سلیمانی
20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی
امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اپنی نئی قومی سلامتی کی دستاویز میں دعویٰ کیا ہے کہ یورپ کی تہذیب اگلے دو دہائیوں کے اندر تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ہنگامہ خیز دستاویز میں امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یورپ میں امریکہ کے بعض قدیم ترین اتحادی ممالک ناقابل کنٹرول ہجرت کے باعث آئندہ 20 سال میں سنگین اور حقیقی تہذیبی زوال کے امکان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس متنازعہ دستاویز میں یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے بے لگام ہجرت کی اجازت دے کر اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگا کر موجودہ بحران کو بڑھایا ہے۔
حکمتِ عملی کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو یہ براعظم 20 سال یا اس سے بھی کم عرصے میں ناقابلِ شناخت ہو جائے گا۔ دستاویز میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا بعض یورپی ممالک کے پاس اتنی مضبوط معیشتیں اور فوجی طاقت باقی رہے گی کہ وہ امریکہ کے قابلِ اعتماد اتحادی بنے رہ سکیں۔ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی دستاویز میں یورپ کے روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اختیار کردہ مؤقف پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ اعتماد کی کمی کا شکار ہے، جو سب سے زیادہ اس کے روس کے ساتھ تعلقات میں نمایاں ہوتی ہے۔
اگرچہ یورپی ممالک کے پاس روس کے مقابلے میں سخت طاقت (یعنی فوجی طاقت) میں قابلِ ذکر برتری ہے، لیکن یوکرین جنگ کے باعث وہ اب روس کو بقا کے لئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ امریکی اسٹریٹجی میں بعض یورپی حکومتوں کے یوکرین سے متعلق مؤقف پر بھی تنقید کی گئی ہے اور نامعلوم حکام پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں، جبکہ خود اپنے ممالک میں غیر مستحکم اقلیتی حکومتیں چلا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ بعض یورپی ممالک میں عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان کی حکومتیں جمہوری عمل کو کمزور کرکے اس عوامی خواہش کو روک رہی ہیں۔
مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
ٹرمپ کے یورپی تہذیب کے مستقبل پر دعوے:
امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت حکومت نے جاری کی، نہ صرف یورپ کے مستقبل کے بارے میں تشویشات بیان کرتی ہے بلکہ امریکہ یورپ تعلقات کے ممکنہ تناؤ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ دستاویز میں یورپ کی تہذیب، امن، معاشی استحکام اور نیٹو جیسے اہم اتحادوں کے مستقبل پر سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مرکزی دعویٰ: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں بے قابو مہاجرت کے سبب تہذیبی اور سماجی ڈھانچہ بنیادی خطرے سے دوچار ہے۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یورپ 20 برسوں میں شناخت کے قابل نہیں رہے گا۔ یورپی یونین سمیت بین الاقوامی اداروں پر الزام ہے کہ وہ ہجرت کو منظم کرنے میں ناکام رہے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی کو یورپی بحران کی ایک اور وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ سیاسی نوعیت کا ہے اور دائیں بازو کے حلقوں میں موجود بیانیے کی توسیع ہے، جو مہاجرت کو وجود کو لاحق خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار اور سوشل پالیسیوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے، تاہم یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں حقیقی بحث کا موضوع ضرور ہیں۔
۔ یورپ کی سیاسی و عسکری کمزوری پر امریکی تشویش: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کچھ یورپی ممالک کی معیشتیں اور فوجیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ یورپ روس کے بارے میں اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو دفاعی لحاظ سے مزید کمزور اور خوفزدہ بنا دیا ہے۔ یہ نقطہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپ دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں امریکہ پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ یورپی یونین اندرونی اختلافات، مہنگائی اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نیٹو میں امریکہ کے بوجھ سے بارہا ناخوشی کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تنقید اس وسیع تر امریکی پالیسی رجحان کا حصہ ہے جو یورپ سے زیادہ عسکری خود مختاری کی توقع رکھتی ہے۔
۔ نیٹو کا مستقبل، کیا یہ اتحاد کمزور ہوگا؟: دستاویز کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چند دہائیوں میں نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بنا سکتے ہیں۔ یہ بیان صرف آبادیاتی تشویش نہیں بلکہ نیٹو کی شناخت اور اس کے اسٹریٹجک مفادات کے بارے میں سوالات کھڑا کرتا ہے۔ امریکہ یورپی اراکین پر اخراجات بڑھانے اور دفاعی ذمہ داریاں سنبھالنے کا دباؤ بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں نیٹو کے اندر سیاسی ہم آہنگی کم ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں نیٹو ایک غیر مستحکم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔
۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار اور سیاسی سنسرشپ پر تنقید: دستاویز یورپ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ دائیں بازو کی سیاسی سوچ کو سسٹمیٹک طور پر محدود کر رہا ہے۔ میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارمز میں سیاسی درستگی کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے پہلے سے موجود نظریات کی بازگشت ہے۔ یورپ واقعی نفرت انگیز تقریر کے قوانین کو سخت کر رہا ہے، لیکن انہیں تہذیب کے زوال کا ثبوت قرار دینا سیاسی الزام کے دائرے میں آتا ہے نہ کہ سائنسی تجزیے میں۔
یورپ، امریکہ تعلقات پر ممکنہ اثرات:
دستاویز کا سخت لہجہ مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اس کا مثبت رخ ہے، یورپ دفاعی خودمختاری کی طرف مائل ہو سکتا ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان عملی تعاون میں نئے ڈھانچے تشکیل پا سکتے ہیں۔ اور منفی پہلو یہ ہے، سفارتی تناؤ میں اضافہ، نیٹو کی کمزور ہوتی داخلی ہم آہنگی، یورپی ممالک کا امریکی پالیسیوں پر عدم اعتماد۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی دستاویز ایک سخت سیاسی بیانیہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد یورپ پر دباؤ بڑھانا، مہاجرت مخالف ایجنڈے کو تقویت دینا، اور نیٹو میں امریکی بوجھ کم کرنے کے لیے رائے عامہ تیار کرنا ہے۔ اگرچہ یورپ کو واقعی آبادیاتی، سیاسی اور دفاعی چیلنجز درپیش ہیں، لیکن "20 سال میں یورپی تہذیب کے خاتمے" کا دعویٰ مبالغہ آمیز اور سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔
ابوشباب کی ہلاکت، مزاحمت کی ناقابل شکست مقبولیت کا ثبوت
غزہ میں اسرائیل کے ایجنٹ اور ایک دہشتگرد نیٹ ورک کے سرکردہ ملزم ابوشباب کی ہلاکت، چاہے اس کے پسِ پردہ عوامل کچھ بھی ہوں، اس حقیقت کو نمایاں کرتی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جاسوسی منصوبے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ غزہ کی سماج میں حماس کی جگہ اسرائیلی ایجنٹوں کو متبادل کے طور پر لانے کا منصوبہ پہلے ہی دن سے ایک ہارا ہوا جُوا ثابت ہوا ہے۔ تسنیم کے بین الاقوامی ڈیسک کے مطابق جمعرات کو یاسر ابوشباب، جو اسرائیل کے بدنام ترین غزہ میں سرگرم دہشتگرد اور ایجنٹ کارندوں کا سرغنہ تھا، اس کی ہلاکت کی خبر کے بعد اس واقعے پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔
یاسر ابوشباب نسل کشی پر مبنی جنگ کے دوران غزہ میں اسرائیلی انٹیلی جنس اور قابض فوج کے ساتھ مکمل تعاون میں ملوث تھا، اور اس دوران اُس نے فلسطینی شہریوں کے خلاف بے شمار جرائم انجام دیے۔ ابوشباب کی موت اور اس کے اسباب سے متعلق متضاد آراء موجود ہیں۔ فلسطینی صحافی اور مصنف ثابت العمور نے اس بارے میں کہا ہے کہ ابوشباب کے قتل کے نتائج اور اثرات کو سمجھنے کے لیے دو بنیادی سوالات کے جواب ضروری ہیں، نمبر ایک ابوشباب کیسے مارا گیا؟ اور دوسرا سوال کہ اسے کس نے قتل کیا؟
ابوشباب کے قتل کا ممکنہ منظر نامہ:
العمور نے ابوشباب کے قتل کے بارے میں کہا ہے کہ ممکن ہے کہ ابوشباب مجاہدین کے گھات میں پھنس گیا ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ صہیونیوں نے غزہ میں جنگ بندی کے منصوبے کے دوسرے مرحلے کے قریب آنے پر اسے خود قتل کیا ہو۔ اسی تناظر میں عرب تجزیہ کار ڈاکٹر ایاد القرا نے بھی کہا ہے کہ یاسر ابوشباب کا انجام، تمام ممکنہ منظرناموں کے باوجود، اس اسرائیلی منصوبے کے انہدام کا واضح ثبوت ہے جس کا مقصد غزہ میں اندرونی ایجنٹ نیٹ ورکس کا نمونہ تیار کرنا تھا۔
تیسرا امکان یہ ہے کہ اس کی ہلاکت اس کی اپنی ٹیم کے اندر اثرو رسوخ اور مفادات پر ہونے والے اندرونی جھگڑے کا نتیجہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ابوشباب کا قتل، خواہ اسے کسی نے بھی انجام دیا ہو، ایسے منصوبے کے خاتمے کی علامت ہے جسے اسرائیل نے غزہ کے سماج میں قبائلی رجحانات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مزاحمت کے عوامی حمایت کے مرکز کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر تشکیل دیا تھا۔
فلسطینی سماج میں اسرائیل کا ناکام داؤ:
1۔ فلسطینی مصنف نے واضح کیا ہے کہ صہیونیوں نے یاسر ابوشباب اور اس کی ٹیم پر حد سے زیادہ انحصار کیا ہوا تھا، اور ان ایجنٹ گروہوں پر اسرائیل کا سرمایہ کاری شدہ منصوبہ پوری طرح ناکام ہوگیا۔ اسی بنیاد پر یہ بھی ممکن ہے کہ ابوشباب کا قتل ایک امریکی اسرائیلی سمجھوتے کا حصہ ہو، تاکہ اسے مزید کسی سیاسی یا سیکیورٹی کردار تک رسائی ملنے سے پہلے اس کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے، کیونکہ اس کی موجودگی میں فلسطینی اتھارٹی غزہ میں واپس نہیں آ سکتی تھی۔
2۔ العمور نے غزہ کے داخلی حالات اور قبائل کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترابین قبیلے نے فوراً ہی ابوشباب کو غدار قرار دے کر اسے اپنی برادری سے نکال دیا تھا اور اس کا خون مباح سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کی موت کی خبر سامنے آتے ہی غزہ کی عوام اور قبائل نے واضح طور پر اس کا استقبال کیا اور اس کے قتل کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابوشباب کا قتل اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ یہی انجام دیگر ایجنٹوں کا بھی منتظر ہے، اور یہ کہ قابض قوتیں غزہ میں مزاحمت کی جگہ کوئی داخلی متبادل تشکیل دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہیں۔
3۔ یاسر ابوشباب کے کردار کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ تمام نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں جو اسرائیلی منصوبے کی شکست کو واضح کرتی ہیں، وہ منصوبہ جس کا مقصد غزہ میں مقامی ایجنٹوں کا ایسا نیٹ ورک بنانا تھا جو ایجنٹس زمینی حقائق کو اسرائیل کے فائدے میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہو سکیں۔ یہ منصوبہ بہت جلد ناکام ہو گیا، اس منصوبے کی کوئی سماجی بنیاد موجود نہیں تھی، غزہ کی قبائل نے کسی متبادل قیادت یا ڈھانچے کے قیام کی ہر کوشش کو سختی سے مسترد کر دیا۔ مزاحمت کی ایسی پائیدار صلاحیت، جو اس قسم کے ہر اس ڈھانچے کو ختم کرنے کی قوت رکھتی ہے۔
ابوشباب کے خاتمے کے چند بنیادی پیغام:
ایاد القرا نے واضح کیا ہے کہ ابوشباب کی موت ایک معمولی واقعہ نہیں تھی، بلکہ اُس پورے منصوبے کا انہدام تھا جس پر قابض صہیونی قوتیں انحصار کر رہی تھیں، یعنی غزہ کی ساخت کو اندرونی ایجنٹوں کے ذریعے تبدیل کرنا۔ پیغام پوری طرح واضح ہے کہ غزہ تقسیم نہیں ہوگا، فلسطین کا قومی ماحول ہر قسم کی دراندازی کے مقابلے میں مضبوط ہے، اور جو بھی منصوبہ ایجنٹوں پر مبنی ہو گا، وہ یقینی طور پر ناکام ہوگا۔
عادل شدید جو ایک اور عرب سیاسی تجزیہ کار ہیں، انہوں نے اپنی جانب سے کہا ہے کہ یہ واقعہ ایک بار پھر اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ قابض صہیونی طاقتیں فلسطینی معاشرے، خصوصاً غزہ کی سماجی ساخت، اور داخلی مقامی حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں۔ فلسطینی معاشرہ ایک منظم سماجی نظام اور مضبوط قومی شعور رکھتا ہے، جو بیرونی قوتوں کی طرف سے مسلط کیے جانے والے کسی بھی مصنوعی مقامی ڈھانچے کو رد کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی رجیم کی جانب سے فلسطینی معاشرے کے اندر نیابتی ایجنٹ گروہوں کی تشکیل کی کوششیں ہمیشہ فلسطینی قومی حقیقت سے ٹکراؤ میں رہی ہیں۔ ایسے گروہ نہ عوامی حمایت رکھتے ہیں اور نہ سماجی مشروعیت۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عارضی اور تیزی سے بکھر جانے والے منصوبوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ عادل شدید نے زور دے کر کہا ہے کہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب یہ ایجنٹ اپنے استعمال کی مدت پوری کر لیتے ہیں، صیہونی انہیں فوراً چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لیے ایسے ایجنٹوں پر تکیہ کرنا ابتدا ہی سے ایک ہارا ہوا جُوا ہے۔
ان منصوبوں کی ناکامی ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ غزہ سیاسی یا سماجی انجینئرنگ کی تجربہ گاہ نہیں ہے، بلکہ ایک لچک دار ماحول ہے جو اُن سب پر اپنے اصول نافذ کرتا ہے جو اس کی اجتماعی ارادہ کو نظرانداز کرنے یا اس کی داخلی وحدت کو کمزور کرنے کی کوشش کریں۔ فلسطینی تجزیہ کار اور مصنف احمد الحَیْلَه کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ایجنٹ یاسر ابوشباب کے قتل کا واقعہ فلسطینیوں کے قومی شعور کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کے مطابق، اس واقعے کا اصل سبق پشت پردہ عوامل میں نہیں، بلکہ اُن پیغامات میں ہے جو یہ واقعہ فلسطینی معاشرے تک پہنچاتا ہے۔ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ قابض قوتیں کوئی ایسا متبادل ڈھانچہ نہ تلاش کر سکتی ہیں اور نہ بنا سکتی ہیں، جسے فلسطینی عوام قبولیت دیں۔ مزید یہ کہ ایجنٹ نیٹ ورکس کی تشکیل کی ہر کوشش، فلسطینی قومی شعور اور ان منصوبوں کے خطرات سے متعلق اُن کی بصیرت کے سامنے، بہت جلد ناکام ہو جاتی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یاسر ابوشباب کی موت پر غزہ بھر میں عوامی خوشی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ غزہ کا معاشرہ، اور مجموعی طور پر پورا فلسطینی سماج، دشمن کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کو مسترد کرتا ہے۔ اس سرزمین کے لوگ اپنی قومی قیادت اور اصولوں کے پابند ہیں۔ فلسطینی ہر اُس فریق کی سرپرستی اور اطاعت کو رد کرتے ہیں جو قابض ٹینکوں پر سوار ہو کر آئے یا اُن کے مفادات کی خدمت کرے۔ فلسطینی معاشرہ ایک مضبوط قومی مزاحمت رکھتا ہے جو جھوٹی حقیقتوں کو مسلط ہونے نہیں دیتا۔
جرائم پیشہ نیٹ ورکس اور اسرائیلی سراب کا خاتمہ:
طہ عبدالعزیز، عرب دنیا کے ایک اور تجزیہ نگار اور مصنف ہیں، انہوں نے یاسر ابوشباب کی ہلاکت اور اس کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیل کے ایک بڑے سیکیورٹی وہم کے خاتمے کی علامت ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ نسل کشی کے آٹھویں مہینے، اور غزہ کے جنوب میں رفح پر اسرائیلی زمینی حملے کے دوران، قابض قوتیں ایک خیالی سیکیورٹی منصوبے کی طرف بڑھیں، جس کی بنیاد ڈاکوؤں، بھگوڑے قیدیوں اور دیگر ایسے افراد پر رکھی گئی جو کسی بھی صلاحیت کے حامل نہیں تھے۔
یہ لوگ، جو اپنا نام لکھنے سے آگے کچھ نہیں جانتے تھے اور جن کے دل غزہ کے سماجی ڈھانچے سے بغض و عداوت سے بھرے تھے، وہی ڈھانچہ جو ہمیشہ ان کی مجرمانہ حرکتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہوتا تھا، اچانک صہیونی حکام کے ذہن میں اس قابل ٹھہرے کہ جنگ کے بعد غزہ کے ممکنہ منتظمین بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ابتدا میں ابوشباب کا معاملہ اسرائیلی فوج کے آپریشنل افسران کے پاس تھا، پھر اسرائیلی سیکیورٹی اداروں نے کوشش کی کہ ابوشباب اور اس کے گروہ کو غزہ میں اپنے سستے آلہ کار کے طور پر استعمال کریں۔
اس مقصد کے لیے انہیں کچھ بنیادی سازوسامان مہیا کیا گیا اور انہیں تباہ شدہ گھروں کی تلاشی، بارودی سرنگوں کی نشاندہی اور مشتبہ علاقوں میں داخل ہونے جیسے کام سونپے گئے، تاکہ وہ دراصل اسرائیلی فوج کی انسانی ڈھال بن کر قابض فوج کے زمینی نقصان کو کم کریں۔ طہ عبدالعزیز نے کہا کہ جنوری میں جنگ بندی کے بعد، اسرائیلیوں نے انہی ایجنٹ گروہوں کو اپنی فورسز کے قریب تعینات کیا اور انہیں فائرنگ کور فراہم کیا۔ ساتھ ہی ان گروہوں کو ایک مقامی نیم سیکورٹی فورس کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔
انہوں نے کہا کہ جب اسرائیل نے جنوری کے وقفہ جنگ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مارچ میں دوبارہ جنگ شروع کی، تو اسی دوران یاسر ابوشباب سوشل میڈیا پر نمایاں ہونے لگا اور اسرائیلی منصوبوں میں ایک نئے مہرے کے طور پر ابھرا۔ اسی وقت فلسطینی مزاحمت نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا اور اس کی ٹیم کی سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا۔
طہ عبدالعزیز نے واضح کیا کہ عوامی شعور کی بلندی نے بھی اس صہیونی منصوبے کو ناکام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یوں شاباک کا وہ منصوبہ، جس کے ذریعے غزہ میں ایک متبادل اندرونی قوت پیدا کرنے کی امید کر رہی تھی، بہت تیزی سے دھڑام سے گر پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ابوشباب کی ہلاکت کی خبر سامنے آتے ہی صہیونی میڈیا نے اپنے روایتی فوجی سنسر کے تحت متضاد دعوے پیش کیے، کبھی خاندانی جھگڑا، کبھی اپنی ٹیم کے ہاتھوں قتل کی کہانیاں۔
اسی دوران عبرانی میڈیا اور اسرائیلی سیکیورٹی ذرائع نے تسلیم کیا کہ غزہ میں اسرائیل کے سیاسی منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے بدمعاش گروہوں پر بھروسہ کرنا ایک تباہ کن غلطی تھی۔ درحقیقت، ابوشباب کا خاتمہ ایک بڑے سیکیورٹی خیالی منصوبے کے ٹوٹنے کی علامت ہے، اب وہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ غزہ میں حماس کے متبادل کے طور پر کسی بدمعاش گروہ کو بٹھانے کا منصوبہ ابتدا سے ہی ایک ہارا ہوا جوا تھا، حالیہ دور میں صہیونیوں کی کوشش یہ رہی کہ غزہ کے اندر ایسے گروہ تشکیل دیے جائیں جو ایجنٹ کے طور پر کام کریں اور اسرائیل کی مرضی کی زمینی حقیقت کو اس علاقے پر مسلط کرنے کے لیے ایک آلہ ثابت ہوں۔
ام البنین (فاطمہ کلابيہ) رضی اللہ عنہا
’’ فاطمه بنت حِزام کلابيہ‘‘ جو ’’ام البنین‘‘ کے نام سے مشہور ہیں، حضرت امام علی (علیہ السلام) کی زوجہ ہیں۔ آپ کے چار بیٹے عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان (علیہم السلام) ہیں، جو چاروں کربلا میں امام حسین (علیہ السلام) کے ساتھ شہید ہوئے۔
ام البنین کا مزار مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان ’’بقیع‘‘ میں واقع ہے۔
ولادت و نسب
فاطمہ کلابيہ کی ولادت کی تاریخ کے بارے میں قطعی معلومات نہیں ہیں؛ بعض مورخین آپ کی ولادت تقریباً 5 ہجری کے لگ بھگ بتاتے ہیں۔
ام البنین کے والد کا نام" حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب "ہے[۱] ۔
وہ ایک بہادر، صادق، مضبوط منطق رکھنے والے اور مہمان نواز انسان تھے۔ آپ کی والدہ کا نام" ثمامہ (یا لیلی) بنت سہیل بن عامر بن جعفر بن کلاب" ہے[۲]۔
حضرت علی (علیہ السلام) سے نکاح
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی شہادت کے بعد، امام علی (علیہ السلام) نے اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب (جو علم انساب کے ماہر تھے) سے فرمایا کہ میرے لیے ایسی خاتون کا انتخاب کریں جو عرب کے شجاع خاندانوں میں سے ہو، تاکہ میں اس سے نکاح کروں اور وہ مجھے بہادر اور سوار بیٹے دے سکے۔[۳]
