سلیمانی

سلیمانی

 اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندے نے جمعہ کی رات کو جنوبی بیروت میں ضاحیہ پر اسرائیلی حملے پر لبنان کی حزب اللہ کے ردعمل کی شدت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ حزب اللہ اور اسرائیلی حملوں میں کچھ  ان لکھے اصولوں کے تحت کم شدت کے حملے سرحدی علاقوں اور فوجی اہداف تک محدود تھے، تاہم اسرائیل نے یہ حد توڑ دی اور بیروت کے علاقے ضاحیہ پر حملے اور رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا۔ ہمارہ اندازہ ہے کہ حزب اللہ جوابی کاروائی کو فوجی اہداف اور مخصوص علاقوں تک محدود نہیں رکھے گی اور آئندہ آپریشن کا ٹارگٹ نہ صرف وسیع ہوگا بلکہ فوجی اہداف اور آلات تک محدود نہیں ہوگا۔

حزب اللہ لبنان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صہیونی دشمن نے 30 جولائی 2024 بروز منگل کی شام بیروت کے علاقے ضاحیہ پر حملہ کیا اور اس محلے میں رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور دیگر زخمی ہوئے۔ حملے کے وقت اس عمارت میں کمانڈر فواد شکر (حاج محسن) بھی موجود تھے۔

ارنا کے مطابق سیدحسن نصراللہ نے اسماعیل ہنیہ اور فواد شکر کی شہادت کی تعزیت پیش کی اور کہا کہ  ہم برادر عزیز اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر اپنے حماس کے بھائیوں اور القسام بریگیڈ کے مجاہدین کو تعزیت پیش کرتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ صیہونی حکومت نے فودا شکر کو شہید کرنے کے لئے حارہ  حریک کی عمارت پر اس وقت حملہ کیا جب وہ عام شہریوں سے بھری ہوئی تھی۔

 حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ حملے میں ایک ایرانی مشیر سمیت سات افراد شہید اور دسیوں دیگر زخمی ہوئے۔   سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیلی حکومت کا یہ حملہ مجدل شمس کے حادثے کا ردعمل نہیں تھا بلکہ مجدل شمس کا نام اس نے رائے عامہ کو منحرف کرنے  کے لئے لیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ صیہونی دشمن نے مجدل شمس کے واقعے کا الزام کسی ثبوت کے بغیر حزب اللہ پر لگایا ہے جبکہ اس واقعے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ جب اسرائیلیوں نے دیکھا کہ مجدل شمس کے واقعے میں مارے جانے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں تو اس کا الزام حزب اللہ پرلگانے  کا فیصلہ کیا۔

 انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت وشواہد کافی ہیں کہ صیہونی حکومت کے ایئر ڈیفنس کے میزائل عکا اور دیگر علاقوں پر گرے ہیں۔

 حزب اللہ کے سربراہ نے بتایا کہ بعض ملکوں نے ہم سے کہا ہے کہ ہم بیروت کے ضاحیہ جنوبی پر صیہونی حملے کا جواب نہ دیں .

 انھوں نے کہا کہ ہم سبھی محاذوں پر ہمہ گیر جنگ سے دوچار ہیں اور یہ جنگ اب نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔  

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہم غزہ اور فلسطین کی حمایت کی قیمت ادا کررہے ہیں اور یہ قیمت ادا کرنا ہمیں منظور ہے، ہم غزہ کی حمایت کا تاوان ادا کررہے ہیں اور ہمارے سیکڑوں عام شہری شہید ہوچکے ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے  کہا کہ کیا یہ بات کوئی سوچ سکتا ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کردیا جائے اور ایران خاموش رہے؟

انھوں نے کہا کہ اس وقت صیہونی وزیر اعظم نتن یاہو نے دہشت گردی سے اپنی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں اور اس کو اپنی کامیابی ظاہر کرنا چاہتا ہے۔

 سید حسن نصراللہ نے کہا کہ دہشت گردانہ حملوں میں رہنماؤں کی شہادت سے استقامت کمزور نہیں ہوگی بلکہ تجربہ شاہد ہے کہ اس سے استقامت کو تقویت اور فروغ ملے گا۔

حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ  صیہونی حکومت کی دہشت گردانہ جارحیت میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی  شہادت پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا لہجہ اس بیان سے زیادہ سخت تھا جو آپ نے  دمشق میں ایرانی کونسلیٹ پر اسرائیلی حکومت کے  حملے کے بعد دیا تھا۔   

حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ عظیم مجاہد اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں اس عظیم و بہادر مجاہد رہنما کی شہادت کی اسلامی امت، مزاحمتی محاذ اور فلسطین کی قابل فخر قوم کو تعزیت پیش کی اور زور دیا ہے : "مجرم و دہشت گرد صیہونی حکومت نے، ہمارے پیارے مہمان کو ہمارے گھر میں شہید کر دیا اور ہمیں سوگوار کیا لیکن اس نے اپنے لئے سخت انتقام کے بھی حالات فراہم کر ليے اور شہید ہنیہ کے انتقام کو ہم اپنا فرض سمجھتے ہيں "

رہبر انقلاب کے پیغام کا متن اس طرح ہے :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا للہ و انا الیہ راجعون

پیاری ایرانی قوم!

