سلیمانی

سلیمانی


عمان کی ثالثی میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہونے سے خطے کی سیاسی فضا انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ دنیا اور علاقے کے مختلف کھلاڑی اپنے اپنے انداز میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کردار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات سے پہلے کی پیش رفت اس طرح آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر فریق مذاکراتی عمل پر اپنے مطلوبہ اصول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران ایک ہوشیارانہ نقطہ نظر کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات اور اپنے قائم کردہ فریم ورک کو برقرار رکھنے پر زور دے رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی مختلف ذرائع سے اس مساوات کو بدلنے کے درپے ہیں۔

ایران کے خلاف محاذ آرائی
تجزیہ کاروں نے ایران کے خلاف تین اہم دھڑوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف ٹولز اور ہتھیاروں کے ذریعے مذاکراتی عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
1۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو، براہ راست مذاکرات اور دباؤ کے لئے فوجی دھمکیاں
امریکہ اور صیہونی حکومت بالواسطہ مذاکرات کو براہ راست مذاکرات میں بدلنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ یہ تحریک فوجی دھمکیوں (جیسے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بارے میں حالیہ دعوے) کے ذریعے ایران کے خلاف نفسیاتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، ماضی کے تجربات جیسے آپریشن عین الاسد، ٹینکر کی جنگ اور وعدہ صادق 1 اور 2 ظاہر کرتے ہیں کہ یہ خطرات آپریشنل سے زیادہ نفسیاتی ہیں۔

2۔ انقلاب مخالف گروہ اور نفسیاتی آپریشنز
ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالف ملکی اور غیر ملکی گروہ جن میں سابق شاہ سے وابستہ میڈیا بھی شامل ہے، جس نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ، اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ انہوں نے اپنی یہ سرگرمیاں فوجی خطرات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے ایران میں عوامی اور قومی حوصلے کو کمزور کرنے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ رضا پہلوی کا فاکس نیوز کے ساتھ حالیہ انٹرویو اور "آکٹوپس کی آنکھوں کو اندھا کرنا" کے جملے کا استعمال اس تحریک کے ایران کے دشمنوں کے ساتھ واضح تعاون کی نشاندہی کرتا ہے۔ موساد کے ساتھ ان گروپوں کے تعاون کا CNN پر انکشاف ان کے غیر ملکیوں پر مکمل انحصار کی ایک اور تصدیق ہے۔

3۔ داخلی گروہوں کی امریکہ کیساتھ ہم آہنگی اور ایران کی بارگینگ کی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش
ایران میں موجود کچھ مغرب نواز افراد من جملہ حسن روحانی اور حسام الدین آشنا ایسی باتیں کر رہے ہیں، جن کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ افراد غیر حقیقی دعوے شائع کرکے مذاکرات میں ایران کی پوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایران کی طاقت کو کمزور دکھانا یا یہ کہنا کہ "ایٹمی صنعت پرانی اور درآمد ہو رہی ہے۔ ان دعووں سے یہ گروہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امریکیوں کی براہ راست بات چیت کی پوزیشن کو مضبوط کیا جائے اور ایرانی حکام کو مذاکرات کے متن کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ حسام الدین آشنا کی حالیہ ٹویٹ میں ایران کی جوہری صنعت کو "پرانی اور درآمد شدہ" قرار دینے کا مقصد رائے عامہ میں ایران کی نااہلی کو ابھارنا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر ایران کی جوہری ٹیکنالوجی بے کار ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی اسے تباہ کرنے کی اتنی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔؟

اسلامی جمہوریہ ایران کو ان مذاکرات میں ایک کثیر جہتی کھیل یا چومکھی جنگ کا سامنا ہے، جس میں چوکسی اور اسٹریٹجک انتظام کی سخت ضرورت ہے۔ اب تک ایران بالواسطہ مذاکرات کے اصول کو برقرار رکھتے ہوئے اور عمان کو ثالث کے طور پر منتخب کرکے پہل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ تاہم، دشمن فوجی دھمکیوں، نفسیاتی کارروائیوں اور اندرونی دھڑوں کو بھڑکا کر دباؤ پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ایران کی طاقت مزاحمت اور سفارتی ذہانت کے خوبصورت امتزاج میں مضمر ہے۔ اس راستے سے کسی قسم کے انحراف کا فائدہ بہرحال دشمنوں کو ہی ہوگا۔

تحریر: حامد موفق بھروزی

صیہونی حکومت غزہ پر نسل کشی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن عالمی برادری ابھی تک غزہ میں نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کرسکی ہے۔ یہ وہ سوال ہے، جو ہر باضمیر کے قلب و ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ غزہ پٹی کے خلاف اسرائیل نے 7 اکتوبر کو جنگ کا آغاز کیا تھا۔ 15 ماہ بعد جنوری میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ 42 روزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام کے بعد، حکومت نے غزہ پر ایک بار پھر جنگ شروع کر دی اور امریکہ کی حمایت کے سائے میں ابھی تک جنگ کے خاتمے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 20 دنوں میں 5 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء کو غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

