سلیمانی

سلیمانی

رہبر انقلاب اسلامی کا یہ پیغام مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر کے دفتر کے چیف آف اسٹاف محمد شیرازی نے صوبوں کے مراکز میں رضاکار فورس کے اداروں اور رضاکار فورس کے مختلف طبقات سے ویڈیو کانفرنس سے خطاب میں پڑھ کر سنایا۔

رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛

بسم الله الرّحمن الرّحیم

رضاکار فورس مرحوم امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی عظیم اور درخشاں یادگار، قومی اقتدار اعلی کا مظہر اور پاکیزگی و اخلاص و بصیرت و مجاہدت کا آئینہ ہے۔

ملک اور اس کی خود مختاری و استحکام کے دفاع، ملکی سطح پر کلیدی خدمات کی انجام دہی، جدید سائنسی و تکنیکی سرگرمیوں، اقدار اور روحانی ماحول سے متعلق کاوشوں میں ہر جگہ رضاکار فورس کے نام کا چرچہ ہے اور اس کی شراکت نمایاں ہے۔ ایمان، عزم، احساس ذمہ داری، خود اعتمادی ان توانائیوں اور مشکل کشائی کے بنیادی ستون ہیں۔ یہ خود اللہ کی نعمتیں اور عطیئے ہیں جن کی اللہ کا شکر ادار کرکے اور دائمی توجہ کے ساتھ حفاظت اور اس میں اضافہ کرنا چاہئے۔

رضاکار فورس عظیم سرمایہ اور ملت ایران کو اللہ کا عطا کردہ خزانہ ہے۔ اس ملت کے دشمن اس وقت بھی اور ہمیشہ سے اس فکر میں رہے اور رہیں گے کہ اسے ختم یا بے اثر کر دیں۔ اس تنظیم کے عہدیداران اور ہر رضاکار کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے منصوبوں کی ناکامی کو اپنا فریضہ سمجھے اور توکل، اخلاص عمل اور منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھے۔ ان شاء اللہ آپ کو کامیابیاں ملیں۔

سیّدعلی خامنه‌ای

۵ آذر ۱۳۹۹ (ہجری شمسی مطابق 25 نومبر 2020)

 

المیادین ٹی وی چینل نے صہیونی میڈیا کے حوالے سے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کی وزارت برائے اسٹریٹجک امور کے سابق ڈائریکٹر یوسف کپرواسر کا کہنا ہے کہ فخری زادہ ایرانی جوہری پروگرام کے قاسم سلیمانی تھے اور ایسا واقعہ صرف تل ابیب اور واشنگٹن ہی کرسکتا ہے۔

المیادین نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے کہا تھا کہ میں نے اس ہفتے بہت کام کیا اور میں ان سب کے بارے میں بات نہیں کرسکتا ہوں۔

واضح رہے کہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹوئٹ کرکے لکھا ہے کہ شہید فخری زادہ کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ دہشت گردوں نے ایران کے ایک اور سینئر سائنسداں کو شہید کر دیا۔ یہ بزدلانہ اقدام جس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں، ناکامی کے بعد جنگ کی کوشش کی علامت ہے۔

واضح رہے کہ جمعے کو دو پہر 2 بج کر 40 منٹ پر ایران کے سینئرایٹمی سائنسداں محسن فخری زادہ کو دارالحکومت تہران کے نزدیک آبسرد نواحی علاقے کے ایک چوراہے پر خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا

انقلاب اسلامی ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کی شہادت بہت گراں ہے اور ہم اہل ایران کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں، مگر یاد رکھیں کہ اہل ایران ہماری طرح اپاہج قوم نہیں کہ کسی ایک کے چلے جانے سے ان کے قدم ڈگمگا جائیں اور ہدف کو بھول جایں۔ یہ ہم ہیں کہ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بعد خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں، ہماری تنظیمیں جمود کا شکار ہوگئی اور ہمارے راہنما خود کو بچانے کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کو ڈھونڈنے لگے۔ یہی فرق ہوتا ہے ایک قوم اور ایک ہجوم میں۔ ایرانی قوم ہیں ہجوم نہیں، وہ شخصیات تیار کرتے ہیں، ان کا انقلاب شہادتوں سے بھرپور ہے، ان کے قبرستان شہداء کے سرخ پرچموں سے آباد ہیں اور وہ اپنے شہداء کی قدر کرتے ہیں۔ اہل ایران غیر ملکیوں سے ایسے سودے نہیں کرتے کہ انہیں ہمیشہ ان کا محتاج رہنا پڑے بلکہ وہ ٹیکنالوجی حاصل کرتے ہیں اور خود رو کارخانے لگاتے ہیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ ان پر پابندیاں ہیں اور وہ ان پابندیوں میں جینا سیکھ چکے ہیں۔

شہادت ایسے مردان خدا کی دلی آرزو ہوتی ہے، کیا پتہ کہ شہید ہونے والا اس مقام شہادت کیلئے کتنا تڑپتا ہو۔ انقلاب کا ظہور، اس کی جدوجہد اور اس کی بقا کیلئے شہادتوں اور قربانیوں کی داستان اہل ایران کیلئے اسلام کے حقیقی چاہنے والوں کیلئے استقامت و شہامت کا باعث رہی ہیں، شہید محسن فخری زادہ کی شہادت اگرچہ معمولی نہیں، مگر انقلاب نے درس حریت کربلا سے حاصل کیا ہے۔ کربلا سے بڑھ کر کونسی قربان گاہ ہے، نہ ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، ہاں یہ اس راہ کے راہرو ہیں، جو اپنی اپنی باری پر اس قربان گاہ میں اپنی قیمتی ترین متاع کو پیش کرکے متمسک ہو رہے ہیں۔ ایران کے ایٹمی سائنسدان اس سے قبل بھی اسرائیلی ایجنٹوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایرانی سکیورٹی ایجنسیز نے دشمنوں کے بہت سے منصوبے ناکام بھی بنائے ہیں اور کئی بڑی سازشوں کو وقت سے پہلے روکا ہے۔

بعض احباب سوشل میڈیا پر اور تو کچھ نہیں کرتے تنقید کے سوا، لہذا ان کے سامنے اب سکیورٹی کی ناکامی اور اتنے بڑے بندے جسے اسرائیل واضح طور پر نشانے پر رکھے ہوئے تھا، اسے اس طرح آسانی سے نشانہ بنانا سوالیہ نشان بنا رہے ہیں۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ شہید محسن فخری زادہ آج سے دشمن کے نشانہ پر نہیں تھے، یہ تو ہمیشہ ان کے نشانہ پر تھے۔ اتنا عرصہ آخر وہ کام کرتے رہے اور بہت سے اداروں سے وابستہ رہے، جہاں ان کا آنا جانا بھی ہوتا تھا تو آخر انہیں حفظ کیا گیا تھا۔ اس طرح کے سانحہ کا ہو جانا اگرچہ باعث حیرت ہے مگر نا ممکنات میں سے نہیں۔ چونکہ یہ کام داخلی طور پہ خریدے گئے ایجنٹوں اور غیروں کے نمک خواروں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا، جبکہ ایران نے انقلاب کے بعد فقط امریکہ یا اسرائیل کیساتھ دشمنی نہیں رکھی، تمام استعماری طاقتیں اور نام نہاد اسلامی ممالک بھی روز اول سے امریکہ اور اس کے بلاک کے ساتھ ہیں، جن کا واحد ایجنڈا انقلاب کو کمزور کرنا ہے۔

اگر ہم سکیورٹی کی بات کریں تو انقلاب دشمن ممالک میں مقاومت اسلامی کے فرزندان کی کارروائیاں جنہیں منصوبہ بندی کے باعث سامنے بھی نہیں لایا جاتا، مگر دونوں فریقین کو علم ہوتا ہے کہ وہ سامنے آجائیں تو جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل ان ممالک کا پول کھل جائے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکا۔ اصل بات یہ ہے کہ کیا ایسے سانحات سے انقلاب جھکتا ہے یا اپنی طاقت و قوت کا اظہار کرتا ہے، اپنے ارادوں اور عزم کو ظاہر کرتا ہے اور اپنے منصبوں پر عمل کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا جواب یقیناً دیا جائے گا اور کھل کر دیا جائے گا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ حملے کے بعد انکار کیا جائے، البتہ جیسا کہ عالمی سطح پر یہ خبریں تواتر سے آ رہی تھیں کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کی تیاری کر لی ہے اور مختلف بیسز پر اپنے طیاروں کو الرٹ کیا ہوا ہے، اسے بہانہ چاہیئے۔ یہ کارروائی ایران کے خلاف اس سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے کہ ایران اتنی بڑی شخصیت کا بدلہ ضرور لے گا اور اس جواز پر اسے حملہ کا نشانہ بنا دیا جائے۔

