سلیمانی

سلیمانی

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ  نے یمن کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ 6 سالہ جنگ میں امریکہ نےسعودی عرب  کی بھر پور حمایت کی ہے اور وہ سعودی عرب کے جارح اتحاد میں شامل ہے لہذا امریکہ کو یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے سنگين جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یمنی عوام کے دشمنوں نے گذشتہ 6 برسوں میں سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے یمن کے نہتے عربوں پر ہونے والے مظالم اور جرائم میں امریکہ اور سعودی عرب برابر کے شریک ہیں، جنھوں نے یمن کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کردیا ، یمن کی شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری کرکے سیکڑوں مساجد ، اسپتال ، گھروں اور آثار قدیمہ کو نیست و نابود کیا ۔  خطیب زادہ نے کہا کہ امریکہ کو یمن کے بارے میں دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے اپنے سنگین جرائم کے بارے میں جواب دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ یمن کے بارے میں ایران کا مؤقف پہلے سے ہی واضح ہے کہ یمن کے مسائل کا حل فوجی یلغار کے ذریعہ ممکن نہیں بلکہ اس کا حل سیاسی مذاکرات کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور ایران آج بھی اپنے مؤقف پر باقی ہے۔

 ایران کے شہر تبریز کے عوام کی جانب سے اس وقت کی آمر شہنشاہی حکومت کے خلاف 18 فروری 1978ء (29 بہمن 1356ء) کے روز کئے جانے والے تاریخی قیام کی سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تبریز و آذربائیجان کی عوام سے خطاب کیا ہے۔ اس موقع پر رہبر انقلاب نے تبریزی عوام کو تاریخی قیام کی سالگرہ اور ماہ مبارک رجب کے آغاز پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ 29 بہمن 1356ء کے روز رونما ہونے والا واقعہ ایک جہادی اقدام اور تبریزی عوام کے لئے باعث افتخار امر ہے، تاہم (ایرانی علاقے) آذربائیجان کے اعزازات صرف انہی اقدامات تک محدود نہیں۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ملک میں ممتاز شخصیات کے وجود کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آذربائیجان کا علاقہ ممتاز شخصیات کا سرچشمہ ہے، جس نے گذشتہ 150 سال میں دنیا کو نہ صرف بے شمار عظیم فقہاء، حکماء اور سائنسدان دیئے ہیں بلکہ آذربائیجان علم و ہنر، شعر و ادب اور تبریزی ہنر کی ماہر شخصیات کا بھی اصلی مقام ہے جن کا ایک نمونہ مرحوم شہریار رحمت اللہ علیہ ہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہر آئے روز ملک کے خلاف ہونے والی نت نئی سازشوں کی اصلی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کبھی نہیں رُکتا اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کس قدر تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے، البتہ ان شاء اللہ ایرانی قوم، حکام اور جوانوں کی طاقت ان سازشوں کو ناکام بنا کر رکھ دے گی۔ رہبر انقلاب نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ انقلاب اسلامی کے ثمرات میں سے ہے، جس کو پہچاننا انتہائی ضروری ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر نے تاکید کی دشمن اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی خاطر نفسیاتی جنگ سے فائدہ اٹھاتا اور ہماری ناکامیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، البتہ ہماری ترقی کو ہرگز ظاہر نہیں ہونے دیتا اور جانتے بوجھتے اُنہیں دنیا سے چھپاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کاموں سے دشمن کا ہدف عوام کو مستقبل کے بارے بدبین کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے اُسے جھوٹ بولنے سے بھی کوئی عار نہیں۔

 

 


آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں ایرانی جوہری معاہدے کی جانب اشارہ کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے بطور کافی گفتگو کی جا چکی ہے، تاہم اب بھی بہت سی باتیں کہی اور وعدے دیئے جا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ آج اس حوالے سے میں صرف یہی کہوں گا کہ ہم نے خوشنما باتیں اور وعدے بہت سنے ہیں، جن کی بعدازاں خلاف ورزی بھی کر دی جاتی ہے، تاہم اس مرتبہ صرف عمل! انہوں نے کہا  کہ جب ہم (معاہدے کے) دوسرے شرکاء کی جانب سے عمل ہوتا دیکھیں گے تو تب ہی عمل کریں گے اور اس مرتبہ اسلامی جمہوریہ ایران، حسب سابق صرف باتوں کے ذریعے قائل نہیں ہوگا

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حسین شاہ مرادی کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے امریکی اور برطانوی ویکسین کی در آمد پر پابندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں عوام کی اطلاع کے بغیر ان پر غیر قانونی تجربات کرتی رہتی ہیں۔

1 : امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے 1996 میں نائجیریا کے لوگوں پرگردن توڑ بخار کی دوا کا تجربہ ان کی اطلاع کے بغیر انجام دیا ، حتی اس سلسلے میں فائزر نے نائجیریا کی حکومت سے بھی اجازت نہیں لی۔اور اس آزمائش کے دوران 11 بچے ہلاک ہوگئے جبکہ 200 بچے بینائی اور سماعت کی صلاحیت سے محروم ہوگئے۔

2 : ایم کے اولٹرا پروگرام جو امریکی سی آئی اے کی جانب سے ذہن کنٹرول کرنے کے منصوبہ سے معروف ہے یہ ایک مخفی منصوبہ تھا۔ اس منصوبہ میں امریکہ اور کینیڈا کے شہریوں پر انکی اطلاع کے بغیر تجربات کئے گئے جو غیر قانونی تھے۔

3 : سن 1966 میں ہنری بیچر نے اپنے ایک مقالہ میں شواہد کے ساتھ انکشاف کیا کہ  امریکی ریسرچ اور تحقیقات کے ادارے غیر قانونی طور پر سرطان کے  زندہ سیل بیماروں کے بدن میں منتقل کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اس قسم کے غیر قانونی تجربات امریکہ ميں عام طور پر رائج ہیں۔

4 : بیسویں صدی میں امریکی ماہرین نے ایک دوا ڈپوپروورا کا زیمبابوے کی خواتین پر تجربہ کیا اور بعد میں پتہ چلا کہ یہ دوا آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور سن 1981 میں زیمبابوے کی حکومت نے اس دوا کو ممنوع قراردیدیا۔

5 : سن 1994 میں امریکی دوا ساز کمپنیوں نے ایڈز کی دوا " اے زیڈ ٹی " کا افریقہ کی 17000 خواتین پر تجربہ کیا اور اجازت کے بغیر اصل دوا کے بجائے پلاسیبو کھلائی گئی جس کے نتیجے میں 1000 بچے ایڈز میں مبتلا پیدا ہوئے۔

6 : برطانیہ کے قومی آرکائیو کی خفیہ اسناد کے شائ‏ع ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ سن 30 اور 40 کی دہائیوں ميں برطانوی فوج نے اپنے ہی فوجیوں پر مسٹرڈ گیس کا استعمال کیا تاکہ یہ جان لیں کہ اس کا تخریبی اثر بھارتیوں پر زیادہ ہوتا ہےیا برطانوی شہریوں پر۔ سن 1950 میں ڈونلڈ میڈسن 200 ملی گرام سارین کے ذریعہ ہلاک ہوگیا تھا اسے کہا گيا تھا کہ  یہ دوا سردی سے بچانے کی دوا ہے۔

7 : سن 1946 سے 1948 تک امریکی ماہرین  نے گوئٹمالا کی حکومت کے تعاون سے گوئٹمالا کے 1500 بیماروں پر تجربات کئے اور انھیں سفلیس اور سوزاک کی بیماریوں میں مبتلا کردیا۔ اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلق پر مجبور کرتے تھے تاکہ بیماری منتقل ہو اور امریکی دوا سازوں کے اس مجرمانہ قعل پر کئي سال بعد  سابق صدر اوبامہ اور ہیلری کلنٹن نے معذرت خواہی کی تھی۔

مذکورہ بالا تجربات اور دیگر بہت سے امور اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکی اور برطانوی دواساز کمپنیاں قابل اعتماد نہیں ہیں اور ان کی ویکسینوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا عقل اور منطق کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ملک میں تیار کردہ دواؤں اور ویکسینوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رسول گرامی اسلام کا ارشاد ہے کہ "رجب" جنت میں ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ جو شخص اس ماہِ مبارک میں ایک دن کا روزہ رکھے گا تو وہ ضرور اس نہر سے پانی پئے گا۔ رجب، شعبان، رمضان کے مہینے بڑی فضیلت والے ہیں، ان کی فضیلت میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ "رجب اللہ تعالی کا مہینہ ہے اور کوئی مہینہ بھی اس کے احترام اور فضیلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس مہینہ میں کفار سے لڑائی حرام ہے، پھر فرمایا شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے، جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا، وہ اللہ تعالی کی بہت بڑی خوشنودی کا مستحق ہوگا اور خدا کا غضب اس سے دور رہے گا، اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر بند کر دیا جائے گا"۔ 

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے نقل ہے کہ جو شخص اس ماہ میں ایک دن روزہ رکھے گا تو جہنم کی آگ اس سے ایک سال کے راستہ کے برابر دور ہو جائے گی، اور جو تین دن کے روزے رکھے تو اس پر جنت واجب ہو جائے گی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "رجب کا مہینہ میری امت کے لئے استغفار کا مہینہ ہے، پس اس مہینے میں گناہوں کی معافی مانگو کیونکہ خداوند عالم بہت بخشنے والا اور مہربان ہے، اور رجب کو اصبّ بھی کہتے ہیں کیونکہ اللہ کی رحمت اس مہینہ میں میری امت پر زیادہ ہے، اور اس ماہ کا ذکر "اَستَغفراللہَ وَاَسئَلُہُ التَّوبۃَ" ہے۔ 

