سلیمانی

سلیمانی

گذشتہ سے پیوستہ
رسول خدا نے توحید اور اسلام کا پیغام معاشرے میں پیش کیا تو جو رکاوٹیں فوری طور پر سامنے آئیں، ان میں قومی اور قبائلی تعصبات سب سے نمایاں تھے۔ قبائل اور حسب و نسب پر فخر کیا جاتا ہے اور دوسروں کو اسی بنا پر ذلیل، کمزور اور کمتر تصور کیا جانا۔ قرآن نے اسی تعصب کو ختم کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے سب سے زیادہ خدا کے قریب وہ ہے، جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یعنی قرآن نے ذات، قبیلہ، حسب و نسب کو نظرانداز کرتے ہوئے تقویٰ کو عزت و شرف کا معیار قرار دیا۔ رسول خدا نے ایک سیاہ فام حبشی بلال کو اپنا موذن بنا کر رنگ و نسل کے تعصب کو ختم کر دیا۔ سلمان فارسی جو فارس سے گئے ہوئے تھے، ان کو اپنے اہلبیت سے قرار دیا۔

کہتے ہیں کہ ایک بار سلمان فارسی مسلمانوں کے ایک گروہ میں بیٹھے تھے کہ وہاں موجود مختلف افراد اپنے قبائل اور حسب و نسب پر فخر کرتے ہوئے اپنا تعارف کرا رہے تھے، لیکن جب سلمان فارسی کی باری آئی تو آپ نے سب کو مخاطب ہو کر کہا میرا نام سلمان ہے اور میں خدا کے بندے کا فرزند ہوں۔ میں گمراہ تھا، محمد کے وسیلے سے میری رہنمائی ہوئی۔ میں فقیر تھا، محمد کے وسیلے سے بے نیاز ہوا۔ میں غلام تھا، محمد کے ذریعے آزاد ہوا، یہ میرا حسب و نسب ہے۔ جب یہ بات رسول خدا کے پاس پہنچی تو آپ نے سلمان کی باتوں کی تائید کی اور دوسروں کو قبیلے، ذات پات اور رنک و نسل کے تعصیبات سے منع فرمایا۔ آپ نے دین، تقویٰ، حریت، اخلاق اور عقل و فہم کو عظمت اور برتری کا معیار قرار دیا۔ اسلامی وحدت کے لیے معاشرے کے تمام افراد کو مثالی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشروں سے جاہلانہ رسم و رواج اور نسل پرستی، قبیلہ پرستی اور اس طرح کے تعصبات کو ختم کرنا ہوگا۔ عدل و انصاف اور تقویٰ و پرہیزگاری نیز ایمان قوی کو عزت و وقار اور عظمت کا معیار قرار دینا ہوگا۔

رسول خدا نے مدنی زندگی میں غلاموں کو آزاد کرکے، فقیروں اور غریبوں کو اہمیت دے کر اور تقویٰ و پرہیزگاری کو معیار قرار دے کر مدنی معاشرے میں بنیادی اصطلاحات لائیں۔ آپ نے اپنے عمل و کردار سے مساوات، عدل و انصاف اور قبائلی و نسلی تعصبات کو ختم کیا۔ آپ عام لوگوں جیسا لباس پہنتے، عام افراد کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ جب آپ کسی اجتماع میں بیٹھے ہوتے تو باہر سے آنے والے کو فوری طور پر اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کہ ان میں رسول خدا کون سے ہیں۔ آپ کو بھی کسی نے فاخر اور قیمتی لباس میں نہیں دیکھا۔ آپ غلاموں اور فقیروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتے، معمولی سواری پر سوار ہو جاتے، رسول خدا کے ان اقدامات کی وجہ سے مدنی معاشرے میں اس حد تک تبدیلی آگئی تھی کہ ایک بار ایک امیر شخص رسول خدا کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک غریب شخص وہاں آیا۔ اس غریب شخص کو دیکھ کر امیر شخص نے اپنا قیمتی لباس سمیٹ لیا اور غریب سے دور بیٹھنے کی کوشش کی۔

رسول خدا پر اس امیر شخص کا یہ عمل گراں گزرا اور آپ نے امیر شخص کا مواخذہ کیا۔ امیر شخص اس قدر شرمندہ ہوا کہ اس نے اپنے تمام سرمائے میں سے نصف اس غریب اور فقیر انسان کو دے دیا۔ غریب نے امیر کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ مجھے خوف آتا ہے کہ ممکن ہے کہ کل میں بھی امیر ہونے کے بعد اس طرح کے فخر و مباہات کو شکار ہو کر غریبوں اور محروموں سے دو ہونے کی کوشش نہ کروں۔ رسول خدا نے اپنے عمل و کردار سے مدنیہ منورہ کے معاشرے میں عدل و انصاف، برابری اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کا ایسا سبق دیا کہ مدینہ کے معاشرے میں بنیادی تبدیلی آگئی اور زندگی اور عزت و شرف کے معیارات بدل گئے۔ آقا اور غلام، غریب اور امیر غرض معاشرے کا ہر فرد دوسرے کو اپنا بھائی اور دوست سجھنے لگا اور معاشرہ عدل و انصاف اور برابری و مساوات کے حقیقی مظہر میں تبدیل ہوگیا۔

رسول خدا جب مدینہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے بنیادی سماجی تبدیلیاں پیدا کیں، سب سے پہلے مرکز کی مضبوطی اور حکومتی ڈھانچے کی تشکیل کو برابری اور مساوات پر استوار کیا اور ارشاد فرمایا کہ حاکمان اسی کی اطاعت کریں، ان کی بات کو اہمیت دیں، کیونکہ رہبریت کی اطاعت امت مسلمہ کے درمیان وحدت کا باعث ہے۔ رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد جو اہم اقدامات انجام دیئے، ان میں قبائل کا باہمی معاہدوں کا ازسرنو جائزہ اور ان پر عمل درآمد تھا۔ ان معاہدوں کی وجہ سے مدینہ اور اس کے اردگرد رہنے والے قبائل میں باہمی اتحاد کی صورتحال پیدا ہوئی۔ اسی طرح انصار و مہاجرین کے درمیان معاہدوں کے بعد مدینہ گویا باہر سے حملہ آور دیگر قبائل کے خلاف ایک متحدہ قوت میں تبدیل ہوگیا۔ ان معاہدوں سے مسلمانوں کو یہ فائدہ پہنچا کہ مدینہ کے مختلف قبائل مشرکین قریش کے مقابلے میں بھی ہم پیماں ہوگئے اور مسلمان مشرکین مکہ کے ایک بڑے خطرے کے مقابلے میں محفوظ ہوگئے۔ البتہ ان معاہدوں کے باوجود بعض یہودیوں نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی، جن کو بعد میں اس عہد شکنی کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔

رسول خدا نے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد انصار اور مہاجرین کے درمیان اخوت و برادری کے معاہدے کئے، جس کی روشنی میں ہر مہاجر کو ایک انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ مہاجر اور انصار کے اس بھائی چارے کی بنیاد سے جہاں مہاجرین کی مالی و سماجی مشکلات حل ہوگئیں، وہاں معاشرے میں اتحاد و وحدت میں اضافہ ہوا۔ رسول خدا نے مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام میں معاشرے کو اتحاد و وحدت کی لڑی میں پرو دیا اور مدینہ منورہ میں اپنائے گئے آپ کے مختلف اقدامات بھی اسلامی معاشروں میں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آج بھی بہترین آئیڈیل اور مثالی نمونے ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اخوت و برادری کے سلسلہ کو جاری کرکے مسلمانوں کو یہ دعوت دی کہ "یداللہ مع الجماعت" یعنی اللہ کا ہاتھ جماعت اور اتحاد و وحدت پر ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہے، جو جماعت، اجتماع اور اتحاد و وحدت کے خلاف ہے۔ آپ کو مدینہ منورہ میں اتحاد و وحدت کا عملی نمونہ اور اتحاد و وحدت مختلف اقدامات تمام مسلمان امت اور اسلامی رہنمائوں کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔ آپ کی سیرت پر عمل کرکے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰﷺ کے زیراہتمام لاہور میں جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں کانفرنس بعنوان ’’وحدتِ اُمت و میراثِ نبوت‘‘ منعقد ہوئی، جس میں ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت تحریکِ بیداریِ اُمتِ مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد حسین نقوی نے کی۔ کانفرنس میں قبلہ ڈاکٹر ایاز سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا محمد خان شیرانی کوئٹہ، علامہ محمد امین شہیدی، خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ کوٹ مٹھن شریف، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، صاحبزادہ سلطان احمد علی (سلطان باہو)، خرم نواز گنڈاپور، پروفیسر ظفر اللہ شفیق، ڈاکٹر عطاء الرحمن، لیاقت بلوچ، علامہ جواد ہادی، علامہ افتخار نقوی، مفتی گلزار نعیمی، پیر ہارون گیلانی، مفتی رمضان سیالوی، پیر معصوم شاہ نقوی، سابق کرکٹر محمد مشتاق، بلال قطب و دیگر نے شرکت کی۔

کانفرنس سے خطابات میں تمام علماء نے امت کو  کو یکجہتی کا پیغام دیا اور فرقہ واریت پھیلانے والے تمام عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تمام علماء نے اکٹھے نماز مغرب ادا کرکے اسلام کے دشمن کو ایک زبردست پیغام دیا کہ امت متحد ہے اور دشمن کی تمام سازشیں خاک میں مل چکی ہیں۔ علمائے کرام کا کہنا تھا کہ اسلام دشمن تفرقے کو ہوا دے کر اتحاد امت میں دراڑیں ڈال رہے ہیں، اس حوالے سے امت کو بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسی کانفرنسوں کا انعقاد وقت کی ضرورت تھا، جس کا انعقاد کرکے علامہ سید جواد نقوی نے اسلام کی سربلندی کیلئے عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ علمائے کرام نے کہا کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت دراصل امت مسلمہ کا ٹیسٹ کیس ہے، دشمن دیکھنا چاہتا ہے کہ امت میں روح محمدی باقی ہے یا ختم ہوگئی ہے۔ علمائے کرام کا کہنا تھا کہ فرانس سمیت تمام دشمنان محمد جان لیں کہ ہم حرمت رسول کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں۔

کانفرنس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان فرانس کیساتھ سفارتی بائیکاٹ کرے اور پاکستانی عوام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو شیعہ سنی کی تفریق سے نکل کر اسلام کیلئے سوچنا ہوگا، ماضی میں ہم نے شیعہ سنی کی لڑائی سے بہت نقصان اٹھا لیا، اب مزید پاکستان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اپنی صفوں سے شرپسندوں کو نکال باہر کریں، تکفیریوں سے اظہار برات کا یہی موقع ہے، ہمیں کسی شرپسند کے دباو میں نہیں آنا چاہیئے بلکہ یہ تکفیری، ناصبی اور غالی اسلام کے دشمن ہیں، یہ شیعہ ہیں نہ ہی سنی بلکہ یہ استعمار کے وہ ایجنٹ ہیں، جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

معرفت یعنی درست شناخت (سچائی پر مبنی عقیدہ)، جس انسان کو کسی نظریئے، عقیدے یا شخصیت کی درست شناخت نہ ہو، وہ اس کی تعلیمات کے مطابق عمل بھی درست نہیں کرسکتا۔ گویا انسان کی باطنی معرفت (Esoteric cognition)   اُس کے ظاہری عمل کی عمر اور حدود اربعہ طے کرتی ہے۔ معرفت جتنی گہری ہوتی ہے، عمل اتنا ہی پائیدار ہوتا ہے۔ آسان لفظوں میں کسی بھی شخص پر اُس کے عقیدے کی سچائی جتنی آشکار ہوتی ہے، وہ اُس پر عمل کا بھی اتنا ہی پابند ہوتا ہے۔ اِس رو سے معرفتِ نہائی اور عملِ بلافصل جُزوِ لاینفک ((Indivisible)) ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں پیغمبرِ اسلام ؐ کی سیرت کے مطابق اعمال انجام دینے کا حکم دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمیں جتنی پیغمبرِ اسلام ؐ کی معرفت ہوگی، ہم اتنا ہی اُن کی سیرت پر عمل کریں گے۔ بانی اسلام کی معرفت کا ایک اہم اور قطعی منبع (Definite source) قرآن مجید ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کسی بھی چیز کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت اور شناخت حاصل کرنے کا رجحان کم  ہے، چنانچہ بانی اسلامﷺ کی بھی جو کچھ شناخت ہمیں ہے، اُس کا زیادہ تر انحصار قرآن مجید کے علاوہ دیگر کتب اور ہمارے اپنے قلبی تمایلات پر ہے۔

اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بانی اسلامﷺ کی درست شناخت، یعنی معرفت کے بغیر زندگی گزارنے کے بجائے قرآن مجید سے حقیقی معرفت حاصل کریں۔ یعنی ہمیں اپنے خود ساختہ ذہنی مفروضات اور کہنہ عقائد پر قائم رہنے کے بجائے قرآن مجید کی نورانی و ملکوتی آیات سے اپنے پیغمبرﷺ کی معرفت حاصل کرنی چاہیئے۔ کسی بھی قوم کا رہبر و رہنماء اس کے لئے نمونہء عمل (Role model) ہوتا ہے۔ اقوام اپنے رہبر کے نقشِ قدم پر چل کر ہی تعمیر و ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ گویا کسی قوم کے قائد کے نقوشِ زندگانی ہی اپنی قوم کے لئے چراغِ ہدایت ہوتے ہیں۔ قائد اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں جس طور سے بھی زندگی گزارتا ہے، اس کا ہر لمحہ اپنی قوم کے لئے نشانِ علم و عمل بن جاتا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت محمد الرسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو امّت مسلمہ کے لئے قائد اور نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب یہ مسلمانانِ عالم کی ذمہ داری ہے کہ وہ پیغمبرِ اسلام کی شخصیت اور حیاتِ مقدسہ کے تمام پہلووں کی معرفت حاصل کریں، تاکہ اس معرفت کے مطابق اعمال انجام دے سکیں۔ ہم اس مختصر تحریر میں قرآن مجید کو بطورِ منبع اپنے سامنے رکھ کر بانی اسلام کی معرفت کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خداوندِ عالم سے دعا گو ہیں کہ وہ ہماری اس سعی و کاوش کو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں سعادت و نجات کا باعث بنائے۔(آمین)

ولادت سے پہلے حضور کی بشارت
قرآن مجید کے مطابق حضرت محمد الرسول اللہﷺ کے آنے کی بشارت آپ سے پہلے والے انبیا خصوصاً حضرت عیسیٰ نے دی ہوئی تھی۔ اس حوالے سے ایک آیت ملاحظہ فرمائیں:وَاِذْ قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَابَنِی ِسْرَائِیلَ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ یَْتِی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ َاحْمَدُ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ قَالُوا ہَذَا سِحْر مُبِین۔ "اور اس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں، جس کا نام احمد ہے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔[1] مندرجہ بالا آیت کے مطابق حضرت عیسیٰ نے حضورِ اکرم کے آنے کی بشارت دی تھی۔

حضورؐ کی ولادت کو بشارت کہنے کی وجہ
حضورِ اکرم  کے دنیا میں تشریف لانے کو اس لئے بشارت کہا گیا ہے، چونکہ حضورِ اکرم اپنے سے پہلے والے انبیاء کے مقابلے میں نئے اور بلند مفاہیم و مطالب اور کامل و اکمل شریعت لے کر آئے ہیں۔ اگر حضورِ اکرم نئے مفاہیم و معارف نہ لاتے یا گذشتہ انبیاء کے ہی ہم پلّہ شریعت لاتے تو ایسے میں یہ کوئی بشارت کی بات نہ تھی اور نہ ہی کسی نبی ضرورت تھی۔ حضرت عیسیٰ کا اپنی قوم کو حضورِ اکرم کی آمد کی بشارت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حضورِ اکرم نہ صرف حضرت عیسیٰ سے اور قرآن مجید نہ صرف انجیل سے افضل و برتر ہے بلکہ حضورﷺ اپنے سے سابق تمام انبیاء سے برتر ہیں اور قرآنِ مجید گذشتہ تمام آسمانی کتابوں سے افضل ہے۔ چونکہ حضورﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے اور آپ ختم النّبیین ہیں، یعنی آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، اس لئے آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

حضورؐ کی نبوّت کا مقام 
             
حضور اکرمﷺ نہ صرف یہ کہ نبی ہیں بلکہ ختم النبیین ہیں۔ آپ کی فضیلتوں میں سے ایک فضیلت آپ کا ختم النبیّن ہونا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ پروردگار ہے: مَا کَانَ مُحَمَّد َبَا َحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَکِنْ رَسُولَ اﷲِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ وَکَانَ اﷲُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمًا۔ "محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شے کا خوب جاننے والا ہے۔"[2]  مندرجہ بالا آیت حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت پر واضح اور روشن دلیل ہے۔ اس آیت میں حضور اکرمﷺ  کو خَاتَمَ النَّبِیِّین کہا گیا ہے۔

خَاتَمَ النَّبِیِّین کا مطلب

خَاتَم کسی تحریر کے آخر میں لگائی جانے والی مہر کو کہتے ہیں۔ جب محرّر (تحریر کرنے والا) اپنی تحریر مکمل کر لیتا ہے تو وہ آخر میں ایک مہر لگا دیتا ہے، تاکہ (قاری) پڑھنے والے کو پتہ چل جائے کہ بات ختم ہوگئی ہے۔ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے سلسلہ نبوت کو جاری کرنے والے پروردگار نے حضورﷺ کو خَاتَمَ النَّبِیِّین، یعنی آخری نبی قرار دیا ہے۔ پس قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کے بعد ناں کوئی نبی آیا ہے اور ناں ہی آئے گا۔ حضورﷺ کا ایک اور امتیاز آپﷺ کی عبودیت اور بندگی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عبودیت کے بارے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

حضورؐ  کی بندگی اور عبادت 
      
خداوند عالم کے نزدیک سب سے کامل ترین عبادت حضور اکرمﷺ کی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے آپ کے سوا کسی اور نبی یا رسول کو عبدہ یعنی بطور خاص اپنا عبد نہیں کہا جبکہ آپ کے بارے میں سورہ فرقان آیت ١میں ارشاد مبارک ہے: تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ۔ "بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے"(١) اسی طرح سورہ اسراء کی آیت ایک میں ارشاد پروردگار ہے: سُبْحَانَ الَّذِی َسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ِلَی الْمَسْجِدِ الَْقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا ِنَّہ ہُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ۔ "پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار، جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔"(١) حضور اکرمﷺ کی ایک اور اہم فضیلت یہ ہے کہ قرآن مجید نے آپ کو اول المسلمین قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اول المسلمین ہونے کے بارے میں کس طرح سے گفتگو فرمائی ہے۔

اوّلِ مخلوق اور اول مسلمین

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اکرمﷺ سے فرمایا ہے کہ آپ لوگوں سے کہیں کہ میں اوّلُ المسلمین (پہلا مسلمان) ہوں۔ خدا نے کسی اور پیغمبر کے لئے یہ لقب استعمال نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت ابراہیم، رسول اکرمﷺ سے پہلے دنیا میں تشریف لائے اور بزرگانِ انبیاء میں شمار ہوتے ہیں، خود رسول اکرمﷺ کا بھی ارشاد ہے کہ "انا ابن الذبیحین" حضورﷺ نے خود کو حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسمٰعیل کا فرزند قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت ابراہیم کو اوّلُ المسلمین نہیں کہا۔ حضرت نوح شیخ الانبیاء ہیں اور حضرت آدم جو کہ ابولبشر ہیں، خدا نے انھیں بھی اس لقب سے منسوب نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کوﷺ وقت اور زمانے کے اعتبار سے اوّلُ المسلمین نہیں کہا گیا، چونکہ حضورﷺ سے پہلے بھی انبیاء اس دنیا میں موجود تھے۔ حضورﷺ کو اس لئے اوّلُ المسلمین کہا گیا ہے، چونکہ آپﷺ مخلوقِ اوّل ہیں، یعنی آپ کی ذات ِ اقدس سب سے پہلے خلق ہوئی، چنانچہ اس لحاظ سے آپ اوّلُ المسلمین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے حضورﷺ ہی محشور ہوں گے۔

خدا وندِ عالم نے سورہ انعام کی آیت ١٦٢تا ١٦٣ میں ارشاد فرمایا ہے: قُلْ ِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَای وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (١٦٢) لاَشَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ ُمِرْتُ وََنَا َوَّلُ الْمُسْلِمِینَ (١٦٣) (162) کہہ دیجئے کہ میری نماز، میری عبادتیں، میری زندگی، میری موت سب اللہ کے لئے ہے، جو عالمین کا پالنے والا ہے۔ (163) اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت ١٢ میں ارشاد پروردگار ہے: قُلْ ِنِّی ُمِرْتُ َنْ َعْبُدَ اﷲَ مُخْلِصًا لَہُ الدِّینَ (١١) وَُمِرْتُ لَِنْ َکُونَ َوَّلَ الْمُسْلِمِینَ (١٢) (11) کہہ دیجئے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اخلاص عبادت کے ساتھ اللہ کی عبادت کروں (12) اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا مسلمان بن جاوں۔ حضورﷺ کی شخصیّت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کی سیرت و سنّت سراپائے وحی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔

سراپائے وحی

قرآن مجید نے حضورﷺ کے کلام اور سکوت دونوں کو مرضیِ پروردگار کے تابع قرار دیا ہے۔ جیسا کہ سورہ نجم کی آیت ٣ اور ٤ میں ارشاد پروردگار ہے۔ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) انْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی(٤) "وہ ہوائے نفس کے تحت نطق نہیں کرتا، اس کا نطق وحی ہوتا ہے۔" یاد رہے کہ نطق سے مراد قول یا گفتگو نہیں ہے بلکہ نطق سے مراد سکوت و گفتگو ہر دو حالتیں ہیں۔ قانونی اختراعات اور سماجی مسائل کے بارے میں انسان جو کچھ بھی ہوائے نفس کے تحت کرتا ہے، وہ ناں ہی تو جامع اور کامل ہوتا ہے اور ناں ہی حق و عدالت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے، لیکن اس کے برعکس انسان جو کچھ وحی الٰہی کے تحت کرتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ جامع اور کامل ہوتا ہے بلکہ عین حق و عدالت بھی ہوتا ہے۔ پس پیغمبر اسلامﷺ کی تمام گفتار و کردار میں وحی کا پرتو اور جلوہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح سے ہوائے نفس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو پیکرِ عصمت قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عصمت و طہارت کے بارے میں کس انداز سے گفتگو فرمائی ہے۔

عصمت و طہارت  کا درجہ

عصمت و طہارت سے مراد فقط انسان کی گفتگو میں غلطیوں سے حفاظت نہیں بلکہ اس کے تمام مراحلِ زندگی میں غلطیوں اور لغزشوں سے حفاظت کا نام عصمت و طہارت ہے۔ چنانچہ وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی (٣) ِانْ ہُوَ ِلاَّ وَحْی یُوحَی (٤) سے یہی مطلب بیان ہو رہا ہے کہ حضورﷺکی تمام سیرت و حیات، عصمت و طہارت میں ڈھلی ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ انعام کی آیت ٥٠ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ا ِنْ َتَّبِعُ ِلاَّ مَا یُوحَی۔ "ہم تو صرف وحی پروردگار کا اتباع کرتے ہیں۔" چونکہ حضورﷺ نے صرف وحی کی پیروی کی ہے، اس لئے آپ کی تمام تر زندگی عصمت و طہارت کی آئینہ دار ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کی ذات ِمقدس کو معصوم ہونے کے باعث تمام جہان کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کو نمونہ عمل قرار دینے سے متعلق قرآن مجید نے کیا بیان فرمایا ہے۔

بحیثیتِ نمونہ عمل

قرآن مجید نے سورہ احزاب کی آیت ٢١ میں حضورﷺ کو تمام عالم کے لئے نمونہ عمل قراردیتے ہوئے فرمایا ہے: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اﷲِ ُسْوَة حَسَنَة لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اﷲَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اﷲَ کَثِیرًا۔ "تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔" اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف یہ کہ رسولِ اکرمﷺ کو نمونہ عمل قرار دیا گیا ہے بلکہ ان لوگوں کی شناخت بھی کرائی گئی ہے، جو حضورﷺ کی اتباع اور پیروی کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق اگر کوئی شخص حضورﷺ کی پیروی نہیں کرتا اور حضورﷺ کو اپنے لئے نمونہ عمل نہیں مانتا تو وہ دراصل اللہ سے غافل ہے اور روزِ آخرت سے ناامید ہے۔ پس اگر ہم اللہ کو اپنا خالق و مالک سمجھتے ہیں اور روزِ قیامت پر یقین رکھتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم زندگی کے تمام سیاسی و اجتماعی و انفرادی معاملات میں بھی حضورﷺ کی پیروی اور اطاعت کریں۔ چنانچہ سورہ حشر کی آیت ٧ میں ارشاد پروردگار ہے: وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ شَدِیدُ الْعِقَابِ۔ "اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے، اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے، اس سے رک جاو اور اللہ سے ڈرو کہ اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔" رسول اکرمﷺ چونکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں، اب آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے اتنے عظیم پیغمرﷺ کو کن القابات اور خطابات سے پکارا ہے۔

خدا کا حضورؐ سے اندازِ گفتگو
 قرآن مجید میں خداوندِ عالم نے مختلف انبیاء کرام کو اُن کے نام لے کر مخاطب کیا ہے، جبکہ حضورﷺ کو نام لے کر پکارنے کے بجائے مختلف القابات سے یاد کیا ہے۔ قرآن مجید نے حضورﷺ کو کبھی "قُل" یعنی فرما دیجئے، کبھی فبشّر عبادالذین۔۔۔ یعنی ان لوگوں کو بشارت دیجئے۔۔۔۔ اور کہیں پر یا ایھا النّبی، کہیں پر یا ایھا لمزمل، کہیں پر یا ایھا المدثر۔۔۔ کہا ہے، لیکن کہیں پر بھی یا محمدﷺ نہیں کہا۔ قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خداوندِ عالم نے حضورﷺ کے اخلاق کو خلقِ عظیم قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے اخلاقِ حسنہ پر کس طرح روشنی ڈالی ہے۔

اخلاقِ حسنہ

خداوندِ عالم تمام اوصافِ حسنہ اور عظمتوں کا حقیقی مالک ہے۔ حضور اکرمﷺ اس قدر اعلیٰ و ارفع اخلاق کے مالک تھے کہ تمام اوصافِ حسنہ کے خالق و مالک نے بھی آپ کے خُلق کو "خُلقِ عظیم" کہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ قلم کی آیت ٤:
وَِانَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ(٤) "اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔" چونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان کی عظمت اور قدر و قیمت مال و ثروت اور جاہ و حشمت سے ہے، لیکن خدا نے اس آیہ مجیدہ کے ذریعے سے بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیا ہے کہ عظمت خُلق میں ہے مال و دولت میں نہیں ہے۔۔ حضورﷺ کی ذاتِ گرامی کو قرآن مجید نے جہاں پر خُلقِ عظیم قرار دیا ہے، وہیں پر آپ کے خُلق کی جہانِ ہستی کو فیضیاب کرنے کے لئے آپ کو عالمی نبی بھی قرار دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضورﷺ کی نبوّت کے عالمی ہونے کے بارے میں قرآن مجید نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔

عالمی نبوّت    
  
خداوند عالم نے حضورﷺ کی نبوّت کو عالمی قرار دیا ہے، البتّہ اس نبوّت کو صرف مومنین پر احسان شمار کیا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے خدا نے قرآن کو عالمین کے لئے بھیجا ہے، لیکن صرف متّقین کے لئے ہی ہدایت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت١٨٥ میں ارشاد پروردگار ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی ُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِلنَّاس۔ "ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔" قرآن مجید نازل تو پورے عالمِ انسانیت کے لئے ہدایت بن کر ہوا، لیکن اس سے ہدایت صرف متّقین ہی حاصل کرتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ٢ میں ارشاد پرور دگار ہے: ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَرَیْبَ فِیہِ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ۔ "یہ وہ کتاب ہے، جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے۔" اس طرح حضورﷺ کے بارے میں ارشاد پروردگار ہے کہ ہم نے آپ کو پورے عالم بشریت کے لئے بھیجا ہے، لیکن آپ کو بھیج کر احسان صرف مومنین پر کیا ہے۔ چونکہ غیر مومن لوگ اس نعمت کو سمجھتے ہی نہیں تو ان پر احسان کس بات کا۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ سباء کی آیت٢٨: وَمَا َرْسَلْنَاکَ ِلاَّ کَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَ نَذِیرًا وَلَکِنَّ َکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ۔ "اور پیغمبرﷺ ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے، یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں۔" چونکہ پیغمبر کی آمد کی حقیقت سے اکثر لوگ بے خبر ہیں تو اس لئے پیغمبر کی بعثت کا احسان صرف اور صرف مومنین سے منسوب کیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت١٦٤: لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِنْ َنْفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمْ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبِینٍ۔ "یقیناً خدا نے مومنین پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے، جو ان پر آیات الہیہ کی تلاوت کرتا ہے، انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔" سورہ اعراف کی آیت١٥٨میں بھی حضورﷺ کو پورے عالم بشریت کے لئے رسول کہا گیا ہے۔ آیت قرآنی ملاحظہ فرمائیں۔ قلْ یَاَیُّہَا النَّاسُ ِنِّی رَسُولُ اﷲِ ِلَیْکُمْ جَمِیعًا۔ "پیغمبر ----- کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول اور نمائندہ ہوں۔"

مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورِ اکرمﷺ کی نبوت تو عالمی اور بین الاقوامی ہے، لیکن اس سے فیضیاب فقط مومنین ہوتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے سورج تو پوری دنیا میں چمکتا ہے، لیکن اس کی روشنی سے صرف بینا لوگ ہی فائدہ اٹھاتے ہیں، اندھے سورج کی روشنی میں بھی تاریکی جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ چونکہ صرف مومنین ہی حضورﷺ کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں اور حضورﷺکی ذات سے فیض اٹھاتے ہیں، اس لئے حضورﷺ پر درود بھیجنے کے لئے بھی صرف مومنین کو ہی کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٦: ا ِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا۔ "بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے مومنین تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو۔" رسول اکرمﷺ کی ذاتِ مبارک کو قرآن مجید نے عالمی کہنے کے علاوہ لوگوں کے لئے مونس و ہمدرد بھی کہا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی عوام سے ہمدردی اور شفقت کو کس طرح بیان کیا ہے۔

امت کے درمیان مقام و مرتبہ

خدا تعالیٰ نے بعض انبیاء کو لوگوں کا بھائی کہا ہے۔ جیسے حضرت صالح کے بارے میں سورہ اعراف کی آیت ٧٣ میں فرمایا کہ "ہم نے قوم ثمود کے لئے ان کے بھائی صالح  کو بھیجا" اسی طرح حضرت ہود کے بارے میں سورہ ہود کی آیت ٥٠ میں یوں ارشاد فرمایا: "ہم نے قوم ِعاد کے لئے ان کے بھائی ہود کو بھیجا" اور اسی طرح سورہ شعراء کی آیت ١٠٦ میں حضرت نوح کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: "اس وقت کہ جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا" لیکن پیغمبر اسلام کے بارے میں قرآن مجید نے بھائی کی تعبیر استعمال نہیں کی، بلکہ حضورﷺ کا تعارف قرآن مجید نے یوں کروایا ہے: ھُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الُْمِّیِّینَ رَسُولًا مِنْہُم۔ "اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے، جو ان ہی میں سے تھا۔" پھر اسی طرح سورہ توبہ کی آیت ١٢٨ میں ارشاد فرمایا: لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُول مِنْ َنفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوف رَحِیم۔ "یقیناً تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے، جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے، وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر شفیق اور مہربان ہے۔"
        
مندرجہ بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضورﷺ اپنی عوام دوستی اور مہربانی کے باعث لوگوں سے اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ قرآن مجید نے آپ کا تعارف بھی اس طرح سے کرایا ہے کہ آپ ان لوگوں کے بھائی وغیرہ نہیں بلکہ خود انہی میں سے ہیں۔ یہ بھی آپ کی نرمی، شفقت اور لوگوں کے لئے انس و ہمدردی کا جذبہ ہی تھا کہ جس کی بناء پر سورہ نساء کی آیت ٦٤میں یوں فرمایا گیا ہے: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ وَلَوْ اَنَّھُمْ  اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُااللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَاجَدُوااللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ "اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے، مگر صرف اس لئے کہ حکِم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپﷺ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔" اسی طرح سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ میں حضورﷺ کو عالمین کے لئے رحمت کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ انبیاء کی آیت ١٠٧ وَمَا اَرْسَلْنَاکَ ِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ۔ "اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔" حضورﷺ کی لوگوں سے ہمدردی، شفقت اور رحمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید نے رسولﷺ کی اطاعت بھی لوگوں کے لئے لازمی قرار دی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں حضورﷺ کی اطاعت:
حضورﷺ کی اطاعت کو اللہ نے نہ صرف اپنی اطاعت قرار دیا ہے بلکہ محبوبِ خدا بننے کے لئے اطاعتِ پیغمبرِ اسلامﷺ کو لازمی قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ آل عمران کی آیت ٣١: قُلْ ِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اﷲَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمْ اﷲُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم۔ "اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔" جس طرح حضورﷺ کی اطاعت کو قرآن نے خدا کی محبت اور بخشش و مغفرت کے لئے لازمی قرار دیا ہے، اسی طرح حضورﷺ کی نافرمانی اور عدمِ اطاعت کو بھی خدا کی ناراضگی اور کفر قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں سورہ آل عمران کی ہی آیت ٣٢ ملاحظہ فرمائیں: قُلْ َطِیعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ فَِنْ تَوَلَّوْا فَِنَّ اﷲَ لاَیُحِبُّ الْکَافِرِین۔ "کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔" قرآن مجید نے حضورﷺ کی اطاعت کرنے پر اس قدر تاکید کی ہے اور مومنین کو خبردار کیا ہے کہ ہرگز اپنے آپ کو رسولﷺ پر مقدّم نہ کریں اور رسولﷺ سے آگے نہ بڑھیں۔ چنانچہ سورہ حجرات کی آیت ١ میں ارشاد پروردگار ہے: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ اﷲِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اﷲَ ِنَّ اﷲَ سَمِیع عَلِیم۔ "ایمان والو خبردار خدا اور رسول سے آگے نہ بڑھنا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے۔"

خداوندِ عالم نے جس طرح رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب سے ڈرایا ہے۔ اسی طرح رسول کی اطاعت کرنے والوں کو بھی انعامات و اکرامات کی بشارت دی ہے۔ اس سلسلے میں سورہ نساء کی آیت ٦٩ ملاحظہ فرمائیں: وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ۔ وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِیْقًا۔ "اور جو بھی اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا، جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں۔ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔" قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رسولﷺ کی اطاعت کئے بغیر اللہ کی اطاعت کا دم بھرے تو اصل میں وہ اطاعت ِ الٰہی کا محض ڈھونگ رچا رہا ہے اور خدا کے نزدیک ایسے شخص کا اطاعت کا دعویٰ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور ایسے لوگوں کو جہنّم میں دھکیلا جائے گا۔ جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت٦٦ میں ارشاد پروردگار ہے: یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُولُونَ یَالَیْتَنَا َطَعْنَا اﷲَ وََطَعْنَا الرَّسُولَ۔ "جس دن ان کے چہرے جہنم کی طرف موڑ دیئے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ اے کاش ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی۔"
      
قرآن مجید کے مطابق حضورﷺ کے فیصلے کے بعد کسی کو چون و چرا کرنے کی اجازت نہیں ہے، چونکہ اطاعت کا تقاضا یہی ہے کہ حکمِ رسولﷺ کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا جائے۔ اس ضمن میں سورہ احزاب کی آیت٣٦ ملاحظہ فرمائیں:  وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَمُؤْمِنَةٍ ِذَا قَضَی اﷲُ وَرَسُولُہُ َمْرًا َنْ یَکُونَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ مِنْ َمْرِہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اﷲَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِینًا۔ "اور کسی مومن مرد یا عورت کو اختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی امر کے بارے میں فیصلہ کر دیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی کرے گا، وہ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔" مندرجہ بالا آیات سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی اطاعت ہی اصل میں خدا کی اطاعت ہے اور اگر کوئی رسولﷺ سے دوری اختیار کرتا ہے تو وہ دراصل قرآن سے دوری اختیار کرتا ہے، چونکہ حضورﷺ کی اطاعت اور پیروی کا حکم قرآن مجید نے ہی دیا ہے۔ قرآن مجید نے صرف حضورﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ حضورﷺ کے ادب و احترام کا بھی حکم دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید نے حضورﷺ کے ادب و احترام کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔

امت پر ادب و احترام کا وجوب

خداوندِ عالم نے لوگوں کو پیغمبرﷺ کا احترام بجا لانے کی از حد تاکید فرمائی ہے۔ بعض لوگ پیغمبرﷺ سے اس حد تک بے تکلّف ہوا چاہتے تھے کہ کبھی آرام کے وقت میں مخل ہوتے تھے اور کبھی بزم ِپیغمبر ﷺ میں پیغمبر کی آواز سے اپنی آواز کو بلند کرتے تھے اور کبھی پیغمبرﷺ سے بلاضرورت سرگوشی کرتے تھے، قرآن مجید ان تمام امور کو خلاف ادب و احترام شمار کیا ہے اور لوگوں کو ایسی حرکات سے منع فرمایا ہے۔ نمونے کے طور پر سورہ حجرات کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں۔  َاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَرْفَعُوا َصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَتَجْہَرُوا لَہُ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ َنْ تَحْبَطَ َعْمَالُکُمْ وََنْتُمْ لاَتَشْعُرُونَ(٢) اِنَّ الَّذِینَ یَغُضُّونَ َصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ ُوْلَئِکَ الَّذِینَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوبَہُمْ لِلتَّقْوَی لَہُمْ مَغْفِرَة وََجْر عَظِیم(٣) ِنَّ الَّذِینَ یُنَادُونَکَ مِنْ وَرَائِ الْحُجُرَاتِ َکْثَرُہُمْ لاَیَعْقِلُونَ(٤) وَلَوْ َنَّہُمْ صَبَرُوا حَتَّی تَخْرُجَ ِلَیْہِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَہُمْ وَاﷲُ غَفُور رَحِیم(٥)
                   
(2)ایمان والو خبردار اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی نہ کرنا، جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو۔ (3)بیشک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آواز کو دھیما رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو خدا نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے اور ان ہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (4)بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں، ان کی اکثریت کچھ نہیں سمجھتی ہے۔ (5)اور اگر یہ اتنا صبر کر لیتے کہ آپ نکل کر باہر آجاتے تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اس کے علاوہ حضور کے گھر میں زیادہ دیر رکنے اور گپیں ہانکنے سے بھی لوگوں کو منع فرمایا ہے اور حضورﷺ کی بیویوں کو بھی خاص احترام دیا ہے اور لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ازواج پیغمبر سے پردے کے پیچھے سے سوال کریں، نیز ازواج پیغمبر سے پیغمبرﷺ کے بعد کسی اور کا نکاح کرنا بھی ممنوع قرار دیا ہے۔

ملاحظہ فرمائیں سورہ احزاب کی آیت ٥٣: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ ِلاَّ َنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ ِلَی طَعَامٍ غَیْرَ نَاظِرِینَ ِنَاہُ وَلَکِنْ ِذَا دُعِیتُمْ فَادْخُلُوا فَِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلاَمُسْتَْنِسِینَ لِحَدِیثٍ ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیِ مِنْکُمْ وَاﷲُ لاَیَسْتَحْیِ مِنْ الْحَقِّ وَِذَا سََلْتُمُوہُنَّ مَتَاعًا فَاسَْلُوہُنَّ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ ذَلِکُمْ َطْہَرُ لِقُلُوبِکُمْ وَقُلُوبِہِنَّ وَمَا کَانَ لَکُمْ َنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اﷲِ وَلاََنْ تَنْکِحُوا َزْوَاجَہُ مِنْ بَعْدِہِ َبَدًا ِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اﷲِ عَظِیمًا(٥٣) (53)اے ایمان والو خبردار پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا، جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا، ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہوجائو اور جب کھالو تو فوراً منتشر ہو جاو اور باتوں میں نہ لگ جائو کہ یہ بات پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارا خیال کرتے ہیں، حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے اور تمہیں حق نہیں ہے کہ خدا کے رسول کو اذیت دو یا ان کے بعد کبھی بھی ان کی ازواج سے نکاح کرو کہ یہ بات خدا کی نگاہ میں بہت بڑی بات ہے۔"

اسی طرح سورہ مجادلہ کی آیت ١٢ میں لوگوں کو حضورﷺ کے ساتھ خواہ مخواہ سرگوشی کرنے سے روکنے کے لئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آئندہ جو کوئی بھی حضور سے سرگوشی کرے، وہ حتّی المقدور صدقہ بھی دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ  مجادلہ کی آیت ١٢: یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا نَاجَیْتُمْ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَةً ذَلِکَ خَیْر لَکُمْ وََطْہَرُ فَِنْ لَمْ تَجِدُوا فَِانَّ اﷲَ غَفُور رَحِیم۔ "ایمان والو! جب بھی رسول کے کان میں کوئی راز کی بات کرو تو پہلے صدقہ نکال دو کہ یہی تمہارے حق میں بہتری اور پاکیزگی کی بات ہے پھر اگر صدقہ ممکن نہ ہو تو خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔"

خلاصہ
ہمارے پاس معرفت کا سب سے اہم منبع قرآن مجید ہے۔ توحید و نبوت، مبدا و معاد، میزان و صراط، حیات و کائنات اور ملکوت و موجودات کی صحیح شناخت صرف اور صرف قرآن مجید سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور نہیں ہے کہ لوگ اس کی تلاوت نہیں کرتے بلکہ عالمی سچائی یہ ہے کہ دنیا میں آج بھی سب سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کی ہی کی جاتی ہے۔ قرآن مجید اس لئے مہجور ہے کہ ہم حقائق و عقائد کے بارے میں قرآن مجید سے معرفت حاصل نہیں کرتے اور ہمارے اس تساہل کا سایہ بانی اسلامﷺ کی معرفت پر بھی پڑا ہوا ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں پیغمبرِ اسلام کی معرفت اور شناخت بھی قرآن مجید کے بجائے دیگر منابع سے بیان کرنے کا رواج  زیادہ ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے پیغمبر کی شناخت اور معرفت کو قرآن مجید سے حاصل کریں، چونکہ ہمارے پیغمبرﷺ کی معرفت کا سب تحریر: نذر حافیسے اہم منبع قرآن مجید ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ہمیں اپنے نبی اکرمﷺ کی صحیح معرفت نصیب ہوگی تو پھر ہمارے اعمال بھی اس معرفت کے مطابق درست ہوتے جائیں گے۔
 
 
 

گذشتہ سے پیوستہ
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے بعد آپ کے جانشین حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت پر تاکید فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایران اسلامی کی مجموعی پالیسی اتحاد و اتفاق پر استوار ہے۔ آپ نے اپنے ایک خطاب میں سنی شیعہ اختلاف پھیلانے والی سامراجی طاقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسان خدا، قرآن، پیامیر، نماز، کعبہ، حج اور دینی مسائل میں ہم عقیدہ ہیں، ان کے درمیان مشترکات بہت زیادہ اور اختلافات بہت کم ہیں۔ اگر یہ لوگ بہت زیادہ مشترکات کو نظرانداز کرکے چند اختلافات کو سامنے رکھ کر آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کر دیں تو اس سے کس کو فائدہ پہنچے گا، ان طاقتوں کو جو اسلام، خدا، قرآن اور پیغمبر کے مکمل خلاف ہیں یا مسلمان طاقتوں کو جن کے درمیان اختلافات صرف چند فروعات تک محدود ہیں۔؟

رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں اسلامی وحدت سے مراد اسلام کے بارے میں مشترکہ فہم، مشترکہ صلاحیتوں اور گنجائشوں سے استفادہ اور دشمن کے مقابلے میں مشترکہ اتحاد و انسجام ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اسلامی وحدت کو ایک اسٹریٹجی سمجھتے ہیں نہ کہ ٹیکنیک۔ آپ ہمیشہ علماء، روشن خیال دانشوروں اور اسلام کی سیاسی و ثقافتی شخصیات کو پیغمبر اور قرآن کی تعلیمات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حبل اللہ سے متمسک ہونے کی تلقین فرماتے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی فرماتے ہیں کہ سنی اور شیعہ کے دو مکتب ہیں اور دونوں کے پیروکار ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ وحدت سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ سنی شیعہ ہو جائے اور شیعہ سنی۔ وحدت سے مراد باہمی اخوت و برادری ہے۔ عصر حاضر میں مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ تفرقہ بازی اور تکفیریت نے اسلام کو سخت مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔

سنی شیعہ سب ایک قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔ ان کا قرآن ایک ہے، خدا واحد و یکتا کی عبادت کرتے ہیں اور رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی محبت دونوں کے قلوب میں موجزن ہے۔ آج دشمن مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کوشاں ہے، وہ اسلامی ممالک پر غلبہ پانے کے لیے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو اتحاد و وحدت کی دعوت دینا ایک شرعی فریضہ ہے اور اس دعوت پر لبیک کہنا مسلمانوں کی عزت و سعادت کا باعث ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کے لیے جہاں اور بہت سے مشترکات ہیں، ان میں سب سے اہم اور نمایاں رسول گرامی کی ذات مقدس ہے، جس پر تمام مسلمان مکاتب متفق اور متحد ہیں اور آپ کی ذات گرامی کو اپنے لیے آئیڈیل اور مثالی نمونہ قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ رسول خدا کی ذات اقدس مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکتی ہے اور آپ کی ذات ہر دور کے انسان کے لیے بہترین نمونہ ہے۔

قرآن پاک بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوِئے کہتا ہے کہ مسلمانوں تم میں سے اس کے لیے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔ آرٹیکل میں آپ کی مدنی زندگی میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے لیے انجام پانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کے ہم اصل موضوع پر آئیں، یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول خدا نے ایک ایسے عالم میں جزیرۃ العرب میں خدا کا پیغام پہنچایا کہ وہ مکہ و مدینہ کا معاشرہ جاہلیت کے اندھِیروں میں گم تھا اور قبائل ایک دوسرے سے دست و گریبان تھے۔ قبائل کے درمیان اختلافات برسوں پر محیط تھے۔ مثال کے طور پر جب آپ نے مدینہ منورہ میں قدم رنجہ فرمایا تو اس وقت مدینہ منورہ میں دو قبائل اوس و خزرج کے درمیان قبائل جنگ عروج پر تھی اور جنگ کا یہ سلسلہ گذشتہ 128 برسوں پر مشتمل تھا۔

قبائل کے درمیان اختلافات کا سلسلہ اتنا طویل اور گمراہ کن تھا کہ حعفر ابن طالب نے حبشہ ہجرت کے موقع پر حبشہ کے بادشاہ کو مکہ و مدینہ کی معاشرتی صورت حال کو کچھ اس انداز سے بیان کیا۔ ہم ایسے افراد تھے کہ بتوں کی پوچا کرتے تھے، مردار کھاتے تھے، برے اعمال انجام دیتے تھے۔ رشتہ داروں سے قطع رحم کرتے، ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور عہد و پیمان کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ہمارے طاقتور کمزورں کا استحصال کرتے تھے۔ ہماری صورتحال اس طرح تھی کہ خدا نے ہمارے درمیان ایک نبی بھیجا۔ رسول نے ہمیں خدا کی طرف دعوت دی، تاکہ ہم اسے واحد و یکتا معبود قرار دیں اور اس کی عبادت کریں۔ رسول خدا نے اس طرح کے معاشرے میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا اور برائیوں اور بدعنوانیوں میں گھرے معاشرے میں توحید، صداقت، سچائی اور باہمی امور کو مہر و محبت سے انجام دینے کا پیغام دیا۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک معاشرے کو اس وقت تک تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس معاشرے کی ثقافت اور ذہنیت کو تبدیل نہ کر دیا جائے۔ رسول خدا نے جاہل اور بت پرست معاشرے کو توحید کی طرف دعوت دی، قرآن بھی اس طرح دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ قرآن پاک سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں ارشاد فرماتا ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اور اس نے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں نکال لیا اور اس طرح اپنی آیات بیان کرتا ہے کہ شاہد تم ہدایت یافتہ بن جائو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔

عید میلاد النبی (ص) اور ہفتہ وحدت کی مناسبت سے فلسطین امت مسلمہ کے اتحادو یکجہتی  کے مرکز کے عنوان سے بین الاقوامی تحریک اور مہم کا آغاز ہوگيا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مسئلہ فلسطین دنیائے اسلام کا سب سے پہلا اور اہم مسئلہ ہے جس کے اثرات دنیا بھر کے مسلمانوں پر مرتب ہوتے ہیں بعض اسلامی ممالک کے نام نہاد حکمرانوں کی مسئلہ فلسطین پر عدم توجہ اور اسرائیل کے ساتھ دوستی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے باعث مسئلہ فلسطین مزید اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ سماجی سائٹوں پر اسلامی ممالک کے سرگرم دانشوروں اور شخصیات نے قرآن مجید کی اس آیہ "مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهُمْ" کے پیش نظر فلسطین امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی کے مرکز کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا ہے ۔ اس بین الاقوامی مہم میں مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا بنیادی اور اساسی مسئلہ قراردیا گيا ہے اور فلسطین کے محور پر مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کی حمایت  اور اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کرنے کی مخالفت کے سلسلے میں مہم چلائي جائےگی۔ اس مہم کے بانیوں نے سوال کیا ہے کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے زمانے میں موجود ہوتے تو ان کی غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ رفتار کیسی ہوتی؟ اس مہم  کے بانیوں نے شرکاء سے درخواست کی ہے کہ وہ مذکورہ  سوال کی روشنی میں جواب دیکر اسے سماجی سائٹوں پر نشر کریں اور غاصب صہیونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں دین اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی تعلیمات کی روشنی میں طریقہ کار پیش کریں اور تحریک اور اس مہم میں شرکت کے لئے آپ اس ایڈرس " http://unityforpalestine.com "  پر فوٹو کے ہمراہ اپنا نام  درج کرسکتے ہیں اور مذکورہ سوال کا جواب دیکر اس مہم کو سماجی سائٹوں پر نشر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔

ایران بھر کی یونیورسٹیوں کے دوہزار چار سو مذہبی مبلغین اور علمائے کرام نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے جس میں آزادی بیان کے نام پر انسانی اقدار اور مذہبی مقدسات کی توہین کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
بیان میں آیا ہے کہ دنیا بھر کے حریت پسندوں پر شکنجہ کسنے اور  براعظم افریقہ کی خداداد دولت کو لوٹنے والی سامراجی اور استعماری طاقتوں نے آزادی بیان اور انسانیت کے احترام جیسے پرفریب نعروں کی آڑ میں مقدسات کی توہین کو اپنے شعار بنا رکھا ہے جو کسی طور قابل قبول نہیں۔
 بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران بھر کی یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے علما اور مبلغین فرانس میں پیغمبر رحمت حضرت محمد مصطفی (ص) کی شان اقدس میں کی جانے والی توہین کی مذمت کرتے ہیں اور اسے تمام انبیائے الہی کی توہین سمجھتے ہیں۔


امسال ہفتہ وحدت کے پروگرامات اور تقریبات ایسے عالم میں انجام پا رہے ہیں کہ ایک طرف منحوس کرونا نے عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات، بحرین کے بعد سوڈان جیسے اسلامی ملکوں کے سربراہ غاصب اسرائیل کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ سعودی حکمران بھی ذہینی اور قلبی طور پر اسرائیل کی زلفوں کے اسیر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی وحدت کی اہمیت میں اور بھِی اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج کل عید میلاد النبی کے ایام ہیں، دنیا بھر میں رسول گرامی حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ولادت باسعادت کے جشن برپا ہیں۔ اہل سنت کے ہاں 12 ربیع الاول اور اہل تشیع کے ہاں 17 ربیع الاول کو ولادت باسعادت کے پروگرام اور تقریبات منعقد ہوتے ہیں۔ امام خمینی نے ولادت کی تاریخ کے اس اختلاف کو اتحاد و وحدت میں تبدیل کرنے کے لیے 12 سے 17 ربیع الاول کے درمیان ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا۔ آج امت مسلمہ جس بحرانی دور اور مشکلات سے گزر رہی ہے اور جس طرح مسلماںوں کو لڑانے کے لیے سامراجی سازشیں زور و شور سے جاری ہیں، ماضی میں اس کی مثالیں کم ملتی ہیں۔

اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ماضی میں بھی مسلمانوں اور اسلام کو جب کبھی بھی نقصان پہنچا تو وہ مسلمانوں کے باہمی اختلاف و افتراق کا ہی نتیجہ تھا۔ آج دشمن کی طرف سے میڈیا وار اور نرم جنگ میں جس موضوع پر سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کا ایجنڈا ہے۔ آج یمن، بحرین، نائیجریا، میانمار، کشمیر، افغانستان، عراق، شام اور فلسطین جیسے ممالک پر نظر دوڑائیں تو انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں نے مسلمان ریاستوں کو کس طرح کے چیلنجوں اور مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج امت مسلمہ اگر یکجا اور ہم آہنگ ہوتی کیا مذکورہ بحران زدہ مسلمان ممالک کے عوام کی یہ صورتحال ہوتی۔ اگر مسلمان قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اور اتحاد و وحدت کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے تو اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کا بال بھی بیکا نہ کرسکتیں۔

گذشتہ سالوں میں تکفیری گروہوں کی تشکیل کا ایجنڈا بھی بنیادی طور پر اسلام کو کمزور کرنے کی بلواسطہ سازش تھی۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکو حرام جیسے گروہ بظاہر اسلام کی شناخت کے ساتھ جس طرح عالم اسلام کو تقسیم کرنے کا باعث بنے، اس طرح کا کام ماضی میں کفار و مشکرین بھی نہ کرسکے۔ ان تکفیری اور انتہاء پسند گروہوں نے اسلام کے امن و صلح پسند چہرے کو اس طرح بگاڑ کر پیش کیا کہ اب بدقسمتی سے اسلام اور دہشت گردی کا نام ساتھ ساتھ لیا جانے لگا ہے۔ قرآن نے جس اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا، تکفیری گروہوں نے عملی میدان میں اس کی نفی کی۔ قرآن وحدت و یکجہتی پر تاکید کرتا ہے جبکہ تکفیری اور انتہاء پسند گروہ کلمہ گو مسلمانوں کو بھی دائراہ اسلام سے خارج کرنے پر بضد ہیں۔ قرآن توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے اتحاد و یکجہتی اور انسانوں پر احسان کی بات کرتا ہے، لیکن تکفیری گروہ توحید کے نام پر مسلمانوں کے گلے کاٹ رہے ہیں اور انہیں زندہ جلا کر اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرآن "وعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو" کی صدائیں بلند کر رہا ہے اور تکفیری اور انتہاء پسند نام نہاد مسلمان تفرقہ اور نفرت کو اسلام کا شعار اور سلوگن قرار دے کر اپنے علاوہ ہر ایک کو کانفر اور مشرک بنا رہے ہیں۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے ایک خطبے میں مسلمانوں کے رہبر و رہنما کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ حکومت میں حاکم کی حیثیت وہی ہے جو تسبیح میں دھاگے کی ہوتی ہے، جو سب کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔ اگر یہ لڑی ٹوٹ جائے تو تسبیح کے تمام دانے بکھر جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی مثال ایک ڈیم کی مانند ہے، جو بکھرے پانی کو ایک جگہ جمع کرکے ایک ایسی طاقت میں بدل دیتا ہے، جس سے توانائی اور بجلی تیار ہوسکتی ہے، بنجر اور ویران زمینیں آباد اور سرسبز و شاداب کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ پانی ڈیم کی بجائے وسیع و عریض زمین پر پھیل جائے اور اس کے سامنے ڈیم نہ بنایا جائے تو اتنی بڑی طاقت ضائع و ناپید ہو جائے۔ مسلمانوں کے درمیان اگر اتحاد نہ ہو، ان کی توانائیاں اور صلاحتیں بکھر جائیں اور ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو امت مسلمہ کا عظیم پوٹینشل اور صلاحیت بغیر کسی مقصد و ہدف کے ضائع ہو جائے گی۔ مسلمانوں کے باہمی اتحاد و انسجام کی بہت برکتیں ہیں۔ مسلمان اور امت مسلمہ اتحاد و وحدت کے ذریعے عظیم انسانی الہیٰ اہداف تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ سامراجی سازشوں کو ناکام بنا کر انسانیت کی خدمت کا عظیم الہیٰ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔

موجودہ صدی کے اتحاد و وحدت کے عظیم داعی بانی انقلاب حضرت امام خمینی اسلامی وحدت پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی وحدت کو طاقت و اقتدار کا منبع قرار دیتے تھے۔ آپ اسلامی وحدت کو عالم اسلام کی ایک امنگ اور ارمان قرار دیتے تھے۔ آپ نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ نقطے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے نظریات میں اس بات کو پیش کیا ہے کہ حکومت اسلامی کی تشکیل بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا بہترین وسیلہ ہے۔ امام خ٘مینی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد جب آپ پر شدید قسم کا اندرونی و بیرونی دبائو تھا، آپ نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے برملا ارشاد فرمایا کہ ہم اہل سنت مسلمانوں کے ساتھ ایک ہیں، ہم سب بھائی اور اخوت اسلامی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی بات کرے گا تو وہ جاہل ہے یا مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے سامراجی ایجنڈے پر کاربند ہے، شیعہ اور سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہم سب بھائی بھائی ہیں۔

امام خمینی نے انقلاب کے چند دن بعد کردستان کے علاقے کے عوام کے نام جن میں اکثریت اہل سنت کی تھی، فرمایا تھا کہ بعض بیرونی ایجنٹ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بیرونی آقائون کے مفادات خطرے سے دوچار ہیں تو وہ اہلسنت بھائیوں کو اکساتے ہیں اور شیعہ سنی جو بھائی بھائی ہیں، ان کے درمیان فتنہ و فساد کو بھڑکاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں تمام سنی و شیعہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور سب کے برابر اور مساوی حقوق ہیں۔ جو کوئی بھی سنی شیعہ اختلافات کی بات کرتا ہے، وہ ایران اور اسلام کا دشمن ہے۔ میں کرد برادران سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس طرح کے غیر اسلامی پروپیگنڈے کو جڑ سے ختم کر دیں۔

Sunday, 01 November 2020 21:26

ہفتہ وحدت باعث رحمت

تحریر: شبیر احمد شگری

تمام عالم اسلام کو ماہ مبارک ربیع الاول کی مبارک ساعتوں کی مبارکباد پیش خدمت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد کیساتھ ہی تمام  مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔اور مسلمانوں کے درمیاں مبارک بادی اور  ذکر پاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور ہر جگہ مسلمان اپنی زبانوں کو درود پاک سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں ،درود و سلام والے بینرز اور برقی قمقموں سے  آراستہ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو اس ماہ مبارک میں ختمی مرتبت، سرکار دو جہاں، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ جو کہ ہماری امت کیلئے خدا کی بہترین عطا اور بخشش کا ذریعہ ہے۔ ہفتہ وحدت، 12 ربیع‌ الاول سے 17 ربیع‌ الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت برادران 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضورؐ کا میلاد مناتے ہیں۔

بانی اانقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو  عالم اسلام کا ایک تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 سے 17 دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو  ہفتہ وحدت کا نام دے دیا تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کی برکت اور  طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت برادران آپس کے اختلافات حتٰی کی حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کر سکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان  پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ مسلمان نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یوں رحمت اللعالمین کی ذات مبارکہ جو ایثار و قربانی، صبرو رضا اور بھائی چارے کا پیکر ہیں، نئے جوش و جذبے کیساتھ  وحدت کا مثالی مرکز بن گئی ہے۔ اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہم بستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے اور علما اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ساری دنیا سے مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے  علما اور دانشور شرکت کرتے ہیں اور فرقہ اور مسالک سے بے نیاز ہو کر اپنے دلوں میں محبت اور بھائی چارے کا جذبہ لے کر واپس لوٹتے ہیں۔

آج دنیا جوں جوں عالم اسلام سے دشمنی کیلئے انتہائی اقدامات کر رہی ہے۔ الٹا اسلام دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں میں روز بروز دشمنوں کی سازشوں کے حوالے سے شعور پیدا ہو رہا ہے۔  بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گی۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہلسنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالٰی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتۂ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہئے۔ اس کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔

قرآن پاک کہتا ہے کہ "و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کر کے اس عمل کو انجام دینا چاہئے۔ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کیخلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانیوالے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔

اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا۔ جب  گذشتہ دنوں ملک دشمن عناصر نے ملک عزیز پاکستان میں فرقہ واریت جیسی آگ بھڑکا کر ایک ہی شجر پیوستہ سے وابستہ دین اسلام کے مختلف فرقوں میں فساد پھیلانے اور دین اسلام اور ملک عزیز پاکستان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی۔لیکن ہر مسلک کے  دور اندیش، معاملہ فہم اور دشمنوں کی سازش سمجھنے والے علما اور شخصیات نے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، اتحاد و یگانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ ھم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہم صدیوں سے محلوں تک میں ساتھ رہتے آئے ہیں اس لئے ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔ ہم محرم کا جلوس بھی نکالیں تو کوئی سینہ زنی کر رہا ہوتا ہے اور کوئی سبیل لگائے ہوتا ہے۔ اور ہمارے عقیدے کے مطابق حسینیت دین اسلام کی جان ہے جس نے خون دے کر نانا کے دین کو بچایا۔ اسے چھوڑ کر یزید پلید کی تعریف کرنیوالا دین خدا کا پیروکار نہیں ہو سکتا بلکہ شیطان کا پیروکار کہلائے گا۔ اور وہ اسلام کا خیرخواہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اسلام کیساتھ ساتھ اس طاقتور اسلامی ملک عزیز پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے۔

کربلا کے بعد دو ہی فرقے رہ گئے ہیں حسینیت اور یزیدیت اور پھر اس سال کے چہلم امام حسین علیہ السلام کے بعد تو ان دشمنان اسلام کے ہوش اُڑ چکے ہیں کہ جب حسین ؑکے غلاموں نے۔" کُلُّ یَوْمٍ عاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلا "کے مصداق ہر سال کی طرح کربلا میں منعقد ہونیوالے چہلم حسینی اور چہلم واک میں اس سال شرکت نہ کر سکنے پر زمین کے ہر خطے کو کربلا بنا دیا اور روز اربعین ہر جگہ چہلم واک کرکے جلوس اور مجالس برپا کرکے کربلا سے حسینیت کے ذکر کو پوری دنیا تک پھیلا کر یہ ثابت کیا کہ اگر روضہ حسین ؑ پر اس سال نہ پہنچے تو کیا ہوا سر زمین کا ہر خطہ کربلا ہے۔  اور اس سال کے  ان جلوسوں میں برادران اہلسنت کے علما اور شخصیات نے وحدت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دشمنوں کو بتا دیا کہ جس طرح امام حسین ؑ نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر اپنا گھر بار لٹا کر ہر قسم کی قربانیں دیں ہیں۔ ہم بھی مقصد حسینیت کیلئے ایک ہیں۔

شیعہ ہوں یا سنی ہم سب بھائی بھائی ہیں اور حسین علیہ السلام کسی ایک فرقے کے امام یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے آقا و جنت کے سردار ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کے نبی کے نواسے ہیں جن کا کلمہ پڑھے بغیر مسلمان نہیں ہو سکتے تو ان کی دشمنی کرنیوالا اور انھیں اذیت دینے والا کیسے مسلمان ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ علمائے اہلسنت اور نامور شخصیات نے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے ارض پاکستان کی سالمیت اور دین اسلام کی خدمت کیلئے مختلف سیمینارز اور کانفرنسز برپا کرکے اور اپنی تقاریر، بیانات، انٹرویوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہوئے۔ سادہ لوح عوام کو بھٹکنے، انھیں متحد کرنے اور دشمن کی سازش کا شکار ہونے سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کی وجہ سے آج دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور دشمن کا خواب پورا ہونے کی بجائے امت میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہوا۔ اور یہ سب کچھ میرے ملک عزیز پاکستان  کے محب وطن اور اسلام کے حقیقی پیروکار علما اور شخصیات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جس کیلئے ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اسی طرح دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے رہیں گے۔
 
 
 

لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عید میلاد النبیؐ اور جشن ولادت حضرت امام جعفر الصادقؑ کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے پوری امتِ مسلمہ کو مبارکباد دی اور تازہ ترین سیاسی حالات پر گفتگو کی۔ سید حسن نصراللہ نے قرآن کریم کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معجزہ اور آپؐ کی کامیابی کو اس زمانے کے عرب معاشرے میں "انسانیت" کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے عبادت، انسانی و اخلاقی اقدار اور اس وقت کے عرب معاشرے کے نظم و ضبط کے حوالے سے (بت پرستی کو توحید پرستی میں بدل کر) عظیم کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے حضرت پیغمبر اسلام (ص) کی عظیم انسانی شخصیت اور ان کی جانب سے لائی جانے والی اعلی انسانی و اخلاقی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے۔ سید مقاومت نے فرانسیسی شر پسند عناصر و حکومت کی جانب سے ہونے والے توہین آمیز اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس سے متعلق تازہ ترین مسائل کی اصلی وجہ اس ملک کے حکام ہیں جبکہ ہم اس مسئلے کا حل چاہتے 

ہیں اور اس میں شدت کے خواہاں نہیں۔

سید مقاومت نے فرانس کے شہر نائیس (Nice) میں ہونے والے حادثے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور اسلامی جماعتوں کی جانب سے ایسے اقدامات، چاہے وہ ماضی میں رونما ہوئے ہوں یا مستقبل میں رونما ہونا ہوں، کی مذمت کی گئی ہے جبکہ ایسا ہر اقدام مسترد اور غیر قابل قبول ہے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی حکام سمیت کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسے اقدامات کو دین یا دین کے پیروکاروں کے ساتھ منسوب کر دیں جبکہ ایسی کوئی بھی حرکت نہ صرف غلط بلکہ غیر اخلاقی و غیر قانونی بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر صرف اُسی شخص کو اس (دہشتگردانہ) اقدام کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہئے جس نے وہ کام انجام دیا ہے چاہے اس کا محرک دینی ہی کیوں نہ ہو۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عیسائی ایسا کام کر بیٹھے تو کیا وہ دہشتگردانہ اقدام عیسائیت یا نعوذباللہ حضرت عیسی مسیحؐ کے ساتھ منسوب کیا جائے گا؟



سربراہ حزب اللہ لبنان نے فرانسیسی حکام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی دہشتگردی یا اسلامی فاشزم (Islamofascism) کے بارے بات کرنے کا فرانسیسی حکام کو 

کوئی حق حاصل نہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں ہونے والے امریکی جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا ان تمام جرائم کو عیسائیت کے ساتھ منسوب کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ کہنا درست ہے کہ امریکی دہشتگردی عیسائی دہشتگردی ہے؟ انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مبنی بعضی یورپی بیانات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ خود مسلمان اپنے بعض اعمال و بیانات کے ذریعے اپنے  پیغمبرؐ کی توہین کرتے ہیں جبکہ بعض مسلمانوں کی جانب سے اسلام کے ساتھ بُرا کرنے سے کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اس دین کی توہین کرے۔ سید حسن نصراللہ نے خطے سمیت پوری دنیا میں موجود تکفیری سوچ کو حاصل مغربی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک نے اس تکفیری و دہشتگردانہ سوچ کی کھل کر حمایت کی ہے جو صرف فکری اختلاف پر ہی قتل و غارت کا بازار گرم کرنے پر اتر آتی ہے۔ انہوں نے مغربی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم امریکی اور فرانسیسی حکام نے ان دہشتگردوں کی براہ راست مدد کی ہے!

سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک دہشتگردی و تکفیریت کی حمایت 

اور اس کا استعمال بند کر دیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بے شمار شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جس آزادی اظہار رائے کا فرانسیسی حکام دم بھرتے ہیں اور اس کے دفاع کے مدعی ہیں، انہوں نے رسولؐ مقبول اسلام کی توہین سے کم حساس مسائل پر اسی آزادی اظہار رائے کا بارہا گلا گھونٹا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے یورپی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے تاکید کی کہ ان (دہشتگردوں) کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لو کیونکہ یہ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹ کر واپس آئیں گے اور جو کچھ تم شام، عراق اور دوسرے ممالک میں ان کے ذریعے انجام دے چکے ہو، وہ سب کچھ بالآخر تمہاری طرف ہی پلٹنے والا ہے! سید مقاومت نے آزادی اظہار رائے کے فرانسیسی ڈھونگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کے معروف فلسفی، لکھاری اور یونیورسٹی استاد راجر گارودی (Roger Garaudy) کو ہولوکاسٹ سے اٹھائے جانے والے غلط فائدے کے بارے علمی تحریر پر جیل میں جانا پڑا؛ صرف اور صرف اس لئے کہ جب بھی کوئی موقف اسرائیل کے خلاف ہو تو فرانس کے اندر آزادیِ اظہار رائے کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ اس یورپی ملک کے اندر اس جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں۔



سید مقاومت 

نے معروف فرانسیسی فلسفی و لکھاری کے علمی کاموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ راجر گارودی کو ہی دیکھ لیجئے، اس کا قصور؛ ہولوکاسٹ کے بارے ایک تحقیقاتی کتاب کی تصنیف تھا جس کے اندر راجر گارودی نے صرف اور صرف علمی تحقیقاتی کام انجام دیا تھا، نہ ہی کسی کی تضحیک کی تھی اور نہ ہی کسی کی توہین! بلکہ اس نے یورپ کے اندر مشہور ایک موضوع کا صرف علمی جائزہ لیا تھا! سید حسن نصراللہ نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ کیوں  اظہار رائے کی آزادی کو صرف اور صرف یہودی دشمنی (Anti-Semitism) میں ہی روکا جاتا ہے؟ آزادی اظہار رائے پر مبنی مغربی سوچ پر نظر ثانی کی دعوت دی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ کوئی مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی توہین برداشت نہیں کرے گا، مغربی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ توہین آمیز اقدامات کی روک تھام کریں اور اس جیسے مسائل کو جڑ سے ختم کر دیں۔ انہوں نے یورپی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدل و انصاف سے کام لو اور آزادیِ اظہار رائے کو بالکل ویسے ہی جیسے تم غیر مسلموں کے لئے روا رکھتے ہو، مسلمانوں کے لئے بھی روا رکھو!

سید حسن نصراللہ نے شیخ الازہر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان؛ جس میں مطالبہ 

کیا گیا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے اندر انبیائے الہی کی توہین کی مذمت اور اُسے جرم قرار دیا جائے، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شیخ الازہر کی پیشکش کو عملی جامہ پہنا کر توہین آمیز اقدامات کے تسلسل اور اشتعال انگیز کارروائیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اپنے خطاب میں یمنیوں کے ملین مارچز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے اوپر مسلط کئی سالہ وحشتناک جنگ، سخت ترین سرحدی محاصرے اور بھوک کے باوجود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جشن میلاد کے موقع پر سڑکوں پر نکل کر آپؐ کا دفاع کیا ہے! انہوں نے کہا کہ یمنیوں نے اپنے اوپر مسلط کی گئی بھیانک مشکلات کو حضرت نبی اکرم (ص) سے دفاع نہ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا اور اسی طرح وہ فلسطینی امنگوں کا بھی بھرپور دفاع کرتے ہیں جس کے باعث ان سب پر حجت تمام ہو چکی ہے جنہوں نے اس مسئلے میں تاحال خاموشی سے کام لیا ہے! انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یمن پر مسلط کردہ وحشتناک جنگ کو ختم کرنے کے لئے عرب دنیا کے اندر ایک عظیم تحریک اٹھنا چاہئے جبکہ یہ اس حوالے سے انجام دیا جانے والا کم از کم کام ہو گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرانسیسی صدر کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی کی مذمت کرتے ہوئے فرانسیسی جوانوں کے نام اہم پیغام جاری کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرانسیسی جواںوں کے نام اپنے پیغام میں فرانسیسی صدر میکرون سے دو سوال پوچھنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرانسیسی صدر سے پوچھیں کہ کیا آزادی اظءار کا مطلب توہین، بے ادبی اور بے احترامی ہے اور اس نے توہین آمیز خاکوں کی کیوں حمایت کی ہے ؟ اور توہین بھی پیغمبر اسلام (ص) جیسی عظيم اور درخشاں ہستی اور اسلامی مقدسات کی ، کیا فرانسیسی صدر کا احمقانہ اقدام فرانسیسی قوم کے شعور کی توہین نہیں جس نے اسے صدر منتخب کیا ہے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ ہولوکاسٹ میں شک و تردید کیوں جرم ہے؟ اگر کوئی شخص ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی بات تحریر کرے تو کیا اسے جیل بھیجنا چاہیے اور پیغمبر اسلام (ص) کی توہین آزادی اظہار ہے؟