
سلیمانی
صنعاء ایئرپورٹ کی بندش روزانہ 25 مریضوں کی جان لے لیتی ہے، خالد الشایف
یمنی دارالحکومت صنعاء کی بین الاقوامی ایئرپورٹ کے ڈائریکٹر خالد بن احمد الشایف نے اعلان کیا ہے کہ جارح سعودی فوجی اتحاد کی جانب سے صنعاء ایئرپورٹ کی بندش کے باعث روزانہ 25 یمنی مریض جانبحق ہو جاتے ہیں۔ خالد الشایف نے عرب نیوز چینل المسیرہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ عالمی برادری یمنی مریضوں کی بیرون ملک منتقلی کے لئے طبی فلائی اوور کے قیام اور یمن میں دواؤں کی درآمد میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ڈائریکٹر صنعاء ایئرپورٹ نے کہا کہ تاحال 30 ہزار سے زائد یمنی مریض علاج معالجے کے لئے بیرون جانے کے منتظر ہیں کیونکہ 3 لاکھ 50 ہزار سے زائد یمنی مریض ایسے ہیں جن کا ملک کے اندر علاج ناممکن ہے تاہم جارح سعوی فوجی اتحاد کی جانب سے ملک کے سخت ترین محاصرے کے باعث ان میں سے 25 مریض ہر روز جانبحق ہو جاتے ہیں۔
خالد الشایف نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کی جانب سے تقریبا 8 ماہ قبل یمنی مریضوں کے لئے میڈیکل فلائی اوور بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ تب سے لے کر آج تک اس نظام کے تحت علاج معالجے کے لئے بیرون ملک جانے والے یمنی مریضوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ واضح رہے کہ صنعاء کی جانب سے اقوام متحدہ و سلامتی کونسل سے بارہا مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ وہ طے شدہ میڈیکل فلائی اوور کے قیام کی خاطر یمن کے ہوائی محاصرے میں نرمی کے لئے جارح سعودی فوجی اتحاد پر دباؤ ڈالے کیونکہ یمنی بین الاقوامی ایئرپورٹ کی بندش، یمن کا ہوائی محاصرہ، یمنی شہریوں کو علاج معالجے کے لئے بیرون ملک نہ جانے دینا اور یمن کے اندر دواؤں سمیت کسی بھی قسم کے طبی سازوسامان کی درآمد پر پابندی انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی شخصیت اور عہد امامت
پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پیکر صلح و رحمت
قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ گذشتہ زمانے میں تحریف ایک ایسا وسیلہ تھا جس سے جاہل اور مغرض افراد استفادہ کرتے ہوئے فائدہ اٹھاتے تھے اور اس کو بار بار بیان کرکے کوشش کرتے تھے کہ تحریف کے موضوع کوایک حقیقت اور واقعیت میں بدل دیں ۔ صدیوں سے خصوصا جنگ صلیبی کے زمانہ سے مغرب میں یہ کوشش کی جاتی تھی کہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی شخصیت کو مخدوش کردیں اور آپ کو جنگ طلب اور صلح سے بہت دور معرفی کریں، اور یہ کام ابھی تک مغرب میں جاری ہے یہ لوگ دوسرے مذاہب کے افکار و مقدسات کو تسامع اورتساہل سے بیان کرتے ہیں اورخود کو سکولاریزم کے عنوان سے پہچنواتے ہیں ، ابھی تک ان کے تہذیب و تمدن کے گذشتہ آثار ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ پیغمبروں کے درمیان فرق کے قائل ہیںجب کہ پیغمبروں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور خداوندعالم نے ان سب کو ایک ہدف کیلئے اور انسانوں کی اصلاح و ہدایت کیلئے بھیجا ہے ، یہ لوگ ایک پیغمبر کو صلح و ثبات والا بیان کرتے ہیںاور دوسرے پیغمبر کو کسی اور طر ح سے پہچنواتے ہیں ۔ یہ لوگ ہمیشہ نفاق و اختلاف کا بیج بوتے رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ انبیاء میں بھی اختلاف بتاتے ہیں اور ہر روز ایک نیا فتنہ پیغمبر خاتم کیلئے ایجاد کرتے ہیں ، اس محبوب اور مظلوم پیغمبر کی توہین کرتے ہیں، اور کروڑوں مسلمانوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی شہادت اور آنحضرت کے اقرار اور آپ کی مشہود سیرت عملی ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو اخلاق، صلح، دوستی، برادری، رحمت اور محبت کا پیغمبر بتاتی ہے اور آپ کی مشقت بار زندگی اس بات کی گواہ ہے ۔ یہاں پر مختصر طور پر مندرجہ بالا خصوصیات کی وضاحت کریں گے: ١۔بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم قرآن کریم، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بندوں کے لئے رحمت اور خلق عظیم کے نام سے یاد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر سب لوگ تمہارے پاس جمع ہوگئے ہیںتو یہ آپ کے نرم و ملائم اور فصیح و بلیغ کلام کی وجہ سے ہے اور اگر اس طرح نہ ہوتا تو یہ سب آپ سے دور ہوجاتے ۔ اسی طرح قرآن کریم آپ کے سینہ کی کشادگی اور شرح صدر کے متعلق اس طرح تعریف کرتا ہے ، ان کے لئے بہت سخت ہے کہ تمہیں کوئی مشکل پیش آئے ۔ اور دوسری آیت میں فرماتا ہے : شاید تم چاہتے ہو کہ ان کی ہدایت کی خاطر اپنی جان کو فدا کردو ۔ ٢۔ گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی بعثت کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں گذشتہ انبیاء کی رسالت کو کامل کرنے اوراخلاقی کمالات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں، لہذا آپ نے گذشتہ انبیاء کی رسالت کو جاری رکھا ، پورا قرآن کریم ،گذشتہ انبیاء کے اعتقاد اور ان کے احترام سے بھرا ہوا ہے اور گذشتہ انبیاء کی کتب اور ان کی رسالت کا بھی قرآن کریم میں تذکرہ ملتاہے ۔ ٣- صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دینا ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی زندگی میں اپنی عملی سیرت کے ذریعہ ()اور جنگجو و سرکش قوم کے درمیان زندگی بسر کرکے ایسی امت بنائی جو اپنے کینہ اور حسد کو بھول گئی اور انہوں نے اپنی قدرت و طاقت یعنی فتح مکہ کے وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہوئے صلح و آرامش کو اپنا ہدف قرار دیا ، بعض جگہوں پر ایمان لانے والے اپنے زمانہ جاہلیت کے قصہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے بیان کرتے تھے اور آپ ان حادثات کو بیان کرنے سے منع کرتے تھے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ آپ ان کی وحشی گری اور بے رحمی کی باتوں کو برداشت نہیں کرپاتے تھے ، آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت اور اپنے چچا حضرت حمزہ(ع) کی شہادت پر گریہ و عزاداری کرکے اس معاشرہ میں ایک قسم کے عاطفہ، رحم اور احساسات کو جگایا، آپ جاہلی معاشرہ پر اپنے اثرات چھوڑرہے تھے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے مہاجر و انصار اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو ارتباط و عاطفہ پیدا کیا وہ ان لوگوں کیلئے ایک بہترین پیغام تھاجو اپنے جاہلیت کے زمانہ کے بغض و حسد کو زمانہ اسلام میں بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ٤۔ مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ظہور اسلام کے بعد عرب کے قوانین و احکام میں ایک عمیق تبدیلی پیدا ہوگئی ، اور یہ تبدیلی، اسلام کے جدید قوانین و احکام اور رسوم جاہلی کے آداب ، افکاراورعقاید سے مستقم تعارض ہونے کی وجہ سے آئی تھی ،ان میں سے بعض احکام کو اسلام نے تاسیس کیا اور بعض احکام کی تائید کی اور ان کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں انجام دیں، اور جاہلیت کے تمام مظاہر کو ان سے حذف کردیا جیسے حج کے احکام سے شرک کے مظاہر کو حذف کردیا گیا ۔ بعض افراد ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عقد اخوت کو جاہلی کے عہدو پیمان ''حلف'' سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ لوگ اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ ہمارے پیغمبر اکرم نے جو کام انجام دیا ہے وہ زمانہ جاہلی کے عہد و پیمان ''حلف'' کے برخلاف ہے ، ہمارے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے عہد و پیمان میں بندہ اور مولی ، ضعیف و قوی ، ثروتمند و فقیر کا رابطہ مساوی سمجھا جاتا تھا اور اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کو نزدیک سمجھتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے لہذا آپ نے فرمایا : '' لا حلف فی الاسلام''۔ ٥۔ قوم اور قبیلہ کے عقیدے کو ختم کرنا زمانہ جاہلیت کی عداوت، دشمنی، بغض اور حسد ان کے دلوں میں باقی رہ گیا تھا خاص طورسے انصار کے دل ، بھرے ہوئے تھے ، یہ ایسی حقیقت ہے جس کی قرآن کریم نے بھی تصریح کی ہے(جس وقت تم لوگ آپس میں دشمن تھے)اور یہ دشمنی ظاہری نہیں تھی جو ایک آدمی یا چند افراد کے وسیلے سے ختم ہوجاتی بلکہ یہ اجتماعی مشکل اس قدرعمیق تھی کہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)سے فرمایا: اگر تم زمین کی تمام قیمت کو ان پر صرف کردیتے تو یہ کام انجام نہ پاتا ۔ اور خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اس عمل کو اس کی اہمیت و ارزش کی وجہ سے اپنی طرف نسبت دی ہے اور یہ کوئی سیاسی یا کسی خاص زمانہ کیلئے کام نہیں تھا جس کوالفاظ یا نعروں میں خلاصہ کردیا جائے اور اسی طرح قوم وقبیلہ کے عقیدہ کا معیار اس طر ح ہوگیا کہ مختلف قوم و قبیلہ کے لوگ اس زمانہ میں ایک مسلمان امت ''المومنون اخوة'' کے زمرہ میں آگئے لہذا جو کاروان مدینہ آئے انہوں نے آپ کے اس اقدام کا بہت زیادہ ااستقبال کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا ، اسی طرح پیغمبراکرم کے دوسرے بہت سے اقدامات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زندہ و جاوید معجزے ہیں اور یہ سب آپ کے اخلاق حسنہ ، رحمت، محبت، صلح اور برادری و بھائی چارگی کی وجہ سے وجو د میں آیا تھا ۔ |
حسنین کے فضائل صحیحین کی روشنی میں
انسان کی مشکلات کا ایک اہم راز
ابنا۔ خداوند عالم نے انسان کو صاحب اختیار بنا کر خلق کیا اور ساتھ ہی انبیاء، ائمہ اور قرآن جیسی کتاب بھیج کر ہدایت کا بھی انتظام کیا۔ اب اسے اچھائی یا برائی کرنے کا اختیار ہے، اگر اچھا کرے گا تو اس کا نتیجہ اچھا اور خوبصورت ہو گا اور اگر برا کرے گا تو اس کا نتیجہ برا ہو گا۔ ہمارے اعمال اچھے ہوتے ہیں تو دنیا بھی خوبصورت ہوتی ہے اور آؒخرت بھی۔ اور اگر ہمارے کام برے ہو جاتے ہیں تو دنیا بھی سخت ہو جاتی ہے اور آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔
ہمارے کاموں کی نوعیت سے ہماری دنیوی زندگی اور آخرت کی نوعیت مشخص ہوتی ہے، انہیں میں سے ایک اہم مسئلہ ہمارے والدین اور ان کے ساتھ ہماری طرف سے کیا جانے والا برتاؤ ہے، ہمارا برتاؤ ہمارے والدین کے ساتھ ہماری زندگی کے سارے نشیب و فراز کو معین کرتا ہے جیسا جیسا کرتے جاتے ہیں ویسا ویسا صلہ ملتا رہتا ہے، حتیٰ والدین کے ساتھ ہماری زندگی کا ہر گذرا لمحہ دوسرے آنے والے لمحے کے لیے سرنوشت ساز ہوتا ہے۔ اسی سلسلے کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک داستان تحریر کرتے چلیں، ایران کے ایک شہر میں کچھ جوانوں کو پھانسی دیئے جانے کا حکم صادر ہو چکا تھا، ان میں سے ایک جوان کے رشتہ دار شیخ رجب علی خیاط (ایک عارف شخصیت) کی خدمت میں آئے تاکہ شیخ دعا کریں اور کوئی چارہ کار بتائیں، شیخ نے بلا فاصلہ کہا: اس جوان کے اس مصیبت میں گرفتار ہونے کی وجہ اس کی ماں ہے، میں جتنی بھی دعا کر لوں مجھے معلوم ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔ لہذا اس کی ماں کے پاس جاؤ۔
کچھ لوگ اس کی ماں کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ اپنے اس جوان بیٹے سے ناراض ہیں؟ ماں نے اس طرح روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہاں میں ناراض ہوں۔ کہنے لگی جب میرے بیٹے نے نئی نئی شادی کی، ایک دن جب میں دسترخوان اٹھا رہی تھی کچھ برتن اپنی بہو کے ہاتھ میں پکڑائے کہ انہیں باورچی خانے میں لے جائے۔ میرے بیٹے نے وہ دسترخوان اور برتن اپنی بیوی کے ہاتھ سے لیے اور مجھے کہنے لگا کہ میں آپ کے لیے نوکرانی نہیں لایا ہوں۔ میرے دل پر بہت چوٹ لگی اور مجھے بہت ناگوار گزرا۔ آخرکار ماں راضی ہوتی ہے اور خود اپنے جوان بیٹے کی رہائی کے لیے دعا کرتی ہے اگلے دن اس کا بیٹا آزاد ہو جاتا ہے۔
آج ہم پریشان ہیں دعائیں مانگتے ہیں صدقہ دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مار کہاں سے پڑ رہی ہے یا بلکہ کبھی ہم جانتے بوجھتے اس دلدل میں پھستے جاتے ہیں۔ یقین کریں والدین کی ناراضگی دونوں جہاں کو برباد کر دیتی ہے ہمارے والدین کی خوشی ان کی رضایت ہی ہے جو ہمیں طوفانوں سے بچا سکتی ہے۔ مال و دولت چاہیے، اولاد چاہیے زندگی کا سکون چاہیے، بیماریوں سے شفا چاہیے تو والدین کو خوش رکھیں۔ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہم والدین کے سامنے اونچی آواز میں چیخ پکار کریں اور ہمیں دنیا میں عزت مل جائے۔
افسوس اب تو کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے خود کو پڑھا لکھا سمجھتے ہیں اور والدین کو نابلد۔ اور اپنی مرضی والدین پر اس نام سے تھونپتے ہیں کہ آپ کو کیا پتا ہے ہم پڑھے لکھے ہیں ہم جانتے ہیں۔ لیکن واللہ جتنا ہم کتابیں پڑھ کر سیکھتے ہیں ہمارے والدین تجربوں اور زندگی کی تلخیوں سے سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ صرف اب وہ جان بوجھ کر اظہار نہیں کرتے بلکہ انہیں اظہار کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ تنگ آ کر صرف سنتے ہیں اور ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسا کہ وہ کچھ نہیں جانتے، جب کہ وہ اپنے بچوں کی رگ رگ سے واقف ہوتے ہیں حتیٰ یہ بھی جان رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، ہمیں اپنے والدین کے سامنے زیادہ ہوشیار بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
کبھی کبھی ہم کچھ کہہ کے اور کچھ کر کے نکل جاتے ہیں ظاہرا وہ ایک لفظ، ایک جملہ ایک اشارہ اور ایک چہرے کا رنگ ہوتا ہے، جو والدین کے دل کو ایک سیکنڈ میں جھلسا کر رکھ دیتا ہے شاید والدین اپنی محبت کی بنا پر بھول جائیں اور اکثر بھول ہی جاتے ہیں لیکن وہی ایک جملہ وہی لمحہ ہماری ساری زندگی میں آگ لگا دیتا ہے اور اسے اجاڑ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ والدین کبھی بھی اولاد کا برا نہیں چاہتے۔ یہ ہماری سوچ ہوتی ہے اور جوانی کا غرور، جو ہماری رفتار و کردار کو آلودہ کر دیتے ہیں۔ آج ہم جہاں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جس کو دیکھتے ہیں صرف پریشان حال دیکھتے ہیں۔ ہر طرف آہ و بکا ہے! ہمیں پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟ اور یہ کیا ہو رہا ہے؟
اور پھر رہا حقوق کا مسئلہ، ایسا تو ضروری نہیں کہ جب ہم ایک کے حق کا خیال رکھیں تو دوسرے کا لازمی پامال کریں، مثلا اگر ہمیں اپنی بیوی کے حق کا خیال ہے کہ یقینا ہونا چاہیے لیکن ضروری تو نہیں کہ ماں کو اذیت کریں، یا اگر ماں کے حق کا لحاظ ہے کہ یقینا یقینا ہونا چاہیے لیکن اس کا لازمہ بیوی کو اذیت پہنچانا نہیں ہے۔ سمجھدار تو وہ ہے جو مسائل کو نزاکت کے ساتھ حل کر سکے۔ مثلا اس واقعہ کے اندر یہ جوان اگر چاہ رہا تھا کہ بیوی کے حق کا لحاظ رکھے (گر چہ ان باتوں سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا دوسرے کی مدد انسانی تقاضا ہے وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے ساس سسر، پڑوسی ہمسفر وغیرہ) تو بہت ہی خوبصورت طریقے کے ساتھ اپنی ماں کے سامنے بچھ جاتا اور کہہ سکتا تھا کہ اماں جان! اپنی خدمت کی سعادت مجھے بخشیں، مجھے اپنی خدمت سے کیوں محروم کر رہی ہیں؟ اس طرح سے وہ اپنی بیوی کے حق کو بھی بچا سکتا تھا اور ماں کی عظمت اور منزلت کو بھی، آپ دیکھیں کتنے خوبصورت نتائج ہو سکتے تھے، ماں کا دل بھی باغ باغ ہو جاتا، خدا بھی خوش ہو جاتا، دنیا اور آخرت معطر ہو جاتی اور بیوی کی تربیت بھی ہو جاتی اور ساتھ ہی ساس اور بہو میں ماں اور بیٹی والی محبت پیدا ہو جاتی۔ خداوند عالم ہماری اصلاح فرمائے، اور اپنے والدین کی قدر و قیمت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شہید انسانیت حسین(ع)
تحریر: محمد حسن جمالی
انسان نہیں تها، اللہ تعالیٰ نے اسے خلق کیا، مادی اور معنوی نعمتوں سے نوازا، زندگی کا مقصد سمجهایا، ہدایت اور ضلالت کے راستے دکهائے۔ انسان کی ہدایت کا مکمل انتظام کیا، اس کی راہنمائی کے لئے رسول ظاہری کو بهیجنے کے ساتھ رسول باطنی کو بهی مامور کیا۔ انسان کو راہ راست کی ہدایت کرکے صراط مستقیم پر گامزن رکهنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا بهیجنا اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے کہ انسان ایک مجبور مخلوق نہیں بلکہ اللہ نے انسان کو خود مختار بنایا ہے۔ اگر انسان مجبور ہوتا تو اسے ہادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی، درنتیجہ نبیوں و رسولوں کی آمد لغو ہو جاتی اور اس سے خدا کا عبث و بے ہودہ فعل انجام دینا لازم آتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے ہودہ و لغو کام انجام دینے سے منزہ ہے۔
انسان کے خود مختار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ہدایت اور ضلالت کے راستے بالکل واضح اور نمایاں کرکے انسان کو دکهائے ہیں لیکن راستے کے انتخاب کا حق انسان کو عطا کیا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی ہے، چاہے تو ہدایت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر چلے یا گمراہی کی راہ اپنا کر اس پر سفر کرے۔ البتہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا کہ روز قیامت ہدایت کی راہ پر چلنے والوں کو جزا اور ضلالت کا راستہ انتخاب کرکے اس پر زندگی گزارنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ اسی اختیار کی قدرت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے آج دنیا میں انسانوں کی اکثریت ضلالت کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ نہ جینے کے سلیقے سے واقف ہے اور نہ مرنے کے طریقے سے آشنا۔ اکثر انسانوں کی نظر میں حیوانوں کی طرح کهانا، پینا اور خواہشتات نفسانی کی تکمیل کرکے تولید نسل کرنا زندگی ہے۔ ان کی نگاہ میں دوسروں پر ظلم کرنا، دوسروں کی جان، مال، عزت اور آبرو سے کهیل کر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنا لذت بخش زندگی ہے۔
نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے عمل کے ذریعے تا ابد بشریت کو جینے اور مرنے کا سلیقہ سکها دیا۔ دنیا میں جی کر مرنے سے تو ہر کوئی آشنا ہے، ہر انسان کو اس بات کا علم ہے کہ دنیا میں آنکھ کهولنے کے بعد ایک مدت تک انسان نے زندہ رہنا ہے، جینا ہے، زندگی کی نعمت سے لطف اندوز ہونا ہے، پهر انجام موت ہے اور مرنا ایک اٹل حقیقت ہے۔ موت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ بچے گا، اس سے فرار کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ مظلوم کربلا ابی عبداللہ الحسین علیہ السلام نے دنیائے انسانیت کو نہ فقط حقیقی معنوں میں حیات اور موت کا مفہوم سمجهایا بلکہ نواسہ رسول نے آدم کی آولاد کو مر کر جینا بهی سکها دیا ہے۔ آپ نے مرنے سے پہلے کی زندگی کا تصور یوں پیش کیا ہے کہ اگر لوگ حق سے متصل رہ کر عزت سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو واقعی معنوں میں وہ زندہ ہیں، لیکن اگر وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی آغوش میں ذلت سے زندگی کے لمحات گزار رہے ہوں تو ایسی زندگی زندگی نہیں موت ہے۔
عصر حاضر میں قیام حسینیؑ کے استمرار کیلئے معاشرتی اور انسانی علوم میں تبدیلی کی ضرورت(1)
تحریر: پیمان محمدی[1]،
تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی گریجویٹ
درحقیقت ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ ملک کے اندر انسانی و معاشرتی علوم میں ایک بنیادی تبدیلی لائی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے فکری، علمی اور تحقیقی کام سے اپنے آپ کو بے نیاز سمجھیں۔ نہیں، بعض معاشرتی و انسانی علوم اہل مغرب کی ایجاد ہیں۔ انہوں نے اس میدان میں کام کیا ہے، سوچ بچار کی ہے اور مطالعہ کیا ہے، ان کے مطالعہ سے استفادہ کرنا چاہیئے۔ بات یہ ہے کہ مغربی معاشرتی و انسانی علوم کی بنیاد، غیر الہیٰ ہے، غیر توحیدی اور مادی بنیاد ہے کہ جو اسلامی اصولوں کے ساتھ سازگار نہیں ہے، دینی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ معاشرتی علوم اس وقت صحیح، مفید اور انسان کی درست تربیت کرنے والے ہوں گے اور فرد اور معاشرے کو نفع پہنچائیں گے، جب ان کی اساس اور بنیاد الہیٰ تفکّر اور الہیٰ نطریہ کائنات پر قائم ہو۔ آج موجودہ صورتحال میں یہ چیز معاشرتی علوم میں موجود نہیں ہے، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کام ایسا نہیں ہے کہ جس میں جلدی کی جائے۔ یہ ایک طویل المدت کام ہے۔ ایک اہم کا ہے۔(ایران کے اساتذہ اور یونیورسٹی کے طلباء سے ملاقات کے موقع پر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات۱۱-۰۴-۱۳۹۳)
دنیا میں موجود ٹیکنالوجی، علم، اس کے نواقص اور خلاؤں کے متعلق تحقیق و بررسی کا موضوع ان موضوعات میں سے ہے کہ جس نے کئی عشروں سے یونیورسٹی کے محققین اور طلابِ علومِ دینی کو مشغول کر رکھا ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر معاشرتی و انسانی علوم کے شعبہ میں بھی قابلِ غور رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مغربی معاشرتی و انسانی علوم، غیر مغربی معاشروں میں قابلِ استفادہ ہیں یا نہیں۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت سے مفکرین، خاص طور پر ایران اور مصر جیسے ممالک کے دانشمندوں نے اس بارے میں بہت زیادہ گفتگو کی ہے۔ واضح طور پر اس موضوع نے تین طرح کے ردعمل ایجاد کئے ہیں:
1۔ پہلا گروہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو اس کے قائل ہیں کہ علم اور ٹیکناجی مغربی و غیر مغربی نہیں ہے، اصولی طور پر نہ کوئی دینی علم ہے اور نہ کوئی سیکولر یا علم ِدین کی ضد ہے۔ اس نظریہ کے مطابق علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی ہے، بطور مثال ہمارے پاس کوئی اسلامی معاشرہ شناس ہے، نہ کوئی غیر اسلامی معاشرہ شناس یا نہ ہی کوئی سائیکالوجی ہے اور نہ ہی اسلامی اقتصاد و غیر اسلامی اقتصاد ہے۔ سائیکالوجی سائکالوجی ہے، اس کا مغربی یا مشرقی ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے، یونیورسٹی کی زبان میں علم ارزش اور راہ و روش سے خالی ہوتا ہے۔
2۔ دانشوروں کا دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ مغرب کی ہر چیز منفی و محکوم نہیں ہے، ان کی مفید علمی پیش رفت اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکتے ہیں اور مضر و نقصان دہ ترقی سے دور رہیں۔ اس نظریہ کے مطابق مغرب، اچھے مغرب اور برے مغرب کو شامل ہے، اچھے مغرب سے فائدہ اٹھانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ اس نظریئے کے مقدمات پہلے نظریئے کے مقدمات کے مشابہ ہیں۔ اس گروہ کا اہم اور مشترک مقدمہ یہ ہے کہ بطور کلی ایجاد شدہ علم اور ٹیکنالوجی کی ماہیت اور بطور خاص معاشرتی و انسانی علوم، علمی معرفت اور مغربی سیکولر دانشوروں کے نظریہ کے زیر اثر قرار نہیں پاتے۔
3۔ تیسرا گروہ ان افراد پر مشتمل ہے کہ جو مغربی معاشرتی و انسانی علوم کو ان کی علمی معرفت[2] اور ان کے غیر توحیدی نظریئے کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ضروری موارد کے علاوہ اس کا استعمال جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ دانشوروں کا آخری گروہ انجینئرنگ علوم کی مثال دیتا ہے کہ ناکارہ چیز کا نتیجہ بیکار اور باطل ہوتا ہے۔ [3]۔ یہ گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے بھی اسلامی ہوں، ان کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی اسلامی ہو اور اسی طرح وہ نظریات جو ملک کو ادارہ کرنے میں استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی اسلامی ہونے چاہئیں۔
اس حصے میں مذکورہ بالا نظریات کی جانچ پرکھ اور ان پر تنقید کرنے سے پہلے ایک نکتے کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض افکار و نظریات کو قبول کرنے سے نہ تو ان تمام دوسرے نظریات کی نفی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی۔ مثال کے طور پر جب ایران میں اعلیٰ تعلیم[4] میں اضافہ ہوا اور آخری بیس سالوں میں پوسٹ گریجویٹ (ماسٹرز اور پی اچ ڈی) کورسز کے فارغ التحصیل افراد کی تعداد بڑھی تو ضرورت اس بات کا باعث بنی کہ اس ملک (ایران) میں مغربی معاشرتی و انسانی علوم سے آگاہی اور ان کی تعلیم حاصل کرنے اور مغربی دانشوروں کی آواز سننے میں اضافہ ہو۔(دوسرا نظریہ)۔ جب یہ تعلیمی دورانیہ مرحلہ تکمیل کو پہنچا اور اساتذہ اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس نے انسانی و اجتماعی علوم کے میدان میں مہارت، خلاقیت اور علمی ایجادات پر دسترسی حاصل کر لی تو پھر یہ توقع ہے کہ افراد کا یہ گروہ اسلامی اور داخلی انسانی و معاشرتی علوم کی تولید کے لیے قدم اٹھائے۔(تیسرا نظریہ)۔
اسی بنا پر ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک نظریئے کو ہر حال میں قبول کریں، بلکہ اسٹوڈنٹس، اساتید اور ملک کے طلباء کی توانائی، مہارت اور پختگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکن ہے کہ دوسرے اور تیسرے نظریئے میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں اور تکامل کے مراحل طے کرنے اور قدرت حاصل کرنے کے بعد تیسرے نظریئے کی طرف رجحان پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ موضوع ایک ٹیکنیکل پارٹ بنانے کے مشابہ ہے۔ ممکن ہے کہ ایک ملک کے اندر ٹیکنیکل پارٹس ایجاد کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو، لہذا وہ پہلے اسے درآمد کرے گا، ایک مدت گزارنے کے بعد جب پیداوار کی صلاحیت پیدا کرلی تو اس پارٹ کی ریورس انجینئرنگ کرے گا اور اسے بنا لے گا۔ ممکن ہے کہ مکمل مہارت حاصل کرنے اور تحقیق و ترقی[5] کرنے کے بعد بہتر پارٹس ڈیزائن کرکے انہیں مارکیٹ میں لے آئے اور آخرکار اس میدان میں معروف برآمد کرنے والے میں تبدیل ہو جائے۔ انسانی و معاشرتی علوم کا شعبہ بھی اسی طرح سے ہے۔ ممکن ہے کہ ایک معاشرہ وقتی طور پر مجبوری کے تحت مغربی نظریات سے استفادہ کرے اور پھر قدرت حاصل کرنے کے بعد خود توحیدی و الہیٰ نظریات پیش کرنے کی جانب رخ کرے۔
گفتگو کے اس حصے میں، قرآن اور روایات اہل بیتؑ کی نگاہ سے پہلے نظریئے کی جانچ پرکھ اور اس پر تنقید کریں گے۔ یہ نظریہ اس بات کا قائل ہے کہ علم، علم ہے اور ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی۔ یہ نظریہ ایک مغربی معاشرے اور ایک مغربی و سیکولر دانشور کے تولید شدہ انسانی و معاشرتی علوم اور ایک عابد و الہیٰ مفکر کے تولید شدہ علوم کے درمیان کسی فرق کا قائل نہیں ہے۔ شاید تھوڑا سا صرف نظر کرتے ہوئے کسی حد تک قدرتی، ٹکنیکل اور انجینئرنگ علوم کے بارے میں اس استدلال کو قبول کیا جا سکتا ہے، مگر انسانی و معاشرتی علوم کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔
سب سے پہلے روایاتِ اہل بیتؑ کی بنا پر انسان اور اور معاشروں کی تقدیر و سرنوشت سے مربوط علم کو دو حصوں یعنی صحیح و غیر صحیح علم میں تقسیم کرسکتے ہیں اور صحیح علم کا منبع صرف اہل بیتؑ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ البتہ دوسری درجہ بندیاں جیسا کہ مفید اور غیر مفید علم، علم و فضل وغیرہ بھی کلام اہل بیتؑ میں موجود ہیں کہ ہر ایک کے بارے میں دقیق تحقیق و بررسی کسی اور موقع کی متقاضی ہے۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں: ”شَرِّقاً و غرِّباً فَلا تَجِدَانَ عِلماً صَحِیحاً اِلّا شَیئاً خَرَجَ مِن عِندِنَا اَھْلَ الْبَیْتِ“[6]۔ "مشرق جائیں اور مغرب جائیں، آپ صحیح علم حاصل نہیں کرسکتے سوائے اس چیز کے جو ہم اہل بیتؑ سے صادر ہوئی ہو۔" یہ روایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کم از کم انسانی معاشرے اور انسان سے مربوط علوم کہ جن کا واسطہ انسان کی دنیوی و اخروی تقدیر سے ہے، کا منبع ضروری ہے کہ اہل بیت ؑ کی گفتگو پر مبنی ہو۔ اس بنا پر روایات کے مطابق معصومین ؑ کی تعلیمات پہلے نظریئے کے منافی اور معارض ہیں۔
قرآن سورہ مبارکہ نساء میں فرماتا ہے: وَ لَنْ یَّجعَلَ اللہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ "اللہ ہرگز کافروں کو مؤمنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔"[7]۔ یہ آیت ”نفی سبیل“ کے نام سے مشہور ہے کہ جو عملی طور پر مؤمنین کو سختی سے منع کرتی ہے کہ وہ کافروں کے تسلط اور غلبے کو قبول نہ کریں۔ بعض اسلامی ممالک جیسا کہ ایران میں یہ آیت قانون اساسی کی بعض شقوں جیسے شق نمبر ۱۵۲ و ۱۵۳ کی تشکیل کا منبع ہے۔ البتہ اس کی کوئی وجہ نہیں بنتی کہ ہم اس آیت کو مؤمنین پر کفار کے معاشی اور فوجی غلبے میں محدود کریں اور ثقافتی غلبے یعنی اصطلاحاً نرم تسلط کو اس سے مستثنیٰ کریں۔ آیت اللہ العظمیٰ خمینی ؒ اس آیت کے حالات اور وسعت کو کسی خاص میدان میں محدود نہیں سمجھتے اور قرآن کے مشہور مفسر علامہ طباطائی بھی اسے کسی خاص زمانے میں محدود نہیں جانتے۔ امام خمینیؒ اپنی کتاب البیع میں فرماتے ہیں: بل یمکن ان یکون لہ وجہ سیاسی، ھو عطف نظر المسلمین الی لزوم الخروج عن سلطۃ الکفار بأیّۃ وسیلۃ ممکنۃ؛ ممکن ہے اس آیت ”آیت نفی سبیل“ پر کوئی سیاسی وجہ استوار ہو، منتہی اس آیت کا اس طرف بھی رجحان ہے کہ جس طرح سے بھی ہوسکے، مسلمان کفار کے غلبے اور تسلط سے آزاد ہوں۔[8]
علامہ طباطبائیؒ تفسیر المیزان میں تاکید فرماتے ہیں کہ یہ حکم کسی خاص زمانے میں محدود نہیں ہے۔ اس آیت میں یہ جو فرمایا ہے کہ خداوند متعال ہرگز کافروں کو مؤمنین پر فوقیت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی ان پر مسلط کرتا ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ آج سے حکم مؤمنین کے فائدے اور کفار کے نقصان میں ہے اور ہمیشہ کے لیے ایسا ہی ہوگا۔[9] اس مقدمے کے پیش نظر، جب انسانی و معاشرتی علوم کا نقشہ، مؤمنین پر تسلط اور فوقیت حاصل کرنے اور انہیں مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنے کی غرض سے تیار کیا جائے، تو یہ ”سبیل“ کا مصداق ہے اور آیت شریفہ ”نفی سبیل“ کے مطابق فقہی اعتبار سے اس سے اجتناب کرنا واجب ہے۔ اس اجتناب کی ایک غرض انسانی و معاشرتی علوم میں ایسے نظریات کی طرف رجوع نہ کرنا یا ان پر بھروسہ نہ کرنا ہے اور اس کی اہم ترین وجہ، مغربی نظریات کی جگہ ایسے نظریات کا نقشہ تیار کرنا، انہیں وسعت دینا اور پیش کرنا ہے کہ جن کی بنیاد الہیٰ و توحیدی اصولوں کے مطابق ہو؛ جسے ”معاشرتی و انسانی علوم میں انقلاب و تحول“ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم اگلے پہرے میں مختصر شواہد کی طرف اشارہ کریں گے کہ جو مغرب میں معاشرتی و انسانی علوم کی جہت کو واضح کریں گے۔
منابع
زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی کو زیادہ سے زیادہ امریکی رسوائی میں بدل دینگے، آیت اللہ خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ عقل کا نام تو لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی مراد خوف، مفعولیت اور دشمن کے مقابلے سے گریز ہوتا ہے درحالیکہ فرار کرنے اور ڈرنے
ایرانی سپریم لیڈر نے ملکی معیشت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش اقتصادی مسائل میں ہم امریکہ کے خباثت آمیز کردار اور اس کی پابندیوں، جو درحقیقت جرم ہیں، کے بُرے اثرات کو نظر انداز نہیں کرتے البتہ ہم اپنا قیام اور مزاحمت جاری رکھیں گے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے امریکہ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ (کی پالیسی) کو امریکہ کی زیادہ سے زیادہ رسوائی اور پشیمانی میں بدل دیں گے۔ انہوں نے ملکی معیشت کو درپیش مسائل پر امریکی صدر کے اظہار خوشی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ (ایرانی قوم کے خلاف) ایسے جرائم کے ارتکاب
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اس بات پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہ ملک کی تمام مشکلات کا حل ملک کے اندر موجود ہے، کہا کہ اگرچہ ہماری بہت سی مشکلات کا تعلق بیرون ملک امور کے ساتھ ہے تاہم ان کا علاج ملک کے اندر اور صحیح حساب کتاب پر ہے لہذا ہمیں ان مسائل کا حل ملک سے باہر نہیں ڈھونڈنا چاہئے کیونکہ ملک کے باہر سے ہم نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی البتہ امریکی قوم پر مسلط اراذل و اوباشوں کی ہرزہ سرائیاں کسی کی توجہ نہ بٹائے! انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کرونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر پر عوامی عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ اربعین امام حسین (ع) کے حوالے سے لوگ سرحدوں کی جانب نہیں گئے اور انہوں نے محرم الحرام کے دوران بھی پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا ہے، اب بھی زندگی کے بنیادی مسائل میں پوری احتیاطی تدابیر پر مکمل عملدرآمد کیا جائے تاکہ اس منحوس بیماری سے پیچھا چھڑوایا جا سکے۔
کربلا انسانی اقدار کی تجلی گاہ
تحریر: محمد علی شریفی
امام حسین علیہ السلام نے اپنی لازوال اور عظیم قربانی کے ذریعے اہل ایمان کو یہ درس دیا کہ جب بھی دین و مکتب کی بنیادیں خطرے میں پڑ جائیں تو اس کی حفاظت کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ جب امام عالی مقام نے دیکھا کہ اسلامی معاشرے کی زمامِ حکومت، یزید جیسے فاسق و فاجر حاکم کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو تمام احکام الٰہی اور شریعت کے اصولوں کو اپنے پاؤں تلے روند رہا تھا، اس صورتحال کو دیکھ کر امام حسین علیہ السلام یزید کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دینا شروع کی۔ اس راہ میں اپنی جان، مال، ناموس، عزیزوں اور قریبی اصحاب کی قربانی پیش کی۔
امام عالی مقام نے پوری تاریخ بشریت کے لئے پیغام دیا کہ جب بھی یزید جیسا شخص تمہارا حاکم بنا تو سکوت اختیار نہ کرنا اور اس کی بیعت کرنے سے انکار کرنا۔ امام کی زبان حال یہ بتا رہی تھی کہ اگر دین محمدی میرے قتل کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا تو اے تلوارو آؤ مجھ حسین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ اسی لئے امام تمام انسانیت کے لئے اسوہ اور نمونہ بنے کہ جب بھی کوئی طاغوت، اسلامی اور انسانی اقدار کو پامال کرنا چاہے تو انقلاب حسینی سے درس لے۔ جیسا کہ گاندھی سے لیکر دنیا کے مختلف مسلم اور غیر مسلم دانشوروں اور اہم شخصیات اس کا برملا اظہار کر چکی ہیں۔ تاکہ انسانی اور اسلامی اقدار کے خلاف ہونے والی حرکتوں کو روک سکیں۔ کربلا کے جس پہلو کی طرف بھی انسان نگاہ کرے اس پہلو سے بہتر زندگی گزارنے کا اصول ملتا ہے ہم اس تحریر میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
درس حُرّیت:
تحریک عاشورا کا ایک ابدی پیغام یہ ہے کہ انسان جس عقیدے کا بھی حامل ہو، کوشش کرے کہ آزاد زندگی گزارے اور ذلت سے دور رہے، کسی بھی ستمگر اور ظالم کے آگے سر نہ جھکائے۔ عاشوراء کے دن جب امام نے دیکھا دشمن خیموں کی طرف حملہ کر رہا ہے تو آپ نے فرمایا: "وَیحَکمْ یا شیعَةَ آلِ اَبی سُفیان! اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحرارا فی دُنیاکم" وائے ہو تم پر اے آل ابی سفیان کے پیرو کارو! اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو، اپنی اس دنیا میں آزاد مرد بن کر رہو۔۔(1) ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں، "مَوْتٌ في عِزٍّ خَيْرٌ مِنْ حَياةٍ فِي ذُلٍّ" عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ (2) آیت اللہ جوادی آملی فرماتے ہیں، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں حضرت سید الشہداء کا غم منانے سے بے نیاز ہوں، چاہے شیعہ ہو یا سنی یہودی ہو یا عیسائی یا زرتشتی۔ اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے قول اور فعل، خطبوں اور خطوط کے ذریعے مختلف دروس کو پیش کیا۔