عقیل نے عرض کیا: ’’فاطمہ کلابيہ سے نکاح کیجیے، کیونکہ عرب میں ان کے خاندان سے زیادہ بہادر کوئی نہیں ہے۔‘‘ پھر انہوں نے ام البنین کے ننھیالی دادا ابوبراء عامر بن مالک کا ذکر کیا، جو اپنے دور میں بہادری کی مثال تھے۔ انہوں نے کہا: ابوبراء عامر بن مالک (جو فاطمہ کلابيہ کے پردادا ہیں) عرب قبائل میں بہادری میں بے نظیر ہیں۔ میں آپ کے سوا ان سے زیادہ بہادر کسی کو نہیں جانتا، اسی لیے انہیں ’’نیزوں سے کھیلنے والا‘‘ (مُلاعِبُ الأسِنَّة) کہا جاتا ہے۔[۴]
حضرت عباس (علیہ السلام) کی ولادت ۲۶ قمری، میں ہوئی اور دیگر روایات کے مطابق حضرت علی (علیہ السلام) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی وصیت پر ان کی بھتیجی امامہ سے بھی نکاح کیا تھا۔ اس حساب سے ام البنین سے نکاح تقریباً ۲۵قمری، کے قریب ہوا ہوگا۔
ام البنین (علیہا السلام) اور حضرت علی (علیہ السلام) کے چار بیٹے ہوئے: عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان۔ اسی وجہ سے آپ کو ’’ام البنین‘‘ یعنی ’’بیٹوں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام آپ نے خود اپنے لیے تجویز کیا، تاکہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کے بچے ’’فاطمہ‘‘ نام سن کر اپنی ماں کی یاد سے دکھی نہ ہوں اور ان کے ماضی کا دکھ تازہ نہ ہو۔[۵]
ام البنین کے تمام بیٹے کربلا میں شہید ہوئے۔ آپ کی نسل حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام) کے بیٹے عبیداللہ کے ذریعے آگے چلی۔
واقعۂ کربلا کے بعد
مورخین لکھتے ہیں کہ کربلا کے بعد جب بشیر مدینہ پہنچے اور ام البنین کو ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنائی تو ام البنین نے بار بار پوچھا: ’’مجھے حسین بن علی (علیہ السلام) کے بارے میں بتاؤ۔‘‘ بشیر نے بتایا: عباس شہید ہوئے۔ ام البنین نے پھر پوچھا: حسین کے بارے میں بتاؤ۔ اسی طرح ہر بیٹے کی خبر سن کر بھی آپ کا سوال وہی رہا۔ آخرکار جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی خبر سنائی تو آپ نے بے حد صبر اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے بشیر! مجھے ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) کے بارے میں بتاؤ۔ میرے بیٹے اور سب جو کچھ اس نیلگوں آسمان کے نیچے ہے، سب ابا عبداللہ الحسین (علیہ السلام) پر فدا ہو۔‘‘
اور پھر جب بشیر نے امام حسین (علیہ السلام) کی شہادت کی تصدیق کی تو آپ نے غم سے کہا: ’’آہ! تم نے میرے دل کی رگیں پھاڑ دیں۔‘‘[۶]
مشہور ہے کہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) مدینہ واپس آ کر سب سے پہلے ام البنین کے پاس تشریف لائیں اور انہیں تعزیت دی۔[۷] یہ ام البنین کے بلند مقام کی دلیل ہے۔
ام البنین کا اپنے بیٹوں کے لیے سوگ
اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر سننے کے بعد، ام البنین اپنے پوتے عبیداللہ (حضرت عباس (علیہ السلام) کے بیٹے) کے ساتھ روزانہ بقیع جاتیں اور وہاں اپنے مرثیے پڑھ کر رویا کرتیں۔ اہل مدینہ بھی ان کے گرد جمع ہو کر ان کے ساتھ روتے۔ حتیٰ کہ مروان بن حکم بھی بعض روایات کے مطابق ان کے ساتھ شامل ہو کر روتا تھا۔[۸]
ام البنین کو فصیح شاعرہ، ادیبہ اور عالمہ خاتون مانا جاتا ہے۔[۹]
آپ نے حضرت عباس (علیہ السلام) کی شہادت پر یہ اشعار کہے تھے:
يَا مَنْ رَأَى الْعَبَّاسَ يَكُرُّ عَلَى جَمَاهِيرِ النَّقَدْ
وَوَرَاءَهُ مِنْ أَبْنَاءِ حَيْدَرٍ كُلُّ لَيْثٍ ذِي لِبَدٍ
أُنْبِئْتُ أَنَّ ابْنِي أُصِيبَ بِرَأْسِهِ مَقْطُوعَ الْيَدِ
وَيْلِي عَلَى شِبْلِي إِذَا مَا لِرَأْسِهِ ضَرْبَ الْعَمَدِ
لَوْ كَانَ سَيْفُكَ فِي يَدِ يكُ لَمَا دَنَا مِنْكَ أَحَدٌ [۱۰]
’’اے وہ شخص جو عباس کو دیکھے! جو دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے، اور ان کے پیچھے حیدر (علیہ السلام) کے شیروں کے بیٹے تھے۔ مجھے خبر ملی کہ میرے بیٹے کا سر کٹ گیا اور اس کے ہاتھ بھی قلم ہوگئے۔ میرے شیر کے بچے پر افسوس! کیا اس کے سر پر نیزے برسائے گئے۔ اگر تمہارا اپنا ہاتھ تمہارے ساتھ ہوتا تو کوئی تمہارے قریب نہ پھٹکتا۔‘‘[۱۱]
وفات
حضرت ام البنین (علیہا السلام) کی وفات 13 جمادی الثانی 64 قمری یا 70 قمری میں ہوئی۔[۱۲]
آپ کو مدینہ منورہ کے مشہور قبرستان" بقیع "میں امام حسن (علیہ السلام) اور فاطمہ بنت اسد (سلام اللہ علیہا) کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
بزرگوں کے اقوال ام البنین کے بارے میں
شہید ثانی: ’’ام البنین (علیہا السلام) صاحب معرفت اور باعظمت خاتون تھیں۔ ان کا محبت اور لگاؤ خاندان نبوت سے خالص تھا اور انہوں نے اپنی زندگی ان کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ خاندان نبوت بھی ان کی بہت قدر کرتے تھے، عید کے دن ان کی زیارت کو جاتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔‘‘[۱۳]
سید محسن امین (اعیان الشیعہ): ’’ام البنین (علیہا السلام) فصیح شاعرہ اور اصیل و شجاع خاندان سے تھیں۔‘‘[۱۴]
سید عبدالرزاق موسوی مقرم: ’’ام البنین (علیہا السلام) باعظمت خواتین میں سے تھیں۔ انہوں نے اہل بیت کے حقوق کو پہچانا، ان سے خالص محبت کی، اور اہل بیت کے درمیان ان کا بہت بلند مقام تھا۔‘‘[۱۵]
سید محمود حسینی شاہرودی: ’’میں اپنی مشکلات میں سو مرتبہ ام البنین (علیہا السلام) پر صلوات بھیج کر حاجت روائی کرتا ہوں۔‘‘[۱۶]
علی محمد علی دخیل (معاصر مصنف): ’’اس خاتون کی عظمت اس وقت ظاہر ہوئی جب انہیں اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر دی گئی تو انہوں نے اس پر توجہ نہ دی، بلکہ امام حسین (علیہ السلام) کی سلامتی پوچھی؛ گویا امام حسین (علیہ السلام) ان کے اپنے بیٹے تھے۔‘‘[۱۷]
فہرست
1. قمر بنی هاشم، عبدالرزاق المقرم، ص ۹.
2. همان، ص ۱۰.
3. قمر بنی هاشم، مقرم، ص ۱۵.
4. تنقیح المقال، علامه مامقانی، ج ۳، ص ۷۰ با ترجمه.
5. زندگی ام البنین، ص77
6. تنقیح المقال، ج ۳، ص ۷۰ و منتهی الآمال، حاج شیخ عباس قمی، ص ۲۲۶.
7. عبدالرزاق موسوی مقرم، قمر بنی هاشم، ص۱۶.
8. ابوالفرج اصفهانی، ص۸۵
9. حسون، ص۴۹۶-۴۹۷.
10. شبر، ادب الطف، ج۱، ص۷۱
11. ریاحین الشریعه، ذبیح الله محلاتی، ج ۳، ص۲۹۴ و تنقیح المقال، ج۳، ص۷۰
12. ام البنین، دانشنامه حج و حرمین شریفین.
13. ستاره درخشان مدینه؛ حضرت ام البنین، ص۷
14. اعیان الشیعه، ج۸، ص۳۸۹.
15. مقرم،العباس(ع)، ص۱۸.
16. چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس(ع)، ج۱، ص۴۶۴.
17. العباس(ع)، ص۱۸.
منابع:
ماخوذ از سائٹ: دانشنامہ اسلامی
• "ام البنین مادر مهتاب"، ن-طیبی، فرهنگ کوثر، شماره ۲۱، تیر ۱۳۷۷.
• "ام البنین"، دانشنامه حج و حرمین شریفین.
• "ام البنین علیهاالسلام؛ بانوی مردآفرین"، راحله عطایی، مجله گلبرگ، مرداد ۱۳۸۲، شماره ۴۱.
