سلیمانی

سلیمانی

دور حاضر کے فکری مباحث میں ایک خطرناک اشکال اٹھایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس بات میں شک پیدا کرنا ہے کہ کیا واقعی کوئی واحد اسلامی حقیقت موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی مراد کی نمائندگی کرتی ہو۔ یہ اشکال اس نظریے سے جنم لیتا ہے کہ "حقیقت" اپنی فطرت میں ایک نسبتی چیز ہے، جس کے بارے میں یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس خیال کے مطابق، تمام اسلامی مذاہب باوجود اس کے کہ ان میں شدید اختلافات اور تناقضات ہیں برابر طور پر اسی حقیقت کے مختلف اظہار ہیں ۔ یوں تمام مذاہب کو ایک جیسا قرار دیا جاتا ہے، چاہے ان کے عقائد کے اصول اور فہم کے مناہج ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ بظاہر یہ دعویٰ رواداری اور وسعتِ نظری کی دعوت دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ دین کی بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے، کیونکہ یہ یقین اور برہان پر قائم دین کو ایک غیر واضح، متزلزل تصور میں بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، اسلام خود ایک غیر متعین مفہوم بن جاتا ہے، اور وحی محض ایک انسانی تجربہ نظر آنے لگتی ہے جو تبدیلی اور تحریف کے نشانے پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی حقیقت میں ایک پیغام ہے، جو ایک ربّ کی طرف سے ایک رسول پر ایک کتاب کی صورت میں نازل ہوا، اور جس کا مقصد بھی ایک ہی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ واحد پیغام اپنی مختلف اور متناقض صورتوں میں ظاہر ہو کر سب کو درست قرار دے؟ قرآنِ کریم واضح طور پر بتاتا ہے کہ حق ایک ہی ہے، اس کے علاوہ سب باطل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ

حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

لہٰذا، مذاہب کے درمیان اختلاف کو اسلام کی حقیقت واحدہ کے انکار سے حل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ برہان و دلیل کی روشنی میں یہ معلوم کیا جائے کہ ان میں سے کون سا مذہب اللہ تعالیٰ کی اصل مراد کے زیادہ قریب ہے۔ اگرچہ بعض جدید فکری رجحانات نے نسبیت (ریلیٹیوزم)کے نظریے کو اپنا لیا ہے، لیکن اس نظریے کی جڑ دراصل انسان کی کمزوری کے پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نظریہ علم و معرفت کو عقلِ فعال کی بجائے ماحول کے اثرات اور ذاتی حالات کا نتیجہ قرار دیتا ہے، گویا انسان اپنے گردوپیش اور نفسیاتی عوامل سے متاثر ہو کر چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ ایک ایسی عقلی قوت کے ذریعے جو ان اثرات سے بلند ہو کر حقیقت تک رسائی حاصل کر سکے۔

پس، جو انسان اپنے اوپر نفسیاتی اور سماجی عوامل کے غلبے کو تسلیم کر لیتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر علم صرف ایک ذاتی موقف کا عکاس ہے، اور کوئی ثابت و معروضی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس، اسلام نے انسان کے بارے میں اپنا نظریہ قوت اور ضعف کے توازن پر قائم کیا ہے۔ اسلام کے نزدیک عقل وہ سرچشمۂ قوت ہے جو انسان کو بلند کرتی ہے اور اسے زمان و مکان اور ذاتی میلان کی حدود سے ماورا کر دیتی ہے، جبکہ خواہشِ نفس وہ سرچشمۂ ضعف ہے جو انسان کو اپنی نفسانی خواہشات اور مادی حالات کا قیدی بنا دیتا ہے۔

اسی لیے قرآنِ کریم نے عقل اور خواہشِ نفس   کے درمیان فرق کو نہایت اہمیت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جس طرح اس نے انسان کو عقل، غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا، اسی طرح خواہشات کی پیروی سے سختی سے روکا ہے، کیونکہ خواہشات بصیرت کو اندھا کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾

خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر، وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔

اور فرمایا: ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى

اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف رکھا اور نفس کو خواہش سے روکے رکھا۔ اور فرمایا:

﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً

اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا، اور جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی، اور جس کا کام حد سے بڑھ گیا۔

اگر ذاتی نقطۂ نظر اور نسبیت واقعی ناگزیر (حتمی) ہوتے، جیسا کہ نسبیت کے حامی کہتے ہیں، تو قرآن کبھی اس سے انکار نہ کرتا، اور نہ ہی انسان کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دیتا

درحقیقت، پورا قرآنی پیغام اسی بنیاد پر قائم ہے کہ انسان اپنی معرفت کو خواہشات اور شہوات کے غلبے سے آزاد کرے، کیونکہ انہی کے تابع ہو جانے سے حقیقت مسخ ہو جاتی ہے اور انسان حقیقت کو میلانِ نفس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق۔

یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے: معرفتی نسبیت صرف فکری گمراہی نہیں بلکہ اخلاقی انحراف بھی ہے، کیونکہ یہ انسان کو یہ جواز دیتی ہے کہ وہ بغیر کسی ذمہ داری کے جو چاہے عقیدہ اختیار کر لے،اور حقیقت کو محض ذوق اور پسند کا کھیل سمجھنے لگے۔جبکہ اسلامی منہج اس اصول پر قائم ہے کہ حقائق کا وجود انسان کے باطن سے باہر، ایک معروضی صورت میں موجود ہے، اور انسان کی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ انہیں گھڑ لے، بلکہ یہ ہے کہ وہ انہیں عقل و برہان کے ذریعے دریافت کرے۔

چنانچہ، جس قدرمحقق اپنی ذات، تعصب اور خواہش سے بلند ہو کر سوچتا ہے، اتنا ہی وہ حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اپنی خواہشات کا تابع بنتا ہے۔  اتنا ہی حقیقت سے دور چلا جاتا ہے۔ جب اسلامی مذاہب (فرقوں) کی تشکیل کا غیر جانبدارانہ اور تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے بہت سے مذاہب خالص علمی تحقیق کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئے، بلکہ ان کے پسِ منظر میں سیاسی، قبائلی یا شخصی محرّکات کارفرما تھے، جنہوں نے فہمِ دین اور تاویل کے میدان میں انحرافات پیدا کر دیے۔

لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ تمام مذاہب لازماً اسی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا۔ درحقیقت، ان میں سے بہت سے مذاہب انسانی کوششوں کے نتائج ہیں جو اپنے زمانی و تاریخی حالات سے متاثر ہوئے۔ تاہم، حقیقت کی نسبیت  (Relativism)کو ردّ کرنا تعصّب یا مکالمے کے انکار نہیں، بلکہ اس کے برعکس، یہ عقل، برہان اور سائنسی منہج کے احترام کی دعوت ہے ۔ تاکہ اختلافی آراء کے باوجود گفتگو اور تحقیق کا دروازہ کھلا رہے۔اور مقصد یہ ہو کہ ہم ایک حق تک پہنچیں نہ کہ متضاد "حقائق" کے جواز تلاش کریں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم دو باتوں میں فرق کریں:

پہلی بات: یہ تسلیم کرنا کہ مختلف مذاہب سماجی و تاریخی حقیقت کے طور پر موجود ہیں  یہ ایک ناقابلِ انکار امر ہے۔

دوسری بات: یہ مان لینا کہ کوئی مکتبِ فکر الہی حقیقت کی درست ترجمانی یہ تبھی تتب کر سکتا ہے جب اس کے پاس برہانِ قاطع موجود ہو۔ پس مذاہب کا احترام اس معنی میں نہیں کہ تمام مذاہب خدا تک پہنچنے کے یکساں راستے ہیں، کیونکہ اللہ ایک ہے، اس کا دین ایک ہے، اور اس کی شریعت ایک ہے۔

لہٰذا یہ کہنا کہ حقائق متعدد ہیں، دراصل اس بات کے مترادف ہے کہ اسلام کے اندر خود کئی "ادیان" موجود ہیں۔  اور یہ تصور قرآن کے منطق اور توحیدِ دین کے اصول سے سراسر متصادم ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں تعصّب، جذباتیت اور اندھی تقلید سے دُور رہے، اورِ فیصلہ کرنے میں اپنا معیارعقل و برہان کو بنائے، نہ کہ مذہبی وابستگی یا سماجی وراثت کو۔ مذہب یا مسلک کو حق کے پیمانے پر پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ حق کو مسلکی پیمانوں کے تابع بنایا جائے۔ اگر لوگوں کے درمیان مذاہب کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں، تو اس کا حل یہ نہیں کہ حقیقت ہی کو منسوخ کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ حقیقی علمی مکالمے کے دروازے کھولے جائیں، تاکہ درست بات غلط سے الگ ہو جائے، اور اسلام کا حقیقی اور خالص چہرہ مختلف متضاد رجحانات کے درمیان واضح ہو سکے۔ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے خود اپنے اندر حقیقت کو دریافت کرنے کے اصول مقرر کیے ہیں، جن میں سب سے اہم اصول برہان (دلیل) کا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

کہہ دو: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔

پس برہان ہی وہ فیصلہ کن میزان ہے جو مختلف مذاہب کے درمیان حق و باطل کا فرق واضح کرتا ہے، نہ کہ جذبات، اکثریت یا تاریخی وراثت۔ اسی بنیاد پر یہ کہنا درست نہیں کہ ہر مذہب برابر درجے میں حق کا حصہ دار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو "کچھ حصے" کی سچائی تک پہنچنے کا نہیں، بلکہ مکمل حق کے دین تک رسائی کا مکلف بنایا ہے۔

اور جو کچھ اس کامل حق سے کم ہو، وہ "نسبی" اور ناقص و باطل ہے۔ اور اگر تشیع ایک منصف محقق کی نظر میں ایسی مکمل عقلی و استدلالی بنیادوں کی حامل منظم فکر ہے جو اسے رسالت کے حقیقی جوہر سے جوڑتی ہے، تو یہ بات کسی دعویٰ کے طور پر پیش نہیں کی جاتی، بلکہ اسے علمی مکالمے اور غیر جانبدارانہ تحقیق کے سپرد کیا جاتا ہے،تاکہ برہان کے ذریعے خود حقیقت ظاہر ہو۔ کیونکہ حق کا غلبہ نعروں یا وابستگیوں سے نہیں بلکہ دلیل اور خلوص سے حاصل ہوتا ہے۔ درحقیقت، حق کو پہچاننے کا معیار اس کی دلیل ہے، نہ کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی عقل اس نظریے کو قبول نہیں کر سکتی کہ حقیقت نسبتی ہے، کیونکہ ایسا مان لینا ایمان کی بنیاد کو ہی ختم کر دیتا ہے  چونکہ ایمان یقین پر قائم ہوتا ہے، احتمال پر نہیں۔ اسی لیے نسبیت کا انکار تنگ نظری نہیں بلکہ اس بات پر ایمان ہے کہ حقیقت تک رسائی ممکن ہے، بشرطیکہ انسان اپنے نفس کو خواہشات سے پاک کرے اور اپنی عقل کو جو دراصل خدا کی عطا کردہ ہدایت کا نور ہے بروئے کار لائے۔ یوں عقل اور خواہشِ نفس کے درمیان ہی انسان کی تقدیر طے ہوتی ہے: اگر وہ عقل کی پیروی کرے تو حق کو پہچانتا ہے، اور اگر خواہش کا اسیر ہو جائے تو باطل میں بھٹک جاتا ہے۔ قوموں کی تعمیر بھی انہی دو بنیادوں پر ہوتی ہے  یا تو عقل و برہان پر، یا جذبات اور اندھی تقلید پر۔

نتیجہ کلام یہ ہے کہ:

اسلام یہ نہیں کہتا کہ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ آسان ہے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ انسانی خودپسندی اور خواہشِ نفس اگرچہ بڑی رکاوٹیں ہیں، مگر یہ ناگزیر تقدیر نہیں، بلکہ قابلِ اصلاح کمزوریاں ہیں۔ اور چونکہ اللہ نے عقل سے کام لینے کا حکم دیا ہے اور خواہش کی پیروی سے روکا ہے،تو یہ بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقت کو جاننا ممکن ہے، اور یہ کہ وہ حقیقت ایک ہی ہے، متعدد نہیں، کیونکہ حق کا ربّ ایک ہے، اس کی کتاب ایک ہے، اس کا رسول ایک ہے، اور حق کبھی تقسیم یا متکثر نہیں ہو سکتا ۔

Friday, 28 November 2025 07:43

ابو ایوب انصاری

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب نجاری تھا، اور آپ ابو ایوب انصاری کی کنیت سے معروف تھے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی، اور انصار میں سے قبیلہ بنی خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ بنی اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ان ۶۹مردوں اور دو خواتین میں شامل تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے، کہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر قسم کی مدد اور نصرت کرنے کی بیعت کی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اور اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک میں موجود تمام شرکا گواہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو آپ ؓ کے گھر استراحت فرمائی۔

جیسا کہ اس وقت یہ واقعہ فرمان یافتہ اونٹ کے واقعہ سے معروف اور مشہور ہوا، اس کی تفصیل یوں ہے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے تو انصار کے قبائل میں سے ہر قبیلہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اسے ہی شرفِ ضیافت سے نوازے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس کے گھر کے آگے اونٹنی رکے گئی اس کو یہ شرف حاصل ہوگا، توجوں جوں سواری آگے بڑھتی جاتی راستے میں انصارِ مدینہ انتہائی جوش ومسَرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں شرفِ ضیافت بخشیں مگر نبی کریم ہر ایک سے مسکراکر فرماتے تھے : اس کے راستے کو چھوڑ دو! جس جگہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی، پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور ایک مرتبہ چکر کاٹنے کے بعد واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی (یعنی ابوایوب انصاری کے گھر کے باہر) ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر ہی مہمان کے طور قیام فرمایا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس پر مدینہ والے رشک کیا کرتے تھے، اسی طرح مؤاخات مدینہ کے موقعہ پرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنارہے تھے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مصعب بن عمیر کا بھائی بنایا۔

