سلیمانی

سلیمانی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے فوائد

کتاب " جلاء الإفهام في فضل الصلاة و السلام علی محمد خير الأنام " میں پیامبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر درود بھیجنے کی فضیلت کے چالیس فوائد بیان کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

۱۔ اللہ کےفرمانبرداری اور حکم کی اطاعت کرنا۔  
۲۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موافقت (اگرچہ اللہ کا درود اور ہمارا درود مختلف ہے)۔  
۳۔ فرشتوں کے ساتھ موافقت۔  
۴۔ ایک درود بھیجنے پر اللہ دس گنا اجر عطا فرماتا ہے۔  
۵۔ ہر درود پر جنت میں دس درجے بلندی۔  
۶۔ ہر درود پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔  
۷۔ ہر درود پر دس گناہ مٹائے جاتے ہیں۔  
۸۔ درود دعا کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔  
۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا حصول۔  
۱۰۔ گناہوں کی بخشش۔  
۱۱۔ اللہ کا انسان کے معاملات میں کافی ہوجانا۔  
۱۲۔ قیامت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قربت۔  
۱۳۔ غریب کے لیے درود بھیجنا صدقے کے برابر ہے۔  
۱۴۔ حاجات اور ضرورتوں کا پورا ہونا۔  
۱۵۔ اللہ اور فرشتوں کا درود بھیجنا۔  
۱۶۔ گناہوں سے پاکیزگی اور دل کی طہارت۔  
۱۷۔ موت سے پہلے جنت کی بشارت۔  
۱۸۔ قیامت کی سختیوں سے نجات۔  
۱۹۔ بھولی ہوئی باتوں کا یاد آنا۔  
۲۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درود بھیجنا۔  
۲۱۔ محفل کی خوشبوئی اور قیامت میں ندامت سے نجات۔  
۲۲۔ غربت کا خاتمہ۔  
۲۳۔ بخل کا خاتمہ۔  
۲۴۔ لوگوں کی بری دعاؤں کا قبول نہ ہونا۔  
۲۵۔ جنت کا راستہ۔  
۲۶۔ اللہ و رسول کے ذکر سے خالی محفلوں کی برائی سے بچاؤ۔  
۲۷۔ خطبہ وغیرہ میں کلام کے اثر میں اضافہ۔  
۲۸۔ پل صراط پر نور کی فراوانی۔  
۲۹۔ ظلم و تاریکی سے نجات۔  
۳۰۔ آسمان و زمین میں تعریف کا پھیلاؤ۔  
۳۱۔ زندگی میں برکت۔  
۳۲۔ اللہ کی رحمت کا نزول۔  
۳۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا حصول۔  
۳۴۔ صلوات بھیجنا، صلوات بھیجنےوالے کے دل میں دوام محبت پیامبر ﷺ اوراستحکام کا باعث ہے
۳۵۔  صلوات مایہ هدایت و حیات قلب کا باعث ہے
۳۶۔ سلوات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنےصلوات بیھجنےوالے کا نام پیامبر ص کے سامنے عارضے کا باعث ہے۔  
۳۷۔صلوات پل صراط پرثابت قدم رہنے کا باعث ہے
۳۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض حقوق کی ادائیگی ہے۔  
۳۹۔ صلوات ذکر الہی اور شکرپرودگار کا احاطہ۔
۴۰۔ صلوات دعاہ ہے چونکہ اللہ سے رسول کی ثنا یا اپنی مشکلات کے حل کی درخواست کرنا لہذا زندگی کی مشکلات کی ردوریا کا باعث ہے  ۔
ماخوذ از سایت زمزمہ وصال

بحریہ کے قومی دن کے موقع پرایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایران آرمی کے کمانڈر کا کہنا تھا کہ فعال دفاع اور اسمارٹ ڈیٹرنس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صرف یہ کہ دشمن کے حملے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ قومی مفادات کی بنیاد پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ دشمن کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔  

میجر جنرل امیر حاتمی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ  آج ملک کی بحری صنعت سرفیس اور انڈر سرفیس فلوٹنگ  کے میدان میں بہترین پوزیشن پر پہنچ گئی ہے اور ہمارا ملک بحری دفاع کے مختلف ہتھیاروں کی تیاری میں خود کفیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ کام مسلح افواج کے سپریم کمانڈر آيت اللہ خامنہ ای کے احکامات اور سفارشات کی روشنی میں پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گا۔

میجرجنرل امیرحاتمی کا کہنا تھا کہ ہماری دفاعی طاقت  ملک و قوم کی سلامتی کے ساتھ ساتھ خطے کی سلامتی کو یقینی بنانے کا بھی ایک ہہم عنصر ہے کیونکہ آج ہم علاقائی سلامتی اور ملکوں کی سلامتی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے۔

ایران کے آرمی چیف  نے صیہونی حکومت کی ریشہ دوانیوں کو خطے کے ممالک کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوش قسمتی سے اس وقت خلیج فارس اور بحیرہ عمان کے ساحلی ممالک کے درمیان ہم آہنگی کا ایک اچھا رجحان پایا جاتا ہے اور امریکہ و صیہونی حکومت کی پریشانی کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔  

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران موجودہ اور آئندہ کے خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے فعال دفاع اور اسمارٹ ڈیٹرنس کی حکمت پر عمل پیرا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نہ صرف یہ دشمن کے حملے کا انتظار نہیں کریں گے بلکہ قومی مفادات کے تقاضوں کے مطابق کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ دشمن کو فیصلہ کن اور منہ توڑ جواب دیں گے۔

ہفتہ کی رات جاری کردہ بیان ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے کہا ہے کہ امریکی اقدام وینیزویلا کی قومی خودمختاری اور ارضی سالمیت کے خلاف اشتعال انگیز اور غیر قانونی اقدامات کا تسلسل ہے.

انہوں کہا کہ یہ اقدام امریکہ کی خود سرانہ کارروائیوں کی ایکاور مثال  ہے.

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے  اس اقدام کو بین الاقوامی امن  اور سلامتی کے لیے بھی خطرناک قرار دیا. 

