سلیمانی

سلیمانی

Sunday, 05 April 2020 20:56

هود 86

 اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو اور میں تمہارے معاملات کا نگراں اور ذمہ دار نہیں ہوں

Sunday, 05 April 2020 20:38

صفات مومن

حدیث :
روی ان رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یکمل الموٴمن ایمانہ حتی یحتوی علیہ مائة وثلاث خصالٍ:فعل وعمل و نیة وباطن وظاہر فقال امیر المؤمنین علیہ السلام:یا رسول اللهصلی الله علیہ وآلہ وسلم ما المائة وثلاث خصال؟فقال صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یا علی من صفات المؤمن ان یکون جوال الفکر،جوہری الذکر،کثیراً علمہ عظیماً حلمہ،جمیل المنازعة ۔۔۔۔۔۔ [1]

ترجمہ :
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا کہ مومن کامل میں ایک سو تین صفتیں ہوتی ہیں اور یہ تمام صفات پانچ حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں صفات فعلی،صفات عملی،صفات نیتی اور صفات ظاہری و باطنی۔ اس کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول وہ ایک سو تین صفات کیا ہیں؟حضرت نے فرمایا:”اے علی ﷼ مومن کے صفات یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ فکر کرتا ہے اور علی الاعلان الله کا ذکر کرتا ہے،اس کا علم ،حوصلہ وتحمل زیادہ ہوتا ہے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتا ہے “

حدیث کی شرح :
یہ حدیث حقیقت میں اسلامی اخلاق کا ایک مکمل دورہ ہے ،جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت علی علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے بیان فرمارہے ہیں ۔اس کا خلاصہ پانچ حصوں میں ہوتا ہے جو اس طرح ہیں:فعل،عمل،نیت،ظاہر اور باطن۔

فعل و عمل میں کیا فرق ہے؟
فعل ایک گزرنے والی چیز ہے،جس کو انسان کبھی کبھی انجام دیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عمل ہے جس میں استمرار پایا جاتاہے یعنی جو کام کبھی کبھی انجام دیا جائے وہ فعل کہلاتا ہے اور جو کام مسلسل انجام دیا جائے وہ عمل کہلاتاہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

مومن کی پہلی صفت ” جوال الفکر“ ہے
یعنی مومن کی فکر کبھی جامد وراکد نہیں ہوتی وہ ہمیشہ فکر کرتا رہتا ہے اور نئے مقامات پر پہونچتا رہتا ہے۔ وہ تھوڑے سے علم سے قانع نہیں ہوتا ۔یہاں پر حضرت نے مومن کی پہلی صفت فکر کو قراردیا ہے جس سے فکر کی اہمیت واضع ہو جاتی ہے ۔مومن کا سب سے بہترین عمل تفکر ہے۔ اور یہاں پر ایک بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ ابوذرۻ کی بیشتر عبادت تفکر ہی تھی۔اگر ہم کاموں کے نتیجہ کے بارے میں فکر کریں تو ان مشکلات میں مبتلا نہ ہوں جن میں آج گھرے ہوئے ہیں۔

مومن کی دوسری صفت”جوہری الذکر“ہے:
بعض نسخوں میں” جہوری الذکر “بھی آیاہے ۔ہماری نظر میں دونوں ذکر کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہے۔ذکر کو ظاہری طور پر انجام دنیا قصد قربت کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام میں ذکر جلی اور ذکر خفی دونوں موجودہیں۔صدقہ اور زکوٰة مخفی بھی ہے اور ظاہری بھی،ان میں سے ہرایک کااپنا خاص فائدہ ہے جہاں پر ظاہری ہے وہاں تبلیغ ہے اور جہاں پر مخفی ہے وہ اپنا مخصوص اثر رکھتی ہے ۔

مومن کی تیسری صفت” کثیراً علمہ“ ہے ۔
یعنی مومن کے پاس علم زیاد ہوتا ہے۔حدیث میں ہے کہ ثواب،عقل اور علم کے مطابق ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ ایک انسان دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے مقابل دوسرا انسان سو رکعت نماز پڑھے مگر ان دو رکعت کا ثواب اس سے زیاد ہو ۔واقعیت بھی یہی ہے کہ عباد ت کے لئے ضریب ہے اور عبادت کی اس ضریب کا نام علم وعقل ہے۔

مومن کی چوتھی صفت”عظیماً حلمہ“ ہے
یعنی مومن کا علم جتنا زیادہ ہوتا ہے اس کا حلم بھی اتنا ہی زیاد ہوتا ہے ۔ایک عالم انسان کو سماج میں مختلف لوگوں سے روبرو ہونا پڑتا ہے اگر اس کے پاس حلم نہیں ہوگا تو مشکلات میں گھر جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔گذشتہ اقوام میں قوم لوط سے زیادہ خراب کوئی قوم نہیں ملتی اور ان کا عذاب بھی سب سے دردناک تھا فلما جاء امرنا جعلنا عٰلیہاسافلہا وامطرنا علیہا حجارة من سجیل منضود [2] اس طرح کہ ان کے شہر اوپر نیچے ہوگئے اور بعد میں ان کے او پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ان سب کے باوجود جب فرشتے اس قوم پر عذاب نازل کرنے کے لئے آئے تو پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں پہونچے، اور ان کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی جس سے وہ خوش ہوگئے،بعدمیں قوم لوط کی شفاعت کی ۔فلما ذہب عن ابراہیم الروع و جاتہ البشریٰ یجادلنا فی قوم لوط ان ابراہیم لحلیم اواة منیب [3] ایسی قوم کی شفاعت کے لئے انسان کو بہت زیادہ حلم کی ضرورت ہے یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی ،حلم اور ان کے وسیع القلب ہونے کی نشانی ہے۔بس عالم کو چاہئے کہ اپنے حلم کو بڑھائے اور جہاں تک ہو سکے اصلاح کرے نہ یہ کہ اس کو چھوڑ دے۔

مومن کی پانچوین صفت”جمیل المنازعة“ہے
یعنی اگرمومن کو کسی کے کوئی بحث یا بات چیت کرنی ہوتی ہے تو اس کو نرم لب و لہجہ میں انجام دیتا ہے اورجنگ و جدال نہیں کرتا ۔آج ہمارے سماج کی حالت بہت حسا س ہے ،خطرہ ہم سے صرف دو قدم کے فاصلے پر ہے۔ان حالات میں عقل کیا کہتی ہے؟کیا عقل یہ کہتی ہے ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کرجنگ کے ایک جدید محاذ کی بنیاد ڈال دیں،یا یہ کہ یہ وقت آپس میں متحد ہونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا وقت ہے؟
جب ہم خبروں پر غور کرتے ہیںتو سنتے ہیں کہ ایک طرف تو تحقیقی وفد عراق میں تحقیق میں مشغول ہے دوسر طرف امریکہ نے اپنے آپ کو حملہ کے لئے تیارکرلیا ہے اور عراق کے چاروں طرف اپنے جال کو پھیلا کر حملہ کی تاریخ معین کردی ہے۔دوسری خبر یہ ہے کہ جنایت کار اسرائیلی حکومت کا ایک ذمہ دار آدمی کہہ رہا ہے کہ ہمیں تین مرکزوں (مکہ ،مدینہ،قم)کو ایٹم بم کے ذریعہ تہس نہس کردینا چاہئے۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ بات واقعیت رکھتی ہو؟ایک دیگر خبر یہ ہے کہ امریکیوں کا ارادہ یہ ہے کہ عراق میں داخل ہونے کے بعد وہاں پر، اپنے ایک فوجی افسر کو تعین کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ہم پر مسلط ہو گئے تو کسی بھی گروہ پر رحم نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی گروہ کو کوئی حصہ دیںگے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ جب ہمارے یہاںمجلس میں کوئی ٹکراوپیدا ہو جاتا ہے یا اسٹوڈنٹس کا کوئی گروہ جلسہ کرتا ہے تو دشمن کامیڈیا ایسے معاملات کی تشویق کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے۔کیا یہ سب کچھ ہمارے بیدار ہو نے کے لئے کافی نہیں ہے؟کیا آج کا دن اعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا وروز وحد ت ملی نہیں ہے؟عقل کیا کہتی ہے؟اے مصنفوں،مئلفوں،عہدہ داروں،مجلس کے نمائندوں،اور دانشمندوں ! خداکے لئے بیدار ہو جاؤ کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم کسی بھی موضوع کو بہانہ بنا کر جلسہ کریں اور ان کو یونیورسٹی سے لے کر مجلس تک اور دیگر مقامات پر اس طرح پھیلائیں کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھائے؟میں چاہتا ہوں کہ اگر کوئی اعتراض بھی ہے تو ا س کو ”جمیل المنازعة“ کی صورت میں بیان کرنا چاہئے کیونکہ یہ مومن کی صفت ہے۔ہمیں چاہئے ک قانون کو اپنا معیار بنائیں او روحدت کے معیاروںکو باقی رکھیں۔
اکثر لوگ متدین ہیں ،جب ماہ رمضان یا محرم آتا ہے تو پورے ملک کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دین سے محبت ہے۔آگے بڑھو اور دین کے نام پر جمع ہو جاؤ اور اس سے فائدہ اٹھاؤ وحدت ایک زبردست طاقت اور سرمایہ ہے ۔
--------------------------------------------------------------------------------
[1] بحار الانوار ،ج/ ۶۴ باب علامات المومن،حدیث/ ۴۵ ،ص/ ۳۱۰
[2] سورہٴ ہود:آیہ/ ۸۲
[3] سورہٴ ہود:آیہ/ ۷۴ و ۷۵
تمام اقوام عالم کے نزدیک سندو مدرک کے ساتھ جامع بحث و عقیدہ یہ ہے کہ تمام دنیا ایک مصلح بزرگ کے انتظار میں لحظہ شماری کر رہی ہے کہ جس کے آنے سے ظلم و بربریت کی جنگ خونریزی کی بساط لپٹ جائے گی اور ظلم و فساد سے ویرانیوں کو ایک نئی حکمت سے انسان کے صحیح نظریات اور ایمان و صلح و صفاسے قائم کرے گا۔
یہ جغرافیائی حدود ختم ہو جائیں گے دنیا کے کئی رنگ ہوں گے مہدیٴ ظہور فرمائے گا اور پوری کائنات میں ایک جہانی حکومت کو عدالت اور جمہوریت سے درست قائم کر دے گا۔

