سلیمانی

سلیمانی

یمنی دارالحکومت صنعاء کی بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ڈائریکٹر خالد بن احمد الشایف نے اعلان کیا ہے کہ جارح سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے صنعاء ایئرپورٹ کی بندش کے باعث روزانہ 25 یمنی مریض جانبحق ہو جاتے ہیں۔ خالد الشایف نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ عالمی برادری یمنی مریضوں کی بیرون ملک منتقلی کے لئے طبی فلائی اوور کے قیام اور یمن میں دواؤں کی درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ڈائریکٹر صنعاء ایئرپورٹ نے کہا کہ تاحال 30 ہزار سے زائد یمنی مریض علاج معالجے کے لئے بیرون جانے کے منتظر ہیں کیونکہ 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد یمنی مریض ایسے ہیں جن کا ملک کے اندر علاج ناممکن ہے تاہم جارح سعوی فوجی اتحاد کی جانب سے ملک کے سخت ترین محاصرے کے باعث ان میں سے 25 مریض ہر روز جانبحق ہو جاتے ہیں۔

خالد الشایف نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کی جانب سے تقریبا 8 ماہ قبل یمنی مریضوں کے لئے میڈیکل فلائی اوور بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ تب سے لے کر آج تک اس نظام کے تحت علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے والے یمنی مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ واضح رہے کہ صنعاء کی جانب سے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل سے بارہا مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ طے شدہ میڈیکل فلائی اوور کے قیام کی خاطر یمن کے ہوائی محاصرے میں نرمی کے لئے جارح سعودی فوجی اتحاد پر دباؤ ڈالے کیونکہ یمنی بین الاقوامی ایئرپورٹ کی بندش، یمن کا ہوائی محاصرہ، یمنی شہریوں کو علاج معالجے کے لئے بیرون ملک نہ جانے دینا اور یمن کے اندر دواؤں سمیت کسی بھی قسم کے طبی سازوسامان کی درآمد پر پابندی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی شخصیت اور عہد امامت
محقق: ڈاکٹر میر محمد علی

ابتدائیہ:
امام علی ابن موسیٰ الرضا (ع) کی شخصیت اورعہدامامت کے تجزیاتی مطالعہ کو میں قرآن مجید کے سورہ حج کی ٤١ ویں آیت سے شروع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا
بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ ط وَالِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ O


ترجمہ:
''وہ لوگ ایسے ہیں جنہیں جب زمین پر صاحب اقتدار بنایا گیا تو انہوں نے نماز قائم کی،
زکوٰۃ ادا کی ،نیکی کا حکم دیا اور بدی سے روکا اور ہر چیز کا انجام اﷲ ہی کے ہاتھ میں ہے۔''
اس آیت کی تفسیر میں امام حسین (ع) اور امام موسیٰ کاظم (ع) سے منقول ہے کہ ''یہ آیت مخصوص ہے ہم اہل بیت (ع) کے لئے'' اور تفسیر نور الثقلین کے بموجب حضرت امام محمد باقر (ع) نے کہا کہ یہ پوری آیت آلمحمد (ص) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
( سید صفدر حسین نجفی١ )
ان وضاحتوں کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی عمومیت میں یہ آیت تمام ائمہ اثناء عشری کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس آیت کے مندرجات کے پس منظر میں جب ہم امام رضا (ع) کی معنوی ، علمی اور سیاسی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو امام رضا (ع) ایک امتیازی حیثیت کے حامل نظر آتے ہیں وہ اس طرح کہ ائمہ حقہ امامیہ میں حضرت امیر المومنین (ع) کی ظاہری خلافت کے بعد امام رضا (ع) ہی وہ فرد ہیں جنہوں نے اپنے دور امامت میں ولی عہدی کے منصب پر فائز ہوکر مندرجہ بالا آیت میں بیان کردہ شرائط کی تکمیل کے ساتھ انتظام مملکت میں اعانت کی عملی مثال قائم کی اور بتایا کہ دین سیاست سے اور سیاست دین سے جدا نہیں بشرطیکہ یہ عمل احکام خداوندی کے تحت بجالایا جائے۔
اس مقالے میں تین بنیادی حوالوں سے امام رضا (ع) کی شخصیت پر بحث کی گئی ہے۔
١۔ امام (ع) کی معنوی اور روحانی شخصیت۔
٢۔ امام کی سیاسی بصیرت اور ولی عہدی کے مضمرات۔
٣۔ امام کے علمی فیوض۔

حالات زندگی:
امام علی الرضا (ع) کی تاریخ و لادت ١١ ذیقعدہ ١٤٨ھ(م ٢٩ دسمبر ٧٦٥ئ) روز جمعہ یاپنجشنبہ پر اکثر مورخین متفق ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کی ولادت کا سال آپ کے جد بزرگوار امام جعفر صادق (ع) کے سال شہادت کا ہم عصر ہے(بحار الانوار ۔ روضۃ الواعظین) لیکن بعض مورخین کے بموجب جن میں شیخ صدوق بھی شامل ہیں تاریخ ولادت ١١ ربیع الاول ١٥٣ھ روز پنجشنبہ ہے ۔( عیون اخبار رضا، مروج الذہب)
لقب رضا کی وضاحت۔ ہمارے ائمہ علیہ السلام کے نام، لقب اور کنیت میں ایک خاص پیغام ہوتا ہے ( مثلاً سجاد (ع)، باقر(ع)، صادق (ع) وغیرہ ) ابن جریر طبری نے سال ٢١ھ کے واقعات کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس سال مامون رشید نے امام علی بن موسیٰ بن جعفر(ع) کو اپنا ولی عہد مقرر کیا اور ان کو ''الرضا من آلِ محمد (ع) '' کے نام سے مخصوص کیا۔ البتہ ابن خلدون نے ''الرضا '' کی جگہ ''الرضی '' تحریر کیا ہے۔ لیکن محمد جواد معینی(٢) (مترجم) کتاب '' امام علی بن موسیٰ (ع) الرضا (ع)'' نے مختلف روایات کی روشنی میں یہ دلیل دی ہے کہ اس لقب کا ولی عہدی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مامون رشید کے وزیر خاص فضل بن سہل نے امام کے نام اپنے تمام پیغامات میں الفاظ '' بعلی بن موسیٰ الرضا (ع) '' سے مخاطب کیا ہے جو اس لقب کی قدامت پر دلیل ہے۔ اس کے علاوہ ابوالحسن ، ابو علی اور ابو محمد آپ (ع) کی کنیت ہیں۔ امام (ع) کے رضا (ع) کے علاوہ اور بھی القاب ہیں جنہیں سراج اﷲ ، نور الھدیٰ ، سلطان انس وجن، غریب الغربا اور شمس الشموس وغیرہ ہیں جو آپ کی زیارتوں میں شامل ہیں۔
امام علی الرضا (ع) کی والدہ کا نام تکتم، نجمہ، خیزران، نجیہ اور طاہرہ تھا، آپ کا شمار عجم کی اشرافیہ سے تھا، آپ کی ازواج میں حضرت سبیکہ امام محمد تقی جواد(ع) کی والدہ تھیں۔ آپ کی زوجین کی نسبت سے امِ حبیبہ دختر مامون رشید کا نام بھی لیا جاتا ہے لیکن اس کی سند میں مورخین میں اختلاف ہے۔
امام کی اولاد کے سلسلہ میں مورخین میں دو امور پر اتفاق پایا جاتا ہے۔ اولاً یہ کہ ام حبیبہ کے بطن سے امام کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ دیگر یہ کہ سبیکہ نامی خاتون امام تقی جواد کی والدہ ہیں۔ ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ ابن شہر آشوب، محمد بن جریر طبری، شیخ مفید اور طبرسی کے بموجب سوائے امام محمد تقی کے امام کی کوئی اور اولاد نہیں تھی۔ لیکن بعض روایات کے لحاظ سے امام (ع) کے دو فرزند محمد اور موسیٰ (ع) ، یا محمد و جعفر(ع) اور بعض کے مطابق پانچ فرزند اور ایک دختر تھی۔ امام کی اولاد کے سلسلہ میں جناب آغا مہدی لکھنوی ، (٣) نے اپنی کتاب ''الرضا '' میں ١٨ حوالوں سے یہ وضاحت کی ہے کہ امام (ع) کی ایک سے زیادہ اولاد تھی ان حوالوں میں صاحب کشف الغمہ، عبدالعزیز بن اخضر،ابن خشاب، سبط ابن جوزی اور شیخ ابراہیم کفعمی شامل ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق یہ ممکن ہے کہ امام جعفر صادق (ع) کے بعد اسماعیل کے بارے جو غلط فہمی پیدا کی گئی اس کی تکرار کے سدباب کے لئے امام نے خود اپنی زندگی میں اولاد کو منتشر کردیا ہو اور خطرہ برطرف ہونے پر اپنے اولاد امام ہونے کا اظہار کردیا ہو۔
امام کی شہادت ٢٠٣ھ میں واقع ہوئی۔ ٢٥ رجب ١٨٣ھ ( م یکم ستمبر ٧٩٩ئ) کو امام موسیٰ کاظم کی شہادت واقع ہوئی تھی۔ اس طرح امام رضا تقریباً ٣٥ سال اپنے والد بزرگوار کی سرپرستی میں گزارے لیکن اس دوران کئی موقعوں پر امام موسیٰ کاظم (ع) ہارون رشید کی قید کی سختیاں برداشت کرتے رہے اور یوں آپ شفقت پدرانہ سے زیادہ عرصہ تک محروم رہے، علامہ نجم الحسن کراروی (٤) نے والد کی شہادت کے وقت امام کی عمر ٣٠ سال بتائی ہے۔

اعلان امامت :
شیعہ عقیدہ کے بموجب امامت ایک وہبی وصف ہے یعنی اس کا تعین خود اﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام (ع) آنے والے کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس عمل کو نص کہتے ہیں یعنی منشائے الہٰی کا اظہار، امام موسیٰ کاظم (ع) نے اپنی زندگی میں ہی اہلبیت کی ممتاز شخصیتوں کے سامنے اپنے فرزند علی کی جانشینی کا اعلان فرمایا تھا ( حسن امداد۔ ترجمہ بحارالانوار۔٥)۔ ١٨٣ھ میں اپنے والد کی شہادت پر امام رضا (ع) نے اپنی امامت کا اعلان کیا۔ آپ ؑ کے اصحاب کو اس دور کے حالات اور بالخصوص امام موسیٰ کاظم (ع) کی شہادت کے واقعات کے بعد یہ ڈر تھا کہ کہیں ہارون آپ ؑ کو گزند نہ پہونچائے۔ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ'' اگر ابو جہل میرا ایک بال بھی بیکا کرسکے تو گواہ رہنا میں پیغمبر نہیں ہوں۔ '' اس طرح ''اگر ہارون مجھے نقصان پہونچا سکے تو میں امام (ع) نہیں ہوں۔''( سید محمد صادق عارف ۔٦)
امام علی رضا (ع) نے اپنے ٥٥ سالہ دور زندگی میں چھ خلفا بنی عباس یعنی ، منصور، مہدی، ہادی، ہارون، امین اور مامون کا دور حکومت دیکھا، آپ ؑکی امامت کے ابتدائی دس سال کے دوران ہارون رشید کی خلافت تھی اس دور ان بغداد میں ہارون کے ظلم وستم کا بازار گرم تھا، ہارون کا ١٩٣ھ ( م ٨٠٩ئ) میں انتقال ہوا اس کے بعد ١٠ سال ہارون کے بیٹوں امین اور مامون کا دور خلافت تھا۔
امام کا ابتدائی دور۔ ہارون کے زوال کے آثار:
ہارون رشید کی خلافت کے آخری ایام انتہائی کشمکش اور اندرونی سازشوں کی دفاع میں گزرے۔ عوام اس کے ظلم و ستم سے بیزار اور باالخصوص دوستداران اہلبیت امام موسیٰ کاظم (ع) کی شہادت کے بعد حکومت سے بدظن تھے۔ اس کوشش میں کہ عوام کو خوش رکھا جائے اور ان کے اعتماد حاصل کرنے کی خاطر ہارون کبھی مولائے کائنات(ع) کی فضیلت اور برتری کی باتیں کرتا اوربعد پیغمبر خلافت پر ان کے حق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا، معاویہ پر لعنت کو اس نے رسمی شکل دیدی تھی اور فدک کو علویوں کو واپس کرنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن ان اقدامات سے یہ نہ سمجھا جائے کہ امام موسیٰ کاظم (ع) کی شہادت کے بعد اس کا رویہ بدل گیا تھا۔ عیسیٰ جلودی کے ذریعہ سادات مدینہ کی اور اہلبیت کے مال و اسباب کی لوٹ مار کے واقعات اس کے شاہد ہیں ( صادق عارف ) ایک اہم عنصر جو ہارون کی پریشانی کا باعث تھا وہ اہل خراسان کا رویہ تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب بنی امیہ کے مظالم اپنی انتہاء کو پہونچ گئے تو ابو مسلم خراسانی نے ''دعوت رضائے آلِ محمد ؑ '' کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس نے بالآخر بنی ہاشم کے طرفداروں کی جدوجہد کے نتیجہ میں بنی امیہ کی حکومت کو درہم و برہم کردیا۔ مگر جب عنانِ حکومت بنی عباس کے ہاتھ میں آنے کے بعد بھی اہل خراسان کو مایوسی رہی اور ''حق بحقدار'' نہیں ملا تو انہوں نے حکومت بغداد کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ان حالات کے نتیجہ میں ہارون نے محسوس کیا کہ بغداد میں بیٹھ کر خراسان کا انتظام نہیں چلا یا جاسکتا( علامہ ابن حسن جارچوی۔٧)۔
بالآخر ہارون رشید نے سلطنت بنی عباس کے انتظام اپنے تینوں بیٹوں امین، مامون اور قاسم میں تقسیم کردیا۔ امین کو جس کی ماں زبیدہ جو عربی نسل تھی منصور دوانیقی کے قبیلہ سے تھی اور مامون عیسیٰ بن جعفر سیاسی اہمیت رکھتا تھا اس نے عراق اور شام کا علاقہ سپرد کردیا جس کا دار الخلافہ بغداد تھا۔ اس طرح سے وہ عباسیوں پر قابو پانا چاہتا تھا۔ مامون کو جس کی ماں عجمی کنیز تھی ہمدان سے آگے ایران کے تمام علاقوں کا انتظام سپرد کردیا تاکہ عجمیوں کو زیر قابو رکھ سکے اس کا صدر مقام مرو( خراسان) تھا۔ باقی اطراف کے علاقے قاسم کے تسلط میں دیئے گئے۔
اس تقسیم کے نتیجہ میں بھائیوں کے درمیان یہ بھی معاہدہ ہوا تھا کہ امین کے بعد خلافت مامون کو ملیگی ۔ لیکن بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مملکت کی اس انتظامی تقسیم نے امین اور مامون کے درمیان پہلے سے موجود نسلی تعصبات کو مزید ہوا دی۔ ہارون رشید کے انتقال ( ١٩٣ھ م ٨٠٩ئ) کے بعد دونوں بھائیوں میں تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ امین نے تقسیم کے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بیٹے موسیٰ کی بیعت کا حکم جاری کیا۔ حالات میں مزید سنگینی اس وقت پیدا ہوگئی جب محمد ابن ابراہیم طباطبا نے جو علویوں کی جانی شخصیت تھی بھائیوں میں اس محاذ آرائی کے دوران کوفہ سے یمن تک قبضہ جمالیا اور بغداد میں جہاں بنی عباس کا زور تھا علویوں کی شورش کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ چار سال کی معرکہ آرائی کے بعد امین کو شکست ہوئی اور وہ ١٩٨ھ میں قتل کردیا گیا اور مامون سلطنت بنی عباس کا خلیفہ بن گیا۔ ان تمام واقعات کے دوران امام رضا (ع) مدینہ میں مقیم رہے اور ہدایت ورشد کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کے اس طرز عمل پر حکومت کی جانب سے کوئی تعرض نہیں تھا کیونکہ اس دوران حکومت اپنے اندرونی خلفشار سے نبردآزما تھی۔

امام رضا (ع) کی شخصیت:
شیعہ ائمہ کی شخصیت کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان کی معنوی ،علمی اور سیاسی زندگانی کا جائزہ ضروری ہے۔ معنوی یا روحانی زندگی سے مراد وہ خصوصیات ہیں جو خدا کی خاص عنایات کے طور پر ان کے اور خدا کے درمیان ایک رشتہ استوار کرتی ہیں یہ ان کے عبادات ، تقویٰ اور اخلاق کی عکاسی کرتا ہے ۔ امام کی معنوی خصوصیات کے ضمن میں خود امام رضا (ع) فرماتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ امام (ع) تمام افراد سے دانا ترین، پرہیز گار، بردباری اور دلیری ، بخشش اور پارسائی میں سب سے افضل ہو۔ ان صفات کی موجودگی اس لئے بھی ضروری ہے کہ پیغمبر کے بعد وہ احکام رسالت کا اجرا کنندہ ہے اور دین کے مبہم نکات اور دقیق مسائل جو عام انسانوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں ان کی وضاحت امام کی ذمہ داری ہے۔ ( صادق عارف)

شخصیت معنوی:
امام (ع) کی شخصیت معنوی کے ضمن میں نجم الحسن کراروی لکھتے ہیں کہ امام (ع) گفتگو میں بیحد نرم مزاج تھے۔ جب بات کرنے والا اپنی بات ختم کرلیتا تب اپنی طرف سے کلام کا آغاز فرماتے۔ کسی کے کلام کو قطع نہیں کرتے۔ راتوں کو کم سوتے۔ اکثر روزہ رکھتے تھے مزدور کی مزدوری پہلے طے فرماتے پھر اس سے کام لیتے ۔ مشہور شاعر ابو نواس نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جس کے آباء واجداد کے آستانہ کا جبرئیل خدمتگار تھا اس کی مدح محال تھی۔ عبداﷲ بن مطرف بن ہامان سے مامون رشید نے امام رضا (ع) کی بابت دریافت کیا تو اس نے برجستہ کہا کہ اس کے بارے میں کیا کہوں جس کی طینت رسالت میں پیوستہ اور اس کی سرشت میں وحی ہے۔ ( جواد معینی /احمد ترابی) امام رضا (ع) اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں خلق پیغمبر کی ایسی تصویر تھے کہ بے اختیار رسول اکرم (ص) کا خلق یاد آجاتا تھا۔
امام (ع) کی شخصیت کے اخلاقی اور روحانی اوصاف کے ضمن میں حسب ذیل حوالوں کا ذکرضروری ہے۔
١۔ امام کے اخلاق کے پر توان کے بے شمار اقوال اور احادیث میں عیاں ہے۔ مولانا روشن علی نجفی نے'' گفتار
دلنشین چہار دہ معصوم علیہ السلام'' کے اردو ترجمہ میںچہاردہ معصومین (ع) میں سے ہر ایک کے حوالہ سے ٤٠اقوال
اوراحادیث نقل کیا ہے۔ امام رضا (ع) کی احادیث میں ایمان ،قران ، توحید ، مومن کی خصوصیات اور فلسفہ نماز کا ذکر ہے۔
٢۔ امام (ع) نے ذاتِ تعالیٰ کے اوصاف کی نسبت سے حروف تہجی کے ہر حرف کے پنہاں معنی پر بصیرت ، افروز
تبصرہ فرمایا ہے ۔ (سید غلام نقی )
٣۔ امام کے روحانی لتصرفات اور معجزات سے متعلق معلومات میں مرزا محمد علی خراسانی نے انگریزی میں زائرین
مشہد کے حوالہ سے امام (ع) کے ٣٤ معجزات تحریر کئے ہیں۔ عباس حیدر سید نے اپنی تالیف ''الحمد لللّٰہ'' میں
امام رضا (ع) کے ١٠ معجزات شامل کئے ہیں ۔
ائمہ علیہ السلام کی شخصیتوں کو سمجھنے کے لئے تاریخی بخل کے کوہ گراں کی رکاوٹوں کو تحقیق اور تجسس سے عبور کرنا ضروری ہے اس جستجو میں ہمیں فضل اﷲ بن روز بہان اصفہانی نظر آتے ہیں جو اپنی بعض تالیفات کی وجہ سے فریقین میں متنازع شخصیت ہیں ، لیکن چہاردہ معصومین (ع) پر صلوات کے موضوع پر اپنی کتاب ''وسیلۃ الخادم الی المخدوم'' میں آپ نے امام رضا (ع) کو احسان اور مودت کا پیکر، توحید کی نشانیوں کو رفعت عطا کرنے والا اور کمال علم و معرفت کے القاب سے یاد کیا ہے۔ ( نثار احمد۔ مترجم۔٨)