ام البنین (فاطمہ کلابيہ) رضی اللہ عنہا
ترجمہ: یوسف حسین عاقلی
وہ بے راہ روی جسے مغربی سرمایہ داری کے کلچر نے فریب دے کر آزادی بتایا ہے غلامی ہے
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز ملک کے مختلف علاقوں سے آئی ہوئي ہزاروں خواتین اور لڑکیوں سے ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو ہر میدان میں سب سے عالی خصوصیات سے مزین ایک آسمانی انسان بتایا اور گھر اور معاشرے میں خواتین کی شان اور ان کے حقوق کے سلسلے میں اسلام کے نظریے کی تشریح کرتے ہوئے مختلف میدانوں میں بیویوں اور خواتین کے ساتھ مردوں کا رویہ کیسا ہونا چاہیے، اس پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے عبادت، خصوع و خشوع، لوگوں کے لیے ایثار و قربانی، سختیوں اور مصائب میں صبر و تحمل، مظلوم کے حق کے شجاعانہ دفاع، حقائق کی تشریح، سیاسی فہم و کردار، گھرداری، شوہرداری اور بچوں کی پرورش اور ابتدائے اسلام کے اہم تاریخی واقعات اور دیگر میدانوں میں موجودگي سمیت حضرت صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے بے پایاں فضائل کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ بحمد اللہ ایرانی خاتون، ایک ایسے آفتاب عالمتاب کو اپنا نمونۂ عمل بناتی ہے اور اس کے اہداف کی راہ میں قدم بڑھاتی ہے جو بقول پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، تاریخ کے ہر زمانے کی عورتوں کی سردار ہے۔ انھوں نے اسلام میں عورت کی شان کو بہت اعلی و ارفع بتایا اور کہا کہ عورت کے تشخص اور شخصیت کے بارے میں قرآن مجید نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہ انتہائی اعلی اور بلند ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے انسانی حیات و تاریخ میں مرد اور عورت کے مساوی کردار اور روحانی کمالات اور اعلی ترین مدارج تک ان کے پہنچنے کے مساوی امکان کے بارے میں قرآن مجید کی آیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے نکات، ان افراد کی کج فہمیوں سے تضاد رکھتے ہیں جن کے پاس دین تو ہے لیکن انھوں نے دین کو پہچانا نہیں ہے یا پھر جو لوگ سرے سے دین ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔ انھوں نے معاشرے میں خواتین کے حقوق کے بارے میں قرآن کی منطق کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں سماجی سرگرمیوں، کام اور تجارت، سیاسی سرگرمیں، اکثر سرکاری عہدوں تک رسائی اور دیگر میدانوں میں کام کے سلسلے میں عورت کے حقوق مرد کے برابر ہیں اور معنوی و روحانی راہ پر چلنے اور انفرادی و اجتماعی کوششوں میں اس کی پیشرفت کی راہ کھلی ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مغرب کا زوال پذیر کلچر، اسلام کی نظر سے پوری طرح مسترد ہے، کہا کہ اسلام میں خواتین کی شان کی حفاظت اور انتہائی سرکش اور خطرناک جنسی خواہشات کو کنٹرول کرنے کے لیے عورت اور مرد کے رابطے، عورت اور مرد کے پہناوے، عورت کے حجاب اور شادی کی ترغیب میں کچھ حد بندیاں اور احکام پائے جاتے ہیں جو پوری طرح عورت کی فطرت اور معاشرے کی مصلحت اور ضرورتوں کے مطابق ہیں جبکہ مغربی کلچر میں بے پایاں اور مخرب جنسیات کو کنٹرول کرنے پر بالکل بھی توجہ نہیں ہے۔ انھوں نے عورت اور مرد کو بہت سارے اشتراکات اور جسم اور فطرت کی وجہ سے پائے جانے والے بعض فرقوں کے حامل دو متوازن عناصر بتایا اور کہا کہ ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے یہ دو عناصر، انسانی سماج کا انتظام چلانے، نسل انسانی کو جاری رکھنے، تمدن کی پیشرفت، معاشرے کی ضروریات کی تکمیل اور زندگي جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اس حیاتی کردار کو عملی جامہ پہنانے کے عمل میں گھرانے کی تشکیل کو سب سے اہم کام بتایا اور کہا کہ مغرب کی غلط ثقافت میں گھرانے کی اکائی کو فراموش کر دیے جانے کے برخلاف اسلام میں گھرانے کو تشکیل دینے والے عناصر کی حیثیت سے عورت، مرد اور بچوں کو طے شدہ اور ایک دوسرے کے متقابل حقوق عطا کیے گئے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں سماجی اور گھریلو رویے میں انصاف کو عورتوں کا سب سے پہلا حق بتایا اور اس حق کو عملی جامہ پہنانے کے کے سلسلے میں حکومت اور معاشرے کے تمام افراد کی ذمہ داری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سلامتی، عزت اور وقار کا تحفظ بھی خواتین کے اصل اور بنیادی حقوق میں سے ہے مغربی سرمایہ داری کے برخلاف، جو عورت کے وقار کو پامال کرتی ہے، اسلام عورت کے مکمل احترام پر زور دیتا ہے۔ رہبر انقلاب نے قرآن مجید کی جانب سے مریم اور آسیہ جیسی دو مومن خواتین کی مثال دیے جانے کو تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے نمونۂ عمل اور خواتین کی فکر و عمل کی اہمیت کا غماز بتایا اور کہا کہ ایک ہی کام کے لیے عورتوں اور مردوں کی مساوی تنخواہ، ملازمت پیشہ خواتین یا گھر کی سرپرست عورتوں کے انشورنس، خواتین کی خاص چھٹیوں اور دسیوں دیگر مسائل جیسے سماجی حقوق کو بغیر کسی تفریق کے عملی جامہ پہنایا جانا چاہیے اور ان کی حفاظت کی جانی چاہیے۔
انھوں نے شوہر کی محبت کو گھر میں عورت کا سب سے اہم حق اور ضرورت بتاتے ہوئے کہا کہ گھر میں عورت کا ایک دوسرا اہم اور بڑا حق، اس کے خلاف ہر طرح کے تشدد کی نفی اور مغرب میں رائج انحرافات سے مکمل پرہیز ہے جہاں مردوں اور شوہروں کے ہاتھوں عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے یا انھیں زدوکوب کیا جاتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عورت کے سلسلے میں سرمایہ داری اور اسلام کے نقطۂ نظر کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلام میں عورت کو آزادی، استعداد اور پیشرفت کا امکان حاصل ہے تاہم سرمایہ داری کی نظر میں عورت اور مرد کے تشخص کو گڈمڈ کر دیا گيا ہے اور عورت کے وقار اور اس کی عزت کو پامال کر دیا گيا ہے۔ سرمایہ داری عورت کو، تفریح اور ہوس کا ایک مادی وسیلہ سمجھتی ہے اور مجرم گینگ، جنھوں نے حال ہی میں امریکا میں بہت ہنگامہ مچایا ہے، اسی طرز فکر کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے گھرانے کی عمارت کے انہدام اور خاندانی رشتوں میں کمی جیسے مسائل، نوجوان لڑکیوں کا شکار کرنے والے گینگس اور آزادی کے نام پر بے راہ روی اور بے لگام جنسی خواہشات کی ترویج کو پچھلی ایک دو صدیوں میں سرمایہ داری کے کلچر کے بڑے گناہوں میں شمار کیا اور کہا کہ مغربی سرمایہ داری فریب سے کام لے کر ان برے کاموں کو آزادی کا نام دیتی ہے اور انھیں ہمارے ملک میں رائج کرنے کے لیے بھی اسی نام کا استعمال کرتی ہے جبکہ یہ، آزادی نہیں بلکہ غلامی ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اپنے غلط کلچر کو دنیا میں برآمد کرنے پر مغرب کے اصرار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا دعوی ہے کہ عورت کے لیے حجاب سمیت کچھ معینہ حدبندیاں، اس کی پیشرفت میں رکاوٹ بنیں گی لیکن اسلامی جمہوریہ نے اس غلط منطق پر خط بطلان کھینچ دیا اور دکھا دیا کہ مسلمان اور اسلامی حجاب کی پابند عورت، تمام میدانوں میں دوسروں سے زیادہ قدم بڑھا سکتی ہے اور کردار ادا کر سکتی ہے۔
رہبر انقلاب سے ہزاروں لڑکیوں اور خواتین کی ملاقات
اسرائیل کی تاریخی شکست۔۔۔۔۔ اعداد و شمار کی روشنی میں
12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی تاریخ کی سب سے بڑی شکستوں میں سے ایک تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے مطابق یہ جارحیت اسرائیل کے ایران کا مقابلہ کرنے کے 20 سالہ منصوبے کا نتیجہ ہے، جو مکمل طور پر ناکامی پر منتج ہوئی۔ مقبوضہ علاقوں میں میڈیا کی شدید سنسرشپ کی وجہ سے نقصانات اصل اعداد و شمار ابھی تک مکمل طور پر شائع نہیں ہوسکے ہیں، لیکن اسرائیلی حکام اور میڈیا کے اعترافات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو بہت زیادہ معاشی، فوجی اور سماجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اعداد و شمار بحران کے حقیقی جہتوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دکھاتے ہیں، لیکن یہ حقائق واضح طور پر بتاتے ہیں کہ تل ابیب نے 12 دن کے بعد جنگ بندی پر رضامندی کیوں ظاہر کی۔
