
سلیمانی
امام جواد علیہ السلام کا مختصر تعارف
نام : محمد بن علی
نام پدر : علی بن موسی الرضا
نام مادر : سبیکہ ( پیامبر اسلام کی بیوی ماریہ قبطیہ کے خاندان سے )(1)
کنیت : ابو جعفر ثانی
القاب : تقی ، جواد
تاریخ ولادت : ماہ رمضان 195 ھ مدینہ منورہ (2)
تاریخ شھادت : ۲۲۰ ھ بغداد
ھمعصر خلفاء
امام جواد علیہ السلام اپنے دور امامت میں دو عباسی خلفاء کے ھمعصر تھے :
۱۔ مامون الرشید ( ۱۹۳ ۔ ۲۱۸ )
۲۔ معتصم ( مامون کا بھائی ) ( ۲۱۸ ۔ ۲۲۷ )
امام علیہ السلام کے زندگی کا مختصر جائزہ
علماء کا بیان ہے کہ امام محمدتقی علیہ السلام بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ ( ۸۱۱ میلادی ) یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے(3)
شیخ مفیدعلیہ الرحمة فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کے کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی(4)
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا(15)
ولادت سے متعلق لکھا ہے کہ امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ،میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی ، جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ، میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ، ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا. تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت (ع) کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دیے کر پھرمجھے واپس کردیا، دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوئی اورمیں نے سارا ماجرا اپنے بھائی سے بیان کیا، آپ نے فرمایا تعجب نہ کرو، یہ میرا فرزندحجت خدا اور وصی رسول خدا ہیں اس سے جوعجائبات ظہورپذیرہوں ،ان میں تعجب کیا ، محمدبن علی ناقل ہیں کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان اسی طرح مہر امامت تھی جس طرح دیگرآئمہ علیہم السلام کے دونوں کندھوں کے درمیان مہریں ہواکرتی تھیں(6)
آپ کی ازواج اوراولاد
علماء نے لکھا ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے چند بیویاں تھیں ، ام الفضل بنت مامون الرشید اورسمانہ خاتون یاسری . امام علیہ السلام کی اولاد صرف جناب سمانہ خاتون جوکہ حضرت عماریاسر کی نسل سے تھیں، کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ہیں، آپ کے اولادکے بارے میں علماء کااتفاق ہے کہ دونرینہ اوردوغیرنرینہ تھیں، جن کے نام یہ ہیں ۱ ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام، ۲ ۔ جناب موسی مبرقع علیہ الرحمة، ۳ ۔ جناب فاطمہ، ۴ ۔ جناب امامہ(7)
پر برکت مولود
امام رضا علیہ السلام کے خاندان اور شیعہ محافلوں میں ، حضرت امام جواد علیہ السلام کو مولود خیر پر برکت کے عنوان سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جیسا کہ ابویحیای صنعانی کہتا ہے : ایک دن میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیھٹا تھا ، آپ کا بیٹا ابوجعفر جو کہ کمسن بچہ تھا لایا گیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کیلئے اس جیسا کوئی مولود بابرکت پیدا نہیں ہوا ہے(8)
