سلیمانی

سلیمانی

 جو چیز معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرے اور انسان کو سیر وسلوک سے روکے اور کمال میں رکاوٹ بنے وہ اجتماعی گناہ شمار ہوگا۔

انسان جو ایک معاشرے میں یکجا بسر کرتے ہیں انکو جان، مال اور آبرو کی سلامتی کی ضرورت ہوتا ہے اور جو چیز امن و سکون کو برباد کرے وہ گناہ ہے، قتل، تشدد و ظلم، سقط جنین اور اغوا وغیرہ سب اجتماعی گناہوں میں شامل ہیں جس کی طرف سورہ نسا میں اشارہ کیا گیا ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک انسان کو حق نہیں کہ وہ دوسرے کا قتل کرے پھر کہا گیا ہے کہ فقر کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل مت کرو چاہے وہ پیدا ہوا ہو یا شکم مادر میں ہو۔

لوگوں کے امن و امان میں خلل بھی اجتماعی گناہوں کا حصہ ہے بعنوان نمونہ قرآن کریم چوری کو ایک گناہ قرار دیتا ہے اور اسی طرح سورہ بقرہ میں سود خوری کو اجتماعی گناہ کہا گیا ہے اور خدا نے اس سے روکا ہے، زخیرہ اندوزی، کم فروشی، قمار و جوا سب ایسے گناہ ہیں جو سورہ نساء میں انکا تذکرہ کیا گیا ہے اور رب کریم نے ان سے روکا ہے کیونکہ یہ اقتصادی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔

ایسے گناہ جو زبان سے سرزد ہوجائے جیسے تہمت، مسخرہ کرنا، غیبت جھوٹ بولنا ، تجسس کرنا، راز فاش کرنا سب زبان کے گناہ میں آجاتے ہیں اور اجتماعی گناہ ہیں، دوسروں کی آبروریزی، سخن چینی، زنا اور ناجایز تعلقات سب اجتماعی گناہوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اجتماعی گناہوں کا اثر جسم و روح دونوں پر ہوتا ہے، عقیدے میں سست ہونا اور اصلی ویلیوز کی تباہی، گناہوں کا عام ہونا، حرمت پامال ہونا، خاندانی زندگی کا برباد ہونا سب اجتماعی گنا کے نتائیج میں شامل ہیں۔/

مہدی صفری جنہوں نے ترکمانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اس ملک کا سفر کیا ہے، کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو مضبوط بنانا 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 17 سے 19 اگست تک اسلام آباد میں ایران اور پاکستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اکیسواں اجلاس انعقاد کیا جائے گا اور اس کمیشن میں مختلف شعبوں بشمول تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن، بجلی اور توانائی، تیل و گیس، کسٹم، بینکنگ اور فنانس، صحت پر تبادلہ خیال جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین اس اجلاس کے موقع پر تجارتی، معیاری، کھیل، سمندری تعاون کے پانچ سالہ پروگرام کے شعبوں میں دو طرفہ دستاویزات پر دستخط کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مشترکہ کمیشن ایرانی وزارت سڑک اور شہری ترقی اور پاکستانی وزارت خزانہ کے تعاون سے منعقد ہو گا۔

دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کا 20 واں اجلاس اپریل 2017میں تہران میں منعقد ہوا فریقین نے حتمی دستاویز پر دستخط کیے۔

مہدی صفری جنہوں نے ترکمانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اس ملک کا سفر کیا ہے، کہا کہ پڑوسیوں کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات کو مضبوط بنانا 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 17 سے 19 اگست تک اسلام آباد میں ایران اور پاکستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اکیسواں اجلاس انعقاد کیا جائے گا اور اس کمیشن میں مختلف شعبوں بشمول تجارت، سرمایہ کاری، ٹرانزٹ اور ٹرانسپورٹیشن، بجلی اور توانائی، تیل و گیس، کسٹم، بینکنگ اور فنانس، صحت پر تبادلہ خیال جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ فریقین اس اجلاس کے موقع پر تجارتی، معیاری، کھیل، سمندری تعاون کے پانچ سالہ پروگرام کے شعبوں میں دو طرفہ دستاویزات پر دستخط کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ مشترکہ کمیشن ایرانی وزارت سڑک اور شہری ترقی اور پاکستانی وزارت خزانہ کے تعاون سے منعقد ہو گا۔