ابن بابویہ نے معتبر سند سے سالم سے روایت کی ہے کہ میں ماہ رجب کے آخر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، جب آپ کی نگاہ مجھ پر پڑی تو آپ نے سوال کیا، کیا اس مہینے کا روزہ رکھا ہے، میں نے کہا خدا کی قسم نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ تجھ سے اتنا ثواب فوت ہو گیا کہ جس کے اندازہ کو صرف خداوندعالم جانتا ہے، کیونکہ خدا کے نزدیک یہ ماہ بہت محترم ہے۔ میں نے عرض کی اے فرزند رسول، اگر میں اس کے باقی دنوں میں روزہ رکھ لوں تو ثواب پا لوں گا، آپ نے فرمایا، اے سالم جو اس کے آخری دن کا روزہ رکھ لے تو خداوندعالم اسے سکرات موت کی سختی اور موت کے بعد والے خوف اور قبر کے عذاب سے محفوظ رکھے گا اور جو شخص آخری دو دن کے روزے رکھے تو وہ پل صراط سے آسانی سے گزرے گا اور جو کوئی اس کے آخری تین دن کے روزے رکھے تو وہ روز قیامت کے بہت بڑے خوف، اور اس دن کی سختی سے محفوظ رہے گا اور جہنم سے برائت ہو گی، اور جو روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوتو وہ ہر دن سو مرتبہ اس تسبیح کو پڑھے تاکہ وہ اس دن کے روزہ کے ثواب کو پا لے، وہ تسبیح یہ ہے" سبحان الاِلَہَ للہِ الجلیلِ سبحانَ مَن لاَ یَنبغیِ التَّسبیح اِلّا لَہُ سُبحانَ الاَعَزِّ الاکرمِ، سبحانَ َمن لَبِسَ العِزّ وَھوَ لَہُ اَھلُ۔1 

اس ماہ کی برکتوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب ہمارے پانچویں امام، امام محمد باقر علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے، ہمارے پانچويں پيشوا امام محمد باقر (ع) جمعہ كے دن پہلى رجب 57ھ ق كو شہر مدينہ ميں پيدا ہوئے۔ 2۔ آپ كا نام محمد، كنيت ابوجعفر اور مشہورترين لقب باقر ہے۔ روايت میں نقل ہے كہ رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے انہیں اس لقب سے ملقب فرمايا تھا۔ امام محمد باقر (ع) ماں اور باپ دونوں طرف سے فاطمى اور علوى تھے، اس لئے كہ ان كے والد امام زين العابدين امام حسين (ع) كے فرزند تھے، اور ان كى والدہ گرامى ''ام عبداللہ'' امام مجتبى (ع) كى بيٹى تھيں۔ آپ نے امام زين العابدين (ع) جيسے باپ كى پرمہر آغوش ميں پرورش پائی اور بافضيلت و باتقوا ماں كى گود میں پلے بڑھے۔ وہ ماں جو عالمہ اور مقدسہ تھيں، امام جعفر صادق عليہ اسلام سے منقول ہے كہ '' ميرى جدّہ ايسى صديقہ تھيں كہ اولاد امام حسن مجتبى (ع) ميں كوئی عورت انكى فضيلت كے پايہ كو نہ پہنچ سكی۔ 3

امام محمد باقر (ع) كى عمر چار سال سے بھی كم تھى كہ جب كربلا كا خونين واقعہ پيش آيا۔ آپ (ع) اپنے جد حضرت اباعبداللہ الحسين (ع) كے پاس موجود تھے۔ واقعہ كربلا كے بعد 34 برس آپ (ع) نے اپنے والد بزرگوار كے ساتھ زندگى گذاری، آپ جوانى ہى كے زمانہ سے علم و دانش، فضيلت و تقوٰى ميں مشہور تھے یہاں تک کہ آپکو مسلمانوں كی علمى مشكلات كے حل كا مرجع سمجھا جانے لگا۔ جہاں كہيں بھى ہاشميين، علويين اور فاطميين كے فضائل اور بلندى كا ذكر ہوتا، آپ (ع) كو ان تمام مقدسات، شجاعت اور بزرگى كا لوگ تنہا وارث جانتے تھے۔ آپ (ع) كى شرافت اور بزرگى کا اندازہ پيغمبر (ص) کی اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنے ايک بزرگ صحابی، جابر ابن عبداللہ انصارى (رض) سے فرمائی، '' اے جابر تم زندہ رہو گے اور ميرے فرزند محمد ابن على ابن الحسين (ع) كہ جن كا نام تورات ميں ''باقر'' ہے سے ملاقات كرو گے۔ ملاقات ہونے پر ميرا سلام اسے پہنچا دينا''۔ پيغمبر (ص) رحلت فرما گئے۔ جابر (رض) نے ايک طويل عمر پائی۔
 
آپ ايک دن امام زين العابدين (ع) كے گھر تشريف لائے اور امام محمد باقر (ع) كو جو اس وقت چھوٹے سے تھے ديكھا، جابر نے اس بچے سے كہا، ذرا آگے آئيے امام (ع) آگے آ گئے، جابر نے كہا، ذرا مڑ جايئے امام مڑ گئے، جابر نے ان كے جسم اور چلنے كا انداز ديكھا اس كے بعد كہا، رب كعبہ كى قسم، يہ ہو بہو آئينہ پيغمبر (ص) ہيں، پھر انہوں نے امام زين العابدين (ع) سے پوچھا'' يہ بچہ كون ہے؟ آپ نے فرمايا، ميرے بعد امام ميرا بيٹا محمد باقر (ع) ہے، جابر اپنی جگہ سے اٹھے اور آپ نے امام كے قدموں كا بوسہ ليا اور كہا، اے فرزند پيغمبر (ص) ميں آپ پر نثار، آپ اپنے جد رسول خدا كا سلام و درود قبول فرمائيں انہوں نے آپ كو سلام كہلو ايا ہے۔ شعور کی منزل دیکھئے کہ اس کم سنی کے باوجود امام محمد باقر (ع) كى آنكھيں ڈبڈبا گئيں اور آپ (ع) نے فرمايا، جب تک آسمان اور زمين باقى ہے اس وقت تک ميرا سلام و درود ہو، ميرے جد پيغمبر (ص) خدا پر اور تم پر بھى سلام ہو اے جابر، تم نے ان كا سلام مجھ تک پہنچايا۔

اخلاق و عادات كے اعتبار سے حضرت امام محمد باقر (ع)، متواضع، سخی، مہربان اور صابر تھے اور جيسا كہ جابر نے كہا تھا ہو بہو اسلام كے عظيم الشان پيغمبر (ص) كا آئينہ تھے۔ آپکی مہربانی اور عفو گذشت کا یہ عالم تھا کہ شام كا ايک شخص مدينہ ميں ٹھہرا ہوا تھا اور امام (ع) كے پاس بہت آتا رہتا تھا اور كہتا تھا كہ تم سے زيادہ روئے زمين پر اور كسى كے بارے ميں ميرے دل ميں بغض و كينہ نہيں ہے، تمہارا اور تمہارے خاندان سے زيادہ ميں كسى كا دشمن نہيں ہوں، اگر تم يہ ديكھتے ہو كہ ميں تمہارے گھر آتا جاتا ہوں تو يہ اس لئے ہے كہ تم ايک بہترین سخنور ہو، اس كی تمامتر بےادبیوں کے باوجود باوجود امام (ع) اس كے ساتھ حسن سلوک سے پيش آتے تھے اور اس سے بڑى نرمى سے بات كرتے تھے، كچھ دنوں كے بعد وہ شخص بيمار ہوا اس نے وصيت كى كہ جب ميں مرجاؤں تو امام محمد باقر (ع) ميرى نماز جنازہ پڑھائيں، جب اس كے متعلقين نے اسے مردہ ديكھا تو امام (ع) كے پاس پہنچ كر عرض كى كہ وہ شامى مرگيا اور اس نے وصيت كى ہے كہ آپ اس كى نماز جنازہ پڑھائيں۔ امام نے فرمايا، وہ مرا نہيں ہے جلدى نہ كرو يہاں تک كہ ميں پہنچ جاؤں، اس كے بعد آپ اٹھے اور آپ نے دو ركعت نماز پڑھى اور ہاتھوں كو دعا كے لئے بلند كيا اور تھوڑى دير تک سجدہ میں رہے، پھر شامى كے گھر گئے اور بيمار كے سرہانے بيٹھ گئے، اس كو اٹھا كر بٹھايا، اس كى پشت كو ديوار كا سہارا ديا اور شربت منگوا كر اس كے منہ ميں ڈالا اور اس كے متعلقين سے فرمايا كہ اس كو ٹھنڈى غذائيں دى جائيں اور خود واپس چلے گئے، ابھى تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ شامى كو شفا مل گئي وہ امام (ع) كے پاس آيا اور عرض كرنے لگا،''ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ، لوگوں پر خدا كى حجت ہيں''۔5

دوسرے تمام آئمہ كى طرح امام محمد باقر (ع) كا علم بھى چشمہ وحى سے فيضان حاصل كرتا تھا، آپ علم لدنی کے مالک تھے، جابر بن عبداللہ آپ كے پاس آتے اور آپ كے علم سے بہرہ ور ہوتے اور بار بار عرض كرتے تھے كہ ''اے علوم كو شگافتہ كرنے والے ميں گواہى ديتا ہوں كہ آپ بچپن ہى ميں علم خدا سے مالا مال ہيں۔ 6 اہلسنت كے علماء ميں سے ايک بزرگوار عبداللہ ابن عطاء مكى فرماتے تھے كہ ميں نے امام محمد باقر (ع) كے سامنے اہل علم كو جس طرح حقير اور چھوٹا پايا ہے ويسا كسى كے سامنے نہيں پایا۔ حكم بن عتيبہ لوگوں كے نزديک جن كا علمى مقام بہت بلند تھا، امام محمد باقر (ع) كے سامنے ان كى حالت يہ ہوتى تھى كہ جيسے ايک شاگرد استاد كے سامنے''۔ 7 آپ كا علمى مقام ايسا تھا كہ جابر بن يزيد جعفى ان سے روايت كرتے وقت كہتے تھے ''وصى اوصياء اور وارث علوم انبياء محمد بن على بن الحسين نے ايسا كہا ہے ...''۔ 8 

یوں تو سارے ایام خداوند متعال کے ہیں اور خدا ہی کی مخلوق ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض مہینوں اور ایام کو خاص فضیلت اور شرافت دی گئی ہے۔ ماہ رجب، شعبان اور رمضان کی فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ روایات وارد  ہوئی ہیں، حتیٰ کہ ماہ رجب کے بارے میں یہاں تک ملتا ہے کہ کوئی بھی مہینہ حرمت، فضیلت اور شرافت کے لحاظ سے اس مہینے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ یہ مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن میں کافروں سے بھی جنگ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ?پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا "رَجَبٌ شَهْرُ اللَّهِ، وَشَعْبَانُ شَهْرِي، وَ رَمَضَانُ شَهْرُ أُمَّتِي»؛"(1) "رجب خدا کا مہینہ، شعبان میرا اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔" جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، یہ خدا کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے اور اس سے عذاب الہیٰ دور ہوتا ہے اور جہنم کے دروازے اس کے لئے بند ہوتے ہیں۔

?امام کاظم علیہ السلام سے روایت ہے: "رَجَبٌ نَهَرٌ فِي اَلْجَنَّةِ أَشَدُّ بَيَاضاً مِنَ اَللَّبَنِ وَ أَحْلَى مِنَ اَلْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْماً مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اَللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْ ذَلِكَ اَلنَّهَرِ." رجب جنت کی ایک نہر کا نام ہے، جو دودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھی ہے، جس نے اس مہینے میں ایک دن روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اس کو اس نہر سے سیراب کرے گا۔"(2) ?پیغمبر کی ایک اور روایت ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں: اِنّ فِی الجَنَّتِہ قَصرَاً لایَدخُلُہ اِلّا صَوّامُ رَجَب، "جنت میں ایک محل ہے، اس میں رجب میں روزہ رکھنے والوں کےعلاوہ کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔"(3) ? امام کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ رَجَب شَہرٌ عَظِیمٌ یُضَاعَفُ فِيہ الحَسَنَاتُ وَیَمحُوا فَيہ السَّیِّئاتِ "رجب ایک بہت عظیم مہینہ ہے کہ خداوند عالم اس میں نیکیوں کو دگنا اور گناہوں کو محو کر دیتا ہے۔" ?پیغمبر صلی الله عليه وآلہ وسلم فرماتے ہیں: رَجَبٌ شَهرُ اللّه ِالأصَبُّ يَصُبُّ اللّه ُ فِيهِ الرَّحمَةَ عَلى عِبادِهِ؛ "رجب خدا کی رحمتوں کی بارش برسنے کا مہینہ ہے، خداوند اس مہینے میں اپنی رحمتیں برساتا ہے۔"(4)

? مرحوم شیخ صدوق نے کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ میں روایت نقل کرتے ہیں: "مَنْ صَامَ يَوْماً مِنْ رَجَبٍ فِي أَوَّلِهِ أَوْ فِي‏ وَسَطِهِ أَوْ فِي آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ رَجَبٍ فِي أَوَّلِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي وَسَطِهِ وَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي آخِرِهِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ وَ مَنْ أَحْيَا لَيْلَةً مِنْ لَيَالِي رَجَبٍ أَعْتَقَهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ وَ قَبِلَ شَفَاعَتَهُ فِي سَبْعِينَ أَلْفَ رَجُلٍ مِنَ الْمُذْنِبِينَ وَ مَنْ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فِي رَجَبٍ ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ أَكْرَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الْجَنَّةِ مِنَ الثَّوَابِ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَ لَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ" "جس نے رجب کے شروع میں ایک دن روزہ رکھا یا درمیان میں ایک دن رکھا یا آخر میں روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہوں کو بخش دیا جائے گا اور جس نے رجب کے شروع اور درمیان اور آخر میں تین تین دن روزہ رکھا، اس کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے اس مہینے کی کسی رات میں احیاء کیا (یعنی  پوری رات خدا کی عبادت میں مصروف رہا) خدا اسے جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا اور ستر ہزار گناہگاروں کی  شفاعت قبول کرے گا، جس نے رجب میں رضائے خدا کی خاطر صدقہ دیا، خدا اس کو جنت میں اس قدر عزت دے گا، جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوگی نہ کسی کان نے سنی ہوگی، نہ کسی انسان کے دل میں خیال آیا ہوگا۔"(5)

 ☀️امام صادق (ع) سے منقول ہے کہ رجب میری امت کے لیے استغفار کا مہینہ ہے۔۔
پس اس مہینے میں مغفرت طلب کریں، خدا مہربان اور مغفرت کرنے والا ہے اور رجب کو اصبّ کہا گیا ہے کیونکہ اس مہینے میں اللہ کی طرف سے رحمتیں بکثرت نازل ہوتی ہیں۔ پس بہت زیادہ استغفراللہ و اسئلہ التوبہ پڑھا کرو(6) *?رجب کی فضیلت امام  رضا علیہ السلام کی نظر میں*  حسن ابن علی ابن فضال امام رضا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جس نے رجب کی پہلی کو ثواب اور جزا کے لئے  روزہ رکھا اس پر جنت واجب ہے اور جس نے مہینے کے درمیان میں روزہ رکھا، اللہ ربیعہ اور مصر کے برابر (جو کہ دو بڑے بڑے قبیلے تھے) شفاعت کرائے گا، جس نے آخر رجب میں ایک دن روزہ رکھا، خدا اس کو اہل بہشت میں سے قرار دیتا ہے اور اس کے والدین، اولاد، بہن بھائیوں، چچاوں، پھوپھیوں ماموں، خالاوں، دوستو اور ہمسایوں تک کی شفاعت قبول کرتا ہے، اگرچہ ان میں کوئی جہنم کا مستحق ہی کیوں نہ ہو۔"(7)

❄️رسول خدا سے منقول ہے: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالَى نَصَبَ فِی السَّمَاءِ السَّابِعَهِ مَلَکاً یُقَالُ لَهُ الدَّاعِی فَإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَجَبٍ یُنَادِی ذَلِکَ الْمَلَکُ کُلَّ لَیْلَهٍ مِنْهُ إِلَى الصَّبَاحِ طُوبَى لِلذَّاکِرِینَ طُوبَى لِلطَّائِعِینَ وَ یَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَا جَلِیسُ مَنْ جَالَسَنِی وَ مُطِیعُ مَنْ أَطَاعَنِی وَ غَافِرُ مَنِ تَغْفَرَنِی الشَّهْرُ شَهْرِی وَ الْعَبْدُ عَبْدِی وَ الرَّحْمَهُ رَحْمَتِی فَمَنْ دَعَانِی فِی هَذَا الشَّهْرِ أَجَبْتُهُ وَ مَنْ سَأَلَنِی أَعْطَیْتُهُ وَ مَنِ اسْتَهْدَانِی هَدَیْتُهُ وَ جَعَلْتُ هَذَا الشَّهْرَ حَبْلًا بَیْنِی وَ بَیْنَ عِبَادِی فَمَنِ اعْتَصَمَ بِهِ وَصَلَ إِلَیَّ.»(8) "اللہ تعالیٰ نے ساتویں آسمان میں ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے کہ جس کو داعی کہا جاتا ہے، جب ماہ رجب کا مہینہ آتا ہے تو وہ فرشتہ رات کے شروع سے لے کر صبح تک ندا دیتا رہتا ہے، خوش قسمت ہیں خدا کو یاد کرنے والے، خوش قسمت ہیں اطاعت کرنے والے، اللہ فرماتا ہے میں اس کا ہمنشین ہوں، جو میرا ہمنشین ہے، میں اس کا مطیع ہوں جو میرا مطیع  ہے۔ میں اس کی مغفرت کرنے والا ہوں، جو مغفرت کا تقاضا کرتا ہے۔ مہینہ میرا مہینہ ہے، رحمت میری رحمت ہے، جس نے مجھے اس مہینے میں پکارا میں قبول کروں گا اور جس نے مجھ سے کوئی چیز طلب کی، اسے عطاء کروں گا اور جو مجھ سے ہدایت طلب کرے، میں اس کی ہدایت کرونگا۔ اللہ نے رجب کے مہینے کو اپنے اور بندوں کے درمیان رسی اور وسیلہ قرار دیا ہے، جس نے بھی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑا وہ مجھ تک پہنچ جائے گا۔۔"

