سلیمانی

سلیمانی

 الاھزام نیوز کے مطابق مسجد محمدعلی قاہرہ کی معروف مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور سنگ مرمر سے استفادے کی وجہ سے اس کو مسجد مرمر یا مسجد الابستر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

 

 سال ۱۸۳۰ مصر جدید کے بانی عثمانی دور کے والی محمدعلی پاشا نے یوسف بوشناق جو مامور کیا

کی اس مسجد کی تعمیر کریں۔

 

تعمیر کی مسجد پر کام فورا شروع ہوا اور معماروں نے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا جو مصری اور استنبول کے معمار تھے۔

اس مسجد کی تعمیر میں بیس سال کا عرصہ لگا۔

مسجد محمدعلی خاص طرز تعمیر کی شاہکار مسجد ہے جو اس کو مصر کی دیگر مساجد سے ممتاز کرتی ہے، اسکے دو مینار کی بلندی 84 میٹر ہیں، مسجد میں 365 چراغ ہیں جو سال کے دنوں کی تعداد کے برابر ہے اور اسی طرح چھلچراغ کے نام سے ایک اور شاہکار نورفشانی کا انتظام کیا گیا ہے۔/

 

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

مسجد محمدعلی جواهری بر فراز ارگ قاهره

 

گھرانے کو کس چیز سے خطرہ ہے؟

اسلام کی نظر میں گھرانہ بہت اہم ہے۔ گھر کے ماحول میں عورت اور مرد کا رابطہ کسی اور طرح کا ہے، معاشرے کے ماحول میں کسی دوسرے طرح کا ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان پردے کی حیثیت سے معاشرے کے ماحول میں جو قاعدے مقرر کیے ہیں، اگر انھیں توڑ دیا جائے تو، گھرانہ بگڑ جائے گا۔

 

اسلامی طرز زندگی اور ثقافت!

گھرانے میں زیادہ تر عورتوں پر اور کبھی کبھی مرد پر ممکنہ طور پر ظلم ہو سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت، عورت اور مرد کے آپس میں میل جول رکھنے کی ثقافت ہے۔ اس طرح کی زندگی خوشحالی کے ساتھ جاری رہتی ہے اور صحیح طریقے سے اور عقلی معیاروں کا لحاظ کرتے ہوئے چل سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے … 

 

بے عفتی معاشرے کی بنیاد کو ہلادیتی ہے!

طاقتور، پیسے والے اور طاقت والے، ان کے مرد، ان کی عورتیں، ان کے ماتحت اور ان کے ساتھ اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد ہمیشہ اس کے برخلاف کام کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت اور مرد کے درمیان پایا جانے والا پردہ ختم ہو جائے اور یقینی طور پر یہ کام سماجی زندگی کے لیے نقصان دہ اور سماج کے اخلاق کے لیے برا ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کے لیے مضر اور خاص طور پر گھرانے کے لیے ہر چیز سے زیادہ برا ہے۔ یہ گھرانے کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔

رہبر معظم ، عہد زندگی

کامیابی کے دو الفاظ!

دنیا کے نظاموں میں،یعنی انقلابی نظاموں میں جو پچھلی ایک یا دو صدیوں میں تشکیل پائے ہیں،میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کے علاوہ کسی بھی ایسے نظام کو نہیں جانتا کہ جسکے زوال، نابودی اور بربادی کے بارے میں اتنی زیادہ پیشن گوئیاں ہوئی ہوں۔آخر کیوں اسلامی جمہوریہ ایران کو ان تمام دشمنیوں کے باوجود دوسرے نظاموں اور انقلابوں کی جیسی بد نصیبی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا وجہ ہے اور اسکا کیا راز ہے؟اس نظام کی بقاء دو الفاظ ہیں:”جمہوری” اور “اسلامی۔

اسلامی جمہوریہ،جمہوری بھی ہے،یعنی لوگوں کی رای کا پابند ہے اور اسلامی بھی ہے یعنی شریعت الہی کا پابند ہے۔ایک نیا ماڈل ہے۔

 

امام خمینی رح، کوہ گراں!

امام خمینی کی ایجاد اور انکا کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلامی نظریے کی بنیاد ڈالی اور اسے سیاسی نظریات کے میدان کا حصہ بنایا۔صرف ایک نظریہ ایجاد نہیں کیا بلکہ اسے عملی جامہ پہنایا اور وجود بخشا،کچھہ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ انقلاب آگیا،اب لوگ اپنے گھروں واپس لوٹ جائیں یہاں امام خمینی نے کوہ گراں کی مانند تمام امور عوام کے سپرد کردیے۔

 

 

 

عوام پر یقین!

امام خمینی کو عوام پر پختہ عقیدہ تھا،عوام کی صلاحیتوں،انکے ارادوں،انکی وفاداری پہ پختہ عقیدہ رکھتے تھے۔یہ اسلام ناب(خالص) کی فکر،امام راحل کی ہمیشگی فکر تھی،صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے زمانے کے لئے مخصوص نہیں تھی،بہر حال اسلام ناب محمدی کا تحقق،اسلام کی حاکمیت اور تشکیل کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

 

 

اسلام اور جمہوریت،مسائل کا حل!

دو الفاظ،”اسلامی” اور “جمہوری” کو امام راحل ملک کے مسائل کا حل مانتے تھے۔انہوں نے شروع سے اعلان کیا “جمہوری اسلامی” نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ،اسلامی و جمہوری،قرآن سے اخذ شدہ ہے۔جمہوریت اسلام کے بغیر،اور اسلام جمہوریت کے بغیر،دونوں بے معنی ہیں۔اسلام کی حاکمیت یعنی یہ کہ اصول،اقدار اور راستے کا تعین اسلام کرے گا۔عوامی حکومت یعنی یہ کہ حکومتی کو ایک منظم شکل دینا عوام کا کام ہے۔جب بھی لوگوں کو میدان میں لائے اور اسلام کو معیار و محور بنایا،ہم نے پیشرفت کی۔

 

 

عہد بصیرت ، رھبر معظم

Thursday, 02 February 2023 20:59

آج کا دور خمینی کا دور

1۔ وہ کہتے تھے کہ علی (ع) سخت تھے اور وہ صحیح کہتے تھے! علی سخت تھے۔ لیکن یہ صرف آدھا سچ تھا اور اس سکے کا ایک اور رخ بھی تھا، جو کہ نہیں بتایا گیا۔ علی (ع) کس پر سخت تھے؟! اس یتیم بچے سے جسے وہ اپنی پیٹھ پر بٹھا کر ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتے، تاکہ اس کے دل سے یتیمی کا دکھ مٹ جائے۔ جب علی (ع) نے سنا کہ چوروں نے ایک غیر مسلم لڑکی کے پاؤں سے پازیب چوری کر لی ہے تو وہ اپنا چہرہ تنور کی جلتی ہوئی آگ کے قریب لاتے اور کہتے "اگر کوئی اس غم سے مر جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔" رات کو وہ روٹی اور کھجور کا تھیلا اٹھائے اندھیری گلیوں میں جاتے اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ غریبوں میں غذا تقسیم کرتے، تاکہ کوئی غریب رات کو بھوکہ نہ سوئے۔

2۔ علی (ع) اپنا چہرہ چھپا کر رکھتے، تاکہ پہچانے نہ جائیں، تاکہ فقیر کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ نہ آ‏‏ئے، وہ اپنے ہاتھ سے چہرے مبارک کو ڈھانپ لیتے۔۔۔۔ علی کے اشارے پر ہوا بھی آہستہ چلتی، تاکہ ایک بچے کی نیند میں خلل نہ پڑے اور۔۔۔۔
کتاب "صوت العدل الانسانیہ" کے عیسائی مصنف جارج جردق لکھتے ہیں: "یہ سب کچھ جو علی (ع) کی فضیلت اور انسان دوستی سے مجھے حاصل ہوا ہے، وہ ناپ تول اور تعداد سے باہر ہے۔ جو ہم تک پہنچا، بہت سی مقداروں میں سے صرف ایک چھوٹا سا حصہ گویا علی (ع) کی صفات کے لامحدود سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ اس رائے کی وضاحت کرتے ہوئے جردق نے ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: "علی کی بہت سی خوبیاں ان کے دشمنوں نے بغض کی بنا پر اور ان کے دوستوں نے تقیہ کی بنا پر فراموش کر دی ہیں۔"
 