فلسطین کے شجاع و بہادر رہنما جناب اسماعیل ہنیہ گزشتہ شب صبح کے وقت اللہ کو پیارے ہو گئے اور عظیم مزاحمتی محاذ سوگوار ہو گیا۔مجرم و دہشت گرد صیہونی حکومت نے، ہمارے پیارے مہمان کو ہمارے گھر میں شہید کر دیا اور ہمیں سوگوار کیا لیکن اس نے اپنے لئے سخت انتقام کے بھی حالات فراہم کر ليے ۔

شہید اسماعیل ہنیہ برسوں سے با عزت جہد و جہد کے میدانوں میں اپنی قیمتی جان ہتھیلی پر لے کر چلتے تھے، وہ شہادت کے لئے تیار تھے اور انہوں نے اپنے فرزندوں اور عزیزوں کو اس راہ میں قربان بھی کیا تھا ۔ انہيں اللہ کی راہ اور اس کے بندوں کی نجات کے لئے شہید ہونے میں کوئی تذبذب نہيں تھا لیکن ہم اس تلخ و سخت سانحے کے بعد کہ جو اسلامی جمہوریہ کی سرحد کے اندر ہوا ، انتقام کو اپنا فریضہ سمجھتے ہيں۔

میں اسلامی امت، مزاحمتی محاذ، فلسطین کی سرفراز و شجاع قوم اور خاص طور پر شہید ہنیہ اور ان کے ساتھ شہید ہونے والے ان کے ایک ساتھی  کے لواحقین اور اہل خانہ کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور خداوند عالم سے ان کے علو درجات کی دعا کرتا ہوں ۔

سید علی خامنہ ای

تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایک حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔ ان کے ہمراہ ان کا ایک محافظ بھی شہادت کے رتبے پر فائر ہوا ہے۔ یہ حملہ تہران میں اس وقت ہوا، جب اسماعیل ہنیہ ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے گذشتہ شب رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کیساتھ ملاقات بھی کی تھی اور رات دو بجے ان کی رہائش گاہ پر حملہ کرکے انہیں شہید کر دیا گیا۔ پنتالیس سال میں انقلاب کی راہ پر چلنے کی سزا میں دشمن امریکہ و اسرائیل نے دو ایرانی صدور، کئی اہم ترین سائنسدانوں، جنرل قاسم سلمانی سمیت کئی فوجی افسران، ہزاروں ماہر اشخاص کو ایسی ہی بزدلانہ کارروائیوں میں شہید کیا ہے۔ ایران کے انقلاب اسلامی کو کمزور کرنے کیلئے دشمن نے ایسے اقدامات کئے، بلکہ امریکہ و اسرائیلی دشمنی کی سزا دینے کی کوشش کی گئی۔

پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ سابق ائیر چیف مصحف علی میر شہید کو امریکہ کیخلاف جانے پر شہید کیا گیا تھا۔ سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے بھی کہتے ہیں ڈومور سے اس وقت انکار کر دیا تھا، جس پر ان کے طیارے میں آموں کی پیٹیاں رکھوا کر انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ تہران کے اندر دشمن نے نشانہ بنا کر ایران کے سکیورٹی لیپس کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ سکیورٹی لیپس نہیں، بلکہ دشمن کی مکارانہ کارروائی ہے۔ جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس طرح کسی کو بھی مارنا مشکل نہیں، خود امریکہ میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی قتل ہوئے، کہاں تھی سی آئی اے کی سکیورٹی۔؟ امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مہم کے دوران حال ہی میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں سیکنڈوں کی مہلت سے وہ بچ گیا۔ اس کو کیا کہیں گے؟ کہ قاتل کیسے اپنے ہدف پر پہنچ گیا؟ ایسے اہداف کو دنیا میں کہیں بھی مارنے کیلئے تھوڑی بہت پلاننگ، تھوڑا سا سرمایہ اور ہمت چاہیئے ہوتی ہے۔ مارنے کے بعد کیا نتائج حاصل ہوں گے، یہ سب سے اہم معاملہ ہوتا ہے۔

دشمن نے نہایت سمجھداری اور پلاننگ سے اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا ہے۔ یہ قتل قطر میں بھی ہوسکتا تھا، لیکن ایران کے اندر اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ اس سے ایران کو بدنام کرنا مقصود تھا اور فلسطین کاز کو نقصان پہنچانا ہدف تھا۔ یعنی حماس ایران سے بددل ہوگی کہ ایران ان کے رہنماء کی حفاظت ہی نہیں کرسکا۔ بڑے ہدف کیلئے اگر ہزاروں جانیں بھی قربان ہوں، تو تنظیمیں یا لوگ اپنے مقاصد سے ڈر کر پیچھے نہیں ہٹا کرتے، بلکہ ایسی قربانیاں مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور جذبے کو جِلا بخشتی ہیں۔ ان سے تحریک میں شدت آتی ہے۔ تہران میں ہونیوالے اس حملے کا مطلب واضح ہے کہ اب منزل بہت قریب ہے۔ بس دشمن کو گرانے کیلئے ایک دھکا اور چاہیئے۔ اوپر سے اسرائیل سے حماقت یہ ہوئی کہ اس نے بیروت میں بھی حزب اللہ کے کمانڈر فواد شُکر کو ایک حملے میں شہید کر دیا۔ یہ دس ماہ میں دوسری بار ہوا ہے کہ اسرائیل نے بیروت میں حملہ کیا ہے۔ گذشتہ شب ہونیوالی بمباری میں نشانہ فواد شُکر ہی تھے اور اس میں اسرائیل کامیاب رہا۔

ان حملوں اور تہران میں ہونیوالے واقعہ سے معاملات میں مزید شدت آئے گی۔ حزب اللہ اعلان کرچکی تھی کہ اگر بیروت پر حملہ کیا گیا تو حزب اللہ براہ راست فلسطین میں داخل ہو جائیگی۔ لبنان کے وزیراعظم نے بھی بیان دیا تھا کہ اسرائیل نے کوئی جارحیت کی تو یہ لبنان کی خودمختاری پر حملہ تصور ہوگی۔ اب اسرائیل نے سخت جوابی کارروائی کیلئے موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایران منظم منصوبے کے تحت انتقام لیتا ہے۔ وہ جلد بازی نہیں کرتا۔ وہ انتقام لے گا اور کوئی بڑی شخصیت نشانہ بن سکتی ہے۔ جو امریکہ یا اسرائیل سے ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پاکستانیوں میں کچھ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے کو فرقہ واریت کی نظر سے دیکھتے کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم دشمن کے عزائم کی تکیمل کر رہے ہوتے ہیں۔ اب تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو بھی تکفیری فرقہ واریت کی عینک سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے خاندان سے 70 افراد پہلے ہی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کو بھی پتہ تھا کہ اگلا نشانہ وہ ہیں اور وہ اس کیلئے ذہنی طور پر تیار بھی تھے۔

ہمیں فرقہ واریت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس معاملے کو اس انداز میں دیکھنا ہوگا، جس انداز سے خود حماس اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب حماس نے یہ مقاومت شروع کی، پاکستان کے تکفیری حلقوں میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ شیعہ ایران نے سنی حماس کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ یوں ایران دشمنی میں انہوں نے امت کے مشترکہ کاز کو کمزور کرکے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اس سے وہ بے نقاب ہوئے اور امت کو پتہ چل گیا کہ تکفیریوں کو ایجنڈا کہاں سے ملتا ہے۔ اب پارا چنار کے زخمیوں کے ایمبولینسز پر حملوں سے بھی یہ مزید بے نقاب ہوئے کہ اسرائیلیوں کے طرز عمل کو اپنائے ہوئے ہیں اور یوں اسرائیل و تکفیری بے نقاب ہوگئے اور واضح ہوگیا کہ دونوں کا ’’سرپرست‘‘ ایک ہی ہے، جو ایک ہی ایجنڈا دونوں کو فراہم کر رہا ہے۔

تہران واقعہ کے بعد چین اور روس کی قیادت کے درمیان بھی رابطے کی اطلاعات ہیں اور دونوں جانب سے ہائی پروفائل افراد کی سکیورٹی کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔ اس حوالے سے ذرائع نے یہ اطلاع دی ہے کہ تہران میں ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے، جس میں چین، روس، ایران اور حماس کی قیادت شرکت کر رہی ہے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور و فکر ہوگا۔ اس کے علاوہ اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ بھی تہران میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس میں دشمن کو پیغام دیا جائے گا کہ ہم شہیدوں کے لہو سے گھبرانے والے نہیں، بلکہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوا کرتی ہے

تحریر: تصور حسین شہزاد

۔ فلسطین کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ کو ایران میں قاتلانہ حملے میں شہید کردیا گیا، حماس نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسمٰعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، جس کا بدلہ لیا جائے گا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق حماس کے سربراہ اسمٰعیل ہنیہ پر تہران میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا، وہ ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے ایران میں موجود تھے۔ مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں 70 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن اور حماس کے رہنماء اسمٰعیل ہنیہ اور اسلامی جہاد کے زیاد النخالہ بھی تقریب میں شریک تھے۔ ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اسمٰعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائیں گے۔ فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسمٰعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اسمٰعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا، یہ حملہ بزدلانہ کارروائی ہے، جس بدلہ لیں گے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شعبہ تعلقات عامہ نے اپنے ایک بیان میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے ایک محافظ کی تہران میں رہائش گاہ کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں شہادت کا اعلان کیا۔ فارس نیوز کے مطابق پاسداران انقلاب اسلامی کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ اور ان کا ایک محافظ اس وقت شہید ہوگئے، جب تہران میں ان کی رہائش گاہ پر حملہ ہوا۔ بیانیہ کا متن حسب ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم
انا لله و انا الیه راجعون

فلسطین کی بہادر قوم، ملت اسلامیہ، مزاحمتی محاذ کے مجاہدین اور ایران کی عظیم قوم کے تئین تعزیت کے ساتھ، آج صبح (بدھ) تہران میں مقاومت اسلامی فلسطین کے سیاسی دفتر کے سربراہ جناب ڈاکٹر اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا اور اس واقعہ کے نتیجے میں وہ اور ان کا ایک محافظ شہید ہوگیا۔ اس واقعے کی وجوہات اور تمام ممکنہ عوامل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، جن کے نتائج کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی شعبہ تعلقات عامہ
 
 
 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر انقلاب اسلامی نے منگل کی صبح آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان اور ان کے ساتھ آئے وفد سے ملاقات میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مستقل اور حتمی پالیسی، پڑوسی ممالک خاص طور پر آرمینیا سے تعلقات میں فروغ پر مبنی ہے اور ہم آرمینیا سے اپنے رشتوں کو بڑھانے کا سنجیدہ عزم رکھتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تعاون، دوسروں کی پالیسیوں کو نظر میں رکھے بغیر دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر پوری طاقت سے جاری رہے گا۔

آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے نومنتخب صدر جناب پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب اور اسی طرح اس سے قبل شہید صدر رئیسی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے تہران آنے پر جناب پاشینیان کا شکریہ ادا کیا اور آرمینیا کی ارضی سالمیت کی حفاظت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، زنگزور کوریڈور کو آرمینیا کے نقصان میں سمجھتا ہے اور وہ اپنے اس موقف پر بدستور قائم ہے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ ملکوں کے تعلقات میں اغیار کو کوئي حد بندی مقرر نہیں کرنی چاہیے، کہا کہ جو چیز ملکوں کی سیکورٹی اور ان کی مصلحت کو فراہم کرتی ہے، وہ اپنے آپ اور اپنے قریبیوں پر بھروسہ ہے اور بعض لوگوں کے اقدامات جو دور سے آتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے امور میں مداخلت کرتے ہیں، ان کے نقصان میں رہیں گے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ملک کے آرمینیائي عیسائيوں کے ساتھ دیگر ایرانی عوام کے اچھے رشتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے آرمینیائي عیسائیوں نے مسلط کردہ جنگ کے دوران کافی کردار ادا کیا ہے اور میں خود اب تک بہت سے آرمینیائي عیسائيوں کے گھر جا چکا ہوں۔

انھوں نے حضرت عیسیٰ مسیح کے احترام کو مسلمانوں کا ایک مسلّمہ موضوع بتایا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام سمیت الہی ادیان کے بزرگوں کی اہانت، ہماری نظر میں مذموم ہے۔

اس ملاقات میں، جس میں نائب صدر جناب عارف بھی موجود تھے، آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان نے دونوں ملکوں کے فروغ کی جانب گامزن تعلقات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے، صدر پزشکیان کے ساتھ اپنی بات چیت کو تعمیری اور مثبت بتایا اور کہا کہ آرمینیا نے بارہا کہا ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندر علاقے سے باہر کی کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔

انھوں نے ایران اور آرمینیا کے تعلقات کو اسٹریٹیجک نوعیت کا بتایا اور دونوں ملکوں کے تعلقات میں فروغ اور ان میں تنوع پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے اس عمل کے جاری رہنے پر تاکید کی۔

اسلام جدید عصری زندگی اور اس کی ضروریات کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے نیز اس کی مختلف صورتوں سے صرف نظر نہیں کرتا۔ کیوکہ اس کا آئین سب سے زیادہ درست، جامع زندگی اوراس کی مختلف صورتوں کے موافق ہے۔ چونکہ اسلام کے احکامات زندگی اور س کے لوازمات پرمشتمل ہیں اور مسائل پیش آنے کی صورت میں ان کی راہ حل اسلام پیش کرتا ہے،اس میں انسانی حقوق سمیت دیگر مخلوقات کے حقوق شامل ہیں۔

قران مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے "اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ خشکی اور سمندر کی ہر چیز سے واقف ہے اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگروہ اس سے آگاہ ہوتاہےاور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور خشک وتر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین میں موجود نہ ہو”سورہ انعام:59)

"اور زمین پر چلنے والے تمام جانور اورہوا میں اپنے دو پروں سے اڑنے والے سارے پرندےہیں تمہاری طرح کی امتین ہیں،ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی پھر(سب)اپنے رب کی طرف جمع کیے جائیں گے”(انعام:38)

ہماری گفتگو اسلام کی جدید عصری راہ حل کے ضمن میں ہے جس میں حیوانوں کےلئے مقرر کردہ حقوق شامل ہیں،ان میں سے کچھ مستحب ہیں جبکہ کچھ واجب ،جوکہ مکمل طور پرحیوانوں سے بہتر انداز میں پیش آنےاور اس کے استعمال سے متعلق ہیں اور یہ اختیار انسانوں کو دیا ہو اہے۔ جبکہ اس اختیار کے غلط استعمال کی صورت میں جیسے حیوان کی زندگی کو بچانے اور اسے بلاوجہ نقصان پہنچانے کے سلسلے میں اسلام نے مقرر کیے ہیں۔اگر یہ اختیار انسان کے اس نفع سے متعلق ہے جیسے وہ عقلی اور شرعی طورپرحیوانوں سے حاصل کرتا ہے اور اگر وہ اس اختیار کا درست استعمال نہ کرے تو وہ زندگی اور اس کی فطرت پرظلم کرنے اور حد سے تجاوز کرنے والا شمار ہوگا جس کی حفاظت کی خاطر خالق نے ایک متحرک نظام وضع کیاہے۔ اللہ تعالیٰ فرمایا:

“اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے بنائے تاکہ تم ان میں سے بعض پر سواری کرواوربعض کاگوشت کھاؤ،اورتمہارے لئے ان میں منفعت ہے اور تاکہ تمہارے دلوں میں حاجت ہوتو ان پر (سوارہوکر)پہنچ جاؤ نیز ان پر اور کشتیو ں پر تم سوارکیے جاتے ہو”(غافر،80-79)

"کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کےلئے مویشی پیدا کئے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں۔اورہم نے انہیں ان کے لئے مسخر کردیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوئے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں اور ان میں ان کےلئے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے؟”(یس 73-71)

"اور اس نے مویشیوں کو پیداکیا جن میں سے تمہارے لئے گرم پوشاک اور فوائد ہیں اور ان میں سے تم کھاتے بھی ہو”(نحل 05)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکر،ان کی بقا کا انتظام اور ان کی دیکھ بھال لازمی ہوجاتی ہے،اسی لئے حضور اکرمؐ نے وصیت فرمائی ہے کہ :“جب اسے چراگاہ میں اتارا جائے تواسے چرنے دیا جائے، جب پانی کے قریب سے گزرے تو اسے پانی پلایا جائے،اس کے منہ پر نہ مارے کیونکہ وہ اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے،اس کی پیٹھ پر نہ بیھٹےسوائے راہِ خدا میں، اس کی طاقت سے بڑھ کر نہ لا داجائے اور اس کی استعداد سے زیادہ اسے نہ چلایاجائے”

آپؐ نے اس کے علاوہ بھی حقوق مقرر فرمائے ہیں۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرمؐ کی نظر ایک ایسی اونٹنی پر پڑی جس پر گنجائش سے زیادہ سامان لادا گیا تھا توآپؐ نے اس کےمالک کو طلب فرمایا،جب وہ نہیں ملا تو آپؐ نے فرمایا جاؤ اس کو بتادو کہ وہ کل کے بدلے کےلئے تیار ہوجائے"۔

اسی طرح آپؐ سے روایت ہے فرمایا:“۔اور میں جہنم میں ایک بلی کی مالکہ کو دیکھا جو اس کے منہ پر ماراکرتی تھی،اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے زمین میں سے کچھ کھانے بھیجتی تھی اور میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں میں نے ایک کتے کے مالک کو دیکھا جس نے اسے پانی پلایاتھا”۔

علاوہ ازیں حضرت امیرالمؤمنین علی ؑ نے فرماتے ہین کہ :جانوروں سے شفقت سے پیش آؤ،اپنا بوجھ اس پر نہ لادو، لگام سمیت اسے پانی نہ پلاؤاور اس کی برداشت سے زائد اس پر سماان نہ لادو”۔

اسی طرح اسلام نے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایا مگر یہ کہ اس میں کوئی شرعی یا عقلی غرض ہو یا کوئی اور نفع ہو،جس طرح اس کے گوشت،چمڑے، اون یا کسی اور چیز کی خاطر کہ جو ایک مناسب فائدہ شمار ہوتاہے۔ چونکہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: "کسی بھی جانور یا پرندے کو ناحق نہ مارا جائے، اگر ایسا کیاجائے تو مارنے والے کو بروز قیامت سزا ملےگی”۔

امیرالمؤمنین ؑ نے خود کبھی ایسا نہیں کیا اور نہ دسروں کو ایسا کرنے کی اجازت دی بلکہ اسلام نے جانوروں کوڈرانے اوران کو مقابلوں میں پیش کرنے سے منع فرمایا ہے نیز انہیں فخرو مباہات کے طور پر پیش کرنے سے بھی روکا ہے اور ان لوگوں پر لعنت کی ہے جنہوں نے اپنے شکار کی خاطر زندہ مرغی کو کام میں لایا اور نہ رات کے وقت پرندوں کو حفاظت کےلئے ساتھ لانے کی اجازت دی۔

اور پرندوں کے بچوں کو ان کے گھونسلوں سے نہ اٹھایا جائے جبتک وہ اڑنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ ان میں اڑنے کی صلاحیت جب تک نہیں آتی وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتے ہیں۔

جو جنگلی جانور کھانا حاصل نہیں کرسکتے ان کو کھانا فراہم کرنےکےسلسلےمیں امام رضا ؑ نے ان الفاظ میں وصیت فرمائی ہے: "جو کوئی اپنے گھر میں کھانا کھائےاور اس سے کچھ گرے تواسے کھالینا اور جو کوئی صحرا میں یا کسی کھلی جگہ کھائے تواسے گرے ہوئے کھانوں کے ٹکڑوں کو پرندوں اور بے گھر جنگلی جانوروں کےلئےچھوڑ دیناچاہیے۔

جو کوئی کسی شرعی یا کسی اور مقصد کی خاطر کسی حیوان کو ذبح کرنا چاہے تو اسلام نے ذبح کرتے وقت کچھ اخلاقیات کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔ ان میں سے یہ کہ جانور کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا،اس کی آنکھوں کے سامنے سے چھری کو چھپا کے رکھنا،اسے دکھاتے ہوئے نہ باندھنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے وہ خود  ہی مرجائے اور ذبح کرنے میں جلدی کرنا”۔

رسول اکرمؐ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نےتمہارے اوپر ہر چیز کے ساتھ احسان کو واجب قرار دیاہےجب تم جنگ کرو تو بہتر طور پر جنگ کرو اور جب تم ذبح کرو تو بھی بہتر طریقے سے ذبح کرو تمہیں چاہئے کہ چھری تیزکرے اور ذبح تیز کرے اور ذبح کرتےہوئے جانور سے پیارکرے۔

جس طرح حضرت امام زین العابدین ؑ نے جانوروں کو ذ بح کرنے سے قبل اسے پانی پلانے کی تاکید فرمائی ہے ،ان کے نانا نبی اکرم ؐ نے ایسے حیوانوں کو ذبح کرنے سے منع فرمایاہے جس کے چھوٹے بچے ہوں مگر یہ کہ وہ بیمار ہو انہوں نے فرمایا:بغیر کسی سبب کے بچہ رکھنے والے جانوروں کو ذبح کرنا مکرو ہ ہے۔

آپؐ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:ایک ایسے گدے کو دیکھا جس کے اوپر اس کے مالک نے کوئی نشانی لگائی تھی تو آپؐ نے فرمایا کہ جس نے بھی ایسا کیاہے اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔

یہ ایک عظیم انسانی حقوق کے فوری پہلو ہیں جنہیں اسلام نے حیوانوں کے ساتھ مختص کیاہےجسے اسلام نے بہتر طور پر انسان پر فرض کیاہےجو انسان کی عالمگیریت اور اس کے جانوروں کے ساتھ برتاؤ کا بہتریں ثبوت ہے۔

غزہ کے اسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں نے وائٹ ہاؤس کو خط لکھ کر  غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسلحے کی فراہمی  پرپابندی کامطالبہ کیا ہے۔ 

امریکی میڈیا کے مطابق 45 امریکی ڈاکٹرز اور نرسوں کےگروپ نے صدر جوبائیڈن اور نائب صدرکملا ہیرس کوخط لکھا۔

امریکی میڈیا کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ ہم نے غزہ میں جو دیکھا اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے، غزہ میں بچوں کو جان بوجھ کر زخمی کیاگیا، ہم میں سے ہر ایک نے روز ایسے بچوں کا علاج کیا جنہیں سر اور سینے میں گولی ماری گئی۔

دستخط کنندگان کے خط میں کہا گیا ہے کہ چاہتے ہیں آپ وہ ڈراؤنےخواب دیکھیں جو ہمیں واپس آنےکے بعد پریشان کررہے ہیں، خواہش ہے کہ آپ ہمارے ہتھیاروں سے معذور اور زخمی بچوں کے خواب دیکھیں، خواب میں زخمی بچوں کی بے قرار مائیں ہم سے ان کی جان بچانے کی منت کرتی ہیں، آپ وہ چیخیں سن سکیں جو ہمارا ضمیر ہمیں بھولنے نہیں دیتا۔ 

امریکی ڈاکٹرز کا کہنا ہےکہ ہم اسرائیل کے غزہ پرحملےکے انسانی نقصانات پر تبصرےکےلیے اچھی پوزیشن میں ہیں، اسرائیل اور تمام فلسطینی مسلح گروپوں کو اسلحےکی فراہمی پرپابندی لگائی جائے، فوری اور مستقل جنگ بندی تک اسرائیل کی فوجی، سفارتی اور اقتصادی مدد روکی جائے۔ 

رپورٹ کے مطابق امریکی ڈاکٹرز نے اپنے خط میں لکھا کہ امریکی قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ہماری حکومت ایساکرنےکی پابند ہے۔ 

 
 
Saturday, 27 July 2024 14:03

نہ اولمپکس نہ آدم کشی

فرانس میں 2024ء کے اولمپکس کے موقع پر، اولمپکس گیمز میں صیہونی حکومت کی ٹیم کی شرکت کی عالمی مخالفت میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور اسرائیل کو ان مقابلوں سے باہر کرنے کے لیے "نو اولمپکس، نو جینوسائیڈ"  "no Olympic  no genocide" جیسی مہم شروع کی گئی۔ غزہ پٹی پر صیہونی نسل کشی کو 10 ماہ گزر چکے ہیں۔ 39 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 90 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی خواتین اور بچے ہیں۔ صہیونیوں کے جرائم کے خلاف مختلف ممالک میں مظاہرے کیے گئے، لیکن عالمی طاقتوں نے ان مظاہروں سے لاتعلقی کا مظاہرہ کیا۔ اب پیرس اولمپکس کے باضابطہ آغاز کے موقع پر فرانس کے مختلف شہروں سمیت پوری دنیا میں صیہونیوں کے خلاف مظاہرے بڑھ گئے ہیں۔

پیرس اولمپک میں فٹبال کے مقابلوں میں ایک میچ میں اسرائیل اور مالی کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں۔ میزبان ملک فرانس کے لیے اس گیم کے اہم خدشات میں سے ایک میچ کے دوران اسرائیلی کھلاڑیوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔ کھیل کا آغاز پیرس کے پارک ڈی پرنس اسٹیڈیم کے باہر سکیورٹی فورسز کی بڑی موجودگی سے ہوا۔ اسرائیلی ٹیم کے ارکان پولیس کی بھاری نفری کی نگرانی میں پہنچے، جن کے آگے موٹر سائیکل سوار تھے اور ان کے پیچھے فسادات پر کنٹرول کرنے والی اینٹی ٹیریسٹ پولیس کی کئی گاڑیاں تھیں۔ مسلح پولیس اہلکار سٹیڈیم میں گشت کر رہے تھے، لیکن سٹیڈیم کے باہر کا ماحول پرسکون تھا۔

مالی کے شائقین نے فخر سے اپنا قومی ترانہ گایا، لیکن جب اسرائیل کے ترانے کی باری آئی تو فوراً ہی ہوٹنگ اور سیٹیاں بجنے لگیں۔ اسٹیڈیم میں ترانے بجانے والے اسپیکر سسٹم نے اپنی آواز کو غیر معمولی بلند کرکے اسٹیڈیم میں موجود ہجوم کے شور کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن اسرائیل کے خلاف نعروں کی گونج کم نہ ہوسکی۔ غزہ کے عوام بالخصوص خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں اور فلسطینی کھیلوں کی برادری کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم وہ اہم وجہ تھی، جس کی وجہ سے اولمپکس کے عالمی کھیلوں کے مقابلے میں صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

صیہونیوں کے جرم کے نتیجے میں فلسطین میں 350 کھلاڑی، ریفری اور کھیلوں کے کارکن شہید ہوئے ہیں جبکہ صیہونی حملوں میں کھیلوں کی پچپن عمارتیں زمین بوس ہوگئیں اور کئی اسٹیڈیمز کو حراستی مرکز میں تبدیل کر دیا گیا۔اولمپک مقابلوں کے اندر اور باہر جہاں لوگ صہیونیوں کے مظالم اور جرائم پر احتجاج کر رہے ہیں، وہیں بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کی کھلی اور ننگی منافقت پر بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ غزہ میں واضح نسل کشی کے باوجود فرانسیسی اولمپکس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کی موجودگی کو درست قرار دیا گیا جبکہ تقریباً دو سال قبل یورپی فٹ بال یونین (UEFA) نے روسی کلب ٹیموں کے یورپی مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ روس کی قومی فٹ بال ٹیم کو قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ سے باہر کر دیا گیا تھا۔

سویڈن سے تعلق رکھنے والی سیاسی ماہر اور انسانی حقوق کی محافظ "ہیلن سلرٹ" نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی جنوبی افریقہ، بیلاروس اور روس کے کھلاڑیوں پر پابندیاں لگانے کی تاریخ رکھتی ہے، لیکن غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی بات نہیں کرتی۔ اس سے مغربی دنیا کی منافقت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک فلسطینی سیاسی تجزیہ کار کامل ہاووش نے بھی کہا کہ اگر کھلاڑیوں کو اسرائیلی حریفوں کے خلاف کھیلنے سے انکار پر کسی طرح کی پابندی عائد کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نہ صرف اسرائیل کو اولمپکس میں شرکت کی اجازت دے رہی ہے بلکہ وہ اسرائیل کے جرائم کی مخالفت کرنے والوں کو بھی سزا دینے پر تلی ہوئی ہے۔

امن کارکن اور آئرش اسپورٹس کمیونٹی کی رکن ربیکا او کیف نے بھی کہا ہے کہ اولمپکس کھیل میں اسرائیل کے جرائم کو دھویا جارہا ہے، تاکہ غزہ میں ہونے والی نسل کشی پر پردہ ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم کیا جاسکے، لیکن دوسری طرف نیشنل اولمپک کمیٹی صرف روس پر پابندیاں لگانے پر مرکوز ہے۔ فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن تھامس پورٹس نے بھی کہا ہے کہ فرانسیسی سفارت کاروں کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اسرائیلی پرچم اور ترانہ بجانے پر پابندی عائد کرے، جیسا کہ روس کے خلاف کیا جاتا رہا ہے۔
تحریر: سید رضی عمادی
 
 
 

اسلامی ثقافت کی تاریخ اور مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے تحقیق کاروں کے لئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کی خصوصیات نے بہت سارے ممالک اور شہروں میں رہنے والوں پر بہت سے آثار مرتب کئے ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور ان کے آثار کو دیکھ کر لوگوں میں نہ صرف روحانی اعتبار سے تبدیلی آئی ہے بلکہ ان کی سوچ، فکر اورسماج پر ایک واضح تبدیلی آگئی ہے۔

دین اسلام تمام مذاہبِ عالم سے کامل و جامع اور آخری دین ہے۔ اس آخری اور کامل دین کے آثار ہر جگہ موجود ہیں۔ چونکہ ثقافت ِ اسلامی جامعیت اور جدیدیت پر مشتمل ثقافت ہے اس لئے دنیا میں موجود دیگر ثقافتوں کی نسبت اسلامی ثقافت میں وسعت پائی جاتی ہے۔ یہ ثقافت انسانی رویوں، عادتوں، ذاتی، اجتماعی اور اخلاقی پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے۔  دین اسلام کے  پیرو کار  ہمیشہ احکام خداوندی  کی تعمیل  کے ساتھ  ان حقیقی راہوں پر گامزن ہوکر ان خصوصیات کو اپنے اندر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رضایت شامل ہو۔اسی لئے مسلمانوں کی نشست و برخاست اور اطاعت و بندگی غرض ان کے ہر سماجی و اخلاقی افعال میں ایک اعلیٰ رنگ نمایاں نظر آتا ہے، اس کو ثقافت اسلامی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ثقافت بھی الٰہی حکم کی تکمیل کا ایک حصہ ہے۔سماج میں مل جل کر بیٹھنے اور اسلام کی اصل راہوں پر چلنے سے اس معاشرے میں موجود دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی فکری، عملی زندگی میں نہ صرف تبدیلی آجاتی ہے بلکہ قلبی طور پر وہ لوگ متاثر ہوکر انہی اسلامی راہوں اور تقاضوں کو اپنالیتے ہیں اور اس سے ایک بڑا مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اسلامی ثقافت ایک مستحکم، لازوال اور فطرت سے ہم آہنگ ثقافت ہے اس لئے یہ کبھی بھی ختم یا معدوم نہیں ہو سکتی۔ جبکہ دیگر ثقافتوں میں  کوئی دوام و بقا نہیں پائی جاتی۔ اسلامی ثقافت دین اسلام کی طرح جامع اور لافانی ثقافت ہے۔ اس کی بنیاد عدل و انصاف اور شعورپر قائم ہے۔ مرور زمن کے ساتھ جدید رنگوں، اصولوں اور خیالوں کو منظم انداز میں اپنے اندر شامل کرنے کی وسعت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلامی ثقافت مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے بھی قابل قبول ہے۔ جبکہ دیگر ثقافتوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو وہ صرف اپنی اقوام وغیرہ کے ساتھ محدود نظر آتی ہیں۔ آخر الامر ان اقوام اور زمانوں کے گزرنے کے ساتھ  یہ تمام غیر اسلامی ثقافتیں معدوم ہوجاتی ہیں۔

اگر ہم اسلامی ثقافت کو دیگر ثقافتوں سے موازنہ کرے تو ہمیں واضح ہوتا ہے کہ اسلامی ثقافت میں کوئی جبرو اکراہ کا پہلو نہیں ہے۔ اسی لئے غور و فکر کرنے والے  لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن دیگر ثقافتوں سے لوگ نالاں اور گریزاں نظر آتے ہیں۔ اسلامی ثقافت، جس میں آزادی اور انسانیت کی عظمت اور فلاح کے لئے اصول پائے جاتے ہیں اور دوسری ثقافتوں میں ظلم و بربریت وغیرہ کا پہلو نمایاں نظر آتا  ہے۔ اسلامی ثقافت کی عمارت توحید کی بنیاد پر قائم ہےاس میں ذاتی اور اجتماعی عادات واطوار کے اصول منظم طریقے سے مرتب کئے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری ثقافتوں کی بنیاد جبر، ظلم اور ستم پر ہوتی ہے اور اس کا انجام و عاقبت اچھی نہیں ہوتی۔

اسلامی ثقافت اخلاق سے آراستہ ہے اور اخلاق کی نسبت سے ہی وہ ممتاز ہے۔ دنیا کے کسی ایسے معاشرے میں جہاں قانون ناپید ہو اور اخلاقی قدریں روبہ زوال ہوں وہاں اسلامی ثقافت کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔اسلامی ثقافت کی ایک خوبی خوشدلی ہے یعنی انفرادی واجتماعی تعلقات میں سامنے والے کو خوشحالی کے ساتھ قبول کرنا ہے۔جبکہ دیگر ثقافتیں پستی اور قید کاشکار ہیں جو انفرادی طور سے منفی اثرات مرتب کرتی ہے،بلکہ یہ اپنے ماننے والوں کے لئے دوسروں کے خلاف اس طرح بدگمانی پیداکرتی ہے۔

اسلامی ثقافت کے اندر یکساں روحانی وجسمانی توازن کا تصور موجود ہے جودراصل دین اسلامی کا معیار ہے۔یہاں روح جسم سے الگ نہیں ہے اورنہ ہی بشری جسم کو روح پر کوئی فوقیت حاصل ہے،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں کے اپنے حقوق موجود ہیں بشری تقاضے کے مطابق جس کے اثرات اس کے ماننے والوں پرجسمانی اور روحانی اعتبار سے پڑتے ہیں ،جو انسان کی ضروریات کے توازن قائم کرتا ہے۔ دین اسلام جہاں دنیا سنوارنے کی تاکیدکرتا ہے وہاں آخرت کی درستگی اور خیر کی آرزو رکھنے پر بھی زور دیتا ہے۔ دین اسلام اپنے والوں کوایک بہترین امت قرار دیتا ہے۔جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔

تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح) کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔آل عمران:110۔