قبور کي زيارت

Rate this item
(0 votes)

قبور کي زيارت

بعض لوگ عورتوں پر قبور کي زيارت حرام قرار ديتے ہيں اور مندرجہ ذيل دو حديثوں کو اپني دليل قرار ديتے ہيں:۱۔ "لعن اللہ زوارات القبور"(۱)۔ ٢۔ دوسري روايت ميں "زائرات القبور" ذکر ہوا ہے(٢)۔ "خدا زائر عورتوں پر لعنت کرے۔" کيا عورتوں کو قبور کي زيارت سے نہي کرنا صحيح ہے؟

جواب:

اس ميں حديث سے استدلال کيلئے شرط لازم مفقود ہے، کيونکہ گزشتہ ذکر کئے گئے دلائل کو مدنظر رکھتے ہوئے اس روايت کو منسوخ جاننا چاہيے اور اتفاق سے بعض اہل سنت بهائيوں کے محدثوں نے اسے منسوخ کہا بھي ہے، مثلاً ترمذي (اس حديث کے ناقل) کا کہنا ہے: اس حکم ميں مرد اور عورتيں برابر ہيں(۳)۔ قرطبي کہتے ہيں: يہ حکم ان عورتوں کے متعلق ہے جو اپنا اکثر وقت قبرستانوں ميں گزارتي ہيں اور اس طرح سے اپنے شوہروں کے حقوق پامال کرتي ہيں اور اس کي دليل يہ ہے کہ پيغمبر (ص) نے اس حديث ميں صيغہ مبالغہ "زوارات القبور" کو استعمال کيا ہے۔ ابن ماجہ، علي بن ابيطالب (ع) سے نقل کرتا ہے: ايک دن پيغمبر (ص) گھر سے باہر گئے تو ديکھا کہ عورتيں بيٹھي ہوئي ہيں، پيغمبر نے پوچھا: کيوں بيٹھي ہو؟ انھوں نے کہا: ہم جنازے کا انتظار کررہے ہيں۔ فرمايا: غسل دو گي؟ عرض کيا: نہ، فرمايا: جنازہ اٹھاؤ گي؟ عرض کيا: نہ، فرمايا: اسے قبر ميں رکھو گي؟ عرض کيا: نہ فرمايا: جاؤ، تم گنہکار ہو نہ کہ ثواب اور نيکي کرنے والي۔ يہ حديث بھي سند اور دلالت کے لحاظ سے مشکل رکھتي ہے اور ناقابل استدلال ہے کيونکہ اس کي سند ميں دينار بن عمرو ہے کہ جسے علماء رجال نے مجہول اور متروک کے طور پہ پہچنوايا ہے۔ جس حديث کا راوي اس حد تک ضعيف ہو، کيا اس کي حديث سے استدلال کيا جا سکتا ہے؟ اس کے علاوہ (اگر فرض کر ليا جائے کہ اس کي سند صحيح ہے) اس حديث کا متن بھي زيارت سے غير مربوط ہے کيونکہ پيغمبر(ص) ايسي خواتين سے مخاطب ہيں جو جنازے کا تماشا ديکھنے آئي تھيں اور کسي قسم کا کام انجام دينے نہيں آئي تھيں اور اس عمل کا زيارت قبور سے کوئي رابطہ نہيں ہے۔ ادھر ايک نکتے کا ذکر کرنا ضروري ہے اور وہ يہ کہ دين اسلام فطرت کے مطابق اور سہل و آسان ہے۔ پيغمبر اسلام(ص) نے فرمايا: آئين اسلام ايک مستحکم آئين ہے اور اس سے رفق و مدارا کے ساتھ سلوک کرو۔ فرض کريں، ايک مومنہ ماں کے جواں سال بيٹے کا انتقال ہوگيا اور اسے کئي خروار مٹي کے نيچے دفن کرديں تو روشن ہے کہ اس کا دل تڑپ رہا ہے اور اس بے تاب اور بے قرار ماں کي تسلي کيلئے ايک ہي راستہ ہے کہ اپنے بيٹے کي قبر کي زيارت کرے۔ اس صورت ميں ماں کو ايک ايسے عقلي اور عقلائي عمل سے روکنا (جو ساري دنيا ميں رائج ہے) اس کے روح پہ فشار لانے کا سبب بنے گا۔ اگر اسلام ايسے عمل سے نہي کرے تو کيا ايسے دين کو سہل اور آسان سمجھا جائے گا؟ اصولي طور پہ قبور کي زيارت،عبرت اور آخرت کو ياد کرنے کا بہترين وسيلہ ہے اور زيارت ميں ہميشہ اقربا کے ايصال ثواب کيلئے تلاوت قرآن اور فاتحہ خواني کي جاتي ہے۔ پھر کيسے ممکن ہے کہ عورتوں کو اس فيض سے محروم کيا جائے؟ دوسرے الفاظ ميں زيارت قبور کا فلسفہ آخرت کي ياد اور عبرت ہے جو قابل تخصيص نہيں ہے۔ ہاں يہ زيارت ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پاک اور منزہ ہو اور اگر فرض کر ليا جائے کہ عورتوں کو زيارت سے نہي کي گئي ہے، يہ نہي شائد اس لئے کي گئي ہو کيونکہ اس زمانے ميں عورتيں ان شرائط کا خيال نہيں رکھتي تھيں۔

منابع اور مآخذ:

۱) سنن ابن ماجہ: ج۱، ص۵۰۳ ۔

٢) سنن ابو داؤد: ج۳، ص۲۱۸۔

۳) سنن ترمذي: ج۳، ص۳۷۱۔

Read 2606 times