سلیمانی

سلیمانی

حوزہ/ انہوں نے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ خواہران کی برجستہ محقق، نرجس شکرزادہ نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ انٹرویو میں امام زین العابدین علیہ السلام کے مظلومانہ یوم شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: واقعہ عاشورہ کے بعد اسلامی معاشرے میں شدید گھٹن طاری ہو گئی اور اس ماحول میں امام زین العابدین علیہ السلام نے معاشرے کی رہنمائی کی، امام علیہ السلام نے لوگوں کی فکری اور سیاسی طور پر اور دعاؤں اور ثقافتی اور تعلیمی کاموں کے ذریعے رہنمائی فرمائی اور بصیرت میں اضافہ فرمایا۔

انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ علماء اور ماہرین تاریخ کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کا دور سیاسی اور ثقافتی زندگی کی خصوصیات اور اجزاء کے لحاظ سے سب سے تاریک اور انتہائی گھٹن کا دور تھا۔ سید الشہداء امام حسین(ع) اور ان کے با وفا اصحاب کی شہادت کے بعد امام سجاد (ع) نے کوفہ اور شام میں اپنے خطبات سے معاشرے اور غافل لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔

انہوں نے مزید کہا: حضرت سجاد علیہ السلام کے سب سے زیادہ حساس اور موثر خطبات جنہوں نے بنی امیہ کے بارے میں لوگوں کےفہم و ادراک میں زبردست تبدیلی پیدا کی اور یزید کے تخت و تاج کو ہلا کر رکھ دیا وہ خطبہ ہے جو امامؑ نے شام میں عوامی اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان دیا تھا، یہ وہ خطبہ ہے جس نے عاشورہ کے مشن اور پیغام کو پہنچانے اور میدان کربلا کے شہداء کے سلسلے کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

نرجس شکرزادہ نےکہا: اس خطبہ میں امام سجاد (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے اہل بیت (ع) کا تعارف ان لوگوں کے درمیان کرایا جنہوں نے صرف بنی امیہ سے اسلام کو دیکھا اور سنا تھا ۔ پیغمبر اور ان کے اصحاب اور اس کے بعد امامؑ نے اپنے مقام و کردار اور اہل بیت (ع) کے مقام و منزلت بیان کرنا شروع کیا۔ امام علیہ السلام کا یہ اقدام جہاد تبیین کی ایک واضح اور روشن مثال ہے، امام ؑ نےبنی امیہ کے رخ سے پردہ اٹھا دیا اور بے نقاب کر دیا۔

Tuesday, 23 August 2022 10:30

مسجد جامع سلطان قابوس

مسجد جامع سلطان قابوس اسلامی دنیا کی معروف مسجد ہے جو عمان کے دارالحکومت مسقط میں قایم ہے ۔ اسلامی طرز معماری کی شاہکار مسجد نیشابوری کاریگروں کی کاوش کا نتیجہ ہے جو ۴۱۶,۰۰۰ مربع میٹر پر واقع ہے اور ۲۰ هزار نمازیؤں کی گنجایش ہے۔ سال ۲۰۰۱ میں اس مسجد کا افتتاح ہوا۔ مسجد کا گنبد ۳۴ میڑ اونچا ہے۔ عظیم ایرانی قالین، چمکتے لوسٹر اور فانوس اور رنگ برنگ کاشی کاری کی وجہ سے یہاں سیاح دور دراز سے آتے ہیں۔

سپاه پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے کمانڈر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے کہا ہے کہ ہم  دفاعی شعبے میں اس وقت ماضی کی نسبت بہت زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں اور اب ہم میزائل اور ڈرون  برآمد کرنے کے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔

جنرل حاجی زادہ نے مشہد مقدس میں فردوسی یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلباء و طالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے آج دن رات کی کوششوں کی بدولت مختلف شعبوں بشمول میزائل، ڈرونز اور دیگر شعبوں میں ہمارے پاس بھرپور صلاحیتیں اور لازمی دفاعی آلات و وسائل موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج دشمن بھی ہماری دفاعی طاقت کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا کی بڑی طاقتیں ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایران کی فوجی صنعت کی طاقت کو سراہتی ہیں۔

 خلائی میدان میں قابل قدر اور نمایاں کامیابیوں کا حوالہ دیتے ہوئے حاجی زادہ نے کہا ہے کہ ایران فضائی شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے اس موقع پر شہید قاسم سلیمانی کی خصوصیات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یہ شہید راہ استقامت و جہاد پر بطور کامل ایمان رکھتے تھے۔