?مرحوم شیخ صدوق سے ایک اور روایت نقل ہوئی ہے: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ أَيْنَ الرَّجَبِيُّونَ فَيَقُومُ أُنَاسٌ يُضِي‏ءُ وُجُوهُهُمْ لِأَهْلِ الْجَمْعِ عَلَى رُءُوسِهِمْ تِيجَانُ الْمُلْكِ مُكَلَّلَةً بِالدُّرِّ وَ الْيَاقُوتِ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ أَلْفُ مَلَكٍ عَنْ يَمِينِهِ وَ أَلْفُ مَلَكٍ عَنْ يَسَارِهِ يَقُولُونَ هَنِيئاً لَكَ كَرَامَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ يَا عَبْدَ اللَّهِ فَيَأْتِي النِّدَاءُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ عِبَادِي وَ إِمَائِي وَ عِزَّتِي وَ جَلَالِي لَأُكْرِمَنَّ مَثْوَاكُمْ وَ لَأُجْزِلَنَّ عَطَاكُمْ [عَطَايَاكُمْ‏] وَ لَأُوتِيَنَّكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفاً تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدِينَ فِيها نِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ إِنَّكُمْ تَطَوَّعْتُمْ بِالصَّوْمِ لِي فِي شَهْرٍ عَظَّمْتُ حُرْمَتَهُ وَ أَوْجَبْتُ حَقَّهُ مَلَائِكَتِي أَدْخِلُوا عِبَادِي وَ إِمَائِي الْجَنَّةَ ثُمَّ قَالَ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع هَذَا لِمَنْ صَامَ مِنْ رَجَبٍ شَيْئاً وَ لَوْ يَوْماً وَاحِداً فِي [مِنْ‏] أَوَّلِهِ أَوْ وَسَطِهِ أَوْ آخِرِهِ."

"جب قیامت ہوگی تو عرش سے ایک منادی ندا دے گا، رجبیون (اہل رجب )کہاں ہیں۔؟؟ اس وقت کچھ لوگ اٹھیں گے، جن کے چہرے چمک رہے ہونگے۔ ان کے سروں پر بادشاہوں کی طرح گوہر و موتی اور یاقوت کے تاج ہونگے، ان میں سے ہر ایک کی دائیں طرف ہزار فرشتے اور بائیں طرف ہزار فرشتے ہونگے اور وہ کہہ رہے ہوں گے، اے خدا کے بندے کرامت خدا تیرے لئے مبارک ہو۔ اس کے بعد خدا کی طرف سے ندا آئے گی، اے میرے بندے اور میری کنیزوا، میری عزت و جلالت کی قسم، تمہارے مقام کو بہت محترم اور اور تمہاری جزا کو بہت فراوان قرار دونگا، جنت کے کچھ ایسے گھر تمہارے نام کر دونگا، جن کے نیچے نہریں جاری ہونگیں، جس میں ہمیشہ رہوگے، یہ نیک عمل کرنے والوں کے لئے بہترین اجر ہے، تم نے روزے کے ذریعے اس مہینے میں میری  اطاعت کی ہے، جس کی حرمت کو میں نے بہت عظیم بنایا ہے، میں نے اپنے فرشتوں پر واجب قرار دیا کہ ان میں میرے بندوں اور کنیزوں کو جنت میں داخل کریں۔ اس کےبعد امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا، یہ اس کے لئے ہے، جس نے ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھا، چاہے اول رجب کو یا درمیان میں یا مہینے کے  آخر میں۔۔۔"(9)  

?ماہ رجب کے اعمال*
ماہ رجب کے بہت سے اعمال وارد ہوئے ہیں، ان سب کو اس مختصر تحریر میں لانا ممکن نہیں۔ مفاتیح الجنان اور دیگر دعاوں کی کتابوں میں موجود ہیں، ہم اختصار کے ساتھ چند کا ذکر کرتے ہیں۔ اس مقدس مہینے میں۔۔
(1) زیادہ سے زیادہ "استغفراللہ واسئلہ التوبہ" پڑھنا۔
(2) سو 100 بار "سبحان لا الہ الجلیل سبحان من لاینبغی۔۔۔۔۔"تا آخر۔
(3) رجب کے دنوں کی خاص دعاؤں کا پڑھنا، جو کہ مفاتیح الجنان میں تفصیل کے ساتھ ذکر ہوئی ہیں۔
(4)ہر روز ستر بار صبح کے وقت اور دن کے آخر میں 70 بار "استغفراللہ و اتوب الیہ" پڑھنا، جب تمام کرے تو ہاتھوں کو بلند کرکے یہ دعا پڑھے "اللھم غفرلی و تب علی۔۔۔۔۔"(مفاتیح)
(5) ہر شب و روز تین مرتبہ حمد تین مرتبہ سورہ آیت الکرسی تین مرتبہ قل یا ایھاالکافرون تین مرتبہ توحید تین مرتبہ علق تین مرتبہ سورہ ناس پڑھنا۔
(6) ہر شب ہزار بار لا الہ الا اللہ
(7) ہر شب دو رکعت نماز پڑھی جائے، ہر رکعت میں حمد ایک بار سورہ کافرون تین بار، نماز کے بعد لا الہ الا اللہ ۔۔۔ (باقی مفاتیح کی طرف مراجعہ فرمائیں)
(8) ہر فریضہ نماز کے بعد اس معروف دعا کو پڑھنے کی بڑی تاکید ہوئی ہے « ۔۔يَا مَنْ أَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ (مِنْ) كُلِّ شَرٍّ يَا مَنْ يُعْطِي الْكَثِيرَ بِالْقَلِيلِ يَا مَنْ يُعْطِي مَنْ سَأَلَهُ‏۔۔۔(تاآخر۔۔مفاتیح ) »
(9) ایام البیض کے تیسرے دن یعنی پندرہ رجب کو معروف اور مجرب عمل عمل ام داود۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*حوالہ جات*
(1) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(2) من لایحضره الفقیه ج2 ص92
(3) بحارج97 ص47
(4) وسائل الشیعة، ج‏۱۰، ص۴۹۳
(5) عیون اخبار رضا ج2 ص71
(6) فضائل الاشھرالاثلاثہ، ص 38، حدیث 15
(7) مفاتیح الجنان، ص 228
(8) عیون اخبار رضا شیخ صدوق ج1، ص226
(9) مستدرک الوسائل ج7، ص535
(10) شیخ صدوق، فضائل الأشهر الثلاثة، صفحه 31

تحریر: محمد علی شریفی

فروری ۱۹۷۹ء میں ایران میں انقلاب اسلامی ظہور پذیر ہوا تو اسے "اِنفجارِ نور" اور  "طلوعِ فجر" سے تعبیر کیا گیا اور انقلاب کی کامیابی کے انتہائی ایام کو "دہ فجر" قرار دیا گیا۔ اسی حوالے سے سورہ مبارکہ فجر کی ابتدائی آیات زبان زدعام تھیں:
وَالفَجر ! وَلِیَال عَشر
"قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔۔۔"
حضرت امام خمینی (رہ) نے جب پندرہ سالہ طویل جلا وطنی کے بعد اعجاز آمیز انداز سے تہران کی سرزمین پر قدم رکھا تو اس وقت ۱۱ فروری ۱۹۷۹ء ( بہمن ۱۳۵۷ھ ش) تک دس دنوں اور راتوں میں انقلاب کا آخری معرکہ لڑا گیا، ۱۱فروری کو شاہی طاغوت کے سراسیمہ سپاہیوں نے آخر کار ہتھیار ڈال دئیے اور تاریخ عالم میں ایک خوبصورت تازہ نورانی صبح طلوع ہوئی، واقعتاً نور پھوٹ پڑا۔ ایک ایسا نور جس نے سیاہ اور سفید چہروں میں تمیز پیدا کر دی۔ جس نے حق و باطل کی پہچان کیلئے فرقان کا کام کیا۔ جس نے چودہ سو سال پہلے کی فتح مکہ کی یادیں تازہ کر دیں اور فلک پیر نے ایک مرتبہ پھر مسجود ملائکہ کے ہاتھوں "اِنِّی اَعلَمُ مَا لاَ تعَلَمُون" کی صداقتوں کا ظہور ہوتے دیکھا۔ فضائیں ایک مرتبہ پھر ان نعروں سے گونج اٹھیں:
جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔(بنی اسرائیل۔۸۱)
حق آگیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل تو ہے ہی بھاگ جانے والا۔ 

ایک دور ایسا آیا کہ جب انسانوں نے روحانی اقدار کو فراموش کر دیا تھا۔ معنوی پیمانوں سے رفتار زماں کی پیمائش قصہ پارینہ ہو چکی تھی۔ جب مادی اقدار کا غلغلہ تھا۔ شرق و غرب مادی افکار کے اقدار میں یوں جکڑے ہوئے تھے کہ فکر و عمل سب گویا اسی کی تمناؤں کے سانچے میں ڈھل چکے تھے۔ دین و سیاست کی جدائی گویا ہمیشہ کیلئے مسلّم ہو چکی تھی۔ اہل دین کے ہاتھوں کی گرفت بھی امید کی رسی پر ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ ایک طرف سرمایہ داری کا زور تھا تو دوسری طرف اشتراکیت کا شور۔ چھوٹی حکومتوں کے زمام دار، مشرقی اشتراکیت کی طرف امید کی نظروں سے دیکھتے تھے یا مغربی سرمایہ داری سے توقع باندھے ہوئے تھے۔ کلیسا کے اہل منصب تو کب سے اپنے پر سمیٹے مذہبی آشیانوں میں اپنے تئیں ہمیشہ کے لئے"صبر و شکر" کے دھیمے ترانے گنگنا رہے تھے۔ ایسے میں سرزمین ایران پر تکبیر کے ترانے گونج اٹھے۔ ان نعروں کی گونج میں طاغوت شرق و غرب کی بےہنگم صدائیں ماند پڑ گئیں۔ امام خمینی (رہ) واقعتا عظیم آیت الٰہی کی حیثیت سے سیاست عالم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے۔ اس پیرسال رہبر کی آواز نے ابلیسی طاقتوں کے ایوان لرزا دیئے اور ایک مرتبہ سب اہرمنی قوتوں کے ہوش گم ہو گئے۔ 

آہستہ آہستہ سب شیطانوں نے اپنی چندھیا جانے والی آنکھوں کو ملنا شروع کیا اور جو سنگ ان کے پاس بچے تھے انہیں پھر سے سمیٹنا شروع کیا۔ انہوں نے اس انوکھے شگوفے کو پوری قوت سے مسل دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کی فریب کار نعروں کی حقیقت تو پہلے ہی طشت از بام ہو چکی تھی۔ وہ ایرانی قوم کی اس جرأت اظہار اور طلب حریت پر چیں بہ چیں تھے۔ ایرانی قوم کے انسانی و جمہوری حقوق کی ان کی نظر میں کیا وقعت ہو سکتی تھی۔ انہوں نے شاہوں، آمروں اور مطلق العنان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سازش کی اور ابھی انقلاب تازہ بتازہ ہی تھا اور ایرانی افواج کو منّظم کرنے کیلئے ابھی منصوبے ہی بن رہے تھے کہ اس پر جنگ ٹھوس دی گئی۔اس جنگ میں وحشت و بربریت کے سب ہتھیار آزمائے گئے۔ ویرانیوں، تباہیوں اور بردباریوں کی بارش کر دی گئی۔ سامراجیوں نے ایران کے اندر موجود اپنے ایجنٹوں کو بھی حرکت دی۔ انقلاب کی اعلیٰ درجے کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، اراکین پارلیمنٹ، وزراء اور فوجی قیادت کس کس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ آخر کار حضرت امام خمینی (رہ) کی رہائش گاہ پر فضائی حملے کا منصوبہ بنایا گیا جو طبس کے صحراؤں میں ناکام و نامراد ہو گیا۔ 

لیکن اللہ کا ارادہ ہمیشہ اٹل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس انقلاب کو غالب کرنے کا ارادہ کر رکھا تھا۔ دشمن رسوا ہوئے اور انقلاب اپنی عظیم قیادت کی رہنمائی میں ان تمام امتحانات سے سرخرو نکلا۔ اقتصادی پابندیاں بھی بڑھتے ہوئے انقلاب کے قدم نہ روک سکیں۔ "لاشرقیہ ولا غربیہ، اسلامیہ جمہوریہ" کے ایمان افروز نعرے اسی طرح گونجتے رہے۔ ہر مشکل سے یہ انقلابی قوم اور بھی مضبوط ہو کر نکلی۔ ہر پابندی نے اس انقلاب کو اور بھی استحکام بخشا۔ اس قوم نے گویا اس پیغام پر پوری طرح عمل کرکے دکھایا۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے 

انقلاب کی قیادت نے لوگوں کو شعور بخشا کہ اگر حریت و آزادی عزیز ہے تو خود انحصاری کی منزل کو حاصل کرنا ہو گا۔ یہ پیغام لوگوں کے دلوں میں اتر گیا۔ پوری قوم تعمیروترقی کے جہاد کیلئے اٹھ کھڑ ی ہوئی اور پھر اپنے وطن کی تعمیر کے حوالے سے بھی اس قوم سے عجیب معجزات نے ظہور کیا۔ آج انقلاب کی کامیابی کو چونتیس برس گزر چکے ہیں۔ ایرانی قوم آج مصیبتوں اور آزمائشوں کے ایک کٹھن دور سے نکل چکی ہے۔ دنیا کے سامنے آج یہ قوم سرخرو کھڑی ہے اور دنیا کی پسماندہ قوموں کو آزادی و کامرانی کا پیغام دے رہی ہے۔ آج بھی ایرن لا شرقیہ لا غربیہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آج بھی ایران کے فیصلے ایران میں ہوتے ہیں بلکہ صدور انقلاب کا عمل بھی ایک خوبصورت انداز سے جاری ہے۔ یہ انقلاب فوج کے ذریعے نہیں آیا تھا اور اس کا صدور بھی فوج کے ذریعے، کبھی انقلابی قیادت کا مطمع نظر نہ تھا۔ انقلاب کی عظیم قیادت نے اپنے فکر و عمل سے اس انقلاب کا پیغام ساری نوع انسانی تک پہنچایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہی نے عالمی تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی جو تجویز پیش کی تھی وہ بھی ایرانی قیادت کے صدور انقلاب کی حکمت عملی ہی کا اک اظہار تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی انقلاب درحقیقت عالمی انسانی انقلاب ہی کی تمہید ہے ایک ایسا انقلاب جو انسانوں کی نہ فقط عرب و عجم میں تفریق کا قائل نہیں بلکہ مشرق و مغرب کی تہذیبوں کے مابین مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی کی فضا استوار کر نے کا عزم رکھتا ہے۔

تحریر: ثاقب اکبر 

یہ سوال بڑے زور و شور سے کیا جاتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران نے کیا دیا ہے؟  انقلاب اسلامی ایران سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوال سنی، شیعہ مسلمان معاشروں میں دہرایا جاتا ہے۔ ایران و پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ نہیں معلوم کہ سال 1979ء سے پہلے کی دنیا کیا تھی، اس دنیا میں ایران کی حیثیت کیا تھی اور جسے بھی اس سوال کا جواب چاہیئے وہ 1979ء سے پہلے اور بعد کی دنیا کا موازنہ کرلے۔ البتہ اس سوال کا جواب ایک منطقی اور عادلانہ دوسرے سوال کے جواب میں پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اس ایرانی اسلامی انقلاب کے مخالفین و دشمن ممالک نے دنیا کو یا انسانوں کو کیا دیا ہے!؟ یہ سوال منطقی اور عادلانہ اس لیے ہے کہ امریکی یورپی زایونسٹ بلاک اور اس کے اتحادی عرب حکمرانوں کے پاس تو وسائل ہی وسائل تھے اور تاحال ہیں۔ ان کے پاس تو سب کچھ کر گذرنے کی طاقت و صلاحیت بھی تھی اور تاحال ایسا ہی ہے تو سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان کے کتے بلی بھی شاہانہ ٹھاٹھ میں رہے، جبکہ صومالیہ کے بچے قحط میں مرگئے! ایسا کیوںا؟ ان کے اتحادی عرب حکمران امریکا و یورپ میں عیاشی کرتے رہے اور فلسطینی پناہ گزینوں میں بھی امن و سکون سے نہ رہ سکے!، ایسا کیوں؟ سوال تو یہ بنتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے فلسطین و کشمیر پر اتنا طویل عرصہ قبضہ کیسے رہا!؟ اور اب تک کیوں ہے!؟ اور یہ کس کے ساتھ ہیں!؟

اس سوال کا جواب صرف وہ انسان دے سکتے ہیں کہ جن میں عقل و عدل دونوں ہی بیک وقت موجود ہو اور یہیں سے انقلاب اسلامی ایران کی اہمیت و افادیت اور مثبت اثرات کو سمجھنے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا کے مظلوم و مستضعف انسانوں کو ایک قابل اعتماد حامی اور مددگار ملک اور ریاست دی ہے، یہ ایک عام فائدہ ہے، جو عالم انسانیت کے لیے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کے وسائل کی لوٹ مار میں مصروف بڑی طاقتوں کے خلاف ایک نظریاتی محاذ قائم کیا۔ اس انقلاب نے دنیا کے مظلوم و محکوم انسانوں پر جاری ظلم و ستم کے خلاف بیداری کی تحریک کو جنم دیا۔ اس انقلاب کی نظریاتی بیداری تحریک کے نتیجے میں دنیا پر امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک اور خائن و منافق عرب نما مسلمان نما حکمرانوں کی اصلیت ظاہر ہوئی۔ یہ عالمی سطح کے فوائد ہیں، جو انقلاب اسلامی کی وجہ سے ہر مظلوم و محکوم انسان کو پہنچے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائدین کے افکار علمی اور واقعیت پر مبنی رہے۔ یعنی کسی بھی اسلامی ملک، ریاست اور عالم دین کی جانب سے جدید دنیا کے عالمی سیاسی منظرنامے میں پہلی مرتبہ عالمانہ، عاقلانہ و عادلانہ موقف یا انگریزی میں کہیں تو انٹیلیکچول اپوزیشن کا یہ نمونہ انقلاب اسلامی نے ہی پیش کیا۔ اس سے پہلے غیر منطقی جذباتیت کا دور دورہ تھا۔