اقوام موعود:
تمام اذہان اور مذاہب جہان خواہ و ثنیت ہو یا حکمیت ہو یا مسیحیت ہو یا اسلام ہو تمام میں یہ بات مشترک ہے کہ دنیا کا مصلح آخری زمانے میں آئے گا اور انسانی خیانتوں کا خاتمہ کردے گا اور اس کی جہانی واحد حکومت، عدالت و جمہوریت کی بنیاد پر استوار ہو گی۔
اس مصلح بزرگ کے آنے کی نوید قرآن کے علاوہ تمام آسمانی کتب میں موجود ہے انجیل،توریت، زبور وغیرہ میں آیاہے۔
اگرچہ قرآن کے علاوہ باقی تمام آسمانی کتب تحریف سے محفوظ نہیں رہیں ان کتب میں بھی بعض مقامات تحریف سے بالکل محفوظ ہیں کہ انہی مقامات پر مہدیٴ موعود اور مصلح جہانی کے آنے کی اطلاع اور اس کی عالمی حکومت کی بات ہوئی ہے۔
کیونکہ بات پیشینگوئی کی صورت میں ہے اور آئندہ سے مربوط ہے ان کتب کے مضامین قرآن مجید اور اخبار متواتر میں آئے ہیں اس لحاظ سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ یہ وحی کہ زبان ہے اور طول تاریخ میں انسانوں کے تحریف کے ہاتھوں سے محفوط ہے۔
اب ہم مختلف مذاہب کی مختلف کتب سے مہدی موعودٴ کے متعلق خوشخبریاں اور نوید ذکر کرتے ہیں:

زبور میں مہدیٴ موعود:
حضرت داؤدٴ کی زبور میں مزامیر کے عنوان کے تحت عہد عقیق میں ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اس زبورکے ہر حصے میں موعود کے متعلق اشادہ موجود ہے اور یہ بشارتیں بھی جگہ جگہ موجود ہیں کہ نیک لوگوں کو بڑے لوگوں پر فتح نصیب ہوگی اور ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے گی مختلف ادیان اور متعدد مذاہب سب ایک دین محکم اور مستقیم پر آجائیں گے (عہدعقیق) قابل توجہ ہے کہ امام زمانٴ کے متعلق قرآن میں کافی آیات سے ایک آیت یہ بھی ہے کہ جس کی تفسیر شیعہ اور سنی دونوں مفسیرین نے ’’ظہور مہدیٴ‘‘ سے کی ہے۔
ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الزکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون۔(سورہ انبیائ آیت١٠٥)
یعنی ذکر کے علاوہ ہم نے زبور میں لکھا ہے کہ میرے نیک بندے دین کے وارث ہوں گے اور تعجب ہے کہ موجودہ عبارت زبور میں تحریف کے ہاتھ سے محفوظ اور مضمون ہے یہ ہے زبور کا متن۔
البتہ مہدیٴ کی خوشخبریاں زبور میں متعدد مقامات پر بہت زیادہ ہیں جو ہم نے صرف اختصار کی وجہ سے دو مقامات کو ذکر کیا ہے مزید تحقیق کے لیے مزامیر کا متن عہدین میں دیکھ لیں۔

مہدیٴ موعود عہد عتیق میں:
چونکہ یہ خوشخبری اس قدر واضح ہیں کہ وضاحت کی ضرورت ہی نہیں اس لیے ہم صرف مختصر چند مقامات کا ذکر کرتے ہیں۔ ١۔ ایک نئی کونپل نکلے گی ایک شاخ سر سبز ہو گی اس پر خدا کی روح قرار پکڑے گی اور مسکینوں میں عدل و انصاف کے فیصلے کرے گی اور زمین پر مظلوموں کی حمایت میں حکم جاریہ ہو گا چیر پھاڑ کرنے والے بھیڑیے رک جائیں گے شیر اور بکری اکٹھے رہیں گے بھیڑ اور شیرباہم زندگی گزارین گے ایک چھوٹا بچہ ان کو روند ڈالے گا اور تمام مقدس پہاڑ ہر ضرر و نقصان و فساد سے محفوظ ہو گا جہانی معرفت خدا سے پر ہو گا۔
(کتاب الشیعہ فصل ١١ج١تا١٠)

٢۔ بلکہ حضرت یعقوب کی نسل سے اس کے پہاڑوں کا وارث یہودا (فرزند یعقوب) سے ظاہر ہو گا اور میرے بزرگان اس کے وارث اور میرے بندے وہاں کے ساکن ہوں گے لیکن تم (یہود کو خطاب) نے خدا کو چھوڑ دیا ہے اور مقدس پہاڑ کو بھول گئے ہو اور بخت کی وجہ سے دسترخواں آمادہ پذیری کر دیا ہے اور اتفاق کے لیے بہت کچھ کیا ہے پس تمہیں تلوار کے لیے مقدر کیا ہے اور تم تمام قتل کے لیے خم ہو جاؤ گے اپنی قوم میں خوشی کروں گا اور اب گریہ و زاری وغیرہ اب دوبارہ نہ سنا جائے گا۔(کتاب الشیعہ، فصل٢٥ بند٩،١٣،١٨،٢٠)
٣۔ اس زمانے میں امیر عظیم حضرت میکائیلٴ جو تیری قوم (خطاب بہ خطاب حضرت دانیال نبی) کے بیٹوں کے لیے کھڑا ہے اور کھڑا ہو جائے گا اور یقین ہو گا اور زمین کے مدفونین کھڑے ہوں گے جن لوگوں نے راہ راست کی ہدایت کی تو وہ ستاروں کی طرح چمکتے رہیں گے اے دانیال اس کلام کو ابھی مخفی رکھو اور کتاب کو اس زمانے تک کے لیے مہر لگا دے میں تا آخرالزمان یہ کلام محی اور محترم ہے خوشحال ہیں وہ جو منتظر ہیں۔(کتاب دانیال نبی فصل١٢)
٤۔ اگرچہ تاخیر سے آئے اس کی انتظار میں بیٹھو کیونکہ وہ آئے گا اور ضرور آئے گا ذرا بھر دیر نہ کرے گا بلکہ تمام امتوں کو اپنے پاس جمع کرے گا اور تمام اقوام عالم کو اپنی طرف بلائے گا(کتاب حقوق نبی فصل٢ بند٣،٥)
(کتاب الشیعہ فصل ١١ج١تا١٠)

ہم نے اختصار کی وجہ سے صرف چار مورد پیش کیے ہیں البتہ تفصیل دیکھنے والوں کو کتاب الشیعہ نبی١٩،٢٥ اور ذکر یا نبی کو دیکھنا پڑے گا۔

انا جیل عہد جدید میں مہدیٴ موعود:
١۔ جس طرح مشرق سے ایک بجلی نکلتی ہے اور مغرب سے وہ ظاہر ہوتی ہے اس طرح انسان کے لیے مہدیٴ کا ظہور ہوتا ہے اس وقت انسانی بیٹے کی علامت آسمان سے پیدا ہوتی ہے تو اس وقت تمام زمین کی طوائف سینہ زنی کریں گے کہ انسانی بیٹے (مخصوص) کو دیکھیں گے جو آسمانوں پر بادلوں سے قوت اور جلال عظیم سے آ رہا ہو گاآسمان اور زمین ختم ہو جائیںگی لیکن بات ختم نہ ہو گی ہاں اس روز کی اطلاع کس کو نہیں حتیٰ کہ آسمان کے فرشتوں کو بھی نہیں سوائے میرے باپ کے اور بس اور آپ بھی حاضر رہیں تا کہ جس وقت کا تمہیں گمان بھی نہ ہو گا وہ فرزند انسان آ جائے گا۔(انجیل متی فصل ٢٤ بند ٢٢)
٢۔ چونکہ فرزند انسان جلال سے فرشتہ کے ساتھ آئے گا اور جلالی کی کرسی پر بیٹھیں گے اور تمام انسان اس کے سامنے جمع ہوں گے۔(انجیل متی فصل ٢٥، بند٣١)
٣۔ پھر فرزند انسان کو دیکھیں گی کہ قوت و جلال عظیم سے بادلوں پر سیر کرتا ہوا آئے گا اور وہ چاروں طرف سے فرشتوں کو بلائے گا آسمان و زمین ختم ہو جائیں گے لیکن بات ختم نہ ہو گی اور اس وق کو سوائے باپ کے اور نہیں جانتا پس دعا کرو۔
(انجیل مرقس باب١٣ بند٢٦،٢٧)
٤۔ اور اس وقت کو دیکھا جائے گا کہ بادل پر سوار ہو کر قوت و جلال سے آئے گا پس اپنی حفاظت کرو تمہارے دل غافل نہ ہوں وہ اچانک تم پر ظاہر ہو جائے گا دعا کرو اور نجات حاصل کرو اور فرزند انسان کے سامنے سرخرو ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔(انجیل لوقاباب ٢١بند٣٣،٢٧)
٥۔ اس قسم کی خوشخبریاں یوحنا کی انجیل میں بھی ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے ان کا ذکر میں آگے کروں گا یہ حکم فرزند انسان یا انسان کا بیٹا مسٹر ہاکس امریکائی کی کتاب قاموس مقدس میں ٨٠ بار تکرار ہوا ہے کہ ٣٠ مرتبہ تو حضرت عیسیٰٴ پر تطبیق کے قابل ہے جب کہ ٥٠ مرتبہ کی مہدی موعودٴ کے علاوہ کہیں تطبیق نہیں ہوتی۔

ہندوؤں کی مقدس کتب میں مہدی موعودٴ:
ہندوؤں کے نزدیک جو مقدس کتابیں معروف ہیں جن کے لانے والے پیغمبر کے عنوان سے پہچانے جاتے ہیں ان کتب میں زیادہ تصریحات مہدی موعودٴ کی ہیں کہ چند نمونے ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں۔
اصل موضوع سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ان کتابوں کو ہم آسمانی کتب نہیں سمجھتے اور ان کو لانے والوں کو پیغمبر نہیں مانتے بلکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی کتب سے ان مطالب اور اقتباسات کو ذکر کیا ہے کیونکہ یہ مطالب آئندہ کے لیے ہیں اور ان مطالب کی پیشنگوئی وحی کے نتائج سے ہوتی ہے پس ہم چند پیشنگوئیاں یہاں پیش کرتے ہیں تا کہ مہدی موعودٴ کا عالمی عقیدہ موید اور منور ہو جائے۔
١۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب باسک ’’میں آیاہے کہ اس عالم کی انتہا آخرالزمانٴ میں ایک عادل بادشاہ کا وجود ہے کہ جو ملائکہ جنوں اور آدمیوں کا پیشوا ہو گا حق و سچ اس کے سامنے ہو گا جو کچھ دریاؤں، زمینوں، پہاڑوں میں چھپا ہے تمام کو اپنے ہاتھ میں لے گا زمین اور آسمانوں کے متعلق خبریں دے گا اس سے بزرگ تر اور کوئی بھی دنیا میں نہیں آیا ‘‘۔
٢۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’شاکمونی‘‘ میں ہے کہ اس دنیا کی حکومت اور بادشاہی (کش ہندی میں پیغمبر کو کہتے ہیں) جو دو جہان کے سردار ہیں کی اولاد پر ختم ہو گی وہ ہو گا جو مشرق اور مغرب کی دنیا پر حکم چلائے گا بادلوںکی سواری کرے گا فرشتہ اس کے نوکر و خادم ہوں گے جن اور انسان اس کی خدمت میں ہوں گے سوڈان جو خط استوار کے نیچے سے لے کر ’’قسطین‘‘ کی زمین تک جو خطہ قطب شمالی کے نیچے ہے اور سمندروں کے ماورائ کا مالک ہو گا خدا کا دین اور زندہ ہو جائے گا اس کانام ’’قائمٴ‘‘ اور خدا شناس ہو گا۔
٣۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب ’’دید‘‘ میں ہے کہ دنیا کی بربادی کے بعد آخری زمانے میں ایسا بادشاہ ظاہر ہو گا جو تمام مخلوق کا پیشوا ہو گا اس کا نام منصور ہو گا(امام زمانہٴ کا لقب منصور ہے) تمام دنیا پر دین الہیٰ نظام کا حاکم ہو گا اور ہر شخص کو خواہ مومن ہو یا کافر پہچانتا ہو گا۔
٥۔ ’’دادتک‘‘ مقدس کتاب میں یوں لکھا ہے کہ آخرالزمان میں ایک مسلمان ایسا آئے گا کہ اس وقت کے ظلم علمائ کے اختلاف حکام کے تجاور، زاہدوں کی ریاکاری، امتیوں کی بے وفائی، حاسدوں کے حسد سے اسلام ختم ہوچکا ہو گا صرف اسلام کا نام باقی ہو گا پس حق کا ہاتھ آئے گا اور ممتاطا(ہندی میںمحمد کو کہتے ہیں) کے آخری جانشین ظاہر ہو گا مشرق و مغرب پر حکومت کرے گا ہر جگہ ہر ایک کی ہدایت کرے گا۔
٦۔ باتیکل کتاب میں یوں ہے کہ جب دن پورا ہو گا تو پرانی دنیا نئی ہو جائے گی یعنی زندہ ہوں گے اور دنیا کا مالک ظاہر ہو گا اور وہ عالم دنیا کے پیشوا کے فرزندوں میں سے ہوگا ایک آکرالزمان کی ناموس اور دوسرا اس کے بزرگ وصی کے فرزند کہ جن کا یسین (علی ابن ابی طالبٴ) نام ہے اور نئے مالک کا نام رہنما ہے (راہنما عربی میں ہادی اور مہدی کو کہتے ہیں جو دونوںامام زمانہٴ کے القاب ہیں) وہ بادشاہ بن جائے گا اور (لغت سانسکریت میں خدسا کو کہتے ہیں) میں خلیفہ ہو گا اور اس کے بہت معجزے ہوں جو ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں مہدی موعودٴ کے بارے میں ہیں جو تمام کتاب مقدسہ سے واضح طور پر مہدیٴ موعود کی پیشگوئی کر رہا ہیں۔

