سلیمانی

سلیمانی

Tuesday, 17 September 2024 05:54

ہائپرسونک طمانچہ

یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ نے غزہ جنگ کے بعد پہلی بار غاصب صیہونی رژیم کے مرکز تل ابیب کو کامیابی سے ہائپرسونک بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں تل ابیب سے بیت المقدس جانے والے ریلوے ٹریک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کامیاب میزائل حملے نے صیہونی حکمرانوں کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی طاقت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ تل ابیب پر انصاراللہ یمن کے میزائل حملے کے بارے میں صیہونی کابینہ کے اکثر اراکین کی خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جعلی رژیم کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس شکست کے مختلف پہلو واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر یحیی سریع نے اعلان کیا کہ یمن نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین میں یافا (تل ابیب کا پرانا نام) کو ہائپرسونک میزائل سے نشانہ بنایا ہے۔
 
عنقریب بڑے سرپرائز آنے والے ہیں
انصاراللہ یمن کے اس میزائل حملے کے پیغامات واضح ہیں۔ صیہونی دشمن کو عنقریب منفرد فوجی کاروائیوں کیلئے تیار رہنا چاہئے جبکہ طوفان الاقصی کی پہلی سالگرہ بھی قریب ہے۔ انصاراللہ یمن کے بقول دشمن کو الحدیدہ بندرگاہ پر اپنے مجرمانہ اقدام کی سزا کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ اگرچہ انصاراللہ یمن نے تل ابیب پر داغے گئے ہائپرسونک میزائل کے نام کا اعلان نہیں کیا لیکن کچھ ماہ پہلے یمن کی مسلح افواج نے حاطم 2 نامی ہائپرسونک میزائل متعارف کروایا تھا اور وہ اس میزائل کو بحیرہ عرب میں صیہونی کشتی MSC SARAH کو نشانہ بنانے میں بروئے کار بھی لا چکی ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ نے کل صبح اعلان کیا تھا کہ انہوں نے تل ابیب شہر کے قریب یمن کا ایک بیلسٹک میزائل دیکھا اور بڑی تعداد میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا۔ صیہونی میڈیا کے مطابق اس میزائل نے یمن، سعودی عرب، اردن اور اسرائیل کی فضائی حدود میں 2 ہزار کلومیٹر کا سفر صرف 11 منٹ میں طے کیا۔
 
صیہونیوں کی جانب سے بڑی شکست کا اعتراف
صیہونی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یمن کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائل کی جانب فضائی دفاع کے 20 میزائل فائر کئے گئے لیکن وہ اس ہائپرسونک میزائل کو مار گرانے میں ناکام رہے اور وہ میزائل تل ابیب تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ یمن کا یہ میزائل تل ابیب کے بن گورین ایئرپورٹ کے قریب آ لگا۔ یہ فوجی کاروائی ظاہر کرتی ہے کہ انصاراللہ یمن مقبوضہ فلسطین میں ہر مقام کو نشانہ بنانے کی طاقت رکھتی ہے جبکہ اسرائیلی میزائل ڈیفنس سسٹم یمنی میزائلوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ صیہونی فوج نے اس ناکامی کے بعد وسیع پیمانے پر تحقیقات انجام دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اسی طرح حملے کی اطلاع ملنے کے بعد 20 لاکھ صیہونی شہریوں کو پناہ گاہوں میں گھس جانا بھی اسرائیلی تاریخ میں بے مثال ہے۔
 
تاریخی کاروائی کے پیغامات
انصاراللہ یمن کی اسرائیل کے خلاف اس عظیم فوجی کاروائی میں درج ذیل چھ پیغامات پوشیدہ ہیں:
1)۔ آج کے بعد مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کیلئے کوئی محفوظ مقام باقی نہیں رہا اور اسلامی مزاحمت کے میزائل ہر وقت اور ہر جگہ صیہونی رژیم کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
2)۔ اسلامی مزاحمتی بلاک نہ صرف صیہونی دشمن کے خلاف ذہانت آمیز، فیصلہ کن اور سرپرائز دینے والے فوجی حربے سیکھ چکا ہے بلکہ میدان جنگ میں انہیں بروئے کار بھی لا رہا ہے۔
3)۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے صیہونی رژیم کے مرکز تک فوجی کاروائیاں انجام دینے کا وعدہ پورا ہوا ہے اور آئندہ بھی پورا ہوتا رہے گا۔ یمن کے وزیر دفاع نے اس بارے میں کہا تھا: "غاصب صیہونی رژیم ہماری طاقت محسوس کرے گا اور یمن پر جارحیت کا بھاری تاوان ادا کرے گا۔ ہم مقبوضہ فلسطین میں اپنے اہداف واضح کر چکے ہیں جبکہ ہمارے پاس ان اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے کافی حد تک فوجی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔"
 
4)۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر جدید ہتھیاروں کے ذریعے مزاحمتی کاروائیاں انجام دینے کی صلاحیت نے باطل کے خلاف حق کا پلڑا بھاری کر دیا ہے۔ یمن کی جانب سے تل ابیب پر ہائپرسونک میزائل سے حملہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی فوجی صلاحیتیں کس حد تک ہیں اور اس نے محض 11 منٹ میں مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنایا ہے۔
5)۔ یہ فوجی کاروائی اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی کئی پہلووں پر مشتمل شکست عیاں کرتی ہے۔ یمن کی جانب سے فائر کیا گیا ہائپرسونک میزائل 15 فضائی دفاعی نظاموں سے عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ صیہونی چینل 13 کے بقول یمن کے میزائل نے نہ صرف اسرائیل کے میزائل ڈیفنس سسٹمز کو شکست دی ہے بلکہ امریکہ اور عرب ممالک اور بحیرہ احمر میں اس کے اتحادیوں کے میزائل ڈیفنس سسٹمز سے بھی عبور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
 
6)۔ یمن کی جانب سے حالیہ میزائل حملہ مقبوضہ فلسطین میں جاری جنگ اور اس سے متعلقہ امور پر گہرا اثر ڈالے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاراللہ یمن کا یہ حملہ خطے کے حالات میں بھی بنیادی تبدیلیاں رونما کرے گا۔ غاصب صیہونی رژیم کچھ دن پہلے تک خود کو لبنان پر وسیع فوجی جارحیت کیلئے تیار کر رہی تھی لیکن اب اس میزائیل حملے کے بعد اور اپنے میزائل ڈیفنس سسٹم کی عدم افادیت آشکار ہو جانے کے بعد اسے لبنان پر حملہ کرنے سے پہلے بہت سی چیزوں کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ وہ جان چکی ہے کہ اگر لبنان کے خلاف جنگ شروع کرتی ہے تو اسے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے فوری اقدامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مختصر یہ کہ حوثی مجاہدین کی جانب سے اس شاندار اور فخرآمیز فوجی کاروائی نے صیہونی رژیم کی کمزوری عیاں کر دی ہے اور اب صیہونی رژیم شدید اسٹریٹجک، علاقائی اور جنگی ڈیڈلاک کا شکار ہو چکی ہے۔
 
 
تحریر: محمد علی زادہ
Tuesday, 17 September 2024 05:51

امریکہ میں خودسوزیاں

میٹ نیلسن نامی امریکی شہری نے غزہ جنگ کے جاری رہنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگالی۔ بدھ 11 ستمبر کو نیلسن نے بوسٹن میں اسرائیلی قونصل خانے کے بالکل سامنے فور سیزنز ہوٹل کے باہر خود کو آگ لگا لی۔ اس امریکی شہری نے یہ اقدام غزہ پٹی کے خلاف جاری جنگ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں 41 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور اس حکومت کے ساتھ امریکہ کی ملی بھگت پر احتجاج کیا ہے۔ نیلسن نے اس واقعے سے پہلے جو ویڈیو شائع کی، اس میں اعلان کیا ہے کہ میرا نام میٹ نیلسن ہے اور میں سخت احتجاجی کارروائی کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب غزہ میں جاری نسل کشی کے ذمہ دار ہیں، اس احتجاج کا مقصد امریکی حکومت سے صیہونی حکومت کی مالی امداد بند کرنے کی درخواست کرنا ہے، جو کہ بے گناہ فلسطینیوں کو قید کرنے اور قتل کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔

نیلسن نے غزہ پٹی میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے صیہونی حکومت پر دباؤ ڈالنے پر بھی زور دیا۔ انہوں  نے اس بات پر زور دیا کہ "جمہوریت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کی مرضی کے مطابق ہو نہ کہ امیروں کے مفادات کے لیے۔ "اقتدار سنبھالو اور فلسطین کو آزاد کرو۔" نیلسن سے پہلے تین دیگر امریکی شہریوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور صیہونی حکومت کے جرائم اور اسرائیل کو بائیڈن حکومت کی جامع حمایت کے خلاف احتجاج میں خود سوزی کا ارتکاب کیا ہے۔ غزہ میں جنگ کے جاری رہنے اور امریکی حکومت کی اسرائیل کی حمایت میں یکطرفہ پالیسی کے خلاف احتجاج میں امریکیوں کی جانب سے خود سوزی کے اہم واقعات میں سے ایک 25 سالہ امریکی فضائیہ کے جوان کی موت کا بھی ہے۔ آرون بشنیل نامی اس افسر نے اتوار 25 فروری 2024ء کی سہ پہر کو غزہ جنگ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے واشنگٹن میں صہیونی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا لی تھی۔

یہ اقدام دنیا کے گرم ترین موضوعات میں سے ایک بن گیا ہے اور غزہ کے لوگوں کے مصائب کو واضح طور پر اجاگر کرنے کا باعث بنا۔ اس امریکی فوجی کی خود سوزی اور اس کے ردعمل کو غزہ کے عوام پر ظلم و ستم اور صیہونی حکومت کی جارحیت اور غزہ پٹی میں جاری نسل کشی کے تحت فلسطینی مزاحمت کے بہاؤ کی ایک اور علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فوجی وردی میں ملبوس بشنیل نے آن لائن نشر ہونے والے ریمارکس میں کہا، "میں اب نسل کشی کا ساتھی نہیں رہوں گا۔" اس کے بعد، اس نے اپنے آپ پر ایک مائع ڈالا اور خود کو آگ لگاتے ہوئے "آزاد فلسطین" کے نعرے لگائے۔ اس نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا: "ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے آپ سے یہ پوچھنا پسند کرتے ہیں: "اگر غلامی کے دور میں ہوتے تو کیا کرتے۔ اگر میرا ملک نسل کشی کرتا ہے تو میں کیا کروں گا۔؟

بشنیل کے آخری الفاظ تھے "میں احتجاج کا ایک انتہائی اقدام کرنے والا ہوں۔" لیکن فلسطین کے لوگوں نے اپنے نوآبادکاروں کے ہاتھوں جو تجربہ کیا ہے، اس کے مقابلے میں یہ کوئی انتہائی اقدام نہیں ہے۔ ہمارے حکمران طبقے نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ یہ معمول کا حصہ ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے بارہا صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ جنگ کے دوران فلسطینیوں کی نسل کشی کی تردید کی ہے۔ ان میں وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں کے باوجود جو بائیڈن کی حکومت اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل کو نسل کشی نہیں سمجھتی۔ سلیوان نے مئی 2024ء کے وسط میں وائٹ ہاؤس میں کہا کہ امریکہ حماس کی شکست دیکھنا چاہتا ہے: ہم نہیں مانتے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نسل کشی ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر امریکہ نے اس حکومت کی طرف سے غزہ کی جنگ کے دوران نسل کشی کی تردید کی ہو۔نومبر 2023ء کے اوائل میں جب غزہ جنگ کے آغاز کو ایک مہینہ گزر چکا تھا، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صہیونیوں کے جرائم کی حمایت میں نسل کشی نہیں ہے۔ بلاشبہ گذشتہ چند مہینوں میں غزہ کے شہداء اور زخمیوں بالخصوص بچوں اور خواتین کی تعداد 41 ہزار سے زائد تک پہنچنے کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے بظاہر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی پروگرام کے مسودے میں، جو جولائی کے وسط میں شائع ہوا تھا، میں غزہ میں "فوری اور دیرپا جنگ بندی" اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس میں غزہ کے چالیس ہزار سے زائد باشندوں، جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں ہے، جو حالیہ جنگ کے دوران شہید ہوئے اور نہ ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی امداد محدود کرنے کی ضرورت کا ذکر ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکہ نے حال ہی میں اسرائیل کو مزید 20 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔ صیہونی حکومت کو امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کے باوجود اس حکومت نے غزہ جنگ میں جنگ بندی کی امریکی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس تمام کے باوجود بائیڈن حکومت اور سینیئر امریکی حکام نے محض انتباہات کا اظہار کیا ہے، جو تل ابیب کے لیے غیر موثر ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا استعمال نہیں کر رہا، جس کے خلاف امریکہ میں ردعمل پایا جا رہا ہے اور لوگ خود سوزیاں کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

تحریر: سید رضا میر طاہر

اسلام ٹائمز۔ تحریکِ بیداری امتِ مصطفیٰؐ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے ایک اہم بیان میں کہا کہ پیغمبر اعظم ﷺ کی ولادت ان برکتوں کا نقطئہ آغاز ہے جو اللہ نے بشریت کیلئے مقدر فرمائی ہیں۔ آج کے دن آپ ﷺ کے سامنے سب سے بہترین ہدیہ یہ ہوگا کہ امت مسلمہ کا ہر طبقہ، خواہ وہ شیعہ ہو، سنی ہو، دیوبندی، اہلحدیث یا مشائخ، سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عہد کریں کہ یا رسول اللہ! ہم آپ کی امت ہیں اور آپ کی خاطر اپنی باہمی دشمنیوں کو دفن کر چکے ہیں۔

علامہ سید جواد نقوی نے اس بات پر زور دیا کہ تفرقہ کسی کا مذہب نہیں بلکہ ایک کاروبار ہے۔ تفرقے کی بات کرنا یا تفرقہ پھیلانے والوں کی حمایت کرنا امت اور اسلام کیساتھ کھلی دشمنی ہے۔ مذہب کے نام پر فرقہ واریت ایک سنگین جرم ہے۔ امت مسلمہ کی بقاء کی بنیاد توحید اور قرآن کے محور پر اتحاد میں ہے، جبکہ طاغوتی اور استعماری طاقتوں کی بقاء بشریت کے درمیان تفرقے اور جدائی پر منحصر ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتہ وحدت کی مناسبت سے ایران بھر کے اہل سنت ائمہ جمعہ اور مدارس کے سربراہان سے ملاقات کی اور امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ دشمن امت اسلامی کا تشخص مٹانے کی مذموم سازش کررہے ہیں لہذا اس موضوع کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ امت اسلامی کا تشخص برقرار رکھنا قومی تشخص سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں امت اسلامی کے تشخص کو ختم نہیں کرسکتی ہیں۔ دشمن مسلمانوں کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ غزہ اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی مشکلات سے دوسرے مسلمانوں کو درد محسوس نہ ہونا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

رہبر معظم نے اہل سنت علماء کو اسلامی تشخص پر تکیہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دشمن عالم اسلام مخصوصا ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ دشمن اسلامی ممالک میں مختلف وسائل استعمال کرتے ہوئے شیعہ اور سنی کے درمیان جدائی ڈالنے میں مصروف ہیں۔ اس کام کے لئے بعض افراد کو دوسرے فرقے کے بارے میں بدگوئی اور توہین جیسے کاموں کے لئے تیار کررہے ہیں۔

انہوں نے ان سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے وحدت اور اتحاد پر تاکید کی اور کہا کہ وحدت قرآنی اصولوں میں سے ایک ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن کی سازشوں کے باوجود اہل سنت برادری نے بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ دفاع مقدس کے دوران اور دیگر مواقع پر 15 ہزار سے زائد اہل سنت حق اور انقلاب کی حفاظت کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امت اسلامی کی عزت بچانے کا طریقہ اتحاد ہے۔ آج غزہ اور فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت قطعی واجبات میں سے ہے۔ اگر کوئی اس وظیفے پر عمل کرنے میں سرکشی کرے تو اللہ اس سے ضرور سوال کرے گا۔

ملاقات کے دوران سیستان و بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اہل سنت عالم دین مولوی عبدالرحمن چابھاری، ہرمزگان سے تعلق رکھنے والے مولوی عبدالرحیم خطیبی اور مغربی آذربائجان سے تعلق رکھنے والے ماموستا عبدالسلام امامی نے بھی گفتگو کی اور اہل سنت برادری کی حمایت اور امت مسلمہ کی وحدت کے لئے کوششوں پر رہبر معظم کا شکریہ ادا کیا اور تکفیری افکار اور انتہاپسندی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ؤ

ارنا کے مطابق صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے آج پیر کو  اپنی پہلی پریس کانفرنس میں 300 سے زائد ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں سے کہا کہ مجھ سے سوال کیا  جارہا تھا کہ پریس کانفرنس کیوں نہیں کررہے ہیں میں کہتا تھا کہ کچھ کام کرلوں اس کے بعد پریس کانفرنس کروں گا۔

 انھوں نے کہا کہ پہلی پریس کانفرنس کے لئے جس دن کا انتخاب کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے نظریئے سے مطابقت رکھتا ہے ، یہ ہفتہ وحدت کے آغاز کا دن ہے اور میرا نظریہ، یہ ہے کہ اس ملک میں رہنے والے سبھی لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ قومیت اور نسل سے ماورا ہوکر اپنی توانائی اور صلاحیتوں کے مطابق ان کو جگہ ملے ۔

 انھوں نے کہا کہ رسول خدا جب مدینے پہنچے ہیں تو اس وقت اہل مدینہ میں کافی اختلافات تھے۔

انھوں نے کہا کہ حضرت علی نے فرمایا کہ ہے کہ سارے انسان، آدم سے لے کر آج تک ایک کنگھی کے دندانوں کی طرح ہیں۔ کسی بھی عرب کو عجم پر یا گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے،اسلام میں صرف اس کو برتری حاصل ہے جس کا تقوی زیادہ ہے۔  

انھوں نے کہا کہ ہم نے اتحادویک جہتی کو اپنے کام کی بنیاد قرار دیا ہے اور قومی وفاق کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔

 صدر مملکت نے اس پریس کانفرنس میں پارلیمان کے تعاون کا ذکر کیا اور اس کی قدردانی کی۔

صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی بہت مدد کی ہے جس کے نتیجے میں ہم قومی وفاق کی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

صدر مملکت نے ایک نامہ نگار کے اس سوال کے جواب میں کہ ان کی حکومت عوام کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں کیسے کامیاب ہوگی، کہا  کہ پابندیوں کے خاتمے کے لئے ہم ایف اے ٹی ایف کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔   

انھوں نے دنیا سے ایران کے روابط کے بارے میں  کہا کہ ہم ترجیحی بنیاد پر پہلے اپنے پڑوسیوں سے روابط مزید بہتر کریں گے ۔

صدرڈاکٹر مسعود پزشکیان نے اس حوالے سے اپنے دورہ عراق کا ذکر کیا اور کہا کہ بغداد اورعراق کے کردستان ریجن کے حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ اپنے مشترکہ اسٹریٹیجک منصوبوں  اور پروگراموں کو تحریر میں لائیں اور ان کے مطابق آگے بڑھیں۔   

 صدر ایران نے کہا کہ یہی طرزعمل اور راستہ ہم  پاکستان، ترکمنستان ، آذربائیجان اور ترکیہ نیز دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ روابط کے تعلق سے بھی اپنائیں گے۔

   انھوں نے چین کے نامہ نگآر کے سوال  کے جواب میں کہا کہ اس وقت ہمارے روابط چین، روس اور دیگر پڑوسی ملکوں کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔

صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے ایک نامہ نگار کے سوال کے جواب کہا کہ میرے ذہن ميں ہمیشہ یہ بات رہی ہے کہ ہم مسلمان ملکوں کے باہمی روابط ایسے کیوں نہ  ہوں کہ دوسرے انہیں حسرت کی نگاہ سے دیکھیں۔

انھوں نے کہا کہ رسول نے فرمایا ہے کہ مسلمین ایک دوسرے کے بھائی ہیں تو ہمارے درمیان تعلقات کے فروغ میں یہ سرحدیں کیوں حائل رہیں؟ وہ اپنی حکومت اور اپنا قومی اقتدار اعلی رکھیں اور ہم اپنی حکومت اور اپنا قومی اقتداراعلی رکھیں لیکن مثال کے طور جو لوگ پاکستان، افغانستان، قزاقستان میں یا ایران میں ہیں وہ آسانی کے ساتھ ٹرین میں بیٹھ کر نجف، کربلا،مکے ، مدینے اور استنبول کیوں نہیں جاسکتے؟

انھوں نے کہا کہ اگر ہم نے آپس میں ایک دوسرے کے ہاں آمدورفت کو آسان بنادیا یعنی ایک دوسرے کے سلامتی کی حفاظت کو یقینی بنادیا اور اس طرح اپنے اقتصادی اور ‍ثقافتی روابط کو توسیع دی ، اپنے بازاروں کو ترقی دی اور ہمارا نقطہ نگاہ اور ہماری بات ایک ہوگئ تو ہم ان کے مقابلے میں ڈٹ جائيں گے جو ہمارے خلاف کچھ کرنا چاہیں گے۔

صدر ایران نے الجزیرہ کے نامہ نامہ گار کے اس سوال کے جواب ميں کہ کہ ماہرین کہتے ہیں کہ ایران نے انصاراللہ یمن کو ہائپر سونک میزائل دیئے ہیں یا یمنیوں کو اس کی ٹیکنالوجی دی ہے، کیا ایران نے غزہ اور اسرائیل کی جںگ کے دوران یمن کو ہائپر سونک میزائل  دیئے ہیں کہا کہ یمن تک افرادی قوت پہنچنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں سے یمن  میزائل پہنچ جائيں اور انہیں نظر بھی نہ آئيں؟

ڈاکٹر پزشکیان نے کہا کہ یمن نے جس نوعیت کا ہائپر سونک میزائل اسرائیل کے خلاف استعمال کیا ہے، وہ ہمارے پاس  نہیں ہے۔

 انھوں نے کہا کہ یمنیوں نے جو دفاعی  توانائی اپنے اندر پیدا کرلی ہے وہ ایک دو دن، چند ہفتے حتی ایک سال دوسال میں بھی ممکن نہیں ہے۔ ایک سال کی جںگ  میں بھی یہ توانائی حاصل نہیں ہوسکتی۔

صدر ایران نے کہا  کہ ہمارے اندر ہم آہنگی پائی جاتی ہے، ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں،اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کی نسل کشی پر معترض ہیں اور اس حوالے سے ہمارا نظریہ ایک ہے۔

 انھوں نے کہا کہ اسرائلی حکومت دنیا والوں کی نگاہوں کے سامنے مظلوم فلسطینی عوام کا قتل عام اور ان کی نسل کشی کررہی ہے اور کوئی اعتراض بھی نہیں کررہا ہے۔ اگر مغرب کو اسرائیل کی سلامتی کی فکر ہے تو غزہ اور فلسطین کی فکر کیوں نہیں ہے؟

صدر ایران ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ دنیا کو اس بات کی اجازت نہيں دینا چاہئے کہ  ایک گروہ (صیہونیوں کا گروہ) بے گناہ عوام کی نسل کشی کرے۔ اس کے بجائے انہیں اس کی فکر ہے کہ ایران نے یمن کو میزائل دیئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مغرب اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران یمن کو میزائل دے ہی نہیں سکتا۔ ہمارے پاس میزائلی توانائی ہے لیکن ہم نے یمن کو میزائل نہیں دیئے ہیں۔

صدر ایران نے کہا کہ جنگ سے پہلے ہی یمن نے میزائل بنانے کی توانائی حاصل کرلی تھی۔

  ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ طاقت کے مقابلے میں طاقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ہمیں اپنے عوام اور ملک کی سلامتی کے تحفظ کے لئے دفاعی طاقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے کبھی بھی جنگ شروع نہیں کی ہے ۔ آپ گزشتہ 200 سال کی تاریخ دیکھیں۔

صدر ایران نے کہا کہ  عوام کے دفاع کے لئے جو دفاعی طاقت ہم نے حاصل کی ہے اس کو باقی رکھیں گے الایہ کہ سبھی اپنے اسلحے ختم کردیں۔

 انھوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اتحاد ہونا چاہئے اختلاف نہیں۔ ہر ایک کو اس کا حق ملنا چاہئے۔ پڑوسیوں سے ہم یہی کہتے ہیں کہ گفتگو کریں لڑائی نہ کریں۔

 انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم دنیا سے گفتگو اور معاملہ کریں گے تو اپنے دوستوں کو فراموش کردیں گے۔

 صدر ایران نے کہا کہ روس بھی ہمارا پڑوسی ہے ۔ اس کے ساتھ ہمارے اقتصادی سماجی اور اسٹریٹیجک روابط ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ شہید رئیسی کا جو نقطہ نگاہ تھا ہم اس کو آپریشنل کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ علاقائی اور برکس کے رکن ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہوں گے اور جو غیر منصفانہ پابندیاں ہم پر لگائی گئی ہیں وہ موثر نہیں ہوں گی۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان  نے کہا کہ ہم دوسروں سے اختلاف رکھنا اور روابط منقطع کرنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں یہ بھی منظور نہیں ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ زور زبرستی کرے ۔ ہم زور زبرستی ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

 صدر ایران نے کہا کہ ہم امریکا کے دورے کا پروگرام بنارہے  ہیں اور اپنے عوام کے حقوق کا دفاع کریں گے۔

صدر ایران نے اس دورے میں ، امریکی صدر سے ملاقات کے امکان کے بارے  میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ پہلے وہ اپنا خلوص نیت ثابت کریں اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنے وعدوں کے پابند ہیں یا نہیں کیونکہ انھوں نے ہم پر سارے راستے بند کردیئے ہیں ۔

   ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ امریکیوں  کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہم سے دشمنی نہیں رکھتے۔ ہم نے ان کے ملک کے اطرف میں فوجی اڈے نہیں بنائے ہیں اور ہم نے ان پر پابندیاں نہیں لگائی ہیں بلکہ ہم امریکی عوام کو بھائي سمجھتے ہیں۔

 انھوں نے مسلمان اور دوست ملک مصر کے بارے میں کہا کہ پہلی فرصت میں مصر کے صدر اور وزرا اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے ۔  ہم مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ شیطان ہماے درمیان تنازعہ پیدا کرتا ہے۔

صدر ایران نے ایٹمی مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ہم اب بھی معاہدے کے پابندی ہیں، وہ خود اس کے پابند نہیں ہیں۔  یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم عمل کریں اور وہ عمل نہ کریں۔

ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم  نے قانونی دائرے کے اندر عمل کیا انھوں نے اس کو پھاڑا۔ ہم نہ لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ایٹمی اسلحہ بنانا چاہتے ہیں۔  لیکن ہمیں یہ ہرگز منظور نہیں ہے کہ کوئی ہم سے زور زبرستی کرے ۔ ہمیں یہ بھی منظور نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کو سر تا پا مسلح کریں۔

صدر ایران نے کہا کہ یہ نہيں ہوسکتا کہ ہم جب بھی بات کریں وہ کہیں کہ ہم ماریں گے وہ ماریں گے تو ہم بھی ماریں گے۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل اسی طرح نسل کشی کررہا ہے۔ اسرائیلیوں کو الٹی میٹم دیں۔  

صدر ایران نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں کہ غزہ عوام کا قتل عام اور جنگ بند ہو۔ جو لوگ انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں وہ کتنی آسانی سے عام لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں۔

انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم ایٹمی اسلحہ بنانا ہرگز نہیں چاہتے بلکہ اپنی علمی سائنسی اور تکنیکی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایٹمی معاہدے کے پابند تھے اور اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر مغرب نے اس کی پابندی نہیں کی تو ہم بھی نہیں کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ امریکی ہمارے عوام کے حقوق کا احترام کریں اور ہمارے ملک کے خلاف سازش نہ کریں

صدرایران نے کہا کہ ہم جاپان کی ثالثی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم ہر اس کوشش کا خیر مقدم کریں گے جس سے دنیا میں امن قائم ہو۔

 ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا کہ یہ مغرب ہے جو ایٹمی بم بنارہا ہے اور ایسے اسلحے تیار کررہا ہے جو انسانوں کو آگ میں جلاکر مار دیتے ہیں۔ وہ خود ممنوعہ اسلحے بناتے ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں تم نے کیوں بنایا؟ تو پھر ہم کیا کریں کیا تمہیں اس بات کی اجازت دے دیں کہ تم ہمیں مار ڈالو؟

ڈاکٹر پزشکیان نے کہا کہ اگر ہم مسلمان متحد ہوں تو اسرائیلی غزہ کے عوام کے ساتھ زورزبرستی نہیں کرسکتے  

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے  ہفتہ وحدت کے آغاز اور عید میلاد النبی کے موقع پر پیر کے روز ایران کے کچھ اہل سنت علماء، ائمہ جمعہ اور اہل سنت کے  مدرسوں کے پرنسپلوں سے ملاقات کی۔

رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں کہا: اسلامی امت کا موضوع، بنیادی اور قومیت کے دائرے سے باہر کی چيز ہے اور جغرافیائی سرحدیں، اسلامی امت کی شناخت اور حقیقت کو بدلتی نہيں۔

انہوں نے مسلمانوں کو اپنی اسلامی شناخت کی جانب سے لاپروا کرنے کے لئے دشمنوں کی  مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی مسلمان غزہ یا دنیا کے کسی بھی گوشے  کے دوسرے مسلمان کے غموں سے غافل رہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے علمائے اہل سنت کو اسلامی شناخت اور اسلامی امت پر اعتماد کی دعوت دی اور عالم اسلام خاص طور پر ایران میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کی بد خواہوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ ذہنی، تشہیراتی اور معاشی حربوں کا استعمال کرکے ہمار ے ملک اور دوسرے تمام اسلامی علاقوں میں شیعہ- سنی کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہيں اور دونوں طرف سے کچھ لوگوں کو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے  پر مامور کرکے ضد اور اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہيں۔

رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان سازشوں کے مقابلے کی واحد راہ اتحاد کو قرار دیا اور کہا کہ اتحاد حکمت عملی نہيں بلکہ قرآنی اصول ہے۔

انہوں نے " اسلامی امت" کی گراں قدر شناخت کی حفاظت کو ضروری قرار دیا اور اسلامی اتحاد کی اہمیت اور اسے کمزور کرنے کی مخاصمانہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ " اسلامی امت " کی بات کو کبھی نہيں بھولنا چاہیے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے شیعہ و سنی کے اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے دانستہ و نادانستہ کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یقینی طور پر اتنے وسیع پیمانے پر سازشوں کے باوجود ہمارے  اہل سنت معاشرے نے اس قسم کی کاوشوں کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے جس کا ایک ثبوت ، مقدس دفاع اور دیگر مواقع پر 15 ہزار اہل سنت شہید اور اسی طرح حق و انقلاب کی راہ میں اہل سنت علماء کی بڑی تعداد کی شہادت ہے۔

رہبر انقلاب نے اسلامی اقتدار جیسے اہم ہدف کے حصول کو اتحاد کے علاوہ کسی اور راستے سے نا ممکن قراردیا اور کہا کہ آج ایک یقینی فریضہ غزہ و فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ہے اور اگر کوئي اس فریضہ پر عمل نہيں کرتا تو یقینا اللہ کے سامنے اسے جواب دینا ہوگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سٹی اف نالج پبلک اسکول جیک آباد پاکستان کے زیرِ اہتمام عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اور ہفتۂ وحدت کی مناسبت سے ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی، جبکہ اعزازی مہمان ایم ڈبلیو ایم ضلع جیکب آباد کے صدر نذیر حسین جعفری تھے۔

اس موقع پر اسکول کے طلباء اور طالبات نے بارگاہ رسالت مآبﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ حضور سید الانبیاء کی ذات گرامی عالم بشریت کے لیے رہبر اور رہنما ہے ربیع الاول کا مبارک مہینہ عشق رسول ﷺ کا مہینہ ہے۔ عاشقان رسول ﷺ اپنی سیرت اور کردار سے سید الانبیاء ﷺ کے حقیقی پیروکار ہونے کا ثبوت دیں۔

انہوں نے کہا کہ ربیع الاول کا مہینہ اتحاد بین المسلمین کا مہینہ ہے، 12 سے 17 ربیع الاول ہفتہ وحدت کے موقع پر شیعہ سنی دیوبندی بریلوی اہل حدیث سب نے مل کر امت واحدہ کا ثبوت دینا ہے۔ اسلام دشمن سامراجی طاقتیں خصوصا امریکا اور اسرائیل مسلمانوں کو اپس میں لڑانا چاہتے ہیں ہم نے اپنے اتحاد اور وحدت سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔

ربیع الاول کا مہینہ، اتحاد بین المسلمین کا عملی مہینہ ہے، علامہ مقصود علی ڈومکی

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ضلعی صدر نذیر حسین جعفری نے کہا کہ ہفتہ وحدت کے موقع پر مجلس وحدت مسلمین شیعہ سنی وحدت اور اتحاد بین المسلمین کے لیے خصوصی پروگرام کرتی ہے۔ مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان کے کارکن برادران اہل سنت کے جلوس میلاد کا پھولوں کے ہار پہنا کر اور پھول نچھاور کر کے استقبال کریں گے۔

تقریب سے مجلسِ علمائے مکتب اہل بیت علیہم السّلام ضلع جیکب آباد کے نائب صدر مولانا ارشاد علی سولنگی نے بھی خطاب کیا۔

تہران - ارنا – اتوار کی صبح تل ابیب پر یمنی میزائل حملے نے خوفزدہ صہیونیوں کو پناہ گاہوں میں جانے پر مجبور کر دیا

 ذرائع کے مطابق اس حملے میں 9 افراد زخمی ہوئے ہيں اور اس سے  ایک بار پھر  غاصب صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کا ثبوت  ملا ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اتوار کی صبح تل ابیب پر یمن کے میزائل حملے اور صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کی ناکامی کی خبر دی۔

اس میزائل حملے کے بعد بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی ہے۔

صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا کہ یمنی میزائل بہت طاقتور اور سپرسونک تھا اور اس نے تمام دفاعی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بن گورین ہوائی اڈے کے قریب "اللد" فوجی علاقے کو نشانہ بنایا۔

صیہونی حکومت کے اسپتال ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ تل ابیب کے مشرق میں یمنی میزائل حملے کے نتیجے میں 9 صہیونی پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے زخمی ہوئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق صیہونی فائر فائٹرز یمنی میزائل سے لگنے والی آگ کو بجھا رہے ہیں

 
 
Sunday, 15 September 2024 09:03

فتح کی نوید دلاتا پیغام

حال ہی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحیی السنوار نے غزہ سے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کو ان کے خط کا جواب بھیجا ہے جو درحقیقت فلسطین اور لبنان میں سرگرم اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان موجود گہرے اتحاد کی علامت ہے۔ یاد رہے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد حماس کے نئے سربراہ کے طور پر یحیی السنوار کو خط لکھا تھا جس میں شہید ہنیہ کی شہادت کی مناسبت سے تعزیت اور تبریک پیش کی گئی تھی۔ یحیی السنوار نے اپنے جواب میں سید حسن نصراللہ کے خط کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا: "میں آپ کی اظہار حمایت اور ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سچے اور اعلی جذبات پر مشتمل تھا۔ آپ کی جانب سے حمایت کا یہ اظہار اسلامی مزاحمتی محاذوں پر آپ کے بابرکت اقدامات کے ہمراہ ہیں۔"
 
حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے پیغام میں مزید آیا ہے: "ابوالعبد، طوفان الاقصی میں ہمارے کمانڈر تھے جو ہماری قوم کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرافت مندانہ معرکہ تھا۔ وہ شہید ہو چکے ہیں۔ ہمارے کمانڈر کی شہادت اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے کمانڈرز اور مجاہدین کا خون اپنے ہم وطن افراد کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ خون اور شہداء کے مبارک قافلے قابض قوتوں کے خلاف ہماری طاقت اور استقامت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ہم جس راہ پر قدم آگے بڑھائیں گے وہ جہاد اور مزاحمت کے گرد فلسطینی قوم کا اتحاد ہے۔ اسی طرح ہم وحدت کی راہ پر گامزن ہوں گے جس کی مرکزیت صیہونزم کے خلاف وحدت پر استوار ہے۔ ہم قابض قوتوں کو نکال باہر کرنے اور قدس شریف کی مرکزیت میں مکمل حاکمیت سے برخوردار خودمختار ملک تشکیل دینے تک اپنے ان اصولوں پر گامزن رہیں گے۔"
 
یحیی السنوار کی جانب سے سید حسن نصراللہ کو لکھے گئے خط کے مختلف پہلو واضح کرنے کیلئے اس نکتے پر توجہ دینا ضروری ہے کہ آج اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل تمام قوتیں غاصب صیہونی رژیم نامی واحد دشمن کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ طوفان الاقصی آپریشن کے دوران انجام پانے والی کامیاب کاروائیوں اور اس معرکے کا مقبوضہ فلسطین کے دیگر حصوں تک پھیل جانے نے نئے علاقائی نظم کے بارے میں بہت سے تجزیوں اور مفروضات کو جنم دیا ہے۔ ان سب کا مشترکہ نکتہ اس بات پر مبنی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کو اسٹریٹجک لحاظ سے شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر نئی مساواتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔ یقیناً ان نئے حالات میں غاصب صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن ایک ہائبرڈ فتح کی علامت سمجھا جاتا ہے جس کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم پر اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجک برتری کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل مختلف قوتیں ایک خونخوار اور وحشی دشمن کے مقابلے میں متحدہ طور پر سرگرم عمل ہو چکی ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی اور سیاسی سربراہان اس نکتے پر متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ مقبوضہ فلسطین کے تمام حصے اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کی زد میں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں صیہونی حکمران سمجھ چکے ہیں کہ اب ان کے پاس کوئی "محفوظ مقام" باقی نہیں رہا۔ دوسرا اہم مسئلہ انتفاضہ ہے۔ تقریباً گذشتہ ایک عشرے سے صیہونی حکمرانوں کی پوری توجہ غزہ پر مرکوز رہی ہے لیکن اس وت پورا خطہ بلکہ پوری دنیا اسلامی مزاحمت کا نیا مورچہ بن چکی ہے۔ غزہ جنگ تاریخ ساز اور تحریک ساز ہے جس نے صیہونیوں کی موجودیت خطرے میں ڈال دی ہے۔
 
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کے نام حماس کے سربراہ یحیی السنوار کے جوابی خط کا ایک اہم نتیجہ دشمن کی نرم جنگ ناکام بنانا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین اور غاصب صیہونی رژیم نے دنیا بھر میں فلسطینی مجاہدین کو دہشت گرد ظاہر کرنے کیلئے جو بھرپور پراپیگنڈہ شروع کر رکھا تھا وہ پوری طرح ناکام ہوا ہے اور آج مغربی ممالک سمیت دنیا بھر میں اہل غزہ کے حق میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن جیسے شہر میں برطانوی شہری اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ کر کے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکہ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک میں شدید حکومتی دباو اور پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے باوجود آئے دن فلسطینیوں کے حق میں عوامی مظاہرے برپا ہو رہے ہیں۔ یہ مغرب کی بہت بڑی شکست ہے جو صرف غزہ جنگ تک محدود نہیں بلکہ درحقیقت نیو ورلڈ آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔
 
یقیناً اس نئے عالمی نظام میں صیہونی رژیم، اس کے مغربی حامیوں اور اس سے سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کی حقیقی ہار اور شکست ہو گی۔ یہ حقیقت ہر زمانے سے زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ لہذا امریکہ اور غزہ میں صیہونی رژیم کی نسل کشی کے دیگر حامیوں کی نرم جنگ نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ ان کے خلاف عالمی رائے عامہ پروان چڑھ رہی ہے۔ یحیی السنوار کا حالیہ خط صرف حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل کے نام نہیں تھا بلکہ اس میں عالمی رائے عامہ کو مخاطب قرار دیا گیا تھا اور ان تمام بیدار ضمیر انسانوں کا شکریہ ادا کیا گیا تھا جو غزہ اور خان یونس میں صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش نہیں بیٹھے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے میں مصروف ہیں۔ نرم جنگ میں عوام کی سوچ اور عقائد کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسلامی مزاحمت نے اسی محاذ پر دشمن پر جوابی وار کیا ہے۔

چمران 1 ریسرچ سیٹلائٹ کو ایران الیکٹرانک انڈسٹریز اسپیس گروپ صا ایران نے ایرو اسپیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور  نالج بیسڈ نجی کمپنیوں کے تعاون اور شراکت  سے تیار کیا ہے۔

اس سیٹلائٹ کا وزن تقریباً 60 کلو گرام ہے اور اس کا بنیادی مشن ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر سسٹمز کی جانچ کرنا ہے ۔

قائم- 100  سیٹیلائٹ لانچر ٹھوس ایندھن  سے چلتا ہے ۔ اسے پاسداران انقلاب فوج کے ایرو اسپیس یونٹ کے ماہرین نے  تیار کیا ہے ۔ یہ لانچر  اپنے دوسرے آپریشن میں چمران 1 سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ  خلاء میں پہنچانے میں کامیاب رہا۔