حضرت ابوایوب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ آپ ؓ کی رسول اکرم سے پر خلوص محبت کا نتیجہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلے آپ امام علیؑ کی امامت اور ولایت کو قبول کرنے اورآخری دم تک آپ ؑ کے برحق خلیفہ اور جانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے پر قائم  رہنے والوں میں سے بن گئے۔ اور آپ ؓ نے اپنے اس  اصولی موقف سے کبھی بھی  اعراض نہیں کیا۔ بلکہ آپؓ ان بارہ افراد پر مشتمل  گروہ میں بھی شامل تھے کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد مسجد نبی میں امام علیؑ کے اللہ کی طرف سے امام برحق اور نبی کے جانشین ہونے کا دفاع کیا۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی امام علی کی  ؑ معیت میں گزاری، اور امام علیؑ نے اپنی  ظاہری خلافت کے دوران جتنی جنگیں لڑی اس میں بھی آپ شریک رہے، خاص کر جنگ نہروان میں آپ کے پاس امن کا پرچم بھی تھا۔

حضرت ابوایوب ان صحابیوں میں سے تھے جن سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں، اور آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں، آپ نے امام علی ؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بہت سی احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں، آپ ان راویوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین، اور حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ جیسا کہ اصبغ کہتا ہے کہ میں نے رحبہ کے دن لوگوں میں اعلان کیا ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان سنا ہے وہ کھڑے ہوجائے، اور صرف وہی لوگ  کھڑے ہوجائیں کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والا اعلان ولایت کو سنا ہے اور وہی بات بیان کریں کہ جس کو اس دن سنا ہے۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ (چند درجن)  کھڑے ہوئے ان میں سے ایک ابوایوب بھی تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس آگاہ رہو کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کا علی مولیٰ ہے، خدایا تو اس سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرتا ہے، تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے، اور تو اس کی مدد کر جو علی کی مدکرتا ہے۔  جیسا کہ ابوایوب انصاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول نقل کیا جا تا ہے  کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی  ابوایوب انصاری کو امام علیؑ کے ساتھ دینے کا بھی حکم صادر فرمایا۔

امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ رضاؑ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصحاب ؓ میں کچھ ایسے بھی تھے کہ جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلتے رہے، اورانہوں نے اس منھج اور سیرت کو تغییر اور تبدیل نہیں کیا، جیسے ابوایوب انصاری اور ان جیسے اصحاب، اللہ کی رضایت ان کے شامل حال ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔

جیسا کہ شیخ محی الدین مامقانی کہتے ہیں کہ ابوایوب انصاریؓ ان اصحاب میں سے تھے کہ جنہوں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور منھج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبدیل اور تغییر نہیں کی ۔اور اس سعادت سے ہی بہرمند ہونے والے بہت کم ہی تھے، جو لوگ ابوایوب کی زندگی، مقام ومنزلت، نظریات، اقوال، شہادات،اور رویات کو جانتا ہیں وہ یہ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ آپؓ ایک ثقہ اور جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ ثقات میں سے بہت زیادہ قابل اعتماد تھے اور اصحاب میں سے برجستہ ترین صحابی تھے، اور میرے نزدیک آپؓ سے نقل ہونے والی روایات صحیح ہیں اور قابل شک نہیں ہیں۔

ابوایوب انصاری رضوان الله تعالى عليه ۵۲ہجری کو وفات پاگئے، اور آپؓ قسطنطیہ ترکی میں مدفون ہیں، جو اس وقت ترکی کا ایک صوبہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے قسطنطیہ میں وفات پانے اور دفن ہونے کی خبر پہلے سے ہی دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسطنطیہ میں میرے اصحاب میں سے ایک صالح اور نیک صحابی کو دفن کیا جائے گا۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا خطبۂ فدک نہ صرف سیاسی اور معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے، بلکہ اس میں خواتین کے لیے روحانی، اخلاقی اور معاشرتی تعلیمات بھی شامل ہیں۔

خطبۂ فدک میں خواتین سے خطاب کی اہم جہتیں درج ذیل ہیں:

1. ایمان اور تقویٰ کی تاکید
2. حق و باطل کی تمیز
3. صبر اور استقامت
4. علم اور شعور کی اہمیت
5. معاشرتی کردار اور عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری

1. ایمان و تقویٰ کی تاکید

حضرت فاطمہ الزہراء نے خواتین کو سب سے پہلے ایمان و تقویٰ پر قائم رہنے کی تعلیم دی۔

"يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنِينَ اتَّقِينَ اللَّهَ وَاحْفَظْنَ أَمَانَاتِكُنَّ"!

اے مؤمن خواتین! اللہ سے ڈرو اور اپنی امانتوں کو محفوظ رکھو!

وضاحت:

امانت میں ایمان داری اور تقویٰ ہر مؤمنہ کے لیے بنیادی اصول ہیں۔

خواتین کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں میں ہوشیار رہنے کی تاکید ہے۔

یہ تعلیم عورت کے گھریلو اور معاشرتی کردار دونوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

2. حق و باطل کی تمیز

خطبہ فدک میں خواتین سے خطاب میں سب سے اہم نقطہ حق و باطل کی پہچان اور اس کے لیے قیام ہے۔

"فَإِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُنَّ بِالْحَقِّ وَيَنْهَى عَنِ الْبَاطِلِ"

اللہ چاہتا ہے کہ تم حق پر قائم رہو اور باطل سے بچو!

وضاحت:

حق پر قائم رہنا اور باطل کی مخالفت خواتین کی اخلاقی اور روحانی ذمہ داری ہے۔

خواتین کو معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر:

نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی وفات کے بعد فدک کا غصب ایک سیاسی واقعہ تھا۔

حضرت فاطمہ نے خواتین کو یہ پیغام دیا کہ معاشرے میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔

3. صبر اور استقامت

خطبہ میں خواتین کو ظلم و جبر کے سامنے صبر اور استقامت اختیار کرنے کی تاکید کی گئی۔

"وَاصْبِرْنَ عَلَى الظُّلْمِ وَثِقْنَ بِاللَّهِ"

ظلم کے سامنے صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو!