زرد تشتیوں کی کتب میں مہدی موعودٴ:
١۔ مقدس کتاب ’’زند‘‘ میں آخری زمانہ کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے حالات زمانہ کے متعلق لکھا ہے کہ غالباً کامیابی ہر یمنی کو ہو گی جب کہ مملکت یزدان متعرض نہ ہو گا بلکہ از طرف افراد یزدان کی مدد ہو گی پھر اس کتاب میں ہے کہ بڑی کامیابی یزدان کی ہو گی اور ہر یمنی مٹ جائے گا پس ہر یمنیوں کے ختم ہونے اور یزدان کے کامیابی کے بعد اس کائنات میں اصلی سعادت آجائے گی اور نبی آدم نیک بختی کے تخت پر بیٹھے گا۔
٢۔ حاماسب اپنی معروف کتاب ’’حاماسب نامہ‘‘ میں زروشت سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر۰ کی بیٹی کے فرزند جو کہ دنیا کا سورج اور زمانے کا شاہ ہے وہ بادشاہ ہو گا اور دنیا میں یزدان کی اجازت سے اس کا حکم چلائے گا اور آخری پیغمبر کے وہ جانشین ہوں گے۔
 
تحریر: آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی



جو لوگ شیعوں کے بارہ میں غلط فہی میں مبتلا ہوکر شیعہ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کے سیاسی اغراض پر مبنی مسموم افکار کی ترویج کرتے ہیں وہ جادۂ تحقیق سے منحرف ہوکر اپنے مقالات یا بیانات میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ ،شیعہ عقیدہ ہے اور اسے تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے انھیں زحمت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ تعصب ونفاق کے علاوہ تاریخ وحدیث اورتفسیر ورجال سے ناواقفیت،اسلامی مسائل سے بے خبری اور عصر حاضر کے مادی علوم سے معمولی آگاہی کے باعث تمام دینی مسائل کو مادی اسباب وعلل کی نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی راز یا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے توفوراً تاویل وتوجیہ شروع کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کربیٹھتے ہیں۔
اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیں تاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہو جائے یا کوئی بے خبر اسے بعید از عقل نہ سمجھ بیٹھے۔
ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہو سکے۔
ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء (ع) کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوند عالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضا وقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔
خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت (Nature)کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آ گئی تو کیا کہنا۔
یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کر رہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں ۔
انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہیں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ٨١ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔
ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔
مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ''مغرب زدہ ہونا'' یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
ظہور حضرت مہدی (ع) کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی (ع) کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت (ع) اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔
''عقاد '' کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔
اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت (ع) سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ''خلفائے راشدین'' میں شمار کرتے ہیں۔
انہوں نے مہدی (ع) اہل بیت (ع) کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت (ع) سے بغض و عناد کی عینک سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی (ع) بہرحال اولاد فاطمہ (ص) میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ(ص) کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ''بعید'' قرار دے دیا۔
اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔
معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ''مقالید الکنوز'' میں تحریر فرماتے ہیں ''ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی (ع) سے متعلق عقیدہ کو ''شیعی عقیدہ'' قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی (ع) سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔''
استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ''ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون'' ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔
ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں :
١۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر (ص) ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔
٢۔ ظہور مہدی (ع) کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔
٣۔ آپ کے نزدیک ''اسلامی عقیدہ'' کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟
اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟
اگر کسی موضوع سے متعلق ابی دائود صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ''المہدی''، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ''التوضیح'' اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟
پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیںکہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی (ع) کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔
 
Sunday, 05 April 2020 20:07

طلوع شمس امامت

 کلام: شہید محسن نقوی 
اے    فخر    ابن    مریم    وسلطان   فقر   خو
تیرے   کرم   کا   ابر   برستا   ہے   چار   سُو


تیرے   لیے   ہوائیں  بھٹکتی  ہیں  کو  بہ  کو
تیرے   لئے   ہی   چاند   اترتا  ہے  جوبجو  !


پانی    ترے   لیے   ہے   سدا   ارتعاش   میں
سورج   ہے  تیرے  نقش  قدم  کی  تلاش  میں


اےآسمان    فکر    بشر    ،    وجہ   ذوالجلال
اے   منزل   خرد   کا   نشاں   ،  سرحد  خیال


اے    حُسن    لایزال    کی    تزئین    لازوال
رکھتا  ہے  مضطرب  مجھے  اکثر  یہی سوال


جب   تو   زمین   واہل   زمین  کا  نکھار  ہے
عیسیٰ  کو  کیوں  فلک  پہ  ترا  انتظار  ہے  ؟


اے    عکس   خدوخالِ   پیمبر   جمال   ِ   حق
تیری   ترنگ   میں   ہیں  فضائیں  شفق  شفق


تیری  عطا  سے  نبض  جہاں  میں  سدا  رمق
تیری    کرن    پڑے    تو    رُخ    آفتاب   فَق


تیرے  نفس  کی  آنچ دل خشک وتر میں ہے !
تیرے  ہی  گیسوؤں  کی  تجلی سحر میں ہے!!


تو   مسکرا  پڑے  تو  خزاں  رنگ  رنگ  ہو
تو  چُپ  رہے  تو  سارا  جہاں  مثل  سنگ  ہو


تو  بول  اُٹھے  تو  نطق  جہاں  ساز  دَنگ  ہو
ر  دل  میں  کیوں  نہ تیری "ولا" کی امنگ ہو


میں  کیوں  نہ  تیرا  شکر  کروں بات بات میں
ہر  سانس  تیرے  دَر  سے ملی ہے زکواۃ میں


تیرے   حشم   سے   رنگ  فلک  لاجورد  ہے
مہتاب   تیرے  حسن  کے  پرتو  سےزرد  ہے


موج   ہوائے   خلد   ترے   دم  سے  سرد  ہے
محشر کی دُھوپ کیا؟ تیرے قدموں کی گرد ہے


تیرا    کرم    بہشت    بریں   کا   سُہاگ   ہے
تیرا  غضب  ہی  اصل  میں دوزخ کی آگ ہے


اے   باغ   عسکری   کے   مقدس  ترین  پھول
اے    کعبۂ    فروع    نظر    ،   قبلۂ   اصول!


آ،  ہم  سے  کر  خراج  دل وجاں کبھی وصول
تیرے    بغیر    ہم    کو   قیامت   نہیں   قبول


دنیا   نہ   مال   وزر  نہ  وزارت  کےواسطے
ہم  جی  رہے  ہیں  تیری  زیارت کے واسطے


مولا    تیرے   حجاب   معانی   کی   خیر   ہو
تیرے   کرم   کی،   تیری  کہانی  کی  خیر  ہو


تیرے    خرام   تیری   روانی   کی   خیر   ہو
نرجس   کا   لال   تیری  جوانی  کی  خیر  ہو


ممکن   ہے   اپنی   موت   نہایت  قریب  ہو  !
اک  شب  تو  خواب  ہی میں زیارت نصیب ہو


اے    آفتاب    مطلع    ہستی    ،   ابھر   کبھی
اے    چہرۂ    مزاج    دو   عالم   نکھر   کبھی


اے  عکس  حق ، فلک سےادھر بھی اتر کبھی
اے   رونق   نُمو   ،   لے   ہماری  خبر  کبھی


قسمت  کی  سرنوشت  کو  ٹوکے  ہوئے ہیں ہم
تیرے  لئے  تو  موت  کو  روکے ہوئے ہیں ہم


اب  بڑھ چلا ہے ذہن ودل وجاں میں اضطراب
پیدا    ہیں    شش   جہات   میں   آثار   انقلاب


اب  ماند  پڑ  رہی  ہے  زمانے  کی  آب وتاب
اپنے  رُخ  حسیں  سے  اُٹھا  تُو  بھی اَب نقاب


ہرسُو   یزیدیت   کی   کدورت   ہے  اِن  دنوں
مولا   !  تیری  شدید  ضرورت  ہے  ان  دنوں


نسل   ستم   ہے   در   پئے  آزار  ،  اب  تو  آ
پھر  سج  رہے  ہیں  ظلم  کے دربار ، اب تو آ


پھر   آگ   پھر   وہی   درودیوار  ،  اب  تو  آ
کعبے  پہ  پھر  ہے  ظلم  کی  یلغار  ، اب تو آ


دِن  ڈھل  رہا  ہے  ،  وقت  کو  تازہ  اُڑان دے
آ   "اے   امام  عصر"  حرم  میں  "اذان"  دے


از           کتاب           "فرات           فکر"
 
ف . ح . مہدوی
میری امت كا برترین اور بالاترین عمل خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار ہے۔

1.انتظارِ فَرَج (گشایش ).
1. قال رسول اللّه (ص): انتظارالفَرَج بالصبرعبادة (الدعوات للراوندى: 41 / 101).
صبر و استقامت كے ساتھ فَرَج و فراخی كا انتظار، عبادت ہے.

