیا ہم نے اپنی زندگی کو عملی طور پر حسینیت کے راستے کے مطابق ڈھال رکھا ہے یا نہیں۔ کیونکہ یہی راستہ نجات کا راستہ ہے۔ امام کی پکار "ھـــل من ناصـــر ینصـــرنا" کی دعوت، ان کی جانب سے مدد کی توقع اور ان کے پیغام کو جو آج کے دور میں مظلومین مدد کے طالب، کی صورت میں موجود ہیں پوری طرح اہمیت دی ہے یا نہیں۔ 

یہ راستہ دنیا کے مظلومین کی مدد کا راستہ ہے، قدس کی آزادی کا راستہ بھی اسی کربلا سے گزر کر آئے گا۔ اس عظیم راستے پر ایک خوش آئند بات تو یہ ہے کہ یہ وحدت کا بھی راستہ ہے۔ کربلا کے اس راستے پر مسلمان متحد ہو رہے ہیں۔ بے شک عشق حسین ایک عظیم سعادت ہے لیکن اپنے کردار کو اس طرح ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ اگر مر گئے تو حسینی کردار ادا کیا ہو اور اگر زندہ ہیں تو ہمارا کردار زینبی کردار ہونا چاہیئے۔ جس کا کردار نہ حسینی ہو اور نہ زینبی، وہ یزیدی کردار ہی کہلائے گا۔ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ حسینی بن کر امر ہو جائیں ورنہ یزیدیت تو مٹ جانے کا نام ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جب تک زندہ ہیں راہ کربلا پر صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مرنے کے بعد امام حسین علیہ السلام کی شفاعت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

تحریر: شبیر احمد شگری

ایرانی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے نمائندے ابوالفضل عموئی نے  کہا کہ امریکہ ایرانوفوبیا پھیلا کر علاقے میں اپنا ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے۔

اباالفضل عموئی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک صلاحیت ملکی طور پر ہائی کوالٹی ڈرون طیاروں کی تیاری ہے اور ہم  نے دونوں  حملہ آور اور جاسوسی ڈرون تیار کئے ہیں جن کے علاقے اور دنیا میں خریدار بھی موجود ہیں۔

ایرانی قومی سلامتی کمیشن کے نمائندے نے مزید کہا کہ علاقے میں اڑنے والے دشمن کے تمام ڈرون طیاروں کی مکمل نگرانی  ہمارے اختیار میں ہے، سپاہ پاسدارن انقلاب اسلامی کے اینٹی ائیر کرافٹ ائیرڈیفنس سسٹم نے امریکی آر کیو 170 اور ان کے مہنگے آرکیو 4 بلیک ہاک کو  آبنائے ہزمز کے  نزدیک حفاظت سے اتار کر اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے عموئی نے کہا کہ بین الاقوامی فوجی ماہرین نے ڈرون ٹیکنالوجی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مہارتوں کا اعتراف کیا ہے  اور اس لئے دشمن  اب ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقے میں اپنا ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے غیرملکی افواج کو مغربی ایشیاء کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ علاقائی ممالک کو اچھے ہمسایوں کی طرح آپس میں تعاون کرنا چاہیے تاکہ علاقے میں   دوطرفہ اور کثیرالجہتی امن اور سیکورٹی قائم ہو سکے۔

امریکی وال اسٹریٹ جرنل نے اپنے تازہ ترین تجزیہ میں لکھا کہ امریکی بحریہ مغربی ایشیا میں علاقائی ممالک اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ڈرون نیٹ ورک قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ اس کے ذریعے مغربی ایشیا اور سوئز کنال کے علاقے میں ایرانی فوجی نقل و حرکات پر نظر رکھی جا سکے۔


"ملکہ دنیا سے رخصت ہو گئی اور بادشاہ تخت نشین ہو گیا اور اس نے اپنا ولیعہد متعارف کروا دیا۔" خود کو جمہوریت کا گہوارہ کہلوانے والے مغربی یورپ سے  ایسی خبر سنائی دینا کچھ کچھ غیر متوقع دکھائی دیتا ہے۔ 2022ء میں ایسے وقت جب دنیا کے اکثر حصوں میں بادشاہت اور سلطنت والا نظام تقریباً بھلایا جا چکا ہے، برطانیہ جیسا ملک اب تک اس رجعت پسند سیاسی نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اس ملک کا فرمانروا، برطانیہ کے علاوہ 15 دیگر ممالک کا حکمران بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ملکہ برطانیہ کی وفات کے بعد اگلے دس دن تک پورا برطانیہ تقریباً جام ہو جائے گا۔ اگرچہ ملکہ کی آخری رسوم پر انجام پانے والے اخراجات منظرعام پر نہیں لائے جاتے لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ رقم 6 ارب پاونڈ لے لگ بھگ ہے۔
 
