سلیمانی

سلیمانی

خلائی ٹیکنالوجی کے قومی دن کے موقع پر ایک تقریب میں ناہید-2 ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ اور طلوع-3 سیٹلائٹ کی رونمائی کی گئی۔ تقریب رونمائی میں ایران کے انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے وزیر عیسیٰ زارع پور اور ایرانی خلائی ایجنسی کے سربراہ حسن سالاریہ نے شرکت کی۔

خیال رہے کہ ناہید-2 اپنی نوعیت کے پیشرو سٹیلائٹ ناہید-1 کا جدید ترین ورژن ہے۔ یہ ایک ٹیلی کمیونیکیشن سیٹلائٹ ہے جس کے ذریعے ایران خلائی مواصلات کی صنعت میں داخل ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ سوویت یونین، امریکہ، فرانس، جاپان، چین، برطانیہ، بھارت اور صہیونی حکومت کے بعد ایران دنیا کا نواں ملک ہے جس نے کامیابی کے ساتھ مستقل طور پر سیٹلائٹ لانچ کیا ہے۔

ایران 2005 میں روس کی مدد سے مدار میں بھیجے گئے سیٹلائٹ سینا ون کو بھیج کر خلائی ممالک کے کلب میں شامل ہوا۔ اس وقت سے ایرانی خلائی ایجنسی نے مقامی علم اور بین الاقوامی تعاون کی مدد سے ملک میں خلاء کے استعمال اور خلائی ٹیکنالوجی کی توسیع کے لیے منصوبہ بندی کو اپنے ایجنڈا میں رکھا ہوا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران آرمی کی ایگل 44 ایئر بیس ہر قسم کے لڑاکا طیاروں اور بمبار طیاروں کی نگہ داری اور انہیں آپریشنل کرنے کے علاوہ ڈرون طیاروں کو آڑانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ایگل 44 آپریشنل ایئر بیس میں الرٹ، کمانڈ پوسٹ، فائٹر طیاروں کی نگہ داری اور مینٹیننس کے لیے ہینگرز، ہوائی جہازوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کے مراکز، نیوی گیشن کا سامان، فیول ٹینک وغیرہ شامل ہیں۔ اس بیس میں یہ صلاحیت ہے کہ فضائیہ کے مختلف لڑاکا طیارے انہیں تفویض کی گئی ماموریت انجام دینے کے لیے اس بیس کا استعمال کرسکتے ہیں۔

اس بڑے زیر زمین بیس میں فضائیہ کے نئے لڑاکا طیاروں کو رکھنے اور آپریشنل طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہوگی۔

واضح رہے کہ ایگل 44 فضائیہ کے متعدد زیرزمین ٹیکٹیکل ائیر بیسز میں سے ایک ہے جو گزشتہ برسوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اس آپریشنل ضروریات کے مطابق اور دفاعی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ 

ان بیسز کی مختلف جگہوں پر ضروریات کے مطابق اور اعلیٰ حفاظتی معیاروں کے تحت پہاڑوں کے نیچے بنائے جانے کی وجہ سے یہ بیسز دشمنوں کی توقعات سے دور جگہ اور وقت سے حیرت انگیز فضائی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔

لڑاکا طیاروں کو محفوظ مقامات پر رکھ کر اور انہیں یاسین، قائم اور عاصف سمیت مختلف الیکٹرانک وارفیئر سسٹم، بموں اور میزائلوں سے لیس ہونے کے بعد یہ ایئر بیسز طویل فاصلے تک کارروائیوں کا امکان فراہم کرتی ہیں اور دور دراز کے اہداف کے لیے اسٹریٹجک رینج میں اضافہ کیا ہے۔

اس دورے میں آرمی کے ڈپٹی کمانڈر انچیف بریگیڈیئر محمد حسین دادرس، مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے مشیر بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی اور فضائیہ کے کمانڈر ایئرمارشل حمید واحدی بھی موجود تھے۔

قومی نشریاتی ادارے نے اس بیس کی ایک رپورٹ تیار کی ہے جو آج میڈیا کی زینت بنی۔

سلامی جمہوریہ ایران کےصدر سید ابراہیم رئیسی نے اسلامی انقلاب کی چوالیسویں سالگرہ اور عشرہ فجر کی مناسبت سے ادیان توحیدی کے مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کہا کہ عشرہ فجر مختلف اقوام، مذاہب اور ادیان سے تعلق رکھنے والے بابصیرت ایرانی عوام کی استقامت اور ان کی کامیابیوں کی یاد تازہ کرنے کا موقع ہے۔
سید ابراہیم رئیسی نے مختلف مذاہب کےمذہبی رہنماؤں سے خطاب کے دوران کہا کہ ایرانی عوام نے پامردی اور استقامت کا بھرپور مظاہرہ کرکے امریکہ کی حد درجہ دباؤ کی پالیسی کو دیوار سے لگا دیا جو اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ایرانی عوام کو اپنے اتحاد اور یکجہتی کے جذبے، استقامت اور استحکام اور محنت اور تحرک کو بڑھا کر سیاست، اقتصاد اور ثقافت کے میدانوں میں خودمختاری میں اضافہ کرنا چاہئے۔ 
صدر مملکت نے اس موقع پر مغرب میں انتہا پسند عناصر اور بعض حکومتوں کی جانب سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں اہانت کوصحیح ٹہرانے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے تمام انبیائے الہی اور ادیان توحیدی کی بے حرمتی قرار دیا اور کہا کہ دو ارب کے قریب مسلمانوں کے پیغمبر کی توہین کرنے کو آزادی اظہار رائے نہیں کہا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ حرکت دراصل خدا کی وحدانیت کے قائل تمام مذاہب کے پیرو افراد کی توہین اور آزادی اظہار کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
صدر ایران نے فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ آج یہودیت کے نام پر فلسطین اور اس کے مظلوم عوام پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں حالانکہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا حضرت موسی علیہ السلام اور یہودیت کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 
انہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی مجاہدتوں کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ قدس کے کمانڈر کو دوسرے ممالک کے عوام کی بھی فکر تھی جس کا منہ بولتا ثبوت عراق میں ان کی شہادت ہے۔ صدر رئیسی نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی نے تکفیری دہشت گردی کو ختم اور علاقے کے عوام کی جان کو اس مصیبت سے چھڑانے کے لئے، اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ 
سید ابراہیم رئیسی نے اس موقع پر کہا کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ دوسروں کی پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھیں لہذا آج بھی شام اور ترکیہ میں پیش آنے والی قدرتی آفت اور مصیبت کو ہمیں اپنی پریشانی اور مصیبت سمجھ کر وہاں لوگوں کی مدد کرنی چاہئے ۔