ماضی میں ہونے والی عارضی جنگ بندیوں نے اس بحران کو مؤثر طریقے سے ختم نہیں کیا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ عالمی برادری غزہ کے خلاف نسل کشی کے لیے کوئی اقدام کیوں نہیں کرسکی۔؟ امریکی حکومت نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران غزہ پر صیہونی حکومت کے جرائم کی بھرپور حمایت کی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی عالمی کارروائی کو نتیجہ خیز نہ ہونے دیا۔ امریکہ سلامتی کونسل نے  اس حکومت کے جرائم کو روکنے کے لیے ہر طرح کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ واشنگٹن نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اس فیصلے پر بھی تنقید کی ہے، جس میں وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور معزول وزیر جنگ یو یو گالینٹ کو حراست میں لیا گیا تھا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے والے کسی بھی ملک کو امریکہ کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کچھ یورپی ممالک بھی صیہونیوں کی حمایت میں امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، جبکہ امریکہ اور یورپ میں عوام کی رائے صیہونیوں کے خلاف ہے۔ عالمی برادری کی غزہ کے خلاف صیہونیوں کی بے مثال نسل کشی کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بہت سے ممالک کے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں۔ بہت سے ممالک اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کی وجہ سے غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے بھی کچھ ممالک اس پر تنقید کرنے یا اس کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔  بہت سے معاملات میں، مؤثر کارروائی کے لئے سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے جو بہت سےممالک میں ناپید ہے۔

صیہونی لابی عالمی سطح پر سب سے اہم لابیوں میں سے ایک ہے۔ یہودی لابی یورپ اور امریکہ کے اندر اور عالمی نظام میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی ہے اور وہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے میں ناکامی کی ایک اور وجہ بین الاقوامی تنظیموں خصوصاً اقوام متحدہ پر عائد پابندیاں ہیں۔ سیاسی ڈھانچے اور سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کی وجہ سے اقوام متحدہ صیہونیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا۔ جب صیہونی حکومت کے خلاف فیصلے کیے جاتے ہیں تو اس پر عمل درآمد کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں اقوام متحدہ کے پاس فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کافی طاقت نہیں ہے۔ پس نہ اقوام متحدہ نہ عالمی برادری اور نہ ہی اسلامی ممالک کوئی بھی اہل غزہ کی پکار پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں۔ غزہ کے معاملے پر مسلم ممالک کی فوجیں جہاد نہیں کرتیں تو کس کام کی ہیں۔؟
 
 
تحریر: سید رضا عمادی

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، بھارتی اداکارہ سوارا بھاسکر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیل صرف غزہ کو نہیں بلکہ ہمارے اندر موجود انسانیت کے احساس کو بھی ختم کر رہا ہے۔

اپنی طویل اور جذباتی پوسٹ میں سوارا بھاسکر نے خاص طور پر النصر اسپتال پر بمباری میں ایک صحافی سمیت متعدد افراد کے زندہ جلنے کے واقعے پر سخت غصے اور افسوس کا اظہار کیا۔

سوارا بھاسکر نے لکھا کہ میں روز کوشش کرتی ہوں کہ اپنی اچھی سی سیلفی لوں، اپنی بیٹی کی معصوم تصاویر پوسٹ کروں، میک اپ کروں، آن لائن شاپنگ کروں… لیکن یہ سب بھی مجھے غزہ میں ہونے والی ہولناکیوں کے بارے میں سوچنے سے نہیں روک سکتا۔

 موسم سرما کے اختتام پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک غریب ترین ملک یمن پر نئے فضائی حملوں کے آغاز کا باقاعدہ حکم جاری کیا تاکہ یمنی عوام پر معاشی دباؤ بڑھایا جاسکے۔ یہ  حملے ایسے وقت میں شروع کیے گئے جب نئی امریکی حکومت کے ابتدائی دنوں میں انصاراللہ کو ایک بار پھر دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ اسی دوران، یمن کے جنوبی حصے میں مشکوک سرگرمیوں کے ذریعے صنعاء پر نئے حملوں کی تیاری کی گئی، جس پر یمنی مزاحمتی قوتوں نے فوری ردعمل ظاہر کیا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، جو آٹھ برسوں کی جنگ کے باوجود یمن میں اپنے تمام مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے، نے اقتصادی دباؤ کی پالیسی اپنانا شروع کیا۔ انصاراللہ کے رہنما نے خبردار کیا کہ اگر عرب ممالک یمن کے بینکاری نظام اور مالی ڈھانچے کو نشانہ بنائیں گے تو یمن بھی اسی شدت سے جواب دے گا۔

اس تجزیاتی رپورٹ میں آئندہ سطور میں امریکہ اور یمن کے درمیان براہ راست عسکری تصادم، اس کے محرکات اور اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔

یمن میں آگ کا کھیل

یمن پر امریکی حملے کا حکم جاری ہونے کے بعد امریکی فوج نے ان اہداف کی ایک فہرست جاری کی جنہیں وہ اپنے فضائی حملوں میں نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ ان اہداف میں نہ صرف عسکری تنصیبات بلکہ انسانی اور  اسٹریٹجک مراکز بھی شامل تھے۔ یمن کے بڑے شہر جیسے الجوف، عمران، الحدیدہ، صعدہ اور دارالحکومت صنعاء امریکی جنگی مشین کے حملوں کی زد میں آئے۔

جوابی طور پر یمنی مزاحمتی فورسز نے مقبوضہ فلسطین میں صہیونی اہداف کو نشانہ بنایا اور صیہونی جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے امریکی طیارہ بردار بحری جہاز "یو ایس ایس ہیری ٹرومین" پر بارہا حملے کیے۔ ان کارروائیوں میں جدید ڈرونز کے ساتھ ساتھ "فلسطین-۲" اور "ذوالفقار" میزائلوں نے دشمن کے دفاعی نظام کو چکمہ دے کر امریکی مفادات کو نشانہ بنایا۔

