
سلیمانی
اضطراب اور پریشانی سے کیسے نجات حاصل کریں؟
حوزہ حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے خطیب نے کہا: روایات میں آیا ہے کہ سورہ انشراح کو زیادہ پڑھیں اور اس سورہ کو پڑھتے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھیں تاکہ خدا انسان کو شرح صبر عطا کرے اور بعض بیماریوں کے دور ہونے کے لیے بھی روایات میں کہا گیا ہے کہ اس سورہ کو پڑھیں اور اپنے اوپر دم کریں۔
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسین مومنی نے حرم حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا قم میں ماہ مبارک رمضان کی مناسبت سے جاری اپنے سلسلۂ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم کی چند آیات میں کلمہ قلب کے بجائے کلمہ صدر استعمال ہوا ہے جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام نے خداوندعالم سے شرح صدر کا تقاضا کیا ہے اور مفسرین کے بقول صدر سے مراد قلب ہے۔
انہوں نے مزید کہا: سورہ انعام کی آیت نمبر 25 میں آیا ہے کہ خداوندعالم اگر کسی کی ہدایت کا ارادہ کرتا ہے تو اسے شرح صدر عطا کرتا ہے اور اگر کسی کی ہدایت نہیں کرنا چاہتا تو اس کے سینے اور قلب کو تنگ کردیتا ہے اور وہ اسٹریس، اضطراب اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس آیت کے ذیل میں روایات میں بھی آیا ہے کہ صدر سے مراد قلب (دل) ہے۔
دینی علوم کے اس استاد نے کہا: سورہ مبارکہ انشراح میں خداوند متعال نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کر کے فرمایا: ہم نے تمہیں شرح صدر عطا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روایات میں آیا ہے کہ سورہ انشراح کی زیادہ تلاوت کرو اور اس کی تلاوت کرتے وقت اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھو تا کہ خداوندکریم انسان کو شرح صدر عطا کرے اور بعض بیماریوں کے لیے بھی آیا ہے کہ اس سورہ کو پڑھو اور اپنے اوپر دم کرو ۔
انہوں نے مزید کہا: سورہ انشراح انسان کو سکونِ دل اور شرح صدر عطا کرتی ہے اور انسان سے باطنی اضطراب کو دور کرتی ہے۔
انہوں نے کہا: باطنی اضطراب کے مصادیق ہی میں سے ایک دل کا تنگ ہونا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین مومنی نے کہا: روایات میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرح صدر کے مفہوم کے متعلق سوال ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شرح صدر ایسا نور ہے جو خداوندعالم مومنین کے دل میں قرار دیتا ہے اور اس کا دل کشادہ ہو جاتا ہے اور وہ مشکلات کے ہجوم میں تدبیر سے کام لیتا ہے۔
دوبارہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوا کہ آیا شرح صدر کی کوئی علامت بھی ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! دنیا سے دل نہ لگانا اور اس سے وابستہ نہ ہونا، آخرت کے لئے جدوجہد کرنا اور موت سے پہلے موت کے لیے تیار ہونا شرح صدر کی علامات میں سے ہیں۔
ڈیمونا کو پہلا صدمہ
ابھی گذشتہ ہفتے منگل کے روز اسرائیل کی ایک میزائل تیار کرنے والی فیکٹری میں دھماکے کی خبر میڈیا سے غائب نہیں ہوئی تھی کہ جمعرات کی صبح سائرن کی آوازوں نے ایک بار پھر غاصب صہیونیوں کو چونکا دیا۔ میڈیا ذرائع نے اطلاع دی کہ ایک میزائل ڈیمونا ایٹمی پلانٹ کے قریب ہی گرا ہے۔ صہیونی اخباری ذرائع کے مطابق یہ میزائل شام کی سرزمین سے فائر کیا گیا تھا۔ غاصب صہیونی فوج کی جاری کردہ رپورٹ میں اسرائیل کی جوہری تنصیبات کے قریب میزائل گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے فضائی دفاعی سسٹم کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ میزائل SA 5 نوعیت کا تھا، جو روسی ساختہ ہے اور S 200 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ میزائل شام کے فضائی دفاعی نظام کا حصہ تھا۔
اس واقعے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ شام سے فائر کیا گیا میزائل مقبوضہ فلسطین کی فضائی حدود میں 125 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد زمین پر گرا ہے اور اس دوران اسرائیل کی فضائی دفاعی شیلڈ حتی اس کی تشخیص دینے میں بھی ناکامی کا شکار رہی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابتدا میں یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ اس میزائل کی نوعیت کیا ہے۔ لہذا ابتدائی رپورٹ میں اعلان کیا گیا کہ زمین سے زمین پر مار کرنے والا ایک میزائل نقب کے علاقے میں آ گرا ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل تھا۔ اسی طرح ابتدا میں اسرائیلی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ ہمارے فضائی دفاعی سسٹم کی جانب سے اسے روکنے کیلئے میزائل فائر کئے گئے تھے لیکن معلوم نہیں اسے روک پائے یا نہیں۔
غاصب صہیونی فوج کے ترجمان اویخائے ادرعی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "شام سے فائر ہونے والے میزائل کے بارے میں ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا فضائی دفاعی نظام اسے ڈیٹکٹ کرنے میں ناکامی کا شکار ہوا ہے۔" اسی طرح غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ بنی گانتیز نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: "میزائل کو ڈیٹکٹ کرنے کی کوشش انجام پائی لیکن ناکامی کا شکار ہوئی۔ ہم بدستور اس حادثے کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔" ڈیمونا شہر کے میئر بنی بیتان نے ایف ایم 103 نامی صہیونی ریڈیو چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "تمام تر حفاظتی اقدامات کے باوجود ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈیمونا ایٹمی ری ایکٹر تک رسائی ممکن ہے۔ میں صبح اٹامک پلانٹ کے سربراہ کی فون کال آنے پر بیدار ہوا لیکن اس وقت بھی خطرے کی گھنٹی نہیں بج رہی تھی اور صرف محدود علاقوں میں شور شرابہ سنا جا رہا تھا۔"
غاصب صہیونی رژیم کے سابقہ وزیر جنگ اویگڈور لیبرمین نے جمعرات کی صبح ہونے والے دھماکے کے بارے میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "جن حالات میں 200 کلوگرام کا وار ہیڈ رکھنے والا میزائل اسرائیل پر آن گرا ہے، ان کا نتیجہ کچھ اور بھی نکل سکتا تھا۔ نیتن یاہو سوتا رہتا ہے اور صرف اپنے ذاتی کاموں کی تیاری میں مصروف ہے۔" غاصب صہیونی رژیم کے تھنک ٹینک سکیورٹی ریسرچ سنٹر کے سربراہ عاموس یادلین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ ایران کی جانب سے نطنز کی تخریب کاری کا جواب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: "یقین رکھیں ڈیمونا کا حادثہ ایران کی جوابی کارروائی نہیں ہے۔ ہم بہت سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ایرانیوں نے ابھی تک انتقام نہیں لیا۔ اس کے باوجود ہمیں سکون کا سانس لینا چاہیئے کہ گرنے والا میزائل ایرانی نہیں تھا۔"
صہیونی اخبار معاریو کے تجزیہ کار طال لیف رام نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ میزائل کا ٹارگٹ ڈیمونا جوہری ری ایکٹر نہیں تھا، لیکن ان کا یہ دعویٰ غاصب صہیونی رژیم کے کمزور فضائی دفاعی نظام پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔ لبنانی اخبار "الاخبار" نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام کی کمزوری کا واضح ثبوت ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے: "اس واقعے کے بارے میں اسرائیل کا سرکاری موقف بہت شکوک و شبہات کا حامل ہے۔ فائر ہونے والے میزائل اور اسے فائر کرنے والے کے بارے میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔" رای الیوم آنلائن اخبار کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں لکھتے ہیں: "ڈیمونا کی جانب فائر ہونے والا میزائل شاید جنگ کے قوانین میں تبدیلی کی نوید سنا رہا ہے۔ اس میزائل نے پرانے تمام جنگی قوانین کو روند ڈالا ہے۔"
حضرت خدیجہ (س) کی اخلاقی خصوصیات
حضرت خدیجہ علیھا السلام بہت ہی مہربان، بااخلاق اور نیک سیرت خاتون تھیں۔ وہ بہت مہمان نواز، باوقار شخصیت کی مالک، بہت ہی مذہبی اور دینی معاملات میں نہ تھکنے والی خاتون تھی۔ وہ سب سے پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے اسلام کو قبول کیا اور پیغمبر اکرم (ص) کی اقتداء میں نماز جماعت پڑھی۔ یہ وہ عظیم خاتون ہیں، جنہوں نے اپنے مال کو اسلام کے راستہ میں لٹا دیا۔ ایک قول کی بناء پر تاریخ میں بہت سے بزرگان یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسلام کے اعلان سے پہلے معاشرہ میں حضرت خدیجہ کو طاہرہ، مبارکہ اور عورتوں کی سردار کہا جاتا تھا۔ یہ وہ تنہاء شخصیت تھیں، جو منجی کی منتظر تھیں، وہ اپنے زمانے کے علماء سے پوچھتی رہتی تھی کہ نبوت پیغمبر اکرم (ص) کی علامات کیا ہیں۔؟ جب نبوت کی تمام علامتوں کو پیغمبر اکرم (ص) کے اندر دیکھ لیا تو آپ فوراً پیغمبر آخر الزمان سے ملحق ہوگئیں اور آخری نفس تک پیغمبر اکرم (ص) کے رکاب میں ثابت قدم رہیں نیز کسی بھی ایثار و قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) کے بارے میں جو اشعار کہے، وہ بہت ہی زیبا اور عشق و محبت سے لبریز ہیں، جس کا ایک نمونہ یہ ہے "پوری دنیا کا مال و متاع رکھتی ہوں اور پوری دنیا کی حکومت ہاتھ میں ہوتی، تب بھی آپ کے مقابلہ میں کچھ نہ تھا، آپ کے مقابلہ میں مال اور حکومت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔
دین کی ترویج اور ارتقاء میں حضرت خدیجہ کا کردار
حضرت خدیجہ کے پاس جو کچھ تھا، انہوں نے اسلام کے راستے میں قربان کر دیا اور اسے پیغمبر اکرم (ص) کے قدموں میں رکھ دیا۔ ابن اسحاق حضرت خدیجہ کی مدح کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں، خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کی سچی اور وفادار ساتھی تھیں۔ جب خدیجہ اور ابو طالب رحلت فرما گئے تو ساری مصیبتوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو گھیر لیا۔ انہوں نے اپنا پورا مال و متاع اسلام کی نصرت اور پیغمبر اکرم (ص) پر قربان کر دیا بلکہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیغمبر اکرم (ص) کا خیال رکھتی تھیں آپ نے اسلام کی ترویج اور ارتقاء کے لئے کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیا۔ حضرت خدیجہ ہم سب کے لیے خصوصاً ثروت مندوں کے لیے نمونہ ہیں، اس دنیا کی کوئی حیثیت نہیں، جو کچھ ہے، اسلام اور مسلمین کے لیے خرج کریں۔ خدا کی خوشنودی اور محمد و آل محمد علیھم السلام کے راستے میں خرج کریں، تاکہ کل کے لیے باقیات و صالحات ہو۔
حضرت خدیجہ کی تعریف پیغمبر اکرم (ص) کی زبانی
پیغمبر اکرم (ص) حضرت خدیجہ کی شان اور منزلت کے بارے میں فرماتے ہیں: "افضل نساء اهل الجنه خدیجه بنت خویلد و فاطمه بنت محمد و مریم بنت عمران و آسیه بنت مزاحم۔" "جنت کی افضل اور برترین عورتوں میں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، مریم عمران کی بیٹی اور آسیہ بنت مزاحم ہیں۔" ذہبی کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جب بھی قریش والوں کی تہمتوں، مکر و فریب، جھوٹ، دغا بازی اور ان کی طرف سے دی جانے والی تکالیف کا ذکر سنتے تھے تو غمگین ہو جاتے تھے اور جب ان کے سامنے حضرت خدیجہ کا ذکر کیا جاتا تھا تو آپ خوشحال ہوتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) حضرت خدیجہ کی بہت تعریف کرتے تھے اور آپ کے ہاں امہات المومنین میں سب سے زیادہ حضرت خدیجہ کو فوقیت حاصل تھی، یہان تک کہ حضرت عائشہ نے کہا، میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی کسی بیوی سے اتنا پیار نہیں کیا، جتنا خدیجہ سے کیا، وہ اس لئے کہ پیغمبر اکرم (ص) انہیں بہت زیادہ یاد کرتے تھے۔
احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت عائشہ سے کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں: "پیغمبر جب بھی خدیجہ کو یاد کرتے تھے تو ان پر درود بھیجتے اور بہت تعریف کرتے تھے تو میں نے کہا آپ کس قدر اس کو یاد کرتے ہیں، خدا نے آپ کو اس سے بہتر دیا ہے تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمانے لگے، خداوند متعال نے اس سے بہتر مجھے نہیں دیا، کیونکہ جب لوگوں نے کفر اختیار کیا، وہ مجھ پر ایمان لائی، جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے تو اس نے میری تائید اور حمایت کی، جب لوگوں نے میرا اقتصادی بائیکاٹ کیا تو اس نے اپنا تمام مال و دولت مجھ پر نچھاور کیا اور خداوند متعال نے مجھے اس سے بیٹی عطا کی، جبکہ دوسری بیویوں سے کچھ نہیں ملا۔"
حضرت خدیجہ کبریٰ، صاحب تقویٰ، پارسا، خدا پرست اور بہترین اخلاق کی مالک خاتون تھیں۔ آپ کا تعلق بنی ہاشم کے قبیلہ سے تھا، آپ کے والد گرامی خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب قریشی تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ، زائدہ بن اصم کی بیٹی تھی، جو باپ کی طرف سے پیغمبر اکرم (ص) کے چچازاد اور نسب کے لحاظ سے دونوں قصی بن کلاب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگرچہ آپ کی تاریخ پیدائش مشخص و معین نہیں ہے، لیکن تحقیق اور مطالعہ کے بعد حقیقت سے نزدیک تر یہ ہے کہ آپ عام الفیل سے تین سال پہلے دنیا میں تشریف لائیں۔ اس حوالہ سے آپ پیغمبر اکرم (ص) سے تین سال بڑی تھیں۔ انہوں نے ایک شرافت مند اور بااخلاق گھرانے میں پرورش پائی۔ اسی وجہ سے آپ صاحب تقویٰ، بااخلاق اور نجیب ترین خاتون کے طور پر معروف ہوگئیں۔ آپ اخلاق حمیدہ، تقویٰ اور شرافت ہی کی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) کی ہمسر بنیں۔
حضرت خدیجہ کی شادی
کیا حضرت خدیجہ علیھا السلام کی پہلی شادی پیغمبر اکرم سے ہوئی تھی؟ اس میں اختلاف ہے، بعض تاریخی کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ نے عرب کے مشہور شخص عتیق بن عائذ مخزومی سے پہلی شادی کی تھی اور وہ جوانی میں ہی فوت ہوگئے تھے، اس نے کافی مال حضرت خدیجہ کے لیے چھوڑا تھا۔ اس کے بعد ابی ھالہ بن المنذر الاسدی سے شادی کی، کچھ عرصہ کے بعد وہ بھی فوت کر جاتے ہیں اور اپنے پیچھے کافی ثروت چھوڑ جاتے ہیں، البتہ تاریخی باتیں زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں، کیونکہ بہت ساری شخصیات کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ نے ایک ہی شادی کی تھی اور وہ پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ تھی۔ مثال کے طور پر ابوالقاسم کوفی، احمد بلاذری، سید مرتضیٰ، شیخ طوسی، علامہ مجلسی وغیرہ اپنی اپنی کتابوں میں اس حقیقت کو ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کے گھر آئیں تھیں، اپنی بہن کی بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے آئیں تھیں، جن کی کفالت خود ان کے ذمہ تھی۔
حضرت خدیجہ کی ایک بہن تھی، جن کا نام ھالہ تھا اور ان کی دو بیٹیان تھیں، ھالہ کا شوہر مر گیا تھا اور وہ فقیر تھیں، اسی لئے حضرت خدیجہ ان کی پرورش اور کفالت کیا کرتی تھیں، جب خدیجہ نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کی تو یہ دو بیٹیاں حضرت خدیجہ کے پاس ہی رہتی تھیں۔ تاریخ نے ھالہ کی بیٹیوں کو حضرت خدیجہ اور پیغمبر اکرم (ص) سے نسبت دی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لے پالک بچوں کو کفالت اور پرورش کرنے والوں سے نسبت دینے کا رواج عام تھا۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت خدیجہ نے جب پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کی تھی تو اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی، البتہ یہ روایت بھی ہے کہ اس وقت آپ کی عمر 25 سال تھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ شادی کے وقت پیغمبر اکرم (ص) کی ہم عمر تھیں۔
بہرحال حضرت خدیجہ پیغمبر اکرم (ص) کے کردار و گفتار سے بہت متاثر تھیں اور آپ سے بہت عشق و محبت کرتی تھیں، جب خدیجہ نے اپنے دو غلاموں کو شام میں تجارتی سفر کے لئے پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ بھیجا تو انہوں نے جو معجزات اور کرامات دیکھے تھے، انہیں حضرت خدیجہ کو نقل کیا، جن سے بہت متاثر ہوئیں۔ آپ نے پیغمبر اکرم (ص) سے شادی کے بعد جو کچھ تھا، اسے پیغمبر اکرم (ص) کے قدموں میں رکھ دیا، اس طرح آپ نے اپنی محبت اور ایمان کا اظہار کیا، آپ نے نہ صرف اپنی تمام دار و نادار کو پیغمبر اکرم (ص) پر قربان کیا بلکہ اپنی شخصیت، مقام و منصب، مال اور منال جو عرب میں مشہور تھا، اسلام اور پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں رکھا۔ آپ کے القاب میں خاص طور پر طاہرہ ہے، جو پورے عرب میں آپ کی پاکیزگی، طہارت اور پاکدامنی کی علامت تھا۔
حضرت خدیجہ کی وصیت
جب حضرت خدیجہ بیمار ہوگئیں تو پیغمبر اسلام (ص) آپ کے سرہانے بیٹھے رہے اور فرماتے تھے، خدیجہ کیا تم جانتی ہو کہ خداوند تعالیٰ نے تم کو جنت میں بھی میری بیوی قرار دیا ہے اور بہشت میں اعلیٰ علیین میں آپ کے لیے جگہ دی ہے۔ آپ نے جب اپنی بیماری کو شدید دیکھا تو کہنے لگیں، یارسول اللہ، میں نے آپ کے حق میں کوئی کوتاہی کی ہے تو مجھے معاف کر دیجئے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا، تم سے میں نے کبھی کوئی کمی و بیشی نہیں دیکھی اور جب بھی مجھے تھکا ہوا اور پریشان دیکھا تو اپنی تمام جان و مال میرے اوپر نچھاور کر دیا۔ حضرت خدیجہ نے عرض کیا، یارسول اللہ (حضرت فاطمہ زہراء کی طرف اشارہ کرتی ہوئی) بہت خیال رکھیں چونکہ یہ میرے بعد یتیم، غریب اور تنہا ہو جائے گی، پس خدا نہ کرے کہ قریشی عورتوں کی طرف سے اسے کوئی اذیت و تکلیف پہنچے۔ خدا نہ کرے، کوئی اس کے چہرے پر تھپڑ مار دے، خدا نہ کرے کہ کوئی اس کے اوپر زور سے آواز دے، خدا نہ کرے کہ کوئی اس پر بہت بڑی چوٹ لگائے۔
ایک اور وصیت ہے، جسے بیان کرتے ہوئے شرماتی ہوں، اس کو فاطمہ زہراء کو بتا دوں گی۔ اس کے بعد فاطمہ زہرا کو بلایا اور کہا، میری آنکھوں کی ٹھنڈک، یہ اپنے باپ کو بتا دینا کہ میں قبر میں ڈرتی ہوں، اس لیے جو لباس آپ نے وحی نازل ہونے کے موقعہ پر پہنا ہوا تھا، مجھے کفن کے طور پر دیں۔ پس حضرت زہرا نے یہ بات پیغمبر اکرم (ص) کو بتا دی تو پیغمبر اسلام (ص) نے اپنا وہ لباس حضرت خدیجہ کو دے دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے خود حضرت خدیجہ کے غسل و کفن و دفن کی ذمہ داری لی اور خود رسول اللہ (ص) نے انجام دیا اور حضرت جبرائیل بھی بہشت سے ایک کفن لائے اور کہا یارسول اللہ، خداوند عالم نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ حضرت خدیجہ نے اپنے مال کو میری راہ میں خرچ کیا ہے، لہذا ان کے کفن کی ذمہ داری میرے لیے سزاوار ہے۔
حضرت خدیجہ کی وفات
بیہقی حضرت خدیجہ کی عمر کے بارے میں کہتے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ وفات کے وقت آپ کی عمر پچاس سال تھی۔ مرحوم ملا صالح مازندرانی لکھتے ہیں، ہجرت سے تین سال پہلے آپ کی پچاس سال عمر تھی، پس بنا بر این پیغمبر اسلام (ص) سے شادی کے وقت حضرت خدیجہ کی عمر پچیس سال تھی۔ آپ نے اس وقت داعی اجل کو لبیک کہا۔ جب دشمنان اسلام نے پیغمبر اکرم (ص) کا اقتصادی بائیکاٹ کیا ہوا تھا اور آپ شعب ابو طالب میں زندگی کر رہے تھے، اس طرف حضرت خدیجہ بعثت کے دسویں سال دنیا سے رحلت فرما گئیں۔
خطے میں ایران کی فضائی برتری اور امریکہ کی پریشانی
جنرل میک کینزی نے مزید کہا: "ہم 1950ء کے عشرے کے آغاز میں کوریا جنگ کے بعد پہلی بار مکمل فضائی برتری کے بغیر ملٹری آپریشن انجام دے رہے ہیں۔ جب تک ہم ایران کے ڈرون طیاروں کی شناخت کر کے تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا نیٹ ورک تیار نہیں کر لیتے، اس وقت تک ہمیں مکمل طور پر فضائی برتری حاصل نہیں ہو پائے گی۔" امریکہ کے اس اعلی سطحی جنرل کی جانب سے ایران کی فضائی طاقت کو تسلیم کئے جانے سے اس پراپیگنڈے کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جو مغربی میڈیا نے ایران کی فوجی طاقت کے بارے میں شروع کر رکھا ہے۔ مغربی میڈیا اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو کی پالیسی کے نتیجے میں ایران کی فوجی طاقت کمزور ہو چکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فوجی شعبے میں اپنی اندرونی اور مقامی صلاحیتوں اور توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے ڈرون طیاروں کی بڑی کھیپ تیار کر لی ہے جس کے نتیجے میں اب مغربی ایشیا خطے میں ایران امریکہ کی فضائی برتری کے مقابلے میں سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ ایران کے ڈرون طیارے خطے میں امریکہ کی فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھنے میں بہت زیادہ حد تک کامیاب ہوئے ہیں اور ضروری مواقع پر فوجی کاروائیاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ یہی چیز امریکہ کے شدید تعجب اور پریشانی کا باعث بنی ہے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت نے مارچ 2021ء میں قومی سکیورٹی اسٹریٹجی سے متعلق ایک اہم دستاویز جاری کی تھی۔
"قومی سکیورٹی اسٹریٹجی کی عبوری گائیڈ" نامی اس اہم دستاویز میں خطے کے اہم کھلاڑی کے طور پر ایران کے کردار پر زور دیا گیا تھا اور ایران کو ایسی صلاحیتیں اور ٹیکنالوجیز حاصل کرنے سے روکنے پر تاکید کی گئی تھی جو "کھیل تبدیل کرنے" کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ امریکہ کے مدنظر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجیز میں خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ ایک ملک کی فوجی اور صنعتی طاقت میں ان ٹیکنالوجیز کے اہم کردار کی بدولت امریکہ نے ان پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں ایران نے مختلف قسم کے نئے ڈرون طیارے تیار کرنے کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ امریکہ کے فوجی ماہر مائیکل نائٹس کے بقول ایرانی ڈرون طیاروں کا زیادہ تر استعمال خطے میں اس کے حامی گروہ کر رہے ہیں۔
لبنان میں حزب اللہ لبنان اور یمن میں انصاراللہ یمن سمیت ایران سے وابستہ اسلامی گروہ اور تنظیمیں ایران کے جدید ڈرون طیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ فوجی اور دفاعی شعبوں خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی میں اسلامی جمہوریہ ایران کی روز افزوں ترقی ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف دوست اور دشمن دونوں کرتے نظر آتے ہیں۔ آج ایران کا شمار دنیا کے ان محدود ممالک میں ہوتا ہے جو مختلف قسم کے ڈرون طیاروں کی ڈیزائننگ، تیاری اور ماڈرنائز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف بری، بحری اور فضائی فوجی آپریشنز میں ڈرون طیاروں کی روز بروز بڑھتی اہمیت کسی پر پوشیدہ نہیں ہے۔ مزید برآں، سویلین شعبوں میں بھی ڈرون طیاروں کا استعال تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈرون طیاروں کی ٹیکنالوجی میں ایران کی ترقی کا اندازہ جدید ترین امریکی ڈرون طیاروں کو ہیک کر کے نیچے اتار لینے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس وقت ایران چھوٹے سے لے کر بہت بڑے ڈرون طیارے اور مختلف قسم کے جیٹ انجن سے چلنے والے پرندے ڈیزائن کرنے اور تیار کرنے کی بھرپور صلاحیت کا مالک بن چکا ہے۔ یہ ڈرون طیارے اور پرندے شناخت اور معلومات جمع کرنے، فوجی کاروائی کرنے، خودکش حملہ کرنے، گشت انجام دینے اور دیگر بہت زیادہ سرگرمیاں انجام دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اکتوبر 2020ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 کی روشنی میں ایران پر اسلحہ فروخت کرنے کی پابندی بھی ختم ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں اب وہ اپنی ایسی مصنوعات دیگر ممالک کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔ اس مسئلے نے بھی واشنگٹن کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ سینٹکام کے مرکزی کمانڈر کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کی ڈرون طاقت سے شدید خوفزدہ ہے۔
رمضان المبارک کے دسویں دن کی دعا
اے معبود! مجھے اس مہینے میں تجھ پر توکل اور بھروسا کرنے والوں کے زمرے میں قرار دے، اور اس میں مجھے اپنے ہاں کامیابی اور فلاح عطا فرما، اور اپنی بارگاہ کے مقربین میں قرار دے، اپنے احسان کے واسطے، اے تلاش کرنے والوں کی تلاش کے آخری مقصود۔
جدید ماہ مبارک رمضان کے استقبال اور ہر دن کی دعا بمع ترجمہ ماہ مبارک رمضان کے استقبال اور ہر دن کی دعا بمع ترجمہ
وكان من دعائهِ (عليه السلام) إذا دخل شهر رمضان
صحیفہ سجادیہ کاملہ کی 44 نمبر دعا:
الْحَمْدُ للهِ الَّذِي هَدَانَا لِحَمْدِهِ، وَجَعَلَنَا مِنْ أَهْلِهِ، لِنَكُونَ لاحْسَانِهِ مِنَ الشَّاكِرِينَ، وَلِيَجْزِيَنَا عَلَى ذلِكَ جَزَآءَ الْمُحْسِنِينَ.
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنی حمد و شکر کی طرف ہماری راہنمائی کی اور ہمیں حمد گزاروں میں سے قرار دیا تا کہ ہم اس کے احسانات پر شکر کرنے والوں میں محسوب ہوں اور ہمیں اس شکر کے بدلہ میں نیکو کاروں کا اجر دے۔
وَالْحَمْدُ للهِ الَّذِي حَبَانَا بِدِينِهِ، وَاخْتَصَّنَا بِمِلَّتِهِ، وَسَبَّلَنَا فِي سُبُلِ إحْسَانِهِ، لِنَسْلُكَهَا بِمَنِّهِ إلَى رِضْوَانِهِ، حَمْدَاً يَتَقَبَّلُهُ مِنَّا، وَيَرْضَى بِهِ عَنَّا.
اس اللہ تعالیٰ کے لیے حمد و ستائش ہے جس نے ہمیں اپنا دین عطا کیا اور اپنی ملت میں سے قرار دے کر امتیاز بخشا اور اپنے لطف و احسان کی راہوں پر چلایا تا کہ ہم اس کے فضل و کرم سے ان راستوں پر چل کر اس کی خوشنودی تک پہنچیں۔ ایسی حمد جسے وہ قبول فرمائے اور جس کی وجہ سے ہم سے وہ راضی ہو جائے۔
وَالْحَمْدُ لِلّه الَّذِي جَعَلَ مِنْ تِلْكَ السُّبُلِ شَهْرَهُ شَهْرَ رَمَضَانَ، شَهْرَ الصِّيَامِ، وَشَهْرَ الاِسْلاَم، وَشَهْرَ الطَّهُورِ، وَشَهْرَ التَّمْحِيْصِ، وَشَهْرَ الْقِيَامِ، الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ، وَبَيِّنَات مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ،
تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لطف و احسان کے راستوں میں سے ایک راستہ، اپنے اس مہینے کو قرار دیا یعنی رمضان کا مہینہ ، صیام کا مہینہ، اسلام کا مہینہ، پاکیزگی کا مہینہ، تصفیہ و تطہیر کا مہینہ، عبادت و قیام کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا۔ جو لوگوں کے لیے راہنما ہے۔ ہدایت اور حق و باطل کے امتیاز کی روشن صداقتیں رکھتا ہے۔
فَأَبَانَ فَضِيْلَتَهُ عَلَى سَائِرِ الشُّهُورِ بِمَا جَعَلَ لَهُ مِنَ الْحُرُمَاتِ الْمَوْفُورَةِ وَالْفَضَائِلِ الْمَشْهُورَةِ، فَحَرَّمَ فِيْهِ ما أَحَلَّ فِي غَيْرِهِ إعْظَاماً، وَحَجَرَ فِيْهِ الْمَطَاعِمَ وَالْمَشَارِبَ إكْرَاماً، وَجَعَلَ لَهُ وَقْتاً بَيِّناً لاَ يُجِيزُ جَلَّ وَعَزَّ أَنْ يُقَدَّمَ قَبْلَهُ، وَلا يَقْبَلُ أَنْ يُؤَخَّرَ عَنْهُ،
چنانچہ تمام مہینوں پر اس کی فضیلت و برتری کو آشکار کیا۔ ان فراواں عزتوں اور نمایاں فضیلتوں کی وجہ سے جو اس کے لیے قرار دیں اور اس کی عظمت کے اظہار کے لیے جو چیزیں دوسرے مہینوں میں جائز کی تھیں اس میں حرام کر دیں اور اس کے احترام کے پیش نظر کھانے پینے کی چیزوں سے منع کر دیا اور ایک واضح زمانہ اس کے لیے معین کر دیا۔ خدائے بزرگ و برتر یہ اجازت نہیں دیتا کہ اسے اس کے معیّن وقت سے آگے بڑھا دیا جائے اور نہ یہ قبول کرتا ہے کہ اس سے مؤخر کر دیا جائے۔
ثُمَّ فَضَّلَ لَيْلَةً وَاحِدَةً مِنْ لَيَالِيهِ عَلَى لَيَالِي أَلْفِ شَهْر، وَسَمَّاهَا لَيْلَةَ الْقَدْرِ، تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْر، سَلاَمٌ دَائِمُ الْبَرَكَةِ إلَى طُلُوعِ الْفَجْرِ، عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ بِمَا أَحْكَمَ مِنْ قَضَائِهِ.
پھر یہ کہ اس کی راتوں میں سے ایک رات کو ہزار مہینوں کی راتوں پر فضیلت دی اور اس کا نام شب قدر رکھا۔ اس رات میں فرشتے اور روح القدس ہر اس امر کے ساتھ جو اس کا قطعی فیصلہ ہوتا ہے، اس کے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے، نازل ہوتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی کی رات ہے جس کی برکت طلوع فجر تک دائم و برقرار ہے۔
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، وَأَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ فَضْلِهِ وَإِجْلاَلَ حُرْمَتِهِ وَالتَّحَفُّظَ مِمَّا حَظَرْتَ فِيهِ وَأَعِنَّا عَلَى صِيَامِهِ بِكَفِّ الْجَوَارِحِ عَنْ مَعَاصِيْكَ، وَاسْتِعْمَالِهَا فِيهِ بِمَا يُرْضِيْكَ حَتَّى لاَ نُصْغِي بِأَسْمَاعِنَا إلَى لَغْو، وَلا نُسْرِعُ بِأَبْصَارِنَا إلَى لَهْو، وَحَتَّى لاَ نَبْسُطَ أَيْدِيَنَا إلَى مَحْظُور، وَلاَ نَخْطُوَ بِأَقْدَامِنَا إلَى مَحْجُور، وَحَتَّى لاَ تَعِيَ بُطُونُنَا إلاَّ مَا أَحْلَلْتَ، وَلا تَنْطِقَ أَلْسِنَتُنَا إلاَّ بِمَا مَثَّلْتَ وَلا نَتَكَلَّفَ إلاَّ ما يُدْنِي مِنْ ثَوَابِكَ، وَلاَ نَتَعَاطَى إلاّ الَّذِي يَقِيْ مِنْ عِقَابِكَ، ثُمَّ خَلِّصْ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنْ رِئآءِ الْمُرَائِينَ وَسُمْعَةِ الْمُسْمِعِينَ، لاَ نَشْرِكُ فِيهِ أَحَداً دُونَكَ، وَلا نَبْتَغِيْ فِيهِ مُرَاداً سِوَاكَ.
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ہدایت فرما کہ ہم اس مہینہ کے فضل و شرف کو پہچانیں، اس کی عزت و حرمت کو بلند جانیں اور اس میں ان چیزوں سے جن سے تو نے منع کیا ہے اجتناب کریں اور اس کے روزے رکھنے میں ہمارے اعضاء کو نافرمانیوں سے روکنے اور ان کاموں میں مصروف رکھنے سے جو تیری خوشنودی کا باعث ہوں ہماری اعانت فرما، تا کہ ہم نہ بیہودہ باتوں کی طرف کان لگائیں، نہ فضول چیزوں کی طرف بے محابا نگاہیں اٹھائیں، نہ حرام کی طرف ہاتھ بڑھائیں نہ امر ممنوع کی طرف پیش قدمی کریں، نہ تیری حلال کی ہوئی چیزوں کے علاوہ کسی چیز کو ہمارے شکم قبول کریں اور نہ تیری بیان کی ہوئی باتوں کے سوا ہماری زبانیں گویا ہوں۔ صرف ان چیزوں کے بجا لانے کا بار اٹھائیں جو تیرے ثواب سے قریب کریں اور صرف ان کاموں کو انجام دیں جو تیرے عذاب سے بچا لے جائیں۔ پھر ان تمام اعمال کو ریاکاروں کی ریاکاری اور شہرت پسندوں کی شہرت پسندی سے پاک کر دے، اس طرح کہ تیرے علاوہ کسی کو ان میں شریک نہ کریں اور تیرے سوا کسی سے کوئی مطلب نہ رکھیں۔
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، وَقِفْنَا فِيْهِ عَلَى مَوَاقِيْتِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْس بِحُدُودِهَا الَّتِي حَدَّدْتَ، وَفُرُوضِهَا الَّتِي فَرَضْتَ وَوَظَائِفِهَا الَّتِي وَظَّفْتَ، وَأَوْقَاتِهَا الَّتِي وَقَّتَّ، وَأَنْزِلْنَا فِيهَا مَنْزِلَةَ الْمُصِيْبينَ لِمَنَازِلِهَا الْحَافِظِينَ لاِرْكَانِهَا الْمُؤَدِّينَ لَهَا فِي أَوْقَاتِهَا عَلَى مَا سَنَّهُ عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ فِي رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا وَجَمِيْعِ فَوَاضِلِهَا عَلَى أَتَمِّ الطَّهُورِ، وَأَسْبَغِهِ وَأَبْيَنِ الْخُشُوعِ وَأَبْلَغِهِ، وَوَفِّقْنَا فِيهِ لاِنْ نَصِلَ أَرْحَامَنَا بِالبِرِّ وَالصِّلَةِ وَأَنْ نَتَعَاهَدَ جِيرَانَنَا بِالاِفْضَالِ وَالْعَطِيَّةِ وَأَنْ نُخَلِّصَ أَمْوَالَنَا مِنَ التَّبِعَاتِ، وَأَنْ نُطَهِّرَهَا بِإخْرَاجِ الزَّكَوَاتِ، وَأَنْ نُرَاجِعَ مَنْ هَاجَرَنَا وَأَنْ نُنْصِفَ مَنْ ظَلَمَنَا وَأَنْ نُسَالِمَ مَنْ عَادَانَا حَاشَا مَنْ عُودِيَ فِيْكَ وَلَكَ، فَإنَّهُ الْعَدُوُّ الَّذِي لاَ نُوالِيهِ، وَالحِزْبُ الَّذِي لاَ نُصَافِيهِ. وَأَنْ نَتَقَرَّبَ إلَيْكَ فِيْهِ مِنَ الاَعْمَالِ الزَّاكِيَةِ بِمَا تُطَهِّرُنا بِهِ مِنَ الذُّنُوبِ، وَتَعْصِمُنَا فِيهِ مِمَّا نَسْتَأنِفُ مِنَ الْعُيُوبِ، حَتَّى لا يُورِدَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ مَلاَئِكَتِكَ إلاّ دُونَ مَا نُورِدُ مِنْ أَبْوابِ الطَّاعَةِ لَكَ، وَأَنْوَاعِ القُرْبَةِ إلَيْكَ.
اے اللہ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس میں نماز ہائے پنچگانہ کے اوقات سے ان حدود کے ساتھ جو تو نے معیّن کیے ہیں اور ان واجبات کے ساتھ جو تو نے عائد کیے ہیں اور ان لمحات کے ساتھ جو تو نے مقرر کیے ہیں آگاہ فرما اور ہمیں ان نمازوں میں ان لوگوں کے مرتبے پر فائز کر جو ان نمازوں کے درجات عالیہ حاصل کرنے والے، ان کے واجبات کی نگہداشت کرنے والے اور انہیں ان کے اوقات میں اسی طریقہ پر جو تیرے عبد خاص اور رسول (ص) نے رکوع سجدہ اور ان کے تمام فضیلت و برتری کے پہلوؤں میں جاری کیا تھا، کامل اور پوری پاکیزگی اور نمایاں و مکمل خشوع و فروتنی کے ساتھ ادا کرنے والے ہیں۔
أللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذَا الشَّهْرِ، وَبِحَقِّ مَنْ تَعَبَّدَ لَكَ فِيهِ مِنِ ابْتِدَائِهِ إلَى وَقْتِ فَنَائِهِ مِنْ مَلَك قَرَّبْتَهُ أَوْ نَبِيٍّ أَرْسَلْتَهُ أَوْ عَبْد صَالِح اخْتَصَصْتَهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، وَأَهِّلْنَا فِيهِ لِمَا وَعَدْتَ أَوْلِياءَكَ مِنْ كَرَامَتِكَ، وَأَوْجِبْ لَنَا فِيهِ مَا أَوْجَبْتَ لاِهْلِ الْمُبَالَغَةِ فِي طَاعَتِكَ، وَاجْعَلْنَا فِي نَظْمِ مَنِ اسْتَحَقَّ الرَّفِيْعَ الاعْلَى بِرَحْمَتِكَ.
اور ہمیں اس مہینہ میں توفیق دے کہ نیکی و احسان کے ذریعہ عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی اور انعام و بخشش سے ہمسایوں کی خبر گیری کریں اور اپنے اموال کو مظلوموں سے پاک و صاف کریں اور زکوٰۃ دے کر انہیں پاکیزہ و طیب بنا لیں اور یہ کہ جو ہم سے علیحدگی اختیار کرے اس کی طرف دستِ مصالحت بڑھائیں۔ جو ہم پر ظلم کرے اس سے انصاف برتیں۔ جو ہم سے دشمنی کرے اس سے صلح و صفائی کریں ، سوائے اس کے جس سے تیرے لیے اور تیری خاطر دشمنی کی گئی ہو کیونکہ وہ ایسا دشمن ہے جسے ہم دوست نہیں رکھ سکتے اور ایسے گروہ کا ( فرد) ہے جس سے ہم صاف نہیں ہو سکتے۔
اور ہمیں اس مہینہ میں ایسے پاک کر دے اور از سر نو برائیوں کے ارتکاب سے بچا لے جائے۔ یہاں تک کہ فرشتے تیری بارگاہ میں جو اعمال نامے پیش کریں وہ ہماری ہر قسم کی اطاعتوں اور ہر نوع کی عبادت کے مقابلہ میں سبک ہوں۔
اے اللہ ! میں تجھ سے اس مہینہ کے حق و حرمت اور نیز ان لوگوں کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جنہوں نے تیری عبادت کی ہو، وہ مقرب بارگاہ فرشتہ ہو یا بنی مرسل یا کوئی مرد صالح و برگزیدہ ، کہ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائے اور جس عزت و کرامت کا تو نے اپنے دوستوں سے وعدہ کیا ہے، اس کا ہمیں اہل بنا اور جو انتہائی اطاعت کرنے والے کے لیے تو نے اجر مقرر کیا ہے، وہ ہمارے لیے بھی مقرر فرما اور ہمیں اپنی رحمت سے ان لوگوں میں شامل کر کہ جنہوں نے بلند ترین مرتبہ کا استحقاق پیدا کیا ہے۔
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، وَجَنِّبْنَا الالْحَادَ فِي تَوْحِيدِكَ وَالتَّقْصِيرَ فِي تَمْجِيدِكَ وَالشَّكَّ فِي دِينِكَ وَالْعَمَى عَنْ سَبِيْلِكَ وَالاغْفَالَ لِحُرْمَتِكَ، وَالانْخِدَاعَ لِعَدُوِّكَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ.
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس چیز سے بچائے رکھ کہ ہم توحید میں کج اندیشی، تیری تمجید و بزرگی میں کوتاہی، تیری حرمت سے لاپروائی کریں اور تیرے دشمن شیطان مردود سے فریب خوردگی کا شکار ہوں۔
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ وَإذَا كَانَ لَكَ فِيْ كُلِّ لَيْلَة مِنْ لَيَالِيْ شَهْرِنَا هَذَا رِقَابٌ يُعْتِقُهَا عَفْوُكَ أَوْ يَهَبُهَا صَفْحُكَ فَاجْعَلْ رِقَابَنَا مِنْ تِلْكَ الرِّقَابِ وَاجْعَلْنَا لِشَهْرِنَا مِنْ خَيْرِ أَهْل وَأَصْحَاب.
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور جب کہ اس مہینے کی راتوں میں ہر رات میں تیرے کچھ ایسے بندے ہوتے ہیں جنہیں تیرا عفو کرم آزاد کرتا ہے یا تیری بخشش و درگزر انہیں بخش دیتی ہے تو ہمیں بھی انہی بندوں میں داخل کر اور اس مہینہ کے بہترین اہل و اصحاب میں قرار دے۔
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ وَامْحَقْ ذُنُوبَنَا مَعَ امِّحاقِ هِلاَلِهِ وَاسْلَخْ عَنَّا تَبِعَاتِنَا مَعَ انْسِلاَخِ أَيَّامِهِ حَتَّى يَنْقَضِي عَنَّا وَقَدْ صَفَّيْتَنَا فِيهِ مِنَ الْخَطِيئاتِ، وَأَخْلَصْتَنَا فِيهِ مِنَ السَّيِّئاتِ.
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس چاند کے گھٹنے کے ساتھ ہمارے گناہوں کو بھی محو کر دے اور جب اس کے دن ختم ہونے پر آئیں تو ہمارے گناہوں کا وبال ہم سے دور کر دے تا کہ یہ مہینہ اس طرح تمام ہو کہ ہمیں خطاؤں سے پاک اور گناہوں سے بری کر چکا ہو۔
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، وَإنْ مِلْنَا فِيهِ فَعَدِّلْنا، وَإنْ زِغْنَا فِيهِ فَقَوِّمْنَا، وَإنِ اشْتَمَلَ عَلَيْنَا عَدُوُّكَ الشَّيْطَانُ فَاسْتَنْقِذْنَا مِنْهُ. أللَهُمَّ اشْحَنْهُ بِعِبَادَتِنَا إيَّاكَ، وَزَيِّنْ أَوْقَاتَهُ بِطَاعَتِنَا لَكَ، وَأَعِنَّا فِي نَهَارِهِ عَلَى صِيَامِهِ، وَفِي لَيْلِهِ عَلَى الصَّلاَةِ وَالتَّضَرُّعِ إلَيْكَ وَالخُشُوعِ لَكَ، وَالذِّلَّةِ بَيْنَ يَدَيْكَ حَتَّى لا يَشْهَدَ نَهَارُهُ عَلَيْنَا بِغَفْلَة، وَلا لَيْلُهُ بِتَفْرِيط. أللَّهُمَّ وَاجْعَلْنَا فِي سَائِرِ الشُّهُورِ وَالاَيَّامِ كَذَلِكَ مَا عَمَّرْتَنَا، وَاجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ،
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور اس مہینہ میں اگر ہم حق سے منہ موڑیں تو ہمیں سیدھے راستہ پر لگا دے اور کجروی احتیار کریں تو ہماری اصلاح و درستگی فرما اور اگر تیرا دشمن شیطان ہمارے گرد احاطہ کرے تو اس کے پنجے سے چھڑا لے۔
بار الہا ! اس مہینہ کا دامن ہماری عبادتوں سے جو تیرے لیے بجا لائی گئی ہوں، بھر دے اور اس کے لمحات کو ہماری اطاعتوں سے سجا دے اور اس کے دنوں میں روزے اور اس کی راتوں میں نمازیں پڑھنے، تیرے حضور گڑگڑانے، تیرے سامنے عجز و الحاح کرنے اور تیرے روبرو ذلت و خواری کا مظاہرہ کرنے، ان سب میں ہماری مدد فرما تا کہ اس کے دن ہمارے خلاف غفلت کی اور اس کی راتیں کوتاہی و تقصیر کی گواہی نہ دیں۔
هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ، وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ، وَمِنَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ.
أللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِهِ، فِي كُلِّ وَقْت وَكُلِّ أَوَان وَعَلَى كُلِّ حَال عَدَدَ مَا صَلَّيْتَ عَلَى مَنْ صَلَّيْتَ عَلَيْهِ، وَأَضْعَافَ ذَلِكَ كُلِّهِ بِالاضْعافِ الَّتِي لا يُحْصِيهَا غَيْرُكَ، إنَّكَ فَعَّالٌ لِمَا تُرِيدُ.
اے اللہ ! تمام مہینوں اور دنوں میں جب تک تو ہمیں زندہ رکھے، ایسا ہی قرار دے اور ہمیں ان بندوں میں شامل فرما جو فردوس بریں کی زندگی کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وارث ہوں گے اور وہ کہ جو کچھ وہ خدا کی راہ میں دے سکتے ہیں، دیتے ہیں، پھر بھی ان کے دلوں کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انہیں اپنے پروردگار کی طرف پلٹ کر جانا ہے اور ان لوگوں میں سے جو نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور وہی تو وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔
اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر ہر وقت اور ہر گھڑی اور ہر حال میں اس قدر رحمت نازل فرما کہ جتنی تو نے کسی پر ناز ل کی ہو اور ان سب رحمتوں سے دوگنی چوگنی کہ جسے تیرے علاوہ کوئی شمار نہ کر سکے بیشک تو جو چاہتا ہے، وہی کرنے والا ہے۔
ماہ مبارک رمضان کے ہر دن کی دعا اور ترجمہ
پہلا دن:
اَللّهُمَّ اجْعَلْ صِيامي فيہ صِيامَ الصّائِمينَ وَقِيامي فيِہ قِيامَ القائِمينَ وَنَبِّهْني فيہ عَن نَوْمَة الغافِلينَ وَهَبْ لي جُرمي فيہ يا اِلهَ العالمينَ وَاعْفُ عَنّي يا عافِياً عَنِ المُجرِمينَ،
اے معبود ! میرا روزہ اس مہینے میں روزہ داروں کا روزہ قرار دے، اور اس میں میرے قیام کو قیام کرنے والوں کا قیام قرار دے اور مجھے اس میں مجھے غافلوں کی غفلت سے بیداری عطا کر، اور میرے گناہوں کو بخش دے، اے جہانوں کے معبود اور مجھ سے درگذر فرما اے مجرمین سے درگذر کرنے والے۔
دوسرا دن:
اَللّهُمَّ قَرِّبْني فيہ اِلى مَرضاتِكَ وَجَنِّبْني فيہ مِن سَخَطِكَ وَنَقِماتِكَ وَوَفِّقني فيہ لِقِرائَة اياتِكَ بِرَحمَتِكَ يا أرحَمَ الرّاحمينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں اپنی خوشنودی سے قریب تر فرما اور مجھے اپنے ناراضگی اور انتقام سے دور رکھ، اور مجھے اپنی آیات کی قرائت کی توفیق عطا فرما، اے مہربانوں کے سب سے بڑے مہربان۔
تیسرا دن:
اَللّهُمَّ ارْزُقني فيہ الذِّهنَ وَالتَّنْبيہ وَباعِدْني فيہ مِنَ السَّفاهَۃ وَالتَّمْويہ وَاجْعَل لي نَصيباً مِن كُلِّ خَيْرٍ تُنْزِلُ فيہ بِجودِكَ يا اَجوَدَ الأجْوَدينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں ذہانت اور بیداری عطا فرما اور مجھے سے بے وقوفی اور بے عقلی سے دور رکھ اور اپنی جود و سخا کے واسطے، میرے لیے اس مہینے کے دوران نازل ہونے ہونے والی ہر خیر و نیکی میں نصیب اور حصہ قرار دے، اے سب سے بڑے صاحب جود و سخا۔
چوتھا دن:
اَللّهُمَّ قَوِّني فيہ عَلى اِقامَة اَمرِكَ وَاَذِقني فيہ حَلاوَة ذِكْرِكَ وَاَوْزِعْني فيہ لِأداءِ شُكْرِكَ بِكَرَمِكَ وَاحْفَظْني فيہ بِحِفظِكَ و َسَتْرِكَ يا اَبصَرَ النّاظِرينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں تیرے امر کے قیام کے لیے طاقت عطا کر، اور اپنی یاد اور ذکر کی حلاوت مجھے چکھا دے اور اپنے شکر کی ادائیگی کو مجھے الہام فرما، اے بصارت والوں میں سے سب بڑے صاحب بصارت۔
پانچواں دن:
اَللّهُمَّ اجعَلني فيہ مِنَ المُستَغْفِرينَ وَاجعَلني فيہ مِن عِبادِكَ الصّالحينَ القانِتينَ وَاجعَلني فيہ مِن اَوْليائِكَ المُقَرَّبينَ بِرَأفَتِكَ يا اَرحَمَ الرّاحمينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان۔
چھٹا دن:
اَللّهُمَّ لا تَخْذُلني فيہ لِتَعَرُّضِ مَعصِيَتِكَ وَلاتَضرِبني بِسِياطِ نَقِمَتِكَ وَزَحْزِحني فيہ مِن موُجِبات سَخَطِكَ بِمَنِّكَ وَاَياديكَ يا مُنتَهى رَغْبَة الرّاغِبينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں تیری نافرمانی کی وجہ سے ذلیل نہ فرما اور مجھے اپنے انتقام کا تازیانہ نہ مار، اور اپنے غضب کے اسباب و موجبات سے دور رکھ، اپنے فضل و عطا اور احسان کے واسطے، اے رغبت کرنے والوں کی آخری امید گاہ۔
ساتواں دن:
اَللّهُمَّ اَعِنّي فيہ عَلى صِيامِہ وَقِيامِہ وَجَنِّبني فيہ مِن هَفَواتِہ وَاثامِہ وَارْزُقني فيہ ذِكْرَكَ بِدَوامِہ بِتَوْفيقِكَ يا هادِيَ المُضِّلينَ،
اے معبود ! اس مہینے کے دوران اس کے روزے اور شب زندہ داری میں میری مدد فرما، اور مجھے اس مہینے کے گناہوں اور لغزشوں سے دور رکھ، اور اپنا ذکر اور اس مجھے اپنی یاد کی توفیق جاری رکھنے کی توفیق عطا فرما، اپنی توفیق کے واسطے اے گمراہوں کے راہنما۔
آٹھواں دن:
اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ رَحمَةَ الأَيْتامِ وَاِطعامَ الطَّعامِ وَاِفْشاءَ وَصُحْبَةَ الكِرامِ بِطَوْلِكَ يا مَلْجَاَ الأمِلينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں توفیق عطا کر کہ یتیموں پر مہربان رہوں، اور لوگوں کو کھانا کھلاتا رہوں، اور بزرگوں کی مصاحبت کی توفیق عطا کر، اے آرزو مندوں کی پناہ گاہ۔
نواں دن:
اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَة وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَة وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَة بِمَحَبَّتِكَ يا اَمَلَ المُشتاقينَ،
اے معبود ! میرے لیے اس مہینے میں، اپنی وسیع رحمت میں سے، ایک حصہ قرار دے، اور اس کے دوران اپنے تابندہ برہانوں (دلائل) سے میری راہنمائی فرما، اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل کر، تیری محبت کے واسطے اے مشتاقوں کی آرزو۔
دسواں دن:
اَللّهُمَّ اجْعَلني فيہ مِنَ المُتَوَكِلينَ عَلَيْكَ وَاجْعَلني فيہ مِنَ الفائِزينَ لَدَيْكَ وَاجعَلني فيه مِنَ المُقَرَّبينَ اِليكَ بِاِحْسانِكَ يا غايَةَ الطّالبينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں تجھ پر توکل اور بھروسہ کرنے والوں کے زمرے میں قرار دے، اور اس میں مجھے اپنے ہاں کامیابی اور فلاح عطا کر، اور اپنی بارگاہ کے مقربین میں قرار دے، تیرے احسان کے واسطے، اے متلاشیوں کی تلاش کے آخری مقصود۔
گیارہواں دن:
اَللّهُمَّ حَبِّبْ اِلَيَّ فيہ الْإحسانَ وَكَرِّهْ فيہ الْفُسُوقَ وَالعِصيانَ وَحَرِّمْ عَلَيَّ فيہ السَخَطَ وَالنّيرانَ بعَوْنِكَ ياغياثَ المُستَغيثينَ،
اے میرے معبود ! اس مہینے میں نیکی اور احسان کو میرے لیے پسندیدہ قرار دے، اور برائیوں اور نافرمانیوں کو میرے لیے ناپسندیدہ قرار دے، اور اپنی ناراضگی اور بھڑکتی آگ کو مجھ پر حرام رسی کے واسطے، اے فریادیوں کے فریاد رس۔
بارہواں دن:
اَللّهُمَّ زَيِّنِّي فيہ بالسِّترِ وَالْعَفافِ وَاسْتُرني فيہ بِلِباسِ الْقُنُوعِ وَالكَفافِ وَاحْمِلني فيہ عَلَى الْعَدْلِ وَالْإنصافِ وَآمنِّي فيہ مِنْ كُلِّ ما اَخافُ بِعِصْمَتِكَ ياعصمَةَ الْخائفينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں پردے اور پاکدامنی سے مزیّن فرما اور مجھے کفایت شعاری اور اکتفا کا جامہ پہنا دے اور مجھے اس مہینے میں عدل و انصاف پر آمادہ کر دے، اور اس مہینے کے دوران مجھے ہر اس شے سے امان دے جس سے میں خوفزدہ ہوتا ہوں، اے خوفزدہ بندوں کی امان۔
تیرہواں دن:
اَللّهُمَّ طَہرْني فيہ مِنَ الدَّنسِ وَالْأقْذارِ وَصَبِّرْني فيہ عَلى كائِناتِ الْأَقدارِ وَوَفِّقْني فيہ لِلتُّقى وَصُحْبَة الْأبرارِ بِعَوْنِكَ ياقُرَّة عَيْن الْمَساكينِ،
اے معبود اس مہینے مجھے آلودگیوں اور ناپاکیوں سے پاک کر دے اور مجھے صبر دے ان چیزوں پر جو میرے لیے مقدر ہوئی ہیں، اور مجھے پرہیزگاری اور نیک لوگوں کی ہم نشینی کی توفیق دے، تیری مدد کے واسطے، اے بے چاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک۔
چودواں دن:
اَللّهُمَّ لاتُؤاخِذْني فيہ بالْعَثَراتِ وَاَقِلْني فيہ مِنَ الْخَطايا وَالْهَفَواتِ وَلا تَجْعَلْني فيہ غَرَضاً لِلْبَلايا وَالأفاتِ بِعزَّتِكَ يا عِزَّ المُسْلمينَ،
اے معبود ! اس مہینے میں میری لغزشوں پر میرا مؤاخدہ نہ فرما، اور خطاؤں اور گناہوں سے دوچار ہونے سے دور رکھ، مجھے آزمائشوں اور آفات کا نشانہ قرار نہ دے، تیری عزت کے واسطے، اے مسلمانوں کی عزت و عظمت۔
پندرواں دن:
اَللّهُمَّ ارْزُقْني فيہ طاعةَ الخاشعينَ وَاشْرَحْ فيہ صَدري بِانابَۃ المُخْبِتينَ بِأمانِكَ ياأمانَ الخائفينَ،
اے معبود ! اس مہینے میں عجز و انکسار والوں کی سی اطاعت عطا کر، اور خاکسار اطاعت شعاروں کی سی توبہ کرنے کے لیے میرا سینہ گشادہ فرما، تیری امان کے واسطے، اے ڈرے سہمے ہؤوں کی امان۔
سولہواں دن:
اَللّهُمَّ وَفِّقْني فيہ لِمُوافَقَة الْأبرارِ وَجَنِّبْني فيہ مُرافَقَۃ الأشرارِ وَآوني فيہ برَحمَتِكَ إلى دارِ القَرارِ بإلهيَّتِكَ يا إله العالمينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں نیک انسانوں کا ساتھ دینے اور ہمراہ ہونے کی توفیق دے اور بروں کا ساتھ دینے سے دور کر دے، اور اپنی رحمت سے مجھے سکون کے گھر میں مجھے پناہ دے، تیری معبودیت کے واسطے اے تمام جہانوں کے معبود۔
سترہواں دن:
اَللّهُمَّ اهدِني فيہ لِصالِحِ الأعْمالِ وَاقضِ لي فيہ الحوائِجَ وَالآمالِ يا مَنْ لا يَحتاجُ إلى التَّفسيرِ وَالسُّؤالِ يا عالِماً بِما في صُدُورِ العالمينَ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآله الطّاهرينَ ،
اے معبود ! اس مہینے میں مجھے نیک کاموں کی طرف ہدایت دے، اور میری حاجتوں اور خواہشوں کو برآوردہ فرما، اے وہ ذات جو کسی سے پوچھنے اور وضاحت و تفسیر کی احتیاج نہیں رکھتی، اے جہانوں کے سینوں میں چھپے ہوئے اسرار کے عالم، درود بھیج محمد (ص) اور آپ (ص) کے پاکیزہ خاندان پر۔
اٹھارواں دن:
اَللّهُمَّ نَبِّهني فيہ لِبَرَكاتِ أسحارِہ وَنوِّرْ فيہ قَلْبي بِضِياءِ أنوارِہ وَخُذْ بِكُلِّ أعْضائِي إلى اتِّباعِ آثارِہ بِنُورِكَ يا مُنَوِّرَ قُلُوبِ العارفينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں اس کی سحریوں کی برکتوں سے آگاہ کر اور اس میں اس کے انوار سے میرے قلب کو نورانی فرما اور میرے تمام اعضاء و جوارح کو اس کے نشانات کی پیروی پر مامور لگا دے، تیرے نور کے واسطے اے عارفوں کے قلبوں کو نورانی کرنے والے۔
انیسواں دن:
أللّهُمَّ وَفِّر فيہ حَظّي مِن بَرَكاتِہ وَسَہلْ سَبيلي إلى خيْراتِہ وَلا تَحْرِمْني قَبُولَ حَسَناتِہ يا هادِياً إلى الحَقِّ المُبينِ،
اے معبود ! اس مہینے میں میرا نصیب اس کی برکتوں سے مکمل کر لے اور اس کی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف میرا راستہ ہموار اور آسان کر، اور اس کے حسنات کے کی قبولیت سے مجھے محروم نہ فرما، اے آشکار حقیقت کی طرف ہدایت دینے والے۔
بیسواں دن:
أللّهُمَّ افْتَحْ لي فيہ أبوابَ الجِنان وَأغلِقْ عَنَّي فيہ أبوابَ النِّيرانِ وَوَفِّقْني فيہ لِتِلاوَة القُرانِ يامُنْزِلَ السَّكينَة في قُلُوبِ المؤمنين،
اے معبود ! اس مہینے میں اپنی بہشتوں کے دروازے مجھ پر کھول دے اور دوزخ کی بھڑکتی آگ کے دروازے مجھ پر بند کر دے، اور مجھے اس مہینے میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما، اے مؤمنوں کے دلوں میں سکون نازل کرنے والے۔
اکیسواں دن:
اَللهُمَّ اجْعَلْ لِي فِيہ إِلَی مَرْضَاتِكَ دَلِيلا وَلاتَجْعَلْ لِلشَّيطَانِ فِيہ عَلَی سَبِيلا وَاجْعَلِ الْجَنَّةَ لِي مَنْزِلا وَمَقِيلا يا قَاضِي حَوَائِجِ الطَّالِبِينَ ،
اے معبود ! اس مہینے میں میرے لیے تیری خوشنودی کی جانب راہنما نشان قرار دے اور شیطان کے لیے مجھ پر دسترس پانے کا راستہ قرار نہ دے، اور جنت کو میری منزل اور جائے آرام قرار دے، اے طلبگاروں کی حاجات بر لانے والے۔
بائیسواں دن:
أللّهُمَّ افْتَحْ لي فيہ أبوابَ فَضْلِكَ وَأنزِل عَلَيَّ فيہ بَرَكاتِكَ وَوَفِّقْني فيہ لِمُوجِباتِ مَرضاتِكَ وَأسْكِنِّي فيہ بُحْبُوحاتِ جَنّاتَكَ يا مَجيبَ دَعوَة المُضْطَرِّينَ،
اے معبود ! میرے لیے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کر دے، اور اس میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اس کے دوران مجھے اپنی بہشتوں کے درمیان بسا دے، اے بے بسوں کی دعا قبول کرنے والے۔
تئیسواں دن:
أللّهُمَّ اغْسِلني فيہ مِنَ الذُّنُوبِ وَطَہرْني فيہ مِنَ العُيُوبِ وَامْتَحِنْ قَلبي فيہ بِتَقْوى القُلُوبِ يامُقيلَ عَثَراتِ المُذنبين،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں گناہوں سے صفائی دے اور اس میں مجھے عیبوں سے پاک کر دے، اور میرے قلب کو قلبوں کی پرہیزگاری سے آزما لے، گنہگاروں کی لغزشوں کو نظر انداز کرنے والے۔
چوبیسواں دن:
أللّهُمَّ إنِّي أسألُكَ فيہ مايُرضيكَ وَأعُوذُ بِكَ مِمّا يُؤذيكَ وَأسألُكَ التَّوفيقَ فيہ لِأَنْ اُطيعَكَ وَلا أعْصِيَكَ يا جواد السّائلينَ،
اے معبود ! تیرے در پر ہر اس چیز کا سوالی ہوں جو تجھے خوشنود کرتی ہے اور ہر اس چیز سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جو تجھے ناراض کرتی ہے، اور تجھ سے توفیق کا طلبگار ہوں کہ میں تیرا اطاعت گزار رہوں اور تیری نافرمانی نہ کروں، اے سوالیوں کو بہت زیادہ عطا کرنے والے۔
پچیسواں دن:
أللّهُمَّ اجْعَلني فيہ مُحِبّاً لِأوْليائكَ وَمُعادِياً لِأعْدائِكَ مُسْتَنّاً بِسُنَّۃ خاتمِ أنبيائكَ يا عاصمَ قٌلٌوب النَّبيّينَ،
اے معبود ! مجھے اس مہینے میں اپنے اولیاء اور دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے، مجھے اپنے پیغمبروں کے آخری پیغمبر کی راہ و روش پر گامزن رہنے کی صفت سے آراستہ کر دے، اے انبیاء کے دلوں کی حفاظت کرنے والے۔
چھبیسواں دن:
أللّهُمَّ اجْعَلْ سَعْيي فيہ مَشكوراً وَذَنبي فيہ مَغفُوراً وَعَمَلي فيہ مَقبُولاً وَعَيْببي فيہ مَستوراً يا أسمَعَ السّامعينَ،
اے معبود ! اس مہینے میں میری کوششوں کو لائق قدر دانی قرار دے، میرے گناہوں کو اس میں بخشیدہ قرار دے، اور میرے عمل کو اس میں قبول شدہ اور میرے عیبوں کو پوشیدہ قرار دے، اے سننے والوں میں سب سے زیادہ سننے والے۔
ستائیسواں دن:
أللّهُمَّ ارْزُقني فيہ فَضْلَ لَيلَة القَدرِ وَصَيِّرْ اُمُوري فيہ مِنَ العُسرِ إلى اليُسرِ وَاقبَلْ مَعاذيري وَحُطَّ عَنِّي الذَّنب وَالوِزْرَ يا رَؤُفاً بِعِبادِہ الصّالحينَ،
اے معبود اس مہینے میں مجھے شب قدر کی فضیلت نصیب فرما، اور اس میں میرے امور و معاملات کو سختی سے آسانی کی طرف پلٹا دے، میری معذرتوں کو قبول فرما اور گناہوں کا بھاری بوجھ میری پشت سے اتار دے، اے نیک بندوں پر مہربانی کرنے والے۔
اٹھائیسواں دن:
أللّهُمَّ وَفِّرْ حَظِّي فيہ مِنَ النَّوافِلِ وَأكْرِمني فيہ بِإحضارِ المَسائِلِ وَقَرِّبْ فيہ وَسيلَتي إليكَ مِنْ بَيْنِ الوَسائِلِ يا مَن لا يَشْغَلُهُ إلحاحُ المُلِحِّينَ،
اے معبود ! اس مہینے کے نوافل اور مستحبات میں میرا حصہ بڑھا دے، اور اس میں میری التجاؤں کی قبولیت سے مجھے عزت دے، راستوں کے درمیان میرا راستہ اپنے حضور قریب فرما، اے وہ جس کو اصرار کرنے والوں کا اصرار [دوسروں سے] غافل نہیں کرتا۔
انتیسواں دن:
أللّهُمَّ غَشِّني فيہ بالرَّحْمَة وَارْزُقني فيہ التَّوفيقَ وَالعِصْمَةَ وَطَہر قَلبي مِن غياہبِ التُّهمَة يارَحيماً بِعبادِہ المُؤمنينَ،
اے معبود ! اس مہینے میں مجھے اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ دے، مجھے اس میں توفیق اور تحفظ دے، اور میرے قلب کو تہمت کی تیرگیوں سے پاک کر دے، اے با ایمان بندوں پر بہت مہربان۔
آخری رمضان کا دن:
أللّهُمَّ اجْعَلْ صِيامي فيہ بالشُّكرِ وَالقَبولِ عَلى ما تَرضاهُ وَيَرضاهُ الرَّسولُ مُحكَمَةً فُرُوعُهُ بِالأُصُولِ بِحَقِّ سَيِّدِنا مُحَمَّدٍ وَآلہ الطّاہرينَ وَالحَمدُ للہ رَبِّ العالمينَ،
اے معبود ! اس مہینے میں میرے روزوں کو قدر دانی اور قبولیت کے قابل قرار دے اس طرح سے کہ تو اور تیرے رسول (ص)، پسند کرتے ہیں، یوں کہ اس کے فروع اس کے اصولوں سے محکم ہوئے ہوں، ہمارے سرور و سردار محمد اور آپ کی آل پاک کے واسطے، اور تمام تر تعریف اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔
التماس دعا۔۔۔۔۔
ایران کا پاکستان کی انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے پر آمادگی کا اظہار
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ، پاکستان کی انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
صدر روحانی نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی خظے میں موجودگی سے بد امنی اور دہشت گردی کے فروغ میں اضافہ ہوا ہے امریکہ نے خطے کی سلامتی اور امن و آماں کے سلسلے میں کوئي کردار ادا نہیں کیا بلکہ امریکہ کی فوجی موجودگی سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔
صدر حسن روحانی نے ایران اور پاکستان کے گہرے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان دو برادر اسلامی اور ہمسایہ ملک ہیں اور ایران پاکستان کے ساتھ تمام شعبوں مين تعلقات کو فروغ دینے کا خواہاں ہے ۔ ایران پاکستان کی انرجی کی ضروریات کو بھی پورا کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
اس ملاقات میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو مزيد مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواہاں ہے ۔ اس سلسلے میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کا بھر پور عزم رکھتے ہیں۔شاہ محمود قریشی نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ایران کی پالیسیوں پر بھی خوشحالی کا اظہار کیا۔ اس ملاقات میں ایران کے وزير خارجہ محمد جواد ظریف بھی موجود تھے
رمضان المبارک کے نویں دن کی دعا
اے معبود! میرے لئے اس مہینے میں، اپنی وسیع رحمت میں سے، ایک حصہ قرار دے، اور اس کے دوران اپنے تابندہ برہانوں سے میری راہنمائی فرما، اور میری پیشانی کے بال پکڑ کر مجھے اپنی ہمہ جہت خوشنودی میں داخل فرما، تیری محبت کے واسطے اے مشتاقوں کی آرزو۔
ماہ مبارک رمضان، ماہ طہارت و بندگی
یہ وہ مہینہ ہے جس میں تم کو خداوند نے اپنی مہمانی کی طرف دعوت دی ہے اور تمہیں صاحب کرامت قرار دیا ہے ۔ اس مہینہ میں تمھاری ہر سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہے۔ تمہارا سونا عبادت ہے۔ تمہارے اعمال اس مہینہ میں قبول ہوتے ہیں۔ تمہاری دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ پس تم صدق دل سے صاف اور خالص نیت کے ساتھ گناہوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے خدا سے دعا کرو کہ وہ اس مہینے میں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن پاک کرنے کی تم کو توفیق عنایت فرمائے۔
وہ شخص بدبخت اور شقی ہے جو اس عظیم مہینہ میں اللہ کی بخشش سے محروم رہے۔ اس مہینہ کی بھوک اور پیاس سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو ۔ اپنے عزیز فقراء و محتاجوں کو صدقہ دو ، اپنے بزرگوں کا احترام کرو، اپنے بچوں سے نوازش و مہربانی کے ساتھ پیش آؤ، اپنے خاندان والوں کے ساتھ صلہ رحم کرو ، اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو ( برے الفاظ غیبت وغیرہ سے ) اپنی نگاہوں کو محفوظ رکھو ان چیزوں سے جن کا دیکھنا تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ یتیموں کے ساتھ مہربانی کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے یتیم پر رحم کریں۔ اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور نمازوں کے وقت خداوند عالم کی بارگاہ میں دعا کے لیے اپنے ہاتھوں کو بلند کرو کیوں کہ یہ دعا کی قبولیت کا بہترین وقت ہے۔ خداوند عالم نماز کے وقت اپنے بندوں کی طرف رحمت کی نگاہ کرتا ہے اور مناجات کرنے والوں کا جواب دیتا۔ اے لوگو! تمہاری زندگی میں گرہیں پڑی ہوئی ہیں تم اللہ سے طلب مغفرت کر کے اپنی زندگی کی گرہیں کھولنے کی کوشش کرو۔ تمہاری پشت گناہوں کی سنگینی کی وجہ سے خمیدہ ہو چکی ہیں لہٰذا طولانی سجدے کے ذریعہ اپنی پشت کے وزن کو ہلکا کرو۔ خداوند عالم اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں اس مہینہ میں نماز گزاروں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کروں گا اور قیامت میں انہیں جہنم کی آگ سے نہیں ڈراؤں گا۔
اے لوگو! اگر کوئی شخص اس مہینہ میں کسی مؤمن روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کا ثواب ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ کسی صحابی نے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص) ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ مؤمنین کو افطار کرائیں، تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم آدھی کھجور یا ایک گھونٹ پانی ہی افطار میں دے کر اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ کر سکتے ہو کیوں کہ خداوند عالم اس کو وہی ثواب عنایت فرمائے گا جو افطار دینے پر قدرت رکھنے والوں کو دیتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے اخلاق کو درست کر لے اسے خداوند عالم قیامت کے دن پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزار دے گا۔ حالانکہ لوگوں کے قدم اس وقت وہاں ڈگمگا رہے ہوں گے۔ اگر کوئی اس مہینہ میں اپنے غلام یا کنیز سے کم کام لے قیامت میں خداوند عالم اس کے حساب و کتاب میں آسانی فرمائے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی یتیم کو مہربانی و عزت کی نگاہ سے دیکھے قیامت میں خداوند عالم بھی اس کو مہربانی کی نگاہ سے دیکھے گا۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء کے ساتھ احسان اور صلہ رحم کرے خداوند عالم قیامت میں اپنی رحمت سے اسے نوازے گا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے اعزہ و اقرباء سے قطع رحم کرے گا خداوند عالم قیامت کے دن اس کو اپنی رحمت سے محروم کر دے گا۔
رمضان المبارک کا مہینہ خداوند عالم کا مہینہ ہے، یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خداوند عالم آسمانوں، جنت اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کا دروازہ بند کر دیتا ہے ۔ اس مہینہ کی ایک شب (شب قدر) ایسی ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔
پس صاحبان ایمان کو اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ اس مہینہ کے دن و رات کس طرح سے گزاریں اور اپنے اعضاء و جوارح کو خداوند عالم کی نافرمانی سے کس طرح محفوظ رکھیں، کیوں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب تم روزہ رکھو تو اس کے ساتھ تمہارے بدن کے تمام اعضاء بھی روزہ رکھیں ، عام دنوں کے مانند نہ ہو جن میں تم بغیر روزہ کے رہتے ہو ۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
روزہ فقط کھانے پینے سے بچنے کا نام نہیں بلکہ روزہ کی حالت میں اپنی زبانوں کو بھی (جھوٹ ،گالی ،غیبت ،چغل خوری ،تہمت وغیرہ سے) محفوط رکھو۔ آنکھوں کو حرام چیزوں کی طرف نگاہ کرنے سے محفوظ رکھو ،لڑائی جھگڑا نہ کرو ،برے لوگوں سے بچو،اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق رکھو آخرت کی طرف بڑہو اور ہر وقت خوف خدا کو مد نظر رکھو اور اللہ کے عذاب سے ڈرو اور قائم آل محمد (ص) کے ظہور کی تعجیل کے لیے ہر وقت دعائیں مانگو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
غیبت کے زمانہ میں ظہور امام عصر (ع) کا انتظار واجب ہے۔
روزے کے کئی لحاظ سے مختلف مادی، روحانی، طبی اور معاشرتی آثار ہیں، جو اس کے ذریعے سے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھنا اگرچہ ظاہراً سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لیے راحت و آسائش اور آرام و سلامتی کا باعث ہے، یہ بات طے ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ تکلیف و تنگی، روزہ بھی دوسری عبادات کی طرح خداوند کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام تر فوائد خود انسانوں کے لیے ہیں۔
ذٰلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔
روزے کے نتیجے میں جو اثرات روزہ دار پر مرتب ہوتے ہیں، ان میں سے اہم ترین اخلاقی و تربیتی پہلو ہے، روزے روح انسانی کو لطیف تر، ارادے کو قوی تر اور مزاج انسانی کو معتدل تر بنا دیتے ہیں، روزہ دار حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہیں جاتا، اسی طرح وہ تمام جنسی لذات سے دوری و اجتناب اختیار کر لیتا ہے اور عملی طور یہ ثابت کر دیتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے، سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے اور اختیار میں ہے، ہوس و شہوت و خواہشات نفسانی اس کے کنٹرول میں ہیں نہ کہ اس کے برعکس۔
حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی و معنوی اثر ہے، وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہوتے ہیں، جب اسے بھوک و پیاس محسوس ہوتی ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ نکلتا ہے، لیکن یہی روزہ وقتی پابندی کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اس انسان کو سخت سے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتا ہے، غرض کہ روزہ انسان کو حیوانیت سے بلند کر کے فرشتوں کی صف میں کھڑا کرتا ہے۔
حضرت امام علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ: رسول خدا (ص) سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں کہ جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے، آپ (ص) نے فرمایا:
الصوم یسود وجھہ، روزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ:
الصوم جنۃ من النار، روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔
امام علی (ع) روزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
اللہ تعالٰی نے روزے کو شریعت میں اس لیے شامل کیا ہے تا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ:
بہشت کا ایک دروازہ ہے، جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے، اس میں سے صرف روزہ دار داخل جنت ہونگے۔
روایت میں ہے کہ:
روزے دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے، جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہو گا تو وہ ایسا سیراب ہو گا کہ اسے پھر کبھی بھی پیاس و تشنگی کا احساس نہ ہو گا۔
حمزہ بن محمد نے امام حسن عسکری (ع) کو خط لکھا اور پوچھا کہ:
اللہ تعالی نے روزے کو کیوں فرض کیا ہے؟ تو آپ (ع) نے جواب میں فرمایا: تا کہ غنی اور دولتمند شخص کو بھی بھوک کی تکلیف کا علم ہو جائے اور وہ فقیروں پر ترس کھائے۔
من لا یحضر الفقیہ جلد 2 ص 55
ایک اور مشہور حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ:
ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: روزہ اس لیے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہو جائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی و مالدار بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لیے فراہم ہوتا ہے، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور دولتمند کو بھی بھوک، اور رنج کا ذائقہ چکھائے، تا کہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔ غرض کہ روزے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں و معاشرے کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کر سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کی غذا میں بچت کر کے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
روزے تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی پر طبی لحاظ سے بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں، طب کی جدید تحقیقات کی روشنی میں روزہ بہت سی بیماریوں کے علاج کے لیے معجزانہ اثر رکھتا ہے، روزے سے انسانی معدے کو ایک نمایاں آرام ملتا ہے اور اس فعال ترین مشینری (معدے) کو آرام کی بہت ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی واضح ہے کہ حکم اسلامی کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ سحری و افطاری کے کھانے میں افراط و اضافہ سے کام لے، تا کہ روزہ سے مکمل طبی نتیجہ حاصل کیا جا سکے، روزے کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ:
روزہ رکھو تا کہ صحت مند رہو۔
ایک اور حدیث آپ سے مروی ہے کہ:
معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک و فاقہ اعلٰی ترین دوا ہے۔
بحار الانوار ج 14 ص34
ماہ مبارک رمضان آسمانی کتب کے نزول اور تعلیم و تدریس کا مہینہ ہے، اس ماہ اللہ کی یاد میں قلوب نیکی کی جانب مائل ہوتے ہیں، اس لیے روح انسانی کی تربیت آسانی سے ہو جاتی ہے، سانسیں تسبیح کی مانند ہوتی ہیں اور سونا عبادت ہوتا ہے، اعمال و دعائیں قبول ہوتی ہیں، پیغمبر اسلام (ص) نے ماہ مبارک رمضان کی فضائل و برکات کے حوالے سے اپنے خطبہ میں کہا ہے کہ:
اے لوگو! یہ مہینہ تمام مہینوں سے بہتر ہے، اس کے دن دوسرے ایام سے بہتر، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں تمہیں خدا نے مہمان بننے کی دعوت دی ہے اور تمہیں ان لوگوں میں سے قرار دیا گیا ہے جو خدا کے اکرام و احترام کے زیر نظر ہیں، اس میں تمہاری سانسیں تسبیح کی مانند ہیں، تمہاری نیند عبادت ہے اور تمہارے اعمال و دعائیں مستجاب ہیں۔
لہذا خالص نیتوں اور پاک دلوں کے ساتھ خدا سے دعائیں مانگو، تا کہ وہ تمہیں روزہ رکھنے اور تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیونکہ بدبخت ہے وہ شخص جو اس مہینے خدا کی بخشش سے محروم رہ جائے، اپنے فقراء و مساکین پر احسان کرو، اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرو، اور چھوٹوں پر مہربان ہو جاو، رشتہ داروں کے روابط کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہوں سے پاک رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے باز رکھو، جن کا دیکھنا حلال نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکو جن کا سننا حرام ہے اور لوگوں کے یتیموں سے شفقت و مہربانی سے پیش آؤ، تا کہ وہ بھی تمہارے یتیموں سے یہی سلوک کریں۔
وسائل الشیعہ ج 8 باب احکام شہر رمضان
افغانستان سے بغیر جیتے امریکہ کی پسپائی
افغانستان کی سیاسی صورتحال اس وقت مزید پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک ملک میں طالبان کا کردار اور مستقبل کے ممکنہ سیاسی اسٹرکچر میں اس کی حیثیت واضح نہیں ہو پائی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کے فیصلے کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ فروری 2020ء میں سابقہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے شدہ معاہدے کی روشنی میں انجام پایا ہے۔ اس معاہدے پر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان کیلئے خصوصی ایلچی زلمائے خلیل زاد نے طالبان کے اعلی سطحی وفد سے مذاکرات کی متعدد نشستیں منعقد ہونے کے بعد دستخط کئے تھے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی زلمائے خلیل زاد کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے زلمائے خلیل زاد کو افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر برقرار رکھے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سابق امریکی حکومت کی افغان پالیسی کو ہی مزید آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے برسراقتدار آنے کے بعد بعض ایسے بیانات دیے تھے جن کے باعث ان کی افغان پالیسی مبہم ہو گئی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا ارادہ نہیں رکھتے۔ حتی انہوں نے 11 فروری کے دن پینٹاگون کے پہلے دورے میں یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء مئی میں طے پانے والے دوحہ معاہدے کے تحت انجام نہیں پائے گا۔
لہذا گذشتہ ہفتے بدھ کے روز افغانستان سے مکمل طور پر فوجی انخلاء کا اعلان درحقیقت جو بائیڈن کی اپنے ابتدائی موقف سے واضح پسپائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ دوحہ معاہدے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس پسماندگی کی وجہ واشنگٹن پوسٹ نے امریکہ کے ایک اعلی سطحی حکومتی عہدیدار کی زبانی بیان کی ہے۔ اس امریکی عہدیدار کے مطابق اگر امریکہ کی موجودہ حکومت افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں سابقہ حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ طالبان سے جنگ کے دوبارہ آغاز کی صورت میں ظاہر ہو گا اور یہ وہ تلخ نتیجہ ہے جسے موجودہ امریکی صدر بالکل پسند نہیں کرتے۔
دراصل طالبان نے ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہونے والی افغانستان امن کانفرنس میں اپنی شرکت کے بارے میں تردید ظاہر کر کے جو بائیڈن کو واضح پیغام دے دیا تھا۔ دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم وردک نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ طالبان جمعہ 15 اپریل کے روز منعقد ہونے والی نشست میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح طالبان کے سابقہ کمانڈر سید اکبر آغا نے طالبان کی جانب سے استنبول کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ افغانستان سے امریکہ کا فوجی انخلاء انجام نہ پانا بیان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: "جب تک افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کا مسئلہ واضح نہیں ہو جاتا کام آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ طالبان کا موقف ہے۔ لہذا میری نظر میں جب تک یہ بات واضح نہیں ہو جاتی ترکی میں کوئی نشست بھی منعقد نہیں ہو گی۔"
یوں طالبان نے بائیڈن حکومت کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ جب تک دوحہ معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کی جاتی اور خاص طور پر امریکہ کا مکمل فوجی انخلاء انجام نہیں پاتا، طالبان نہ صرف استنبول کی نشست یا کسی اور امن مذاکرات میں حاضر نہیں ہوں گے بلکہ امریکہ کی فوجی تنصیبات پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کر دیں گے۔ یہ جو بائیڈن حکومت کی مطلوبہ صورتحال نہیں ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب روس سے اس کے تعلقات شدید تناو کا شکار ہو چکے ہیں اور چین کا مسئلہ بھی امریکہ کیلئے پہلے کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ لہذا اس وقت امریکہ کی ترجیحات افغانستان سے باہر حتی مشرق وسطی سے باہر ہیں اور کسی صورت میں وہ افغانستان میں دوبارہ جنگ میں الجھنا نہیں چاہتا۔ اسی وجہ سے جو بائیڈن دوحہ معاہدہ قبول کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