
سلیمانی
استغفار اور زندگی میں اس کے بیش بہاء اثرات / منافقین کے لئے استغفار غیر مؤثر
حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ کے عذاب سے بچاؤ کے دو وسیلے اللہ نے قرار دیئے تھے۔ ایک وسیلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا وجود مقدس تھا اور دوسرا وسیلہ استغفار ہے جو ہمیشہ کے لئے سب کے لئے موجود ہے، تو اس کا دامن تھامے رہو۔
ایک دن اللہ نے شیطان کو اپنی درگاہ سے نکال باہر کیا، شیطان رجیم نے قسم اٹھا کر کہا: میں تیرے مخلص بندوں کے سوا باقی سب کو گمراہ کروں گا۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی روایات کے مطابق شیطان کی گمراہی سے تحفظ کے لئے بہت زیادہ استغفار کرنا چاہئے۔ استغفار یا "استغفراللہ" یا "اللہم اغفر لی" جیسے اقوال کو دہرانا یا بخشش و مغفرت کا باعث بننے والے افعال کو انجام دینا۔
استغفار "غَفَرَ" سے ماخوذ ہے جیسا کہ الحمد للہ میں حمد حَمَدَ سے اور تکبیر میں اکبر "کَبُرَ" سے ماخوذ ہے۔ (1)
استغفار اور زندگی میں اس کے قابل قدر اثرات / منافقین پر استغفار کا کوئی اثر نہیں ہوتا
کیا استغفار "توبہ" ہی ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ استغفار اور توبہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ استغفار اور توبہ ایک ہی اور توبہ درحقیقت استغفار پر تاکید کے لئے ہے۔
لیکن کچھ دوسروں کے ہاں ان دو میں فرق ہے؛ اس لئے کہ استغفار توبہ پر مقدم ہے: "استغفر اللہ ربی و اتوب الیہ یا استغفر اللہ و اتوب الیہ"۔ اور استغفار کے توبہ پر تقدم کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے اور بعدازاں اپنے آپ کو اللہ کے اوصاف سے آراستہ کرے۔ استغفار درحقیقت گناہ کے راستے پر گامزن ہونے کے بعد رک جانا اور توقف کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف کرنا ہے اور توبہ اللہ وجودِ بےانتہا کی طرف پلٹ آنے اور واپس ہونے کے معنی میں ہے؛
استغفار دھولینے کے مترادف ہے اور توبہ کمالات کے حصول کے مترادف ہے، ایک آلودہ شخص اپنے گندے لباس کو اتارتا ہے اور دھوتا نہاتا ہے اور پھر پاکیزہ لباس زیب تن کرتا ہے۔ یا زمین کو جھاڑو لگا کر صاف کرتا ہے اور پھر اس کے اوپر پاکیزہ اور صاف بچھونا بچھاتا ہے۔
توبہ کا حکم قرآن کریم میں سورہ ہود کی آیات 3 اور 52 میں آیا ہے۔ "واَنِ استَغفِروا رَبَّکُم ثُمَّ توبوا اِلَیهِ؛ اور یہ کہ بخشش کے طلبگار ہو اپنے پروردگار سے، پھر اس کی بارگاہ میں توبہ کرو (پلٹ آؤ)۔ (2)
دو دلیلیں توبہ اور استغفار کے درمیان مغایرت کو ثابت کرتی ہیں:
1۔ توبہ استغفار پر معطوف ہے اور ثمّ فاصلے اور ترتیب کے لئے ہے۔
2۔ ہر بولنے والے کے کلام سے نئے معنی مراد ہوتے ہیں۔
اس حساب سے، استغفار اور توبہ کا فرق یہ ہے کہ توبہ سے مراد اپنے برے اعمال سے اللہ کی طرف بازگشت اور پلٹنا مقصود ہے، جبکہ استغفار مغفرت اور بخشش کی درخواست ہے۔ البتہ اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ کیا استغفار توبہ کے اوپر قائم ہے یا نہیں۔ (3)
استغفار اور توبہ کی اہمیت
اسلامی شریعت میں، استغفار بہترین عبادت اور بہترین دعا ہے، اور اس کی کثرت کی بہت سفارش ہوئی ہے اور اس کا سب سے اہم اظہار اس جملے سے ہوتا ہے: "استغفر اللہ"۔ (4) استغفار کی اہمیت کی انتہا یہ ہے کہ معصومین (علیہم السلام) سے منقولہ دعائیں مختلف عبارات اور الفاظ کی صورت میں، استغفار پر مشتمل ہیں۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) نے استغفار کی تلقین کی ہے اور عام لوگوں کو اس کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ آٹھ آیات کریمہ میں استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے؛ تقریبا 30 آیات میں انبیاء کے استغفار کا تذکرہ آیا ہے اور پانچ آیات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ (5)
فرشتے مؤمنین (6) اور اہل زمین (7) کے لئے استغفار کرتے ہیں۔
گناہوں کی بخشش کی درخواست [یعنی استغفار]، پرہیزگاروں کی صفت ہے۔ (8)
"قُلْ أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيْرٍ مِّن ذَلِكُمْ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ؛ کہئے کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز بتاؤں؟ جنہوں نے پرہیز گاری سے کام لیا، ان کے لئے ان کے پروردگار کے یہاں وہ بہشت ہے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاک و پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی بہت بڑی خوشنودی؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * [ایسے بندے] جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایمان لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے"۔ (9)
بعض آیات کریمہ میں (10) استغفار کی ترغیب دلائی گئی ہے اور بعض دوسری آیات میں استغفار ترک کرنے والوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے اور استغفار کی ضرورت کو سب کے لئے واضح کیا گیا ہے:
"أَفَلاَ يَتُوبُونَ إِلَى اللّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ؛ تو یہ لوگ توبہ کیوں نہیں کرتے اللہ کی بارگاہ میں، اور اس سے مغفرت کیوں نہیں مانگتے، جبکہ اللہ تو بخشنے والا ہے بڑا مہربان ہے"۔ (11)
وجہ یہ ہے کہ ایک طرف عام لوگ غفلت، نادانی، حیوانی جبلتوں اور نفسانی خواہشوں کی سرکشی ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں چنانچہ اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور استغفار اور اس کی ضرورت، ان کی جان و روح و نفس کی صفائی، ستھرائی کے لئے، بدیہیات میں سے ہے، اور دوسری طرف سے کوئی بھی اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا نہیں کرسکتا، بلکہ ہر شخص اپنی معرفت کی سطح کے تناسب سے، اس مہم کو سر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ حتی حقیقی زاہد اور پارسا انسان بھی اپنی عبادات و اعمال سے شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بارگاہ الہی میں ملزم ہی نہیں بلکہ گنہگار سمجھتے ہیں اور استغفار کی ضرورت کا ادراک کرلیتے ہیں۔ (12)
استغفار کی قسمیں
استغفار یا تو قول ہے جیسے "استغفر اللہ" یا پھر وہ فعل و عمل ہے جو انسان کی مغفرت کا باعث بنے۔
اگرچہ استغفار بذات خود مستحب ہے لیکن کبھی یہ بعض عوارض، واقعات اور روئیدادوں کی وجہ سے واجب یا حرام ہوجاتا ہے؛ چنانچہ حکم کے لحاظ سے استغفار کی تین قسمیں ہیں:
استغفارِ واجب
استغفار مُحرِم [یعنی احرام حج پہنے ہوئے حاجی] پر کفارۂ واجب کے طور پر، واجب ہے مثلا حاجی پر احرام کی حالت میں "فسوق و جدال" حرام ہے: "وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ؛ حج میں نہ نا فرمانی [اور گناہ] ہے، اور نہ جھگڑا"۔ (13) چنانچہ اگر حج میں کوئی تین بار سے کم فسوق اور گناہ کا ارتکاب کرے تو اس کا کفارہ استغفار ہے اور واجب۔ (14) یا کفارے کے متبادل کے طور پر، ان لوگوں کے لئے جو کفارہ دینے (یعنی غلام آزاد کرنے، 60 روزے رکھے، 60 افراد کو کھانا کھلانے یا 60 افراد کو لباس پہنانے) سے عاجز ہوں۔ (15)
مستحب استغفار
جیسا کہ کہا گیا استغفار بہترین دعا اور عبادت ہے چنانچہ تمام حالات میں بالعموم (16) اور ذیل کے مواقع پر بالخصوص مستحب ہے:
- نماز کے دو سجدوں کے درمیان؛ (17)
- نماز کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں تسبیحات اربعہ کے بعد؛ (18)
- نماز بالخصوص نماز وتر کی قنوت میں؛ (19)
- سحر کے اوقات میں؛ (20)
- جنازے کی مشایعت، تدفین اور زیارتِ قبر کے دوران میت کے لئے استغفار؛ (21)
- نمازِ استسقا یا نمازِ باران میں؛ (22)
- ماہ مبارک رمضان میں؛ (23)
- استغفار کو ترک کرنے یا بعض آداب اور سنتیں ترک کرنے اور اپنے سر اور چہرے کو پیٹنے کے کفارے کے طور پر استغفار۔ (24)
حرام استغفار
- قرآن کریم کی رو سے مشرکین اور کفار و منافقین کے لئے استغفار حرام ہے۔ (25)
- خداوند متعال نے مؤمنین کو مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے باز رکھا ہے۔ خواہ وہ اپنے اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ (26)
- مشرکین کے لئے استغفار بےاثر ہے اور اللہ شرک کو کبھی نہیں بخشتا۔ (27)
- مشرکین کے لئے استغفار ایک بیہودہ عمل اور مہمل کام ہے۔ (28)
- اور پھر مشرکین کے لئے استغفار درحقیقت ان کے ساتھ محبت اور رشتے کا اظہار ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ (29)
منافقین کے لئے استغفار بےاثر ہے
- ارشاد ربانی ہے کہ "کیا خواہ آپ ان کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں؛ خدا ہرگز انہیں نہیں بخشے گا۔ (30)
- نیز ارشاد ہوتا ہے کہ خواہ آپ کے لئے استغفار کریں یا نہ کریں، حتی کہ آپ اگر ان کے لئے 70 مرتبہ بھی استغفار کریں، خدا ہرگز انہيں بخشے گا۔ (31)
عدد "ستر مرتبہ" مبالغے اور فراوانی کے لئے، اس حکم میں مذکور ہے۔ (32)
قرآن کریم میں استغفار
قرآن کریم میں مغفرت طلبی یا استغفار 68 مرتبہ مذکور ہے: 43 مرتبہ استفعال کی مختلف اشکال میں آیا ہے؛ 17 مرتبہ " إغفر" کی صورت میں، تین مرتبہ "یغفر" کی صورت میں، دو مرتبہ "تغفر" کی صورت میں اور ایک مرتبہ "مغفرۃ" کی صورت میں۔ (33)
قرآن کریم میں استغفار کا حکم "حطۃ" کی صورت میں آیا ہے اور منقول ہے کہ خداوند متعال نے بنی اسرائیل کو استغفار کا حکم دیا تاکہ وہ اللہ کی مغفرت سے بہرہ ور ہوسکیں۔ (34)
آثار استغفار
بہت سی آیات کریمہ اور احادیث شریفہ میں استغفار کے بےانتہا تعمیری اور قابل قدر اثرات کو بیان کیا گیا ہے؛ استغفار معاشرے کی اصلاح، اللہ کی برکتوں کے نزول اور دنیاوی اور اخروی عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ (35)
عذآب الہی سے بچاؤ کا وسیلہ
خداوند غفور نے ارشاد فرمایا: "۔۔۔ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ جب تک کہ لوگ استغفار کریں گے اللہ ان پر عذاب نہیں اتارے گا۔ (36)
اس آیت کے آغاز پر ارشاد ہؤا ہے کہ "وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ؛ اور اللہ ان پر عذاب نازل کرے گا جب تک کہ آپ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ) ان کے درمیان ہونگے۔
مفسرین نے اس آیت کے لئے ایک خاص شان نزول اور کئی احتمالات کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ آیت اس قانونِ عام پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا لوگوں کے درمیان موجود ہونا اور لوگوں کا استغفار، دونوں شدید بلاؤں اور ناقابل برداشت مصائب کے سامنے ان کی سلامتی اور امن و امان کا سبب ہیں اور وہ شدید فطری اور غیر فطری سزاؤں: تباہ کن سیلابوں، زلزلوں اور جنگوں میں ان کی نجات کا ذریعہ ہیں۔ (37)
وَحَكَى عَنْهُ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْبَاقِرُ [عليه السلام] أَنَّهُ قَالَ كَانَ فِى الْأَرْضِ أَمَانَانِ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ وَقَدْ رُفِعَ أَحَدُهُمَا فَدُونَكُمُ الْآخَرَ فَتَمَسَّكُوا بِهِ أَمَّا الْأَمَانُ الَّذِى رُفِعَ فَهُوَ رَسُولُ اللَّهِ (ص) وَأَمَّا الْأَمَانُ الْبَاقِى فَالِاسْتِغْفَارُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَما كانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَما كانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ امام محمد باقر (علیہ السلام) امام امیرالمؤمنین علی (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "دو چیزیں زمین میں عذاب سے امان کا سرمایہ تھیں: ان میں سے ایک کو اٹھا لیا گیا، پس دوسری چیز کا دامن تھامے رکھو۔ جو سرمایۂ امان اٹھایا گیا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) تھے؛ اور جو امان باقی ہے وہ استغفار ہے؛ کہ خداوند متعال نے فرمایا: "میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا جب تک کہ آپ ان کے درمیان ہونگے، اور ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے رہا کریں گے"۔ (38)
گناہوں کی بخشش
سورہ نوح (39) میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے استغفار کا حکم دینے کے بعد، اللہ تعالی کے "بہت زیادہ بخشنے والا" کی صفت آئی ہے: "فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّاراً؛ (تو میں نے کہا کہ اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، بلاشبہ «وہ بڑا بخشنے والا» ہے)"۔ "غفار" کا وصف غفور، رحیم (40) اور ودود (41) کی مانند، اللہ کے اہم وعدے اور اللہ کی عظیم بشارت یعنی بندوں کے گناہوں کی مغفرت اور ان پر نزولِ رحمت کی طرف اشارہ ہے۔ (42) ایک حدیث میں گناہوں سے استغفار انسان کی روح و جان پر لگے ہوئے گناہ کے زنگ کو دور کرتا ہے اور روح و قلب کو روحانی تابندگی بخشتا ہے۔ (43)
رزق و اولاد میں اضافہ
سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 میں موسلادھار بارشیں برسنے اور خشک سالی سے نجات، فقر و تنگ دستی کے خاتمے اور رزق و آمدنی اور مال و اولاد میں اضافے کی طرف اشارہ ہؤا ہے: "يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَاراً * وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَاراً؛ وہ بھیجتا ہے بادل کو تم پر برستا ہوا * اور تمہیں مدد پہنچاتا ہے مال اور اولاد کے ساتھ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے باغ اور قرار دیتا ہے تمہارے لئے نہریں"۔
جیسا کہ ہم نے دیکھا سورہ نوح کی بارہویں آیت میں لاولد ہونے کے مسئلے کے دور ہونے یا اولاد کی کثرت کو استغفار کا ثمرہ قرار دیا گیا ہے۔
خوشحالی اور طویل العمری
حقیقی استغفار اچھی اور خوبصورت، خوشحال، پرامن و پرسکون اور عزت و آبرو سے بھرپور زندگی کے حصول کا سبب ہے۔ (44) جیسا کہ سورہ نوح کی آیت 12 میں ارشا ہؤا ہے اور سورہ ہود کی آیت 3 میں استغفار کے اس ثمرے اور اس خوبصورت مادی دنیا کو متاع حسن قرار دیا گیا ہے: "وَأَنِ اسْتَغْفِرُواْ رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُم مَّتَاعاً حَسَناً؛ اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ سے رجوع (توبہ) کرے، تاکہ وہ (اللہ) تمہیں متاع حسن (اچھا فائدہ) پہنچائے"۔
بعض مفسرین متاع حسن کو طویل العمری، قناعت و کفایت شعاری جیسی عظیم نعمت، لوگوں سے بےنیازی اور خداوند متعال کی طرف توجہ اور رجوع جیسی عزت و عظمت قرار دیتے ہیں جو اللہ سے بخشش طلب کرنے کا ثمرہ ہے۔ (45)
منقول ہے کہ کچھ لوگ جو خشک سالی، غربت اور تنگ دستی، بچوں کے نہ ہونے سے شکایت کررہے تھے اور حسن بصری سے اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے تو اس نے انہیں استغفار کی سفارش کی اور سورہ نوح کی آیات 11 اور 12 کا حوالہ دیا۔ (46)
استغفار کے لئے بہترین مقام اور بہترین وقت
استغفار ایک خاص وقت اور مقام، یا کسی خاص صورت حال تک محدود نہیں ہے؛ لیکن زمان و مکان کے لحاظ سے مختلف حالات اور مواقع میں اس کا اپنا خاص کردار ہے اور ان حالات و مواقع میں استغفار اللہ کے ہاں درجۂ قبولیت پر فائز ہوتا ہے؛ چنانچہ رات کا وقت اللہ کے فیوضات کے نازل ہونے کے لئے بہترین موقع ہے: "إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر؛ ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے"۔ (47) اور عبد کے عروج کے لئے بھی: "سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً؛ پاک ہے وہ جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت اپنے بندے کو سیر کرائی"۔ (48)
خدائے متعال سورہ آل عمران کی آیات 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے: "وَاللّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ * الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ * الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ؛ اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے بندوں کا * جن کا قول یہ ہے کہ [اے] ہمارے پروردگار! بلاشبہ ہم ایما ن لائے، اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے اور بچا ہمیں آتش دوزخ کے عذاب سے * جو صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور اطاعت گذار ہیں اور خیرات کرنے والے ہیں اور راتوں کو پچھلے پہر مغفرت کی دعائیں کرنے والے ہیں"۔
اور سورہ ذاریات کی آیات 16 تا 18 میں ارشاد فرماتا ہے: "إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِينَ * كَانُوا قَلِيلاً مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ * وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ؛ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے پہلے (کے دور حیات میں بھی) نیکوکار رہے تھے * وہ رات کو بہت کم سوتے تھے * اور [رات کے] پچھلے پہروں کو وہ طلب مغفرت کرتے تھے"۔
"وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالأَسْحَارِ" اور "وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ" میں صراحت کے ساتھ سحر کے وقت کو استغفار کے لئے منتخب کیا گيا ہے اور سورہ یوسف کی آیت 98 میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے گنہگار بیٹوں سے فرمایا: "سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّيَ؛ میں عنقریب تمہارے لئے اپنے پروردگار سے مغفرت کی التجا (استغفار) کروں گا"۔ اور مفسرین کی اکثریت کے مطابق سحر کے وقت کا استغفار دوسرے تمام اوقات پر ترجیح رکھتا ہے۔
سورہ یوسف کی مذکورہ بالا آیت کے مطابق، جب یعقوب (علیہ السلام) کے خطاکار بیٹوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان (اپنے والد) کے حق میں اور بھائی یوسف (علیہ السلام) کے حق میں جن گناہوں کے مرتکب ہوئے، ان کی بخشے جانے کے لئے، ان کے لئے استغفار کریں تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں مستقبل "میں تمہارے لئے اپنے رب سے استغفار (طلب مغفرت) کروں گا"۔ اس آیت کے سلسلے میں مذکورہ زیادہ تر احادیث میں بیان ہؤا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے قول "میں عنقریب تمہارے لئے استغفار کروں گا"، میں، (سوفَ یا) "عنقریب" سے "سحر کے اوفات میں استغفار" مقصود تھا۔ (49)
بعض مفسرین کے اقوال کے مطابق "شب جمعہ"، (50) ماہ رجب المرجب کی تیرہویں سے پندرہویں کی شب، (51) اور نماز شب یا تہجد کے اوقات (52) کو استغفار اور بخشش طلب کرنے کے لئے بہترین اوقات ہیں۔
کیا ہمارا استغفار قبول ہوگا؟
بے شک مشرکین، کفار اور منافقین کا استغفار قبول نہيں ہوگا اور اگر کوئی اور بھی ان کے لئے استغفار کرے تو ہرگز قبول نہیں ہوگا لیکن ان کے سوا تمام مؤمنین کا استغفار متعینہ شرائط کے ساتھ، اور توبہ و استغفار کے ساتھ اخلاص اور طلب مغفرت پر ترک گناہ کی صورت میں، قبول ہوگا کیونکہ:
1۔ بعض آیات کریمہ خداوند متعال کی بارگاہ میں استغفار کی قبولیت پر تصریح ہوئی ہے: "وَمَن يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّهَ يَجِدِ اللّهَ غَفُوراً رَّحِيماً؛ اور جو برائی کرے، یا اپنے اوپر ظلم کرے، پھر اللہ سے استغفار (اور بخشش طلب) کرے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا پائے گا، نہایت مہربان"۔ نیز ارشاد ہوتا ہے: "وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُواْ أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُواْ اللّهَ فَاسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ؛ اور وہ کہ جب کوئی بڑا برا کام کر ڈالتے ہیں یا اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور اللہ کے سوا ہے کون جو گناہوں کو معاف کرے جبکہ وہ اپنے کئے ہوئے [برے اعمال] پر جان کر اصرار نہیں کرتے"۔ (53) "فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُواْ إِلَيْهِ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ؛ تو اس سے مغفرت طلب کرو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقینا میرا پروردگار نزدیک ہے، دعاؤں کا قبول کرنے والا"۔ (54)
نیز سورہ غافر کی آیت 60 میں خداوند متعال قبولیت کا معدہ دیا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ؛ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا"؛ اور استغفار بہترین دعاؤں میں سے ایک ہے؛ (55) چنانچہ بطور اتم و اکمل اس الہی وعدے کے زمرے میں آتا ہے اور بےشک استغفار کی قبولیت کا یہ الہی وعدہ بجائے خود مؤمنین کو استغفار کی طرف راغب کرتا ہے۔
2۔ چونکہ قرآن کی متعدد آیات استغفار کا فرمان دیتی ہیں، (56) لہذا بعید ہے کہ اللہ استغفار کو قبول نہ کرے۔
3۔ اللہ کی بہت سی صفات بشمول "غفور، غافر، غفار، عفوّ، تواب" وغیرہ خود اللہ کی بخشش کا وعدہ دے رہی ہیں اور اللہ کی "بخشش" وہی ہے جس کی التجا "استغفار" میں ہوتی ہے۔
آخری نکتہ:
بہرصورت زبانی استغفار کے لئے عملی استغفار یعنی ترکِ گناہ شرط اور ترک گناہ پر استوار رہنا ہے؛ "وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَى مَا فَعَلُواْ"۔ (57)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، ج7، ص33۔
2۔ سورہ ہود، آیت 3۔
3۔ شہید ثانی، مسالک الافہام فی شرح شرائع الاسلام، ج9، ص535؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص163؛ رسائل فقہیۃ (شیخ انصاری)، ص56۔
4۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج5، ص64ـ65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی (یا الہویزی)، تفسیر نور الثقلین، ج5، ص38۔
5۔ محمود روحانی، المعجم الاحصائی لالفاظ القرآن الکریم، ج3، ص1058، «غفر»۔
6۔ سورہ غافر، آیت 7۔
7۔ سورہ شوری، آیت 5۔
8۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج2، ص463۔
9۔ سورہ آلعمران، آیت 16-15۔
10۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
11۔ سورہ مائدہ، آیت 74۔
12۔ نہج البلاغہ، خطبہ 193۔
13۔ سورہ بقرہ، آیت 197۔
14۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص180۔
15۔ السید محمد کاظم الطباطبائی الیزدی، العروۃ الوثقی، ج1، ص683۔
16۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام، ج4، ص323۔
17۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام، ج12، ص131۔
18۔ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج10، ص304۔
19۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص193۔
20۔ مناسک مراجع، م372 و مناسک مراجع، م377۔
21۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج33، ص295؛ و ص160-163، ج12، ص34-47۔
22۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج12، ص88۔
23۔ وہی مؤلف، جواہر الکلام ج22، ص72۔
24۔ سید ابوالقاسم الخوئی، مصباح الفقاہۃ ج1، ص519-522۔
25۔ سورہ توبہ، آیت 113؛ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص47-51۔
26۔ سورہ توبہ، آیت 113۔
27۔ سورہ نساء، آیت 48؛ سورہ نساء، آیت 116۔
28۔ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج9، ص351۔
29۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج8، ص155۔
30۔ سورہ منافقون، آیت 6۔
31۔ سورہ توبہ، آیت 80۔
32۔ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج16، ص148؛ سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج9، ص351-352۔
33۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
33۔ سورہ بقرہ، آیت 58؛ سورہ اعراف، آیت 161۔
34۔ محمد حسن النجفی، جواہر الکلام ج12، ص132؛ سورہ نوح، آیت 10-12؛ سورہ ہود، آیت 52۔
35۔ سورہ انفال، آیت 33۔
36۔ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج7، ص154155۔
37۔ نہج البلاغہ، حکمت 88۔
38۔ سورہ نوح، آیت 10۔
39۔ سورہ نساء، آیت 110۔
40۔ سورہ ہود، آیت 90۔
41۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج4، ج5، ص371۔
42۔ ابن فہد الحلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ص265۔
43۔ فضل بن حسن الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج10، ص543؛ فخرالدین الرازی، التفسیر الکبیر، ج30، ص137؛ سید محمد حسین الطباطبائی، تفسیر المیزان، ج10، ص300۔
44۔ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص4۔
45۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج10، ص543۔
46۔ سورہ قدر، آیت 1۔
47۔ سورہ اسراء، آیت 1۔
48۔ فضل بن حسن بن فضل الطبرسی، تفسیر مجمع البیان، ج5، ص403؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص262؛ تفسیر الصافی، ج3، ص46۔
49۔ محمد بن جرير طبرى، تفسیر جامع البیان، ج8، ج13، ص85؛ ج5، ص403؛ فخر الدين الرازى، التفسیر الکبیر، ج18، ص209؛ محمد بن احمد انصاری قرطبی، الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج9، ص262۔
50۔ وہی ماخذ، ج9، ص262؛ سید محمود الآلوسی البغدادی، تفسیر روح المعانی، ج8، ج13، ص79؛
51۔ عبد الرحمان بن ابی بکر بن محمد السیوطی، تفسیر الدر المنثور فی التفسیر الماثور، ج4، ص585۔
52۔ سورہ نساء، آیت 110۔
53۔ سورہ آلعمران، آیت 135۔
54۔ سورہ ہود، آیت 61۔
55۔ السید ہاشم البَحرانی، تفسیر البرہان، ج5، ص65؛ عبدعلی بن جمعہ الحویزی، تفسیر نور الثقلین، ج5، ص38۔
56۔ محمدفواد عبدالباقی، المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم، ص634، «غفر»۔
57۔ سورہ آل عمران، 135
۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔
110
امریکی زوال پر نیویارک پوسٹ کا اعتراف
نیویارک پوسٹ نے تشویش، ناراضگی اور سراسیمگی سے بھرپور تجزیئے میں لکھا: ایرانی ہر روز دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مصروف ہیں۔
وہ عراق، شام، لبنان، بحرین، یمن، وینزوئلا، اور کئی افریقی، یورپی، ایشیائی اور امریکی ممالک میں موجود ہیں اور ان ممالک میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔
ایران نے دنیا کو ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ نامی بڑی طاقت اور امریکی تسلط اختتام پذکر ہوچکا ہے؛ اور وہ امریکیوں کی آنکھوں کے سامنے، اپنے بحری جہازوں کو جہاں بھی چاہے بھیجتا رہے گا؛ اور کوئی بھی ان کے راستے میں رکاوٹ نہيں ڈآل سکے گا۔
ایران نے برطانیہ اور فرانس کی بحری سلطنت کا مکمل خاتمہ کیا اور آج ایران ہی ہے جو آس پاس کے علاقے میں بحری سلامتی کے مقدرات کا تعین کرتا ہے۔
شام، ایران کی عالمی طاقت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت شام اور بشار اسد کے مقدر کا تعین کرے اور یہ ملک اپنے مقدرات کا فیصلہ خود ہی کرے گا۔ ایران نے شام میں دسوں ممالک کا مقابلہ کیا اور انہیں ان کے مقاصد تک نہیں پہنچنے دیا؛ اور یہ بات سب کو سمجھا دی کہ علاقے میں کوئی بھی چیز نہیں بدلے گی جب تک ایران نہیں چاہے گا۔
ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ دور قصۂ پارینہ بن چکا ہے جب امریکہ اپنے طیارہ بردار جہازوں کو روانہ کرکے حکومتوں کو تبدیل کردیتا تھا اور اقوام کے مقدرات کا تعین کرتا تھا؛ اور آج ایران جیسا طاقتور ملک اس کے مد مقابل آ کھڑا ہؤا ہے۔
ایران نے ثابت کرکے دکھایا کہ امریکہ مزید بڑی طاقت (Superpower) نہیں ہے۔
دنیا میں کوئی بھی طاقت اور کوئی بھی فوج نہیں ہے جو ایران کے ساتھ لڑنے بھڑنے کی خواہاں ہو؛ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہر جنگ کا آغاز باعث بنتا ہے کہ ایران اپنے مقاصد تک پہنچ جائے اور اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنائے اور ایسی جنگ سے پوری دنیا کو نقصان پہنچے گا۔ ایرانی ہی ہونگے جو جنگ کے دورانیے اور محاذ کی وسعتوں کا تعین کریں گے۔
دنیا کے تمام مسائل اور واقعات سے ثابت ہے کہ ایران عنقریب تمام نیابتی (پراکسی) جنگوں میں ہی نہیں بلکہ اقتصادی جنگوں میں بھی، کامیاب ہوگا اور ایران کا اثر و نفوذ عنقریب وسیع سے وسیع تر ہوگا۔
واضح رہے کہ نیابتی جنگیں استکباری ممالک کی طرف کی جدید جنگوں کے زمرے میں آتی ہے اور دنیا بھر میں کہیں بھی ایران کی طرف سے کوئی نیابتی جنگ نہیں ہورہی ہے۔ ایران جن ملکوں میں تحریک مزاحمت کی حمایت کررہا ہے، وہاں تحریک مزاحمت کی رکن تنظیمیں اپنے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کے لئے لڑ رہی ہیں اور ایران ان کی حمایت کررہا ہے چنانچہ یہ مغربی-عبرانی-عربی سازشی محاذ کی تشہیری ایجنڈے کا حصہ ہے کہ ایران کی طرف سے کہیں کوئی نیابتی جنگ لڑی جارہی ہے۔
سورس: تیمورا میڈیا گروپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: فرحت حسین مہدوی
یوم بعثت رسول اسلام (ص) پر رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو عراق اور شام سے نکلنا ہوگا آپ نے فرمایا امریکا نے داعش کو خود بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا لیکن داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں غاصبانہ طریقے سے موجود ہے -
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ستائیس رجب عید مبعث کے موقع پراپنے نشری خطاب میں ایرانی قوم، امت مسلمہ اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ عید مبعث انصاف کے طلبگاروں کی عید ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس دن مرسل اعظم ص کا قلب مبارک گرانبہا الہی امانت یعنی وحی کا خزانہ بنا اور عالم وجود کی سنگین ترین ذمہ داری آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دوش مبارک پر ڈالی گئی ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ توحید کے معنی صرف یہ نہیں کہ انسان دل میں یہ عقیدہ رکھے کہ خدا ایک ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی حاکمیت کو قبول کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ انسانوں کی تعلیم، انصاف کا قیام تمام انبیائے الہی کی بعثت کا اہم ترین مقصد ہے کیونکہ انسانی سماج کو انصاف کی بنیادوں پر چلایا جانا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کے اسلامی انقلاب کو بعثت کا تسلسل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب ایران نے عصر حاضر میں بعثت کے مضامین کی تجدید کی ہے، خداوند متعال نے امام خمینی رح کو توفیق عطا کی کہ وہ عصر حاضر میں بعثت نبوی کے راستے کو اپنے اقدامات، شجاعت اور اعلی افکار کے ذریعے جلا بخشیں۔
آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کو بھی اپنی کامیابی کے بعد اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جس کا پیغمبراسلام صلی اللہ وآلہ وسلم کو کرنا پڑا تھا یعنی عالمی شرپسند اور جرائم پیشہ طاقتیں اس کے مقابلے میں صف آرا ہوگئی تھیں ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے امریکہ اور سابق سویت یونین کی دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس کے علاوہ کسی اور چیز کی توقع بھی نہیں تھی اور ہمیں معلوم تھا کہ امریکہ اور سویت یونین ایسے انقلاب کو برداشت نہیں کریں گے اور اس کے خلاف صف آرا ہوجائیں گے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمن کے مقابلے کے لیے بصیرت اور استقامت جیسے عناصر کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ہمیشہ دو عناصر کی سفارش کی ہے ایک بصیرت اور دوسرا صبر و استقامت کا عنصر ہے، اگر یہ دو عناصر موجود ہوں گے تو دشمن ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ۔
آپ نے اسلامی انقلاب کے خلاف دشمن کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن سافٹ وار کے ذریعے دو اہداف پر کام کر رہا ہے ایک حق اور صبر کی تلقین کا سلسلہ بند ہوجائے اور دوسرے حقائق کو توڑ مروڑ کر اور حتی برعکس ظاہر کرے ۔
رہبرانقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی اور حقائق کو الٹا دکھانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا دشمن اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہے کہ سننے والا اسے سچ سمجھنے لگتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یمن کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پچھلے چھے برسوں سے امریکہ اور اس کا جارح عرب اتحاد یمنی عوام اور ان کے گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کر رہا ہے ، اس جارح اتحاد نے یمن کا اقتصادی محاصرہ کر رکھا ہے ، غذائی اشیا اور دوائیں تک نہیں پہنچانے دے رہا ، لیکن جیسے ہی یمن کے بہادر اور دلیر عوام اپنے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چھے سال سے جاری بمباری کا جواب دیتے ہیں تو پروپیگنڈہ مشینری سرگرم ہوجاتی ہے اور قتل و غارت گری کا شور مچانے لگتی ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کی دروغگوئی کی ایک اور مثال کا ذکر تے ہوئے فرمایا کہ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخائر رکھنے اور اسے استعمال کرنے والا ملک امریکہ جس نے ایک دن میں دو لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کو ایٹمی بمباری کے ذریعے قتل کرڈالا ہے، آج کہتا ہے ہم عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے مخالف کو قتل کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی سعودی حکومت کی حمایت کرنے والا امریکہ انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں امریکہ کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ داعش کو خود امریکہ نے بنایا اور اس کا اعتراف بھی کیا ہے، اور داعش کے خلاف جنگ کے بہانے شام میں اڈے قائم کر رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران کی علاقائی موجودگی کے بارے میں منفی پروپییگنڈا کیا جاتا ہے اور اسے علاقے میں عدم استحکام کا سبب قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ہم جہاں بھی موجود ہیں ان ملکوں کی قانونی حکومتوں کی درخواست پر ان کے دفاع کے لیے موجود ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ علاقے میں کہیں بھی ایرانی فوجیں موجود نہیں ہیں اگر کہیں ہمارے فوجی ہیں بھی تو وہ مشاورت کے لئے ہیں البتہ امریکہ کسی بھی ملک کی اجازت کے بغیر داخل ہوتا ہے اور وہاں اپنے اڈے بنا لیتا ہے جیسا کہ اس نے شام میں کررکھا ہے ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ کو عراق سے جانا ہوگا اور شام سے بھی جتنا جلد ممکن ہو امریکہ کو نکل جانا چاہیے۔
ایران کے سفارتخانے کے زیراہتمام تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی مشترکہ نشست کا انعقاد
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے کے زیر اہتمام تمام مسالک کے جید علمائے کرام کی مشترکہ نشست کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری، ایرانی سفیر جناب محمد علی حسینی، سربراہ اسلامی تحریک حجت الاسلام و المسلمین علامہ سید ساجد علی نقوی، سربراہ امت واحدہ پاکستان حجت الاسلام و المسلمین علامہ محمد امین شھیدی، سربراہ ایم ڈبلیو ایم حجت الاسلام و المسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، معروف اسکالر علامہ محمد عباس وزیری سیمت دیگر علماء کرام نے شرکت کی
شب عید مبعث حرم مطہر کے صحن جامع رضوی کا نام بدل کر صحن پیغمبر اعظم رکھ دیا جائے گا
بعثت رسول مکرم اسلام(ص) کے موقع پر پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی عظمت و منزلت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے امام رضاعلیہ السلام کے صحن جامع رضوی کو آپ (ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے گا۔ تاکہ دین مبین محمدی(ص) کی تبلیغ و ترویج کے ہدف سے ثقافتی و دینی پروگراموں کے انعقاد کے لئے نیا پلیٹ فارم مہیا کرایا جاسکے
آستان قدس رضوی گذشتہ برسوں کے دوران بھی قومی اور بین الاقوامی سیمینار کے انعقاداور یورپ کے حق پسند اور حقیقت کے متلاشی لوگوں کے ساتھ ثقافتی تعلقات کی توسیع کے ذریعے اس سلسلے میں بہت سے اہم کام انجام دے چکا ہے اور اب حرم مطہر رضوی کے ایک اہم صحن کو پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کرنے کے بعد اپنی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کرے گا۔
ماضی میں زائرین و مجاورین کی جانب سے بہت ساری درخواستیں موصول ہوئی تھیں کہ حرم مطہر رضوی کے کسی ایک صحن کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مبارک نام سے مزیّن کیا جائے۔اسی سلسلے میں آستان قدس رضوی نے باقاعدہ طور پر اس موضوع کو اپنے پروگرا م میں شامل کیا اور ماہرین کی رائے لینے کے بعد فیصلہ کیا کہ شب عید مبعث کے موقع پر صحن جامع رضوی کا نام پیغمبر گرامی اسلام(ص) رکھ دیا جائے گا۔ یہ تبدیلی فقط نام تک محدود نہیں ہو گی بلکہ صحن پیغمبر اعظم(ص) کو دین مبین محمدی(ص) کی ترویج کا مرکز و محور بنایا جائے گا۔
مستقبل میں زائرین و مجاورین کے تمام بڑے اجتماعات اسی صحن میں منعقد کئے جائیں گے جو کہ پیغمبر اعظم(ص) کے نام سے مزیّن ہورہا ہے یہ اقدام ہیغمبر گرامی اسلام(ص) کے نام اور تعلیمات کی ترویج کے لئے اہم قدم ثابت ہو گا۔ واضح رہے کورونا وائرس سے قبل حرم مطہر رضوی میں سالانہ تین کروڑ زائرین زیارت سے مشرف ہوتے رہے ہیں جن میں چالیس لاکھ غیرملکی زائرین ہوا کرتے تھے یہ سبھی زائرین ک دنیا کے دور دراز ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی اور مذہبی سفیر ہیں۔
پیغمبر اعظم کے نام منسوب ہونے والے اس صحن کا رقبہ ۱۱۷۵۸۴ مربع میٹر ہے جس کی تعمیر کا کام ۱۹۸۷ میں شروع ہوا اور ۲۰۰۲ میں اختتام پذیر ہوا، یہ صحن جو کہ ضریح امام رضا علیہ السلام کے جنوب میں واقع ہے اور اس کے چھ بلند و بالا مینار تین ایوان جن کے نام باب الہادیؑ،باب الکاظمؑ اور ایوان ولی عصر(عج) ہیں۔
پیغمبر اعظم کی سیرت طیبہ اور وحدت
آنحضرت (صعلم)کی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سےپیغمبر اعظم ﷺکی سیرت طیبہ اور وحدت
یہاں ہم اختصار کی بنا پر صرف رسول اکرم کی سیرت طیبہ سے وحدت کے چند نمونے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو جاے کہ انھوں نے وحدت کی راہ میں کیا کیا قربانیاں دی ہیں اور ہم جو ان کے نقش قدم پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ؛ وحدت کی راہ میں کیا قدم اٹھائے ہیں ۔
آنحضرت ۖکی سیرت طیبہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تمام کلمہ گو مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور واجب الاتباع ہے۔ اگر آپ ان کی الٰہی سیرت اٹھا کر دیکھیں تو ان کی زندگی کے ہر قدم پر وحدت کے سینکڑوں نمونے نظر آتے ہیں جو نہ صرف ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے بلکہ تمام بشر یت کے لئے تا قیام قیامت نمونہ عمل ہے ۔آپ ﷺکی پاک سیرت میں وحدت واتحاد کے ایسےانمول نمونے پائے جاتے ہیں جس کی مثال سابقہ امتوں میں نہیں ملتی۔
حد یہ ہے کہ آپ ﷺے مدینہ تشریف لانے کے فورا بعد چند اہم اور بنیادی اقدامات انجام دىے، ان میں سے اىک قدم مختلف گروہوں ، امتوں اور قوموں کے درمیان وحدت اور اتحاد و اتفاق ایجاد کرنا تھا جو اپنی جگہ بے سابقہ ہے ہم یہاں چند نمونے ذکرکرتے ہیں ۔
ا۔امت واحدہ کی تشکیل میں تاریخی دستاویز
اسلام کا نورانی پیام مدینہ آنے کے بعد اس شہر میں مختلف مکاتب سے وابستہ لوگ بسنے لگے تھے ۔ نو مسلموں کے ساتھ ساتھ یہودی بھی چند قوموں کی شکل میں رہتے تھے ۔ بت پرست اور مشرک اقوام بھی آباد تھیں ۔جب سرور کائنات مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺنے یہ احساس کیا کہ اس شہر کی اجتماعی زندگی ٹھیک نہیں ہے ، نا منظم ہے اور ہر گروہ دوسرے گروہ کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ،مختلف قبیلوں کے درمیان سخت قسم کے اختلافات اور تنازعے پائے جاتے ہیں ؛ سب سے بڑے دو قبیلے اوس وخزرج کے درمیان دیرینہ خونی دشمنی پائی جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ؛ اب اس حالت میں ہر لمحہ ممکن تھا کہ کوئی نا گوار واقعہ پیش آے ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺے مدینہ میں رہنے والے تمام گروہوں کے درمیان باہمی تعاون اور یکجہتی کی وہ عظیم دستاویز پیش کی جو بعد میں اسلام کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی دستاویز کہلائی ؛ اور مورخین کے مطابق یہ قرارداد آپ ﷺنے اپنے پہلے خطبے کے فورا بعدپاس کی۔
رسالت مآب ﷺنے اس قرار داد میں مدینہ شہر میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کےا اور یہ قرارداد مسالمت آمیز زندگی گزارنے اور ہر طرح کے ہنگامے اور اختلافات کے جنم لینے اور ان کے درمیان نظم وعدالت کو بر قرار رکھنے کی ضامن بنی ۔اس تاریخی قرارداد کے چند اہم نکات یہ تھے :
(1) مسلمان اور یہود ایک امت ہیں
(2) مسلمان اور یہود اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں
(3) اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں
(4) مدینہ ایک مقدس شہر ہے جس میں ہر طرح کا خون خرابہ حرام ہو گا
(5) اس عہد نامہ پر دستخط کرنے والوںمیں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں حل وفصل کرنے والے محمد ﷺہوں گے ۔ اس قرارداد کی تفصیلات اس طرح بیان کرسکتے ہیں۔
اس تاریخی قرارداد سے دو اہم نکتے ہمارے ذہن میں آتے ہیں جو کسی قوم یا جماعت کے درمیان اتحاد برقرار رکھنے اور یکجہتی پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
(1)مذہبی آزادی : امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اہم ترین چیز مذہبی آزادی ہے خواہ اسلامی فرقوں کے درمیان ہو یا اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر مختلف ادیان کے درمیان ہو کہ جس کا خوبصورت ترین نمونہ پیغمبر اکرم ۖکی سیرت طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے ۔
چونکہ ایک دین میں مختلف فکری مذاہب ، شریعت کے فکری اور عملی احکام میں علماء کے اجتہادات اور قرآن وسنت سے استنباط کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں کہ جس کی ہم سب اجازت دیتے ہیں ،اب اس صورت میں ایک مسلمان کو کامل طور پر یہ اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اپنی مرضی سے ان اسلامی فرقوں اور مذاہب میں سے اپنی نظر میں جو سب سے افضل ہو اور بروز قیامت پروردگار عالم کے حضور میں جواب گو ہو ؛ اسی مذہب کی پیروی کرے اور کسی کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے کسی خاص مذہب کے انتخاب پر برا بھلا کہے یا اس کی مذمت کرے ؛ اسی طرح کسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی دوسرے شخص کوکسی خاص مذہب کے انتخاب پر مجبور کرے چونکہ مذہب کا انتخاب ایمان اور قلبی اطمینان کے حصول کے ساتھ وابستہ ہے جو صرف اور صرف حجت اور دلیل کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح ہر مذہب کو اپنی آراء و نظریات خواہ عقیدتی میدان میں ہو یا فقہی اور عملی میدان میں ؛ پیش کرنے اور اس پر دلیل قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور یہ اس وقت تک مطلوب ہے جب تک بے فائدہ جدل ودشمنی اور ایک دوسرے کی اہانت کى سبب نه بنے ۔
(2) قومی انسجام :پہلے بھی عرض کیا کہ وحدت انسانیت اور اسلامیت کی بقا ء کا ضامن ہے یہ کسی خاص قوم یا کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہیں بلکہ انسانی معاشرے کی بقاء کے لئے ایک دائمی اصل ہے ۔جس طرح اسلام اور مسلمانوں کی بقا ء وتحفظ اور ترقی وتمدن کے لئے اسلامی اتحاد کی ضرورت ہے ، اسی طرح کسی قوم وملک کی بقاء کے لئے اسکی ترقی و تمدن کے لئے بھی اس ملک کے اندر بسنے والے مختلف گروہوں قوموں اور مختلف طبقات اور مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان قومی اور ملی انسجام واتحاد شہ رگ کی مانند ہے ۔
اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ استعماری اور طاغوتی ایجنڈے اسلامی مالک میں نہ صرف مسلم فرقوں ،گروہوں کو آپس میں لڑوانے کے پیچھے ہیں بلکہ مختلف قوموںاور نژادوںکو قومیت اور نژادیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے جدا کر کے ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی بھر پور کوشش میں ہیں ۔
چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺنے بھی اسی اہم نکتے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے سے پہلے ہی مدینہ شہر کے رہنے والے مختلف مکاتب فکر سے وابستہ لوگوں کے درمیان قومی اور ملی اتحاد واتفاق کی قرار داد پاس کی کہ جس عہد نامے میں مسلمانوںاور یہودیوں کو ایک ملت قرار دیا گیا ، ان سب کی جان و مال کو محترم شمار کیا گیا اور سب پر مدینہ شہر کے دفاع کی ذمہ داری ڈالی گئی اس طرح مدینہ کی اجتماعی زندگی میں رونق آ گئی اور سب کے حقوق محفوظ ہوگئے۔
٢۔ انصارومہاجرین کے درمیان ا خوت کامعاہدہ
پیغمبر اعظم ﷺے ہجرت کے بعد اتحاد کی راہ میں جو دوسرا قدم اٹھایا وہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رشتہ اخوت اور بھائی چارگی بر قرار کرنا تھا ۔
چونکہ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں دو بڑے گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ میں تفاوت کے سبب کشمکش پائی جاتی تھی ؛ کیونکہ انصار جنوب عرب (یمن )سے ہجرت کر کے آئے تھے اور نسب کے اعتبار سے ان کا تعلق قحطان سے تھا جبکہ مہاجرین شمالی حصے سے آئے تھے اور ان کا تعلق عدنانی نسل سے تھا اور دوسری طرف انصار کا مشغلہ کاشتکاری و باغبانی تھا ؛ جبکہ مہاجرین اور اہل مکہ تجارت کرتے تھے اور کاشکاری کو ایک پست پیشہ سمجھتے تھے ؛ اس سے قطع نظر یہ دونوں گروہ الگ ماحول کے پروردہ تھے ؛ لیکن اب نوراسلام کی بدولت آپس میں بھائی بھائی ہو گئے تھے (٢)
لیکن ان دونوں گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بھی بعض لوگوں کے ذہنوںمیں رہ گئے تھے اور ہر لحظہ یہ اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت بھڑک نہ اٹھے ،اب ان اختلافات کے ہوتے ہوئے ایک عالم گیر الٰہی حکومت کی بنیاد ڈالنا نا ممکن تھا اور مکتب اسلام کو دوسرے مکاتب فکر اور مشرکین کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لئے آپ ﷺنے اپنی حکمت با لغہ سے ان کے درمیان( تآخوا فی اللہ اخوین) کا نعرہ بلند کر کے اخوت اور بھائی چارگی کا رشتہ برقرار کیا اور ہر مہاجر و انصار میں سے ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا اور علی علیہ السلام کو اپنا بھائی بنا یا اور فرمایا : انت اخی فی الدنیا والآخرة… ( ٣) جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری اور وحدت ویکجہتی کی ایک نئی لہر دوڑ اٹھی ایک دوسرے کے درمیان سالہا سال پرانی دشمنی دوستی اور اخوت میں تبدیل ہو گئی کہ جس کی کوئی نظیر سابقہ امتوں میں نہیں ملتی ۔
اتحاد ووحدت کی راہ میں اس جیسے سینکڑوں نمونے آپ ﷺکی با برکت زندگی میں دیکھنے میں آتے ہیں اور آپ ۖاپنے آخری دم تک لوگوں کو اتفاق و وحدت کے ساتھ زندگی گزارنے کی دعوت دیتے رہے اور فرمایا کرتے تھے ايها الناس علکمت بالجماعة واياکم والفرقة (٤) لوگو! خبردار تفرقہ بازی اور گروہ بندی سے بچو اور ہمیشہ متحد ہو کے رہو،اسی طرح کسی اور مقام پر آپ ﷺفرماتے ہیں کہ تم میں سے کون ایسا عقلمند ہے جو اتحاد اور انسجام کی ضرورت کا احساس نہ کرے ؟ لیکن اسکے باوجود یہ سننے میں آتا ہے کہ بعض تنگ نظر جاہل ومقدس مآب اور متعصب افراد مختلف اسلامی فرقوں اور گروہوں کے درمیان وحدت برقرارکرنے کو پسند نہیں کرتے اورکھلم کھلا وحدت کی ضرورت کا انکا ر کرتے ہیں یقینا اس کی علت سیرت رسول اعظم ۖسے لا علمی و دوری اور اپنے من گھڑت عقائد وافکار پر اصرارکر نے کے سواکچھ نہیں ہے ۔
خدایا ! ہم سب کو سرور کائنات کی سیرت طیبہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما آمین !
حوالہ جات
(1)-ابن هشام : السیرة النبوی :ج 2 ص 147-150 مطبع المصطفی الباقی قاهره ۔
(2)-۔ابن هشام : السیره النبویة ؛ج 2 ص 150 اور مجلسی : بحار الانوار ج 19 ص۔
(3)- ابن هشام،ص 130۔: السیره النبویة ؛ج2 ص 150اور عسقلانی : الاصابة؛ج2 ص 507طبع بیروت دار ا التراث العربی 1328ق.بحارالانوار ج :8 ص :1 ۔
(4)۔محمد تقی هندی : کنز العمال ؛ج 1 ص 206حدیث نمبر 1028۔
حضرت محمّد مصطفی ؐرحمت للعالمین ؐ
کلمۂ رحمت اور اسکی مشتقات پورے قرآن میں تقریباً ۳۳۸ مرتبہ ذکر ہوئی ہیں جس میں سے ۷۹ بار کلمہ رحمۃ مستقل طور پر ذکر ہوا ہے اور ۳۶ مرتبہ ضمائر مثلاً رحمتی، رحمتہ،رحمتک،رحمتنا کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔
خداوند اس رحمت کے سلسلے میں کبھی مصیبت والوں کو خطاب فرماتا ہے اولئک علیهم صلوات من ربّهم و رحمة (بقرة:۱۵۷)تو کہیں سختیاں دیکھنے والوں کو فرماتا ہے واذا اذقنا النّاس رحمة من بعد ضرّاء مسّتهم (یونس:۲۱)ایک جگہ پہ تورات کے بارے میں ذکر ہوتا ہے ومن قبله کتا ب موسی اماماً و رحمة (انعام:هود:۱۷) تو کہیں قرآن کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے فقد جائکم بیّنة من ربکم و هدیً و رحمة (انعام:۱۵۷)کبھی احسان کرنے والوں کے حق میں مہربانی ،عنایت اور بخشش کے سلسلے میں ارشاد فرماتا ہے انّ رحمة الله قریب من المحسنین (اعراف:۵۶)تو کہیں اس رحمت سے محروم ہونے والوں کیلئے بتاتا ہے أهؤلاء الذین اقسمتم لا ینالهم الله رحمة (اعراف:۴۹)کسی جگہ خدا کی رحمت کے امیدواروں کا ایڈریس دیتا ہے اولئک یرجون رحمة الله والله غفور رحیم (بقرة:۱۲۸)تو کسی مقام پر اپنی مغفرت و رحمت کی تعریف کرتا ہے لمغفرۃ من الله و رحمة خیر ممّا یجمعون( ) کہیں بیویوں کو سکون اور آرام کا باعث اور اپنی خلقت کا کمال قرار دے کر اس میں رحمت قرار دینے کے بارے میں فرماتا ہے ان خلق لکم من انفسکم ازاواجاًلتسکنوا الیها و جعل بینکم مودّة ورحمة (روم:۲۱)تو کہیں پیمبر کی پیروی کی صورت میں دلوں میں راٗفت اور رحمت ایجاد کر کے فرماتا ہے وجعلنا فی قلو ب الذین اتبعوہ رأفة ورحمة (حدید :۲۷)کہیں موسی سے خطاب ہوتا ہے و ماکنت بجانب الطوراذنادینا ولکن رحمۃ من ربّک( قصص:۴۶)
لیکن جب رسول گرامی اسلام ؐکے بارے میں ارشاد ہوتا ہے تو یہ آیت دوسری آیتوں سے مختلف ، وسیع تر اور عظیم تر نظر آتی ہے،اور خدا وند تمام عالمین کیلئے ان کی ذات مقدّسہ کو رحمت کے طور پہ تعارف کرواتا ہے وما ارسلناک الّا رحمۃ للعالمین (انبیاء:۱۰۷)
مختلف آیات سے اور خاص طور پر اس آیہ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پیمبر گرامیؐکی ذات تمام امتوں کیلئے نور،ہادی ،مبشر،بشیر و نذیر ،کاظمین الغیظ وعافین عن النّاس اور عالم انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے ۔پیمبرؐ بشریت کو ہدایت کی جانب لے جانے والا ہے۔حبیب خدا اور خدا کی طرف سے لوگوں کو شفا اور جلا بخشنے والا ہے ،وہ حق کا طالب، بشریت کیلئے سعادت اور کمال کا طالب اور امت کے گناہوں کیلئے خدا کی بارگاہ میں بخشش کا طالب ہے۔
ابھی پیامبر گرامیؐتشریف نہیں لائے،حضرت عیسی(ع)انجیل میں احمدؐ کے آنے کی بشارت دے گئے، مسیحیت بھی ان کی منتظر ہے اور یہودیت بھی حتی معاشرے کا ہر فرد ان کا منتظر ہے جو سعادت ابدی تک ان کو پہنچائے ،ایسا کوئی منجی بشریت آنے والا ہے جس کی سب کو ضرورت اور انتظار ہے خاص طور پر جب کہ زما نہ بھی جا ہلیت کا ہے کہ جھان پر طرف خوف ودہشت کاما حول،ظالم و ستمگر طبقہ اژدھا کی طرح منہ کھولی ہو ئے ہے اور فقیرو ں ،غریبوں،حاجت مندوں اور ضعیفوں کو ہر آن نگلنے کی کوشش میں مصروف ہے ،ہرطرف غلامی کادوردورہ ہے لٹر کیوں کو اپنے لئے عیب،ذلت اور شرمندگی کا با عث سمجھکر زندہ درگور کیا جاتا ہے ۔
اچانک ہی حضرت عبد المطلب کے گھر میں ایک نور کا طلوع ہو تاہے جو انکے اور حضرت ابوطالب کی سرپرستی میں پروان چڑھتا ہے ،پرورش پاتاہے ،ابھی کسی کوان کے بارے میں کوئی خبر نہیں ،لیکن خداوند متعال حدیث قدسی میں ارشاد فرماتا ہے یا محمّد لولاک لما خلقت الافلاک ہاں یہ کوئی ایسی شخصیت ہے جسکی خاطر سب کچھ خلق کیا گیا ہے ،یہ آسمان ،زمین ،سیارے ،ستارے چاند، سورج بلکہ تمام موجودات ،حیوانات ،جمادات ونباتات و․․․ اسی عظیم ہستی کیلئے خلق ہوئے ہیں۔
پیامبرؐکو مبعوث ہونے کے بعد جو کہ اب ایک رہنما، ہادی ،نبی ،رسول اور امام ہیں وحی ہوتی ہے وماارسلناک الّارحمةللعالمین، اے پیمبر ؐ ہم نے تمھیں نہیں بھیجا مگر عالمین کیلئے رحمت بنا کر۔ ہم عالم کون ومکان میں (کہ جسکو عالم تکوین بھی کہتے ہیں )مشاہدہ کرتے ہیں،پیامبر گرامیؐقطعاً دنیا والوں کیلئے بلکہ ہر ایک شئی کیلئے باعث رحمت ہیں کیونکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ انکی خاطر اور ان ہی کے صدقے میں خلق ہوا ہے اور جو بھی اس کائنات اور عالم افلاک سے فیض حاصل کرتا ہے،ان ہی کے صدقے میں․․․․․․․اور اب عالم تشریع میں دیکھا جائے ،اگر دین نہ ہو تو یہ انسانی معاشرہ اور سماج جنگل کی مانند ہو جائے گا، جہاں پر دین نہ ہو تو وہاں پر ڈکیتی ،چوری،ظلم وستم کا دور دورہ ہو جاتا ہے، لیکن جب دین آجائے تو یہ چیزیں ختم کرکے انسان کو ایک کمال کی منزل تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے ،مختلف متعدد انبیاء آئے ،انسان کی ہدایت اور اسکو کمال تک پہنچانے کیلئے، لیکن ہر ایک پیامبر اپنی جگہ مطمئن ہے کہ اس کے بعد کسی کو آنا ہے یہاں تک کہ حضرت عیسی(ع) ۔ اب حضر ت عیسی آئے توا نھیں بھی معلوم ہے کہ عقل کل ،پیامبر خاتمؐآنے والے ہیں ۔جب وہ آئیں گے تو دین خاتم بھی لائیں گے جو کہ کامل ترین اور بہترین آئین ہوگا اور حضرت محمّد عربی ؐجب پیامبر خاتم بن کر آئے تو دین کامل بھی لائے تبھی خدا وند نے فرمایا انّ الدّین عند الله الاسلام یا غدیر خم کے مقام پر فرمایا الیوم اکملت لکم دینکم ․․․ جسکا مطلب یہ ہوا کہ کامل ترین اور محبوب ترین دین خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔اور یہ اسلام سب عالمین کیلئے ہے ،اگر سب عالمین کیلئے ہے تو پھر پیامبر ؐعالم تشریع میں بھی دنیا والوں کیلئے (رحمۃ للعالمین )رحمت ہیں ۔پس پیامبر اور ان کا لایا ہوا یہ آئین بھی دنیا والوں کیلئے رحمت ہے ،مایہ ناز و افتخار ہے، آرام اور اطمئنان کا باعث ہے ،سعادت اور کمال ابدی کا موجب ہے ،تر قی اور سکون کا سبب ہے ،طلم وستم اور ظالمین ومستکبرین سے نجات کا باعث ہے۔جو چیز ایسی ہو وہ رحمت نہیں تو اور کیا ہے ۔
تفسیروں میں ملتا ہے ،آنحضرت ؐکی ولادت کے دن ابو لہب چچا ہونے کی بنا پر خوشحال ہوا تھا،اب جب بھی ہر سال پیامبر ؐکی ولادت کا دن ہوتا ہے تو ابولہب کو اس خوشحالی کے صلے میں عذاب سے رخصت دی جاتی ہے ،اس دن ابو لہب بھی جو کہ ان کا سرسخت ترین دشمن تھا ،ان کی ذات واجود رحمت کے صدقے میں عذاب سے نجات پاتا ہے ،یہ رحمت صرف ان کے روز ولادت کی ہے ، خود ان کی ذات اقدس کیا ہوگی کہ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے رؤوف ،رحیم اور رحمۃ للعالمین ہیں۔ اگر ہم لوگ ان کی ذات اقدس کو اپنا محور قرار دیں ،اپنا مرکزی نقطہ قرار دیں اور سب مل کر پہلے ان کی ذات کے بارے میں دقیق مطالعہ کریں اور پھر ان کی فرمایشات پر حقیقی طور پر عمل کریں۔ تو پھر خود بخود یہ ذات اقدس ہمارے لئے باعث وحدت ہوجائے گی ، ہم سب کا ہدف اور مقصد ایک ہی قرار پائے گا اور جب کمزور اور ناتوان لوگ ایک ہی پرچم کے نیچے جمع ہوجائینگے توظالم اور مستکبرین کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوجائیگا۔
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب رحمۃ للعالمین آئے تو اس وقت قومیں مردہ تھیں ،ان کے ضمیر مردہ تھے،ظالم سامراج کے خلاف ان کے اندر آواز اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،ان کے پاس کوئی تمدّن وتہذیب نہ تھی،کسی قسم کا اتّحاد نہ تھا،سب قبیلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، قومی اور نسلی امتیاز برقرار تھا،منافقت،حسد کینہ توزی کا لوگوں کے سینوں میں لاوا ابل رہا تھا،معاملات اور امانات میں خیانت برتی جاتی تھی،عفت وناموس کا کوئی پاس و لحاظ نہ تھا ، بت پرستی،انسان پرستی اورجہالت اور بے غیرتی کا دور رائج تھا۔لییکن اب جو رحمۃ للعالمین بن کر ،پیام وحی لے کر رسول اسلام ؐتشریف لائے جو کہ پہلے سے امین اور صادق کے لقب سے لوگوں میں مشہور تھے۔ان کا یہ پرنور و رحمت کا پیام باعث بنا کہ مردہ قومیں بیدار ہو گئیں،ان کے ضمیر جاگ گئے،ایک دوسروں کے درمیان خون کی پیاس کی جگہ صیغۂ اخوتّ وبرادری نے لے لی،اب حقیقی انسانی تہذیب وجود میں آئی،وہ لوگ اتّحاد کے علمبردار بن گئے،ہر قسم کے امتیاز کی جگہ تقوی اور پرہیزگاری نے لے لی ،رذائل کی جگہ فضائل نے پر کی ،خیانت کی بجائے آج کا یہ انسان ایک دورے کی امانات،عفت اور ناموس کا محافظ بن گیا،بت پرستی وغیرہ کی جگہ خفا پرستی آگئی،جہالت کی جگہ علم کی روشنائی نے لے لی ، اب ہرانسان (منافقین کے بغیر)اس فکر میں تھا کہ کمال ،سعادت اور حقیقت ابدی تک رسائی حاصل کی جائے ۔اسی تلاش کے نتیجے میں کوئی سلمان بن گیا تو کوئی بوذر،کوئی مقداد تو کوئی عمّار․․․
اور پھر نبی اکرمؐ ایک محدود ومخصوص زمانے کے لئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے بلکہ خاتم النّبیین بن کر آئے تھے جس کی بنا ء پر وہ خاتم النّبیین ہونے کے ساتھ ساتھ روز قیامت تک رحمۃ للعالمین بھی ہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ،اگر ایسا ہے تو آج کا مسلمان کیوں اس رحمت سے مستفید نہیں ہوتا؟آج کا مسلمان کیوں عملی طور پر دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا بن کر رہ گیا ہے ؟کیوں آج کے زمانے میں صرف امت مسلمہ ہی پسماندہ رہ گئی ہے؟؟؟!!!
یقیناً اس کا سبب یہی ہے ہم نے رسول گرامی ؐکی تعلیمات ،فرمایشات اور احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ قرآن رسول اسلام ؐکو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونہ اور مطلوب ترین آئیڈیل قرار دیتا ہے لیکن ہم مغربی تہذیب کے شیدائی اور پیروکار ہوگئے ہیں ۔ہم مغرب زدہ ہوکر رہ گئے ہیں ،ہم نے ھی دین کو مغربیوں کی طرح افیون قرار دیدیا ہے یا یہ دین ہمارے لئے زندگیوں میں برائے نام اور صرف زبان تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ اگر آج ہم اس رحمت عظمی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے،رحمۃ للعالمین کو اپنے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیتے تو عالم استکبار اور ظالم سامراج کی جرات بھی نہ ہوتی کہ اسلام اور مسلمین کو امن ،آزادی اور آشتی کا مذہب ہے ،دہشت گردی کا الزام دیتا ۔آج امریکہ،برطانیہ اور خاص طورپوری دنیا کے بدن پر کینسر کے پھوڑے یعنی اسرئیل کی ہمت نہ ہوتی کہ مسلمانوں کی عزت اور غیرت کو للکارتایا ان پر حملہ کرتا۔آج دنیا میں ۵۵ سے زیادہ مسلمان ممالک ہیں۔اقتصاد کی شہ رگ یعنی تیل اور گیس بھی مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن صرف پیامبر گرامی ؐکی ذات اقدس کو آئیڈیل بنانے کی ضرورت ہے،اگر یہ کمی پوری ہوجائے ساری دنیا مسلمانوں کے قدموں میں گر جائے،آج اس اسوہ کا تقریباً ،کسی حد تک ایک نمونہ ایران اسلام اور انقلاب اسلامی ہے،یہی انقلاب اسلامی ایران ہے کہ جس نے ظلم وستم کے ایوانوں کو لرزہ براندام کر رکھا ہے ۔ایران اسلامی ہی کی بدولت آج چھوٹے چھوٹے اور کمزور ملکوں میں جرات پیدا ہوگئی ہے کہ وہ امریکہ جیسی سپر طاقت کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اسے للکاریں، دھمکیاں دیں ،جیسے پیامبر ؐکی اسلامی حکومت ،قیصر وکسریٰ کیلئے خطرہ بن گئی تھی،اسی طرح آج یہ ایران اسلامی بھی خطرہ بن کر رہ گیا ہے۔اگر آج افغانستان اور عراق کو فتح کیا جا رہا ہے تو کیوں ؟وہ تو ان کی اپنی ہی منتخب حکومتیں تھیں کیونکہ وہ حکومتیں اب انکے کام کی نہ رہیں،سوچا ،ان کو ہٹا کر اپنی من پسند کی حکومتیں لائی جائیں تا کہ وہاں پر فوجی اڈے قائم کئے جائیں،تاجیکستان ،گرجستان،ترکی وغیرہ اور خلیجی ممالک میں بھی فوجی اڈے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس اسلامی حکومت کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا خاتمہ کیا جاسکے ،اسکو نابود کیا جا سکے لیکن یہ مصرعہ مشہور ہے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
اور پھر خدادئے جبّار کا فیصلہ ہے والله متمّ نوره ولو کره الکافرون اور اسی خدائے عزیز کا فرمان ہے جاء الحق وزهق الباطل انّ الباطل کان زهوقاً․
ہاں یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم رحمۃ للعالمین کو قرآن کے دستور کے مطابق اپنے لئے اسوۂ حسنہ اور آئیڈیل قرار دیں،اخلاق محمدیؐسے سسرشار اور آراستہ ہوجائیں،کردار محمدیؐاور ان کی بعثت اوررسالت کے صحیح اہداف اور مقا صد کو سمجھیں ،خاتم الانبیاء ؐاور ان کے اوصیاء کو رحمت الہی سمجھ کر ان کی فرمایشات پر عمل کریں۔تبھی ہماری دنیا بھی آباد ہو جائے گی اور آخرت بھی اللّهم اجعل محیای محیا محمّد وآل محمّد ومماتی ممات محمّد وآل محمّد علیهم السلام۔آمین۔
اگر ابو مہدی اور ایرانی بھائیوں کی قربانیاں نہ ہوتیں تو پوپ موصل نہیں جاسکتے تھے، علماء کونسل عراق کے سربراہ
عراقی علماء کونسل کے صدر شیخ خالد الملا نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ عراق پھر سے ایک خودمختار ریاست بن جائے، مزید کہا کہ پوپ فرانسس کے دورے پر سنی سیاسی ناراضگی بلاجواز ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پوپ فرانسس سے ملاقات سنی دیوان وقف کی ہم آہنگی سے انجام پائی۔
شیخ الملا نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ آیت اللہ سیستانی کے بر وقت اور لاثانی مؤقف کی وجہ سے ویٹیکن نے ان کی قدردانی کی،کہاکہ پوپ فرانسس کے سفر میں سب سے اہم بات حضرت آیت اللہ سیستانی سے ان کی ملاقات تھی۔
عراقی علماء کونسل کے سربراہ نے اس بات پر زور دیاکہ اگر آیت اللہ سیستانی کے جہاد کفائی کا فتوی اور امریکہ کے توسط سے قتل ہونے والے ابو مہدی المہندس سمیت ہمارے اسلامی جمہوریہ ایران کے بھائیوں کی شہادت اور قربانیاں نہ ہوتیں،تو پوپ فرانسس موصل کا سفر نہیں کرسکتے تھے۔
پیغمبر اعظم(ص) کی بعثت کے اہداف و مقاصد
انسانی حقوق یا فرائض کا کوئی ضابطہ یا آئین موجود نہ تھا۔ اغواء، قتل و غارت اور اپنی لڑکیوں کو زندہ در گور کرنا معمول زندگی تھا۔ ذرا سی بات پر تلواریں نکل آتیں اور خون کی ندیاں بہا دی جاتیں۔ انسانیت ہر لحاظ سے تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑی تھی۔ ان حالات میں رحمت حق جوش میں آئی اور حضور اکرم (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے۔ دنیا چشم زدن میں گہوارہ امن و امان بن گئی۔ راہزن رہنماء بن گئے۔ جاہل شتربان اور صحرا نشین جہان بان و جہان آراء بن گئے اور سرکش لوگ معلم دین و اخلاق بن گئے۔ تاریخ انسانیت کا یہ عظیم واقعہ دنیا میں ایک بڑے انقلاب کا باعث بنا اور اس نے پوری تاریخ انسانیت پر اثرات چھوڑ دیئے۔ دنیا میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں، انبیائے اولوالعزم مبعوث ہوئے ہیں اور بہت سے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں، لیکن رسول اکرم (ص) کی بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ نہیں ہے اور اس سے بڑے واقعہ کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عالم میں خداوند متعال کی ذات کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عظیم ہستی کوئی نہیں ہے اور آپ کی بعثت سے بڑا واقعہ بھی کوئی نہیں ہے۔ ایک ایسی بعثت کہ جو رسول خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہے اور عالم امکان کی عظیم ترین شخصیت اور عظیم ترین الٰہی قوانین کی بعثت ہے۔
حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کےبارے میں فرماتے ہیں :اس نے پیغمبروں کو بھیجا، تاکہ اس کے بندے توحید اور صفات خدا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے، سیکھ لیں اور انکار و عناد سے اجتناب کے بعد خدا کی واحدانیت، ربوبیت اور خالقیت پر ایمان لائیں۔ آپ فلسفہ نبوت کے بارے میں بعض نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔
1۔ خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے عہد و پیمان کی تجدید: آپؑ فرماتے ہیں :{لیستادوا میثاق فطرته} تاکہ وہاں سے فطرت کی امانت کو واپس لیں۔
2۔ خداوند متعال کی نعمتوں کی یاد آوری:{و یذکروهم منسی نعمته} انہیں اللہ کی بھولی ہوئی نعمت یاد دلائیں۔
3۔ خداوند متعال کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا، تاکہ اس کے ذریعہ اتمام حجت ہوسکے، {ویحتجوا علیهم بالتبلیغ} تاکہ وہ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں۔
4۔ لوگوں کی عقلوں کو ابھارنا اور انہیں باور کرانا : {و یثیروا لهم دفائن العقول} تاکہ وہ ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
5۔ خداوند متعال کی حکمت اور قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا: تاکہ وہ انہیں قدرت الٰہی کی نشانیاں دکھلائیں، ان کے سروں کے اوپر موجود بلند چھت اور ان کے زیر قدم گہوارے کے ذریعے۔۔۔۔}
6۔ انبیاء کے ذریعے قابل ہدایت افراد پر اتمام حجت کرنا: اللہ نے انبیاء کو اپنے بندوں پر اپنی حجت بنا دیا، تاکہ بندوں کو یہ بہانہ نہ ملے کہ ان کے عذر کا خاتمہ نہیں کیا گیا ہے۔
قرآن کریم اتمام حجت کے علاوہ مندرجہ ذیل امور کو بھی انبیاء کی بعثت کے اہداف میں شمار کرتا ہے:
1۔ لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دینا اور طاغوت سے دور رکھنا: یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے، تاکہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو۔
2۔ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف نافذ کرنا: بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں۔
3۔ انسانوں کی تعلیم و تربیت: اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو انہی میں سے تھا، تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے، ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔
4۔ باہمی اختلاف کی صورت میں فیصلہ کرنا: (فطری لحاظ سے) سارے انسان ایک قوم تھے۔ پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کریں۔
مذکورہ بالا مطالب سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ نبوت انسان کی فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی زندگی سے مربوط ہے اور انبیاء کی ہدایت بھی انسان کی زندگی کی تمام جہات کو شامل ہے۔ اگرچہ عقل و حس بھی انسان کی ہدایت میں کردار ادا کرتی ہیں، لیکن حقیقت میں جس طرح انسان عملی و عقلی ہدایت کا محتاج ہے، اسی طرح وحی پر مبنی ہدایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور ان دونوں ہدایتوں کا سرچشمہ ذات الٰہی ہے، جو انسانوں پر حجت ہے۔
جناب ام فروہ
تاریخ اسلام کی باعظمت خواتین میں سے ایک باشرف خاتون جناب فاطمہ بھی ہیں جو ام فروہ کے لقب سے مشہور اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور فرزند رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں آپ نے ان دو امام ہمام سے بہت زيادہ علوم اور فضائل و کمالات حاصل کئے ۔
بغداد کے مشہور و معروف مورخ و دانشور علی بن حسین مسعودی سے روایت ہے کہ ام فروہ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے فضل و کمال اور تقوی و پرہیزگاری میں ممتاز تھیں ۔
اس عظیم المرتبت خاتون کی تاريخ ولادت اور امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی تاريخ کا صحیح علم نہیں ہے لیکن اس مقدس شادی کے نتیجے میں دو عظیم فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ اپنی مادرگرامی کے حسن عمل اور تقوی و پرہیزگاری کا ذکر فرمایا کرتے تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ کی عظمت ایمان اور کمال معنویت کے بارے میں فرماتے ہیں : میری والدہ ماجدہ صاحب ایمان خواتین میں سے ہیں جو تقوی و پرہیزگاری سے مملو ، بہترین روش و اسلوب سے آراستہ اور نیک خاتون تھیں اور خداوندمتعال بھی نیک لوگوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع قول کو سورہ نحل کی آیت ایک سو اٹھائیس سے اخذ کیا اور اپنی مادرگرامی کے نیک و پسندیدہ اوصاف کوبیان کیا ہے ۔
اس با فضیلت خاتون نے معرفت اور تقوی، انسانی و اخلاقی فضائل و کمالات کے بلند مقامات پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے بے شمار حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور ان کا شمار راویان حدیث میں ہوتا ہے۔
جناب ام فروہ ایک عقلمند و بادرایت اور با وفا خاتون تھیں روایت میں ہے کہ نوے ہجری قمری میں مدینے میں خطرناک چیچک کی بیماری پھیل گئی اور بعض بچے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے اگر چہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر مبارک سات برس تھی اور سات برس سے دس برس تک کے بچوں کو چیچک کی بیماری بہت ہی کم ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ام فروہ امام علیہ السلام سمیت اپنے تمام بچوں کو لے کر مدینے سے باہر چلی گئیں تاکہ چیچک جیسی مہلک بیماری آپ کے بچوں میں سرایت نہ کرجائے۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانے میں اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت کرلیا کرتے تھے تاکہ یہ بیماری انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لےلے۔
جناب ام فروہ اپنے بچوں کو لے کر مدینے سے کچھ فاصلے پر طنفسہ نامی علاقے میں چلی گئیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں احساس ہوا کہ خود وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئیں ہیں یہ عظیم خاتون بجائے اس کے کہ اپنی فکر کرتیں انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے درخواست کی کہ بچوں کو طنفسہ سے ایسی جگہ لے جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت تمام بچوں کو وہاں سے ایک دیہات میں منتقل کردیا گیا ۔
ادھر مدینے میں امام محمد باقر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کی شریکہ حیات ام فروہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں چونکہ یہ خطرناک بیماری تھی اور اس زمانے میں اس کا علاج نہ تھا ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے درس ختم کیا تاکہ اپنی شریکہ حیات کی عیادت کے لئے طنفسہ جائیں امام علیہ السلام نے طنفسہ جانے سے پہلے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر آئے اور ام فروہ کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا تو کہا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں کیا آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں چیچک جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ چیچک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی عیادت کے لئے نہیں جایا کرتے کیونکہ ممکن ہے وہ بیماری عیادت کرنے والے میں بھی سرایت کر جائے ۔
المختصر یہ کہ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے جناب ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر ان میں نہ رہا ان کی صحت یابی ایک نادر واقعہ تھا کیونکہ چیچک جیسی مہلک و خطرناک بیماری عمر رسیدہ کو بہت ہی کم ہوتی ہے اور اگر سرایت کرجائے تو مریض شفا یاب نہیں ہوتا ۔اور اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے کہ جو عظمت و فضیلت کے عظیم منارہ تھے ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی ام فروہ صحت یابی کے بعد مدینے واپس آگئیں لیکن چونکہ چیچک کی وبا ابھی تک مدینے میں تھی اس لئے اپنے ساتھ بچوں کو مدینہ نہیں لائيں-
جناب ام فروہ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن اس عظیم و بہادر خاتون کی قبر مدینے میں ہے ۔