واشنگٹن اور صنعاء کے درمیان اس تازہ کشیدگی میں امریکہ کوشش کر رہا ہے کہ بغیر کسی بڑے علاقائی یا عالمی اتحادی کی مدد کے انصاراللہ کا مقابلہ کرے۔

مشرق وسطی میں نئی امریکی حکمت عملی

2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر "پہلے امریکہ" اور "عظیم امریکہ" جیسے نعروں پر زور دیا تاکہ بالخصوص سفید فام متوسط طبقے کے ووٹرز کو اپنی جانب مائل کیا جا سکے۔ ان کی مہم میں غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری، میکسیکو سرحد پر سختی، جنگوں کا خاتمہ اور اقتصادی خودکفالت جیسے نکات نمایاں تھے۔ یہ پالیسی "پہلے اسرائیل" کے خفیہ ایجنڈے سے متصادم دکھائی دیتی ہے، جسے امریکی یہودی لابیاں جیسے AIPAC، J Street اور "مسیحی اتحاد برائے اسرائیل" نے آگے بڑھایا تھا۔ ان گروہوں نے کانگریس پر دباؤ، ٹرمپ کے قریبی افراد سے روابط اور قدامت پسند تھنک ٹینکس پر اثر کے ذریعے امریکی حکومت کو یہ باور کروایا کہ مشرق وسطی کی پالیسی کوئی عام معاملہ نہیں، بلکہ ایک "استثنائی" معاملہ ہے جس کا مقصد اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے۔ یہی نظریہ کہ اگر امریکہ کو روس اور چین کا مقابلہ کرنا ہے تو اسے سب سے پہلے "محور مقاومت" کو شکست دینی ہوگی، آج امریکی پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، "ابراہیم معاہدے" کو وسعت دے کر "نیا مشرق وسطیٰ" تشکیل دینا لازم ہے۔ اس منصوبے کو "انڈیا-مشرق وسطیٰ-یورپ کوریڈور" کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جارہا ہے، جو خطے کا جغرافیہ اور سیاست دونوں بدل دے گا۔ لہذا یمن میں جاری جنگ اور امریکہ کی فوجی مداخلت کو صرف وقتی تصادم کے طور پر نہیں بلکہ ایک وسیع تر اسٹریٹجک منصوبے کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔

یمن اور محور مقاومت کی طاقت

مغربی ایشیا ایک فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کئی ماہ کی جنگ اور مسلسل حملوں کے بعد اب اس کوشش میں ہیں کہ علاقے کی سیاسی و اسٹریٹجک صورت حال کو اپنے مفادات اور ترجیحات کے مطابق ازسرنو ترتیب دیں۔

محور مقاومت اب بھی فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور ایران میں مضبوط اور فعال ہے اور وہ بہت قلیل وقت میں اپنی سابقہ عسکری طاقت اور تنظیمی ڈھانچے کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

حاصل سخن

امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کے اس دعوے کے باوجود کہ یمنی مزاحمت کے عسکری بنیادی ڈھانچے اور جنگی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے، مگر انصار اللہ اب بھی مقبوضہ فلسطین اور بحیرہ احمر میں صہیونی امریکی تنصیبات پر حملے کی بھرپور طاقت رکھتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ یکطرفہ حملہ محض طاقت کا مظاہرہ ہے اور اس کے پیچھے درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک سیز فائر کا معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کار فرما ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے بھی اشارہ دیا تھا کہ اگر انصار اللہ غزہ کی حمایت میں بحر احمر میں اپنی کارروائیاں روک دے تو امریکہ یمن پر حملے بند کرسکتا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران نے اپنا ایٹمی پروگرام بند نہ کیا تو مارچ میں ایران پر بمباری کرکے اس کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر دیا جائے گا۔ حیرت ہے ڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف ایران کیساتھ ’’بات چیت‘‘ کے ذریعے مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب دھمکیاں بھی دے رہا ہے، بلکہ کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کسی بھی خود مختار ملک، جس کا ایٹمی پروگرام پُرامن مقاصد کیلئے ہے، اُسے اس انداز میں دھمکیاں نہیں دی جا سکتیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، ان ممالک کیلئے جو امریکہ سے کوئی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی دوستی اُس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ امریکہ دوستی کی آڑ میں زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، چہ جائیکہ وہ کھلا دشمن ہو۔

ایران کی جانب سے چاہیئے تو یہ تھا کہ ایرانی صدر ہی اپنے امریکی ہم منصب کو دھمکی کا جواب دیتے، یا وزارت خارجہ اس پر ردعمل دیتی، مگر صدر یا ایرانی وزارت خارجہ کی بجائے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا امریکہ کو جواب دینا کہ ’’ایران پر حملے کی حماقت کی تو امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ ایران ’’بھرپور اور تباہ کن‘‘ جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کیساتھ گفتگو میں واضح پیغام دیا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، مگر اپنے دفاع کیلئے سب کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

امریکی صدر کی یہ دھمکیاں، صرف ایران کو نہیں ہیں، بلکہ ان کا نشانہ دیگر مسلم ممالک بھی بنیں گے، ایران پر اگر جنگ مسلط کی جاتی ہے تو بہت سے مسلم ممالک بے ساختہ اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے، کچھ امریکہ کی دشمنی تو کچھ امریکہ کی دوستی میں اس آگ کا ایندھن بنیں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہ دھمکی کیوں دی ہے؟ تو مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی اس دھمکی کا مقصد نیتن یاہو کا اقتدار بچانا ہے، کیونکہ اسرائیل میں نیتن یاہو  کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ اب نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ اسرائیل کیخلاف کوئی جنگی محاذ کھلے اور اسرائیل کے جو عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں، وہ ایک پیج پر آجائیں۔

اسرائیل میں ایک طبقہ سیکولر ہے، دوسرا بنیاد پرست، سیکولر طبقہ وہ ہے، جو بیرونی ممالک سے لا کر اسرائیل میں بسائے گئے تھے، انہیں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے، مگر اب اسرائیل کا دفاع تارِعنکبوت ثابت ہونے پر یہ لوگ خوفزدہ ہیں اور کئی تو اسرائیل چھوڑ کر اپنے اپنے آبائی ممالک جا چکے ہیں، جو اسرائیل میں موجود ہیں، وہ حکومت پر مسلسل دباو ڈال رہے ہیں کہ حماس کی قید سے اسرائیلی قیدیوں کو رہا کروایا جائے، جنگ بند کی جائے اور غزہ پر حملے روکے جائیں، تاکہ اسرائیل پر جوابی وار نہ ہو، اسرائیلیوں کا یہ دھڑا نیتن یاہو کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔

دوسرا دھڑا بنیاد پرست یہودی ہیں، یہ وہ اسرائیلی ہیں، جو عرب ہیں اور مقامی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل ہو اور اس کیلئے جنگ کو جنتا وسیع کیا جائے، اسے وسعت دی جائے۔ یوں ان دونوں دھڑوں کے درمیان بھی کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی اور دباو کے باعث سارا پریشر نیتن یاہو پر ہے۔ اس لئے نتین یاہو کی خواہش ہے کہ اسرائیل پر جنگ مسلط کروا دی جائے۔ یہ دنیا بھر کا اصول ہے کہ جب کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کے عوام خود بخود اپنی لڑائی اور اختلافات چھوڑ کر ایک پیج پر متحد ہو جاتے ہیں۔ نیتن یاہو کی بھی یہی خواہش ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کا جو دھڑا اس کے اقتدار کیلئے خطرہ بن رہا ہے، وہ اسرائیل پر جنگ مسلط ہونے سے حکومت کی مخالفت چھوڑ کر حمایت میں آ جائے گا۔ اس سے تھوڑا بہت نقصان تو ہوگا، لیکن نیتن یاہو کا اقتدار بچ جائے گا۔

اس لئے نیتن یاہو ٹرمپ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ایک محدود پیمانے پر جنگ ہوسکتی ہے کہ امریکہ ایران پر کوئی میزائل داغ دے اور جواب میں ایران اسرائیل کو نشانہ بنا دے، تو یوں اسرائیلی عوام متحد ہو جائیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ایران واقعی جنگ نہیں چاہتا، ایرانی صدر نے بھی یہی پیغام دیا ہے، لیکن اب ایران کی دفاعی پوزیشن بہت زیادہ مضبوط ہے، اسے دفاعی میدان میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔ ایران کو دفاعی میدان میں چین اور روس کی بھی حمایت حاصل ہے۔ چین اور روس نے جو جدید ہتھیار بنائے ہیں، ایران کیساتھ امریکی جنگ کی صورت میں انہیں بھی آزمایا جا سکتا ہے اور اس صورتحال سے امریکہ و اسرائیل دونوں اچھی طرح آگاہ ہیں۔

ایران کے میزائل سسٹم اور ڈرون ٹیکنالوجی نے امریکیوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ امریکی و اسرائیلی دفاعی نظام بھی ایران کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ اگر ایران پر حملے کی حماقت کرتا ہے تو جوابی وار برداشت نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ ایرانیوں کیساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی کیساتھ ساتھ ایک ایسی چیز بھی ہے، جو امریکہ و اسرائیل کے پاس نہیں، وہ ہے، جذبہ شہادت، ایرانیوں میں یہ جذبہ بدرجہ اُتم موجود ہے اور اس کا مقابلہ دنیا کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں کرسکتی۔ ایرانی فوجی، شہادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں، جہاں موت کا خوف ختم ہو جائے وہاں، ٹیکنالوجی کو بھی شکست ہو جاتی ہے۔

ایران نے اپنے میزائلوں کا رُخ امریکی اڈوں کی طرف کر دیا ہے۔ یمن میں بھی حملوں کو ’’وقتی طور پر‘‘ روک دیا گیا ہے، جس کا مقصد ایران کا یو ٹرن نہیں، بلکہ یمن کی پوزیشن کو مزید مضبوط بنانا ہوسکتا ہے۔ اس لئے جو حلقے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایران نے یمن سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے، وہ یہ یاد رکھیں کہ یمن ایران کا دفاع ہے اور ایرانی اپنے دفاع سے غافل نہیں، بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور بیدار ہیں اور اس صورتحال میں ایران پر حملے کی حماقت امریکہ و اسرائیل کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

 یہ جنگ نہیں، انسانیت کا قتلِ عام ہے، جہاں بچے پرندوں کی طرح آزاد ہونے کی بجائے، ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں۔ غزہ کی فضا میں اب پرندوں کی چہچہاہٹ نہیں، بلکہ دھویں کے بادل ہیں۔ جہاں سے خون کی بارش برس رہی ہے۔ ہر منظر ایک المیہ ہے، ہر سانس درد سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں کے بچے خواب نہیں دیکھتے، وہ تو بس اگلے بم سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں۔ کاش دنیا کی آنکھیں کھل جائیں، کاش یہ آہیں کسی کے دل کو چھو جائیں۔ مگر ظلم تو یہ ہے کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت مر رہی ہے، وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔"  