اس انقلاب پر ایک اعتراض فرقہ و مسلک کی بنیاد پر کرنے والوں کی خدمت میں مودبانہ عرض ہے کہ زمینی حقائق منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ایران نہ تو زبان پرست ہے اور نہ ہی فرقہ پرست، بلکہ ایران قرآن و اہلبیت نبوۃﷺ سے متمسک ایسی شیعہ اسلامی ریاست ہے کہ اس کے اہم ترین ریاستی اداروں میں اہل سنت کی بھرپور نمائندگی موجود ہے۔ حتیٰ کہ مجلس خبرگان رہبری میں بھی اہل سنت علمائے اسلام موجود ہیں۔ ایران نے سنی علمائے کرام کو یہ آئینی و قانونی حیثیت دے کر پوری دنیا کے مسلمان ممالک کے سیاسی نظام کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ خیمہ ولایت میں طلوع فجر کے بعد سنی و صوفی مسلمانوں کی یہ شان و شوکت صرف اور صرف ایران میں ہے۔ ورنہ دیگر ممالک میں تو تکفیریت اور ناصبیت کے آگے سب سرنگوں ہوچکے ہیں اور حکمران طبقہ تو امریکی زایونسٹ بلاک کا اعلانیہ جزو لاینفک ہیں۔ انقلابی اسلامی ایران کے مخالفین سے ایک سوال یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا صحابہ کرام کی سیاست یہ تھی، جو سعودی بادشاہ سلمان یا آل سعود، اس کے مولوی اور ان کے اتحادی دوست ممالک کے حکمران کر رہے ہیں!؟ اور مغربی بلاک کے بزعم خویش جمہوری چیمپیئن بتائیں کہ ان کے اتحادی مسلمان و عرب ممالک میں جمہوریت کیوں نہیں۔ بحرین کی شیعہ اکثریت پر امریکی اتحادی آل خلیفہ حاکم کیوں؟ اور  ایران و عراق کے شیعہ شراکت اقتدار و جمہوریت کے باوجود معتوب کیوں!؟

مزید یہ کہ جس کسی کو ایران میں انقلاب اسلامی کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں، اس کے لیے آج کی دنیا بھی کھلی کتاب کی مانند ہے، موازنہ کیا جاسکتا ہے۔!  عرب، عجم، مسلمان و غیر مسلم، سبھی اپنے اپنے ممالک کے حکمران طبقے اور اپنے معاشروں کی موجودہ حالت کو دیکھ لیں اور ایران سے موازنہ کر لیں۔ پوری دنیا کی سیاست و اقتصاد امریکی و یورپی زایونسٹ بلاک کے کنٹرول میں ہے۔ فوجی لحاظ سے بھی بالادست ہیں۔ ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بالفرض کوئی ملک ان پر پابندی لگا بھی دے، تب بھی ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ ڈالر اور یورو دونوں ہی کی حیثیت بین الاقوامی تجارت اور مالیاتی نظام میں مستحکم ہے۔ اقوام متحدہ میں ان کے پاس تین ویٹو پاور ہیں اور بقیہ دو بھی فلسطین، یمن، کشمیر سمیت کسی بھی ایشو پر مسلمانوں کے ساتھ نہیں کھڑے ہوتے۔ جدید ترین سہولیات سے مالا مال امریکی یورپی زایونسٹ بلاک کہ سعودی عرب، امارات و بحرین سمیت بہت سے ممالک انکا اٹوٹ انگ ہیں، پچھلے بیالیس سال سے انہوں نے انسانیت، مسلمانوں یا عربوں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے!؟ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی کارکردگی کا موازنہ کر لیں، نتیجہ ظاہر ہے۔!

امریکی یورپی زایونسٹ بلاک سے اور ان کے اتحادی سعودی و اماراتی و بحرینی شیوخ و شاہ سے اور ان کے حامی بتائیں ناں، انہوں نے پچھلے بیالس سال کیا کرتے گذارے۔ کیا فلسطین و کشمیر آزاد کروا دیئے!؟ کیا عوام کی نمائندہ حکومتیں قائم کر دیں!؟ کیا برابر کے شہری حقوق دے دیئے۔ نہیں، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے لیبیا کو تباہ کر ڈالا، یہ یمن پر بلاوجہ کی فوجی یلغار کر رہے ہیں۔ کل ایک صومالیہ کے ڈھانچے نما بچوں کی مظلومیت پر ہم روتے تھے اور آج پورے عالم اسلام و عرب کو انہوں نے صومالیہ بنا ڈالا ہے۔ سوائے نفرت پھیلانے والے تکفیری و ناصبی مولویوں اور سوائے تباہی پھیلائے والے تکفیری ناصبی دہشت گردوں کے، انہوں نے دنیا کو دیا کیا ہے!؟ بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ پورا ٹولہ خود ہی مجسم گستاخ ہے۔ ان کا اپنا وجود صحابہ کی گستاخی اور بے حرمتی ہے۔ ان کا کردار صحابہ کی توہین ہے۔ عراق میں، شام میں، لبنان میں، پاکستان و افغانستان میں، یعنی ہر اہم مسلمان ملک یا عرب سرزمین پر یہ دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ کیا جوزف بائیڈن، اوبامہ، ٹرمپ، بش، کلنٹن، نیتن یاہو، آل سعود، آل نھیان، آل خلیفہ جیسے حکمرانوں کے یہ ٹاؤٹ صحابہ کے لیے قابل قبول ہوسکتے ہیں!؟  اور ان مغربی ممالک کے عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھیں کہ نائن الیون سمیت بڑے دہشت گرد حملے کرنے والے تکفیری سعودی و اتحادی دہشت گردوں کی کھیپ تیار کرنے والے سعودی و اتحادی حکمران امریکا، نیٹو، یورپی یونین کے آج تک لاڈلے کیوں!؟

کس غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔! حقیقت کا سامنا کریں۔ ہر آزاد انسان، عادل انسان موازنہ کر لے کہ اتنے سارے طاقتور ممالک پر مشتمل یہ پورا بلاک ایک طرف اور تنہا ایران ایک طرف، ایران نے فلسطین کے مظلوموں کی بے لوث مدد کی ہے! ایران عرب تو نہیں ہے، ایران فلسطینیوں کا ہم مسلک تو نہیں ہے۔! یمن اور شام کا عرب بھی ایران کا ہم مسلک نہیں ہے۔ عدل و عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ ایران کی برابری ممکن نہیں ہے، کیوں! کیونکہ ایران نے پوری دنیا کے مظلوموں کی دفاعی جنگ لڑی ہے اور خاص طور پر عراق کے کرد، ایزدی، مسیحی، آشوری انسانوں کو بھی دہشت گردی کے شر سے نجات دلائی۔ حتیٰ کہ شام و فلسطین و لبنان کے مسیحی بھی اس حقیقت کے معترف ہیں۔ ایران نے مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے قدس فورس بنا کر اپنا جنرل قاسم سلیمانی شہادت کے لیے پیش کیا ہے!؟ شہید بیت المقدس سلیمانی بھی سلمان فارسی کی قوم نے ہی دیا ہے۔

ان خائن عرب حکمرانوں اور ان کے درباریوں کی عربی عصبیت بھی صرف ہم عجمی مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ خائن عرب شاہ و شیوخ اور ان کے درباری ایک طرف ملت سلمان فارسیؓ کو آج بھی مجوس کہتے ہیں، در حال یہ کہ یہ عرب شاہ و شیوخ و درباری خود ہی عرب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے مددگار اور اور سہولت کار ہیں۔ یہ خود ہی یمن و شام و عراق و لیبیا کے عربوں کے خلاف بھی اعلانیہ براہ راست یا پراکسی جنگوں میں بھی مصروف ہیں۔ انہوں نے تو اسلام و مسلمین کو بدنام کرکے رکھ دیا۔ پوری دنیا میں نفرت و دہشت و وحشیانہ درندگی کی علامت کون ہے، سوائے ان کے اپنے مسلک کے!؟!؟ اور جب جب ان کو اسرائیل کی مدد کرنا ہوتی ہے تو یہ پاکستان میں صحابہ کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں، کم سے کم پچھلے بیالس برس سے تو یہی تماشا ہو رہا ہے۔ کم سے کم اب تو ان کے ہاتھوں استعمال ہونے والے مسلمان نما انسانوں کو اللہ کے عذاب و قہر سے ڈر جانا چاہیئے۔ کب تک یہ اوٹ پٹانگ سوال دوسروں سے کرتے رہیں گے۔ یہ اپنا محاسبہ تو کریں، ان کے کریڈٹ میں ہے کیا!؟ ایران اور اس کی قدس فورس تو وہی کر رہی ہے، جو کبھی پاکستانی فضائی افواج کے مایہ ناز افسر ستار علوی جیسے بہادر سپوت کیا کرتے تھے۔ آج اسرائیل کے خلاف ستار علوی جیسوں کا کردار ایران ادا کر رہا ہے، جبکہ ستار علوی کے پاکستان میں حق نواز جھنگوی لعنت اللہ علیہ کا لشکر بزرگان دین کے مزارات کو، مسلمانوں کی مساجد کو خودکش بمبار کے ذریعے دھماکوں سے اڑا رہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ پوچھا جا رہا ہے کہ ایران کے انقلاب سے کیا فائدہ ہوا۔! یہ ہے بیالیس سال کی مختصر روداد۔  لو کرلو گل!!!
 
