سلیمانی

سلیمانی

 جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ نے امریکی صدر کی جانب سے رہبر معظم کو دی گئی قتل کی دھمکی کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی گستاخانہ حرکات کے نتائج سنگین ہوں گے اور امریکہ، صہیونی حکومت اور ان کے اتحادی کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جامعۃ المصطفیٰ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ یہ علمی، دینی اور بین الاقوامی ادارہ جو عالمی سطح پر مکالمے، بقائے باہمی، امن، معنویت اور انصاف کے فروغ کا علمبردار ہے، مرجعیت کے دفاع میں بزرگ علمائے اسلام، بالخصوص حضرات آیات مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی کے صریح فتاویٰ کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کی طرف سے دینی و سیاسی قائد و رہبر کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن سمیت تمام انسانی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو نشانہ بنانا مذہبی نفرت کو ہوا دینے، پرتشدد رجحانات کو فروغ دینے اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

جامعۃ المصطفیٰ نے تاکید کی ہے کہ دنیائے اسلام کے اکابر علمائے کرام—چاہے وہ قم ہوں، نجف، الأزہر یا دیگر علمی مراکز—نے کسی بھی دینی و سیاسی شخصیت کو دھمکی دینا یا قتل کرنا صریحاً محاربہ اور فساد فی الارض قرار دیا ہے، جس کی شرعاً شدید مذمت اور سخت سزا کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔

بیان میں عالمی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور تمام آزاد اندیش افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسے اشتعال انگیز اقدامات کے خلاف مضبوط موقف اپنائیں تاکہ عالمی امن، روحانی اقدار اور انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ابو الفضل شکار چی نے غاصب اسرائیل کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی مسلح افواج آئندہ کسی بھی اسرائیلی جارحیت کی صورت میں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور تباہ کن جوابی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ بیت المقدس پر قابض غاصب صیہونی حکومت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت پر ہمارا ردعمل زیادہ طاقتور، شدید اور مؤثر ہوگا جس سے دشمن کو شدید پچھتاوا ہوگا۔

جنرل شکار چی نے مزید کہا کہ عالمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران نے حالیہ 12 روزہ جنگ میں غاصب اسرائیلی حکومت کو شکست دی اور اسے سخت نقصان پہنچایا۔ ہم نے اپنے حملوں کے ذریعے اس مجرم حکومت کو اپنی جارحیت روکنے پر مجبور کر دیا۔

جنرل شکار چی کے مطابق، ایرانی مسلح افواج مکمل تیار ہیں۔

انہوں نے غاصب صیہونی حکومت کو سخت انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صیہونی غاصب حکومت نے دوبارہ کوئی اقدام کیا تو اسے شدید ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل، جمعہ کے روز سپاہ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل علی محمد نائینی نے کہا تھا کہ اگر غاصب اسرائیل نے دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی قسم کی سرخ لکیر کا لحاظ نہیں کرے گا۔

امام جمعہ زاہدان نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "خالص سنی غدیر پر ایمان رکھتے ہیں"۔ خداوند متعال نے غدیر کو اکمالِ دین، الہی نعمتوں کی تکمیل کا ذریعہ اور امام علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام کو اپنا پسندیدہ  مذہب کہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی زاہدان سے امام جمعہ کے دفتر سے موصولہ رپورٹ کے مطابق، سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام والمسلمین مصطفی محامی نے زاہدان میں اس ہفتے کے نماز جمعہ کے خطبوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ہدایت و راہِ راست کی درخواست، خلوصِ نیت اور خدا کی اطاعت و بندگی پر توفیق طلب کی جائے۔

حجت الاسلام محامی نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی دعای مکارم الاخلاق کی تلاوت کرتے ہوئے کہا: اس دعا میں آیا ہے کہ "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ، وَ مَتِّعْنِی بِهُدًی صَالِحٍ لَا أَسْتَبْدِلُ بِهِ ، وَ طَرِیقَةِ حَقٍّ لَا أَزِیغُ عَنْهَا ، وَ نِیَّةِ رُشْدٍ لَا أَشُکُّ فِیهَا ، وَ عَمِّرْنِی مَا کَانَ عُمْرِی بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ ، فَإِذَا کَانَ عُمْرِی مَرْتَعاً لِلشَّیْطَانِ فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ قَبْلَ أَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ إِلَیَّ ، أَوْ یَسْتَحْکِمَ غَضَبُکَ عَلَیَّ "

اس کا مطلب یہ ہے کہ "بارالہا ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسی نیک ہدایت سے بہرہ مند فرما کہ جسے دوسری چیز سے تبدیل نہ کروں اور ایسے صحیح راستے پر لگا جس سے کبھی منہ نہ موڑوں ، اور ایسی پختہ نیت دے جس میں ذرا شبہ نہ کروں اور جب تک میری زندگی تیری اطاعت و فرمانبرداری کے کام آئے مجھے زندہ رکھ اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے تو اس سے پہلے کہ تیری ناراضگی سے سابقہ پڑے یا تیرا غضب مجھ پر یقینی ہو جائے مجھے اپنی طرف اٹھا لے "۔

امام جمعہ زاہدان نے مزید کہا: کمال اور سعادت تک پہنچنے کے لیے انسان کو صحیح رہنمائی، صحیح اور ہموار راستے، ثابت قدمی، ارادہ اور منزل تک پہنچنے کے لیے درست نیت اور مواقع کی ضرورت ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنی دعا میں خدا تعالیٰ سے ان تمام چیزوں کی درخواست کی ہے لیکن اس کے نقصانات کی طرف بھی توجہ فرمائی ہے تاکہ یہ نعمت خطرے میں نہ پڑ جائے۔

سیستان و بلوچستان میں نمائندہ ولی فقیہ نے کہا: امام سجاد علیہ السلام راہ حق سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ خدا حق کا راستہ ہمارے سامنے رکھے اور ہمیں راہ حق سے روگردانی سے روکے کیونکہ بعض اوقات انسان کو صحیح اور غلط راستہ معلوم ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین محامی نے کہا: تقویٰ حاصل کرنے کا ایک طریقہ مقامِ فکر، عقیدہ اور عمل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت سے تمسک ہے۔

انہوں نے کہا: عیدِ غدیر ائمہ اطہار علیہم السلام کی روایات کے مطابق "عید اللہ الاکبر" اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق "انتہائی مہم اور کثیر خصوصیات کا حامل واقعہ" ہے۔

امام جمعہ زاہدان نے کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ غدیر کے بعد اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کہ "جاؤ اور علی (ع) کو مبارکباد دو"۔ اور ان تمام لوگوں اور صحابہ کے سامنے خلیفۂ اول اور ثانی نے حضرت امام علی علیہ السلام کوولایت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا تھا: " بَخٍّ بَخٍّ لَک یا عَلِی أَصْبَحْتَ مَوْلَای وَ مَوْلَی کلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ" یعنی اے علی (ع)! آپ کو مبارک ہو جو آج آپ ہمارے اور ہر مومن مرد و عورت کے مولا و آقا بنے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا: یہ ولایت ایک ایسی خاص دوستی ہے جو عالم اسلام کے اتحاد و و حدت کا محور بن سکتی ہے۔

کبھی کبھی لفظوں سے نہیں، وقت کے سانسوں سے ہدایت برستی ہے۔ کبھی ایک جملہ، پوری امت کی تقدیر رقم کرتا ہے۔ غدیر کا واقعہ صرف ایک اعلان نہیں بلکہ نبوت کے بعد ہدایت کی امانت کا ابلاغ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب آسمان نے سجدہ کیا اور زمین نے گواہی دی کہ ہدایت کا چراغ خاموش نہیں ہوا، بلکہ اسے دوسرے ہاتھوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ یہ جملہ شاید پڑھنے میں مختصر لگے، لیکن اگر روح اس کے اندر جھانک لے تو محسوس ہوگا کہ غدیر کا اعلان صرف ایک بیان نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے فکری و روحانی سفر کا سنگِ میل ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے، جب کلماتِ نبوت نے وقت کی نبض تھام کر آنے والی صدیوں کی سمت متعین کی۔ غدیر صرف ایک جلسہ، جشن یا صرف ایک اجتماع نہ تھا، بلکہ یہ مقامِ ابلاغ تھا اور نبوت کے اتمام اور امامت کے آغاز کا نقطۂ اتصال۔ یہاں الفاظ نہیں بول رہے تھے، یہاں صداقت اپنے پورے وجود کے ساتھ ظاہر ہو رہی تھی۔ یہاں رسولِ خدا (ص) نے صرف ایک شخصیت کو بلند نہیں کیا، بلکہ امت کو امانت سونپی۔

غدیر کے صحرا میں نبیؐ نے اچانک حکم دیا کہ "ٹھہرو!" کارواں رُک گیا۔ منبر بنا، چادر بچھائی گئی اور نبوت کے تاجدارؐ نے علی کے ہاتھ کو بلند کیا اور کھلے الفاظ میں فرمایا "من کنت مولاہ، فھذا علی مولاہ!"، "جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی بھی مولا ہے۔" یہ جملہ نہ صرف الفاظ کا ایک خوبصورت سنگھار تھا، بلکہ پوری امتِ محمدیہ کے لیے قیادت، ولایت اور امامت کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلانِ غدیر کے فوراً بعد آیت نازل ہوئی: "الیوم أكملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً"، "آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا، اپنی نعمت کو تم پر تمام کر دیا اور اسلام کو تمہارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔" سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف دوستی کے اعلان پر دین مکمل ہوسکتا ہے۔؟ کیا محبت کے جذبات پر قرآنی آیات نازل ہوتی ہیں۔؟ نہیں ہرگز نہیں! یہ یقیناً انتہائی مضحکہ خیز و بچگانہ سوچ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ اس علیؑ کی ولایت کا اعلان تھا، جس کے بغیر دین کی عمارت ادھوری رہتی۔ اس سے پہلے نبی کریم (ص) نے مجمعِ عام سے ایک اہم سوال کیا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟"، "کیا میں تمہاری جانوں پر تم سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟" سب نے یک زبان ہو کر کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! جب سب نے اقرار کر لیا، تب آپ نے فرمایا: "من کنت مولاہ،فھذا علی مولاہ۔۔۔" گویا نبیؐ نے پہلے اپنے اختیار اور ولایت کا اعتراف کروایا، پھر علیؑ کو اسی اختیار کا وارث قرار دیا۔ شیعہ سنی مسلمانوں کے لئے جس نکتے پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ حدیث غدیر میں لفظ مولیٰ کا مطلب صرف دوست یا محبوب نہیں ہوسکتا، یعنی یہ معقول نہیں، کیونکہ نبیؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے، وہ صرف ایک دوست کا نہیں ہوسکتا۔

اگر "مولیٰ" کا مطلب صرف دوست مانا جائے تو کیا نبیؐ بھی امت کے صرف دوست تھے؟ کیا وہ صرف محبت بانٹنے والے تھے۔؟ نہیں! بلکہ نبیؐ امت کے رہنماء تھے، امام تھے، صاحبِ امر تھے اور اولیٰ بالتصرّف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت علیؑ کے لیے وہی لفظ استعمال کرتے ہیں تو وہی معانی، وہی مفاہیم اور وہی عظمتیں علیؑ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ ایک ہی جملے میں ایک ہی لفظ دو الگ معنی کیسے رکھ سکتا ہے۔؟ یہ بلاغت کے اصولوں کے خلاف ہے، فصاحت کے ادب سے باہر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ نبوت کی حکمت اور خدا کے الفاظ کی توقیر کے منافی ہے۔ "مولا" کا مطلب وہی ہے، جو نبیؐ کے لیے تھا، یعنی اختیار، ولایت، رہبری، رہنمائی اور اولی بالتصرف۔

اسی لیے علیؑ کو "مولیٰ" کہنا دراصل انہیں نبیؐ کے بعد امت کا روحانی، فکری، دینی اور عملی قائد تسلیم کرنا ہے۔ کیا یہ صرف اتفاق ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: "أنا مدینة العلم و علی بابها"، "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔" کیا یہ بھی محض محبت کا اظہاریہ تھا کہ فرمایا: "علی مع الحق والحق مع علی"، "علی حق کے ساتھ ہے،اور حق علی کے ساتھ ہے۔۔۔" نہیں، صاحبو! یہ سب جملے امامت، رہبری اور ولایت کے مظاہر تھے۔ نبیؐ نے کسی محبوب صحابی کو اس انداز میں پیش نہیں کیا، جیسے علیؑ کو کیا، لیکن افسوس! بعض نے "مولا" جیسے مقدس لفظ کو صرف "دوستی" تک محدود کرکے نبوت کے اس روشن اعلان کو غبارِ تاویل میں گم کر دیا! انہوں غدیر کے منبر کو محض ایک خطبہ سمجھ لیا، حالانکہ وہ آئندہ صدیوں کا نقشہ تھا۔

مسلمانوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ فقط تاریخی طور پر، بلکہ شعوری طور پر۔اگر ہم نے "مولا" کو اس کے اصل مقام پر نہیں پہچانا تو ہم نبیؐ کے پیغام کو بھی مکمل نہیں سمجھ سکتے۔ علیؑ کو "دوست" ماننا آسان ہے، علیؑ کو "امام" ماننا مشکل اور یہی ہماری آزمائش ہے۔ مگر جو نبیؐ جس معنی میں مولیٰ ہوں، اسی معنی میں علیؑ کو مولا قرار دیں تو پھر بات ختم فیصلہ ہوچکا! اعلان غدیر، ولایت کا اقرار، حق کا اعلان اور امت پر خدا کا اتمام حجت ہے۔ اگر ہم نے قبول کیا تو ہدایت ہماری طرف بڑھے گی۔ اگر ہم نے واقعہ غدیر کا انکار کیا یا غلط تاویلات کا سہارا لیکر اس کی روح کو تسلیم کرنے سے روگردانی کی تو تاریخ گواہی دے گی کہ ہم نے نور کو اندھیروں میں دفن کر دیا ہے۔

تحریر: محمد حسن جمالی

تاریخِ اسلام کے اوراق پر چند ایسے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے، جن کی گونج صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایمان والوں کے دل و دماغ میں تازگی پیدا کرتی ہے اور جن کے انکار سے نہ صرف حق کی روشنی ماند پڑتی ہے بلکہ امت گمراہی کی دھند میں بھٹکنے لگتی ہے۔ واقعۂ غدیر کا شمار سرفہرست انہی واقعات میں ہوتا ہے۔ اس واقعے کا اجمال یہ ہے کہ 18 ذی الحجہ کو رسولِ خدا (ص) نے خدا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے لاکھوں کے مجمع میں اعلانِ ولایت فرمایا۔ یہ صرف سیاسی رہنمائی نہیں، بلکہ دین کی بقاء اور امت کی رہبری کا اعلان تھا، مگر افسوس! مسلمانوں کی اکثریت نے واقعہ غدیر کو فقط ایک تاریخی واقعہ سمجھا اور اس کی معنویت سے چشم پوشی کی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امتِ مسلمہ ایسی پستی میں جا گِری، جہاں فرقہ واریت، ظلم اور باطل پرستی نے جڑیں پکڑ لیں۔ غدیر کا انکار صرف ایک شخصیت کا انکار نہیں، بلکہ اُس الہیٰ نظامِ ہدایت کا انکار ہے، جو رسول (ص) کے بعد امت کو صراطِ مستقیم پر رکھنے کے لیے معین کیا گیا تھا۔

روز غدیر تاریخِ اسلام کا وہ مقدس لمحہ ہے، جس میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت اور ولایت کا اعلان پیغمبر مکرم اسلام کی 23 سالہ زحمتوں پر بھاری ثابت ہوا۔ اس حقیقت کا اظہار خالق دو جہاں کی طرف سے نہ کنائے کی صورت میں ہوا اور نہ اشارے کی شکل میں، بلکہ نص قرآن کے ذریعے ہوا۔ فرمایا: "یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔۔"، "اے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔" تفسیر الکوثر کی نقل کے مطابق یہ آیت 18 ذی الحجۃ الحرام بروز جمعرات حجۃ الوداع 10 ہجری کو رسول اللہؐ پر اس وقت نازل ہوئی، جب آپؐ غدیر خم نامی جگہ پہنچ گئے تھے۔
 
چنانچہ آپؐ نے آگے نکل جانے والوں کو جو مقام جحفہ کے قریب پہنچ گئے تھے، واپس بلایا اور آنے والوں کا انتظار کیا اور تقریباً ایک لاکھ کے مجمع میں حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا: "ان اللّٰہ مولای و انا مولی المؤمنین و انا اولی بہم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ۔"، "اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنوں کا مولا ہوں اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ہوں۔ پس جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔" پیغمبر اکرمؐ نے اس کو تین بار دہرایا۔ بقول امام حنابلہ احمد بن حنبل کے چار مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد فرمایا: "اللّٰہم وال من والاہ و عاد من عاداہ و احب من احبہ و ابغض من ابغضہ و اخذل من اخذلہ و ادر الحق معہ حیث دار الا فیبلغ الشاھد الغائب۔"، "اے اللہ! جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ اور جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر، جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ، جو اس کو ترک کرے تو اس کو ترک کر اور حق کو وہاں پھیر دے، جہاں علی ہو۔ دیکھو جو یہاں حاضر ہیں، ان پر واجب ہے کہ وہ سب تک یہ بات پہنچا دیں۔"

اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے چالیس طریق سے، ابن جریر طبری نے ستر سے زائد طریق سے، علامہ جزری المقری نے 80 طریق سے، علامہ ابن عقدہ نے 105 طریق سے، علامہ ابن سعید سجستانی نے 120 طریق سے، علامہ ابو بکر جعابی نے 125 طریق سے روایت کیا ہے۔ ہمارے معاصر علامہ امینی اپنی شہرہ آفاق کتاب الغدیر جلد اول میں 110 اصحاب سے یہ روایت ثابت کرتے ہیں۔ صاحب الغدیر کی تحقیق کے مطابق درج ذیل اصحاب رسولؐ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت غدیر خم کے ۔۔موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے
1) زید بن ارقم: ان کی روایت کو امام طبری کتاب الولایۃ میں نقل کرتے ہیں۔
2) ابو سعید الخدری: ان سے ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸ طبع بیروت ۱۹۹۰۔ الواحدی اسباب النزول ص ۱۰۵۔
3) عبد اللہ بن مسعود: ان سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے۔ الدرالمنثور ۲: ۵۲۸۔ فتح القدیر، الشوکانی ۳: ۵۷۔

4) عبد اللہ بن عباس: حافظ ابو سعید سجستانی کتاب الولایۃ میں، بدخشانی نے مفتاح النجا میں، آلوسی نے تفسیر روح المعانی ۲: ۳۴۸ میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
5) جابر بن عبداللہ انصاری: حافظ حاکم الحسکانی نے شواہد التنزیل میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
6) ابو ہریرہ: شیخ الاسلام حموینی نے فرائد السمطین میں ان کی روایت نقل کی ہے۔
7) براء بن عازب: السید علی ہمدانی نے المودۃ القربیٰ میں، السید عبد الوہاب البخاری نے اپنی تفسیر میں ان کی روایت بیان کی ہے۔ اسی طرح ایک سو دس اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الغدیر جلد اول۔(الکوثر فی تفسیر القرآن: جلد 2، صفحہ 559) روز غدیر پیغمبر اکرم (ص)یہ فرمان کہ "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" فقط ایک سیاسی بیعت یا ذاتی محبت کا اظہار نہ تھا، بلکہ یہ ایک ربانی منصوبے کی تکمیل تھی۔ علیؑ کی ولایت کا اعلان، دین کی بقاء کا سامان تھا، مگر صد افسوس! بعض نادان اور مغرض افراد نے اس اعلان کو تاریخ کے پس منظر میں دھکیل دیا گیا۔

قارئین کرام؛ غدیر کا انکار وہ المیہ ہے، جس کی گونج ہر صدی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس کی بازگشت کربلا کی صحراؤں میں سنائی دیتی ہے، جہاں پیاسے حلقوں نے حق کی گواہی دی اور اس امام کو بڑی بے دردی سے شہید کر دیا گیا، جس کے نانا نے غدیر میں اعلانِ ولایت فرمایا تھا۔ غدیر وہ نظریہ ہے، جو قیادت، خلافت اور روحانیت کے معیار متعین کرتا ہے۔ اس دن یہ بات واضح ہوئی کہ امامت و قیادت کسی قبائلی فخر یا دنیاوی اقتدار کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم، تقویٰ، عدل اور قربِ الہیٰ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے۔ علیؑ کی ذات، نبی کے بعد وہ واحد شخصیت تھی، جس میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کی تلوار صرف معرکہ جنگ میں نہیں، بلکہ جہل، تعصب اور باطل نظریات کے خلاف بھی چمکتی تھی۔ ان کا علم صرف فتووں تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ فکری جہات کو روشن کرنے والی روشنی تھی۔

مسلمانوں کی اکثریت نے غدیر کے چراغ کو بجھا کر خود اپنے آپ کو اندھیروں کے حوالے کر دیا ہے۔ جب غدیر کو بھلا دیا تو پھر نہ عدل باقی رہا، نہ علم کی حرمت، نہ صداقت کی بقا۔ خلافت حکومت میں بدل گئی اور سیاست دین کے جسم پر مسلط ہوگئی۔ جنہوں نے اہل بیتؑ کو نظر انداز کیا، انہوں نے حقیقت میں قرآن کو بوسیدہ اور دین کو مجروح کر دیا ہے۔ جب غدیر کو دبا گیا تو طرح طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا اور امت کے جسم میں فرقہ واریت کے خنجر پیوست ہونے لگے۔ اگر امت نے غدیر کے پیغام کو سینے سے لگا لیا ہوتا تو نہ یزید جیسا فاسق برسرِ اقتدار آتا، نہ کربلا کی ہولناک داستان رقم ہوتی، نہ امت اتنی فکری اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی۔ اہل بیتؑ کی علمی، روحانی اور اخلاقی رہنمائی اگر معاشروں کا حصہ بن جاتی تو آج امت تہذیب و تمدن کے اوج پر ہوتی۔

غدیر کی فراموشی کے اثرات صرف ماضی تک محدود نہیں۔ آج بھی ہم اسی بدقسمتی کا شکار ہیں۔ قیادت کا تصور اب دولت، طاقت اور لسانی و نسلی وابستگیوں کے گرد گھومتا ہے۔ قومیں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہیں، مسالک کی دیواریں آسمان کو چھو رہی ہیں اور ایک مخصوص ٹولہ دوسرے مسلمانوں کو کافر کہہ کر دین کا پرچم بلند کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ قرآن جو ہدایت کی روشن کتاب ہے، اب محض قاری کی تلاوت اور حافظ کی یادداشت تک محدود ہوچکا ہے۔ اس کی روح، اس کا پیغام اور اس کی انقلابی قوت ہماری فکری روایت سے اوجھل ہوچکی ہے۔ دین کے حقیقی نمائندے، یعنی اہل بیتؑ، اب صرف مجالس اور چند مخصوص ایام کا حصہ بن چکے ہیں، نہ کہ روزمرہ کی فکری، اخلاقی اور سیاسی زندگی کا۔ یہ روحانی زوال اسی وقت شروع ہوا، جب غدیر کے عہد کو بھلا دیا گیا۔

آج امت کو جس زوال، انتشار اور پسماندگی کا سامنا ہے، وہ اسی ایک بنیادی غلطی کا نتیجہ ہے۔ یعنی غدیر کو نظرانداز کرنے کا۔ یہ وہ بھول تھی، جس نے ہماری معنوی اساس کو کمزور کر دیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو منتشر۔ ہم نے وحدتِ اسلامی کے اس مرکز کو بھلا دیا، جو سب کے لیے سایۂ رحمت بن سکتا تھا۔ اب وقت ہے کہ ہم تاریخ کے اس موڑ پر واپس آئیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو حاضر کریں۔ ہمیں غدیر کی صداؤں کو دل سے سننے کی ضرورت ہے، اس اعلانِ نبوت کو اپنانے کی ضرورت ہے، جو علیؑ کی ولایت میں مضمر ہے۔ قیادت کو دوبارہ عدل، تقویٰ، علم اور روحانیت کی بنیاد پر پرکھنا ہوگا۔ ہمیں سیاست کو دین کا تابع بنانا ہوگا، نہ کہ دین کو سیاست کا خادم۔

اگر آج بھی ہم غدیر کے چراغ کو اپنے دلوں میں روشن کریں تو وہ صبح ضرور طلوع ہوسکتی ہے، جس کی روشنی میں امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہو جائے، جہاں کوئی فقہی، لسانی یا جغرافیائی حد ہمیں ایک دوسرے سے جدا نہ کرے، بلکہ ایک ایسا اخلاقی و روحانی رشتہ قائم ہو جائے، جو محبت، اخوت اور عدل پر مبنی ہو۔ غدیر کا پیغام ایک ازلی صدا ہے، جو صرف ایک مخصوص مکتبِ فکر یا مسلک کا اثاثہ نہیں، بلکہ ہر اُس دل کی پکار ہے، جو حق کا متلاشی، عدل کا پیاسا اور روحانیت کا طالب ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جو تاریخ کے ہر موڑ پر مظلوم کی آہ، محروم کی پکار اور محبِ علیؑ کے دل کی دھڑکن میں سنائی دیتی ہے۔ غدیر ہمیں صرف علیؑ کی ولایت کا اعلان نہیں سکھاتا، بلکہ وہ طرزِ قیادت عطا کرتا ہے، جس میں خودی مٹ جاتی ہے اور خدا کا رنگ چڑھتا ہے۔ یہ پیغام، ہمیں اصولوں سے جڑے رہنے، سچائی پر استقامت اختیار کرنے اور مصلحت کے پردوں کو چاک کرکے حق کی ترجمانی کرنے کا درس دیتا ہے۔

آج، جب امتِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور روحانی خلا کا شکار ہے تو ہمیں اسی غدیر کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ وحدت کا خواب صرف تقاریر، قراردادوں یا جلسوں سے شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا، جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو غدیر کے اصولوں پر استوار نہ کریں۔ غدیر ہمیں علیؑ جیسی قیادت کی تلاش کا شعور دیتا ہے، جو محراب میں شہید ہو، مگر عدل سے پیچھے نہ ہٹے؛ جو یتیم کے آنسو کو بھی اپنی ریاست کی پالیسی کا مرکز بنائے؛ جو بیت المال کو امانت سمجھے اور اپنی تلوار صرف دشمنِ دین پر اٹھائے، نہ کہ اقتدار کے حریصوں پر۔یہ پیغام ہمیں قرآن کو صرف تلاوت سے آگے لے جا کر، اس کے فہم، تدبر اور معنوی تاثیر کو اپنانے کا کہتا ہے۔ یہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم دین کو عبادات کی قید سے نکال کر ایک ہمہ گیر، حیات افروز نظامِ فکر میں تبدیل کریں۔ ایسا نظام جو مسجد سے عدالت، بازار سے ایوانِ حکومت اور فرد سے معاشرہ تک عدل، تقویٰ، علم اور محبت کا پرچار کرے۔

اگر ہم آج بھی غدیر کے پیغام کو اپنے دل کی دھڑکن اور فکر کی بنیاد بنا لیں تو ایک نئی صبح کا سورج ضرور طلوع ہوسکتا ہے۔ وہ صبح جس میں فرقے، قبیلے، زبانیں اور جغرافیے، وحدتِ ایمانی کے دائرے میں سمٹ جائیں گے؛ جہاں مسجدوں سے لے کر ایوانوں تک صداقت کی گونج ہوگی؛ جہاں ہر بچہ، علیؑ جیسی صداقت، فاطمہؑ جیسی عفت، حسنؑ جیسی وقار اور حسینؑ جیسی غیرت کو اپنا آئیڈیل بنائے گا؛ جہاں قیادت ایک امانت ہوگی، وراثت نہیں اور جہاں امت کا ہر فرد، دین کی معنوی روشنی میں، ظلم کے اندھیروں کو چیرنے والا چراغ بن جائے گا۔ ہم سب مل کر عہد کریں کہ غدیر کو پھر سے زندہ کریں گے۔
تحریر: محمد حسن جمالی
پروپیگنڈا جنگ کے دوران اہم ترین ہتھیار ہوتا ہے اور سادہ لوح عوام بڑی آسانی سے اس ہتھیار کا شکار ہو کر دشمن کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جدید دنیا میں جنگوں کا انداز یکسر تبدیل ہوچکا ہے۔ دنیا میدانی جنگ کی بجائے نفسیاتی جنگ کے حربے زیادہ استعمال کرتی ہے۔ ہم بہت جذباتی اور جلد باز لوگ ہیں، رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جہاں ہر قسم کی مستند اور غیر مستند خبروں کا ایک بے انتہا ذخیرہ موجود ہوتا ہے، جس کی دسترس ہر کہ و مہ تک ہوتی ہے، جس وجہ سے ہر کوئی بزعم خود دفاعی تجزیہ کار بنا ہوتا ہے۔ بعض بلکہ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی ادھوری معلومات کی بنیاد پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جانے انجانے میں اپنے ہی کاز کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

اسرائیل کے ایران پر حملہ کرنے کے بعد تین قسم کے گروہ سامنے آئے ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے، جو ایران کے اندھے حامی ہیں۔ یہ لوگ بغیر کسی تحقیق کے جنگ سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی خبر اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ ان میں بالخصوص ایسی خبروں کی بہتات ہوتی ہے کہ ایران نے دھاوا بول دیا ہے اور اب دشمن کی خیر نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا گروہ ایران کے اندھے دشمنوں کا ہے، جن کا موقف یہ ہے کہ ایران کے مخالف خواہ یزید ہی کیوں نا ہو، وہ یزید کا ساتھ دیں گے۔ یہ لوگ ذہنی طور پر مستضعف، متعصب، تنگ نظر اور انتہائی جاہل ہیں، سو لائقِ ذکر نہیں ہیں۔ اگرچہ ان کا ایک بڑا بزرگ کہہ گیا تھا کہ "ایہہ وچوں رلے ہوئے ہن جدوں ایران حملہ کرے یا مخالف تے میری قبر تے۔۔۔۔" شہری حفاظت کے پیش نظر اس وصیت پر تو عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔

بہرحال تیسرا گروہ خاصا معتدل تو ہے مگر وہ بھی اکثر و بیشتر جذبات کا اور دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس گروہ میں کئی دانشوران موجود ہیں، جو اپنی فہم و دانش کے مطابق جنگی حکمت عملی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر الفاظ میں یوں کہنا مناسب ہوگا کہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جنگ ان کی اسٹریٹیجی کے مطابق ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو رہا تو پھر طعن و تشنیع اور مختلف انداز میں طنز کے نشتر چلاتے نظر آتے ہیں۔ بعض تو ایسے ہیں، جو صرف اٹینشن سیکنگ اور زیادہ سے زیادہ آڈینس کے لیے کبھی کبھار چول تک بھی مار دیتے ہیں کہ اس سے فالوورز میں اضافہ ہوگا۔ بعض حمایت میں ان سے آگے نکل جاتے ہیں اور خود کو ان کے دفاعی ماہرین وغیرہ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں۔ لگے ہوتے ہیں کہ یوں ہوتا تو یوں نہ ہوتا اور یوں نہ ہوتا تو یہ ہو جاتا اور اس جیسی کئی بے تکی باتیں۔

یہاں ایک نکتے کا ذکر بہت ضروری ہے، وہ یہ کہ ہمارے سوشل میڈیا کے دانشوروں کے لیے یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جنگ ہماری سمجھ بوجھ کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی اور نا ہی جن پر جنگ مسلط ہوئی ہے، وہ ان چیزوں سے واقف نہیں، جن سے ہمارے دانشور آگاہ ہیں۔ فیلیر ہے یا پھر جو کچھ، ایسے وقت میں دشمن کی زبان بولنا دشمن کو مضبوط کرنا، اسی کے ساتھ کھڑے ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اس حساس ترین وقت میں اپنی دانش جھاڑ کر دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنے برادر اسلامی ملک کا کم از کم اخلاقی سطح پر تو ساتھ دیں۔ جذباتیت سے ہٹ کر عقلی بنیادوں پر بھی اگر غیر جانبداری سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو ماضی کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریک خواہ کوئی بھی ہو، اگر وہ انسان دشمن عناصر کے خلاف مخلصانہ بنیادوں پر استوار ہو تو پھر کامیاب ہو کر رہتی ہے۔

اسرائیل کی غزہ پہ جاری جارحیت کس سے عیاں ہے؟ اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی آج کس صاحب عقل سے ڈھکی چھپی ہے، سو ایسے میں ایران حق پر ہے اور اس کا ساتھ دینا ہر باشعور شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ ایران کا مخالف خطے بھر میں بدامنی کا باعث ہے اور یہ آگ اگر آج نا روکی گئی تو پھر کئی بلکہ سارے گھر زد میں آئیں گے اور ہمارا مکان بھی یہیں ہے۔ لہذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ آگ کے بھڑکنے سے پہلے ہی اس پر قابو پانا ضروری ہوتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان نے بھی اس موقع پر اپنے ہمسایہ ملک کی حمایت اور جارح ملک کی مذمت کی ہے۔ رہی بات ایران کی مضبوطی کی تو ساشے پیک تجزیہ کار اور سستے دانشوروں کی کل معلومات کا حدود اربعہ سوشل میڈیا ہے اور ان کی دوڑ ایک سائٹ سے دوسری سائٹ تک ہے۔

یہ ہرگز نہیں جانتے کہ جس ملک میں انقلاب کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں دھماکہ ہوا اور تمام اراکین شہید ہوگئے، جن میں انقلاب کے اولین لوگ بھی شامل تھے، کہنے والے کہتے رہے کہ اب انقلاب ختم، اس پر مجھے جمی کارٹر کا جملہ یاد آرہا ہے کہ "لیکن خدا خمینی کے ساتھ تھا" انقلاب مزید مضبوط ہوا اور اتنا زیادہ مضبوط ہوا کہ خمینی جیسے مرد درویش کا نعرہ "لا شرقیہ ولا غربیہ سپر پاور ہے خدا" آج ہمیں عملی صورت میں نظر آتا ہے۔ حاج قاسم کی شہادت پر پھر مجھ ایسے نوجوان انقلابیوں نے یاسیت کا اظہار کیا اور ابراہیم رئیسی و دیگر شہداء کی مرتبہ بھی ایک طبقے کا یہی رویہ رہا کہ اگر حفاظت نہیں کرسکتے تو فلاں ڈھمکاں۔۔۔ اسی طرح باقی شہادتوں پر بھی یہی رویہ اور اب بھی یہی کہ کیڑے نکال رہے ہیں، گھروں میں آرام دہ کمروں میں بیٹھ کر جبکہ حق تو یہ بنتا ہے کہ اخلاقی مدد تو کر ہی سکتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سطحی طور سے دیکھنے کے عادی ہیں اور فوراً رائے قائم کر لیتے ہیں، جبکہ تحریک اور پھر الہیٰ تحریکوں میں جیت اور ہار کے پیمانے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو درس انقلاب دیا تھا، اس کے ماننے والے اپنی کامیابی و ناکامی اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں، ایسے میں افراد کے جانے سے نظام یا نطریہ دھڑام سے گر نہیں جاتا بلکہ زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لیڈر یا بڑی شخصیات بننے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے اور ان نقصان کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا، مگر ایسے میں برادر بزرگوار ارشاد حسین ناصر کا ایک خوبصورت ترین جملہ یاد آرہا ہے کہ "اگر یہ لوگ شہید نہ ہوں تو باعث حیرت ہے، شہادت کے متلاشی، شہادت کیلئے تڑپنے والے اپنے مقصد کو پاگئے۔ اپنے رفقاء کے بغیر جینا دشوار ہوتا ہے۔"

سو ان لوگوں کا نقصان اپنی جگہ، مگر انہوں نے اپنا کام کر دیا، منزل حاصل کر لی اور اپنی جگہ جانشین بھی تیار کر گئے۔ سید حسن کی شہادت سے بظاہر حزب کمزور لگ رہی ہوگی ہمیں، مگر وہ اپنے نظریات پر پختگی سے کاربند کھڑے ہیں۔ اسی طرح اب کی شہادتوں سے بھی گھبرا کر مزاحمت کی کمزوری کا رونا الاپ کر اپنی مایوسی کا اطلاق مقاومت پر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ مقاومت کے تمام بلاکس ڈٹے ہوئے ہیں۔ مگر ہم جو نادانستگی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، آخر کب عقل کا استعمال کریں گے۔؟ آخر میں فیسبکی دانشوروں کے لیے جن کا کام سوشل میڈیا پر بیٹھ کر تنقید کرنا ہے، آیت اللہ خمینی کا فرمان اگر سمجھ آجائے تو افاقہ ہوگا۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے کہا تھا کہ بھلے ایران یا میں ختم ہو جاوں تو کیا!!!!!! اسلام ختم ہو جائے گا۔؟ کیا راہِ شہادت ختم ہو جائے گی۔؟ ہم سے بہتر ایمان، عقیدہ اور جذبہ رکھنے والے آجائیں گے۔ ہم سب یا تو الہیٰ وعدہ کو مان لیں کہ آخری فتح حق کی ہے۔ یا باطل کی بیعت کرلیں اور زندہ رہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
 تحریر: سید محمد تعجیل مہدی
 
 

 اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی جارحیت پر رہبر مسلمین جہان حضرت الله "سید علی خامنه‌ای" نے ایک پیغام جاری کیا۔ پیغام کا متن کچھ یوں ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم  
عظیم ایرانی قوم!  
آج صبح صیہونی رژیم نے ہمارے پیارے ملک کے خلاف اپنے خون آلود ہاتھوں سے جرم کا ارتکاب کیا اور رہائشی مراکز پر حملہ کر کے اپنے نجس وجود کو  مزید بے نقاب کیا۔ صیہونی رژیم سخت سزا کی منتظر رہے۔ انشاءاللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مضبوط مسلح افواج، جارحین کو سبق سکھائے گی۔ دشمن کے حملے میں کئی کمانڈروں اور سائنسدانوں نے شہادت حاصل کی۔ انہی شہداء کے جانشین اور ساتھی انشاءاللہ فوری طور پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ صہیونی رژیم نے یہ بھیانک اقدام اٹھا کر اپنے لئے دردناک اور تلخ انجام کو دعوت دی ہے، جو یقیناً اسے مل کر رہے گا۔  

سید علی خامنه‌ای

رپورٹ کے مطابق، مارچ کے وسط (18 مارچ 2025) میں غزہ پر دوبارہ حملے شروع کرنے کے بعد سے اب تک 18 فوجی اور غاصب آباد کار ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 8 گزشتہ ہفتے مارے گئے تھے۔

اس حوالے سے، صیہونی فوج نے کل رات باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ مشرقی خانیونس کے محلے بنی سھیلا میں ایک عمارت میں بم دھماکے کے نتیجے میں 4 صیہونی فوجی ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے۔

عید قربان (عید الاضحیٰ) دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس عظیم قربانی کی یادگار ہے، جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی صورت میں پیش کی۔ یہ قربانی نہ صرف ایک جسمانی عمل تھا بلکہ اس میں بے مثال اطاعت، ایمان، ایثار اور خلوص شامل ہے۔

عظیم قربانی کا اشارہ:
عید قربان درحقیقت اللہ کی رضا کے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کرنے کی علامت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں اور انہوں نے اس خواب کو سچ جان کر عمل کیا۔ اس قربانی کا ذکر قرآن مجید میں سورہ الصافات میں آیا ہے: "فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ"، "پھر جب دونوں (باپ بیٹا) نے (اللہ کے حکم کے آگے) سر جھکا دیا اور (ابراہیم نے) اسے ماتھے کے بل لٹا دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 103)

اس قربانی کو عظیم قربانی کی طرف لوٹا دینے کا خدا کا وعدہ
جب 61 ہجری میں مولا حسین نے کربلا میں پورا کر دیا، جوان بیٹے کو راہ خدا میں پیش کرکے اسلام کو زندہ کردیا، "دیا ہے اکبر کی راہ میں اکبر"

حضرت ابراہیمؑ کی قربانی، اطاعت کی معراج
انہوں نے خواب کی تعبیر کے تحت بیٹے کی قربانی دی، جو اللہ کے حکم پر تھی اور اللہ نے اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ بھیج دیا۔۔۔ یہ اللہ کی رحمت تھی۔
 
حضرت امام حسینؑ کی قربانی، شعور و حق کی معراج
انہوں نے ظلم، باطل اور جبر کے خلاف قیام کیا۔ یزید کے نظامِ فسق و فجور کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنے نانا محمدﷺ کے دین کی بقا کے لیے کربلا میں جان، بیٹے، بھائی، بھتیجے، اصحاب سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیا۔
 
"عظیم قربانی" کا مفہوم امام حسینؑ کے ذریعے مکمل ہوا
 قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ"، "اور ہم نے اس (ابراہیمؑ) کے بیٹے کا فدیہ ایک عظیم قربانی سے دیا۔" (سورۃ الصافات، آیت 107) علمانے کہا ہے کہ یہ "ذبح عظیم" کا کامل مظہر کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت ہے، قربانی صرف جسمانی نہیں تھی، بلکہ حق کے لیے قربانی تھی۔ وہ قربانی صبر، بصیرت، بصیرتی قیادت اور روحانی شعور کا انتہا تھی۔ وہ قربانی دینِ محمدیﷺ کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئی۔۔

امام حسین نے ہمیں جو سبق دیا، آج کے حالات میں فلسطین، غزہ، لبنان کے غیور مسلمانوں نے تو اس کو ثابت کر دیا کہ مسلمان کبھی باطل کے خلاف سرنگوں نہیں ہوتا، لیکن کیا باقی دنیا کے مسلمانوں کو بھی امام حسین کا یہ سبق یاد ہے۔؟ جب فلسطین، خاص طور پر غزہ، اس قدر تباہی، قتل عام، نسل کشی اور ظلم کا شکار ہے کہ انسانیت چیخ اٹھے، تو مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر، غیرت اور جذبۂ جہاد سوالیہ نشان بن گیا ہے۔؟

دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اطلاع رسانی مرکز کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح امام خمینی (رح) کے روضہ مبارک میں عوام کے ایک عظیم اور پُرجوش اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے موجودہ عالمی تبدیلیوں پر نمایاں اثرات کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: عظیم امام راحل نے ایمان سے پیدا ہونے والی حکمت اور عقلانیت کے ساتھ، انقلاب اور ملک کی پُرعزت اور طاقتور پیشرفت کی راہ میں "قومی خودمختاری" جیسے بنیادی اصولوں کو سمو دیا، اور ایران انہی اصولوں کے سائے میں ترقی، عوامی خوشحالی، پائیدار سلامتی، بین الاقوامی مقام میں بہتری اور روشن مستقبل حاصل کرے گا۔

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے قومی ایٹمی مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے، ایران کا مکمل اور قابلِ فخر ایٹمی ایندھن سائیکل حاصل کرنا "ہم کر سکتے ہیں" پر عوام اور نوجوان سائنسدانوں کے ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ صنعت دیگر علوم و ٹیکنالوجیز کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ ایٹمی منصوبے کو "ہم کر سکتے ہیں" جیسے امیدافزا اصول کے سراسر منافی قرار دیا اور زور دیا: "ایٹمی صنعت، اگر غنی سازی نہ ہو، تو عملاً بے فائدہ ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت جان لے کہ وہ ایران میں ایٹمی صنعت کو ختم کرنے کے اپنے مقصد میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔"

آپ نے امام خمینی کو اسلامی جمہوریہ کے ایک مستحکم، ترقی پذیر اور طاقتور نظام کے معمار کے طور پر یاد کرتے ہوئے فرمایا: "36 سال بعد بھی، ان کی شخصیت اور انقلاب کے اثرات واضح ہیں — جیسے بڑی طاقتوں کا زوال، کثیر قطبی نظام کا قیام، امریکہ کے اثر و رسوخ کا زوال، صہیونیت سے نفرت کا بڑھنا یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں، اور مختلف اقوام کا بیدار ہونا اور مغربی اقدار کی نفی۔"

رہبر انقلاب نے فرمایا کہ جب ایک دینی عالم کی قیادت میں ایرانی قوم نے خالی ہاتھ، تا دندان مسلح اور مغرب کے تابع پہلوی حکومت کو شکست دی، اور امریکہ و صہیونیت کو ملک سے باہر نکالا، تو مغرب حیران رہ گئی۔ انہوں نے کہا: "امام نے اسلامی حکومت کے قیام کے نظریے کے ساتھ امریکہ کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور یہیں سے دشمنوں کی سازشوں کا آغاز ہوا۔"

انہوں نے مزید کہا: "اسلامی انقلاب کے خلاف امریکہ اور مغرب کی سازشوں کی شدت، وسعت اور تنوع جدید تاریخ کی دیگر انقلابات میں بے مثال ہے — جیسے قومیت پرستی کو ہوا دینا، مسلح بغاوتیں، صدام جیسے خونخوار کی ایران پر مسلط جنگ، اور انقلاب کے رہنماؤں و ایٹمی سائنسدانوں کا قتل۔"

انہوں نے فرمایا کہ "تمام ان سازشوں کے پیچھے استکباری حکومتیں، خاص طور پر امریکہ، صہیونی حکومت اور ان کے خفیہ ادارے جیسے سی آئی اے، ایم آئی 6، اور موساد شامل تھے۔"

آپ نے زور دیا: "یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنے کے لیے کیا گیا، لیکن قوم اور نظام نے صبر و استقامت کے ساتھ ان ہزارہا سازشوں کو ناکام بنایا اور انقلاب کمزور ہونے کے بجائے زیادہ طاقتور ہو کر آگے بڑھا۔"

حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عقلانیت پر جذبات کی فوقیت کو انقلابوں کی انحرافی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ "امام راحل نے ایمان و عقلانیت سے انقلاب کو اس مہلک آفت سے محفوظ رکھا۔"

انہوں نے ولایت فقیہ اور قومی خودمختاری کو امام کی عقلانیت کے دو بنیادی ستون قرار دیا اور فرمایا: "ولایت فقیہ انقلاب کی دینی بنیادوں کی محافظ ہے اور قومی خودمختاری امام کے افکار و اہداف کی جامع عکاسی ہے۔"

رہبر معظم نے فرمایا کہ "قومی خودمختاری کا مطلب دنیا سے کٹ جانا یا تنہائی اختیار کرنا نہیں بلکہ خودانحصاری اور غیر وابستگی ہے۔"

انہوں نے امام خمینی کے بیان کردہ اصول "ہم کر سکتے ہیں" کو انقلاب کی بنیادی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا: "پہلوی دور میں 'ہم نہیں کر سکتے' کی سوچ قوم پر مسلط کی گئی تھی، لیکن امام نے 'ہم کر سکتے ہیں' کی روح کو زندہ کیا۔"

انہوں نے امریکہ کی حالیہ ایٹمی مذاکراتی تجاویز کو "ہم کر سکتے ہیں" کے اصول کے خلاف قرار دیا اور کہا: "استقلال کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم اپنی دفاعی طاقت بڑھائیں۔ ابتداء میں ہمارا دفاعی سازوسامان تقریباً صفر تھا، لیکن آج دنیا اعتراف کر رہی ہے کہ ہم دفاعی لحاظ سے خطے کے سرفہرست ممالک میں ہیں۔"

رہبر معظم نے امام کے اصول تبیین (تشریح) اور استقامت (ثابت قدمی) پر زور دیا اور فرمایا: "امام کا کلام دل و دماغ دونوں کو قانع کرتا تھا۔ امام نے جوانوں کو استقامت کا درس دیا اور انقلاب کی راہ کو محفوظ رکھا۔"

انہوں نے ان لوگوں پر تنقید کی جو "عقلانیت" کو امریکہ کے سامنے جھکنے کا نام دیتے ہیں اور کہا: "امام کی عقلانیت کا نتیجہ ایک باوقار، ترقی یافتہ ایران ہے، اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھیں گے۔"

ایٹمی صنعت کے بارے میں آپ نے فرمایا: "یہ صنعت صرف سستی بجلی کے لیے نہیں بلکہ سائنسی، طبی، زرعی، ماحولیاتی اور دفاعی شعبوں میں بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔"

انہوں نے فرمایا کہ: "غنی‌سازی ایٹمی صنعت کا کلیدی نکتہ ہے؛ اگر ہم غنی‌سازی نہ کر سکیں، تو ہمیں دوسروں کے در پر جانا ہوگا — جیسے تیل رکھتے ہوئے بھی ہمیں کہا جائے کہ آپ ریفائنری نہیں لگا سکتے۔"

انہوں نے کہا کہ: "اگر ہمارے پاس سو ایٹمی بجلی گھر بھی ہوں، مگر غنی‌سازی نہ ہو تو ہم مجبور ہوں گے اور امریکہ جیسے دشمن درجنوں شرائط عائد کریں گے۔"

انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ: "جب ہم نے یورینیم کے بدلے 20 فیصد ایندھن کی شرط رکھی، تو امریکہ نے وعدہ توڑا؛ لیکن ہمارے سائنسدانوں نے اسی دوران وہ ایندھن خود تیار کر لیا۔"

آپ نے امریکیوں کے دعوے کو ایران کو ایٹمی صنعت سے مکمل محروم کرنے کا ارادہ قرار دیا اور فرمایا: "یہ نہ صرف صنعت کا نقصان ہے بلکہ ہزاروں جوان محققین کو مایوس کرنے کی کوشش ہے۔"

رہبر معظم نے کہا: "امریکی دعویٰ کہ ایران غنی‌سازی نہ کرے، قانونی بنیاد سے محروم ہے — ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کون ہو جو ہمارے فیصلوں میں دخل دو؟"

غزہ کے مظالم پر آپ نے فرمایا: "صہیونی حکومت غزہ میں غذائی مراکز بنا کر لوگوں پر گولیاں چلا رہی ہے — یہ ظلم، پستی، اور خباثت حیرت انگیز ہے۔"

آپ نے امریکہ کو ان مظالم کا شریک جرم قرار دیا اور فرمایا: "اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ امریکہ کو اس خطے سے نکل جانا چاہیے۔"

آپ نے اسلامی حکومتوں کو خبردار کیا: "آج خاموشی، غیر جانب داری، یا تعلقات کی معمول پر واپسی ناقابل قبول ہے — جو حکومت بھی صہیونیوں کی حمایت کرے گی، اس پر ابدی ننگ چسپاں ہو جائے گا۔"

آپ نے زور دیا: "اللہ کی طرف سے بھی ایسے اعمال کی سخت سزا ہے — اور اقوام بھی ان خیانتوں کو کبھی نہیں بھولیں گی۔ صہیونی حکومت کا زوال یقینی ہے، اور ان شاء اللہ جلد ہوگا۔"

آخر میں، آپ نے روز عرفہ کو دعا، تواضع، اور توجہ کا موسم قرار دیا اور نوجوانوں کو "دعائے عرفہ" اور صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر 47 کی تلاوت کی بھرپور تلقین کی۔

تقریب کے آغاز میں، حجت الاسلام والمسلمین سید حسن خمینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا: "اسلامی انقلاب تاریخ کا سب سے زیادہ عوامی انقلاب تھا۔ عزت، قومی شناخت کا جوہر ہے، اور ہمیں امام اور رہبر کے بار بار تاکید کردہ اصول — اسلامی اور قومی عزت — کو کسی حال میں مجروح نہیں ہونے دینا چاہیے۔"