امام رضا (ع) اور عہد مامون رشید:
امام رضا (ع) کی زندگی کے آخری ١٠ سال جو کہ عہد مامون کے ہم زمان تھے تاریخی لحاظ سے اہم ہیں۔ اس اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں کچھ ماضی میں جانا ہوگا۔ واقعہ کربلا کے بعد خاندان رسول اور عام مسلمانوں کے درمیان جو رابطہ منقطع ہو گیا تھا ائمہ صادقین (ع) نے اپنے دور مدینہ میں اسلامی درسگاہ قائم کر کے اس کو بحال کردیا تھامیں یہاں ایک وقت میں ہزاروں طالبِ علم جمع ہوتے تھے۔ لیکن بہت جلد حالات بدل گئے۔دوسری صدی ہجری کے وسط تک ہارون رشید نے بنی عباس کی سلطنت کو عروج پر پہونچا دیا اور امام موسیٰ کاظم (ع) کی ایک طویل عرضہ کی قید تنہائی میں تشیع کی دنیا میں ایک خاموشی چھانے لگی اور ملوکیت نے واقعہ کربلا کو عوام کے ذہنوں سے مٹانے کی اپنی کوششوں کو تیز کردیا۔ صرف مدینہ اور حجاز کے کچھ حصوں میں فقہا اور دانشوروں کی حد تک اہلبیت کا ذکر محدود ہو گیا۔ ان حالات میں ١٨٣ھ میں امام (ع) ہفتم کی شہادت کے بعد امام رضا (ع) نے اپنی امامت کا اعلان کردیا تھا۔ امین کے قتل کے بعد امام رضا (ع) کے حوالہ سے مامون رشید کے لئے تین راستے تھے۔(١) اپنے آباء کی پیروی میں امام کے ساتھ وہی سلوک کرتا جو امام کے والد کے ساتھ روا رکھا گیا یعنی قتل کردینا ، لیکن اس میں عوام کے غم وغصہ کا امکان تھا۔ ( ٢) امام (ع) کو ان کے حال پر چھوڑ دیتا مگر اس میں وہ اپنی سلطنت کے لئے خطرہ سمجھتا تھا یا (٣) پھر امام کو اپنے سیاسی نظام کے استحکام کا ذریعہ بنالیتا، مورخین نے مامون رشید کو خلفائے عباسی میں بطور ایک طاقتور ترین، باہوش، دانشمند اور میانہ رو فرد کے طور پر پیش کیا ہے۔ امین کے قتل کے بعد مامون نے حالات کے تقاضوں کے تحت آخری متبادل صورت پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون نے یہ فیصلہ کیا کہ امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش کی جائے۔ یہ ایک سیاسی چال تھی، جو شخص جاہ و اقتدار کے لئے اپنے بھائی کو قتل کردے یکایک اتنا انصاف پسند کیسے ہو گیا کہ آلِمحمد (ص) کو خلافت کا حقدار سمجھنے لگا۔ محسن مظفر ( ٩) نے مامون کے اس رویہ اور شیعیت کی طرف جھکاؤ کو ایک بناوٹی اور غیر فطری عمل قرار دیا ہے۔ اس فیصلہ میں مامون رشید کی نیت یہ تھی کہ امام (ع) کو اپنے رنگ میں رنگ لے اور دامن تقویٰ اور فضیلت کو داغدار کردے۔ اگر امام خلافت قبول کرلیں تو وہ اپنے لئے ولی عہد کی شرط پیش کرتا اور اس طرح اپنا استحقاق ثابت کرتا۔ امام رضا (ع) کو خلافت تفویض کرنے کے منصوبہ کو رو بہ عمل لانے کے لئے مامون چاہتا تھا کہ امام کو مرو بلایا جائے جو اس زمانہ میں خراسان کا مرکزی شہر تھا۔ شیخ مفید، شیخ صدوق، مسعودی اور کلینی جیسے مستند حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مامون نے امام رضا (ع) کے نام خط بھیجا اور مرو آنے کی دعوت دی۔ امام (ع) نے عذر ظاہر کیا لیکن مامون کے مسلسل خطوط کے نتیجہ میں امام (ع) نے محسوس کیا کہ مامون اس امر سے دستبردار نہ ہوگا اور آپ نے مدینہ سے مرو سفر کا ارادہ کرلیا۔

سفر امام رضا (ع)، مدینہ تا مرو:
یہ بات قابل ذکر ہے کہ تاریخ ائمہ کے دو سفر ہیں جن کے درمیان تقریباً ١٤ سال کا زمانی فاصلہ ہے یعنی ٤٠ھ میں مدینہ سے امام حسین (ع) کا کربلا کا سفر اور ٢٠٠ ھ میں امام رضا (ع) کا مرو کا سفر۔ ان کی چند خصوصیات ہیں۔
١۔ امام حسین (ع) نے کربلا جانے کا فیصلہ اپنی صوابدید پر کیا۔ ( آزادانہ)
٢۔ امام رضا (ع) کا مدینہ سے مرو کا سفر مامون رشید کی درخواست پر ہوا۔
٣۔ امام حسین (ع) نے اپنے سفر کی راہ اور قیام کے مقامات خود طے کئے تھے۔
٤۔ امام رضا (ع) کے سفر کی راہ مامون کی ہدایات کے تحت منظم کی گئی تھی۔
٥۔ امام حسین (ع) اپنے ساتھ اپنے اہلبیت اور معتمداصحاب کو لے گئے تھے۔
٦۔ امام رضا (ع) نے خاندان کی کسی فرد کو ساتھ نہیں رکھا تھا۔
٧۔ امام حسین (ع) کے سفر کا ہدف حق و باطل میں خط فاصل کھینچنا تھا۔
٨۔ امام رضا (ع) کے سفر کا مقصد کربلا کے معرکہ کے ثمرات کی حفاظت اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ تھی۔
امام رضا (ع) کے مدینہ سے مرو کے سفر کی منصوبہ بندی میں سب سے زیادہ قابل توجہ ان شہروں کا محل وقوع اور ان کی تاریخ ، سیاسی اور جغرافیائی اہمیت تھی جہاں سے امام گزرنے والے تھے۔ جواد معینی اور محمد ترابی کے مطابق امام (ع) کے سفر کے رستہ کے تعینی میں اس امر کو پیش نظر رکھا گیا کہ کاروان ایسے شہروں سے دور رہے جہاں دوستداروں اہلبیت کا غلبہ ہو۔ اس زمانہ میں مدینہ سے مرد تک دو مروج راستے تھے۔ ایک براہ بصرہ، اھواز، دشت لوط، فارس، نیشا پور سے گزرتا ہوا مرو پہونچا تھا جبکہ دوسرا کوفہ، بغداد، قم اور خراسان کی راہ تھا جس میں کوفہ، بغداد اور قم سیاسی لحاظ سے حساس سمجھے جاتے تھے۔ کوفہ شیعیان علی کا اجتماعی مرکز شمار ہوتا تھا اور بنی امیہ اور بنی عباس کے خلاف تحریک کا مضبوط مرکز رہا تھا، بغداد مامون کے سیاسی مخالفین اور متعصب عباسیوں کا مرکز تھا جو امین اور مامون کے درمیان کشمکش میں مخالف مامون رویہ اختیار کر گئے تھے۔ شہر قم کا شمار ان چند شہروں میں تھا جہاں دلوں میں خاندان علی (ع) ابن ابی طالب کی محبت موجزن تھی، ان سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر مورخین کا اتفاق ہے کہ امام رضا (ع) کے سفر کے لئے بصرہ، بناج، اھواز، اراکی، دشتِ لوط ، نیشاپور، طوس اور سناباد کا راستہ منتخب کیا گیا حالانکہ اس راستے میں زیادہ صعوبتیں تھیں۔

تفصیلاتِ سفر:
جلیل عرفان منش (١٠) نے اپنی کتاب '' جغرافیائی تاریخی ہجرت امام رضا (ع) از مدینہ تا مرو'' میں اس سفر کی تفصیلات تحریر کی ہے جس کے بموجب مدینہ سے مرو کے سفر میں مامون نے رجاء ابن ابی ضحاک اور یاسر خادم کو بطور نگراں مقرر کیا تھا۔ امام (ع) کے خاص خادم ابا صلعت ہروی بھی ساتھ تھے۔ امام (ع) کی قبر رسول(ص) سے وداع کا منظر امام حسین (ع) کی رخصت سے بالکل مشابہ تھا۔ امام (ع) نے فرمایا کہ غربت میں میری رحلت ہوگی اور ہارون کے باز و دفن ہونگا۔ امام نے اپنے فرزند امام محمد تقی(ع) کو اپنا قائم مقام مقرر کرتے ہوئے اصحاب اور اعزہ کو ان کی ہدایات پر عمل کی تلقین کی۔ بعض روایات کے مطابق مدینہ سے امام نے مکہ کا ارادہ کیا لیکن جلیل عرفان نے مکہ کے سفر کو خارج از امکان قرار دیا کہ اولاً وہ خراسان کی مخالف سمت میں واقع تھا مزید برآں اس زمانہ میں مکہ میں محمد دیباج اور ابن افطس جو امام زین العابدین(ع) کی اولاد ہیں حاکم وقت کے خلاف قیام کیا ہوا تھا۔ اس وقت کے محدود ذرائع ابلاغ میں یہ سفر اہلبیت کی حقانیت کو نشر کرنے میں بیحد مثبت اثرات کا حامل تھا۔ سفر کے دوران امام (ع) کے بے شمار کرامات کا ظہور ہوا جس میں سے چند یہ ہیں۔
٭ اھواز میں طبیب کو علاج کے لئے ایک نامعلوم درخت کے پتہ کی نشاندہی کرنا۔
٭ نیشاپور میں ٣٤ ہزارر اویوں کے سامنے حدیث سلسلۃ الذھب یعنی کلمۃ لا الہ الا اﷲ حصنی من دخل
حصنی امن بشر طہاوشرو طہا و انا من شرو طہا، کا اعلان اس میں ولایت کی شرط کے ذریعہ
''امام والے اسلام '' کے مقابلے میں ''ملوکیت کے اسلام '' کی نفی کردی۔
٭ نیشاپور میں چشمہ کابرآمد ہونا جو آج تک جاری ہے۔
٭ کوہ سنگی میں برتن بنانے کے پتھروں کا نرم ہوجانا جو آج تک موجود ہے۔
٭ بناج میں محمد بن عیسیٰ حبیب بناجی کو اس کے خواب کی تعبیر میں مثل آنحضرت صرف ١٨ کھجور دینا۔
( بحار الانوار ، صواعق محترقہ، عیون اخبار رضا )
تقریباً ایک سال کے سفر کے اختتام پر امام رضا (ع) ٢٠١ھ کے پہلے نصف ( م یکم مئی ٨١٧ئ) مرو میں وار د ہوئے۔ مرو پہونچنے پر مامون نے اور اہل خراسان نے امام کا شایان شان استقبال کیا۔ زمانہ گذشتہ میں بے شمار سیاسی اور مذہبی تحریکوں کے مرکز کی وجہ سے یہاں کے لوگ آزاد خیال اور کھلے دل والے تھے (ابن حسن جارچوی)۔ یکم رمضان المبارک ٢٠١ھ بروز پنجشنبہ امام کی ولی عہدی کا جلسہ منایا گیا اور لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔اس موقع پر مامون نے ''حلف نامہ ولی عہدی'' خود تیار کیا تھا جو بطور ضمیمہ مقالہ میں موجود ہے۔ امام (ع)کی ولی عہدی کے اعتراف میں جمعہ کے خطبہ میں آپ (ع) کے نام کا اضافہ کیا گیا اور حکومت کے سکوں پر آپ کا نام نقش ہوا۔ انہی سکوں کو عقیدتمندوں نے بعد کے دور میں بطور تبرک اور ضمانت سفر کے دوران اپنے پاس رکھنا شروع کیا جس سے رسم امام ضامن (ع) کی بناء پڑی۔ ( آغا مہدی)

شخصیت سیاسی:
حضرت امام رضا (ع) کا مامون رشید کی ولی عہدی قبول کرنا امور مملکت میں ائمہ کی شراکت کا ایک منفرد واقعہ ہے۔ امام (ع) کے اس فیصلہ کے محرکات سمجھنے کے لئے جب ہم ائمہ حقہ کے ٣٥٠ سالہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بدلتا ہوا نقشہ نظر آتا ہے جس میں ہر امام نے اپنے دور کی حالات کے تقاضوں کے تحت ایک خاص حکمت عملی اختیار کیا۔ مثلاً علی ؑ نے ٣٤ سال خاموشی کے بعد اپنے زمانہ میں معاشرہ کی اصلاح، مخالفین سے جنگ اور مشکل فیصلوں کو امت کی اخلاقی، علمی اور اجتماعی رہنمائی کے لئے ضروری سمجھا (نہج البلاغہ) امام حسن (ع) نے معاویہ کے ساتھ صلح کو ناگزیر جانا، اس کے برعکس حسین (ع) ابن علی ؑ نے شرائط صلح کی خلاف ورزی پر ایک نئے عنوان سے ہجرت اور جہاد کے ذریعہ حق اور باطل کے درمیان خط کھینچا، لیکن بعدِ کربلا امام سجاد ؑ نے ہدایت کے پیغام کودعاؤں کے پیرا ہن میں ملبوس کردیا جبکہ امام صادقین ؑ نے اموی اور عباسی خلافتوں کے درمیان انتقال اقتدار کی کشمکش کے وقفہ کو علوم و معارف اسلامی اور فقہ محمدی کی ترویج و اشاعت کے لئے بھر پور استعمال کیا، امام موسیٰ کاظم (ع) اور امام رضا (ع) کے بعد ائمہ نے بغداد اور سامرہ کے قید خانوں کی گوشہ نشینی سے پیغام حق پہونچا یا جبکہ امام رضا (ع) نے ولی عہدی قبول کر کے ایک منفرد اقدام کیا۔ اگر حالات کے تناظر میں ائمہ کے عمل میں واضح فرق نظر آتا ہے تو یہ نہ تو ان کی صلاحیت یا فہم میں فرق کی نشاندہی ہے اور نہ فکر کا اختلاف ہے کیونکہ اہل بصیرت جانتے ہیں کہ یہ تمام ہستیاں اپنے مقصد و ہدف میں متحد تھے، ہر ایک کا مقصد صرف خدا کی ذات، اس کے دین کی ترویج اور کتاب اور سنت کے ذریعہ بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے سلسلہ کی حفاظت کرنا تھا جس کے لئے سید الشھداء ؑ نے عظیم قربانی دی تھی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر علی شریعتی اپنی کتاب ''تشیع'' میں لکھتے ہیں کہ امام صادق (ع) کے بعد تقریباً ٥٠ سال کے عرصہ میں استعماری قوتوں کے پروپیگنڈہ کے تحت عوام واقعہ کربلا کی اہمیت سے بے بہرہ ہورہے تھے اور تشیع کی تحریک اور اہلبیت کے علمی اور فکری جہادوں کی یاد محو ہو رہی تھی، اس لئے امام رضا (ع) کے لئے ضروری تھاکہ ایسی حکمت عملی اختیار کریں کہ ائمہ کی گذشتہ ٥ نسلوں کے تاریخی فاصلوں کو قریب لاسکے۔ امام صادق (ع) کے بعد مدینہ کی مرکزی حیثیت اور افادیت ختم ہوچکی تھی اور یہ ایک زیارت گاہ کی حد تک باقی رہ گیا تھاجبکہ امام رضا (ع) اپنا پیغام سارے عالم اسلام کو سنانا چاہتے تھے۔جس کے لئے امام (ع) کو ایک مرکزی مقام کی ضرورت تھی۔ (سیدمحمد موسیٰ رضوی) اس صورت حال کو جب ہم امام (ع) کے نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں تو امام (ع) جانتے تھے کہ ولی عہدی کی پیشکش میں مامون قطعی مخلص نہیں تھا بلکہ وہ امام کو اپنے اور بنی عباس کے مخالفین بغداد کے علویوں اور خراسان کی تحریکوں کے مقابل بطور بند باندھنا چاہتا تھا۔ لیکن امام (ع) نے اپنی سیاسی بصیرت سے یہ فیصلہ کیا کہ اس موقع کو جو دشمن نے اپنی احتیاج کے تحت فراہم کیا ہے خود اس کے خلاف استعمال کریں اور شیعیت کی تحریک کو زندہ کریں یہ بھی امکان تھا کہ اگر وہ مامون کی پیشکش قبول نہ کرتے تو وہ یا تو قید کردیئے جاتے یا قتل کر دیئے جاتے جو اس زمانہ کا معمول تھا۔ امام رضا (ع) مامون کے خلاف کسی فوج کشی کی تیاری نہیں کر رہے تھے بلکہ جس علمی مبارزہ کے ذریعہ وہ پیغام حق پہونچانا چاہتے تھے اس کےلئے ایک موافق ماحول کی ضرورت تھی۔ امام رضا (ع) بھی خود اپنے علم امامت سے جانتے تھے کہ وہ اس نوعیت کی خلافت کے لئے ناموزوں ہونگے، جو مامون پیش کر رہا تھا اور ان کے لئے دائرہ امامت سے بالکل باہر آجانا مناسب نہیں ہوگا اس لئے امام (ع)نے مامون رشید کی خلافت کی پیشکش کی سختی سے مخالفت کی۔ اس ضمن میں امام (ع) اور مامون رشید کے درمیان طویل گفتگو ہوئی بالآخر مامون کے شدید اصرار پر آپ (ع) نے فرمایا کہ'' خدا نے انسان کو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے۔''( اشارہ قتل کا امکان ہے) لہٰذا امام (ع) نے مشروط ولی عہدی قبول کی کہ وہ حکومتی کاروبار سے علیحدہ رہیں گے۔ لفظی یا عملی امرونہی کو انجام نہیں دیں گے۔( احکامات صادر کرنا) اور صرف دور سے رہنمائی کے فرائض انجام دیں گے۔ (جلیل عرفان)
اس منزل پر مکتب اہلبیت اور ان کے مزاج سے واقف افراد یہ سمجھنا چاہیں گے۔ کہ حکومتی عہدہ قبول کرنا ائمہ گزشتہ کا شیوہ نہیں رہا تھا تو امام (ع)نے ایسا کیوں کیا؟
ذیشان حیدر جوادی (١٢) نے نقوش عصمت میں ولی عہدی کے موضوع کا مامون اور امام رضا (ع) کے نکتہ نظر سے تجزیہ کیا ہے۔ ان کے خیال میں مامون کے نزدیک ولی عہدی کی پیشکش کا مقصد امام کو زیر نظر رکھنا، ان کا عوام سے رابطہ منقطع یا دشوار بنانا ، ان کی نظام حکومت میں شمولیت کے ذریعہ اپنی خلافت کی عظمت میں اضافہ کرنا اور اس کے لئے ایک شرعی تائید حاصل کرنا تھا، اور سب سے اہم علویوں کی انقلابی تحریکوں کو دبانا تھا۔
اس کے بر خلاف امام علی رضا (ع) نے ولی عہدی کو اس وقت کے سیاسی اور معاشرتی رجحانات کے پیش نظر احکام اور تبلیغات اسلامی کی ترویج و اشاعت کا موثر ذریعہ قرار دیا اور'' مکرہ' مکراﷲ'' کے قرآنی اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ مدینہ سے مرو کے سفر کے دوران اور عہد ولی عہدی میں حکومتی پروٹوکول کی موجودگی میں معجزات اور کرامات کا اظہار، مناظروں میں شرکت، نماز عید، بارش کی دعاؤں ، زینب گذابیہ اور دیگر واقعات امام (ع) کی اس حکمت عملی کا حصہ تھے۔
اس لحاظ سے ہم اس نتیجہ پر پہونچے کہ گو ولی عہدی قبول کرنا تاریخ ائمہ کے دھارے میں ایک منفرد واقعہ ہے جو ناواقفین میں شکوک پیدا کرسکتا ہے لیکن درحقیقت یہ امام (ع) کی سیاسی بصیرت کی عکاسی کرتا ہے کہ ایک مشکل مرحلہ کو کس طرح ایک اعلیٰ وارفع مقصد کے حصول کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے۔ دوران ولی عہدی کے واقعات امام کے مناظروں اور علمی فیوض سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔ امام رضا (ع) نے اپنے فیصلے سے یہ بات ثابت کردیا کہ خداوند عالم کی صحیح خلافت اور نمائندگی کے حقدار صرف ائمہ ہیں اور زمین پر خدا کی حجت اور اس کے نمائندہ ہیں اور یہ عہدہ نا قابل انتقال ہے۔

شخصیت علمی:
امام رضا (ع) کے عہد کو ہم علمی عزوات (Academic crusades) کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ آپ جب ظاہری امامت پر فائز ہوئے تو اسلام پر علوم باطلہ کی یلغار تھی اور ہر جانب سے اسلام کی حقانیت اور صداقت کو علمی حیثیت سے زیر کرنے کی کوشش جاری تھی۔
امام جعفر صادق (ع) کے بعد امام رضا (ع) کو ترویج علم و دانش کا سب سے زیادہ مواقع ملا۔ امام موسیٰ کاظم (ع) اپنے اہل خاندان اور فرزندوں کو فرماتے تھے کہ'' تمہارے بھائی علی رضا (ع) عالم آل محمد ہیں'' احادیث میں ہر ٣ سال بعد ایک مجدد اسلام کے نمود و شہود کا نشانہ ملتا ہے علامہ ابن اثیر جندی اپنی کتاب جامع الاصول میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضا (ع) تیسری صدی ہجری میں مجدد تھے اور حضرت یعقوب کلینی چوتھی صدی ہجری میں مجدد تھے۔ شاہ عبدالعزیزی محدث دہلوی نے ''تحفہ اثنا عشری'' میں ابن اثیر کا قول نقل کیا ہے۔
امام علی رضا (ع) اہلبیت کے ان اماموں میں سے ہیں جنہوں نے عمومی طور پر اپنی دانش اور علم اور اپنے شاگردوں کی تعلیم وتربیت اور مختلف موقعوں پر کئے جانے والے سوالات اور جوابات ، مباحثات اور علمی مناظروں کے ذریعہ اسلامی فکر کو مالا مال کیا۔ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ان ائمہ نے کسی دانشمند سے سبق لیا ہو بلکہ ان کی دانش کا سرچشمہ ان کے جد بزرگوار حضرت آنحضرت تھے جن سے انہوں نے ور اثتاً علم حاصل کیا۔
عیسیٰ یقطینی کا بیان ہے کہ میں نے امام کے تحریری مسائل کے جوابات کو اکٹھا کیا تو ان کی تعداد تقریباً ١٨٠٠٠ تھی۔
مامون رشید کا یہ دستور تھاکہ مختلف مذاہب کے علما کو دربار میں امام (ع) کے رو برو بحث کی دعوت دیتا۔ محد ثیں و مفسرین اور علما جو آپ (ع) کی برابری کا دعویٰ رکھتے تھے وہ بھی ان علمی مباحث میں آپ کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے۔ زہری ، ابن قتیبہ، سفیانِ ثوری، عبدالرحمن اور عکرمہ نے آپ سے فیض حاصل کیا ان مناظروں کے پیچھے مامون کے سیاسی مقاصد بھی تھے۔ علمی مباحث سے طبعادلچسپی کے باوجود مامون یہ نہیں چاہتا تھا کہ ان مناظروں کے ذریعہ امام کی شخصیت ،علویوں اور انقلابیوں کی توجہ کا مرکز بن جائے بلکہ اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی وقت امام (ع) جواب دینے سے عاجز ہو جائیں جو ناممکن تھا بلکہ مامون کی خواہش کے برعکس یہ مناظرات امام (ع) کے علمی شکوہ وشائستگی اور شیعہ عقیدہ کی برتری منوانے کا ذریعہ بن گئے۔(جواد معینی)
امام (ع) کے مناظروں میں ایک قابل ذکر مجلس میں جاثلیق، مسیحی پادریوں کا رئیس، راس الجالوت یہودی دانشمند، ہندو دانشور، پارسی، مجوسی، بدھ اور دیگر مذاہب کے علما بہ یک ساتھ موجود تھے۔ امام (ع) نے ہر عالم سے اس کی اپنی مقدس کتاب کے حوالوں سے اس کی مروجہ زبان میں بحث کی۔ ایک اور مناظرہ خراسانی عالم سلیمان مروزی کے ساتھ ہوا جس میں مسئلہ بداء موضوع بحث تھا۔ علی بن جھم سے مناظرہ میں عصمت پیغمبران پر بحث ہوئی جس میں امام (ع) نے حضرت یوسف، ذالنون اور داؤد علیہ السلام کے واقعات سے اپنی دلائل کو مستحکم کیا۔ المختصر ان مناظروں کے ذریعہ امام (ع) کو جید علما اور فقہا کی موجودگی میں اپنے علم و فضیلت کے اظہار کا موقع ملا جو ان کی حکمت عملی کا ایک جزو تھا۔

تالیفات:
اکثر ائمہ علیہ السلام کی زندگی کے زیادہ تر حصے حکومت وقت کی سختیوں اور پابندیوں سے دوچار رہے۔ امام رضا (ع) کی مدت امامت کے ٢٠ سال میں سے صرف تقریبا ٣ سال ایسے تھے کہ نسبتاً آپ نے ایک بہتر ماحول میں وقت گزارا لیکن یہاں بھی ہمیشہ ایک مسلسل نگرانی (Surveliance) کی فضا موجود تھی، ان کے عقیدتمندوں کا حکومتی عملہ ہمیشہ پیچھا کرتا۔ اس گھٹن کے ماحول کے باوجود مختلف موضوعات پر ائمہ حقہ کے علمی فیوض تک رسائی کی اور ان کو قلمبند کیا جو اب ان ائمہ کی تالیفات کی شکل میں موجود ہے۔ امام رضا (ع) سے منسوب تالیفات کا ایک سرسری ذکر حسب ذیل ہے۔
١۔ کتاب فقہ رضوی: یہ کتاب دانشمندوں کے درمیان موضوع بحث بنی ہے۔ کچھ علما جن میں مجلسی اول ودوم بحرالعلوم ، صاحب حدائق اور شیخ نوری شامل ہیں اس کو معتبر شمار کرتے ہیں۔ یہ امام (ع) سے منسوب احادیث کا مجموعہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ شیخ صدوق کے والد کی تالیف ہے جن کا نام علی بن موسیٰ (ع)تھا اور نام کے ساتھ رضا کا اضافہ کاتب کی غلطی شمار کیا گیا۔ بعض اس کو شیخ صدوق کی تالیف قرار دیتے ہیں جنہوں نے روایات کو اسناد کے بغیر جمع کیا۔ آغا مہدی صاحب کے بموجب اس کا فارسی ترجمہ'' فقہ رضوی'' اصل نسخوں کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا جو ممتاز علما کے پاس پائے گئے۔
٢۔ کتاب محض الاسلام : نماز اور دیگر واجبات سے متعلق احکام پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے متعلق عام رائے یہ ہے کہ یہ فتوؤں کا مجموعہ ہے۔ لیکن جو اد فضل اﷲ کو اس کی سند میں شک ہے۔
٣۔ صحیفۃ الرضا: فقہ کے موضوع پر ہے لیکن اسکا انتساب امام کی طرف ثابت نہیں ہوسکا البتہ مستدرک الوسائل میں اس کو قابل اعتماد قرار دیا گیاہے۔ اسی نام سے ایک اور رسالہ حدیث ''سلسلۃ الذھب ''پر مشتمل ہے جس کا اردو ترجمہ حکیم اکرام رضا نے نول کشور پریس لکھنو سے شائع کروایا ہے۔ ( آغا مھدی)
٤۔ امام رضا اور طب: امام رضا کے علمی فیوض میں سب سے اہم رسالہ ذھبیہ یعنی (Golden Treatise) طب کے موضوع پر ہے۔ علم طب سے امام کے خصوصی تعلق کی بظاہر ایک وجہ اس کی ابتدائی ترویج و فروغ میں ملت ایران کا امتیازی کردار ہے۔ ظہور اسلام سے قبل ایران کے صوبہ خوزستان کے جندی شاہ پور کے شفاخانہ کا شمار دنیا میں علم طب کی پہلی یونیورسٹی کے طور پر ہوتا ہے۔ ایران کے مسلمان قابل الذکر علما میں محمد بن ذکریا اور بو علی سینا کا نام لیا جاتا ہے۔ دانشور جو اد فاضل (١٣) نے اپنی تالیف '' طب اسلامی اور جدید میڈیکل سائنس کے انکشافات'' میں طب سے متعلق معصومین (ع) کے ارشادات کو طب النبی (ص) ،طب الصادق اور طب الرضا کے عنوانات کے تحت جمع کیا ہے طب النبی کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار کے ١٤ ویں جلد'' السماالعالم'' میں نقل کیا ہے۔ طب الصادق کی تفصیلات کشف الاحضار ، خصال اور بحار میں موجود ہیں۔ طب الرضا کی اساس وہ تفصیلی خط ہے جو امام رضا (ع) نے نیشاپور میں ٢٠١ھ میں مامون کو ارسال کیا تھا۔ اس ضمن میں مامون اور امام کے علاوہ مشہور اطبا یوحنا ابن ماسویہ، جبرئیل بن یختی یشوع، حکیم بن سلمہ کے درمیان '' انسانی جسم اور حفظان صحت کے اصول'' کے موضوع پر تفصیلی بحث ہوئی تھی اس رسالہ میں وہ تمام معلومات موجود ہیں جن پر آج علم طب کی بنیاد ہے مثلاً فزیا لوجی، پتھالوجی، اناٹومی، جسم انسانی کا ڈھانچہ ، اعصاب اور ان کے وظائف وغیرہ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اسلامی طب کی بنیاد اعتدال ہے جو قران کریم کی آیت ''کلو والشر بو ولا تسرفوا'' ( سورہ اعراف) ''کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو'' کی عملی تفسیر ہے۔ اس کے کئی تراجم ہیں اور بے شمار شرحیں لکھی گئی ہیں جو عربی اور فارسی میں ہیں ( صادق عارف) لیکن اردو دان طبقہ کے لئے یہ امر باعث فخر و اطمینان ہے کہ علامہ رشید ترابی ١٤ نے بھی اپنی تالیف '' طب معصومین '' کے ذریعہ اس ضمن میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ اس کتاب میں مختلف امراض کے لئے چہاردہ معصومین (ع) کے تجویز کردہ علاج کو یکجا جمع کیا ہے۔ ایک جامع مقدمہ میں علامہ موصوف نے اپنے خاص انداز میں صحت انسان سے متعلق قرآن کی آیات اور ائمہ کے ارشادات اور تجربات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے انتساب میں ان کی فکر رسا کے اندا ز دیکھئے'' اے صبح اول یہ درر ارشادات تیرے ہی گلے کے موتی ہیں مگر زمانے کے ہاتھوں بکھر گئے تھے میں نے ان کو ایک جگہ جمع کیا اور آج تیرے دروازہ پر ان کو تیر ے ہی ہاتھوں بیچنے کے لئے آیا ہوں اس کی قیمت یہ ہے کہ تو مجھے دیکھ کر ایک مرتبہ مسکرا دے۔''

امام رضا کے اصحاب اور شاگرد:
اما م رضا (ع) کے اصحاب اور شاگرد کی ایک طویل فہرست ہے۔ بطور نمونہ چند کا حوالہ مقصود ہے۔
١۔ نصر بن قابوس ٢٠ سال تک امام صادق (ع) کے وکیل رہے، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ امام موسیٰ کاظم (ع) اور
امام رضا (ع) کی امامت کے نصوص کے شاہد ہیں۔ (وصایت)
٢۔ زکریا بن آدم بن عبداﷲ قمی، امام کے مخصوص اصحاب میں سے تھے۔ ان پر اعتماد کا یہ حال تھا کہ امام نے آپ
کو اپنی طرف سے سوالات کے جوابات پر مامور کیا تھا۔
٣۔ محمد بن اسماعیل مرد ثقہ اور خاص اصحاب میں سے تھے۔ ان کے مرتبہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ
علامہ بحرالعلوم طباطبائی کی ولادت کی رات ان کے والد جناب سید مرتضیٰ کے خواب میں امام رضا (ع) کی طرف
سے بھیجی ہوئی شمع روشن کی۔
٤۔ اس کے علاوہ حسن بن محبوب السراد الکوفی، حسن بن علی بن زیاد کوفی اور صفوان بن یحییٰ و غیرہ ہیں ۔
٥۔ امام کے اصحاب میں عامتہ الناس میں دعبل بن علی الخزاعی کو بیحد شہرت نصیب ہوئی یہ شاعر تھے۔ ایام
عزاداری میں امام شعرا اور ذاکرین کو اپنی موجودگی میں ممبر پر بیٹھنے کے لئے اصرار کرتے۔ بعض روایات کے مطابق ایک مرتبہ دعبل نے اپنے ایک مرثیہ میں جناب سیدہ کو مخاطب کرتے ہوئے اہلبیت کی بکھری ہوئی قبروں کا ذکر کیا تو امام نے اپنی طرف سے اس مرثیہ میں ایک شعر کا اضافہ کردیا جس میں طوس میں ایک قبر کا ذکر تھا۔ دعبل کے استفسار پر امام نے کہا کہ یہ میری قبر ہوگی جو طوس میں بنے گے اور جو شخص میری زیارت کریگا وہ روز قیامت میرے ساتھ محشور ہوگا۔

شہادت:
مامون رشید نے امام (ع) کو صرف اس غرض سے ولی عہد بنایا تھا کہ امام (ع) کے ذریعہ علویوں کی مخالفت پر قابو پائیگا اور امام (ع) اس کے سیاسی امور میں مدد کریں گے۔ جب اس نے امام کی امور سلطنت میں بے رخی دیکھی اور ساتھ ساتھ آپ (ع) کے علم، فضل اور روحانیت کا چرچہ دیکھا تو وہ عوام کی متوقع بیداری سے خائف ہوگیا اور اس کو خلافت عباسی کے لئے خطرہ سمجھا، بغداد کے عباسیوں پر قابو پانے سے پہلے اس نے اپنے وزیر خاص فضل بن سہل کو قتل کروایا اور پھر ٢٠٣ھ میں امام (ع) کو زہر دیکر شہیدکردیا ''ایک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک۔'' مورخین کی اکثریت ماموں کو اس جرم کا ذمہ دار سمجھتی ہے جبکہ بعض امام (ع) کی ناسازی طبع کو رحلت کا سبب قرار دیتے ہیں اور شبلی نعمانی''المامون'' میں مامون کو اس جرم سے بالکل بری قرار دیتے ہیں۔
امام (ع) کے روز شہادت میں ١٧ صفر، آخر ماہ صفر اور رمضان کے آخری ہفتہ کی تواریخ قابل ذکر ہیں۔ مقام قبر کے لئے خراسان کے انتخاب پر ابن حسن جارچوی لکھتے ہیں کہ عید کے دن امام نماز تو نہ پڑھاسکے لیکن اہل خراسان کو امام کے بلند مقام کا اندازہ ہوگیا اور ان کے دلوں میں امام (ع) کے لئے مودت اس قدر پیوست ہو گئی کہ آج صدیاں گزر نے کے بعد بھی ان کی وفاداریاں عیاں ہیں شاید ان کا یہی طرز عمل تھا کہ امام (ع) نے اس سر زمین کو اپنا دائمی مسکن بنالیا۔

تتمہ:

تتمہ کلام میں اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) سے لیکر امام حسن عسکری (ع) تک ہمارے کسی امام کی طبعی موت واقع نہیں ہوئی۔ واقعہ کربلا نے تیغ و سناں کے زخموں کا سلسلہ تو ختم کردیا لیکن ائمہ کی زہر خورانی کا ایک مسلسل عمل قائم رہا اور نت نئے طریقوں سے یہ مقصد حاصل کیا گیا ائمہ کی مدت حیات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں امام رضا (ع) کے بعد کے ائمہ یعنی امام تقی جواد(ع)،امام هادی(ع) اور امام حسن عسکری (ع) جو ملقب بہ ابن الرضا (ع) بھی ہیں دشمنوں کے ہاتھوں کو تاہی عمر کا شکار ہوئے۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو خدائے تعالیٰ کو بھی ان انوار عصمت کی حفاظت کے سلسلہ میں نئی حکمت عملی اختیار کرنا پڑی پہلے مرحلے میں جسے ہم غیبت صغریٰ کا آزمائشی دور بھی کہہ سکتے ہیں اس نے اپنے ولی کو ایک معینہ مدت ٦٩ سال تک پردہ میں چھپادیا۔ اس دوران علما کے ایک گروہ کو تیار کیا گیا جو نواب اربعہ کے نام سے موسوم ہوئے جن کی خدمات سے بتدریج اجتہاد کے نظام کا ارتقاء عمل میں آیا۔ یہ خداوند تعالیٰ کا ہمارے مراجع اجتہاد کی قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد کی علامت ہے کہ بالآخر اس نے اپنے ولی کو مصلحتاً ایک غیر معینہ مدت تک پردہ غیب''غیبت کبریٰ'' میں چھپادیا ہے، خدا ہماری مدد کرے اور توفیق دے کہ ہم'' انتظار امام (ع) '' کی امانت کو'' انتصار امام (ع)'' سے بدلنے کے قابل ہوسکیں۔

حوالے

١۔ سید صفدر حسین نجفی (مترجم) القرآن الکریم ترجمہ و حواشی از تفسیر نمونہ۔ مصباح القران ٹرسٹ ۔ لاہور ١٩٩٥ئ
٢۔ محمد جواد معینی و احمد ترابی '' امام علی موسیٰ الرضا (ع) ، منادی توحید و امامت'' (فارسی)
بنیاد پژو ھشہای اسلامی ۔ آستانہ قدس۔ مشہ٢ ١٣٨(ایرانی) م ٢٠٠٠ئ
٣۔ سید آغا مہدی لکھنوی ''الرضا'' جمعیت خدام عزا النجف، کراچی ١٩٦٦ئ
٤۔ نجم الحسن کراروی '' چودہ ستارے '' امامیہ کتب خانہ لاہور ١٣٩٣ئ
٥۔ سید حسن امداد (مترجم) '' بحار الانوار جلد پنجم حالات ابوالحسن علی ابن موسی الرضا (ع) '' علامہ مجلسی،
محفوظ بک ایجنسی کراچی ۔
٦۔ سید محمد صادق عارف ( مترجم) '' تحلیل از زندگانی امام رضا (ع) ( فارسی)'' محمد جواد فضل اﷲ۔
بنیاد پژد ھشہای اسلامی ١٣٧٧ھ ایرانی ، مشہد، ١٩٩٥ئ
٧۔ علامہ ابن حسن جارچوی '' عہد مامون و امام رضا (ع) '' انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ، کراچی
٨۔ نثار احمد زین پوری، مترجم '' وسیلۃ الخادم الی المخدوم در شرح صلوٰت چہاردہ معصوم (ع) '' (فارسی)
فضل اﷲ بن روز بہان خنجی اصفہانی، انصاریاں پبلیکشنز، قم ۔ ١٤١٧ھ
٩۔ سید محسن مظفر نقوی '' الرضا سیرت امام علی بن موسیٰ (ع)'' خراسان اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی، ١٩٨١ئ
١٠۔ جلیل عرفان منش '' جغرافیائی تاریخی ہجرت امام رضا (ع) از مدینہ تا مرو'' (فارسی)
١١۔ سید محمد موسیٰ رضوی ( مترجم )'' تشیع۔ محمدی اسلام کے آئینہ میں '' ڈاکٹر علی شریعتی ، ادارہ ن و القلم کراچی ٢٠٠٢ئ
١٢۔ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی، '' نقوش عصمت ، چہاردہ معصومین (ع) کی مکمل سوانح حیات''
محفوظ بک ایجنسی ، کراچی ۔ ٢٠٠٠ئ
١٣۔ جواد فاضل، مترجم '' طب اسلامی اور جدید میڈیکل سائنس کے انکشافات '' الحسن بکڈپو، کراچی، ١٩٩٩ئ
١٤۔ علامہ رشید ترابی '' طب معصومین (ع)'' محفوظ بک ایجنسی ، کراچی۔
١٥۔ روشن علی نجفی ( مترجم ) '' گفتار دلنشین چہاردہ معصوم علیہ السلام'' انتشارات انصاریاں، قم ۔

حوالے

١۔ سید صفدر حسین نجفی (مترجم) القرآن الکریم ترجمہ و حواشی از تفسیر نمونہ۔ مصباح القران ٹرسٹ ۔ لاہور ١٩٩٥ئ
٢۔ محمد جواد معینی و احمد ترابی '' امام علی موسیٰ الرضا (ع) ، منادی توحید و امامت'' (فارسی)
بنیاد پژو ھشہای اسلامی ۔ آستانہ قدس۔ مشہ٢ ١٣٨(ایرانی) م ٢٠٠٠ئ
٣۔ سید آغا مہدی لکھنوی ''الرضا'' جمعیت خدام عزا النجف، کراچی ١٩٦٦ئ
٤۔ نجم الحسن کراروی '' چودہ ستارے '' امامیہ کتب خانہ لاہور ١٣٩٣ئ
٥۔ سید حسن امداد (مترجم) '' بحار الانوار جلد پنجم حالات ابوالحسن علی ابن موسی الرضا (ع) '' علامہ مجلسی،
محفوظ بک ایجنسی کراچی ۔
٦۔ سید محمد صادق عارف ( مترجم) '' تحلیل از زندگانی امام رضا (ع) ( فارسی)'' محمد جواد فضل اﷲ۔
بنیاد پژد ھشہای اسلامی ١٣٧٧ھ ایرانی ، مشہد، ١٩٩٥ئ
٧۔ علامہ ابن حسن جارچوی '' عہد مامون و امام رضا (ع) '' انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ، کراچی
٨۔ نثار احمد زین پوری، مترجم '' وسیلۃ الخادم الی المخدوم در شرح صلوٰت چہاردہ معصوم (ع) '' (فارسی)
فضل اﷲ بن روز بہان خنجی اصفہانی، انصاریاں پبلیکشنز، قم ۔ ١٤١٧ھ
٩۔ سید محسن مظفر نقوی '' الرضا سیرت امام علی بن موسیٰ (ع)'' خراسان اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی، ١٩٨١ئ
١٠۔ جلیل عرفان منش '' جغرافیائی تاریخی ہجرت امام رضا (ع) از مدینہ تا مرو'' (فارسی)
١١۔ سید محمد موسیٰ رضوی ( مترجم )'' تشیع۔ محمدی اسلام کے آئینہ میں '' ڈاکٹر علی شریعتی ، ادارہ ن و القلم کراچی ٢٠٠٢ئ
١٢۔ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی، '' نقوش عصمت ، چہاردہ معصومین (ع) کی مکمل سوانح حیات''
محفوظ بک ایجنسی ، کراچی ۔ ٢٠٠٠ئ
١٣۔ جواد فاضل، مترجم '' طب اسلامی اور جدید میڈیکل سائنس کے انکشافات '' الحسن بکڈپو، کراچی، ١٩٩٩ئ
١٤۔ علامہ رشید ترابی '' طب معصومین (ع)'' محفوظ بک ایجنسی ، کراچی۔
١٥۔ روشن علی نجفی ( مترجم ) '' گفتار دلنشین چہاردہ معصوم علیہ السلام'' انتشارات انصاریاں، قم ۔

قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔
گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔
صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔
یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔
یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے:

١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔


٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔

٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا
۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔

٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔
بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔


٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا
زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔
 
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
  مصنف: محمد صادق نجمی
مترجم: محمدمنیرخان ھندی لكھیم پوری

حسنین پرصد قہ حرام ھے
,,عن ابی ھریرة؛ قال:کان رسول(ص) اللّٰہ یُوتیٰ بالتمر عند صِرام النخل، فیجیء ہذا بتمرة ،وہذا من تمرہ ،حتی یصیرعندہ کَوْما من تمر، فجعل الحسن(ع) والحسین(ع) یلعبان بذالک التمر، فاخذاحدھما تمرة، فجعلہ فی فیہ، فنظر الیہ رسول(ص) اللّٰہ(ص)،فاخرجھا من فیہ، فقال: اَمَاْ عَلِمْتَ اَنّّ آلَ مُحَمَّدٍ لَایَاْکُلُوْنَ الْصَّدَقَةَ؟!“[1]
امام بخاری نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے :
جب خرموں کے توڑنے اور چننے کا وقت ھو جاتا تھاتو لوگ رسول(ص) کے پاس خرمہ زکات کے طور پر لایا کرتے تھے ، چنانچہ حسب دستور لوگ چاروں طرف سے آنحضرت(ص) کی خدمت میں خرمہ لے کر آئیجن کا ایک ڈھیر ہوگیا، حسنین علیھما السلام ان خرموں کے اطراف میں کھیل رھے تھے ،ایک روز ان دونوںشہزادوں میں سے کسی ایک نے ایک خرمہ اٹھا کر اپنے دهن مبارک میں رکھ لیا !جب رسول(ص) نے دیکھا تو اس کو شہزادے کے دهن سے باھر نکال دیا اور فرمایا: ” اَماَ عَلِمْتَ اَنَّ آل مُحَمَّدٍ لَایَاٴکُلُوْنَ الصَّدَقَة“؟اے میرے لال! کیا تمھیں نھیں معلوم آل محمد پر صدقہ حرام ھے، وہ صدقہ نھیں کھاتے؟! [2]
اسی طرح دوسری روایت امام بخاری نے امام حسن (ع) سے یوں منسوب کی ھے:
”ان الحسن بن علی اخذ تمرةمن تمر الصدقة،فجعلھا فی فیہ، فقال النبی(ص): کخ کخ لیطرحھا،ثم قال: اما شعرت انا لا ناکل الصدقة“۔[3]
ایک مرتبہ امام حسن (ع)بن علی (ع)نے صدقہ کا خرمہ منھ میں رکھ لیا تو رسول(ص) نے فرمایا:نہ ،نہ ،چنانچہ امام حسن (ع) نے خرمہ کو منھ سے باھر نکال دیا اس وقت رسول اسلام (ص)نے فرمایا : اے میرے لال ! کیا تمھیں نھیں معلوم کہ آل محمد(ص) پر صدقہ حرام ھے؟!


۲۔ شبیہ ِ رسول(ص) یعنی امام حسن و حسین (ع)
۱۔۔۔,, عن انس قال:لم یکن احد اشبہ بالنبی من الحسن بن علی(ص)“[4]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے:
امام حسن علیہ السلام رسول خدا(ص) سے سب سے زیادہ شباھت رکھتے تھے۔
۲۔ ۔۔۔”راٴیت النبی وکان الحسن یشبہ “[5]
دوسری روایت میں امام بخاری نے ابن جحیفہ سے نقل کیا ھے:
میں نے رسول(ص) کو دیکھاتھا امام حسن آپ سے بالکل مشابہ ھیں ۔
۳۔… عن عقبة بن الحا رث؛ قال: راٴیت ابابکر (رضی الله عنہ) وحمل الحسن وھو یقول:بابی شبیہ بالنبی(ص) لیس شبیہ بعلی ،وعلی یضحک“[6]
اما م بخاری نے عقبہ ابن حا رث سے نقل کیا ھے :
عقبہ بن حارث کھتے ھیں : ایک روز میں نے دیکھا کہ ابو بکر امام حسن (ع) کو کاندھے پر بٹھائے ہوئے جارھے ھیں اور یہ کہہ رھے ھیں :
میرا باپ قربان ھو جائے آپ پر (اے حسن (ع))آپ شبیہ رسول ھیں نہ کہ شبیہ علی (علیہ السلام) اور علی (ع) اس (قضیہ) کو دیکھ کر مسکرا رھے تھے۔
۴۔… ,,عن انس بن مالک؛ اُتِیَ عبید اللّٰہ بن زیاد براس الحسین(ع) بن علی علیہ السلام، فجُعِل فی طشت ،فجعل یَنْکُت،ُ وقال فی حسنہ شیئاً ،فقال انس: کا ن اشبہھم برسول(ص) اللّٰہ وکان مخضوباً بالوسمہ“[7]
امام بخاری نے انس بن مالک سے نقل کیا ھے :
جب امام حسین علیہ السلام ک ا سر اقدس جو وسمہ سے مخضوب تھا، عبید اللہ بن زیاد علیہ اللعنة الدائمہ کے پاس لایا گیا ،تو آپ کے سر اقدس کو ایک طشت میں رکھا گیا ،ابن زیاد سر کے ساتھ بے احترامی (سر پر لکڑی مار رھا تھا) کررھا تھا اور آپ(ع) کے حسن و زیبائی کے بارے میں کچھ کھتا جاتا تھا ۔ انس بن مالک یہ بات نقل کرنے کے بعد کھتے ھیں : جبکہ امام حسین علیہ السلام سب سے زیادہ رسول اسلام(ص) سے شباھت رکھتے تھے۔

۳۔ حسنین علیھما السلام کے ساتھ آنحضرت (ص)کا بیحد محبت کرنا
,,… عن ابی ھریرة؛قبل رسول الله الحسن بن علی،وعندہ الاقرع بن حا بس التمیمی جالساً،فقال الاقرع: ان لی عشرة من الولد،ماقبلت منھم احدا،ً فنظررسول الله (ص)،ثم قال:من لا یرحم لایرحم “[8]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے:
ایک مرتبہ رسول خدا(ص) امام حسن علیہ السلام کے بوسے لے رھے تھے، اس وقت آپ کے پاس اقرع بن حا بس بھی تھا، اس نے کھا: یا رسول(ص) اللہ ! میں دس فرزند رکھتا ہوں لیکن ابھی تک میں نے کسی کا بوسہ نھیں لیا، رسول(ص) نے فرمایا: جس کے دل میں ( فرزند کی) مھر و محبت نہ ھو وہ خدا کی رحمت سے دور رھے گا۔
عرض موٴلف
اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے بھی مسند میں نقل کیا ھے لیکن امام حسن (ع) کی جگہ امام حسین بن علی(ع) کا نام ذکر کیا ھے۔[9]

۴۔ حسنین ریحا نہٴرسول(ص) ھیں
”۔۔۔ عن ابن ابی نعیم ؛قال: کنت شاھداً لابن عمر، وساٴلہ رجل عن دم البعوض، فقال: ممن انت؟ فقال :من اھل العراق، قال:انظروا الی ہٰذا یساٴلنی عن دم البعوض وقد قتلوا ابن النبی(ص)؟وسمعت النبی(ص)یقول:ھما ریحا نتا ی من الدنیا“۔ [10]
امام بخاری نے ابن ابونعیم سے نقل کیا ھے:
میں عبداللہ بن عمر کی مجلس میں تھا کہ کسی نے عبد اللہ ابن عمر سے مچھرکے خون کے بارے میں سوال کیا، عبد اللہ بن عمر نے کھا تو کھاں کا رهنے والا ھے؟اس نے کھا عراق کارهنے والا ہوں،اس وقت عبد اللہ ابن عمر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کهنے لگے: اے لوگو! اس شخص کو ذرا دیکھو ،مجھ سے مچھر کے خون کے بارے میں سوال کرتا ھے حا لانکہ یہ لوگ فرزند رسول(ص) امام حسین (ع) کا خون ناحق بھا چکے ھیں ؟! اس کے بعد عبد اللہ ابن عمر نے کھا: میں نے رسول(ص) سے سنا تھا کہ آپ(ع) نے فرمایا میرے یہ دونوںبیٹے ”حسن و حسین ریح ا نتای من الدنیا“ اس دنیا میں میرے پھول ھیں ۔

۵۔ حسنین (ع) کے لئے دعائے رسول(ص)
” … عن ابن عباس ؛قال:کان النبی(ص) یعوذ الحسن والحسین، ویقول: ان اباکما کان یعوذ بھا اسماعیل(ع) و اسحا ق، اعوذ بکلمات اللّٰہ التامّة من کل شیطان وھامّة ومن کل عین لامّة “[11]
امام بخاری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے:
رسول(ص) نے امام حسن (ع) و امام حسین (ع) کے بارے میں مخصوص دعا کا تعویذ بنایا اور فرمایا: تمھاریجد ابراھیم نے اپنے دونوں فرزند اسمعیل و اسحا ق کے لئے اسی دعا کا تعویذ بنایا تھا :
,,اعوذ بکلمات اللّٰہ التا مّة من کل شیطان و ھامّة و من کل عین لامّة“

۶۔ اے خدا !جو حسن (ع) کو دوست رکھے تو اسے دوست رکھ
,, …عن ابی ھریرة؛ قال:خرج النبی(ص) فی طائفة النھار،ل ا یکلمنی ولا اکلمہ،حتی اتی سوق بنی قینقاع، فجلس بفناء بیت فاطمة(س)، فقال: اثم لکع اثم لکع؟فحبستْہ شیئاً ،فظننتُ انھاتلبسہ سخاباً اوتغسلہ، فجاء یشتد حتی عانقہ، وقبلہ ،وقال:اللّٰھم احببہ واحبب من یحبہ“[12]
امام بخاری نے ابوھریرہ سے نقل کیا ھے :
ایک روز رسول(ص) خدا اپنے گھر سے بالکل خاموش باھر نکلے ،یھاں تک کہ بازاربنی قینقاع تشریف لائے اور یھاں سے پلٹ کر شہزادی کونین حضرت فاطمہ زھر ا سلام اللہ علیھا کے خانہ ٴ اطھر کے دروازے پر تشریف فرما ہوئے اور اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو ان لفظوں میں بلانے لگے: کیا لکع یھاں ھے؟ کیا لکع یھاں ھے؟[13]
ابوھریرہ کھتے ھیں : جب فاطمہ زھراسلام اللہ علیھا نے تاخیر کی تو میں نے سوچا کہ شاید آپ نے بچہ کو نظافت کی وجہ سے روک رکھا ھے ، اس کے بعد جب امام حسن علیہ السلام باھر تشریف لائے تورسول(ص)نے شہزادے سے معانقہ کیا اور بوسہ لیا اور اس کے بعد دعا کی:
”اے میرے پروردگار! اس کو دوست رکھ اور جو اس کو دوست رکھے اسے دوست رکھ“
قارئین محترم! یہ تھیں چند وہ آیات و احادیث جو صحیحین میں اھل بیت علیھم السلام کی شان میں نقل کی گئیں ھیں ، انھیں چند صفحا ت کادقت سے مطالعہ کرنے سے پتہ چل جاتا ھے کہ مسئلہٴ خلافت ایسا مسئلہ نہ تھا کہ رسول(ص) فراموش کردیتے اور مسلمانوں کے درمیان اس منصب کے لائق اور حقیقی خلفاء کی نشان دھی نہ کرتے،بلکہ یہ وہ مسئلہ تھا جسے رسو ل(ص) نے ھر جگہ بیان کرنا ضروری سمجھا اور متعدد موارد پر اپنے حقیقی خلفاء کا اعلان فرمایا۔
یہ بات بھی ذهن میں رھے کہ ھم نیجو صحیحین سے اھل بیت (ع)کے فضائل نقل کئے ھیں،یہ صحیحین میں ان کے فضائل کے انبار کے مقابلہ میں جو رسول خدا(ص) سے منقول ھیں اورجو سنیوں کی دیگرمعتبر کتب ِ احادیث و تواریخ میں موجود ھیں ،ایک تنکے سے بھی کم ھیں ،بھر حال اب ھم ان مطالب اوراحادیث کو نقل کرتے ھیں ،جنھیں خلفائے ثلاثہ سے متعلق ان دو کتابوں میں نقل کیاگیا ھے، لیکن اس سے قبل مولائے متقیان حضرت علی(ع) کا ایک خطبہ نقل کر دیں جو آپ نے امامت،خلافت ا ور حکومت کے بارے میں بیان کیا ھے اور نشان دھی فرمائی ھے کہ جو امت کا حا کم ھو اس کے لئے کون سے شرائط لازمی ھیں ۔[14]
________________________
[1] بخاری ج۲، کتاب الزکاة ،باب ”اخذ صدقہ التمر عند صرام النخل“ حدیث ۱۴۱۴۔
[2] مترجم: مذکورہ حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت جاتا ھے کہ آل محمد(ع) پرصدقہ حرام ھے اس کا مفہوم یہ ہواکہ اصحا ب کے لئے جائز ھے گویا حرمت صدقہ آل محمد ا(ع)ور اصحا ب کرام کے درمیان حد فاصل ھے، اس حدیث میں امام بخاری نے تھوڑ ا سا اضافہ کیا ھے وہ یہ کہ ”حسنین (ع)نے کھجور کو دہن اقدس میں رکھ لیا تب رسول(ص) نے منع فرمایا “ایسا نھیں ھے بلکہ حسنین کھانے کے ارادہ سے بظاھر دیکھنے والوں کی نظر میں اٹھا رھے تھے ،مگر حقیقت یہ تھی کہ آپ دنیا والوں کی زبان پر اپنی فضیلت زبانِ رسالت سے سنوانا چاھتے تھے کہ آل محمد (ع)اور اصحا ب میں زمین و آسما ن کا فرق ھے، یعنی آپ (ع)یہ بتا نا چاھتے تھے کہ اے مسلمانو! کبھی آل محمد(ص) کے مقابلہ میں اصحا ب کا قیاس نہ کرنا :
”لایُقاسُ بِآلِ محمد(ص) من ہذہ اُلامَّةِ اَحَدٌ وَ لَایُسوَّی بھم مَنْ جَرَتْ نِعَمَتُھم علیہ اَبَداً ہُم اَساسُ الدِّین وَ عِمادُ الیقین اِلیھم یَفِئیُ الغَالِی و بھم یُلْحَقُ التاَّلِی و لَہُم خَصائِص حّقِّ الوِلَایَةِ وَ فِیھم الوَصِیَّةُ وَ الْوِراثَةُ “ شرح نہج البلاغہ ابن الی الحدید جلد۱صفحہ ۳۸ ( خطبہ نمبر۲)
ترجمہ: اس امت میں کسی کو آل محمد(علیھم السلام) پرقیاس نھیں کیا جاسکتا ،کیونکہ جن لوگوں پر ان کے احسانات ھمیشہ جاری رھے ہوں ،وہ ان کے برابر نھیں ہوسکتے، یہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ھیں ، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ھے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ھے، حقِ ولایت کی خصوصیات انھیں کے لئے ھیں ، انھیں کے بارے میں پیغمبر کی وصیت اور انھیں کے لئے نبی کی وراثت ھے ۔۱۲
[3] صحیح بخاری جلد۲، کتاب الزکاة ،باب ”مایذکر فی الصدقہ للنبی“(ص) حدیث ۱۴۲۰۔ جلد۴ ،کتاب فضل الجھاد و السیر، باب” من تکلم بالفارسیة“حدیث۲۹۰۷۔
[4] صحیح بخاری جلد۵، کتاب فضایل الصحا بة، باب” مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ حدیث ۳۵۴۰،۳۵۴۲
[5] صحیح بخاری جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“حدیث ۳۳۴۹،۳۵۰ ۳۔
[6] صحیح بخاری جلد۵ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب الامام الحسن و الحسین(ع) “ جلد۴، کتاب المناقب، باب” صفة النبی“۳۵۴۲، ۳۳۵۰۔
[7] صحیح بخاری جلد۵، کتاب الفضایل الصحا بة، باب ”مناقب الحسن و الحسین(ع) “حدیث۳۵۳۸ ۔
[8] صحیح بخاری جلد۸، کتاب الادب، باب(۱۷)” رحمة الولد و تقبیلہ و معا نقتہ “حدیث ۵۶۵۱۔
[9] مسند احمد بن حنبل جلد ۲ ،مسند ابو ھریرة، ص ۲۴۱ ۔
مترجم: ایک جگہ امام بخاری نے اس طرح نقل کیا ھے:(ع) آنحضرت(ص) نے فرمایا :اللّٰھم انی اُحبّہ فاَ حبَّہ، اے خدا !تو حسن (ع) کو دوست رکھ کیونکہ میں اس کو دوست رکھتا ھو ں۔
صحیح بخاری جلد ۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة ،باب ”مناقب حسن(ع) حسین “حدیث ۳۵۳۹،۳۵۳۷،باب ”ذکراسامة بن زید“ حدیث۳۵۲۸۔
[10] صحیح بخاری جلد۸ ،کتاب الادب ،باب ”رحمة الولد و تقبیلہ“ حدیث۵۶۴۸ ۔
مترجم:(صحیح بخاری ج۳ ،کتاب الفضایل الصحا بة، باب(۲۴)”مناقب الحسن والحسین“ ح۳۵۴۳۔)
[11] صحیح بخاری جلد۲ ،کتاب الانبیاء، باب ”(سورہٴ صٰفات آیت ۹۴ )یزفون النسلان“ حدیث۳۱۹۱۔
[12] صحیح بخاری جلد۳، کتاب البیوع، باب(۴۹)” ماذکر فی الاسواق“ حدیث۲۰۱۶۔ جلد ۷، کتاب اللباس، باب(۵۸)” السِخّاب للصبیان“ حدیث۵۵۴۵ ،صحیح مسلم جلد ۷ ،کتاب فضایل الصحا بة، باب(۸ )”فضائل الحسن و الحسین علیھما السلا م“ حدیث۲۴۲۱۔ (معانقہ کے جملے صحیح مسلم میں آئے ھیں صحیح بخاری میں نھیں ۔مترجم )
[13] نوٹ:لکع بمعنی چھوٹا بچہ استعمال کیا جاتا ھے ، دیکھئے :نھایہ ابن اثیر ۔
[14] اگر آپ اس خطبہ کی روشنی میں خلفائے ثلاثہ کی زندگی کو دیکھیں تو پھر آپ کو اس بات کے تسلیم کرنے میں کسی طرح کی شرم اورجھجھک محسوس نہ ھو گی کہ منصب خلافت کے واحد حقدار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) تھے۔مترجم۔
 

ابنا۔ خداوند عالم نے انسان کو صاحب اختیار بنا کر خلق کیا اور ساتھ ہی انبیاء، ائمہ اور قرآن جیسی کتاب بھیج کر ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ اب اسے اچھائی یا برائی کرنے کا اختیار ہے، اگر اچھا کرے گا تو اس کا نتیجہ اچھا اور خوبصورت ہو گا اور اگر برا کرے گا تو اس کا نتیجہ برا ہو گا۔ ہمارے اعمال اچھے ہوتے ہیں تو دنیا بھی خوبصورت ہوتی ہے اور آؒخرت بھی۔ اور اگر ہمارے کام برے ہو جاتے ہیں تو دنیا بھی سخت ہو جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔

ہمارے کاموں کی نوعیت سے ہماری دنیوی زندگی اور آخرت کی نوعیت مشخص ہوتی ہے، انہیں میں سے ایک اہم مسئلہ ہمارے والدین اور ان کے ساتھ ہماری طرف سے کیا جانے والا برتاؤ ہے، ہمارا برتاؤ ہمارے والدین کے ساتھ ہماری زندگی کے سارے نشیب و فراز کو معین کرتا ہے جیسا جیسا کرتے جاتے ہیں ویسا ویسا صلہ ملتا رہتا ہے، حتیٰ والدین کے ساتھ ہماری زندگی کا ہر گذرا لمحہ دوسرے آنے والے لمحے کے لیے سرنوشت ساز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک داستان تحریر کرتے چلیں، ایران کے ایک شہر میں کچھ جوانوں کو پھانسی دیئے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا، ان میں سے ایک جوان کے رشتہ دار شیخ رجب علی خیاط (ایک عارف شخصیت) کی خدمت میں آئے تاکہ شیخ دعا کریں اور کوئی چارہ کار بتائیں، شیخ نے بلا فاصلہ کہا: اس جوان کے اس مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ اس کی ماں ہے، میں جتنی بھی دعا کر لوں مجھے معلوم ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ لہذا اس کی ماں کے پاس جاؤ۔

کچھ لوگ اس کی ماں کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ اپنے اس جوان بیٹے سے ناراض ہیں؟ ماں نے اس طرح روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہاں میں ناراض ہوں۔ کہنے لگی جب میرے بیٹے نے نئی نئی شادی کی، ایک دن جب میں دسترخوان اٹھا رہی تھی کچھ برتن اپنی بہو کے ہاتھ میں پکڑائے کہ انہیں باورچی خانے میں لے جائے۔ میرے بیٹے نے وہ دسترخوان اور برتن اپنی بیوی کے ہاتھ سے لیے اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کے لیے نوکرانی نہیں لایا ہوں۔ میرے دل پر بہت چوٹ لگی اور مجھے بہت ناگوار گزرا۔ آخرکار ماں راضی ہوتی ہے اور خود اپنے جوان بیٹے کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہے اگلے دن اس کا بیٹا آزاد ہو جاتا ہے۔

آج ہم پریشان ہیں دعائیں مانگتے ہیں صدقہ دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مار کہاں سے پڑ رہی ہے یا بلکہ کبھی ہم جانتے بوجھتے اس دلدل میں پھستے جاتے ہیں۔ یقین کریں والدین کی ناراضگی دونوں جہاں کو برباد کر دیتی ہے ہمارے والدین کی خوشی ان کی رضایت ہی ہے جو ہمیں طوفانوں سے بچا سکتی ہے۔ مال و دولت چاہیے، اولاد چاہیے زندگی کا سکون چاہیے، بیماریوں سے شفا چاہیے تو والدین کو خوش رکھیں۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم والدین کے سامنے اونچی آواز میں چیخ پکار کریں اور ہمیں دنیا میں عزت مل جائے۔

افسوس اب تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور والدین کو نابلد۔ اور اپنی مرضی والدین پر اس نام سے تھونپتے ہیں کہ آپ کو کیا پتا ہے ہم پڑھے لکھے ہیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن واللہ جتنا ہم کتابیں پڑھ کر سیکھتے ہیں ہمارے والدین تجربوں اور زندگی کی تلخیوں سے سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ صرف اب وہ جان بوجھ کر اظہار نہیں کرتے بلکہ انہیں اظہار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ تنگ آ کر صرف سنتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ کچھ نہیں جانتے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں حتیٰ یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، ہمیں اپنے والدین کے سامنے زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

کبھی کبھی ہم کچھ کہہ کے اور کچھ کر کے نکل جاتے ہیں ظاہرا وہ ایک لفظ، ایک جملہ ایک اشارہ اور ایک چہرے کا رنگ ہوتا ہے، جو والدین کے دل کو ایک سیکنڈ میں جھلسا کر رکھ دیتا ہے شاید والدین اپنی محبت کی بنا پر بھول جائیں اور اکثر بھول ہی جاتے ہیں لیکن وہی ایک جملہ وہی لمحہ ہماری ساری زندگی میں آگ لگا دیتا ہے اور اسے اجاڑ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے اور جوانی کا غرور، جو ہماری رفتار و کردار کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ آج ہم جہاں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں صرف پریشان حال دیکھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے! ہمیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟

اور پھر رہا حقوق کا مسئلہ، ایسا تو ضروری نہیں کہ جب ہم ایک کے حق کا خیال رکھیں تو دوسرے کا لازمی پامال کریں، مثلا اگر ہمیں اپنی بیوی کے حق کا خیال ہے کہ یقینا ہونا چاہیے لیکن ضروری تو نہیں کہ ماں کو اذیت کریں، یا اگر ماں کے حق کا لحاظ ہے کہ یقینا یقینا ہونا چاہیے لیکن اس کا لازمہ بیوی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ سمجھدار تو وہ ہے جو مسائل کو نزاکت کے ساتھ حل کر سکے۔ مثلا اس واقعہ کے اندر یہ جوان اگر چاہ رہا تھا کہ بیوی کے حق کا لحاظ رکھے (گر چہ ان باتوں سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا دوسرے کی مدد انسانی تقاضا ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ساس سسر، پڑوسی ہمسفر وغیرہ) تو بہت ہی خوبصورت طریقے کے ساتھ اپنی ماں کے سامنے بچھ جاتا اور کہہ سکتا تھا کہ اماں جان! اپنی خدمت کی سعادت مجھے بخشیں، مجھے اپنی خدمت سے کیوں محروم کر رہی ہیں؟ اس طرح سے وہ اپنی بیوی کے حق کو بھی بچا سکتا تھا اور ماں کی عظمت اور منزلت کو بھی، آپ دیکھیں کتنے خوبصورت نتائج ہو سکتے تھے، ماں کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا، خدا بھی خوش ہو جاتا، دنیا اور آخرت معطر ہو جاتی اور بیوی کی تربیت بھی ہو جاتی اور ساتھ ہی ساس اور بہو میں ماں اور بیٹی والی محبت پیدا ہو جاتی۔ خداوند عالم ہماری اصلاح فرمائے، اور اپنے والدین کی قدر و قیمت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Wednesday, 14 October 2020 10:50

شہید انسانیت حسین(ع)

تحریر: محمد حسن جمالی

انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔

انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔

نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔

تحریر: پیمان محمدی[1]،  
تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی گریجویٹ

درحقیقت ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر انسانی و معاشرتی علوم میں ایک بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے فکری، علمی اور تحقیقی کام سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھیں۔ نہیں، بعض معاشرتی و انسانی علوم اہل مغرب کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں کام کیا ہے، سوچ بچار کی ہے اور مطالعہ کیا ہے، ان کے مطالعہ سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ بات یہ ہے کہ  مغربی معاشرتی و انسانی علوم کی بنیاد، غیر الہیٰ ہے، غیر توحیدی اور مادی بنیاد ہے کہ جو اسلامی اصولوں کے ساتھ سازگار نہیں ہے، دینی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ معاشرتی علوم اس وقت صحیح، مفید اور انسان کی درست تربیت کرنے والے ہوں گے اور فرد اور معاشرے کو نفع پہنچائیں گے، جب ان کی اساس اور بنیاد الہیٰ تفکّر اور الہیٰ نطریہ کائنات پر قائم ہو۔ آج موجودہ صورتحال میں یہ چیز معاشرتی علوم میں موجود نہیں ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں جلدی کی جائے۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے۔ ایک اہم کا ہے۔(ایران کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات  کے موقع پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات۱۱-۰۴-۱۳۹۳)

دنیا میں موجود ٹیکنالوجی، علم، اس کے نواقص اور خلاؤں کے متعلق تحقیق و بررسی کا موضوع ان موضوعات میں سے ہے کہ جس نے کئی عشروں سے یونیورسٹی کے محققین اور طلابِ علومِ دینی کو مشغول کر رکھا ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر معاشرتی و انسانی علوم کے شعبہ میں بھی قابلِ غور رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرتی و انسانی علوم، غیر مغربی معاشروں میں قابلِ استفادہ ہیں یا نہیں۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے مفکرین، خاص طور پر ایران اور مصر جیسے ممالک کے دانشمندوں نے اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے۔ واضح طور پر اس موضوع نے تین طرح کے ردعمل ایجاد کئے  ہیں:

1۔ پہلا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اس کے قائل ہیں کہ علم اور ٹیکناجی مغربی و غیر مغربی نہیں ہے، اصولی طور پر نہ کوئی دینی علم ہے اور نہ کوئی سیکولر یا علم ِدین کی ضد ہے۔ اس نظریہ کے مطابق علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی ہے، بطور مثال ہمارے پاس کوئی اسلامی معاشرہ شناس ہے، نہ کوئی غیر اسلامی معاشرہ شناس یا نہ ہی کوئی سائیکالوجی ہے اور نہ ہی اسلامی اقتصاد و غیر اسلامی اقتصاد ہے۔ سائیکالوجی سائکالوجی ہے، اس کا مغربی یا مشرقی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونیورسٹی کی زبان میں علم ارزش اور راہ و روش سے خالی ہوتا ہے۔

2۔ دانشوروں کا دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مغرب کی ہر چیز منفی و محکوم نہیں ہے، ان کی مفید علمی پیش رفت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور مضر و نقصان دہ ترقی سے دور رہیں۔ اس نظریہ کے مطابق مغرب، اچھے مغرب اور برے مغرب کو شامل ہے، اچھے مغرب سے فائدہ اٹھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ اس نظریئے کے مقدمات پہلے نظریئے کے مقدمات کے مشابہ ہیں۔ اس گروہ کا اہم اور مشترک مقدمہ یہ ہے کہ بطور کلی ایجاد شدہ علم اور ٹیکنالوجی کی ماہیت اور بطور خاص معاشرتی و انسانی علوم، علمی معرفت اور مغربی سیکولر دانشوروں کے نظریہ کے زیر اثر قرار نہیں پاتے۔

3۔ تیسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جو مغربی معاشرتی و انسانی علوم کو ان کی علمی معرفت[2]  اور ان کے غیر توحیدی نظریئے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ضروری موارد کے علاوہ اس کا استعمال جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ دانشوروں کا آخری گروہ انجینئرنگ علوم کی مثال دیتا ہے کہ ناکارہ چیز کا نتیجہ بیکار اور باطل ہوتا ہے۔ [3]۔ یہ گروہ اس بات کا  قائل ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے بھی اسلامی ہوں، ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی اسلامی ہو اور اسی طرح وہ نظریات جو ملک کو ادارہ کرنے میں استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی اسلامی ہونے چاہئیں۔

اس حصے میں مذکورہ بالا نظریات کی جانچ پرکھ اور ان پر تنقید کرنے سے پہلے ایک نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض افکار و نظریات کو قبول کرنے سے نہ تو ان تمام دوسرے نظریات کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی۔ مثال کے طور پر جب ایران میں اعلیٰ تعلیم[4] میں اضافہ ہوا اور آخری بیس سالوں میں پوسٹ گریجویٹ (ماسٹرز اور پی اچ ڈی) کورسز کے فارغ التحصیل افراد کی تعداد بڑھی تو ضرورت اس بات کا باعث بنی کہ اس ملک (ایران) میں مغربی معاشرتی و انسانی علوم سے آگاہی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے اور مغربی دانشوروں کی آواز سننے میں اضافہ ہو۔(دوسرا نظریہ)۔ جب یہ تعلیمی دورانیہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے انسانی و اجتماعی علوم کے میدان میں مہارت، خلاقیت اور علمی ایجادات پر دسترسی حاصل کر لی تو پھر یہ توقع ہے کہ افراد کا یہ گروہ اسلامی اور داخلی انسانی و معاشرتی علوم کی تولید کے لیے قدم اٹھائے۔(تیسرا نظریہ)۔

اسی بنا پر ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک نظریئے کو ہر حال میں قبول کریں، بلکہ اسٹوڈنٹس، اساتید اور ملک کے طلباء کی توانائی، مہارت اور پختگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ دوسرے اور تیسرے نظریئے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور تکامل کے مراحل طے کرنے اور قدرت حاصل کرنے کے بعد تیسرے نظریئے کی طرف رجحان پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ موضوع ایک ٹیکنیکل پارٹ بنانے کے مشابہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ملک کے اندر ٹیکنیکل پارٹس ایجاد کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو، لہذا وہ پہلے اسے درآمد کرے گا، ایک مدت گزارنے کے بعد جب پیداوار کی صلاحیت پیدا کرلی تو اس پارٹ کی ریورس انجینئرنگ کرے گا اور اسے بنا لے گا۔ ممکن ہے کہ مکمل مہارت حاصل کرنے اور تحقیق و ترقی[5] کرنے کے بعد بہتر پارٹس ڈیزائن کرکے انہیں مارکیٹ میں لے آئے اور آخرکار اس میدان میں معروف برآمد کرنے والے میں تبدیل ہو جائے۔ انسانی و معاشرتی علوم کا شعبہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ وقتی طور پر مجبوری کے تحت مغربی نظریات سے استفادہ کرے اور پھر قدرت حاصل کرنے کے بعد خود توحیدی و الہیٰ نظریات پیش کرنے کی جانب رخ کرے۔

گفتگو کے اس حصے میں، قرآن اور روایات اہل بیتؑ کی نگاہ سے پہلے نظریئے کی جانچ پرکھ اور اس پر تنقید کریں گے۔ یہ نظریہ اس بات کا قائل ہے کہ علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی۔ یہ نظریہ ایک مغربی معاشرے اور ایک مغربی و سیکولر دانشور کے تولید شدہ انسانی و معاشرتی علوم اور ایک عابد و الہیٰ مفکر کے تولید شدہ علوم کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ شاید تھوڑا سا صرف نظر کرتے ہوئے کسی حد تک قدرتی، ٹکنیکل اور انجینئرنگ علوم کے بارے میں اس استدلال کو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر انسانی و معاشرتی علوم کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔

سب سے پہلے روایاتِ اہل بیتؑ کی بنا پر انسان اور اور معاشروں کی تقدیر و سرنوشت سے مربوط علم کو دو حصوں یعنی صحیح و غیر صحیح علم میں تقسیم کرسکتے ہیں اور صحیح علم کا منبع صرف اہل بیتؑ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ دوسری درجہ بندیاں جیسا کہ مفید اور غیر مفید علم، علم و فضل وغیرہ بھی کلام اہل بیتؑ میں موجود ہیں کہ ہر ایک کے بارے میں دقیق تحقیق و بررسی کسی اور موقع کی متقاضی ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں: ”شَرِّقاً و غرِّباً فَلا تَجِدَانَ عِلماً صَحِیحاً اِلّا شَیئاً خَرَجَ مِن عِندِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“[6]۔ "مشرق جائیں اور مغرب جائیں، آپ صحیح علم حاصل نہیں کرسکتے سوائے اس چیز کے جو  ہم اہل بیتؑ سے صادر ہوئی ہو۔" یہ روایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم انسانی معاشرے اور انسان سے مربوط علوم کہ جن کا واسطہ انسان کی دنیوی و اخروی تقدیر سے ہے، کا منبع ضروری ہے کہ اہل بیت ؑ کی گفتگو پر مبنی ہو۔ اس بنا پر روایات کے مطابق معصومین ؑ کی تعلیمات پہلے نظریئے کے منافی اور معارض ہیں۔

قرآن سورہ مبارکہ نساء میں فرماتا ہے: وَ لَنْ یَّجعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ "اللہ ہرگز کافروں کو مؤمنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔"[7]۔ یہ آیت ”نفی سبیل“ کے نام سے مشہور ہے کہ جو عملی طور پر مؤمنین کو سختی سے منع کرتی ہے کہ وہ کافروں کے تسلط اور غلبے کو قبول نہ کریں۔ بعض اسلامی ممالک جیسا کہ ایران میں یہ آیت قانون اساسی کی بعض شقوں جیسے شق نمبر ۱۵۲ و ۱۵۳ کی تشکیل کا منبع ہے۔ البتہ اس کی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اس آیت کو مؤمنین پر کفار کے معاشی اور فوجی غلبے میں محدود کریں اور ثقافتی غلبے یعنی اصطلاحاً نرم تسلط کو اس سے مستثنیٰ کریں۔ آیت اللہ العظمیٰ خمینی ؒ اس آیت کے حالات اور وسعت کو کسی خاص میدان میں محدود نہیں سمجھتے اور قرآن کے مشہور مفسر علامہ طباطائی بھی اسے کسی خاص زمانے میں محدود نہیں جانتے۔ امام خمینیؒ اپنی کتاب البیع میں فرماتے ہیں: بل یمکن ان یکون لہ وجہ سیاسی، ھو عطف نظر المسلمین الی لزوم الخروج عن سلطۃ الکفار بأیّۃ وسیلۃ ممکنۃ؛ ممکن ہے اس آیت ”آیت نفی سبیل“ پر کوئی سیاسی وجہ استوار ہو، منتہی اس آیت کا اس طرف بھی رجحان ہے کہ جس طرح سے بھی ہوسکے، مسلمان کفار کے غلبے اور تسلط سے آزاد ہوں۔[8]

علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں تاکید فرماتے ہیں کہ یہ حکم کسی خاص زمانے میں محدود نہیں ہے۔ اس آیت میں یہ جو فرمایا ہے کہ خداوند متعال ہرگز کافروں کو مؤمنین پر فوقیت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ان پر مسلط کرتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ آج سے حکم مؤمنین کے فائدے اور کفار کے نقصان میں ہے اور ہمیشہ کے لیے ایسا ہی ہوگا۔[9] اس مقدمے کے پیش نظر، جب انسانی و معاشرتی علوم کا نقشہ، مؤمنین پر تسلط اور فوقیت حاصل کرنے اور انہیں مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنے کی غرض سے تیار کیا جائے، تو یہ ”سبیل“ کا مصداق ہے اور آیت شریفہ ”نفی سبیل“ کے مطابق فقہی اعتبار سے اس سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ اس اجتناب کی ایک غرض انسانی و معاشرتی علوم میں ایسے نظریات کی طرف رجوع نہ کرنا یا ان پر بھروسہ نہ کرنا ہے اور اس کی اہم ترین وجہ، مغربی نظریات کی جگہ ایسے نظریات کا نقشہ تیار کرنا، انہیں وسعت دینا اور پیش کرنا ہے کہ جن کی بنیاد الہیٰ و توحیدی اصولوں کے مطابق ہو؛ جسے ”معاشرتی و انسانی علوم میں انقلاب و تحول“ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اگلے پہرے میں مختصر شواہد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو مغرب میں معاشرتی و انسانی علوم کی جہت کو واضح کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1]۔ This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
[2]Epistemology 
[3]۔ Garbage in, Garbage out (waste input carries waste output)
[4]۔ Higher education
[5]۔ R&D
[6]۔ اصول کافی، ج ۲، ص۲۵۱، ح ۳.
[7]۔ سورہ نساء: آیت۱۴۱
[8]۔ کتاب البیع، ج.2، ص. 722.
[9]۔ المیزان، ج. 5، ص. 189.
ایرانی سپریم لیڈر اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے تہران کی امام علی (ع) یونیورسٹی میں مشترکہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے دفاعی طاقت، اقتصادی استحکام اور ثقافتی مضبوطی سے متعلق مسائل میں صحیح اور عقل پر مبنی حساب کتاب کو قومی خودمختاری اور قومی تشخص کا ضامن قرار دیا اور کہا کہ ملکی اقتصادی مسائل حکام کی دن رات کی کوششوں، طاقتور، جامع و انتھک انتظامات اور غیرملکی ذرائع کے ساتھ امید لگانے کے بجائے ملکی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں تاہم امریکی قوم پر مسلط اوباش ٹولے کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے دفاعی طاقت، اقتصادی استحکام اور ثقافتی مضبوطی کو قومی اقتدار کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا حکومتی نظام دفاعی طاقت کی اندازہ گیری، مسلح افواج کے درمیان تقسیمِ کار اور صحیح دفاعی آلات کے تعیّن کے لئے عقل پر مبنی صحیح اور منطقی حساب کتاب پر مشتمل ہے جبکہ قومی مفاد کے حصول اور قومی سالمیت و تشخص کی حفاظت کے لئے لاحق خطرات و ملکی استعداد کی حدود و سطح کی اندازہ گیری کے لئے انتہائی درست و منطقی حساب کتاب کی موجودگی ناگزیر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ عقل کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد خوف، مفعولیت اور دشمن کے مقابلے سے گریز ہوتا ہے درحالیکہ فرار کرنے اور ڈرنے 
کو عقل نہیں کہتے! انہوں نے کہا کہ بزدلوں کو عقل کا نام لینے کا حق حاصل نہیں کیونکہ عقل کا مطلب درست حساب کتاب ہے تاہم دشمن چاہتا ہے کہ عقل کا غلط معنی ہم پر مسلط کر دے جبکہ ملک کے اندر موجود بعض لوگ نادانستہ طور پر دشمن کے الفاظ دہرانے لگتے ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی دفاعی طاقت و خطے کے اندر ایرانی میزائل پاور کے حوالے سے امریکی ہرزہ سرائیوں کی بنیادی وجہ اس توانائی کے حصول کے لئے ایران کے انتہائی درست و عقل پر مبنی حساب کتاب کو قرار دیا اور کہا کہ یہ ہرزہ سرائیاں ان کے خوف اور اسی طرح ان میدانوں کے اندر ان کی پسماندگی کے باعث ہیں تاہم ان پراپیگنڈوں کی پرواہ کئے بغیر "عقل پر مبنی حساب کتاب کے نظام" کی حفاظت کی جانا چاہئے جبکہ اللہ تعالی کے لطف و کرم سے اسلامی جمہوریہ ایران ان میدانوں میں مزید ترقی کرے گا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے ملکی معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مسائل میں ہم امریکہ کے خباثت آمیز کردار اور اس کی پابندیوں، جو درحقیقت جرم ہیں، کے بُرے اثرات کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ ہم اپنا قیام اور مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ (کی پالیسی) کو امریکہ کی زیادہ سے زیادہ رسوائی اور پشیمانی میں بدل دیں گے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر امریکی صدر کے اظہار خوشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (ایرانی قوم کے خلاف) ایسے جرائم کے ارتکاب 
پر صرف تم جیسا رذیل شخص ہی افتخار کر سکتا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آج ہزاروں ارب ڈالر کے قومی خسارے اور بھوکے و غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں انسانوں کے ہمراہ امریکہ کی حالت انتہائی بُری ہے جبکہ ایرانی قوم نہ صرف توفیقِ الہی، ایمانی طاقت اور قومی عزم کے ذریعے اپنی تمام مشکلات پر قابو پا لے گی بلکہ عائد پابندیوں کو بھی ملکی معیشت کی حقیقی مضبوطی میں اضافے کے لئے استعمال کرے گی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اس بات پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے، کہا کہ اگرچہ ہماری بہت سی مشکلات کا تعلق بیرون ملک امور کے ساتھ ہے تاہم ان کا علاج ملک کے اندر اور صحیح حساب کتاب پر ہے لہذا ہمیں ان مسائل کا حل ملک سے باہر نہیں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ ملک کے باہر سے ہم نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی البتہ امریکی قوم پر مسلط اراذل و اوباشوں کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائے! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عوامی عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے لوگ سرحدوں کی جانب نہیں گئے اور انہوں نے محرم الحرام کے دوران بھی پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا ہے، اب بھی زندگی کے بنیادی مسائل میں پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس منحوس بیماری سے پیچھا چھڑوایا جا سکے۔
 
 
 

تحریر: محمد علی شریفی

امام حسین علیہ السلام نے اپنی لازوال اور عظیم قربانی  کے ذریعے اہل ایمان کو یہ درس دیا کہ جب بھی دین و مکتب کی بنیادیں خطرے میں پڑ جائیں تو اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب امام عالی مقام نے دیکھا کہ اسلامی معاشرے کی زمامِ حکومت، یزید جیسے فاسق و فاجر  حاکم کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو تمام  احکام الٰہی اور شریعت کے اصولوں کو اپنے پاؤں تلے روند رہا تھا، اس صورتحال کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام  یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور  لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دینا شروع کی۔ اس راہ میں اپنی جان، مال، ناموس، عزیزوں اور قریبی اصحاب کی قربانی پیش کی۔

امام عالی مقام نے  پوری تاریخ بشریت کے لئے پیغام  دیا کہ جب بھی یزید جیسا شخص تمہارا حاکم بنا تو سکوت اختیار نہ کرنا اور اس کی بیعت کرنے سے انکار کرنا۔ امام کی زبان حال یہ بتا رہی تھی  کہ اگر دین محمدی میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آؤ مجھ حسین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اسی لئے امام تمام انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ بنے کہ جب بھی کوئی طاغوت، اسلامی اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہے تو انقلاب حسینی سے درس لے۔ جیسا کہ گاندھی سے لیکر دنیا کے مختلف مسلم اور غیر مسلم  دانشوروں اور اہم شخصیات اس کا برملا اظہار کر چکی ہیں۔ تاکہ انسانی اور اسلامی اقدار کے خلاف ہونے والی حرکتوں کو روک سکیں۔ کربلا کے جس پہلو کی طرف بھی انسان نگاہ کرے اس پہلو سے بہتر زندگی گزارنے کا اصول ملتا ہے ہم اس تحریر میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

درس حُرّیت:
تحریک عاشورا کا ایک ابدی پیغام یہ ہے کہ انسان جس عقیدے کا بھی حامل ہو، کوشش کرے کہ آزاد زندگی گزارے اور ذلت سے دور رہے، کسی بھی ستمگر اور ظالم کے آگے سر نہ جھکائے۔ عاشوراء کے دن جب امام  نے دیکھا دشمن خیموں کی طرف حملہ کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: "وَیحَکمْ یا شیعَةَ آلِ اَبی سُفیان! اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحرارا فی دُنیاکم" وائے ہو تم پر اے آل ابی  سفیان کے پیرو کارو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو، اپنی اس دنیا میں آزاد مرد بن کر رہو۔۔(1) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں، "مَوْتٌ في عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَياةٍ فِي ذُلٍّ" عزت کی  موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ (2) آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں حضرت سید الشہداء کا غم منانے سے بے نیاز ہوں، چاہے شیعہ ہو یا سنی یہودی ہو یا عیسائی یا زرتشتی۔ اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے قول اور فعل، خطبوں اور خطوط کے ذریعے مختلف دروس کو پیش کیا۔

کچھ لوگوں سے کہا اگر مسلمان نہیں ہو تو حریت پسند بنو  اور آزاد طلبی کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی پر قبضہ  کی چاہت ہو نہ تم پر کوئی غلبہ پاسکے! "اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحراراً فی دُنیاکُم"۔ درس آزادی اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کا پہلو ابھی محفوظ ہے اور اگر کوئی خدا  کو نہیں مانتا نہ ہی قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے تو کربلا عالم بشریت کے لئے معلمِ درس حرّیت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی کربلا سے درس حاصل کرنے کے سلسلے میں بےنیاز نہیں ملے گا اور کوئی بھی عالم اور دانشور عاشورا کی ہدایات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ زاہد و عابد جو اللہ کی راہ میں نکلا ہے، حکماء اور متکلمین جو خدا کی راہ کو طے کرچکے ہیں، عرفاء جو اس راہ کی بلندیوں  تک پہنچ چکے ہیں، یہ سب کے سب بھی پیغام حسینی کے حقیقی سننے والوں میں سے ہیں ۔۔۔(3) آپ نے عاشورا کے دن عمر ابن سعد کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: "ألا وَ إنَّ الدَّعيَّ ابنَ الدَّعيِّ قَد رَكَّزَ بَينَ اثنَتينِ بَينَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَ هَيهاتَ مِنّا الذِلَّةُ يَأبى اللّه ُ ذلك لَنا وَرَسولُهُ" اس نابکار اور  اس نابکار  کے بیٹے نے مجھے دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے (مجھے ذلت اور چمکتی ہوئی ننگی تلوار کے درمیان قرار دیا ہے) ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔ (4)

امر باالمعروف و نہی عن المنکر کا احیاء:
 امام حسین اس حقیقت کو بیان کرنے جا رہے تھے کہ یزید کی حاکمیت انسانی اور اسلامی معاشرے کے لئے سب سے بڑا منکر ہے، ایسے حالات میں ایک با تقوا حریت پسند انسان کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرے۔ کوفہ کے عمائدین کے نام امام نے جو خط لکھا اس میں اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا۔ "أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله علیه وآله) قالَ: مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَلاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ"۔ اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا! جب کوئی مسلمان ایک سلطان جائر اور ظالم حاکم کو دیکھے جو حلال الٰہی کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال قرار دیتا ہے اور الٰہی عہدوں کو توڑ دیتا ہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کرتا ہے ایسے میں وہ اپنے عمل یا گفتار کے ذریعے نہ روکے تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ ایسے فرد کو اسی ظالم کے ساتھ جہنم میں ڈال دے۔ (5)

اور اسی خط میں ارشاد فرماتے ہیں آگاہ رہو یقینا یہ (یزید کے) پیروکاروں نے شیطان  کی پیروی کی ہے اور اس کی بات کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، فساد کو رواج دیا ہے، احکام الٰہی کی تعطیل کی ہے حلال الٰہی کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔ میں فرزند رسول خدا  سب سے زیادہ حقدار  ہوں کہ ان حالات پر اعتراض کروں۔ اور آپ نے مدینے سے نکلتے وقت اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے  میں بھی واضح طور پر فرمایا: "أُُرِیدُ أنْ آَمُرَ باالمَعرُوفِ وَ أنهَی عَنِ المُنکَرِ وَ اَسِیرَ بِسیرَةِ جَدِّی وَ أبِی۔۔۔" (6)۔ میں چاہتا ہوں امر بہ  معروف و نہی از منکر کروں اور اپنے جد کی سیرت پہ عمل کروں۔

صبر  و تحمل اور برداشت:
اس عظیم قربانی کے موقع پر جگہ جگہ صبر و تحمل و برداشت ان عظیم ہستیوں میں دیکھنے میں آئے۔ جب آپ مکہ سے عراق کی طرف عازم سفر ہوئے تو ایک خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔ "رِضَى اللّهِ رِضانا اَهْلَ الْبَیْتِ، نَصْبِرُ عَلى بَلائِهِ وَ یُوَفّینا اَجْرَ الصّابِرینَ۔" خدا کی رضا ہم اہلبیت کی رضا ہے۔ خدا کی طرف سے ہونے والے امتحانوں کے موقع پر ہم صبر کریں گے اور خدا صابرین کی جزا ہمیں دے گا۔ (7) راستے میں جب کسی منزل پر پہنچے تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اے لوگو ! تم میں سے جو بھی تیر و تلوار کی تیز دھار کو برداشت کرسکتا ہو وہ رہے  اور جو نہ کر سکتے ہوں وہ لوگ واپس چلے جائیں۔ روز عاشورا امام حسین نے دشمن کے ساتھ سخت جنگ کے وقت فرمایا، "صَبْراً بَنِى الْكِرامِ‌، فَمَا الْمَوْتُ‌ إِلّاٰ قَنْطَرَةٌ‌ تَعْبُرُ بِكُمْ‌ عَنِ‌ الْبُؤْسِ‌ وَ الضَّرّاءِ إِلَى الْجِنانِ‌ الْواسِعَةِ‌ وَ النَّعيمِ‌ الدّائِمَةِ‌۔۔" اے بزرگ زادو! صبر کرو موت نہیں ہے مگر ایک پل کی مانند جو تمہیں مشکلوں اور سختیوں  سے وسیع جنت اور ابدی نعمتوں کی طرف پہنچا دیتی ہے۔ (8)

وفاداری:
عہد و پیمان پر وفا اور عمل امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی خصوصیات میں سے ہے، شب عاشور آپ اپنے باوفا اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں میرے اصحاب سے زیادہ باوفا اور سچا اصحاب کسی کو نہیں ملا۔ آپ کی دین سے وفاداری کے بارے میں  زیارت اربعین  میں ایک جملہ ملتا ہے، "اَشهدُ انّکَ قد بَلّغتَ و نَصحتَ و وَفَیتَ واوفیت۔."(9)۔ میں گواہی دیتا ہوں تونے اس عہد کی وفا کی جو خدا کے ساتھ کیا تھا، کربلا میں وفاداری کی ایک اور لازوال مثال حضرت عباس علمدار کا اس امان نامے  کو  ٹھکرانا ہے جو آپ کے لیے شمر ملعون لایا تھا لہٰذا آپکی زیارت میں آیا ہے "اَشْهَدُ لَقَدْ نَصَحْتَ للَّهِ‏ِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَخيک، فَنِعْمَ الْأَخُ الْمُواسى‏"، گواہی دیتا ہوں تونے خدا اور رسول کے لئے خیرخواہی کی اور اپنے بھائی کے لئے کتنا ہمدرد تھے۔۔۔(10)۔

نماز کی اہمیت کا خیال:
کربلا اور عاشورا کا ایک اور نمایاں درس نماز کا پابند ہونا اور اس کی پاسداری ہے امام حسین نے اقامہ نماز کی ترویج اور اس کے اہتمام کے لیے بے مثال اہتمام کیا۔ 9 محرم کو عمر سعد نے جب جنگ شروع کرنا چاہی تو آپ نے  اپنے بھائی حضرت عباس کو بھیجا تا کہ ایک رات کی مہلت مانگیں تاکہ اس رات کو دعا اور نماز میں گزاریں۔ "أنّی کنتُ قد أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه و کثرة الدّعاء و الاستغفار" میں نماز اور تلاوت قرآن و کثرت دعا و استغفار کو پسند کرتا ہوں۔(11) عاشورا کی ظہر کو جب ابو ثمامہ صائدی نے امام کو وقت نماز کی یاد دلائی تو امام نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ "قالَ: ذَكَرتَ الصَّلاةَ، جَعَلَكَ اللّهُ مِنَ المُصَلّينَ الذَّاكِرينَ" تونے نماز کی یاد دلائی، اللہ تمہیں ان نمازیوں میں سے قرار دے جو نماز کو یاد رکھتے ہیں۔

اور اس طرح سے دشمن کی تلواروں کے سائے میں نماز ادا کی۔ امام حسین نے یزید کے سیاہ ترین دور میں کہ جس میں اسلامی اقدار، پامال ہو رہی تھیں، شہادت کو سینے سے لگا کر اسلامی معاشرے کے اندر پھر سے شہادت کے حیات بخش کلچر کو زندہ کیا اور شہادت سے عشق کو معاشرے کے اندر کلچرل بنایا، جب امام نے سب کو خبر دی کہ کل شہید ہو جائیں گے تو حضرت قاسم ابن حسن کو یہ فکر لاحق ہوئی کہیں کم سنی کی وجہ سے میں شہادت سے محروم نہ رہ جاؤں اور امام سے سوال کیا، چچا جان آیا میرا نام بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہے یا نہیں؟؟ امام نے قاسم سے امتحان لینے کے لئے پوچھا موت کو کیسے پاتے ہو؟ فرمایا "اَحْلَی مِنَ العَسَلِ" موت شہد سے زیادہ میٹھی لگتی ہے۔

صداقت اور سخاوت:
تحریک کربلا کے شروع سے لے کر آخر تک صداقت اور سخاوت موجزن تھی۔۔؟ اس کی واضح مثال امام کی حر سے ملاقات ہے، جب شراف کے مقام پر امام کی ملاقات حر اور اس کے سپاہیوں سے ہوئی اور انہوں نے آپ کا راستہ روکا، یہ لوگ آپ کی جان کے درپے تھے جب آپ نے دیکھا یہ لوگ پیاسے ہیں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا ان سب کو پانی پلا دیں یہاں تک کہ پیاس  سے نڈھال پیچھے رہ جانے والے ایک سپاہی کو آپ نے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا۔