صہیونی حکام کی ناکامی کا اعتراف
اعترافی بیانات میں سے ایک اہم ترین بیان میجر جنرل جیورا ایلینڈ نے دیا ہے، جو اسرائیلی سلامتی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں۔ صیہونی حکومت کے میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں، انہوں نے کہا: "اسرائیل کے مفادات جنگ کے خاتمے اور جنگ بندی کو قبول کرنے میں تھے، جنگ جاری رکھنا اس کے بہترین مفاد میں نہیں تھا۔" یہ الفاظ براہ راست اسٹریٹجک اہداف کے حصول میں ناکامی کے اعتراف کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئلینڈ کے مطابق، جنگ جاری رکھنے کے اخراجات، بشمول معاشی نقصانات اور بین الاقوامی دباؤ، ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ تھے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے بھی 12 روزہ جنگ کے بارے میں کہا: "ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا اور ایران کا اسرائیل کے ساتھ پرامن طریقے سے رہنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔" یہ کھلا اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
حکومت کے میڈیا تجزیہ کاروں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چینل 12 کے ایک رپورٹر نے کہا: "ہم ایران کو شکست دینے میں ناکام رہے اور ہم مستقبل میں اس کی قیمت ادا کریں گے۔" اخبار یدیوت احرونوت کے عسکری تجزیہ کار یو سی یھوشوا نے زور دے کر کہا: "اسرائیل اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ، ایران کو شکست دینے میں ناکام رہا۔" اسرائیل کے چینل 12 ٹی وی نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ ایران نے ابھی تک طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار یا بھاری میزائل استعمال نہیں کیے ہیں اور معاریو اخبار نے تسلیم کیا ہے کہ ایران جنگ کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔
مالی اور معاشی نقصانات
اسرائیلی ٹیکس ایڈمنسٹریشن کے مطابق ایران کے ساتھ جنگ کے آغاز سے اب تک 41,651 نقصان کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے متعلق 32,975 مقدمات، گاڑیوں سے متعلق 4,119 کیسز، آلات اور جائیداد سے متعلق 4,456 مقدمات۔ ایک اندازے کے مطابق ہزاروں تباہ شدہ عمارتیں اب بھی غیر رجسٹرڈ ہیں۔ Ma'ariv اخبار کے معاشی تجزیہ کار شلومو موز نے لکھا ہے کہ 12 روزہ اسرائیلی فوجی آپریشن پر تقریباً 16 بلین ڈالر لاگت آئی اور اسی رقم سے حکومت کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کو نقصان پہنچا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں خلل کی وجہ سے روزانہ تقریباً 1.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، جس سے ہائی ٹیک، نقل و حمل، سیاحت، ریستوراں اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں کو نقصان پہنچا۔ ہوائی اڈے کی بندش اور پروازوں کی معطلی بھی معیشت پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ فرض کرتے ہوئے کہ نصف نقصانات کی تلافی مستقبل میں ہو جائے گی، اس سے اب بھی تقریباً 8 بلین ڈالر کا نقصان ہوگا، جو اسرائیل کی جی ڈی پی کے 1.3 فیصد کے برابر ہے۔
فوجی اور دفاعی اخراجات
اسرائیل کے اوسطاً فوجی اخراجات 725 ملین ڈالر یومیہ تھے، جو 12 دنوں کے دوران کل 8.7 بلین ڈالر بنتا ہے۔ اس میں فضائی حملے، F-35 لڑاکا طیاروں اور مختلف گولہ بارود کا استعمال شامل تھا۔ آئرن ڈوم، ایرو، اور ڈیوڈز فلاک سمیت جدید میزائل ڈیفنس سسٹم کو چالو کرنے کی لاگت $10 ملین سے $200 ملین یومیہ ہے۔ ہر ایک انٹرسیپٹر میزائل کی لاگت $700,000 اور $4 ملین کے درمیان ہے اور 12 دنوں کے دوران کل دفاعی اور فوجی اخراجات کا تخمینہ $12.2 بلین لگایا گیا ہے۔
ایرانی حملوں سے نقصان
ایرانی میزائل حملوں سے انفراسٹرکچر کو تقریباً 3 بلین ڈالر کا براہ راست نقصان پہنچا۔ کلیدی اہداف میں حیفا آئل ریفائنری، وایزمین انسٹی ٹیوٹ اور تل ابیب میں فوجی عمارتیں شامل تھیں۔ اسرائیلی ٹیکس اتھارٹی نے ابتدائی طور پر نقصان کا تخمینہ 1.3 بلین ڈالر لگایا تھا، لیکن توقع ہے کہ یہ 1.5 بلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گا، جو پچھلے ایرانی حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان سے دوگنا ہے۔ 18,000 سے زیادہ لوگ اپنے گھر خالی کرنے پر مجبور ہوئے اور ہنگامی رہائش کے اخراجات کا تخمینہ تقریباً 500 ملین ڈالر لگایا گیا۔ انفراسٹرکچر اور گھروں کی تعمیر اسکے علاوہ ہے۔
میکرو اکنامک نتائج
ناکام جنگ کے بعد، حکومت کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 6 فیصد تک بڑھ گیا اور دفاعی اخراجات 20 سے 30 بلین شیکل تک بڑھ گئے۔ بنک آف اسرائیل نے اپنی 2025ء کی اقتصادی ترقی کی پیشن گوئی کو کم کرکے 3.5 فیصد کر دیا اور جنگ کی لاگت کا تخمینہ جی ڈی پی کا 1 فیصد (تقریباً 5.9 بلین ڈالر) لگایا۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز اور فچ کی جانب سے وارننگ کے ساتھ حکومت کی کریڈٹ ریٹنگ بھی متاثر ہوئی۔ امریکہ نے بھی اسرائیل کے دفاع پر تقریباً 1 سے 1.2 بلین ڈالر خرچ کیے، خاص طور پر THAAD سسٹم کے ذریعے، لیکن اپنے ابتدائی مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد، اس نے اس کو بھی ترک کر دیا۔
نتیجہ
اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ صیہونی حکومت کی من گھڑت تاریخ کی سب سے مہنگی اور ناکام جنگوں میں سے ایک تھی۔ سرکاری اعداد و شمار اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے اقتصادی اخراجات 12 سے 20 بلین ڈالر کے درمیان بتائے گئے ہیں، لیکن زیادہ جامع اندازے 40 بلین ڈالر کے اعداد و شمار کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اہم اخراجات
براہ راست فوجی اخراجات: 12.2 بلین ڈالر، اقتصادی رکاوٹ اور کاروبار کی بندش: 21.4 بلین ڈالر، ایرانی حملوں سے نقصان: 4.5 بلین ڈالر، انخلا اور تعمیر نو کے اخراجات: 2 بلین ڈالر۔ یہ اعداد و شمار، حتیٰ کہ حکومت کے اپنے بتائے ہوئے سرکاری اعداد و شمار بھی اسرائیل پر شدید اقتصادی، فوجی اور سماجی دباؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ بجٹ خسارے، اقتصادی ترقی میں کمی، سیاحت کو پہنچنے والے نقصان، پیشہ ور افراد کی بے دخلی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں کمی سمیت طویل مدتی نتائج اسکے علاوہ ہیں۔ بالآخر، 12 روزہ جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایران کا مقابلہ کرنے کا اسرائیل کا 20 سالہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور تل ابیب مزید نقصان اور اقتصادی تباہی سے بچنے کے لیے جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ بیانیہ اور اعداد و شمار اسرائیلیوں اور ان کے میڈیا ذرائع کے اعترافات پر مبنی ہے۔ یہ اعتراف شکست و ریخت کے حقیقی جہتوں کی واضح تصویر پیش کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام تر دعوؤں اور شور شرابے کے باوجود صیہونی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کے دباؤ میں تقریباً مفلوج ہوچکی تھی۔
ترتیب و تنظیم: علی واحدی
ایران کی فوجی مشقیں اور امریکہ میں صف ماتم