3۔ ظاہری خلافت کے ابتدائی ایام میں کچھ امیر اور خواص راتوں کو آپ کے پاس گئے اور مال کو مساوی طور پر تقسیم کرنے پر شکوہ کیا؟! آپ پہلے والوں کی طرح شرفاء اور خواص کو زیادہ حصہ کیوں نہیں دیتے؟! اور حضرت علی (ع) نے فرمایا تھا: "کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ان لوگوں پر ظلم کرکے فتح حاصل کروںو جن پر میں حکومت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم میں یہ ظلم کبھی نہیں کروں گا۔ اگر یہ جائیداد میری ہوتی، تب بھی میں اسے لوگوں میں برابر تقسیم کر دیتا، یہ مال تو خدا کی ملکیت ہے۔" علی (ع) سخت تھے، لیکن لوگوں کے ساتھ نہیں، حکومت کے ان اہلکاروں کے ساتھ، جن کی ذمہ داری وہ خدا کے بندوں کی خدمت سمجھتے تھے اور انہیں حکم دیتے تھے کہ یہ لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں، یا مخلوق میں تمہارے برابر ہیں۔ دوسری طرف وہ آلودہ جائیدادوں، ناجائز دولت کے مالکوں، غنڈوں اور اس قسم کے تمام لوگوں کے ساتھ سخت تھے۔ یہ وہی متاثرین اور اسراف زدہ لوگوں تھے، جو ہمارے مظلوم آقا کی سختی سے خوفزدہ تھے اور علی (ع) کے انصاف کے بارے میں اپنی بے چینی کو لوگوں کی فکر سمجھتے تھے۔

4۔ یہاں صفین کا میدان ہے۔ صفر 37 ہجری کا 9واں دن۔ کل رات ایک سخت جنگ لڑی گئی اور غروب آفتاب کے چند منٹ بعد تک، اگرچہ 93 سالہ عمار، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی کے وفادار دوست تھے، شہید ہوگئے، لیکن معاویہ کی فوجوں کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کے حملے کے خوف سے وہ پوری رات سو نہیں سکے۔ علی (ع) کے ساتھی انہیں اس حد تک لے گئے کہ ان کی دہشت کی آواز کتوں کے چیخنے کے مترادف تھی اور اسی وجہ سے انہوں نے اس رات کو "لیلۃ الحریر" یعنی کتوں کے چیخنے کی رات کا نام دیا۔ تاہم، آج جنگ ایک گھنٹہ پہلے شروع ہوچکی تھی اور علی (ع) کی فوج کے کمانڈر مالک اشتر نے شام کی فوج کو تتر بتر کر دیا اور معاویہ کے خیمے کے قریب جا پہنچے، جو آج کے وائٹ ہاؤس کی طرح ہے۔ لیکن معاویہ کی فوجوں نے عمرو عاص کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا اور علی (ع) نے اس چال کے بعد مالک کو  واپس بلایا، جس نے کچھ کم عقل لوگوں میں شکوک پیدا کر دیئے تھے۔ مالک پریشان ہے۔۔۔۔ اسلام کا مستقبل خوفناک ہے۔۔۔ لیکن اس نے اپنے امام کی اطاعت کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔
 
5۔ چند سال پہلے کیہان میں ایک آرٹیکل میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ "امیر مومنین (ع) کے سامنے دشمنی اور عداوت کے لیے تین دھڑے موجود تھے۔ پہلے ناکثین، جیسے طلحہ اور زبیر، جن میں سے کچھ علی کو چاہتے تھے، لیکن علی کی عدالت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دوسرا گروہ مارکین، خوارج، جو علی (ع) کے بغیر انصاف کی تلاش میں تھے۔ تیسرا گروہ قاسطین کا تھا، جیسے معاویہ اور اس کا گروہ۔ جو نہ علی (ع)  اور نہ انصاف چاہتے تھے۔ اگرچہ ان تینوں دھڑوں نے ہمارے آقا علی (ع) کے خلاف جنگ کا  جھنڈا بلند کیا، صرف اس وجہ سے کہ علی (ع) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خالص اسلام کی نمائندگی کرتے تھے اور "علوی انصاف" پر اصرار کرتے تھے، جو "پیغمبرانہ انصاف" کا حقیقی ترجمہ تھا۔

6۔ ایک نصیحت آمیز اور سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ تاریخ کی غیر واضح اور غیر مبہم گواہی کے مطابق، ناکثین اور مارکین نے نہ صرف حضرت امیر (ع) کے دور میں بلکہ تمام ادوار میں قاسطین کی خدمت کی ہے اور قاسطین نے مارکین اور ناکثین کو استعمال کیا ہے۔ ناکثین میں سے طلحہ اور زبیر فتنہ جمل میں معاویہ کی طرف سے علی (ع) کے خلاف صف آراء ہوئے، کربلا میں شمر وہ شخص تھا، جس نے امام حسین (ع) کے خلاف سب سے زیادہ ظلم کیا، خوارج میں سے تھا! ابن ملجم مرادی  قاتل علی (ع) بھی خارجی تھا۔۔ دور کیوں جائیں؟ ایران میں 88 کے فتنہ کے دوران، فتنہ کے سرغنہ اور اس واقعے کے بہت سے دوسرے اہم عوامل نے کافروں اور منافقوں کا ساتھ دیا اور امام (رہ) کی توہین سے بھی باز نہ آئے اور نہ اس فعل کی مذمت کی اور آخر کار قاسطین کے ساتھ مل گئے، جو آج جو کے دور میں امریکہ، اسرائیل اور انگلینڈ کی منحوس مثلث ہے؟! اس گروہ نے ابتداء میں فتنہ کے دوران حط امام کا پیرو ہونے کا کا دعویٰ کرتے ہوئے کھلم کھلا امام خمینی کی توہین کی، امام حسین (ع) کے مقدسات کو آگ تک لگائی اور اسطرح امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خالص اسلام پر وار کیا، اس جنگ میں منافق، بہائی، مارکسی، شاہی سب شامل تھے۔

7۔ مالک غمگین ہے، وہ علی کو اپنی طاقت کے عروج پر مظلوم دیکھتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ عمار کے پاس جاتا ہے۔ "کاش ہم علی (ع) کو ایک ایسے دور میں لے جائیں، جہاں لوگ ان کی تعریف کریں اور ان کے طریقے اور رسم و رواج کو ترجیح دیں۔" عمار نے مالک کو تسلی دی۔ "وہ دن آنے والے ہیں، جو تم چاہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے لوگوں کا ذکر سنا ہے، جو اپنے آباء کے صلب میں اور اپنی ماؤں کے رحموں میں ہیں اور جب وہ وقت آئے گا، جس کی تم نے تمنا کی تھی تو وہ لوگ آجائیں گے، جو لبیک کہتے ہوئے "میں" اور "ہم" سے بے پرواہ صرف اور صرف اپنے مولا کی اطاعت کا دم بھرتے ہوئے آگے بڑھیں گے، ان کا دل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خالص اسلام سے مربوط ہے۔ وہ علی (ع) کو اپنا امام، استاد اور رہنما مانتے ہیں۔ وہ تسلط کے نظام کی تاریکی کو توڑتے ہوئے ایک نیا منصوبہ سامنے لائیں گے۔

رسول خدا (ص) نے جس کا وعدہ کیا تھا، وہ آئے گا اور جن مجرمین نے علی (ع) کی زندگی کے خاتمے کو اس دنیا میں اسلام کا خاتمہ سمجھا تھا وہ خوف سے بلک اٹھیں گے۔ علی کے یہ مرید دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اپنے تمام دشمنوں کو الکفر ملهًْ واحده‌» کا نمونہ کہہ کر ہر طرف سے ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایک بار پھر جمل، صفین اور نہروان کا منظر ہوگا، لیکن اس بار جمل کی طرح ناکثین سامنے ٹک نہیں سکین گے اور صفین کی طرح وہ فریب کے نیزے سے زخمی نہیں ہونگے، اور نہ نہروان جیسی صورت حال ہوگی۔ شیطان انسانوں اور جنوں کی اپنی فوجوں کو پکارے گا: تم کیوں بیٹھے ہو؟! اسلام ایک بار پھر تاریخ کی باڑ توڑ کر 1400 سال بعد میدان میں آگیا ہے۔
 