وضاحت:

صبر اور استقامت خواتین کی روحانی مضبوطی کی علامت ہیں۔

معاشرے میں ان کی استقامت سے نہ صرف خاندان، بلکہ معاشرتی عدل و انصاف بھی قائم رہتا ہے۔

عملی پہلو:

ظلم یا ناانصافی کے حالات میں بھی حق پر قائم رہنا۔

کسی بھی سماجی یا خانگی معاملے میں حق کو قائم رکھنا۔

4. علم اور شعور کی اہمیت

حضرت فاطمہ نے خواتین کو علم حاصل کرنے اور شعور پیدا کرنے کی تاکید کی، تاکہ وہ حق و باطل کی تمیز کر سکیں۔

"وَتَعَلَّمْنَ مَا يَهْدِيكُنَّ إِلَى الْحَقِّ وَالْعَدْلِ"

علم حاصل کرو! جو تمہیں حق اور عدل کی طرف رہنمائی کرے۔

وضاحت:

علم اور شعور کے بغیر حق و باطل کی پہچان ممکن نہیں۔

خواتین کو معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی کردار کے لیے علم ضروری ہے۔

تاریخی پہلو:

اس زمانے میں خواتین کے علم و شعور کی اہمیت کم سمجھی جاتی تھی۔

حضرت فاطمہ نے خواتین کو حق و انصاف کی رہنمائی کے لیے تیار کیا۔

5. معاشرتی کردار اور عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری

حضرت فاطمہ نے خواتین کو معاشرت میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری بھی دی۔

فَاتَّقِينَ اللَّهَ وَأَقِيمْنَ الْحَقَّ وَلا تَخْشَيْنَ فِي سَبِيلِهِ أَحَدًا.

اللہ سے ڈرو، حق قائم کرو اور اس کے راستے میں کسی سے نہ ڈرو!

وضاحت:

خواتین کے لیے یہ پیغام ہے کہ حق کے قیام میں خوف کو دور کریں۔

معاشرے میں خواتین کی فعال شرکت، حق و انصاف کے قیام میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

عملی نکات:

1. معاشرتی ظلم یا ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا۔

2. گھریلو اور بیرونی دونوں میدانوں میں عدل و انصاف قائم کرنا۔
3. علم، صبر اور استقامت کے ساتھ معاشرتی کردار نبھانا۔

نتیجہ

خطبہ فدک میں خواتین سے خطاب میں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے درج ذیل اصول واضح کیے:

1. ایمان اور تقویٰ پر قائم رہنا

2. حق و باطل کی تمیز

3. صبر اور استقامت اختیار کرنا

4. علم و شعور کے ذریعے حق کی پہچان

5. معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا

یہ خطبہ آج بھی خواتین کے لیے روحانی، اخلاقی اور معاشرتی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اسلام میں خواتین کے فعال کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

تحریر: سیدہ بشریٰ بتول نقوی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتۂ بسیج (ہفتۂ رضاکار فورس) کے موقع پر ملک، علاقے اور عالمی حالات کے بارے میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے بسیج جیسے ادارے کو ہر ملک کے لیے مفید اور راہ کشا بتایا اور کہا ہے کہ ایران جیسے ملک کو، جو عالمی غنڈوں اور شر پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے، دوسرے سبھی ملکوں سے زیادہ بسیج کی ضرورت ہے۔

انھوں نے جمعرات 27 نومبر 2025 کی رات ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے تسلط پسند طاقتوں کی مداخلت اور حرص و طمع کے مقابلے میں اقوام کی مزاحمت و استقامت کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مزاحمت کی عظیم تحریک جس کی بنیاد ایران میں رکھی گئی اور یہیں وہ پروان چڑھی، آج دنیا کے مختلف علاقوں منجمہ مغربی ملکوں اور حتی امریکا تک میں فلسطین اور غزہ کی حمایت میں لگائے جانے والے نعروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم نے یقینی طور پر امریکا کو بھی اور صیہونی حکومت کو بھی دھول چٹا دی، انھوں نے ایران میں شیطنت کی لیکن انھیں مار پڑی اور وہ خالی ہاتھ لوٹ گئے، وہ اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے اور یہ حقیقی معنی میں ان کے لیے ایک شکست تھی۔

انھوں نے ایران کے ساتھ جنگ کے لیے صیہونی حکومت کی بیس سالہ منصوبہ بندی کی رپورٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایک ایسی جنگ کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں وہ ایرانی قوم کو ورغلا کر لوگوں کو نظام کے خلاف جنگ کے لیے تیار کر سکیں لیکن معاملہ الٹا پڑ گيا اور وہ اس طرح سے ناکام ہوئے کہ جو لوگ نظام سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی نظام کے ساتھ آ کھڑے ہوئے اور ملک میں ایک عمومی اتحاد پیدا ہو گيا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں نقصان ہوا اور جنگ کی فطرت کے مطابق ہماری کچھ عزیز ہستیاں ہم سے بچھڑ گئیں لیکن اسلامی جمہوریہ نے دکھا دیا کہ وہ عزم و قوت کا مرکز ہے اور شوروغل سے بے پروا ہو کر پوری طاقت سے ڈٹ سکتی ہے اور فیصلہ کر سکتی ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہے کہ ہمیں جو مادی نقصان ہوا اس سے کہیں زیادہ جارح دشمن کو ہوا۔

انھوں نے بارہ روزہ جنگ میں امریکا کو ہونے والے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں امریکا کو بہت زیادہ نقصان ہوا کیونکہ وہ حملے اور دفاع کے اپنے جدید اور پیشرفتہ ترین ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے باوجود ایرانی قوم کو فریب دینے اور اسے اپنے ساتھ ملانے کے اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ قوم کا اتحاد مزید مضبوط ہوا اور اس نے امریکا کو بھی ناکام کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاریخ کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک کی حیثیت سے غزہ کے المیے میں صیہونی حکومت کی شدید رسوائی اور بدنامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں امریکا، غاصب حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا اور وہ بھی بری طرح سے رسوا اور بدنام ہوا کیونکہ دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ صیہونی حکومت امریکا کے بغیر، اس سطح کا المیہ پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ انھوں نے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کو آج کی دنیا کا سب سے نفرت انگیز شخص اور صیہونی سرغناؤں کو دنیا کا سب سے نفرت انگیز تنظیم اور گینگ بتایا اور کہا کہ چونکہ امریکا ان کے ساتھ کھڑا ہوا، اس لیے صیہونیوں کے سلسلے میں پائی جانے والی نفرت اس میں بھی سرایت کر گئی ہے۔


اسلامی جمہوریہ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی اردشیر لاریجانی نے پاکستان کا اہم دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر ماریہ سلطان سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی سفارتی اور اخلاقی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور حالیہ واقعات میں افواج پاکستان کی بہادری اور کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جیت ہماری جیت ہے۔ اس دورہ کا ایک اہم پہلو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا پاکستانی قوم کے نام خصوصی پیغام تھا، جو ڈاکٹر علی لاریجانی لیکر آئے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور علی لاریجانی نے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں تہران اور اسلام آباد کے قریبی تعاون اور خطّے میں امن و استحکام کے تحفظ کے لیے تعلقات کو مزید بڑھانے پر زور دیا۔