 تحریر: محمد سلمان مہدی
 
دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں اور انقلابات پر نظر دوڑائیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب میں خواتین کا کردار نمایاں ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کا اگر سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس انقلاب میں بھی خواتین کا کردار بہت نمایاں اور بعض مقامات پر فیصلہ کن نظر آتا ہے۔ خواتین آبادی کا نصف ہوتی ہیں اور نصف آبادی کے تناظر میں ان کی شرکت کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نظر نیہں آتی۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں مظاہروں میں شرکت ہو، حکومت کے خلاف احتجاج کا موضوع ہو یا مردوں کو گھروں سے باہر نکالنے کا مسئلہ ہو، ایران کی مومن خواتین کا کردار منفرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو شاہ کے خلاف چلنے والی تحریک میں خواتین صف اول میں نطر آئیں گی۔ خفیہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونی والے انقلابیوں میں بھی آپ کو خواتین کی ایک بڑی تعداد ملے گی۔ ایران کے انقلاب سے پہلے شاہ کے دور میں مجاہد خواتین مکمل اسلامی پردے کے ساتھ معصوم بچوں کو اٹھائے کر مردہ باد شاہ کا نعرہ لگاتے ہوئے گلیوں اور شاہراہوں پر نظر آتی تھیں۔

امام خمینی اس طرح کی خواتین کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا تم نے تاریخ میں یہ مناظر دیکھے ہیں کہ آج ایران میں بچوں کو گودوں میں اٹھائے باپردہ خواتین ٹینکوں اور توپوں کے مقابلے میں طاغوتی حکومت کے خلاف میدان میں ہیں۔ دنیا کی کس تاریخ میں خواتین نے اس طرح کی قربانی اور ایثار پیش کیا ہے۔ ایران کی فہیم و بابصیرت خواتین نے ممتا کو عشق الہیٰ سے منسلک کرتے ہوئے اپنے نوجوان بچوں کو ظالم و جابر حکمرانوں کے مقابلے میں تیار کیا اور ان کو شہادت جیسے جذبے سے سرشار کیا۔ امام خمینی نے بارہا ان انقلابی خواتین کی تعریف کی ہے، آپ نے خواتین کو انقلاب کا صف اول کا دستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین مظاہروں میں صف اول تھیں اور انہوں ںے اپنے اس اقدام سے مردوں میں بھی جوش و جذبہ پیدا کیا۔ خواتین نے اپنے بچوں کو شہادت کے لیے تیار کیا اور شہداء کے خون کی پاسداری کرتے ہوئے انقلاب کو تسلسل اور ہمیشگی عطا کی۔ امام خمینی نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ ہمارا انقلاب خواتین کا مرہون منت ہے۔ آپ کے اس جملے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کا کردار کتنا اہم ہے اور امام خمینی اس کردار کے کس حد تک قائل تھے۔

ایران کے انقلاب کے مختلف مراحل میں ایرانی خواتین نہ صرف مظاہروں اور احتجاج میں شرکت کرتیں بلکہ مساجد، امام بارگاہوں اور گھروں میں خواتین کے اجتماع منعقد کرکے انقلاب کے اہداف، امام خمینی کے افکار اور اسلامی حکومت کے قیام کے بارے میں خواتین کو آگاہ کرتی تھیں۔ بہت سی خواتین اور ان کے اہل خانہ شاہی حکومت کے جبر کا شکار خاندانوں اور افراد کو پناہ دیتیں اور ان کی مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار کرتیں۔ ایران کی مجاہد خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ انقلابی تحریک میں سرگرم عمل رہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے خواتین نے انقلاب کی کامیابی کے لیے شہادت کا جام نوش کیا۔ اسلامی انقلاب کی تاریخ میں یوں تو کئی نام ہیں، لیکن ایک قبائلی عورت باختری بیگلری کا ذکر کرتے ہیں۔ تیس سالہ باختری نے اپنے دو بچوں کے ہمراہ حضرت زینب کی پیروی کرتے ہوئے شاہ کے ظلم حکومت کے خلاف آواز اٹھائی، جس کے جواب میں شاہی کارندوں نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، اس فائرنگ میں نہ صرف محترمہ باختری شہید ہوگئیں بلکہ ان کے دو بچے بھی راہ اسلام میں قربان ہوگئے۔ لرستان کی اس شہید خاتون کو انقلاب اسلامی کی پہلی شہیدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی اس طرح کی خواتین کے شجاعانہ کردار کے پیش نظر فرماتے تھے کہ ہماری عزیز خواتین اس بات کا باعث بنیں کہ ہمارے مردوں میں مزید جرات و شجاعت پیدا ہوگئی۔ میں خواتین کی زحمات کا قدردان ہوں اور یہ کامیابیاں ان کی مرہون منت ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی ایرانی خواتین کا کردار کافی نمایاں رہا۔ خواتین نے مختلف میدانوں منجملہ سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ ایران کی خواتین اسلامی انقلاب کے برپا کرنے، اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے اور اس انقلاب کو مستحکم کرنے میں بھی نمایاں کردار کی حامل ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب میں خواتین کی بھرپور شرکت نہ صرف اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کے لیے موثر اور فائدہ مند ثابت ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ان حلقوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام تھی، جو اسلام کے بارے میں اس غلط نظریئے کے قائل ہیں کہ اسلام خواتین کو چاردیواری کے اندر قید رکھنے کا قائل ہے۔ ایران کی خواتین کے عملی کردار نے دنیا کو بتا دیا کہ اسلام میں اسلامی تعلیمات کا خیال رکھتے ہوئے مردوں کے شانہ بشانہ اجتماعی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔

ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں بھی ایرانی خواتین نے نہ صرف اپنے جوانوں اور مردوں کو میدان جنگ کی طرف جانے میں حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی عدم موجودگی میں بچوں کی تربیت اور گھر اور گھرانے کو چلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ بعض ایرانی مائوں نے اپنے دو دو اور تین تین نوجوان راہ خدا میں شہادت کے لیے پیش کیے۔ ایرانی خواتین نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قربانیوں سے انقلاب کے اغراض و مقاصد اور امنگوں کو زندہ رکھا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی خواتین نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ امام خمینی ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ خواتین اسلامی مملکت کی تقدیر کو سنوارنے میں شریک ہوں۔ آپ خواتین سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ آپ نے جس طرح انقلاب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا، اب انقلاب کو مضبوط و مستحکم بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں، وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے مطابق اپنے عمل و کردار کو استوار کریں۔

امام خمینی اور آپ کے بعد رہبر انقلاب اسلامی کی خواتین کے حقوق اور صلاحیتوں پر خصوصی توجہ اس بات کا باعث بنی کہ خواتین مختلف شعبوں میں فعال و سرگرم ہوئیں اور اںہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اس وقت تعلیم کے میدان میں ایرانی خواتین کی کارکردگی تمام اسلامی ممالک سے کہیں بہتر ہے۔ اس وقت تعلیم کے شعبے میں ایرانی خواتین کا حصہ 68 فیصد ہے۔ خواتین کی شرح خواندگی انقلاب سے پہلے 34 فیصد تھی، جو اب 80 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ عالمی ادارے یونسکو کے ایک سروے کے مطابق 2012ء میں ایرانی خواتین تعلیمی شعبے میں اپنے موثر کردار کی وجہ سے دنیا کے ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں عورت کو مکمل تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور ان کا خاتون ہونا ان کے تعلیمی کیریئر میں کہیں رکاوٹ نہیں بنتا۔

رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے علمی سرگرمیوں میں خصوصی توجہ کی وجہ سے گذشتہ سالوں میں کئی ایرانی طالبات نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے علمی اور تعلیمی مقابلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی ہیں۔ ایران نے انقلاب کے بعد سائنس و ٹیکنالوجی کے جن شعبوں میں بالخصوص نانو، ایٹمی، ائیروسپیس اور فزکس و کمیسٹری میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس میں خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے۔ مختلف شعبہ جات میں نئی نئی ایجادات میں بھی ایرانی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایرانی خواتین کو تمام انسانی، سماجی، شہری اور بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ایرانی خواتین بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں اور ملازمتوں کے حصول میں بھی ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ ایرانی خواتین یونیورسٹیوں میں اپنی علمی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر رہی ہیں، ریسرچ کے شعبے میں ایرانی خواتین کا کردار خطے کے تمام ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور بہترین افکار و نظریات کی حامل خواتین کی موجودگی کو ایران کی اسلامی حکومت کے لیے ایک الہیٰ نعمت سے قرار دیتے ہیں۔ ایرانی خواتین اسلامی تعلیمات، قومی وقار، دینی اقدار اور ملکی ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے ملک و وطن کی خدمت میں مصروف ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ آج ایران کی پہچان اور ثقافت کا پرچم ایرانی خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ ایرانی خواتین اپنے اسلامی پردے کی حفاظت کرتے ہوئے اور اپنی دینی و ثقافت کی پاسداری کرتے ہوئے دنیا کے لیے اپنے افکار و نظریات برآمد کرنے کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ایرانی خواتین اپنے عملی کردار میں دنیا کو بتا رہی ہیں کہ عورت مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتی اور معاشرے کے لیے موثر اور سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ آج ایران میں خواتین مختلف شعبوں میں موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں اور اسلامی پردے کی بدولت مردوں کی غلط نگاہوں سے بھی محفوظ ہیں۔

ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو اپنی سطح سے گرایا نہیں اور مردوں کی لذت کا سامان بننے کی بجائے عورت کا ایک پروقار کردار پیش کیا ہے اور بلا شک و شبہ یہی ایرانی اور اسلامی عورت کی بنیادی خصوصیات اور صفات ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ایرانی خواتین نے اپنے آپ کو انقلاب اور انقلاب کے بعد اسلامی معاشرے کے لیے ایک موثر اور سود مند فرد کے طور پر ثابت کیا ہے اور حکومت کے مختلف شعبوں میں اپنے حقوق کو حاصل بھی کیا ہے اور اپنے فریضے کو بھی احسن طریقے سے انجام دیا ہے۔ بہرحال مکتب تشیع میں نہ صرف یہ کہ خواتین کو سیاسی دھارے سے باہر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ مکتب خواتین کو معاشرے میں ایک بلند انسانی مقام دینے کا قائل ہے۔ امام خمینی نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلامی انقلاب میں خواتین کا کیا کردار ہوگا، کہا تھا کہ خواتین مختلف امور میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں آزاد ہیں۔ ہم خواتین کی حقیقی آزادی کے قائل ہیں، نہ کہ شاہ کے ظاہری اقدامات کی طرح۔
 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس
 