یہ سنگین اخراجات ایسے وقت انجام پا رہے ہیں جب برطانیہ شدید قسم کے اقتصادی بحران کی لپیٹ میں ہے اور برطانوی حکمران عوام کو اقتصادی ریاضت کی ترغیب دلا رہے ہیں۔ کئی دن تک بینک بند رہیں گے اور برطانیہ کے دیگر اقتصادی مراکز بھی تعطیل کا شکار ہو جائیں گے۔ شاید اسی وجہ سے برطانوی اخبار انڈیپنڈینٹ نے ملکہ برطانیہ کی موت کو گذشتہ ستر برس کے دوران ملک کی معیشت کیلئے نقصان دہ ترین واقعہ قرار دیا ہے۔ البتہ برطانوی عوام پر تھونپے گئے بادشاہی اور سلطنتی نظام کے اخراجات صرف ملکہ کی آخری رسوم پر آنے والے اخراجات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ہر سال شاہی خاندان کے اخراجات کیلئے برطانوی عوام سے 100 ملین پاونڈ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سلطنتی نظام حکومت کی جانب سے عوام پر تھونپی گئی چیزیں صرف بھاری اخراجات تک محدود نہیں ہیں۔
 
برطانیہ کے نئے بادشاہ، چارلس، اب سے انگلیکن چرچ کے نئے سربراہ اور برطانوی مسلح افواج کے نئے چیف کمانڈر بھی ہوں گے۔ دولت مشترکہ کے اکثر ممالک جیسے کینیڈا اور آسٹریلیا میں مسلح افواج کو بادشاہ کی سلطنتی افواج کا نام دیا جائے گا۔ نوٹوں پر ان کی تصاویر لگائی جائیں گی اور نئے شہری بادشاہ سے وفاداری کا حلف اٹھا کر شہریت کا آغاز کریں گے۔ وہ برطانوی شہری جنہوں نے 1688ء میں انقلابی تحریک چلا کر بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی تھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چار صدیوں بعد بھی برطانیہ پر ملکہ یا بادشاہ کی حکومت ہو گی۔ بادشاہی نظام حکومت جمہوریت کے اس بنیادی ترین اصول سے تضاد رکھتی ہے جس کے مطابق ایک معاشرے کے تمام افراد کو برابر قرار دیا جاتا ہے۔ برطانوی نظام حکومت میں ملکہ یا بادشاہ کو حد سے زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔
 
اگرچہ ملکہ یا بادشاہ کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں لیکن وہ کسی بھی قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ ٹریفک قوانین کی پابندی اس کیلئے ضروری نہیں، اس کیلئے ٹیکس ادا کرنا ضروری نہیں، اسے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہ خاص اختیارات ہیں جو اسے عام شہریوں سے ممتاز کر کے جمہوری اصولوں کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کر دیتے ہیں۔ شاہ یا ملکہ وزیر کو معزول یا مقرر کر سکتا ہے، جنگ اور صلح کا اعلان کر سکتا ہے، عالمی معاہدے منعقد کر سکتا ہے، خارجہ پالیسی کا تعین کرتا ہے، چیف جسٹس کو مقرر کرتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور شدہ بل اس کے دستخط کے بعد قانون میں تبدیل ہوتے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اس کا عہدہ محض نمائشی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے حکومتی سیٹ اپ میں سب سے زیادہ قانونی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
 
دنیا کے اکثر ممالک میں ریاست کے سربراہ اور انتظامی امور کے سربراہ میں فرق ہوتا ہے۔ ریاست کا سربراہ تمام مسلح افواج کا چیف کمانڈر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے بل قانون بننے کیلئے اس کے دستخط کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ اسے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے۔ جمہوری نظام حکومت کے حامل ممالک میں ریاست کا سربراہ بھی عوام کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں جہاں پارلیمانی نظام حکومت نافذ ہے، صدر ریاست کا سربراہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کا چناو الیکشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام ریاست کے سربراہ پر براہ راست نظر رکھ سکتے ہیں اور کچھ عرصے بعد اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بادشاہی یا سلطنتی نظام حکومت میں ریاست کا سربراہ ممکن ہے ملکہ الزبتھ دوم کی طرح ستر سال تک حکومت کرتا رہے۔
 