سحر نیوز/ عالم اسلام: ترکیہ کے ہنگامی امور سے متعلق ادارے نے اعلان کیا ہے کہ تباہ کن زلزلے میں مرنے والے افراد کی تعداد تقریبا چار ہزار سے زائد ہوگئی ہے ۔
ترکیہ کے محکمہ حادثات اور ایمرجنسی نے اعلان کیا ہے کہ اس زلزلے میں بیس ہزار سے زائد زخیموں کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔ 
اس ادارے نے اسی طرح اعلان کیا ہے کہ تباہ کن زلزلے میں تقریبا چھے ہزار مکانات اور عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سوسال میں ترکیہ میں یہ شدید ترین زلزلہ ہے ۔
دریں اثنا ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے ترکیہ کے اپنے ہم منصب چاووش اوغلو سے ٹیلیفون پر گفتگو میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے لئے ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کی مکمل آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس ٹیلی فونی گفتگو میں کہا ہے کہ صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی کی ہدایات کی بنیاد پر ایران کی انجمن ہلال احمر زلزلہ زدگان کی ہر قسم کی مدد و امداد کے لئے تیار ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ پیر کی رات ایران کی طبی اور ہلال احمرسوسائٹی کی ٹیمیں اپنی امدادی کارروائیوں کی غرض سے ترکیہ پہنچ چکی ہیں۔ 
شام میں بھی تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ اس ملک کے مختلف صوبوں میں سیکڑوں کی تعداد میں مکانات تباہ ہوئے ہیں۔ 
اسی اثنا میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے دوست اور برادر ملک کی مدد کے لئے پہلی امدادی کھیپ شام روانہ کر دی ہے۔ مزید انسان دوستانہ امداد اگلے دنوں روانہ کی جائے گی ۔ پینتالیس ٹن امدادی سامان لے کر ایرانی طیارہ منگل کو شام کے دارالحکومت دمشق پہنچ گیا۔
امدادی کھیپ میں غذائی اشیا، دوائیں اور طبی وسائل اور دوسرے امدادی سامان و وسائل نیز مختلف قسم کےآلات شامل ہیں۔ 
ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق شام میں ایران کے سفیر مہدی سبحانی نے جو اس موقع پر دمشق ایرپورٹ پر موجود تھے، کہا ہے کہ ایران کی پینتالیس ٹن انسان دوستانہ امداد میں کمبل، خیمے، دوائیں اور طبی وسائل شامل ہیں جسے فوری طور پر زلزلہ زدہ علاقوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایران کی امدادی کھیپ کا ایک اور طیارہ حلب پہنچے گا جبکہ تیسرا طیارہ لاذقیہ جانا طے پایا ہے۔
پیر کی صبح آنے والے شدید زلزلے کے جھٹکے ترکیہ، شام، لبنان، فلسطین، عراق، اردن، مصر، سعودی عرب، یوکرین اور یورپ کے بعض علاقوں منجملہ یونان اور بلغاریہ میں ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ کئے گئے۔
ترکیہ دنیا میں زلزلے کی زد میں واقع ایک اہم ملک ہے۔ ریکٹر اسکیل پر سات اعشاریہ آٹھ کے شدید جھٹکوں کے ساتھ ترکیہ میں آخری بار زلزلہ انیس سو انتالیس میں آیا تھاجس میں مشرقی ترکیہ کے علاقے ارزنجان میں تینتیس ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے۔ تازہ زلزلے میں ترکیہ کی بہت سی آثار قدیمہ کی عمارتیں بھی زمیں بوس ہوگئی ہیں ۔

تہران، ارنا - ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کاظم غریب آبادی نے کہا ہے کہ ملزمان کی معافی ایک بے مثال اقدام اور انسانی حقوق کے شعبے میں ایک بڑا قدم اور عوام اور اسلامی نظام کی مہربانی کی علامت ہے

یہ بات ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ برائے بین الاقوامی امور اور انسانی حقوق کونسل کے سربراہ کاظم غریب آبادی نے  ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی سپریم لیڈر کی منظوری اور ایرانی عدلیہ کے سربراہ کی معافی کی تجویز سے دسیوں ہزار افراد بالخصوص حالیہ فسادات کے ملزمان اور مجرموں کو معاف کردیا جائے گا اور ان کے عدالتی مقدمات کو کسی بھی مرحلے پر بند کردیا جائے گا.

