Super User
اربعین حسینی کے موقع پر علامہ سید ساجد علی نقوی کا پیغام
نواسہ رسول اکرم (ص) ‘ محسن انسانیت ‘ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا کی عظیم قربانی کی یاد اور ان کا چہلم مناتے ہوئے یہ بات امت مسلمہ کے پیش نظر رہے کہ امام عالی مقام کی ذات اور آپ کے اہداف آفاقی ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف مکاتب فکر کے نہ صرف کروڑوں مسلمان بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی انتہائی عقیدت سے امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ اس وقت انسانیت مختلف گروہوں میں بٹ چکی ہے لیکن محسن انسانیت سید الشہد اء کی ذات ان تمام اختلافات اور طبقات کی تقسیم سے بالاتر تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔ اس لئے گذشتہ چودہ صدیوں سے انسانیت آپ کی ذات سے وابستہ رہنے کو اپنے لئے شرف اور رہنمائی کا باعث قرار دے رہی ہے اور بلا تفریق مذہب و مسلک اور خطہ وملک آپ کی سیرت سے استفادہ کررہی ہے۔
وحی الہی کے مطابق مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور یہ امت ایک امت ہے۔لہذا تمام مسالک کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھ کر اخوت‘ بھائی چارے‘ باہمی احترام‘ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔عالم اسلام قائد حریت سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی فکر انگیز تحریک سے آگاہی و آشنائی حاصل کرکے اتحاد و وحدت‘ مظلومین کی حمایت‘ یزیدی قوتوں سے نفرت کی ارتقائی منازل طے کرکے اپنی اخروی نجات کا سامان بھی فراہم کرسکتا ہے ۔ آزادی کی جدوجہد ہو‘ ظلم و ناانصافی کے خلاف قیام ہو‘ آمریت کے خلاف مزاحمت ہو‘ نیکی پھیلانا اور برائیوں کو مٹانا ہو‘ الغرض یہ ساری مناسبتیں ایسی ہیں جن میں سید الشہداء کی ذات اور کردار‘ ہر زمانے کے انسان کے لئے خواہ وہ کتنا ہی انسانی ارتقاء کی منازل طے کرچکا ہو سرچشمہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ صرف اسی صورت میں امت مسلمہ نواسہ رسول اکرم (ص) سے اپنی وابستگی و عقیدت کا اظہار صحیح طور پر کرسکتی ہے جب ان کے پاکیزہ ہدف و مقصد سے آگاہی و آشنائی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر فکر و عمل کی بنیادوں کو بھی مضبوط بنائے۔
کربلا کے بعد یہ اصول طے ہوگیا کہ رہتی دنیا تک آزادی کی جدوجہد ہو یا ظلم و ناانصافی کے خلاف قیام ، آمریت کے خلاف مزاحمت ہو یا امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی انجام دہی۔ ہر مرحلے میں سیدالشہداء کی ذات اور کردار کو رہنماء تسلیم کیا جائے گا اور اپنی جدوجہد کی بنیاد امام حسین(ع) کی سیرت اور اصولوں کو مدنظر رکھ کر رکھی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جتنی تحریکوں، جدوجہد اور انقلابات نے فکر حسینی سے صحیح استفادہ کیا وہ دنیا پر غالب ہوئے اور اپنے اہداف میں کامیاب اور کامران ہوئے۔
عزاداری سیدالشہدا کے پروگرام اور تقاریب فکر حسینی کی ترویج کا ذریعہ ہیں جبکہ پاکستان کے شہریوں کے آئینی و قانونی حقوق اور شہری وانسانی آزادیوں کا حصہ ہیں لہذا عزاداری کے پروگراموں کو روکنا یا ان میں رکاوٹ ڈالنا دراصل فکر حسینی کی ترویج کو روکنے کے مترادف ہے۔ اس فلسفے کے تحت ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ عزاداری کے انعقاد کے لئے ہمیں کسی قسم کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں بلکہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادیوں اور حقوق پر قدغن نہ لگائے اور ان کی آزادیوں کی حفاظت کرے اورعزاداری و ماتم داری کے جلوسوں اور مجالس کے انعقاد کے سلسلے میں اپنی انتظامی ذمہ داریاں دیانت داری سے ادا کرے-
مقبوضہ فلسطین،حرم حضرت ابراہیم(ع) پر حملہ
ذرائع کے مطابق غاصب صہیونی ریاست کی سیکیورٹی فورسز نے کل غرب اردن کے شہر الخلیل میں اسحاقیہ کے علاقے میں اس مقام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا جہاں حضرت ابراہیم(ع) کا حرم مطہر واقع ہے۔اس سے قبل صیہونی فوجیوں نے صیہونی مراسم کے انعقاد کے بہانے حرم حضرت ابراہیم(ع) میں داخل ہونے کیلئے بنے ہوئے تمام دروازے بند کردیئے اور فلسطینی نمازیوں کو اس مقدس مقام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔واضح رہے کہ سال بھر میں کوئی دس بار ایسے مواقع آتے ہیں جب غاصب صیہونی حکومت جضرت ابراہیم(ع) کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔
صہیونی ریاست کے نئے اقدامات سے قبلہ اول کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں
اقصیٰ فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تازہ کھدائیاں مغربی سمت میں پہلے سے کھودی گئی سرنگ کا حصہ ہیں۔ جو مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار کے ساتھ ساتھ کئی سو میٹرتک پھیلی ہوئی ہیں۔
بیان میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے دن رات کھدائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ عینی شاہدین کھدائی کے دوران ڈمپروں پر ملبہ باہر لے جاتے دیکھا ہے۔ بیان میں ذرائع کے حوال سے بتایا گیا ہ کہ مسجد اقصیٰ کے باب السلسلہ کی بنیادوں میں کی جانے والی کھدائیوں کے ساتھ زیر زمین اٹھ میٹر اونچے آہنی اور کنکریٹ کے ستون بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔ اٹھ میٹر اونچے ستونوں کو سرنگ کے اندر لے جاتے دیکھا گیا ہے جس سے یہ امر یقینی ہو رہا ہے کہ سرنگ کا اندرونی حصہ کم سے کم آٹھ میٹر اونچا ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم سے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے سربراہ اور اراکین کی ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے سربراہ اور اراکین کے ساتھ ملاقات میں ثقافت کی حیات بخش اہمیت اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے مقام ، اس کونسل کے منظور شدہ قوانین کے نفاذ کی ضمانت ، ثقافت کے بارے میں اداروں کی نظارتی اور ہدایتی ذمہ داری ؛ ثقافتی مظاہر کے ساتھ حکیمانہ رفتار، یونیورسٹیوں میں علمی پیشرفت کے استمرار ؛ انسانی علوم میں تحول کے اصولوں کی تدوین اور فارسی زبان کی حفاظت کے بارے میں اہم نکات بیان کئے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے میں ثقافت کے مقام و منزلت اور اس کی اہمیت کو اپنے خطاب میں پہلے نکتہ کے عنوان سے پیش کیا اور تینوں قوا کے سربراہان کے ثقافتی سوابق اور اسی طرح ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے اکثر اراکین کے ثقافتی میدان میں دردمند ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس کونسل سےاسی بنیاد پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ثقافت کے موضوع کو نمایاں بنانے اور اس کو حقیقی مقام و منزل تک پہنچانے میں زیادہ سے زیادہ اہتمام اور تلاش و کوشش کریں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت اور ثقافتی اقدار کو ایک قوم کا تشخص ، پہچان اور روح قراردیتے ہوئے فرمایا: ثقافت در حقیقت سیاست اور اقتصاد کے ذیل میں نہیں ہے بلکہ سیاست اور اقتصاد ، ثقافت کے ذیل میں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں تمام اہم موضوعات اور مسائل کے سلسلے میں ثقافت کے ہمراہ ہونے کےبارے میں اپنی ماضی کی سفارشات پر تاکید کرتے ہوئےفرمایا: بعض اوقات ممکن ہے کہ فیصلے اور منظور شدہ قوانین ، سیاسی، اقتصادی ، سماجی اور علمی ہوں لیکن ان کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں جس کی اصل وجہ ثقافتی امور پر عدم توجہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ثقافتی سرگرمیوں کے لئےمنصوبہ بندی ضروری ہے اور یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ ملک کی ثقافت خود بخود آگے بڑھے گی چاہے وہ عام ثقافت ہو یا ممتاز شخصیات کی ثقافت ہو یا یونیورسٹی سے متعلق ثقافت ہو۔
ایک ارب انسانوں کا بھوک میں مبتلاء ہونا شرم آور
دنیائے کتھولیک کے رہنما نے کہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب انسانوں کا بھوک میں مبتلاء ہونا شرم آور بات ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق پوپ فرانسین نے دنیا میں بھوک کے خلاف ایک خیراتی ادارے " کریٹاس " کی کمپین مہم کی مناسبت سے اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ آج دنیا میں ایک ارب انسان بھوک کا شکار ہیں اور یہ امر عالمی رسوائی اور شرم کی بات ہے۔ کتھولیک رہنما فرانسیس نے اپنے اس وڈیو پیغام میں مزید کہا کہ دنیا میں ایک ارب انسانوں کی بھوک کے حوالے سے لاتعلق نہیں رہا جاسکتا اور اس حوالے سے سب کو مل جل کرکام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے بھوک و افلاس کے خاتمے کیا جاسکے۔
