Super User
جناب ام فروہ
تاریخ اسلام کی باعظمت خواتین میں سے ایک باشرف خاتون جناب فاطمہ بھی ہیں جو ام فروہ کے لقب سے مشہور اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور فرزند رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں آپ نے ان دو امام ہمام سے بہت زيادہ علوم اور فضائل و کمالات حاصل کئے ۔
بغداد کے مشہور و معروف مورخ و دانشور علی بن حسین مسعودی سے روایت ہے کہ ام فروہ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے فضل و کمال اور تقوی و پرہیزگاری میں ممتاز تھیں ۔
اس عظیم المرتبت خاتون کی تاريخ ولادت اور امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی تاريخ کا صحیح علم نہیں ہے لیکن اس مقدس شادی کے نتیجے میں دو عظیم فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ اپنی مادرگرامی کے حسن عمل اور تقوی و پرہیزگاری کا ذکر فرمایا کرتے تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ کی عظمت ایمان اور کمال معنویت کے بارے میں فرماتے ہیں : میری والدہ ماجدہ صاحب ایمان خواتین میں سے ہیں جو تقوی و پرہیزگاری سے مملو ، بہترین روش و اسلوب سے آراستہ اور نیک خاتون تھیں اور خداوندمتعال بھی نیک لوگوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع قول کو سورہ نحل کی آیت ایک سو اٹھائیس سے اخذ کیا اور اپنی مادرگرامی کے نیک و پسندیدہ اوصاف کوبیان کیا ہے ۔
اس با فضیلت خاتون نے معرفت اور تقوی، انسانی و اخلاقی فضائل و کمالات کے بلند مقامات پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے بے شمار حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور ان کا شمار راویان حدیث میں ہوتا ہے۔
جناب ام فروہ ایک عقلمند و بادرایت اور با وفا خاتون تھیں روایت میں ہے کہ نوے ہجری قمری میں مدینے میں خطرناک چیچک کی بیماری پھیل گئی اور بعض بچے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے اگر چہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر مبارک سات برس تھی اور سات برس سے دس برس تک کے بچوں کو چیچک کی بیماری بہت ہی کم ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ام فروہ امام علیہ السلام سمیت اپنے تمام بچوں کو لے کر مدینے سے باہر چلی گئیں تاکہ چیچک جیسی مہلک بیماری آپ کے بچوں میں سرایت نہ کرجائے۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانے میں اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت کرلیا کرتے تھے تاکہ یہ بیماری انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لےلے۔
جناب ام فروہ اپنے بچوں کو لے کر مدینے سے کچھ فاصلے پر طنفسہ نامی علاقے میں چلی گئیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں احساس ہوا کہ خود وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئیں ہیں یہ عظیم خاتون بجائے اس کے کہ اپنی فکر کرتیں انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے درخواست کی کہ بچوں کو طنفسہ سے ایسی جگہ لے جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت تمام بچوں کو وہاں سے ایک دیہات میں منتقل کردیا گیا ۔
ادھر مدینے میں امام محمد باقر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کی شریکہ حیات ام فروہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں چونکہ یہ خطرناک بیماری تھی اور اس زمانے میں اس کا علاج نہ تھا ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے درس ختم کیا تاکہ اپنی شریکہ حیات کی عیادت کے لئے طنفسہ جائیں امام علیہ السلام نے طنفسہ جانے سے پہلے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر آئے اور ام فروہ کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا تو کہا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں کیا آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں چیچک جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ چیچک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی عیادت کے لئے نہیں جایا کرتے کیونکہ ممکن ہے وہ بیماری عیادت کرنے والے میں بھی سرایت کر جائے ۔
المختصر یہ کہ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے جناب ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر ان میں نہ رہا ان کی صحت یابی ایک نادر واقعہ تھا کیونکہ چیچک جیسی مہلک و خطرناک بیماری عمر رسیدہ کو بہت ہی کم ہوتی ہے اور اگر سرایت کرجائے تو مریض شفا یاب نہیں ہوتا ۔اور اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے کہ جو عظمت و فضیلت کے عظیم منارہ تھے ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی ام فروہ صحت یابی کے بعد مدینے واپس آگئیں لیکن چونکہ چیچک کی وبا ابھی تک مدینے میں تھی اس لئے اپنے ساتھ بچوں کو مدینہ نہیں لائيں-
جناب ام فروہ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن اس عظیم و بہادر خاتون کی قبر مدینے میں ہے ۔
دین و زندگی
ہر زندہ مخلوق منجملہ انسان کی یہ کو شش ہوتی ہےکہ اپنی بنیادی ضروریات زندگي کی ، شناخت ،عطوفت ومہربانی اور جسمانی پہلوؤں سے تکمیل کرے کیوں کہ ان ضروریات کی عدم تکمیل ، خواہ وہ مادی لحاظ سے ہو یا معنوی اوراخلاقی اعتبار سے، انسان کی زندگي ميں خلل واقع ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔ ماہرین حیاتیات اور نفسیات کے توسط سے جو تحقیقات عمل ميں آئی ہيں ان سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ بعض ایسی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جو تمام افراد کے لئے ضروری اور بنیادی ہیں۔ اوران ضروریات کی تکمیل یا عدم تکمیل کے ، انسان کے جسم اور نفسیات پر بہت زیادہ اثر مرتب ہوتے ہيں ۔ البتہ یہ ضروریات ، بچپن اور بڑھاپے کے دور ، اسی طرح افراد کی فعالیت کے اعتبار سے ہر زمانے ميں مختلف ہوتی ہیں ۔ لیکن کہا جا سکتاہے کہ تمام افراد ان ضروریات کو ہر دور میں اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لئے وہ اپنی بھرپور کوشش بروئے کار لاتے ہیں ۔
انسان کے کمال کی راہ ميں ایک بنیادی راستہ، سماجی تعلقات ہیں ۔ اور ان ہی تعلقات کے ذریعے انسانوں کی بہت سی ضروریات کی تکمیل اور اس کی صلاحیتوں اوراستعدادوں کا رشدو نمو عمل میں آتاہے ۔ فرد کا اس نظام کے خالق ، رہبران الہی اور تمام انسانی معاشرے سے رابطہ ، انسان کی نفسیات کے صحت مند رہنے میں اہم کردار کا حامل ہے ۔ انسان کے بعض سماجی تعلقات ، دوستوں اور رشتہ داروں کی ملاقات سے مربوط ہیں ۔
اپنے اعزہ و اقارب اور رشتہ داروں سے رابطے کو، تمام آسمانی ادیان اور سماجی نظریات میں اہم بتایاگیا ہے اور اسلام میں اسے صلۂ رحم سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت پر ، متعدد آيات و روایات میں تاکید کی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں : میں اپنی امت کے حاضر اور غائب افراد کو اور وہ جو اپنے والد کی صلبوں اور ماؤں کے رحموں ميں قیامت تک آتے رہیں گے ان سب کو یہ تلقین کرتاہوں کہ وہ صلۂ رحم کریں اگرچہ ایک سال کا فاصلہ کیوں نہ ہو کیوں کہ صلۂ رحم دین کا جزء ہے ۔
اسلام محبت اور دوستی کا دین ہے اور قرآن اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی احادیث میں ، ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے خاص طور پر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کرنا ، ایک ضروری امر ہے البتہ اس کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور صرف ان کے گھر جانا ہی نیکی نہیں ہے بلکہ ان کی مالی و فکری مدد یا جذباتی و ذہنی طور پر حمایت کرنے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں عمر میں اضافے کے لئے صلۂ رحم سے بہتر کوئي اور چیز نہیں ہے ( کافی ، ج2 ص 152)
آج کا انسان ، مادیات میں غرق ہونے اور دنیا سے دل وابستہ کرنے کے سبب دن بدن تنہا ہوتا جارہا ہے اور اپنے آرام و سکون سے ہاتھ دھو رہا ہے ۔ اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے ۔ حققیت ميں جو چیز زندگي میں شادابی اور رونق لاتی ہے وہ ملاقات ہے چاہے وہ دوستوں سے ہو یا اپنے عزیز و اقارب سے ۔ خاص طور پر اگر ملاقاتوں میں دلنشيں گفتگو یا دلچسپ و شیریں یادگاری واقعات بیان کئے جائيں اور یا پھر مشکلات کے حل کی راہ میں کوئی ہم آہنگي یا تفاق رائے ہو جائے تو اس ملاقات کے بہت سے فوائد نکلتے ہیں ۔ اپنے دینی بھائيوں سے ملاقات پر اسلام ميں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کیوں کہ اس سے کدورتیں اور کینے ختم ہوجاتے ہیں انسان میں فرحت و نشاط پیدا ہوتا ہے اور خدا بھی راضی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی متعدد آيات میں اپنے اعزہ و اقارب اور دینی برادران کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اس رابطے کی کیفیت کو بیان کیا گيا ہے مثال کےطور پر انفاق کی آيات ميں ، رشتہ داروں اور اقربا تک رسائی کو دوسروں پر مقدم کیا گیا ہے اور پھر یتیم و مسکین و فقیر اور غربت زدہ مسافروں کا نام لیا گيا ہے ۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت 177 کے ایک حصے میں خداوند عالم فرماتا ہے : نیکی اس شخص کا حصہ ہے جو اللہ ، آخرت ، ملائکہ ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ، یتیموں ، مسکینوں ، غربت زدہ مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے ۔