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز مقامی وقت کے مطابق ایک پیغام میں اعلان کیا کہ وینیزویلا اور اس کے آس پاس کی تمام فضائی حدود کو بند تصور کیا جائے۔

ارنا کی خارجہ پالیسی ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق ، وزارت خارجہ شعبہ تعلقات عامہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ سعودی بن محمد الساطی تہران آنے والے ہیں۔

بیان میں کہا گيا ہے کہ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ کا یہ دورہ تہران اور ریاض کے درمیان مشاورتی مکینیزم کا حصہ ہے۔

بیان کے مطابق سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ تہران میں اپنے قیام کے دوران ایرانی حکام سے ملاقات اور فلسطین، لبنان اور شام سمیت اہم علاقائی معاملات پر پر مشاورت کریں گے۔

ایران کے وزیر خارجہ سے ملاقات بھی ان کے دورہ تہران کے ایجنڈے میں شامل ہے۔


مزاحمت اور مزاحمتی قوتوں کو سمجھنا بڑا مشکل کام ہے۔ عام طور پر تجزیہ نگار مزاحمتی قوتوں کو فوجی انداز میں اپنے تجزیوں کا حصہ بناتے ہیں۔ یہیں سے ان کے تجزیئے اور مستقبل کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شام کا سقوط ہوچکا تھا، ہر طرف یہ سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ اب مزاحمت کا راستہ کٹ گیا ہے اور اب مزاحمت کا مستقبل داو پر لگ چکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک عہدیدار کے بیان نے اس وقت مایوسی کو امید میں بدل دیا تھا کہ مزاحمت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کے راستے ختم کیے جا سکتے ہیں۔ مزاحمت کا ایک آسان راستہ بند ہوا ہے، یہ بات بالکل درست ہے، مگر سارے راستے بند ہوگئے ہیں۔؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ مزاحمت کے راستے کھلے رہتے ہیں اور ہمیشہ کوئی نیا ذریعہ مزاحمت کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنا دیتا ہے۔ قابض قوتیں مزاحمتی قوتوں کو بھی اپنی طرح کی کوئی فورسز سمجھتے ہیں، جو تنخواہ پر کام کرتی ہے۔

مزاحمت وقتی طور پر حالات کے مطابق پیچھے ہٹ سکتی ہے، حالات میں کچھ وقت کے لیے مکمل خاموشی بھی ہوسکتی ہے۔ یہ سب مزاحمت کا حصہ ہوتا ہے کہ شدید دباو میں کیسے سروائیو کرنا ہے۔؟ دشمن جسے ناکامی اور اختتام سمجھ رہا ہوتا ہے، دراصل وہ تحریک آزادی کے لیے بڑی تیاری کا وقت ہوتا ہے۔ اسی لیے جب جب دشمن نے اپنی طرف سے مزاحمت کو کہیں بھی کمزور سمجھا، اسے جلد ہی اپنی ناکامی کا احساس ہوا۔ اسرائیلی عوامی نشریاتی ادارے KAN کی رپورٹ ملاحظہ کریں: اسرائیل لبنان میں فوجی کارروائی کو وسعت دینے پر غور کر رہا ہے، جس کی وجہ لبنانی گروپ حزب اللہ کی اپنی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی مبینہ کوششیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کو لبنان میں ہونے والی پیش رفت پر بات چیت کے لیے ایک مختصر سکیورٹی اجلاس منعقد کیا، جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ اپنی جارحانہ اور دفاعی صلاحیتوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایک نامعلوم سینیئر اسرائیلی عہدیدار نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ "حزب اللہ نے جزوی طور پر اپنی فوجی ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حزب اللہ نے "حالیہ مہینوں میں شام سے لبنان میں سینکڑوں قلیل فاصلے کے راکٹ اسمگل کیے ہیں" اور اپنی قیادت کے ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ قارئین کرام، یہ بتاتا ہے کہ راستے موجود ہوتے ہیں، بس وہی بات کہ آسان راستے بند ہوتے ہیں، ذرا مشکل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اب خود اسرائیلی کہہ رہے ہیں کہ شام کے ذریعے سپلائی جاری ہے اور حزب اللہ خود کو دوبارہ کھڑا کر رہی ہے۔ آپ لبنانی ریاست کو دباو میں لا کر کیے گئے فیصلوں کو دیکھیں، آپ کو لگے گا کہ جیسے مزاحمت اب مکمل طور پر ختم ہوگئی، اس فیصلے کے بعد تو مزاحمت کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔

بہت بار تو ایسا لگا کہ اب یا خانہ جنگی شروع ہوگی یا حزب اللہ اور فوج کی جنگ شروع ہو جائے گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا اور آج دشمن بے نقاب ہوچکا ہے۔ لبنان کی حکومت بھی چیخ چیخ کر دنیا کو مدد کے لیے پکار رہی ہے کہ معاہدہ کروایا تھا، اب اس پر عمل بھی کراو۔ معاہدہ بھی بڑا دل دلچسپ تھا، اس میں دو چیزیں شامل تھیں: امریکی اور فرانسیسی ثالثی سے طے پانے والے اس معاہدے کے تحت حزب اللہ نے دریائے لیطانی کے جنوب (سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر دور) سے اپنی عسکری موجودگی ختم کرنی تھی اور اس علاقے میں اسلحہ رکھنے کا حق صرف سرکاری اداروں کو حاصل ہونا تھا۔ اسی معاہدے میں اسرائیل کو ان علاقوں سے انخلا کرنا تھا، جہاں وہ آخری جنگ کے دوران آگے بڑھایا تھا، تاہم اسرائیلی فوج اب بھی جنوبی لبنان کی پانچ اسٹریٹیجک پہاڑی چوکیوں پر قابض ہے۔

معاہدہ کروانے والوں نے اپنے زعم میں حزب اللہ کو باندھ لیا تھا، مگر آج حالات بدل رہے ہیں۔ مزاحمت دوبارہ یکجا ہو رہی ہے اور اسرائیلی پروپیگنڈا ناکام ہو رہا ہے۔ عام لبنانی یہ سوال اٹھا رہا ہے کہ لبنان کی سرزمین پر اسرائیل کیوں قابض ہے۔؟ لبنان کی رائے عامہ مزاحمت کو ہی اپنی محافظ قرار دے رہی ہے۔ یہ بات کسی بھی مزاحمت کے لیے آئیڈیل ہوتی ہے کہ وہاں کی عوام مزاحمت کے ساتھ کھڑی ہو۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اب اسرائیل براہ راست حملے کرنے لگا ہے اور اس نے حزب اللہ کے چیف آٖف سٹاف ہیثم علی طباطبائی کو شہید کر دیا ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل علامہ نعیم قاسم نے اسے ایک کھلی جارحیت اور ایک بھیانک جرم  قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کو جواب دینے کا حق ہے اور ہم اس کے لیے وقت کا تعین کریں گے۔

انہوں نے کہا: کیا آپ جنگ کی توقع کرتے ہیں؟ ہاں، اس کا امکان موجود ہے اور جنگ نہ ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ شیخ قاسم نے یہ بھی کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ پوپ لیو کا لبنان کا آنے والا دورہ امن لانے اور (اسرائیلی) جارحیت کے خاتمے میں کردار ادا کرے گا۔ شیخ نعیم قاسم نے زور دے کر کہا کہ حزب اللہ نے نومبر 2024ء کی اس جنگ بندی کی پابندی کی ہے، جس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ ایک سال سے زائد عرصے تک جاری لڑائی کو ختم کرنا تھا اور انہوں نے لبنان پر جاری اسرائیلی حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ آپ شیخ نعیم قاسم کے بیان کو دیکھیں، اس میں دشمن کے لیے پیغام بھی ہے اور اپنے لوگوں کے لیے امید بھی ہے۔ دشمن کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے اور ہم جنگ چاہتے ہیں یا امن چاہتے ہیں۔؟ اس کا فیصلہ بھی ہم خود کریں گے۔ مزاحمت لبنان کی ہے، لبنان کے لیے ہے اور لبنان میں موجود ہے۔ مزاحمت خطے کے فرزندوں کی آزادی کا کارواں ہے، جو  قابض قوتوں کے خلاف قربانیاں دے رہے ہیں۔

دور حاضر کے فکری مباحث میں ایک خطرناک اشکال اٹھایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس بات میں شک پیدا کرنا ہے کہ کیا واقعی کوئی واحد اسلامی حقیقت موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی مراد کی نمائندگی کرتی ہو۔ یہ اشکال اس نظریے سے جنم لیتا ہے کہ "حقیقت" اپنی فطرت میں ایک نسبتی چیز ہے، جس کے بارے میں یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس خیال کے مطابق، تمام اسلامی مذاہب باوجود اس کے کہ ان میں شدید اختلافات اور تناقضات ہیں برابر طور پر اسی حقیقت کے مختلف اظہار ہیں ۔ یوں تمام مذاہب کو ایک جیسا قرار دیا جاتا ہے، چاہے ان کے عقائد کے اصول اور فہم کے مناہج ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ بظاہر یہ دعویٰ رواداری اور وسعتِ نظری کی دعوت دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ دین کی بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے، کیونکہ یہ یقین اور برہان پر قائم دین کو ایک غیر واضح، متزلزل تصور میں بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، اسلام خود ایک غیر متعین مفہوم بن جاتا ہے، اور وحی محض ایک انسانی تجربہ نظر آنے لگتی ہے جو تبدیلی اور تحریف کے نشانے پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی حقیقت میں ایک پیغام ہے، جو ایک ربّ کی طرف سے ایک رسول پر ایک کتاب کی صورت میں نازل ہوا، اور جس کا مقصد بھی ایک ہی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ واحد پیغام اپنی مختلف اور متناقض صورتوں میں ظاہر ہو کر سب کو درست قرار دے؟ قرآنِ کریم واضح طور پر بتاتا ہے کہ حق ایک ہی ہے، اس کے علاوہ سب باطل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ

حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

لہٰذا، مذاہب کے درمیان اختلاف کو اسلام کی حقیقت واحدہ کے انکار سے حل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ برہان و دلیل کی روشنی میں یہ معلوم کیا جائے کہ ان میں سے کون سا مذہب اللہ تعالیٰ کی اصل مراد کے زیادہ قریب ہے۔ اگرچہ بعض جدید فکری رجحانات نے نسبیت (ریلیٹیوزم)کے نظریے کو اپنا لیا ہے، لیکن اس نظریے کی جڑ دراصل انسان کی کمزوری کے پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نظریہ علم و معرفت کو عقلِ فعال کی بجائے ماحول کے اثرات اور ذاتی حالات کا نتیجہ قرار دیتا ہے، گویا انسان اپنے گردوپیش اور نفسیاتی عوامل سے متاثر ہو کر چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ ایک ایسی عقلی قوت کے ذریعے جو ان اثرات سے بلند ہو کر حقیقت تک رسائی حاصل کر سکے۔

پس، جو انسان اپنے اوپر نفسیاتی اور سماجی عوامل کے غلبے کو تسلیم کر لیتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر علم صرف ایک ذاتی موقف کا عکاس ہے، اور کوئی ثابت و معروضی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس، اسلام نے انسان کے بارے میں اپنا نظریہ قوت اور ضعف کے توازن پر قائم کیا ہے۔ اسلام کے نزدیک عقل وہ سرچشمۂ قوت ہے جو انسان کو بلند کرتی ہے اور اسے زمان و مکان اور ذاتی میلان کی حدود سے ماورا کر دیتی ہے، جبکہ خواہشِ نفس وہ سرچشمۂ ضعف ہے جو انسان کو اپنی نفسانی خواہشات اور مادی حالات کا قیدی بنا دیتا ہے۔

اسی لیے قرآنِ کریم نے عقل اور خواہشِ نفس   کے درمیان فرق کو نہایت اہمیت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جس طرح اس نے انسان کو عقل، غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا، اسی طرح خواہشات کی پیروی سے سختی سے روکا ہے، کیونکہ خواہشات بصیرت کو اندھا کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾

خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر، وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔

اور فرمایا: ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى

اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف رکھا اور نفس کو خواہش سے روکے رکھا۔ اور فرمایا:

﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً

اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا، اور جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی، اور جس کا کام حد سے بڑھ گیا۔

اگر ذاتی نقطۂ نظر اور نسبیت واقعی ناگزیر (حتمی) ہوتے، جیسا کہ نسبیت کے حامی کہتے ہیں، تو قرآن کبھی اس سے انکار نہ کرتا، اور نہ ہی انسان کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دیتا

درحقیقت، پورا قرآنی پیغام اسی بنیاد پر قائم ہے کہ انسان اپنی معرفت کو خواہشات اور شہوات کے غلبے سے آزاد کرے، کیونکہ انہی کے تابع ہو جانے سے حقیقت مسخ ہو جاتی ہے اور انسان حقیقت کو میلانِ نفس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق۔

یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے: معرفتی نسبیت صرف فکری گمراہی نہیں بلکہ اخلاقی انحراف بھی ہے، کیونکہ یہ انسان کو یہ جواز دیتی ہے کہ وہ بغیر کسی ذمہ داری کے جو چاہے عقیدہ اختیار کر لے،اور حقیقت کو محض ذوق اور پسند کا کھیل سمجھنے لگے۔جبکہ اسلامی منہج اس اصول پر قائم ہے کہ حقائق کا وجود انسان کے باطن سے باہر، ایک معروضی صورت میں موجود ہے، اور انسان کی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ انہیں گھڑ لے، بلکہ یہ ہے کہ وہ انہیں عقل و برہان کے ذریعے دریافت کرے۔

چنانچہ، جس قدرمحقق اپنی ذات، تعصب اور خواہش سے بلند ہو کر سوچتا ہے، اتنا ہی وہ حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اپنی خواہشات کا تابع بنتا ہے۔  اتنا ہی حقیقت سے دور چلا جاتا ہے۔ جب اسلامی مذاہب (فرقوں) کی تشکیل کا غیر جانبدارانہ اور تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے بہت سے مذاہب خالص علمی تحقیق کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئے، بلکہ ان کے پسِ منظر میں سیاسی، قبائلی یا شخصی محرّکات کارفرما تھے، جنہوں نے فہمِ دین اور تاویل کے میدان میں انحرافات پیدا کر دیے۔

لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ تمام مذاہب لازماً اسی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا۔ درحقیقت، ان میں سے بہت سے مذاہب انسانی کوششوں کے نتائج ہیں جو اپنے زمانی و تاریخی حالات سے متاثر ہوئے۔ تاہم، حقیقت کی نسبیت  (Relativism)کو ردّ کرنا تعصّب یا مکالمے کے انکار نہیں، بلکہ اس کے برعکس، یہ عقل، برہان اور سائنسی منہج کے احترام کی دعوت ہے ۔ تاکہ اختلافی آراء کے باوجود گفتگو اور تحقیق کا دروازہ کھلا رہے۔اور مقصد یہ ہو کہ ہم ایک حق تک پہنچیں نہ کہ متضاد "حقائق" کے جواز تلاش کریں۔

اس لیے ضروری ہے کہ ہم دو باتوں میں فرق کریں:

پہلی بات: یہ تسلیم کرنا کہ مختلف مذاہب سماجی و تاریخی حقیقت کے طور پر موجود ہیں  یہ ایک ناقابلِ انکار امر ہے۔

دوسری بات: یہ مان لینا کہ کوئی مکتبِ فکر الہی حقیقت کی درست ترجمانی یہ تبھی تتب کر سکتا ہے جب اس کے پاس برہانِ قاطع موجود ہو۔ پس مذاہب کا احترام اس معنی میں نہیں کہ تمام مذاہب خدا تک پہنچنے کے یکساں راستے ہیں، کیونکہ اللہ ایک ہے، اس کا دین ایک ہے، اور اس کی شریعت ایک ہے۔

لہٰذا یہ کہنا کہ حقائق متعدد ہیں، دراصل اس بات کے مترادف ہے کہ اسلام کے اندر خود کئی "ادیان" موجود ہیں۔  اور یہ تصور قرآن کے منطق اور توحیدِ دین کے اصول سے سراسر متصادم ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں تعصّب، جذباتیت اور اندھی تقلید سے دُور رہے، اورِ فیصلہ کرنے میں اپنا معیارعقل و برہان کو بنائے، نہ کہ مذہبی وابستگی یا سماجی وراثت کو۔ مذہب یا مسلک کو حق کے پیمانے پر پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ حق کو مسلکی پیمانوں کے تابع بنایا جائے۔ اگر لوگوں کے درمیان مذاہب کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں، تو اس کا حل یہ نہیں کہ حقیقت ہی کو منسوخ کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ حقیقی علمی مکالمے کے دروازے کھولے جائیں، تاکہ درست بات غلط سے الگ ہو جائے، اور اسلام کا حقیقی اور خالص چہرہ مختلف متضاد رجحانات کے درمیان واضح ہو سکے۔ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے خود اپنے اندر حقیقت کو دریافت کرنے کے اصول مقرر کیے ہیں، جن میں سب سے اہم اصول برہان (دلیل) کا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

کہہ دو: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔

پس برہان ہی وہ فیصلہ کن میزان ہے جو مختلف مذاہب کے درمیان حق و باطل کا فرق واضح کرتا ہے، نہ کہ جذبات، اکثریت یا تاریخی وراثت۔ اسی بنیاد پر یہ کہنا درست نہیں کہ ہر مذہب برابر درجے میں حق کا حصہ دار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو "کچھ حصے" کی سچائی تک پہنچنے کا نہیں، بلکہ مکمل حق کے دین تک رسائی کا مکلف بنایا ہے۔