ادب و شرافت:
عاشورا کا ایک اور لازوال درس ادب اور شرافت و بزرگواری ہے۔ یہی خصوصيت امام کے ساتھیوں میں سے ہر ایک میں نمایاں طور پر دکھائی دی، کربلا کے اس سفر میں اس کی واضح مثال جب حر اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی، وہ انتہائی مؤدبانہ انداز میں امام کی خدمت میں آتے ہیں، اسی طرح حضرت عباس ہمیشہ امام کو میرے آقا میرے مولا کہہ کر یاد کرتے تھے۔ جب ہم جناب سیدہ زینب (س) کی رفتار کو دیکھتے ہیں ادب اور بزرگواری کی آخری منزل کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے انہوں نے اپنے دونوں فرزندوں کو اپنے بھائی کی عظیم تحریک کے لئے ہدیہ کر کے اسلام پر فدا کر دیا، آپ نہ صرف  اپنے بچوں کے جنازے کی منتقلی کے وقت خیمے  سے باہر نہ آئیں بلکہ کربلا سے شام تک ایک بار بھی اپنے بچوں پر گریہ  نہیں کیا اور ہمیشہ سالار شہیدان کی مظلومیت بیان  کرتی رہیں۔

ظلم سے مقابلہ:
امام نے اپنے قیام کے ذریعے انسانوں کو ظلم سے مقابلہ، ظلم ستیزی اور ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا انسانیت کو یہ سکھایا کہ اگر ظالموں کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے تو خاموش بھی نہ رہیں۔ آپ نے یہ اہم ترین کام معاویہ کی زندگی کے آخری سالوں میں ہی شروع کیا۔ خطبہ منٰی جو معاویہ کی موت سے دو سال قبل مکے میں دو ہزار کے قریب صحابہ، تابعین اور دیگر افراد کو جمع کر کے ارشاد فرمایا۔ امام حسینؑ کے اس خطبے  میں درج ذیل موضوعات پر بحث ہوئی ہے:

1۔ امام علیؑ اور خاندان عصمت و طہارت کی فضیلت اور ان آیات و روایات کو بیان کیا ہے جن میں اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ منجملہ ان فضائل میں سد ابواب، واقعہ غدیر خم، مباہلہ، امام علی کے ہاتھوں خیبر کی فتح اور حدیث ثقلین۔
2۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف دعوت اور اسلام میں اس وظیفہ کی اہمیت۔
3۔ ستمگروں اور مفسدین کے خلاف قیام کرنے کو علماء کی اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علماء کے سکوت اور خاموشی کے نقصانات اور علماء کا اس الہی وظیفے کی انجام دہی میں سہل انگاری پسندی کے بھیانک نتائج کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 12 جب آپ کو پتہ چلا کہ یزید مسلمانوں کا حاکم بن چکا ہے تو اس کی عملی مخالفت شروع کی اور اس کی سیاہ کاریوں اور بدکاریوں کو فاش کیا۔ آپ نے فرمایا یزید فاسق و فاجر، شرابی اور بے گناہوں کا قاتل ہے۔ 13                                                                                                                   
شجاعت و دلاوری:
امام جو ہدف رکھتے تھے اس راہ میں کوئی چیز امام کے دل میں خوف نہیں ڈال سکی اور نہ ہی اپنے ارادے سے منحرف کرسکی اور امام کو دشمن سے مقابلہ کرنے سے نہیں روک سکی اسی لئے جنگ جتنی تیز ہو جاتی  تھی اور شہادت کا وقت قریب آتا امام کا مبارک چہرہ اور زیادہ درخشان ہوتا تھا اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

امام شناسی کا درس:
امام کوفہ والوں کو یوں لکھتے ہیں میری جان کی قسم لوگوں کا امام اور پیشوا وہ ہے جو قرآن کی بنیاد پر حکم کرے اور دین حق کی پیروی کرے اور خدا کی راہ میں سر تسلیم خم ہو۔ آپ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے تمام طاغوت حاکموں کی رہبری پر خط بطلان کھینچ دیا اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسے حاکموں کو قبول نہ کریں جو لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی خیر سے دور کرتے ہیں۔

اسلامی مقدسات کی حفاظت:
واقعہ عاشورا اگرچہ دین کی حفاظت اور اصلاح امت کی خاطر پیش آیا لیکن ساتھ ساتھ امام اور آپ کے باوفا اصحاب کا ہر فیصلہ اہمیت کا حامل ہے اور آپ کے پیروکاروں کے لئے انتہائی سبق آموز ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں مکہ اور بیت اللہ کی بڑی حرمت و تقدس  ہے، بڑا مقام ہے، جب آپ نے احساس کیا کہ یزید کے گماشتے مجھے اس حرم الہی  میں حج کے موقع پر قتل کر دیں گے اور میری وجہ سے حرمت خانہ خدا شکستہ ہو جائے گی آپ نے فورا مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور  عازم کوفہ  ہوئے، لہٰذا آپ فرماتے ہیں "مکہ میں  قتل ہونے سے مکے سے ایک بالشت باہر قتل ہونا بہتر ہے" آپ خانہ خدا کے تقدس کو بچانے کے لیے حج چھوڑ گئے۔

عفت اور حجاب کی پاسداری:
عاشوراء کے دروس میں سے ایک اہم ترین درس حجاب اور پردے کی پاسداری ہے اور یہ خواتین کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے عصر عاشورا لعینوں  نے خیموں میں آگ لگائی، اہل حرم کی چادروں اور شہداء کےجسموں کے لباسوں کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ منقول ہے جب دشمن نے اہل حرم کو گھیر لیا اس وقت علی (ع) کی بیٹی  کلثوم  دشمنوں سے مخاطب ہو کر فرماتی ہے اے لعینو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی بیبیوں کے سروں پر مناسب پردہ بھی نہیں تم دیکھنے جمع ہوگئے ہو! شہزادی زینب یزید کے دربار میں یذید سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں۔ "يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا" اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تونے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ 14

توحید کا درس:
ایک جملے میں حادثہ کربلا بیان کریں تو یہ ہوگا کربلا معارف اسلامی اور اسلامی اعتقادات سے بھری ایک مکمل  کتاب ہے سب سے اہم ترین درس، کربلا میں درس توحید ہے امام حسین نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو لکھے گئے وصیت نامے میں سب سے پہلے خدا کی وحدانیت، رسول کی رسالت اور قیامت کے برحق ہونے کی شہادت دی، اس کے بعد اپنے جانے کے مقصد کو بیان فرمایا اس عظیم قربانی کے موقع پر آپ اور آپ کے باوفا ساتھیوں نے یہ واضح کیا کہ اگر امر دائر ہو جائے رضائے الہی اور رضائے غیر خدا میں، تو غیر الہی امور سے چشم پوشی و نظر انداز  کر کے رضائے الہی کو حاصل کرنا دنیا کے تمام موحدین کے لئے عاشورا کا جاودانہ درس  ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(1) بحارالانوار، ج45، ص51، مقتل خوارزمی ج2، ص32
(2) بحارالانوار، ج44، ص 192، مناقب شہر آشوب ج4، ص75
(3) شکوفائی عقل در پرتو نہضت حسنی اسرار ص 83
(4) موسوعہ امام؛ حسین ص 425، ح 412
(5) تاریخ طبری ج4، ص 304، بحار، ج44، ص 382
(6) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص53
(7) لہوف ص53، مثیرالاحزان 21
(8) معانی الاخبار ج3، ص288
(9) زیارت اربعین، مفاتیح الجنان
(10) زیارت حضرت عباس، مفاتیح الجنان
(11) بحار، ج 44، ص 392
(12) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص363
(13) مقتل خوارزمی ج1، ص184
(14) مقتل ابی مخنف مترجم سید علی‌ محمد موسوی جزایری، قم، انتشارات امام حسن، چ اول، 80، ص 393

پہلی فصل
احترام والدین

الف۔قرآن کی روشنی میں
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
(وَإِذْ أَخَذْنَا مِیثَاقَ بَنِی إِسْرَائِیلَ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ اﷲَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )(١)
ترجمہ: اورجب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت اور پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔

تحلیل آیت:
اس آیت شریفہ میں اللہ تعا لی دو مطلب کی طرف پوری بشریت کی توجہ کو مبذول فرماتا ہے .توحید عبادی ،یعنی عبادت اور پر ستش کا مستحق صرف خدا ہے، عبادت اور پرستش میں کسی کو شریک قرار دنیااس آیت کے مطابق شرک ہے کیونکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بقرۃ آیت ٨٣.

خدانے نفی اور اثبات کی شکل میں فرمایا: لاتعبدون الااﷲ یعنی سوائے خدا کے کسی کی عبادت نہ کرنا کہ یہ جملہ حقیقت میں تو حیدعبادی کو بیان کرناچاہتا ہے اور علم کلام میں تو حید کوچار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
١۔ تو حید ذاتی کہ اس مطلب کو متعدد عقلی اور فلسفی دلیلوں سے ثابت کیا گیا ہے۔
٢۔ توحید صفاتی ۔
٣۔ تو حید افعالی۔
٤۔تو حید عبادی۔ توحیدعبادی سے مراد یہ ہے کہ صرف خدا کی عبادت کریں ۔کسی قسم کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھر ائیں ۔
لہٰذا ریا جیسی روحی بیماری کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے اور شرک کو بد ترین گنا ہوں میں سے قراردیا گیا ہے ۔
جیسا کہ خدانے صریحاآیت شریفہ میں بیان کیا ہے کہ تما م گناہ تو بہ کے ذریعہ معاف ہو سکتے ہیں الاالشرک مگر شرک کے کہ اس گناہ کو کبھی معاف نہیں کیا جاسکتا ۔
٢۔ دوسرا مطلب جو خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ ذکر فرما یا ہے ''وباالوالدین احسانا''کا جملہ ہے یعنی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
دنیا میں ہر انسان فطری طور پر اس چیز کا معتر ف ہے کہ وہ خود بخود وجود میں نہیں آیاہے بلکہ کسی اور انسان کے ذریعہ عدم کی تاریکی سے نکل کروجود کی نعمت سے مالا مال ہوا ۔ لہٰذاانبیاء الٰہی کی تعلیمات اور تاریخی حقائق کے مطالعہ کر نے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیدا ئش کے اعتبار سے پوری بشریت تین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے :
١۔ یا تو انسان کو والدین کے بغیر خدا نے خلق کیا ہے یہ سنت کائنات میں صرف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حواء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن حضرت آدم کے بعد خدا نے بشر کی خلقت میں والدین کے وجود کو جزعلت قراردیاہے، یعنی والدین کے بغیر حضرت آدم(ع) اور حضرت حوا کے بعد کسی کو وجود نہیں بخشا ہے ۔
٢۔بشریت کی دوسری قسم کو صرف ماں کے ذریعے لباس وجود پہنایا ہے جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کہ اس قصہ کو خدانے قرآن مجید میں مفصل بیان کیا ہے ، پیدائش کا یہ طریقہ بھی محدود ہے اورصرف حضرت عیسیٰ سے مخصوص ہے۔
٣۔ تیسری قسم وہ انسان ہے جسے اللہ نے والدین کے ذریعہ وجودمیں لایا ہے۔
لہٰذا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ باقی سارے انسان ماں باپ کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنا اورحسن سلوک کے ساتھ پیش آنا ہر انسان کی فطری خواہش ہے، اگر چہ معاشرہ اور دیگر عوامل کی تاثیرات اس فطری چاہت کو زندہ اور مردہ رکھنے میں حتمی کردار ادا کرتی ہیں۔
پس اگر معاشرہ اسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار ہو تو یہ فطری خواہشات روز بروز زندہ اور مستحکم ہو جاتی ہیں، لیکن اگر کسی معاشرہ پر غیر اسلامی تہذیب وتمدن کی حکمرانی ہو تو فطری خواہشات مردہ ہو جاتی ہیں اور والدین کے ساتھ وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو حیوانات کے ساتھ رکھتے ہیں۔
لہٰذا دو ر حاضر میں بہت ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ اکثر اولاد والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک نہیں رکھتے بلکہ بڑھاپے اورضعیف العمری میں بیمار ماں باپ کی احوال پرسی اور عیادت تک نہیں کرتے، حالانکہ اولاد اپنے وجود میں والدین کی مرہون منت ہیں اور ان کی کا میابی پرورش اور تربیت میں والدین کی زحمتوں اور جانفشانیوں کا عمل دخل ہے۔
لہٰذا روایت میں والدین سے طرز معاشرت کا سلیقہ اور ان کی عظمت اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ والدین کے ساتھ نیکی اور احسان یہ ہے کہ تم والدین کو کو ئی بھی تکلیف نہ پہنچنے دیں ،اگر تم سے کوئی چیز مانگے تو انکار نہ کریں، ان کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کرے ان کے پیش قدم نہ ہو ان کی طرف تیز نگاہ سے نہ دیکھو اگر وہ تمھیں مارے تو جواب میں کہو:
''خدا یا ان کے گناہوں کو بخش دے اور اگر وہ تمھیں اذیت دے تو انہیں اف تک نہ کہو''۔(١)

دوسری آیت :
( وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلاَتُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(٢)
اور خدا ہی کی عبادت کر ے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھر اؤاور ماں باپ کے سا تھ اچھا سلوک کرو۔

تفسیرآیت :
خداوند کریم اس آیت شریفہ میں تین نکات کی طرف اشارہ فرماتا ہے:
١۔ اللہ کی عبادت کریں۔
٢۔ اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرائیں ۔
٣۔ ماں باپ کے ساتھ اچھے رفتار سے پیش آئے ۔
تفسیر عیاشی میں ''وبالوالدین احسانا'' کے ذیل میں سلام جعفی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اور آبان بن تغلب نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ترجمہ حافظ فرمان علی ص ١٦ حاشیہ .
(٢) سورہ نساء آیت ٣٦.

''نزلتْ فی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم وفی علی علیہ السلام'' یعنی یہ آیت ( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )
حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ اسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے یعنی کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آئیں ۔نیز ابن جلبہ سے منقول روایت اس کی تائید کرتی ہے کہ حضور (ص) نے فرمایا:
'' اناوعلی ابوا ہذہ الامۃ''
یعنی میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں پس ان دو رواتیوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ وبالوالدین احسانا سے حضرت پیغمبر اور حضرت علی مراد ہے لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیوں پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی کے بارے میں وبالوالدین کا جملہ استعمال ہوا جب کہ عربی زبان میں والدین سے مراد ماں باپ ہیں ۔
جواب یہ ہے جیسا کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت اور ترقی وتکامل کے لئے ہر قسم کی زحمتیں اور مشکلات برداشت کرتے ہیں، حضرت پیغمبر (ص)اور حضرت علی علیہ السلام پوری زندگی امت اسلامی کی تربیت اور روحی وفکری نشوو نما کی خاطر ہر قسم کی سختیوں اور رکا وٹوں کو تحمل کرتے رہے۔
لہٰذا قرآن کی نظر میں جہاں والدین سے حسن سلوک ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے اسی طرح اولیاء خدا کی اطاعت وفرما نبرداری بھی ایمان کا لازمی حصہ ہے، اس لئے وبالوالدین احساناً حضرت رسول اکرم (ص) اور حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہونا ہماری بات کے ساتھ نہیں ٹکرارہا ہے۔

تیسری آیت:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
( قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اے رسول کہدو کہ تم آؤ جو چیزیں تمہارے پروردگار نے حرام قراردیا ہے کہ وہ تمھیں پڑھ کر سناؤں وہ یہ ہے کہ کسی چیز کو خدا کے ساتھ شریک نہ ٹھراؤ اور ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو ۔
تفسیر آیت :
اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر٨٣/اور سورۃ انعام کی آیت نمبر ١٥٢/اور سورہ نساء کی آیت ٣٦/ میں ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں، صرف خدا کی عبادت کریں۔ اور کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائیں کیونکہ شرک (جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوا ) اسلام میں سب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ انعام ١٥٢.

سے بڑا گنا ہ محسوب ہوتا ہے۔

چوتھی آیت :
ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
( وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا)(١)
اور تمہا رے پروردگارنے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی اور اچھا سلوک کرنا۔
تفسیر آیت:
چنانچہ اس آیت شریفہ میں دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آیات گذشتہ میں خدا نے تو حید عبادی کے ساتھ احترام والدین کا تذکرہ فرمایا ہے اسی طرح اس آیت میں بھی توحید عبادی کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی نظر میں تو حید کے اقرار کے بعد اہم ترین ذمہ داری احترام والدین ہے کیوںکہ ان چاروں آیات میں خدا نے صریحا فرمایا کہ صرف میری عبادت کر ے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تعجب آور بات ہے کہ بحیثیت مسلمان قرآن مجید کی شب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ اسرائیل آیت٢٣.

وروز تلاوت کے باوجود بعض افراد ایسی عظیم ذمہ داری سے شانہ خالی کئے بیٹھے ہیں لہٰذا ہر معاشر ے میں بہت سے والدین مشاہدہ میں آتے ہیں جو اپنی اولاد سے ناراض اور ناامید دنیا سے رخت سفر باندھ لیتے ہیں ۔

ب۔ فطرت کی روشنی میں
جب انسان عقل وشعور اور رشد فکری کا مرحلہ طے کرتا ہے تو اپنے اور کائینات کی دوسری مخلوقات کے بارے میں غورو فکر کرتا ہے اور یہ درک کر لیتا ہے کہ اس میں اور باقی مخلوقات میں فرق ہے، لہٰذا وہ اپنی زندگی کو ایک منظم اورباارادہ زندگی قرار دیتا ہے اور زندگی کے نشیب و فراز میں ما ں باپ ہی کو اپنا ہمدر داور مددگار تصور کرتا ہے، قدرتی طور پر اس کا دل والدین کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے ان کے چہرے کی زیارت تسکین قلب کا وسیلہ ہے جب کہ ان سے دوری انسان پر شاق گزرتی ہے ۔اور سب سے بڑھ کریہ کہ والدین کا احترام اور ان سے محبت کرنا زمان ومکان سے بالاتر فطری امر ہے۔
اگرچہ یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ معاشرتی او ربیرونی عوامل اس فطری اور طبیعی چاہت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس کی شدت وضعف یا کمی بیشی کا باعث ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں والدین کااحترام کرنا کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا ہے ارشاد خداوندی ہے :
( وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَإِنْ جَاہَدَاکَ لِتُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلاَتُطِعْہُمَا إِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَأُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ)(١)
اور ہم نے انسانو ں کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتا ؤ ں کرنے کی نصیحت کی ہے اور اگر وہ تمھیں میرے ساتھ کسی چیز کے شریک ٹھہرانے پر مجبور کر یں کہ جس کا تمھیں علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا (کیو نکہ ) تمھیں میری طرف ہی لوٹ کرآنا ہے پس جو کچھ تم نے(دنیامیں) انجام دیئے ہیں تمھیں خبر دوںکا۔

شان نزولآیت :
اس آیت شریفہ کا شان نزول یوںذکر ہوا ہے کہ سعد بن وقاص کہتا ہے کہ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا جب میں مسلمان ہوا تو ما ں نے کہا کہ تو نے یہ کو ن سا دین اختیا ر کیا ہے اس کو چھوڑ دے ورنہ میں کھا نا پینا ترک کروں گی یہا ں تک کہ مرجاؤں اور لوگ تجھے ملامت کریں گے کہ ما ں کا قاتل ہے میں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں آخر اس نے کھا نا پینا چھو ڑ دیا جب دو وقت گزر گئے تو میں نے کہا اے اماں اگر تیری سو جانیں ہوں اور ایک ایک مجھ سے جدا ہو اور میں دیکھتا رہوں تو بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سور ہ عنکبوت آیت ٨.