قرآن نے اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت 27 میں صلۂ رحم منقطع کرنے کے بارے میں فرمایاہے ، فاسق وہ ہیں جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں خسارے والے ہیں ۔ خداوند عالم اس آیت میں فاسقوں کی ایک علامت یہ بتاتا ہے کہ جو عہد خدا نے جوڑنے کا حکم دیاہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔ اگرچہ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت صلۂ رحم منقطع کرنے اور اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے مربوط ہے لیکن اس آیت کے مفہوم میں دقت اور غور کرنے سے یہ واضح ہوتاہےکہ اس کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے اور صلۂ رحم منقطع کرنا اس کا ایک مصداق ہے ۔ کیوں کہ اس آيت میں کہا گيا ہے کہ فاسق ایسے عہد کو جسے خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔
صلۂ رحم کی اہمیت یہاں تک ہے کہ خداوند عالم نے قرآن میں قطع تعلق کرنے والوں کو مورد لعنت قرار دیا ہے ۔سورۂ محمد کی 22 ویں اور 23 ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے پس اگر تم نے احکام الہی سے روگردانی کرلی تو کیا تم سے اس کے سوا کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ تم زمین پر فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے ۔ پیغمبر اسلام ۖ بھی صلۂ رحم کی اہمیت کے بارے میں فرماتےہیں اپنے اعزہ و اقارب سے رابطہ اور تعلق قائم رکھنے سے شہر آباد ہوتے اور عمروں میں اضافہ ہوتا ہے اگرچہ اس کے انجام دینے والے نیک افراد نہ ہوں ۔
اہل پیغمبر کی احادیث میں صلۂ رحم پر تاکید کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت امام صادق علیہ السلام نےاپنے اصحاب سے سفارش کی کہ ایک دوسرے کی ملاقات کو جایا کرو اور ہمارے امر کو یاد کرو اور اسے زندہ رکھو ۔ صلۂ رحم کی اس حد تک اہمیت ہے کہ اس کا انجام دینے والا قیامت میں فرشتوں کے استقبال اور ان کے سلام اور عاقبت بخیر ہونے کا مصداق قرار پائیگا جب کہ صلۂ رحم منقطع کرنے والا لعنت ، برے انجام اور نجات پانے سے محروم رہیگا ۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں جو کوئی بھی صرف خدا کے لئے اپنے برادر مومن کی ملاقات کو جائے ، خداوند عالم اس کے گھر سے نکلنے کے وقت سے گھر واپسی تک ، ستر ہزار فرشتے معین کرتا ہے جو سب سب کے ندا دیتے ہیں کہ ہمیشہ پاکیزہ اور خوش رہو اوروہ جنت تمہیں مبارک ہو جس میں تمہیں جگہ ملی ہے ۔ اس فرمائش کے مطابق اہم ترین چیز جو سماجی رویوں خاص طور پر عزیزو اقارب سے ملاقات کرنے میں محوریت اور مرکزیت رکھتی ہے ، پروردگار کے احکام پر توجہ ہے ۔ یعنی اس کام کے عبادت ہونے پر توجہ ، کہ جس کی قرآن کریم اور کلام معصومین علیھم السلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
رشتہ داروں سے ملاقات کے علاوہ کہ جس پر بہت توجہ دی گئی ہے ان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کو بھی مد نظر قرار دیا جائے ۔ اگر اسلامی دستورات کے مطابق عمل ہو تو اس میں عزیز و اقارب کی آبرو کی حفاظت کے ساتھ ان کی معاشی مشکلات کے حل ہونے کے ساتھ دیگر عظیم معنوی فوائد ہیں ۔ عزیز واقارب کی مشکلات کا حل ، صلۂ رحم پر مومنین کی توجہ دینے میں ہے لیکن اگر اس کی مشکل حل نہ کرسکے تو اس کی دلجوئی اور اس کے ساتھ ہمدلی کو فراموش نہ کرے اس لئے خدا کے نظام میں اپنوں کے لئے رنجیدہ خاطر ہونے کی بھی بہت منزلت ہے ۔ پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا صلۂ رحم کرو اگر چہ پانی کاشربت ہی کیوں نہ ہو اور صلۂ رحم کا برترین مرحلہ اس کوآزارو اذیت دینے سے اجتناب کرنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا دنیا میں صلۂرحم کرو اگرچہ ایک سلام سے ہی کیوں نہ ہو ( بحارالا نوار ج 74 ص 103 )
تاریخ میں صلۂ رحم کی اہمیت میں متعدد داستانیں ، پیغمبران الہی کی موجود ہیں ان میں سے ایک حضرت ابراہیم (ع) کی داستان ہے چنانچہ آپ کے بارے میں آيا ہےکہ آنحضرت مہمان نوازی ميں بے مثال تھے اس طرح سے کہ مہمان کا انتظار کرتے اور مہمان کے آنے سے قبل کھانا منھ کو نہيں لگاتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات ایک رات و دن گذر جاتے اور کوئی مہمان نہيں آتا تھا ۔گھر سے باہر جاتے تاکہ کوئي مہمان ڈھونڈھیں ایک دن آپ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بت پرست تھا تو اپنے آپ سے کہنے لگے اگر مومن ہوتا تو اسے میں اپنا مہمان بنا لیتا ۔ بوڑھا شخص وہاں سے گذر گیا اس وقت جبرئيل امین نازل ہوئے اور کہا اے ابراہیم ، خدا آپ پر درودو سلام بھیجتاہے اور فرماتاہے یہ ستر سالہ بوڑھابت پرست تھا میں نے اسکا ایک دن کا رزق کم نہيں رکھا ہے لیکن ایک دن کا اس کا رزق آپ پر چھوڑ دیا تھا لیکن آپ نے اس پر بیگانہ کا الزام لگا کر اسے کھانا کھلانےسے باز رکھا ۔ ابراہیم (ع) اس بوڑھے شخص کے پیچھے گئے تاکہ اسے سب کچھ بتائیں ۔ بوڑھے شخص نے کہا ایسے خدا کی نافرمانی کرنا جوانمردی سے دور ہے اور اس نے آنحضرت کے دین کو قبول کرلیا ۔
خدا کی راہ میں انفاق
ایک اہم مشکل جو تاریخ کے طویل دور ميں تمام انسانی معاشروں کو درپیش رہی ہے اور اب بھی موجود ہے ، فقر و تنگدستی اور مال وثروت کی تقسیم ميں عدم مساوات ہے ۔ بہت سے دانشوروں اور عالمی اقتصاد دانوں نے اس عظیم سماجی مشکل کے حل کے لئے اپنے اپنے طور پر ایک تجویز پیش کی ہے ۔
لیکن دین اسلام نے فقر و تنگدستی کےخاتمے کے لئے مختلف راہ حل اور طریقے پیش کئے ہیں کہ جن پر عمل ، فقیر و غنی کے فرق کو ختم کرنے یا کم از کم طبقاتی فاصلوں کے کم ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ جیسا کہ صدر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص ) کے زمانے ميں الہی فرمان اور دینی دستورات پر عمل کرنے سے ایسا ہی ہوا ۔ اگر کوئی معاشرہ گہرائی کےساتھ اسلامی دستورات پر عمل پیرا ہو جائے تو دولت و ثروت کی غیر منصفانہ تقسیم اورفقیر و دولت مند کے درمیان موجود فاصلہ اور مجموعی طور پر معاشی عدم مساوات کا معاشرے سے خاتمہ ہوجائیگا ۔فقر وتنگدستی کم کرنے کے لئے اسلامی اقدار کے دستورات میں سے ایک انفاق ہے ۔ قرآن مجید نے انفاق کےمسئلے پر بہت تاکید کی ہے اوراس سلسلے میں آيات قرآن بھی زیادہ وارد ہوئي ہیں ۔
خداوند عالم سورۂ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد فرماتا ہے جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہربالی میں سوسو دانےہوں اور خدا جس کے لئے چاہتاہےاضافہ بھی کردیتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہےاور علیم ودانا بھی ۔ یعنی انفاق کا اجر وپاداش سات سو گنا ہے اور خداوند عالم جس کے لئے چاہتا ہے اس ميں کئی گنا اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔
انفاق کے انسان کی جان ومال پر بہت عظیم اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہماری آج کی قرآنی مثال ، مال ميں برکت اور زیادتی میں انفاق کے اثرات سے متعلق ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف مال وثروت میں کمی کا باعث نہیں ہے بلکہ اس میں زیادتی کا بھی سبب ہے ۔ قرآن کی نظر میں خدا کی راہ میں خرچ ہونے والے مال کی مثال اس دانے کی طرح ہے جسے زمین ميں چھڑک دیا جاتا ہے اورایک مدت کے بعد اس میں سات بالیاں نکل آتی ہيں اور ہر بالی میں کم از کم سو یا اس سے کم دانے نکلتے ہیں ۔ شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسان نے جو بیج زمین پر چھڑکے اس نے گویا ان بیجوں کو ضائع کر دیا ہے لیکن کچھ دن صبر اور انتظار کے بعد معلوم ہوجاتا ہےکہ ہر دانے سے تقریبا سات سو دانے نکل آئے ہیں ۔ راہ خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں بھی برکت اور اضافہ اسی طرح سے ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے راہ میں خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں اضافے کے بارےمیں بہت خوبصورت اور گہر بار کلمات بیان کئے ہیں آپ فرماتے ہیں جو کوئی بھی صدقے ، انفاق اورمال حلال کے ذریعے مدد کرے تو خداوند رحمن اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک دانہ خرما ہی ہو ، پھر وہ خرچ کیا ہوا مال خدا کے ہاتھ میں رشد و نمو کرتا ہے اور اس میں اتنا اضافہ کردیتا ہےکہ وہ مال ایک پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔
راہ خدا میں مال کا انفاق کرنا انتہائی عظمت اور قدروقیمت کا حامل ہے ۔خاص طور پر اس وقت جب یہ عمل خالص نیت اور ایمان کے ساتھ ہو ۔ بعض مفسرین قرآن اس تعبیر اور قرآنی مثال کی اس طرح سے تفسیرکرتے ہيں کہ راہ خدا میں انفاق ، ان اعمال میں سے ہےجو معاشرے اور افراد پر متعدد آثار مرتب کرتے ہیں ۔ در حقیقت یہ عمل نہ صرف خرچ ہونےوالے مال میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس کے دیگر مثبت اثرات بھی ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد ہوتا ہےکہ ایک دانے سے سات سو دانے نکلتے ہیں اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انفاق سے ، مال لینے والے فرد کی زندگی پر جس طرح معنوی و مادی اثر مرتب ہوتا ہے ، صدقہ دینے والے کی زندگی پر بھی اس کا اثر ظاہرہوتا ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال قبل اس کے کہ ضرورت مند کے لئے مادی فائدے کا حامل ہو معنوی فائدہ بھی کا بھی حامل ہے اور جتنا زیادہ یہ عمل اخلاص اور پاکیزگی کا حامل ہو اس کے مثبت آثار بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہيں ۔
دنیا میں انفاق کرنے والوں کی جزا ، معنوی اور روحانی امن و سلامتی ہے ۔ جو بھی عشق وایمان اور اخلاص کےساتھ الہی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کے فقیر اور محروم طبقے کے لئے تھوڑا سا مال خدا کی راہ میں دے دے تو اسے روحانی لذت اور امن و سکون حاصل ہوتا ہے ۔ انسان کو ایسا کرنے سےایسا قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے جو نوع بشر کی مدد کرنے میں فطرت کےتقاضے کےمطابق ہے ۔ اور معاشرے کے ایک ضرورت مند کی مدد کرنے سے فرد کو ذھنی آرام و سکون حاصل ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں صدقے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور انفاق کرنے والوں کے لئے عظیم اور دائمی اجر و پاداش کا وعدہ کیا گیاہے ۔ انفاق ایک عمل صالح ہے جواگر قرآن کریم کے دستور کے مطابق انجام پاجائے تو اسلامی معاشرے میں انسانی تشخص کونمایاں کرتا ہے اورافراد میں اسلام کے معاشی اقدار اور ثقافت کے زیادہ سے زیادہ اجاگر ہونے کا سبب بنتاہے ۔اسی طرح اصل میں انفاق ایک دینی قدر ہے جسے قرآن ، خداوند متعال سے عشق اور تقرب کا زینہ قرار دیتا ہے ۔
خدا کی راہ ميں خرچ کرنے کی اہمیت اور قدروقیمت اس حد تک ہےکہ قرآن مجید میں (80 ) سے زیادہ آیات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ قرآن جب پرہیزگاروں کے صفات بیان کرتا ہے تو ان کی ایک صفت انفاق کرنا بیان کرتا ہے اور قرآن کی ابتدائی آیات میں خداوند عالم نے انفاق کو متقین کی اہم صفت کے طور پر بیان کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : صاحبان تقوی اور پرہیزگار وہ ہیں کہ جو کچہ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتےہیں ۔ ( بقرہ -3 )
پرہیزگار افراد ، انفاق کو مال ميں کمی نہيں سمجھتے بلکہ اسے غنیمت جانتے ہیں لیکن جو افراد قرآنی معارف سے بہرہ مند نہیں ہیں اور وہ دنیا سے بھی لو لگائے ہیں تو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنےکو گھاٹا اور نقصان سمجھتےہیں ۔
ایک عابد تھا جو برسہا برس سے عبادت کیا کرتا تھا ایک دن خواب میں اسے خبر دی گئی کہ خداوند عالم نے تیرے لئے یہ مقدر فرمایا ہےکہ تو آدھی عمر غربت اورفقر میں اوربقیہ عمر خوشحالی اور مالداری میں گذارےگا اب یہ فیصلہ تجھے خود کرناہےکہ تو پہلے فقر کو اختیار کریگا یا دولت مند ہونے کو ۔ عابد نے کہا کہ میری زوجہ ایک مومنہ اور نیک عورت ہے پہلے اس سے صلاح مشورہ کرلوں ۔ عورت نے اسے صلاح دی کہ پہلے تم دولت کا انتخاب کرو ۔ وقت گذرنےکےساتھ ساتھ اس مرد عابد کی نعمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ عورت نے کہا اے مرد ، خدا کا وعدہ حق ہے جس طرح خدا تمہیں نعمت دے رہاہے تم بھی اس کی راہ میں انفاق کرو ۔ اس عابد نے ویسا ہی کیا ، اس کی آدھی عمر گذر گئی اور وہ اس کا منتظر تھا کہ کب فقیر ہوتا ہے لیکن اس کی زندگي میں کوئی فرق نہیں آیا اور خدا کی نعمتوں کا سلسلہ اس پر بدستور جاری رہا۔ اسے خبر دی گئی کہ تونے انفاق کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا تو ہم نےبھی تیرے مال میں مزید اضافہ کردیا ۔ مال کا شکریہ انفاق ہے جس طرح سے کہ اس کا انکار عدم انفاق ہے ۔
فرزند رسول خدا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " خداوند عالم نے ثروتمندوں کے مال میں فقراء اور نیازمندوں کے لئے ایک حق مقرر کیا ہے جو ان کے لئے کفایت کرتا ہے یعنی اگر ثروتمند افراد اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو ضرورت مند افراد بے نیاز ہوجائیں گے ۔ اور اگر وہ چیز جو صاحبان ثروتمند پر واجب کی گئی ہے ، وہ فقرا کی ضروریات برطرف کرنے میں ناکافی ہوتی تو خداوند عالم اس میں اور اضافہ کردیتا ۔ ضرورت مندوں کی احتیاج ، قانون الہی میں نقص نہیں ہے بلکہ ثروتمندوں کی جانب سے واجب حقوق کی عدم ادائیگی اس کا سبب ہے کیوں کہ اگر دولت مند اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو نہ صرف معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوجائے بلکہ تمام لوگ آرام و سکون کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے -
آخر اسلام کو چھپاتے کیوں ہو؟
ممتاز مفتی کی طرح میں بھی اسلام کی تلاش میں نکلا ہوا ایک مسلمان ہوں۔ ممتاز مفتی نے تو اسلام کی تلاش میں "تلاش" لکھ کر غبارِ دل نکال ڈالا تھا لیکن ہمارا اضطرابِ دل ابھی باقی ہے۔ اگرچہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے میرا عقیدہ ہے کہ دینِ اسلام دنیا کا شفاف ترین، کامل ترین اور جامع ترین دین ہے، لیکن میں ہر روز اپنے اردگرد مسلمانوں کو مسلمانوں پر شب خون مارتے ہوئے دیکھتا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان کافروں کے ساتھ ملکر مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں، مساجد میں دھماکے کرتے ہیں اور گاڑیوں سے اتار کر مسافروں کی گردنیں کاٹ دیتے ہیں، مسلمان خواتین کی عصمت دری کرتے ہیں اور نہتے مسلمانوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اگر ایک غیر مسلم قوم کسی اسلامی ملک پر چڑھائی کرے تو ملت اسلامیہ کسی نہ کسی حد تک چیختی ہے، واویلا کرتی ہے، ریلیاں نکالتی ہے اور اجلاس منعقد کرتی ہے لیکن اگر مسلمان، مسلمان پر ظلم کرے تو نہ صرف یہ کہ اس ظلم کو چھپایا جاتا ہے بلکہ اس ظلم کو مقدس بناکر پیش کیا جاتا ہے اور اس ظلم سے پردہ اٹھانے کو فرقہ واریت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
میں نے ایک ایسے دور میں جنم لیا ہے جسے علم، شعور اور ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں اگرچہ تحقیق و جستجو کے دروازے سب کے لئے کھلے ہوئے ہیں لیکن اسلامی دنیا کا یہ حال ہے کہ اس دور میں بھی اسلام کا لبادہ اوڑھ کرکچھ لوگ جو مرضی ہے کرلیں، کوئی بھی انہیں روکنے اور ٹوکنے والا نہیں ہے۔ مجھے تعجب ہے کہ مٹھی بھر لوگ ایک طرف تو زندہ مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں اور دوسری طرف اکابرینِ اسلامیہ کے مزارات کو مسمار کر رہے ہیں اور مساجد میں نمازیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، لیکن دنیائے اسلام پر سکتہ اور سکوت طاری ہے۔ میں ایک عام مسلمان ہونے کے ناطے گذشتہ چند سالوں سے مسلسل دنیا بھر میں مسلمان بیواوں اور یتیموں کے بین سن رہا ہوں اور عالمِ اسلام کی اس مجرمانہ خاموشی پر انگشت بدنداں ہوں۔ اگر اس خاموشی اور ظلم کے خلاف میں حسبِ مقدور آوز اٹھاتا ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ تم خاموش رہو اور اپنی اصلاح کرو، دوسروں کو چھوڑو، اپنی عاقبت کی فکر کرو، دین سیکھو، نماز اور قرآن پڑھو۔
بہت سارے احباب نے مجھے صرف اور صرف قرآن مجید سے لو لگانے کا حکم دیا ہے اور میری نجات کے لئے مجھے سختی سے یہ تاکید کی ہے کہ میں صرف اور صرف اپنی اصلاح کروں اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دوں۔ وہ مجھے بار بار اس آیت مجیدہ کی یاد دلاتے ہیں کہ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ [1[
میں نے انہیں بارہا کہا ہے کہ میں خود کو نہیں بھولا بلکہ میں خود بھی ظلم سے نفرت کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی یہی کہتا ہوں کہ ظلم سے نفرت کریں، لیکن ان کا اصرار ہے کہ آپ نے دوسروں کی قبر میں تھوڑا ہی جانا ہے۔ لہذا دوسروں کو اس بارے میں کچھ نہ کہیں۔ جب ان کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن مجید بھی تو یہ کہتا ہے تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ [2]
قرآن مجید جہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنی اصلاح کا حکم دیتا ہے، وہیں پر اجتماعی طور پر بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی ہمارے لئے لازمی قرار دیتا ہے اور اسی بنیاد پر ہمیں بہترین امت کہتا ہے۔ مجھے حیرانگی ہے اپنے ان کرمفرماوں پر جو کہنے کو تو قرآن مجید کو ہی مشعلِ راہ کہتے ہیں، لیکن عملاً ان کی زندگی اور عقیدتاً ان کی فکر قرآن مجید کی تعلیمات کے منافی ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ عالمِ اسلام پر ہونے والے مظالم سے پردہ نہ اٹھایا جائے اور عالم اسلام کے خلاف ہونے والی بین الاقوامی سازشوں سے لوگوں کو آگاہ نہ کیا جائے، وہ شعوری یا لاشعوری طور پر قاتلوں اور ظالموں کی مدد کر رہے ہیں۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو۔ [3[
لیکن اس کے باوجود وہ لوگ حق کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ظالم کو ظالم نہیں کہتے۔
صاحبانِ ایمان کون ؟ قاتل یا مقتول
میں نے یہ جاننے کے لئے کہ عصرِ حاضر میں مرنے اور مارنے والے دونوں میں سے کونسا گروہ صاحبان ایمان پر مشتمل ہے، تحقیق کرنی شروع کی تو میرے سامنے سب سے پہلے یہ سوال تھا کہ آخر قرآن مجید کے نزدیک صاحبانِ ایمان ہیں کون؟ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ قرآن مجید نے بہت واضح انداز میں صاحبان ایمان کی نشاندہی کر دی ہے۔ قرآن مجید واشگاف الفاظ میں صاحبانِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ مومنو! خدا پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنی پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ، اور جو شخص خدا اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ رستے سے بھٹک کر دور جا پڑا۔ [4[
اسی طرح ایک اور مقام پر قرآن مجید نے صاحبانِ ایمان کے بارے میں کہا ہے کہ مومن تو وہ ہیں جو خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہ پڑے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے لڑے۔ یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں۔ [5[
مجھے یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوئی کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اس لئے مسلمان ہوجائے کہ اس کے باپ اور دادا مسلمان تھے بلکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان دل کھول کر تحقیق کرے اور اپنی تحقیق کی روشنی میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے۔ قرآن مجید نے بغیر تحقیق کے عقیدہ بنا لینے کو دل کے اندھے پن سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیا یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہو جاتے؟ حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ [6[
پس مجموعی طور پر قرآن مجید کے مطابق وہ لوگ صاحبانِ ایمان ہیں جو اللہ، اس کے رسول (ص)، قرآن مجید، فرشتوں، سابقہ انبیاء اور آسمانی کتابوں، روزِ قیامت پر بغیر شک کے ایمان لاتے ہیں اور راہِ خدا میں جان و مال صرف کرتے ہیں۔
صاحبانِ ایمان کی زندگی کے قرآنی اصول
صاحبان ایمان کی شناخت ہوتے ہی میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جلد از جلد یہ معلوم کیا جائے کہ صاحبانِ ایمان کو زندگی گزارنے کے لئے قرآن مجید نے کیا اصول بیان کئے ہیں، تاکہ ان کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ قرآن مجید نے عبادی، سیاسی و اجتماعی طور پر صاحبانِ ایمان کے لئے مختلف سورتوں اور آیات میں ایک مکمل تفصیلی پروگرام بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ اس وقت یہاں بیان کیا جا رہا ہے، کہیں پر کہا کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، بیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ [7[
اسی طرح مختلف مقامات پر نماز، روزہ اور حج بجالانے کے ساتھ ساتھ زکواۃ و خمس ادا کرنے اور جہاد و امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے نیز خدا او رسول (ص) کے دشمنوں سے نفرت کرنے اور اللہ اور اس کے رسول (ص) سے محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب مومنین کے باہمی تعلقات کی بات آئی تو قرآن مجید نے ارشاد فرمایا کہ مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
[8]
مومنین کو قرآن مجید نے اس حقیقت سے بھی خبردار کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں۔ [9[
یہ سب کچھ کہنے کے باوجود قرآن مجید نے ایک مومن کی جان اور زندگی کو الگ سے احترام اور اہمیت بخشتے ہوئے کہا ہے کہ کسی مومن کو یہ حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کر دے۔ [10]بلکہ قرآن مجید نے تمام انسانوں کی جانوں کی حرمت اور تقدس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا۔ [11]
ایمان کے لبادے میں دھوکہ باز
میں نے جب قرآن مجید میں ایک عام انسان اور ایک مومن دونوں کی عزت و حرمت کا یہ حال دیکھا تو ایک دم مجھے دھچکا لگا کہ جب قرآن مجید ایک مومن کو دوسرے مومن کے قتل سے منع کرتا ہے اور ایک عام انسان کے ناحق قتل کو سارے انسانوں کے قتل سے تشبیہ دیتا ہے تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو قرآن مجیدہ کو ہاتھوں میں بلند کرکے بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔۔۔؟ حالانکہ قران مجید بے گناہوں کو قتل کرنے سے منع کر رہا ہے۔ اسی تحقیق کے دوران مجھے قران مجید کی زبانی یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہم خدا اور آخرت پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔ یہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، حالانکہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بھی بڑھا دیا ہے۔ اب اس جھوٹ کے نتیجہ میں انہیں درد ناک عذاب ملے گا۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں، حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔ [12 [
عالم کفر کے اتحادی اور ان کا انجام
جب مجھے قرآن مجید کی روشنی میں دھوکہ باز، قتل و غارت کرنے والوں اور فسادی لوگوں کی حقیقت کا علم ہوا تو ایک اور نہایت ہی اہم سوال کا جواب ڈھونڈنے میں بھی آسانی ہوگئی۔ میں ایک عرصے سے اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو سب سے بڑا مسلمان اور قرآن و سنت کا پیروکار کہتے ہیں یہ امریکہ، یورپ اور اسرائیل سے اتحاد کیسے کر لیتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے ان کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب یہ صاحبانِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیاطین کی خلوتوں میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہاری ہی پارٹی میں ہیں، ہم تو صرف صاحبانِ ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ خدا خود ان کو مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیں سرکشی میں ڈھیل دیئے ہوئے ہے، جو انہیں نظر بھی نہیں آرہی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کو دے کر گمراہی خرید لی ہے، جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے۔ ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے روشنی کے لئے آگ بھڑکائی اور جب ہر طرف روشنی پھیل گئی تو خدا نے اس کے نور کو سلب کرلیا اور اب اسے اندھیرے میں کچھ سوجھتا بھی نہیں ہے۔ یہ سب بہرے گونگے اور اندھے ہوگئے ہیں اور اب پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔ [13[
قرآن مجید نے صریح طور پر اہلِ ایمان کو آگاہ کیا ہے کہ یہ لوگ جو عالم کفر کے اتحادی بن کر مسلمانوں کا قتلِ عام کرتے ہیں یہ درحقیقت ایمان کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں، ان کا سارا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ پھیلانا اور انہیں کمزور کرنا ہے۔ ان کی مساجد عالم اسلام کے خلاف مسجدِ ضرار کا کردار ادا کرتی ہیں اور ان کا سارا ہم و غم مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لہذا قرآن مجید نے مسلمانوں کو ان کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ خبردار ان کے اسلام کے دعووں اور جھوٹی قسموں پر نہ جانا۔ چنانچہ قرآن مجید نے اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی، ضرر رسانی اور کفر اور مومنین میں پھوٹ ڈالنے کے لیے، نیز ان لوگوں کی کمین گاہ کے طور پر، جو پہلے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ لڑ چکے ہیں اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارے ارادے فقط نیک تھے، لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ [14[
ممکن ہے بعض لوگ پھر بھی یہ دھوکہ کھا جاتے کہ یہ لوگ تو جہاد کے لئے نکلے ہوئے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے ان لوگوں کے جھوٹ اور نفاق کو مزید آشکار کرنے اور ان کے نام نہاد جہاد کے دعووں کی قلعی کھولنے کے لئے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں، اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدا تعالٰی پر ایمان لائے ہو، پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علی الاعلان کرتے ہو، وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا ہے۔ [15[
پس ان نام نہاد مجاہدین کا خدا کے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل وغیرہ کو دوست بنانا ہی اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ راہِ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ان کی کفّار سے دوستی اور مراسم کے بارے میں قرآن مجید نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ اللہ اور نبی اور ان کی طرف نازل کردہ کتاب پر ایمان رکھتے تو ایسے لوگوں سے دوستی نہ کرتے، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔ [16[
قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ ان نام نہاد مجاہدین کے چہرے سے نقاب ہٹایا ہے بلکہ ان کی مدد کرنے والے کافروں کی نیّت اور ارادوں سے بھی عالم اسلام کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے جو لوگ کافر ہیں وہ اپنا مال لوگوں کو خدا کے راستے سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ سو ابھی اور بھی خرچ کریں گے، مگر آخر وہ (خرچ کرنا) ان کے لیے (موجب) افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائیں گے۔ [17[
عصرِ حاضر کے کافروں امریکہ اور یورپ کو بھی اس حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جتنا بھی مال و دولت خرچ کر رہے ہیں اور نام نہاد مجاہدین کی کمر مضبوط کر رہے ہیں، بلاخر یہ سب ذلیل ہونگے اور شکست کھائیں گے۔ دنیا میں تو انشاءاللہ یہ ذلیل ہونگے ہی، قرآن مجید روزِ قیامت بھی ان کی ذلت و رسوائی کی خبر دیتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت کے دن جب سب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو مستکبرین کی اتباع کرنے والے مستکبرین سے کہیں گے کہ ہم تو آپ کے پیروکار تھے تو کیا آپ عذاب الٰہی کے مقابلہ میں ہمارے کچھ کام آسکتے ہیں، تو وہ جواب دیں گے کہ اگر خدا ہمیں ہدایت دے دیتا تو ہم بھی تمہیں ہدایت دے دیتے، اب تو ہمارے لئے سب ہی برابر ہے، چاہے فریاد کریں یا صبر کریں کہ اب کوئی چھٹکارا ملنے والا نہیں ہے۔[18[
یہ لوگ جو نمازیوں کو قتل کرتے ہیں اور مساجد کو ویران کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، قرآن مجید نے ۱۴سوسال پہلے ہی ان کے بارے میں بتا دیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو مساجد خدا میں اس کا نام لینے سے منع کرے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے. ان لوگوں کا حصّہ صرف یہ ہے کہ مساجد میں خوفزدہ ہوکر داخل ہوں اور ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔
[19]
دین کے نام پر جبر اور دھونس
صاحبانِ شر اور مفسدین فی الارض کی سازشوں اور انجام سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد قارئین یہ بھی جان لیں کہ قرآن مجید نے صاحبانِ ایمان کو ہرگز یہ اجازت نہیں دی کہ وہ قتل و غارت اور خون خرابہ کرکے زبردستی لوگوں پر اپنا دھونس جمائیں اور ان پر اپنا دین جبراً نافذ کریں۔ چنانچہ ارشادِ پروردگار ہے کہ اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو جتنے لوگ زمین پر ہیں، سب کے سب ایمان لے آتے، تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو کہ وہ مومن ہوجائیں۔ [20[
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے، اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور خدا سمیع بھی ہے اور علیم بھی ہے۔ [21]
ظالموں کے خلاف قیام
اب جب ہم قرآن مجید کی روشنی میں ظالموں کو اچھی طرح پہچان چکے ہیں تو آئیے یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے کے بارے میں قران مجید کا کیا حکم ہے؟ قرآن مجید کی روشنی میں جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں جنگ کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے ہیں۔ [22[
اسی طرح قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے کہ خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ مظلوم کے علاوہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔ [23[
قرآن مجید نے مظلوموں کو ظالموں کے خلاف جنگ کرنے اور ظالموں کو اعلانیہ طور پر برا بھلا کہنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ جو لوگ مظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیں، ایسے لوگوں کو ملامت نہیں کرنی چاہیے۔ [24]
دہشت گردی کا قرآنی علاج
آج پورے عالمِ اسلام پر اور خصوصاً وطنِ عزیز پاکستان پر منافقین اور ظالمین نے جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ آئے روز نہتّے اور بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے۔ ایسے میں اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآن مجید کی روشنی میں بے گناہ انسانوں کے قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں دیں۔ اس ضمن میں قرآن مجید نے ظلم و بربریّت کو روکنے کے لئے یہ راہِ حل بتایا ہے کہ جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا ملک سے نکال دیئے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا (بھاری) عذاب تیار ہے۔ [25]
ایک دوسرے مقام پر اس مسئلے کا حل کچھ یوں ذکر کیا ہے کہ شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے اور حرمات کا بھی قصاص ہے، لہٰذا جو تم پر زیادتی کرے تم بھی ویسا ہی برتاؤ کرو، جیسی زیادتی اس نے کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ سمجھ لو کہ خدا پرہیزگاروں ہی کے ساتھ ہے۔ [26[
قرآن مجید نے قتل و غارت اور خون خرابے کو روکنے کے لئے واضح طور پر کہا ہے کہ اے اہل عقل (حکم) قصاص میں (تمہاری) زندگانی ہے کہ تم (قتل و خونریزی سے) بچو۔ [27[
آخر میں ہماری تمام صاحبانِ ایمان سے گزارش ہے کہ خداوندِ عالم نے اپنی اس کتابِ حکیم میں صاحبانِ ایمان اور منافقین دونوں کی نشانیاں بتا دی ہیں، منافقین کی کافروں کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کی حقیقت سے بھی آگاہ کر دیا ہے اور منافقین کے ہاتھوں ہونے والی قتل و غارت کا علاج بھی بتا دیا ہے۔ پس اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم گروہوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر اسلام کے پیغام کو چھپانے کے بجائے عام کریں اور اگر ہم اپنی فرقہ وارانہ ضد کے باعث بے جا اختلاف کریں گے، اللہ کی کتاب کی آیات کو نہیں مانیں گے تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید کے بقول دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص خدا کی آیتوں کو نہ مانے تو خدا جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے۔ [28]
لہذا۔۔۔اپنی فرقہ وارانہ مصلحتوں اور گروہی مفادات کی خاطر اسلام کے حقیقی پیغام کو چھپائیں نہیں بلکہ شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے عام کریں۔ ظالموں کی خاطر اسلام کے پیغام کو چھپانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ظالموں کی حمایت کرنا بھی ظلم ہے اور إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الظَّالِمُون۔ [29]
ظالمین نجات نہیں پائیں گے۔
حوالہ جات
------------------------------------------------------------------------------
[1] َ تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَ أَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتابَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ بقرہ ۴۴
[2] 110آل عمران كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ
[3] ۔42 البقرہ وَ لا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْباطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
[4] يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْكِتابِ الَّذي نَزَّلَ عَلى رَسُولِهِ وَ الْكِتابِ الَّذي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَ مَلائِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً بَعيداً نساء ۱۳۶
[5] إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتابُوا وَ جاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَ أَنْفُسِهِمْ في سَبيلِ اللَّهِ أُولئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ ۔الحجرات ۱۱۵
[6] أَ فَلَمْ يَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِها أَوْ آذانٌ يَسْمَعُونَ بِها فَإِنَّها لا تَعْمَى الْأَبْصارُ وَ لكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتي فِي الصُّدُورِ (46[حج آیت ۴۶
[7] يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اسْتَعينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرينَ (153البقرہ
[8] حجرات10) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَينَْ أَخَوَيْكمُْ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ لَعَلَّكمُْ تُرْحَمُونَ
[9] الفتح ۲۹ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُم
[10] وَ ما كانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِن نساء ۹۲
[11] مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً۔ مائدہ32
[12] وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الاَْخِرِ وَ مَا هُم بِمُؤْمِنِينَ(8)يخَُدِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ مَا يخَْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُونَ(9)فىِ قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ بِمَا كاَنُواْ يَكْذِبُونَ(10)وَ إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُواْ فىِ الْأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نحَْنُ مُصْلِحُونَ(11)أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَ لَاكِن لَّا يَشْعُرُونَ(12) بقرہ
[13] وَ إِذَا لَقُواْ الَّذِينَ ءَامَنُواْ قَالُواْ ءَامَنَّا وَ إِذَا خَلَوْاْ إِلىَ شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نحَْنُ مُسْتهَْزِءُونَ(14)اللَّهُ يَسْتهَْزِئُ بهِِمْ وَ يَمُدُّهُمْ فىِ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ(15)أُوْلَئكَ الَّذِينَ اشْترََوُاْ الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبحَِت تجَِّرَتُهُمْ وَ مَا كاَنُواْ مُهْتَدِينَ(16)مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِى اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فىِ ظُلُمَاتٍ لَّا يُبْصِرُونَ(17)صُمُّ بُكْمٌ عُمْىٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ(18)بقرہ
[14] ۔ وَ الَّذِينَ اتخََّذُواْ مَسْجِدًا ضِرَارًا وَ كُفْرًا وَ تَفْرِيقَا بَينَْ الْمُؤْمِنِينَ وَ إِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ مِن قَبْلُ وَ لَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنىَ وَ اللَّهُ يَشهَْدُ إِنهَُّمْ لَكَاذِبُونَ توبہ107
[15] ۔ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَ عَدُوَّكُمْ أَوْلِياءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوا بِما جاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَ إِيَّاكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهاداً في سَبيلي وَ ابْتِغاءَ مَرْضاتي تُسِرُّونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ أَنَا أَعْلَمُ بِما أَخْفَيْتُمْ وَ ما أَعْلَنْتُمْ وَ مَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ ۱ممتحنہ
[16] مائدہ۔۸۱۔ وَ لَوْ كانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ النَّبِيِّ وَ ما أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِياءَ وَ لكِنَّ كَثيراً مِنْهُمْ فاسِقُونَ
[17] 36انفال۔ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ
[18] بَرَزُوا لِلَّهِ جَميعاً فَقالَ الضُّعَفاءُ لِلَّذينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعاً فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ قالُوا لَوْ هَدانَا اللَّهُ لَهَدَيْناكُمْ سَواءٌ عَلَيْنا أَ جَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا ما لَنا مِنْ مَحيصٍ۔ابراہیم ۲۱
[19] وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ وَ سَعى في خَرابِها أُولئِكَ ما كانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوها إِلاَّ خائِفينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيا خِزْيٌ وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ (114)بقرہ
[20] 99یونس۔ وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لاََمَنَ مَن فىِ الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَ فَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتىَ يَكُونُواْ مُؤْمِنِينَ
[21] بقرہ ۲۵۶۔ لا إِكْراهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فقد استَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقى لاَ انْفِصامَ لَها وَ اللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ
[22] 39حج۔ أُذِنَ لِلَّذينَ يُقاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَديرٌ [23] نساء148 لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ وَ كانَ اللَّهُ سَميعاً عَليماً
[24] شوریٰ41 وَ لَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولئِكَ ما عَلَيْهِمْ مِنْ سَبيلٍ
[25] مائدہ ۳۳۔ إِنَّما جَزاءُ الَّذينَ يُحارِبُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْديهِمْ وَ أَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيا وَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذابٌ عَظيمٌ [26] ۔ الشَّهْرُ الْحَرامُ بِالشَّهْرِ الْحَرامِ وَ الْحُرُماتُ قِصاصٌ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدى عَلَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقينَ (194البقرہ
[27] بقرہ۔وَ لَكُمْ فِي الْقِصاصِ حَياةٌ يا أُولِي الْأَلْبابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (179
[28] إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذينَ أُوتُوا الْكِتابَ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ وَ مَنْ يَكْفُرْ بِآياتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَريعُ الْحِسابِ۔ آل عمران۔19
[29] القصص ۳۷
بشکریہ: اسلام ٹائمز
شہید مہدی باکری کا وصیت نامہ
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے ان جملات سے، مسلط کردہ جنگ کے شہداء کی وصیتوں کو پڑھنے کی اہمیت دوچندان ہوجاتی ہے۔ ایسے شہداء کہ جن کو یہ یقین تھا ان کے مکتوبات اور وصیت نامے یادگار کے طور پر رہنے کے ساتھہ ، آیندہ نسلوں میں منتقل ہوں گے اور ان کی عزت و شرف اور حق کے دفاع پر مبنی راستہ ، حضرت امام مہدی (عج) کے انقلاب سے متّصل ہوکر رہے گا۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ ایران کے خلاف صدام حکومت کی مسلّط کردہ جنگ کے چند اعلی کمانڈروں اور سرداروں کے وصیّت ناموں پر ایک اجمالی نظر ڈالیں اور ان ملکوتی شخصیات سے آشنا ہوں۔
ایران کے بہادر و دلیر کمانڈرشہید مہدی باکری کا وصیّت نامہ:
خداوندا کس طرح وصیّت لکھوں جبکہ سراپا گناہ و معصیّت اور سراپا تقصیر و تیرا نافرمان ہوں؛ اگر چہ تیری رحمت و بخشش سے ناامید نہیں ہوں، لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بغیر بخشے اس دنیا سے نہ چلا جاؤں اور میرا جانا خالص نہ ہو اور تیری بارگاہ میں قبول نہ کیا جاؤں؛ یارب العفو ، اے میرے خدا میرے گناہوں کو معاف فرما۔ خداوندا ! مجھے ایسے میں موت نہ آئے کہ تو مجھہ سے راضی نہ ہو۔ اے وائے کہ میں رو سیاہ ہوجاؤ گا۔ خداوندا ! تو دوستی کے قابل اور لائق عبادت ہے ! افسوس میں نہ سمجھہ سکا! آہ کتنے لذت بخش ہیں وہ لمحات کہ جب انسان اپنے رب کے دیدار کے لئے آمادہ ہوتا ہے ! لیکن کیا کروں کہ میرے ہاتھہ خالی ہیں۔ خداوندا ! تو مجھے قبول فرما۔
سلام بر روح خدا ، عصر حاضر میں ہمارے نجات دھندہ ، وہ عصر و زمانہ کہ جو ظلم و ستم ، کفر و الحاد ، اسلام کی مظلومیت اور اس کے حقیقی پیروکاروں کا زمانہ ہے۔
میرے عزیز دوستوں ! اگر دن رات خدا کا شکر ادا کریں کہ اس نے اسلام و امام (رح) جیسی نعمت کو ہمیں عطا کیا پھر بھی کم ہے۔ آگاہ رہنا چاہیے کہ اس نعمت کے سچے و صادق سپاہی بنے۔ ہم میں اندرونی وسوسوں اور دنیا فریبی کی شناخت ہونی چاہیے اور اس بات کو جان لینا چاہیے کہ عمل میں خلوص و صدق نیت ہی ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔
اے سیدالشہداء کے عاشقوں! ہمیں حتمی طور پر شہادت کو اپنی آغوش میں لینا چاہیے، اس طرح ہمارا شوق سرخ اور ہماری شہادت کی تڑپ میں اضافہ ہوگا اور ہمارے قلب کی حرکت تیز ہوگی؛ ہمیں امام (رح) کے فرمانوں کے سیاق و سباق کو درک کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہوگا تا اپنی ذمہ داریوں کو کسی حد تک شکرگاری کے ساتھہ ادا کرسکیں۔
اپنی محترم والدہ ، بہن ، بھائیوں اور رشتہ داروں کو میری وصیّت یہ ہے کہ جان لیں کہ اسلام ، ہماری نجات و سعادت و خوشبختی کی تنہا راہ ہے، ہمیشہ یاد خدا میں رہیں اور خدا کے فرمان پر عمل کریں۔ امام خمینی(رح) کے مقلّد اور قلب کی گہرائیوں سے ان کے پشت پناہ ہوں، دعاؤں اور امام حسین علیہ السلام اور شہداء کی یاد میں ہونے والی مجلسوں کو بہت زیادہ اہمیت دیں، کیونکہ یہ عمل سعادت کا راستہ اور توشہ آخرت ہے۔ ہمیشہ حسینی و زینبی تربیت کے درپے رہیں اور ان کی ذمہ داری کو اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنے بچوں کو ایسی تربیت دیں کہ وہ با ایمان سپاہی،عاشق شہادت،صالح علمبردار اور اسلام کے لئے حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کے وارث بنیں۔ وہ تمام افراد کہ جو مجھہ سے رنجیدہ ہیں اور میرے اوپر ان کا حق ہے ان سے بخشش کا طلب کار ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ خداوند مجھے بے انتہا گناہوں کے باوجود بخش دے۔ خداوندا مجھے پاکیزہ حالت میں اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
قرآنی تعلیمات کا فروغ دشمنوں کی سازش سے مقابلہ کا بہترین طریقہ ہے
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے جامعہ المصطفی العالمیہ کی طرف سے منعقدہ قرآنی مسابقہ میں اس سینٹر کے ذمہ داروں کی طرف سے پیش کی گئی قرآنی فعالیت کی رپورٹ پر اس سینٹر کے سربراہوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی اس کاوش کی قدردانی کی ہے ۔
انہوں نے اس تاکید کے ساتہ کہ قرآنی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا چاہیئے بیان کیا : قرآنی سلسلہ میں مناسب مواقع و مناسب زمینہ فراہم ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ اس پر کام کیا جائے تاکہ گذشتہ کی کمی پوری کی جا سکے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے دشمنوں کی طرف سے غلط تشہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دشمنوں کی سازش سے مقابلہ کا بہترین راستہ قرآن کریم کی فعالیت کو فروغ دینا جانا ہے اور وضاحت کی : قرآنی میدان میں کام کرنا برکات اور بہت ساری کامیابیوں کا سبب ہے اور آپ لوگوں کو ایسا کام کرنا چاہیئے کہ آپ کے اسکالر خود اپنے ممالک میں ایسے سینٹر کھولیں اور اس میں قرآنی مباحث کی فعالیت کی جائے ۔
انہوں نے جامعۃ المصطفی العالمیہ کے قرآنی مسابقہ منعقد کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کی : اس پروگرام کو مختلف زبانوں میں فروغ و شایع کیا جائے ۔
مرجع تقلید نے بیان کیا : خدا کا شکر ہے کہ موجودہ حالات ایسے ہیں کہ پوری دنیا میں قرآن کے فروغ کے لئے تمام مقدمات آمادہ ہے اس لئے اس موقع سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جائے ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتہ کہ دنیا میں لوگ قرآنی تعلیمات کے عاشق ہیں وضاحت کی : یہ ایسا امتیاز ہے جو صرف اسلام کے پاس ہے اور دوسرے تمام ادیان کے پاس یہ گنج نہیں پایا جاتا ۔
او ٹی وی کو دیا گیا سید حسن نصر اللہ کا اہم انٹرویو
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایک عیسائی ٹی وی چینل OTV کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جنیوا میں جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والا معاہدہ خطے سے جنگ کے بادل چھٹنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دنیا پر یونی پولر عالمی نظام مسلط کئے جانے کی کوششیں غیرمعقول اور بے اثر ہیں اور آج کی دنیا یونی پولر ورلڈ آرڈر کو تسلیم نہیں کرتی۔
ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جنیوا معاہدہ درحقیقت خطے کی اقوام کی فتح ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے اس انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حال ہی میں طے پانے والے جنیوا معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ خطے کی اقوام کو پہنچے گا کیونکہ خطے میں موجود شیطانی قوتیں گذشتہ کئی سالوں سے خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف تھیں اور وہ امریکہ کو ایران کے خلاف محاذ آرائی پر اکسا رہی تھیں۔ البتہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ایران ایک کمزور یا گوشہ گیر ملک نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی جنگ انجام پا جاتی تو خطے کیلئے اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا معاہدے کے انعقاد نے بعض جدید بین الاقوامی حقائق کی بنیاد رکھ دی ہے جن میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا پر ایک قطبی عالمی نظام کا نفاذ ممکن نہیں۔ اس معاہدے نے دنیا پر ایک ملک کی حکمرانی کا تصور باطل کر ڈالا ہے۔ جنیوا معاہدے کی برکت سے دنیا ملٹی پولر نظام کی طرف گامزن ہو چکی ہے جو دنیا کو عالمی آمریت سے بچانے میں پہلا قدم ہے اور یہ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے ایک سنہری موقع ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اس معاہدے کی برکت سے خطے اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں میں انتہائی بنیادی تبدیلیاں معرض وجود میں آئی ہیں۔ البتہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والا یہ معاہدہ مرحلہ وار ہے لیکن بعض افراد انتہائی جلدبازی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ معاہدہ درحقیقت ولی فقیہ اور شیطان کے درمیان سمجھوتہ ہے۔
مغربی دنیا کیوں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ بہت بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کی پالیسیاں بند گلی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لبنان اور غزہ میں بھی نیو مڈل ایسٹ کا پراجیکٹ پوری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اب تو انہیں شام میں بھی مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 30 سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے لگائی گئی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی استعماری قوتیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی طرح خود امریکہ اور یورپی ممالک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ اب جنگوں سے بری طرح تھک چکا ہے اور کسی نئی جنگ کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہذا یہ سب عوامل باعث بنے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا ایٹمی معاہدے کے انتہائی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کا پہلا اثر یہ ہے کہ خطہ ایک نئی جنگ کے خطرے سے باہر نکل چکا ہے۔ ایران کے خلاف بھی امریکہ کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کاروائی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ البتہ میں پورے یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اسرائیل امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ایران کے خلاف کسی احمقانہ حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنا سکتا کیونکہ اسرائیلی حکام کسی منطق کے تابع نہیں اور بغیر سوچے سمجھے احمقانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران بعض نئے موضوعات بھی زیربحث لانا چاہتے تھے لیکن ایران کا مطالبہ تھا کہ پہلے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ایرانی حکام چاہتے ہیں کہ سمجھوتہ صرف ایران کے جوہری پروگرام تک محدود رہے۔
اسرائیل کے بارے میں ایران کا موقف اٹل اور ناقابل تغیر ہے:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے اختلافات اور مسائل کی نوعیت اسرائیل کے ساتھ مسائل سے مختلف ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کا موقف اٹل ہے اور کبھی بھی اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن امریکہ کے بارے میں ایران کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکی حکام ہمارے حقوق کا احترام کرے اور خطے کی دوسری اقوام کے مسلمہ حقوق کو بھی تسلیم کر لے تا اس کے ساتھ مذاکرات انجام پا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن ایران اپنی پرانی پالیسیوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ البتہ ابھی ایران اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بے شمار اختلافات اور مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات انجام پانے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا وقت نزدیک آ چکا ہے۔
خطے پر سب سے زیادہ اثرورسوخ ایران کا ہے؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران خطے کا ایک بڑا ملک ہے اور آج خطے پر اس کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے۔ ایران ہم سے مشورے میں ہے اور یہ مشورہ صرف لبنان کے مسائل تک محدود نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ خطے میں اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے خلاف جاری اسلامی مزاحمت کے بارے میں ایران کا موقف ہر گز تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ایران ہمیشہ اسلامی مزاحمت کی حمایت کرتا رہے گا۔ ایران کبھی بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنا اصولی موقف تبدیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا پرامن حل ممکن نہیں اور اب تک انجام پانے والے مذاکرات اسرائیل سے فلسطینی قوم کا چھوٹے سے چھوٹا حق بھی تسلیم نہیں کروا سکے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر 14 مارچ گروپ کے سعودی عرب سے تعلقات ہمارے ایران سے تعلقات کی مانند ہوتے تو لبنان میں پائے جانے والے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ ایران کبھی بھی لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیں نہیں کہتا کہ کیا کرو اور کیا نہ کرو۔ ایران لبنان میں صرف ایک چیز کا خواہاں ہے اور وہ یہ کہ لبنانی عوام آپس میں متحد رہیں اور آپس میں مفاہمت اور تعاون جاری رکھیں اور کاش ہمارے مدمقابل گروپ کا بھی کوئی ولی فقیہ ہوتا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ کسی بھی صورت لبنان کے نقصان میں نہیں۔
شام میں حزب اللہ کی موجودگی لبنان کے دفاع کیلئے ہے:
سید حسن نصراللہ نے او ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی درحقیقت لبنان کے دفاع کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ کامیاب ہو جائیں تو لبنان ایک عظیم خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ اگر ہم القصیر اور القلمون میں اپنا فرض ادا نہ کرتے تو آج دسیوں یا شائد سینکڑوں کار بم لبنان میں داخل ہو چکے ہوتے۔ ہم نے شام میں اس لئے مداخلت کی ہے تاکہ اس خطرے کو روک سکیں۔ اب تک لبنان میں جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں ان میں استعمال ہونے والی گاڑیاں یبرود کے علاقے سے عرسال کے راستے لبنان میں لائی گئی ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف شام سے لبنان میں دہشت گردانہ بم حملے کروا رہے ہیں بلکہ عراق میں بھی خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں شام کے ان علاقوں سے بھیجی جاتی ہیں جہاں مسلح دہشت گرد گروہوں کا کنٹرول ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعد حریری اور صقر جیسے افراد لبنان سے دہشت گرد بھرتی کر کے شام بھیجنے میں ملوث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ دہشت گرد گروہ شام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تمہارے پاس کیا ضمانت موجود ہے کہ وہ لبنان میں دہشت گردی نہیں کریں گے؟ ہم جو کچھ آج شام میں انجام دے رہے ہیں اسے لبنانی قوم کی حمایت حاصل ہے اور یہ حمایت 1982 سے لے کر 1990 تک انجام پانے والے ہمارے اقدامات سے بھی زیادہ ہے۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ شام میں مداخلت کرنے پر حزب اللہ کا شکریہ ادا کریں گے۔ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ شام میں جو افراد مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ یا تو شامی فوج سے وابستہ ہیں یا عوامی فورس کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ کے مجاہدین صرف دمشق کے نواحی علاقوں، حمص اور لبنانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں جبکہ دوسرے علاقوں جیسے درعا، سویدا، قنیطرہ، دیرالزور اور شمالی حلب میں حزب اللہ کا ایک مجاہد بھی موجود نہیں۔ القلمون میں جاری آپریشن میں بھی صرف شامی فوج اور عوامی فورس کے افراد شامل ہیں۔
شام حکومت کی سرنگونی ناممکن ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فوجی طریقے سے شام حکومت کو سرنگون کرنا بالکل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام پر حملہ نہیں کیا اور دنیا والے آج سفارتی طریقے سے شام کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض ممالک ابھی اس نتیجے پر نہ پہنچے ہوں کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے لیکن بہت جلد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اب بھی شام میں مسلح دہشت گردی کو ہوا دینے پر مصر ہے اور کسی طور پر سیاسی راہ حل کو اختیار کرنے پر راضی نظر نہیں آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی حکام کی پوری کوشش ہے کہ 22 جنوری کو برگزار ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس سے پہلے پہلے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے زمینی حقائق کو ان کے حق میں تبدیل کریں۔ لیکن یہ کوششیں بھی مشرقی الغوطہ میں انجام پانے والی سازشوں کی طرح شکست سے دوچار ہوں گی۔ البتہ بعض ایسی قوتیں بھی ہیں جو حتی جنیوا 2 کانفرنس کا انعقاد بھی نہیں چاہتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شام کے بعض حکومت مخالف گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت مخالف گروہوں کو پہنچنے والا نقصان شام حکومت کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ شام حکومت صرف اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اب تک قائم ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔ شام حکومت مضبوط عوامی حمایت سے برخوردار ہے لہذا شام کے مسئلے کو صرف اور صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی راہ حل بھی ایسا ہونا چاہئے جو خود شام کے شہریوں کی جانب سے وضع کیا گیا ہو اور باہر سے ان پر تھونپا نہ گیا ہو۔ اگر کوئی باہر سے شام کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی طرف سے شامی عوام پر کوئی راہ حل تھونپنے کی کوشش نہ کرے۔
افغانستان میں ہمیشہ باقی رہنے کی امریکی خواہش
افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر وحید ظہوری حسینی نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی، دائمی طور پر باقی رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ افغانستان کے اس سیاسی ماہر نے اپنے ملک میں امریکہ کے ناجائز مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کابل – واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے کو اگر لویہ جرگہ سے منظوری نہیں ملتی تو بھی امریکہ افغانستان سے واپس نہیں جاسکتا تھا۔ وحید ظہوری حسینی نے اس معاہدے کے حوالے سے حامد کرزئی کی پالیسی کو بھی ہدف تنقید قرار دیا اور کہا کہ حامد کرزئی نے اس معاہدے کے سلسلے میں اپنا موقف اختیار کرکے ایک طرف اس سمجھوتے کی ساری ذمہ داری افغان لویہ جرگہ پر ڈالنے اور دوسری طرف افغانستان کے صدارتی انتخابات میں اپنے منظور نظر نامزد امیدوار کیلئے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
افغانستان کے سیاسی مسائل کے اس ماہر نے کابل واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے کو افغانستان کے نقصان میں قرار دیا اور کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو حاصل ہونے والا قانونی تحفظ، افغانستان کی آزادی کے منافی ہوگا جبکہ اس سمجھوتے کے تحت امریکہ، پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کریگا۔ افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر وحید ظہوری حسینی نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی سے نہ صرف کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ بدامنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے۔
امام سجاد عليہ السلام كا جہاد شہيد باقر الصدر كے قلم سے
![]()
شہيد باقر الصدر ان نابغہ روزگار اور بلند ايہ اسلامي شخصيات ميں سے ہيں جنہوں نے اپنے بعد قيمتي قلمي و زباني آثار چهوڑے ہيں۔ جن ميں سے ايك صحيفہ سجاديہ پر ان كا گرانقدر مقدمہ ہے جس كا كچه حصہ قارئين كي خدمت ميں پيش كيا جارہا ہے۔ اس ميں شہيد صدر نے امام سجاد عليہ السلام كے جہاد سے متعلق كچه عمدہ باتيں لكهي ہيں:
قدرت كا فيصلہ يہ تها كہ اپنے والد ماجد كي شہادت كے بعد امام سجاد عليہ السلام امت اسلامي كي زمام ولايت و امامت اپنے ہاتهوں ميں ليں۔انہوں نے دوسري صدي ہجري كے نصف اول ميں امت مسلمہ كے ايك اہم اور حساس دور ميں باگ ڈور سنبهالي۔يہ امت مسلمہ كي پہلي فتوحات كے بعد كا زمانہ تها۔ان فتوحات نے اپني معنوي قدرت و حمشت اور فوجي جاہ و جلال كے ذريعہ قيصر و كسريٰ كے ايوانوں ميں لرزہ طاري كرديا تها اور بہت سي اقوام اور وسيع علاقے پر مشتمل كئي ممالك كو اپني حدود ميں لے ليا تها۔مسلمان تقريبا نصف صدي تك اپني خاص تمدن و تہذيب كے ذريعہ اس علاقہ پر حاكم رہے۔
ايك وسيع خطہ ارض پر حكومت نے اگرچہ مسلمانوں كو ايك بڑي سياسي و فوجي طاقت ميں بدل ديا تها ليكن اسلامي مملكت كے حدود سے باہر كي طرف سے دو بڑے خطرے انہيں درپيش تهے جن سے مقابلہ كرنا نہايت ضروري تها۔
پہلا خطرہ: مسلمانوں كا دوسري اقوام كے مسلمان ہونے كي وجہ سے ان كي تہذيب و ثقافت سے متاثر ہونا ان كے ساته ميل جول كا طريقہ تها۔
ايسے ميں علمي و فكري كام يہ ہونا چاہيے تها كہ مسلمانوں كو ذہني اور فكري طور پر آمادہ كيا جاتا كہ ان كا اصل عقيدہ وہي ہے جس كا سرچشمہ قرآن و سنت ہو۔اس كے لئے مجتہدانہ سعي و كوشش كي ضرورت تهي تاكہ مسلمان اتنا باشعور ہوجائے كہ وہ ايك بابصيرت مجتہد كي طرف كتاب و سنت كو سرچشمہ حيات قرار ديتے ہوئے زندگي گزار سكے۔
دوسرا خطرہ فتوحات كے نتيجے ميں حاصل ہونے والي آسائيشيں اور رفاہيات تهيں جس كي لپيٹ ميں پورا اسلامي معاشرہ آچكا تها۔آرام و آسائش كي بلا پر معاشرہ كو دنيوي لذتوں ميں غرق ہوجانے،اسراف،اس فاني دنيا كي كشش ميں مگن ہوجانے اور اخلاقي وجدان كي شمع كے بجه جانے كا سبب بنتي ہے۔
اس لئے ضرورت تهي كہ اس معاشرے ميں اسلامي شناخت كے درخت لگائے جاتے اور اجتہاد كي تخم پاشي كي جاتي۔ يہي وہ كام تها جسے امام علي الحسين عليہ السلام نے انجام ديا۔انہوں نے مسجد النبي (ص) ميں تحقيق و اجتہاد كرنے والا ايك گروہ تشكيل ديا اور لوگوں كے سامنے مختلف علوم من جملہ حديث و فقہ سے متعلق گفتگو كي۔ لوگوں كو اپنے اجداد كے طيب و طاہر علم سے آشنا كيا اور با استعداد افراد كو اجتہاد اور تفقہ كي مشق كروائي۔
بہت سے مسلمان فقہا يہيں سے نكلے ہيں۔يہي گروہ بعد ميں يعني امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) كے زمانے ميں مختلف فقہي مكاتب كے وجود ميں آنے كا سبب بنا۔
امام(ع) نے اس طرح قاريوں و حافظوں كي اكثريت كو اكٹها كيا۔ سعيد ابن مسيب اس بارے ميں كہتا ہے: ’’قاريان قرآن مكہ اسي وقت جاتے تهے جب علي ابن الحسين وہاں جاتے تهے۔ جب آپ نے مكہ جانے كا قصد كيا تو ہزار سوار افراد آپ كے ہمراہ ہولئے۔‘‘ (اختيار معفرۃ الرجال، ۱۱۷)
دوسرا خطرہ كو بهي امام سجاد عليہ السلام نے محسوس كيا اور اس كا علاج بهي شروع كيا۔اس كے لئے امام (ع) نے دعا كا نسخہ تجويز كيا۔صحيفہ سجاديہ امام (ع) كي اسي كاوش كا نتيجہ ہے۔ امام علي بن الحسين عليہ السلام نے بہت ہي مختصر اور جامع طريقہ سے الٰہي فكر كو دلكش مفاہيم اور بليغ معاني كے قالب ميں انسان كے خدا كے ساته رشتہ،خدا كے حضور ميں اطمينان و سكون،انسان كا مبدا اور معاد كے ساته تعلق،اخلاقي اقدار كو جامہ عمل پہنانے،رشتوں كي بنا پر انسان كي گردن پر عائد ہونے والے حقوق اور اس طرح كے اعليٰ روحاني پيغام كو معاشرہ كے سامنے پيش كيا۔تاكہ انسان ايك تو خدا كے ساته اپنا رابطہ مضبوط كرے اور دوسرا اس ماحول ميں خود كو بچا سكے جس ميں شيطاني وسوسوں كي ہوائيں چاروں طرف سے چل رہي تهيں۔ جب شيطاني وسوسے اسے پستي كي طرف ڈهكيليں تو وہ دعا كے ذريعہ خود كو روحاني معراج سے متصل كرسكے۔ اور وہ تونگري كے زمانے ميں بهي نيازمندي كے زمانے كي طرح خدا كے ساته اپنے عہد و پيمان پر كاربند رہے۔
امام كي سيرت ميں نقل كيا جاتا ہے كہ آپ ہر جمعہ كو لوگوں كے درميان خطبہ پڑهتے اور انہيں نصيحت كيا كرتے تهےاور انہيں دنيا كي آفتوں ميں گرفتار ہوجانے سے ہوشيار كيا كرتے تهے،انہيں اخروي امور كي طرف بڑهنے كي ترغيب دلاتے تهے اور دعا كے قالب ميں انہيں خدا كي بندگي اور اس كي حمد و ثنا كي تعليم ديتے تهے۔
صحيفہ سجاديہ ايك معاشرتي تحريك كا سمبل ہے ايك ايسي تحريك جو حالات كي بنا پر وجود ميں آئي ۔يہ گرانقدر صحيفہ ايك الہٰي ميراث بهي ہے جو صدياں گزرنے كے بعد بهي بخشش كا سرچشمہ،ہدايت كا چراغ اور اخلاق و تہذيب كا مدرسہ بن كر آج بهي باقي ہے اور بشريت كو ہميشہ اس محمدي اور علوي ميراث كي ضرورت ہے،اور يہ ضرورت اس وقت اور بهي بڑه جاتي ہے جب چاروں طرف شيطاني فريبكارياں اور دنيوي آزمائشيں نظر آتي ہيں۔
عزاداري شيعہ سني اتحاد كا مظہر
شيعہ سني دونوں كو اس بات كا خيال ركهنا چاہئے كہ كوئي ايسا كام نہ كريں جس سے عالمي استكبار كو اختلاف كي آگ بهڑكانے كا موقع ملے ۔ ان مراسم ميں كوئي ايسا كام نہ كريں جس سے دوسرے فرقوں كي توہين ہوتي ہو ۔ برادران اہل سنت كو اس بات كي طرف مكمل توجہ ديني چاہئے كہ آج عالم استكبار كا ہدف اسلامي درميان كے درميان اختلاف ڈالنا ہے جيسے شيعہ سني ميں اختلاف
عزاداري كبهي بهي شيعوں سے مخصوص نہيں رہي ہے بلكہ ہر وہ مسلمان جس كے دل ميں اہل بيت (ع) كي محبت رہي ہے ان كے مصائب بر غمگين اور عزادار رہا ہے ۔ اور انہوں نے مختلف طريقے سے اس محبت اور عشق كا اظہار كيا ہے مرثيہ خواني كے ذريعہ ، مذہبي انجمنوں ميں عزاداري بپا كر كے اور مجلس و ماتم كے دستوں كي شكل ميں ۔ مراسم عزا نہايت مقدس اور محترم ہيں اور ہم اپنے ملك ميں ہميشہ صحيح شكل اور پر امن صورت ميں ان مراسم كے حامي اور محرك رہے ہيں اور ہمارا اعتقاد ہے كہ دوسرے ممالك ميں بهي جہاں جہاں مواليان اہل بيت رہتے ہيں يہ مراسم نہ صرف يہ كہ ان كي انجام دہي ميں اشكال نہيں ہے بلكہ بہت اچها ہے اور قابل قدر ہے ۔ البتہ شيعہ سني دونوں كو اس بات كا خيال ركهنا چاہئے كہ كوئي ايسا كام نہ كريں جس سے عالمي استكبار كو اختلاف كي آگ بهڑكانے كا موقع ملے ۔ ان مراسم ميں كوئي ايسا كام نہ كريں جس سے دوسرے فرقوں كي توہين ہوتي ہو ۔ برادران اہل سنت كو اس بات كي طرف مكمل توجہ ديني چاہئے كہ آج عالم استكبار كا ہدف اسلامي درميان كے درميان اختلاف ڈالنا ہے جيسے شيعہ سني ميں اختلاف ۔ لہٰذا اس دشمن سے دهوكہ نہ كهائيں ۔ عاشورا تاريخ اسلام كا ايك عظيم سانحہ ہے اور محرم ، امام حسين ؑان كے اصحاب با وفا اور ان كي اولاد كي شہادت كي ياد منانا ہمارا ايك اسلامي فريضہ ہے اور صرف وہي لوگ اس كي مخالفت كرتے ہيں كہ جو حسين ابن علي اور بزرگان دين كے ہدف سے نا آشنا ہيں يا پهر مخالف ہيں ۔ عالمي استكبار شدت سے عزاداري اور عاشورا سے خائف ہے اسي لئے اس كي مخالفت كرتا ہے ۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