8۔ "خمینی کے  دور کا آغاز یقیناً اسی طرح ہوا۔ جس دور کی مالک نے تمنا کی تھی اور عمار نے بشارت دی تھی اور حضرت روح اللہ نے اس زمانے کے لوگوں کے بارے  میں فرمایا: "میں جرات کے ساتھ دعویٰ کرتا ہوں کہ ملت ایران اور اس کے کروڑوں لوگ رسول خدا (ص) کے دور کی قوم حجاز اور امیر المومنین (ع) کے دور کے اہل کوفہ سے بہتر ہیں۔" یہ نکتہ مصر کے مشہور ادیب اور صحافی "محمد حسنین ہیکل" سے بھی نقل ہوا ہے۔ وہ امام خمینی (رہ) سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں، جو کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد تہران میں ہوئی تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی کو اس طرح دیکھا کہ جیسے وہ وقت کی 1400 سالہ سرنگ سے گزر کر موجودہ دور میں پہنچ گئے ہیں، تاکہ علی (ع) کے فوجیوں کو اکٹھا کریں، جو ان کی شہادت کے بعد بکھر گئے تھے۔ بھولے ہوئے اسلام کو دوبارہ قائم کریں، عدل علی (ع) کو حکومت کی کرسی پر بٹھا دیں۔ میں خمینی کے چہرے میں یہ صلاحیت صاف دیکھ رہا ہوں۔"
 
9۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کس نے کہا؟ میں نے اسے کہیں پڑھا اور سنا۔ یہ ایک دانشمندانہ جملہ ہے "اگر ہمیں امیر المومنین (ع) کی سیرت و زندگی پر پرکھا جائے اور ملامت کی جائے، تو یہ ہمارے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ ہمیں لبرل ازم پر پرکھیں اور ہماری حوصلہ افزائی کریں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے جانشین نے یہ انداز اختیار کیا ہے کہ وہ 44 سال تک دنیا کی تمام چھوٹی اور بڑی طاقتوں کی کینہ توزیوں اور سازشوں کے سامنے کھڑے ہیں اور خواجہ شیراز، کے الفاظ کا مصداق بنے ہوئے ہیں یعنی ہم ’’عدم کی حد‘‘ سے ’’ عالم وجود‘‘ تک آئے ہیں۔

10۔ اب اس طرف اور دنیا کے دوسرے رخ پر ایک نظر ڈالیں۔ ہم  کیا دیکھتے ہیں۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ جیمز ویلزلی کے مطابق "اسلام ایک طاقتور قطب ہے اور خمینی اور خامنہ ای کے پرچم تلے پوری دنیا کو چیلنج کیا جا رہا ہے" اور بحر اوقیانوس کے سربراہی اجلاس میں برزینسکی کے مطابق "تاریخ ایک عظیم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ وہ مقام جہاں خمینی اور خامنہ ای کے رہنماء خطوط ہیں۔" (دوسری طرف حضرت خامنہ ای نے تاریخ کے عظیم موڑ کے بارے میں آگاہ کیا تھا) آج ہم نیتن یاہو کو چیخیں مارتے ہوئے دیکھتے ہیں، وہ کہہ رہا ہے: "میں مشرق وسطیٰ میں جہاں بھی دیکھتا ہوں، میں خمینی اور خامنہ ای کو خیمے لگائے دیکھتا ہوں" اور ایلون ٹوفلر افسوس کرتے ہوئے رہبر انقلاب کی اس بات کی تصدیق کر رہا ہے کہ ’’اس دور کو خمینی کا زمانہ کہنا چاہیئے۔‘‘
 تحریر: حسین شریعتمداری
 
 

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے سربراہ شیخ ابراہیم زکزاکی نے خراسان رضوی مشہد میں انقلابِ اسلامی ایران کی سالگرہ سے متعلق منعقدہ کانفرنس کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ انقلابِ اسلامی ایران کو 44 سال گزر چکے ہیں اور انقلاب اسلامی نے ان 4 دہائیوں میں دنیا پر نمایاں اثرات مرتب کئے ہیں اور اسلام کے بارے میں دنیا والوں کے نظریے کو بدل دیا ہے۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انقلابِ اسلامی سے پہلے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ دین اسلام کا تعلق ماضی سے ہے، کہا کہ مغربی طاقتوں نے دنیا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن انقلابِ اسلامی نے ان کی مساوات کو درہم برہم کر دیا۔

شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے کہا کہ انقلابِ اسلامی نے عوام کو یہ پیغام دیتے ہوئے کہ عالمی استکبار کے ظلم و ستم سے نجات کا واحد راستہ مزاحمت ہے، خوشخبری دی ہے کہ اقتدار دراصل عوام کے پاس ہے اور عوامی تحریکیں ہی استکباری مظالم پر قابو پا سکتی ہیں۔