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے دختر رسول اکرم حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے یوم ولادت 20جماد الثانی پراپنے پیغام میں کہا ہے کہ جناب سیدہؑ کا دختر رسول ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ ہے لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے عمل اور اخلاق کے میدان میں اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں کسی زمانے ‘ معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خاتون جنت سیدہ فا طمة الزہرا ؑ کی یاد اور پیغام کو زندہ رکھنے کے تین طریقے ہیں پہلا یہ کہ ان کی ذات اقدس سے عقیدت و احترام اور محبت کا اظہار کیا جائے اور ان سے مکمل وابستگی دکھائی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کواسلام‘ انسانیت اور طبقہ نسواں کی خدمت کرنے پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے۔ تیسرا یہ کہ ان کے چھوڑے ہوئے قطعی وحتمی نقوش اور اصولوں کو تلاش کرکے ان کا مطالعہ کیا جائے اور ان کو آج کے دور میں نافذ کرنے اور ان کی تطبیق کرنے کے طریقے تلاش کئے جا ئیںکہ جس سے شریعت سہلہ کا تصور اجاگر ہو اور شریعت کی پابندی بھی برقرار رہے انسان شتر بے مہار نہ بنے بلکہ اسلامی احکامات کا پابند رہے جبکہ آسان شریعت کو بھی ساتھ ملا کر چلے۔

علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ موجودہ سنگین دور میں جب خواتین میں فکری انتشار پیدا ہوچکا ہے اور ترقی و جدت کے نام پر عورتوں کا ہر معاشرے میں بالخصوص یورپ اور مغربی معاشروں میں شدت سے استحصال کیا جارہا ہے ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہراؑ کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف ‘استحصال‘ تعیش اور گناہوں سے بچاسکتا ہے۔ آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کر رکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے‘ اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور یہی لوگ ایسے معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں عورت کو فحاشی کے لئے استعمال کیا جائے ‘ اسکی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑپیدا کیا جاسکے لہذا ان حالات میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے جو جناب سیدہ فاطمہؑ کی زندگی سے اخذ کئے گئے ہیں کیونکہ سیدہ فاطمہ ؑ کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندانی‘ ذاتی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہؑ کی شخصیت کو مدنظر رکھیں ۔

Wednesday, 03 February 2021 04:23

دخترِ رسول بحثیت مادر

ہم یہ نکتہ اکثر بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ہر بیج کے اندر ایک درخت چھپا ہوتا ہے اسی طرح ایک ماں یا عورت کے اندر پوری قوم کی زندگی پوشیدہ ہوتی ہے۔ عقل و منطق ہم سے تقاضہ کرتی ہے کہ درخت کی دیکھ بھال کے ساتھ بیج کی عزت و تعظیم کی جائے، عورت کو اس کے حقوق دئیے جائیں اور ایک ماں ہونے کے ناطے بچوں کی دیکھ بھال کا موقعہ فراہم کیا جائے. ایک ماں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ بچے کی تربیت یہ سوچ کر کرے کہ یہ بچے قوم کا مستقبل ہیں، یہ بچے قوم کا اثاثہ ہیں، اگر ماں نے بچے کی تربیت صحیح انداز میں کردی تو گویا اس نے پوری قوم کو نجات یافتہ بنا دیا اور اگر کسی ماں نے بچے کی تربیت صحیح انداز میں نہ کی تو اس نے پوری قوم کی زندگیاں چھین لیں۔  

اگر بات کو خاکی عہدہ داروں سے نکال کر نوری ذوات مقدسہ تک لے جایا جائے تو 20 جمادی الثانی کے دن گھرانہ نبوت میں ایک ایسا نور چمکا  کہ جس نے عالم انسانیت میں چاروں طرف روشنی بکھیر دی اور ازل سے ابد تک پیدا ہونے والی ساری مخلوق کے لئے یہ نور مربی قرار پایا۔  اس دن ہمیں ماؤں اور خواتین کا عالمی دن منانا چاہیے اگر کسی دن کو یوم مادر یا روز نسواں کہا جا سکتا ہے تو وہ صرف دختر رسول سیدہ فاطمہ زہراءسلام الله عليها کی ولادت کا دن ہے، روز مادر کیلئے اس دن سے بہتر اور کوئی دن نہیں کیونکہ آپ بحثیت مادر تربیت اولاد کیلئے رہنماء اصول ہیں۔ سیدہ زہراء(س) ماں کی حیثیت سے رہتی دنیا تک لئے ایسی لافانی مثال ہیں کہ ماں کی آغوش سے اولاد کو معراج ملتی ہے۔ ہمیں سیدہ فاطمہ زہراء سلام الله عليها کو رول ماڈل بنانا ہوگا، ان کا ایک ایک فعل ہی نہیں بلکہ حرکات و سکنات بھی مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

سیدہ زہراء کی سیرت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی پہلو نظرانداز نہیں کیا اور اس قدر کردار کو سنوارا کہ ہر ایک نے اپنے زمانے میں تاریخ رقم کی اور معاشرے کی آلودہ اور تاریک فضاؤں کے باوجود دین کی صورت نور کے مینار کھڑے کیے، آپ کی سیرت کا حصہ ہے کہ جناب سیدہ حسنین کریمین(عليهما السلام) کو دن میں سلا دیتی تاکہ شب قدر میں رات بھر جاگ سکیں، مسجد سے واپسی پر جناب سیدہ بچوں سے رسول خدا اور علی مرتضی کے بیانات اور دینی پیغامات کے متعلق پوچھتی، افطار کے وقت یتیم، مسکین، اسیر کو کھانا دینے میں پہل کرنے کے آداب سکھاتی اور کہتیں اے بیٹا تم باپ کی طرح ہونا تاکہ حق کا دفاع کرنا، الله کی عبادت کرنا اور ان افراد سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور ہوں۔ تربیت کے اس انوکھے اور انرالے انداز نے عالم انسانیت کو ماؤں اور بچوں کی تربیت کے آداب و طریق سکھا دئیے۔

جناب فاطمہ جانتی تھیں کہ مجھے اس حسین ع کی تربیت کرنا ہے کہ جو اسلام کی ضرورت کے وقت اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان دین اسلام کے دفاع اور ظلم سے مبارزہ کرکے فدا کرسکے اور اپنے عزیزوں کے پاکیزہ خون سے اسلام کے درخت کو سیراب کرسکے، بی بی سیدہ(س) جانتی تھیں کہ انھیں ایسی خواتین زینب اور ام کلثوم تربیت کرنی ہیں جو اپنے پرجوش خطبوں اور تقریروں سے بنی امیہ کے ظلم و ستم کی حکومت کو رسوا کردیں اور انکے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیں۔ جناب فاطمہ(س) گھریلو یونیورسٹی میں زینب(س) کو فداکاری، شجاعت اور یزید کے ظلم سے مرعوب نہ ہونے کا درس دے رہی تھیں تاکہ اپنی شعلہ بیانی سے دوست اور دشمن کو رلائے، بنوامیہ کے ظلم و ستم کی داستان کو کچل دینے کا درس دے رہی تھیں تاکہ ظلم سے ہمیشہ نجات ملے اور مستقبل میں مرد و زن ملکر ہر ظلم و بربریت کی داستان کو پاؤں تلے روند دیں۔ سیدہ زہراء(س) جانتی تھیں کہ متحمل مزاج فرزند امام حسن علیہ السلام جیسا تربیت کرنا ہے تاکہ اسلام کے حساس موقع پر اپنے جگر کا خون پیتا رہے اور اسلام کی خاطر جنگ پر صلح کو ترجیح دیکر عالم کائنات کو بتلا دے کہ اسلام جب تک ممکن ہو جنگ پر صلح کو ترجیح دیتا ہے۔

سیدہ زہراء(س) کی زندگی خواتین کے لئے ایسے ہی نمونہ عمل ہے جیسے ختمی مرتبت حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم کا کردار و سیرت پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ معصومہ عالم کا کردار ولادت سے شہادت تک اس قدر نورانی اور جاذبِ قلب و نظر ہے کہ خود رسول اکرم(ص) نے جناب فاطمہ(س) کی زندگی کو ہر دور اور ہر زمانے ميں اسوہ کامل قرار ديا ہے۔ ہمیں عملی طور پر سیدہ فاطمہ زہراء س کا پیروکار ہونا چاہیے، ہمیں اس راستے پر آگے بڑھنا چاہیے، خدا تعالی کی اطاعت کرنی چاہیے، اپنے دلوں میں روز بروز خدا تعالی کی محبت میں اضافہ کرنا چاہیے، کیا ہم نہیں کہتے کہ انہوں نے خدا کی محبت میں اتنی عبادت کی کہ پاؤں میں ورم آ گئے؟ کیا ہم نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئیں تاکہ حق کا دفاع کرسکیں؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ تن تنہا اپنے زمانے کے بڑے سامراج کے سامنے کھڑی ہوگئیں؟  ہمیں بھی حق کا دفاع کرنا چاہیے، ہمیں بھی ان کی طرح جیساکہ ان کے شوہر امام علی علیہ السلام نے کہا کہ وہ ساتھیوں کی کم تعداد سے نہیں ڈرتی تھیں،  ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے سامراج اور عالمی طاقتوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔

تحریر: شاہد عباس ہادی