غریب آبادی نے کہا کہ ملزمان کو معاف کرنا ایک بے مثال اقدام ہے۔ یہ انسانی اور اسلامی اقدام انسانی حقوق کے شعبے میں ایک بڑا قدم اور عوام اور نظام کی مہربانی اور ہمدردی کی علامت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ روز  ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایران میں حالیہ فسادات کے دوران گرفتار افراد سمیت دسیوں ہزار مجرموں کی عام معافی اور سزاؤں میں کمی کی منظوری دے دی۔

 ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ترکیہ اور شام کے صدور کے نام الگ الگ پیغامات میں دونوں ملکوں میں زلزلے کے دلخراش واقعہ پر تعزیت کا اظہار کیا اور انہوں نے زلزلے میں بھاری جانی اور مالی نقصان پر ترکیہ اور شام کے صدور مملکت سے اظہار ہمدری کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران موجودہ مشکل صورتحال میں دونوں دوست ممالک کو فوری امدادی امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔


خداوند تبارک تعالیٰ نے معصومین ، انبیاء ، ائمہ اطہار اور بعض غیر معصوم شخصیات کو انسان کے لئے بعنوان اسوۂ مقرر کیا ہے اوریہ حیثیت دیگر عناوین اور مناصب مثلاًامامت اور رسالت سے الگ ایک حیثیت ہے جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایاہے۔

الہٰی اسو ے

الٰہی اسوے امت کے لئے ایک دروازہ ہے تاکہ امت اس باب کے ذریعے اس شخصیت سے متصل ہو جسے خدا نے اسوۂ مقرر کیا ہے۔
قرآن مجید میں دو شخصیات کو صراحت سے اسوہ ٔکہا گیا ہے، پیغمبر اکرم ۖ اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ ـ لیکن روایات میں تقریباً تمام معصومین کے لئے یہ تعبیر موجود ہے اور اسی طرح خاندان اہل بیت میں سے غیر معصومین شخصیات کے لئے بھی یہ تعبیریں موجود ہیں از جملہ حضرت زینب مسلماً پوری بشریت اور انسانیت کے لئے ایک الہٰی اسوۂ ہیں نہ کہ فقط خواتین کے لئے، اگر ہم یہ کہیںکہ حضرت زینب فقط خواتین کے لئے اسوۂ ہیں تو یہ آپ کی شخصیت کے سلسلے میں بہت کوتاہ اور محدود نظر ہے۔
حضرت زینب تمام بشریت اور انسانیت کے لئے ایک جامع اسوہ ٔ ہیں جسے خداوند تبارک تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔ حضرت زینب کو خداوند تبارک تعالیٰ کی جانب سے جو توفیقات، علوم، فضائل اور کمالات نصیب ہوئے ہیں کسی انسان کو بہت کم اس طرح کی توفیقات نصیب ہوئی ہیں آپ کو جو کچھ عطا کیا اس کا امتحان بھی ہوا ہے یہ فقط ادّعا نہیں بلکہ حقیقتاً حضرت زینب ممتحنہ یعنی آزمائش شدہ اور امتحان دی ہوئی بی بی ہیں۔ اس بی بی نے امتحان دے کر اپنے کمالات کو ثابت کیا ہے۔ آزمائشوں اور بلاؤں سے گزری ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ـ ایک قرآنی اسوۂ ہیں لیکن اسوۂ ممتحن، خدا نے ابراہیم ـ کو آزمائشوں میں رکھا
'' وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ…'' (بقره١٢٤)
اسی طرح حضرت زینب ایک ممتحنہ اسوۂ ہیں۔ حضرت زینب اور حضرت سیدہ زہرا کے القابات میں سے ایک لقب ممتحنہ ہے یعنی انہوںنے امتحان دیا ہوا اور آزمائشوں سے گزری ہوئی ہیںجیسا کہ ہم بعض چیزوں پر اعتماد کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ مجرب اور امتحان شدہ چیز ہے اسی طرح حضرت زینب نے اپنے کمالات و فضائل کا باقاعدہ طور پر امتحان دیا ہے اور اس امتحان میں اعلیٰ درجہ سے قبول ہوئی ہیں ۔ یہ بہت مہم ہے کہ امتحان دیا تو خداکے نزدیک اس میں اعلیٰ درجے پر فائز ہوئیں
''… ِإِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ '' (مائده٢٧)
خدا فقط متقین سے قبول کرتاہے۔ امتحان کی توفیق لے لینا اتنا مہم نہیں ہے لیکن اس توفیق کے بعد امتحان دے کر قبول ہوجانا واقعاً مہم ہے ۔ حضرت زینب یعنی عصمت صغریٰ اپنی والدہ ٔ مکرمہ یعنی عصمت کبریٰ کی مانند ممتحنہ ہیں اور دونوں ماں بیٹی امتحان دے کر اس میں قبول ہوئی ہیں۔

شناخت اسوۂ کی ضرورت

ضروری ہے کہ یہ اسوے متعارف ہوں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں کی جائیں کم ہیں، اس لئے کہ معصومین اور اولیاء اللہ کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سارے عوامل کی وجہ سے مسکوت اور فراموش شدہ رہا ہے۔ اس اسوائیت کے پہلو کو احیاء اور زندہ کرنا ہے۔
الحمد للہ، دین اور خصوصاً حضرات معصومین و اولیاء اللہ سے متعلق بہت سارے پہلو زندہ ہیں لیکن کئی پہلو ایسے ہیں جو فراموش شدہ ہیں۔ ابھی انسان بیدار نہیں ہو ا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف بھی ملتفت ہو مثلاً امیر المؤمنین ـ کی شخصیت سے متعلق بہت سارے پہلو ہیں جو ابھی فراموش شدہ ہیں جن کی طرف ابھی توجہ بھی نہیں ہوئی ہے اور نہ انہیں سمجھا گیا ہے۔ ان پہلوؤں کوسمجھنے کے لئے جو ضروری شعور چاہیے وہ ابھی بیدار نہیں ہے۔
بقول شاعر :
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
یعنی واقعاً زمانہ منتظر ہے کہ انسانیت بیدار ہوجائے تاکہ ان اسوئوں کو پہچانے ، امام حسین ـ کو پہچانے، حضرت زینب کو پہچانے، کربلا اور کربلا کے اسوئوں کو پہچانیں ، اس کے علاوہ اور باقی تمام اسوات کہ پہنچانیں۔