آج مغربی تہذیب کا جنازہ اُٹھ رہا ہے، مگر اس کے ماتم میں کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔۔۔۔۔کیونکہ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "انسانیت" کے نام پر ہولوکاسٹ کیا، جس نے ہیروشیما کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا اور جس کے ہاتھوں فلسطین، کشمیر اور عراق کے بچوں کے خون سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوئے۔ یہ وہ تمدن ہے، جس نے "جمہوریت" کے نام پر دنیا کو تقسیم کیا، "آزادی" کے نعرے لگا کر قوموں کو غلام بنایا اور "انسانی حقوق" کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مسلمانوں کے سینے چھلنی کیے۔ کیا یہی وہ روشن خیالی تھی، جس کا دعویٰ کیا جاتا تھا۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں تو مغربی میڈیا کی زبان گونگی ہوچکی ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جو اونٹ کی کٹی ہوئی ٹانگ پر "حقوقِ بشر" کے نام واویلا کرتے ہیں۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس نے ۹/۱۱ پر آنسو بہائے تھے، مگر فلسطین کے ہزاروں ۹/۱۱ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ یہ وہی تہذیب ہے، جس نے "Holocaust Memorial" بنایا، مگر غزہ کے بچوں کے لیے کوئی میوزیم نہیں بننے دیا۔ کیا انسانیت کی موت کا یہی ثبوت کافی نہیں؟ اور افسوس! مسلمانوں کی خاموشی اس ظلم پر مہرِ تصدیق ہے۔۔۔۔۔ وہ امت جو "وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُم" کی حامل تھی، آج اپنے ہی بہن بھائیوں کے لیے ایک ٹویٹ تک نہیں کر پا رہی۔ کیا یہی وہ ورثہ تھا، جو ہمیں رسولِ کریمﷺ نے دیا تھا؟ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے گی۔؟

آج جب غزہ کے بچے راکھ میں تبدیل ہو رہے ہیں، مسلم ممالک کی دوغلی پالیسیاں بھی عیاں ہوچکی ہیں۔ "پاکستان، ترکی، اردن، سعودی عرب، مصر اور شام" کی حکومتیں مغرب کے سامنے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو فلسطین پر تقریریں تو کرتے ہیں، لیکن عملی اقدامات سے گریز کرتے ہیں۔ پاکستان اقتصادی و سیاسی بحران کے نام پر فلسطین کی مدد کو معطل رکھے ہوئے ہے جبکہ امریکہ کی غلامی پر فخر، ترکی منافق اعظم مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مقدّم سمجھتا ہے، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کے راستے پر چل نکلا ہے، جبکہ مصر اور اردن غزہ کی بند سرحدوں کو کھولنے میں ناکام رہے ہیں۔ شام کی حکومت ظالموں کے خلاف اٹھنے کے بجائے اسرائیل کےلئے لے پالک کا کام رہی ہے۔ اسرائیل سے زیادہ قصوروار نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔

لیکن اس تاریک منظر نامے میں "ایران اور یمن" کی کارروائیاں قابلِ تحسین ہیں۔ ایران نے فلسطین کی حمایت میں واضح موقف اختیار کیا ہے اور یمن کے انصاراللہ نے بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا کر ایک نئی مزاحمتی لکیر کھینچ دی ہے۔ ایران اور یمن کی جرات مندانہ کارروائیاں ثابت کرتی ہیں کہ اگر عزم ہو تو وسائل کی کمی بھی راہ نہیں روک سکتی۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم حکمران اپنی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں اور ظلم کے خلاف ایک متحد محاذ بنائیں۔۔۔۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔"

آج انسانیت کا مقدمہ ان کی لاشوں پر کھڑا ہے۔ اے امتِ محمدﷺ! کیا تم نے کبھی سوچا کہ جنت کی مٹی بھی شرمندہ ہوگئی ہوگی کہ وہ اتنی جلدی ان کلیوں کو تھام رہی ہے؟ وہ معصوم جو سورۃ الفاتحہ صحیح سے پڑھ نہ سکے، آج شہداء کے سرداروں میں کھڑے ہیں۔ مگر تم؟ تم آج بھی بے حس نیندوں میں گم ہو۔ یاد رکھو، وہ لمحہ آئے گا، جب انہی بچوں کی روحیں تمہارے ضمیر کے دروازے پر دستک دیں گی، اور چیخ کر پوچھیں گی: "جب ہم ٹکڑوں میں آسمان کی طرف جا رہے تھے، تو تمہیں ہماری چیخیں کیوں نہ سنائی دیں۔؟

تحریر: عارف بلتستانی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. 

Sunday, 06 April 2025 07:19

نیا منظر نامہ

افسانوی شہرت کا حامل، دیوہیکل سورما ”عمر بن عبدود“ جب رجز خوانی کرتے ہوئے اپنے راستے میں کھودی گئی خندق کو پھلانگ کر اور اپنے مقابل کے سر چڑھ کر للکارنے لگا اور بدکلامی کرنے لگا تو اس موقعے پر اس کے مدمقابل لشکر میں قبرستان کی سی خموشی چھا گئی۔ یوں لگا جیسے لشکریوں کے سروں پر پرندے بیٹھ گئے ہیں۔ اس خموشی کو کاٹتے ہوئے آخر ”سردارِ لشکر“ کی گرجدار آواز بلند ہوئی کہ ”کوئی ہے جو اس نجس کی زبان بند کرے؟“۔

تین بار یہ جملے دھرائے گئے لیکن ہر بار بھرے لشکر میں سے محض ایک جانفروش، اپنی ہتھیلی پر اپنی جاں لیے، اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اس للکارنے والے سے جنگ آزمائی کے لیے کھڑا ہوا، لیکن سردار لشکر نے ہر بار اسے اپنے اشارے سے بٹھا دیا۔ شاید وہ اس مرحلے پر ہر کسی کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتا تھا کہ وہ میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوا لے اور اپنی تلوار کے جوہر آزمالے، تاکہ کل کلاں کوئی کسی سے یہ نہ پوچھے کہ:
کون ہم سب پہ لے گیا بازی
ہم سے پہلے یہ کس کا نام آیا
آخر کار وہ جس کی ماں نے اس کا نام ”حیدر“ رکھا تھا اور جس کے نامہء اعمال میں ایک ایسی ”ضربِ یداللہٰی“ لکھی گئی تھی جسے ثقلین کی تمام عبادت سے افضل ہونا تھا، آگے بڑھا اور للکارنے والے کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔

لمحہء موجود میں بھی ایسا ہی ایک منظر ہمارے سامنے ہے جب ایک طرف سرخ بالوں والا آج کا عمر بن عبدود اپنی طاقت کے نشے میں اسی کے وارثوں کو للکار رہا ہے جس نے خندق کے بعد خیبر میں بھی دشمنان خدا کی ناک رگڑی تھی۔ آج کا میڈیا بھی اسی طرح آج کے سب سے بڑے طاغوت کی طاقت کا اشتہار بنا ہوا ہے جس طرح جنگ خندق میں بعض کم ہمت لوگ عمر بن عبدود کی طاقت و جبروت کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔

آج بھی ایران کے سوا باقی اکثر اسلامی ممالک کے سروں پر اسی طرح پرندے بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح عمر بن عبدود کے للکار کے مقابلے میں، بجز حیدر کرارؑ، تمام لشکریوں کے سروں پر پرندے اپنا ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ آج تمام عالمِ اسلام ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے سامنے ایک طرف زمانے کے تمام مرحب و انتر اور عمر بن عبدود ہیں اور دوسری جانب وارثانِ خیبر شکن۔ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ  اِس طرف ہے یا اُس طرف، درمیانی راستہ کوئی نہیں۔
تحریر: سید تنویر حیدر
 
 
 
امریکہ نے یمن پر فضائی حملے زیادہ شدید کر دیے ہیں لیکن اس کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یمن میں اسلامی مزاحمت کی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک بدرالدین الحوثی نے حال ہی میں اپنی تقریر میں بھوت کے نام سے معروف جدید ترین امریکی بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر امریکی فضائی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "بعض دن تو امریکہ کے فضائی حملوں کی تعداد 90 تک جا پہنچتی ہے لیکن اس کے باوجود الحمد للہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور ہماری فوجی طاقت پر ان حملوں کا کوئی برا اثر نہیں پڑا۔ امریکہ کے فضائی حملے ملت فلسطین کی حمایت میں جاری ہماری فوجی کاروائیوں کو نہیں روک پائے اور نہ ہی بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور خلیج عدن میں اسرائیل اور اس کے حامیوں کی تجارتی کشتیوں کی آمدورفت بحال ہو سکی ہے۔ امریکہ کو یمن کے حریت پسند رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی شکست ہوئی ہے۔"
 
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے اور خدا کی مدد سے مستقبل میں بھی اسے شکست ہو گی اور وہ اپنے مذموم اہداف حاصل نہیں کر پائے گا کیونکہ ہماری عوام خدا پر بھروسہ کرتی ہے، کہا: "یمن پر شدید فضائی حملے کوئی نئی بات نہیں ہے اور امریکہ نے گذشتہ آٹھ سال سے ہمارے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ امریکہ کی وزارت دفاع کے عہدیداران یمن میں اپنی شکست اور ہماری فوجی طاقت کم کرنے میں ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ہماری قوم کے سامنے خدا کے راستے پر جہاد کا طویل راستہ موجود ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جہاد کے دسویں سال میں ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سے براہ راست جنگ ہماری خواہش تھی۔ موجودہ جنگ ہمارے اور اسرائیلی دشمن کے درمیان ہے جبکہ امریکہ بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ہم ان کی طرح نہیں ہیں جو اسرائیلی دشمن کے مجرمانہ اقدامات پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔"
 
سوشل میڈیا پر جنگ کی منصوبہ بندی
یمن کے خلاف ٹرمپ حکومت کی فوجی کاروائی کی تفصیلات گذشتہ ہفتے اس وقت منظرعام پر آ گئیں جب امریکہ کے اعلی سطحی سیکورٹی عہدیداران نے غلطی سے ایک صحافی کو بھی سگنل نامی میسنجر پر اپنے خصوصی گروپ میں شامل کر لیا تھا۔ امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے سگنل کے چیٹ گروپ میں لکھا کہ "انصاراللہ کے معروف ترین میزائل محقق اپنی منگیتر کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے شہید ہو گئے ہیں"۔ اس نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ آیا اس کے اہلخانہ بھی شہید ہو گئے ہیں یا نہیں اور یہ کہ عام شہریوں کا جانی نقصان کم کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی گئی تھی۔ امریکہ کے نائب صدر جیرالڈ وینس نے اس کا جواب دیا "بہت اعلی" اور اس کے بعد امریکی پرچم، آگ کے شعلے اور انگوٹھے کی ای موجیز بھی ارسال کیں۔
 
اسٹریٹجک علاقوں پر بمباری
امریکہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا، ساحلی شہر حدیدہ اور اسٹریٹجک علاقے صعدہ کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ حملے جو برطانیہ کی مسلح افواج کے تعاون اور پشت پناہی سے انجام پا رہے ہیں زیادہ تر گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں عام شہری بھی ان کی زد میں ہیں۔ انصاراللہ یمن سے قریب سبا نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے دو بار ایک کینسر اسپتال کو بمباری کا نشانہ بنایا جو یمن کے شمال میں واقع ہے۔ رپورٹ میں اس اقدام کو عام شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر مبنی جنگی جرم قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں دسیوں عام شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس بارے میں خودمختار ذرائع نے بھی بڑی تعداد میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی اطلاع دی ہے۔
 
سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے دوران بھی امریکہ نے گذشتہ برس اکتوبر میں دو اسٹریٹجک بی 2 بمبار طیاروں کے ذریعے یمن پر فضائی بمباری کی تھی۔ امریکہ ان طیاروں کے ذریعے اپنے بقول انصاراللہ کی زیر زمین سرنگوں کو تباہ کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ ان حملوں میں کئی سرنگیں تباہ بھی ہوئیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر نے امریکہ کی شکست کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ امریکہ میں مقیم مغربی ایشیا امور کے ماہر محمد الباشا اس بارے میں کہتے ہیں: "کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں میں کئی سرنگیں تباہ ہوئی ہیں لیکن سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف سرنگوں کے دہانے تھے اور یمنیوں نے نئے دہانے کھول لیے ہیں۔" فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ جب تک یمن پر زمینی حملہ انجام نہیں پاتا فضائی بمباری کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس سے انصاراللہ کی فوجی طاقت کمزور نہیں کی جا سکتی۔
 
یمن میں امریکہ کے جنگی جرائم
یمن پر فضائی جارحیت کا جائزہ لینے والے تحقیقاتی گروپ یمن ڈیٹا پراجیکٹ نے ایکس پر اپنے پیغام میں اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے یمن پر فضائی جارحیت شروع ہونے کے پہلے ہفتے میں چار بچوں سمیت 25 عام شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ کے نصف سے زیادہ فضائی حملے شہری تنصیبات، اسکول، شادی ہال، شہری آبادی اور قبائلی خیموں پر انجام پائے ہیں۔ پہلا حملہ 15 مارچ کی سہ پہر انجام پایا جس میں کم از کم 13 عام شہری شہید اور 9 زخمی ہو گئے۔ ایئر وارز نامی ایک اور تحقیقاتی گروپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی حملوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شہید ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ کم از کم دو بچے جن کی عمریں 6 ماہ اور 8 برس تھیں، صعدہ کے شمال میں شہید ہوئے ہیں جبکہ تیسرا گمشدہ ہے۔
 
تحریر: علی احمدی
 
 

اللہ تعالی نے انسان کو خلق فرمانے کے بعد اس کے ذریعہ اپنی دیگر مخلوقات پر فخر و مباہات کی۔ انسان ہی کے لئے اللہ تعالی نے اس کے ماحول میں پائی جانے والی تمام اشیاء کو خلق فرمایا اور ہر چیز کو اس کے لئے مسخر فرمایا۔ یہی درحقیقت مشیت خداوندی کا تقاضا تھا کہ تمام قدرتی ماحول اور فطری مناظر کو انسان کے لیے مسخر کیا جائے۔

 ان تمام اشیاء کو انسان کے لئے تسخیر کرنے کے بدلے اللہ تعالی نے اس کا تحفظ اور اس کا درست استعمال بھی انسان پر لازم قرار دیا کیونکہ فطری ماحول سے ہی انسان وجود میں آتا ہے اور اسی کی طرف پلٹنا بھی ہے ۔

چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات کی واضح نشانیوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے جسے اللہ تعالی نے بہترین شکل میں رکھا ہے۔ اسےخلق کرنے  کے بعد اسے منظم انداز میں  قائم رکھنے کا اللہ تعالی نے خاص انتظام فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کے بارے میں غور و ((أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِنْ فُرُوجٍ * وَالأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُل زَوْجٍ بَهِيجٍ))(سورة ق ـ 6ـ 7).

"کیا ان لوگوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزین کیا؟ اور اس میں کوئی شگاف بھی نہیں ہے۔ اور اس زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں ہم نے پہاڑ ڈال دیے اور اس میں ہر قسم کے خوشنما جوڑے ہم نے اگائے،

دین مقدس اسلام نے ایک مسلمان فرد اور اس ماحول کے درمیان پیار محبت کا رشتہ قائم کیا ہے۔ جبکہ جاندار اشیاء ہوں یا بے جان اشیاء، ان کا تحفظ کرنے میں ہی انسان کے لئے فائدے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کا دنیا میں فائدہ یہ ہے کہ انسان ایک صحت مند اور خوشگوار زندگی جی سکتا ہے اور اس کام کا آخرت میں بھی عظیم ثواب کی شکل میں فائدہ ملے گا۔ چنانچہ قرآن کریم کے اس جامع نظریے کی تاکید کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو انسان اور کائنات کے درمیان موجود اس رشتے کی تصدیق کرتی ہیں۔ بلکہ یہ رشتہ انسان اور فطرت کے دوسرے عناصر کے درمیان ایک خاص اور بنیادی ربط ہے اور اس رشتے کی بنیاد اس بات پر ایمان ہے کہ انسان جب فطرت کے دیگر عناصر میں  سے  کسی عنصر کے ساتھ زیادتی کرے یا اس کا غلط استعمال کرے یا اس فطری نظام میں کوئی خلل ڈالے تو نتیجے میں خود انسان کو بھی کافی ضرر اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

چنانچہ شریعت  مقدس اسلام میں ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کی تاکید ہوئی ہے۔ شریعت نے اس بارے میں باقاعدہ فقہی قواعد بنائے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ( لا ضرر ولا ضرار...)  درحقیقت ایک قاعدہ ہے۔ یہ قاعدہ ماحول میں آلودگی  پھیلانے اور اسے خراب کرنے سے ہمیں خبردار کرتا ہے ۔ اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا : "اتَّقُوا الْـمَلاَعِنَ الثَّلاَثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْـمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ".

لعنت کی  تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ، عمومی راستہ اور سائے میں پیشاب و پاخانہ کرنے سے پرہیز کرو۔

اسی طرح رسول اکرم نے راستے سے گزرنے والوں کے لیے اذیت کا باعث نہ بننابھی راستے کے حقوق میں سے ایک حق  قرار دیا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:  راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ لوگوں نے کہا: یہ ہم کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ یہی تو ہماری بیٹھنے کی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ہیں آپ نے فرمایاکہ اگر تم منع کرتے ہو اور راستے پر ہی بیٹھنا ہے تو راستے کو  اس کا حق دو۔ لوگوں نے پھر پوچھا: یا رسول اللہ، راستے کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اذیت دینے سے باز رہو۔

اسی طرح زمین کے حسن کو برقرار رکھنے، اسے آباد کرنے اور اس پر زراعت کرنے کے بارے میں مزید صراحت کے ساتھ رسول اللہ کا فرمان ہے:  "کوئی بھی مسلمان کوئی کاشت کاری کرےتو اس سے جو کچھ کھائے وہ اس کے لئے صدقہ ہے، اس سے اگر کوئی چیز چوری ہوجائے تو بھی صدقہ ہے اسے کوئی درندہ کھا لے تو بھی صدقہ  ہے یا کوئی پرندہ اسے کھا جائے تو بھی صدقہ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی بھی بہانہ ہو جائے  تو وہ بھی اس  شخص کے لیے قیامت تک صدقہ ہے"

 رسول رحمت اللعالمین نے غیر آباد زمین کی بحالی جیسے سودمند کاموں کی طرف توجہ دلائی ہے چنانچہ پودے لگانا فصل اگانا یا کسی غیر آباد زمین کو پانی دینا نیکی اور احسان میں شامل فرمایا ہے۔  جیسا کہ ارشاد گرامی ہے  "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَلَهُ مِنْهَا -يَعْنِي أَجْرًا- وَمَا أَكَلَتِ الْعَوَافِي مِنْهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ".

جس نے کسی غیر آباد زمین کو آباد کیا تو اس سے جو حاصل ہوا ، سوحاصل ہوا ۔ لیکن جو ضائع ہوا ہے وہ بھی اس کے لئے صدقہ ہے۔ چونکہ قدرتی ماحولیات میں پانی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کا درست استعمال اور اس کی پاکیزگی کا تحفظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی حضرت سعد کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "مَا هَذَا السَّرَفُ يَا سَعْدُ؟ " یہ کیا اسراف ہے سعد؟ ! عرض کیا  ”أَفِي الْوُضُوءِ سَرَفٌ؟) “یا رسول اللہ) کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟! فرمایا:  "نَعَمْ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى نَهْرٍ جَارٍ"  ہاں اگر تم کسی  نہرپر ہی کیوں نہ ہو۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جاری ہونے والی یہ تنبیہ درحقیقت فطرت کے تحفظ کے حوالے سے ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے جس سے فطرت کے تحفظ کی اہمیت کے حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کا ایک خاص تصور پیدا ہوتا ہے کہ ماحولیات کی مختلف چیزیں اپنے ایک کائناتی اصول کے مطابق ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے متمم و  مکمل ہیں اور اللہ تعالی کے ارادے سے اس کائنات کے حسن و جمال کو باقی رکھنے کے لئے فطرت کے تمام اجزاء ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

 

حماس تنظیم نے ہنگری کی جانب سے عالمی فوجداری عدالت سے نکلنے کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

عدالت سے نکلنے کے فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

حماس تنظیم کے بیان میں آیا ہے کہ ہنگری کی حکومت کا آئی سی سی سے نکل جانا جنگی مجرموں اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی حمایت کے مترادف ہے۔

اس بیان میں درج ہے کہ بوڈاپیسٹ نے اپنے اس فیصلے سے عالمی انصاف کے نظام پر کاری ضرب لگائی ہے۔

حماس کے بیان میں آیا ہے کہ یہ وہی دوہرا معیار ہے جو مغربی حکومتوں نے جنگی جرائم کے سلسلے میں اپنایا ہوا ہے۔

فلسطین کی استقامتی تنظیم نے خبردار کیا کہ ہنگری کے اقدام کے نتیجے میں نہ صرف عالمی انصاف کا نظام کمزور ہوگا بلکہ جنگی مجرموں کو سزا سے بھاگنے کا موقع بھی ملے گا۔