وزیراعظم ہاؤس پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے علاقائی مسائل کے بارے میں ایران کے اصولی مؤقف کی قدردانی کی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے ایران کے اعلیٰ سلامتی حکام کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو مختلف شعبوں میں مزید گہرا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ فریقین نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہہ خیال کیا اور خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے باہمی کوششوں کی ہم آہنگی پر زور دیا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر علی لاریجانی نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ لاریجانی نے تہران اور اسلام آباد کے تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کا باہمی تعاون مختلف شعبوں میں خطے کے امن و سکون میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی اردشیر لاریجانی نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا، جبکہ خطے میں موجودہ درپیش سکیورٹی چیلنجز اور بدلتی صورتحال پر بھی گفتگو ہوئی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خطے میں امن و استحکام کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ایران کے ساتھ قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال میں اسٹریٹجک تعاون کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ اس موقع پر علی لاریجانی نے خطے میں امن کے لئے پاکستان کے کردار کو سراہا جبکہ ایران پاکستان تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے علاقائی مسائل کے حل کے لئے مذاکرات اور شراکت داری کو ناگزیر قرار دیا اور طویل المدتی استحکام کے لئے پاکستان اور ایران کے باہمی تعاون پر اتفاق کیا، ملاقات خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے علاوہ علی لاریجانی نے سردار ایاز صادق، اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان، محمد اسحاق ڈار، نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ پاکستان سے بھی ملاقات اور مشاورت کی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایک اہم انٹرویو بھی دیا، انٹرویو کے حوالے سے علی لاریجانی نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ محترمہ عاصمہ شیرازی نے دوران انٹرویو مجھ سے پوچھا کہ پاکستان اور بھارت، نیز پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے آپ کیا کرنے کو تیار ہیں۔؟ میں نے جواب دیا کہ پاکستان، ایرانی عوام کے لیے بہت عزیز اور قابل احترام ہے۔ ہم ان مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام آباد میں واقع ایرانی سفارت خانے میں علاقائی و بین الاقوامی، امن و سلامتی کے تھنک ٹینکس اور ماہرین کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب بھی کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعاون میں کسی حد کے قائل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے حکم پر، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، ایران اور پاکستان کے درمیان تمام اقتصادی رکاوٹیں اور پابندیاں ختم کرے گی۔

ایران کے قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی نے اپنے اسلام آباد کے دورے کے دوران پاکستان کی قوم تک رہبرِ معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا پیغام پہنچایا اور حالیہ ظالمانہ جنگ میں صہیونی رجیم کے خلاف ایران کے دفاع میں پاکستان کی عوام اور اداروں کے ذمہ دارانہ مؤقف کی قدردانی کی۔ علی لاریجانی نے اپنے ذاتی صفحے پر لکھا کہ میں پاکستان کی شریف قوم تک رہبرِ معظم انقلاب اسلامی ایران کا سلام پہنچاتا ہوں، ایسی قوم جس نے صہیونی رجیم کی ایران کے خلاف تازہ ظالمانہ جنگ میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کا دفاع کیا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی قوم ایک مستحکم اور بامقصد فکر رکھتی ہے، ہم پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور مسلح افواج کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورہ پاکستان مکمل ہونے کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا اس دورے نے پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کو مزید مضبوط کیا ہے اور زیادہ تعاون اور باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دیا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ علی لاریجانی نے اسلام آباد کے دورے کے دوران قومی سلامتی کے مشیر محمد عاصم ملک کے ساتھ وفود کی سطح پر باضابطہ مذاکرات کیے۔ انہوں نے صدرِ پاکستان، وزیرِاعظم، قومی اسمبلی کے اسپیکر، نائب وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وزارتِ خارجہ پاکستان نے مزید لکھا کہ ان روابط کے دوران، دونوں فریقین نے پاکستان اور ایران کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کی توثیق کی، جو مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ایمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ گفت و شنید میں متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مزید بڑھانے کی باہمی خواہش پر زور دیا گیا، جن میں سیاسی روابط، تجارتی و اقتصادی تعاون، دہشتگردی کیخلاف مشترکہ جدوجہد اور سرحدی سکیورٹی، علاقائی روابط اور ثقافتی و عوامی تبادلے شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تعلقات کو اس انداز سے گہرا کیا جائے کہ باہمی خوشحالی میں اضافہ ہو اور علاقائی امن و استحکام کو فروغ ملے۔ دونوں فریقین نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت پر جامع تبادلۂ خیال کیا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور استقامت و مقاومت کا نظریہ باہم جڑے ہوئے ہیں۔ استقامت و مزاحمت کے مفہوم کو سیرت فاطمہ (ع) سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ فاطمہ زہراء اسوہ استقامت و مقاومت ہیں۔ خداوند عالم نے مجھ حقیر پر بہت بڑا لطف فرمایا کہ زندگی کے شب و روز میں عصر حاضر کی استقامت و مقاومت کی بڑی بڑی شخصیات کو دیکھنے، ملنے اور ان سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔ امام خمینی (رح) سے لیکر شہید سید حسن نصراللہ، شہید قاسم سلیمانی، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سے نہ صرف بالمشافہ ملنے بلکہ ان کو درک کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سے ہر ایک دور حاضر کا استقامت و مقاومت کا مضبوط قلعہ اور بلند و بالا پہاڑ ہے۔ ان شخصیات کی زندگیوں کے سرسری مطالعہ سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ان کی زندگیاں طاغوتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت و استقامت کا استعارہ ہیں۔ آج استقامت و مقاومت کا نام آتا ہے تو ان شخصیات کے روشن و مقدس چہرے آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چلنے شروع ہو جاتے ہیں۔

ایک اور حقیقت جس کو باآسانی درک کیا جاسکتا ہے، وہ ان شخصیات کے عمل و کردار میں اسوہ فاطمی (ع) کا گہرا عمل دخل ہے۔ ان میں سے ہر شخصیت کو کسی نہ کسی مرحلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے متوسل ہوتے دیکھا یا سنا ہے۔ مشکل ترین لمحات میں حضرت زہرا (س) کی پناہ لینا ان کا وطیرہ تھا۔ حاج قاسم سلیمانی کی تو یہ ویڈیو فلم بھی اکثر قارئین کی نظروں سے گزری ہوگی، جس میں آپ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔ "جب بھی ہم جنگ کی سختیوں میں، شدید دباؤ میں آتے اور کچھ نہ کرسکتے تو ہماری پناہ حضرت زہرا (س) تھیں۔" یہی تشبیہ ہم نے سید حسن نصراللہ اور مزاحمتی کمانڈروں کے بارے میں کئی بار سنی ہے۔ ایک مشہور مثال 33 روزہ جنگ کی ہے، جس میں مجاہدین نے حضرت زہرا (س) کے وجود اقدس کو محسوس کیا اور حزب اللہ کے مجاہدین کو فتع و نصرت کی بشارت دی۔