اور جو کچھ اس کامل حق سے کم ہو، وہ "نسبی" اور ناقص و باطل ہے۔ اور اگر تشیع ایک منصف محقق کی نظر میں ایسی مکمل عقلی و استدلالی بنیادوں کی حامل منظم فکر ہے جو اسے رسالت کے حقیقی جوہر سے جوڑتی ہے، تو یہ بات کسی دعویٰ کے طور پر پیش نہیں کی جاتی، بلکہ اسے علمی مکالمے اور غیر جانبدارانہ تحقیق کے سپرد کیا جاتا ہے،تاکہ برہان کے ذریعے خود حقیقت ظاہر ہو۔ کیونکہ حق کا غلبہ نعروں یا وابستگیوں سے نہیں بلکہ دلیل اور خلوص سے حاصل ہوتا ہے۔ درحقیقت، حق کو پہچاننے کا معیار اس کی دلیل ہے، نہ کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی عقل اس نظریے کو قبول نہیں کر سکتی کہ حقیقت نسبتی ہے، کیونکہ ایسا مان لینا ایمان کی بنیاد کو ہی ختم کر دیتا ہے  چونکہ ایمان یقین پر قائم ہوتا ہے، احتمال پر نہیں۔ اسی لیے نسبیت کا انکار تنگ نظری نہیں بلکہ اس بات پر ایمان ہے کہ حقیقت تک رسائی ممکن ہے، بشرطیکہ انسان اپنے نفس کو خواہشات سے پاک کرے اور اپنی عقل کو جو دراصل خدا کی عطا کردہ ہدایت کا نور ہے بروئے کار لائے۔ یوں عقل اور خواہشِ نفس کے درمیان ہی انسان کی تقدیر طے ہوتی ہے: اگر وہ عقل کی پیروی کرے تو حق کو پہچانتا ہے، اور اگر خواہش کا اسیر ہو جائے تو باطل میں بھٹک جاتا ہے۔ قوموں کی تعمیر بھی انہی دو بنیادوں پر ہوتی ہے  یا تو عقل و برہان پر، یا جذبات اور اندھی تقلید پر۔

نتیجہ کلام یہ ہے کہ:

اسلام یہ نہیں کہتا کہ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ آسان ہے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ انسانی خودپسندی اور خواہشِ نفس اگرچہ بڑی رکاوٹیں ہیں، مگر یہ ناگزیر تقدیر نہیں، بلکہ قابلِ اصلاح کمزوریاں ہیں۔ اور چونکہ اللہ نے عقل سے کام لینے کا حکم دیا ہے اور خواہش کی پیروی سے روکا ہے،تو یہ بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقت کو جاننا ممکن ہے، اور یہ کہ وہ حقیقت ایک ہی ہے، متعدد نہیں، کیونکہ حق کا ربّ ایک ہے، اس کی کتاب ایک ہے، اس کا رسول ایک ہے، اور حق کبھی تقسیم یا متکثر نہیں ہو سکتا ۔

Friday, 28 November 2025 07:43

ابو ایوب انصاری

آپ کا نام خالد بن زید بن کلیب نجاری تھا، اور آپ ابو ایوب انصاری کی کنیت سے معروف تھے، آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی، اور انصار میں سے قبیلہ بنی خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ بنی اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے ان ۶۹مردوں اور دو خواتین میں شامل تھے جو بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل تھے، کہ جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر قسم کی مدد اور نصرت کرنے کی بیعت کی، اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اور اس بات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک میں موجود تمام شرکا گواہ ہیں۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ پہنچے تو آپ ؓ کے گھر استراحت فرمائی۔

جیسا کہ اس وقت یہ واقعہ فرمان یافتہ اونٹ کے واقعہ سے معروف اور مشہور ہوا، اس کی تفصیل یوں ہے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے تو انصار کے قبائل میں سے ہر قبیلہ کی یہ خواہش تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اسے ہی شرفِ ضیافت سے نوازے، آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس کے گھر کے آگے اونٹنی رکے گئی اس کو یہ شرف حاصل ہوگا، توجوں جوں سواری آگے بڑھتی جاتی راستے میں انصارِ مدینہ انتہائی جوش ومسَرت کے ساتھ اونٹنی کی مہار تھام کر عرض کرتے: یارسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ ہمیں شرفِ ضیافت بخشیں مگر نبی کریم ہر ایک سے مسکراکر فرماتے تھے : اس کے راستے کو چھوڑ دو! جس جگہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اسی جگہ میری اونٹنی بیٹھ جائے گی۔ بالآخر ایک مکان کے سامنے اونٹنی بیٹھ گئی، پھر دوبارہ کھڑی ہوگئی اور ایک مرتبہ چکر کاٹنے کے بعد واپس اسی جگہ پر بیٹھ گئی (یعنی ابوایوب انصاری کے گھر کے باہر) ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر ہی مہمان کے طور قیام فرمایا۔ یہ ایسا واقعہ تھا کہ جس پر مدینہ والے رشک کیا کرتے تھے، اسی طرح مؤاخات مدینہ کے موقعہ پرجب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بھائی بنارہے تھے اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کو مصعب بن عمیر کا بھائی بنایا۔

حضرت ابوایوب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ جنگ بدر، احد، خندق اور اسی طرح دیگر جنگوں میں بھی شرکت کا شرف حاصل ہوا۔ یہ آپ ؓ کی رسول اکرم سے پر خلوص محبت کا نتیجہ تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد سب سے پہلے آپ امام علیؑ کی امامت اور ولایت کو قبول کرنے اورآخری دم تک آپ ؑ کے برحق خلیفہ اور جانشین رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ہونے پر قائم  رہنے والوں میں سے بن گئے۔ اور آپ ؓ نے اپنے اس  اصولی موقف سے کبھی بھی  اعراض نہیں کیا۔ بلکہ آپؓ ان بارہ افراد پر مشتمل  گروہ میں بھی شامل تھے کہ جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد مسجد نبی میں امام علیؑ کے اللہ کی طرف سے امام برحق اور نبی کے جانشین ہونے کا دفاع کیا۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی امام علی کی  ؑ معیت میں گزاری، اور امام علیؑ نے اپنی  ظاہری خلافت کے دوران جتنی جنگیں لڑی اس میں بھی آپ شریک رہے، خاص کر جنگ نہروان میں آپ کے پاس امن کا پرچم بھی تھا۔

حضرت ابوایوب ان صحابیوں میں سے تھے جن سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں، اور آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں، آپ نے امام علی ؑ کے فضائل اور مناقب کے بارے میں بہت سی احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہیں، آپ ان راویوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حدیث ثقلین، اور حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔ جیسا کہ اصبغ کہتا ہے کہ میں نے رحبہ کے دن لوگوں میں اعلان کیا ہے کہ جس جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن علیؑ کی امامت اور ولایت کا اعلان سنا ہے وہ کھڑے ہوجائے، اور صرف وہی لوگ  کھڑے ہوجائیں کہ جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہونے والا اعلان ولایت کو سنا ہے اور وہی بات بیان کریں کہ جس کو اس دن سنا ہے۔ یہ اعلان سن کر کچھ لوگ (چند درجن)  کھڑے ہوئے ان میں سے ایک ابوایوب بھی تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس آگاہ رہو کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کا علی مولیٰ ہے، خدایا تو اس سے دوستی کر جو علی سے دوستی کرتا ہے اور اس سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرتا ہے، تو اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرتا ہے اور اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے، اور تو اس کی مدد کر جو علی کی مدکرتا ہے۔  جیسا کہ ابوایوب انصاری سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک قول نقل کیا جا تا ہے  کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علیؑ کو ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی  ابوایوب انصاری کو امام علیؑ کے ساتھ دینے کا بھی حکم صادر فرمایا۔

امام ہشتم حضرت علی ابن موسیٰ رضاؑ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اصحاب ؓ میں کچھ ایسے بھی تھے کہ جو نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر چلتے رہے، اورانہوں نے اس منھج اور سیرت کو تغییر اور تبدیل نہیں کیا، جیسے ابوایوب انصاری اور ان جیسے اصحاب، اللہ کی رضایت ان کے شامل حال ہو اور اللہ کی ان پر رحمت ہو۔

جیسا کہ شیخ محی الدین مامقانی کہتے ہیں کہ ابوایوب انصاریؓ ان اصحاب میں سے تھے کہ جنہوں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور منھج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبدیل اور تغییر نہیں کی ۔اور اس سعادت سے ہی بہرمند ہونے والے بہت کم ہی تھے، جو لوگ ابوایوب کی زندگی، مقام ومنزلت، نظریات، اقوال، شہادات،اور رویات کو جانتا ہیں وہ یہ یقین بھی کرلیتے ہیں کہ آپؓ ایک ثقہ اور جلیل القدر صحابی تھے، بلکہ ثقات میں سے بہت زیادہ قابل اعتماد تھے اور اصحاب میں سے برجستہ ترین صحابی تھے، اور میرے نزدیک آپؓ سے نقل ہونے والی روایات صحیح ہیں اور قابل شک نہیں ہیں۔

ابوایوب انصاری رضوان الله تعالى عليه ۵۲ہجری کو وفات پاگئے، اور آپؓ قسطنطیہ ترکی میں مدفون ہیں، جو اس وقت ترکی کا ایک صوبہ ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے قسطنطیہ میں وفات پانے اور دفن ہونے کی خبر پہلے سے ہی دی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قسطنطیہ میں میرے اصحاب میں سے ایک صالح اور نیک صحابی کو دفن کیا جائے گا۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا خطبۂ فدک نہ صرف سیاسی اور معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے، بلکہ اس میں خواتین کے لیے روحانی، اخلاقی اور معاشرتی تعلیمات بھی شامل ہیں۔

خطبۂ فدک میں خواتین سے خطاب کی اہم جہتیں درج ذیل ہیں:

1. ایمان اور تقویٰ کی تاکید
2. حق و باطل کی تمیز
3. صبر اور استقامت
4. علم اور شعور کی اہمیت
5. معاشرتی کردار اور عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری

1. ایمان و تقویٰ کی تاکید

حضرت فاطمہ الزہراء نے خواتین کو سب سے پہلے ایمان و تقویٰ پر قائم رہنے کی تعلیم دی۔

"يَا نِسَاءَ الْمُؤْمِنِينَ اتَّقِينَ اللَّهَ وَاحْفَظْنَ أَمَانَاتِكُنَّ"!

اے مؤمن خواتین! اللہ سے ڈرو اور اپنی امانتوں کو محفوظ رکھو!

وضاحت:

امانت میں ایمان داری اور تقویٰ ہر مؤمنہ کے لیے بنیادی اصول ہیں۔

خواتین کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں میں ہوشیار رہنے کی تاکید ہے۔

یہ تعلیم عورت کے گھریلو اور معاشرتی کردار دونوں کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

2. حق و باطل کی تمیز

خطبہ فدک میں خواتین سے خطاب میں سب سے اہم نقطہ حق و باطل کی پہچان اور اس کے لیے قیام ہے۔

"فَإِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُنَّ بِالْحَقِّ وَيَنْهَى عَنِ الْبَاطِلِ"

اللہ چاہتا ہے کہ تم حق پر قائم رہو اور باطل سے بچو!

وضاحت:

حق پر قائم رہنا اور باطل کی مخالفت خواتین کی اخلاقی اور روحانی ذمہ داری ہے۔

خواتین کو معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کا پیغام دیا گیا ہے۔

تاریخی پس منظر:

نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی وفات کے بعد فدک کا غصب ایک سیاسی واقعہ تھا۔

حضرت فاطمہ نے خواتین کو یہ پیغام دیا کہ معاشرے میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔

3. صبر اور استقامت

خطبہ میں خواتین کو ظلم و جبر کے سامنے صبر اور استقامت اختیار کرنے کی تاکید کی گئی۔

"وَاصْبِرْنَ عَلَى الظُّلْمِ وَثِقْنَ بِاللَّهِ"

ظلم کے سامنے صبر کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو!

وضاحت:

صبر اور استقامت خواتین کی روحانی مضبوطی کی علامت ہیں۔

معاشرے میں ان کی استقامت سے نہ صرف خاندان، بلکہ معاشرتی عدل و انصاف بھی قائم رہتا ہے۔

عملی پہلو:

ظلم یا ناانصافی کے حالات میں بھی حق پر قائم رہنا۔

کسی بھی سماجی یا خانگی معاملے میں حق کو قائم رکھنا۔

4. علم اور شعور کی اہمیت

حضرت فاطمہ نے خواتین کو علم حاصل کرنے اور شعور پیدا کرنے کی تاکید کی، تاکہ وہ حق و باطل کی تمیز کر سکیں۔

"وَتَعَلَّمْنَ مَا يَهْدِيكُنَّ إِلَى الْحَقِّ وَالْعَدْلِ"

علم حاصل کرو! جو تمہیں حق اور عدل کی طرف رہنمائی کرے۔

وضاحت:

علم اور شعور کے بغیر حق و باطل کی پہچان ممکن نہیں۔

خواتین کو معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی کردار کے لیے علم ضروری ہے۔

تاریخی پہلو:

اس زمانے میں خواتین کے علم و شعور کی اہمیت کم سمجھی جاتی تھی۔

حضرت فاطمہ نے خواتین کو حق و انصاف کی رہنمائی کے لیے تیار کیا۔

5. معاشرتی کردار اور عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری

حضرت فاطمہ نے خواتین کو معاشرت میں عدل و انصاف کے قیام کی ذمہ داری بھی دی۔

فَاتَّقِينَ اللَّهَ وَأَقِيمْنَ الْحَقَّ وَلا تَخْشَيْنَ فِي سَبِيلِهِ أَحَدًا.

اللہ سے ڈرو، حق قائم کرو اور اس کے راستے میں کسی سے نہ ڈرو!

وضاحت:

خواتین کے لیے یہ پیغام ہے کہ حق کے قیام میں خوف کو دور کریں۔

معاشرے میں خواتین کی فعال شرکت، حق و انصاف کے قیام میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔

عملی نکات:

1. معاشرتی ظلم یا ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا۔

2. گھریلو اور بیرونی دونوں میدانوں میں عدل و انصاف قائم کرنا۔
3. علم، صبر اور استقامت کے ساتھ معاشرتی کردار نبھانا۔

نتیجہ

خطبہ فدک میں خواتین سے خطاب میں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے درج ذیل اصول واضح کیے:

1. ایمان اور تقویٰ پر قائم رہنا

2. حق و باطل کی تمیز

3. صبر اور استقامت اختیار کرنا

4. علم و شعور کے ذریعے حق کی پہچان

5. معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا

یہ خطبہ آج بھی خواتین کے لیے روحانی، اخلاقی اور معاشرتی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اسلام میں خواتین کے فعال کردار کو اجاگر کرتا ہے۔

تحریر: سیدہ بشریٰ بتول نقوی

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ہفتۂ بسیج (ہفتۂ رضاکار فورس) کے موقع پر ملک، علاقے اور عالمی حالات کے بارے میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے بسیج جیسے ادارے کو ہر ملک کے لیے مفید اور راہ کشا بتایا اور کہا ہے کہ ایران جیسے ملک کو، جو عالمی غنڈوں اور شر پسندوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے، دوسرے سبھی ملکوں سے زیادہ بسیج کی ضرورت ہے۔

انھوں نے جمعرات 27 نومبر 2025 کی رات ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے تسلط پسند طاقتوں کی مداخلت اور حرص و طمع کے مقابلے میں اقوام کی مزاحمت و استقامت کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ مزاحمت کی عظیم تحریک جس کی بنیاد ایران میں رکھی گئی اور یہیں وہ پروان چڑھی، آج دنیا کے مختلف علاقوں منجمہ مغربی ملکوں اور حتی امریکا تک میں فلسطین اور غزہ کی حمایت میں لگائے جانے والے نعروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم نے یقینی طور پر امریکا کو بھی اور صیہونی حکومت کو بھی دھول چٹا دی، انھوں نے ایران میں شیطنت کی لیکن انھیں مار پڑی اور وہ خالی ہاتھ لوٹ گئے، وہ اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے اور یہ حقیقی معنی میں ان کے لیے ایک شکست تھی۔

انھوں نے ایران کے ساتھ جنگ کے لیے صیہونی حکومت کی بیس سالہ منصوبہ بندی کی رپورٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایک ایسی جنگ کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں وہ ایرانی قوم کو ورغلا کر لوگوں کو نظام کے خلاف جنگ کے لیے تیار کر سکیں لیکن معاملہ الٹا پڑ گيا اور وہ اس طرح سے ناکام ہوئے کہ جو لوگ نظام سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتے تھے، وہ بھی نظام کے ساتھ آ کھڑے ہوئے اور ملک میں ایک عمومی اتحاد پیدا ہو گيا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں نقصان ہوا اور جنگ کی فطرت کے مطابق ہماری کچھ عزیز ہستیاں ہم سے بچھڑ گئیں لیکن اسلامی جمہوریہ نے دکھا دیا کہ وہ عزم و قوت کا مرکز ہے اور شوروغل سے بے پروا ہو کر پوری طاقت سے ڈٹ سکتی ہے اور فیصلہ کر سکتی ہے، ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہے کہ ہمیں جو مادی نقصان ہوا اس سے کہیں زیادہ جارح دشمن کو ہوا۔

انھوں نے بارہ روزہ جنگ میں امریکا کو ہونے والے نقصانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں امریکا کو بہت زیادہ نقصان ہوا کیونکہ وہ حملے اور دفاع کے اپنے جدید اور پیشرفتہ ترین ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے باوجود ایرانی قوم کو فریب دینے اور اسے اپنے ساتھ ملانے کے اپنے ہدف میں کامیاب نہیں ہوا بلکہ قوم کا اتحاد مزید مضبوط ہوا اور اس نے امریکا کو بھی ناکام کر دیا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاریخ کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک کی حیثیت سے غزہ کے المیے میں صیہونی حکومت کی شدید رسوائی اور بدنامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں امریکا، غاصب حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا اور وہ بھی بری طرح سے رسوا اور بدنام ہوا کیونکہ دنیا کے لوگ جانتے ہیں کہ صیہونی حکومت امریکا کے بغیر، اس سطح کا المیہ پیدا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ انھوں نے صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کو آج کی دنیا کا سب سے نفرت انگیز شخص اور صیہونی سرغناؤں کو دنیا کا سب سے نفرت انگیز تنظیم اور گینگ بتایا اور کہا کہ چونکہ امریکا ان کے ساتھ کھڑا ہوا، اس لیے صیہونیوں کے سلسلے میں پائی جانے والی نفرت اس میں بھی سرایت کر گئی ہے۔


اسلامی جمہوریہ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی اردشیر لاریجانی نے پاکستان کا اہم دورہ کیا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر خارجہ و نائب وزیراعظم محمد اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر ماریہ سلطان سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران پاکستان کی سفارتی اور اخلاقی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور حالیہ واقعات میں افواج پاکستان کی بہادری اور کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جیت ہماری جیت ہے۔ اس دورہ کا ایک اہم پہلو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا پاکستانی قوم کے نام خصوصی پیغام تھا، جو ڈاکٹر علی لاریجانی لیکر آئے۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اور علی لاریجانی نے اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں تہران اور اسلام آباد کے قریبی تعاون اور خطّے میں امن و استحکام کے تحفظ کے لیے تعلقات کو مزید بڑھانے پر زور دیا۔

وزیراعظم ہاؤس پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے علاقائی مسائل کے بارے میں ایران کے اصولی مؤقف کی قدردانی کی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم نے ایران کے اعلیٰ سلامتی حکام کا خیرمقدم کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تاریخی اور برادرانہ تعلقات کو مختلف شعبوں میں مزید گہرا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ فریقین نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر تبادلہہ خیال کیا اور خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے باہمی کوششوں کی ہم آہنگی پر زور دیا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر علی لاریجانی نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ لاریجانی نے تہران اور اسلام آباد کے تاریخی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور پاکستان کا باہمی تعاون مختلف شعبوں میں خطے کے امن و سکون میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی اردشیر لاریجانی نے جی ایچ کیو میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق ملاقات میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا گیا، جبکہ خطے میں موجودہ درپیش سکیورٹی چیلنجز اور بدلتی صورتحال پر بھی گفتگو ہوئی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے خطے میں امن و استحکام کے لئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ایران کے ساتھ قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال میں اسٹریٹجک تعاون کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ اس موقع پر علی لاریجانی نے خطے میں امن کے لئے پاکستان کے کردار کو سراہا جبکہ ایران پاکستان تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے علاقائی مسائل کے حل کے لئے مذاکرات اور شراکت داری کو ناگزیر قرار دیا اور طویل المدتی استحکام کے لئے پاکستان اور ایران کے باہمی تعاون پر اتفاق کیا، ملاقات خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے علاوہ علی لاریجانی نے سردار ایاز صادق، اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان، محمد اسحاق ڈار، نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ پاکستان سے بھی ملاقات اور مشاورت کی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی اپنے دورہ پاکستان کے دوران ایک اہم انٹرویو بھی دیا، انٹرویو کے حوالے سے علی لاریجانی نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر ایک ٹویٹ پوسٹ کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ محترمہ عاصمہ شیرازی نے دوران انٹرویو مجھ سے پوچھا کہ پاکستان اور بھارت، نیز پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے آپ کیا کرنے کو تیار ہیں۔؟ میں نے جواب دیا کہ پاکستان، ایرانی عوام کے لیے بہت عزیز اور قابل احترام ہے۔ ہم ان مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام آباد میں واقع ایرانی سفارت خانے میں علاقائی و بین الاقوامی، امن و سلامتی کے تھنک ٹینکس اور ماہرین کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب بھی کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تعاون میں کسی حد کے قائل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے حکم پر، سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، ایران اور پاکستان کے درمیان تمام اقتصادی رکاوٹیں اور پابندیاں ختم کرے گی۔

ایران کے قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی لاریجانی نے اپنے اسلام آباد کے دورے کے دوران پاکستان کی قوم تک رہبرِ معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا پیغام پہنچایا اور حالیہ ظالمانہ جنگ میں صہیونی رجیم کے خلاف ایران کے دفاع میں پاکستان کی عوام اور اداروں کے ذمہ دارانہ مؤقف کی قدردانی کی۔ علی لاریجانی نے اپنے ذاتی صفحے پر لکھا کہ میں پاکستان کی شریف قوم تک رہبرِ معظم انقلاب اسلامی ایران کا سلام پہنچاتا ہوں، ایسی قوم جس نے صہیونی رجیم کی ایران کے خلاف تازہ ظالمانہ جنگ میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کا دفاع کیا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کی قوم ایک مستحکم اور بامقصد فکر رکھتی ہے، ہم پاکستان کی حکومت، پارلیمنٹ اور مسلح افواج کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر علی لاریجانی کا دورہ پاکستان مکمل ہونے کے بعد پاکستانی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا اس دورے نے پاکستان اور ایران کے دو طرفہ تعلقات میں مثبت پیش رفت کو مزید مضبوط کیا ہے اور زیادہ تعاون اور باہمی سمجھ بوجھ کو فروغ دیا ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ علی لاریجانی نے اسلام آباد کے دورے کے دوران قومی سلامتی کے مشیر محمد عاصم ملک کے ساتھ وفود کی سطح پر باضابطہ مذاکرات کیے۔ انہوں نے صدرِ پاکستان، وزیرِاعظم، قومی اسمبلی کے اسپیکر، نائب وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور آرمی چیف سے بھی ملاقاتیں کیں۔ وزارتِ خارجہ پاکستان نے مزید لکھا کہ ان روابط کے دوران، دونوں فریقین نے پاکستان اور ایران کے دیرینہ دوستانہ تعلقات کی توثیق کی، جو مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ایمان میں جڑے ہوئے ہیں۔ گفت و شنید میں متعدد شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مزید بڑھانے کی باہمی خواہش پر زور دیا گیا، جن میں سیاسی روابط، تجارتی و اقتصادی تعاون، دہشتگردی کیخلاف مشترکہ جدوجہد اور سرحدی سکیورٹی، علاقائی روابط اور ثقافتی و عوامی تبادلے شامل ہیں۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تعلقات کو اس انداز سے گہرا کیا جائے کہ باہمی خوشحالی میں اضافہ ہو اور علاقائی امن و استحکام کو فروغ ملے۔ دونوں فریقین نے اہم علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت پر جامع تبادلۂ خیال کیا۔