شناخت اسوۂ کیوں ضروری ہے؟

یہ شناخت اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ فراموشی انسانیت کے ضرر میں ہے ، نہ کہ ان شخصیتوں کے ضرر میں ہے۔ ان کی اسوائیت کا پہلو اگر اسی طرح مسکوت و فراموش شدہ رہا تو نسلو ںکی نسلیں خسارے میں گزرتی جائیں گی۔ نسلیں اپنی عمریں گزار کر قبرستان کا رخ کرتی جائیں گی اور نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا۔

دوسری قوموں میں اسوؤں کا قحط

یہ اس نسل کی بات ہے جس کے پاس ذخیرہ موجود ہے ورنہ بعض ایسی قومیں اور نسلیں ہیں جن کے پاس دکھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے، مثلاً آپ یونان میں جاکر دیکھیں تو وہاں اسطوروں اور افسانوی شخصیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور یہ کسی قوم ، مذہب اور ثقافت کے لئے بہت بڑا قحط ہے کہ اس کے پاس اسوۂ موجود نہ ہو ، اسوۂ کے بجائے اس کے پاس اسطورہ ہو تاکہ اسوؤں کی خلا کو اسطوروں سے پُر کرے یا مثلاً ہندوستان کی ہندؤ تہذیب میں اسوے نہیں ہیں ، اسطورے ہیں اور وہ اسطورے ایسے ہیں جن کا انسان سے کوئی ربط نہیں ہے ، وہ فقط تقدیس اور تخیل میں رکھنے کے لئے ہیں ورنہ ان سے انسان کا کوئی عملی تعلق نہیں، وہ انسان کے لئے راہنما نہیں ہیں اور انسان انہیں اسوۂ کے بجائے اپنے تخیّل میں ایک مافوق بشر و مافوق طبیعت مخلوق فرض کرکے اپنی زندگی کی بعض خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہاں پر انسان کی پیروی کے لئے کوئی چیز نہیں ہے ۔ اس طرح کی تہذیبوں کے اسطورے اس لئے نہیں ہیں کہ بشر ان کے نقش قدم پر چلے بلکہ بشر کے ساتھ ان کی سرے سے کوئی سنخیت نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہیں کہ بشر ان کے نام پر قربانیاں دیتا رہے، ان سے ڈرتا اور خوف کھاتا رہے، ان کی تقدیس و ثناء کرتا رہے، نہ کہ ان سے کچھ سیکھے۔یہ اسطورے ان کے لئے معلم نہیں ہیں ، ان سے وہ کچھ سیکھتے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ کچھ بتا سکتے ہیں۔ نہ ان کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ان کا بنایا ہوا کوئی ایسانظام ہے جسے بشر اپنا سکے بلکہ وہ خود نظام سے باہر ہیں۔ ان پر کسی طرح کا کوئی قانون لاگونہیں ہوتا، وہ مافوق قانون ہیں۔ یہ کسی بھی قوم و مکتب کے لئے ایک بڑا قحط ہے۔

تشیّع کا امتیاز

اس حوالے سے اسلام اور خصوصاً اسلام کی امامی تفسیر یعنی تشیّع بہت غنی ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے ۔ تشیّع میں اسوۂ کے لحاظ سے اس قدر فراوان سرمایہ ہے کہ اگر ہم اس کی طرف متوجہ ہوجائیں کہ ہمارے پاس کیا عظیم سرمایہ ہے تو شاید سنبھال بھی نہ سکیں، پھر اس کے بعد کی منزل ہے کہ ہم اس سرمایہ کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور اسے متعارف کرائیں۔

