
سلیمانی
حضرت زہراء (س) کی حیات طیبہ کے چند لازوال پہلو (اسوه حسنه)
مؤثر اور عہد ساز انسانوں کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انسانوں کی سیرت اور کردار کی اثر آفرینی مختصر لمحوں کے بعد معدوم ہو جاتی ہے اور بعض افراد کے کردار کی پختگی دوچار نسلوں تک اثر آفریں ہوتی ہے لیکن کچھ ایسے کامل افراد بھی تاریخ میں دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جن کی شخصیت ان کی سیرت و کردار کے آئینہ میں یوں ظاہر ہوتی ہے کہ اس کی تابناکی زمان و مکان کی حدود سے گذر جاتی ہے اور ہر عہد و عصر، ہررنگ و نسل اور ہر تہذیب انسانی کے لئے برابر کے شریک ہو کر، درخشاں تابناک، اسوہ حسنہ بن جاتی ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ بھی انفرادی اور سماجی لحاظ سے اس قدر پر فروغ اور حیرت انگیز ہے کہ اسکی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جا سکتی ہے۔ حضرت زہرا سلام الله علیها کی نورانی شخصیت کا تأثر وقت کی سطح پر بہتا ہوا وہ دریائے ناپیدا کنار ہے جس سے ہر شخص بقدر بضاعت فیضیاب ہو سکتا ہےـ
تمام انسانی کمالات اورخصوصیات میں بینظیر اور بیمثال ہونے کے ناطے، حضرت زہرا سلام الله علیها کی ذات گرامی جویندگان راہ کمال انسانیت اور رہروان راہ وصول الی الخالق، کیلئے بہترین سرمشق اور مشعل راہ کی حثیت رکھتی ہےـ یہ وہ ہستی ہے کہ جسکی تعظیم کے لئے رسالت نے قیام فرمایا اور انکے حجت خدا ہونے کا واضح ثبوت پیش کردیا۔ یہ وہ ہستی ہے جس کی مدح میں قرآن ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نظر آیا۔ یہ وہ ہستی ہے جسے معصومین نے اپنا اسوہ قرار دیا چنانچہ امام مہدی علیہ السلام سیرت حضرت فاطمہ سلام الله علیها کے اسوائیت کے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، "ان لی فی بنت رسول الله اسوہ حسنه"۔ بنت رسول کی زندگی میرے لئے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ نیز علامہ اقبال بھی اسی اسوائیت کے پہلو کو اپنے ایمان افروز اشعار میں نمایاں طور پر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مزرع تسلیم را حاصل بتول
مادران را اسوہ کامل بتول
اس مختصر مضمون میں ہم حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں میں سے چند اہم اور عصر حاضر کے لئے راھگشا نمونے بقدر بضاعت نگارش میں لانے کی کوشش کرینگے، جو نہ فقط ہماری زندگی کو صبغہ اسلامی سے مزین کرینگے بلکہ بہت سارے معاشرتی مسائل اور مشکلات کے حل کے لئے رہنما اور معاون بھی ثابت ہونگے مگر یہاں ممکن ہے بعض کے ذہن میں یہ سوال ابھر آیا ہو کیا زندگی میں سرمشق اور نمونہ عمل کا ہونا، ناگزیر ہے؟ ذیل میں بطور مختصر بیان کرینگے کہ ضرورت سرمشق زندگی کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ کیا ہے۔
نمونہ عمل اور اس کی ضرورت:
دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر نمونہ عمل کے زندگی نہیں گذارتا ہے، بعض دانستہ طور پر اور بعض نادانستہ طور پر کسی کو اپنا آئیڈیل بنائے ہیں اور اس مضمون میں نمونہ عمل سے مراد، عمل اور فکر کا وہ عینی اور مشہود نمونہ ہے کہ کمال انسانیت تک رسائی حاصل کرنے کیلئے جس کا اتباع کیا جاتا ہے، شہید مطہری علیہ الرحمہ (اپنی کتاب انسان کامل میں) اسکی ضرورت پر تقریبا گیارہ دلیلیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانیت کے کمال تک رسائی حاصل کرنے کیلئے انسان کامل سے راہ کمال کا سیکھنا اور اسکا اتباع کرنا ضروری ہے، اسکے بغیر وہ اس مقام تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں رب العزت کا ارشاد ہو رہا ہے، "لقد کان لکم فی رسول الله اسوہ حسنه" ( سورہ احزاب 21 ).یعنی قرآن کریم نے اس آیت کریمہ میں مصداق اسوہ اور سرمشق کو بیان کرکے یہ بات واضح کر دی کہ اسوہ اور نمونہ عمل کی ضرورت ایک روشن اور بدیہی شئی ہے جسکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کن لوگوں کے لئے اسوه حسنه بن سکتی ہے؟
جہاں حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ ان افراد کیلئے آئیڈل اور نمونہ بن سکتی ہے جو اسلامی طرز زندگی کو فالو کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں جو چاہتے ہیں کہ انکی زندگی صبغہ الہی اختیار کرے، جو چاہتے ہیں کہ کمال انسانیت اور منتہای عبودیت کے اس ارفع مقام پر فائز ہوں، جہاں معبود کی ذات کے سوا سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے، وہاں ان لوگوں کے لئے بھی سرمشق بن سکتی ہے جو اپنی معاشرتی زندگی، ازدواجی زندگی اور زندگی کے دیگر شعبوں کے معاملات کو نمٹانے کی سعی اور کوشش میں ہوتے ہیں۔ لہذا اسلامی طرز زندگی کو بطور شیوہ حیات قرار دیکر کمال انسانیت تک رسائی کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہم کسی ایسے انسان کامل جو عظمتوں اور انسانی اقدار کی بلند و بالا چوٹیوں پر فائز ہو کو اپنا نمونہ عمل اور آئیڈیل قرار دیں گے۔ نیز اسکی سیرت و فضائل پر صرف داد دیکر انہیں وادی نسیان کی نذر کرنے کی بجائے اس پر من و عن عمل کریں گے، چونکہ انکی سیرت، کمال انسانیت تک پہنچانے کا الٰہی نسخہ ہوا کرتی ہے اور جس طرح دوائی کھائے بنا صرف ڈاکٹر کی تجویز کو داد دینے سے بیمار ٹھیک نہیں ہوتا ہے بالکل اسی طرح بطور آئیڈیل معرفی شدہ ہستیوں کی سیرت کو اپنی زندگی کا شیوہ اور طرز عمل قرار دیئے بغیر کمال انسانیت تک رسائی بھی ممکن نہیں ہے۔
مگر افسوس آج مسلمان اس قدر فرنگی ظاہری جلوؤں سے اس قدر مرعوب ہو چکے ہیں کہ اپنے معنوی رول ماڈلز کی طرز زندگی سے دور ہو گئے ہیں۔ فرنگی طرز زندگی کو اپنے لئے اعزاز سمجھنے لگے ہیں اور بعض تو اس قدر فریبندہ فرنگی کلچر کے دلدادہ ہو گئے ہیں کہ اپنے الٰہی رولز ماڈل کے متعلق زبان درازی کرتے ہوئے کہتے ہیں چودہ سو سال پہلے کی طرز زندگی کیونکر اس وقت کیلئے رول ماڈلز بن سکتی ہے؟ "زین لهم الشیطان ما کانوا یعملون" انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ اسلامی اور انسانی اقدار کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو موسم کے ساتھ تبدیل ہو جائے یہ زندگی کے وہ ثابت اور لاتغییر اصول ہیں جو رہتی دنیا تک برقرار رہنے والے ہیں۔ حضرت زہرا (س) کی حیات طیبہ انہی اقدار کا عملی نمونہ ہے جسے اللہ نے انسانوں کے لئے بطور رول ماڈل متعارف کروایا ہے۔
لہٰذا اس گروہ کا عقیدہ درست نہیں ہے جو آئمہ علیه السلام کو انسانوں سے مختلف مخلوق قرار دیکر کہتے ہیں نمونہ عمل قرار پانے کیلئے اسوہ اور اسوہ کی اتباع کرنے والے کی زندگی میں سنخیت کا پایا جانا ضروری ہے جبکہ ہماری زندگی اور آئمہ کی زندگی میں کوئی سنخیت نہیں پائی جاتی ہے۔ انکے وجود نوری ہیں جبکہ ہم خاکی ہیں، لہٰذا انکی زندگی ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالی، رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کرتا اور نہ ہی رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم معصومین علیهم السلام کی زندگی کو نجات کا ضامن قرار دیتے ہوئے انکی اتباع اور پیروی کا حکم دیتے، لہٰذا معلوم ہوا کہ یقینا قابل عمل ہے اور انسانیت کی نجات انہی ہستیوں کے اتباع میں مضمر ہے۔
حضرت زہرا سلام الله علیها کو اسوہ قرار دینے کا مطلب:
واضح رہے کہ حضرت زہرا سلام الله علیها کی فضیلتیں دو طرح کی ہیں، فضائل نفسی اور نسبی۔ فضائل نفسی، بغیر کسی نسبت کے انسان میں پائے جانے والے فضائل کو کہا جاتا ہے اور کسی سے منتسب ہونے کے نتیجے میں ملنے والے فضائل کو فضائل نسبی کہا جاتا ہے۔ (سید جواد نقوی، کتابچه ،حضرت زهرا الگو حسنه) پس حضرت زہرا اسوہ ہیں اسکا مطلب کیا ہے؟ اسکا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ سب خواتین امام کی ہمسر بنیں یا سب امام کی ماں بنیں بلکہ اسوہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان صفات اور خصوصیات میں حضرت زہرا سلام الله علیها کی پیروی کی جائے جن کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئیں کہ امام کی ماں بنیں، ان صفات میں ان کا اتباع کیا جائے جن کے پرتو میں وہ حق و باطل کی معیار بن کر یوں ابھریں کہ زبان وحی جنبش میں آئی اور حدیث "ان اللہ لیغضب لغضبک و یرضی لرضاک" (کے ذریعے حضرت فاطمہ سلام الله علیها کے سر پر عصمت و طہارت کا لازوال سہرہ سجا دیا۔
سیرت حضرت زهرا کے چند لازوال نقوش:
جامعیت کے ناطے دین اسلام کا اپنا طرز حیات ہے اور یہ لائف پیٹرن دین و دنیا دونوں میں کامیابی کا ضامن ہے اور قدم قدم پر انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے اور ہدایت کے لئے نمونہ عمل کا بندوبست بھی کیا ہے تاکہ انکی سیرت کے مطابق اپنی زندگیاں استوار کریں۔ انہی ہستیوں میں سے ایک اعلٰی نمونہ اور اسوہ حسنہ والی ہستی حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیها کی ذات گرامی ہے، جسے ہمارے لئے اعلٰی مثال اور عظیم نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ ان مذکورہ قابل الگو فضائل میں اسطرح حضرت زہرا سلام الله علیها کا اتباع کیا جائے کہ ہماری زندگی حضرت زہرا سلام الله علیها کی حیات طیبہ کے سانچے میں یوں ڈھل جائے کہ انکی دلی محبت اور انکی عقیدت ہمارے ہر عمل سے چھلک پڑے۔ یہاں انکے تمام فضائل کا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، لہٰذا ذیل میں اختصار کے ساتھ چند اہم راھگشا نقوش زیب قرطاس کرونگاـ
1. ازدواجی زندگی:
جب اہل قلم حضرت زہرا سلام الله علیها کی ازدواجی زندگی پر قلم اٹھاتے ہیں تو حضرت زہراسلام الله علیها کی صرف گھریلو اخلاقیات ان کے مدنظر ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے شہزادی کونین کی شادی بیاہ کی نہایت سادہ رسومات پر کماحقہ قلم نہیں اٹھایا گیا جبکہ ازدواجی زندگی شادی بیاہ اور حق مہر کو بھی شامل ہوتی ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس مبارک رشتے کا تفصیلی بیان ممکن نہیں، تاریخ کے مطابق آپ جیسے بالغ ہوئیں آپکے لئے رشتے آنا شروع ہوئے بالآخر حضرت امام علی علیه السلام سے آپ کی شادی ہونا طے پایا تو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے حکم پر حضرت امام علی علیه السلام نے اپنی ذرہ بیچ کر مہر کی رقم حضور اکرم کے حوالہ کردی اور پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم نے اس رقم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ شہزادی کی گھریلو ضروریات کے لئے مختص کیا، دوسرا حصہ شادی کے اخراجات کے لئے اور تیسرا حصہ جناب ام سلمہ کے حوالے کردیا اور فرمایا یہ رقم علی کے حوالہ کردو تاکہ علی اس رقم کے ذریعہ اپنے ولیمہ کے انتظامات کر سکیں۔ (مجلسی، بحارالانوار، ترجمه، ج، 43، ص 409 و 358)۔
کائنات کے عظیم ترین شخص کی با عظمت بیٹی کی شادی کی سادگی دیکھیں کہ ایک ذرہ سے پوری شادی کا اہتمام ہوا جبکہ پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم عالم اسلام کے لیڈر تھے، چاہتے تو شاندار طریقے سے بجا لاسکتے مگر امت کی آسانی اور فضولیات سے بچنے کی خاطر جس سادگی کے ساتھ اس مقدس رشتے کو جوڑ دیا گیا اس کی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جاسکتی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل کی شادیاں نہ فقط اسلامی نہیں رہی بلکہ ان شادیوں نے تو سیرت فاطمہ الزہرا کا جنازہ ہی نکال دیا ہے اور سنت سے اجنبی ہو کر رہ گئیں ہیں اور جہاں نت نئی خرافات اور رسومات نے شادی کا اسلامی اور زہرائی چہرہ مسخ کردیا ہے وہیں لایحتاج اور دیکھا دیکھی فضول خرچیوں کی وجہ سے شادی ایک عذاب بن گئی ہے۔ اس طرح بنت رسول صلی الله علیه وآله وسلم کی سیرت کو پائمال کرکے ہم نہ فقط رسول اللہ کی تکلیف کا ذریعہ بن رہے ہیں بلکہ سنت رسول کی کمزوری اور غیر اخلاقی امور کے فروغ کا باعث بھی بن رہے ہیں۔
شادی بیاہ کے سلسلے میں سیرت و سنت سے دور ہونے کی وجہ سے لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے نکاح گھوم رہے ہیں، جسکے نتیجے میں جتنے فسادات اور فحاشیاں جنم لے رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کے پوچ جلوے اور ظاہری رعنائیوں کے انہماک نے اکثر و بیشتر مسلمانوں کو روح اسلام سے ایک قلم دور کردیا ہے جسکے نتیجے میں وہ قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر بھاگے جارہے ہیں، "فَما لِهؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً"ـ اسی ضمن میں حضرت زہرا سلام الله علیها کے ایثار کا ایک نمونہ بھی پیش کروں تاریخ کے مطابق حضرت زہرا نے شادی کی رات سائل کے سوال پر اپنی شادی کا جوڑا جو کہ دلہن کے لئے بہت اہم ہوتا ہے، بخش دیا۔ حضرت زہراسلام الله علیها نے شادی کی رات ہی شادی کا جوڑا سائل کو دیکر اپنے پیرو کاروں کو یہ پیغام دیا کہ شادی کی رات خاص کر محتاجوں اور ضرورتمندوں کا خیال رکھا جائے۔ اگر آج مسلمان اسی شادی بیاہ اور ایثار فاطمہ الزہرا سلام الله علیها کو بطور نمونہ اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش کریں اور سینکڑوں فضول خرچیوں کی بجائے فقیروں اور مسکینوں پر خرچ کرنے کو اپنا شیوہ بنائیں تو اسلامی معاشرے کی تقدیر بدل جائے گی۔ یقینا اس معاشرے میں کوئی فقیر رہے گا نہ کوئی مسکین بلکہ نتیجتا معاشرے سے بہت سارے فسادات اور غیر اخلاقی امور کا خاتمہ ہوگا۔
۲ـ قرآن کی تلاوت:
دنیا کا ہر وہ شخص جو اسلامی طرز زندگی گزارنا چاہتا ہے، قرآن کریم اس کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل ہے، جس کے پرتو میں وہ اسلامی طرز زندگی گزارنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جس کے لئے تلاوت قرآن ضروری ہے، اسی ضرورت کے پیش نظر قرآن كريم ميں غالبا ايک آيت ميں كسي حكم كے متعلق دو بار اشاره نہيں ہوا ہے۔ بلكه ايک آيت ميں ايک ہي حكم بيان ہوا ہے، ليكن جب، تلاوت كا تذكره آتا ہے تو قرآن كريم كا يه انداز بدل جاتا ہے اور ایک ہی آيت ميں دوبار تلاوت قرآن كا مطالبه كرتا ہوا نظر آتا ہے، "فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنَ القُرآن" "فَاقرَؤا ما تَيَسَّرَ مِنه" (مدثر، 20) اس آيت ميں پروردگار نے نصيحت والے انداز ميں قرآن كريم كی قرائت كا مطالبه كركے يه واضح كرديا كه تلاوت اور قرائت قرآن كتنی اهميت كی حامل ہے۔ حضرت زہرا اور قرآن جیسے موضوعات میں اکثر و بیشتر انکے فضائل بیان کئے جاتے ہیں مگر حضرت زہرا کی زندگی میں قرآن کی اہمیت جیسے موضوعات پر بہت کم قلم اٹھایا جاتا ہے۔
یہاں مختصر انداز بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ الزہراسلام الله علیها کی زندگی مجسمہ قرآن تھی، انکی زندگی کا محور قرآن تھا اس قدر حضرت زہرا سلام الله علیها کو قرائت قرآن سے محبت اور عقیدت تھی کہ فرمایا، "حُبّب اِلَیَّ مِنْ دنیاکُم ثلاثُ: تلاوة کتاب الله والنّظر فی وجه رسول الله والانفاق فی سبیل الله" ( بحارالانوار، ج ۷۹ ص ۲۷،) تمہاری دنیا سے تین چیزیں مجھے پسند ہیں، اللہ کی کتاب کی تلاوت کرنا، رسول کے چہرہ انور کی زیارت کرنا اور اللہ کی راہ میں انفاق کرنا۔ شہزادی کونین کو تلاوت قرآن سے اسقدر شغف تھا کہ اپنے آخری آیام میں حضرت امام علی علیہ السلام سے وصیت کرتے ہوئے کثرت سے تلاوت قرآن کرنے کی درخواست کی اور فرمایا، "وَ أَجْلِسْ عِنْدَ رَأسی قِبَالَةَ وَجْهی فَأَکْثَر مِن تَلاوةِ القُرآنِ وَ الدُّعاءِ فَإنَّها سَاعَةٌ یحْتاجُ اْلَمیتُ فیها إلی أُنسِ الأحیاءِ" (محمد دشتی، نہج الحیاہ ج ، صیام ص،۲۹۵) غرض یہ کہ حضرت زہراسلام الله علیها کی زندگی کا کوئی لمحہ بغیر قرآن کے نہیں گزرتا ہے چنانچہ علامہ اقبال نے اس بیش بہا سیرت کو کیا خوب شعر کے انداز میں پیش کیا ہے۔
آن ادب پرودہ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآن سرا
ليكن افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كه اکثر مسلمانوں كے پاس قرآن كيلئے تھوڑا ٹائم نہيں ہے، یه ايک حقيقت ہے كه ہم نے قرآن كے سلسلے ميں بہت كوتاهی كی ہے ہمارے كاندھوں پر قرآنی حوالے سے تمام ذمه دارياں ہيں كيا ہم اپنے آپ میں مطمئن ہيں كه ہم نے قرآني حوالے سے تمام ذمه داريوں كو پورا كرديا ہے۔ كمپيوٹر، انگلش language وغيره سيكھنے ميں هم كئی مہينے صرف كر ديتے ہيں، فضول باتوں ميں كئی گھنٹے ضائع كرديتے ہيں، كيا هم اپنی مقدس كتاب كو سمجھنے كيلئے تھوڑا سا وقت صرف نہيں كرسكتے ہيں؟! هم اپنے بچوں كی مروجه تعليم كا كتنا خيال ركھتے ہيں، كتنا پيسه خرچ كرتے ہيں؟ كيا ہميں اپنے بچوں كی قرآنی تعليم كے حوالے سے اتني فكر هے جتنی انكی دوسری تعليم كے حوالے سے ہے.!؟ كيا ہم اپنے بچوں كی قرآنی تعليم كو اتنی اهميت ديتے ہيں، جتني اهميت انكی دوسري تعليمات كو ديتے ہيں۔
اگر هم سے پوچھا جائے كه تم نے وحي كے بار ے ميں كيا كيا؟ تو كيا جواب ديں گے۔ "و قال الرسول يا ربي ان قومي اتخدوا هذا القرآن مهجورا" کتنا غم انگیز ہے انکی زندگی جو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ناولز وغیرہ تو پڑھ لیتے ہیں مگر قرآن کا ایک صفحہ پڑھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔ کس قدر ماتم کیا جائے انکی فکر پر جو شب قدر تو مناتے ہے مگر وہ مقدس کتاب جس کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت ملی ہے اس سے غافل ہیں.۔ اللہ نے قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ ہماری زندگی انسانیت کے اعلٰی سانچے میں ڈھل جائے مگر ہم اسی مقدس کتاب سے دور ہیں، جو ہمیں مادی اور معنوی مشکلات سے نکلنے کا سیدھا راستہ بتانے والی ہے۔ چنانچہ رہبر انقلاب کا فرمانا ہے کہ عالم اسلام کو درپیش چیلنجز کا علاج قرآن کریم کی تعلیمات کے سامنے تسلیم ہونے میں ہی ہے۔
3. اخلاص:
اخلاص کے لغوی معنی پاک اور صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں، راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ اخلاص سے مراد غیر اللہ سے دل کو پاک کرلینا ہے۔ (راغب اصفہانی، مفردات، ۱۵۵) پس اخلاص کا مطلب کسی بھی نیک عمل میں محض رضائے خداوندی کو مدنظر رکھنا ہے، جو دنیاوی اغراض اور نفسانی خواہشات سے دوری کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔ شہزادی کونین کے لازوال نقوش میں سے ایک عمل اخلاص ہے جو انکے وجود مبارک میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، آپ اخلاص کے اس مقام پر فائز تھیں کہ رسول نے فرمایا، "ان اللہ لیغضب لغضبک۔۔۔۔" یعنی اگر کوئی دیکھنا چاہے کہ اللہ اس سے راضی ہے کہ نہیں تو شہزادی کونین کی طرف دیکھے کہ وہ ان سے راضی ہیں یا نہیں، بی بی کو اللہ تعالی کی رضایت کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا تھا، چنانچہ کسی دن پیغبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا: جبرئیل آپکی حاجت روائی کے لئے حاضر ہے کوئی حاجت ہو تو بیان کریں، پوری ہو گی تو جواب میں فرمایا: "لا حاجَةَ لِی غَیرُ النَّظَرِ اِلی وَجهِهِ الکَرِیمِ؛" (ریاحین الشریعہ، ج۱ ص، ۱۰۵) سوائے جمال الٰہی کے دیدار کے اور کوئی آروز نہیں۔ سبحان اللہ اس درجہ معنویت اور رضایت الٰہی کی طلب کہ رب سے رب ہی کے سوا اور کوئی تقاضا نہیں کرتیں ہیں۔
اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہ الزہرا سلام الله علیها کی اس خصوصیت میں ان لوگوں کے لئے ایک اہم درس ہے جو رب سے سوائے رب کے سب کچھ تقاضا کرتے ہیں۔ حضرت زہرا (س) اخلاص کے اعلٰی مرتبہ پر فائز تھیں، اسی اخلاص کامل و اکمل کے نتیجے میں اللہ نے آپ کو بیشمار فضائل سے نوازا چنانچہ رسول خدا فرماتے ہیں: زہرا کی اخلاص کا نتیجہ تھا کہ وہ اس بلند و بالا مقام پر فائز ہوئیں اور وہ رسول گرامی کی وارثت اور نسل رسول اللہ کو ادامہ دینے والی صفت جو انہیں کمال اخلاص کے نتیجے میں ملے، "لخصلتین خصّها اللّه بهما، إنّها ورثت رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله وسلم، و نسل رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله و سلم منها و لم یخصّها بذلک إلّا بفضل إخلاص عرفه من نیّتها مجلسی،" بحار الانوار، ۴۳/۳۷)
یہ ایک اصل ہے جسے ہم اپنا الگو قرار دے سکتے ہیں اور اپنے تمام فعالیتوں کو کوششوں کا نہائی مقصد اللہ قرار دیں تاکہ ہماری زندگی صبغہ الٰہی اختیار کرے تو اللہ ہمیں بےشمار نعمتوں سے نوازے گا اور دنیا اور آخرت میں سعادت اور کامیابی کا سامان فراہم کرے گا۔ اختصار کی خاطر اسی پر اکتفا کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو شہزادی کونین کی معرفت کے ساتھ انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تحریر: بشیر مقدسی
رہبر معظم انقلاب کا آیت اللہ مصباح یزدی کی وفات پر تعزیتی پیغام
بسم الله الرّحمن الرّحیم
عالم ربانی ،حکیم ،مجاہد اور فقیہ آیت اللہ الحاج شیخ محمد تقی مصباح یزدی کی نہایت ہی افسوس اور الم ناک رحلت کی خبر موصول ہوئی۔یہ سانحہ حوزہ ہائے علمیہ اور علوم اسلامی کے شعبے کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔
مرحوم ایک ممتاز مفکر ، لائق مدیر ہونے کے ساتھ حق گوئی میں نڈر اور صراط مستقیم پر ثابت قدم تھے۔
دینی افکار کو زندہ رکھنے کیلئے حقائق پر مبنی لا تعداد کتابیں تصنیف کرنا، ممتاز و مؤثر طلباء کی تربیت اور جہاں جہاں مرحوم کی ضرورت محسوس ہوئی ان تمام شعبوں میں انقلابی موجودگی ، واقعتاً بے نظیر ہیں۔
تقویٰ اور پارسائی، جوانی سے لے کر زندگی کے آخر تک مرحوم کی نمایاں خصوصیت رہے ہیں اور معرفت توحیدی میں سلوک کی توفیق ،ان کی طویل مدتی جدوجہد کا ایک عظیم الہی ثواب ہے۔
میں خود اپنے اس دیرینہ برادر عزیز کا سوگوار ہوں ، خانوادہ محترم،صالح فرزندوں اور ان کے باقی پسماندگان کے ساتھ اس عظیم استاد کے شاگردوں، عقیدت مندوں اور حوزہ ہائے علمیہ سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے مرحوم و مغفور کی بلندی درجات ،مغفرت اور رحمت الہی کے لئے دعا گو ہوں۔
سیّدعلی خامنهای
عہد حاضر کی کربلا کے سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، تجھے سلام
بہت نایاب ہوتی ہیں ایسی شخصیات کہ جو اپنی زندگی کے ہر پہلو سے اتنی مکمل ہوں کہ انہیں بیان کرنے کیلئے ذخیرہ الفاظ کم پڑ جائے۔ خطاب و مراتب کے سابقے، لاحقے ان کے سامنے پست محسوس ہوں اور ان کی مثال یا نعم البدل ڈھونڈے سے بھی نہ ملے۔ انہی نایاب شخصیات میں سے ایک شخصیت شہید حاج قاسم سلیمانی کی ہے کہ جو ہر پہلو سے اتنی مکمل اور کامیاب ہے کہ عصر حاضر میں ڈھونڈے سے بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ مستقبل سے متعلق یقین کی حد تک کہا جا سکتا ہے کہ ان کا نعم البدل صدیوں میں بھی میسر ہو تو عالم اسلام کیلئے انعام الہیٰ شمار ہوگا جبکہ عہد ماضی میں کھوج کریں تو فقط کربلا والوں میں ایسی شخصیات ملتی ہی کہ سالار زندہ قاسم سلیمانی کو جن کی مثال قرار دیا جا سکے۔
3 جنوری 2020ء عصر حاضر کے شیطانی لشکر (امریکہ) نے اپنے بزدلانہ اور مخفی حملے میں کربلائے وقت کے سپہ سالار حاج قاسم سلیمانی کو بغداد میں شہید کیا۔ جائے شہادت کی ابتدائی تصاویر میں تن سے جدا ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر جو پہلی شخصیت ذہن میں آئی وہ سالار کربلا حضرت عباس علمدار (ع) کی تھی۔ دونوں شخصیات کے میدان جنگ کے حالات اور شہادت کے واقعات میں بھی ربط دکھائی دیتا ہے۔ حضرت عباس علمدار (ع) جس لشکر کے سپہ سالار تھے، وہ لشکر کسی خاص ریاست، ملک یا خطہ زمین سے متعلق نہیں تھا بلکہ اہل اسلام کا وہ نمائندہ قافلہ تھا کہ جو آل رسول (ع) اصحاب رسول پہ مشتمل تھا۔ تاریخ اسے حسینی لشکر کے نام سے یاد رکھتی ہے جبکہ اس لشکر میں مختلف قبائل، اقوام اور خطہ زمین سے تعلق رکھنے والے حسینی موجود تھے۔
کئی عزیز از جاں سپاہی حضرت عباس علمدار کی نظروں کے سامنے بیدردی سے شہید ہوئے مگر اس سپہ سالار کے عزم میں نہ کوئی کمی آئی اور نہ ہی دشمن کی تعداد و ہیبت سے مرعوب ہوئے بلکہ ظاہری طاقت کے اعتبار سے کئی گنا بڑے یزیدی لشکر پہ حضرت عباس کا رعب طاری تھا۔ تاریخ کربلا گواہ ہے کہ شہدائے کربلا کی لاشوں پہ مختلف عزیز و اقارب کے گریہ و نوحے ملتے ہیں، مگر کسی شہید کی لاش پر حضرت عباس کا کوئی گریہ یا نوحہ نہیں ملتا۔ سامنے لاکھوں کے لشکر کو چیر کر فرات کے کنارے پر حسینی پرچم نصب کرکے تمام یزیدی لشکر پر اپنے غلبے کا ثبوت پیش کرنے والے حضرت عباس علمدار (ع) کو جب دشمن نے اپنے بزدلانہ مخفی حملے میں نشانہ بنایا تو سالار کربلا کا جسم اطہر خاک کربلا پہ ٹکڑوں کی صورت بکھرا پڑا تھا۔
سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی بھی ایسے لشکر کے سپہ سالار تھے کہ جو کسی خاص علاقے، قوم، ملک سے متعلق نہیں بلکہ عالم اسلام کی محافظت کی غرض سے ہر میدان میں ہمہ وقت موجود ہے۔ یہ عالم اسلام کا وہ نمائندہ لشکر ہے کہ جو قبلہ اول، بیت المقدس سمیت پورے عالم اسلام کو یہود و نصاریٰ کے پنجہ استبداد سے محفوظ رکھنے کیلئے دنیا بھر میں مصروف جنگ ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا براہ راست شیطان بزرگ امریکہ سے ہے۔ (ایران، عراق، شام)۔ کہیں یہ لشکر عالم اسلام اور اہل اسلام کے سینوں میں خنجر کی مانند پیوست ناجائز اور غیر قانونی قوت اسرائیل سے حزب اللہ کی صورت برسرپیکار ہے۔ کہیں اس لشکر کا سامنا اسلام کے نام پہ امریکہ و اسرائیل ساختہ دہشتگرد تنظیموں (داعش، جبہة النصرہ،جنداللہ وغیرہ) سے اور کہیں یہ لشکر یہود و نصاریٰ کے ہم نوالہ، ہم پیالہ اور نمک خواروں سے اپنی سرزمین کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہے۔ جس طرح اہل یمن 34 ملکی جنگی اتحاد کے جارحانہ دہشتگردانہ زمینی و فضائی حملوں کا سامنا کرنے پہ مجبور ہیں۔
اس سپہ سالار کی جنگی ڈاکٹرائن ملاحظہ فرمائیں کہ ہر میدان میں اس کا پالا اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر سے ہے۔ جو ہتھیاروں، جنگی ساز و سامان، حربی آلات، افرادی قوت اور جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس ہے مگر پھر بھی اس سپہ سالار کی تدابیر سے عاجز ہے۔ شہید قدس، سالار زندہ حاج قاسم سلیمانی گرم جنگی محاذ پر اگلے مورچوں پہ رہ کر اپنے جوانوں کے شانہ بشانہ دشمن کے خلاف لڑتے۔ مشکل سے مشکل محاذ پر ان کی موجودگی فتح کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ اس دوران ان کے عزیز از جان کئی پیارے ساتھی ان کی آنکھوں کے سامنے شہید ہوئے، کئی ساتھیوں نے ان کے ہاتھوں میں جام شہادت نوش کیا، مگر کسی شہادت نے انہیں کبھی مغموم نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک شہادت ایک ایسا رتبہ تھا کہ جو ہر مجاہد کو میسر رتبے سے بھی کئی درجہ اعلٰی و ارفع تھا۔
وہ خود شہادت کے شیدائی تھے، شہداء کا تذکرہ اس شوق و محبوبیت سے کرتے کہ ان کی ایک ایک گفتگو گھنٹوں پہ محیط ہوتی۔ شہید حسین ہمدانی کی یاد میں منعقدہ تقریب سے انہوں نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے شہید ہمدانی کی شخصیت و کردار اور میدان جنگ کے حالات و شہادت پہ گفتگو کی۔ اس گفتگو میں حاج قاسم سلیمانی کہتے ہیں کہ ''شہادت کے دن وہ بہت ہی ہشاش بشاش تھے اور ہنس رہے تھے، بہت زیادہ۔ انہوں نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ آو ہم دونوں ایک ساتھ ایک تصویر بنواتے ہیں، شاید یہ تمہارے ساتھ میری آخری تصویر ہو۔ وہ ایسی طبیعت کے مالک نہیں تھے کہ کسی چیز پر اصرار کریں یا کسی سے اپنی یا کسی اور شخص کی تصویر بنانا چاہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر میرے ذہن میں یہ اشعار آئے''
رقص و جولان بر سر میدان می کنند
وہ میدان میں رقص کرتے ہیں اور جھومتے ہیں
رقص اندر خون خود مردان می کنند
مرد اپنے خون میں رقص کرتے ہیں
چون رہند از دست خود دستی زنند
جب وہ اپنے نفس سے آزاد ہوتے ہیں تو تالیاں بجاتے ہیں
چون جہند از نقص خود رقصی کنند
جب وہ اپنے نقائص سے آزاد ہوتے ہیں تو رقص کرتے ہیں
یہ حالت ایک بہت ہی خوبصورت حالت ہے جو قطرہ سمندر سے متصل ہو جاتا ہے قطرہ نہیں رہتا سمندر بن جاتا ہے، میں نے یہ تالیاں اور رقص اس شہید میں دیکھا ہے، یہ پرواز کی حالت، یہ اشتیاق کی حالت، یہ عروج کی حالت۔'' شہادت کا ایسا والہانہ اصرار سالار زندہ شہید حاج قاسم سلیمانی کی گفتگو کے سوا کہیں نہیں ملتا۔
کئی سو گنا بڑے طاقتور دشمن کے سامنے پوری تمکنت کے ساتھ قیام سالار زندہ قاسم سلیمانی کا خاصہ تھا۔ ان کی حربی تدبیروں کے سامنے یہ طاقتور دشمن کس طرح ڈھیر ہوتے رہے، اس کا اندازہ ان دو تاریخی واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ 33 روزہ جنگ میں اسرائیل دنیا کے جدید ترین ''مرکاوا ٹینکس'' کے ساتھ جنوبی لبنان میں داخل ہوا۔ اسرائیلی افواج کی پیشقدمی اتنی تیز اور جارحانہ تھی کہ دنیا بھر کے جنگی تجزیہ کار لبنان کو نئی صہیونی کالونی قرار دیئے بیٹھے تھے، مگر یک لخت قاسم سلیمانی حکمت عملی نے پانسہ پلٹ دیا۔ وہی مرکاوا ٹینکس کہ جو اپنے عملے کو ایٹمی اثرات سے بھی محفوظ رکھنے کی استعداد رکھتا ہے، لبنان کے صحراؤں میں مٹی کے ڈھیر بن گئے۔ داعش جنونی وحشی دہشتگردانہ قوت کے طور پر یک لخت ابھری اور برق رفتاری سے سرحدی حد بندیوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی۔ آگے کیوں نہ بڑھتی شیطان بزرگ امریکہ اور ناجائز صہیونی قوت اسرائیل کی فضائی، خلائی اور تکنیکی مدد اسے حاصل تھی۔
عرب دنیا بالخصوص سعودی عرب، عرب امارات ،بحرین وغیرہ کی مالی مدد حاصل تھی۔ دنیا بھر سے دہشتگردانہ، جنگجوانہ افرادی کمک یہاں تک یورپ، عرب، ایشیا، افریقہ سمیت پوری دنیا سے یہاں پہنچائی گئی، یہاں تک کہ اس مقصد کیلئے کئی ممالک بالخصوص پاکستان ، افغانستان میں جیلیں توڑ کر دہشتگردوں کو نکال کے عراق و شام میں پہنچایا گیا۔ عالمی میڈیا تجزیے پیش کر رہا تھا کہ کتنے عرصے میں حرمین شریفین داعش کے زیرانتظام ہوں گے۔ صدر بشارد الاسد نے شام سے فرار ہونے کیلئے اپنا ذاتی طیارہ منگوا لیا ہے۔ بغداد آج کل میں داعش کے سامنے سرنگوں ہونے والا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان حالات میں قاسم سلیمانی ڈاکٹرائن وارد ہوتی ہے اور اسلامی دنیا پہ قبضے کا شرانگیز خواب دیکھنے والی داعش عراق و شام میں قصہ پارینہ بن کر رہ جاتی ہے۔
سالار زندہ، سرباز، شہید قدس، حاج قاسم سلیمانی کس حد تک اسلامی دنیا کے دفاع و تحفظ کیلئے اہمیت، حیثیت اور افادیت رکھتے تھے۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ان کی شہادت کے پہلے ہی برس میں اہم اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ ایک ڈاکومنٹری میں داعش کے خلاف لڑنے والے رضاکارانہ فورس کے ایک کمانڈر سوال کے جواب میں بتاتے ہیں کہ ہم اپنے سب سے کمزور مورچوں پہ یہ خبر پھیلا دیتے تھے کہ جنرل قاسم سلیمانی آرہے ہیں، بس اس کے بعد ہمارے جوانوں میں کوئی خاص روحانی طاقت آجاتی جبکہ یہی خبر دشمن پہ موت بن کر گرتی تھی۔ وہ دنیا کے ہر خطہ میں شیطان بزرگ اور اس کے مذموم عزائم کے خلاف اپنا ناقابل شکست لشکر ترتیب دینے کا ہنر جانتے تھے۔
مقاومت سے ان کی وابستگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح کربلاء والوں سے متمسک اہل ایمان اپنے گھروں پہ علم عباس علمدار لہراتے ہیں۔ اسی طرح سرخ اسلام سے پیوستہ ہر فرد، مقاومتی گروہ، لشکر سالار زندہ ، سرباز شہید قدس حاج قاسم سلیمانی سے فکری، روحانی اور حربی وابستگی کو لازمی جانتا ہے۔ اپنی ایک گفتگو میں سالار زندہ قاسم سلیمانی فرماتے ہیں کہ ''اپنی شخصیات کو کھو دینے کے بعد ہمیں ان کی قدر و منزلت اور ان کے اعلٰی مقام ہونے کا احساس ہوتا ہے، شہید ہمدانی، شہید خرازی، شہید کاظمی، حسن باکری جو کہ ہماری جنگ کا بہشتی تھا، علی ہاشمی وغیرہ جیسے افراد ہر پانچ سو سال میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں۔'' ہم عہد حاضر کی کربلاء کے اس سپہ سالار، شہید قدس، سالار زندہ، حاج قاسم سلیمانی، ان کے رفقا اور ان کے وہ ساتھی کہ جو کربلائے حاضر میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے کو سلام پیش کرتے ہیں۔
جنرل سلیمانی کے بعد خطہ کا مستقبل
گذشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی حالات میں بڑی تیزی کیساتھ تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے اپنے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ایک دوسرے کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے بالادستی اور تسلط کی روش اختیار کی۔ عراق اور افغانستان پر قبضہ کے باوجود مزاحمتی گروہوں کی جانب سے شکست کے بعد امریکہ کے پاس خطہ سے نکلنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، خطہ میں اپنی موجودگی کو قائم رکھنے کی خاطر امریکہ نے داعش کے ذریعے عراق اور شام پر حملہ کروایا، جس میں سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کی مدد شامل تھی، جبکہ دوسری طرف صیہونی ریاست ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرحدوں کو توسیع دینے کی خاطر اس منصوبہ میں شامل رہی۔
دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر داعش کو بظاہر امریکہ بھی خطرہ قرار دے رہا تھا اور سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے اس دہشتگرد تنظیم کے خاتمے کیلئے اربوں ڈالرز اور 25 سال کے عرصہ کا تخمینہ لگایا۔ یہاں امریکہ ایک مرتبہ پھر اتحادی ممالک کے ہمراہ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیل رہا تھا۔ اس تمام تر صورتحال میں ایران اور اس کی اتحادی مقاومتی قوتوں نے حالات کی نزاکت، دشمن کی خطرناک منصوبہ بندی اور خطہ پر تسلط کے مزموم ارادوں کو بھانپتے ہوئے بروقت میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور شام و عراق میں کئی ممالک سے جمع کئے گئے دہشتگردوں (داعش) کا راستہ روکنے کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی ترتیب دی گئی۔ اس تمام تر جنگی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی باگ دوڑ اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی ذیلی بریگیڈ سپاہ قدس کے کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کے ہاتھ میں تھی۔
جب کوئی بیرونی حملہ آور آپ کے گھر یا شہر پر حملہ آور ہو تو آپ کو اپنے دفاع کا بھرپور حق حاصل ہے کہ آپ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہر قسم کی دفاعی حکمت عملی اپنائیں اور یہی کام مقاومتی بلاک نے کیا۔ داعش کے اس فتنہ میں چین اور روس بھی امریکی رویہ سے نالاں تھے۔ اس سارے کھیل میں امریکہ کا مقصد طاقت کے توازن کا ایشیاء میں شفٹ سے روکنا، خطہ میں اپنے کمزور ہوتے اتحادیوں کو قدرت مند بنانا، چین، روس اور ایران کو کنٹرول کرنا، گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا اور مسلمانوں کا قتل عام تھا۔ تاہم جنرل قاسم سلیمانی نے خطہ کے مختلف ممالک کے دورہ جات کئے اور وہاں مسلح گروہوں کو داعش اور جارح طاقتوں کو کیخلاف منظم کیا۔ شہید سلیمانی وہ واحد سپاہ سالار تھے، جو اگلے مورچوں پر خود لڑنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی کی جنگی حکمت عملی کا مقصد خطہ سے بیرونی طاقتوں کا انخلا، دہشتگردی کا خاتمہ اور بلاتفریق مسلک و مذہب بے گناہ انسانی جانوں کا تحفظ تھا، جس میں گزرتے وقت کیساتھ ساتھ وہ کامیابی سے آگے بڑھتے رہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جو منصوبہ امریکہ جیسے عیار دشمن نے انتہائی خطیر بجٹ، جدید اسلحہ، افرادی قوت اور کئی اتحادی ممالک کے مکمل تعاون کیساتھ ترتیب دیا تھا، اسے اتنے کم عرصہ میں خاک میں ملا دیا جائے گا۔ یہ سب کچھ عالم اسلام کے اس شجاع، بہادر، بابصیرت، متقی، سمجھدار، ہوشیار کمانڈر حاج جنرل قاسم سلیمانی کیوجہ سے ہی ممکن ہوا۔ جو کامیابیاں قاسم سلیمانی دشمن کیخلاف حاصل کرچکے تھے، ان کو دیکھا جائے تو ایسے انمول ہیروں کو دشمن جلد اپنے راستے سے ہٹا دیتے ہیں، لیکن خدا نے ایسے مجاہدوں سے جس طرح اور جب تک کام لینا ہو، وہ لیتا ہے۔
امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو متعدد مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی، تاہم ناکام رہا۔ آخر کار گذشتہ سال 3 جنوری کی علی الصبح جنرل قاسم سلیمانی کو ان کے قریبی ساتھی ابو مہدی المہندس اور دیگر رفقاء کے ہمراہ بغداد ائیرپورٹ پر ایک بزدلانہ حملہ میں شہید کر دیا گیا۔ اب یہاں موضوع بحث یہ ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد اس خطہ کا کیا مستقبل ہوگا۔؟ یہاں اگر یوں کہا جائے کہ جنرل قاسم سلیمانی اپنے کام سے زیادہ کر گئے تو غلط نہ ہوگا، عراق کی بات کی جائے تو وہاں حشد الشعبی، کتائب حزب اللہ جیسی دیگر مزاحمتی گروہوں اور تنظیموں کو اس حد تک مضبوط کر دیا گیا ہے کہ وہ آج امریکہ کو دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ عراق سیاسی لحاظ سے بھی ماضی کے مقابلہ میں بہت منظم ہوچکا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ اسرائیل سمیت خطہ کی نادیدہ قوتوں کیخلاف کسی موت کے پیغام سے کم نہیں۔
یمن پر حملہ آور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کیلئے وہاں موجود حوثی قبائل اور انصار اللہ درد سر بنے ہوئے ہیں، درحقیقت آل سعود کو وہاں شکست ہوچکی ہے، جس کا صرف اعلان ہونا باقی ہے۔ شام کی بات کی جائے وہاں بشار الاسد کی حکومت اور فوج آج ایک مستحکم پوزیشن میں ہے، افغانستان میں طالبان اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کو بیدخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ طاقت کا توازن چین کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اسی طرح مقاومتی بلاک کے بانی اسلامی جمہوریہ ایران کو گو کہ جنرل سلیمانی اور محسن فخری زادے جیسے سپوتوں سے محروم ہونا پڑا، مگر عالمی امن کی خاطر ایران کی یہ انمول قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔ جنرل قاسم سلیمانی نے شہادت کے باوجود خطہ کا مستقبل پرامن بنا دیا ہے، تاہم ان کے جانشین جنرل اسماعیل قآنی، ایرانی حکومت، مقاومتی و مزاحمتی تنظیموں کے کندھوں پر اب بھی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای کی قیادت میں مظلومین جہاں کی آواز بنتے ہوئے استعماری و استکباری طاقتوں کے عزائم ہمیشہ کیلئے خاک میں ملانے کیلئے ’’سلیمانی سفر‘‘ کو جاری رکھیں۔
شیخ صفیالدین: حاج قاسم کے مکتب کا تکرار مشکل ہے
شیخ صفیالدین نے لبنان کے ریڈیو النور سے بیان میں کہا: شخصیت، ثقافت، تربیت اور ان جیسا روش اسلام ناب محمدی(ص) اور مکتب امام خمینی(ره) کا اعلی نمونہ تھا اور سلیمانی جب شہدا کے بارے میں بات کرتے تو انکے آنسو نکل جاتے۔
حزبالله لبنان کے سپریم کونسل کے رکن نے حاجی قاسم کو مالک اشتر کی ولایت سے عشق سے متاثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مکتب سازی جیسا کردار کا دوبارہ ملنا مشکل ہے۔
انکا کہنا تھا کہ وہ علم و عمل کے تمام میدان میں بے نظیر کمانڈر تھے اور جب تمام میدان میں امریکہ ان سے شکست کھانے پر مجبور ہوا تو انکو راستے سے ہٹا دیا۔
شیخ صفیالدین نے کہا کہ اسرائیل بھی حزبالله سے شکست کے بعد حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔
انکا کہنا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات کو نارملایزیشن کا عمل قرار دیا جاتا ہے تاہم لبنان اس فضاء سے دور ہے۔
صفیالدین نے کہا کہ ساحل کی تقسیم بندی کی سازش کا اصل مقصد حزبالله کو نشانہ بنانا ہے اور اس پر عمل ممکن نہیں
حوزہ علمیہ قم کےممتاز عالم دین آیت اللہ مصباح یزدی کا انتقال ہوگیا
اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز عالم دین اورحضرت امام خمینی (رہ) تعلیمی اور تحقیقی سینٹر کے سربراہ، خبرگان کونسل میں صوبہ خراسان رضوی سے عوام کے نمائندے اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے رکن آیت اللہ مصباح یزدی کا انتقال ہوگیا ہے۔ آیت اللہ مصباح یزدی نے اسلامی علوم اور معارف کے سلسلے میں متعدد آثار یادگار کے طور پر چھوڑے ہیں۔ جن میں تفسیر، فلسفہ اسلامی ، قرآنی اخلاق اور اسلام کا سیاسی نظریہ شامل ہیں۔ مرحوم آیت اللہ مصباح یزدی طویل عرصہ سے بیمار تھے انھیں چند روز قبل تہران کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں آج کچھ عرصہ قبل ان کا انتقال ہوگيا ہے۔ اللہ تعالی مرحوم پر اپنی رحمت واسعہ نازل فرمائے۔
شہید جنرل سلیمانی و ابو مہدی المہندس کی پہلی برسی شام، البوکمال میں شہید کمانڈرز کی پہلی برسی کی عالیشان تقریب منعقد
عراق میں ایک سفارتی مشن کے دوران امریکی دہشتگردانہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے ایرانی سپاہ قدس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، ان کے میزبان حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس اور رفقاء کی پہلی برسی کے حوالے سے عراقی سرحد کے قریب واقع شامی قبائلی علاقے "البوکمال" میں ایک عالیشان تقریب منعقد کی گئی، جس میں قبائلی عمائدین سمیت عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ عرب نیوز چینل المیادین کے مطابق دمشق میں ایرانی سفیر جواد ترک آبادی نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور رفقاء کی ٹارگٹ کلنگ کی بزدلانہ کارروائی ہرگز بے جواب نہیں رہے گی۔ انہوں نے شام کو "مزاحمتی محاذ" کی "فرنٹ لائن" قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ دشمن، دہشتگردوں کے ذریعے شام پر مسلط کردہ اپنی پراکسی وار میں کوئی ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ انہوں نے عالمی حمایت یافتہ دہشتگردی کے خلاف شامی جدوجہد کو سراہا اور کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی خود بہ نفس نفیس ہر محاذ جنگ کے اگلے مورچوں پر حاضر رہے، تاکہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ دہشتگردی کو شکست دینے پر مبنی عوام کو دیئے گئے اپنے وعدے پر پوری طرح کاربند ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شامی قبائلی کونسلز "الفرات" اور "الجزیرہ" کے سربراہ عبدالکریم الدندل نے تاکید کی کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی ٹارگٹ کلنگ مزاحمتی جذبے کو کسی طور کم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ آج عراق، شام، یمن اور لبنان میں مزاحمتی محاذ کی فتح کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔ واضح رہے کہ شہید کمانڈرز کی پہلی برسی کے موقع پر البوکمال کے شہریوں نے اپنے گھروں کو شہید جنرل قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی قدآدم تصاویر کے ساتھ سجا رکھا تھا۔
مکتب مقاومت اور شہید قاسم سلیمانی
جب سفاکیت اپنی انتہائوں کو چھو رہی تھی، دہشت اور وحشت نے بے قصور اور نہتے عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا، جب خون کی ہولیاں کھیلی جا رہی تھیں، جب درندگی شام و عراق میں اپنے جوبن پر تھی، جب انبیاء کی سرزمین کو مقتل میں بدل دیا گیا تھا، جب مقدس مقامات کو بارود کے ڈھیر سے مٹی میں بدلا جا رہا تھا، جب اصحاب رسول و آئمہ کی قبور کو نبش کیا جا رہا تھا، جب اسلامی تاریخ کے ان مٹ نقوش اور آثار قدیمہ کو لوٹا جا رہا تھا، جب عالمی دہشت گرد گروہ نے نیا روپ دھار کر نئے نام کیساتھ اپنے نجس وجود کو بے گناہوں پر مسلط کرنے کیلئے عالمی استعمار، دشمن اسلام و مسلمین امریکہ و اسرائیل نے انہیں کھلا چھوڑ دیا تھا، جب اسلام کے نام پر نام نہاد فتح کئے گئے اسلامی ممالک کی سرزمینوں سے کم سن نو نو سالہ بچیوں کو مال غنیمت سمجھ کر لونڈیاں بنا کر بازاروں میں بیچنے کا کاروبار زور پکڑ چکا تھا، جب گردنیں کاٹنے، انسانوں کو زندہ جلانے، بے گناہوں کو پنجروں میں بند کرکے پانی میں ڈبونے، انسانوں کو بارود کے ہار پہنا کر ان کے چیتھڑے اڑانے اور بلڈوزروں کے ذریعے معصوم انسانوں کو بلا تمیز قیمہ بنانے کا دھندہ عروج پہ تھا۔
ایسے میں سرزمین فارس سے ایک شخص اٹھا، جس نے یہ سب برداشت نہیں کیا، جس نے حمیت و غیرت کا ایسا مطاہرہ کیا کہ رہتی دنیا تک اس کو یاد رکھا جائے گا۔ جس نے ان سفاک، ظالم، دشمنان اسلام، امریکی و صیہونی ایجنٹوں کو لگام ڈالنے کا عہد کیا، جس نے ان جانوروں کو انسانوں سے جدا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جس نے یہ سب دیکھ کر اپنے اوپر آرام کو حرام قرار دیا۔ جس نے مظلوموں کی چیخ و پکار اور بے کسوں کے نالہ و فریاد پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کا عہد کیا، جس نے یتیموں، بے آسرائوں اور ستم رسیدہ معصوم بچوں، بزرگوں، خواتین و حضرات کو ان جانوروں سے آزادی دلوانے کیلئے کمر ہمت باندھی، جس نے خداداد صلاحیت سے اپنے تن، من دھن اور ذہن و فکر سے اپنا پورا زور اور طاقت و قوت سے سب کچھ دائو پر لگایا، میدان میں اترے اور ایسا اترے کہ اپنے پسند کردہ میدان میں ہی زندگی کا آخری معرکہ بھی لڑتے ہوئے اسے ہی مقتل بنایا۔
وہ جس نے جراءت، شجاعت، دلیری، بہادری، ایثار، قربانی، احساس، درد، عمل، جہاد کے ایسے نمونے پیش کئے کہ جن لوگوں نے کربلا کو نہیں پڑھا، جن لوگوں نے میدان کربلا میں نواسہء رسول اور ان کے جانثار انصاران کے قصے تاریخ کے سنہرے اوراق پر نہیں پڑھے یا علماء کی زبانی نہیں سنے، جن کی آنکھوں میں کربلا کے بے مثال شجاعت و بہادری کے واقعات نہیں سموئے ہوئے یا جن لوگوں نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کے باوفا، دلیر و شجاع کمانڈر انچیف مالک اشتر کے منافقین و خوارجین، دشمنان اسلام و اہلبیت کی جنگی حکمتوں سے آشنائی نہیں، انہیں اس دور میں چودہ صدیاں پیشتر کے شجاعانہ و دلیرانہ قصے یاد آگئے۔ یہ بات میں اپنے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مولا امام علی و امام حسن علیھم السلام کو حاج قاسم سلیمانی جیسے شجاع و باوفا ساتھی مل جاتے تو بنو امیہ کے پروردہ اسلام کو ابتدا میں ہی کبھی بھی اتنا نقصان نہ پہنچا سکتے۔
آج کی دنیا میں ایک انسان اتنے ممالک اور اس کے لائو لشکر، اسلحہ و طاقت کے سامنے ایسے پل باندھ سکتا ہے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ اگر شام و عراق میں لائی گئی، دنیا بھر کی بھرتی کی ہوئی، نام نہاد مجاہدین کی فوج جسے داعش کے نام سے پہچانا گیا ہے، جو جبھة النصرہ اور کئی ایک دیگر ناموں سے سرگرم عمل ہوئی، جس میں اسی سے زائد ممالک کے بھرتی کردہ دہشت گرد شامل تھے، ان کا راستہ روکنا، اسلامی و تاریخی مقدسات اور ان پاک سرزمینوں کا دفاع اور ان کے ہاتھ میں جا چکی زمینوں کو واپس لینا اتنی بڑی انویسٹمنٹ کرنے والوں کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوگا، ان کے خوابوں کو کیسے چکنا چور کیا گیا، یہ تو حاج قاسم سلیمانی کیساتھ اپنی جانوں پر کھیلنے والے ہی جانتے ہیں، ہم نے تو انہیں ایک دیو مالائی کردار اور لافانی ایثار گر کے طور پہ ویڈیوز میں دیکھا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم ان کے ہم زمان ہوئے ہیں اور اس پر جتنا بھی افتخار اور فخر کیا جائے کم ہے، ہم نے ان کے بارے میں اس دور کی سب سے معزز و صادق و امین رہبریت و قیادت کی زبانی سنا ہے، ہم نے ان کی المناک شہادت پر ولی امر المسلمین سید علی خامنہ ای کو گریہ کناں دیکھا ہے۔
سید مقاومت سید حسن نصر اللہ کو غم و اندوہ اور غیض و غضب میں دیکھا ہے، جنہوں نے برملا اس کا بدلہ لینے کا اعلان فرمایا۔ ہم نے تو شہید جنرل قاسم سلیمانی کی دختر زینب سلیمانی کو استعمار جہاں اور عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کے حواریوں کو للکارتے اور گرجتے دیکھا ہے۔ ہم نے یہ منظر دیکھا ہے کہ اہل عراق جن سے قاسم سلیمانی نے آٹھ سال تک جنگ تحمیلی (صدام کی مسلط کردہ جنگ) میں حصہ لیا تھا اور پھر ایک موقعہ ایسا آیا کہ اسی عراق کے دفاع کیلئے انہوں نے سر پہ کفن باندھ لیا اور پھر اسی قاسم سلیمانی کیلئے اہل عراق کو امریکی سفارت خانہ کی عمارت پہ نعرے لکھتے اور اس کے شعار بلند کرتے، اس کی تصویروں کو اٹھائے امام خمینی کے نعرے لگاتے دیکھا ہے۔ عراق کو امریکہ، آل سعود، اس کے گماشتوں اور داخلی دشمنوں سے بچانے کیلئے جنرل قاسم سلیمانی کی جدوجہد ایسی مثال ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ وہ ایران کا قیمتی ترین فرد تھا، مگر عراق پر قربان ہوگیا، کیا عجب ہے یہ کردار۔ آج کے ایک انسان میں اتنی خوبیاں اور اتنی کشش ہوسکتی ہے، یہ شائد ہی کسی اور پر صادق آئے، جتنی خوبیاں اور کشش جنرل قاسم سلیمانی میں بہ یک وقت دیکھی جا سکتی تھی۔
ایک ہی وقت میں وہ باکمال جرنیل، جس کی حکمت عملی دشمنوں کو چند ساعتوں میں پچھاڑ دے، جو اگر خود میدان میں اتر آئے تو دشمن اپنا اسلحہ و ٹینک چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھے، جو مجاہدین کے درمیاں ہو تو کسی کو احساس نہ ہو کہ اس کیساتھ کاندھا ملا کر لڑنے والا ایک نابغہ، ایک لازوال کردار ہے، جو نماز ادا کرے تو ایسے جیسے خدا کے ساتھ محو راز و نیاز ہو اور ہتھیار اٹھائے تو اس کی للکار سے مایوسیاں فتح میں تبدیل ہو جائیں۔ جو خاک کو اوڑھنا بچھونا بنا لے اور نرم و گداز بستر کو اپنے لئے حرام قرار دے، جسے کلید کامیابی سمجھا جائے، جسے حل المشکلات سمجھا جائے، جو مایوسیوں میں امید کی آخری کرن ہو، جو روشن اور چمکتے ستارے کی مانند ہو، جو دشمنوں کیلئے شدید ترین اور اپنوں کیلئے نہایت ہی رحم دل ہو۔ جس کا عمل اس کے کردار اور افکار کی گواہی دے رہا ہو، جس میں کسی بھی قسم کی ریا، دکھاوا، نمود و نمائش یا ستائش کی تمنا نہ ہو، بلکہ اس کا مطمع و مقصد مظلوم، محکوم، ستم رسیدہ اور انسانوں کے بنائے جال اور دنیا کے نام نہاد خدائوں، فرعونوں و نمرودوں کی زنجیروں سے آزادی دلوانا ہو۔
جنرل قاسم سلیمانی ایک ایسا ہی کردار تھے، وہ ایک ایسے ہی نگینہ تھے، جنہوں نے خود کو ولایت کی انگوٹھی میں جڑ لیا تھا اور ولی امر امسلمین کی آرزوئوں اور تمنائوں کی تکمیل کیلئے خود کو وقف کر لیا تھا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ولی امر المسلمین کی ڈھارس و امید کا نام قاسم سلیمانی ہی تھا۔ شہید قاسم سلیمانی اور ان کے باوفا ساتھی، جنہوں نے ان کیساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بالاخص ابو مہدی المہندس نے اپنے لازوال اور لافانی کردار سے ایک مکتب کو زندگی بخشی ہے۔ یہ مکتب، مکتب مقاومت ہے، یہ مکتب مکتب حریت ہے، یہ مکتب مکتب استقلال ہے، یہ مکتب مکتب ایثار ہے، یہ مکتب مکتب آزادی ہے، یہ مکتب مکتب شجاعت ہے، یہ مکتب مکتب شہادت ہے۔ عراق و ایران میں ان کی نماز جنازہ کے اجتماعات اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بلا تفریق کروڑوں لوگوں، جوانوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا باہر نکلنا ان کی جرات مندانہ شہادت اور ان کے قاتل دشمن کیلئے موت کے پیغام سے کم نہ تھا، جس نے اس کے ارادوں پہ اوس ڈال دی تھی۔
شہید قاسم سلیمانی، عقل و ذہانت کا سمندر
1)۔ "ولایت کی پیروی" ایک ایسی اصطلاح ہے جو انقلابی طبقے میں جانی پہچانی ہے اور یہ اصطلاح کسی انسان میں ایک واضح خصوصیت بیان کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا معنی بھی انتہائی وسیع ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خصوصیت کسی فرد یا گروہ کی شخصیت جانچنے کیلئے ایک اہم معیار بھی ہے۔ لیکن اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ ولایت کی پیروی ایک ذاتی خصوصیت ہے جو دنیا اور آخرت میں اس کے حامل شخص کی نجات کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ کسی شخص میں اس خصوصیت کا فقدان دنیا میں اس کی گمراہی اور آخرت میں نقصان کا باعث بنتا ہے۔ البتہ یہ خصوصیت سماجی سطح پر اثرات کی بھی حامل ہے جن میں سے ایک ولایت کے سائے تلے معاشرے کی وحدت اور اتحاد ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں معاشرے میں بڑی تعداد ولایت کے پیروکاروں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد ہمارے معاشرے میں کروڑوں تک ہے لیکن ایک مذہبی معاشرے کیلئے یہ تعداد کافی نہیں ہے۔ ولایت کو ایک زیادہ مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جسے "ولایت افزائی" کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ولایت افزائی کا مطلب یہ ہے کہ ولایت کا پیروکار ایسا طرز عمل اپنائے جس کے نتیجے میں معاشرے کے دیگر افراد کیلئے ولایت کا راستہ روشن اور واضح ہو جائے۔
اسی بنیاد پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام علی علیہ السلام کے زمانے میں کفار، مشرکین، منافقین اور کرپٹ افراد بعض مخصوص افراد کو زیادہ نشانہ بناتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کو سیاست کے میدان سے نکال باہر کرنے کیلئے ان افراد کا خاتمہ ضروری ہے۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام بھی ان افراد کے بارے میں پریشان رہتے تھے اور جب وہ شہید ہوتے تو شدید غمگین اور دکھی ہو جاتے تھے۔ ایسے افراد کی ایک مثال سید الشہداء حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور جعفر ابن ابیطالب تھے۔ دوسری مثال امام علی علیہ السلام کے زمانے میں عمار یاسر اور مالک اشتر جیسی شخصیات کے روپ میں نظر آتی ہے۔ جعفر طیار، حمزہ ابن عبدالطلب، مالک اشتر اور عمار یاسر کا کردار کیا تھا؟ ان کا کردار ولایت افزائی پر مشتمل تھا۔ یعنی ان کے اندر ایسا ہنر اور کمالات پائے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہ حساس مواقع پر پیغمبر اکرم ص اور امام علی علیہ السلام کا سہارا بن جاتے اور اسلامی حکومت کو آگے بڑھانے میں ان کی خاص مدد کرتے تھے۔ ایسی مدد جو ان کے علاوہ کوئی اور کرنے پر قادر نہیں ہوتا تھا۔
2)۔ شہید قاسم سلیمانی انقلاب اسلامی کے بعد تمام عرصہ خاص طور پر قدس فورس کی سربراہی پر مشتمل 23 برس میں ایسے ہی تھے۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران جب بہت سی قوتوں نے ولایت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور بعض شخصیات نے اپنا دامن صاف رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کر رکھی تھی جبکہ بعض صرف اپنا دین بچانے کی حد تک ولایت کی حمایت کا اظہار کر رہے تھے، شہید قاسم سلیمانی نے وہی کردار ادا کیا جو پیغمبر اکرم ص کیلئے حضرت حمزہ ابن عبدالمطلب اور حضرت جعفر طیار نے ادا کیا تھا اور امام علی علیہ السلام کیلئے حضرت عمار یاسر اور حضرت مالک اشتر نے نبھایا تھا۔ انہوں نے تمام خطرے مول لیتے ہوئے ولایت کا راستہ ہموار کرنے کیلئے اپنے پورے وجود کی توانائیاں صرف کر دیں اور اسلامی انقلاب کی راہ میں موجود رکاوٹیں دور کیں۔ تقریبا پانچ چھ سال پہلے جب ان سے یہ کہا گیا کہ: "آج آپ اور قدس فورس انقلاب اور ولایت کا راستہ درست ہونے کی حجت بن چکے ہیں اور اگر آپ اور قدس فورس کی کامیابیاں نہ ہوتیں تو نظام اتنی آسانی سے عدم افادیت پر مبنی لگائی جانے والی تہمت سے نجات حاصل نہ کر سکتا۔ لہذا اگرچہ آپ ملک سے باہر سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں لیکن آپ کی سرگرمیوں کے اثرات ملک کے اندر انقلاب اور رہبر معظم انقلاب کے سامنے راستہ ہموار ہونے کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔" تو وہ یہ بات سن کر سر نیچے جھکا لیتے کیونکہ اپنی اور اپنے کاموں کی تعریف سننا پسند نہیں کرتے تھے۔
3)۔ گذشتہ ایک عشرے کے دوران خطے میں بہت سی تبدیلیاں اور واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مختلف قسم کی قوتیں کارفرما رہی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم میدان عراق کا تھا۔ عراق میں ایک ڈکٹیٹر حکومت برسراقتدار تھی جو 15 برس تک (1975ء سے 1990ء تک) جنگ کرتی رہی اور تیس سال تک ایران اور اہل تشیع سے دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔ اس حکومت کی سرنگونی کے بعد ان عراقی جماعتوں، گروہوں اور حلقوں کو آزادی فراہم ہوئی جو ایک طویل عرصے سے شدید گھٹے ہوئے ماحول میں تھے یا جیلوں میں قید تھے یا جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ان میں سے ہر جماعت، گروہ یا طبقہ اپنے اپنے سیاسی، قومی یا خاندانی تعصب کی بنیاد پر ایک علیحدہ راستے پر گامزن تھا۔ ان گروہوں میں انتہائی شدید اختلافات موجود تھے اور ایکدوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔ اس کی ایک مثال صدام حسین کی سرنگونی کے فوراً بعد رونما ہونے والا وہ واقعہ ہے جس میں نجف کے معروف شیعہ مرجع تقلید سید عبدالمجید خوئی کے بیٹے کو قتل کر کے اس کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور انہیں نجف شہر کے چاروں کونوں میں لٹکا دیا گیا۔
واضح ہے کہ ایسا ماحول کس قدر وحشت ناک تھا جس کے نتیجے میں نجف کے شیعہ مراجع تقلید شدید خوفزدہ ہو گئے اور اجتماعی امور میں مداخلت سے پرہیز کرنے لگے۔ دوسری طرف اس شدید بحرانی صورتحال میں سب کی نظریں مراجع تقلید پر لگی تھیں اور وہ مراجع تقلید کی جانب سے موثر قدم اٹھانے کی توقع کر رہے تھے۔ مراجع تقلید یہ کہہ کر ان مسائل میں مداخلت کرنے سے باز رہتے تھے کہ شدت پسندی میں مصروف عناصر ہماری اطاعت کرنے پر تیار نہیں ہیں اور ان کے بعض سربراہان جو بظاہر عالم دین بھی ہیں لیکن مراجع تقلید کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ دوسری طرف صدام حسین سے وابستہ بعث پارٹی کے عناصر سابق عراقی جنرل عزت ابراہیم الدوری اور ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں منظم ہو چکے تھے اور ملک میں جگہ جگہ دہشت گردانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف تھے۔ اس مبہم اور تاریک فضا میں امریکی حکام دونوں طرف موجود انارکی اور بدنظمی کو بہانہ بنا کر عراق پر ایک امریکی جرنیل پال بریمر کی سربراہی میں مکمل فوجی حکومت لاگو کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اس موقع پر ولی امر مسلمین امام خامنہ ای مدظلہ العالی کی ہدایات یہ تھیں کہ ایک تو امریکی حکمرانوں کو عراق میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے کیونکہ عراق پر امریکیوں کا فوجی قبضہ نہ تو عراق کے فائدے میں ہے اور نہ ہی اس میں خطے کے ممالک کا فائدہ ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اہداف سے بھی ٹکراو رکھتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عراق میں عوام کی جانب سے منتخب شدہ جمہوری حکومت برسراقتدار ہونی چاہئے۔ یہ دو اسٹریٹجک اہداف تھے جن کے حصول کیلئے روڈمیپ تشکیل دیا گیا اور اس روڈمیپ کے تحت ایک طرف آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے اپنا کردار ادا کیا اور دوسری طرف عراق میں سرگرم مختلف موثر گروہوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا۔ ہم اس وقت کی شدید بحرانی صورتحال، مراجع تقلید کی جانب سے سیاسی امور میں مداخلت کرنے سے متعلق شدید اور حق بجانب تحفظات اور رہبر معظم انقلاب کی جانب سے انتہائی اسٹریٹجک ہدایات کی روشنی میں اس حقیقت کو درک کر سکتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کے کاندھوں پر کتنی بھاری ذمہ داری عائد کر دی گئی تھی اور کیسے انہیں "ناممکنات" کے میدان میں موجود گرہوں کو ایک ایک کر کے کھولنا تھا اور انہیں ممکنات میں تبدیل کرنا تھا۔
عراق کے مسئلے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دشمن اپنی پوری طاقت سے میدان میں اتر چکا تھا۔ امریکہ نے عراق میں تین لاکھ فوجی بھیجے تھے جبکہ امریکی حکمرانوں کے اپنے بقول کھربوں ڈالر اخراجات کئے گئے تھے اور ہزاروں ٹن جنگی سازوسامان عراق میں لایا گیا تھا۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف قسم کی حمایتیں حاصل کی گئی تھیں۔ اسی طرح نائن الیون کا ڈرامہ رچا کر دنیا بھر میں ایک رعب اور وحشت پر مبنی ماحول فراہم کیا گیا تھا۔ یوں نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے اندر بلکہ پوری دنیا میں امریکی مسلح افواج کے اہداف اور اقدامات کے حق میں رائے عامہ ہموار کی گئی تھی۔ دشمن کی ان تمام صلاحیتوں اور توانائیوں کے مقابلے میں شہید قاسم سلیمانی تھے۔ وہ ایسے مقام پر بھی فائز نہیں تھے کہ ان کے پاس حکومتی اختیارات اور وسیع پیمانے پر بجٹ ہوتا۔ ایرانی حکومت کی صورتحال بھی ایسی نہیں تھی کہ وہ شہید قاسم سلیمانی کی ہر ممکنہ مدد کر سکتی۔ ایسی صورتحال میں شہید قاسم سلیمانی کو ایک انتہائی عظیم اور دشوار کام انجام دینا تھا اور انہوں نے یہ کام انجام کر دکھایا۔
عراق میں شہید قاسم سلیمانی کی یہ سرگذشت محض 2003ء سے 2007ء تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے 2014ء سے 2017ء کے درمیان ایک بار پھر عراق میں ایسا ہی دوسرا کارنامہ انجام دیا۔ اس بار عراق شدید خطرناک قسم کی علاقائی اور بین الاقوامی سازش کی لپیٹ میں آ چکا تھا جو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے روپ میں ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر انہیں بھرپور مالی اور فوجی وسائل سے لیس دشمن کا سامنا تھا جبکہ وہ خود انتہائی محدود تعداد میں انسانی قوت اور مالی وسائل سے برخوردار تھے۔ مزید برآں، شہید قاسم سلیمانی کو ایک وقت میں چار محاذوں یعنی عراق، شام، لبنان اور یمن میں دشمن سے نبرد آزما ہونا تھا۔ ان تمام محاذوں پر یہی صورتحال غالب تھی اور سب کی امیدیں شہید قاسم سلیمانی کی خداداد صلاحیتوں سے وابستہ تھیں۔ ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کو وہاں کی حکومتوں سے مذاکرات انجام دینے کے ساتھ ساتھ معلومات کا تبادلہ بھی انجام دینا تھا اور ان کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کی بھی کوشش کرنی تھی۔ یہ ایسے امور نہیں تھے جو ایک ملاقات یا دو ملاقاتوں میں طے پا جاتے لہذا بعض امور کیلئے کئی سالہ مذاکرات درکار تھے۔
ان تمام محاذوں پر شہید قاسم سلیمانی کا سروکار ان ممالک کے شہریوں سے بھی تھا اور وہ مقامی افراد میں "مزاحمت کی طاقت" پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح شہید قاسم سلیمانی کو ایسی سیاسی جماعتوں اور گروہوں سے بھی رابطہ برقرار کرنا تھا جو بہت سے ایشوز میں شہید کی پالیسی اور اصولوں سے اختلاف رکھتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے ان جماعتوں اور گروہوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا تھا جبکہ اکثر اوقات ان کے پاس براہ راست ہدایات جاری کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ البتہ بعض اوقات ایسا کرتے تھے اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل کر لیتے تھے لیکن اکثر اوقات صرف قانع کرنے کی حد تک کوشش انجام دیتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ عقل مندی سے عمل کرتے اور درپیش رکاوٹوں کو ایک ایک کر کے دور کرتے اور خطے کی اقوام کو درپیش مسائل دور کر کے ان کا راستہ ہموار کرتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی عمل کے میدان میں ایک ماہر اور لائق کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے اسٹریٹجسٹ بھی تھے۔ وہ ایک سپر اسٹریٹجسٹ تھے اور دنیا کے فوجی اور سیاسی حلقے اس حقیقت کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کا اسلامی معاشرے میں کردار
شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کا اندازہ پورے عالم کو بعد از شہادت ہوا, جب اس مظلومانہ شہادت کو جگہ جگہ دادِ تحسین سے نوازا گیا اور شہید کی حمایت میں پورے عالمِ اسلام میں بِلا تفریق مذہب و ملت آواز اُٹھائی گئی, خصوصاً پاکستان سے علامہ عارف واحدی صاحب کی قیادت میں ملی یکجہتی کونسل کا وفد تعزیت پیش کرنے کے لئے ایرانی قیادت کے پاس گیا اس بات کا عیاں ثبوت ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی شہید محض ایرانی جرنیل نہیں تھے بلکہ اُمتِ مُسلمہ کے نڈر ,بہادر , شجاع , اور دردِ دل رکھنے والے محافظ تھے,
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت سے دُشمنِ اسلام کا چہرہ بے نقاب ہوا, اُمتِ مسلمہ کو ایک دفعہ پھر بیدار کیا, اپنی جان کا نذرانہ دے کر شہید اور شہادت کے عظیم مقام کو متعارف کرایا اور واضح دلیل پیش کی کہ شہید اللّہ تعالٰی کی راہ میں جانثاری کرکے اسلام کا تحفظ کرتا ہے۔
دُشمن نے اسلامی معاشرے میں شگاف و اختلاف پیدا کرنے کے لئے متعدد حربے آزمائے لیکن آج شہید قاسم سلیمانی کی شہادت ایک ایسی بے مثال حقیقت پیدا کر چکی ہے جو تمام مسلمانوں کے اتحاد کا تقاضہ کرتی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ اُمتِ مُسلمہ کے یہ بلند پرچم اور یہ ہمہ گیر آواز ایک نئی شئ ہے، اس کا آئین، اس کے نعرے اور اس کا عمل اسلام کے مطابق ہے اور فطری طور پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے دل وحدت کے لئے دھڑکتے ہیں۔ مگر دلوں کا دھڑکنا عام اسلامی رعیت کی حد تک ہے مگر عرب دنیا کے حکمران خطہ میں سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ احکام اسلامی کے نفاذ کی خاطر کوشاں نہیں ہیں۔ میری مراد قومیں نہیں ہیں، مسلمان قومیں تو خیر ہر جگہ ہی اسلام کے عشق میں غلطاں اور اسلام کی ہر خدمت کے لئے آمادہ ہیں۔ میری مراد وہ پالیسیاں، وہ نظام اور وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے اپنا کام اسلام کے نام سے شروع تو کیا تھا لیکن جب انہیں عالمی سطح پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عرب دُنیا کے حکمران جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو نظر انداز کرنے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے اور تمام مسلکی, گروہی, سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحدہ اُمتِ اسلامیہ کے پلیٹ فارم کو تقویت دیتے, مگر اس کے برعکس عرب حکمرانوں نے بےدردی سے شہید کی شہادت کو فراموش کیا اور پے در پے شہید سلیمانی کے قاتلوں کی بیعت کا نعرہ لگا کر اسلام کے ساتھ عجیب مذاق کیا, یہ مذاق صرف ایران کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ عالمِ اسلام کے ساتھ ہوا ہے, ایرانی قیادت تو انقلابِ اسلامی سے لیکر آج تک اُمتِ مسلمہ کی وحدت اور اتحاد کی داعی ہے, دُشمنِ اسلام اگر آج ایران اور پاکستان کے خلاف بر سرِ پیکار ہے تو اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر پاکستان اور ایران مضبوط ہوگئے تو عالمِ اسلام خود بخود تقویت پکڑ لے گا۔
ایران اور پاکستان کی کامیابی اور پورے عالم اسلام میں اِن کی نئی فکر کی ترویج کے بعد ہمہ گیر اسلامی موج کا مقابلہ کرنے کے لئے سامراج نے ایک حربہ یہ اپنایا کہ اس نے ایک طرف تو ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی ایک عام اسلامی تحریک نہیں ایک فرقہ وارانہ تحریک ظاہر کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف پاکستان میں شیعہ سنی اختلاف اور شقاق کو ہوا دینے پر توجہ مرکوز کی۔ اِن دونوں اسلامی ممالک نے شروع دن سے ہی اس شیطانی سازش کو محسوس کرتے ہوئے ہمیشہ اسلامی فرقوں کے درمیان اتفاق و یکجہتی پر زور دیا اور یہ کوشش کی ہے کہ اس فنتہ انگیزی کو دبائیں، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان اور ایران کو بڑی کامیابیاں بھی ملیں جن میں او آئی سی کی تشکیل ہے۔ جس میں کشمیر و فلسطین کی آزادی کی تحریک کو سنجیدہ لینا پاکستان کی بدولت ہے, دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے اوائل انقلاب سے آج تک مسلمان ممالک کو اتحاد کی دعوت دی ہے۔ ایران نے اسلامی حکومتوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم کرنے کی اگر بلا وقفہ کوششیں کی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ایران کی حکومت یا عوام کو اس ہمراہی کی احتیاج اور ضرورت ہے۔ نہیں، یہ کوششیں صرف اس لئے تھیں کہ اس رابطے سے پورے عالم اسلام کو فائدہ پہنچے۔
اسلامی اتحاد و یکجہتی کے ثمرات کے لئے اور مسلمانوں کی فتح و کامرانی اور عزت و وقار کی خاطر افکارِ خمینی کو جنرل قاسم سلیمانی نے اُجاگر کرنے کی انتھک محنت و کوشش کی کہ مسلمان قوموں کو چاہئے کہ اپنی طاقت و توانائی کو، جو در حقیقت اِن کے ایمان اور اسلامی ممالک کے باہمی اتحاد کی طاقت ہے، پہچانیں اور اس پر بھروسہ کریں۔ اسلامی ممالک اگر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں تو ایک ایسی طاقت معرض وجود میں آ جائے گی کہ دُشمن اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کر پائے گا اور اسلامی مُلکوں سے تُحکمانہ انداز میں بات نہیں کر سکے گا۔ اگر مُسلمان ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں اور اپنے اندر اپنائیت کا جذبہ پیدا کر لیں، اِن
کے عقائد میں اختلاف ہو تب بھی وہ دُشمن کے آلہ کار نہ بنیں تو عالم اسلام کی سربلندی بالکل یقینی ہوگی۔ کیونکہ قومیں جہاں کہیں بھی میدانِ عمل میں اُتر تی ہیں، وہ اپنی اِس موجودگی کو جاری رکھتی ہیں اگر مسلمان راہ خدا میں پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کریں تو امریکا ہو یا امریکا جیسا کوئی دوسرا مُلک اِن کے خلاف اپنی من مانی نہیں کر سکیں گے، فتح مسلمانوں کا مقدر ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ عالم اسلام اگر مسلم امہ کی حرکت کو فتح و کامرانی کی سمت صحیح انداز سے جاری رکھنا چاہتا ہے تو کچھ ذمہ داریاں تو اسے قبول کرنی ہی پڑیں گی۔ اِن ذمہ داریوں میں سب سے پہلا نمبر اتحاد کا ہے ۔ ورنہ جنرل قاسم سلیمانی جیسے مُخلص جرنیل کے بے مثال کردار اور باعزت شہادت کو رائیگاں کرنے والے ذلت و رسوائی, تباہی اور بربادی کو ہمیشہ کے لئے اپنا مقدر بنائیں گے۔
: