سلیمانی

سلیمانی

Saturday, 14 September 2024 08:09

مغربی کنارے میں انتفاضہ

صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی طرف سے جنگ بندی کے مذاکرات کی ناکامی کے بعد صیہونی فوج نے غزہ میں خونریزی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں اسے دردناک ردعمل بھی ملا ہے۔ غزہ کی پٹی میں صیہونی حکومت کے سیاہ ریکارڈ میں ایک اور خونی جرم کا اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف مغربی کنارے میں غاصبوں کو نشانہ بنانا فلسطین سے متعلق تازہ ترین خبروں میں شامل ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ پٹی میں پناہ گزینوں کے خیموں پر صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں کے حملوں میں سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ صیہونی حکومت کے فوجیوں نے خان یونس کے ان علاقوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا، جنہیں وہ محفوظ علاقے قرار دیتے تھے۔

غزہ پٹی کی ریلیف اینڈ ریسکیو آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا ہے کہ ان حملوں کے نتیجے میں 40 سے زائد شہید اور 60 زخمی ہوئے ہیں۔ صہیونی فوجیوں نے امدادی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا، جس سے غزہ پٹی کے جنوب میں ریسکیو اور ریلیف کا عمل نہایت مشکل ہوگیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ صیہونی حکومت نے غزہ پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خیموں کو نشانہ بنایا ہے، البتہ اس بار ان وحشیانہ حملوں کے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور ان میں استعمال ہونے والے بموں کی مقدار نے اس پٹی میں خون کی ہولی کھیلی گئی ہے۔

صیہونی فوجیوں کا فلسطینی پناہ گزین کیمپ پر جان لیوا حملہ
فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی میں اعلان کیا ہے کہ گیارہ ماہ سے جاری اس پٹی پر صیہونی حکومت کے جارحیت کے متاثرین کی تعداد 40,988 شہید اور 94,825 زخمی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل "انتونیو گوٹیرس" نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات پر زور دیا ہے کہ "جب سے وہ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب ہوئے ہیں، انہوں نے اس سطح کی ہلاکت اور تباہی کبھی نہیں دیکھی، جس کا وہ غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "غزہ میں صیہونی حکومت کی طرف سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے استعمال نے خطرناک اخلاقی اور قانونی خدشات پیدا کر دیئے ہیں۔"

فلسطینی وزارت صحت نے ایک بیان جاری کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ  "غزہ میں صحت کا نظام ایک منظم جنگ اور بڑی تباہی سے دوچار ہے۔" اس حوالے سے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے گذشتہ اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ  ’’8700 سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ پٹی سے ہے، جبکہ قابض حکام نے ان کے بارے میں نہ تو کوئی معلومات فراہم کی ہیں اور نہ ہی ریڈ کراس کو ان سے ملنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیلی حکومت نے 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی کے خلاف تباہی کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس عرصے کے دوران غزہ کی پٹی کے 70% مکانات اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بدترین محاصرہ اور شدید انسانی بحران کے ساتھ ساتھ بے مثال قحط اور بھوک نے اس علاقے کے مکینوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے انفارمیشن آفس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی قابض فوج نے 120 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کردیا اور 340 دیگر یونیورسٹیوں اور اسکولوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ ان تمام جرائم کے باوجود صیہونی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ 11 ماہ کی جنگ کے بعد بھی وہ ابھی تک اس جنگ کے اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ صیہونی حکومت کا مقصد تحریک حماس کو تباہ کرنا اور غزہ کی پٹی سے صیہونی قیدیوں کی واپسی ہے۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک مغربی کنارے میں صیہونی مخالف کم از کم 4,973 آپریشن کیے جا چکے ہیں، جن کے دوران 38 آبادکار، 12 فوجی اور تین پولیس اہلکار ہلاک اور 285 دیگر زخمی ہوچکے ہیں۔

الکرامہ کراسنگ میں شوٹنگ کا نیا آپریشن
 غزہ میں تقریباً 12 ماہ سے جاری جنگ اور تشدد کے دوران غزہ کے عوام کے خلاف قابض صہیونی فوج کی نسل کشی سے اردنی شہریوں اور فلسطینی نژاد اردنی باشندوں کے غم و غصے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ مغربی کنارے میں حالیہ پیش رفت صیہونی مظالم کا ردعمل ہے۔ اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر واقع الکرامہ کراسنگ پر شوٹنگ کی کارروائی میں تین صیہونیوں کی موت واقع ہوئی، اس گاؤں سے تعلق رکھنے والا 47 سالہ شہید "عبدالسلام خالد سلیم الزوبی" ہے۔ جو صبح 10 بجے کے قریب اردن اور مقبوضہ فلسطین کی سرحد پر الکرامہ کراسنگ میں داخل ہوا اور اس کراسنگ میں موجود صہیونیوں پر پوائنٹ بلینک رینج سے فائرنگ شروع کر دی۔ اس کارروائی میں تین اسرائیلی مارے گئے اور آپریشن کے آپریٹر کو سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

واضح رہے کہ اس شہادت پسندانہ آپریشن کے بعد اردنی باشندے پرجوش ہوئے اور انہوں نے مقبوضہ فلسطین کے درمیان گزرگاہ پر مٹھائیاں تقسیم کیں۔ قابض فوج پہلے ہی مغربی کنارے میں کشیدگی کے دائرہ کار میں توسیع اور ایک اور انتفاضہ کے قیام کے حوالے سے اپنی تشویش کا اعلان کرچکی ہے۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل کی سکیورٹی سروسز کے بیانات نے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ شاباک اور IDF نے مغربی کنارے میں 1,100 سے زیادہ بڑی کارروائیوں میں حصہ لیا ہے۔ ماضی میں، مزاحمتی کارروائیاں صرف جنین اور اس کے کیمپ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے شمال میں منسلک علاقوں تک محدود تھیں۔ لیکن اب اسے مغربی کنارے کے جنوب تک بڑھا دیا گیا ہے

زیادہ اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی کنارے اور اسرائیل کے اندر کچھ گوریلا کارروائیاں ایسے نوجوان کرتے ہیں، جن کا تعلق کسی تنظیم سے نہیں ہے، جس نے اسرائیل کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل بنا دی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو اپنی بنیادی کمزوری اور سب سے خطرناک محاذ سمجھتا ہے، کیونکہ یہ جغرافیائی طور پر اسرائیل کی گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت مغربی کنارے میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف نت نئے فوجی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، لیکن وہ صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور مزاحمتی حملوں کا سلسلہ بتدریج اردن تک پھیل رہا ہے، جہاں پناہ گزینوں کی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ موجود ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان بدھ کے دن اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر بغداد پہنچے، جہاں عراق کے وزیراعظم محمد شیعاع السوڈانی نے ان کا استقبال کیا۔ سرکاری استقبالیہ تقریب کے بعد ڈاکٹر پزشکیان اس ملک کے صدر عبداللطیف راشید سے ملاقات کے لیے عراقی صدارتی محل گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اس کے بعد وزیراعظم کے محل میں السوڈانی سے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کے ارکان کی مشترکہ ملاقات ہوئی۔ عراق میں صدر پزشکیان اس ملک کے اعلیٰ حکام سے اقتصادی، سیاسی، ثقافتی اور سکیورٹی سمیت مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے حوالے سے مشاورت کریں گے۔ مقامات مقدسہ کی زیارت بھی اس پروگرام میں شامل ہے۔

عراق کے لیے روانگی سے قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے تاکید کی ہے کہ ان پالیسیوں کی بنیاد پر جو اس سے پہلے اعلان کی جا چکی ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے حوالے سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اعلان کردہ پالیسی کی بنیاد پر دوست ملک عراق کا دورہ کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا عراق کے  ایران سے بہت سے شعبوں میں تعلقات چلے آرہے ہیں اور وہ ہمارے ملک کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور سماجی شراکت دار ہے۔ ہمارا اس ملک کے ساتھ بہت زیادہ تعاون ہوسکتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بہت سے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ایرانی صدر عراق کے کردستان علاقے اربیل اور سلیمانیہ کے شہروں میں بھی جائیں گے اور اس علاقے کے حکام سے دوطرفہ تعاون کی توسیع کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ صدر پزشکیان کے پہلے غیر ملکی دورے کے طور پر عراق کو کیوں منتخب کیا گیا، وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا: "عراق کو پہلے ملک کے طور پر منتخب کیا جانا دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ عراق ایران کے لیے پڑوسی ملک سے زیادہ ہے۔ عراق ہمارا دوست و برادر ملک ہے اور ہمارے درمیان بہت سے نکات مشترک ہیں۔