راہ گیر کے چلتے ہوئے قدم رک گئے۔ رُکنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ واعظ کے وہ کلمات تھے، جنہوں نے راہگیر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ واعظ بیان کر رہا تھا ’’جو اسیر تھے، وہ حقیقت میں آزاد تھے اور جو کارندے ان کو قیدی بنا کر لے جا رہے تھے اور جس حاکم کے دربار میں ان قیدیوں کو پیش کرنا تھا، حقیقت میں وہ قیدی تھے۔‘‘ خطاب ایک قافلے کے بارے میں تھا۔ واعظ اس قافلے کو ’’کاروانِ حرّیت‘‘ کا نام دے رہا تھا۔ عصرِ عاشور کو یہ قافلہ ایک بڑے قافلے سے جدا ہوا تھا، جسے واعظ نے کاروانِ شہادت کا نام دیا۔ اُس قافلے کا سردار ایک عاشقِ خدا اور رسول اللہﷺ کی آنکھوں کا نور تھا۔ جسے اُمت نے کچھ اس طرح سے اجرِ رسالت ادا کیا کہ اُسے لبِ فرات بھوک و پیاس کے عالم میں شہید کر دیا۔ اس کے جسد ِاطہر کو پامال کیا۔ خاندانِ عصمت و طہارت کے خیموں کو جلایا اور لوٹا۔ اب یہ قافلہ ایک امام (امام سجادؑ) اور محافظہ ٔامامت (بی بی زینبؑ) کی راہنمائی میں کوفہ و شام کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ اسیروں کا نہیں بلکہ ان آزاد ہستیوں کا قافلہ تھا، جنہوں نے اپنے خطبات سے کئی خواہشِ نفس کے اسیروں کو آزاد کروایا۔ واعظ نے یہاں رک کر حقیقی آزادی کی وضاحت کی۔

دین اسلام، انسان کے حقِّ حیات (زندگی) اور حقِّ آزادی کا قائل ہے۔ آزاد اور خود مختار انسان ہی کمال کا راہی بنتا ہے۔ ایسی آزادی جو اسے نفس کی ہر قید سے رہا کر دے۔ وہ خواہشات اور شہوتوں کا اسیر نہ بنے۔ اسے اقدار، مطلوب اور پاکیزہ ہدف سے دنیا کی سرکش طاقتیں نہ جھکا سکیں۔ وہ تنہاء بھی ہو، وہ بے یار و مددگار بھی ہو، زنجیروں میں جکڑا ہوا بھی ہو، لیکن وہ آزاد ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ  ہوائے نفس کا قیدی نہیں ہوتا، بلکہ دنیا کی محبت کے اسیروں کے بھرے دربار میں حق کی صدا کو بلند کرتا ہے۔ اسے ظالم کے آگے سر جھکانے میں فخر محسوس نہیں ہوتا، وہ سر کٹا کر راضیۃً مرضیہ کی معراج تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ انسانی زندگی کا اصل مقدمہ یہ معنوی آزادی ہے۔ یہی’’ فَکُّ رَقَبَہ‘‘  کا اصل مفہوم ہے، جو انسان کو حقیقی آزادی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ دین اس آزادی کی طرف راہنمائی فرماتا ہے، جو جسم کے مرنے سے ختم نہیں ہوتی۔ اسے ایسی نورانیت نصیب ہوتی ہے، جو کئی بھٹکے ہوؤں کو صراطِ مستقیم کا راہی بناتی ہے۔

جب یہ آزادی، انسانی روح کو نصیب ہو جائے تو وہ شہوت، جاہ و حشمت، بتوں کی بندگی، ہوائے نفس کی پیروی میں سانس نہیں لیتا بلکہ اسے یہ اسارت نظر آتی ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ جو میرے مَن میں آئے، ہر قید و بند سے اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتا۔ میرا جسم میری مرضی کا قائل نہیں ہوتا بلکہ اس کا پورا وجود عظیم رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتا ہے اور’’لا معبود سواک‘‘ کی صدا بلند کرتا ہوا نظر آتا ہے، جس کی یہی مناجات ہوتی ہیں ’’کفی بی عزا ان اکون لک عبدًا‘‘۔ یہی وہ ایک   سجدہ ہے، جو ہزار سجدوں سے آدمی کو نجات عطا کرتا ہے۔ جو شخص معنوی آزادی سے لیس نہیں ہوتا، وہ  ’’قد خاب من دسّٰها"(سوره شمس، آیه 10) کا مصداق قرار پاتا ہے۔ بہت سی آیات و روایات اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اصل آزادی کون سی ہے اور اصل غلامی کونسی ہے۔؟