قصوراور ذمہ داری ہماری

ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں ہمارے پاس کیا موجود ہے اور یہ ہمار اقصور ہے کہ ہم نہ اسے سمجھ سکے ہیں اور نہ دوسروں کو بتا سکے ہیں۔ لوگوں نے اسطورے کو زیادہ بہتر طریقے سے متعارف کرایاہے اور ہم اسوے نہیں متعارف کر اسکے۔ یہ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے افسانے زیادہ پھیلائے ہیں اور ہم حقائق نہیں پھیلا سکے، یہ عجائب روزگار میں سے ہے کہ لوگوں نے دنیا میں تخیّل زیادہ ترویج کیا ہے اور ہم تعقل کونہیں رائج کرسکے بلکہ ممکن ہے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی اسی کا شکار ہوجائیں اور یہ سمجھنے لگیں کہ جس ثقافت میں اسطورے زیادہ ہیں وہ بہتر ہے اور اسطورہ سازی کی طرف تمایل پیدا کرلیں، لہٰذا ہم اپنے اسوؤں کو بھی بعض اوقات اسطورہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسوۂ غیر از اسطورہ ہے ۔ جس کے پاس اسوۂ موجود ہو اس کو اسطورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اسطورہ ان لوگوںکو چاہیے جن کے پاس اسوۂ نہ ہو۔ وہ اسوۂ کی خالی جگہ کو اسطورہ سے پُر کرتے ہیں جس طرح مثلاً اگر ایک جوان نے شادی نہ کی ہو تو وہ خیالی ازدواج کرتا ہے، اس کی خیالی ملکہ ہوتی ہے لیکن جس کے پاس بیوی بچے ہوں اس کو خیالی ملکہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کے پاس مکان ہو اس کو خیالی بلڈنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ خیالی بلڈنگیں وہ بناتا ہے جس کے پاس حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔ انسان تخیّل کو ہمیشہ حقیقت کی جگہ بھرنے کے لئے لاتا ہے۔ اسطورہ یعنی'' تخیّلی شخصیات ''جو انسان کی خیال پردازی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔اسطورہ بت کی طرح ہے جو انسان کی ایک خود ساختہ چیز ہے۔ اسطورہ پوری طرح مخلوق انسان ہے جیسے انسان اپنی بعض حسّوں کی تسکین کے لئے تشکیل دیتا ہے جبکہ اسوۂ انسان کی مخلوق نہیں ہے بلکہ انسان تابع اسوۂ ہے اس کے برعکس اسطورہ خود انسان کا تابع ہے کیونکہ آپ اسے جس طرح بنائیں گے وہ اسی طرح بنے گا لیکن اسوۂ ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ ہم اس طرح بنیں گے جس طرح اسوہ ٔ ہوگا پس جن کے پاس اسوہ ٔ ہو ان کواسطورہ بنانے کی ضرورت نہیںہے۔لیکن ہم افسانوی تہذیبوں ، مثلاً یونانی، ہندی اور قدیم ایرانی تہذیبوں سے زیادہ سروکار رکھنے اور ان سے زیادہ متأثر ہونے کی بنا پر انہیں کے اسطوروں سے متأثرہوئے ہیں اور اپنے حقائق کو چھوڑ دیا بلکہ اکثر اپنے حقائق کو اسطورہ کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔
ہم بجائے اس کہ اپنے مکتب کا سرمایہ استخراج کرتے اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرتے آج خودان اسوؤں کے سب سے زیادہ محتاج ہیں۔ آج عالم تشیّع ، عالم اسلام اور عالم بشریت ان اسوؤں کا محتاج ہے۔

عظیم ترین بحران

اس وقت دنیاکا سب سے بڑا بحران اور المیہ کیا ہے؟دنیا کے مختلف ممالک میں متعدد بحرانوں کا ذکر ہوتا ہے، کہیں سیاسی بحران ہے، کہیں اقتصادی بحران ہے،کہیں جنگ کا بحران ہے، کہیں پانی کابحران ہے لیکن یہ اصلی بحران نہیںہیں اس وقت اصلی بحران یہ ہے کہ انسانیت مسخ ہورہی ہے اور اس کے پاس کرامت و شرافت کاکائی نمونہ نہیں رہا، ایسی ضد انسانی اور ضد بشری تہذیبیں پھیلی ہیں جنہوں نے روح انسانیت کو ختم کردیا۔ آج دنیا سب سے زیادہ اس بات کی محتاج ہے کہ اس کے سامنے اسوے متعارف کرائے جائیں، لہٰذا آج وقت ہے کہ دوسروںکے سامنے اپنا سرمایہ پیش کریںاور آج مکتب کا جتنا زیادہ استقبال ہوگا اتنا کسی دور میں بھی ممکن نہیں تھا۔
بعض بزرگان کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت انسان کے اندر ہردور سے زیادہ آمادگی پائی جاتی ہے کیونکہ اس وقت خلاء سب سے زیادہ ہے۔ اس وقت انسانوں کو سب سے زیادہ خلاء کا احساس ہوتا ہے۔ آج معنوی سرمائے کے فقدان کا احساس بہت شدت سے ہو رہا ہے لیکن اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے ہندو، بدھسٹ اور مسیحی پہنچ جاتا ہے یا اس کو بھرنے کے لئے موسیقاراور اس طرح دوسرے لوگ پہنچ جاتے ہیں، اس کو پُر کرنے کے لئے گمراہ فرقے وجود میں آرہے ہیں تاکہ اس معنوی خلاء کو پُر کریں، جعلی تصوف اور جعلی فرقے پیدا ہورہے ہیں جو انسان کی اس تشنگی سے سوء استفادہ کررہے ہیں اور اس کے سامنے ایک کاذب معنویت رکھ رہے ہیں، درحالیکہ تشیّع حقیقی معنویت کے سرمائے پُر ہے لیکن ضرورت ہے کہ اس سرمائے کو نکال کر دنیا کے سامنے اس زبان میں پیش کریںجو دنیا کو سمجھ میں آتی ہے ، ایسی زبان میںنہ پیش کریں جس سے لوگ نابلد ہوںِ خصوصاً ان اسوؤں کو پیش کریںجو خاص بحرانوں میںنکھرکر سامنے آتے ہیں جیسے حضرت زینب کا اسوۂ۔

آج اسوۂ زینبی کی ضرورت

آج تقریباً وہی المیہ دوبارہ تکرار ہورہاہے جو سن ٦١ ہجری میں کوفہ میں نظر آیا تھا۔آج پوراجہان ایک کوفہ کا سماں بناہوا ہے، اس میںکوفی کی تمام صفات موجود ہیں فقط ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے۔ اس بازار کوفہ میں فقط ایک خطبہ زینبی کی کمی ہے۔ باقی ساری چیزیں شبیہ کوفہ ہیں۔ بعض اہل فکر شعراء نے اس کمی کومحسوس کیا ہے کہ آج زمانہ کس چیز کا محتاج ہے؟
یہ زمانہ اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الّا اللہ
قافلہ حجاز میں اک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
یہ احساس خلاء ہے اور یہاں پرکسی کو ہو نا چا ہیے کہ آج کر بلا و نجف اور عراق کے اسیروں کے قا فلے میں ایک اسوئہ زینبی کی کمی ہے جس کی وجہ سے تمام ذلت و رسوائی کا سماں پیدا ہو ا ہے کیونکہ وہاں ایک اسوئہ عزت موجود نہیں ہے۔
اسوئہ کی انسان پر تأثیر ہو تی ہے خواہ وہ اسوہ خود بن کر آئے یا دوسرے بنا کر پیش کر یں اور اگر آپ حقیقی اسوہ ٔکو لو گوں کے سا منے پیش نہیں کر یں گے تو دوسرے اسوہ بنا کر پیش کر یں گے ۔
اگرآج جہان اسلام کو عملی اسوئہ نہ ملا تو مغربی میڈیا اور اربابان سیاست خود عالم اسلام سے ایک اسوہ بنا کر دنیا کے سا منے پیش کر ے گی اور کہے گی کہ یہ آپ کے لئے منا سب اسوہ ہے جیسا کہ وہ اس کام میں مشغول بھی ہیں ۔
اگر ہم نے دینی اقدار اور دینی بنیا دوں پر ایک درست تعلیمی نظام تشکیل نہیں دیا تو تو خود آ کر ہما رے لئے یہ کام انجام دیں گے۔ آج تین اسلامی ممالک(سعودی عرب،افغانستان اور پاکستان)میںامریکہ کا بنا ہوا اسلامی نصاب اجراہو چکاہے۔ ان تین ملکوں میں آج امر یکی ما ہر ین کی را ئے سے بنا ہوانصاب اسکو لوں ، کا لجوں حتی دینی مدرسوں میں چل رہا ہے دینی مدرسوں کادینی نصاب ا نہوں نے مشخص کیا ہے۔
اس طرح اگر مسلمانوں میں سیا سی بیداری نہیں آئی اور سیا سی مسا ئل کے لئے اگر خود مسلمانوں نے سیاسی رہنمااور سیاسی تنظیمیں نہیں بنا ئیں تو وہ خود بنا کر لا ئیں گے ، وہ خود صدر و وزیراعظم بنا کر مسلمانوں کے سا منے پیش کریں گے بلکہ ان پر تحمیل کر یں گے ۔ سیا سی جما عتیں ، سیاسی حزب اور سیاسی لیڈر بنا کر قوموں کے سا منے پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی جما عت ، یہ آپ کے لیڈر اور یہ آپ کے سیاست دان ہیں۔
جوچیز مسلمان خود نہیں بنا سکتے وہ اسے بنا کر دیں گے ۔ اگر مسلمان خود پارلیمنٹ تشکیل نہیں دے سکتے تو وہ آکر بنا کردیں گے اور بنا ر ہے ہیں اس طرح اگر مسلمان دین کی بنیادوں پر ایک تہذیب نہیں بنا سکتے تو وہ اپنے نقطہ نظرسے تہذیب بنا کر مسلمانوں کو پیش کر یں گے کہ یہ آپ کی تہذیب ہے اور اس کو اپنا ئیں ، جس طرح اقتصادی دنیا میں ایسا ہی ہوا ہے ۔ ہم جو چیزیںنہیں بنا پا ئے وہ بنا کر پیک کر کے ہما رے با زاروں میں بھیج دیتے ہیں اور ہم ان سے خر ید لیتے ہیں ۔ اقتصادی دنیا میں یہ بات کسی حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے لیکن سیا سی ،معنوی، مذہبی اور تعلیمی دنیا میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ جس طرح انہوں نے کا رخا نے لگا ئے ہیں اور ہما ری اقتصادی ضرورتوں کے مطابق ہر چیزکی بستہ بندی کر کے ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے۔ اس طرح انہوں نے تہذیب ،نظریات اور تعلیمی نظام بھی ہما رے گھروں میں پہنچا دیا ہے ۔ اس وقت تمام اسلا می ممالک میں پسندیدہ ترین تعلیمی نظام ان کا بنا یا ہوا ہے۔ما نٹیسوری تعلیمی نظام برطا نوی اور امریکی طرز کا تعلیمی نظام ہے۔ یہ ان کے اسکولوں کی کا پی ہے متدین ترین لوگ بھی چا ہتے ہیں کہ ان کے بچے انہیں اسکولوں میں پڑھیں حتیٰ وہ علماء جو اپنے بچے کی تعلیم کا خرچ خمس و زکات اور بیت المال سے حاصل کر تے ہیں اسی سے ان بڑے بڑے اسکولوں کی فیس ادا کرتے ہیں تا کہ ان کے بچے اس ما ڈل کے نظام میں جا کر پڑ ھیں۔

انہوں نے تعلیمی ماڈل طرز زندگی اور کلچر و ثقافت لا کر دیا تا کہ تم اس طرح زندگی بسر کرو ،اس طرح سے سو چواور اس طرح سے پڑھو۔انہوں نے ہمیں ہر چیز لا کر دی اورہم صرف ایک با زار مصرف اور منڈی میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔

جعلی اسوے

ایک زمانے میں ایک شخصیت اسوۂ بن کر سامنے آجاتی ہے اور دوسروں کے لئے نمونہ بن جاتی ہے۔ اگرچہ نمونہ بننے کے لیے ایک شخصیت کو بہت طولانی راہ طے کرنی پڑتی ہے لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخصیت وہ طولانی راہ طے کرکے ایک منزل تک پہنچ جاتی ہے پھر آہستہ آہستہ تمام افراد لا شعوری طور پر اس جیسا انداز اپنانا شروع کر دیتے ہیں، لباس اس کے جیسا پہنتے ہیں، بات اس کے جیسی کرتے ہیں، محاورے اور جملے وہی استعمال کرتے ہیں جو اس کی زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اس متأخر زمانے میں ایسا ہوا کہ امام خمینی کی شخصیت اسوۂ مسلمین کے عنوان سے ابھر ی اور انہوں نے دیکھا ایک مدت تک اس اسوۂ کی تأثیر ہے یعنی اگر اس سطح کی شخصیت عالمی شہرت کے ساتھ متعارف ہوجائے تو لوگ اس کے افکار لینا شروع کردیتے ہیں، اس کی تصویریں لگانا شروع کردیتے ہیں، ہر جگہ اس کا تذکرہ ہوتا ہے اور لوگ اپنے آپ کو اس کی راہ پر لانے کی کوشش کرتے ہیں، لہٰذا دشمنان دین اس کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ کام اب خود شروع کردیا ہے یعنی وہ کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں اور دنیا کے لئے ایک خود ساختہ اسوۂ پیش کریں اور چونکہ طبقات مختلف ہیں لہٰذا ایک اسوۂ سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا یعنی ایک دینی اسوۂ دیندار اور بے دین سب کے لئے کافی نہیں ہوسکتا لہٰذا وہ ہر شعبے اور ہر صنف کے لئے ایک خاص اسوۂ بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور یہ اسوۂ جس طرح سے ہو لوگ خود بخود اسی طرح سے ہوجائیں۔ لوگ اسی طرح سوچنا شروع کردیں اور اپنے آپ کو اسی قالب میں ڈھالنا شروع کردیں۔
لہذاآج ضرورت اس کی ہے کہ ہم خدا کی طرف سے بنائے ہوئے دینی اور اسلامی اسوات کو پیش کریں۔ یہ سرمایہ اسی دن کے لئے تھا۔ آج ان کاذب اسوؤں کے مقابلے میں صادق اسوؤں کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ آج اگر اقدار کی بنیادوں پر الہٰی اسوے پیش نہ ہوئے تو اقدار سے یہی اسوئے لوگوں کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے بلکہ پیش بھی کئے جا رہے ہیںاور ظاہر ہے کہ جب ایک اسوۂ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوجائے گا اور لوگ عملی طور پر اس کی پیروی کرناشروع کردیں گے پھر اس کو لوگوں سے لینا بہت مشکل ہے، کسی سے اسوۂ چھیننا بہت مشکل کام ہے، مثلاً بچوں اور جوانوں کو دیکھیں کہ وہ اگر بال کٹوانے میں کسی سے متأثر ہیں اور ایک مرتبہ اس جیسا بال بنانا شروع کردیا اور ہیراسٹائل (Hairstyle) میں اس کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب اس بچے کو روکنا بہت مشکل ہے۔ اگر لباس پہننے میں بچے نے کسی کو اپنا اسوۂ مان لیا تو اب یہ اسوۂ اس سے چھیننا بہت مشکل ہے۔ پس اس سے پہلے کہ کاذب ، جعلی، مصنوعی اور اقدار سے تہی بلکہ ضد اقدار اور خلاف اقدار اسوے متعارف کراکے ان کو پوری بشریت کی گمراہی کے لئے استعمال کیا جائے حق یہ بنتا ہے کہ ہم اپنا سرمایہ پیش کریں اور یہاں اگر یہ سرمایہ پیش نہیںہو اتو پوری انسانیت خسارے میں ہے۔ اگر ہم آج اس سرمائے کو نہیںپیش کر سکے تو پھر کب پیش کریں گے؟
آج دنیا کو حضرت زینب جیسا اسوۂ درکار ہے۔آج پورے عالم اور زمانے میں کوفے کا سماں ہے۔ اگر کوفیوں کے ان خصائل اور صفات کو دیکھیں جو حضرت زینب نے بیان کیے ہیں تو پورا جہان ایک کوفہ نظر آتاہے، آج اس عالمی کوفے میں ایک اسوۂ زینبی کی کمی ہے، آج انسان کو حضرت زینب کی حقیقی شخصیت کی ضرورت ہے، نہ وہ شخصیت جو لوگوں نے خود بنالی ہے۔ انسان حضرت زینب کی واقعی شخصیت کی جستجو کرے کہ وہ بی بی کیا ہیں؟ کربلا سے کوفہ و شام یا اس سے پہلے اور اس کے بعد حضرت زینب نے کس چیز کو محسوس کیا جس کی بنیاد پر یہ عظیم اقدام کیا۔

 

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شب ولادت با سعادت پر امام خمینی امام بارگاہ میں سیکڑوں اسکولی طالبات کی شرکت سے، جو شرعی احکام کے واجب کی عمر کو پہنچی ہیں، 'فرشتوں کا جشن' کے زیر عنوان ایک معنوی اور روح پرور پروگرام منعقد ہوا۔ پروگرام کے اختتام پر ان اسکولی طالبات نے رہبر انقلاب اسلامی کی اقتداء میں مغرب و عشاء کی نماز ادا کی۔

امام خمینی امام بارگاہ میں سیکڑوں اسکولی بچیوں کی شرکت سے 'فرشتوں کا جشن' کے زیر عنوان جشن عبادت منعقد ہوا۔

اس پروگرام میں، جو بڑے ہی نشاط انگیز ماحول میں منعقد ہوا، اسکولی طالبات نے اپنے لیے عبادت اور بندگي کے آغاز کا جشن منایا۔

اس پروگرام میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے مختصر سے خطاب میں لڑکیوں کو ان کے جشن عبادت اور عید کی مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ پیاری بچیو! اور نوخیز غنچو! جشن عبادت ایک حقیقی عید اور جشن ہے کیونکہ شرعی احکام کے واجب کے لمحے سے آپ میں یہ لیاقت پیدا ہو گئي ہے کہ خداوند عالم آپ سے بات کرے اور انجام دہی کے لیے آپ کو کوئي شرعی حکم عطا کرے اور یہ مرتبہ، یعنی خداوند عالم کا مخاطَب بننا، انسانیت کا ایک بڑا گرانقدر مرتبہ ہے۔