دونوں ممالک کے مشترکہ کمیشن کا 20 واں اجلاس اپریل 2017میں تہران میں منعقد ہوا فریقین نے حتمی دستاویز پر دستخط کیے۔

میدانِ مشرق وسطیٰ میں ایران اور چین کیساتھ محاذ آرائی میں امریکہ کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن کے دورہ مشرق وسطیٰ میں کہیں سے بھی امریکی صدر کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نہیں ملا۔ جو بائیڈن کو سعودی عرب سے بڑی اُمیدیں تھیں، مگر شائد سعودی قیادت زمینی حقائق اور امریکہ کے گمراہ کن پروپیگنڈے سے آشنا ہوچکی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار امریکہ کا عربوں کو ایران سے ڈرانے کا "چورن" فروخت نہیں ہوا۔ ایک ماہ بعد جو بائیڈن کے دورہ مشرقِ وسطیٰ کی ناکامی کے چرچے ابھی تک چینی میڈیا میں ہیں۔ جو بائیڈن کے اس ناکام دورے سے ایک چیز تو واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ کا خطے میں اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ جہاں عربوں کو ایران اور چین کی دفاعی قوت سے ڈرا کر اپنا اسلحہ فروخت کیا کرتا تھا، اب اس بار جو بائیڈن کا یہ ڈرامہ "فلاپ" ہوگیا ہے اور اس بار پہلی مرتبہ عربوں نے امریکی مشورے پر ایران سے ڈرنے سے انکار کر دیا ہے۔

امریکہ کے کچھ مطالبات ایسے تھے، جن سے اس کی مفاد پرستی بے نقاب ہوئی۔ مثال کے طور پر امریکہ تیل کے بحران سے دوچار ہے اور سعودی عرب نے امریکی مطالبے پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، جو امریکہ کی ناکامی ہے۔ چینی تجزیہ کار تو اسے امریکہ کی خود غرضی اور منافقت سے تعبیر کر رہے ہیں۔ امریکہ ایران کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ روکنے اور ریاض کو تیل کی پیدوار بڑھانے کیلئے آمادہ کرنے میں بُری طرح ناکام رہا ہے اور امریکی صدر کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جو بائیڈن بہت سی امیدیں لے کر دورے پر آیا تھا، مگر اسے اس دورے نے اپنی حیثیت کا احساس دلا دیا ہے۔ دیکھا جائے تو امریکہ کی مشرق وسطیٰ کیلئے پالیسی خطے کی بہتری کیلئے نہیں، بلکہ انتشار پھیلانے کی پالیسی ہے۔

امریکہ کی کوشش تھی کہ خطے میں چین کے مخالفین پیدا کئے جائیں، لیکن اس میں امریکہ کو اس لئے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ چین کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، چین کسی ملک کی رجیم جینج کیلئے سازشوں کے جال نہیں بنتا، چین اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے جنگیں کاشت نہیں کرتا۔ چین کسی ملک سے اپنی خواہشات کے مطابق کام کرنے کا تقاضا نہیں کرتا، چین ہمیشہ دو طرفہ مفادات کے معاہدے کرتا ہے، اگر کسی ملک سے فائدہ لیتا ہے تو اس ملک کو فائدہ پہنچاتا بھی ہے۔ چین نے آج تک کسی ملک پر اقتصادی پابندی لگا کر وہاں کے عوام پر عرصہ حیات تنگ نہیں کیا۔ جب جو بائیڈن ریاض میں بیٹھ کر چین اور ایران کیخلاف لفظی گولہ باری میں مصروف تھا، عین اس وقت سعودی عرب کے وزیر خارجہ سی این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ امریکہ اور چین میں سے کسی کو ایک دوسرے پر فوقیت نہیں دیتے۔ دوسرے لفظوں میں سعودی عرب نے واضح پیغام دیدیا کہ جتنا احترام ہم امریکہ کو دیتے ہیں، اتنا ہی چین کو بھی دیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی صورتحال بدل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یو اے ای بھی اسرائیل کو تسلیم کرکے پچھتا رہا ہے۔ یو اے ای کے خارجہ امور کے مشیر انور قرقاش کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایران کیساتھ کشیدگی کم کرنا اور اقتصادی امور میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔ یو اے ای کو احساس ہوا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرکے، یہاں اسرائیلی مراکز بنا کر انہوں نے اپنی خود مختاری گروی رکھ دی ہے۔ جس پر اب یو اے ای کے حکام نادم بھی ہیں اور پریشان بھی۔ یو اے ای چاہ رہا ہے کہ ایران کیساتھ تعلقات بہتر کرنے کا کوئی پلیٹ فارم ملے تو وہ اس سے استفادے کیلئے تیار ہے۔ یو اے ای ایران کیساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرنا چاہتا ہے اور انور قرقاش نے اس انٹرویو میں یہ بھی واضح کیا کہ وہ ایران کیخلاف خطے میں بننے والے کسی مخالف بلاک یا اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یو اے ای کی جانب سے یہ ایک اشارہ تھا کہ  اس کا جھکاو اب ایران کی طرف ہو رہا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کچھ سعودی عرب میں بھی دکھائی دے رہی ہے۔

امریکہ اس وقت چین کے خوف کا شکار ہے، چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیتوں اور ایران کیساتھ بیجنگ کی قربتوں نے واشنگٹن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ مغربی ماہرین امور خارجہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بچانے کیلئے کبھی روس کو یوکرائن سے لڑاتا ہے تو کبھی چین کے مدِمقابل تائیوان کو ہلہ شیری دیتا ہے۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ چین کو خطے میں ہی مصروف کر دے۔ مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ امریکہ کی سامراجی سوچ کا سورج اب غروب ہونیوالا ہے۔ چین دفاع سمیت کئی شعبوں میں امریکہ پر غلبہ حاصل کرچکا ہے، جبکہ امریکہ کی اقتصادی پابندیاں روس اور ایران کا بھی کچھ نہیں بگاڑ پائیں، بلکہ دونوں ملک ماضی کی نسبت زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہوئے ہیں۔ ایران، روس اور چین امریکی سازشوں کے باوجود معاشی طور پر مستحکم ہوئے ہیں اور ان کے مقابلے میں امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک میں مہنگائی، بے روز گاری اور کساد بازاری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

امریکہ جن ملکوں کو تنہا کرنے چلا تھا، وہ آج بھی مستحکم ہیں، کویت نے چھ سال بعد ایران سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ عراق اور شام بھی ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ روس کیساتھ بھی ایران کے تعلقات مضبوط ہیں اور چین بھی اس ساری صورتحال میں اہم کھلاڑی ہے۔ یہ بلاک مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ کمزور اور تنہا ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ظلم کا سورج غروب  ہو رہا ہے۔ دنیا اب سازشوں اور سامراجیت کے چُنگل سے آزاد ہو رہی ہے۔ سویرا بہت قریب ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

قرآن کریم کا پچیسواں سورہ «فرقان» ہے یہ مکی سورہ ترتیب نزول کے حوالے سے بیالیسواں سورہ ہے جو قلب رسول گرامی پر نازل ہوا ہے اس سورہ میں 77 آیات ہیں۔

«فرقان» کا معنی حق سے باطل کو جدا کرنا ہے اور اس سورہ میں توحید، معاد، نبوت اور بت پرستی سے مقابلے پر تاکید کی گیی ہے اور آخری آیات میں حقیقی مومین کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔

سوره فرقان کو موضوع کے حوالے سے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

پہلے حصے میں مشرکوں کی دلیل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو بھانہ بازی سے حق کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں اور انکو عذاب بارے انتباہ کیا گیا ہے اور اس حوالے سے گذشتہ اقوامی سرگذشت پر اشارہ ہوا ہے جو پیغمبروں کی دعوت کو رد کرنے کی وجہ سخت عذاب میں گرفتار ہوئیں۔

دوسرے حصے میں توحید اور خدا کی عظمت کی نشانیوں اور کاینات میں سورج کی روشنی، رات کی تاریکی، ہوا چلنے، نزول باران، زمینیوں کے زندہ ہونے اور سیاروں اور ستاروں کے نظم و ضبط پر بات کی گئئ ہے۔

اہم حیرت انگیز چیزوں میں سے ایک آیت 53 ہے جہاں فرمایا گیا ہے: « وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَ هذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا: اور اس نے موجیں مارتے سمندر کو رواں کیا ایک میٹھا اور دوسرا نمکین اور ان میں ایک مانع قرار دیا۔

اس آیت میں دنیا کے اہم معجزے کی نشاندہی کی گیی ہے جب کہ آیات 19 سوره الرحمن اور آیت 61 سوره نمل میں نیز اس دو سمندر کے بارے میں بات ہوئی ہے. اس کی خصوصیات کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ دریائے بالٹیک شمالی دریا جو ڈنمارک کے سیاحتی شہر اسکاگن میں واقع ہے یہاں پر موجود ہے جب کہ میڈیٹرانہ اور بحر اطلس میں بھی یہ خصوصیات موجود ہیں۔

تیسرے حصے میں حقیقی مومنین کی صفات یا خصوصیات کا ذکر ہے اور انکو متعصب کفار کے برابر روبرو قرار دیا گیا ہے ان خصوصیات میں عقیدہ، عمل صالح، شہوت پرستی سے مقابلہ، آگاہی، عہد اور ذمہ داری کا احساس شامل ہے۔/

 مجلس وحدت مسلمین کے مرکزہ رہنماء سید محمد رضا (آغا رضا) نے پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ آج 14 اگست ہے، یعنی یوم آزادی، اور محرم کا مہینہ بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کا پیغام بھی آزادی ہے، انہوں نے ہمیں حریت کا درس دیا ہے۔ ظلم کے مقابلے میں کسی بھی صورت تسلیم نہ ہونا، آزادی کی جدوجہد جاری رکھنا اور آزادی ملنے کے بعد اس کی حفاظت کرنے کا لازوال عملی درس بھی کربلا سے اور پھر کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک بے سروسامانی اور اسیری میں سفر کرنے والوں نے ہی دیا ہے۔ ہر سال چودہ اگست ہمیں اپنے آباؤ اجداد، بزرگوں اور اسلاف کی یاد دلاتا ہے۔

جنہوں نے وطن عزیز کے حصول کیلئے بے بہا قربانیاں دیں۔ پاکستان ہمیں یوں ہی نہیں ملا، بلکہ آزادی کے بدلے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال، عزت و آبرو تک کو قربان کیا۔ ہمارے آباؤ اجداد تو اس سبق کو نہیں بھولے، لیکن ہمارے دلوں سے آزادی کی قدر و منزلت وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گئی۔ کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت ہمارے لئے درس حریت و آزادی ہے۔ یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے۔ کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدار رکھا جائے، تاکہ جہالت و گمراہی کے پروردہ لوگ دوبارہ کربلا بپا کرکے ظلم کی داستانیں رقم کرنے کا سوچ بھی ناسکیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مریوان شہر کے امام جمعہ اور اہلسنت عالم دین نے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ بدنام زمانہ اور گستاخ رسول رسلمان رشدی کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: ایک مسلم نوجوان کا مرتد سلمان رشدی پر حملہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی امام خمینیؒ کا اہم اور تاریخی فتویٰ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

مریوان شہر کے امام جمعہ نے مزید کہا: قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) کی توہین کرنے والے شخص کے خلاف اس نوجوان کا جان لیوا حملہ ان لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہے جو کسی بھی بہانے مسلمانوں کے عقائد کی توہین کرتے ہیں۔

ارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 2001 میں نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں اور اسی سال 11 ستمبر کو پینٹاگون کو ہونے والے شدید نقصان کے بہانے افغانستان پر حملہ کیا۔ امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے عناصر کو تلاش کرنے اور ان کے طالبان حامیوں کا تختہ الٹنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، لیکن 21 سالہ حملے نے افغانستان کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی ڈھانچے کو تباہ کر دیا۔ اس طرح امریکی افواج کو 15 اگست 2021 کو جنگ زدہ ملک سے انخلا کرنا پڑا۔

گزشتہ سال اگست کے اوائل میں مختلف صوبوں میں طالبان کی افواج کی تیزی سے پیش قدمی نے نہ صرف علاقائی اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں بلکہ امریکی اور افغان سیاستدانوں میں بھی شدید صدمہ پہنچایا۔

پھر، افغانستان کے سابق صدر محمد اشرف غنی کے متنازعہ فرار کے صرف 48 گھنٹے بعد، 13 اگست کو صوبہ ہرات کے سقوط پر بات کرنے کے لیے مختلف اعلیٰ حکام نے ان سے ملاقات کی، جب تمام اعلیٰ عہدے داروں نے اس صورت حال پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کیے اور وہ فوجیوں کا طالبان سے لڑنے سے انکار حیران رہ گئے۔

بعد ازاں اشرف غنی نے ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ افغانستان میں امریکی سفیر زلمای خلیل زاد نے تمام افغان سیاست دانوں کو تقسیم کر دیا۔

افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (سیگار) نے گزشتہ افغان حکومت کے آخری دنوں پر ایک رپورٹ جاری کی، جس میں اس وقت کے ایک اعلیٰ عہدے دار کے حوالے سے کہا گیا کہ کسی نے بھی دارالحکومت کابل کے دفاع کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس دن صدر غنی نے اجلاس کے شرکاء پر زور دیا کہ وہ دلائل بند کریں اور طالبان کے دارالحکومت تک پہنچنے پر توجہ دیں اور انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا کہ افغان حکومت طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے مزاحمت کرے گی۔

غنی کو توقع تھی کہ کابل حکومت کو آسانی سے سونپنے کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگلے دو ہفتوں میں طالبان کے خلاف کھڑا ہو جائے گا، لیکن طالبان کی پیش قدمی واپس نہیں جا سکی۔

سابق افغان عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بھی بتایا کہ بعض اعلیٰ حکام اب بھی یہ سوچ رہے تھے کہ طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ بین الاقوامی افواج کے انخلا تک دارالحکومت میں داخلے کو روک دیا جائے لیکن طالبان نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، شہر میں داخل ہوا.

ممتاز امریکی صحافی اور تجزیہ کار ڈیویڈ ایگناٹیوس نے 21 دسمبر 2021 کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی بدترین غلطی افغانستان سے انخلاء کا مؤثر انتظام تھا اور بائیڈن طویل ترین امریکی جنگ کو ختم کرنا چاہتے تھے، لیکن یہ عمل امریکہ کے وقار کے لیے مہنگا تھا۔

نیویارک ٹائم نے 22 ستمبر 2021 کو رپورٹ کیا کہ بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے لیکن امریکی جنگیں ابھی بھی جاری ہیں۔

گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں، بائیڈن نے الزام لگایا کہ گزشتہ 20 سالوں میں پہلی بار، امریکہ کسی جنگ میں شامل نہیں ہوا۔ تاہم، حقیقت میں تقریر سے صرف ایک دن پہلے، ایک امریکی ڈرون نے شمال مغربی شام میں ایک دور دراز سڑک پر ایک کار کو نشانہ بنایا اور اس موقع سے تین ہفتے قبل، امریکی فوج نے صومالیہ میں الشباب گروپ پر حملہ کیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق افغانستان میں شاید امریکی فوجی دستے موجود نہ ہوں لیکن امریکی جنگیں اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تباہی مچا رہی ہیں۔

بائیڈن نے جون میں کانگریس کو ایک خط بھیجا، جس میں ان تمام ممالک کا نام دیا گیا جہاں امریکہ کی فوج ہے یا فوجی آپریشن جاری ہے۔ خط کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 40 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ صدر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی فوج افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کے خلاف مستقبل میں آپریشن کرنے جا رہی ہے۔

درحقیقت، امریکہ کے فوجی فیصلہ سازوں نے شمالی افریقہ، ایشیا اور دیگر مقامات پر داعش سے وابستہ گروہوں کے ظہور کے بہانے کچھ آپریشن جاری رکھنے کے بہانے ڈھونڈ لیے ہیں۔

افغانستان سے امریکی انخلاء کے ایک سال بعد، بائیڈن اب بھی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے شعلے کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی صدارت کو بچانے کی راہ ہموار کر سکیں اور آئندہ کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جیت میں مدد کریں۔ لہذا، اس نے 2 اگست کو اعلان کیا کہ امریکہ نے 31 جولائی 2022 کو القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکی بیان باز ہمیشہ اپنی حکومت کی بقا کو دنیا بھر میں گرمجوشی پیدا کرنے والی پالیسیوں سے جوڑتے ہیں، اور تاریخی ناکامیوں کے تلخ تجربات ان کے نئے تنازعات کو جنم دینے کے شوق کو نہیں روک سکتے.

 

برطانوی میگزین (سان) نے کہا ہے کہ انگلینڈ میں خشک سالی کی وراننگ کے بعد، بہت سے برطانوی عوام نے وحشت میں آکر پانی خریدنے کیلئے اسٹورز کا رخ کیا جس کے نتیجے میں ایک چین اسٹور، پانی کے راشن دینے پر مجبور ہوگیا۔

اس چین اسٹور کی ایک ذیلی شاخ (Aldi) نے ایک اعلانیہ میں کہا ہے کہ شدید گرمی کی وجہ سے صارفین کی پانی خریدنے کی مانگ میں اضافے کے پیش نظر ہر کوئی فرد صرف پانچ پانی کے بوٹل کو خرید کرسکتا ہے۔

اس علانیہ میں اس اسٹور نے بحرانی صورتحال میں موجودہ پابندیوں کے پیش نظر، اپنے صارفین کو اس صورتحال کو سمجھنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی دعوت دی ہے۔

برطانوی عوام کی خشک سالی کی وراننگ کے بعد پانی خریدنے کی رش

اسکای نیوز کی رپورٹ کے مطابق اور برطانوی محکمہ موسیمات کے تجزیات اور اعداد و شمار کے مطابق، رواں عیسوی سال کے ابتدا سے جون تک اکثر علاقوں میں کل بارش میں 1836میں ریکارڈ کی گئی اوسط کے مقابلے میں نمایاں کمی نظر میں آئی ہے۔

ڈیلی میل ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں برطانیہ میں شدید گرمی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بروز ہفتے کو اس ملک کے عظیم حصے میں خشک سالی کی وراننگ دی گئی ہے اور اس حوالے سے گھروں کے لیے راشن اور نل کے پانی کے استعمال پر پابندی جیسے اقدامات کا نفاذ کیا جائے گا۔

اسی رپورٹ کے مطابق، اس شدید گرمی اور خشک سالی، آئندہ عیسوی سال تک جاری ہوسکتی ہے اور برطانیہ کے جنوب اور مشرق میں واقع شدید گرمی کا شکار بعض پانی تیار کرنے والی کمپنیاں، وسائل کی بچت سمیت لاگت کی بچت کے مزید اقدامات کرنے پر مجبور ہوں گے۔

تہران، ارنا - ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کو جان لینا چاہیے کہ ایرانی قوم کے خلاف دھمکی کی زبان استعمال کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

یہ بات حسین امیرعبداللہیان نے ہفتہ کے روز اپنے ٹوئٹر پیج میں کہی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ نے امریکہ کو یہ سکھایا ہوگا کہ ایران اور ایرانیوں کے خلاف دھمکی کی زبان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
امیرعبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ انحراف کی فضول کوششیں امریکہ کو ہمارے خطے میں دہشت گردی کے جرائم میں ملوث ہونے کے ہزاروں ایرانیوں اور دیگر متاثرین کی ذمہ داری سے بچنے کی اجازت نہیں دے گی۔