میرے خیال میں ایران کی قیادت بہت زیرک ہے، انہوں نے جنگ کو کیسے لڑنا ہے، جنگ جو جاری ہے، جب سے انقلاب آیا ہے، اسے ان حالات میں کونسا رخ دینا ہے، کونسا میدان سجانا ہے، ایران کی دور اندیش اور باحمیت قیادت بہت ہی بہتر جانتی ہے۔ لہذا یہ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ نہیں، اس میں حوصلوں اور برداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ میڈیا وار، نفسیاتی جنگ، ٹیکنیکل اور ٹیکنالوجی کی جنگ جو کسی ایک کمرے میں بیٹھ کے کمپیوٹر پر لڑی جاتی ہے، تمام آپشن ایران کیلئے موجود ہیں۔ اگرچہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ و یورپ بہت آگے ہیں، مگر ایرانی سائنٹسٹوں نے بھی انہیں کئی ایک بار حیران و ششدر کیا ہے۔ ایران کے پاس کیا کچھ ہے، اس بارے اس کا دشمن نہیں جانتا، اس کی ظاہری طاقت کا اندازہ اسے نہیں ہے، جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الہیٰ و معنوی طاقت و قوت اور خداوند کریم پر ان کا ایمان، کربلا سے وابستگی اور شوق شہادت، یہ وہ طاقت ہے جسے جانچنے کیلئے ایران کے دشمن کے پاس کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ لہذا اسلام کے ان حقیقی فرزندان اور خدمت گزاران سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہیں۔

شہید محسن فخری زادہ کا تعلق شہید سلیمانی کی نسل انقلاب سے تھا، انہیں یہ مقام نا ملتا تو حیرانی ہوتی، شہادت ان کا میرٹ تھا، جیسا کہ شہید سلیمانی نے اپنے آخری شام کے وزٹ میں مقاموت کے کمانڈرز کی میٹنگ میں فرمایا کہ جب پھل پک جاتا ہے تو مالی کو چاہیئے کہ اسے اتار لے، ورنہ وہ گل سڑ کر گر جاتا ہے اور بعض کمانڈرز کو اشارہ کرکے کہا کہ ہاں میں جانتا ہوں کہ یہ پک چکا ہے، یہ بھی پک چکا ہے، شہید محسن فخری زادہ بھی وہ پکا ہوا پھل تھے، جسے مالی نے گلنے سڑنے سے پہلے اتار لیا، انہیں ان کی منزل مل گئی، وہ ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔ شہید سلیمانی کی شہادت سے شروع ہونے والا انتقام سخت کا سلسلہ جاری ہے، ہمیں امید ہے کہ شہید محسن فخری زادہ کی دردناک شہادت سے اس میں مزید تیزی آئیگی، جیسا کہ انقلاب اسلامی سے وابستہ اہم عہدیداران اور دفاعی ذمہ داران کے بیانات سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر اسے اسرائیل کی کارروائی کہا ہے، انقلاب کا نظام اتنا قوی ہے کہ وہ بہت جلد اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے اور دشمن کو سبق بھی سکھائیں گے۔
 
 
تحریر: ارشاد حسین ناصر

اسلامی جمہوریہ ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو مسلح دہشت گردوں نے شہید کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ایرانی وزارت دفاع نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ مسلح دہشت گردوں نے آج سہ پہر کو ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسداں کو فائرنگ کرکے زخمی کر دیا، جس کے بعد محسن فخری زادہ کو اسپتال منتقل کیا گيا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ ایرانی وزارت دفاع نے اس بزدلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید محسن فخری زادہ کے قتل میں ملوث غیر ملکی ایجنٹوں کو گرفتار کرکے جلد از جلد کیفر کردار تک پہنجایا جائے گا۔

 پاکستان کی وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے فرانس کے صدر میکرون کو نازی کہنے پر فرانسیسی وزارت خارجہ نے پاکستان سے باضابطہ احتجاج کیا ہے۔ اطلاعات کےمطابق گزشتہ روز پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ فرانسیسی صدر میکرون مسلمانوں کے ساتھ وہی برتاؤ کررہے ہیں جو جرمنی میں نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔

پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی میں یہودیوں کے خلاف جابرانہ قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرانس میں مسلمانوں کے بچوں کے لیے خاص شناختی نمبر جاری کیے جارہے ہیں جیسے جرمنی میں یہودیوں کے لیے زرد ستارہ اور مخصوص لباس پہننا لازم کردیا گیا تھا۔

وفاقی وزیر کی اس ٹوئٹ پر فرانس کی وزارت خارجہ نے باضابطہ طور پر پاکستان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر کا صدر میکرون پر تبصرہ توہین آمیز ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے پیرس میں پاکستانی سفارت خانے کو شدید احتجاج سے آگاہ کردیا ہے ۔ پاکستان کو فوری طور پر یہ بیان واپس لے کر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے

امریکہ نے افغانستان میں ایک کھرب ڈالر سے زائد سرمایہ صرف کیا اور آج وہ  شکست، ناکامی  اور مایوسی کی حالت میں ان افراد کے ساتھ دوستی اور مذاکرات کے لئے مجبور ہوگیا جن کے سر پر اس نے انعام مقرر کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ وہ لوگ جو حالات سے زیادہ باخبر نہیں ہیں ممکن ہے کہ وہ اس خـبر سے یہ سمجھتے ہوں کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں تلاش و کوشش کررہا ہے لیکن جو لوگ افغانستان کے مسائل سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ خـبر امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ شکست اور ناکامی کا واضح اور ٹھوس ثبوت ہے۔

امریکہ نے 2001 میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان پر فوجی یلغار کا آغاز کیا، نہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کو ختم کرسکا اور نہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کرسکا۔

صدائے افغان خبررساں ایجنسی کے سربراہ سید عیسی حسینی مزاری نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ افغانستان میں صلح کے ذریعہ انتخاباتی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور نیز وہ طالبان کو امریکہ کے دشمنوں کے کیمپ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور ٹرمپ کی شکست کی صورت میں صلح کا مصرف ختم ہوجائےگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کا اصلی ہدف افغانستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا ہے وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پرورش کا سلسلہ جاری رکھےگا اور افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی باقی رہےگی۔

افغانستان کے فوجی اور سیاسی تجزیہ نگار محمد حسن حقیار نے مہر خبررساں ایجنسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ اور علاقائی ممالک اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنی فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی موجودگی کے ذریعہ اپنے ناجائز اور معاندانہ اہداف تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اور امریکہ کی طرف سے افغانستان میں داعش کی بھر پور حمایت اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔

اس نے امریکہ کے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانتا ہے کہ وہ افغانتسان میں جنگ نہیں جیت سکتا اس لئے اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔

سیاسی تجزيہ نگار عبدالاحد برین مہر کا کہنا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے افغانستان میں داخل ہوا اور اس طرح اس کا مقصد روس، چین اور ایران جیسی طاقتوں پر قریبی نظر رکھنا ہے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ایک ہدف اپنے حریفوں پر قریبی نگرانی رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ امریکہ طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت تشکیل دے جو امریکہ کے زیر نظر امریکی اہداف کے لئے کام کرنے کی پابند ہو۔

بہر حال امریکہ کا ہدف افغانستان سے آبرومندانہ طریقہ سے فوجی انخلا ہو یا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت کا قیام ہو ان سب کے باوجود امریکی اقدام ایک کھرب ڈالر صرف کرنے کے قابل نہیں تھا۔

News Code 1904041
امام حسن عسکری(ع) اسی سلسلہ عصمت کی ایک کڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ آپ کو آپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد وآپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبداللہ بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقاف وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ آگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم و ورع , زہدو عبادت ,وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا۔ اس وقت جب امام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کردیں اور انھیںخبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہوجائے گی۔ جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو آپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر آمد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے ہر ایک سے ان اشیا ء کے متعلق جو ان کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر آپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا

علمی مرکزیت
باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علماء کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قرآن مجید کی آیات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری(ع) کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارآدمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو اس فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قرآن کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں ؟ حضرت امام حسن عسکری(ع) نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔ حضرت نے کچھ آیتیں قرآن کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا توّہم ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کررہے ہیں اور اگر کلام عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی نکل آئیں جن کے بنا پر الفاظ قرآن میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساختہ معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیئے۔ بہرحال وہ آدمی منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ باتیں تمھیں کس نے بتائی ہیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خود ہمارے ذہن میں آئی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتیں تھے۔پھر اس نے آگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر آتش کردیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ حضرت (ع)انجام دےرہے تھے اور حکومت وقت جو اسلام کی پاسداری کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کو اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں نافذ کردیتی تھی , مگر اس کوهِ گراں کے صبرو استقال میں فرق نہ آیا

شہادت:
اتنے علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو کہیں سلطنت وقت کے ساتھ مزاحمت کا کوئی خیال پیدا ہوسکتا ہے مگر ان کابڑھتا ہو روحانی اقتدار اور علمی مرجعیت ہی تو ہمیشہ ان حضرات کو سلاطین کے لیے ناقابل ُبرداشت ثابت کرتی رہی۔ وہی اب بھی ہوااور معتمد عباسی کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع ھ260 الاوّل میں آپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرے میں دفن ہوئے جہاں حضرت علیہ السّلام کاروضہ باوجود ناموافق ماحول کے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔

بشکریہ شیعہ اسٹیڈیز ڈاٹ کام
 

اسلامی مشاورتی مجلس برائے بین الاقوامی امور کے اسپیکر کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایران شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔
یہ بات امیر عبداللہیان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے برائے شامی امور "گیر۔ او۔ پدرسن"  کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کی کوششوں اور شام کی علاقائی سالمیت، قومی خودمختاری اور دیرپا سلامتی کی واپسی کے لئے کسی بھی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔

انہوں نے شام کی موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ خطرناک دہشت گرد گروہ اپنے نام تبدیل کر کے اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لہذا اقوام متحدہ کو غیر جانبدارانہ طریقہ کار کو اپنانا اور دوہرے معیاروں کو ترک کرنا ہوگا۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ آئینی کمیٹی کے کام میں تمام فریق ذمہ دار ہیں اور انھیں جوابدہ ہونا چاہئے اور شامی حکومت کو قصور وار ٹھہرانا غیرجانبدارانہ پالیسی کے منافی ہے۔

انہوں نے شام کے خلاف عائد پابندیوں خاص طور پر طب ، طبی سامان اور خوراک پر پابندیوں کو ظالمانہ قرار دے کر اور انسانیت سوز پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

عبداللہیان نے مزید کہا کہ ایران بدستور شام اور اس کی سلامتی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ شام کی مدد کے لئے اقوام متحدہ کی تعمیری کوششوں کی بھی حمایت کرتا ہے نیز شام کے بارے میں غیرجانبدارانہ فیصلے پر زور دیتا ہے۔

Monday, 23 November 2020 23:28

اسلام اور امن و سلامتی

اسلام وہ عظیم مذہب ہے جو امن و سلامتی، محبت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کیلئے نام ہی "اسلام" پسند کیا۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محض "امن و سلامتی" ہے۔ لہذا اسلام وہ واحد مذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیں روحانیت، اخلاق انسانی، حقوق بشریت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں ظلم اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ و جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مشکلات پر صبر کرنے کا درس دیا ہے۔ آج پوری دنیا امن اور انسانی حقوق کے نام پر اکٹھی ہو رہی ہے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی و لسانی و علاقائی تعصبات، انتہاء پسندی، دہشتگردی، جنونیت، پسماندگی اور جہالت جیسی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہم نے مذہب کے پیغام کو بھلا کر اپنے اوپر مذہبی ہونے کی مہر تو لگوا لی، لیکن اس مہر کے ساتھ ہم نے امن و سلامتی کی بجائے شدت پسندی کو ترجیح دی، ہم نے محبت کی بجائے نفرت کو ترجیح دی۔

یہ نفرت کہیں مذہبی تعصب کے نام پر تو کہیں علاقائی تعصب کے نام پر، یہ نفرت کہیں عزت کے نام پر تو کہیں دولت کے نام پر، غرضیکہ ہم نے مذہب کے پیغام امن و محبت کو بھلا دیا۔ دین اسلام ہمیں انسانیت کا احترام اور انسانیت سے محبت کرنا سکھاتا ہے۔ محبت کرنا کیونکہ صفت حسن ہے۔ اگر اس صفت کو انسان ٹھکرائے گا تو نفرت وجود میں آئے گی، خواہ وہ کسی ذریعے سے بھی ہو، دولت کی بناء پر ہو یا اناء پرستی کی بناء پر اور پھر یہی نفرت شدت پسندی کی طرف لے جائیگی۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے اس صفت کا مرکز و محور اپنی ذات کو بنایا، کیونکہ خدا تعالیٰ سے محبت ہی انسان کو امن و سکون اور احترام انسانیت سکھاتی ہے۔ اسی صفت کی بناء پر انسان مکمل طور پر انسان کہلاتا ہے۔ اگر یہ صفت ختم ہو جائے تو انسانیت ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت اور درندگی کا بازار گرم ہوتا دکھائی دیتا ہے، لہذا اسلام کا پیغام امن و محبت کا پیغام ہے۔

وطن عزیز جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اس کا اصول بھی امن و سلامتی اور محبت ہے۔ اس لئے برصغیر کو سرزمین اولیاء و سرزمین محبت کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی سنہری تاریخ موجود ہے۔ مگر استعمار اور سیکولرزم کی آمد کے بعد تقسیم برصغیر کے وقت اس مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو نفرتوں میں تبدیل کیا گیا، جس سے شدت پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارت کی فصل پکتی رہی اور جس کا پھل مہذب معاشروں کی جدائی کی صورت میں نکلتا رہا۔ پھر اسلام کے نام پر مسلمانوں میں تکفیر کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا، جس سے قتل و غارت بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ استعمار اور سیکولر قوتوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مذہب اسلام کو شدت پسند اور دہشتگردانہ مذہب بنایا جائے، لیکن جو چیز ان کے مقابل آئی وہ مذہب اسلام کا پیغام امن و محبت اور رسول ختمی مرتبت صلی الله علیه وآله وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ اس لئے اسرائیل و امریکہ جیسی عالمی طاقتیں اسلام کے نام پر دہشتگردی پھیلاتی رہیں۔

کبھی انہی طاقتوں نے وہابیت کو استعمال کیا تو کبھی داعش جیسی درندہ صفت تنظیمیں بنائی۔ پھر یہی طاقتیں چند شدت پسند افراد کے ذریعے قتل و غارت اور دہشتگردی کروا کر اسلام کو شدت پسندی سے ملحق کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ انہی کے ذیل میں میکرون جیسے لوگ بھی نظر آنے لگے، جنہوں نے برملا اسلام کو شدت پسند کہا اور اس کے بعد یہ طاقتیں رسول ختمی مرتبت صلی الله عليه وآله وسلم کی بھی توہین کرتی نظر آنے لگیں۔ اب یہ صیہونی طاقتیں اسلام کے خلاف دلائل اکٹھے کرکے اقوام عالم کو اسلام سے متنفر کر رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ طاقتیں اپنی ناکامیوں کا رونا رو رہی ہیں، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب جس میں امن، محبت اور روحانیت شامل ہو، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ مذہب اسلام واحد مذہب ہے، جس میں سب سے زیادہ امن، محبت اور روحانیت موجود ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو کسی بھی جہت اور پہلو سے دیکھیں تو ہمیں ہر جگہ فراوانی کے ساتھ محبت، رحمت، شفقت، نرمی، احسان اور عفو و درگزر کا عنصر ہی غالب نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عفو و درگزر، محبت، رحمت، امن و سلامتی ہی سارا دین ہے۔

بلاشبہ اتنی محبت، اتنی رحمت اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں نہیں۔ افسوس ہم لوگوں نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا تو دور، ان تعلیمات کا مطالعہ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ پھر بات وہی ہے کہ ہم نے اپنے اوپر مذہب اسلام کی مہر تو لگوا لی، لیکن اسلام کی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے۔ اس لئے ہمارا معاشرہ شدت پسندی سے قتل و غارت کی طرف بڑھتا رہا اور عالمی طاقتیں بھی محبت بھرے اسلام کے ساتھ کھل کر سازش کرتی رہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم ظلم، نفرت، شدت پسندی، فرقہ واریت، نسلی و علاقائی تعصبات اور بے اعتدالیوں سے اپنا ہاتھ روک لیں اور امن و محبت کو فروغ دیں۔ جب جہالت و زر یکجا ہو جائے تو اہل علم و شعور کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو محبت اور امن کے ساتھ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی رواداری اور بھائی چارہ  قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عالمی طاقتیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں اور ایک بہترین صالح معاشرہ قائم ہوسکے۔

تحریر: شاہد عباس ہادی 

مسئلہ کشمیر پر دوسروں کو سننے اور سمجھنے کے حوالے سے تین پروگرام ہوچکے ہیں۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کے پہلے آنلائن سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلیمن کے سیکرٹری برائے امورِ خارجہ ڈاکٹر شفقت حسین شیرازی (ایران) نے کہا کہ  ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہم اس مسئلے سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے ساتھ دینی تعلق کے علاوہ ہمارا جغرافیائی، علاقائی اور آئندہ نسلوں کی سلامتی اور ترقی کا تعلق بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتیں جو مرضی ہے کرتی رہیں، ہمیں انسانی، اسلامی اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے حل کیلئے آواز اٹھاتے رہنا چاہیئے۔  یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ ہم ساری ذمہ داری حکمرانوں پر ڈال کر اپنی جان نہیں چھڑوا سکتے۔

اس سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان جمہوری اتحاد پارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر حفیظ الرحمان (پاکستان) نے اس مسئلے پر اپنی پارٹی کا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہٹ دھرمی اور ضد کا جواب بھی اگر ہٹ دھرمی اور ضد سے دیا جائے گا تو اس سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ انہوں مسئلہ کشمیر کے سارے فریقوں کو لچک دکھانے کا احساس دلایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، کشمیری اور ہندوستانی مساوی طور پر اس مسئلے کو اپنا ایک اہم مسئلہ تسلیم کریں اور اس کو حل کرنے کیلئے ہر طرف سے ممکنہ نرمی دکھائی جانی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچپن سے اب تک عالمِ اسلام اور خصوصاً اس منطقے کی جو حالت دیکھی ہے، اگر ہم وہی اپنی آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں تو یہ انتہائی کم فہمی اور زیادتی ہے۔

سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اور صدائے کشمیر فورم کا دوسرا آنلائن سیشن 12 نومبر2020ء کو ہوا۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے معروف محقق اور کالم نگار محترم طاہر یسین طاہر (پاکستان) نے کہا کہ مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنے حقیقی مسائل کی خبر ہی نہیں۔ اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں میں پائی جانے والی نرگسیت، خود پسندی اور پدرم سلطان بود جیسی کیفیت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تو ہمیں خواہ مخواہ کی خود پسندی اور انانیت سے پیچھا چھڑانا چاہیئے۔ اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں کہ مسلمانوں کا ماضی بہت شاندار تھا بلکہ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے اپنے ماضی اور اسلاف سے علم و فن میں کتنی میراث پائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام کی قدر و منزلت ان کے علم و فن کے مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اغیار کی اندھی تقلید سے مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل حل ہونے والے نہیں۔

اس موقع پر انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی مظلومیت کی انتہاء یہ ہے کہ آج کے جدید عہد میں وہاں میڈیا پر پابندیاں لگا کر انسانوں پر بدترین ظلم کیا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ مظلومین کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظلومیت اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے کہ جب جہانِ اسلام کے قدآور ممالک بھی کشمیریوں کے بجائے ہندوستان کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے بھی بڑا مسئلہ اقتصادی لالچ اور انسانی بے حسی کا مسئلہ ہے۔ ان کے مطابق ہمیں مادی و اقتصادی لالچ کے بجائے انسانی اقدار کو اجاگر کرنا چاہیئے اور عالمی برادری میں موجود بے حسی کے خاتمے کے حوالے سے سوچ بچار کرنی چاہیئے۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ آج چین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، ہمیں اس سے بھی آگاہ رہنا چاہیئے۔

دوسرے سیشن کے دوسرے مقرر جناب عبدالمناف غِلزئی (جرمنی) مدیر مجلہ پیغامِ نجات نے کہا کہ دینِ اسلام کو قبول کرنے کے بعد ہر مسلمان کو اپنے مسائل حل کرنے کیلئے قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کی پیچیدگی کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اس مسئلے کو  غیر مسلموں کی نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں اور اسی طرح اس کا حل بھی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقی معنوں سے دین اسلام کی بالادستی کی قبولیت اور نفاذ میں ہی ہمارے سارے مسائل کا حل ہے۔ اگر ہم اپنے اوپر اور اپنی سوچ کے اوپر دینِ اسلام کے نفاذ کی بات نہیں کرتے تو یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ یہی ہے کہ دینِ اسلام سے بڑھ کر ہمارے دکھوں کی دوا کسی اور کے پاس نہیں، لہذا ہم جتنے اسلامی تر ہوتے جائیں گے، اتنے ہی ہمارے مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اس سلسلے کا تیسرا سیشن 19 نومبر 2020ء کو ہوا، جس کی روداد عنقریب اگلی قسط میں بیان کی جائے گی۔

تحریر: نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.