برطانیہ میں قومی علامت جیسے عناوین کا غلط استعمال اس بات کا باعث بنا ہے کہ وہاں انتہائی فرسودہ نظام حکومت نافذ ہے۔ ایسا نظام حکومت جس میں اکیسویں صدی کے باوجود خون اور وراثت کو فرمانروائی کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ علامت، قومی سیاست کا آدھا حصہ تشکیل دیتی ہے۔ قومی ترانہ، قومی پرچم اور قومی نعرے سب علامتیں ہیں جو کسی بھی سیاسی نظام کا اہم حصہ تشکیل دیتے ہیں۔ جمہوری نظام کا یہ اصول ہے کہ یہ علامات کسی موروثی نظام پر منحصر نہیں ہونی چاہئیں۔ برطانوی نظام حکومت کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک تدوین شدہ آئین موجود نہیں ہے اور تمام قوانین کی بنیاد بادشاہ یا ملکہ کا طرز عمل قرار پاتا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں بادشاہ یا ملکہ اپنے نامحدود اختیارات بروئے کار لا سکتا ہے جیسا کہ یورپی تاریخ میں اس کی متعدد مثالیں قابل مشاہدہ ہیں۔ لہذا برطانوی نظام حکومت دراصل جمہوریت کی نقاب اوڑھے ایک فرسودہ سلطنتی نظام ہے
تحریر: حسین مہدی تبار
 
 
Wednesday, 14 September 2022 08:18

اربعین پیدل مارچ

امام حسین ؑ دین اسلام کو بچانے والے
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!
پیغمبر آخر الزمان حضرت محمدمصطفی نے چودہ سوسال قبل دنیا کو دین اسلام سے متعارف کرایا۔ آپ نے اور آپ کے اہل بیت اطہار ؑ نے اس دین کی نشرواشاعت اور حفاظت جس انداز سے کی، اس کی مثال نہیں ملتی، مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کا سفر ان قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے، جب دنیا تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی اور اس میں بسنے والے غفلت کی نیند میں تھے۔ استعمار اور ظلم نے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کردیا تھا۔ تو ایسے میں حضرت امام حسین ؑنے اپنے مقدس خون سے دیا روشن کرکے سوئی ہوئی انسانیت کو بیدار کیا اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی انسانیت کو آزاد کرایا۔
فرزند رسول امام مظلوم نے پیکر عزم و ہمت بن کر میدان کربلا میں جہاد کا وہ عملی نمونہ پیش کیا جو کہ آج پندرھویں صدی کے انسان کو جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہے کہ اے مظلومو! یہ نہ سوچو کہ تم کمزور ہو، اس لئے کہ میری شہادت مظلوم کے لئے راہ نجات ہے، پیغام حریت (آزادی) ہے اور ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا ایک طریقہ معین کرتی ہے ، دنیائے اسلام کی تاریخ میں سانحہ کربلا کی نوعیت کا کوئی واقعہ نہیں ملتا، 61 ہجری میں پیش آنے والا یہ واقعہ وہ سانحہ ہے جس کے ذریعے خاندان رسالت نے عالم انسانیت کے لئے ایک نہایت عظیم درسگاہ کا اہتمام کیا تھا ، دس محرم 61 ھ کو امام مظلوم ؑ نے اپنی شہادت سے عین قبل ایک صدا بلند کی”کوئی ہے جو ہماری مدد کرے۔“ لیکن جب کوئی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھا، تو آپؑ نے بے اختیار فرمایا: اگر میرے نانا محمد کا دین میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آو ¿ اور مجھ پر ٹوٹ پڑو، اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید الشہداءؑ کا مدد کے لئے پکارنا اپنی حفاظت کے لئے نہیں تھا بلکہ بلکتی ہوئی انسانیت اور سسکتی ہوئی شریعت کی حفاظت اور اسے حیات ابدی (ہمیشہ رہنے والی) بخشنے کے لئے تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا سے لے کر اب تک اسلام کی حفاظت و حمایت کے لئے یہی سوچ کر اگر قدم اٹھایا گیا کہ ”ہر روزعاشورہ ہے اور ہر زمین کربلا ہے۔“ تو وہ قدم ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوا، اسی لئے مولانا محمد علی جوہر کا کہنا بجا ہے کہ ”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔“
کربلا محض ایک تاریخی واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک بھی ہے، اس لئے کہ امام حسین ؑ نے بیعت یزید سے انکار محض ذاتی اور انفرادی حد تک نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا: مجھ جیسا حسین ؑ تجھ جیسے یزید کی بیعت نہیں کر سکتا، اس طرح یہ مسئلہ حضرت امام حسین ؑ اور یزید کا مسئلہ بننے کی بجائے حسینیت اور یزیدیت کا ابدی(ہمیشہ رہنے والا) مسئلہ بن گیا:
حسین ؑ ایک شخص کا نام ہے اور حسینیت حسین ؑ کا وہ عظیم الشان کردار ہے، جس کا عظیم المثال مظاہرہ دنیا کے سامنے کربلا کے میدان میں ہوا، جہاں امام حسین ؑ لوگوں کو بتاتے رہے:
” ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔“
امام حسین ؑ مکہ سے روانگی کے وقت اور راستہ میں لوگوں کو یہ بتاتے رہے کہ ہم حکومت یا ریاست کی خاطر یا مال غنیمت کی لالچ میں نہیں جارہے ہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لئے جارہے ہیں ، جو کہ معاشرے کی اصلاح ہے۔
آج جب کہ پھر انسانیت کی کشتی صہیونیت کے طوفان میں پھنس رہی ہے، ظلم بڑھتا جارہا ہے ، باطل کا سیلاب بڑھتا چلا آرہا ہے، دنیا پرستی، فرقہ واریت ، بے حیائی اور دیگر جاہلانہ تعصبات پوری طاقت کے ساتھ دنیا کو اپنے چنگل میں دبوچ رہے ہیں ، خود غرضی اور نفس پرستی آزادی کے مدمقابل ہے، طاقتور کمزور کو دبا رہا ہے، انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں ، ایسے نازک حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نئے جوش اور ولولے کے ساتھ مقصد امام حسین ؑ کو سمجھتے ہوئے زندہ عزم اور جوان ارادوں کے ساتھ حسینیت کے بھولے ہوئے سبق کو دہرائیں اور امام حسین ؑ نے آزادی، مساوات اور اخوت کی جو آواز بلند کی تھی، اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔
دوستو! ایام عزا میں ہمیں امام حسین ؑ کے پیغام کو سمجھنا چاہیے، ہمیں اسلام کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس راہ میں صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ میں مقیم عالمہ سیدہ بشری بتول نقوی نے اربعین حسینی کی مناسبت سے اپنے ایک بیان میں اربعین حسینی کو زمینہ سازی برائے ظہور امام زمان (عج) قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں "علامات المومن خمس صلاتہ احدی خمسین و زیارت الاربعین وتختم بالیمین تعفیر بالجبین والجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم"مومن کی پانچ علامات میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔

انہوں نے یہ سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا زیارت اربعین فقط زیارت اور ثواب کے حصول کا ذریعہ ہے؟ نہیں بلکہ جسقدر یہ عظیم اجتماع کی صورت میں تمام عالم کی توجہ کا مرکز ہے عین اسی طرح عظیم درسگاہ اور عظیم مقصد کیلے مقدمہ سازی برائے ظہور عج کا مصداق ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیارت اربعین کے فراز میں امام زمان کی نصرت کیلے ان الفاظ میں آمادگی کا عہد کیا جاتا ہے "و اشھد انی بکم مومن و بایابکم موقن بشرایع دینی و خواتیم عملی و قلبی لقلبکم سلم وامر لامرکم متبع و نصرتی لکم معدتہحتی باذن اللہ لکم" اربعین حسینی درحقیقت سید الشہدا علیہ السلام کے عظیم مقصد کو زندہ رکھنا حق کا معیت اور اس عظیم الشان مقصد کو جاری رکھنے کی نیت سے امام زمان عج تعالی شریف کی نصرت کیلے آمادگی کا مقدمہ ہے۔

انہوں نے امام خمینی رح کہ قول کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا کہ یہ ایک قاعدہ ہے کہ جب تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز ایک ہی ہو اور لوگوں کے دل اس طرف والہانہ و عاشقانہ انداز میں تڑپ رہے ہیں تو یہ کیفیت و کار انسانی ہرگز نہیں ہوسکتا یہ کار خداوند عالم ہے۔لہذا اربعین حسینی کار خدا ہے کہ لوگ امام عالی مقام ع کے ہدف کو ادامہ دیتے ہوئے وقت کے امام عج کی نصرت کیلے زمینہ سازی انجام دے رہے ہیں انشاءاللہ۔ "یالیتنی کنت معکم فافوز فوزا عظیما"یعنی امام زمان عج کی نصرت درحقیت امام عالی مقام علیہ السلام کی نصرت ہے۔ اللہ تبارک تعالی ہمیں اس عظیم مقصد کی نصرت و معیت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

ایران کے خارجہ اقتصادی تعلقات کے ہیڈکوارٹر میں ترکمنستان میں ہونے والی ایرانی اشیاء کی نمائش اور عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہدی صفاری نے کہا  کہ نمائش کے انعقاد کے لئے پرائیویٹ سیکٹر اور ایرانی تجارتی ایلچی کی شرکت بہت اہم ہے۔

ایران ترکمنستان تجارتی تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے تجارتی امور میں نائب ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکمنستان کو ایرانی تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات کی فراہمی کے لئے ایک  ایم او یو پر دستخط ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عراق کے ساتھ تجارتی تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ہم نے اس سال  عراق کو تقریبا 14بلین ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