حزب اللہ کے جنوبی علاقے کے کمانڈر جناب حاجی ابوالفضل بیان کرتے ہیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے بعد میں تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کچھ دیر لیٹ گیا۔ میں نے خواب میں حضرت زینب (ع) کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ حزب اللہ کی افواج کی حمایت کے لیے کچھ کریں۔ آپ نے اپنی والدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اپنا مسئلہ ان کو بتائیں۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں گیا اور ان سے شکایت کی۔ آپ  نے کہا: "خدا تمہارے ساتھ ہے، ہم بھی آپکے لیے دعا کرتے ہیں۔" میں نے پھر اصرار کیا، آپ  نے کہا: اچھا  دیکھتے ہیں۔ تیسری بار اصرار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ دشمن کے کم از کم ایک ہیلی کاپٹر کو مار گرائیں، جو فوج کو ہمارے علاقے میں اتار رہے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: "بہت اچھا!" اسی وقت آپ نے اپنی چادر کے نیچے سے ایک رومال نکال کر اوپر پھینکا اور فرمایا: "تمہاری خواہش پوری ہوگئی۔"

میں اٹھا، دوسرے کمرے میں گیا، جہاں کمانڈروں کا ایک گروپ موجود تھا اور خواب کا  واقعہ بیان کیا۔ اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی، وہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے فون اٹھایا، چند الفاظ بولے اور وہ سجدے میں گر گیا۔ سجدے میں خدا کا شکر ادا کرنے کے بعد کہا دشمن کا ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جس لمحے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے رومال کو آسمان پر پھینکا، اسی لمحے دشمن کے ایک ہیلی کاپٹر کو حزب اللہ کے ایک دستے نے معجزانہ طور پر نشانہ بنایا۔ جس شخص نے ہیلی کاپٹر کو مار گرایا تھا، وہ اس کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے: میں کمرے میں تھا اور میرے ذہن میں میزائل لے کر باہر جانے کا خیال آیا۔ میں باہر نکلا، مجھے لگا کہ میزائل سگنل دے رہا ہے، لیکن آسمان پر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میں نے فائر کیا، اچانک میں نے دیکھا کہ آسمان پر کسی چیز نے آگ پکڑ لی اور وہ اسرائیلی ہیلی کاپٹر تھا۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018ء میں ایران میں ایک شماریاتی مطالعہ یا دوسرے لفظوں میں سروے کیا گیا، جس سے یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جہاد کے لیے شہداء کا سب سے بڑا محرک امام حسین (ع) کی ذات تھی۔ لیکن مجاہدین کے لئے سب سے بڑا سہارا حضرت زہرا (س) تھیں، جن سے مجاہدین توسل کرتے تھے۔ اس تعلق کی انتہاء ہم رہبر معظم انقلاب کے اس بیان میں دیکھتے ہیں: "میں ہر سال اپنے ملک کے لئے آئندہ ایک سال کا رزق فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سوگ کے ایام میں حاصل کرتا ہوں۔" اس رشتے و تعلق کا راز کیا ہے۔؟ ہمارے مجاہدین، بزرگان اور روحانی پیشوا اتنے "زہرائی" و "فاطمی" کیوں ہیں۔؟ اس تعلق کو سمجھنے کے لیے ہمیں قدرے گہرائی میں جانا ہوگا اور انقلاب اور حضرت زہرا (س) کے درمیان تعلق کو سمجھنا ہوگا۔

آئیے رہبر انقلاب کے بیان کا حوالہ دیتے ہیں۔ جہاں وہ کہتے ہیں کہ انقلاب سے پہلے حضرت زہرا (س) کا نام محفلوں میں تھا، لیکن اتنا گہرا، وسیع اور دلوں سے اٹھنے والا نہیں تھا۔ عراق ایران جنگ یعنی اس دفاع مقدس کے دوران، کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپریشن کا کوڈ "یا زہرا" یا ہیڈ بینڈ "یا زہرا" ہونا چاہیئے؛ لیکن لوگوں نے خود ایسا کیا۔ یہ ایک خدائی سلسلہ اور واقعہ تھا۔ مجاہدین کی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے عقیدت کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا۔ اس تعلق کا راز ایک لفظ میں ہے: "کوثر،" سورہ کوثر کفار کے اس طعنے کے جواب میں کہ "تم ابتر ہو۔" نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ہم نے تمہیں کوثر دیا ہے۔" یعنی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو وسعت و عظمت بخشی۔ کوثر کا مطلب ہے، وہ جو ضرب کرتا ہے، بڑھاتا ہے، جاری رکھتا ہے اور بہاؤ پیدا کرتا ہے۔

حضرت زہرا (س) "کوثر ہدایت" ہیں۔ اسلامی انقلاب بھی کوثر ہے۔ یہ ایک قوم کو بڑھاتا، بلند کرتا، زندہ کرتا اور سربلند کرتا ہے۔ عظیم انقلابی کوثر ہیں۔ کوثری و فاطمی  ایسے ہی ہوتے ہیں۔ حاج قاسم، سید حسن، شہداء۔۔۔۔ سب کی ایک مشترک خصوصیت ہے: سخت گرفتاری اور مشکلات میں دین کی ترویج، ولی حق کا ساتھ دینا، مظلوم کا دفاع کرنا اور ظالم کے مقابلے میں کھڑا ہونا۔ شہداء کو حضرت زہراء کا سب سے زیادہ سہارا تھا، کیونکہ شہداء نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو درک کیا۔ ہر شہید ہدایت کی شمع ہے، جس طرح حضرت زہرا ؑ ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔ مقاومت و استقامت کی ثقافت حضرت زہراء کی ثقافت ہے۔ مجاہد و شہداء کا مطلب ہے "کوثر بننا": پھیلنا، بڑھنا، بلند ہونا۔ لیکن یہ ایک شخص میں کیسے شکل اختیار کرتا ہے؟ اس کا جواب سورہ کوثر کی دوسری آیت میں ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور اپنے آپ کو قربان کرو۔" محبت اور نفرت کا مطلب ہے، ولایت سے محبت اور دشمن سے نفرت۔

جب ایک مجاہد ان دو مقدس احساسات کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو وہ زہرائی بن جاتا ہے۔ وہ ہدایت یافتہ اور رہنمائی کرتا ہے۔ وہ  قیام کرتا ہے، اٹھتا ہے اور وسعت اختیار کر جاتا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔ بشریت جس طرح اسلام کی مرہون منت ہے، قرآن کی مرہون منت ہے، انبیاء اور پیغمبران خدا اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرہون منت ہے، اسی طرح حضرت فاطمہ زہراء کی مرہون منت ہے۔ آج بھی اسی طرح ہے اور حضرت فاطمہ زہراء کی معنویت و نورانیت روز بروز آشکارا تر ہوگی اور بشریت اس کو زیادہ سے زیادہ محسوس کرے گی۔

بھائیو، جو ہمارا فریضہ ہے، وہ یہ ہے کہ خود کو اس خاندان کے (محب ہونے کے) لائق بنائیں۔ یقیناً خاندان رسالت اور اس خاندان سے وابستہ افراد سے منسوب ہونا اور ان کے عقیدت مند کے طور پر معروف ہونا دشوار ہے۔ ہم زیارت میں پڑھتے ہیں کہ ہم آپ سے محبت اور آپ کی دوستی سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس سے ہمارے کندھوں پر ذمہ داریاں زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ خیر کثیر جس کی خوش خبری خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس سورہ مبارکہ میں دی اور فرمایا کہ "انّا اعطینک الکوثر" جس سے مراد حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) ہیں، درحقیقت تمام نیکیوں اور خیر کا مجموعہ ہے کہ دین نبوی کے سرچشمے سے پوری بشریت اور تمام خلائق کے لئے جاری ہے۔

بہت سوں نے اس کو چھپانے اور اس کی نفی کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ "واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون" ہمیں خود کو اس مرکز نور سے قریب کرنا چاہیئے اور مرکز نور سے قریب ہونے کے لئے نورانی ہونا شرط ہے۔ صرف محبت کے دعوے سے نہیں بلکہ عمل کے ذریعے خود کو نورانی بنائیں۔ وہ عمل جو محبت، ولایت اور ایمان کا لازمہ اور تقاضا ہے۔ اپنے عمل کے ذریعے اس خاندان سے خود کو وابستہ کریں۔ آئیے اس مقدس محبت اور نفرت کو اپنے قلب و ذہن اور روح و رواں میں زندہ اور محفوظ رکھیں۔

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی


ایک امریکی اخبار نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ وہ "دور ما بعد امریکہ" (Post-American Era)، جس کی پیشگوئی پہلے تجزیہ کار پہلے ہی کر رہے تھے، اب اس کا وقت آ چکا ہے۔ اپنی رپورٹ میں امریکی جریدے نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دور ما بعد امریکہ‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اس تجزیے کی بنیاد اس بات کو قرار دیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت ایک ایسے سالانہ اجلاس سے مکمل غیر حاضر رہی جو ہمیشہ سے مغربی جمہوریتوں کے درمیان تزویراتی تعاون کو مضبوط کرنے کا اہم ترین فورم سمجھا جاتا ہے۔

تجزیئے کے مطابق اس سال ہالیفاکس بین الاقوامی سلامتی کانفرنس ایک بالکل مختلف ماحول میں منعقد ہوئی، جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت اور امریکی فوج کی مکمل غیر موجودگی، اور امریکی صدر ٹرمپ کی امریکہ سب سے پہلے جیسی پالیسیوں سے واشنگٹن کے روایتی اتحادیوں کی گہری مایوسی اور نا امیدی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال نہ ٹرمپ انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ اہلکار اور نہ ہی پینٹاگون کا کوئی جنرل یا ایڈمرل ہالیفاکس میں دکھائی دیا۔ امریکہ کی واحد باضابطہ نمائندگی سینیٹ کے دو جماعتی وفد نے کی، لیکن ان ریپبلکن اراکین کو بھی شرکاء کی جانب سے ٹرمپ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس میکس بوٹ نے اپنی تحریر میں لکھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک "یاغی ریاست" بن چکا ہے اور اب قابلِ اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی بات کی تائید میں کئی دلائل دیے کہ یوکرین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ اس کا پہلا مظہر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے کیف کو الٹی میٹم دیا ہے کہ یا تو وہ ایک انتہائی روس نواز امن منصوبہ قبول کرے ورنہ وہ امریکی حمایت کھو دے گا۔ یہ اقدام خود ٹرمپ کی پارٹی کے ریپبلکن اراکین کو بھی ناراض کر رہا ہے۔ اسی طرح کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ دوسری مثال ہے۔ کینیڈین مصنوعات پر پہلے سے نافذ 35 فیصد محصولات میں مزید 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا، یوں اب کینیڈا اپنے ایک اہم ترین اتحادی کی جانب سے 45 فیصد تک ڈیوٹی کا سامنا کر رہا ہے۔

یہ شرح یورپ، جنوبی کوریا اور جاپان پر عائد 15 فیصد محصولات سے کہیں زیادہ ہے اور اس نے کینیڈا کو معاشی کساد بازاری کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ جواب میں اوٹاوا نے جوابی محصولات لگائے، امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا، اور یہاں تک کہ امریکی ایف-35 جنگی طیاروں کی خرید منسوخ کرنے اور انہیں سویڈش گریپن طیاروں سے بدلنے پر بھی غور کیا۔ اس کے بعد امریکہ کا سفارتی میدان سے غائب ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ٹرمپ حکومت نہ صرف ہالیفاکس اجلاس سے غیر حاضر رہی بلکہ انہوں نے جنوبی افریقہ میں ہونے والی جی-20 کانفرنس کا بھی بائیکاٹ کیا۔

مصنف سوال کرتا ہے کہ جب امریکہ خود ہی میدان میں موجود نہیں تو اسے سفارتی کامیابی کی امید کیسے ہو سکتی ہے؟۔ گروپ 20 اجلاس میں کینیڈا کے وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی غیر موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ دنیا مختلف معاملات میں واشنگٹن کے بغیر بھی پیش رفت کر سکتی ہے۔ واشنگٹن نے اعلان کیا تھا کہ جی-20 اجلاس کے دوران امریکہ کی غیر حاضری میں کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ کیا جائے، لیکن جنوبی افریقہ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے مکمل اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا نتیجہ نکلا ہے کہ امریکی اتحادیوں کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے۔ 

اسی لئے ہالیفاکس کی سالانہ سلامتی کانفرنس میں کینیڈا اور یورپ کے شرکاء نے واضح طور پر کہا کہ اب وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے پہلے دور میں بہت سے لوگ اسے ایک عارضی پالیسی سمجھتے تھے، لیکن اب کوئی بھی ایسی امید نہیں رکھتا۔ اب ایک نیا سناریو شروع پو چکا ہے۔ یعنی امریکہ کے بغیر مغرب میں سامنے آتا نیٹو۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق وہ "بعد از امریکہ دنیا" جس کی فرید زکریا نے 2008 میں پیشگوئی کی تھی، اب واقعی سامنے آ چکی ہے۔ وہ عالمی جمہوری اتحاد کا خواب جسے جان مکین برسوں تک اسی ہالیفاکس فورم میں فروغ دیتے رہے، اب غالباً امریکہ کی عدم موجودگی میں، یورپ اور ایشیائی جمہوریتوں کی قیادت میں آگے بڑھایا جائے گا۔

اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ سے دور ہوتا امریکا:
کینیڈا کے وزیرِاعظم نے جی-20 اجلاس کے حاشیے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقتصادی ’’مرکزِ ثقل‘‘ بھی امریکا سے دور ہو رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی افریقہ پر سفید فام کسانوں کے خلاف نسل کشی کا الزام لگایا تھا اور اپنی غیرحاضری کی وجہ بھی یہی بیان کی تھی۔ واشنگٹن نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ امریکہ شریک نہیں ہوگا، لہٰذا اجلاس کے بعد صرف گروپ کے سربراہ کی رپورٹ کا خلاصہ ہی جاری کیا جانا چاہیے۔ تاہم، جی-20 نے اتوار کے روز ایک باضابطہ اعلامیہ جاری کیا کہ عالمی مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کارنی نے کہا کہ اجلاس میں وہ ممالک شریک تھے جو دنیا کی تین چوتھائی آبادی، دو تہائی عالمی جی ڈی پی اور دنیا کی تین چوتھائی تجارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔

لیکن امریکہ کے بارے میں انہون نے کہا کہ یہ سب امریکا کی رسمی غیر موجودگی کے باوجود جاری ہے اور جاری رہیگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاد دہانی ہے کہ عالمی معیشت کا مرکزِ ثقل تبدیل ہو رہا ہے۔ کینیڈا کے وزیرِاعظم کے مطابق جی-20 ممالک کے وہ فیصلے جو اس اجلاس میں کیے گئے، امریکا کے بائیکاٹ کے باوجود بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا جنوبی افریقہ، بھارت اور چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی صدر کے معاون ماکسیم اورشکین نے اس اجلاس کو کامیاب قرار دیا کہ ہم نے دوست ممالک کے ساتھ بہت سے مفید رابطے قائم کیے اور یہاں تک کہ ’’غیر دوست‘‘ ممالک سے بھی اقتصادی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے حوالے سے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔

منگل کے روز شام کے مختلف علاقوں میں علوی مسلمان وسیع پرامن مظاہروں میں شرکت کرکے جولانی کی حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر ہی رہے تھے کہ انہیں سیکورٹی عناصر کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔

یہ مظاہرے شام کے علوی مذہب کی مجلس اعلی کے صدر شیخ غزال غزال کی اپیل پر شام کے مختلف شہروں میں ابومحمد جولانی کی حکومت کے فرقہ وارانہ قتل عام اور گرفتاریوں کے خلاف کیے گئے۔

مظاہرین لاذقیہ، طرطوس، حمص اور حماہ صوبوں کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے علوی مذہب اور دیگر فرقوں کے ماننے والوں کی بلاوجہ گرفتاریوں کے خلاف نعرے لگائے اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جس پر جولانی حکومت کے سیکورٹی کارندوں نے احتجاج کرنے والوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور بعض کو سرکاری گاڑیوں سے کچل دیا۔

بتایا گیا ہے کہ حمص کے الزہرا اسکوائر پر مظاہرین کی بڑی تعداد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

مظاہرین کی تعداد دسیوں ہزار تک بتائی گئی ہے جنہیں گزشتہ ایک سال سے حکومت کے فرقہ وارانہ اور غیرمنصفانہ رویے کا سامنا ہے۔

طرطوس، بانیاس، لاذقیہ، جبلہ، قرداحہ اور اطراف کے قصبوں میں مظاہرین کی بڑی تعداد دیکھی گئی ہے۔

مختلف ویڈیو فوٹیج میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جولانی سے وابستہ عناصر مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

ادھر شام کی ہیومن رائٹس واچ تنظیم نے بتایا ہے کہ شام کی عبوری حکومت ساحلی علاقوں کی جانب مزید سیکورٹی فورس روانہ کر رہی ہے جس کا مقصد ہر طرح کی عوامی تحریک کو کچلنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، سیکورٹی فورس کو خاموشی کے ساتھ عوام کو کچلنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

بعض ذرائع کے مطابق حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر علی لاریجانی نے منگل کے روز پاکستان کے صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات اور گفتگو کی۔

اس موقع پر آصف علی زرداری نے صیہونی حکومت کی ایران پر جارحیت کے دوران اور اس کے بعد پاکستان کی اظہار یکجہتی پر زور دیا اور کہا کہ اسلام آباد، سیاسی اور سفارتکاری کے میدانوں میں تہران کی حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے اسلامی جمہوری ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد اور تہران کے مابین تعلقات میں فروغ کا تسلسل، دونوں ملکوں کے مثبت رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

پاکستان کے صدر نے فلسطینی اور کشمیری عوام کی حمایت پر مبنی ایران کے اصولی موقف کا بھی خیرمقدم کیا۔

انہوں نے پاکستان میں سیلاب کے موقع پر ایران کی ہلال احمر سوسائٹی کی جانب سے بھیجی گئی امدادی کھیپ کا شکریہ ادا کیا۔

آصف علی زرداری نے کہا ایران اور پاکستان کے تعلقات کی بنیاد مشترکہ تاریخ، ایمانی جذبے اور ثقافت پر ہے اور یہ تعلقات دونوں ملکوں کے لیے ضروری اور انتہائی فائدہ مند ہیں۔

پاکستان کے صدر نے 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی عوام کی شاندار مزاحمت کو سراہا اور کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اس جنگ کے دوران جس قیادت کا مظاہرہ کیا وہ قابل تحسین ہے۔

انہوں نے علی لاریجانی سے کہا کہ ان کے سلام اور احترام کے پیغام کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای تک ضرور پہنچائيں۔

اس موقع پر ڈاکٹر علی لاریجانی نے رہبر انقلاب اسلامی اور صدر پزشکیان کا سلام صدر پاکستان تک پہنچایا۔

ڈاکٹر علی لاریجانی نے حالیہ واقعات میں پاکستان کی مسلح افواج کی کامیابیوں اور شجاعت کو سراہا اور کہا کہ پاکستان کی کامیابی، ایران کی کامیابی ہے۔

انہون نے کہا کہ صدر ایران نے دورہ پاکستان کے بعد، پاکستانی پیداوار کے لیے ٹیرف ریلیف کے کئی احکامات جاری کیے ہیں جو 10 ارب ڈالر کی مشترکہ تجارت کے ٹارگیٹ کے حصول کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔

اس موقع پر خطے کے حالات، بین الاقوامی منظرنامہ، سیکورٹی تعاون اور دہشت گردی کے مقابلے پر بھی بات چیت ہوئی۔ 

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق، صیہونی آبادکاروں نے رام اللہ کے مشرقی علاقوں کے رہنے والوں کے مویشیوں کو زہر دیکر مار دیا ہے۔

بتایا گيا ہے کہ صیہونی آبادکاروں نے ہفتے کی صبح المغیر فلسطینی قصبے پر میں واقع رزق ابونعیم نام کے فلسطینی شہری کے گھر پر دھاوا بول دیا، ان کے گھروالوں کو زد و کوب کا نشانہ بنایا اور ان کے مویشیوں کی بڑی تعداد کو زہر دیکر مار دیا۔

علاقے کے دیگر فلسطینیوں نے بتایا ہے کہ اس نوعیت کے واقعات میں شدت آرہی ہے۔

یاد رہے کہ صیہونی آبادکار اس گھناؤنی حرکت کا ارتکاب کرکے فلسطینی شہریوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

گزشتہ چند مہینے کے دوران المغیر قصبے پر صیہونی آبادکاروں کے حملوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

غاصب آبادکار فلسطینیوں کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کردیتے ہیں اور قصبے کی دیواروں پر نسل پرستانہ نعرے لکھتے ہیں۔

ہفتے کی صبح کو بھی فلسطینی شہریوں کی زرعی مشینریوں کو چرایا گیا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ غاصب آبادکاروں کو صیہونی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