ولادت امام موسی کاظم علیہ سلام
نام ونسب
اسم گرامی : موسیٰ
لقب : کاظم
کنیت : ابو الحسن
والد کانام :جعفر (ع)
والدہ کا نام : حمیدہ ( اسپین کی رھنے والی تھیں)
تاریخ ولادت : ۷/ صفر ۱۲۸ھء
جائے ولادت : مدینہ منورہ
مدت امامت : ۳۵ / سال
عمر مبارک : ۵۵/ سال
تاریخ شھادت : ۲۵/ رجب
شھادت کی وجہ : ھارون رشید نے آپ کو زھر دے کر شھید کر دیا
روضہ اقدس : عراق ( کاظمین )
اولاد کی تعداد : ۱۹/ بیٹے اور ۱۸ /بیٹیاں
بیٹوں کے نام : (۱) علی (۲) ابراھیم (۳) عباس(۴) قاسم (۵) اسماعیل (۶) جعفر (۷) ھارون (۸) حسن (۹) احمد (۱۰) محمد (۱۱) حمزہ (۱۲) عبد اللہ (۱۳) اسحاق(۱۴) عبید اللہ (۱۵) زید (۱۶) حسن (۱۷) فضل (۱۸) حسین (۱۹) سلیمان
بیٹیوں کے نام : (۱) فاطمہ کبریٰ (۲) لبابہ (۳) فاطمہ صغریٰ (۴) رقیہ (۵) حکیمہ (۶) ام ابیھا (۷) رقیہ صغریٰ (۸) ام جعفر (۹) لبابہ (۱۰) زینب (۱۱) خدیجہ (۱۲) علیا (۱۳)آمنہ (۱۴) حسنہ (۱۵) بریھہ (۱۶) عائشہ (۱۷) ام سلمہ (۱۸) میمونہ
انگوٹھی کے نگینے کا نقش : ” کن مع اللہ حرزاً“
ولادت
سات صفر128ھ میں آپ کی ولادت ھوئی . اس وقت آپ کے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام مسند امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بھہ رھا تھا .اگرچہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے پھلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اھوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کی حامل تھی جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی آرھی تھی
نشو ونما اور تربیت
آپ نے اپنی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کے سایہ تربیت میں گزارے. ایک طرف خدا کے دیئے ھوئے فطری کمال کے جوھر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر کے بتائے ھوئے فراموش شدہ مکارم اخلاق کو ایساتازہ کر دیا تھاکہ چاروں طرف اسی کی خوشبو پھیلی ھوئی تھی. امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے بچپنہ او رجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش تعلیم میں گزارا. یھاں تک کہ تمام دنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ھوگئے اور امام جعفر صادق علیہ السّلام نے آپ کو اپنا جانشین مقرر فرمادیا . باوجودیکہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کا عطا کردہ منصب میراث کا ترکہ نھیں ھوتا ھے بلکہ ذاتی کمال کی بنیاد پر رھتا ھے . سلسلہ معصومین علیہم السّلام میں امام حسن علیہ السّلام کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین علیہ السّلام کاامام ھونا اور اولاد امام جعفر صادق علیہ السّلام میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی طرف امامت کامنتقل ھونا اس بات کا ثبوت ھے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نھیں رکھا گیا ھے
امام موسی کاظم کے زمان امامت پر مختصر نظر
امامت
148ھ میں امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شھادت ھوئی اس وقت سے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ھوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بیٹھا تھا. یہ وھی ظالم بادشاہ تھا جس کے ھاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے اور تلوار کے گھاٹ اتار دیئے گئے یا دیواروں میں چنوا دیئے یاقید رکھے گئے تھے . خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورتوں سے تکلیفیں پھنچائی گئی تھیں یھاں تک کہ منصور ھی کا بھیجا ھوا زھر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ھورھے تھے .ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رھنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی توجہ حکومت کے کاندھوں پر رکھنے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک جماعت مقرر فرمائی . جس میں پھلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا . اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبداللہ فطح جو سن میں امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نیز ان کی والدہ حمیدہ خاتون.
امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاطریقہ بھی کامیاب ثابت ھوا. چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پھنچی تو اس نے پھلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظھار رنج کیا. تین مرتبہ اناللهِ واناالیہ راجعون کھااور کہا کہ اب بھلاجعفر کا مثل کون ھے ؟ ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ھوتو اس کا سر فوراً قلم کردو . حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انھوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ھیں جن میں سے پھلے آپ خود ھیں . یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رھا اور سوچنے کے بعد کھنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نھیں کیے جاسکتے . اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رھا لیکن امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے کوئی تعرض نھیں کیا اور آپ مذھبی فرائض امامت کی انجام دھی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رھے . یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شھر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 157ھ میں یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پھلے اسے فراغت ھوئی . اس لئے وہ امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نھیں ھوا .
دور مصائب
158ھ کے آخر میں منصور دوانقی دنیا سے رخصت ھوا تو اس کا بیٹا مھدی تخت سلطنت پر بیٹھا شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نھیں کیا مگر چند سال کے بعد پھر وھی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 164ھ میں جب وہ حج کے نام پر حجاز کی طرف آیاتو امام موسی کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا. ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رھے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور حضرت کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مھدی کے بعد اس کابھائی ھادی192ھ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مھینے تک اُس نے حکومت کی . اس کے بعد ھارون رشید کازمانہ آیا جس میں پھر امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نھیں ھوا
اخلاق واوصاف
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا اس لیے ان میں سے ھر ایک اپنے وقت میں بھترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا .بے شک یہ ایک حقیقت ھے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر آتے ھیں کہ سب سے پھلے ان پر نظر پڑتی ھے , چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب »کاظم « قرار پایا جس کے معنی ھیں غصے کو پینے والا . آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نھیں دیکھا اور انتھائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ھوئے نظر آئے . مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پھنچیں . یھاں تک کہ وہ جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت نے اپنے اصحاب کو ھمیشہ اس کو جواب دینے سے روکا .
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بھت شکایات کیں اور یہ کھا کہ ھمیں ضبط کی تاب نھیں . ھمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت نے فرمایا کہ » میں خود اس کاتدارک کروں گا .« اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ھوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا . حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاھتے تھے ؟ سب نے کھا , یقیناً حضور نے جو طریقہ استعمال فرمایا وھی بھتر تھا . اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر علیہ السّلام کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو آج تک نھج البلاغہ میں موجود ھے کہ اپنے دشمن پر احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ اس قسم کی فتح زیادہ پر لطف اور کامیاب ھے. بیشک اس کے لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ھے اور اسی لیے حضرت علی علیہ السّلام نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ھے کہ »خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااھل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ھوجائے گا .,,
یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پھچاننے کے لیے ایسی ھی بالغ نگاہ کی ضرورت ھے جیسی امام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ھے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ھوچکا ھو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگر کوئی ایسا اقدام ابھی نہ ھوا تو یہ حضرات بھر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ھو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش کرنے سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے .بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جناب امیر علیہ السّلام نے کیا جو آپ کو شھید کرنے والا تھا، آخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلام اس کے ساتھ احسان فرماتے رھے . اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی جان لینے کاباعث ھوا , آپ برابر احسان فرماتے رھے , یھاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا ، ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درھم کی رقم خود حضرت ھی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ھوا تھا . آپ کو زمانہ بھت ناساز گار ملا تھا . نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی . بس آپ کی خاموش سیرت ھی تھی جو دنیا کو آلِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی .
آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رھتے تھے یھاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میں ابتدا بھی نہ فرماتے تھے . اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا . آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شھرہ تھا۔آپ فقرائے مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ ھر نماز کے صبح کی تعقیبات کے بعد آفتاب کے بلند ھونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے . پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آواز سے متاثر ھو کر روتےرھتے تھے .
170ھ میں ھادی کے بعد ھارون تخت خلافت پر بیٹھا . سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ھارون کو معلوم ھوچکا ھوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ھاتھ باندہ دیئے تھے اور شھر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ھونے دیا تھا ورنہ اب ھارون کے لیے ان میں سے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پھلے اس کے ذھن میں تصور پیدا ھوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ھاشم میں قائم ھے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلات جن کی وجہ سے نوبرس تک ھارون کو بھی کسی امام کے خلاف کھلے تشدد کا موقع نھیں ملا .
فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی ضروری
لبنان کے ایک معروف عالم دین نے فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی پر تاکید ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق " علامہ شیخ عفیف نابلسی " بیروت میں فلسطینی علماء کے وفد کے ساتھ ملاقات میں ، صہیونی حکومت اور فلسطین کی خود مختار انتظامیہ درمیان ہونے والے سازشی مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق کو نظرانداز کرنا کسی بھی قیمت پر قابل قبول نہیں ہے اور ان مذاکرات کے جاری رہنے کے لئے بھی کوئی قانع کنندہ دلیل موجود نہیں ہے۔ اس لبنانی عالم دین نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت امن پسندی کے جھوٹے دعوے کرتی ہے اور ان ہی جھوٹے دعوؤں کے ذریعے وہ اپنی غاصبانہ قبضے کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ " علامہ شیخ عفیف نابلسی " نے صہیونی کے خلاف جاری فلسطینیوں کی مزاحمت پر تاکید کی اور کہا کہ فلسطینی سرزمین کی آزادی اسی راہ کے ذریعے سے ممکن ہے۔
ترکی: ایرانی فلموں کی کامیابی کا راز
ترکی کی ایک ویب سائٹ نے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی فلموں کی کامیابی کی وجوہات پر ایک تفصیلی آرٹیکل شائع کیا ہے۔ تھران سے شائع ہونے والے اخبار آرمان کی اشاعت کی رپورٹ کے مطابق ترکی کی ولڈ بولٹن نیوز ویب سائٹ نے فلمی صنعت کے ایک ماہر " احسان کیلی " کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایرانی فلموں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ اس میں ہنر و فن اور موسیقی اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ " احسان کیلی " نے ایران کی فلموں اور سینما کے اداروں میں اسلامی انقلاب کے اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کا اسلامی انقلاب نے فلمی صنعت کو نئی جہت بخشی ہے اور بعض محدودیتوں کے باوجود ایرانی فلموں نے دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے اور یہ امر ایران کی فلموں کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس ترک فلمی ماہر نے کہا کہ جدید فلم سازی کی صنعت میں بھی ایران نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ فنی و تیکنیکی لحاظ سے بھی ایرانی فلمیں بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوتی ہیں۔
معرفت کی دنیا کے لئے مادی دنیا میں تبدیلی کی ضرورت
دنیا اس وقت انسان کو اہمیت دینا اورا یک دوسرے کو دوستانہ نگا ہ سے دیکھنا چاہتی ہے ۔ انسانیت و معرفت کی دنیا کے لئے مادی دنیا میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ بھی ایسی تبدیلی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے ۔ آج بھی آپ کا پیغام پریشان و سرگردان انسان کو اخلاق ، امن اور عدل وانصاف کی ترغیب دلارہا ہے در حقیقت دین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو مادی دنیا سے نکال کر انصاف و صداقت پر مبنی معنوی دنیا میں داخل کر دیتا ہے اور اسے ایک انصاف پسند اور ممتاز انسان بنادیتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو انقلاب لائے وہ ایسا انقلاب تھا کہ انسان حتی اپنے بھی غلط کاموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اور اپنے کاموں کی مذمت کرتاتھا ۔ جو شخص بھی پیغمبر اسلام کی رو ح پرورباتوں کو سنے گا اور ان پر عمل کر ےگا تو وہ خود کو اور دنیا کو پہچان لےگا اور اپنے کاموں کا محاسبہ کرےگا اور اس میں بنیادی طور پرتبدیلی آجائےگی پیغمبر اسلام نے اپنی روح افزا تعلیمات کے ذریعہ انسانی معاشرے کو گلستان میں تبدیل کردیا جو ہمیشہ سر سبز و شاداب اور معطر ہے۔
دین اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ کوششوں کا ثمرہ ہے ،اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے جس نے کسی خاص قوم کو دعوت نہیں دی بلکہ پوری دنیا کو دعوت دی اور امت اسلامی کے اتحاد کو اپنے سیاسی اور سماجی پروگراموں میں سرے فہرست رکھا صدر اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا پر ایمان کے زیر سایہ وحدت و اخوت کا تحفہ لیکر آئے۔ رسول اکرم نے مدینہ میں داخل ہوتے ہی مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت و برادری کا کلمہ پڑھا اور اس طرح پہلی بار شہر مدینہ میں وحدت کی آواز پھیلی اور اتحاد وہمدلی کے زیر سایہ اسلا م وبرادری کی اعلی اقدار نے جاہلیت کی بے بنیاد اور کھوکھلی اقدار کی جگہ لے لی ۔پیغبر اسلام نے اسلامی معاشروں کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں خدا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے کا حکم دیا اور عبودیت الہی کے زیر سایہ ہر قسم کے اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرتے ہوئے امت واحدہ تشکیل دینے کی دعوت دی، مسلمانوں نےبھی اس دعوت پر عمل کرتے ہوئے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں پر حملہ کیا اورتھوڑے ہی عرصے کے اندر اسلام دنیا میں پھیل گیا۔
عصر حاضر میں انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ مشام انسانی ایک بار پھر اتحاد وہمدلی کی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی طر ح انقلاب اسلامی کی کامیابی کا ایک اہم عنصر وحدت کلمہ تھا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ وحدت و اتحاد کے ایک بڑے اور کامیاب ترین منادی تھے اور دعوت وحدت ان کی زندگی اور عمل کا بنیادی پیغام تھا آپ نہ صرف سیاست میں بلکہ عرفان، فقہ اوردوسرے امور میں بھی اتحاد و ہمدلی پر ایمان رکھتے تھے ۔امام خمینی رحمت اللہ علیہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کو اتحاد وہمدلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیاوالوں نے ملت ایران کے اتحاد کو دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ ایران کے عوام نے ایمان کے بل بوتے پر خالی ہاتھ اور بغیر ہتھیارکے دوہزار پانچ سو سالہ شہنشاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑکر پیھنک دیا حالانکہ امریکہ جیسی طاقت اس کے ساتھ تھی لیکن وہ بھی کچھ نہ کرسکا ۔اگر ہم نے اتحاد کو باقی نہ رکھا تو ہمیں پھلی والی حالت کی طرف یا اس سے بھی بد تر حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔
امام خمینی پیغمبر اسلام کی راہ پر چلنے والے اور ان کی روح پرورتعلیمات کے فریفتہ تھے او آپ اتحاد و ہودلی کی ضرورت پر بہت زیادہ زوردیتے تھے ۔آپ کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی دو ایسے مذہب ہیں کہ جن کے ماننے والے بہت زیادہ ہیں اپنے اپنے عقائد کو ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک کرنا چاہیے اس لئے کہ مسلمانوں کی عزت وسر بلندی کے لئے یہ کام بہت اہم اور موثر ثابت ہوگا اور اپنے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کر د یں گے۔ چنانچہ امام خمینی نے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول کے ایا م کو دو مختلف ر وایات کی بنا پر ہفتہ وحدت قرار دیا اور شیعوں اور سنیون کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں موئثر قدم اٹھایا ہے ۔ آپ کے صالح جانشین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ہفتہ وحدت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مسلما نوں کے درمیان اس ہفتہ وحدت اور ہفتہ مشترک الا حترام کی قدر جانیے اور اس بات کی کوشش کریں کہ تمام مسلمانوں کی طاقت ایک محاذ پر اکھٹا ہوجائے اور مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا ہوجائے تو یہ عالمی طاقتوں کے سامنے مسلمانوں کی عزت و سر بلندی اور کامیابی کا راز ہوگا اسے غنیمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو انقلاب اسلامی کامیابی کے بعد عالمی سامراج کی طرف سے مختلف سازشوں کا سامنا کرنا پڑا دشمنوں نے انقلاب کو کمزور کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے۔ جو مسلسل جاری ہیں دشمنوں کا ایک حربہ یہ تھا کہ مذہبی ، قومی اور سیاسی اختلاف پھیلایا جائے جسے رہبر انقلاب اسلامی کی درایت و ہوشیاری اور دور اندیشی اور لوگوں کے اتحاد اور پائداری نے نا کام بنا دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے منجملہ اہل تسنن کی نماز جماعت میں شرکت اور ان کے مقدسات کی توہین سے متعلق،منشور وحدت کی تدوین کے بارے میں حکم اور فتوی دے کر مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہےاور اس امر کو عالم اسلام کے لئے اہم اور بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔رہبر انقلاب اسلامی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اسلام کی طاقت اور عالم اسلام میں موجود ذخائر اور مادی و معنوی امکانات سے سرشار صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عالم اسلام کو متحد رہنا چاہیئے اور آج اس چیز کی ضرورت ہے اور اسلامی معاشروں کی ضروریات بھی اسی چیز کو چاہتی ہیں کہ اسلامی معاشرے ایک دوسرے سے نزدیک ہوں اور ان کے درمیان اتحاد واتفاق پایا جائے۔ دشمنوں کو ان کی کمزریوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ آپ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کے بارے میں ایک اہم موضوع کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ و حدت اسلامی سے ہماری مراد عقائد اور مذہب کے لحاذ سے ایک ہونا نہیں ہے بلکہ عالم اسلام میں ا تحاد سے ہماری مراد عدم تنازعہ ہے یعنی مسلمان آپس میں جھگڑا نہ کریں اور اختلاف سے پر ہیز کریں۔
در حقیقت اتحاد وہمدلی ہر معاشرے اور قوم کی عزت و طاقت کی موجب ہو تی ہے جس طرح اختلاف وتفرقہ ہر قوم اور معاشرے کی ذلت وخواری اور سقوط کا باعث ہوتا ہے۔ اسی لئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام گزشتہ امتوں کے حالات کو بیان کرکے لوگوں کو ان کے حالات سے عبرت حاصل کرنے اور ان کےسقوط و ترقی کےبارے میں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کےبعد مسلمانوں کو ایسے کام انجام دینے کی تر غیب دلاتے ہیں جو ان کی عزت و شان کے موجب بنتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ امور جن کی وجہ سے گزشتہ امتوں کی عزت وشان میں اضافہ ہوا وہ ہے اختلاف تفرقہ سے دوری اور آپس میں ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب دلاتے تھے اور ہمت سے کام لیتے تھے وہ ہر اس چیز سےدوری اختیار کر تے تھے جو امت اسلامی کی طاقت کو کمزور کرتی تھی۔
ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں نے پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئےنیز اتحاد و ہمدلی، مکمل بصیرت اور اپنے دشمن کے اہداف کو پہچانتے ہوئے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ کامیاب اور سر بلند رہیں گے۔
عدّہ کا فلسفہ کیا ہے؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا : < وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ>(1) ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔
یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ہے؟
چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ہے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ہے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ہو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان اس کام سے روک تھام ہو سکے۔
انہی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ہے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ہے جس کی مدت تین ”طہر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ہونا۔
”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ کبھی کبھی بعض وجوہات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ہے۔
معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ہی بعد میاں بیوی ہوش میں آتے ہیں اور پشیمان ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پریشان ہیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ہے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ہوجانے والی لہریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔
خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ہے جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ہونے کے لئے ایک موثر قدم ہے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں: < لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا> ”ان کو گھروں سے نہ نکالو تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ہوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پہلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ہوجاتا ہے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ہے۔
عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ
عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ یہ صحیح ہے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ عورت حاملہ ہونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ہے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ہے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ہوجائے، تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اپنے گزشتہ شوہر سے حاملہ نہیں ہے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔(2)
________________________________________
(1)سورہٴ بقرہ ، آیت۲۲۸
(2) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
