
سلیمانی
قربانی کے اہداف کا شعور رکھ کر اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے
قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عیدالاضحی کے موقع پر قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہا: انسان کا اپنے خالق کی رضا اور مرضی کا علم ہونے کے بعد اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا قربانی ہے۔ چونکہ یہ عمل خداوندکریم کے احکام اور اس کی منشاءکے تحت انجام پاتا ہے اس لئے اس کا ہدف انتہائی اعلی و ارفع ہے۔ اگر ہر قربانی کے وقت یہی اعلی ہدف پیش نظر ہو تو قربانی قبول ہوتی ہے اور اس کے فوائد و اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں ورنہ یہی قربانی جان، مال، عزت اور وقت کا ضیاع تصور ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا: اگرچہ قربانی کا مظہر انسان کے فطری اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر کوئی نہ کوئی رسم ہی ہوتی ہے لیکن یہ رسوم اصل ہدف نہیں ہوتیں بلکہ قربانی کے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں لہذا قربانی اور اس جیسے دیگر صالح اعمال کو فقط رسموں تک محدود کردینے سے اصل ہدف اوجھل ہوجاتا ہے جس سے اس قربانی کی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا: قربانی کے اہداف کا شعور رکھ کر اس پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ سنت ابراہیمی کو پورا کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی کے ساتھ اپنے مفادات، ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطاؤں کی قربانی بھی ضروری ہے کیونکہ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے یہ کہ خدا کے حضور ہمارے قربان کردہ جانور کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا بلکہ ہمارا ہدف، ہماری نیت، ہمارا ایثار، ہمارا خلوص اور ہمارا تقویٰ پیش ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں اس جانب اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کہ ہم کتنے اخلاص اور ایثار کے ساتھ یہ قربانی پیش کررہے ہیں۔
علامہ ساجد نقوی کے مطابق عید قربان کے موقع پر ہمیں دنیائے اسلام میں اپنی جان و مال کی قربانیاں دینے والوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اور خاص طور پر غزہ، فلسطین، لبنان، کشمیر اور دیگر خطوں میں عالم اسلام اور انسانیت پر جاری سامراجی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے مظلومو ں کی حمایت میں صدائے احتجاج بلند کرنی چاہیے۔اس کے ساتھ اپنے گردو پیش میں نادار افراد کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا چاہیے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا: عید الاضحی کے نیک اور بابرکت موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم انبیاءکرام، ائمہ اطہار علیہم السلام، شہدائے اسلام کی قربانی سے بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی سے سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک راہ متعین کریں گے ۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور ترقی میں رکاوٹ بننے والے عوامل، بحرانوں، چیلنجز اور مشکلات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حج: مسلم حکومتوں اور اقوام کا فریضہ ہے کہ وہ غزہ میں انسانی المیے کو روکیں
حج 2025 کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی حضرت ایت اللہ العظمی خامنہ ای ایک پیغام جاری کیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے پیغام حج کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خیر خلق اللّہ محمدٍ المصطفی وآلہ الطیبین و صحبہ المنتجبین و مَن تبعہم بِاحسانٍ الی یوم الدین.
حج، مومنوں کی آرزو، اشتیاق رکھنے والوں کی عید اور سعادت مند لوگوں کا روحانی رزق ہے اور اگر یہ باطنی رموز کی معرفت کے ساتھ انجام دیا جائے تو امت مسلمہ بلکہ پوری انسانیت کی زیادہ تر بیماریوں کا مداوا ہے۔
حج کا سفر، تجارت، سیاحت یا دوسرے مختلف مقاصد سے انجام پانے والے سفر جیسا نہیں ہے جس کے دوران ممکنہ طور پر کوئی عبادت یا کوئي نیک کام بھی انجام دے دیا جاتا ہے، حج کا سفر، معمولی زندگي سے مطلوبہ زندگي کی طرف ہجرت کی مشق ہے۔ مطلوبہ زندگی وہ توحیدی زندگی ہے جس میں حق کے محور کے گرد دائمی طواف، مشکل چوٹیوں کے درمیان مسلسل سعی، شر پسند شیطان کو پتھر مارنا، ذکر و دعا سے مملو وقوف، زمین گیر مسکین اور سفر میں مجبور ہو جانے والے راہگیر کو کھانا کھلانا، رنگ، نسل، زبان اور جغرافیہ کے فرق کو یکساں سمجھنا، ہر حال میں خدمت کے لیے تیار رہنا، خدا کی پناہ لینا اور حق کے دفاع کا پرچم بلند کرنا اس زندگی کے بنیادی اور دائمی اجزاء ہیں۔
حج کے مناسک نے اس زندگی کی علامتی مثالیں اپنے اندر سمو رکھی ہیں اور حج گزار کو اس سے روشناس کراتے اور اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔
اس دعوت کو سننا چاہیے۔ دل کو اور ظاہر و باطن کی آنکھوں کو کھولنا چاہیے۔ سیکھنا چاہیے اور ان دروس کو استعمال کرنے کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس راہ میں ایک قدم بڑھا سکتا ہے، اور علماء، دانشور، سیاسی منصب دار اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد دیگروں سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔
دنیائے اسلام کو آج پہلے سے کہیں زیادہ ان دروس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ دوسرا حج ہے جو غزہ اور مغربی ایشیا کے المناک واقعات کے دوران انجام پا رہا ہے۔ فلسطین پر قابض مجرم صیہونی گینگ نے ناقابل یقین درندگي اور عدیم المثال بے رحمی اور شر انگيزی کے ساتھ غزہ کے المیے کو ایک ناقابل یقین حد تک پہنچا دیا ہے۔ اس وقت فلسطینی بچے بموں، گولوں اور میزائيلوں کے علاوہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ اپنے عزیزوں، جوانوں اور ماں باپ کو کھونے والے غم رسیدہ گھرانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اس انسانی المیے کے سامنے کسے کھڑا ہونا چاہیے؟
بلاشبہ یہ فریضہ سب سے پہلے اسلامی حکومتوں پر عائد ہوتا ہے اور پھر اقوام پر جو اپنی حکومتوں سے اس فریضے کی انجام دہی کا مطالبہ کریں۔ مسلم حکومتیں شاید مختلف مسائل میں آپس میں سیاسی اختلاف رکھتی ہوں لیکن یہ اختلافات غزہ کے المناک مسئلے پر متفقہ موقف اپنانے اور آج کی دنیا کے سب سے مظلوم انسانوں کے دفاع میں تعاون کے سلسلے میں ان کے آڑے نہ آئیں۔ مسلم حکومتوں کو صیہونی حکومت کی امداد رسانی کی تمام راہوں کو بند کر دینا چاہیے اور اس مجرم کو غزہ میں اپنی بے رحمانہ کارروائی جاری رکھنے سے باز رکھنا چاہیے۔ امریکا، صیہونی حکومت کے جرائم کا یقینی شریک ہے، اس خطے میں اور دیگر اسلامی علاقوں میں امریکا سے وابستہ لوگ، مظلوم کے دفاع کے سلسلے میں قرآن مجید کی آواز سنیں اور امریکا کی سامراجی حکومت کو اس ظالمانہ رویے کو روکنے پر مجبور کریں۔ حج میں برائت کا اعلان، اس راہ میں ایک قدم ہے۔
غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت نے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز بنا دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مظلوم قوم کی حمایت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔ مسئلۂ فلسطین کا نام اور اس کی یاد کو طاق نسیاں کی زینت بنا دینے کی سامراجیوں اور صیہونی حکومت کے حامیوں کی کوششوں کے باوجود اس حکومت کے حکمرانوں کی شر پسند ماہیت اور ان کی احمقانہ پالیسی نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ آج فلسطین کا نام ہمیشہ سے زیادہ درخشاں ہے اور صیہونیوں اور ان کے حامیوں سے نفرت، ہمیشہ سے زیادہ ہے اور یہ عالم اسلام کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
اہل سخن اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوام کو آگاہ کریں، انھیں حساس بنائیں اور فلسطین سے متعلق مطالبات کو مزید پھیلائيں۔ آپ باسعادت حجاج بھی، حج کے مناسک کے دوران دعا اور خدا سے مدد طلب کرنے کے موقع سے غفلت نہ کیجیے اور خداوند متعال سے ظالم صیہونیوں اور ان کے حامیوں پر فتح کی دعا کیجیے۔
خداوند عالم کی صلوات و سلام ہو پیغمبر اکرم، ان کی پاکیزہ آل پر اور سلام و درود ہو بقیۃ اللہ حضرت مہدی 'عجل اللہ ظہورہ' پر۔
سید علی خامنہ ای
3 ذی الحجہ 1446 ہجری قمری
30 مئی 2025
امام محمد باقر علہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر
امام محمد باقر علہ السلام کے علمی مکتب کی تعلیمات کا پس منظر
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ)
لقب باقر العلوم (علیہ السلام) کے مفہوم میں غور وفکر
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق باقر العلوم کے لقب سے ملقب ہونے کے سلسلہ میں فرمایا : یقینا انہوں نے لقب باقرالعلوم کو اپنے آپ سے مخصوص کیا ہے کیونکہ آپ نے مختلف علوم کو واضح کیا ہے اور تمام علوم جیسے تفسیر، عقاید، فقہ اور اخلاق میں اسلامی نظریات کو بیان کیا ہے اور آپ نے اس سلسلہ میں اس قدر احادیث بیان کی ہیں کہ فقط محمد بن مسلم نے تیس ہزار حدیث ، امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہیں (٢) ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کی عظیم میراث، اسلامی علوم کی وضاحت
شیعوں کے عظیم الشان مرجع تقلید نے ائمہ علیہم السلام خصوصا امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل شدہ احادیث کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : افسوس کہ بہت سی احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کا ذخیرہ تھیں ، ہم تک نہیں پہنچی ہیں ، اگرچہ ان احادیث کو جمع کرنے میں بہت زیادہ زحمت اٹھائی گئی تھی (٣) ، لیکن شیعوں کی اکثر احادیث جن کی تعداددسیوں ہزار سے زیادہ ہے ، فقط پانچویں اور چھٹے امام یعنی محمد بن علی الباقر اور جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے ایک حصہ آٹھویں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں راہنما ایسے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے تھے جب دشمنوں کا فشار بہت کم تھا اور بنی امیہ و بنی عباس آپس میں جنگ کر رہے تھے ، جس کی وجہ سے ان تینوں اماموں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی احادیث کو اپنے آبائو اجداد سے نقل کرکے ہم تک منتقل کی ہیں (٤) ۔
معظم لہ نے امام باقر (علیہ السلام) اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی عظیم تعلیمات کے متعلق اس طرح فرمایا : اس وقت فقہی، اصولی،تفسیری، عقایدی ، اخلاقی جس کتاب کا بھی مطالعہ کریں اس میں قال الباقر (علیہ السلام) اور قال الصادق (علیہ السلام) ملتا ہے اور ان دو راہنمائوں نے ہمیں اسلامی علوم کی عظیم میراث عطا کی ہے ۔
فقہ شیعہ ، امام محمد باقر علیہ السلام کی تعلیمات کی مرہون منت ہے
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے فقہ شیعہ کی وسعت اور ترقی کو امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی تعلیمات کا نتیجہ شمار کیا ہے اور فرمایا : اگر آج ہماری فقہ کو قیاس کی ضرورت نہیں ہے تو اس کی وجہ یہی احادیث ہیں جو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام سے نقل ہوئی ہیں اور ہمارے سامنے علم کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، جبکہ دوسروں کے سامنے ان علوم کا دروازہ بند ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ قیاس اور ظنون کی طرف چلے گئے ہیں ۔
لہذا علم کی اس شکوفایی کو امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہئے کیونکہ ہم شیعہ اور اہل تسنن کی جو کتاب بھی کھولتے ہیں اس میں انہی دو اماموں کی احادیث سے روبرو ہوتے ہیں ، ان دونوں اماموں نے اصول دین کی بنیادوں کو بہت ہی اچھے طریقہ سے بیان کیا ہے ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مناظرات
امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج اور شیعی معارف کو وسعت دینے کیلئے دوسرے توحیدی ادیان سے علمی مناظرات انجام دئیے ہیں ۔
حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام علیہ السلام کے مناظرات کی تشریح کرتے ہوئے شام میں عیسائی اسقف سے مناظرہ کو بہت اہم شمار کیا اور فرمایا : جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جب امام کو شام کے سفر پر مجبور کیا گیا اور آپ شام پہنچ گئے اور پھر شہر دمش سے واپس روانہ ہونے لگے تو لوگوں کے افکار کو بیدار کرنے اور اپنے علم کو آشکار کرنے کا بہت اچھا موقع فراہم ہوا جس کی وجہ سے شام کے لوکوں کے افکار تبدیل ہوگئے (٥) ۔
معظم لہ کے کلام میں عیسائی اسقف سے امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ کی شرح و تفسیر
معظم لہ فرماتے ہیں : واقعہ یہ تھا کہ ہشام کے پاس ا مام محمد باقر علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں تھا ، لہذا وہ امام کے مدینہ واپس جانے پر راضی ہوگیا جس وہ امام اپنے فرزند کے ساتھ قصر خلافت سے خارج ہوئے تو ناگاہ راستہ میں ایک مقام پرمجمع کثیرنظرآیا،آپ نے تفحص حال کیاتومعلوم ہواکہ نصاری کاایک راہب ہے جوسال میں صرف ایک باراپنے معبدسے نکلتاہے آج اس کے نکلنے کادن ہے حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام اس مجمع میں عوام کے ساتھ جاکربیٹھ گئے ،راہب جوانتہائی ضعیف تھا، مقررہ وقت پربرامدہوا،اوراس نے چاروں طرف نظردوڑانے کے بعدامام علیہ السلام کی طرف مخاطب ہوکربولا:
١۔ کیا آپ ہم میں سے ہیں، فرمایا: میں امت محمدیہ سے ہوں۔
٢۔آپ علماء سے ہیں یاجہلاء میں سے ہیں ، فرمایا : میں جاہل نہیں ہوں۔
٣۔ آپ مجھ سے کچھ دریافت کرنے کے لیے آئے ہیں؟ فرمایا : نہیں۔
٤۔ جب کہ آپ عالموں میں سے ہیں کیا؟میں آپ سے کچھ پوچھ سکتاہوں، فرمایا: ضرورپوچھیے ۔
یہ سن کر راہب نے سوال کیا:
١۔ شب وروزمیں وہ کونساوقت ہے ،جس کاشمارنہ دن میں ہے اورنہ رات میں ، فرمایا : وہ سورج کے طلوع سے پہلے کاوقت ہے جس کاشماردن اوررات دونوں میں نہیں ،وہ وقت جنت کے اوقات میںسے ہے اورایسامبترک ہے کہ اس میں بیماروں کوہوش آجاتاہے ، دردکوسکون ہوتاہے جورات بھرنہ سوسکے اسے نیندآتی ہے یہ وقت آخرت کی طرف رغبت رکھنے والوں کے لیے خاص الخاص ہے ۔
٢۔ آپ کاعقیدہ ہے کہ جنت میں پیشاب وپاخانہ کی ضرروت نہ ہوگی ؟کیا دنیامیں اس کی مثال ہے ؟ فرمایابطن مادرمیں جوبچے پرورش پاتے ہیں ان کافضلہ خارج نہیں ہوتا۔
٣۔ مسلمانوں کاعقیدہ ہے کہ کھانے سے بہشت کامیوہ کم نہ ہوگااس کی یہاں کوئی مثال ہے، فرمایاہاں ایک چراغ سے لاکھوں چراغ جلائے جاتے ہیں تب بھی پہلے چراغ کی روشنی میں کمی نہیں ہوتی۔
٤۔ وہ کون سے دوبھائی ہیں جوایک ساتھ پیداہوئے اورایک ساتھ مرے لیکن ایک کی عمرپچاس سال کی ہوئی اوردوسرے کی ڈیڑھ سوسال کی، فرمایا''عزیز اورعزیرپیغمبرہیں یہ دونوں دنیامیں ایک ہی روزپیداہوئے اورایک ہی روزمرے پیدائش کے بعدتیس برس تک ساتھ رہے پھرخدانے عزیرنبی کومارڈالا(جس کاذکرقرآن مجیدمیں موجودہے) اورسوبرس کے بعدپھرزندہ فرمایا اس کے بعدوہ اپنے بھائی کے ساتھ اورزندہ رہے اورپھرایک ہی روزدونوں نے انتقال کیا۔
یہ سن کرراہب اپنے ماننے والوں کی طرف متوجہ ہوکرکہنے لگاکہ جب تک یہ شخص شام کے حدودمیں موجودہے میں کسی کے سوال کاجواب نہ دوں گاسب کو چاہئے کہ اسی عالم زمانہ سے سوال کرے اس کے بعدوہ مسلمان ہوگیا۔
یہ بات بہت تیزی سے دمشق میں پھیل گئی اور شام کے لوگ بہت زیادہ خوش ہوگئے ، ہشام کو امام باقر علیہ السلام کی افتخار آمیز کامیابی سے خوش ہونا چاہئے تھا لیکن وہ پہلے سے بھی زیادہ امام سے ڈرنے لگا اور اس نے ظاہر سازی کو برقرار رکھنے کیلئے بہت سے ہدایا اور تحائف بھیجے ، ساتھ ہی ساتھ حکم دیا کہ آج ہی دمشق سے چلے جائیں (٦) ۔
حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی علمی حیثیت
کسی معصوم کی علمی حیثیت پرروشنی ڈالنی بہت دشوارہے ،کیونکہ معصوم اورامام زمانہ کوعلم لدنی ہوتاہے، وہ خداکی بارگاہ سے علمی صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتاہے،حضرت امام محمدباقر علیہ السلام چونکہ امام زمانہ اورمعصوم ازلی تھے اس لیے آپ کے علمی کمالات،علمی کارنامے اورآپ کی علمی حیثیت کی وضاحت ناممکن ہے تاہم میں ان واقعات میںسے مستثنی ازخروارے،لکھتاہوں جن پرعلماء عبورحاصل کرسکے ہیں۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ حضرت کاخودارشادہے کہ'' علمنامنطق الطیرواوتینامن کل شئی '' ہمیں طائروں تک کی زبان سکھاگئی ہے اورہمیں ہرچیزکاعلم عطاکیاگیاہے (مناقب شہرآشوب جلد٥ ص١١) ۔
روضة الصفاء میں ہے کہ بخداسوگندکہ ماخازنان خدائیم درآسمان زمین الخ خداکی قسم ہم زمین اورآسمان میں خداوندعالم کے خازن علم ہیں اورہم یہ شجرہ نبوت اورمعدن حکمت ہیں ،وحی ہمارے یہاں آتی رہی اورفرشتے ہمارے یہاں آتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیاکے ظاہری ارباب اقتدارہم سے جلتے اورحسدکرتے ہیں ،لسان الواعظین میں ہے کہ ابومریم عبدالغفار کاکہناہے کہ میںایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہواکہ :
١۔ مولاکونسااسلام بہترہے جس سے اپنے برادرمومن کوتکلیف نہ پہنچے ٢۔ کونساخلق بہترہے فرمایاصبراورمعاف کردینا ٣۔ کون سامومن کامل ہے فرمایاجس کے اخلاق بہترہوں ٤۔ کون ساجہادبہترہے ، فرمایا س میں اپناخون بہہ جائے ٥۔ کونسی نمازبہترہے ،فرمایاجس کاقنوت طویل ہو، ٦۔ کون سا صدقہ بہترہے، فرمایاجس سے نافرمانی سے نجات ملے، ٧۔ بادشاہان دنیاکے پاس جانے میں آپ کی کیارائے ہے، فرمایامیں اچھانہیں سمجھتا،
٨۔ پوچھاکیوں؟ فرمایاکہ اس لیے کہ بادشاہوں کے پاس کی آمدورفت سے تین باتیں پیداہوتی ہیں : ١۔ محبت دنیا، ٢۔ فراموشی مرگ، ٣۔ قلت رضائے خدا۔
پوچھاپھرمیں نہ جاؤں ،فرمایا میں طلب دنیاسے منع نہیں کرتا، البتہ طلب معاصی سے روکتاہوں ۔
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے اوراس کی شہرت عامہ ہے کہ آپ علم وزہداورشرف میں ساری دنیاسے فوقیت لے گئے ہیں آپ سے علم القرآن، علم الآثار،علم السنن اورہرقسم کے علوم ، حکم،آداب وغیرہ کے مظاہرہ میں کوئی نہیں ہوا،بڑے بڑے صحابہ اورنمایاں تابعین،اورعظیم القدرفقہاء آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتے رہے آپ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابرین عبداللہ انصاری کے ذریعہ سے سلام کہلایاتھا اوراس کی پیشین گوئی فرمائی تھی کہ یہ میرافرزند''باقرالعلوم'' ہوگا،علم کی گتھیوں کوسلجھائے گا کہ دنیاحیران رہ جائے گی(اعلام الوری ص١٥٧،علامہ شیخ مفید۔
علامہ شبلنجی فرماتے ہیں کہ علم دین، علم احادیث،علم سنن اورتفسیرقرآن وعلم السیرت وعلوم وفنون ،ادب وغیرہ کے ذخیرے جس قدرامام محمدباقرعلیہ السلام سے ظاہرہوئے اتنے امام حسین اورامام حسین کی اولادمیں سے کسی سے ظاہرنہیں ہوئے ۔ ملاحظہ ہوکتاب الارشاد ص٢٨٦،نورالابصار ص١٣١،ارجح المطالب ص٤٤٧۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام کے علمی فیوض وبرکات اورکمالات واحسانات سے اس شخص کے علاوہ جس کی بصیرت زائل ہوگئی ہو، جس کادماغ خراب ہوگیاہواورجس کی طینت وطبیعت فاسدہوگئی ہو،کوئی شخص انکارنہیں کرسکتا،اسی وجہ سے آپ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ آپ ''باقرالعلوم'' علم کے پھیلانے والے اورجامع العلوم ہیں، آپ کادل صاف ،علم وعمل روشن وتابندہ نفس پاک اورخلقت شریف تھی، آپ کے کل اوقات اطاعت خداوندی میں بسرہوتے تھے ۔
عارفوں کے قلوب میں آپ کے آثارراسخ اورگہرے نشانات نمایاں ہوگئے تھے ،جن کے بیان کرنے سے وصف کرنے والوں کی زبانیں گونگی اورعاجزوماندہ ہیں آپ کے ہدایات وکلمات اس کثرت سے ہیں کہ ان کااحصاء اس کتاب میں ناممکن ہے(صواعق محرقہ ص١٢٠) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرعلامہ زمان اور سردار کبیرالشان تھے آپ علوم میں بڑے تبحر اور وسیع الاطلاق تھے (وفیات الاعیان جلد١ ص٤٥٠) علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ آپ بنی ہاشم کے سردار اور متبحر علمی کی وجہ سے باقر مشہور تھے آپ علم کی تہ تک پہنچ گئے تھے، اور آپ نے اس کے وقائق کواچھی طرح سمجھ لیاتھا(تذکرةالحفاظ جلد١ص١١١) ۔
علامہ شبراوی لکھتے ہیں کہ امام محمدباقرکے علمی تذکرے دنیامیں مشہور ہوئے اورآپ کی مدح و ثناء میں بکثرت شعر لکھے گئے، مالک جہنی نے یہ تین شعر لکھے ہیں: جب لوگ قرآن مجید کا علم حاصل کرناچاہیں تو پورا قبیلہ قریش اس کے بتانے سے عاجزرہے گا،کیونکہ وہ خود محتاج ہے اور اگر فرزند رسول امام محمد باقر کے منہ سے کوئی بات نکل جائے تو بے حد و حساب مسائل و تحقیقات کے ذخیرے مہیا کردیں گے یہ حضرات وہ ستارے ہیں جو ہر قسم کی تاریکیون میں چلنے والوں کے لیے چمکتے ہیں اور ان کے انوار سے لوگ راستے پاتے ہیں (الاتحاف ص٥٢،وتاریخ الائمہ ص٤١٣) ۔
علامہ ابن شہرآشوب کابیان ہے کہ صرف ایک راوی محمدبن مسلم نے آپ سے تیس ہزارحدیثیں روایت کی ہیں (مناقب جلد٥ ص١١) ۔
آپ کے بعض علمی ہدایات وارشادات
علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جابرجعفی کابیان ہے کہ میں ایک دن حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام سے ملاتوآپ نے فرمایا اے جابرمیں دنیاسے بالکل بے فکر ہوں کیونکہ جس کے دل میں دین خالص ہو وہ دنیا کو کچھ نہیں سمجھتا، اورتمہیں معلوم ہوناچاہئے کہ دنیاچھوڑی ہوئی سواری اتارا ہوا کپڑا اور استعمال کی ہوئی عورت ہے، مومن دنیاکی بقاسے مطمئن نہیں ہوتا اوراس کی دیکھی ہوئی چیزوں کی وجہ سے نورخدااس سے پوشیدہ نہیں ہوتا مومن کوتقوی اختیارکرناچاہئے کہ وہ ہروقت اسے متنبہ اوربیدارکھتاہے سنودنیاایک سرائے فانی ہے نزلت بہ وارتحلت منہ '' اس میں آناجانالگارہتاہے آج آئے اورکل گئے اوردنیاایک خواب ہے جوکمال کے ماننددیکھی جاتی ہے اورجب جاگ اٹھے توکچھ نہیں …
آپ نے فرمایا تکبربہت بری چیزہے ،یہ جس قدرانسان میں پیداہوگا اسی قدراس کی عقل گھٹے گی ،کمینے شخص کاحربہ گالیاں بکناہے ۔
ایک عالم کی موت کوابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہترسمجھتاہے ایک ہزارعابدسے وہ ایک عالم بہترہے جواپنے علم سے فائدہ پہنچارہاہو۔
میرے ماننے والے وہ ہیں جواللہ کی اطاعت کریں آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے رونے والابخشاجاتاہے اورجس رخسارپر آنسوجاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔
سستی اورزیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے ۔
خداکے نزدیک بہترین عبادت پاک دامنی ہے انسان کوچاہئے کہ اپنے پیٹ اوراپنی شرمگاہوں کومحفوظ رکھیں۔
دعاسے قضابھی ٹل جاتی ہے ۔ نیکی بہترین خیرات ہے
بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کواپنی آنکھ کی شہتیردکھائی نہ دے،اوردوسرے کی آنکھ کاتنکانظرآئے ،یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے عیب اسے بڑے نظرآئیں اورخودعمل نہ کرے، صرف دوسروں کوتعلیم دے ۔
جوخوشحالی میں ساتھ دے اورتنگ دستی میں دوررہے ،وہ تمہارابھائی اوردوست نہیں ہے (مطالب السؤل ص٢٧٢) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے فرمایاکہ جب کوئی نعمت ملے توکہوالحمدللہ اورجب کوئی تکلیف پہنچے توکہو''لاحول ولاقوة الاباللہ'' اورجب روزی تنگ ہوتوکہواستغفراللہ ۔
دل کودل سے راہ ہوتی ہے،جتنی محبت تمہارے دل میں ہوگی ،اتنی ہی تمہارے بھائی اوردوست کے دل میں بھی ہوگی ۔
امام محمد باقر علیہ السلام کے علمی مکتب میں شیعوں کی اہم خصوصیات
امام محمد باقر علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں : قال الامام الباقر علیہ السلام : '' قال الامام الباقر عليه السلام: «يَا مُيَسِّرُ أَلَا اخْبِرُكَ بِشِيعَتِنَا؟ قُلْتُ: بَلى جُعِلْتُ فِداكَ قَالَ: إِنَّهُمْ حُصُونٌ حَصِينَةٌ و صُدُورٌ أمِيْنَةٌ وَ أَحْلَامٌ وَزِيْنَةٌ لَيْسُوا بالمَذِيعِ البَذِرِ وَلَا بِالجُفَاتِ المُرَاعِيْنَ رُهْبَانٌ بِالْلَيلِ اسُدٌ بِالْنَهارِ'' (٧) ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : اے میسر (٨) کیا میں تمہارے سامنے شیعوں کی خصوصیات بیان کروں ، میسر کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوجائوں بیان فرمائیے ، امام علیہ السلام نے فرمایا : یہ محکم قلعے ، امانتدار سینے اور صاحبان عقل ہیں (٩) ۔ یہ لوگوں کے درمیان غلط باتیں شایع نہیں کرتے ، رازوں کو فاش نہیں کرتے، خشک و خشن اور نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں ، یہ رات میں عبادت اور دن میں شیر ہیں ۔ آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اس اہم روایت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : یہ حدیث بہت مختصر ہے جس میں شیعوں کے سات صفات بیان ہوئے ہیں اور اس میں بہت سارے مطالب پوشیدہ ہیں ۔
١ ۔ محکم قلعے
دشمنوں کے مقابلہ میں شیعوں کو محکم اور مستدل ہونا چاہئے ، آج کے زمانہ میں جب دنیا کی تہذیبی اور ثقافتی حالت بہت خراب ہوگئی ہے اور ہماری جوان نسل پریشان ہے ، کیا ہم نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس سے اپنے جوانوں کو قوی کرسکیں ؟ اگر ہم جراثیم کو ختم نہیں کرسکتے تو اپنے آپ کو قوی کرنا چاہئے ۔
٢ ۔ امانتدار ، ٣ ۔ عاقل اور ٤ ۔ راز دار
ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں آپ کو ایک اہم شکایت یہ تھی کہ بعض شیعہ ہمارے رازوں کو فاش کرتے ہیں ۔ راز سے مراد وہ مقام مرتبہ ہے جو ائمہ علیہم السلام کو ہے جیسے علم غیب، قیامت کے روز شفاعت، علوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے امانتدار، شیعوں کے اعمال کے شاہد و ناظر اور معجزات ۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کو عام لوگ اور دشمن درک کرنے پرقادر نہیں تھے ، لیکن بعض سادہ لوح شیعہ جس جگہ بھی بیٹھتے تھے ، سب چیزیں بیان کردیتے تھے (١٠) اور اس کی وجہ سے اختلاف اور عداوت ایجاد ہوتی تھی ، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے فرمایا : ہمارے شیعوں کے سینوں میں امانتیں پوشیدہ ہیں ، وہ جو باتیں بیان کرتے ہیں ان کی وجہ سے اختلاف ایجاد نہیں ہوتا (١١) ۔
ان سے بدتر وہ غلو کرنے والے ہیں جو ہمارے زمانہ میں پیدا ہوگئے ہیں جو ولایت کے بہانہ سے کفر اور غلط تعبیریں ہمارے (اہل بیت علیہم السلام ) کے بارے میں بیان کرتے ہیں جن سے ائمہ ہرگز راضی نہیں ہیں ، ہمیں ان غلو کرنے والوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ،ان گروہ میں دو عیب پائے جاتے ہیں ،ایک عیب یہ ہے کہ اپنے آپ کو نابود کررہے ہیں ، یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم خدا کے صفات کو ائمہ علیہم السلام یا حضرت زینب علیہا السلام یا شہدائے کربلا کیلئے بیان کریں گے تو یہ عین ولایت ہے اور ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ ہمارا زمانہ میڈیا اور شوشل میڈیا کا ہے ، اگر آج صبح کوئی خبر صادر ہوتی ہے ، ایک گھنٹہ بعد پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ، یہ ان غلو آمیز کلمات اور غلط باتوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتشر کرتے ہیں اور شیعوں کے دامن پر بہت بڑا داغ لگاتے ہیں ، یہ شیعوں کو کافر کہلواتے ہیں اور پھر وہ شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیتے ہیں ، یہ نادان لوگ نہیں جانتے کہ ان کی باتوں سے دوسری جگہ پر شیعوں کا قتل عام ہوتا ہے ۔
افسوس ان نادان اور جاہل انسانوں پر ، افسوس ہے اس زمانہ پر جب جاہل، بے خبر اور نادان لوگوں کے ہاتھوں میں مجالس کی مہار آجائے ،ہمیں مجالس کے افتخارات ان جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہئے (١٢) ۔
٥ ۔ محبت
شیعہ شدت پسند نہیں ہیں ،بلکہ مہر و محبت اور حسن سلوک سے کام لیتے ہیں ، شیعوں میں علی بن ابی طالب اور تمام ائمہ ہدی کی روح پائی جاتی ہے ، یہاں تک کہ یہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت سے کام لیتے ہیں (١٣) ۔
٦ و ٧ ۔ راتوں میں بیدار اور شجاع ہیں
شیعہ ریا کار نہیں ہیں اور ان میں دو مختلف حالتیں جمع ہوگئی ہیں ، اگر کوئی ان کی راتوں کی عبادت کو دیکھے تو سمجھیں گے کہ یہ زاہد دنیا ہیں اور امور زندگی میں ضعیف ہیں ، لیکن دن میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ اجتماعی میدان میں شیروں کی طرح حاضر ہوتے ہیں ۔
امام علیہ السلام نے اپنی اس حدیث میں شیعوں کو صاحبان عقل اور وزین اشخاص بیان کئے ہیں ،لہذا معظم لہ نے اپنے نظریات میں شیعوں کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے :
١ ۔ جغرافیائی شیعہ
جو لوگ شیعہ نشین ملک میں پیدا ہوتے ہیں اور مردم شماری کے لحاظ س وہ اس ملک کے لوگ شمار ہوتے ہیں ۔
٢ ۔ میراث کے لحاظ سے شیعہ
جن کے ماں اور باپ شیعہ تھے اور اپنے شیعہ والدین کی آغوش میں پروان چڑھے ہیں (١٤) ۔
٣ ۔ لفظی شیعہ
جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم علی بن ابی طالب کے شیعہ ہیں ، لیکن عمل میں وہ کچھ بھی نہیں ہیں (١٥) ۔
٤ ۔ سطحی شیعہ
وہ شیعہ جن کے اعمال بہت نیچے ہیں اور وہ شیعوں کی گہرائی تک نہیں پہنچے ہیں ، شیعوں سے انہوں نے عزاداری، توسلات اور اسی طرح کی چیزیں حاصل کی ہیں ، کہاں سے معلوم کہ یہ شیعہ ہیں ؟ کیا اس وجہ سے کہ وہ ایام محرم میں سینہ زنی کرتے ہیں ، مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور شیعوں کی مسجدوں میں جاتے ہیں ؟ البتہ ہمارا قصد یہ نہیں ہے کہ ہم ان کاموں کو کم اہمیت بتائیں ، لیکن شیعوں کا یہ گروہ فقط اسی کو سمجھا ہے ، لیکن ''رھبان باللیل'' ، اسد بالنھار، احلام وزینة و صدور امینة '' جیسے صفات ان کے پاس سے بھی نہیں گزرے ہیں (١٦) ۔
٥ ۔ واقعی شیعہ ،اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو حاصل کرنے والے ہیں
حقیقی شیعہ وہ ہیں جو الہی معارف اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے آشنا ہیں اور ان کے صفات وہ ہیں جو اس روایت میں بیان ہوئے ہیں (١٧) ۔
اہل تسنن کے بزرگ علماء بھی امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب اور شاگردوں کے شاگرد ہیں جیسے ابواسحاق، ابراہیم بن محمد بن ابویحیی وغیرہ اور وہ جو ہمیشہ تعصب سے بہت دور رہے ہیں جیسے شافعی ، ابن صبھانی اور دیگر علماء (١٨ و ١٩) ۔
آخری بات
معظم لہ نے فرمایا : بعثت اور نبوت کی بنیاد علم و ادنش ہے ، وہ بھی تاریک اور جاہلیت کے ماحول میں خداوندعالم نے پیغمبر اکرم کو مبعوث کیا تاکہ کتاب و حکمت کی تعلیم اور نفوس کا تزکیہ اور دلوں کو پاک و صاف کریں ،خداوندعالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : خداوندعالم نے زمین و آسمان کوخلق کیا تاکہ انسان علم و دانش کو ان سے حاصل کریں اور خدا کی عظمت کو حاصل کرسکیں ۔
طلاب علوم دینی کو خداوندعالم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ، کیونکہ ان کویہ توفیق نصیب ہوئی ہے کہ وہ علوم دینی حاصل کرسکیں ، یہ طلاب ، امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ ) کے سپاہی اور امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے شاگرد ہیں ، ہم ہمیشہ انہی کے علوم کے دسترخوان پر بیٹھتے ہیں اور علم و دانش سے استفادہ کرتے ہیں (٢٠) ۔
ہمیں امید ہے کہ خداوندعالم ان کا سایہ ہمارے سروں پر باقی رکھے گا تاکہ ہم ان کے پروگراموں کو آگے بڑھا سکیں اور آخرت میں بھی ہمیں ان کی شفاعت حاصل ہوگی (٢١) ۔
منابع و مآخذ:
تنظیم و ترتیب اور تحقیق ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی کے دفتر کی سایٹ کی طرف سے اہل قلم کی ایک جماعت
دفتر حضرت ایه اللہ العظمی مکارم شیرازی دام ظلہ www.makarem.ir
حوالہ جات:
١ ۔ فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔
٢۔ فقہ کے درس خارج میں حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان (٢٢/٨/١٣٨٩) ۔
٣ ۔ گزشتہ حوالہ ۔
٤ ۔ اعتقاد ما ، صفحہ ١٢٢ ۔
٥ ۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔
٦ ۔ شام میں عیسائی اسقف کے ساتھ امام محمد باقر علیہ السلام کے مناظرہ سے متعلق آیة اللہ العظمی مکارم کی مکتوب روایت (٢١/٧/٩٢) ۔
٧ ۔ بحار الانوار ، جلد ٦٥ ،صفحہ ١٨٠ ۔
٨ ۔ '' میسر بن عبدالعزیز'' ،امام محمد باقر علیہ السلام کے صحابی تھے جن کی رجالی کتابوں میں بھی توصیف بیان ہوئی ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے ان کے بارے میں ایک جملہ ارشاد فرمایا ہے جو میسر کے حالات میں ذکر ہوا ہے ، امام فرماتے ہیں : ائے میسر کئی مرتبہ تمہاری موت آئی لیکن خداوندعالم نے تمہاری موت کو آگے بڑھا دیا ، کیونکہ تم نے صلہ رحم کیا تھا اور ان کی مشکلات کو حل کردیا تھا ۔
٩ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ ١٥ ۔
١٠ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ١٦ ۔
١١ ۔ گزشتہ حوالہ ۔
١٢ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ ١٧ ۔
١٣ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ ١٧ ۔
١٤ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ ١٨ ۔
١٥ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ١٩ ۔
١٦ ۔ مشکات ہدایت ، صفحہ١٩ ۔
١٧ ۔ گزشتہ حوالہ ۔
١٨ ۔ رجال نجاشی ،جلد ١ ، صفحہ ٨٥ ۔
١٩ ۔ دایرة المعارف فقہ مقارن ، جلد ١ ،صفحہ ٢٤٢ ۔
٢٠ ۔ اصفہان کے بعض طلاب سے ملاقات کے دوران حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی کا بیان ( ١٣/١٢/١٣٨٥) ۔
٢١ ۔ گزشتہ حوالہ ۔
پوری دنیا کو حج میں دعوت؛ وحدت اور معنوی استفادہ
سورہ حج کی آیت 28 میں فرمایا گیا ہے: "لِیَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَیَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِی أَیَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ..." یعنی: "تاکہ وہ اپنے فائدوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں۔" یہ آیت حج کے عظیم مقاصد کی وضاحت کرتی ہے، جو صرف عبادتی پہلو تک محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر پہلو بھی شامل ہیں؛ ایک طرف ذکرِ الٰہی ہے تو دوسری طرف فائدہ حاصل کرنا۔
اس آیت کے مطابق انسانوں کو خانۂ خدا کی طرف بلایا گیا ہے تاکہ وہ "اپنے منافع کے گواہ بنیں"۔ حضرت امام رضاؑ کے مطابق یہ منافع صرف حاجیوں تک محدود نہیں بلکہ تمام اہل زمین کے لیے ہیں، خواہ وہ حج پر آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔
یہ منافع مطلق طور پر بیان کیے گئے ہیں اور کسی ایک پہلو تک محدود نہیں۔ بعض مفسرین جیسے حضرت ابن عباسؓ نے ان منافع کو مادی اور تجارتی مفاد کے طور پر بیان کیا ہے، جس کی تائید سورہ بقرہ کی آیت 198 سے بھی ہوتی ہے: "لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ" یعنی: "تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔"
دوسرے مفسرین نے ان منافع کو صرف روحانی قرار دیا ہے، لیکن درحقیقت یہ فوائد دونوں پہلوؤں — دنیاوی اور اُخروی — کو شامل کرتے ہیں۔ ان میں فردی اور اجتماعی فائدے، روحانی برکتیں، مادی نتائج، سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی پہلو سب شامل ہیں۔ اس بات کی بنیاد خود آیت کا مطلق اندازِ بیان ہے جو منافع کو کسی خاص حد میں مقید نہیں کرتا۔
حج کا یہ عظیم موسم ان انسانوں کے لیے بیداری کا مرکز بن سکتا ہے جو ظلم و استبداد کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سفر میں مسلمان نہ صرف وحدتِ اسلامی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرکے مختلف ممالک کے حالات اور سیاسی خبروں سے بھی باخبر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ، مشرکین سے برائت کا اعلان بھی حج کے سیاسی پہلو کی غمازی کرتا ہے، جیسا کہ سورہ توبہ کی آیت 3 میں ارشاد ہے: "وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ" یعنی: "اور حجِ اکبر کے دن اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے کہ اللہ مشرکین سے بری ہے اور اس کا رسول بھی۔"
یہ اعلان موسمِ حج کو امتِ مسلمہ کی جامع سیاسی پالیسیوں کے اظہار کا ایک موزوں موقع بناتا ہے۔
بہر حال حج ایسی عبادت ہے جس میں روح اللہ کے ذکر سے جلا پاتی ہے، عقل عبرت سے سیکھتی ہے، جسم ریاضت سے مضبوط ہوتا ہے، اور امت اسلامی وحدت، بیداری اور دشمنشناسی سے قوت حاصل کرتی ہے۔
غزہ جنگ نے صیہونی رژیم کے خزانے کو خالی کر دیا؟
غزہ پر مسلط صیہونی جنگ میں ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کی شہادتوں اور علاقہ کو ملبے کا ڈھیر بنائے جانے کے باوجود عالمی سنجیدہ حلقے بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس لڑائی میں اسرائیل فاتح نہیں، گو کہ اس جنگ میں جانی و مالی نقصان اہل غزہ کا ہوا، تاہم کئی پہلووں سے اب تک صیہونی رژیم کو تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سب سے پہلے ناقابل تسخیر ہونے کی دعویدار غاصب ریاست کا پول سب سے پہلے طوفان الاقصٰی آپریشن نے توڑا، کسی دور میں پتھروں سے لڑنے والے حماس کے مجاہدین نے جب تل ابیب پر میزائلوں کی بارش کی تو صیہونیوں کے ہوش اڑ گئے، اس موقع پر ناجائز ریاست کا نہ صرف دفاعی نظام سرنگوں ہوا بلکہ انٹیلی جنس سسٹم بھی دنیا کے سامنے بری طرح ایکسپوز ہوا۔ ہلاکتوں کیساتھ کئی افراد کو قیدی بنانا مقاومتی محاذ کی بہت بڑی جنگی و سیاسی فتح تھی۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد جس طرح اسرائیل نہتے اہلیان غزہ پر حملہ آور ہوا وہ کوئی جنگی حکمت عملی نہیں بلکہ بے گناہ افراد پر بمباری کی صورت میں محض اپنی شکست کا دیوانہ پن تھا۔ اس جنگ کے آغاز میں ایک طویل عرصہ تک صیہونی عسکری دہشتگرد حماس سمیت مقاومتی تنظیموں کی خوشبو تک نہ سونگھ سکے، اس حملہ کے بعد اسرائیل کا وحشی پن دنیا کے سامنے آشکار کر دیا۔ جس پر وہ ممالک بھی اسرائیل کی مذمت کرتے نظر آئے، جنہوں نے اس کے مظالم کیخلاف بھی لب کشائی نہ کی تھی۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد قبلہ اول کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کی تحریک دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی اور غیر مسلم حریت پسند ممالک بھی اس ناجائز ریاست کے وجود کیخلاف پھٹ پڑے۔ علاوہ ازیں نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دے دیا گیا، گریٹر اسرائیل کے استعماری خواب کو مقاومتی مجاہدین نے تہس نہس کرکے رکھ دیا۔
ہولوکاسٹ کا کارڈ پہلے سے کہیں کم مؤثر ہوگیا ہے اور مغرب کے لوگ بھی اسرائیل کی حقیقت دیکھنے لگے ہیں۔ فلسطینی مسئلہ، جو تقریباً بھلا دیا گیا تھا، ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے، جنگ نے مغربی عوام کے نقطہ نظر کو "فلسطینی-اسرائیلی تنازعہ یا دونوں فریق" سے بدل کر "اسرائیلی قبضہ یا نسل کشی" پر مرکوز کر دیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے کئی سالہ صیہونی و امریکی منصوبے کو ناکام کر دیا تو غلط نہ ہوگا۔ اب اگر اس جنگ میں صیہنونیوں کے مالی نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بہت حیران کن ہے، جہاں اس لڑائی نے اسرائیل کو جنگی و سیاسی شکست دی ہے، وہیں صیہونی خزانہ پر انتہائی گہری ضرب لگائی ہے اور یہ سب کچھ مقاومتی محاذ کی استقامت سے ممکن ہوا۔ غزہ کی جنگ کو 600 سے زائد دن گزر چکے ہیں۔
مختلف باوثوق ذرائع سے اکٹھی کی جانے والی معلومات کے مطابق اس جنگ پر کل صیہونی لاگت تقریباً 46.6 ارب ڈالر آئی ہے، جن میں ریزروسٹس کو ادائیگیاں اور امداد تقریباً 15.5 ارب ڈالر ہے، گولہ بارود اور دفاعی نظام کی خریداری پر تقریباً 10.9 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اسی طرح ہوائی جہازوں، بحری جہازوں، زمینی گاڑیوں اور ان کے پرزے خریدنے پر تقریباً 6 ارب ڈالر کی لاگت آئی۔ علاوہ ازیں لاجسٹک خدمات پر تقریباً 4.6 ارب ڈالر صرف ہوئے، جنگ کے ساز و سامان پر تقریباً 3.4 ارب ڈالر، گھریلو محاذ کو مضبوط بنانے اور اضافی اخراجات پر تقریباً 2.2 ارب ڈالر خرچہ آیا، جبکہ مواصلات اور معلوماتی نظام پر تقریباً 2.5 ارب ڈالر لاگت آئی، متاثرہ صیہونی خاندانوں کی مدد پر تقریباً 1.35 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ غزہ جنگی میں جانی نقصان تو اہل غزہ کا ہوا، تاہم اس جنگ نے ایک طرف اسرائیل کو تاریخی شکست سے دوچار کیا ہے تو ساتھ ہی صیہونی خزانہ خالی کردیا تو غلط نہ ہوگا۔
اہل بیت (ع) کی محبت اطاعت کا سرچشمہ قرار پاتی ہے
اہل بیت علیہم السلام کی درخشاں تعلیمات میں ایک بنیادی سوال ہمیشہ مؤمنین کے ذہن میں موجود رہا ہے: ہم کس طرح اپنے تعلق کو ان چودہ پاک ہستیوں سے زیادہ گہرا اور مضبوط بنا سکتے ہیں؟ اسی سوال کا مدلل اور قرآنی و روائی جواب حجت الاسلام والمسلمین رضا محمدی شاہرودی نے "پرسمان تاریخی" نامی پروگرام میں پیش کیا ہے۔
سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اہل بیت علیہم السلام کو جیسا وہ تھے اور جیسا کہ روایات میں ان کا تعارف ہے، پورے وجودی پہلوؤں کے ساتھ پہچانیں اور ان کی معرفت حاصل کریں۔
یہ معرفت معتبر روایات، تاریخی شواہد حتی کہ دوست و دشمن کی نقل کردہ باتوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ جتنا یہ معرفت گہری ہوگی اتنا ہی ہمارا ایمان، عقیدہ، عشق اور محبت بڑھے گی۔ یہی محبت، ہماری اطاعت کا سرچشمہ بنتی ہے اور جب اطاعت پیدا ہو جائے، تو ہم ہدف تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، جیسا کہ خداوند عالم قرآن کریم فرماتا ہے: "وَ مَن یُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولَـٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِم..." یعنی جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں۔ (سورہ نساء، آیت 69)
اور سورہ فاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں: "صراط الذین أنعمت علیهم" یعنی ان کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، اور یہ وہی افراد ہیں جنہیں سورہ نساء کی آیت 69 میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے طور پر متعارف کرایا گیا۔
پس پہلا راستہ ہے معرفت، پھر محبت جو اسی معرفت سے پیدا ہوتی ہےاور پھر اطاعت، جو محبت کی فطری نتیجہ ہے اور یوں انسان مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان اور عقیدہ کو مضبوط بنانے کے لیے عملی طور پر اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرے۔ کیونکہ جو شخص کسی سے مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ خود بخود اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ جیسے ایک کھلاڑی کا مداح اس کے لباس، انداز و اطوار میں اس کی نقل کرتا ہے، ویسے ہی ہمیں بھی اہل بیت علیہم السلام کے کردار و عمل کو اپنانا چاہیے۔ ان کی سیرت کو عملی زندگی میں نافذ کر کے ہم ان سے قلبی قرب حاصل کر سکتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں امام سجاد علیہ السلام یا امام رضا علیہ السلام کو اپنا نمونہ بنائے اور ان کی کیفیت نماز میں اپنانے کی کوشش کرے تو یہی عمل اسے قلباً ان بزرگ ہستیوں کے قریب کر دیتا ہے اور اس کا ایمان مضبوط تر ہوتا ہے۔
تیسرا نکتہ توسل ہے۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام اپنی مناجات میں خود کو واسطہ بنا کر اللہ سے دعا مانگتے ہیں، ہمیں بھی اہل بیت علیہم السلام کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا چاہیے تاکہ ہم ان کی معرفت حاصل کر سکیں اور ان کے قریب ہو سکیں۔
توسل ایک شارٹ کٹ ہے، جو ہمیں خدا کی قربت کی جانب تیز تر لے جاتا ہے اگر ہم یہ تین قدم "معرفت، عمل اور توسل " ایک ساتھ اٹھائیں تو راستہ بھی مختصر ہو جاتا ہے اور دل بھی نورانی تر۔
آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی: طلاق سے بڑھ کر کوئی مصیبت اور کوئی مہلک ناسور نہیں
حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمیٰ جوادی آملی نے اپنے ایک تحریری بیان میں اسلامی معاشروں میں طلاق کے خطرناک اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: "طلاق سے بڑھ کر کوئی مصیبت اور کوئی مہلک ناسور نہیں۔ آپ طلاق سے متعلق روایات کا مطالعہ کریں، ان میں فرمایا گیا ہے کہ وہ گھر جو طلاق سے برباد ہو جائے، وہ آسانی سے دوبارہ آباد نہیں ہوتا۔" [وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۳۰]
انہوں نے طلاق کے فروغ میں بیرونی ثقافتی اثرات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے فرمایا: "اس بیگانہ ثقافت نے طلاق کو عام کر دیا! جائیے، نکاح کی طرف آئیے، خاندان بنائیے، باپ بنیے، ماں بنیے اور اولاد کی نعمت حاصل کیجیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہمیشہ باقی رہیں؟! تو پھر ایک نیک سیرت فرزند، جو آپ کے لیے دعا کرے گا، آپ کو ہمیشہ باقی رکھے گا۔" [الکافی، ج۷، ص۵۶]
آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے تاکید کی کہ خدای سبحان کی حکیمانہ مشیّت اسی میں ہے کہ وہ معاشرے کو خاندانی اصولوں کی بنیاد پر محفوظ رکھے۔
امام راحل (رہ) کی سیرت اور طرزِ زندگی انقلابی روح کو معاشرے میں زندہ رکھنے کا باعث ہے
قرآنی محقق اور مصنف حجت الاسلام والمسلمین سید محمد مهدی حسین زادہ نے تہران میں حوزہ نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: امام خمینیؒ ایک جامع شخصیت کے مالک تھے، ان کی مختلف جہات کا مطالعہ علمی و تحقیقی کام کا متقاضی ہے جو دینی مدارس اور جامعات میں طویل مدتی منصوبے کے تحت انجام پانا چاہیے۔ امام راحل کی یاد، سیرت اور طرزِ زندگی کا تعارف دین داری اور انقلابی روح کو معاشرے میں زندہ رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
انہوں نے امام خمینیؒ کی قرآنی شخصیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا: انقلاب اسلامی کے رہبر کبیر قرآن کے مفسر تھے اور ان کے ذریعہ نوضوعِ ولایت فقیہ کی عالمانہ تدوین اسی قرآنی شخصیت کی مظہر ہے۔ امام خمینیؒ کے تفسیری آثار کا مطالعہ ان کے دقیق اور عمیق قرآنی فہم کا گواہ ہے۔ جمہوری اسلامی نظام کے بانی کی عوام میں مقبولیت دراصل ان کی قرآنی شخصیت کا نتیجہ ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین حسین زادہ نے مزید کہا: امام خمینیؒ ہمیشہ قرآن کی بنیاد پر لوگوں پر خصوصی توجہ دی اور وہ عوام کو ولی نعمت سمجھتے تھے اور حکومت کے تمام مراحل اور انتخابات میں عوام کی موجودگی کو فیصلہ کن جانتے تھے۔ اسی بنا پر امام خمینیؒ نے پارلیمنٹ کو تمام امور کے لیے اساس و بنیاد قرار دیا۔
انہوں نے کہا: مکتبِ امام خمینیؒ کی وضاحت انقلاب اسلامی کی مسلسل حرکت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس حوالے سے سب سے بہترین عمل یہ ہے کہ ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات کا مطالعہ کریں خصوصاً ان کے وہ خطابات جو سالانہ برسی کے موقع پر امام راحلؒ کے بارے میں دیے جاتے ہیں کیونکہ ان میں امام خمینیؒ کے افکار و مکتب کی ایک مکمل اور جامع تشریح موجود ہے۔
خلیج فارس، ایرانی قوم کی تاریخی شناخت اور وحدت کی علامت ہے
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تربت حیدریہ کے کمشنر مجتبی شجاعی نے کہا ہے کہ خلیج فارس نہ صرف ایک اہم جغرافیائی آبی گذرگاہ ہے بلکہ ایرانی قوم کی تاریخی شناخت، تہذیب اور قومی وحدت کا نمایاں نشان بھی ہے۔
مہر نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شجاعی نے خلیج فارس کے مستند تاریخی نام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، صیہونی حکومت اور بعض عرب ریاستوں کی حالیہ حرکات اسلامی دنیا میں تفرقہ ڈالنے کی ایک خطرناک سازش کا حصہ ہیں۔ اسلامی دنیا کو ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تاریخ اور جغرافیائی حقیقت کا تحفظ کرنا چاہیے۔
انہوں نے خلیج فارس کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ دنیا کے لیے توانائی کی ایک کلیدی شاہراہ ہے اور ایران کی ثقافتی شناخت کا روشن آئینہ بھی۔ دشمن خلیج فارس کے نام میں تحریف کے ذریعے ایرانی قوم کی وحدت کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کو مسخ نہیں کر سکتے جو صدیوں سے عالمی نقشوں اور بین الاقوامی دستاویزات میں محفوظ ہے۔
شجاعی نے مزید کہا کہ ’خلیج فارس‘ کا نام تمام معتبر بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور تاریخی نقشوں میں "Persian Gulf" کے طور پر درج ہے، اور اس میں تبدیلی کی کوئی بھی کوشش غیرقانونی اور ناکام ہوگی۔
انہوں نے امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ممالک کی حالیہ اشتعال انگیز کارروائیوں پر خبردار کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس کے نام کو تبدیل کرنے کی کوشش اسلامی ممالک کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے ناپاک منصوبے کا حصہ ہے۔دشمن مذہبی و نسلی بنیادوں پر اختلافات کو ہوا دے کر اسلامی دنیا کی طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس سازش کا مقصد خطے میں جنگ کو فروغ دینا اور مسلمان اقوام کو مغرب پر مزید انحصار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ وہ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کے درمیان تاریخی تنازعات کو بھی ہوا دے کر علاقائی بدامنی کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
کمشنر تربت حیدریہ نے کہا ہے کہ ایران نہ صرف خلیج فارس کی تاریخی شناخت کا محافظ ہے بلکہ مشرق وسطی میں امن و استحکام کا ایک کلیدی کردار بھی ادا کرتا رہا ہے۔ ایران نے کبھی جنگ شروع نہیں کی، مگر ایران اپنے قومی وقار، سرحدوں اور تاریخی شناخت پر کسی بھی حملے کی صورت میں مضبوط، متحد اور دانشمندانہ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کے نام پر ایرانی کے تمام قبائل، مذاہب اور طبقہ ھای فکری کے درمیان جو غیرمعمولی اتحاد پایا جاتا ہے، وہ ایران کی قومی بیداری اور اس حساس مسئلے پر یکجہتی کی روشن مثال ہے۔ یہ وحدت دشمنوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ کبھی بھی اس گہرے ربط کو متزلزل نہیں کرسکتے۔
شجاعی نے کہا کہ دنیا میں آج بھی ہزاروں مستند نقشے، تاریخی دستاویزات اور بین الاقوامی آرکائیوز جن میں یورپی و امریکی جامعات کی لائبریریاں بھی شامل ہیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس آبی علاقے کا واحد درست اور قانونی نام "خلیج فارس" (Persian Gulf) ہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خلیج فارس کا دفاع صرف ایران کی نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک انسانی و اسلامی فریضہ ہے کہ تاریخی حقیقت کا تحفظ کیا جائے، نوآبادیاتی سازشوں کا مقابلہ کیا جائے اور امت مسلمہ کے درمیان محبت و ہمدلی کے رشتے قائم کیے جائیں۔
کمشنر کا کہنا تھا کہ آج دنیا کو ماضی کی نسبت کہیں زیادہ امن، مکالمہ اور اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور اختلافات کو نظر انداز کرنے کی ضرورت ہے جنہیں دشمن پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
غزہ میں صہیونی مظالم روکنے کے لیے مشترکہ اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے، رہبر معظم
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران پاکستان کو اہم اسلامی ملک قرار دیتے ہوئے غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ملاقات کے دوران رہبر معظم نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے باہمی اختلافات کا پرامن حل نکلے گا۔
انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر پاکستان کے مضبوط اور مثبت مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ کئی مسلم ممالک نے صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان نے ہمیشہ ان سازشوں کو مسترد کیا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دنیا میں جنگ پسند عناصر کے عزائم کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون ہی امت مسلمہ کی سلامتی کا ضامن ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا اولین مسئلہ قرار دیا اور غزہ کے المناک حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غزہ کی صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ یورپ اور امریکا کے عوام سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ بعض اسلامی حکومتیں ان حالات میں بھی صیہونی حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔
رہبر انقلاب نے زور دیا کہ ایران اور پاکستان باہمی تعاون سے اسلامی دنیا پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران و پاکستان کے تعلقات ہمیشہ گرم جوش اور برادرانہ رہے ہیں تاہم موجودہ دوطرفہ تعاون متوقع سطح سے کم ہے۔ دونوں ممالک مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ دورہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کا باعث بنے گا۔
رہبر معظم نے ایران و پاکستان کے مابین اقتصادی تعاون تنظیم کو مزید فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے رہبر انقلاب سے ملاقات پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان و بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے حل میں ایران کے مثبت کردار کو سراہا۔
انہوں نے غزہ کے حالات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے عالمی برادری غزہ کی ہولناک صورتحال کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر اقدام نہیں کر رہی۔
انہوں نے تہران میں ہونے والی مثبت اور تعمیری بات چیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا۔
اس موقع پر اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان بھی موجود تھے۔