قوتِ غضب و قوتِ شہوت، اگر ان کی تربیت عقل سلیم کے سائے میں نہ ہو تو انسانی روح کے لئے زوال کا موجب بنتی ہیں۔ پہلا قدم غلامی کی طرف اس وقت اٹھتا ہے، جب عقل اسیر ہو جاتی ہے اور ہواء نفس امیر بن جاتی ہے: "کم من عقل اسیر تحت هوی امیر" (نهج البلاغه، حکمت 211)۔ مولا علی (علیہ السلام ) نہج البلاغہ میں یوں فرماتے ہیں: "الدنیا دار ممر لا دار مقر والناس فیها رجلان: رجل باع فیها نفسه فاوبقها ورجل ابتاع نفسه فاعتقها"(نهج البلاغه،حکمت 133)؛ "دنیا ایک گذرگاہ  ہے، نہ کہ ٹھہرنے کا مقام، اس میں رہنے والے انسان دو طرح کے ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے، جو اپنی جان کو ہوا و ہوس کے ہاتھوں بیچ ڈالتے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں، جو ہوا و ہوس سے اپنی جانوں کو خرید لیتے ہیں، یہی لوگ حقیقت میں آزاد ہیں۔"

جدید دور میں غلامی کا تصور
ایک جاہلیت اور غلامی اُس زمانے کی تھی، جب بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ جب حق کے پیغمبرﷺ کی بات کو سننے سے منع کیا جاتا تھا۔ لوگوں کے کانوں میں روئی ٹھونسی جاتی تھی کہ حق بات ان تک نہ پہنچ سکے۔ آج کی ماڈرن جاہلیت اور  غلامی یہ ہے کہ قوموں کے وسائل کو لوٹنے والے، خود ایٹمی توانائی کو غلط استعمال کرکے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو خاک کا ڈھیر بنا دیتے ہیں، لیکن جب اسی ٹیکنالوجی کو کوئی انسانیت کی بھلائی کے لئے استعمال کرے تو اس پر اقتصادی پابندیاں ٹھونسی جاتی ہیں۔ پھر ہر ملک کو دھمکایا جاتا ہے کہ خبردار! جو اس ملک سے کوئی معاہدہ کیا تو خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نہ اس سے گیس لو، نہ تیل اور نہ ہی آزادانہ تجارت۔ یہ غلامی اس طوق و زنجیر کی غلامی سے بدتر ہے۔ اس میں فکریں قید ہیں، عقاید و نظریات پابندِ سلاسل ہیں۔ اس میں ہدایت کا مرکز خانہ ٔخدا نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس ہے۔ کھیل وہی ہے، بس چہرے بدل گئے ہیں۔ یہ ہے ماڈرن جہالت اور جدید اسارت۔

کاروانِ حریت نے دنیا والوں کو پیغام دیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی جابر و ظالم تم سے تمہارا حق چھین لے، تمہیں تمہاری سرزمین سے بے دخل کر دے۔ لیکن جو حقیقی حرُ ہوتا ہے، وہ کبھی حالات کے قدموں میں نہیں جھکتا بلکہ ابنِ زیاد و یزید جیسے فاسق کے دربار میں، اُس کے بیان ببانگ ِدہل گونجتے ہیں۔ اے یزید! تو جتنی چالیں چل سکتا ہے چل لے، جو کوششیں کرسکتا ہے کرلے، لیکن خدا کی قسم! نہ تو ہمارے ذکر کو مٹا سکو گے اور نہ ہی ہماری یاد کو دلوں سے  محو کر سکو گے۔ قیدی وہ نہیں تھے، جنہیں پابند رسن کیا گیا تھا۔ وہ آزاد تھے، کیونکہ ان کے ضمیر آزاد تھے۔ دل آزاد تھے، افکار و اعمال آزاد تھے۔ درحقیقت قیدی تو وہ تھے، جنہوں نے ان آزاد فکر ہستیوں کو پابندِ سلاسل کیا ہوا تھا، کیونکہ وہ ہوائے نفس کے قیدی تھے، شیطان کے قیدی تھے، نفسِ امارہ کے قیدی تھے۔ مقام، منصب اور لالچ کی قید میں تھے۔ حکومت اور عہدے کی قید میں تھے۔

آج بھی جب کشمیر و یمن اور فلسطین کے مظلوموں (جو نہتے ہو کر بھی ظالم کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں) کو دیکھتے ہیں اور ان عرب اور خائن شاہوں کو دیکھتے ہیں کہ جو ظالموں کو ایوارڈ سے نوازتے اور اپنی غلامی کے معاہدے کرتے ہیں۔ جب ایک ویل چیئر پر معذور شخص ظالم صیہونیوں پر پتھر برسا رہا ہوتا ہے اور عرب حکمران  ہاتھوں میں تلوار لئے رقص کر رہے ہوتے ہیں تو یہ دو تصویریں ہمیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ حقیقی آزاد کون ہے اور اصلی قیدی کون۔؟

تحریر: مقدر عباس

 ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے عالمی یومِ مسجد کے اٹھارویں اجلاس میں شرکت کی اور کہا آج کا میڈیا ایمپائر معاشرے میں ناامیدی کا تاثر پھیلانے کے لئے دشمن کا آلہ بنا ہوا ہے اور لوگوں کو دین، اسلامی انقلاب کی اقدار و نظریات  اور جمہوری اسلامی کے نظام سے دور کرنے کے درپےہے۔ تاہم دوسری طرف رہبر معظم انقلاب نے امید آفرینی کے پرچم کو بلند کیا ہوا ہے اور مساجد بھی امید آفرینی کے مراکز کے طور پر رہبر معظم کی سوچ اور موقف کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔

انہوں نے معاشرے میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا وقت پر اور مستحکم جواب دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ائمہ جماعات مساجد میں نماز پڑھانے اور دینی معارف کی ترویج کے ساتھ ساتھ لوگوں کے لئے پیش آنے والے شکوک و شبہات دور کرسکتے ہیں اور معاشرے کی ذہنی گرہیں کھول سکتے ہیں۔ 

صدر رئیسی نے اپنے گفتگو کے دوسرے حصے میں عوام کی تمام مواقع پر  اور مختلف میدانوں میں موجودگی کو اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا اہم ترین عنصر قرار دیا اور کہا کہ ہمارے ملک کی طاقت عوام کے فرد فرد کے سہارے قائم ہے۔  انہوں نے کہا کہ ملک کا مستقبل روشن ہے۔ آج جنگ ارادوں کی جنگ ہے اور ایرانی قوم  ارادہ کر چکی ہے کہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے گی اور یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ایرانی قوم کا مددگار ہوگا۔  

صدر رئیسی نے مزید کہا کہ عوامی حکومت کی عزتمندانہ سوچ کی بدولت بعض ملکوں سے اپنے اچھے خاصے مطالبات منوا چکے ہیں جبکہ کسی بھی اجلاس اور مذاکرات میں قوم کے حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حکومت ملک کی ترقی اور مشکلات  دور کرنے  کے لئے  اپنی کوششوں کو پوری قوت سے جاری رکھے گی۔ ہم عوام کی زندگی کو کسی بھی بیرونی عامل سے نہیں باندھیں گے اور مصمم انداز میں ملک اور عوام کی مشکلات دور کرنے کے لئے کام کرتے رہیں گے۔  

آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے ائمہ جماعات پر مختلف عوامی طبقات کے ساتھ پہلے سے زیادہ رابطہ بڑھانے پر زور دیا اور عوام کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کو انقلاب اور اسلامی نظام کے بنیادی اصولوں میں سے قرار دیا۔ 

انہوں نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ امام جماعت عوام کا محض پیش نماز نہیں ہے بلکہ مسجد کا امام اور عوام کی مشکلات دور کرنے میں پیشرو ہے۔ 

انہوں نے آگاہی پھیلانے اور بصیرت افزائی میں مسجد کی اہمیت اور کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا مسجد عبادت کا مقام ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ثقافتی استقامت اور اسی طرح دشمن شناسی اور دشمن سے بیزاری کے مورچے اور مقام کے طور پر بھی  مؤثر کردار اد ا کرتی رہی ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ہمارے شہدا کا سرچشمہ اور مجاہدین اور سپہ سالاروں کی تربیت کا مقام چاہے دفاع مقدس میں ہو یا حرم اہل بیت ﴿ع﴾ کے دفاع میں، مساجد ہی ہیں۔ لہذا اس اہم مقام کو   ائمہ جماعات، عوام اور حکام کی جانب سے  ہمیشہ عظیم اور برجستہ شمار کیا جانا چاہئے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے پاکستانی میڈیا سے نقل کیاہےکہ مرکزی مجلس عمومی کے اختتامی سیشن سے خطاب  کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ سلمان رشدی کے ساتھ جو ہوا وہ امت مسلمہ کا رد عمل ہے۔ سلمان رشدی کے خلاف سب سے پہلے آواز ہم نے 1988 میں اٹھائی ۔ نیازی بتائے سلمان رشدی پر امریکا میں ہونے والے حملے کو یہاں بلا جواز قرار دینا کس کے اشارے پر ہے ؟

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا گیا کے پی میں مذہب کی جڑیں ختم کرنے کے لیے نیازی کو حکومت دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابر نے فتنوں کا مقابلہ گھروں میں بیٹھ کر نہیں،  بلکہ میدان عمل میں کیا۔ جو شخص کہے کہ اگر نیازی نمرود کو بھی کھڑا کرے تو میں اس کو بھی ووٹ دوں گا ، اس قسم کی باتیں فتنے کی علامت ہیں ۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یوآئی نیازی فتنے پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتی ۔ علما کی جماعت قرآن کریم کے دیے گئے احکامات کو نظر انداز نہیں کرسکتی ۔ پاکستان کی مجموعی سیاست میں تمام مسالک کے علما متفق ہیں۔ ہماری جمہوریت کا تعین ہمارا آئین کرتا ہے ۔

مشرق کی رپورٹ کے مطابق صیہونی تجزیہ نگار تال لو رام نے لکھا کہ اسرائیلی فوج کو مستقبل میں پانچ بڑے چیلنجوں کا سامنا ہوگا جن میں سے پہلا چیلنج ایران ہے۔ صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکہ، اس کے یورپی اتحادیوں اور ایران کے درمیان ایٹمی معاملات پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور ممکن ہے اس معاہدے سے ایران کے سر سے فوجی حملے کا خطرہ ٹل جائے، آج اسرائیل کے پاس ایران پر حملہ کرنے کا کوئی قابل اعتماد  آپشن موجود نہیں ہے لیکن غاصب صیہونی فوج آنے والے سالوں میں ایران سے ممکنہ جنگ کے لئے خاموش طیاری جاری رکھے گی۔

وہ مزید لکھتا ہے: دوسرا چیلنج صیہونی فوج کو اپنے فوجی اداروں میں انسانی فورس کے بحران سے شکار ہونے کا ہے، اعلی افسروں پر اعتماد گزشتہ برسوں میں بہت کم ہوگیا ہے اور اس کے لئے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

تیسرا چیلنج  اور شاید سب سے خطرناک حزب اللہ کا ہے۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لبنان اسرائیل آبی سرحدوں کے معاملے پر حالیہ کشیدگی جاری ہے، کاریش کے تیل کے علاقے میں اسرائیلی فوج  نے مقابلے کے لئے اسپیشل فورسز کی تریبت کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ساتھ ہی فضائیہ کے لئے نئے ہتھیار ہیں اور حزب اللہ سے جنگ کا احتمال کافی زیادہ ہے۔

اس صیہونی تجزیہ نگار کے مطابق چوتھا بڑا چیلنج صیہونی فضائیہ کی کھلم کھلا آزادی کے دور کا خاتمہ ہے۔ مخالف فریق کے پاس فضائی دفاع کی توانائیوں نے اس آزادی کا خاتمہ کر دیا ہے، آج اسرائیل ہمسایوں کی فضائی حدود میں ڈرون طیارہ بھیجتے ہوئے بھی کئی دفعہ سوچتا ہے کیونکہ اس طیارہ کو نشانہ بنائے جانے کی صورت میں  معاملات کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے جو اسرائیل موجودہ صورتحال میں نہیں چاہتا۔

مشرق نے صیہونی تجزیہ نگار کے حوالے سے مزید لکھا کہ صیہونی فوج کو پانچواں بڑا چیلنج غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے ہیں۔ صیہونی فوج نے دراز مدت کے جنگ بندی کی بات کی ہے لیکن شاید یہ صرف ایک آرزو کے طور پر ہی باقی رہ پائے کیونکہ آج مغربی کنارے کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

 فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن محمود الزہار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کی تحریک استقامت کے لئے ایران کی حمایت قابل قدر ہے اور اس وقت ہم  وعد الآخرہ جنگ کے قریب پہنچ چکے ہیں جس کے لئے مسلسل تیاری کی جا رہی ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ تمام عرب و اسلامی اور دنیا کے سبھی ملکوں کے ساتھ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رابطے فلسطین کی آزادی کی کوششوں پر استوار ہیں جبکہ مصر کے ساتھ بھی حماس کے رابطے مکمل واضح ہیں اور یہ کہ مسئلہ فلسطین میں مصر کا کردار بہت اہمیت کاحامل ہے۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن محمود الزہار نے غرب اردن میں صیہونیت مخالف استقامت اور کارروائیوں کے بارے میں بھی کہا کہ غرب اردن کے علاقوں میں فلسطینیوں کی تحریک استقامت ترقی و پیشرفت اور صیہونی حلقوں میں ہلچل مچانے کے اعتبار سے غزہ میں تحریک استقامت کا ہی نمونہ ہے اور ہم غرب اردن  میں استقامت کی تصدیق وحمایت اور ایک وسیع قومی جذبے اور جدوجہد جاری رکھے جانے کی صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
دریں اثنا فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو نذر آتش کئے جانے کی ترپن ویں برسی کے موقع پر کہا کہ مسجد الاقصی کے دفاع کا واحد طریقہ پورے علاقے میں غاصب صیہونی سرطانی غدہ کا صفایا کیا جانا ہے۔