ایران اور عراق؛ مشترکہ مقاصد کے حامل دو ممالک ہیں
مسعود پزشکیان کا بغداد کا دورہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے ساتھ سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور اس کے علاوہ دونوں ممالک کی حکومتوں اور قوموں کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کی حکمت عملی ایک اہم قدم ہے، جو تہران کے لیے خصوصی اور اولین ترجیح ہے۔ عراق میں عوامی طاقتوں کی پوزیشن سمیت خطے میں مزاحمتی گروہوں کے بااثر کردار کو دیکھتے ہوئے نیز صیہونی حکومت اور ان کے اہم حامی امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کے لیے ایران اور عراق کی حکومتوں کے درمیان زیادہ تعاون اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔

ایرانی صدر کا عراق کا دورہ خطے میں ایران عراق تعاون کی اہمیت اور اثرات کی علامت ہے۔ دونوں ممالک کے کاروبار کی توسیع کے حوالے سے دوطرفہ مشاورتی معاہدوں پر عمل پیرا ہونا اور غیر ملکی مداخلت کو کم کرنے کے مقصد سے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کو بڑھانا ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، جن پر اس سفر میں توجہ دی جائے گی۔ ایران اور عراق، اوپیک کے تیل برآمد کرنے والے ممالک کے دو بااثر رکن ہونے کے ناطے، توانائی کی عالمی منڈی میں فیصلہ کن کردار رکھتے ہیں اور اس شعبے میں دونوں ممالک کا موثر تعاون اس شعبے کی ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی اہم حکمت عملی پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی ترقی اور فروغ ہے اور صدر مسعود پزشکیان کا عراق کا دورہ تہران کے علاقائی کردار کو مزید تقویت دے گا اور غیر ملکیوں کے تخریبی اقدامات کا مقابلہ کرنے میں ایک موثر عنصر ثابت ہوگا۔

9 ربیع الاول کا دن امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد پہلا دن ہے لہذا اسے امام زمانہ عج کی امامت کے آغاز کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن امام زمانہ عج سے تجدید بیعت کی جاتی ہے اور جس قدر یہ دن اہم ہے اس قدر توجہ کا مرکز قرار نہیں پا سکا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبین اور پیروکاران اہلبیت اطہار علیہم السلام اس دن کو مناتے نہیں بلکہ اسے اس طرح نہیں مناتے جس طرح اس کا حق ہے۔ اس سال ایران بھر میں یہ دن "سپاہی بننے کے عہد کی صبح" کے طور پر منایا جائے گا جس میں سب اپنے غائب لیکن حاضر امام سے تجدید بیعت کریں گے۔ خداوند متعال نے قرآن کریم میں "ایام اللہ" کو اہمیت دینے اور ان کی یاد تازہ رکھنے پر زور دیا ہے۔ ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: "ایام اللہ کی یاد منانا جس کا حکم خدا نے بھی دیا ہے انسان ساز ہے۔ ایام اللہ کے دنوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ تاریخ اور انسانوں کیلئے سبق آموز اور بیدار کرنے والے ہیں۔"
 
امام زمانہ عج سے تجدید عہد کرنے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ منتظرین اپنی ذمہ داریوں اور مشن پر توجہ دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں ظالم حکمران جن بڑے چیلنجز سے روبرو رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ قرآن کریم میں "اولی الامر" کی اطاعت واضح طور پر لازمی قرار دی گئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت 59 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: يٰا أَيُّهَا اَلَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اَللّٰهَ وَ أَطِيعُوا اَلرَّسُولَ وَ أُولِي اَلْأَمْرِ مِنْكُمْ ۔۔۔۔۔۔ (اے ایمان والو، خدا کی اطاعت کرو اور رسول خدا ص اور اولی الامر کی اطاعت کرو)۔ اسی طرح خداوند متعال سورہ نحل کی آیت 90 میں فرماتا ہے: إِنَّ اَللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ اَلْإِحْسٰانِ۔۔۔ (یقیناً خداوند متعال عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے)۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ وہ اولی الامر جن کی پیروی اور اطاعت کا حکم خداوند متعال نے دیا ہے انہیں معصوم ہونا چاہئے۔
 
دوسری طرف یہ بھی خداوند متعال کیلئے شائستہ نہیں کہ اس نے اولی الامر کی اطاعت کا حکم تو دیا ہے لیکن اولی الامر کو متعارف نہ کروایا ہو۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صرف خدا ہی جان سکتا ہے کہ کون سا انسان معصوم ہے کیونکہ صرف خدا ہی انسانوں کے باطن سے آگاہ ہے۔ لہذا خدا ہی معصوم کو متعارف کروا سکتا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ رسول خدا ص کی بات درحقیقت خدا کی بات ہے اور انہوں نے اپنی کئی احادیث میں نام لے کر اپنے بعد 12 برحق خلیفوں (ائمہ معصومین ع) کو پہچنوا دیا ہے اور یوں امت مسلمہ کیلئے اتمام حجت کر دی ہے۔ یہ حقائق بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کی نظر سے اوجھل نہیں تھے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ائمہ معصومین ع کو اپنا سب سے بڑا اور خطرناک دشمن سمجھتے تھے کیونکہ ائمہ معصومین ع اپنی الہی ذمہ داری کے تحت ہمیشہ ظالموں کے خلاف آواز اٹھتے اور اسلامی معاشرے میں عدالت کی برپائی کیلئے کوشاں رہتے تھے۔
 
جس طرح سے تاریخ کے دوران ظالم حکمران اور سادہ لوح مبلغین پرچار کرتے آئے ہیں، الہی فرامین اور اسلام کے حیات بخش قوانین صرف فردی اور شخصی دستورات اور شرعی احکام تک محدود نہیں ہیں۔ اس بارے میں امام خمینی رح فرماتے ہیں: "آپ پچاس سے زیادہ فقہی کتب کا ملاحظہ فرمائیں، ان میں سے صرف سات یا آٹھ کتابیں ایسی ہیں جو عبادات کے بارے میں ہے جبکہ باقی تمام کتابیں سیاسیات، سماجیات اور معاشرتی امور کے بارے میں ہیں۔" دوسری طرف شرعی احکام اور الہی قوانین کو لاگو ہونے کیلئے سیاسی طاقت کی ضرورت ہے اور اسی سیاسی طاقت کو حکومت اسلامی کہا جاتا ہے۔ بعض ایسے افراد اور گروہ جو غیبت امام زمانہ عج میں اسلامی حکومت کا انکار کرتے ہیں وہ سمجھتے ہوئے یا ناسمجھی میں شرعی احکام اور الہی قوانین کا انکار کر رہے ہوتے ہیں۔ دین مبین اسلام کا دائرہ صرف فردی شرعی احکام تک محدود نہیں بلکہ اس میں سماجی نظامات بھی شامل ہیں۔
 
قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کا ایک اہم ہدف عدل و انصاف کی خاطر قیام ذکر ہوا ہے۔ سورہ حدید کی آیت 25 میں ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلَنٰا بِالْبَيِّنٰاتِ وَ أَنْزَلْنٰا مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ وَ اَلْمِيزٰانَ لِيَقُومَ اَلنّٰاسُ بِالْقِسْطِ۔۔۔۔ (بالتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو معجزات کے ہمراہ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب بھی نازل کی ہے تاکہ عوام عدل کیلئے قیام کریں۔۔)۔ واضح ہے کہ جب ایک معاشرے میں اسلامی قوانین کا نفاذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو استکباری اور طاغوتی طاقتیں اسے ہر گز برداشت نہیں کریں گی اور اسے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور اقدامات انجام دیں گی جن کا مقابلہ سیاسی طاقت اور اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ سوچ اس سیکولر اسلام کے بالکل برعکس ہے جسے تاریخ کے دوران ظالم حکمرانوں نے اسلامی معاشروں میں فروغ دیا ہے۔ یہ دراصل حقیقی محمدی ص اسلام ہے اور اس میں سیاست اور جہاد بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔
 
امام زمانہ عج کے انتظار کا صحیح معنی تمام معاشرتی میدانوں میں حاضر رہ کر اسلام کی سربلندی کیلئے جدوجہد انجام دینا ہے۔ ائمہ معصومین ع کے فرامین میں ذکر ہوا ہے کہ امام زمانہ عج کے منتظرین کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ ان کی باتیں اور عمل اسلام دشمن عناصر کے شدید غصے کا باعث بنتی ہیں۔ امام خامنہ ای مدظلہ العالی جہاد کی تعریف میں فرماتے ہیں: "جہاد ہر وہ عمل اور اقدام ہے جو اسلام دشمن عناصر کے خلاف انجام پاتا ہے اور انہیں غصے کا شکار کر دیتا ہے۔" آج کے زمانے میں اس کا اہم مصداق مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کرنا اور امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سرگرم عمل ہونا ہے۔ لہذا 9 ربیع الاول یعنی امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز کے دن درحقیقت تجدید عہد کا دن ہے۔ امام زمانہ عج جو اگرچہ غائب ہیں اور ظاہر نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ حاضر ہیں اور امت مسلمہ کی سرپرستی فرمانے میں مصروف ہیں۔

تحریر: حسین شریعتمداری

اللہ تعالی قرآن مجید میں اپنے نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

((فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ))(سورة آل عمران ـ 159 )

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

حسن سلوک ،نرمی اور مہربانی :

تشدد اور سختی انسان میں پائی جانے والی دو نا پسندیدہ صفات ہیں اور ان کے مقابلے میں حسن سلوک اور نرمی ہیں۔لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو رفق  اصل میں نفع کو کہتے ہیں۔اسی لیے عرب کہتے ہیں کہ فلاں فلاں سے زیادہ نفع بخش ہے جب ایک دوسرے سے فائدہ زیادہ ہو۔کسی کو رفیق  کہا جاتا ہے کیونکہ یہ شخص دوسرے کی صحبت سے منافع اٹھا رہا ہوتا ہے۔مرافق البیت گھر کے ان مقامات کو کہا جاتا ہے جن سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

ہمارا یہاں پر رفق سے مراد وہ معنی ہے جس میں نرمی،مہربانی ،سہولت اور آسانی پائی جاتی ہو۔اسی لیے رفق کا ایک مومن انسان کی زندگی میں بڑا اہم کردار ہے۔جب انسان عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ میل جول کرتا ہے تو اس کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک کی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یہ زندگی خوبصورت کر دیتا ہے۔حسن سلوک سے مزین انسان ایک خوبصورت انسان ہوتا ہے اور اس کی زندگی میں استقامت اور اعتدال پایا جاتا ہے۔نرمی اور حسن سلوک وہ اعلی صفات ہیں جو کسی کے مقابلے میں نہیں ہوتی  بلکہ یہ خود کے تکامل کے لیے ہوتی ہے اس سے معاشرے کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دوسرے کے ساتھ تعلقات بہتر انداز میں تشکیل پاتے ہیں یوں ایک بہت ہی خوبصورت معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اسلام نے ان اعلی اخلاقی اقدار سے خود کو مزین کرنے اور پھر لوگوں کو اس کی طرف محبت سے دعوت دینے کا حکم دیا ہے تاکہ یہ صفت حسنہ معاشرے میں عملی طور پر نافذ ہو اور  اسلام جن خصوصیات پر مشتمل معاشرے کی تشکیل کی دعوت دیتا ہے ان پر عمل در آمد ہو سکے۔

اسلام معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا نظام پیش کرتا ہے جس میں اخلاقی اقدار کی بڑی اہمیت ہے اسی لیے سچ ،نیکی، احسان،بھلائی،معاف کرنا،پیار و محبت  اور سلامتی سمیت کئی اہم اچھائیاں شامل ہیں۔ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ خصوصیات کسی حکم کے ذریعے پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ یہ خصوصیات ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں کیونکہ یہ پہلے سے اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دی ہیں۔فطرت میں تخلیق کردہ ان صفات میں اللہ کی سنت کے مطابق کوئی تبدیلی نہیں آتی۔جتنا مرضی زمانہ گزر جائے کیونکہ  فطرت کا یہ پیغام اتنا واضح ہے کہ  اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ کبھی کوئی معاشرہ ایسا نہیں ہو گا جہاں جھوٹ،دھوکے،ملاوٹ اور دغا بازی کو اچھا سمجھ کر اس کی اشاعت کی جائے ا س کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اخلاقیات کی بنیاد فطرت ہے۔

حسن سلوک  لوگوں کو سچائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے:

لین دین میں نرمی کرنا رفق کہلاتا ہے۔مقالہ کے شروع میں جس آیت مجید کا ذکر کیا گیا اس کا معنی یہ ہے کہ اے رسول ﷺ آپ نرمی فرماتے ہیں اور آپ کی یہ نرمی اور حسن سلوک ان کے لیے دین اسلام میں داخل ہونے کا باعث بنتا ہے۔نبی اکرمﷺ کی ادلہ اور آپ  کی طرف سے پیش کیے گئے استدلات کے ساتھ  حسن سلوک باعث بنتا ہے کہ لوگ اسلام میں داخل ہوں۔اگر نبی اکرمﷺ کے اخلاق کریمہ میں یہ حسن سلوک اور نرمی والا پہلو نہ ہوتا تو لوگ دین مبین اسلام میں اس طرح داخل نہ ہوتے۔نرمی،حسن سلوک،اپنائیت اور وحدت کا احساس وہ عظیم صفات ہیں جن کو تبلیغ دین میں بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ جب بھی حق کا پیغام دینے لگیں تو خود کو حسن سلوک اور نرمی جیسی عظیم صفات سے مزین کریں۔جب تبلیغ کے لیے جائیں تو لوگوں کے ساتھ  بڑی مہربانی سے پیش آئیں،ان کے لیے تنگی پیدا نہ کریں،ان کا کھلے دل سے استقبال کریں،انہیں وہ چیز دیں جس کی انہیں ضرورت ہو،ان کی پریشانیوں کو بانٹیں،ان کی فکر کریں،ہمیشہ ان کی دیکھ بھال کریں،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں،ان  کے ساتھ رواداری کا معاملہ کریں تاکہ وہ آپ سے اطمنان اور دوستی محسوس کریں۔

وہ حسن سلوک اور نرمی جو اللہ تعالی تبلیغ حق کے لیے چاہتا ہے اس کی تاکید مذکورہ بالا آیت کریمہ میں آئی ہے۔اس میں عملی طور پر نرمی اور حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہےکہ مومنین کیسے اسے انجام دیں گے۔اسلام کے نظام اخلاق میں ایک انتہائی اہم چیز جس کی اسلام نے بہت تاکید کی اور تقاضا کیا کہ اسے معاشرے میں پھیلایا جائے وہ  لوگوں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا اور اس ثقافت کو عام کرنا ہے تاکہ معاشرے میں حسن سلوک کا دور دورہ ہو اور اس حسن سلوک کی وجہ سے معاشرے کی نبویﷺ کے طریقے پر تربیت ہو:

((فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ))

پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں

حسن سلوک کا اس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو گا کہ آپ ﷺ کو صحابہ سے مشورہ کرنے کا کہا گیا۔یہ بات ہم جانتے ہیں کہ جنگ احد میں لوگ نبی اکرمﷺ کو چھوڑ گئے تھے  پھر بھی آپ کو مشورہ کا کہا گیا :

((وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ......))

اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں

مشورے کے بعد آپﷺ کو حکم ہوا کہ آپ اس میں سے جسے بہتر سمجھتے ہیں اس پر عمل کریں:

((فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّه))

تو اللہ پر بھروسہ کریں

یہ آیت مجیدہ حسن سلوک کی وضاحت کرتی ہےجس کے ذریعے اللہ تعالی انسانی معاشرے کا تکامل چاہتا ہے اور اس کے انبیاءع نے اس کے لیے کاوشیں کی ہیں۔

مسلمانوں کی زندگی میں حسن سلوک کی اہمیت :

نرمی ،حسن سلوک اور رحم کی مسلمانوں کی زندگی میں خاص اہمیت ہے ہم اسے مزید بھی بیا ن کریں گے۔ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی مبارکہ میں ایسے مواقع آئے جس میں لوگوں نے آپ کو مشکل وقت میں چھوڑ دیا جیسے غزوہ احد میں لوگوں نے آپﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی،اس مخالفت کے بہت ہی برے نتائج برآمد ہوئے،دشمن نے حملہ کر دیا،آپ ﷺ کے ساتھ لوگ ثابت قدم نہ رہے،لوگ شکست کھاتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ گئے اور نبی اکرمﷺ کو چند مخلص صحابہ کے درمیان چھوڑ دیا گیا۔آپﷺ پر حملہ کیا گیا جس میں آپﷺ کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر زخم آئے آپ بلاتے رہے مگر لوگ نہ پلٹے۔لوگوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی اور جو ان کی ذمہ داری تھی اسے ادا نہیں کیا  اس سب کے باوجود نبی اکرمﷺ نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک اور نرمی کی ،اس سے یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ کچھ ہوا ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

((وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ........))

(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔۔۔

دشمنوں نے آپﷺ پر تہمتیں لگائیں ،آپ ﷺ کے خلاف چالیں چلیں مگر آپ ﷺ کا پیغام دنیا میں پھیل گیا اور اللہ نے آپﷺ کو ان کے مقصد میں کامیاب فرمایا۔

نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد لوگوں کو حق کی طرف بلانا تھا۔لوگ کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے انہیں ایک درد مند دل جو نبی اکرمﷺ کی طرح ہودرکار تھا جس میں تمام انسانوں کے لیے وسعت ہو اور اس میں کسی جاہل کی جہالت کی وجہ سے کوئی تنگی نہ آئے اور نہ ہی کوئی اسے کمزور کر سکے۔

روایات میں حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ اور اہلبیت ؑ کی روایات میں حسن سلوک کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے اور اس حوالے سے روایات کافی زیادہ ہیں۔

نبی اکرمﷺ سے مروی ہےحسن سلوک کثرت کا باعث ہے اور تجاوز کرنا بدبختی ہے۔اس حدیث مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ حسن سلوک میں برکت ہےجو لوگوں دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اللہ انہیں برکت دیتا ہے اور وہ لوگوں کے دلوں میں جو محبت کا بیج بوتے ہیں اس میں برکتیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالی آسمان سے ان کے لیے برکتیں نازل فرماتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہےبے شک حسن سلوک جب کسی کے ساتھ آتا ہے تو اس کی زینت میں اضافہ کر دیتا ہے اور جب جاتا ہے تو اس کی شان و شوکت کو بھی لے جاتا ہے۔ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ حسن سلوک کے ساتھ زینت و جمال کا تعلق ہے جو بھی حسن سلوک کرتا ہے و ہ صاحب زینت و جمال بن جاتا ہے۔جو خود کو حسن سلوک سے مزین کرتا ہے حسن سلوک اس کی خوبصورتی،وقار اور ھیبت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔لوگ اس شخص میں موجود نقائص کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور لوگوں میں کامل فرد بن جاتا ہے۔ایک شخص ایسا ہے جو حسن سلوک نہیں کرتا  مگر دوسری  بہت سی نیکیاں کرتا ہےاس انسان کی مثال ایسے شخص کی سی ہے  جو خود سے لوگوں کو دور کر دیتا ہے  کیونکہ عملی اخلاق میں حسن اخلاق اور احسان کا بنیادی کردار ہے جس کے ذریعے انسان دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملات کر رہا ہوتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام  فرماتا ہے ہر چیز کےلئے ایک تالا ہے اور ایمان کا تالا حسن سلوک ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز کی حفاظت کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے اور ایمان کی حفاظت کرنے والی چیز حسن سلوک ہے جو اسے خراب اور برباد ہونے سے بچاتا ہے۔یہ ایک معنوی چیز کی ایک محسوس چیز سے تشبیہ ہے جس کے ذریعے بات کو سمجھایا گیا ہے۔ایمان کے تالے کو حسن سلوک کہنا اس لیے ہے کہ حسن سلوک ایمان کی ختم ہونے اور فاسد ہونے سے حفاظت کرتا ہے۔جب کوئی حسن سلوک اور نرمی کو ترک کر دیتا ہے تو وہ مخلوق پر زبان و عمل سے تشدد کرتا ہے اور وہ حسن سلوک نہیں کرتا تو ایمان کی حفاظت نہیں رہتی۔حسن سلوک کرنے کا انسان کے معاملات پر اثر پڑتا ہے۔حسن سلوک ایسا امر ہے جس کے ذریعے انسان بہت سی خرابیوں اور آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

امام  محمد باقر علیہ السلام فرماتا سے مروی ہے اللہ  تعالی نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا۔ہم دیکھتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ حسن اخلاق پر دلالت کرتی ہے یہ حدیث اس بات کا بھی بیان ہے کہ انسان کو وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی چاہیں جو خدا کی صفات ہیں ان جیسی پیدا نہیں کر سکتے تو اس سے ملتی جلتی پیدا کر لیں جیسے  اللہ کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے،کرم اچھی صفات میں سے ہے،اللہ برد بار ہے بردباری کو پسند کرتا ہے۔سخاوت اچھائی ہے اور اللہ تعالی سخی ہےاسی لیے کہا گیا ہے کہ خود کو اللہ کے اخلاق سے مزین کرو۔اللہ تعالی ایسا وجودِ کمال ہے جو تمام کمالات سے مزین ہے اور تمام نقائص سے پاک ہے اس لیے اگر تمام کمالات کو پانا چاہتے ہیں تو خود کو الہی اخلاقیات سے مزین کرنا ہو گا۔

نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں ایمان کا بہترین وزیر علم ہے،علم کا بہترین وزیر بردباری ہے،بردباری کا بہترین وزیر حسن سلوک ہے اور حسن سلوک کا بہترین وزیر صبر ہے۔وزیر وہ ہے جو امیر کا بوجھ اٹھاتا ہے اور اس کے کاموں میں اس کی مدد کرتا ہے۔علم ایمان کا وزیر ہے یہ تو واضح ہے کیونکہ الہی معارف اور دینی مسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم دل میں نور علم کو قوی کرتا ہے،ایمان کو قوی کرنے والے امور کی تدبیر کرتا ہے اور تمام ارکان ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی ہر طرح کی مصیبت سے حفاظت کرتا ہے اور انسان کو ہر ایسے عمل کے صادر کرنے سے مانع بنتا ہے جو ایمان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔حلم وہی خود اطمنان ہے جس میں غضب نہیں آتا اور نہ ہی کسی چیز کو دیکھ لینے سے بھڑک اٹھتا ہے۔علم نفس کی تنابین اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیےمدد گار بنتا ہے۔روحانی منازل طے کرنے کے لیے فقط علم کافی نہیں ہے۔جب تک بادشاہ کے پاس حلم نہیں ہو گا اس کا علم اسے عوام کے معاملات میں انصاف سے کام نہیں لینے دے گا کیونکہ بادشاہ کے پاس  ایک ظالم نفس ہے جو ہر انسان کو بھٹرکانے کی کوشش کرتا ہے۔اگر وزیر حلم کی صورت میں نہیں ہوگا تو امور مملکت بگڑ جائیں گے اور معاملات ہاتھوں سے نکل جائیں گے۔

حسن سلوک حلم کا وزیر ہے وہ اس لیے کہ یہ حسن سلوک ہی بتاتا ہے کہ حلم موجود ہے۔حلم کا پتہ اسی سے چلتا ہے اور یہ حلم دیکھنے کا پہلا پیمانہ ہے اور حسن سلوک کو حلم برقرار رکھنے اور اس کے نظام کو جاری رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ صبر حسن سلوک کے لیے وزیر ہے وہ یوں کہ صبر وہ عظیم صفت ہے جو حسن سلوک کے باقی رہنے کا باعث بنتی ہے کیونکہ جب مشکلات آتیں ہیں تو صبر کے ذریعے ان سے نمٹا جاتا ہے۔

علم،حلم اور حسن سلوک :