میں اپنا دین تر ک نہیں کر سکتا لہٰذا کھائیں اور پیئںورنہ تجھے اختیار ہے ۔

تفسیر آیہئ شریفہ :
خدا نے مذکورہ آیت میں انسانوں سے خطاب کرکے یہ بتلایا ہے کہ والدین کا احترام رکھنے کاجذبہ اور شعور اللہ تعالی نے پہلے سے ہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کررکھاہے ، دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر والدین اپنے کسی فرزند کو اسلامی اصول وضوابط اور احکام خداوندی پر عمل پیرا ہونے سے منع کرے تو واجب الا طاعت نہیں ہیں کہ حقیقت میں یہ جملہ والدین کے احترام کی حدبندی کی تو ضیح دینا چاہتا ہے۔

دوسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیرُ)(١)
اور ہم نے پورے انسانوں کو اپنے والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنے کا حکم دیا ہے (کیونکہ ) اس کی ماں نے اس کو پیٹ میں سختی پر سختی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ لقمان آیت١٤.

کے ساتھ برداشت کیا ہے اور اس کی دودھ بڑھائی بھی دوسال میں ہوئی ہے ۔
لہٰذا میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو کہ تمھاری باز گشت میر ی طرف ہی ہے۔

تفسیر آیت :
اس آیت شریفہ میں دو مطلب کی طرف اشارہ ہے:
١۔احترام والدین کا حکم فطرت انسان سے مربوط ہے لہٰذاحترام والدین مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہے ۔
٢۔ماں کے احترام او راس کے ساتھ نیکی کرنے کی علت بھی ذکر کی گئی ہے یعنی ماں کا احترام لازم ہے کیونکہ ماں نے نو ٩/ ماہ تک سختی کے ساتھ پیٹ میں تمھاری حفاظت کی ہے پھر دوسال تک دودھ پلانے کی خاطر زحمتیںاٹھائی ہیں، لہٰذا حقیقت میں دیکھا جائے تو ماں باپ فرزندان کے منعم او رمحسن ہیں اور ہر منعم فطری طورشکر گزاری کا مستحق ہے گویا اللہ تعالی یہ فرمارہا ہے کہ جس طرح میں تمھارا منعم ہوں، اسی طرح والدین بھی تمھارے منعم ہیں ، جس طرح اللہ پر اعتقاد رکھنا ، ان سے محبت کرنا فطری امر ہے اسی طرح والدین سے محبت کرنا اور انکا احترام رکھنا بھی فطرت کا تقاضاہے لہٰذا دونوں آیتوں میں وو صینا الانسان کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا ہے ،جوتمام انسانوںکے اس امر میں مساوی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تیسری آیت:
( وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا)(١)
اور ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی نصیحت کی ہے (کیونکہ) اس کی ماں نے بہت رنج اور مشقت کے ساتھ شکم میں اس کو برداشت کیا ہے اور بہت ہی رنج کے ساتھ جنا ہے۔
تفسیر آیت :
ان تینوں آیات کا مدلول ایک چیزہے کہ خدا نے فرمایا ہے .کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احترام اور اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے . دوسرا مطلب والدین کی اطاعت اور احترام کی حد بندی بھی کی گئی ہے یعنی خالق کی اطاعت کے بعد اولین واجب الاطاعت والدین ہیں لیکن والدین کی اطاعت اور احترام یہاں تک واجب ہے کہ وہ خالق کے مخالفت اور شریک ٹھرانے کا حکم نہ دیں اگر والدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ احقاف آیت ١٥.

سے ایسا حکم صادر ہو جائے تو ماننا ضروری نہیںہے،تیسر امطلب یہ ہے کہ باپ سے بھی زیادہ ماں کا احترا م لازم ہے۔
لہٰذا ان آیات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ والدین کا احترام رکھنا کسی خاص مذہب اور فرد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے تو ریت میں احترام والدین کے بارے میں مستقل ایک فصل ہے یہا ں تک کہ والدین کے ساتھ بدگوئی کرنے یا نا سزا کہنے کی صورت میں پھانسی کا حکم مذ کورہے ۔

ج۔ سنت کی روشنی میں
چنا نچہ گذشتہ بحث سے بخوبی روشن ہوا کہ والدین کے ساتھ احترام اور ان سے نیک برتا ؤں کا حکم ادیان الٰہی میں سے صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم تمام کتب آسمانی کا خلاصہ اور تر جمان کی حیثیت سے حضرت یحيٰعلیہ السلام کی یوں تو صیف کررہا ہے :
(وَکَانَ تَقِیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَیْہِ )(١)
اور وہ پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے۔
. نیز حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مریم آیت ١٣، ١٤ .

( یَاأُخْتَ ہَارُونَ مَا کَانَ أَبُوکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْہِ قَالُوا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّی عَبْدُ اﷲِ آتَانِی الْکِتَابَ وَجَعَلَنِی نَبِیًّا وَجَعَلَنِی مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنتُ 'وَأَوْصَانِی بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِی وَلَمْ یَجْعَلْنِی جَبَّارًا شَقِیًّا )(١)
(ترجمہ )اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ تو تیری ماں بد کارہ تھی (لہٰذا یہ کیاکیا ہے )تو حضرت مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا (کہ کچھ پو چھنا ہے اس سے پوچھ لو ) وہ کہنے لگے کہ ہم پنگوڑے میں موجود بچے سے کیسے گفتگو کریں (اس وقت وہ بچہ ) بولنے لگا کہ بیشک میں خدا کابندہ ہوں مجھ کو اللہ نے کتاب (انجیل ) عطاکی ہے اور مجھ کو نبی قرار دیا ہے ۔اور جہاں کہیں رہوں خدا نے مجھ کو مبارک قرار دیا ہے اور جب تک زندہ رہوں نماز انجام دینے اور زکواۃ دینے کی نصیحت کی ہے اور مجھے اپنی ماں کا فرمانبردار بنایا ہے اور (الحمدللہ) نافرمان اور سرکش قرار نہیں دیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ١)سورہ مریم آیت ٢٨ تا٣٢.

تفسیرآیت :
آیہئ شریفہ میں ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ باپ کے بغیر وجود میں آئے جو عادت اور طبیعت کے خلاف تھا اس لئے حضرت مریم کے خاندان والوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی سرزنش کی یہاں تک کہ حضرت مریم (ع) کو ہارون نامی بدکار شخض کی بہن کہہ کے پکارا لیکن خدا نے اس تہمت کو اپنی قدرت سے یوں دورکیا کہ اللہ کے حکم سے حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارے میں ہی ان سے ہم کلام ہو کر انہیں لاجواب کردیا .دوسرا مطلب یہ ہے کہ دونوں آتیوںمیں حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت یحيٰ (ع) کی والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرنے کا تذکرہ ہوا ہے تا کہ یاد دہانی ہوجائے کہ والدین سے خیر وبھلائی کا حکم تمام آسمانی ادیان میں بیان ہوا ہے اور دین اسلام تمام ادیان الٰہی کا نچوڑہونے کی حیثیت سے اس کا ترجمانی کرتا ہے اسی لئے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
جناب مرحوم کلینی نے اپنی گراں بہاکتاب اصول کافی میں مفصل ایک باب اسی عنوان کے ساتھ مخصوص کیا ہے،جس میں معصومین علیہم السلام سے مروی روایات کو جمع کیا ہے جن میں سے چند روایات بطور نمونہ ذکر کیا جا تا ہے ،ابن محبوب خالدبن نافع سے وہ محمد بن مروان سے روایت کرتا ہے:
قال : سمعت ابا عبد اللّٰہ علیہ السلام یقول ان رجلا اتی النیی صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ اوصنی فقال لا تشرک باللّٰہ شیأاً وان حرقّت بالنار، وعذبت الا وقلبک مطمئن بالا یمان ووالدیک فاطعمھما وبرّھما حیین کا نا او میتین وان امراک ان تخرج من اھلک ومالک فافعل، فان ذالک من الایمان ۔(١)
(ترجمہ )محمد بن مروان نے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن ایک شخض پیغمبر اکرم (ص)کی خدمت میں آیا اور کہا اے خدا کے رسول (ص)مجھے کچھ نصیحت فرما ئیے ۔تو آپ (ص) نے فرمایا کبھی بھی خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھر ائے اگر چہ تجھے آگ میں جلادیا جائے اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچا دے پھر بھی اطمینان قلبی سے رہو، اپنے والدین کو کھانا کھلاتے رہو اور ان کے ساتھ نیکی کر وںچا ہے وہ زندہ ہوں یا مردہ اگر چہ وہ تجھے اپنے اہل وعیاں اور مال ودولت سے علیحد گی اختیار کرنے کا حکم دیں توپھر بھی اطاعت کریں کیونکہ یہی ایمان کی علامت ہے ۔

تفسیر وتحلیل:
اس حدیث شریف میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(ص) کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٦.

حوالے سے دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ ایک یہ کہ شرک بہت بڑا جرم ہے۔ کہ اس جرم کا کبھی بھی مرتکب نہ ہو دوسرا والدین کے ساتھ نیکی کرنا کہ ان دو چیزوں کی رعایت سے سعادت دنیوی واخروی سے بہر مند ہو سکتا ہے ۔

دوسری روایت :
دوسری روایت کو حسین بن محمد نے معلی بن محمد سے انہوں نے جناب وشاسے انھوں نے منصور بن حازم سے اور انہوں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے :
''قال قلت ای الا عمال افضل قال الصلواۃ بوقتھا وبِرُّ الوالدین والجھاد فی سبیل اللّٰہ عز وجل ''(١)
(ترجمہ ) ابن حازم نے کہا کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے پوچھا کہ اعمال میں سب سے بہترین کو ن سا عمل ہے ؟تو آپ نے فرمایا:
''نماز کو مقررہ وقت پر پڑھنا اوور والدین کے ساتھ نیکی کرنا اور راہ خدا میں جہاد کرنا۔''
اس حدیث میں تین ایسے کاموں کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو باقی سارے اعمال سے افضل ہیں نماز کو اس کے مقرر ہ وقت پر انجام دینا کہ ہمارے معاشرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ١ص١٢٧ .

میںنماز تو انجام دیتے ہیں لیکن وقت کی رعایت نہیں کرتے ایسے افراد کو اگر چہ تارک الصلوۃنہیں کہا جاتا مگر نماز کو عذر شرعی کے بغیر اسکے مقررہ وقت پر انجا م نہ دینے کی خاطر ثواب میں کمی ہو جاتی ہے ۔
دوسرا والدین کی خدمت ہے .والدین عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے جتنے ضعیف ہوں ،بڑھاپے کی وجہ سے ظاہری حلیے میں تبدیلی آگئی ہو اورمزاج کے اعتبار سے ہمارے مخالف ہوں پھر بھی انکی خدمت خدا کی نظر میں بہتر ین کا موں میں سے ہے۔
تیسرا راہ خدا میں جہاد ہے جواس مادی دور میں انسان کے لئے بہت مشکل کا م ہے لیکن نتیجہ اور عاقبت کے لحاظ سے بہترین اعمال میں سے شمار ہوتاہے۔

تیسری روایت :
علی ابن ابراہیم نے محمد بن عیسی سے وہ یونس بن عبدالرحمن سے انہوں نے درست بن ابی منصور سے اور وہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:
قال سئل رجل رسول اللّٰہ (ص) ماحق الوالد علی ولدہ قال لا یسمیہ بأ سمہ ولا یمشی بین یدیہ ولا یجلس قبلہ ولاسب لہ۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٧ .

ترجمہ: امام ہفتم (ع)نے فرمایا کہ ایک دن کسی شخص نے پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا کہ باپ کا حق فرزند پر کیا ہے ؟
تو آپ نے فرمایا کبھی نام سے ان کو نہ پکارے پیش قدم نہ ہو ۔چلتے ہوئے ان کے آگے نہ ہو ان کو پشت کرکے نہ بیٹھیں اور گالی گلوچ نہ دے ۔

چوتھی روایت:
علی ابن ابراہیم نے محمد بن علی سے انہوں نے حکم بن مسکین سے اور انھوں نے محمد بن مروان سے اور وہ امام ششم سے نقل کرتے ہیں :
''قال ابوعبداللّٰہ علیہ السلام ما یمنع الرجل منکم ببر والدیہ حیین او متیین یصلی عنھما ویتصدق عنھما ویحج عنھما ویصوم عنھما فیکون الذی صنع لھما ولہ مثل ذالک فیزیدہ اللّٰہ عز وجل ببرّہ وصلتہ خیراً کثراً'' (١)
محمد بن مروان نے کہا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کون سی چیز تمہارے والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں رکاوٹ ہے؟ چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ نیکی کرنا چاہئے ان کی طرف سے نماز پڑھے ان کے نام سے صدقہ دے اور ان کی طرف سے حج بجالائے اور ان کے حق میں روزہ رکھیں تاکہ خداوندعالم اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

نیک برتاؤ اور صلہ رحمی کی خاطر اسے خیر کثیر سے مالامال فرمائے۔

پانچوی روایت:
محمد بن یحيٰ نے احمد بن محمد بن عیسی سے انہوں نے معمر بن خلاد سے نقل کیا ہے:
''قلت لابی الحسن الرضا علیہ السلام ادعو لوالدی اذا کانا لا یعرفان الحق قال ادع لہما وتصدق عنہما وان کانا حیین لایعرفان الحق فدارہما فان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال ان اللّٰہ بعثنی بالرحمۃ لا بالعقوق''
معمر بن خلاد کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا میں اپنے ماں باپ کے حق میں دعا کرسکتا ہوں جب کہ وہ دونوں حق سے بے خبر ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ ان کے حق میں دعا کریں اور ان کی طرف سے صدقہ دیں اگر وہ زندہ ہیں اور حق سے بے خبر ہیں تو ان کے ساتھ مداراکریں، کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ خدا نے مجھے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے نہ جدائی ڈالنے اور آپس میںدوری کے لئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)اصول کافی ج٢ ص ١٢٧.

چھٹی روایت:
علی بن ابراہیم نے اپنے باپ سے انھوں نے ابن ابی عمَیر سے انہوں نے ہشام بن سالم سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے:
''قال جاء رجل الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا رسول اللّٰہ (ص) من ابرُّ قال امّک قال ثم من، قال امّک، قال ثم من؟ قال امّک قال ثم من؟ قال اباک''(١)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں آیا اور پوچھا: اے خدا کے رسول (ص) کس کے ساتھ نیکی کروں؟ آپ نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر پوچھا پھر کس کے ساتھ فرمایا:اپنی ماں کے ساتھ، پھر پوچھا:اس کے بعدفرمایا: اپنی ماں چوتھی دفعہ پوچھا کس کے ساتھ فرمایااپنے باپ کے ساتھ نیکی کر۔
اس روایت میں سائل نے تین دفعہ پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا:آپ (ص)نے تینوں دفعہ ماں کی خدمت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے ،انشاء اللہ اس سلسلے میںماں کی عظمت کے عنوان سے مفصل بحث ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج٢ ص ١٢٨.

ساتویں روایت:
امام جعفرصادق علیہ السلام سے منقول ہے:
'' قال جاء رجل وسأل النبی (ص)عن برالوالدین فقال اَبرّر امک ابررامکّ ابرر اباک ابرر اباک وبداء بالامّ قبل الأب''(١)
امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک شخص پیغمبر (ص) کی خدمت میں آیا اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آنحضرت (ع) نے فرمایا اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرے اپنی ماں کے ساتھ نیکی کر(پھر فرمایا ) اپنے باپ کے ساتھ نیکی کراپنے باپ کے ساتھ نیکی کر اپنے باپ کے ساتھ نیکی کر پیغمبر (ص)نے باپ کی خدمت سے پہلے ماں کی خدمت کو ذکر فرمایا اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ماں کی عظمت اور اہمیت باپ سے زیادہ ہے۔

د ۔ سیرت انبیاء کی روشنی میں
اگر کو ئی شخص انبیا ء علیہم السلام کی سیرت کا مطا لعہ کرے تو بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ والدین کی خدمت انبیاء ،اورآئمہ معصومین کی سیرت ہے لہٰذا ہر نبی نے اپنے دور نبوّت میں اپنی امت سے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی ہے چنانچہ حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے سولہ نیک خصلتوں کی تاکید کی ہے ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی ج ٢ ص ١٣٠ .

میں سے چوتھی خصلت والدین کی خدمت سے متعلق ہے نیز حضرت نوح علیہ السلام (جو دنیا سے گذرے ہوئے انبیا ء میں سے سب زیادہ دنیا میں زندگی کرنے والی ہستی ہے جیسا کہ روایت ہے :
''روی ان جبرئیل علیہ السلام قال لنوح علیہ السلام یا اطول الا نبیاء عمر ا کیف وجدت الدنیا قال کدارٍ لھا بابان دخلت من احد ھما وخرجت من الاخر''(١)
یعنی روایت کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا اے سارے پیغمبر وں میں سب سے زیادہ لمبی عمر پانے والے بنی دنیا کو کیسے پایا آپ(ص) (ص)نے فرمایا دنیا کو ایک ایسے گھر کی مانند پایا کہ جس کے دو در وازے ہو کہ ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے خارج ہوا ) کی سیرت بھی برالوالدین ہے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی حیات طیبہ بھی والدین کے احتر ام اور ان کی خدمت گزاری کے لحاظ سے ہمارے لئے مشعل ہدایت ہے چنانچہ ماں باپ کے حق میں آپ کی دعا ء کو قرآن کریم میں یوں حکایت کی ہے:
( رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِی مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَتَزِدْ الظَّالِمِینَ إِلاَّ تَبَارًا )(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ارزش پدر ومادر.
(٢)سورہ نوح آیت٢٨ )

خدا یا مجھ کواورمیرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ان ظالموں کی صرف تباہی زیادہ کر ۔
اسی طرح حضرت یحیی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کو اللہ تبارک تعالیٰ قرآن مجید میں یوں حکایت کرتا ہے (وکان تقیا وبرا بوالدیہ ) یعنی آنحضرت پر ہیز گار اور ماں باپ کے ساتھ نیکو کار تھے نیز حضرت عیسی علیہ السلام کی سیرت'' وبرا بوالدتی'' تھی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک روایت ہے کہ جب آپ (ص)نے مصر کی سلطنت سنبھالی تو حضرت یعقوب علیہ السلام آپ سے ملنے کے لئے وارد مصرہوئے حضرت یوسف علیہ السلام استقبال کے موقع پر مرکب پر سوار رہے اس وقت جناب جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے او رکہا اے یوسف ہاتھ کھولو جب یوسف نے ہاتھ کھولا تو ان کے ہاتھ سے ایک نورآسمان کی طرف گیا تو حضرت یوسف (ع) نے سوال کیا اے جبرئیل یہ نور کیا ہے ؟ جو آسمان کی طرف جارہا ہے تو جبرئیل نے فرمایا: یہ نور نبوت تھا جو تمہارے باپ کے استقبال کے موقع پر مرکب سے نہ اترنے کی وجہ سے آپ سے جدا ہوگیا ہے اب تمہارے صلب سے کوئی نبی نہیں ہوگا۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ارزش پدر ومادر.

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سیرت بھی یہی تھی چنانچہ روایت ہے کہ حضرت اسماعیل (ع)اپنے والدگرامی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے قدمگاہ کی جب بھی زیارت کرتے توفر ط محبت میں گریہ فرماتے اور بوسہ دیتے تھے اسی طرح حضرت ختمی مر تبت (ص)کی سیرت طیبہ سب سے نمایاں ہے اگر چہ آپ (ع)کے والد گرامی آپ کی تولد سے پہلے ہی وفات پاچکے تھے اور والدہ گرامی بھی کم سنی میں آپ سے جدا ہو گئی لیکن والدین کے احترام کا اندازہ یہیں سے لگاسکتے ہیں کہ آپ اپنی خواہر رضاعی کے احترام میںکھڑے ہوجاتے تھے اور ہمیشہ اپنی مادر رضاعی کے ساتھ نیکی کرنے اور ان کو خوش رکھنے کی سعی فرماتے اور ہمیشہ والدین کے احترام اور ان کے ساتھ نیک سلوک کی تاکید فرماتے تھے۔