شاید ابتداء میں یہ تصور ہوجائے کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام پہلے تمام اماموں کی نسبت زیادہ بابرکت ہیں ، حالانکہ اس طرح نہیں ہیں ، بلکہ جب موضوع کی جانچ پڑتال کی جائے اور قرائن و شواھد کا ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ امام جواد علیہ السلام کی ولادت ایسے گھٹن حالات میں واقع ہوئی ہے جو شیعوں کیلئے خاص خیر و برکت کا تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں اس لئے کہ امام رضا علیہ السلام کا زمانہ ایک خاص عصر میں پڑھا تھا کہ آنحضرت (ع) اپنے ما بعد کا جانشین اور امام کے پہچنوانے میں مشکلات کا سامنا ہوچکا تھا جو اس سے پہلے کے اماموں کے دور میں ایسا نہیں ہوا تھا ۔ کیونکہ ایک طرف امام کاظم علیہ السلام کے شہادت کے بعد واقفیہ کا گروہ امام رضا علیہ السلام کی امامت کا منکر ہوچکے تھے تو دوسری طرف امام رضا علیہ السلام ۴۷ سال کی عمر شریف تک کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی جس کی وجہ سے دشمن طعنہ دے رہا تھا کہ امام رضا مقطوع النسل ہیں اور ہم خود امامت زیر سوال آچکی تھی کہ اس کے بعد کوئی امام کا نام و نشان نہیں ہے جبکہ پیغمبر اسلام کے حدیث شریف کے مطابق بارہ امام ہیں اور امام حسین علیہ السلام کے نسل سے ۹ امام پیدا ہونگے ۔
کمسن امام :
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے ؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے جامعہ اسلامی مشکل کا شکار ہوچکی تھی لیکن جب قادر مطلق و حکیم کے خاص لطف و عنایت جو ہر زمانے میں جامعہ بشریت کیلئے ارمغان لاچکی ہے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کردیا تھا۔ اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں ۔
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : یا یحیی خذالکتاب بقوۃ و آتیناہ الحکم صبیا ( سورہ مریم آیہ ۱۲ )
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں تکلم کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ تک کا تلاوت )
یہ بات ہمارے ائمہ کے اقوال میں بھی استفادہ ہوتا ہے اور واقعات جو تاریخ میں موجود ہیں ۔ (والسلام)
--------------
(1)کلینی ، اصول کافی ، ج1 ص 315 و 492 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ، 1381ہـ ؛ ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج 4 ، ص 379 ، قم ، المطبعہ العلمیہ
(2)کلینی ، اصول کافی ، ج 1 ، ص 492 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ، 1381ہـ ؛ شیخ مفید ، الارشاد ، ص 316 ، قم ، مکتبہ بصیرتی . بعض علماء نے آپ کی ولادت اسی سال کے ۱۵ رجب کو قرار دیا ہے ( طبرسی ، اعلام الوری ، ص 344 ، الطبعہ الثالثہ ، دارالکتب الاسلامیہ )
(3)روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۶ ؛ شواہدالنبوت ص ۲۰۴ ، انورالنعمانیہ ص ۱۲۷
(4)ارشاد ص ۴۷۳
(5)اعلام الوری ص ۲۰۰
(6)المناقب، ج4، ص394
(7)ارشاد مفید ص ۴۹۳ ؛ صواعق محرقہ ص ۱۲۳ ؛ روضة الشہداء ص ۴۳۸ ؛ نورالابصار ص ۱۴۷ ؛ انوارالنعمانیہ ص ۱۲۷ ؛ کشف الغمہ ص ۱۱۶ ؛ اعلام الوری ص ۲۰۵
(8) شیخ مفید ، الارشاد ، ص 319 ، قم ، مکتبہ بصیرتی ؛ طبرسی ، اعلام الوری ، ص 347 ، الطبعہ الثالثہ ، المکتبہ الاسلامیہ ؛ فتال نیشابوری ، روضہ الواعظین ، ص 261 ، الطبعہ الاولی ، بیروت ، موسسہ الاعلمی للمطبوعات 1406 ہـ ؛ کلینی ، اصول کافی ، ج1 ، ص 321 ، تہران ، مکتبہ الصدوق ؛ علی بن عیسی الاربلی ، کشف الغمہ ، ج3 ، ص 143 ، تبریز ، مکتبہ بنی ہاشئ 1381 ہـ .
ایران کے راستے آذربائیجان کو ترکمانستان کے گیس کی منتقلی کی صلاحیت کو بڑھانے پر تیار ہیں: صدر رئیسی
ارنا رپورٹ کے مطابق، سلامی جمہوریہ ایران کے صدر مملکت سید "ابراہیم رئیسی" اور ان کے ترکمان هم منصب " سردار بردی محمد اف" نے آج بروز بدھ کو اشک آباد میں منعقدہ کیسپین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات اور گفتگو کی۔
اس موقع پر انہوں نے 30 سالہ اشک باد- تہران کے دوستانہ اور برادارنہ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی 13 ویں حکومت کی ترجیح ہمسایہ ممالک سے تعاون بڑھانے پر مبنی ہے۔
ایرانی صدر مملکت نے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے باہمی اعتماد اور پڑوسیوں کے درمیان تعاون بڑھانے پر مبنی تعلقات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے ترکمان صدر کے حالیہ دورہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دورہ تہران کے موقع پر دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے باہمی تعلقات کے فروغ میں تیزی لانے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔
صدر رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ کاروباری ویزوں کے اجرا میں سہولت اور دونوں ممالک کے تاجروں کے سفر میں اضافے سے دوطرفہ تجارتی تعلقات کے حجم میں توسیع اور اضافہ کی راہ ہموار ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ نیز جمہوریہ آذربائیجان کی درخواست کے پیش نظر ہم ایران کے راستے آذربائیجان کو ترکمانستان کے گیس کی منتقلی کی صلاحیت کو بڑھانے پر تیار ہیں۔
نیز صد رئیسی نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ کیسپین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں ان ہمسایہ کی صلاحیتوں کا استعمال کرنے کیلئے اچھے فیصلے اور معاہدے کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلاشبہ، اس سربراہی اجلاس اور اس کی سائڈ لائن میں اس طرح کی مشاورت ماحولیاتی تحفظات کا احترام کرتے ہوئے اور غیر ملکیوں کی موجودگی کی روک تھام پر زور سے بحیرہ کیسپین کی صلاحیتوں کو پرامن مقاصد کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
در این اثنا سردار بردی محمد اف نے تہران- اشک آباد کے درمیان تعلقات کے فروغ پر صدر رئیسی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک، ایران اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے نفاذ پر پُر عزم ہے۔
انہوں نے بحیرہ کیسپین کو 5 ساحلی ممالک کیللئے ایک مشترکہ قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مشترکہ تعاون اور کوششوں سے اللہ رب العزت کیجانب سے دی گئی اس صلاحیت کا صحیح طرح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے تحفظ کی کوشش کرنی ہوگی۔
نیز دونوں فریقین نے ایران اور ترکمانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کے نفاذ کی ترقی کا جائزعہ لیتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ ان معاہدوں کا نفاذ؛ تہران- اشک آباد کے اقتصادی تعلقات کے میں ایک نیا باب کھلے گا۔
بحیرہ کیسپین علاقے کا "امن اور دوستی" علاقے کے طور پر تحفظ کریں: ایرانی صدر
ارنا رپورٹ کے مطابق، سید "ابراہیم رئیسی" نے بروز بدھ کو اشک آباد میں منعقدہ کیپسین ساحلی ممالک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں مختلف شعبوں میں اقتصادی تعاون بڑھانے پر شریک ممالک کے صدور کی حکمت عملیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، بحیرہ کیسپین کو امن اور دوستی اور علاقائی عوام کے درمیان گہرے قریبی تعلقات پیدا کرنے کا باعث سمجھتا ہے اور باہمی احترام پر مبنی ہمہ جہتی تعاون پر اپنی تیاری کا اظہار کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بحیرہ کیسپین؛ ہمارا مشترکہ ورثہ اور سرمایہ؛ جوڑنے اور دوستی کا مرکز اور اس کے ساحلی ممالک کے 270 ملین سے زیادہ لوگوں کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ ہے، جو پانچ ممالک کو ایک آبی علاقے کے آئینے میں ظاہر کرتا ہے۔