العہد ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کی استقامتی کمیٹیوں نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو بدستور صیہونی سازشوں سے خطرہ لاحق ہے اور اس مسجد کا دفاع متحد ہوکر ہتیھاروں کو استعمال کرکے ہی کیا جا سکتا ہے اور اس کام  کے لئے پورے علاقے سے صیہونی سرطانی غدے کا صفایا کیا جا نا ضروری ہے۔
دریں اثنا فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں کے ترجمان ابو مجاہد نے کہا ہے کہ صیہونی منصوبوں کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے دائرے میں بیت المقدس کے خلاف تیار کی جانے والی سازش کو سمجھتے ہوئے اور اسے ناکام بنانے نیز مسجد الاقصی کو نجات دلانے کے لئے پوری امت مسلمہ کو چاہئے کہ متحد ہواور غاصب صیہونی حکومت کی ساری سازشوں اور منصوبوں پر پانی پھیر دے۔
فلسطینیوں کی استقامتی کمیٹیوں کے ترجمان نے غزہ و غرب اردن، بیت المقدس اور مقبوضہ علاقوں میں موجود تمام فلسطینیوں سے اپیل کی ہے کہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد الاقصی کو بچانے کے لئے وسیع پیمانے پر میدان عمل میں اپنی موجودگی سے زمان و مکان کے لحاظ سے مسجد الاقصی کی تقسیم سمیت ساری سازشوں کو ناکام بنادیں۔ 

اسلامی جمہوریہ ایران ایک حساس جغرافیائی پوزیشن کے حامل اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے جس کی خاطر مغربی ممالک نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اس جیوپولٹکس علاقے پر اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے ایران میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کی ہے۔

28 مرداد 1332 شمسی ( 19 اگست 1953ء) میں ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت بھی ملک میں مغربی ممالک کی مداخلت کی ایک واضح ہے مثال ہے اور اس کا مقصد ڈاکٹر مصدق کی برطرفی اور بغاوت کے ایجنٹ فضل اللہ زاہدی کے عہدہ سنبھالنا تھا۔

اگرچہ یہ بغاوت پہلے ہی کامیاب نظر آئی لیکن 1357 شمسی سال میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس طرح کی کوششیں ناکام ثابت ہوگئیں اور ایرانی عوام نے قومی خودمختاری حاصل کرکے اسلامی جمہوریہ ایران مکمل آزادی کی راہ پر گامزن ہوا۔

رپورٹ کے مطابق 1324 شمسی سال میں ایران کی چودھویں قومی اسمبلی میں ایک ایسا قانون منظور کیا گیا جس کے تحت حکومت کو پارلیمنٹ کے ساتھ بغیر مشاورت کے خام تیل کے حوالے سے غیر ملکیوں کیساتھ مذاکرات کرنے کی اجازت نہیں دیا گیا۔

یہ قانون ایرانی تیل کا نیشنلائزیشن اور ایران کے تیل کے ذخائر پر غیر ملکی ممالک بالخصوص برطانیہ کے تسلط کو ختم کرنے کا پہلا قدم تھا۔

برطانیہ نے اس اقدام سے ناراض ہوکر عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کیخلاف مقدمہ چلایا لیکن اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق نے ان دونوں تنظیموں میں ایران مخالف برطانوی مقدمے کیخلاف اچھے انداز میں دفاع پیش کیا اور اسی طرح برطانیہ کا اس اقدام کو شکست کا سامنا ہوا۔

دراین اثنا لندن اور واشنگٹن نے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک ایسے وقت جب اسلامی جمہوریہ ایران، ملک کے قدرتی وسائل پر اپنے تسلط کو مکمل کرنے کیلئے تیل کا نیشنلائزیشن کی کوشش کر رہا تھا 19 اگست 1953ء میں برطانیہ کے خفیہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (ایس آئی ایس) اور امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) کے زیر حمایت "آژاکس" کاروائی کے تحت ایرانی حکومت کیخلاف بغاوت کیا گیا.

امریکہ اور برطانیہ نے ایرانی حکومت کیخلاف اس بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عملی جامہ پہنانے کیساتھ اسلامی جمہوریہ ایران میں یک نو آبادیاتی نظام حاکم کرنے کی کوشش کی تا کہ اس طرح ایرانی تیل کے ذخائز سمیت ایران کے جیوسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل پوزیشن پر بھی قابو پالیں۔

لیکن 11 فوریہ 1979 ( 22 بہمن 1357ء) میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے برطانیہ اور امریکہ کے سارے خوابوں کو برباد کرتے ہوئے ایران میں ان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مداخلت کو خاتمہ دے دیا اور اسلامی جمہوریہ ایران ایک بار پھر آزادی کی راہ پر گامزن ہوا اور ایرانی عوام کو بھی قومی خودمختاری حاصل ہوئی۔

آژاکس کاروائی ایران کیخلاف امریکی اور برطانوی سیاسی اقدامات کے سیاہ کارنامہ کا ایک شیٹ ہے جو کبھی ایرانی عوام کی یادوں اور تاریخ کی یادداشت سے نہیں مٹ جائے گا۔

عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

 

اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔

 

دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:

 

” المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ” یعنی عورت پھول کی مانند ہے “قہرمان” نہیں۔

 

“قہرمان” یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔

 

یہ جو بعض افراد شادی سے پہلے شرط رکھ دیتے ہیں کہ عورت ملازمت پیشہ ہو، اس کی اپنی آمدنی اور کمائی ہو، بالکل غلط ہے۔ البتہ خلاف شریعت تو نہیں ہے لیکن اسلام اس چیز کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ اسلام نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے جس کو اساس بناکر ہم عورت کو معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روک دیں لیکن دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو محنت شاقہ اور طاقت فرسائی کی متقاضی سیاسی و سماجی و معاشی سرگرمیوں میں لگا دیا جائے۔ اسلام کا نظریہ اعتدال پسندانہ ہے۔ یعنی عورت کے پاس اگر فرصت ہے، بچوں کی پرورش اس کی راہ میں حائل نہیں ہو رہی ہے، اس میں شوق و دلچسپی اور جسمانی طاقت و توانائی بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور معاشی امور میں حصہ لینا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کر دیا جائے اور اسے حکم دیا جائے کہ جاؤ جیسے بھی ممکن ہو روزگار تلاش کرو اور یومیہ اتنا کام کرو تاکہ اس آمدنی سے گھر کے خرچ کا کچھ بوجھ تم اٹھاؤ، تو یہ مناسب نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو ہرگز اس کا حکم نہیں دیا ہے۔ اسے عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔

 

میں خاندانوں سے یہ سفارش کروں گا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی ماں باپ دینداری کے جذبے کے نام پر اپنی لڑکی کو اعلی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیں! نہیں، دین نے ہرگز یہ بات نہیں کہی ہے۔ دین کی نظر میں تعلیم کے لحاظ سے لڑکے اور لڑکی میں کوئي فرق ہی نہیں ہے۔ اگر لڑکا اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے تو لڑکی بھی اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ نوجوان لڑکیوں کو چاہئے کہ تعلیم حاصل کریں، علم کی منزلیں طے کریں، معلومات میں اضافہ کریں۔ اپنی اہمیت اور مقام و منزلت سے آگاہ ہوں اور اپنی قدر و قیمت کو سمجھیں، تاکہ انہیں یہ پتہ چلے کہ عورت کے سلسلے میں عالمی استکبار کے پروپیگنڈے کتنے کھوکھلے اور بے بنیاد ہیں۔ تعلیم کے ذریعے ان چیزوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

سوم: عورت کو خاندان اور کنبے کی ایک رکن کی حیثیت سے دیکھنا۔ یہ سب سے اہم اور با ارزش ہے۔ اسلام میں مرد کویہ اجازت نہیں ہے کہ عورت سے جبر و اکراہ کا برتاؤ کرے اور اس پر کوئي چیز مسلط کر دے۔ خاندان کے اندر مرد کے لئے محدود حقوق رکھے گئے ہیں جو در حقیقت بڑی حمکت آمیز بات ہے۔ یہ حقوق جس کے سامنے بھی رکھے اور بیان کئے جائیں، وہ اس کی حمایت او تائید کرے گا۔ اسی طرح عورت کے لئے بھی خاندان کے اندر کچھ حقوق رکھے گئے ہیں اور ان میں بھی بڑی مصلحت اندیشی پوشیدہ ہے۔ مرد و زن دونوں کے اپنے مخصوص جذبات، مزاج، اخلاق اور خواہشات ہیں۔ وہ دونوں اگر اپنے اپنے جذبات اور خواہشات کے مطابق صحیح طور پر عمل کریں تو گھر میں بڑا اچھا ہم آہنگ اور ایک دوسرے کے لئے سازگار جوڑا وجود میں آ جائے گا۔ اگر مرد زیادتی کرتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے، اسی طرح عورت کوئی زیادتی کرے تو اس سے بھی توازن ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام گھر کے اندر مرد اور عورت کو دروازے کے دو پلوں، چہرے کی دو آنکھوں، محاذ زندگی کے دو مجاہدوں اور ایک دوکان میں کام کرنے والے دو رفقائے کار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ ان میں ہر ایک کا اپنا مزاج، اپنی خصوصیات، اپنی خصلتیں ہیں۔ جسمانی لحاظ سے بھی، روحانی لحاظ سے بھی، فکری لحاظ سے بھی او جذبات و خواہشات کے اعتبار سے بھی۔ یہ دونوں صنفیں اگر ان حدود اور معیاروں کی پابندی کرتے ہوئے جس کا تعین اسلام نے کیا ہے ایک ساتھ زندگی بسر کریں تو ایک مضبوط، مہربان، با برکت اور انتہائی کارآمد کنبہ معرض وجود میں آئے گا۔

 

اسلام ان مردوں کو جو اپنی جسمانی یا مالیاتی قوت کے بلبوتے پر عورتوں سے اپنی خدمت لیا کرتے تھے، عورتوں کو بسا اوقات اہانت اور تحقیر کا نشانہ بناتے تھے، ان کی حدود دکھائیں اور عورت کو اس کی حقیقی منزلت پر پہنچایا اور بعض چیزوں کے لحاظ سے اسے مرد کے برابر قرار دیا۔ “ان المسلمین و المسلمات و المؤمنین و المؤمنات” مسلمان مرد، مسلمان عورت، عبادت گزار مرد، عبادت گزار عورت، شبوں میں عبادت کرنے والے مرد اور راتوں کو جاگ کر عبادتیں کرنے والی عورتیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام میں یہ تمام معنوی و روحانی مقامات اور اعلی انسانی درجات مرد اور عورت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے عورتیں بھی مردوں کے برابر ہیں۔ جو بھی اللہ کے لئے کام کرے گا “من ذکر او انثی” خواہ وہ مرد ہو کہ عورت ” فلنحیینھ حیاتا طیبۃ” (ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے)

 

اسلام نے بعض مقامات پر عورتوں کو مردوں پر ترجیح تک دی ہے۔ مثال کے طور پر ایک مرد اور ایک عورت کسی بچے کے ماں باپ ہیں اور یہ بچہ دونوں کا ہے لیکن اولاد کے لئے ماں کی خدمت کرنا زیادہ لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اولاد کی گردن پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے اولاد کے فرائض زیادہ سنگین ہیں۔ پیغمبر اسلام نے اس سوال کے جواب میں کہ ” من ابر” میں کس کے ساتھ بھلائی اور نیکی کروں؟ فرمایا ہے کہ “امک” یعنی اپنی ماں کے ساتھ۔ آپ نے دوبارہ اس کی تکرار کی اور تیسری بار بھی یہی جملہ دہرایا۔ جب پوچھنے والے نے چوتھی دفعہ یہی سوال کیا تب آپ نے فرمایا کہ ” اباک” یعنی اپنے باپ کے ساتھ۔ بنابریں خاندان میں بچوں پر ماں کا حق زیادہ ہے اور ماں کے تعلق سے بچوں کے فرائض بھی زیادہ ہیں۔ البتہ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو بعض دیگر افراد پر (بے سبب) ترحیج دے دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت زیادہ محنت و مشقت کرتی ہیں۔ یہ عدل الہی کا تقاضا ہے۔ جس کی زحمتیں زیادہ ہیں اس کا حق بھی زیادہ ہے۔ چونکہ (ماں) زیادہ مشقتیں برداشت کرتی ہے اس لئے اس کی قدر و منزلت بھی بالاتر ہے۔

 

یہ سب عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ مالیاتی امور میں، کنبے کے حق کے سلسلے میں، خاندان کی سرپرستی کے سلسلے میں اور گھر کے امور کو چلانے کے تعلق سے اسلام کی روش بڑی متوازن روش ہے۔ ان امور میں بھی اسلامی قانون نے ایسا بندو بست کیا ہے کہ مرد یا عورت کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم و زیادتی نہ ہو۔ اس نے مردوں کے حقوق بھی معین کر دئے ہیں اور عورتوں کے حقوق کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایک چیز مرد کے پلڑے میں ڈالی ہے تو دوسری چیز عورت کے پلڑے میں رکھی ہے۔ جو لوگ صاحب نظر ہیں اگر وہ غور کرتے ہیں تو ان حقائق کو باقاعدہ محسوس بھی کرتے ہیں اور انہوں نے کتابوں میں یہ چیزیں لکھی بھی ہیں۔

 

اسلام کی نظر میں جنس یعنی مرد یا عورت ہونا موضوع بحث نہیں بلکہ ارتقاء انسانی پر گفتگو کی گئی ہے، اخلاق انسانی کو موضوع گفتگو بنایا گيا ہے، صلاحیتوں کو نکھارنے کی بات کی گئی ہے، ان فرائض کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق کسی بھی جنس سے ہو سکتا ہے۔ البتہ اس کے لئے مزاج سے آشنائی ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت دونوں کے مزاج کو بخوبی پہچانتا ہے۔ اسلام کی نظر میں سب سے اہم ہے توازن کا برقرار رہنا، یعنی انسانوں بشمول مرد و زن، کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل پابندی۔ حقوق کی برابری موضوع گفتگو ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ بعض مقامات پر عورتوں اور مردوں کے سلسلے میں احکام مختلف ہوں۔ بالکل اسی طرح، جس طرح عورت اور مرد کے مزاج بعض خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں مرد اور عورت سے متعلق زیادہ سے زیادہ حقائق فطری خصائل اور طینت اور نفسیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