2. قال الامام علي (ع): انتظروا الفَرَج ولا تياسوا من روح اللّه، فان احب الاعمال الى اللّه عزوجل انتظار الفَرَج. (البحار: 52 / 1243 / 7.).
فَرَج اور فراخی كے منتظر رہو اور خدا كی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ كیونكہ خداوند عزّ و جلّ كے نزدیك محبوبترین اور پسندیدہ ترین عمل انتظارِ فَرَج ہے.

3. قال الامام زين العابدين (ع): انتظار الفَرَج من اعظم الفَرَج (البحار: ص 122 / 4).
فَرَج و فراخی كا انتظار خود عظیم ترین فراخی ہے.

4. قال الامام الصادق (ع): من دين الائمة الورع والعفة والصلاح... وانتظار الفَرَج بالصبر (البحار: 52 / 122 / 1).
پارسائى، پاكدامنى، درستكاری اور صبر كے ساته فَرَج اور فراخی كا انتظار ائمہ كے دین كا حصہ ہیں.

5. الامام الكاظم (ع): انتظار الفَرَج من الفَرَج (الغيبة للطوسى: 459 / 471)
فَرَج و فراخی كا انتظار فراخی كی علامت ہے.

انتظار فَرَج برترین عبادت ہے.
6. قال رسول اللّه (ص): افضل اعمال امتي انتظارفَرَج اللّه عزوجل (البحار: 52 / 122 / 2).
میری امت كا برترین اور بالاترین عمل خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار ہے.

7. قال رسول اللّه (ص): افضل اعمال امتي انتظارالفَرَج من اللّه عزوجل (البحار: ص 128 / 21).
میری امت كا بالاترین عمل یہ ہے كہ خدا كی جانب سے فَرَج و فراخی كا انتظار كرے.

انتظار فَرَج بہترین عبادت ہے
8. قال رسول اللّه (ص): افضل العبادة انتظار الفَرَج (البحار:ص 125 / 11).

بہترین عبادت انتظارِ فَرَج ہے.
9. قال الامام علي (ع): افضل عبادة المؤمن انتظار فَرَج اللّه (المحاسن: 1 / 453 / 1044).
مؤمن كی بہترین عبادت، خدا كی جانب سے فراخی كا انتظار ہے.

منتظرین كی منزلت
10. قال الامام الصادق (ع): المنتظر للثاني عشركالشاهر سيفه بين يدي رسول اللّه (ص) يذب عنه (البحار: 52 / 129 / 24).
جو شخص بارہویں امام (عج) كا چشم براہ اور منتظر ہوگا وہ اس شخص كی مانند ہے جس نے تلوار سونت كر رسول اللہ (ص) كی ركاب میں جہاد كرتے ہوئے آپ (ص) كی ذات بابركات كا دفاع كیا ہو.

11. قال الامام الصادق (ع): من مات منتظرا لهذا الامر كان كمن كان مع القائم في فسطاطه، لا بل كان بمنزلة الضارب بين يدي رسول اللّه (ص) بالسيف (. البحار: ص 146 / 69).
جو شخص اس امر (ظہور امام مہدی (عج) كا انتظار كرتا ہوا مرجائے، وہ اس شخص كی مانند ہے جو حضرت قائم (عج) كے ساتھ آپ (عج) كے خیمے میں حاضر ہو؛ نہیں بلكہ [اس سے بھی بالاتر] وہ اس شخص كی مانند ہے جو رسول اللہ (ص) كی ركاب میں فریضۂ جہاد انجام دیتا ہے.
ان احادیث كے مفہوم كے بہتر ادراك كے لئے درج ذیل مقالات كا ضرور مطالعہ كریں:
 

جنرل یحییٰ صفوی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پڑوسی ملک عراق میں امریکہ کی غیر قانونی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ اب امریکی انتظامیہ کو بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی پابندی کے تعلق سے اپنی ذمہ داری سمجھ لینی چاہئے۔

جنرل صفوی کا کہنا تھا کہ عراقی پارلیمنٹ اپنے ملک میں امریکی سرکردگی میں موجود غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کا بل پاس کر چکی ہے جس کے بعد ان کی موجودگی غیر قانونی ہے اور عراق کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی شمار ہوتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے مشیراعلیٰ نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کو نظر انداز کرے گا تو پھر اسے عراق میں اپنی غیر قانونی موجودگی کی بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی اور عراقی حکومت و عوام اس کی مہم جوئی کا جواب دینے کے لئے پوری طرح حق بجانب ہیں۔

تحریر: ہادی محمدی

امریکہ نے 2003ء میں عراق پر فوجی قبضہ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ کی اسٹریٹجی آئندہ 7 برس میں خطے کے 5 بڑے ممالک پر فوجی قبضہ کر کے انہیں نابود کرنے پر مشتمل تھی۔ لیکن افغانستان اور عراق پر فوجی قبضے کے بعد امریکہ 2008ء میں شدید اقتصادی بحران کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں اسے 2010ء میں اپنے فوجیوں کی اکثریت عراق سے واپس بلانا پڑی۔ اس کے بعد جب خطے میں خود امریکہ کا ہی ایجاد کردہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش ابھر کر سامنے آیا تو امریکہ اس سے مقابلے کے بہانے ایک بار پھر عراق میں حاضر ہو گیا۔ امریکی حکام نے ہمیشہ اپنے حقیقی عزائم پوشیدہ رکھے ہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اصل حقائق پوشیدہ نہ رکھ سکے اور انتہائی بے شرمانہ انداز میں کہہ ہی ڈالا کہ عراق اور شام میں ہمارا مقصد وہاں موجود خام تیل کے ذخائر ہیں۔ 2013ء سے اب تک عراق میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں اسی بے شرمی پر مبنی رہی ہیں اور امریکہ مسلسل عراق کی خودمختاری اور حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کرتا آیا ہے۔ حالیہ چند دنوں میں یہ امریکی بدمعاشی اپنے عروج تک پہنچ چکی ہے۔

جب اسلامی جمہوریہ ایران کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی فورسز فورسز اور عراق آرمی نے اس ملک میں داعش کا قلع قمع کر دیا اور امریکہ کے ہاتھ سے یہ اہم ہتھکنڈہ نکل گیا تو امریکہ نے اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کیلئے این جی اوز، جاسوسوں، مغرب نواز حلقوں اور بکے ہوئے عناصر کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ خطے سے متعلق امریکہ کا شیطانی منصوبہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ شہید جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے نائب سربراہ شہید ابو مہدی المہندس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوا تھا لہذا امریکہ نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے ایک دہشت گردانہ اقدام کے ذریعے ان دونوں کی ٹارگٹ کلنگ کی۔ اس دہشت گردانہ اقدام میں امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں اور حتی اقوام متحدہ نے اسے عراق کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور غیر قانونی اقدام انجام دیا ہے۔ امریکی حکام کا خیال تھا کہ اکتوبر 2019ء میں ان کی منصوبہ بندی سے عراق میں شروع ہونے والے ہنگاموں اور شدت پسندی کے بعد اس ملک میں مغرب نواز حلقوں کے برسراقتدار آنے کے مقدمات فراہم ہو جائیں گے لیکن امریکہ کی یہ خوش فہمی بھی سراب ثابت ہوئی۔

عراق کی پارلیمنٹ نے شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد متفقہ طور پر عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلاء پر مبنی بل منظور کر لیا۔ اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے امریکہ کے عین الاسد فوجی اڈے پر میزائل حملہ امریکہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے عراق میں موجود سیاسی بحران کو طول دے کر اور نئی کابینہ تشکیل پانے کی راہ میں روڑے اٹکا کر اپنے شیطانی اقدامات کیلئے مناسب موقع حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عراق میں قومی عزم پوری طاقت سے باقی ہے جبکہ ایران نے بھی امریکہ سے شدید انتقام کو اپنی پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایجنٹس کی جانب سے چلائی جانے والی مہم اور پروپیگنڈا بھی بے نتیجہ ثابت ہوا ہے جبکہ عراق آرمی اور حشد الشعبی کے مراکز پر ہوائی حملوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آج امریکہ اپنے ہی بنائے ہوئے کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ کر اقتصادی بحران کی نئی لہر سے روبرو ہو چکا ہے جس کے باعث وہ عراق اور مغربی ایشیا کے دیگر حصوں میں فوجی سرگرمیوں پر دولت لٹانے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ لہذا ڈونلڈ ٹرمپ ایسے طریقوں کی تلاش میں ہے جن سے کم اخراجات کے ذریعے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکیں۔

انہی میں سے ایک عراق میں نئی حکومت کی تشکیل کیلئے عدنان الزرفی کا انتخاب ہے۔ عراق میں عدنان الزرفی امریکی فوج کے نوکر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ اگلے دس دنوں میں عراقی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ البتہ اس کی کامیابی کا امکان بہت کم ہے۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اس وقت کرونا وائرس جیسے بڑے چیلنج سے روبرو ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوجی اپنے اڈوں میں محصور رہتے ہیں کیونکہ انہیں شہر میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے امریکہ نے عراق میں بڑے پیمانے پر فوجی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں اور اپنے فوجیوں کو چھوٹے اڈوں سے نکال کر بڑے اڈوں میں منتقل کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس صورتحال کا غلط فائدہ اٹھا کر امریکی حکام نے حشد الشعبی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے امریکہ حشد الشعبی کے خلاف کوئی بڑی کاروائی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے چیف کمانڈر جنرل سلامی نے خبردار کیا ہے کہ ایران ہر گز عراق میں اپنی اتحادی فورسز کو تنہا نہیں چھوڑے گا اور مشکل وقت آنے پر ان کی بھرپور مدد اور حمایت کرے گا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی گارڈز "سپاہ پاسداران" کے دفتر تعلقات عامہ کی جانب سے ایران میں اسلامی جمہوری نظام حکومت کے انتخاب کے روز، 1 اپریل 1979ء (مطابق با 12 فروردین 1358ء) "یوم اللہ" کی مناسبت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نظام حکومت کی 41 سالہ تاریخ میں ایرانی عوام کے بیمثال ریفرنڈم کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی دشمن کی پلید اور شیطانی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا تاہم اس کے باوجود ایرانی عوام اور اسلامی جمہوری نظام حکومت روز افزوں ترقی کرتا ہوا پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن رہا حتٰی کہ اب 4 دہائیاں گزر جانے کے بعد پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم اور طاقتور، اپنی دیرینہ آرزو "جدید اسلامی تمدن" کے حصول کے لئے قدم بڑھا رہا ہے جبکہ اسلامی انقلاب کی اس کامیابی نے مغربی ایشیائی خطے سے باہر تک اپنے اثرات ڈالے ہیں جس کے نتیجے میں اب یہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے پلید اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بن چکا ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مناسب سے سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شرارتی و بدطینت دشمن کی طرف سے دنیا کے کسی بھی کونے میں ایران کے خلاف سرزد ہونے والی کوئی چھوٹے سے چھوٹی خطا بھی اس کی آخری غلطی ثابت ہو گی۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جارحیت کے مقابلے میں اسلامی انقلابی محاذ کی اٹل اور انتہائی تباہ کن جوابی کارروائی ناقابل یقین ہو گی جس کے بعد دشمن کو پچھتانے کی فرصت بھی نہیں ملے گی۔ سپاہ پاسداران نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے زندہ، مستحکم و متاثر کن حقائق اور عدالت، حق طلبی و استکبار مخالف موقف کی بناء پر نہ صرف پوری انسانیت کو اپنا مخاطب قرار دیا ہے بلکہ امریکہ و اسرائیل کی آمر و دہشتگرد رژیموں کو دنیا کے اسٹریٹیجک نشیب و فراز پر تنہاء کر کے ان کے ظاہری جاہ و جلال کی قلعی کو بھی کھول دیا ہے۔

ایرانی انقلابی گارڈز سپاہ پاسداران کی طرف سے جاری ہونے والے اس بیان میں ایران کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے روز کی مبارکباد پیش کی گئی اور اسلامی انقلاب کے معنوی پیغام کو آزاد قلوب کیلئے نوید، امید اور امریکہ جیسی فریب کار، شیطانی و انسان دشمن طاقتوں سے آزادی کا پیغام قرار دیا گیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کے شکرگزار ہیں کہ قوم کے سپوتوں کی جدوجہد اور دفاعی میدانوں میں خصوصا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی کاوشوں کی بدولت آج مملکت خداداد کسی بھی دشمن کی طرف سے سخت یا نرم، ہر قسم کی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس بیان میں گذشتہ 41 سال کے دوران اسلامی انقلاب کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء خصوصا سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور رہبر کبیر انقلاب اسلامی آیت اللہ خمینیؒ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی مدد سے قیام، فعال مزاحمت اور دفاعی ترقی پر مبنی سپاہ پاسداران کی حکمت عملی پورے زور و شور سے جاری رہے گی۔
 
 
 

[۹:۵۸ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬:


کرہ ارض پر انسان نے جب سے قدم رکھا ہے یہ گفتگو ہوتی رہی ہے کہ انسان خیر محض ہے کہ شر محض کسی نے اسے خیر کا مظہر قرار دیا تو کسی نے ذاتا اس کا میلان شر کی طرف قرار دیا اور آج تک انسان کی ذات کے سلسلہ سے یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ اس کے اندر رجحان خیر کا پایا جاتا ہے یا یہ شر کی طرف جھکاو رکھتا ہے انسان شناسی کے باب میں بہت سے دانشوروں اور اسکالرز نے اپنے اپنے طور پر انسان کے وجود کی مختلف پرتوں کو کھولنے کی کوشش کی ہے [1]لیکن انکی تمام تر جدو جہد کے باوجود انسان کے حقیقی تصویر سامنے نہیں آ سکی اور اسکا اعتراف وہ خود کرتے ہیں کہ ان کی زیادہ تر گفتگو سائنسی دائرہ کے اندر محدود رہنے کی بنیاد پر اسکی ان صلاحیتوں کو نہیں پیش کر سکی جو روحانی طور پر انسان کے وجود کے اندر پائی جاتی ہیں[2] اور جنکے بل پر وہ کمال کے اعلی ترین درجات کو حاصل کرتے ہوئے سب سے افضل و برتر قرار پاتا ہے اور اسی بنا پر کل سے لیکر آج تک ان کے لئیے انسان ایک معمہ بنا ہوا ہے[3] ۔ ظاہر ہے یہ کام انہیں لوگوں کا ہے جو روحانی و معنوی طور پر خود کسی مقام و درجہ پر فائز ہوں اور معنویت کی راہ میں خود انہوں نے جانفشانیاں کی ہوں لہذا پیش نظر مقالہ میں ہم ایک ایسی شخصیت کی دعاوں کے مجموعہ سے انسانی شناخت کے کچھ اشاروں کو پیش کریں گے جسے سید الساجدین کے لقب سے دنیا جانتی ہے ،مختصر طور پر ہی سہی صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں ہم انسان کے ان حقیقی اوصاف کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں جو پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھے ہیں اور جنکے لحاظ سے بشر حقیقی معنی میں اس درجہ پر پہنچتا ہے کہ ملائک بھی اس کے حصول کمال پر دم بخود رہ جائیں۔
[۹:۵۸ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: صحیفہ سجادیہ میں انسان کے اوصاف :

جس طرح قرآن کریم نے انسان کے مثبت و منفی دونوں ہی صفات کا تذکرہ کیا ہے اسی طرح صحیفہ سجادیہ نے بھی اانسان کو اس حیثیت سے پیش کیا ہے کہ اس کے مثبت و منفی دونوں پہلو سامنے آجائیں بس فرق یہ ہے کہ قرآن اوپر سے نیچے آنے والی کتاب ہے اور امام سجاد علیہ السلام نے ان دعاوں کے مجموعہ کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے جسے قرآن صاعد کہا جاتا ہے جو خدا کی عظمت کا اعتراف کرنے والے ایسے بندے کی زبان سے بصورت دعاء نکلے ہیں جسے عبادتوں کی زینت کہا گیا ۔امام سجاد علیہ السلام نے دعاوں کے قالب میں ان اوصاف کی نشاندہی کی ہے جنکے پیش نظر مثبت صفات کا لحاظ و منفی صفات سے پرہیز کرتے ہوئے انسان منزل کمال کے اعلی ترین مدارج کو طے کرسکتاہے ان میں بعض صفات تو بعینہ وہی ہیں جنہیں قرآن کریم نے پیش کیا ہے اور بعض خواہ مثبت و منفی صفات وہ ہیں جنہیں آپ نے بعنوان صفات انسان تو پیش نہیں کیا لیکن ان دعاوں میں غور و فکر یہ بتاتا ہے کہ ان میں ایسے صفات کی نشاندہی ضرور کی گئی ہے جنکا انسان یا تو خود حامل ہے یا اس کے اندر ان صفات کو اپنی ذات کا حصہ بنا لینے اور خود میں رچا بسا لینے کی صلاحیت موجود ہے ان میں کچھ مثبت صفتیں وہ ہیں جو خود انسان کی ذات کے اندر پہلے سے موجود ہیں اور کچھ وہ ہیں جن سے آراستہ ہونے پر انسان تطہیر و تعمیر ذات کا عمل بہتر طور پر کر سکتا ہے ۔علاوہ از این کچھ صفات وہ ہیں جو انسان کو اسکی حقیقت کا پتہ دیتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ وہ کس قدر   اہمیت کا حامل ہے اس کی قیمت کیا ہے تاکہ انسان اس بات کی طرف متوجہ ہو سکے کہ جب ذاتا وہ قیمتی ہے تو پھر بے وقعت چیزوں کے پیچھے بھاگنے کا کیا معنی حسب ذیل صفات سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام نے کتنی خوبصورتی کی ساتھ پہلے تو اپنی دعاوں میں انسان کے ان صفات کا تذکرہ کیا ہے جس سے اس کی قدر و قیمت واضح ہو پھر اس کے بعد انسان کی نیازمندی کو پیش کرتے ہوئے رب کی بے نیازی کو بیان کیا ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے آگے سب کو بھول جائے ۔

انسان عالم خلقت پر برتری کا حامل :

جس طرح قرآن کریم نے انسان کو دیگر مخلوقات پر برتر و افضل جانا ہے[4]ویسے ہی امام سجاد علیہ السلام نے بھی دعاء کے قالب میں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے انسان کو اس اپنی قدر قیمت سمجھنے کی دعوت دی ہے آپ فرماتے ہیں :

اور ہمیں تمام مخلوقات پر حکومت کی فضیلت عطا فرمائی ، اب اس کی تمام مخلوقات اس کی قدرت سے ہماری مطیع ہے اور اس کی عزت کی بنا پر ہماری اطاعت کی طرف گامزن ہے ۔[5]
[۹:۵۹ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: محدود وسعت و طاقت کا حامل :

امام سجاد علیہ السلام نے انسان کو خدا کی جانب سے دیگر موجودات پر برتری دئیے جانے کے اعتراف کے بعد اس بات کو بھی دعا ءکے پیرایہ میں بیان کیا ہے کہ انسان کی طاقت و اسکی وسعت محدود ہے جسکی طرف قرآن میں بھی اشارہ کیا گیا ہے [6]یہ تمام مخلوقات پر برتری ضرور رکھتا ہے لیکن اسکی ظاہری صلاحیتیں محدود ہیں اور اسی کے پیش نظر خدا نے بھی کوئی ایسا دستور انسان کو نہیں دیا جسکے بجا لانے کی انسان کو طاقت نہ ہو :

اور اب تو اس نے ہم سے ان تمام احکام کو اٹھا لیا ہے جنکی ہم میں طاقت نہیں ہے اور ہم کو صرف بقدر وسعت تکلیف دی اور سہولت کو دیکھ کر ہمیں مشقت میں مبتلا کیا اوراس طرح کسی بندہ کے لئیے نہ کوئی دلیل چھوڑی نہ عذر ۔ [7]

انسان اور شکر گزاری :

جس طرح قرآن کریم نے انسان کی ایک صفت کو رب کی ناشکری اور کفران نعمت کے طور پر پیش کیا ہے اور شکران نعمت کو فزونی نعمت سے تعبیر کیا ہے[8] اسی سے ملتے جلتے انداز میں اما م سجاد علیہ السلام نے خدا کے شکریہ کے ساتھ اس کی خاص حمد اس بات پر کی ہے کہ اس نے ایسی مخلوق کے درمیان ہمیں رکھا کہ خدا کی حمد بجالاتی ہے اور اس کی رضا و اسکے عفو کی طلب کی طرف گامزن ہے ۔

اور ان نعمتوں پر ادائے شکر کی بہ نسبت جو مجھے عطا کی ہیں ان چیزوں پر میرے شکریہ کا کامل وفزوں تر قرار دے جو مجھ سے روک لی ہیں[9]

یا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :

اب ہم شکر ادا کرنے والی مخلوقات کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں اور اسکی رضا و مغفرت کی طرف سبقت کرنے والوں آگے بڑھے جا رہے ہیں [10]

سرکش و طغیانی کرنے والا

امام سجاد علیہ السلام نے انسان کی اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے جسے قرآن نے اس کی سرکش طبیعت کے طور پر بیان کیا ہے [11]سرکشی و طغیانی سے دوری کو بھی اپنے مالک سے طلب کیا ہے اور ساتھ ہی ظالموں کی پشت پناہی کرنے والوں میں قرار نہ دینے کی دعاء کر کے متوجہ کرنا چاہا ہے کہ سرکشی کو بغاوت کبھی کبھی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان مظلوموں کے بجائے ظالموں کی پشت پناہی جیسے سنگین جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے ایسے میں خدا ہی ہے جو انسان کو بچا سکتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں : مجھے میری سرکشی میں سرگرداں اور ایک مدت تک غفلت میں بے خبر پڑا رہنے والا بنا کر نہ چھوڑ دینا   [12]ایک اور مقام پر فرماتے ہیں پروردگار مجھے ظالموں کی پشت پناہی کرنے والا قرار نہ دے [13]۔

ضعیف و ناتواں

قرآن کریم نے انسان کو ضعیف و ناتوں مخلوق کے طور پر پیش کیا ہے[14]اسی صفت کو امام علیہ السلام اس طرح سے پیش کرتے ہیں :

اے اللہ ! اے یکہ وتنہا اورکمزور وناتوان کی (مہموں میں ) کفایت کرنے والے اورخطرناک مرحلوں سے بچا لے جانے والے! گناہوں نے مجھے بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے ۔ اب کوئی ساتھی نہیں ہے اورتیرے غضب کے برداشت کرنے سے عاجز ہوں
[۱۰:۰۰ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: اب کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے۔ تیری طرف بازگشت کا خطرہ درپیش ہے ۔اب اس دہشت سے کوئی تسکین دینے والا نہیں ہے ۔ اورجب کہ تو نے مجھے خوف ذدہ کیا ہے تو کون ہے جو مجھے تجھ سے مطمئن کرے ۔ اورجب کہ تو نے مجھے تنہاچھوڑ دیا ہے تو کون ہے جو میری دستگیری کرے ۔ اور جب کہ تو نے مجھے ناتوان کر دیا ہے تو کون ہے جو مجھے قوت دے ۔ اے میرے معبود ! پروردہ کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا سوائے اس کے پروردگار کے اورشکست خوردہ کو کوئی امان نہیں دے سکتا سوائے اس پر غلبہ پانے والے کے ۔ اورطلب کردہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا سوائے اس کے طالب کے ۔ یہ تمام وسائل اے میرے معبود تیرے ہی ہاتھ میں ہیں اورتیری ہی طرف راہ فرار وگریز ہے. لہذا تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورمیرے گریز کو اپنے دامن میں پناہ دے اورمیری حاجت برلا. [15]

بارالہا! تو نے ہمیں کمزور اور سست بنیاد پیدا کیا ہے اور پانی کے ایک حقیر قطرہ (نطفہ ) سے خلق فرمایا ہے اگر ہمیں کچھ قوت وتصرف حاصل ہے تو تیری قوت کی بدولت اوراختیار ہے تو تیری مدد کے سہارے سے۔ لہذا اپنی توفیق سے ہماری دستگیری فرما اوراپنی رہنمائی سے استحکام و قوت بخش اورہمارے دیدہ دل کو ان باتوں سے جو تیری محبت کے خلاف ہیں نابینا کردے اورہمارے اعضاء کے کسی حصہ میں معصیت کے سرایت کرنے کی گنجائش پیدا نہ کر ۔ بارالہا ! رحمت نازل فرما محمد اورانکی آل پر اورہمارے دل کے خیالوں ، اعضاء کی جنبشوں،آنکھ کے اشاروں اورزبان کے کلموں کو ان چیزوں میں صرف کرنے کی توفیق دے جو تیرے ثواب کا باعث ہوں یہاں تک کہ ہم سے کوئی ایسی نیکی چھوٹنے نہ پائے جس سے ہم تیرے اجر وثواب کے مستحق قرار پائیں۔ اورنہ ہم میں کوئی برائی رہ جائے جس سے تیرے عذاب کے سزاوار ٹھہریں ۔[16]

اے اللہ !میں ہر حال میں تیرا ذلیل بندہ ہوں تیری مدد کے بغیر میں اپنے سود زیاں کا مالک نہیں۔ میں اس عجزو بے بضاعتی کی اپنے بارے میں گواہی دیتا ہوں اوراپنی کمزوری و بے چارگی کا اعتراف کرتا ہوں ۔ لہذا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے اسے پورا کراور جو دیا ہے اسے تکمیل تک پہنچا دے اس لیے کہ میں تیرا وہ بندہ ہوں جو بے نوا، عاجز، کمزور، بے سروسامان ، حقیر، ذلیل ، نادار، خوفزدہ ، اور پناہ کا خواستگار ہے [17]

خدا کو فراموش کر دینے والی مخلوق:

جیسا کہ قرآن کریم نے انسان کی ایک صفت یہ بیان کی کہ جب یہ آسائشوں میں ہوتا ہے تو خدا کو بھول جاتا ہےاور جب مشکلوں میں گھرتا ہے تو ہی خدا کو پکارتا ہے [18] اسی بات کو دعاء کے قالب میں امام علیہ السلام یوں بیان کرتے ہیں کہ پروردگار مجھے احسان نا شناس نہ قرار دے :

اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد اوران کی آل پر اور مجھے ان عطیوں میں جو تو نے بخشے ہیں فراموش کار اور ان نعمتوں میں جو تو نے عطا کی ہیں احسان ناشناس نہ بنا دے
[۱۰:۰۱ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد اوران کی آل پر اور مجھے ان عطیوں میں جو تو نے بخشے ہیں فراموش کار اور ان نعمتوں میں جو تو نے عطا کی ہیں احسان ناشناس نہ بنا دے اورمجھے دعا کی قبولیت سے ناامید نہ کر اگرچہ اس میں تا خیر ہو جائے ۔ آسائش میں ہوں یا تکلیف میں، تنگی میں ہوں یا فارغ البلالی میں ،تندرستی کی حالت میں ہوں یا بیماری کی ،بدحالی میں ہوں یا خوشحالی میں ،تونگری میں ہوں یا عسرت میں ، فقر میں ، یا دولتمندی میں، اے اللہ ! محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ہر حالت میں مدح وستائش وسپاس میں مصروف رکھ یہاں تک کہ دنیا میں سے جو کچھ تو دے اس پر خوش نہ ہونے لگوں اورجو روک لے اس پر رنجیدہ نہ ہوں [19]۔

حسد کرنے والی تنگ نظر مخلوق:

قرآن کریم نے انسان کو تنگ نظر مخلوق کی صورت میں پیش کیا ہے[20]اسی تنگ نظری و حسد کے سلسلہ سے امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اورمجھے ان چیزوں سے جو دوسروں کو دی ہیں آشفتہ وپریشان نہ ہونے دے کہ میں تیری مخلوق پر حسد کروں اورتیرے فیصلہ کو حقیر سمجھوں [21] ایک اور مقام پر انسان کی ان خصلتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جوحسد و بدگمانی کے ساتھ شیطانی جذبات انسان کے وجود میں پیدا کر دیتی ہیں جنکی بنیاد پر دو جہاں میں انسان ذلیل ہوتا ہے :

اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے خدایا! جو حرص،بد گمانی اور حسد کے جذبات شیطان میرے دل میں پیدا کرے ۔ انہیں اپنی عظمت کی یاد اپنی قدرت میں تفکر اور دشمن کے مقابلہ میں تدبر و چارہ سازی کے تصورات سے بدل دے اور فحش کلامی یا بے ہودہ گوئی ، یا دشنام طرازی یا جھوٹی گواہی یا غائب مومن کی غیبت یا موجود سے بد زبانی اور اس قبیل کی جو باتیں میری زبان پر لانا چاہے انہیں اپنی حمد سرائی ، مدح میں کوشش اور انہماک ، تمجید و بزرگی کے بیان ،شکر نعمت و اعتراف احسان اور اپنی نعمتوں کے شمار سے تبدیل کر دے [22]

خود پسندی وکبر و غرور میں مبتلا :

خود پسندی و غرور میں انسان اس قدر مبتلا ہے کہ مال ودولت کی زیادتی پر بجائے اسکے کے اپنے رب کا شکر ادا کرے شیخیاں بگھارتا ہے [23]جسکی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہوا ہے اور امام نے بھی دعاء کے پیرایہ میں اس صفت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے :
[۱۰:۰۲ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: بارالہا ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان مصروفیتوں سے جو عبادت میں مانع ہیں بے نیاز کر دے اور انہی چیزوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جن کے بارے میں مجھ سے کل کے دن سوال کرے گا اور میرے ایام زندگی کو غرض خلقت کی انجام دہی کے لۓ مخصوص کر دے ۔ اور مجھے( دوسروں سے ) بے نیاز کر دے اور میرے رزق میں گشائش و وسعت عطا فرما ۔ احتیاج و دست نگری میں مبتلا نہ کر ۔ عزت و توقیر دے، کبرو غرور سے دوچار نہ ہونے دے ۔ میرے نفس کو بندگی و عبادت کے لۓ رام کر اور خودپسندی سے میری عبادت کو فاسد نہ ہونے دے اور میرے ہاتھوں سے لوگوں کو فیض پہنچا اور اسے احسان جتانے سے رائگان نہ ہونے دے ۔ مجھے بلند پایہ اخلاق مرحمت فرما اور غرور اور تفاخر سے محفوظ رکھ[24]۔امام سجاد علیہ السلام میں اس دعاء میں جہاں کبر و نخوت جیسی منفی صفات کی نشاندہی کی ہے اور کبرو غرور میں مبتلا نہ ہونے کی خدا سے دعا ء کی ہے وہیں ایک دلکش انداز میں انسان کو اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ اگر کوئی کسی منصب و مقام پر فائز ہے اور خدا نے اسے عزت بخشی ہے تو اسے لوگوں کے درمیں عزیز ہوتے ہوئے اپنےمالک کے سامنے اپنے وجود کی پستی کا احساس بھی ہونا چاہیے :

اور لوگوں میں میرا درجہ جتنا بلند کرے اتنا ہی مجھے خود اپنی نظروں میں پست کر دے اور جتنی ظاھری عزت مجھے دے اتنا ہی میرے نفس میں باطنی بے وقعتی کا احساس پیدا کر دے [25]

انسان جہالت و بے عملی کا شکار :

قرآن کریم نے انسان کی ایک منفی صفت اسکا جاہل ہونا بیان کی ہے [26]جہالت کی بنیاد پر وہ زندگی میں بہت سی دشواریوں کو شکار ہوتا ہے امام علیہ السلام جہالت و برے اعمال کی انجام دہی سے اجتناب کے لئیے اپنے رب کی بارگاہ میں یوں دعاء فرماتے ہیں :

اے اللہ ! میں اپنی جہالتوں سے عذر خواہ اور اپنی بد اعمالیوں سے بخشش کا طلب گار ہوں ۔ لہذا اپنے لطف و احسان سے مجھے پناہ گاہ رحمت میں جگہ دے اوراپنے تفضل سے اپنی عافیت کے پردہ میں چھپا لے [27]

عافیت طلب :

انسان کی ایک صفت اس کی عافیت طلبی ہے جسکی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہوا [28]ہے اسی بات کی طرف اپنی اس دعاء میں حقیقی عافیت کو بیان کرتے ہیں جہاں صحت و تندرستی کو مرضی رب کے طور پر بیان کرتے ہوئے آپ محض دنیاوی عافیت کی دعاء نہیں کرتے بلکہ آخرت کی عافیت کو مقدم کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں :

اے اللہ ! تیرے ہی لیے حمد وستائش ہے تیرے بہترین فیصلہ پر اور اس بات پر کہ تو نے بلاؤں کا رخ مجھ سے موڑ دیا۔ تو میرا حصہ اپنی رحمت میں سے صرف اس دنیوی تندرستی میں منحصر نہ کر دے کہ میں اپنی اس پسندیدہ چیز کی وجہ سے (آخرت کی ) سعادتوں سے محروم رہوں اوردوسرا میری نا پسندیدہ چیز کی وجہ سے خوش بختی وسعادت حاصل کر لے جائے ۔ اور اگر یہ تندرستی کہ جس میں دن گزارا ہے یا رات بسر کی ہے
[۱۰:۰۳ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: کسی لازوال مصیبت کا پیش خیمہ اورکسی دائمی وبال کی تمہید بن جائے تو جس (زحمت واندوہ ) کو تو نے موخر کیا ہے اسے مقدم کر دے اور جس( صحت وعافیت کو مقدم کیا اسے موخر کر دے کیونکہ جس چیز کا نتیجہ فنا ہو وہ زیادہ نہیں اورجس کا انجام بقا ہو وہ کم نہیں ۔ اے اللہ تو محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرما۔[29]

ایک شبہہ کا ازالہ :

صحیفہ سجادیہ میں امام علیہ السلام نے بالکل قرآن ہی طرح انسان کے مثبت اور منفی دونوں ہی پہلوو ں کو پیش کر کے اس بات کو بیان کرنا چاہا ہے کہ اس شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی کہے کہ انسان کے دو فطرتیں ہیں ایک اچھی، ایک بری ،ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں تواس کی فطرت اسکی اچھائیوں کی طرف جانا ہی ہے یہ اور بات ہے کہ خدا نے اس کے اندر ااچھا اور برابننے کی استعداد ضروررکھی ہے اور اس کا اختیار خود انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اچھا بنتا ہے یا برا بقول شہید مطہری : حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تعریف اور مذمت اس سبب سے نہیں کہ وہ دو فطرتوں کا حامل ہے گویا اس کی ایک فطرت قابل تعریف اور دوسری قابل مذمت[30] بلکہ انسان کی تعریف و تمجید کا راز اس کا خدا سے اتصال و لگاو میں پوشیدہ ہے جتنا انسان خدا سے جڑا ہے اتنا ہی اس کے وجود کے اندر خیر ہے اور جتنا خدا سے دور ہے اتنا ہی برائیوں میں گھرا ہے بالکل درخت کی ٹہہنیوں اور شاخوں کی طرح جب تک وہ اپنی جڑ سے جڑی ہیں ہری بھری رہیں گی اور جب اس سے علیحدہ ہو جائیں تو سوکھ جائیں گی اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایمان و عمل صالح بجا لائے ورنہ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ :والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین آمنوا و عملو الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا باالصبر”قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کرتے اور صبر و استقامت کی تاکید کرتے رہے [31]

اب صحیفہ سجادیہ جیسی عظیم کتاب جس بات کی طرف رہنمائی کر رہی ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو پا لے اور قرآن بھی یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈھونڈے خود کو تلاش کرے اب یہ خود اسکا شناختی کارڈ نہیں ہے کہ جس میں اسکا نام ، باپ کا نام ماں کا نام اور کب پیدا ہوا کہاں کا باشندہ ہے ؟ کس سے شادی کی ہے ؟ کتنے فرزند ہیں یہ سب ہوتا ہے بلکہ یہ خود حقیقت میں روح الہی ہے اس روح کو پہچان کر انسان احساس شرافت و کرامت کرتا ہے پستیوں سے اپنے آپ کو دور کرتا ہے۔ [32] خود شناسی کا مفہوم یہ ہے کہ عالم وجود میں انسان اپنے آپ تک پہنچ جائے خود کا ادراک کر لے یہ جان لے کہ وہ محض مٹی نہیں بلکہ روح الہی کی تجلی اس کی ذات میں ہے ۔ [33]اور اس بات کو سمجھ کر ہی وہ حصول کمال کی طرف بڑھ سکتا ہے ورنہ اس میں اور چوپایوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ بسا اوقات تو وہ
[۱۰:۰۳ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: چوپایوں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے [34]

حاصل کلام :

صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں ہم نے بہت ہی اختصار کے ساتھ انسان کے کچھ ایسے اہم اوصاف پیش کرنے کی کوشش کی جنکی بنیاد پر انسان خود کو بہتر طور پر ان معیاروں پر تول سکتا ہے جنہیں قرآن کریم نےانسانی اوصاف کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات کریمہ ہوں یا صحیفہ سجادیہ کی عمیق دعائیں دونوں ہی کی روشنی میں انسان کو جہاں اپنی شناخت ہوتی ہے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ مالک کائنات نے اسے کس قدر اہم بنایا ہے اور جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے اندر کیا کیا خصلتیں رکھیں ہیں وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ معیار انسانیت سے نیچے گر گیا تو جانوروں سے بھی بدتر ہو جائے گا[35] لہذا معیار انسانیت کو باقی رکھتے ہوئے کمال کی منزلوں تک اسے مسلسل سفر کرنا ہے اور یہی سفر اسکی کامیابی کی ضمانت ہے ۔

 حوالہ جات

[1] ۔ لسلی ، اسٹیونسن ، ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، ص ١٦١

[2] ۔ (کیسیرر، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ ترجمہ بزرگی نادرزادہ ، تہران ؛ موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ص ٤٥و ٤٦)۔

[3] ۔ . [3]   Scheler Max. lasituation de l' hommo dans la monde.p. 17.

انسان شناسی در قرآن ص ۳۰ آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی

[4] ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا

اور ہم نے یقینا آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور تری میں لئے پھرے اور انہیں اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں اور اپنے بہترین مخلوقات پر ان کو اچھی خاصی فضیلت دی ، الَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۰ۭوَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِـاِذْنِہٖ۰ۭاِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز کو مسخر کر دیا ہے اور وہ کشتی بھی جو سمندر میں بحکم خدا چلتی ہے اور اسی نے آسمان کو تھام رکھا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر وہ زمین پر گرنے نہ پائے، یقینا اللہ لوگوں پر بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہےھوَالَّذِىْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِى الْاَرْضِ جَمِيْعًا ۰ۤ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ فَسَوّٰىھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ۰ۭ وَھُوَبِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ      وہ وہی اللہ ہے جس نے زمین میں موجود ہر چیز کو تمہارے لیے پید ا کیا ، پھر آسمان کا رخ کیا تو انہیں سات آسمانوں کی شکل میں بنا دیا اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً۰۠ وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّم
[۱۰:۰۵ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلہِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری غذا کے لیے پھل پیدا کیے ، پس تم جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو اللہ کا مدمقابل نہ بناؤ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْہُ۰ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ ۔ اور جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کیا، غور کرنے والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ۔وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّہَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ،۔ اور جس نے تمام اقسام کے جوڑے پیدا کیے اور تمہارے لیے کشتیاں اور جانور آمادہ کیے جن پر تم سوار ہوتے ہو،لِتَسْتَوٗا عَلٰي ظُہُوْرِہٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْـتَوَيْتُمْ عَلَيْہِ وَتَـقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا كُنَّا لَہٗ مُقْرِنِيْنَۙ۔ تاکہ تم ان کی پشت پر بیٹھو پھر جب تم اس پر درست بیٹھ جاؤ تو اپنے پروردگار کی نعمت یاد کرو اور کہو: پاک ہے وہ جس نے اسے ہمارے لیے مسخر کیا ورنہ ہم اسے قابو میں نہیں لا سکتے تھے۔

وَاِنَّآ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ۔ اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ َللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْہٰرَ  اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہاری روزی کے لیے پھل پیدا کیے اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور دریاؤں کو بھی تمہارے لیے مسخر کیا۔وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ۰ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ۔ اور اسی نے ہمیشہ چلتے رہنے والے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا اور رات اور دن کو بھی تمہارے لیے مسخر بنایاثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا۰ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ۰ۭ فَتَبٰرَكَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَۭ۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے و
[۱۰:۰۶ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ

 [5] ۔ وَ جَعَلَ لَنَا الْفَضِيلَةَ بِالْمَلَكَةِ عَلَى جَمِيعِ الْخَلْقِ ، فَكُلُّ خَلِيقَتِهِ مُنْقَادَةٌ لَنَا بِقُدْرَتِهِ ، وَ صَائِرَةٌ إِلَى طَاعَتِنَا بِعِزَّتِهِ صحیفہ سجادیہ ۱۔ ۱۹

[6] ۔ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ بقرہ (286)

[7] ۔ َقَدْ وَضَعَ عَنَّا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ، وَ لَمْ يُكَلِّفْنَا إِلَّا وُسْعاً ، وَ لَمْ يُجَشِّمْنَا إِلَّا يُسْراً ، وَ لَمْ يَدَعْ لِأَحَدٍ مِنَّا حُجَّةً وَ لَا عُذْراً . ایضا ، ۲۴

[8] ۔ وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ   زخرف ۱۵ ، َہُوَالَّذِيْٓ اَحْيَاكُمْ۰ۡثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ۔ اور اسی نے تمہیں حیات عطا کی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے پھر وہی تمہیں زندہ کرے گا، انسان تو یقینابڑا ہی ناشکرا ہے ۔“ ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَكَنُوْدٌ،۔ یقینا انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔، اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا ۔ ہم نے اسے راستے کی ہدایت کر دی خواہ شکر گزاربنے اور خواہ ناشکرا

 [9] ۔ أَوْفَرَ مِنْ شُكْرِي إِيّاكَ عَلَى مَا خَوّلْتَنِي ایضا ، دعاء۔ ۳۵

[10] ۔ حَمْداً نُعَمَّرُ بِهِ فِيمَنْ حَمِدَهُ مِنْ خَلْقِهِ ، وَ نَسْبِقُ بِهِ مَنْ سَبَقَ إِلَى رِضَاهُ وَ عَفْوِهِ ،ایضا ۱۲۔ ۱

[11] ۔ كَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓى۔ ہرگز نہیں ! انسان تو یقینا سر کشی کرتا ہے۔اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰى               ۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز خیال کرتا ہے

[12] ۔ وَ لَا تَذَرْنِي فِي طُغْيَانِي عَامِهاً ، وَ لَا فِي غَمْرَتِي سَاهِياً حَتَّى حِينٍ ، صحیفہ سجادیہ دعاء ، ۴۷ ۔

[13] ۔ وَ لَا تَجْعَلْنِي لِلظَّالِمِينَ ظَهِيراً ، ایضا

[14] ۔ يُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ۰ۚ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا[14]     ۔ اور اللہ تمہارا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ نساء ۵۵

[15] اللَّهُمَّ يَا كَافِيَ الْفَرْدِ الضَّعِيفِ ، وَ وَاقِيَ الْأَمْرِ
[۱۰:۰۷ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: الْمَخُوفِ ، أَفْرَدَتْنِي الْخَطَايَا فَلَا صَاحِبَ مَعِي ، وَ ضَعُفْتُ عَنْ غَضَبِكَ فَلَا مُؤَيِّدَ لِي أَشْرَفْتُ عَلَى خَوْفِ لِقَائِكَ فَلَا مُسَكّنَ لِرَوْعَتِي‏ وَ مَنْ يُؤْمِنُنِي مِنْكَ وَ أَنْتَ أَخَفْتَنِي، وَ مَنْ يُسَاعِدُنِي وَ أَنْتَ أَفْرَدْتَنِي، وَ مَنْ يُقَوّينِي وَ أَنْتَ أَضْعَفْتَنِي‏ لَا يُجِيرُ، يَا إِلَهِي، إِلّا رَبّ‏ٌ عَلَى مَرْبُوبٍ، وَ لَا يُؤْمِنُ إِلّا غَالِبٌ عَلَى مَغْلُوبٍ، وَ لَا يُعِينُ إِلّا طَالِبٌ عَلَى مَطْلُوبٍ.وَ بِيَدِكَ، يَا إِلَهِي، جَمِيعُ ذَلِكَ السّبَبِ، وَ إِلَيْكَ الْمَفَرّ وَ الْمَهْرَبُ، فَصَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَجِرْ هَرَبِي، وَ أَنْجِحْ مَطْلَبِي،۔ صحیفہ سجادیہ ،دعاء ۲۱

[16] ۔ اللَّهُمَّ وَ إِنَّكَ مِنَ الضُّعْفِ خَلَقْتَنَا ، وَ عَلَى الْوَهْنِ بَنَيْتَنَا ، وَ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ ابْتَدَأْتَنَا ، فَلَا حَوْلَ لَنَا إِلَّا بِقُوَّتِكَ ، وَ لَا قُوَّةَ لَنَا إِلَّا بِعَوْنِكَ فَأَيِّدْنَا بِتَوْفِيقِكَ ، وَ سَدِّدْنَا بِتَسْدِيدِكَ ، وَ أَعْمِ أَبْصَارَ قُلُوبِنَا عَمَّا خَالَفَ مَحَبَّتَكَ ، وَ لَا تَجْعَلْ لِشَيْءٍ مِنْ جَوَارِحِنَا نُفُوذاً فِي مَعْصِيَتِكَ .اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ اجْعَلْ هَمَسَاتِ قُلُوبِنَا ، وَ حَرَكَاتِ أَعْضَائِنَا وَ لَمَحَاتِ أَعْيُنِنَا ، وَ لَهَجَاتِ أَلْسِنَتِنَا فِي مُوجِبَاتِ ثَوَابِكَ حَتَّى لَا تَفُوتَنَا حَسَنَةٌ نَسْتَحِقُّ بِهَا جَزَاءَكَ ، وَ لَا تَبْقَى لَنَا سَيِّئَةٌ نَسْتَوْجِبُ بِهَا عِقَابَكَ .لَا أَمْرَ لِي مَعَ أَمْرِكَ، مَاضٍ فِيّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيّ قَضَاؤُكَ، وَ لَا قُوّةَ لِي عَلَى الْخُرُوجِ مِنْ سُلْطَانِكَ، وَ لَا أَسْتَطِيعُ مُجَاوَزَةَ قُدْرَتِكَ، وَ لَا أَسْتَمِيلُ هَوَاكَ، وَ لَا أَبْلُغُ رِضَاكَ، وَ لَا أَنَالُ مَا عِنْدَكَ إِلّا بِطَاعَتِكَ وَ بِفَضْلِ رَحْمَتِكَ. صحیفہ سجادیہ

[17] ۔ ِي أَصْبَحْتُ وَ أَمْسَيْتُ عَبْداً دَاخِراً لَكَ، لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَ لَا ضَرّاً إِلّا بِكَ، أَشْهَدُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِي، وَ أَعْتَرِفُ بِضَعْفِ قُوّتِي وَ قِلّةِ حِيلَتِي، فَأَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، وَ تَمّمْ لِي مَا آتَيْتَنِي، فَإِنّي عَبْدُكَ الْمِسْكِينُ الْمُسْتَكِينُ الضّعِيفُ الضّرِيرُ الْحَقِيرُ الْمَهِينُ الْفَقِيرُ الْخَائِفُ الْمُسْتَجِيرُ. صحیفہ سجادیہ

[18] ۔ وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَاۗىِٕمًا۰ۚ فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّ كَاَنْ
[۱۰:۰۸ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: لَّمْ يَدْعُنَآ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّہٗ۰ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا ، یونس ۱۲ ، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا  . جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے آسائش میں بخیل و کنجوس ۔  وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا   .”جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے ۔ ۱۹ ۔ ۲۱ معارج )

[19]۔اللّهُمّ صَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ لَا تَجْعَلْنِي نَاسِياً لِذِكْرِكَ فِيمَا أَوْلَيْتَنِي، وَ لَا غَافِلًا لِإِحْسَانِكَ فِيمَا أَبْلَيْتَنِي، وَ لَا آيِساً مِنْ إِجَابَتِكَ لِي وَ إِنْ أَبْطَأَتْ عَنّي، فِي سَرّاءَ كُنْتُ أَوْ ضَرّاءَ، أَوْ شِدّةٍ أَوْ رَخَاءٍ، أَوْ عَافِيَةٍ أَوْ بَلَاءٍ، أَوْ بُؤْسٍ أَوْ نَعْمَاءَ، أَوْ جِدَةٍ أَوْ لَأْوَاءَ، أَوْ فَقْرٍ أَوْ غِنًى. اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ اجْعَلْ ثَنَائِي عَلَيْكَ ، وَ مَدْحِي إِيَّاكَ ، وَ حَمْدِي لَكَ فِي كُلِّ حَالَاتِي حَتَّى لَا أَفْرَحَ بِمَا آتَيْتَنِي مِنَ الدُّنْيَا ، وَ لَا أَحْزَنَ عَلَى مَا مَنَعْتَنِي فِيهَا   ۔، صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۱

[20] ۔ قلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَاۗىِٕنَ رَحْمَۃِ رَبِّيْٓ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْـيَۃَ الْاِنْفَاقِۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا

کہد یجیے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں پراختیار رکھتے تو تم خرچ کے خوف سے انہیں روک لیتے اور انسان بہت (تنگ دل) واقع ہوا ہے ( اسراء ۴۸ )

 [21] ۔ اللّهُمّ صَلّ عَلَى مُحَمّدٍ وَ آلِهِ، وَ لَا تَفْتِنّي بِمَا أَعْطَيْتَهُمْ، وَ لَا تَفْتِنْهُمْ بِمَا مَنَعْتَنِي فَأَحْسُدَ خَلْقَكَ، وَ أَغْمَطَ حُكْمَكَ. صحیفہ سجادیہ دعاء ۳۵

[22] ۔ للّهُمّ اجْعَلْ مَا يُلْقِي الشّيْطَانُ فِي رُوعِي مِنَ التّمَنّي وَ التّظَنّي وَ الْحَسَدِ ذِكْراً لِعَظَمَتِكَ، وَ تَفَكّراً فِي قُدْرَتِكَ، وَ تَدْبِيراً عَلَى عَدُوّكَ، وَ مَا أَجْرَى عَلَى لِسَانِي مِنْ لَفْظَةِ فُحْشٍ أَوْ هُجْرٍ أَوْ شَتْمِ عِرْضٍ أَوْ شَهَادَةِ بَاطِلٍ أَوِ اغْتِيَابِ مُؤْمِنٍ غَائِبٍ أَوْ سَبّ حَاضِرٍ وَ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ نُطْقاً بِالْحَمْدِ لَكَ، وَ إِغْرَاقاً فِي الثّنَاءِ عَلَيْكَ، وَ ذَهَاباً فِي تَمْجِيدِكَ، وَ شُكْراً لِنِعْمَتِكَ، وَ اعْتِرَافاً بِإِحْسَ
[۱۰:۰۹ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: بِإِحْسَانِكَ، وَ إِحْصَاءً لِمِنَنِكَ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۰

[23] ۔ا ْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۔ ایک دوسرے پر فخر نے تمہیں غافل کر دیا ہے،۔۔ تکاثر ۱

[24] ۔ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۲۰

[25] ۔ ولَا تَرْفَعْنِي فِي النَّاسِ دَرَجَةً إِلَّا حَطَطْتَنِي عِنْدَ نَفْسِي مِثْلَهَا ، وَ لَا تُحْدِثْ لِي عِزّاً ظَاهِراً إِلَّا أَحْدَثْتَ لِي ذِلَّةً بَاطِنَةً عِنْدَ نَفْسِي بِقَدَرِهَا

صحیفہ سجادیہ دعاء ۲۰

[26] ۔ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا  ، انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے ، احزاب ۷۲

[27] ۔ اللّهُمّ إِنّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِنْ جَهْلِي، وَ أَسْتَوْهِبُكَ سُوءَ فِعْلِي، فَاضْمُمْنِي إِلَى كَنَفِ رَحْمَتِكَ تَطَوّلًا، وَ اسْتُرْنِي بِسِتْرِ عَافِيَتِكَ تَفَضّلًا. صحیفہ سجادیہ دعاء  

[28] ۔ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا    جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے

آسائش میں بخیل و کنجوس ۔  وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَيْرُ مَنُوْعًا  ”جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے تو وہ بخل کرنے لگتا ہے ، لَا يَسْـَٔمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَاۗءِ الْخَيْرِ۰ۡوَاِنْ مَّسَّہُ الشَّرُّ فَيَــــُٔـــوْسٌ قَنُوْطٌ ۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آجاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے

[29] ۔ للَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى حُسْنِ قَضَائِكَ ، وَ بِمَا صَرَفْتَ عَنِّي مِنْ بَلَائِكَ ، فَلَا تَجْعَلْ حَظِّي مِنْ رَحْمَتِكَ مَا عَجَّلْتَ لِي مِنْ عَافِيَتِكَ فَأَكُونَ قَدْ شَقِيتُ بِمَا أَحْبَبْتُ وَ سَعِدَ غَيْرِي بِمَا كَرِهْتُ . وَ إِنْ يَكُنْ مَا ظَلِلْتُ فِيهِ أَوْ بِتُّ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الْعَافِيَةِ بَيْنَ يَدَيْ بَلَاءٍ لَا يَنْقَطِعُ وَ وِزْرٍ لَا يَرْتَفِعُ فَقَدِّمْ لِي مَا أَخَّرْتَ ، وَ أَخِّرْ عَنِّي مَا قَدَّمْتَ . فَغَيْرُ كَثِيرٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْفَنَاءُ ، وَ غَيْرُ قَلِيلٍ مَا عَاقِبَتُهُ الْبَقَاءُ ، وَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ صحیفہ سجادیہ ، دعاء ۱۸
[۱۰:۱۰ بعدازظهر, ۱۳۹۹/۱/۱۶] ‪+98 921 011 3821‬: [30] ۔ انسان در قرآن ص ۱۶

[31] ۔ ۔“( سورہ عصر ۱) انسان در قرآن ص ۱۶

[32] ۔ انسان در قرآن ص ۲۸ ۔

[33] ۔ انسان در قرآن ص ۲۹

۔ [34]۔ (أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل ہُم أَضَلُّ أولٰئِکَ ھُمُ الغَافِلونَ)''وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بہت زیادہ گمراہ ہیں ، وہ لوگ بے خبر اور غافل ہیں ''( سورۂ اعراف ١٧٩)(انَّ شرَّ الدَّوَابِّ عندَ اللّہِ الّذِینَ کَفَرُوا فَھُم لایُؤمِنُونَ)''یقینا خدا کے نزدیک بدترین جانور وہی ہیں جو کافر ہوگئے ہیں پس وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے ''( انفال ٥٥)

[35] ۔ ولقد ذرانا لجھنم کثیرا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقہون بہاولہم اعین لا یبصرون بھا ولھم آذان لا یسمعون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل”اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ان کا انجام جہنم ہے ان کے دل ہیں وہ ان سے سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں وہ ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں کہ وہ ان سے سنتے نہیں وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔“