
سلیمانی
ایرانی حکومت کے ترجمان؛ بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی خاموشی تاریخ کی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "علی بہادری جہرمی" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پچھلے 27 سالوں میں اور ایسی دنوں میں 8 ہزار سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو "موت کا راستہ" جس پر سلامتی علاقے کا نام رکھا گیا تھا، میں قتل عام کردیا گیا؛اب اسی جرم کے ملے گئے 50 نئے اجساد سپرد خاک کیے جائیں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منظم یافتہ نسل کشی پر انسانی حقوق کی عالمی برادری کی سنگین خاموشی، کبھی بھی قوموں کی تاریخی یادداشت سے مٹ نہیں جائے گی۔
واضح رہے کہ جولائی 1995 کو سرب فورسز نے مشرقی بوسنیائی قصبے سربرینتسا کے آس پاس آٹھ ہزار سے زائد بوسنیائی مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا اور اب اس جرم میں قربان ہونے والے 50 نئے اجساد مل گئے ہیں جن کی پہچان کے بعد سپرد خاک ہوجائیں گے۔
اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں کے نام میں ایگ الگ پیغامات میں؛ ایرانی اسپیکر نے عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی
ارنا رپورٹ کے مطابق، "محمد باقر قالیباف" نے اپنے اسلامی ممالک کے ہم منصبوں سمیت دنیائے اسلام کے بعض مذہبی اور سیاسی شخصیات کے نام میں الگ الگ پیغامات میں ان کو عیدالاضحی کی آمد پر مبارکباد دی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے پیغامات میں کہا گیا ہے کہ میں عیدالاضحی کی آمد پر سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں۔
قالیباف نے کہا ہے کہ عیدالاضحی؛ دنیاوی رشتوں کو ذبح کرنے، اللہ رب العزت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے، عبادت کا شاندار مظہر، کسی بھی رنگ و نسل، مذہب اور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی علامت ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کرلیا کہ اس عظیم دن کی برکت سے تمام اسلامی ممالک میں قیام امن اور استحکام برقرار ہوجائے گا اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ اور دوستانہ تعلقات مزید مستحکم ہوجائیں گے۔
ایرانی اسپیکر نے مزید کہا کہ ان کا عقیدہ ہے کہ پارلیمانوں کے نمائندوں کے درمیان مشاورت اور گفتگو؛ دنیائے اسلام کے موجودہ مسائل کے حل میں مددگار ثابت ہوگی اور اس سلسلے میں ایرانی پارلیمنٹ باہمی تعلقات کی تقویت اور توسیع پر تعاون کیلئے اپنی تیاری کا اظہار کرتی ہے۔
قالیباف نے اسلامی ممالک کے اسپیکرز اور ان کے عوام اور حکومت کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرلیا۔
سوئڈش کمپنی کا ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار ایرانی بچوں کیلئے پٹیوں کی فروخت سے انکار
ارنا رپورٹ کے مطابق، "احمد معصومی فرد" نے پیر کو ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ طبی سہولیات کی تیار کرنے والی سویڈش کمپنی، امریکی پابندیوں کا بہانہ کرکے ایران میں ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں کیلئے خاص پٹیوں کی فروخت کا انکار کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ معصوم فرشتہ (بیمار بچے) آئے دن انسانی حقوق کے دعویداروں کی آنکھوں کے سامنے سہتے ہیں۔ کیا یہ بچوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور انسانیت کیخلاف جرم نہیں ہے؟
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر "النا دوہان" نے مئی مہینے میں ایران کا دورہ کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مجھے ایپی ڈرمولیسس بلوسا کا شکار بچوں سے معلومات حاصل ہوا اور مجھ سے کہا گیا کہ ان کیلئے ضروری ادویات اور پٹیوں کی درآمد کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیوں نے کہا ہے کہ ان کو امریکی پابندیوں کا شکار ہونے سے خوف ہے؛ ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ایران کیخلاف اٹھائے گئے اقدامات انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
حج کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی کا رہنما پیغام، عالم اسلام کے اہم مسائل پر گفتگو
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حسب دستور قدیم امسال بھی حجاج کرام کے نام رہنما پیغام جاری کیا جس میں آپ نے حج کے رموز و اسرار، عالم اسلام کی توانائیوں، انہیں درپیش چیلنجوں اور انکے سلسلے میں دشمنوں کی سازشوں کی نشاندہی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ رب العالمین و صلی اللہ علی محمد المصطفی و آلہ الطاھرین و صحبہ المنتجبین.
خداوند عزیز و حکیم کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ایک بار پھر حج کے مبارک ایام کو مسلمان اقوام کی وعدہ گاہ بنایا اور اپنے فضل و رحمت کا راستہ ان کے لیے کھولا۔ مسلم امہ ایک بار پھر اس شفاف اور ابدی آئينے میں اپنے اتحاد و یکجہتی کا مشاہدہ کر سکتی ہے اور انتشار و تفرقے کے محرکات سے منہ موڑ سکتی ہے۔
مسلمانوں کا اتحاد، حج کے دو بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے جو اگر ذکر اور روحانیت کے – جو اس پراسرار فریضۂ واجب کا دوسرا ستون ہے – ہمراہ ہو جائے تو امت مسلمہ کو عزت و سعادت کی چوٹی پر پہنچا سکتا ہے اور اسے وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِين (1) کا مصداق قرار دے سکتا ہے۔ حج، ان دو سیاسی اور روحانی عناصر کا مجموعہ ہے اور دین مقدس اسلام، سیاست و روحانیت کا ایک عظیم اور پرشکوہ مجموعہ ہے۔
حالیہ تاریخ میں مسلم اقوام کے دشمنوں نے ان دو حیات بخش عناصر یعنی وحدت اور روحانیت کو کمزور کرنے کے لیے ہماری اقوام کے درمیان بہت زیادہ ریشہ دوانیاں کی ہیں۔ وہ معنویت کو، مغربی طرز زندگي کا پرچار کر کے، جو روحانیت سے عاری اور مادی کوتاہ فکری کا نتیجہ ہے، بے رنگ اور بے جان کر رہے ہیں اور وحدت کو زبان، رنگ، نسل اور جغرافیائي حدود جیسے تفرقے کے بے بنیاد محرکات کو پھیلا کر اور ان میں شدت پیدا کرکے چیلنج کر رہے ہیں۔
امت مسلمہ کو، جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ اس وقت حج کے علامتی مراسم میں دیکھا جا رہا ہے، اپنے پورے وجود کے ساتھ مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ یعنی ایک طرف خدا کی یاد، خدا کے لیے عمل، کلام خدا میں غور و فکر اور اللہ کے وعدوں پر اعتماد کو اپنے اجتماعی ادراک میں مضبوط بنائے اور دوسری طرف تفرقے اور اختلاف کے محرکات کو قابو میں کرے۔
آج جو بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا اور عالم اسلام کے حالات، اس گرانقدر کوشش کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مناسب اور سازگار ہیں۔
کیونکہ اول تو یہ کہ اسلامی ممالک میں دانشوروں اور عوام کی بہت بڑی تعداد، اپنے عظیم عرفانی و روحانی اثاثے کی طرف متوجہ ہو چکی ہے اور اس کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھ چکی ہے۔ مغربی تمدن کے سب سے اہم تحفے کی حیثیت سے آج لبرلزم اور کمیونزم اپنی سو سال اور پچاس سال پہلے کی جاذبیت کھو چکے ہیں۔ سرمائے کے محور پر قائم مغربی ڈیموکریسی کے اعتبار پر سنجیدہ سوالیہ نشان لگ چکے ہیں اور مغربی مفکرین اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ شناخت اور عمل کے لحاظ سے سرگرداں ہو چکے ہیں۔ عالم اسلام میں نوجوان، مفکرین اور علم اور دین کے میدان میں سرگرم افراد اس صورتحال کو دیکھ کر، اپنے عرفانی سرمائے اور اسی طرح اپنے ملکوں میں رائج سیاسی خطوط کے بارے میں نئی رائے قائم کر رہے ہیں۔ یہی اسلامی بیداری ہے جس کا ہم ہمیشہ ذکر کرتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ اس اسلامی خود آگہی نے عالم اسلام کے دل میں ایک حیرت انگيز اور معجز نما چیز پیدا کر دی ہے جس کا مقابلہ کرنے میں سامراجی طاقتوں کو دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ اس چیز کا نام 'استقامت' ہے اور اس کی حقیقت ایمان، جہاد اور توکل کی طاقت کا مظاہرہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ایک نمونے کے بارے میں اسلام کے ابتدائي دور میں یہ آيت نازل ہوئي تھی: " الَّذِينَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھمْ اِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ؛ فَانقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللَّہ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْھُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (2) فلسطین کا میدان اس حیرت انگیز حقیقت کی ایک جلوہ گاہ ہے اور اس چیز نے تخریب کار صیہونی حکومت کو جارحانہ انداز اور شرانگیزی کی حالت سے نکال کر دفاعی پوزیشن اور پسپائي کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے اور اس پر کھلی ہوئی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔ استقامت کے دیگر درخشاں نمونوں کو لبنان، عراق، یمن اور بعض دوسری جگہوں پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تیسرے یہ کہ ان سب کے ساتھ ہی آج دنیا اسلامی مملکت ایران میں، اسلام کی سیاسی حاکمیت و اقتدار کا ایک کامیاب اور سرفراز نمونہ دیکھ رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا استحکام، خود مختاری، پیشرفت اور عزت، ایک بہت عظیم، با معنی اور پرکشش امر ہے جو ہر بیدار مسلمان کے افکار و جذبات کو اپنی جانب مائل کر سکتا ہے۔ اس نظام کے ہم ذمہ داروں اور عہدیداروں کی بعض کمیاں اور ناقص کارکردگياں، جن کے باعث اسلامی حکومت کی تمام برکتوں تک مکمل رسائی میں تاخیر ہوئی، اس نظام کے مضبوط ستونوں اور ٹھوس قدموں میں، جن کا سرچشمہ اس کے بنیادی اصول ہیں، کبھی بھی لرزش پیدا نہیں کر سکیں اور نہ ہی اس کی مادی و معنوی پیشرفت کو روک سکی ہیں۔ ان بنیادی اصولوں میں سرفہرست، مقننہ اور انتظامیہ میں اسلام کی حاکمیت، ملک کے سب سے اہم انتظامی امور میں عوام کی رائے پر اعتماد، مکمل سیاسی خودمختاری اور ظالم طاقتوں کی طرف نہ جھکنا ہے۔ یہی اصول مسلم اقوام اور حکومتوں کے اتحاد کی بنیاد قرار پا سکتے ہیں اور امت مسلمہ کو فیصلوں اور تعاون میں متحد اور ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔
یہ وہ اسباب و عناصر ہیں جنھوں نے عالم اسلام کے متحد اور ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھنے کے لیے موجودہ موافق اور سازگار حالات فراہم کئے۔ مسلمان حکومتوں، مذہبی شخصیات اور اسکالرز، خودمختار و آزاد منش روشن فکر افراد اور حقیقت کے متلاشی نوجوانوں کو ان سازگار حالات سے پہلے سے زیادہ استفادے کے بارے میں دوسروں سے بڑھ کر سوچنا چاہیے۔
فطری بات ہے کہ سامراجی طاقتیں اور سب سے بڑھ کر امریکا، عالم اسلام میں اس قسم کا رجحان دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں اور اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میڈیا کے میدان میں ڈکٹیٹرشپ اور سافٹ وار کے مختلف طریقوں سے لے کر جنگ شروع کرنے اور پراکسی وار کے شعلے بھڑکانے تک اور سیاسی ترغیبوں اور جاسوسی سے لے کر دھمکی، لالچ اور رشوت دینے تک، یہ سارے حربے امریکا اور دوسری سامراجی طاقتوں کی جانب سے استعمال کئے جا رہے ہیں تاکہ اسلام کو، بیداری اور سعادت کی راہ سے ہٹایا جا سکے۔ اس خطے میں مجرم اور نفرت انگیز صیہونی حکومت بھی اسی ہمہ گیر کوشش کے حربوں میں سے ایک ہے۔
اللہ کے فضل اور اس کی مشیت سے زیادہ تر موقعوں پر یہ کوششیں ناکام رہی ہیں اور گھمنڈی مغرب، ہمارے حساس خطے اور حالیہ دنوں میں پوری دنیا میں روز بروز زیادہ کمزور ہوا ہے۔ خطے میں امریکا اور اس کے مجرم ساتھی یعنی غاصب صیہونی حکومت کی پریشانی اور ناکامیوں کو فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور افغانستان کے واقعات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں عالم اسلام جوش و جذبے والے نوجوانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مستقبل کی تعمیر کے لیے سب سے بڑا سرمایہ، امید اور خود اعتمادی ہے جو آج عالم اسلام خاص طور پر اس خطے کے ممالک میں لہریں مار رہی ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سرمائے کی حفاظت اور اس میں اضافہ کریں۔
ان سب کے باوجود دشمن کی چالوں سے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ غرور و غفلت سے دور رہنا چاہیے اور اپنی کوششوں اور بیداری میں اضافہ کرنا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالی کی طرف پوری توجہ اور خضوع کے ساتھ خدائے قادر و حکیم سے مدد مانگنی چاہیے۔
حج کے اعمال و مناسک میں شرکت، اللہ پر توکل و دعا اور اسی طرح غور و فکر اور فیصلے کا بڑا اہم موقع ہے۔ پوری دنیا میں اپنے مسلمان بھائيوں اور بہنوں کے لیے دعا کیجیے اور ان کی توفیق اور کامیابی، خداوند عالم سے طلب کیجیے۔ اپنے اس بھائي کی ہدایت اور مدد کی دعا کو بھی اپنی خالص دعاؤں میں شامل کیجیے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
5 ذی الحجۃ 1443
14 تیر 1401 بمطابق 5 جولائي 2022
******
(1) سورۂ منافقون، آیت 8 (اور ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔)
(2) . سورۂ آل عمران، آیات 173 اور 174 (وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر اکٹھا کیا ہے لہٰذا تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا۔ اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ تو یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا اور وہ رضائے الٰہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔)
(بشکریہ: khamenei.ir)
مکہ میں صدائے لبیک اللهم لبیک کی گونج
مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، 10 لاکھ عازمین حج طواف کے بعد قافلوں کی صورت میں منیٰ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
عازمین آج منیٰ میں پورا دن قیام اور عبادت کریں گے۔ منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشا اور کل نماز فجر ادا کریں گے۔
عازمین کل میدان عرفات پہنچ کر حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کریں گے۔ طلوع آفتاب کے بعد واپس منیٰ جائیں گے، شیطان کو کنکریاں ماریں گے اور قربانی دیں گے۔
11 اور 12 ذی الحج کو تمام مناسک سے فارغ ہونے کے بعد عازمین ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جا کر مسجد الحرام میں الوداعی طواف کریں گے۔
خیال رہے کہ اس سال ۳۹ ہزار ۶۳۵ ایرانی، حج پر مشرف ہونے کی سعودت حاصل کر رہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر اس سال حاجیوں کی تعداد دس لاکھ بتائی جاتی ہے۔
پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس نے برطانوی معاون سفیر سمیت غیر ملکی سفارت کاروں کو جاسوسی کا کام کرنے پر گرفتار کر لیا
تہران، ارنا - پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس نے تہران میں غیر ملکی سفارت خانوں میں کام کرنے والے کچھ سفارت کاروں کی نگرانی اور گرفتاری کے لیے پہل کی، جن میں ملک میں جاسوسی کی سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے برطانوی معاون سفیر بھی شامل ہیں ۔
پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیو کے مطابق، اس نے غیر ملکی سفارت خانوں کے کچھ سفارت کاروں کو بے نقاب کیا ہے جو اپنی سفارتی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے جاسوسی کر رہے تھے۔
ان سفارت کاروں کی نگرانی پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس نے اس وقت کی تھی جب وہ جاسوسی کا کام کر رہے تھے اور ملک کے مختلف ممنوعہ علاقوں سے مٹی کے نمونے لے رہے تھے۔
جن افراد کو دیکھا گیا ان میں سے ایک برطانوی اسسٹنٹ سفیر بھی ہے جو سیاحت کی آڑ میں ایران کے جنوب مشرقی صوبے کرمان کے صحرائے شہداد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گیا تھا لیکن لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مٹی کے نمونے لینے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس علاقے میں جب یہ عمل ہو رہا تھا جس میں پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی میزائل مشقوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔
امام محمد باقر علیہ السلام پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی
امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ ؑ کی والدہ
دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)
مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی
امام محمد باقر علیہ السلام پہلی اسلامی یونیورسٹی کے بانی
امام اول اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی تیسری پشت اور ھدایت کے پانچویں امام، حجت خدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت پہلی رجب57 قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، اور94 ہجری قمری میں امام علی ابن الحسین زین العابدین علیہم السلام کی شہادت کے بعد امامت تفویض ہوئی اور 114 ہجری قمری کو 18 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
آپ ؑ کی والدہ
دوسرے امام حضرت حسن بن علی علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والد علی بن حسین بن علی علیہم السلام تھے ،اس اعتبار سے آپ ؑ پہلے شخص ہیں جو ماں اور باپ کی طرف سے علوی ؑ فاطمی ؑ ہیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دور امویوں اور عباسیوں کے سیاسی اختلافات اور اسلام کا مختلف فرقوںمیں تقسیم ہونے کے زمانے سے مصادف تھا جس دور میں مادی اور یونانی فلسفہ اسلامی ملکوں میں داخل ہوا جس سے ایک علمی تحریک وجود میں آئی۔ جس تحریک کی بنیاد مستحکم اصولوں پر استوار تھی ۔ اس تحریک کے لئے ضروری تھا کہ دینی حقایق کو ظاہر کرے اور خرافات اور نقلی احادیث کو نکال باہر کرے ۔ ساتھ ہی زندیقوں اور مادیوں کا منطق اور استدلال کے ساتھ مقابلہ کرکے انکے کمزور خیالات کی اصلاح کرنا۔ نامور دھری اور مادہ پرست علماء کے ساتھ علمی مناظرہ و مذاکرہ کرنا تھا یہ کام امام وقت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے بغیر کسی اور سے ممکن نہ تھا ۔ آپ علیہ السلام نے حقیقی عقاید اسلامی کی تشہیرکی راہ میں علم کے دریچوں اور درازوں کو کھول دیا اور اس علمی تحریک کو پہلی اسلای یونورسٹی کے قیام کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔آپ کے بارے میں امام حنبل اور امام شافعی جیسے اسلام شناس کہتے ہیں:
ابن عباد حنبلی کہتے ہیں : ابو جعفر بن محمدؑ مدینہ کے فقہا میں سے ہیں ۔آپ ؑ کو باقر کہا جاتا ہے اس لئےکہ آپ ؑ نے علم کو شکافتہ کیا اور اس کی حقیقت اور جوہر کو پہچانا ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
محمدبن طلحہ شافعی کہتے ہیں: محمد بن علی ؑ، دانش کو شکافتہ کرنے والے اور تمام علوم کے جامع ہیں آپ کی حکمت آشکار اورعلم آپ کے ذریعہ سر بلند ہے۔آپ ؑ کے سرچشمہ و جود سے دانش عطا کرنے والا دریا پر ہے۔آپ کی حکمت کے لعل و گہر زیبا و دلپذیر ہیں۔ آپ ؑ کا دل صاف اور عمل پاکیزہ ہے۔ آپ مطمئن روح اور نیک اخلاق کے مالک ہیں۔ اپنے اوقات کو عبادت خداوندمیں بسر کرتے ہیں۔ پرہیز گاری و ورع میں ثابت قدم ہیں۔ بارگاہ پرور دگار پروردگار میں مقرب اور برگذیدہ ہونے کی علامت آپ ؑ کی پیشانی سے آشکار ہے۔آپ ؑکے حضور میں مناقب و فضائل ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ نیک خصلتوں اور شرافت نے آپ سے عزت پائی ہے۔(الامام الصادق و المذاہب الاربعہ ۔ج ۔1۔ص 149)۔
پانچویں امام ؑ نے پانچ خلیفوں( اسلامی بادشاہوں )کا دور دیکھا:
1. ولیدبن عبد الملک 86-96ھ۔
2. سلیمان بن عبدالملک 96-99 ھ۔
3. عمر بن عبد العزیز 99-101ھ۔
4. یزید بن عبد الملک 101-105 ھ۔
5. ھشام بن عبد الملک 105-125 ھ۔
مذکورہ اسلامی ممالک کے حاکموں( خلیفوں) میں عمر بن عبد العزیز جو کہ نسبتاً انصاف پسند اور خاندان رسول اﷲ ﷺوآلہ کے ساتھ نیکی کے ساتھ رفتار کرنے والا منفرد اسلامی بادشاہ (خلیفہ) تھا جس نے معاویہ علیہ ہاویہ کی سنت یعنی” معصوم دومؑ،امام اولؑ اور خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب ؑکے نام 69 سال تک خطبوںمیں لعنت کہنے کی شرمسار بدعت اور گناہ کبیرہ کو ممنوع کیا ۔
پانچویں امام اور پہلی اسلامی دانشگاہ کے بانی حضرت محمد باقر علیہ السلام سے اصحاب پیغمبر اسلامﷺ میں سے جابر بن عبداﷲ انصاری اور تابعین میں سے جابر بن جعفی، کیسان سجستانی،اور فقہا میں سے ابن مبارک،زھری، اوزاعی، ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور زیاد بن منزر نھدی آپ ؑ سے علمی استفادہ کرتے رہے۔معروف اسلامی مورخوں جیسے طبری، بلاذری، سلامی، خطیب بغدادای، ابو نعیم اصفہانی و مولفات و کتب جیسے موطا مالک ، سنن ابی داوود، مسند ابی حنیفہ، مسند مروزی، تفسیر نقاش،تفسیر زمخشری جیسے سینکڈوں کتابوں میں پانچویں امام ؑ کی دریای علم کی دُرّبی بہا باتیں جگہ جگہ نقل کی گئی ہیں اور جملہ قال محمد بن علی یا قال محمد الباقر دیکھنے کو ملتا ہے۔(ابن شھر آشوب ج 4 ص 195)۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی قایم کردہ اسلامی مرکز علم(یونیورسٹی) میں سے مایہ ناز علمی شخصیتیں فقہ، تفسیر اور دیگر علوم میں تربیت حاصل کر گئے جیسے محمد بن مسلم، ذرارہ بن اعین، ابو بصیر ، بُرید بن معاویہ عجلی، جابر بن یزید، حمران بن اعین اور ھشام بن سالم قابل ذکر ہیں۔
پانچویں امام ؑ نے دوسرے ائمہ کے مانند اپنی زندگی کو نہ صرف عبادت اور علمی مصروفیت میں بسر کی بلکہ زندگی کے دوسرے کاموں میں بھی سرگرم تھے، جبکہ کچھ سادہ لوح مسلمان جیسے محمد بن مُنکَدِر ایسے اعمال کوامام ؑ کی دنیا پرستی تصور کرتے تھے ، موصوف کہتا ہے” امام کا کھیت میں زیاد کام کرتے دیکھنے کی وجہ سے میں نے اپنے آپ سے کہا کرتا تھا کہ حضرت ؑ دنیا کے پیچھے پڑے ہیں لہٰذامیں نے سوچا کہ ایک دن انہیں ایسا کرنے سے روکنےکی نصیحت کروں گا، چنانچہ میں نے ایک دن سخت گرمی میں دیکھا کہ محمد بن علی زیادہ کام کرنیکی وجہ سے تھک چکے تھے اور پسینہ جاری تھا میں آگے بڑھا اور سلام کیا اور کہنے لگا اے فرزند رسول ﷺ آپ مال دنیاکی اتنی کیوں جستجو کرتے ہیں؟ اگر اس حال میں آپ پر موت آجائے تو کیا کرینگے، آپ ؑ نے فرمایا یہ بھترین وقت ہے کیونکہ میں کام کرتا ہوں تاکہ میں دوسروں کا محتاج نہ رہوں اور دوسروں کی کمائی سے نہ کھاوں اگرمجھ پر اس حالت میں موت آئے تومیں بہت خوش ہونگا، چونکہ میں خدا کی اطاعت و عبادت کی حالت میں تھا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دیگر ائمہ ھدی کے مانند تمام علوم و فنون کے استاد تھے۔ ایک دن خلیفہ ھشام بن عبد الملک نے امام ؑ کو اپنی ایک فوجی محفل میں شرکت کی دعوت دی جب امامؑ وہاں پہنچے وہاں فوجی افسران سے محفل مذین تھی کچھ فوجی افسران تیرکمانوں کو ہاتھوں میں لئے ایک مخصوص نشانے پر اپنا اپنا نشانہ سادتے تھے، چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام اس واقعے کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :"جب ہم دربار میں پہنچے تو ھشام نے احترام کیا اور کہا آپ نذدیک تشریف لائیں اور تیر اندازی کریں میرے والد گرامی نے فرمایا میں بوڈھا ہو چکا ہوں لہٰذا مجھے رہنے دے، ھشام نے قسم کھائی میں آپ سے ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں۔ میرے والد بذرگوار ؑ نے مجبور ہو کر کمان پکڑی اور نشانہ لیا تیر عین نشانہ کے وسط میں جاکر لگا آپ ؑ نے پھر تیر لیا اور نشانہ پر جاکر تیر مارا جو پہلے تیر کو دو ٹکڑے کردیئے اور اصل نشانہ پر جا لگا آپ تیر چلاتے رہے یہاں تک کہ 9 تیر ہوگئے ھشام کہنے لگا بس کریں اے ابو جعفر آپ تمام لوگوں سے تیر اندازی میں ماہر ہیں"۔
آخر میں امام محمد باقر ؑکی جابر بن جعفی کو کئے وصیت کا مختصر حصہ آپ قارئین محترم کے نذر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے امید کرتا ہوں امام کے اقوال ہمارے لئے مشعل راہ اور نمونہ عمل قرار دے۔
1. میں تمہیں پانچ چیزوں کے متعلق وصیت کترا ہوں:
2. اگر تم پر ستم ہو تو تم ستم نہ کرنا۔
3. اگرتمہارے ساتھ خیانت ہو تم خائن نہ بنو ۔
4. اگر تم کو جھٹلایا گیا تو تم غضبناک نہ ہو۔
5. اگر تمہاری تعریف ہوئی تو خوشحال نہ ہو اگر تمہاری مذمت ہوئی تو شکوہ مت کرو۔تمہارے متعلق لوگ جو کہتے ہیں اس پر غور کرو۔پس اگر واقعاً ویسے ہی ہو جیسا لوگ خیال کرتے ہیں ۔تو اس صورت میں اگر تم حق بات سے غضبناک ہوئے تو یاد رکھو خدا کی نظر سے گرگئے۔ اور خدا کی نظر سے گرنا لوگوں کہ نظر میں گرنےسے کہیں بڑی مصیبت ہے۔ لیکن اگر تم نے اپنے کولوگوں کے کہنے کے برخلاف پایا تو اس صورت میں تم نے بغیر کسی زحمت کے ثواب حاصل کیا۔
یقین جا نو! تم میرے دوستوں میں صرف اسی صورت میں ہو سکتے ہو کہ اگر تمام شہر کے لوگ تم کو برا کہیں اور تم غمغین نہ ہو، اور سب کے سب کہیں تم نیک ہو تو شادمان نہ ہو، اور لوگوں کے برائی کرنے پر خوف زدہ مت ہو، اس لئے کہ وہ جو کچھ کہیں گے اس سے تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا ، اور اگر لوگ تمہاری تعریف کریں جبکہ تم قرآن کی مخالفت کر رہے ہو بھر کس چیز نے تم کو فریفتہ کر رکھا ہے؟ بندہ مومن ہمیشہ نفس سے جہاد میں مشغول رہتا ہے تا کہ خواہشات پر غالب ہو جائے اور اس امر کیلئے اہتمام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت امام محمد باقر ۴۱۱ھ میں خلیفہ ھشام بن عبد الملک کے حکم پر زہر دے کر شہید کردئےگئے۔آپ ؑ 57 سا ل تک وحی الہٰی کی ترجمانی کرتے رہے۔ آپ کے بعد آٹھویں معصوم اور چھٹے امام حضرت جعفر صادق ؑ آپکے جانشینی پر فائز ہوئے اور آپ ؑ کے قائم کردہ اسلامی مرکز علم کو وسعت عطا کرکے اسلام ناب محمدی ﷺ کی توضیع و تفسیر بیان فرمائی اور دینی محفل میں قال الصادق قال الصادق کی گونج سنائی دی اورامام جعفر صادق کی بتائی ہوئی اسلام کی تشریح پر چلنے والوں کو جعفری کہا گیا۔
خداوند ہمیں ان علوم کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے،(آمین)
مؤلف: آغاعبدالحسین بڈگامی
امریکی انسانی حقوق، رہبر معظم انقلاب کی نظر میں
امریکہ کی جانب سے دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ دنیا کے مختلف ادارے اور شخصیات ان خلاف ورزیوں پر امریکہ کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی مختلف مواقع پر اپنے موقف کا اظہار کیا ہے۔ تحریر حاضر میں ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی کی نظر میں انسانی حقوق سے متعلق امریکی حکومت کے رویوں کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
1)۔ امریکی حکمران انسانی حقوق کے قائل نہیں ہیں
ولی امر مسلمین امام خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں امریکی انسانی حقوق کے بارے میں فرمایا: “امریکی حکمران یہ دعوی تو کرتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے حامی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے قائل ہی نہیں ہیں۔”
آپ نے امریکی حکمرانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا: “آپ کمپنیوں کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور بڑے امریکی سرمایہ داروں کے حقوق کے قائل ہیں۔ آپ دنیا بھر میں امریکہ کی ناجائز رژیم کے مفادات پر عقیدہ رکھتے ہیں۔” امام خامنہ ای کی اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی جانب سے انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے محض ڈھونگ ہے جس کا مقصد دنیا والوں کو دھوکہ دینا ہے۔ ولی امر مسلمین ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کا نعرہ لگانے کا مقصد دوسروں کو دھوکہ دینا اور ان پر دباو ڈالنا ہے۔” دنیا بھر خاص طور پر مشرق وسطی، افغانستان، براعظم افریقہ، لاطینی امریکہ اور حتی خود امریکہ کے اندر رونما ہونے والے سیاسی واقعات کا مختصر جائزہ لینے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ خود امریکی حکمران انسانی حقوق کے سب سے بڑے خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔
2)۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکہ کا سیاہ نامہ اعمال
رہبر معظم انقلاب اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں: “امریکی حکمرانوں کو انسانی حقوق کا نام زبان پر لیتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی؟ دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کر سکتا ہے لیکن امریکی حکمران ایسا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کا نامہ اعمال انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔” حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں اگر کوئی کتاب لکھی جائے تو وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات پر مشتمل ہو گی۔ امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ سے عرب دنیا میں موجود آمرانہ حکومتوں کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کی ہے۔ بحرین میں آل خلیفہ جیسی ڈکٹیٹر رژیم جو اپنی ہی عوام کے خلاف طاقت کا کھلا استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ کے فوجی قبضے کے دوران بیشمار بیگناہ انسانوں کا قتل عام کیا گیا۔
3)۔ سیاہ فام امریکی شہریوں کے خلاف انسان سوز جرائم
امریکی حکومت ایک طرف تو انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے دعوے کرتے دکھائی دیتی ہے جبکہ دوسری طرف خود اپنی ہی سیاہ فام شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ امریکہ کے سیاہ فام شہری طویل عرصے سے حکومتی اداروں کی جانب سے شدید امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ اس بارے میں آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں: “امریکہ کے سیاہ فام شہری بدستور دباو، ظلم و ستم اور امتیازی رویوں کا شکار ہیں۔ داودی فرقے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 80 افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے ایک گھر میں جمع تھے اور امریکی سکیورٹی اداروں نے انہیں زندہ زندہ جلا کر راکھ بنا دیا۔ کیا یہ انسانی حقوق کی پابندی ہے؟ امریکہ کیسے خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتا ہے؟”
4)۔ فلسطین اور یمن میں امریکہ کا اصلی چہرہ عیاں ہوا ہے
یمن اور فلسطین میں امریکی حکومت نے جو اقدامات انجام دیے ہیں اس سے انسانی حقوق سے متعلق امریکی حکمرانوں کا اصل چہرہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: “(امریکی حکمران) سعودی حکمرانوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں جبکہ وہ یمن کے بازاروں، مساجد، عزاداری کی مجالس اور خوشی کے جشن پر بم برسا کر یمنی شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اوپر سے وہ انسانی حقوق کی حمایت کا دعوی بھی کرتے ہیں۔” ایک اور جگہ پر رہبر معظم انقلاب فرماتے ہیں: “دنیا کے لوگ مختلف مواقع پر ہمیشہ امریکی حکمرانوں کی زبان سے انسانی حقوق کا حامی ہونے کا نعرہ سنتے رہتے ہیں جبکہ فلسطین میں ان کا قبیح چہرہ مشاہدہ کرتے ہیں۔”
مسئلہ فلسطین میں امریکہ ہمیشہ سے غاصب صہیونی رژیم کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت کرتا آیا ہے۔ اسی طرح امریکہ آل سعود رژیم کو بھی جدید ترین فوجی سازوسامان مہیا کرتا آیا ہے جن کے ذریعے سعودی حکمران بیگناہ یمنی شہریوں کا خون بہاتے آئے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے خلاف غاصب صہیونی رژیم اور یمنی شہریوں کے خلاف آل سعود رژیم کے مجرمانہ اقدامات اس قدر واضح ہیں کہ حتی مغربی ممالک کے شہری ان کی مذمت کرنے میں مصروف ہیں۔ حال ہی میں دنیا بھر میں انسانی حقوق سے متعلق سرگرم وکلاء نے “انتڑنیشنل ریسرچ کمیشن” قائم کیا ہے اور امریکی پولیس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی پولیس طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت سیاہ فام شہریوں کو ٹارچر اور قتل کرتی ہے۔
تحریر: رامین حسین
مولوی خدائی: بزرگان دین کے کلام میں تفرقہ اور جدائی نام کی کوئی چیز نہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولوی عبدالرحمن خدائی نے شہر بانہ کے دینی مدارس کے طلباء سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا: جو وحدت قرآن پاک، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کلام میں موجود ہے وہی مسلمانوں کے لیے دشمنوں کی سازشوں سے نجات کا راستہ ہے۔
شہر بانہ کے امام جمعہ نے کہا: مسلمانوں کے درمیان وحدت ہی دنیائے اسلام میں جنگ اور قتل و غارت کے خاتمے کا باعث ہے۔ کیونکہ مسلمانوں میں حقیقی معنی میں وحدت کا وجود داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لیے موت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: اتحاد و وحدت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اہداف میں سے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو توحید اور یکتا پرستی کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں اور منافقین کی شرارتوں کے باوجود اس سلسلے میں بہت اہم اقدامات کئے۔
مولوی خدا ئی نے کہا: جو لوگ دنیائے اسلام میں ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں نہ وہ اہل سنت ہیں اور نہ ہی شیعہ؛ بلکہ یہ افراد مغربی دنیا اور عالمی استعمار کے آلہ کار ہیں۔
شہر بانہ کے امام جمعہ نے کہا: اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ دنیا کے لئے کچھ کہنے کو ان کے پاس ہو تو انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا: بزرگان دین کے کلام میں تفرقہ اور جدائی نامی کوئی چیز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بزرگان دین کی سیرت میں تفرقہ اور اختلاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
اہلسنت کے عالم دین نے کہا: دشمن مسلمانوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی سیرت سے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان بزرگانِ دین کی سیرت پر عمل کریں۔