Super User

Super User

اسرائیل کی غاصبانہ پالیسی کے خلاف فلسطینیوں کا ردعمل۔

فلسطین کی قومی جدت عمل تحریک کے سکریٹری جنرل مصطفی برغوثی نے بین الاقوامی آئین کے جاگزیں کی حیثیت سے مقبوضہ علاقوں سے ہر قسم کی پسپائی سے قبل ریفرنڈم کرانے جیسے صہیونی حکومت کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے اس کو ناکام قرار دیاہے۔مصطفی برغوثی نے گزشتہ روز فلسطین اور بیت المقدس کے مقبوضہ علاقوں سے ہر قسم کی پسپائی سے پہلے ریفرنڈم کے انعقاد کی ضرورت پر مبنی صہیونی حکومت کی پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے حالیہ بل پر رد عمل دکھاتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اپنے ان اقدامات سے بین الاقوامی آئین کا ایک جاگزیں حاصل کرنے کا خواہاں ہے لیکن اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی کوئی طاقت و حکومت بین الاقوامی آئین کی خلاف ورزی کا حق نہیں رکھتی۔مصطفی برغوثی نے مزید کہا کہ ریفرنڈم کے انعقاد جیسے اقدامات کے ذریعہ بیت المقدس ، غرب اردن اور غزہ سمیت فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضے کو قانونی ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔اسرائیل کی پارلیمنٹ میں پیش کردہ حالیہ بل کی بنیاد پر مقبوضہ علاقوں سے ہر قسم کی پسپائی کا عمل، ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد انجام پانا چاہیے واضح رہے کہ صہیونی پارلیمنٹ نے بیت المقدس اور جولان کے مقبوضہ علاقوں سے صہیونی حکومت کی پسپائی سے پہلے ریفرنڈم کے انعقاد کے ضروری ہونے پر مبنی بل کے مسودے کی موافقت کردی ہے ۔غاصب صہیونی حکومت نے بیت المقدس اور شام کے علاقے جولان سے ہر قسم کی پسپائی سے گریز کے لئے ان مقبوضہ علاقوں سے عقب نشینی کو ریفرنڈم پر منحصر قرار دیا ہے ۔صہیونی حکومت کے اس قسم کے اقدامات نے علاقے میں امن کی برقراری کی کوششوں پر مبنی صہیونی حکام کے جھوٹے دعووں کو آشکار کردیا اور یہ واضح ہوگیا کہ صہیونی حکام اس قسم کے دعوے، رائے عامہ کو فریب دینے کے لئے کرتے ہیں۔غاصب صہیونی حکومت نے مقبوضہ علاقوں سے عقب نشینی سے پہلے ریفرنڈم کرانے کا مسئلہ ایسی حالت میں اٹھایاہے کہ جب اقوام متحدہ کی قراردادوں، دوسوبیالیس اور تین سو اڑتیس کے مطابق صہیونی حکومت کو فوری طور پر مقبوضہ علاقوں سے پسپائی اختیار کرنی چاہیے۔صہیونی حکومت کے اقدامات اس امر کے غماز ہیں کہ یہ حکومت علاقے میں امن کی بحالی کی خواہاں نہیں ہے بلکہ علاقے میں توسیع پسندانہ اور غاصبانہ پالیسی بدستور جاری رکھنے کے در پے ہے ۔امن مذاکرات کے دوران غاصب صہیونی حکومت کے اس اقدام سے پتہ چلتاہے کہ مذاکرات اور سیاسی روشوں سے صہیونی حکومت کی توسیع پسندانہ اور غاصبانہ پالیسیوں میں کمی نہیں لائی جاسکتی۔ غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ سیاسی روش اپنانے کا نتیجہ اس کی غاصبانہ پالیسیاں جاری رہنے اور اسے مزید گستاخ بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ صورت حال اس امر کی غماز ہے کہ کہ صہیونی حکومت کے خلاف مزاحمت ، علاقے میں غاصبانہ قبضے ختم کرنے پر اس غاصب حکومت کو مجبورکرنے کا واحد راستہ ہے۔دوہزار پانچ میں غزہ ،اور سن دوہزار میں جنوبی لبنان سے غاصب صہیونی حکومت کی ذلت آمیز پسپائی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے کہ اس غاصب حکومت کو مقبوضہ علاقوں سے پسپائی پر مجبور کرنے کا واحد راستہ مزاحمت ہے اور کچھ نہیں۔

ولایت فقیہ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں

فقہا کی حکمرانی کی مختصر تاریخ

وہ ولایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کے لیے ثابت ہے وہی ایک فقیہ کے لیے بھی ثابت ہے اس بات میں اس وقت تک کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ہو۔ ولایت فقیہ کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر بہت پہلے سے ہی بحث ہوتی رہی ہے۔ میرزا شیرازی کا تنباکو کی حرمت پر جو فتویٰ تھا اس کی حیثیت چونکہ حکومتی حکم کی تھی لہذا دوسرے فقہا کے لیے بھی اس کا ماننا واجب تھا۔ ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ایران کے بڑے علما کی اکثریت نے اس فتوے کو تسلیم کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کچھ لوگوں کے اختلاف کو سلجھانے کی خاطر یہ حکم عدالتی فیصلہ کی طرح کا کوئی حکم ہو بلکہ مسلمانوں کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے حکم ’’ثانوی‘‘ کے عنوان سے یہ حکومتی حکم صادر فرمایا تھا۔ جب تک عنوان موجود تھا یہ حکم بھی باقی تھا اور جیسے ہی عنوان ہٹایا حکم بھی اٹھا لیا گیا۔

مرزا محمد تقی شیرازی جنہوں نے جہاد کا حکم دیا تھا جس کا نام’’دفاع‘‘ رکھا گیا سبھی علماء نے اس حکم پر عمل کیا تھا کیوںکہ وہ حکم حکومتی حکم تھا۔

کہا جاتا ہے کہ کاشف الغطا نے بھی اس طرح کے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں۔ متاخرین علما نراقی نے رسول خدا (ص) سے مربوط تمام شئونات (اختیارات) کو فقہا کے لیے بھی ثابت جانا ہے۔ مرحوم آقائے نائینی بھی فرماتے ہیں کہ یہ مطلب ’’مقبولہ عمر ابن حنظلہ‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے (جس کی وضاحت بعد میں بیان کی جائے گی)۔

اسلامی معاشرے کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ’’ اسلامی حکومت‘‘ ہے۔ امام خمینی(رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی حکمرانی کی بحث چھیڑی جسے وہ ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ ولایت فقیہ کا مبنا و نظریہ انتہائی مستحکم ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک اگر کسی نے اس بحث کو نہیں چھیڑا یا اسے کنارے پڑے رہنے دیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز عملی نہیں ہو سکتی اس کے بارے میں بحث کر نے کا کیا فائدہ۔ اس سے ہٹ کر جب انسان فقہا کی کتابوں میں دیکھتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ فقہا میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو غیر اسلامی حاکم کی حکمرانی کو قبول کرتا ہو (فقہ کے مختلف ابواب میں انسان اس بات کو ملاحظہ کر سکتا ہے)۔

یہ بات مسلمات میں سے ہے اس کی اگر مثال پیش کیا جائے تو جو تعبیرات صاحب جواہر نے ولایت فقیہ کے بارے میں استعمال کی ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ صاحب جواہر ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو صرف ولایت بر صغار (چھوٹوں پر ولایت) تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بالاتر دوسرے اہم فقہی ابواب جیسے باب جہاد میں فقیہ کی ولایت کی توسیع کے قائل ہیں او اس مسئلہ کو اسلامی فقہ کے واضح مطالب میں سے جانتے ہیں۔ مرحوم نراقی اور آپ ہی کی طرح کے لوگوں نے اس سلسلے میں اچھی خاصی بحث کی ہے۔ اس فکر کی بنیاد بہت ہی مضبوط ہے اور اس کو امام خمینی(رہ) نے پیش کیا ہے۔

امام خمینی(رہ) نے فقہ کے محکم قاعدوں کی مدد سے ۱۳۴۷ہجری شمسی میں نجف اشرف جیسے فقاہت کے مرکز میں ولایت فقیہ کی خاموش اور فراموش شدہ بحث کو دوبارہ زندہ کیا۔ ولایت فقیہ، شیعہ فقہ کے مسلمات میں داخل ہے۔ بعض کم پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ولایت فقیہ امام خمینی(رہ) کی ایجاد ہے ان کے علاوہ کوئی اور اس کا قائل نہیں ہے ان کا یہ کہنا ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ فقہا کے کلام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ شیعہ فقہ کے روشن اور واضح مسائل میں سے ایک ہے۔ جو کام امام خمینی(رہ) نے کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے اس فکر کو مضبوط اور مستحکم دلائل کے ساتھ اس کی کیفیت کو ان آفاق سے ہم آہنگ کر دیا جو عصر حاضر کی سیاست اور اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر رکھتے تھے اس طرح سے کہ جدید سیاسی مکاتب فکر اور سیاسی مسائل سے آشنا لوگوں کے لیے یہ فکر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جائے۔

ولایت فقیہ کی تعریف

فقیہ کی قیادت اور دین شناس فقیہ کی حکمرانی سے مراد کیا ہے؟ فقیہ اس شخص کو کہتے ہیں جو دین کی گہری سمجھ رکھتا ہو۔ فقیہ اس راستے کی نشان دہی کرتا ہے جس پر دیندار لوگ چل کر دنیا اورآخرت میں سعادت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کی حکمرانی ایک عقلی اور منطقی استدلال پر استوار ہے۔ ایسی دلیل جو فقیہ کی حکمرانی کو ثابت کرتی ہو کسی فوجی حکمران، کسی سرمایہ دار حکمران یا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے حکمران کی حکمرانی کے تعلق سے بھی ایسی منطقی اور عقلی دلیل نہیں پائی جاتی۔ ولایت فقیہ کی اصطلاح عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے جو دینی طلباء و علما کی کتابوں میں درج ہے۔ فقیہ کی حکمرانی کا مطلب یہ ہے کہ زمام حکومت کو ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دینا جس سے کوئی غلط کام کی امید نہ ہو۔ یہ بہت اہم چیز ہے۔ جب بھی کوئی غلط کام اس سے سرزد ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس مقام کا اہل نہیں ہے۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اس بات کو سمجھ رہا ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلط کام وہ کر رہا ہے تو پھر اسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے۔

اب جبکہ امام زمانہ (ع) کی غیبت کا دور ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام کے حکومتی احکام بھی جاری و ساری رہیں اور اس میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو لازمی طور پر ایک حکومت اسلامی کی تشکیل ناگزیر ہے۔ عقل بھی اسی بات کا حکم دیتی ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل ضروری ہے اس لیے کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کر دے تو کم از کم ہم اس حملے کو روک سکیں۔ اگر ناموس مسلم خطرے میں پڑ جائیں تو ہم اس کا دفاع کر سکیں۔اسلامی شریعت نے بھی یہی حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے باز رکھنے کے لیے بھی قانون اور اس کا نفاذ ضروری ہے یہ ایسے کام ہیں جو خود بخود انجام نہیں پا سکتے بلکہ ان کی انجام دہی کے لیے ایک حکومت کا قیام ضروری ہے۔ حکومت کا قیام اور معاشرے پر حکمرانی کرنے کے لیے چونکہ اس کا مالی طور پر مستحکم ہونا ضروری ہے لہذا شریعت نے خمس و زکات اور خراج(ٹیکس) کی وصولی کے ذریعے مالی نظام کو مستحکم بنایا ہے۔

غیبت کے زمانے میں خدا نے کسی کو اپنی طرف سے حکومت قائم کرنے کے لیے مقرر نہیں فرمایا تو ایسے حالات میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ کیا ہم اسلام کو خدا حافظ کر دیں؟ اب ہمیں کسی اسلام کی ضرورت نہیں ہے؟

اسلام صرف دو سو سال تک کے لیے ہی تھا؟ اسلام نے ہماری ذمہ داری معین تو کر دی ہے لیکن وہ ذمہ داری حکومت کے قیام کی نہیں ہے؟ اسلامی حکومت کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے بیشتر قوانین کو تعطیل کر دینا پڑے گا۔ غیبت کے زمانے میں اگر خدا نے کسی شخص کو حکومت کے لیے معین نہیں کیا ہے لیکن حکومت کی وہ خصوصیت جو ابتدائے اسلام سے لے کر حضرت حجت(ع) کے زمانے تک موجود تھی اسی خصوصیت کے ساتھ حضرت کی غیبت کے بعد بھی قرار دیا ہے۔ وہ خصوصیت کچھ اور نہیں بلکہ قانون کا علم رکھنا اور عدالت برپا کرنا ہے جو ہمارے بہت سے فقہا متحد ہو جائیں تو ساری دنیا میں ایک عادل حکومت قائم کر سکتے ہیں۔ اگر ایک لائق فرد اٹھے جو ان دو صفتوں کا حامل ہو اور حکومت قائم کرے تو جو ولایت رسول خدا (ص) حکومت کو چلانے کے لیے رکھتے تھے سب پر لازم ہے کہ اس کی اطاعت کریں(کتاب ولایت فقیہ امام خمینی)

ولایت فقیہ کو ثابت کرنے والی دلیلیں

اسلامی معاشرے میں ولایت کا مسئلہ بہت ہی روشن اور واضح ہے جو اسلامی بنیادوں پر استوار، قرآنی آیات سے اخذ شدہ ہے اور ایک سلیم العقل بلاغرض انسان اس کی تصدیق کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔

عقلی دلیلیں

ولایت فقیہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا محض تصور ہی اس کی تصدیق کا سبب ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے شاید کسی برہان و دلیل کی ضرورت ہی نہ ہو کیونکہ جو بھی اسلام کے عقائد و احکام سے اگر اجمالی طور پر ہی مگر صحیح سے واقف ہو جیسے ہی وہ ولایت فقیہ کے مسئلہ تک پہنچتا ہے فورا اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کو ضروریات دین اور بدیہی چیزوں میں پاتا ہے(کتاب ولایت فقیہ امام خمینی)

ولایت فقیہ یعنی اسلامی معاشرے میں فقیہ کی حکومت۔ اس کو ثابت کرنے کے لیے ہمیں شاید دلیل نقلی کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گر چہ نقلی دلائل یعنی قرآن و حدیث سے فقہا و علماء ربانی کی حکومت کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی دلیلیں موجود ہیں لیکن اگر قرآن و حدیث سے بھی کوئی دلیل نہ ملے تب بھی ولایت فقیہ کو ثابت کے لیے عقلی دلیل ہی کافی ہے۔ اگر ہم صرف اتنا جان لیں کہ اسلامی معاشرہ میں الہی احکام کو نافذ کرنے کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو دین کی گہری سمجھ رکھتے ہوں تو بس اتنا ہی کافی ہے۔ جو شخص یہ مانتا ہو کہ معاشرے میں خدا کے احکام اور اسلامی قانون کا نفاذ ہونا چاہیے اور اس بات کو خدا اور اسلام پر اعتقاد رکھنے کا لازمہ سمجھتا ہو تو جو اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو ایسا شخص ولایت فقیہ کو سمجھنے کے لیے کسی استدلال کا محتاج نہیں رہے گا۔

اب اس کے لیے یہ ضرورت باقی نہیں رہے گی کہ اسے یہ سمجھایا جائے کہ قرآن و حدیث نے ولایت فقیہ کے تعلق سے کیا کہا یہ اس لیے ہے کہ معاشرہ اسلامی قوانین پر چلنے کا پابند ہو ضروری ہے کہ اس معاشرے کا حاکم ایک ایسا شخص ہو جو اسلامی قوانین کا عالم ہو۔

وہ معاشرہ جہاں الہی اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو اور اس بات پر راضی ہو کہ اس معاشرہ کا حاکم ایک ایسا شخص بن جائے تو انسانی صفات سے عاری ہو تو ایسا معاشرہ ایک فلمی ادا کار، ایک بڑے سرمایہ دار اور انہیں جیسے افراد کو زمام حکومت سونپنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا لیکن وہ معاشرہ جو الہی اور دینی اقدار کا پابند ہو توحید پروردگار کو دل و جان سے قبول کرتا ہو نبیوں کی نبوت پر اعتقاد رکھتا ہو خدا کی شریعت کا قائل ہو ایسے معاشرے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کو حاکم کے طور پر قبول کرے جو خدا کی شریعت سے واقف ہو الہی اخلاق سے آراستہ ہو گناہ نہ کرتا ہو غلطی اس سے سرزد نہ ہوتی ہو، ظلم نہ کرتا ہو، مفاد پرست نہ ہو، لوگوں کا درد رکھتا ہو، الہی اقدار کو اپنی ذات اور اپنے گروہ کی منفعت پر ترجیح دیتا ہو۔

آج اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ دو ایسے موضوعات ہیں جن کی فقہ جعفری اور عقلی معیارات کے نزدیک ایک مسلمہ حیثیت ہے۔ اگر انسان اپنی گفتگو کی بنیاد عقلی معیارات کو قرار دے تو تمام حکومتی نظریوں میں یہ نظریہ پوری طرح واضح، روشن اور قابل دفاع نظریہ نظر آئے گا۔ لیکن اس نظریہ ہے خدشہ وارد کرنے کی خاطر اس کا موازنہ پادریوں کی ظالمانہ حکومت یا پھر سلطنتی طرز حکومت سے کیا جاتا ہے جس کی تردید کرنا بہت ضروری ہے۔

پہلی دلیل

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ خدا نے کس لیے اولی الامر قرار دیا اور اس کی اطاعت کو واجب کیوں گردانا؟ تو اس سوال کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ بہت سی وجوہات اور دلائل ہیں جن کی بنیاد پر خدا نے ایسا کیا ہے:

ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ لوگ ایک معین راستہ پر حرکت کریں خدا کی طرف سے انہیں یہ حکم ہے کہ وہ اس راستے سے تجاوز نہ کریں اور مقرر شدہ حدود و قوانین کی خلاف ورزی نہ کریں۔ اگر تجاوز کیا تو غلط راستے پر نکل کر فساد کا شکار ہو جائیں گے اور خدا نے جو حکم دیا ہے نہ اس کی تعمیل ہو سکے گی اور نہ لوگ ایک راستے پر باقی رہ سکیں گے لیکن اگر صاحب اقتدار شخص کو ان پر ناظر بنا دیا جائے جو امانت دار ہو، جو اس امر کی ذمہ داری اٹھا سکے اور کسی کو یہ اجازت نہ دے کہ اپنے حق کے دائرے سے تجاوز کرے یا پھر کسی اور کے دائرے حقوق میں قدم رکھے۔ اگر صاحب اقتدار شخص کا تقرر ناظر کے عنوان سے نہ کیا جائے تو لوگ اپنے فائدے اور اپنی لذت کی خاطر دوسروں پر ظلم و ستم کرنے سے باز نہیں رہیں گے۔

دوسری دلیل

خدا کی طرف سے اولی الامر کو مقرر کرنے اور اس کی اطاعت کو واجب کرنے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ تمام فرقوں اور قوموں کی طرف نظر کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بغیر کسی سر پرست، صدر یا رہبر کے اپنی سماجی حیات کو باقی نہیں رکھ سکتے کیوں کہ اپنے دینی و دنیوی امور کی ادائیگی کے لیے وہ ہر قدم پر ایک سرپرست یا رہبر کے محتاج ہیں جو ان کے دنیوی یا دینی امور کی رہبری اور رہنمائی کرے یہ چیز تمام انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے اور ایک فطری چیز ہے لہذا خداوند عالم نے ہر قوم کے لیے ایک رہبر اور ہادی مقرر کیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی مخلوق بغیر رہبر کے ہر قدم بھی زندگی کا آگے نہیں بڑھا سکتی۔ ایک الہی رہبر ہونا چاہیے جس کے وجود سے قوم کو تقویت ملے اور اسی کی سربراہی میں وہ دشمنوں کا مقابلہ کریں اور وہی لوگوں میں دولت کی صحیح تقسیم عمل میں لائے۔ نماز جمعہ و جماعت کو قائم کرے اور مظلوم کو ظالم سے بچائے۔(ولایت فقیہ، امام خمینی)

اولی الامر کا ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر اسلامی معاشرہ میں اولی الامر قانون کے محافظ امانتدار خدمتگزار، نظم و ضبط برقرار کرنے والے کے عنوان سے موجود نہ ہو تو دین میں رد و بدل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اسلامی احکام اور اسلامی سنتیں الٹ پھیر کا شکار ہو جاتی ہیں اور نئی چیزیں داخل کرنے والے بدعتی لوگ سنتوں کو بدعتوں میں بدل دیتے ہیں، بے دین اور ملحد افراد دین سے بہت سی چیزیں کم کر دیتے ہیں اور پھر ایک نئے انداز سے مسلمانوں کے سامنے اس کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس تبدیلی کے بغیر دین باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ لوگ ناقص ہیں اور کمال کے محتاج ہیں اس کے ساتھ ان میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں ان کے میلانات اور ان کے حالات ایک جیسے نہیں رہ پاتے۔ لہذا اگر کوئی ایسا شخص جو نظم کو باقی رکھ سکتا ہو اور جو قوانین اور دستورات پیغمبر لے کر آئے ان کو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھ سکتا ہو ان پر ناظر کے عنوان سے بٹھایا نہ جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا اور جب ایسا ہو گا تو بشریت تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے گی(ولایت فقیہ، امام خمینی)

تیسری دلیل

اسلام میں ولایت وہ چیز ہے جسے قرآن نے’’انما ولیکم اللہ و رسولہ‘‘ کو قیادت، امارت اور حکمرانی کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ معاشرہ اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ علما، دانشمند، مفکرین، سائنسدان، برجستہ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان سب کے باوجود ایک ایسے شخص کی ہمیشہ معاشرے کو ضرورت رہتی ہے جو اس پر حکمرانی کر سکے یہ ایک عہدہ ہے، ایک پیشہ ہے، ایک ذمہ داری ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شخص جو حکمرانی کی ذمہ داری اپنی گردن پر لے رہا ہے اس کا کوئی عقلی ملاک اور معیار ہونا چاہیے یا نہیں؟

یہاں اسلام آکر ایک ایسی بات پیش کرتا ہے جو دنیا کے تمام عقل رکھنے والوں کے لیے قابل قبول ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ حکمران ایسا شخص ہو کہ جس مکتب کے ماننے والوں پر وہ حاکم ہو اس پر مکمل ایمان رکھتا ہو اور عصمت کا جنبہ اس میں اس حد تک ہو کہ جان بوجھ کر کوئی گناہ انجام نہ دے۔

دنیا میں کوئی ایسی عقل ہے جو اس بات کی نفی کرتی ہو؟ اس سے بہتر کوئی بات ہو سکتی ہے کہ ایسا شخص معاشرے پر حاکم ہو جو اس مکتب پر ایمان رکھتا ہو اس کا عالم ہو، اسے نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو جو مکتب اس معاشرے کی اکثریت کا مکتب ہے۔ ایک طرح کی ضمانت بھی اس شخص میں پائی جاتی ہو وہ عمدا اور جان بوجھ کر کوئی گناہ کوئی غلطی نہ کرتا ہو۔ یہ ایک بہت ہی اچھی بات ہے کہ ایسا شخص معاشرے کا حاکم ہو۔

نقلی دلیلیں

اس باب میں نقلی دلیلیں قرآن بالخصوص روایات سے ماخوذ بہت زیادہ ہیں جن سب کو یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن اثبات مدعیٰ کے لیے چند دلیلوں کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

پہلی دلیل: ’’ الحوادث الواقع‘‘ والی روایت

فی کتاب اکمال الدین و اتمام النعم عن محمد بن محمد بن عصام عن محمد بن یعقوب عن اسحاق بن یعقوب قال: سالت محمد بن عثمان العمری ان یوصل لی کتابا قد سالت فیہ عن مسائل اشکلت علی۔ فورد التوقیع بخط مولانا صاحب الزمان(علیہ السلام) اما ما سالت عنہ، ارشدک اللہ و ثبتک ( الی ان قال) و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیہا الی رواۃ حدیثنا۔ فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیہم۔ و اما محمد بن عثمان العمری فرضی اللہ عنہ و عن ابیہ فانہ ثقتی و کتابہ کتابی(کمال الدین)

اسحاق بن یعقوب حضرت ولی عصر(ع) کو ایک خط لکھ کر اپنی مشکلات کا اس میں ذکر کرتے ہیں جسے محمد بن عثمان عمری حضرت کے نائب خاص حضرت کو یہ خط پہنچاتے ہیں۔ اس خط کا جواب خود حضرت اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجتے ہیں:’’ جو حوادث تم کو پیش آتے ہیں ان میں ان کی طرف رجوع کرو جو ہم سے روایت نقل کرتے ہیں کیونکہ وہ تم پر ہماری طرف سے حجت ہیں اور ہم ان پر اللہ کی طرف سے حجت ہیں۔

اس روایت میں ’’حوادث واقعہ‘‘ سے مراد شرعی احکام اور دینی مسائل نہیں ہیں۔ پوچھنے والا یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ نئے پیش آنے والے مسائل میں ہم کیا کریں کس سے رجوع کریں اس لیے کہ متواترہ حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ شیعہ مذہب کی واضح چیزوں میں یہ بات داخل ہے کہ مسائل میں فقہا کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ائمہ اطہار(ع) کے زمانے میں بھی فقہا سے رجوع کر کے مسائل دریافت کئے جاتے تھے۔ وہ شخص جو حضرت ولی عصر (ع) کے زمانے کا ہو خط لکھ کر حضرت کے نائب خاص کے ذریعے حضرت تک پہنچا رہا ہو اور پھر جواب بھی حاصل کر رہا ہو وہ اس بات کی طرف متوجہ ہے کہ شرعی مسائل کن لوگوں سے دریافت کرنے چاہیے۔ لہذا’’ حوادث واقعہ ‘‘ سے مراد معاشرے میں پیش آنے والے وہ واقعات اور مشکلات ہیں جن سے مسلمان جوجھ رہے ہوں۔

سوال کرنے والا کلی طور پر بند الفاظ میں یہ پوچھ رہا ہے کہ اب جبکہ ہماری آپ تک رسائی نہیں ہے تو ایسے حالات میں سماج میں پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ حوادث کا ذکر کر کے یہ پوچھنا چاہ رہا ہے کہ ان حوادث میں کس کی طرف رجوع کریں؟ جو بات سمجھ میں آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ سوال کرنے والے نے کلی طور پر سوال کیا ہے اور حضرت نے اس کے سوال کے مطابق جواب دیا ہے کہ حوادث اور مشکلات میں ہماری روایتوں کو بیان کرنے والے راویوں کی طرف رجوع کرو یعنی فقہا کی طرف رجوع کرو وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے ان پر حجت ہوں۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ ولی امر حجت خدا ہے تو کیا شرعی مسائل میں حجت ہے کہ ہمارے لیے مسائل بیان کرتا رہے؟ رسول خدا(ص) نے جو یہ فرمایا کہ میں جا رہا ہوں میرے بعد علی تم پر حجت ہیں تو کیا اس حدیث سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت تو چلے گئے اب سب کام تعطیل ہو گئے صرف شرعی مسائل بیان کرنا باقی رہ گیا اور صرف یہی کام امیر المومنین (ع) کے سپرد کیا گیا ہے؟!

حجت خدا وہ ہوتا ہے جسے بعض امور کی انجام دہی کے لیے خدا مقرر فرماتا ہے اور اس کے تمام تر افعال و اقوال مسلمانوں کے لیے حجت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس کی بات نہ سنے تو اس سے احتجاج( دلیل و برہان ) قائم کیا جائے گا۔ اگر وہ حکم دے کہ فلاں کام کرو حدود کو اس طرح جاری کرو، غنائم، زکات و صدقات کو اس طرح مصرف میں لے کرآو اور تم اس کی بات نہ سنو تو خدا قیامت کے دن تم سے احتجاج کرے گا۔ حجت کی موجودگی میں اپنے تنازعات کے حل کے لیے اگر دستگاہ ظلم سے رجوع کیا تو قیامت کے دن خدا احتجاج کرے گا کہ میں نے تمہارے لیے حجت قرار دی تھی کیوں ظالموں اور ستمگروں کی عدالت کی جانب رجوع ہوئے؟ (ولایت فقیہ امام خمینی)

دوسری دلیل: مقبولہ عمر ابن حنظلہ

محمد بن یعقوب، عن محمد بن یحییٰ، عن محمد بن الحسین، عن محمد بن عیسی، عن سفوان بن یحییٰ، عن داود بن الحصین، عن عمر بن حنظلہ: قال سالت ابا عبد اللہ (علیہ السلام) عن رجلین من اصحابنا بینھما منازع فی دین او میراث فتحاکما الی السلطان و الی القضا یحل ذالک؟ قال من تحاکم الیہم فی حق او باطل، فانما تحاکم الی الطاغوت و ما یحکم لہ، فانما یاخذہ سحتا و ان کان حقا ثابتا لہ لانہ اخذہ یحکم الطاغوت و ما امر اللہ ان یکفر بہ۔ قال اللہ تعالیٰ: ’’ یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفروا بہ۔ قلت کیف یصنعان؟ قال: ینظران من کان منکم ممن قد روی حدیثنا و نظر فی حلالنا و حرامنا و عرف احکامنا ۔۔۔ فلیرصوا بہ حکما۔ فانی قد جعلتہ علیکم حاکما۔۔۔

عمر بن حنظلہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق(ع) سے ایسے دو شیعوں کے بارے میں سوال کیا جن کے درمیان قرض یا میراث کے حوالے سے نزاع پیش آئی تھی اور اس نزاع کے حل کے لیے ان لوگوں نے قاضی کی طرف رجوع کیا تھا میں نے امام سے سوال کیا کہ کیا یہ روا ہے؟ اس پر امام نے فرمایا: جو بھی اپنے حق یا ناحق جھگڑوں میں ان (قاضیوں) سے رجوع کرے در حقیقت اس نے طاغوت سے مراجعہ کیا ہے اور جو بھی ان کے حکم سے کچھ لے در حقیقت حرام کے طور پر لے گا اگر چہ لی ہوئی چیز اس کا ثابت شدہ حق ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ جو لیا ہے وہ طاغوت کے حکم سے لیا ہے جس کے بارے میں خدا نے یہ فرمایا ہے کہ اس کا انکار کیا جائے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں اور شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ انہیں گمراہی میں دور تک کھینچ کر لے جائے۔(سورہ نسا آیت۶۰)

میں نے پوچھا کہ وہ لوگ کیا کریں تو امام نے فرمایا: انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تم میں سے وہ کون ہے جو ہماری حدیثوں کو بیان کرتا ہے، ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہے اس میں صاحب نظر ہو چکا ہے اور ہمارے احکام وقوانین کو بخوبی جانتا ہے لہذا چاہیے کہ ایسے شخص کو قاضی کے عنوان سے قبول کریں کیونکہ میں نے اس کو تمہارا حاکم قرار دیا ہے۔

جھگڑوں کی یکسوئی کے لیے قاضیوں کے پاس یا عدالت عامہ کی طرف رجوع کیا جاتا ہے یا فوجداری عدالت اور حکومتوں کے ان اداروں کی طرف جو قانون کا نفاذ عمل میں لاتے ہیں۔ قاضیوں سے رجوع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حق ثابت ہو جھگڑوں کا حل نکلے اور سزا سنائی جائے اور قانون کے نفاذ کے اداروں سے اس لیے رجوع کیا جاتا ہے تا کہ دونوں فریقوں سے صادر شدہ فیصلہ کو قبول کروائے اور سزا عملی کرے۔

اس روایت میں امام سے یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ سلاطین اور حکومتی اداروں یا قاضیوں سے رجوع کرنا کیسا ہے؟ تو امام فرما رہے ہیں: ’’انی قد جعلت علیکم حاکما‘‘۔ میں نے مذکورہ شرائط کے حامل شخص کو تمہارا حاکم بنایا ہے قانونی اور حکومتی امور کو نافذ کرنے کے لیے میں نے اسے تمہارا حاکم معین کیا ہے مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کے پاس اپنے معاملات طے کریں۔

اس بنا پر اگر کوئی بدمعاش آپ کا مال ہڑپ کر جائے تو آپ اس شخص کے پاس اپنی شکایت لے کر جائیں گے جسے امام نے معین فرمایا ہے۔ قرض کے سلسلے میں کسی سے نزاع ہو تو اس قاضی سے رجوع کریں گے جو امام کی طرف سے معین کیا گیا ہو کسی اور سے رجوع نہیں کر سکتے۔ یہ حکم عمر بن حنظلہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہی مسلمانوں کی عام ذمہ داری ہے۔

امام نے یہ جو حکم صادر فرمایا ہے وہ ایک کلی اور عمومی حکم ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی ظاہری خلافت میں قاضیوں اور حاکموں کا تقرر فرمایا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ان معین شدہ قاضیوں اور حاکموں کی اطاعت کریں۔ حضرت امام صادق علیہ السلام بھی چونکہ ولی امر مطلق ہیں جو تمام علماء و فقہا اور دنیا کے تمام لوگوں پر حکومت کا حق رکھتے ہیں اس لیے اپنی حیات اور موت کے بعد حاکم اور قاضی کا تعین فرما سکتے ہیں اور آپ نے یہی کام کیا اور اس منصب کو فقہا کے لیے مخصوص کیا۔ آپ نے ’’حاکما‘‘ کی تعبیر استعمال کی تاکہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اس حکم میں صرف یہ قانونی امور ہی پیش نظر ہے دوسرے حکومتی امور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے اس وہم کو ’’حاکما‘‘ کی تعبیر سے دور کر دیا۔(ولایت فقیہ، امام خمینی)

تیسری دلیل ۔ ابو خدیجہ کی روایت

محمد حسن باسنادہ عن محمد بن علی بن محبوب، عن احمد بن محمد، عن حسین بن سعید، عن ابی الجھم، عن ابی خدیج، قال بعثنی ابو عبد اللہ علیہ السلام الی احد من اصحابنا فقال: قل لھم: ایاکم، اذا وقعت بینکم الخصوم او تداری فی شیئ من الاخذ و العطا ان تحاکموا الی احد من ھولا الفساق، اجعلوا بینکم رجلا قد عرف حلالنا و حرامنا فانی قد جعلتہ علیکم قاضیا، و ایاکم ان یخاصم بعضکم بعضا الی السلطان الجائر( وسائل الشیعہ)

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک معتبر صحابی ابو خدیجہ کہتے ہیں کہ امام نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں آپ کی طرف سے آپ کے چاہنے والوں(شیعوں) تک یہ پیغام پہنچاوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے بیچ کسی بات پر جھگڑا یا نزاع ہو جائے یا پھر لین دین کے کسی معاملہ میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے اور تم اس معاملے کے حل کے لیے بری جماعت کی طرف رجوع کرو۔ لہذا اس شخص کو اپنا قاضی یا حاکم بنانا جو ہمارے حلال و حرام کو جانتا ہو۔

روایت میں جو ’’تداری فی شئی‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ اختلافات ہیں جو عدالتوں ہی میں حل ہو سکتے ہیں یعنی قانونی جھگڑوں اور تنازعات میں ’’فساق‘‘ کی طرف رجوع نہ کرو۔ اس کے ساتھ ہی امام یہ فرماتے ہیں کہ ‘‘ میں نے تمہارے لیے قاضی مقرر کئے ہیں‘‘ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فساق ان برے لوگوں کو کہتے ہیں جو امراء جور اور ناجائز حکومتوں کی جانب سے قاضی بنائے جاتے ہیں۔ حدیث کے دوسرے حصے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ’’ وایاکم ان یخاصم بعضکم بعضا ای السلطان الجائز‘‘ جھگڑوں کے وقت بھی جابر حکمران و ناجائز حکومتوں کے سربراہ کی طرف رجوع مت کرو، یعنی حکومت جور کے ان اداروں سے رجوع مت کرو جو قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ اس فرمان میں کلی طور پر سلطان جائر سے رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن در اصل ہر غیر اسلامی حکومت کے کارندوں سے رجوع کرنے سے منع کیا گیا ہے جن میں قاضی، قانون بنانے والے اور قانون کا نفاذ کرنے والے یہ تین محکمے شامل ہیں۔ قاضیوں سے رجوع نہ کرنے کی جو بات کہی جا رہی ہے وہ در اصل ان لوگوں سے رجوع کرنے سے منع کیا جا رہا ہے جو قانون کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ ( کتاب ولایت فقیہ، امام خمینی)

کتاب مستدرک میں ایک روایت اس مضمون کی نقل ہوئی ہے ’’ العلما حکام علی الناس‘‘ (غرر الحکم پر شرح آقا جمال الدین خوانساری ) علما لوگوں پر حاکم ہیں۔ ولایت کا مسئلہ بھی انہیں روایات کا پابند ہے چاہے وہ ولایت، ولایت معصومین علیہم السلام ہو چاہے فقیہ کی ولایت ہو ( جو معصومین کی ولایت ہی کے سلسلے کی کڑی ہے)۔

اس بنا پر ’’ولی امر‘‘یعنی وہ حاکم جو نظم و ضبط کر برقرار رکھ سکتا ہو اور اسلامی قانون کا محافظ ہو اس کی آج اور کل ہمیشہ ضرورت ہے۔ وہ حاکم جو ظلم و ستم کو روکے، امانتدار ہو اور مخلوق خدا کا پاس و لحاظ رکھنے والا ہو۔ لوگوں کو اسلامی تعلیمات، عقائد اور احکام کیطرف ہدایت کرنے والا ہو ملحدوں اور بے دینوں کی طرف سے دین میں داخل کی جانے والی بدعتوں کو روکنے والا ہو۔

کیا امیر المومنین(ع) کی خلافت انہیں کاموں کے لیے نہیں تھی؟

منی میں سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کا خطبہ

انہیں روایتوں میں سے ایک روایت کتاب تحف العقول میں مجاری الامور و الاحکام علی ایدی العلما کے عنوان کے تحت ذکر ہوئی ہے۔ اس روایت سے دو اہم مطالب ہاتھ آتے ہیں۔ پہلا مطلب ولایت فقیہ ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ فقہا، جہاد اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے حکام جور کی حکومتوں کو رسوا کرتے ہوئے اس کی بنیادوں کو ہلا دیں تاکہ مسلمان بیدار ہو کر انقلاب برپا کرتے ہوئے حکام جور کی حکومت کا تختہ اکھاڑ پھینکیں اور اس کی جگہ ایک اسلامی حکومت قائم کریں۔ روایت کچھ اس طرح ہے:

ایہا الناس! خدا نے ’’احبار‘‘ کی سرزنش کے ذریعے اپنے دوستوں کو جو نصیحت کی ہے اس سے عبرت لو۔ خدا فرماتا ہے: آخر انہیں اللہ والے (احبار) اور علما ان (یہودیوں) کے جھوٹ بولنے اور حرام کھانے سےکیوں نہیں منع کرتے۔ یہ یقینا بہت برا کر رہےہیں۔

امام کا یہ فرمان اس لیے کیونکہ امام یہ جانتے ہیں کہ اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا ہو جائے تو بقیہ تمام واجبات آسان سے لے کر مشکل تک سب قائم ہو جائیں گے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک ایسا فریضہ ہے جس کے ذریعے اسلام کے دائرے سے باہر افراد کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے مظلوموں کو انکا حق دلوایا جاتا ہے مسلمانوں کے درمیان موجود ظالموں سے مقابلہ کیا جاتا ہے جنگی غنائم اور عمومی اموال کی عادلانہ تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے صدقات کو جمع کر کے ان کا صحیح مصرف بھی اسی فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ادائیگی میں مضمر ہے۔

امام علیہ السلام فرماتے ہیں: اس بنا پر اگر تم(علمائےدین) اس سلسلے میں ہماری اطاعت نہیں کرو گے اور غاصبوں سے ہمارا حق ہمیں نہیں دلواو گے تو ظالم تم پر غالب آجائیں گے اور تمہارے پیغمبر کے نور کو بجھانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ وحدہ لاشریک ہمارے لیے کافی ہے اور ہم اسی پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ ہماری قسمت کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس کی طرف پلٹنا ہے۔

ولی فقیہ کے اختیارات اور اس کی ذمہ داریاں

دین اور اسلامی معاشرہ کی حفاظت: محمد بن یحییٰ کہتے ہیں کہ انہوں نے امام موسی کاظم (ع) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب بھی کوئی مومن یا مومن فقیہ اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو فرشتے، زمین کے وہ ٹکڑے جہاں وہ خدا کی عبادت کرتا رہا اور آسمان کے وہ دروازے جہاں سے اس کے اعمال اوپر جاتے رہے ہیں اس پر گریہ کرتے ہیں۔ اس کے مرنے سے اسلام (کے قلعہ) میں ایک ایسی دراڑ پڑ جاتی ہے جسے کوئی چیز پر نہیں کر سکتی کیونکہ مومن فقہا اسلام کے قلعے ہیں اور اسلام کے لیے ان کی موجودگی ایسی ہی ہے جیسے کسی شہر کے لیے اس کی فیصل کی ہوتی ہے۔

یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ’’مومن فقہا اسلام کے قلعے ہیں‘‘ حقیقیت میں فقہا کو انکی عظیم ذمہ داری جو اسلام کے عقائد و احکام کی حفاظت ہے اس کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ امام کا یہ فرمان تکلف پر مبنی نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔

ولایت فقیہ وہ ڈھانچہ ہے جس پر اسلام کی حفاظت اور انحراف سے بچاو کی عمارت ٹکی ہوئی ہے یہی ولایت فقیہ کا بنیادی معنی و مفہوم ہے۔

ولایت(سرپرستی) حکومت کا قیام، ملک کے انتظامی امور کی نظارت و سرپرستی، اسلامی تعلیمات کا جز ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی تمام تر عظمت کے باوجود اس پیغام کو پہنچانے کے لیے خاص اہتمام فرمایا اور اس کو ایک طریقہ سے پہنچایا کہ نماز، روزہ، زکات اور جہاد جیسے کسی اور واجب کو پہنچانے کے لیے ایسا اہتمام نہیں کیا۔

ولایت یعنی حکومت، ملک کو چلانا اور شریعت مقدسہ کے قوانین کو نافذ کرنا۔ یہ بہت ہی اہم اور بھاری ذمہ داری ہے۔ ولایت ایک عظیم ذمہ داری ہے نہ یہ کہ کوئی امتیازی یا اعزازی مقام جیسا کہ بعض لوگ اس کو خیال کرتے ہیں۔

قانون کا نفاذ بغیر نافذ کرنے والے کے ممکن نہیں ہے۔ ہر ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ صرف قانون بنا لینا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو عملی طور پر نافذ کرنا ضروری ہے۔ قانون بنا لینے سے بشریت کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ قانون بنانے کے بعد ایک ایسے طاقتور ادارہ کی ضرورت ہوتی ہے جو قانون کو عملی طور پر نافذ کر سکے۔ ولی امر قانون کو اجرا کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔

رہبر کا سب سے اہم کام ملکی سیاست کی بڑی پالیسیوں کو بنانا یعنی ملک میں جتنے امور انجام پا رہے ہوں اسی سیاست کے تناظر میں ہوں۔ ہر محکمہ میں رہبر کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ ہر محکمہ میں رہبر کی سیاسی پالیسیوں پر عمل ہو۔

افتاء ( فتویٰ دینے کی ذمہ داری): قال امیر المومنین علیہ السلام قال رسول اللہ (ص): اللھم ارحم خلفاء(ثلاث مرات) قیل: یا رسول اللہ و من خلفاءک؟ قال: الذین یاتون من بعدی، یروون حدیثی و سنتی فیعلمونھا الناس من بعدی‘‘۔

امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: خدایا! میرے جانشینوں پر رحم فرما۔ اس دعا کو آپ نے تین بار دہرایا۔ آپ سے کہا گیا: اے رسول خدا آپ کے جانشین کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: وہ جو میرے بعد آنے والے ہیں میری حدیث اور سنت کو نقل کرنے والے اور میرے بعد لوگوں کو حدیث و سنت سکھانے والے ہیں۔

ولی فقیہ کا کام نقل حدیث بھی ہے لہذا جن کی اپنی کوئی رائے نہ ہو اور نہ ان کا کوئی فتویٰ ہو ایسے افراد اس حدیث میں شامل نہیں ہیں اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ بعض محدثین جو در اصل حدیث ہی کو نہیں سمجھ پاتے ہوں جو ’’ رب حامل فقہ لیس فقیہ‘‘ رسول خدا (ص) نے مسجد خیف میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا: فرب حامل فقہ لیس بفقیہ و رب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ‘‘۔ کتنے ایسے ہیں جو علم رکھتے ہیں لیکن خود اس سے آگاہ نہیں ہیں اور کتنے ایسے صاحبان علم ہیں جو اپنے سے زیادہ آگاہ افراد تک علم پہنچا دیتے ہیں، کے مصداق ہوں جو ایک ٹیپ ریکارڈر کی طرح روایات و اخبار کو ریکارڈ کر لیتے ہیں اور پھر اسے لکھ کر لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں اس حدیث کے مصداق نہیں ہیں۔

جس طرح رسول خدا اور ائمہ اطہار اسلامی احکام کو کھول کھول کر بیان فرماتے تھے اس کو نشر کرتے تھے لوگوں کو سکھاتے تھے کئی ہزار لوگ ان کے مکتب سے علمی استفادہ کرتے تھے اور یہ ان کی ذمہ داری تھی اسی طرح یہ ذمہ داری عام طور سے سارے مسلمانوں اور خاص طور سے علما کی ہے کہ وہ انہیں خطوط پر کام کریں۔’’ یعلمونھا الناس‘‘ کا مطلب ہی یہی ہے کہ اسلامی علوم کو لوگوں میں پھیلایا جائے اور ان تک پہنچایا جائے۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ اسلام دنیا کے تمام لوگوں کے لیے ہے تو پھر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کی اور خاص طور پر علما کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام اور اس کے احکام کو لوگوں میں پھیلائیں اور دنیا کو اس سے متعارف کروائیں۔

قضاوت کی ذمہ داری: حضرت امیر المومنین (ع) قاضی شریح سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تم ایک ایسے منصب پر فائز اور ایک ایسے مقام پر بیٹھے ہوئے ہو جس پر نبی یا نبی کا وصی اور شقی کے علاوہ کوئی اور نہیں بیٹھ سکتا یعنی کوئی شقی اس منصب کا حقدار نہیں ہے۔

شریح نہ تو نبی تھا نہ نبی کا وصی تھا بلکہ وہ ایک شقی تھا جو اس مسند قضاوت پر بیٹھا ہوا تھا۔ شریح وہ ہے جو پچاس سے ساٹھ سال تک کوفہ میں مسند قضاوت پر بیٹھا رہا۔ وہ ان درباری ملاوں میں شامل تھا جو معاویہ کی دستگاہ خلافت سے وابستہ ہونے کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے خلاف فتوے صادر کرتا اور اس کے خلاف قیام کرنے والوں میں سے تھا۔ حضرت امیر المومنین اپنے دور حکومت میں بھی اسے معزول نہ کر سکے کیونکہ لوگ اس کی معزولی کے خلاف تھے چونکہ شیخین نے اسے نصب کیا تھا لہذا حضرت امیر کی عادل حکومت پر بھی اس کا منحوس سایہ منڈلاتا رہا لیکن حضرت اسے یہ اجازت نہیں دیتے کہ قانون کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کرے۔

مذکورہ بالا روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ قاضی کو منصوب کرنے کا حق یا رسول خدا کو ہے یا آنحضرت کے وصی کو ہے۔ عادل فقہا کو یہ منصب ائمہ اطہار کی جانب سے عطا ہوا ہے اور یہ منصب عادل فقہا سے مخصوص ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے برخلاف مسئلہ ولایت کے کہ اس مسئلہ میں بعض فقہا جیسے مرحوم نراقی اور مرحوم نائینی وہ تمام اختیارات جو امام کے لیے ثابت ہیں فقیہ کے لیے بھی ثابت جانتے ہیں جبکہ بعض فقہا ایسا نہیں مانتے لیکن قضاوت کے منصب کا عادل فقہا سے مخصوص ہونے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ بہت ہی واضح چیزوں میں داخل ہے۔

فقہا نہ تو مقام نبوت کے حامل ہیں اور نہ ہی شقی ہیں اس لیے کہ ان کا شمار رسول خدا کے جانشینوں میں ہو گا لیکن غالبا جب بھی وصی کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد وصی بلافصل سمجھا جاتا ہے اسی وجہ سے مذکورہ روایات سے تمسک معمولا نہیں کیا جاتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وصی نبی کا دائرہ وسیع ہے جس میں فقہا بھی شامل ہیں۔

بہر حال روایت سے جو بات سمجھ میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ فقہا رسول خدا(ص) کے دوسرے درجہ کے وصی ہیں اور وہ امور جو رسول کی جانب سے ائمہ اطہار علیہم السلام کو عطا ہوئے وہ فقہا کے لیے ثابت ہیں۔ لہذا فقہا کو چاہیے کہ وہ ان تمام امور کو انجام دیں جنہیں رسول خدا(ص) انجام دیا کرتے تھے۔

احکام و حدود کا نفاذ اور شعائر کو قائم کرنے کی ذمہ داری: حدود سے متعلق جتنی آئتیں قرآن میں ہیں ان میں ایک آیت وہ ہے جس میں زنا کی سزا کا حکم ہے جو سو تازیانہ ہے۔ حد جاری کرنا اور زنا سے مقابلے کا قانون نافذ کرنا جس کی ذمہ داری ہے، کیا ہم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؟ کیا رسول خدا(ص) بھی ایسے ہی تھے قرآن پڑھ کر اسے ایک کونے میں رکھ دیتے تھے سزا و جزا کے قانون سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا؟ رسول خدا(ص) کے بعد جو خلفا آئے کیا انہوں نے مسائل کی یکسوئی لوگوں کے حوالے کر دی؟ یا اس کے بر خلاف الہی حدود کو جاری کرتے، لوگوں کو کوڑے لگاتے، انہیں سنگسار کرتے، عمر قید کی سزا سناتے، شہر بدر کرتے تھے یا نہیں؟ اگر اسلام کے حدود اور دیات کے باب سے رجوع کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام اسلام کے کام ہیں اور اسلام آیا ہی انہیں کاموں کی انجام دہی کے لیے تاکہ امن و سکون قائم ہو سکے لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں۔

اس معاشرے میں ولی یعنی حاکم وہی ہے جس کی ذات پر تمام امور جا کر ختم ہوتے ہیں۔ خدا کے راستے پر معاشرے کو حرکت دیتا ہے اور اسے ذکر خدا سے مملو کرتا ہے۔ دولت کی عالانہ تقسیم عمل میں لاتا ہے، نیکیوں کو عام کرنے اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے:

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔( سورہ حج آیت ۴۱)

معاشرہ میں اگر ولایت کا نظام آجائے تو یہ سب چیزیں عملی ہو سکتی ہیں۔ نماز کا قیام، زکات کی ادائیگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خلاصہ یہ کہ بے جان ڈھانچہ میں جان آجاتی ہے۔

مذہب اسلام میں بنیادی طور پر حکومت و قیادت ایک شرعی وظیفہ ہے کہ ایک شخص حکومت کے منصب پر فائز ہو، حکومت کے قیام کی یہ عظیم ذمہ داری اس کی گردن پر ہے ان تمام شرعی وظائف کے ساتھ ساتھ جو سارے مسلمان انجام دیتے ہیں اور یہ جو کہا جاتا ہے ’’ اگر ولایت فقیہ کا نظام قائم ہو جائے تو آمریت آجائیگی‘‘ یہ صرف اس لیے ہے کیونکہ یہ لوگ ولایت فقیہ کو سمجھے نہیں ہیں۔ اگر مغربی ممالک کا کوئی صدر ہو تو اس کو تمام اختیارات دینے میں یہ لوگ ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے لیکن اگر ایک فقیہ جس نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے جو اسلام سے محبت کرتا ہے ان شرائط کے ساتھ جو اسلام نے بتائے ہیں (کہ کوئی غلط کام نہ کرتا ہو) ایسا شخص جب حکومت کے لیے آگے بڑھتا ہے تو اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔

اسلام ایک قانون کا پابند مذہب ہے پیغمبر بھی اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے تھے بلکہ خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتے تھے۔ خدا پیغمبر سے یہ فرما رہا ہے اگر ایک کلمہ بھی غلط کہا تو تمہاری رگ گردن کو کاٹ دیں گے۔ حکمرانی قانون کی ہے خدا کے قانون کے علاوہ کوئی حکومت، حکومت نہیں ہے۔ قانون کے بغیر کسی کی حکومت نہیں ہے نہ فقیہ کی نہ غیر فقیہ کی۔ سب کو قانون کے تحت عمل کرنا ہے۔ فقیہ اور غیر فقیہ سبھی قانون کو نافذ کرنے والے ہیں۔ فقیہ کا کام یہ ہے کہ وہ قانون کا نفاذ کرنے والوں پر نظر رکھتا ہے کہ لوگ قانون کی خلاف ورزی نہ کریں اور خود فقیہ قانون کے بغیر حکومت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ اجازت دے سکتا ہے کہ حکومت طاغوتی نظام یا آمریت میں بدل جائے۔

اسلام کے لیے کافی تکلیفیں برداشت کی گئیں اسلام کی راہ میں جوانوں کا خون بہایا گیا اگر اب ہم دوبارہ اس بنیاد کو کھوکھلا کرنا چاہیں جسے اسلام نے مضبوط کیا ہے اور وہ نظام جو رسول خدا او امیر المومنین کے زمانے میں تھا اس سے پھر جائیں تو کن لوگوں کی خاطر؟ ان کی خاطر جو ایک جگہ جمع ہو کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر چائے نوشی میں مشغول ہو کر سفسطہ آرائی کر رہے ہیں دین کی بنیاد کو کمزور کرنے اور لوگوں کو حقائق سے منحرف کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں! سچ تو یہ ہے کہ ولایت فقیہ اسلام کے آغاز کے ساتھ تھا اور رسول خدا کے زمانے سے اب تک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں کرنے والے یا تو ولایت فقیہ کے بارے میں جانتے نہیں ہیں یا پھر اپنے شخصی و دنیاوی مفاد کے پیش نظر حق سے منہ موڑ رہے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ’’ الحق یعلو و لا یعلی علیہ‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: جعفری

مصر کی جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں کی توہین

فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے مصر کی جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں کی توہین کیئے جانے کی خبر دی ہے۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن " عزت الرشق " نے مصر کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس ملک کی جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کی وضاحت کرے اور اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ الرشق سے فیزبک پر اپنے ویب پیج میں اعلان کیا ہے کہ مصر کی سیکورٹی فورسز کس منطق کی بنیاد پر شام سے ہجرت کرنے والے فلسطینی خاندانوں کے افراد کو گرفتار کررہی ہے اور آیا مصر کے حکام کو یہ معلوم ہے کہ قاہرہ و اسکندریہ کی جیلوں میں فلسطینی لڑکیوں کو جنسی آزار و اذیت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ الرشق نے لکھا ہے کہ شام میں مقیم فلسطینی خاندان شام میں ہونے والی خانہ جنگی سے تھک چکے ہیں لہذا انہوں نے مصر میں پناہ لی ہے۔ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے رکن نے مزید کہا کہ مصر میں فلسطینیوں کی توہین کی جارہی ہے اور مصر کی حکومت اس ملک کی سیکورٹی فورسز سے حتمی طور پر جواب طلب کرے۔

غزہ پر ممکنہ حملے کے مقابلے کے لئے فلسطین کی آمادگی

فلسطین کی منتخب عوامی حکومت کے کابینہ کے سیکریٹری نے غزہ پر ہرقسم کے ممکنہ حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی حکومت کی مکمل آمادگی پر تاکید کی ہے۔ " عبدالسلام صیام " نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کی منتخب عوامی حکومت نے غزہ پر ممکنہ حملہ اور کسی بھی قسم کی بحرانی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے سماجی و سیکورٹی پلان تیار کرلیا ہے۔ فلسطین کی منتخب عوامی حکومت کے کیبنٹ سیکریٹری " عبدالسلام صیام " نے اسی طرح اعلان کیا کہ فلسطین کی حکومت ، ملکوں اور مختلف عالمی اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور ان کو غزہ کے ظالمانہ محاصرے سے باخبر رکھے ہوئے ہے اور انہوں نے بھی ان رابطوں کے دوران غزہ کے محاصرے کی شدید الفاظ میں مخالف کی ہے۔ اس فلسطینی عہدیدار نے غزہ کے عوام کی بنیادی ضروریات کو مھیہ کیئے جانے کے لئے ایک سیکریٹریٹ کے تشکیل کے حوالے سے فلسطین کی عوامی حکومت کے اقدام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا فلسطین کے عوام کی مشکلات کے حل کے لئے عالمی سطح پر کوئی اقدام انجام نہیں دیا گیا ہے اور غزہ میں بجلی کا بحران جوں کا توں باقی ہے اور فلسطین کی عوامی حکومت غزہ کے بحران کو حل کرنے کے لئے اپنی تمام توانائيوں کو بروئے کار لارہی ہے۔

کربلا ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورکی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں کہ جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

۱: حریت اور آزادی

تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: لا و اللہ ، لا اعطیھم یدی اعطاہ الذلیل و لا اقر اقرار العبید۔خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔

اسی طرح کربلا میں جب آپ(ع) کو جنگ اور بیعت کے درمیان محصورکر دیا تو آپ نے فرمایا: الا و انّ الدعی بن الدعی قد رکزنی بین اثنین ،بین السلۃ و الذ لۃ، ھیھات منا الذلۃ۔۔۔ ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے دوچیزوں کے درمیان ،شمشیر اور ذلت کے درمیان مجبورکر دیا ہے تو یاد رکھنا ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔

نہضت عاشورا نے تمام مظلومان عالم کو مقاومت اور ظالموں کا مقابلہ کرنے والوں کو ثابت قدمی کا درس دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مصلح اعظم جناب گاندھی جی یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہو گئے: میں ہندوستان کے لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں لے کر آیا۔ میں صرف اس نتیجہ کو جومیں نے کربلا کے بہادروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے تمہارے لیے تحفہ کے طور پر لایا ہوں ۔ اگر تم لوگ ہندوستان کو ظلم سے نجات دلاتا چاہتے ہوتو حسین بن علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرو۔

۲: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے اور ظلم کی بیخ کنی کرنے کے لیے جنگ کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے اہم فلسفہ ہے۔ حضرت سید الشہداء (ع) اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں: «اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُريدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنكر و اُسير بسيرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبيطالب‏»؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔

امام(ع) کے یہ کلمات امام(ع) کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں۔ امام کے زیارت نامہ میں بھی یہ موضوع بیان ہوا ہے: اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی سبیل اللہ حتی اتاک الیقین۔

زیارت کے یہ کلمات اس فریضہ الہی کی گہرائی کو میدان جہاد میں جلوہ نما کرتے ہیں ۔ امام حسین (ع) نے عصر عاشور اس فریضہ الہی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ،واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، حتی عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے ۔سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کا انکار کر کے ولید اور مروان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور اس کے بعد نانا رسول خدا(ص) کی قبر پر تشریف لے گئے۔ نانا سے مناجات کرنا شروع کیا۔ اور اپنی مناجات میں معرو ف اور نیکی سے محبت کا اظہار کیا۔ اور خدا سے اس سلسلے میں طلب خیر کرتے ہوئے فرمایا: خدایا میں نیکیوں کو دوست رکھتا ہوں اور منکرات سے متنفر ہوں اے خداۓ عز و جل میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے اس راستہ کا انتخاب کر جس میں تیری رضا ہو۔

۳: وفاداری

وفاۓ عہد، ایمان کی نشانی ہے۔ روایت میں ہے: من دلائل الایمان، الوفاء بالعھد۔ ایمان کی ایک نشانی وعدہ کا وفا کرنا ہے۔

جب ہم واقعہ عاشورا کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک طرف وفاداری کے مجسم پیکر نظر آتے ہیں اوردوسری طرف بے وفائی اور عہد شکنی کے بت۔

کوفیوں کا ایک اہم نکتہ ضعف یہی بے وفائی تھی۔چاہے وہ مسلم بن عقیل کے ساتھ بیعت میں بے وفائی ہو چاہے وہ امام حسین (ع) کی طرف خط لکھنے اور دعدہ نصرت کرنے کے بعد بے وفائی ہو۔ اور انہوں نے نہ صرف بے وفائی کا ثبوت دیتے ہوئے امام کی مدد نہیں کی بلکہ برعکس دشمنوں کی صفوں میں آکر امام کے ساتھ معرکہ آرا ہو گئے۔ امام نے جو جناب حر کے ساتھ گفتگو کی اس میں بیان کیا: اگر تم نے میرے ساتھ وعدہ کو وفا نہیں کیا اور عہد شکنی کی، یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ تم لوگوں نے میرے باپ علی (ع)، میرے بھائی حسن(ع) اور میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ بھی یہی کیا ہے۔

ایک طرف بے وفائی کی انتہاء تھی اور دوسری طرف امام حسین (ع) وفاداری کا مکمل نمونہ ہیں اور نہ صرف امام حسین (ع) بلکہ ان کے بہتر(۷۲) جانثار بھی وفاداری کی آخری منزل پر فائز ہیں۔ جب شب عاشور امام حسین (ع) انہیں ان کے قتل ہو جانے کی خبر دے رہے ہیں تونہ صرف انہوں نے سر نہیں جھکائے اور ان پر خوف نہیں طاری ہوا بلکہ حیرت کن الفاظ میں امام کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا حالا نکہ امام (ع) نے اپنی بیعت کو ان کے کاندھوں سے اٹھا لیا تھا۔ آخر کار امام کو یہ کہنا پڑا: میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا۔

حضرت ابوالفضل العباس(ع) اور ان کے بھائیوں کو دشمن نے امان دی لیکن انہوں نے اس کی امان کو قبول نہیں کیا اور ایسا کردار پیش کیا کہ وفاداری کی مثال بن گئے۔ تاریخ بشریت میں عباس جیسا باوفا انسان نظر نہیں آ سکتا۔ وہ عباس(ع) جس کا دوسرا نام ہی وفا ہو گیا ۔ جناب عباس(ع) کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے: «أشهدُ لکَ بِالتسليمِ و التّصديقِ و الوفاءِ و النَّصيحهِ لِخَلَفِ النّبيِّ»؛ یہ گواہی ہے عباس کی بھائی کے سامنے اطاعت ،تسلیم، تصدیق اور وفاداری پر۔

عاشورا کے پیغامات میں سے ایک پیغام ، پیغام وفا ہے جو کبھی بھی دنیا کے وفا دار اور وفا دوست افراد کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتا۔

۴: رضا اور تسلیم

عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔

اہلبیت علیھم السلام نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرۂ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔

واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے۔ امام حسین (ع) کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔

اسی طریقے سے امام اپنے ان اشعار میں جو اس سفر کے دوران رنج و مصائب کی بنا پر ان کی زبان پر جاری ہوئے فرماتے ہیں: رضا اللہ رضا اھل البیت۔ یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی اہم اہلبیت کی رضا ہے۔

آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهي رضاً بِقضائکَ تَسليماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک يا غياثَ المُستغيثينَ ۔

البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن حسین بن علی (ع) کی طرح ثبوت پیش کرنا اور تسلیم و رضا کے درجۂ کمال کو پا لینا صرف حسین (ع) کا کام ہے۔

۵: اخلاص

اخلاص مکتب عاشورا کا ایک آشکارجلوہ اور گراں قیمت گوہر ہے۔

تحریک عاشورا کی بقا کاایک اہم ترین راز یہ گوہر اخلاص ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔

تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی یہ وہ واقعات ہیں جو اخلاص اور للٰہیت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم صبغۃ اللہ یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔ واقعہ عاشورا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنی ان تقاریر میں جو انہوں نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے فرمائیں، ہرطرح کی دنیا طلبی اور حکومت خواہی کو محکوم کیا اور اپنے سفر کے خالص ارادہ کو کہ جو وہی دین اور سماج کی اصلاح ہے بیان کیا: خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں ہرگز دنیوی حکومت اور دنیوی مال ومنال کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کی تعلیمات سے باخبر کروں اور خدا کی نشانیوں کو دکھلاؤں اور سماج کی اصلاح کروں تاکہ مظلوم امن و آمان سے رہیں اور تیرا حکم اور تیری سنت اجرا ہو۔

یہی الٰہی تصمیم تھا جس کی وجہ سے کوئی چیز امام اور ان کے اصحاب کو اس مقصد سے روک نہ سکا۔ اس خالصانہ نہضت اور تحریک میں جو ناخالص افراد تھے دھیرے دھیرے راہ کربلا میں امام سے جدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ عاشورا میں وہی افراد باقی تھے جو مجسمہ اخلاص تھے۔ خلوص ایسی چیز ہے جسے صرف خدا ہی پرکھ سکتا ہے۔ اور خدا کا خالص بندہ صرف خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی جان کو اس کی راہ میں نچھاور کرنے کو آسان اور معمولی بات سمجھتا ہے۔

درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا۔ اس طریقے سے کہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

۶: ادب، نجات کا عامل

انسان کی نجات اور عاقبت کے بخیر ہونے کا ایک سبب، ادب ہے روایات میں ہے کہ سب سے بہترین چیز جسے اولاد کو اپنے والدین سے ارث میں لینا چاہیے، ادب ہے۔

تحریک عاشورا میں ادب کے بے نظیر نمونہ پائے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب حر کے لشکر کو حکم ملا کہ امام حسین (ع) پر راستہ بند کر دیا جائے امام نے حر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ثکلتک امک ما ترید؟یعنی تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟۔ حر نے جواب میں کہا : اگر آپ کی ماں دختر پیغمبر (ع)کے علاوہ کوئی اور ہوتی تو میں بھی ایسا ہی جواب دیتا۔ لیکن کیا کروں کہ آپ کی ماں فاطمہ زہراء (ع) ہیں۔

یہ ادب و احترام کہ جو جناب حر نے حضرت زہرا (س) کے مقابلے میں کیا ان کی نجات کا ایک سبب بن گیا۔

اسی طریقے سے حضرت ابوالفضل العباس کا بے مثال ادب و احترام امام حسین (ع) کے سلسلے میں اپنی مثال آپ ہے۔ روز عاشور آپ کی شہادت تک نہیں ملتا ہے کہ حضرت عباس نے امام حسین (ع) کو بھائی کہہ کے آواز دی ہو۔ ہمیشہ امام کو مولا کہہ کے مخاطب کرتے تھے۔ صرف اس وقت امام کو بھائی کہہ کے بلایا جب اپنے دونوں ہاتھوں کو کھو چکے تھے۔ آنکھ میں تیر پیوست تھا اور سر گرز کے وجہ سے شگافتہ ہو چکا تھا۔ جب زین فرس سے زمین پر آ رہے تھے فرمایا:یا اخاک ادرک اخاک۔ اے بھیا، اپنے بھائی کی خبر لیجئے۔

ایک سبب جو تاریخ شہداء میں حضرت عباس کے مقام کو بلند کرتا ہے یہی بے مثال ادب و احترام ہےجو انہوں اپنے زمانے کے امام کے سامنے دکھلایا ہے۔

۷: حجاب اور عفت

عورت کی کرامت اور بزرگی اس کی عفت اور پاکدامنی میں نہفتہ ہے۔ اور حجاب ، عورت کی عفت اور پاکدامنی کو محفوظ رکھنے اور سماج کو اخلاقی برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور آپ کے خاندان پاک نے کربلا کی تحریک میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حجاب کی رعایت پر بے انتہا تاکید کی۔

شب عاشور کو امام (ع) نے اپنے اہلبیت کے ساتھ گفتگو میں انہیں حجاب اور عفت کی وصیت کی۔

روز عاشور جب امام حسین (ع) نے بچیوں کے رونے کی بلند آواز سنی جناب عباس اور جناب علی اکبر کو بھیجا تاکہ انہیں صبر و تحمل کی تاکید کریں۔

بعض لوگوں کے گمان کے برخلاف، حضرت زینب(س) روز عاشور کو بہت کم خیمہ سے باہر نکلیں تاکہ نامحرموں کی نگاہ ان کے بدن کے حجم پر نہ پڑے۔

منجملہ، جب امام حسین (ع) جناب علی اکبر کے سرہانے پہنچے تو جناب زینب کو یہ لگا کہ کبھی امام اس مصیبت کو تحمل نہ کر پائیں اور اپنی جان دے دیں، لہٰذا خیمہ سے نکل کر بھائی کو سہارا دینے پہنچیں۔

امام سجاد (ع) کربلا کے اسیروں کے قافلہ میں مخدرات عصمت و طہارت کے عفت و حجاب کے محافظ تھے اور کوفہ میں ابن زیاد سے کہا: اگر تمہارے اندر کوئی خوف خدا باقی رہ گیا ہے تو کسی نیک پاکدامن مسلمان کو ان خواتین کے ساتھ مدینہ بھیجو۔

اسی طریقہ سے جب عمر سعد کا اس کاروان کے پاس سے گذر ہوتا تھا تو اہل حرم فریاد بلند کرتے تھے اور اپنی لٹی ہوئی چادریں اس سے طلب کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعے اپنے حجاب کے حفاظت کر سکیں۔

یہ تاریخ عاشورا میں عفت اور پاکدامنی کے چند نمونہ تھے لیکن افسوس سے جب ہم اپنے سماج کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو جو حجاب اور پردہ ہمیں اپنی خواتین میں نظر آتا ہے وہ کربلا کی خواتین سے کوسوں دور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درس ہمیں کربلا کی انسانیت ساز تاریخ سے لینا چاہیے اور ان کے ذریعے اپنی زندگی کو سعادتمند بنانا چاہیے نہیں لے پا رہے ہیں۔

امام حسین(ع) کے قیام کا مقصد صحیح زندگی کی راہ دکھلانا ہے اور اگر یہ راہ و روش میدان عمل میں نظر نہ آئے تو کل قیامت کے دن امام حسین (ع) کو کیا جواب دیں گے۔ ذراغور کیجئے۔

*******

بقلم: جعفری

پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف نیویارک میں مظاہرہنیویارک کی عوام نے اس شہر میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کے سامنے جمع ہوکر پاکستان میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں کو فوری طور پر بند کیئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق احتجاجی مظاہرین نے امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ، پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملوں کہ جس میں اس ملک کے عام شہری منجملہ خواتین و بچے بھی بڑی تعداد میں مارے جاتے ہیں کو فوری طور پر بند کیئے جانے کا مطالبہ کیا۔ احتجاجی مظاہرین نے اسی طرح امریکی صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا کہ وہ اس قسم کے ڈرون حملے کہ جو پاکستان کی ارضی حاکمیت و قومی سلامتی پر سوالیہ نشان لگارہے ہیں کو فوری طور پر بند کرنے کا اعلان کریں احتجاجی مظاہرین نے اس موقع پر امریکہ کے ڈرون حملوں کہ عام شہریوں و بچوں کے قتل عام پر منتج ہوتے ہیں کی مذمت کرتے ہوئے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے سامنے ہونے والے اس احتجاجی مظاہرے کے شرکاء نے اس عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں کو رکوانے کے لئے قدم بڑھائیں۔ یادرہے کہ ایمینسٹی انٹرنیشنل ہیومین رائٹ واچ نے بھی حال ہی میں اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ امریکی حکام کو پاکستان و یمن میں ڈرون طیاروں کے حملوں کے جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد منجملہ خواتین و بچے ہلاک و زخمی ہوئے ہیں کی وجہ سے جنگی مجرم قراردیا جائے۔

انگولا: دسیوں مساجد بند اور متعدد تباہانگولا میں اسلامی برادری کے ایک عہدیدار نے اس ملک کی حکومت کی جانب سے انگولا کے 18 صوبوں میں دسیوں مسجدوں کو بند اور کئی دیگر کو تباہ کیئے جانے کی خبر دی ہے۔ اسکائی نیوز نے ڈیوڈ گا کے حوالے سے رپورٹ دی ہے انگولا کی حکومت نے اس ملک کے تقریبا 90 ہزار مسلمانوں پر ظلم روا رکھتے ہوئے اس ملک کی دسیوں مسجدوں کو بند اور کئی دیگر کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے ، اس ملک کی حکومت نے مساجد کی غیر قانونی تعمیر کا بہانہ بناکر ان مساجد کو تباہ کیا ہے ، انگولا کی حکومت درحقیقت اس ملک میں اسلام کے بڑھتے ہوئے رواج کو روکنا چاہتی ہے۔ یہ ایسی صورت حال میں ہے کہ انگولا کے وزیر خارجہ " جارج چیکوٹی " نے گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں اس ملک میں اسلام پر پابندی لگائے جانے سے مربوط خبروں کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی کہ انگولا کا بنیادی آئین تمام ادیان کی آزادی کا دفاع کرتا ہے اور اس قانون کے مطابق تمام دینی و مذہبی ادارے اس قانون کے معیار کے مطابق عمل کریں تاکہ ان کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا جائے۔ انگولا میں اسلام پر پابندی کے لئے اس ملک کی حکومت کے اقدامات سے مربوط خبروں کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی عالمی ذرائع ابلاغ میں انگولا کی حکومت کے خلاف تنقیدوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ بعض اخبارات و نیوز ویب سائٹوں نے انگولا کے صدر " جوزہ اڈوڈ ڈو ڈوس سانٹوس " اور اس ملک کے وزیر ثقافت"رزاکروزاسیلفا" کے حوالے سے اعلان کیا تھا کہ اس ملک میں بہت جلد تمام مساجد کو بند کردیا جائے گا۔

افغانستان: ایک اور ڈرون مار گرایا گیاافغانستان میں ایک اور ڈرون طیارے کو مارگرایا گیا ہے۔ پریس ٹی وی نے اپنی بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ افغانستان کے مشرق میں صوبے ننگرہار میں ایک امریکی ڈرون طیارے کو مار گرایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون مار گرانے کی ذمہ داری طالبان گروہ نے قبول کرلی ہے۔ اس خبر کی مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ یہ ایسی صورت میں ہے کہ آج صبح صوبے نورستان میں امریکی ڈرون طیارے کے تازہ ترین حملے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان کی حکومت و عوام بارہا امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں کو اس ملک کی قومی حاکمیت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب افغان حکام نے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان کے مشرق میں 20 مارٹر گولے داغے جانے کی خبر دی ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبے کنڑ کے سیکورٹی کمانڈر " عبدالحبیب سید خیل " نے آج صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ گذشتہ رات پاکستان کی سرزمین سے اس ملک کے مشرقی علاقوں میں 20 مارٹر گولے داغے گئے ہیں۔ یہ اعلان ایسی صورت حال میں کیا گیا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے آج کابل کا دورۂ کیا اور افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی ہے۔

دربار شام ميں حضرت امام سجاد علیہ السلام کا تاريخي خطبہ

فرزند رسول حضرت امام سجاد علیہ السلام خاندان رسالت (ص) کے ہمراہ کوفہ اور شام لے جائے گئے اور اپني پھوپھي زينب (س) کے ہمراہ فاسد و بدعنوان اموي خاندان کي حقيقت بےنقاب اور امام علیہ السلام کے مقدس مشن کو صحيح اور سيدھے راستے کے طور پر متعارف کرکے حسيني مشن کي تکميل کا اہتمام کيا-

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے کوفہ اور شام اور راہ کوفہ و شام ميں بھي، اپنے خطبوں کے ذريعے قيام حسيني کے اصولوں اور فلسفوں سے لوگوں کو آگاہ فرمايا۔

... يزيد نے اپنے ايک درباري خطيب کو حکم ديا کہ علي اور آل علي کي مذمت اور الميۂ کربلا کي توجيہ اور يزيد کي تعريف کرے- خطيب منبر پر گيا اور خدا کي حمد و ثناء کے بعد اميرالمومنين اور امام حسين عليہما السلام کي بدگوئي اور يزيد اور اس كي باپ کي تمجيد و تعريف ميں طويل خطبہ ديا- اسي حال ميں امام سجاد عليہ السلام نے کرائے کے خطيب سے مخاطب ہو کر بآواز بلند فرمايا: اے خطيب! وائے ہو تم پر کہ تم نے مخلوق کي خوشنودي کے وسيلے سے خالق کا غضب خريد ليا- اب تم دوزخ کي بھڑکتي ہوئي آگ ميں اپنا ٹھکانہ تيار سمجھو اورخود کو اس کے لئے تيار کرلو- اور پھر يزيد سے مخاطب ہوئے اور فرمايا: اجازت دو گے کہ ميں بھي لوگوں سے بات کروں؟ امام علیہ السلام نے حمد و ثناء الہی کے بعد فرمایا: میں اس کا بیٹا ہوں جو حجاز کے شير اور عراق کے سيد و آقا ہيں جو مکي و مدني و خيفي و عقبي، بدري و اُحُدي و شجري اور مہاجري ہيں جو تمام ميدانوں ميں حاضر رہے اور وہ سيدالعرب ہيں، ميدان جنگ کے شير دلاور، اور دو مشعروں کے وارث سبطين "حسن و حسين (ع)" کے والد ہيں؛ ہاں! يہ ميرے دادا علي ابن ابي طالب عليہ السلام ہيں- ميں دو جہانوں کي سيدہ فاطمہ زہراء عليہا السلام کا بيٹا ہوں۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے يہ مفاخرہ آميز کلام اس قدر جاري رکھا کہ لوگوں کي آوازيں آہ و بکاء سے بلند ہوگئيں- يزيد پر شديد خوف و ہراس طاری ہوگیا کہ کہيں اہل شام اس کے خلاف اٹھ نہ کھڑے ہوں چنانچہ اس نےموذن کو حکم ديا کہ اٹھ کر اذان دے اور امام سجاد کے کلام کو قطع کردے-

جب موذن نے اللہ اکبر کہا: تو حضرت سجاد علیہ السلام نے فرمايا: کوئي چيز خدا سے بڑي نہيں ہے- جب موذن نےاشھد ان لاالہ الا اللہ کہا: تو علي بن الحسين (ع) فرمايا: ميرے بال، ميري جلد، ميرا گوشت اور ميرا خون سب اللہ کي وحدانيت پر گواہي ديتے ہيں- جب موذن نے اشھد ان محمدا رسول اللہ کہا: تو امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور موذن سے مخاطب ہوکر فرمايا: اے موذن! تمہيں اسي محمد کا واسطہ، ٹھہر جا ، تا کہ ميں ايک بات کہہ دوں؛ اور پھر يزيد بن معاويہ بن ابي سفيان سے مخاطب ہوئے اور فرمايا: اے يزيد! کيا يہ محمد ميرے نانا ہيں يا تمہارے ؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہيں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاۆگے اور اگر سمجھتے ہو کہ ميرے نانا ہيں تو بتاۆ کہ تم نے کيوں ان کي عترت اور خاندان کو ظلم کے ساتھ قتل کيا، ان کے اموال کو لوٹ ليا اور ان کے خاندان کو اسير بنايا؟! پھر فرمايا: خدا کي قسم! اگر اس دنيا ميں کسی کے جدّ رسول اللہ ہیں تو وہ صرف ميں ہوں؛ پس تم نے ميرے باپ کو کيوں قتل کيا اور ہميں روميوں کي طرح قيد کيوں کيا- اور پھر فرمايا: اے يزيد تو اس عظيم جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد بھي کہتا ہے کہ "محمد رسول خدا ہيں؟! وائے ہو تجھ پر! قيامت کے روز ميرے جد رسول اللہ اور اميرالمومنين اور ميرے بابا امام حسين تمہارے دشمن ہيں-

امام سجاد عليہ السلام نے اپنا بليغ خطبہ مکمل کيا جس نے مسجد ميں موجود لوگوں کو سخت متاثر اور ان کو بيدار کرديا اور انہيں تنقيد و احتجاج کي جرات ملی۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اسلام کی تاکید۔

دین اسلام کی واجب تعلیمات میں سے ایک نیکیوں کا حکم دینا ، یعنی نیکیاں بجالانے پر تاکید کرنا اور برائیوں سے روکنا ہے ۔ معروف ایسے کام کو کہا جاتاہے جس کا شرعی یا عقلی اعتبارسے اچھا ہونا ثابت ہو جبکہ منکر ایسا کام ہے جس کا شرعی اور عقلی لحاظ سے برا اور ناپسندیدہ ہونا معلوم ہو ۔ واضح سی بات ہے کہ انسان اپنی بصیرت سے نیک کام کی انجام دہی پر مائل ہوتا اور برائیوں سے نفرت کرنے لگتا ہے ۔ اور انسان کے اندر پائی جانے والی یہ حالت اس بات کا باعث بنتی ہے کہ وہ نیکی اوربھلائی کا نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کےلئے بھی خواہاں ہوتا ہے ۔ مغربی نظریات کے برخلاف ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دوسروں کے امور میں مداخلت نہیں ہے بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فلسفہ ، پسندیدہ اور نیک کاموں کا احیاء ، معاشرے پر کنٹرول ، برے افعال کی روک تھام اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کا چاہنا ہے ۔

جس طرح سے کہ ایک بڑے باغ کو پھل دار بنانے کے لئے آبیاری ، کھاد دینے ، غیرضروری شاخ و برگ کو چھانٹنے ، موذی کیڑوں مکوڑوں ، اور اسی طرح کی متعدد آفات سے بچانے کی ضرورت ہے ، اسی طرح اسلام پسندانہ اصلاحی پروگرام کا جاری وساری رہنا اور اس کا کمال تک پہنچنا بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ جب مناسب حالات فراہم ہوں اور مختلف انفرادی و اجتماعی آفات کا خاتمہ ہو ۔ اسی بناء پر خداوند عالم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قالب میں ہر مرد و عورت کو دوسروں کے رفتار و کردار پر نگرانی کا حق عطا کیا ہے ۔ اس لئےتمام مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار پر نگراں ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی جیسے افراد کو بھی معاشرے میں اخلاقی بیماریوں سے نجات دلائے ۔ خداوند عالم سورۂ توبہ کی آیت 71 میں ارشاد فرماتا ہے "مومن مرد اور مومن عورتيں آپس میں سب ایک دوسرے کے ولی و مددگار ہیں کہ یہ سب ایک دوسرے کو نیکیوں کا حکم دیتے ہيں اور برائیوں سے روکتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں ، زکات ادا کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں "

معروف اور منکر ، جزئی امور میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔چنانچہ تمام اچھے اور نیک کاموں کا شمار معروف ميں اور تمام برے اور بد کاموں کا شمار منکر میں ہوتا ہے ۔ دینی ثقافت اور عقل کی نظر میں بہت سے کام معروف ہیں مثال کے طور پر سچ بولنا ، وعدے کی پابندی ، بے کسوں اورغریبوں کی دستگيری ، راہ خدا میں انفاق ، صلۂ رحم ، ماں باپ کا احترام ، علم کاحصول ، دوسروں کے حقوق کی رعایت ، اسلامی پردہ اور اسی طرح بہت سی دیگر مثالیں ، معروف میں شامل ہیں اس کے بر خلاف بہت سے برے اور ناپسندیدہ کاموں کو منکر کہا جاتا ہےجیسے حسد کرنا ، کنجوسی ، جھوٹ بولنا ، تکبر کرنا، نفاق ، تجسس ، چغلی ، برا بھلا کہنا ، اندھی تقلید ، یتیم کامال کھانا ، ظلم ، ناانصافی ، مہنگا بیچنا ، سود کھانا ، اور رشوت لینا وغیرہ ۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے دین حق کی دعوت ، عدل و انصاف کے نفاذ کے لئے حکومت حق کے قیام کی راہ ميں کوشش ، خدا کی راہ میں جان و مال نچھاور کرنا اور جارحین کے ساتھ مقابلہ کرنا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےاہم موارد میں شامل ہے ۔

قرآن کریم تمام انبیاء کی پہلی ذمہ داری ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہے اور سورۂ نحل کی آیت 36 ميں ارشاد فرماتا ہے" اور یقینا ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پھر ان میں بعض کو خدا نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی " ۔ انبیاء علیھم السلام کی بعثت کی اہم ترین وجہ ، انفرادی و اجتماعی فسادات کا مقابلہ اور عدل وانصاف کا قیام تھا تاکہ معاشرے میں اصلاحات انجام پائیں اور عدل وانصاف کا قیام عمل میں آئے اور عام انسان کامیاب و رستگار قرار پائیں کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انفرادی و اجتماعی فساد سے بھرے ہوئے معاشرے کا کسی اصلاحی اقدام کے بغیر تزکیہ ہو سکے ۔

پیغمبراسلام (ص) اور ان کے اہل بیت علیھم السلام کی عملی سیرت ، اعلی ترین اخلاقی تعلیمات سے سرشارہے ۔ مثال کے طورپر تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن حضرت علی (ع) کوفے کی گلیوں میں گذر رہے تھے کہ اچانک متوجہ ہوئے کہ کوئی ان کے پیچھے آرہا ہے امام (ع) کھڑے ہوگئے اور ایک جوان کو دیکھا تو آپ نے فرمایا اے جوان کیا تجھے کوئی کام ہے ؟ اس نے جواب میں کہا ہاں اے امیرالمومنین میں یہ چاہتاہوں کہ آپ مجھے ایک ایسی نصیحت فرمائیں جس کے سبب خدا میرے گناہوں کو بخش دے ۔ امام (ع) نے اس جوان کے جواب میں فرمایا " جو کوئی تین خصوصیات کا حامل ہو وہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں محفوظ رہے گا اول یہ کہ امر بالمعروف کرے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہو ۔ دوم یہ کہ نہی عن المنکر کرے اور خود بھی اس منکراور برائی سے دور رہے ۔ اور سوم یہ کہ کسی بھی حالت میں گناہ میں آلودہ نہ ہو اور الہی حدود کی پابندی کرے ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت میں اچھائیوں اور نیکیوں کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنے کا اصل مقصد ظلم و فساد کا مقابلہ کرنا ہے ۔ سماجی تبدیلیوں ميں ان بزرگوں کی شمولیت اس حد تک نمایاں ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سےاصلاحی اقدامات اور تعمیری تغیرات ان کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پرتو میں عملی صورت اختیار کرتی ہیں ۔ چنانچہ امام حسین (ع) کا انقلاب ، سماجی و سیاسی تبدیلیوں میں خاندان رسول اکرم (ص) کے موثرکردار کی ایک نمایاں مثال ہے ۔ صدر اسلام میں پیغمبراسلام (ص) کی رحلت کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کماحقہ عمل نہیں کیا گيا اور لوگوں نے خوف یا لالچ میں اس سلسلے میں زبانی یا عملی اقدام نہيں کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی کی۔ نتیجے میں دین میں برائی کو رواج مل گيا اور یزید جیسا فاسق وفاجر تخت حکومت پر بیٹھ گيا ۔ امام حسین نے اپنے قیام اور تحریک کا مقصد اوراس کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جانب اشارہ فرمایا اور اسے اپنے قیام کے اہداف میں سے قراردیا ۔ آنحضرت ایک بیان میں حکومت بنی امیہ کو ایسا منکر متعارف کراتے ہیں کہ جس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے ۔ امام (ع) یزید کو شرابخوار ، اور فاسق و فاجر ، اور اس کے پیروکاروں کو شیطان کا مرید ، اور حکومت اموی کو ، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والی متعارف کراتے ہیں اور کیوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زبانی اثر حالات کو تبدیل کرنے میں بے اثر ہوچکا تھا اس لئے امام حسین (ع) نے ظالم وجابر اور فاسد حاکم یزید کو ، منکرات اور برائیوں سے روکنے کےلئے اٹھ کھڑے ہونے کو اپنا اہم ترین فریضہ جانا اور اسی دینی اصول کی بنیاد پر امام (ع) نے بیعت یزیدکو ٹھوکرماردی اور اسے باعث ننگ و عار قرار دیا اور کربلا جیسی جاوداں تاریخ رقم کردی ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت کامزید جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کچھ مخصوص آداب و شرائط ہيں ۔ اول تو یہ کہ جو شخص دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرے وہ خود اس پر عمل بھی کرتا ہو ۔ پہلی صدی ہجری کے ایک دانشور حسن بصری ایک دن لوگوں کے ایک گروہ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکی تلقین اور نصیحت کررہے تھے ۔ فرزند رسولخدا حضرت امام زین العابدین (ع) نے ان کی باتیں سن لیں اور ان سے فرمایا تم جو اس طرح سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کررہے ہو کیا اپنی موت کے وقت اپنی اس حالت سے ، جو تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان ہے ، راضی رہو گے ؟ حسن بصری نے جواب میں کہا نہیں میں راضی نہیں ہوں گا ۔ امام (ع) نے ان سے دوبارہ سوال کیا ، کیا تم اپنی حالت میں تبدیلی کے خواہاں ہو تاکہ ایک بہترین اور شائستہ حالت کو درک کرسکو ؟ تو حسن بصری نے نفی میں جواب دیا ، امام (‏‏ع) نے فرمایا تم جو کہ خود اپنی حالت میں اصلاح کی کوشش نہيں کرنا چاہتے تو پھر کیسے لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتے ہو اور انہیں برائی سےروکتے ہو ؟ حسن بصری نے اپنا سر شرمندگي سے جھکا لیا اور پھر اس کے بعد کسی نے انہیں نہیں دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس طرح سے نصیحت کرتے ہوں ۔

امربالمعروف کی دیگر اہم شرائط میں سے ایک ، کہ جو گناہکار اور خطا کار فرد میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کا جذبہ پیدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ ایسے فرد کو انتہائی نرمی اور سلجھے ہوئے انداز ميں اچھائیوں کی دعوت دی جائے ۔ اہل بیت اطہارعلیھم السلام اچھائیوں کے بجالانے اور برائیوں سے رکنے کی تلقین انتہائی محبت آمیز لہجے میں کرتے تھے اس طرح سے کہ افراد میں اس کا بہت تیزی سے اثر ہوتا تھا ۔

اہل بیت اطہار علیھم السلام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک اورشرط شجاعت کوقراردیتے ہيں ۔ کبھی ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان صحیح تشخیص کے ساتھ حق کا کھل کر اور جراتمندانہ اعلا ن کرے اور انحراف کی راہ میں مانع ہو ۔ چنانچہ ایک دن عباسی حکمراں منصور دوانیقی نے امام صادق ( ع) کو ایک مراسلے میں لکھا کہ کیوں دوسروں کی طرح تم ہمارے پاس نہیں آتے اور ہمارے ساتھ نشست و برخاست نہيں کرتے ؟ امام (ع) نے اس کے جواب میں لکھا کہ ہمارے پاس مال دنیا سے کچھ نہیں ہے کہ جس کے سبب میں تجھ سے ڈروں اور تو بھی آخرت میں کسی برتری اور فضیلت کا حامل نہیں ہے کہ میں تجھ سے کوئی امید رکھوں " منصور نے اس مراسلے کو پڑھا اور پھر لکھا " آئیے اور ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تلقین کیجئے ۔ امام (ع) نے پھر تند لہجے میں منصور کو خط میں لکھا " جو بھی اہل دنیا ہوگا وہ تجھے نصیحت نہیں کرے گا کیوں تو جو کام بھی چاہتا ہے انجام دیتا ہے اور جو بھی اہل آخرت ہوگا وہ ہدایت کرنے تیرے پاس نہیں آئيگا کیوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا

فرزند رسولخدا حضرت امام محمد باقر ( ع) ارشاد فرماتے ہيں " امربالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ایسا امر واجب ہے کہ جس پر دیگر واجبات قائم اور استوار ہوتے ہيں ۔ اب جب کہ اسلام اس طرح سے امر بالعروف اور نہی عن المنکر کی ٹھوس طریقے سے حمایت کررہا ہے ، تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ پورے عزم کے ساتھ حق کا اعلان کریں اور انحراف اور برائیوں کا معاشرے سے سد باب کریں تاکہ اسلامی معاشرہ ہر طرح کے اخلاقی زوال و انحطاط سے محفوظ رہے اور حیات طیبہ اور پاک و پاکیزہ زندگي کی ضمانت فراہم کرے ۔