شیخ زکزاکی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ مغرب نے اسلام فوبیا کیلئے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں، مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ کس طرح ایک آزاد اسلامی معاشرہ تمام اقوام کیلئے نمونہ بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی استکبار کا خیال تھا کہ انقلابِ اسلامی امام خمینی (رح) کی رحلت کے ساتھ ختم ہو جائے گا، لیکن آج الحمدللہ! انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں جاری ہے اور عالمی سطح پر، انقلابِ اسلامی کے اثر و رسوخ اور پیشرفت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

آخر میں، شیعہ اسلامی تحریک نائیجیریا کے رہنما نے مزید کہا کہ نائیجیریا کو دین اسلام کی ترویج اور انقلاب اسلامی کے افکار کے پھیلاؤ کا سب سے مؤثر نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، کسی کو یقین نہیں تھا کہ انقلابِ اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے کو بدل سکتا ہے۔

صیہونی حکومت کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران سے انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کے باوجود دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔

اتوار کی رات صیہونی حکومت نے ایرانی انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں پر بمباری کی جو عراقی سرحد سے البوکمال کراسنگ کے ذریعے شامی علاقے کی طرف بڑھ رہے تھے۔

صیہونی حکومت کے حملوں کے باوجود خوراک اور ادویات کے دوسرے ٹرک دمشق اور حلب میں داخل ہوئے۔

عین اسی وقت جب عراق اور شام کی سرحد پر خوراک لے جانے والے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، عراقی سیکیورٹی ذرائع نے بغداد ڈیلی کو بتایا کہ صوبہ الانبار کے مغرب میں واقع القائم شہر کے قریب کئی دھماکوں کی آواز سنی گئی۔ شام کی سرحد) اور آوازیں سرحدی پٹی میں بمباری کی وجہ سے ہوئیں۔یہ شام میں القائم اور البوکمال کے درمیان تھا۔ اس باخبر عراقی ذریعے کے مطابق ان حملوں کے وقت ہیلی کاپٹر بھی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے اس علاقے پر پرواز کر رہے تھے۔

اس رپورٹ کے مطابق خوراک لے جانے والے یہ ٹرک سرکاری اور قانونی طور پر البوکمال بارڈر کراسنگ کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں نشانہ بنایا گیا۔

taghribnews.com

ان دنوں مغرب میں آزادی اظہار، قرآن کریم کو نذر آتش کرنے، پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کرنے اور اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کا بہانہ بن چکا ہے۔ یہ آزادی "مغربی جمہوریت" کے تاج کا نگینہ سمجھی جاتی تھی اور یہ جمہوریت اکثر یورپی ممالک میں دائیں بازو کی فاشسٹ اور نسل پرست جماعتوں کے برسراقتدار آنے سے نابودی کی جانب گامزن ہے۔ سویڈن نے جو توہین آمیز اقدامات انجام دیے ہیں وہ برفیلے پہاڑ کی نوک ہے۔ مغرب کا "آزادی اظہار" صرف ان کے اپنے لئے ہے اور ہمارے لئے نہیں ہے اور وہ اس آزادی کو اپنی نسل پرستانہ پالیسیوں اور موقف سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم عرب یا مسلمان ہونے کے ناطے اس آزادی اظہار سے برخوردار نہیں ہو سکتے اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم مہاجر ہوں یا کسی عرب یا اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔ خاص طور پر اس وقت جب ہمارے منصفانہ اہداف خصوصا فلسطینیوں کی بات آتی ہے۔
 
مذکورہ بالا مسئلے میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کی لابیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کرنے کے بعد اسلامی مقدسات کی توہین پر عرب یا اسلامی ممالک کوئی موثر ردعمل ظاہر نہیں کرتے۔ ہم امریکہ، چین، فرانس اور برطانیہ اور ان کی پالیسیوں اور تاریخ پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن مغربی دنیا میں رہتے ہوئے فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات، فلسطینیوں کے گھر مسمار کئے جانے اور روزانہ کی بنیاد پر مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی بچوں کے قتل عام پر تنقید نہیں کر سکتے۔ اگر ہم غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدمات پر تنقید کریں تو مغربی ممالک کے قانون کی روشنی میں یہ اقدام یہود دشمنی کے زمرے میں آتا ہے جس کیلئے 15 سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ اسرائیل پر تنقید منافرت پیدا کرنا اور دہشت گردی کی حمایت قرار پاتی ہے۔
 
ہم دیکھتے ہیں کہ جرمنی نے جنین، نابلس اور غزہ کی پٹی میں شہید ہونے والے فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے اور غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینیوں کے مزاحمت کے جائز حق کی حمایت کرنے کیلئے مظاہرون پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ جرمنی کی عدالتیں عرب صحافیوں کو اپنا کام چھوڑ دینے پر مجبور کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی جو شخص حماس کا پرچم لہراتا ہے یا اس جیسا نظریہ رکھتا ہے اسے قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ حماس سے وابستگی تو بہت دور کی بات ہے۔ برطانیہ میں صرف حماس کی حمایت بذات خود جرم قرار پاتا ہے جس کی سزا شہریت منسوخ کر کے ملک سے نکال باہر کرنا ہے۔ فرانس میں "ہولوکاسٹ" کا انکار یا اس کے بارے میں کسی قسم کے شک کا اظہار جرم تصور ہوتا ہے۔ مغرب میں یہ سلسلہ جاری ہے اور نہیں معلوم کہاں جا کر رکے گا۔
 
میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں گذشتہ برس شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی پر ہونے والے حملے کے بارے میں گفتگو کیلئے شریک تھا۔ میں نے کہا کہ مسلمان اس کتاب کو اسلام کی توہین اور اسلاموفوبیا کی ترغیب کے زمرے میں قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا کہ یہ کتاب آزادی اظہار کے بہانے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائے جانے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد صہیونی لابی نے میرے اور اس پروگرام کے خلاف شدید پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ صیہونی لابی نے برطانوی اراکین پارلیمنٹ، صحافیوں اور اعلی سطح کے ادیبوں سمیت 10 ہزار افراد سے دستخط کروائے تاکہ میرے اور بی بی سی کے اس پروگرام کے خلاف پارلیمنٹ میں تحقیق کا آغاز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی سی نے ایک یہودی دشمن شخص کو دعوت دی تھی جو اسرائیل اور صیہونزم سے متعلق اعتدال پسندی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔
 
سویڈن کا قانون ہم جنس پرستوں کے پرچم کو نذر آتش کرنے کو جرم قرار دیتا ہے کیونکہ یہ اقدام اس ملک کے بعض شہریوں کے خلاف منافرت پھیلانے والا اور اشتعال انگیز اقدام تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن یہی ملک ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نسل پرست شہری کی جانب سے اربوں مسلمانوں کی نظر میں مقدس کتاب کو نذر آتش کئے جانے کو جرم نہیں سمجھتا اور سویڈن میں اس جیسے دسیوں ہزار افراد موجود ہیں۔ عرب حکومتوں سمیت اکثر اسلامی ممالک نے قرآن کریم کے خلاف اس توہین آمیز اقدام کی مذمت کی ہے۔ لیکن صرف مذمتی بیانیے جاری کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس سے ایسے توہین آمیز اقدامات نہیں رکیں گے۔ کیا فرانسیسی مجلے چارلی ہیبڈو کے خلاف بیانیے اس کی جانب سے اسلامی مقدسات کی توہین رک جانے کا باعث بنے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ ممالک قرآن کریم کو نذر آتش کرنے اور مسجد اقصی پر حملہ ور ہونے والے یہودی آبادکاروں کے خلاف کوئی اقدام انجام نہیں دیتے۔
 
یورپی ممالک میں دائیں بازو کی جماعتوں کے برسراقتدار آنے، عقل مند حکمرانوں کا فقدان، یورپ پر امریکی اثرورسوخ اور یوکرین جنگ کا طول پکڑ لینے جیسے عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں اسلامی مقدسات کی توہین جاری رہے گی بلکہ اس کی شدت میں بھی اضافہ آئے گا۔ لہذا عرب اور مسلمان شہریوں کو مزید برے حالات کیلئے تیار ہو جانا چاہئے۔ ممکن ہے ان کے خلاف سخت اقدامات انجام پائیں اور حتی لاکھوں مسلمانوں کو یورپی ممالک سے نکال دیا جائے۔ مغرب میں صیہونی لابیز عدالت پر مبنی اقدار جیسے آزادی اظہار اور دوسروں کے عقائد کا احترام، کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دے رہی ہیں اور وہ خود ان اقدامات کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہولوکاسٹ کسی اسلامی مغربی ملک یا مشرق وسطی میں رونما نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے مرکز میں رونما ہوئی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمام حقائق واضح ہو جائیں گے۔

تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)

 رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای  نے حالیہ دنوں میں چند یورپی ممالک میں قرآن کریم اور مقدسات کی توہین کی مذمت کرتے ہوئے اسے سامراجیت کی اسلام سے دشمنی کی علامت قرار دے دیا اور دنیا کے تمام حریت پسندوں کو توہین اور نفرت پھیلانے کی پالیسی کیخلاف مقابلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔

 اس حوالے سے  رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے کا ٹوئٹر پیغام درج ذیل ہے:

"آزادی اظہار کے نعرے کے ساتھ قرآن پاک کی توہین یہ ظاہر کرتی ہے کہ سامراجی حملوں کا ہدف اسلام اور قرآن پاک ہے۔ سامراجیت کی سازش کے باوجود قرآن روز بروز مقبول ہو رہا ہے اور مستقبل اسلام کا ہے؛ دنیا کے تمام آزادی پسندوں کو مقدسات کی توہین اور نفرت پھیلانے کی گھناؤنی پالیسی کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا"۔

/taghribnews.

سحر نیوز/ ایران: عالمی اہلبیت اسمبلی کی اعلی کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد حسن اختری نے بھی مسلم ممالک کی حکومتوں اور سیاستدانوں سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے جیسے گھناؤنے عمل کی مذمت کے علاوہ ایسے واضح عملی اقدامات کی اپیل کی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ کسی کو بھی ایسےقابل مذمت اقدامات کی جرات تک پیدا نہ ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ یورپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، دیگر انبیائے الہی اور آسمانی کتابوں اور دینی رہنماؤں کی توہین کو معمول بنا لیا ہے اور سوئیڈن کے اعلی عہدے داروں سمیت یورپی حکام بھی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اس نفرت انگیز اقدام کو صحیح ٹھہراتے ہیں اور اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور منافرت کے خلاف خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ڈینمارک کے ایک نسل پرست اسلام دشمن رکن پارلیمنٹ نے اسٹاکہوم میں واقع ترکی کے سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا تھا۔

سوئیڈن کی پولیس نے ان انتہاپسندوں کی مکمل حفاظت کے انتظامات کر رکھے تھے۔

پالوڈان کے اس اقدام اور سوئیڈن کے حکومت کی بے عملی پر تمام اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ زور پکڑ رہا ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان، ترکی، مصر، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، انڈونیشیا، اردن، مراکش سمیت متعدد اسلامی ممالک اور او آئی سی، خلیج فارس تعاون کونسل، انصاراللہ یمن، حزب اللہ لبنان، حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور سیکڑوں دیگر اسلامی تنظیموں نے اس گھناؤنے حرکت کی مذمت کی اور اس جرم میں ملوث افراد اور ممالک کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

مسلم امہ نے ادیان اور مذاہب کی بے حرمتی کی جانب سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان گھناؤنی حرکتوں کو روکا نہ گیا تو عالمی سطح پر بدامنی، تشدد اور منافرت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

Sunday, 08 January 2023 22:12

مسجد« حیدر» باکو

آذربایجان کی قدیم مسجد «حیدر» قفقاز کی قدیم ترین اور عظیم مساجد میں سے ایک ہے. اس مسجد کا طرز تعمیر «شیروان» کے طرز سے لیا گیا ہے جو اسلامی اور ساسانیاں دور کی مشترکہ طرز کا نچوڑ ہے۔

اس مسجد کا اندورونی حصہ ۴۲۰۰ مربع میٹر پر مشتمل ہے جہاں ۴ هزار یکجا عبادت کرسکتے ہیں. ۴ بلند مینار موجود ہیں جنکی لمبائی ۹۵ میڑ اور دو گنبد 55 جبہکہ دو گنبد 35 میڑ بلندی کے ساتھ اسلامی طرز تعمیر کی شاہکاری کا نمونہ ہے۔