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی افواج کے آپریشنز کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بریگیڈیئر جنرل ولی معدنی اور شنگھائی تعاون تنظیم کی انسداد دہشت گردی کی انتظامی کمیٹی کے نمائندے جنرل سرگئی کسنین کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں سہند 2025ء فوجی مشقوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ پریس کانفرنس میں کیے گئے اعلان کے مطابق، مشترکہ انسدادِ دہشت گردی مشقوں میں، ایران، چین، بیلاروس، پاکستان، بیلجیم، کرغزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے اپنی افواج کے خصوصی یونٹس کو اس فوجی مشق میں شرکت کے لیے بھیجا ہے۔ سعودی عرب، آذربائیجان اور عراق کی افواج بھی اس مشق میں بطور مبصر حصہ لے رہی ہیں۔ پریس کانفرنس کے مطابق اس ایونٹ میں مختلف ممالک کے 20 اعلیٰ سیکورٹی اہلکار، 60 چیف آف اسٹاف اور آپریشنل یونٹس کے 40 کمانڈر حصہ لے رہے ہیں۔
سہند 2025ء فوجی مشق کی مدت پانچ دن ہے۔ مجلس شورائے اسلامی میں شیراز اور زرگان کے نمائندے اور پارلیمانی کمیشن برائے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کے سربراہ ابراہیم عزیزی نے فارس نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے بات چیت میں کہا ہے کہ سہند 2025ء مشقوں کے انعقاد سے علاقائی سلامتی کے معاملات میں ہمارے ملک کے بڑھتی ہوئی پوزیشن کا اظہار ہوتا ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم کا فعال رکن ہے، بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دائرے میں ایک بنیادی کردار کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ان مشقوں کی میزبانی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران نے ایک ذمہ دار طاقت کے عنوان سے، کثیر القومی مشقوں کے انعقاد کے لئے علاقائی ممالک کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ وسیع پیمانے پر، مختلف ممالک کے وفود کی شرکت خطے اور اس سے باہر کے علاقوں کے لئے ایک واضح پیغام کی حامل ہے اور یہ اجتماعی سلامتی، اجتماعی تعاون کا نتیجہ ہے۔
آج شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اس مشترکہ فہم تک پہنچ چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرات سرحدوں تک محدود نہیں رہتے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے ممالک کی "صلاحیتوں کے باہمی اشتراک و اتحاد" کی ضرورت ہے۔ یہ مشقیں بین الاقوامی برادری کو تصادم کے بجائے تعاون پر مبنی پیغام بھیجتی ہیں۔ عزیزی نے کہا ہے کہ ہمارا ملک گذشتہ دہائیوں میں دہشت گردی کا شکار رہا ہے، لیکن ایران اپنی دفاعی اور معلوماتی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے آج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو یہ تجربات منتقل کرنا، مشق کے انعقاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک ہے۔ ایران نے ثابت کیا ہے کہ میدانی مقابلے کی صلاحیت کے علاوہ، منصوبہ بندی، کمانڈ اور انسداد دہشت گردی کے لئے کارروائیوں کے انتظام کے دائرے میں بھی اعلیٰ سطح کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔
12 روزہ مسلط کردہ جنگ میں ایرانی قوم کے مضبوط دفاع کے بعد ایران میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی شرکت کے ساتھ "سہند 2025ء انسداد دہشت گردی مشق" کا انعقاد ایران کے لیے بہت ہی قابل قدر نتائج اور اثرات کا حامل ہوگا۔ اس فوجی مشق کا، ایک اہم علاقائی ایونٹ اور ایک تزویراتی و آپریشنل حکمت عملی کے نقطہ نظر سے تجزیہ کیا جانا چاہیئے۔ اس مشترکہ مشق کے انتہائی قیمتی اثرات اور نتائج پر توجہ دینے کے لیے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں کونسے ممالک شریک ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام 10 رکن ممالک، جن میں ایران، ازبکستان، بیلاروس، پاکستان، تاجکستان، بھارت، چین، روس، قازقستان اور کرغزستان شامل ہیں، اس فوجی مشق میں شریک ہیں۔
اس ملٹری ایکسرسائز کو جاننے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کو مدنظر رکھا جانا چاہیئے۔
1۔ اس تنظیم کے رکن ممالک کا رقبہ زمین کے کل رقبے کا ایک چوتھائی ہے، جس میں دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی ہے۔
2۔ یہ مشق اسلامی جمہوریہ ایران میں اور پاسداران انقلاب اسلامی کی زمینی افواج کی ذمہ داری کے تحت منعقد کی جائے گی۔
3۔ گذشتہ 47 برسوں میں ایران دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا، لیکن امریکہ سمیت بعض مغربی ممالک نے ایران کو دہشت گردی کے ایک اسپانسر کے طور پر متعارف کرایا اور اس الزام کے بہانے ایران کو انتہائی ظالمانہ پابندیوں سمیت مختلف دباؤ کا نشانہ بنایا۔
4۔ دہشت گردی کی ایک مخصوص تعریف کرکے امریکی حکومت اپنی بالادستی کا نظام نافذ کرنے کے لئے اپنے مخالف ممالک کو دہشت گرد ممالک یا دہشت گردی کے اسپانسر کے طور پر متعارف کراتی ہے اور پھر اس بہانے انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ امریکہ خود دنیا کے دہشت گردوں کا سرغنہ ہے اور اس نے اپنی پالیسیوں اور مفادات کے لئے داعش جیسے خطرناک ترین دہشت گرد گروہوں کو بنایا، انہیں اسلحہ سے لیس کیا، ان کی حمایت کی اور انہیں استعمال کیا۔
5۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے گذشتہ دہائیوں میں قومی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کی کمان میں داعش دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ میں ایک شاندار ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ مغربی ممالک اور ان کے پیروکاروں جیسے کہ آسٹریلیا وغیرہ نے سپاہ پاسداران کو دہشت گرد گروپ یا دہشت گردی کے اسپانسر کے طور پر پیش کیا ہے۔
مندرجہ بالا نکات پر غور کرتے ہوئے، بریگیڈیئر جنرل ولی منانی کی سربراہی میں ایران میں مشترکہ انسداد دہشت گردی مشق سہند 2025ء کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس فوجی مشق کی مسئولیت IRGC کی زمینی فورس کے آپریشنل یونٹ کے ذمہ ہے۔ یہ فوجی مشق دہشت گردی اور دہشت گردوں کی عالمی کارروائیوں کے بارے میں علمی، منصفانہ اور حقیقت پسندانہ نظریہ کے ساتھ ایک حقیقی تبدیلی کے مظہر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس قسم کا یہ نیا علمی نظریہ، جو مختلف شعبوں اور دنیا کے کونے کونے میں تشکیل پا رہا ہے، یقینی طور پر نئے عالمی نظام کی فکری اور نظریاتی بنیادیں فراہم کرے گا۔ مثال کے طور پر، آپریشن طوفان الاقصیٰ سے پہلے، مغربی میڈیا ایک غیر حقیقی اور غلط تصورات کی بنیاد پر صیہونی حکومت کو ایک جمہوری اور اخلاقی حکومت سمجھتا تھا اور دوسری طرف اپنی مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے لیے لڑنے والے فلسطینیوں کو اکثر رائے عامہ میں دہشت گرد تصور کیا جاتا تھا۔
لیکن اب دنیا کی مختلف قومیتوں کے لوگ حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ کے باشندے بھی تاریخی حقائق سے آگاہ ہوچکے ہیں اور انہوں نے نہ صرف اپنے سابقہ نظریات سے خود کو دور کر لیا ہے، بلکہ فلسطین کی آزادی اور صیہونی حکومت کی نابودی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج نیتن یاہو اور صیہونی حکومت کے دیگر رہنماء غزہ اور مغربی ایشیائی خطے کے دیگر ممالک میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر اقوام عالم کی نظر میں سب سے زیادہ قابل نفرت لوگ ہیں۔ لہٰذا، عالمی پیش رفت کے تزویراتی نقطہ نظر کے ساتھ، امریکہ کی طاقت اور وقار میں کمی اور ڈالر کی طاقت کو توڑنے کے لئے برکس یونین میدان میں حاضر ہے۔ برکس کے ذریعے پابندیوں اور ڈالر مخالف محاذ کی تشکیل نیز، اقوام کی بیداری اور ایشیاء میں تعاون اور ہم آہنگی کی مضبوطی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم سے ہمیں توقع کرنی چاہیئے کہ وہ طاقت کو مغرب سے مشرق کی جانب منتقل کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گی۔
سہند 2025ء انسداد دہشت گردی مشق کے نتائج اور اثرات کو مذکورہ میکرو تجزیہ کے فریم ورک کے اندر شامل کیا جانا چاہیئے۔ اس مشق میں، دہشت گردی کو پہچاننے اور دہشت گردوں کے خلاف حقیقی معرکے میں اسلامی جمہوریہ کے قیمتی تجربات کو شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر اراکین کو منتقل کیا جاسکتا ہے اور اس اہم خطے کی اقوام اور حکومتوں کے درمیان(جو کہ دنیا کی 45 فیصد آبادی پر مشتمل ہے،) دہشت گردی کے بارے میں ایک مشترکہ فہم قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ نتیجہ اور اثرات وقت کے ساتھ ساتھ درج ذیل شعبوں میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ برکس ممالک کے ساتھ یہ فوجی مشقیں اسلامی جمہوریہ کی علاقائی پوزیشن کو مضبوط بنانے، قومی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے اور قومی مفادات میں سرفہرست، قومی سلامتی اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
اس مسئلے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہو جاتی ہے، جب ہم استکباری محاذ کی پالیسیوں پر توجہ دیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دشمن دہشت گردی یا فوجی کارروائیوں کے سلسلے میں ایران کے استحکام اور سلامتی کو درہم برہم کرنے کے درپے ہے۔ یاد رہے کہ
1۔ یہ مشق دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کارروائیوں کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے فوجی-سکیورٹی کے شعبے میں ایران کی فعال موجودگی کی راہ ہموار کرے گی۔
2۔ سہند 2025ء مشق شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول چین، روس، ہندوستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایران کے فوجی اور دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرے گی۔
3۔ یہ مشق شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کے درمیان مفادات اور خطرات کے بارے میں مشترکہ فہم کو مضبوط بنا کر سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شمالی-جنوبی کوریڈور سمیت توانائی کے منصوبوں اور ٹرانسمیشن لائنوں میں تعاون اور مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے بنیاد فراہم کرے گی۔
تحریر: یداللہ جوانی جونی
جنوبی لبنان میں صیہونی جارحیت جاری ہے
لبنانی میڈیا کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی فوج نے مقبوضہ فلسطین (اسرائيل) علاقوں "رمثا" اور "رویسات العالم" سے جنوبی لبنان کے علاقوں بسترہ اور کفر شوبہ کے مضافات کی طرف گولہ باری کی۔
اسرائیلی ڈرونز نے الضھیرہ قصبے کی طرف دو صوتی بم بھی داغے۔
ایک اور اطلاع کے مطابق صہیونی فوجیوں نے کفر شعبا قصبے کے مضافاتی علاقوں پر بھی گولہ باری کی ہے۔
صیہونی حکومت کے ایک ڈرون نے میس الجبل قصبے کے مشرقی حصے کی طرف بھی صوتی بم پھینکا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جیسے ہی کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ لیو XIV لبنان پہنچے تو صیہونی حکومت نے خطے میں بدامنی کو جاری رکھتے ہوئے لبنان کے جنوبی علاقوں پر ایک بار پھر حملے شروع کردیے۔
ایران کی پاکستانی نوجوانوں کو فلم سازی کی تربیت دینے کی تجویز/ مشترکہ فلمین بھی بنائیں گے
فجر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے سیکریٹری روح اللہ حسینی نے فلم پاکستانی پویلین کا دورہ کیا اور پاکستان کے وزیر ثقافت و قومی ورثہ اورنگ زیب کھچی ملاقات اور باہمیدلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا ۔
روح اللہ حسینی نے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول اور شہر شیراز میں پاکستانی وزیر ثقافت کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شیراز ہمارے ملک کا سب سے تاریخی اور ثقافتی شہر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت خوشی ہے کہ اس سال فلم مارکیٹ میں پاکستان کا پولین بھی موجود ہے۔ انہوں بتایا کہ عالمی میلے کی فلم مارکیٹ میں 15 دیگر ممالک نے اپنے اسٹال لگائے ہیں اور اس دوران تقریباً 40 ممالک کے فلمساز اور حکام شریک ہیں اور 46 فلموں کو نمائش کے لیے منتخب کیا گیا۔
مشترکہ پروڈکشن کی تیاری کی خواہش
فیسٹیول کے سیکریٹری نے مزید کہ بدقسمتی سے اس سال اس فیسٹیول میں پاکستان کی کوئی فلم نہیں دکھائی گئی لیکن ہمیں امید ہے کہ اگلے سال ایران اور پاکستان بنائی ہوئی مشترکہ فلم اس فیسٹیول کا حصہ بنے گي۔
ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
پاکستانی وزیر ثقافت نے شیراز اور فجر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں اپنی شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس فیسٹیول میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے دنیا کو یہ پیغام دینے کے لیے کہ ایران اور پاکستان دو دوست اور برادر ملک ہیں فیسٹیول میں وزارتی سطح کے وفد کی شرکت کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے وزیر ثقافت و قومی ورثہ نے کہا کہ انشاء اللہ اگلے سال ہم دونوں ممالک کی مشترکہ طور پر تیار کردہ فلم کے ساتھ فیسٹیول میں شرکت کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ایران کا ایک وفد بھی پاکستان آئے گا اور مشترکہ پیداوار کے امکانات کا جائزہ لے گا۔ مجھے امید ہے کہ فجر انٹرنیشنل فلم فیسٹیول دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ ایران ایک قدیم، متنوع اور پرکشش ثقافت کا حامل ملک ہے۔
ایران کی پاکستانی نوجوانوں کو فلم سازی کی تربیت دینے کی تجویز
اس ملاقات کے بعد روح اللہ حسینی نے کہاکہ اس فیسٹیول میں دارالفونون کے نام سے ایک سیکشن ہے جو سنیما کی تعلیم کے لیے وقف ہے۔ ہم نوجوانوں کے لیے فلمی تعلیم کے شعبے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ اس سیکشن میں ایرانی اور بین الاقوامی فلم سازوں اور پروفیسروں کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔
حسینی نے تجویز پیش کی کہ اگر آپ 10 سے 20 پاکستانی نوجوانوں کے گروپ تیار کریں، تو ہم ان کے لیے ایران یا پاکستان میں فلم سازی کے تربیتی کورس منعقد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح مشترکہ فلم سازی کے میدان میں آسانی سے قدم رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ "ہم دو ہفتے سے ایک ماہ کے کورسز کے ذریعے نوجوان پاکستانی فلم سازوں کو ایرانی سنیما کے تجربات منتقل اور تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔"
ایران کی اولین مقامی ڈسٹرائر ’جماران‘ خود انحصاری کی راہ میں اہم قدم ہے، ریئر ایڈمرل سیاری
ایرانی فوج کے ڈپٹی کوآرڈینیشن کمانڈر ریئر ایڈمرل حبیب اللہ سیاری نے کہا ہے کہ ایران نے اپنی پہلی جدید جماران ڈسٹرائر مکمل طور پر ملکی انجینئرز کی مدد سے تیار کی، جو دفاعی خودکفالت اور قومی پیش رفت کی روشن علامت ہے۔
شہید ستاری یونیورسٹی آف ایروناٹیکل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوجی ساز و سامان اور جنگی آلات میں خود کفالت کی فکر سب سے پہلے امام خمینیؒ نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران پیش کی تھی، اور آج ایران اسی نظریے کے تحت اہم کامیابیاں حاصل کررہا ہے۔
ریئر ایڈمرل سیاری نے بتایا کہ جماران ڈسٹرائر نہ صرف ایران میں ڈیزائن کی گئی بلکہ اسے مکمل طور پر مقامی ماہرین نے تیار کیا، جو ملکی دفاعی صنعت کی مہارت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اس ڈسٹرائر کو ایران کی صنعتی ترقی اور خود انحصاری کی علامت قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ رہبرِ انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ہمیشہ ایرانی بحریہ کو ایک اسٹریٹجک فورس قرار دیا ہے۔ بحریہ ملکی سلامتی کے تحفظ اور سرحدوں کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔



































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