انھوں نے فرمایا کہ شرعی احکام کے واجب کے جشن کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ لوگ بچیاں نہیں رہ گئي ہیں بلکہ نوجوان اور ذمہ دار بن گئی ہیں اور اپنے گھر میں، اسکول میں اور کھیل کے میدان میں اپنے دوستوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، دوسروں کو بھی سیدھے راستے کی ہدایت اور رہنمائي کر سکتی ہیں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو ہم سب کے کندھوں پر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے لڑکیوں کو رحمن و رحیم خدا کا دوست بننے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ آپ اپنے نورانی، روشن اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ آج ہی سے اللہ کی دوست بن سکتی ہیں۔ خداوند عالم سے دوستی کا ایک راستہ یہ ہے کہ نماز میں اس بات پر توجہ رکھیے کہ آپ خداوند عالم سے بات کر رہی ہیں، اس لیے نماز کے الفاظ کے معنی اور ترجمے کو سیکھیے۔ خداوند عالم سے دوستی کا ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس نے جن کاموں کی ادائيگی کا حکم دیا ہے، انھیں انجام دیجیے اور جن کاموں سے روکا ہے، انھیں انجام نہ دیجیے۔

انھوں نے وطن عزیز ایران کی تاریخ میں عظیم اور مؤثر خواتین کے درخشاں ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج علمی، عملی اور جہادی میدانوں میں ہماری نمایاں اور ذمہ دار خواتین کافی تعداد میں اور پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، آپ بھی کوشش کیجیے کہ تعلیم حاصل کر کے، کتابیں پڑھ کے، کام کر کے اور غور و فکر کر کے مستقبل میں، اپنے ملک کی عظیم خواتین کی صف میں شامل ہو جائيں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نوخیز مکلَّف پھولوں (شرعی احکام کے واجب کے زمرے میں آنے والی بچیوں) سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس عظیم جدوجہد میں، جسے ایرانی قوم نے انقلاب کے دوران، ظلم، بدبختی اور امتیازی سلوک کے خلاف شروع کیا ہے، کردار ادا کر سکتی ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی بہت سی خواتین نے کردار ادا کیا ہے اور آج لوگ، کتابوں میں ان کے عظیم کارناموں کا مطالعہ کر کے، انقلاب کے برسوں میں ان کی نمایاں کوششوں اور زحمتوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔

اس پروگرام کے اختتام پر کچھ بچیوں نے محبت و شفقت سے آغشتہ ماحول میں رہبر انقلاب اسلامی سے گفتگو کی اور انھوں نے بڑے پیار اور نوازش سے ان کی باتیں سنیں۔

سعودی عرب اور امریکہ کی یمن پر جارحیت، محاصرہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ان مریضوں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 700 تک پہنچ گئی ہے۔

انسانی حقوق کی اس تنظیم نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ خون کے کینسر میں مبتلا بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور سعودی عرب اور امریکہ کی یمن پر جارحیت، محاصرہ اور غیر روایتی ہتھیاروں کے استعمال کے نتیجے میں ان مریضوں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 700 تک پہنچ گئی ہے۔ یمن کے خلاف جارحیت کے نتیجے میں کینسر کی 50 فیصد دوائیں نایاب ہو گئی ہیں جس کے باعث زیادہ تر مریض لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔

اس تنظیم نے اعلان کیا سعودی عرب کی جارحیت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث کینسر کے مریضوں کے لئے علاج کے لیے بیرون ملک سفر کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے، اسی لیے ہم انسانی ضروریات کے لیے صنعاء کے ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کی اس تنظیم نے یمنی بچوں کے سلسلے میں انجام پانے والے تمام جرائم کا ذمہ دار سعودی اتحاد کو قرار دیا ہے جسے امریکہ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔

/taghribnews.

مہر خبررساں ایجنسی: 5 فروری 2003 کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل میں انڈے کے چھلکے پر مشتمل سفید پاؤڈر رکھ کر لائے تا کہ معاصر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ سلامتی کونسل کے ممبران سامنے پیش کر سکیں!

اس اجلاس میں کولن پاول نے بڑے آب و تاب کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو کچھ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ مضبوط انٹیلی جنس سرگرمیوں پر مبنی حقائق اور شواہد ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ عراق کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے!

اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اپنے ہتھیار چھپا رکھے ہیں اور ان شواہد کی بنیاد پر جنہیں انہوں نے "یقینی اور اطمینان بخش" قرار دیا، عراق پر سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

پاول جنہوں نے بعد میں اپنے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا، اس وقت سلامتی کونسل پر زور دے کر کہا کہ عراق اس بات کا مستحق نہیں کہ اسے ایک اور موقع دیا جائے۔

پاول نے صدام حکومت پر القاعدہ کے ساتھ روابط کا الزام لگا کر عراق پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا۔

اس امریکی جھوٹ کے لئے عراق کو انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑی بلکہ عراق آج تک اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ یہ جھوٹے دعوے عراق کے خلاف فوجی جارحیت کا نقطہ آغاز بنے جس نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو تباہ کیا اور ان کے مستقبل کو خاک میں ملا دیا۔

امریکی حکومت کے لیے صدی کے جھوٹ کی رسوائی ایک ایسا سکینڈل اور انسانیت سوز جرم ہے جسے وقت گزرنے کے ساتھ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا حالانکہ اس کے اثرات 20 سال بعد بھی آج تک برقرار ہیں۔

ماہرین کے مطابق 2003 میں عراق کے خلاف امریکی فوجی جارحیت نے خطے پر بحرانوں کے دروازے کھول دیے جس کے اثرات گزشتہ دو دہائیوں کے باوجود ختم نہیں ہوئے۔