نبی اکرمﷺ نے علم کو ایمان کے لیے زینت قرار دیا،حلم کو علم کے لیے زینت قرار دیا ،حسن سلوک کو بردباری کے لیے زینت قرار دیا اور صبر کو حسن سلوک کے لیے زینت  قرار دیا۔اس پورے عمل کے نتیجے میں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ایمان،علم اور اخلاق میں باہمی رابطہ اور تعلق موجود ہے۔جو چاہتا ہے کہ علم حاصل کرے تو اسے چاہیے کہ خود کو بردباری سے زینت دے یوں اس کا علم فائد مند ہو جاتا ہے۔وہ علم جس کے ساتھ غرور،تکبر اور عجب ہو وہ منزل تک پہنچانے والا علم نہیں ہوتا۔وہ جو چاہتا ہے کہ اس کا علم نافع ہو اور اس میں حسن سلوک  پیدا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر بردبادی پیدا کرے ۔

حسن سلوک میں بزرگی،کرامت،تواضع،وسعت  اور لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق مکالمہ ہوتا ہے،لوگوں کے گناہوں سے درگزر کرنا ہوتا ہے،جو اول فول بولتے ہیں اس سے خود کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ حسن اخلاق نرمی سے بڑھتا ہے،جہاں بھٹکنے کا خطرہ ہو وہاں راستہ دکھاتا ہے،جب کوئی اس پر عمل کرتا ہے تو پچھتاتا نہیں ہے،جھگڑے کی صورتحال درپیش ہوتو بھی کام آتا ہے،جب غصہ اور بغاوت کے آثار ہوں تو بھی راہ اعتدال پر رکھتا ہے۔نبی اکرمﷺ ہمیں ایمان علم اور اخلاق کے ساتھ جڑا دیکھنا چاہتے ہیں،آپﷺ کی ذات گرامی حق مجسمہ اخلاق تھی۔آپﷺ کی سنت عملی سنت ہے جسے قرآن مجید خلق عظیم سے تعبیر کرتا ہےآپﷺ کا روشن اخلاق زمانے کے لیے نمونہ عمل ہے ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:

 ((وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ))(سورة القلم ـ 4)

۴۔ اور بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔

نبی اکرمﷺ کا فرمان ہےدوساتھیوں میں سے اللہ کے ہاں بڑے اجر کا حقدار اور محبوب وہ ہے جو ان میں سے زیادہ حسن اخلاق رکھتا ہے۔

اللہ کے لیے تعلق رکھنا اللہ کا پسندیدہ عمل ہے اس کے ذریعے سے اللہ نے اسلام کو بڑی برکت دی،اسی پر لوگوں کو ابھارا ہے اور اس پر عمل کرنےو الوں کے لیے بڑا اجر اور اعلی منازل رکھی ہیں۔جو اللہ کے لیے تعلق رکھتے ہیں ان کے درمیان فرق ہے اور ان اجر و منزل میں فرق کی کیا وجہ ہے؟

اللہ کے نبی ﷺ نے ہمارے لیے اس راز کو بتا دیا ہے جس کی وجہ سے فضیلتیں زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حسن سلوک ہے۔حسن سلوک وہ صفت ہے جس کی وجہ سے دو ساتھیوں میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح ملتی ہے،اسی  کےذریعے شرف میں اضافہ ہوتا ہے اور اللہ کی محبت ملتی ہے۔اللہ تعالی دنیا میں لوگوں کو حسن اخلاق پر جزا دیتا ہے اور آخرت میں منازل بلند ہوں گی نبی اکرمﷺ نے اس کی وضاحت کی ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:

حسن سلوک میں برکت اور کثرت ہےجو حسن سلوک سے محروم ہے وہ بھلائی سے محروم ہے۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیں جب اہلبیت ؑ کو حسن سلوک میں سے عطا کیا تو اللہ نے ان پر رزق کو وسیع کر دیا اور کوئی چیز انہیں عاجز نہیں کر سکتی۔فضول خرچی کے ساتھ سب کچھ ختم ہو جاتا ہے اللہ تعالی خود بھی رفیق ہے اور دوسروں میں بھی رفق کو پسند کرتا ہے

ارنا کے مطابق ایڈمیرل شہرام ایرانی نے فوجیوں کے ایک ٹریننگ سینٹر میں اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد  ملک  کی فوج اور دیگر مسلح افواج نے دفاع اور سیکورٹی کے شعبوں میں اہم اور قابل فخر پیشرفت کی ہے۔  

 انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے سپاہی نائب امام زمانہ(یعنی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای) کے ہاتھوں سے  تمغہ افتخار دریافت کرتے ہیں جس سے مقدس اسلامی جمہوری نظام کی خدمت کے لئے ان کے حوصلے اور محرکات بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور ان کے  سامنے اعلی ترین اہداف ہوتے ہیں۔  

 ایڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی انقلاب اور  آٹھ سالہ مقدس دفاع  میں کامیابی میں فوج کے نمایاں کردار کا بارہا ذکر کیا گیا ہے اور شجر نظام اسلامی کی آبیاری میں  فوج کا یہ کردار اس شجر کے تناور اور ثمر دار ہونے میں موثر رہا ہے۔  

انھوں نے  کہا کہ یہ راہ خدا جاری ہے اور فوج کے اہلکار اپنی بے دریغ مجاہدتوں سے اس راہ پرفروغ کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔

 ایڈمیرل شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران  ایرانی فوج کی بحریہ کی تمام تر توجہ خلیج فارس پر مرکوز رہی لیکن گزشتہ چند برسوں میں  رہبر انقلاب اسلامی کی اسٹریٹیجک تدابیر کے سائے میں، بین الاقوامی سمندروں میں بھی اس نے اہم مشن انجام دیئے ہیں۔

 انھوں نے کہا کہ اسلامی نظام کی آج کی طاقت و توانائی کا اس سے پہلے کے کسی بھی دور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور ہم نے دفاع کے میدان میں اتنی پیشرفت کرلی ہے کہ علاقے یا علاقے سے باہر کی کسی بھی طاقت کا سامنا کرنے سے ہرگز نہیں گھبراتے۔

 ایڈمیر شہرام ایرانی نے کہا کہ اسلامی نظام کی برکت سے ملک کے سبھی بحری جہازپوری قوت وتوانائی اور سربلندی کے ساتھ بین الاقوامی سمندروں میں دنیا کے ہر نقطے تک رفت وآمد کرتے ہیں اور ہم نے خلیج عدن میں اپنے جںگی بیڑے سے بحری سلامتی قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ امریکا جیسا ملک سو جدید ترین جںگی جہازوں کے ساتھ بھی خود کو استقامتی گروہوں کے حملوں سے محفوظ اور اپنے جنگی بیڑوں کو سلامتی نہ فراہم کرسکا۔

ایڈمیرل شہرام ایرانی نے  کہا کہ آج بحر ہند کے ساحلی ملکوں کی سمندری افواج کی سیکورٹی کی ذمہ داری اسلامی جمہوریہ ایران کو سونپی گئی ہے اور ہم ملت ایران کی نمائندگی میں وہاں موثر کردار  ادا کررہے ہیں۔  

تبریز- ارنا- تبریز سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسین قاسمی نے  امریکہ میں منعقد ایجادات کے ورلڈ فیسٹیول میں گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔

انہيں یہ  گولڈ میڈل جلنے سے ہونے والے زخموں کے اسٹم سیلس والے  ویکس اسپرے کی ایجاد پر دیا گيا ہے۔

ایجادات کا عالمی فیڈریشن سال میں دو بار  میڈیکل کے شعبے میں اہم  اور نئی ایجادات کے  فیسٹیول کا  اہتمام کرتا ہے، ایک بار امریکہ میں اور ایک بار یورپ میں اور اس فیسٹیول کے دوران مختلف ملکوں کے سرمایہ کار اور افراد مختلف چیزیں اور نظریات پیش کرتے ہيں۔

ڈاکٹر حسین قاسمی، خون اور کیسنر کے ماہر ہيں اور  دنیا میں  اس قسم کا اسپرے بنانے والے دوسرے شخص ہیں۔

نامہ نگاروں  سے گفگو میں ڈاکٹر حسین قاسمی نے بتایا کہ اس  اسپرے میں اسٹیم سیلز استعمال کیا گيا ہے جس میں تجدید کی صلاحیت ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کو پاؤڈر اور اسپرے کی شکل میں زخموں اور جلی ہوئی جگہ  پر استعمال کیا جاتا ہے جس سے زخم یا جلے ہوئے مقام پر ایک نئی پرت بن جاتی ہے جس سے جسمانی رطوبت  باہر نہیں نکلتی اور جلد کے راستے بیکٹیریا اور فنگس جیسے بیرونی عوامل  اندر داخل  نہیں ہو پاتے  جو انفیکشن کا باعث بنتے ہیں اور اسی کے ساتھ زخم کے اندر سے نکلنے والی رطوبت اس کے ری جنریشن کا باعث بنتی ہے اسی لئے اس  اسپرے کو ایسے زخموں اور جلے مقامات پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں عام علاج اثر نہيں کرتا۔

انہوں نے  بتایا کہ یہ پروڈکٹ زخم پر ایک  نئی پرت  بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے زخم تیزی سے مندمل  ہوتا ہے  اور ایران دنیا کا دوسرا ملک ہے جو اس پروڈکٹ کو تیار کرنے میں کامیاب  ہوا۔

ارنا کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے پیٹرولیئم کے منسٹر محسن پاک نژاد نے آج پیر 9 ستمبر کو گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم جی ای سی ایف کے سیکریٹری جنرل محمد حامل کے ساتھ ملاقات میں تنظیم کے چھبیسویں وزارتی اجلاس کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جو 27 سے 29 اکتوبرتک  تہران میں ہوگا۔

ایران کے پیٹرولیئم کے وزیرنے جی ای سی  ایف کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ اس گفتگو میں کہا کہ ایران تںظیم کے اصلی بانیوں میں ہے اور چودھویں حکومت کے آغاز میں ہم اس اجلاس کے انعقاد کو ایک اچھا شگون سمجھتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ اس  تنظیم کا پہلا وزارتی اجلاس 2001  میں تہران میں منعقد ہوا تھا ۔ اراکین کے لئے اس کے نتائج بہت اچھے ثابت ہوئے تھے اور توقع ہے کہ رکن ممالک چھبیسویں وزراتی اجلاس میں بھی بھرپور شرکت کریں گے اوراس اجلاس کے نتائج بھی سبھی اراکین کے لئے بہت اچھے اور اہم ہوں گے۔

                                                                             توانائی کی سلامتی کے استحکام میں جی ای سی ایف کا کردار

  اسلامی جمہوریہ ایران کے پیٹرولیئم کے وزير نے  کہا کہ دنیا کی جیوپولیٹیکل صورتحال اور گیس کی عالمی منڈی کے خاص حالات بالخصوص توانائی کے عالمی بحران کے پیش نظرگیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم کے سیکریٹریٹ کی خصوصیت کے ساتھ حمایت کی ضرورت ہے تاکہ یہ تنظیم اپنے اراکین کے ہمہ گیر تعاون اور مشارکت سے دنیا میں توانائی کی سلامتی کے استحکام میں ممتاز کردار ادا کرسکے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے پیٹرولیئم کے منسٹر محسن پاک نژاد نے کہا کہ ایران اپنی مخصوص جیوپولیٹیکل پوزیشن کی وجہ سے علاقے میں توانائی کی ٹرانزٹ اور تبادلے کے ایک ہب اور مرکز کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

انھوں نے حالیہ برسوں میں تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم جی ای سی ایف کے سیکریٹریٹ کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ گیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جی آر آئی  کی تاسیس اس کے اہم اور بہت اچھے اقدامات میں سے ہے جو رکن ملکوں کے درمیان ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کی ٹریننگ کے حوالے سے باہمی تعاون کے فروغ میں موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔   

 ایران کے پیٹرولیئم کے وزیر نے کہا کہ امید ہے کہ  جی ای سی ایف کا چھبیسواں وزارتی اجلاس گيس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔

 انھوں  نے کہا کہ رکن ملکوں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون بڑھانے میں جی ای سی ایف کے سیکریٹری جنرل قابل ملاحظہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔

 انھوں نے تنظیم کے چھبیسویں وزارتی اجلاس کی تیاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایران کی نئی حکومت کے آغاز میں اجلاس کو بہت اچھا شگون سمجھتے ہیں اور ہم نے اجلاس میں شرکت کے لئے دعوت نامے تیار کرلئے ہیں جو عنقریب ارسال کردیئے جائيں گے۔

قابل ذکر ہے کہ گیس برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم جی ای سی ایف کا چھبیسواں وزارتی اجلاس 27 سے 29 ستمبر 2024 تک تہران میں منعقد ہوگا۔

ارنا نے پیر کی شام فلسطین کی شہاب نیوز ایجنسی کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ غزہ میں فلسطین انفارمیشن سینٹر نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر غاصب صیہونی فوج کے وحشیانہ حملوں میں تعلیمی مراکز کے  750 کارکن شہید ہوچکے ہیں۔

فلسطین انفارمیشن سینٹر کے مطابق غزہ میں غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں میں شہید ہونے والوں میں 11 ہزار سے زائد طلبا و طالبات بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں اسکولی طلبا وطالبات زخمی ہوئی ہیں۔

 فلسطین انفارمیشن سینٹر نے اسی کے ساتھ بتایا ہے کہ غاصب صیہونی فوج کی بمباریوں میں 120 کالج اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر منہدم ہوگئيں اور 340 یونیورسٹیوں اور کالجوں کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق حماس نے بھی ایک بیان جاری کرکے بتایا ہے کہ اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی مراکز پر    وسیع پیمانے پر حملے بھی غزہ میں غاصب صیہونی حکومت کے جنگی جرائم میں شامل ہیں لیکن یہ غاصب حکومت  ملت فلسطین کا قومی تشخص مٹانے اور اس کے ملی حقوق ختم کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہوگی۔

    یاد رہے کہ غاصب صیہونی حکومت نے سات اکتوبر 2023 کو استقامتی فلسطینی محاذ کے آپریشن طوفان الاقصی میں اپنی شرمناک اور ناقابل تلافی شکست کا بدلہ فلسطینی عوام سے لینے کے لئے غزہ پر وحشیانہ حملے شروع کئے جو گیارہ ماہ گزرجانے کے بعد بھی جاری ہیں۔

غاصب صیہونی حکومت نے گزشتہ گیارہ ماہ میں ڈیڑھ  لاکھ سے زائد عام فلسطینی شہریوں کو شہید اور زخمی کردیا جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں  کی ہے، غزہ کے ستر فیصد رہائشی مکانات، اسپتال،  اسکول ، کالج اور بنیادی شہری تنصیبات سب کچھ تباہ کردیا اور انواع و اقسام کے بدترین جنگی اور  انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے علاوہ غزہ کے مظلوم عوام پر قحط اور بھوک مری بھی مسلط کردی لیکن اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہ کرسکی ، نہ حماس کو ختم کرسکی اور نہ ہی صیہونی جنگی قیدیوں کو آزاد کراسکی۔

دوسری طرف اس کی وحشیانہ بمباریوں میں متعدد صیہونی جنگی قیدی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں چھے صیہونی جنگی قیدیوں کی لاشیں ملنے کے بعد، جو صیہونی فوج کی بمباری میں ہلاک ہوئے، پورے مقبوضہ فلسطین میں غاصب صیہونی حکومت اور نتن یاہو کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شدت اور وسعت آگئی ہے۔   

Tuesday, 10 September 2024 05:24

فوجی دباؤ کی پالیسی


نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں نے حماس کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی سمیت اسرائیل کے تمام جنگی اہداف حاصل کرنے کے لیے فوجی دباؤ کی پالیسی پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب وہ دیکھتے ہیں کہ اس کے نتائج بالکل برعکس نکلے ہیں اور کئی مزاحمتی محاذوں کی آگ نے اس حکومت کو گھیر لیا ہے۔ اسلام ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے صیہونی غاصب حکومت نے اس جنگ میں اپنے اہداف کے حصول کے لیے "فوجی دباؤ" کا استعمال کرتے ہوئے ایک منظم پالیسی اپنا رکھی ہے، ان اہداف میں سرفہرست غزہ میں مزاحمت کی تباہی اور صہیونی قیدیوں کی رہائی ہے، وہ یہ کام فوجی کارروائیوں کے ذریعے انجام دینے کے خواہاں ہیں۔
 
صیہونی فوجی دباؤ کیخلاف مزاحمت کی جنگی حکمت عملی
اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت نے فلسطینی عوام اور اس کی مزاحمت بالخصوص تحریک حماس پر شدید فوجی دباؤ ڈالا اور اس فوجی دباؤ کے ساتھ ہی غزہ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے اپنی جنگی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں کیں۔ مزاحمتی بلاک نے اپنے جنگی طریقوں کو بٹالینز اور بریگیڈز میں فعال رکھنے کی بجائے انفرادی آپریشنز یا چھوٹی تعداد کے ساتھ گروپ آپریشنز کو اپنا کر اسے وسیع علاقوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ غزہ پٹی کے مختلف محوروں میں صیہونی فوجیوں کے خلاف مسلسل گھات لگانا مزاحمت کی اس جنگی حکمت عملی کے واضح نتائج میں سے ایک ہے اور اس کے علاوہ ہم غزہ سے باہر بالخصوص پورے مغربی کنارے نیز تل ابیب میں انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں توسیع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

مزاحمت نے اپنی کارروائیوں کو گروہی سطح سے انفرادی سطح پر جو منتقل کیا ہے، اس کا مطلب مزاحمت کی ناکامی یا زوال نہیں ہے بلکہ فلسطینی مزاحمت کے مختلف گروہ ایک ہی کمان کے تحت اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ فوجی، میڈیا اور سکیورٹی لاجسٹک خدمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس وقت مزاحمت کے سیاسی اور فوجی فیصلوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

جنگی اہداف کے حصول میں اسرائیل کے فوجی دباؤ کی ناکامی
آیا اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی نے اس حکومت کو مطلوبہ نتائج دیئے یا نہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ صیہونی نہ تو غزہ میں مزاحمت کو ختم کرسکے اور نہ ہی اپنے قیدیوں کو رہا کرسکے اور جب بھی اسرائیلی فوج نے آزادی کی تلاش میں فوجی آپریشن شروع کیا تو ان کارروائیوں میں ان قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کی جانیں گئیں۔ گزشتہ ہفتے 6 اسرائیلی قیدیوں کی لاشوں کی دریافت، جس نے نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے خلاف صہیونی آباد کاروں میں شدید غم و غصے کی لہر کو جنم دیا، قیدیوں کی رہائی کے لیے اسرائیل کی فوجی دباؤ کی پالیسی کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ غزہ کی جنگ کے 11 ماہ گزرنے کے بعد بھی صیہونی حکومت کا فوجی دباؤ اس علاقے میں سیاسی اور حکومتی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکا۔

صیہونی حکومت مختلف سازشوں اور امریکہ کی ہمہ جہت حمایت کے باوجود غزہ میں حماس کی جگہ دوسری حکومت نہیں لا سکی۔ غزہ کی پٹی میں ابھرنے والے مشکل اور پیچیدہ حالات کے باوجود اس پٹی پر اب بھی حماس کی حکومت ہے۔ دوسری جانب صیہونی حکومت غزہ پٹی کے شہری اور اہم انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا کر غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بھڑکانے میں ناکام رہی، جس میں صحت کے بنیادی ڈھانچے اور دیگر بنیادی ڈھانچے بھی شامل ہیں، جو اس علاقے میں زندگی کے آثار کو تباہ کرنے کا باعث بنے۔ تقریباً ایک سال کی تباہ کن جنگ کے بعد، جو قابض صیہونی حکومت نے ان کے خلاف شروع کی تھی اور اس علاقے کو جہنم بنا دیا تھا، غزہ کے لوگ اب بھی اپنی سرزمین پر قائم رہنے پر اصرار کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ اسرائیل ہی ہے، جو گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے اور مزاحمت نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے دفاع کا کردار ادا کیا ہے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں، سیاسی سطح پر صیہونی حکومت کے فوجی دباؤ کی ناکامی اس حقیقت سے جنم لیتی ہے کہ اس حکومت کے حکام نے مسئلہ فلسطین اور اس سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کی حقیقت کو نظر انداز کرنے اور انکار کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی اچھی طرح جانتے ہیں کہ زیر قبضہ علاقے کی آزادی ممکن ہے اور گزشتہ دہائیوں سے جاری مزاحمت نے فلسطینیوں کی آزادی اور آزادی کے لیے سب کچھ کیا ہے۔ فلسطینی عوام اس بات پر قائل ہیں کہ ایک آزاد ملک اور اس میں امن و استحکام کے ساتھ رہنے کے لیے مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

فلاڈیلفیا کے محور میں نیتن یاہو کے فوجی دباؤ کا جھوٹ
گزشتہ ہفتوں کے دوران جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کی باتوں میں اضافہ ہوا، نیتن یاہو نے مصر اور غزہ کی سرحد پر فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے کے اصرار کو مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی سے جوڑ دیا۔ اس محور میں اسرائیلی فوج کی موجودگی حماس کی آکسیجن کی شریانوں کو منقطع کرنے کا باعث بنتی ہے اور اس تحریک کی ہتھیاروں تک رسائی کو روک کر غزہ میں مزاحمت کے خلاف فوجی دباؤ کی حکمت عملی کو کارگر بنا سکتی ہے، لیکن سب سے اہم حقیقت جس سے نیتن یاہو گریز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت بالخصوص دو دہائیاں میں ہتھیاروں کی تیاری میں کافی طاقت حاصل کرچکی ہے اور مزاحمتی بلاک کی مدد سے اسے مسلح کرنے میں کافی حد تک طاقت ملی ہے۔

فلسطینی میزائل سمیت مختلف ہتھیاروں کی تیاری میں خود پر انحصار کرتے ہیں۔ 2008 کے بعد فلسطینی انجینئروں نے راکٹوں کے میدان میں نمایاں انداز میں کام کرنا شروع کیا اور مختلف رینج والے میزائل بنائے، جن میں اینٹی آرمر اور اینٹی فورٹیفیکیشن میزائل بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک یاسین 105 اینٹی آرمر میزائل ہے، جو کہ مکمل طور پر تباہ کن ہے۔ فلسطینی ہتھیار اور غزہ میں تیار کردہ 100% لانگ رینج سنائپر رائفلیں غزہ کے اندر بنائے گئے ہتھیاروں میں سے ہیں، جنہیں فلسطینی جنگجو قابض فوج کی زمینی افواج کے ساتھ لڑائی میں استعمال کرتے ہیں۔

اسی لیے نیتن یاہو کا حماس پر فوجی دباؤ ڈالنے کے لیے فلاڈیلفیا کے محور میں رہنے پر اصرار جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہے اور اسرائیلی فوج کے کمانڈر اور اس حکومت کی سکیورٹی سروسز اچھی طرح جانتے ہیں کہ صیہونی فوج کی موجودگی حماس پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوسکتی ہے۔ فلاڈیلفیا محور فلسطینی مزاحمت کی مسلح صلاحیتوں کو زندہ کرنے کی تزویراتی حقیقت ہے۔ جو اس جنگ کے دوران یا بعد میں تبدیل نہیں ہوگا۔ اس بنا پر بعض کا خیال ہے کہ نیتن یاہو اور اتحادی کابینہ میں شامل ان کے اتحادیوں کا منصوبہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرکے اس پٹی میں فوجی حکمرانی قائم کرنا ہے اور اسی وجہ سے نیتن یاہو فلاڈیلفیا اور نیٹسرم کے محور سے کسی بھی انخلاء کے خلاف ہیں۔ کیونکہ ان محوروں میں رہنے سے غزہ کے پورے جغرافیہ پر فوجی دباؤ کا عمل آسان ہو جاتا ہے۔

اسرائیل مزاحمتی محاذوں کی آگ میں گھرا ہوا ہے
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں موجود اسرائیلی افواج کی تعداد اس حکومت کو مکمل طور پر غزہ پر قابض اور تسلط کے لیے کافی نہیں ہے۔ صہیونی فوج کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی حکمرانی کے قیام کے لیے اس پٹی میں کم از کم 5 فوجی ڈویژنوں کی تعیناتی کی ضرورت ہے، جبکہ اس وقت غزہ میں دو سے زیادہ ڈویژن فوجی موجود نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج کو غزہ کی جنگ کے ساتھ ہی حزب اللہ کے خلاف مختلف محاذوں بالخصوص شمالی محاذ سے ملنے والے خطرات سے نمٹنا ہے اور اس محاذ میں اپنی افواج کی بڑی تعداد کو تعینات کرنا ہے۔ دوسری طرف، مغربی کنارہ ایک اہم اور جلتا ہوا محاذ بن چکا ہے، اب مغربی کنارے میں صہیونی افواج کی تعداد غزہ میں ان افواج کی تعداد سے زیادہ ہے۔

ہمیں یہ بھی بتانا چاہیئے کہ اسرائیلی فوج نے اردن کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے ایک نیا فوجی ڈویژن بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، ان تشریحات سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے دوسرے محاذوں کو ترک کرنا ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ صورتحال مختلف محاذوں بالخصوص شمالی اور مغربی کنارے سے صیہونیوں کے خلاف ہوجائیگی۔ بہرحال ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ نیتن یاہو کی طرف سے اختیار کی گئی فوجی دباؤ کی پالیسی صرف ان کے سیاسی اور ذاتی مفادات کو پورا کرتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت، جس سے صہیونی حکام اور آبادکار دونوں واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے جنگی اہداف فوجی دباؤ سے حاصل نہیں ہوں گے۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
 
 

گذشتہ ماہ غاصب صیہونی رژیم نے یمن، لبنان اور ایران میں چند دہشت گردانہ کاروائیاں انجام دیں جن کے بعد اسلامی مزاحمتی بلاک نے اسے سخت انتقامی کاروائی کی دھمکی دی۔ اس دھمکی کے نتیجے میں امریکہ بھی سرگرم عمل ہو گیا اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی ممکنہ انتقامی کاروائی کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے اپنے جنگی بحری بیڑے خطے کی جانب روانہ کر دیے۔ امریکہ کے طیارہ بردار جنگی بحری جہاز مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی طرف حرکت کرنے لگے۔ اس نقل و حرکت کا مقصد اپنی طاقت کا اظہار کر کے ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر گروہوں کو ڈرا دھمکا کر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ممکنہ انتقامی کاروائی سے باز رکھنا تھا۔ چونکہ امریکہ کا تصور یہ تھا کہ ماضی کی طرح ایران اس بار بھی اسرائیل پر میزائل حملہ کرے گا لہذا امریکہ، برطانیہ اور صیہونی رژیم کے دیگر اتحادی مغربی و عرب ممالک نے ایک فضائی دفاعی زون ایجاد کرنے کی کوشش کی۔
 
ایک خطہ جہاں امریکہ نے اپنے جنگی بحری بیڑے روانہ کئے پیسفک سمندر تھا۔ اس اقدام نے امریکہ نواز حکومتوں نیز امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں میں پریشانی کی لہر دوڑا دی۔ دیگر مغربی استعماری طاقتوں کی طرح امریکہ بھی ایک بحری طاقت ہے۔ امریکہ کی بحریہ دنیا بھر میں اس کے اثرورسوخ اور طاقت کا سرچشمہ تھی اور اس نے واسنگٹن کو اس قابل بنایا کہ وہ جہاں چاہے طاقت کا اظہار کر سکے، دنیا بھر کے سمندری راستوں پر اپنا کنٹرول قائم کر سکے اور دنیا کے جس حصے میں چاہے لشکر کشی کر کے پوری طاقت سے جنگ کا آغاز کر سکے۔ درحقیقت امریکہ کی بحریہ اس کے فوجی، سیاسی (سفارتی) اور اقتصادی تسلط کی بنیاد اور اساس شمار ہوتی ہے۔ امریکی بحریہ میں بھی طیارہ برداری جنگی بحری جہاز مرکزی اہمیت کے حامل ہیں جن کی بدولت امریکہ اپنی جنگوں کی زیادہ سے زیادہ پشت پناہی کرنے پر قادر ہے۔
 
یوں طیارہ بردار جنگی بحری جہاز امریکہ کے پاس اپنی طاقت کے اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ امریکہ اس طرح طاقت کا اظہار کر کے اپنی خاص قسم کی سفارتکاری انجام دیتا ہے جسے اصطلاح میں "توپ دار کشتیوں" والی سفارتکاری کہا جاتا ہے۔ یہ طیارہ بردار جنگی جہاز مدمقابل پر رعب ڈالنے اور اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کرنے کیلئے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ امریکہ کو عالمی سطح پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی بحری طاقت دیگر ممالک سے برتر ہو تاکہ دیگر ممالک اس کی بحری طاقت سے مرعوب ہو کر مختلف سمندری راستوں، آبناوں اور اسٹریٹجک مقامات پر اس کا کنٹرول تسلیم کر لیں۔ لیکن اس وقت زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں اور صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔
 
ایک طرف چین دنیا میں کشتیاں بنانے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر آ چکا ہے جبکہ دوسری طرف کشتیاں بنانے والے ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نام پہلے 15 ممالک میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کی اکثر بندرگاہیں بیرونی کمپنیوں کے پاس ہیں جبکہ دیگر ممالک کی بندرگاہوں پر امریکی مالکیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح کشتیوں کی مالکیت کے لحاظ سے امریکہ کا نمبر عالمی سطح پر چوتھا ہے۔ سمندری تجارت اور اس سے متعلقہ میدانوں میں امریکہ کی متزلزل صورتحال سے چشم پوشی کرتے ہوئے بحری فوجی طاقت کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو امریکہ شدید تزلزل کا شکار ہے۔ امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں کی پریشانی پیسفک سمندر میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہازوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے اور یہ امریکی بحری طاقت کے زوال کا واضح ثبوت ہے۔
 
امریکہ برتر بحری طاقت ہونے اور سمندری راستوں پر مکمل کنٹرول کا حامل ہونے کے دعویدار ہونے کے ناطے یمن میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ حملے بحیرہ احمر، آبنائے باب المندب، بحیرہ عرب اور بحر ہند میں انجام پا رہے ہیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اس مقصد کیلئے ایک بحری فوجی اتحاد بھی تشکیل دیا تھا اور یمن پر کئی فضائی حملے بھی کئے لیکن انہیں حوثی مجاہدین کے خلاف کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو پائی اور مقبوضہ فلسطین جانے والی اسرائیلی اور اسرائیل کے اتحادی ممالک کے بحری جہازوں پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ انصاراللہ یمن روزانہ کی بنیاد پر ان کے بحری جہازوں کو میزائلوں، ڈرون طیاروں اور خودکش جنگی کشتیوں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ جنگ کی ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ امریکی بحریہ انصاراللہ یمن کے خلاف جنگ میں شکست کھا چکی ہے۔
 
امریکی کی بحری فوج اس کی مرعوب کرنے پر مبنی سفارتکاری کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ امریکہ مغربی ایشیا اور بحیرہ روم کی جانب طیارہ بردار جنگی جہاز روانہ کر کے ایران اور اسلامی مزاحمت کو مرعوب کرنے کے درپے تھا۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے اربعین آپریشن اور یمن اور عراق میں اسلامی مزاحمت کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے خلاف فضائی حملوں کے نتیجے میں یہ مقصد ناکامی کا شکار ہو گیا ہے۔ درحقیقت امریکہ کی جانب سے مرعوب کرنے والی سفارتکاری اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں بے اثر ہو چکی ہے۔ پیسفک سمندر امریکہ کیلئے اسٹریٹجک اور سکیورٹی کے لحاظ سے ایک اہم خطہ ہے۔ یہ خطہ، بحر ہند، مغربی ایشیا، صحرائی علاقے، مشرقی یورپ اور قطب شمالی سے ملا ہوا ہے اور یہ تمام علاقے امریکہ کیلئے فوجی اہداف شمار ہوتے ہیں۔ غزہ جنگ کے نتیجے امریکہ پیسفک سمندر سے نکلنے پر مجبور ہو چکا ہے جس کے باعث امریکی اور مغربی تجزیہ کار اسٹریٹجک نقصانات کا عندیہ دے رہے ہیں۔

تحریر: ابوالفضل صفری