صدر رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ہم بحیرہ کیسپین کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے پڑوسی ممالک کے طور پر اور دوسرے ممالک اور خطوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرتے ہیں، اس آبی علاقے کے ساتھ ساتھ اس کے ساحلی ممالک کے لیے ہمارے بہت سے حقوق اور ذمہ داریاں ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم بطور بحیرہ کسپین کے ساحلی ممالک کے طور پر یکطرفہ اقدامات سے نمٹنے، پانچ جہتی تعاون پر زور دینے، موجودہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے اور تعاون بڑھانے سے بجیرہ کیسپین کے علاقے کو بطور " امن اور دوستی" کے علاقے کی حفاظت کرنی ہوگی اور خطے اور ساحلی ممالک کے طویل مدتی مفادات اور بحیرہ کیسپین سے متعلق تمام فیصلوں میں " اتفاق رائے کے اصول " کی پاسداری پر سنجیدگی سے توجہ دیںی ہوگی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ عدل اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی بنیادوں میں سے ایک ہے، اس کے مطابق عدل و انصاف کے باہمی تعلقات کا قیام اور ایک منصفانہ کثیرالجہتی نظام کی تشکیل؛ ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم سمتوں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ منصفانہ نظام کے فائدوں میں سے ایک ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فروغ ہے جس سے باہمی مفادات کی فراہمی بھی ہوگی۔
ایرانی صدر نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کا ملک بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے صدور کیجانب سے نقل و حمل، سرمایہ کاری، سیاحت اور دیگر شعبوں میں اقتصادی تعاون کی توسیع کی حکمت عملیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی حمایت کرتا ہے اورخاص طور ثقافتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور بحیرہ کیسپین کے نازک ماحول کو محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
صدر رئیسی نے تقریر کے اختتام پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے ساتویں اجلاس کی میزبانی پر تیار ہے۔
پاکستان کے اعلیٰ فوجی وفد کا امام خمینی ؒ کو خراج عقیدت
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے اعلیٰ فوجی وفد نے امام راحل حضرت امام خمینیؒ کے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھا کر ان کی امنگوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔
وفد کی قیادت پاکستانی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ندیم رضا کر رہے تھے۔
افغانستان کی سب سے پہلے مدد کس ملک نے کی؟
سحر نیوز/ عالم اسلام: طالبان حکومت کی آفات و بحران سے نمٹنے کی وزارت کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان میں زلزلے کے بعد طالبان نے پڑوسی ممالک اور عالمی برادری سے رابطہ کیا تاکہ زلزلہ زدہ علاقوں میں فوری امداد بھیجی جا سکے۔
غلام غوث ناصری نے منگل کے روز کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ان پڑوسی ممالک میں پہلا ملک ہے جنہوں نے افغانستان میں زلزلہ زدگان کے لیے امداد بھیجنے کے لیے اقدام کیا۔
گزشتہ بدھ کے روز جنوب مشرقی افغانستان کے پکتیکا اور خوست صوبوں میں 6.1 شدت کے زلزلے نے تباہی مچا کر رکھ تھی جس میں سیکڑوں افغان ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ناصری نے مزید کہا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں تباہی کی شدت بہت وسیع ہے اور شروعات میں افغان عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا گیا اور اب جو چیز اہم ہے وہ مستقل پناہ گاہ ہے اور عالمی برادری کی اس سلسلے میں ذمہ داری ہے۔
طالبان عہدیدار نے واضح کیا کہ آئندہ چند مہینوں میں سردی کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی زلزلہ زدہ علاقوں میں افغان عوام خیموں میں نہیں رہ سکتے اور ایسے حالات میں انسانی امداد پر سیاست نہیں کی جانی چاہیے تاہم مغرب نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دے دیا ہے۔
غلام غوث ناصری نے زور دے کر کہا کہ اگر مغرب انسانی حقوق کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو افغانستان میں انسانیت متاثر ہوئی ہے اور اسے مدد کی ضرورت ہے لیکن اگر مغرب مدد نہیں کرتا تو کم از کم افغان عوام کی روکے ہوئے اثاثے جو کہ 9 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، آزاد کرے۔
ایرانی عزت کا زار دشمنوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ان سے نہ ڈرنے کا ہے: ایرانی سپریم لیڈر
ائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی عزت کا راز دشمنوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ان سے نہ ڈرنے کا ہے۔
ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار حضرت سید علی خامنہ ای نے آج بروز منگل کو عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداروں سے ایک ملاقات کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انہوں نے "معاشرت میں ناقابل تبدیل الہامی آئین" کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1981 کے انتہائی کڑے اور افسوناک واقعات کے سامنے اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی اور فتح کی وجہ دشمنوں کے سامنے مزاحمت کرنے اور ان سے نہ ڈرنے کا ہے۔ اور ان الہی آئین کو تمام عرصوں میں دھرایا جاسکتا ہےاور ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ 2022 کا اللہ وہی 1981 کا اللہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے 1981 کی صورتحال اور حادثے "ہفتم تیر" کے چند مہینوں پہلے کی صورتحال کی یاد دہانی کراتے ہوئے ایران کیخلاف آٹھ سالہ جنگ کی مشکل صورتحال اور مغرب اور جنوب میں کئی بڑے شہروں کے قریب صدام کی افواج کی پیش قدمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جنگ کی ابتر صور تحال کے ساتھ ساتھ تہران میں منافقین نے عملی طور پر خانہ جنگی شروع کر دی تھی اور سیاسی طور پر ہفتم تیر سے چند روز قبل پارلیمنٹ نے صدر کی سیاسی نااہلی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور ملک میں صدر نہیں تھا اور اسی صورتحال میں پر انقلاب اور نظام شہید بہشتی جیسے عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا۔
سپریم لیڈر نے حادثے ہفتم تیر کے دو مہینے بعد ایرانی صدر اور وزیر اعظم کی شہادت سیمت فضائی حملے میں ملک کے اعلی کمانڈروں کی شہادت پر تبصرہ کیا اور کہا کہ نوجوان اور نئے نسل ان واقعات سے واقف نہیں ہیں اور انہیں ان مسائل ک مطالعہ کرکے ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا؛ آپ کونسے حکومت اور ملک کو جانتے ہیں جو ایسے تلخ اور ہولناک واقعات کے سامنے کھڑا نہیں ہوتا؟
قائد اسلامی انقلاب نے کہا کہ بانی اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خمینی (رہ) دماوند پہاڑوں کی طرح ان تمام واقعات کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہیں اور آپ کے ساتھ ساتھ ایرانی عہدیداروں اور انقلابی نوجوانوں نے بھی مزاحمت کا رویہ اپناتے ہوئے ملکی صورتحال کو بالکل بدل دی اور یکے بعد دیگری ناکامیاں، مسلسل فتوحات میں بدل گئیں، منافقین سڑکوں سے ہٹا دیے گئے فوج اور دستے مضبوط ہوتے گئے اور ملک کی صورتحال معمول پر آگئی۔
انہوں نے بعض عرصوں میں ملک میں کمروزی اور اندورنی خامیوں کی وجہ سے دشمن کی خوشی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 1981 اور ان گزشتہ چار دہائیوں کے دوران، دشمن عناصر بعض مواقع ہماری ملکی صورتحال سے خوش ہوکر امیداور ہوگئے کہ اسلامی انقلاب اور ایرانی نظام کا خاتمہ ہونے والا ہے لیکن ان کی امیدیں یاس میں بدل گئیں اور ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کبھی اس یاس کے راز کو نہیں سمجھتے ہیں۔
سپریم لیڈر نے اس بات پر زور دیا کہ دشمن اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ اس دنیا میں سیاسی معاملات کے علاوہ دیگر معاملات بھی ہیں اور وہ الہی آئین ہیں۔
قائد اسلامی انقلاب نے قرآن کریم میں خدائی روایات اور قوانین کی مثالوں کی طرف اشارہ کیا جو اللہ رب العزت کے دین کی مدد کے نتیجے میں یا خدا کی نعمتوں کے منکرین کے نتیجہ میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ قرآن پاک الہی آئین کے مضامین سے بھر پور ہے اور ان سب کا مراد یہ ہے کہ اگر معاشرے، دشمنوں کیخلاف کھڑے ہوکر االلہ رب العزت پر بھروسہ کرکے اپنی ذمہ داریاں پورا کریں تو اس کا نتیجہ فتح اور کامیابی ہے لیکن اگر ان میں اختلافات اور سستی ہو تو اس کا نتیجہ ناکامی ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی نقطہ نظر سے الہی روایات کے سائنسی مطالعہ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم 1981 میں الہی روایات کے مداروں میں سے ایک یعنی جہاد اورمزاحمت میں کھڑے ہونے سے دشمن کو مایوس کرسکی۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی یہی قانون جاری ہے اور 2022 کا اللہ وہی 1981 کا اللہ ہے لہذا ہمیں اس سلسلے میں اپنا راستہ جاری رکھنا ہوگا تا کہ اس کا نتیجہ فتح اور کامیابی ہو۔
یمن میں کورونا ویکسین بھیجنے کے لئے پر تیار ہیں، ایرانی صدر
ایرانی صدر مملکت کی عراقی وزیر اعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس
ایرانی صدر مملکت نے عراقی وزیر اعظم سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران، اس بات پر زور دیا کہ تہران- بغداد مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
ایرانی صدر سید "ابرہیم رئیسی" اور تہران کے دورے پر آئے ہوئے عراقی وزیراعظم "مصطفی کاظمی" نے آج بروز اتوار کو ایک ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
اس موقع پر ایرانی صدر نے عراقی وزیر اعظم اور ان کے ہمراہ وفد کے دورہ ایران کی خوشامدید کہتے ہوئے کہا کہ ہمارے عراق سے تعلقات پڑوسی ملک سے کہیں زیادہ آگے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان گہرے تعلقات ہیں جس سے تعاون کی توسیع میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پڑوسی ممالک سے تعلقات بڑھانے کی پالسی کے سلسلے میں عراق سے گہرے قریبی تعلقات قائم کیے ہیں۔
ایران-عراق مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے قدم اٹھانے ہوں گے
انہوں نے الکاظمی سے اپنی حالیہ ملاقات کے زیر بحث موضوعات سے متعلق کہا کہ شلمچہ اور بصرہ کو ریلوے کے ذریعے منسلک کرنے پر بات چیت ہوئی نیز اس بات سے اتقاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات میں سہولتیں لانے پر نئے اقدامات اٹھائے جائیں۔
صدر رئیسی نے کہا پڑوسیوں سے تعلقات کی توسع کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں آج ہم عراق کو ایرانی قوم کے سب سے قریب دیکھتے ہیں اور ہمسابہ ممالک کے درمیان ہمارے عراق سے سب سے زیادہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات پر بات چیت ہوئی اور اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ ایران اور عراق کے اقتصادی تعلقات کا فروغ ہوجائے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ شلمچہ- بصرہ ریلوے لائن منصوبے پر مذاکرات کیے گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کے مقصد سے اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہنانے پر زور دیا گیا۔
عراق کیجانب سے زائرین کی آمد و رفت میں آسانی لانے کا اقدام قابل قدر ہے
ایرانی صدر نے ایرانی شہریوں کی عراق میں زیارت کے مقصد سے آمد و رفت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ان مقدس مقامات کی زیارت کرنے میں بہت دلچسبی ہے اور عراق کیجانب سے زائرین کی آمد و رفت میں آسانی لانے کا اقدام قابل قدر ہے جس سے امام حسین علیہ السلام سے خراج عقیدت پش کرنے والے زمینی اور فضائی کے راستوں کے ذریعے اور بغیر ویزے کی ضرورت سے عراق جاکر آسانی سے زیارت کر سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ عراق زائرین کیلئے مزید سہولیات کی فراہمی کرے اور اربعین حسینی کے زائرین زمینی اور فضائی سرحدوں سے عراق کی سفر کرسکیں اور گزشتہ سالوں میں موجودہ مسائل بھی حل ہوجائیں۔
صدر رئیسی نے کہا کہ عراق میں داخلے کے بعض مسائل کورونا پھیلاؤ کی وجہ سے تھے جو اب ایران اور عراق دونوں ممالک میں حل ہوچکے ہیں اور صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔
انہوں نے علاقائی ممالک سے تعلقات سے متعلق کہا کہ دونوں فریقین نے ان تعلقات پر زور دیا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ علاقائی حکام کے درمیان مذاکرات سے خطی مسائل کو حل کرسکتے ہیں اور ہم نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں اغیار کی موجودگی نہ علاقائی صورتحال میں بہتری لائے گی بلکہ مسائل میں بھی اضافہ کرے گی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ اس ملاقات خطی مسائل کے حل کیلئے علاقائی حکام اور عہدیداروں کے درمیان مذاکرات پر زور دیا گیا۔
یمنیوں کیخلاف ناکہ بندی کا اختتام اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد پر زور دیا گیا
ایرانی صدر نے یمن می موجودہ مسائل اور مصائب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم یمنیوں کیخلاف ناکہ بندی کا اختتام اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد پر زور دیتے ہیں کیونکہ صرف ان طریقوں سے یمنی بحران کا حل ہوگا اور کئی سالوں سے دکھ درد کا شکار یمنی عوام کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ہم بلاشبہ اس جنگ کے تسلسل کو لا حاصل سمجھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ اس جنگ کا یمنی عوام کی دکھ درد میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا لہذا اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ دنیا ہوگا اور اس حوالے سے جنگ بندی یمنی مسائل کا حل اور یمن انٹراڈائیلاگ کے انعقاد میں بہت مدد ملے گی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ناجائز صہیونی ریاست کی علاقائی ممالک سے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں اس ریاست کی سلامتی کو فراہم کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ایران اور عراق خطے میں قیام امن اور سلامتی پر زور دیتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ صرف اور صرف علاقائی ممالک کے حکام کے کردار ادا کرنے کی روشنی میں حاصل ہوجائے گا اور علاقے میں غیر ملکیوں کی موجودگی کے ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا بھی خطے کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا اور ہمارے علاقے کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور عراق کے درمیان اچھے تعلقات کو علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے کردار ادا کرنے میں انتہائی موثر قرار دے دیا۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ہم مشکل دنوں میں عراقی حکومت اور عوام کیساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے اور رہیں گے اور یہ تعلقات آئے دن بڑھتے جائیں گے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ عراقی وزیر اعظم کا حالیہ دورہ ایران، دونوں ممالک کے تعلقات کی توسیع کا اہم موڑ ہوسکتا ہے۔
ایران سے تعلقات انتہائی اہم ہے: الکاظمی
در این اثنا عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے کہا کہ ہمارا دورہ ایران کا مقصد باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال ہے اور آج ہم نے اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، ثقافتی، تہذیبی اور مذہبی تعلقات پر بات چیت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ایران سے تعلقات انتہائی اہم ہے اور ہم دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے فریم ورک کے اندر دونوں ممالک کے عوام کے مفادات کی فراہمی کی کوشش کریں گے تا کہ باہمی تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکیں۔
عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں اربعین حسینی کے زائرین کے دورہ عراق کیلئے ایک ٹائم ٹیبل فراہم کرنے کا ارادہ ہے۔ اب تک ایرانی زائرین عراقی ہوائی اڈوں پر ویزا حاصل کر سکتے تھے لیکن حالیہ ہفتوں میں ہم نے ایرانی زائرین کو عراق میں داخل ہونے کے لیے ویزے کے حصول کے لیے سرحدی گزرگاہوں پر ایک پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔
الکاظمی نے کہا کہ اربعین حسینی کی زیارت کے دونوں آنے والے ہیں اور ہم ایرانی زائرین کی خدمات فراہم کرنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خطے میں قیام امن اور سلامتی کی کوشش کریں گے اور اور ہم نے یمن میں جنگ بندی کی حمایت کا اعلان کرنے کے لیے ان اہم مسائل کے بارے میں بات کی جن کا خطے کی اقوام کو سامنا ہے۔
عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے اتقاق کیا کہ یمنی جنگ کے خاتمے کیلئے مذاکرات کی حمایت کریں اور یوکرین میں جنگی طرز کے سیکورٹی چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔
یمن میں کورونا ویکسین بھیجنے کے لئے پر تیار ہیں، ایرانی صدر
ایرانی صدر حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی نے یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے چیئرمین مہدی المشاط کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں کہاکہ ہم یمنی مظلوم عوام کے لئے کورونا ویکسین بھیجنے کیلیے تیار ہیں۔
صدر رئیسی نے یمنی عوام کی مزاحمت کو سراہتے ہوئے یمن کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اس جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے جو مکمل امن اور یمنی عوام کے خلاف ظالمانہ اقتصادی ناکہ بندی کے مکمل خاتمے کا باعث بنے گی۔
ہمسائیگی کی پالیسی ایرانی حکومت کی پہلی ترجیح ہے: صدر رئیسی
تہران، ارنا – ایرانی صدر مملکت نے ایرانی موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح پڑوسی ممالک کےساتھ تعلقات کو مزید بڑھانا ہے۔
یہ بات سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ رات ایک ٹی وی پروگروام میں عوام سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے ہمسائیگی کی پالیسی کو اپنی حکومت کی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساھ تجارت میں 450 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 18 پڑوسی ممالک کو تکنیکی اور انجینئرنگ کی خدمات برآمد کر رہے ہیں اور علاقائی ممالک میں ایران کی تکنیکی اور انجینئرنگ برآمدات کی قیمت 2.5ارب ڈالر ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ خطے میں تجارت اور ٹرانزٹ میں ایران کا حصہ بہت زیادہ ہے اور ہم ابھی راستے کے آغاز میں ہیں۔
انہوں نے شنگھائی، برکس اور ای سی او کے رکن ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال کی پہلے تین مہینوں میں تجارت میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ہم نے انجینئرنگ تکنیکی خدمات کی برآمدات کے شعبے میں نمایان کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔
ایرانی صدر نے خطے میں تجارت کی ترقی کے لیے بہت بڑی صلاحیتین موجود ہیں۔
رئیسی نے کہا کہ ہم پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ پابندیوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ پابندیاں ظالمانہ اور یورپ اور امریکہ جو بورڈ آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد پیش کرتے ہیں، کے وعدوں کے برعکس ہیں۔
صدر رئیسی نےامریکہ اور یورپ کی جانب سے ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کا اقدام اچھا نہیں تھا اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نےاپنی 15 رپورٹوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پر امن ایٹمی پروگرام کی تصدیق کی ہے۔
انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ اور جوزپ بورل کے درمیان ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم وقار اور عزت پر مبنی مذکرات کے عمل کو جاری رکھیں گے۔
ایرانی صدر نے بتایا کہ تیل کی مصنوعات کے شعبے دشمنن کی دہمکیوں اور پابندیوں کے باوجود آج اچھی صورتحال میں ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے آئندہ میں اس میں بہتری بھی آئے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملکی تیل کی فروخت کی صورت حال اچھی ہے اور ہم تیل اور غیر تیل کی برآمدات سے ماضی کی طرح مزید آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری کے دروازے کھلے ہیں اور 5 سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا گیا ہے۔