کچھ لوگوں سے کہا اگر مسلمان نہیں ہو تو حریت پسند بنو اور آزاد طلبی کا مطلب یہ ہے کہ نہ کسی پر قبضہ کی چاہت ہو نہ تم پر کوئی غلبہ پاسکے! "اِنْ لَمْ یکنْ لَکمْ دینٌ وَ کنْتُمْ لا تَخافُونَ المَعادَ فَکونُوا اَحراراً فی دُنیاکُم"۔ درس آزادی اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کا پہلو ابھی محفوظ ہے اور اگر کوئی خدا کو نہیں مانتا نہ ہی قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے تو کربلا عالم بشریت کے لئے معلمِ درس حرّیت ہے۔ لہٰذا کوئی بھی کربلا سے درس حاصل کرنے کے سلسلے میں بےنیاز نہیں ملے گا اور کوئی بھی عالم اور دانشور عاشورا کی ہدایات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ زاہد و عابد جو اللہ کی راہ میں نکلا ہے، حکماء اور متکلمین جو خدا کی راہ کو طے کرچکے ہیں، عرفاء جو اس راہ کی بلندیوں تک پہنچ چکے ہیں، یہ سب کے سب بھی پیغام حسینی کے حقیقی سننے والوں میں سے ہیں ۔۔۔(3) آپ نے عاشورا کے دن عمر ابن سعد کے لشکر سے مخاطب ہو کر فرمایا: "ألا وَ إنَّ الدَّعيَّ ابنَ الدَّعيِّ قَد رَكَّزَ بَينَ اثنَتينِ بَينَ السُلَّهِ وَالذِلَّةِ وَ هَيهاتَ مِنّا الذِلَّةُ يَأبى اللّه ُ ذلك لَنا وَرَسولُهُ" اس نابکار اور اس نابکار کے بیٹے نے مجھے دوراہے پر لا کھڑا کر دیا ہے (مجھے ذلت اور چمکتی ہوئی ننگی تلوار کے درمیان قرار دیا ہے) ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔ (4)
امر باالمعروف و نہی عن المنکر کا احیاء:
امام حسین اس حقیقت کو بیان کرنے جا رہے تھے کہ یزید کی حاکمیت انسانی اور اسلامی معاشرے کے لئے سب سے بڑا منکر ہے، ایسے حالات میں ایک با تقوا حریت پسند انسان کا وظیفہ اور ذمہ داری ہے کہ امر بہ معروف و نہی از منکر کرے۔ کوفہ کے عمائدین کے نام امام نے جو خط لکھا اس میں اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا۔ "أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ (صلى الله علیه وآله) قالَ: مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَلاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ"۔ اے لوگو! رسول خدا نے فرمایا! جب کوئی مسلمان ایک سلطان جائر اور ظالم حاکم کو دیکھے جو حلال الٰہی کو حرام اور حرام الٰہی کو حلال قرار دیتا ہے اور الٰہی عہدوں کو توڑ دیتا ہے، سنت پیغمبر کی مخالفت کرتا ہے ایسے میں وہ اپنے عمل یا گفتار کے ذریعے نہ روکے تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ ایسے فرد کو اسی ظالم کے ساتھ جہنم میں ڈال دے۔ (5)
اور اسی خط میں ارشاد فرماتے ہیں آگاہ رہو یقینا یہ (یزید کے) پیروکاروں نے شیطان کی پیروی کی ہے اور اس کی بات کو اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، فساد کو رواج دیا ہے، احکام الٰہی کی تعطیل کی ہے حلال الٰہی کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے۔ میں فرزند رسول خدا سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ ان حالات پر اعتراض کروں۔ اور آپ نے مدینے سے نکلتے وقت اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے میں بھی واضح طور پر فرمایا: "أُُرِیدُ أنْ آَمُرَ باالمَعرُوفِ وَ أنهَی عَنِ المُنکَرِ وَ اَسِیرَ بِسیرَةِ جَدِّی وَ أبِی۔۔۔" (6)۔ میں چاہتا ہوں امر بہ معروف و نہی از منکر کروں اور اپنے جد کی سیرت پہ عمل کروں۔
صبر و تحمل اور برداشت:
اس عظیم قربانی کے موقع پر جگہ جگہ صبر و تحمل و برداشت ان عظیم ہستیوں میں دیکھنے میں آئے۔ جب آپ مکہ سے عراق کی طرف عازم سفر ہوئے تو ایک خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔ "رِضَى اللّهِ رِضانا اَهْلَ الْبَیْتِ، نَصْبِرُ عَلى بَلائِهِ وَ یُوَفّینا اَجْرَ الصّابِرینَ۔" خدا کی رضا ہم اہلبیت کی رضا ہے۔ خدا کی طرف سے ہونے والے امتحانوں کے موقع پر ہم صبر کریں گے اور خدا صابرین کی جزا ہمیں دے گا۔ (7) راستے میں جب کسی منزل پر پہنچے تو آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اے لوگو ! تم میں سے جو بھی تیر و تلوار کی تیز دھار کو برداشت کرسکتا ہو وہ رہے اور جو نہ کر سکتے ہوں وہ لوگ واپس چلے جائیں۔ روز عاشورا امام حسین نے دشمن کے ساتھ سخت جنگ کے وقت فرمایا، "صَبْراً بَنِى الْكِرامِ، فَمَا الْمَوْتُ إِلّاٰ قَنْطَرَةٌ تَعْبُرُ بِكُمْ عَنِ الْبُؤْسِ وَ الضَّرّاءِ إِلَى الْجِنانِ الْواسِعَةِ وَ النَّعيمِ الدّائِمَةِ۔۔" اے بزرگ زادو! صبر کرو موت نہیں ہے مگر ایک پل کی مانند جو تمہیں مشکلوں اور سختیوں سے وسیع جنت اور ابدی نعمتوں کی طرف پہنچا دیتی ہے۔ (8)
وفاداری:
عہد و پیمان پر وفا اور عمل امام حسین اور آپ کے باوفا ساتھیوں کی خصوصیات میں سے ہے، شب عاشور آپ اپنے باوفا اصحاب کے بارے میں فرماتے ہیں میرے اصحاب سے زیادہ باوفا اور سچا اصحاب کسی کو نہیں ملا۔ آپ کی دین سے وفاداری کے بارے میں زیارت اربعین میں ایک جملہ ملتا ہے، "اَشهدُ انّکَ قد بَلّغتَ و نَصحتَ و وَفَیتَ واوفیت۔."(9)۔ میں گواہی دیتا ہوں تونے اس عہد کی وفا کی جو خدا کے ساتھ کیا تھا، کربلا میں وفاداری کی ایک اور لازوال مثال حضرت عباس علمدار کا اس امان نامے کو ٹھکرانا ہے جو آپ کے لیے شمر ملعون لایا تھا لہٰذا آپکی زیارت میں آیا ہے "اَشْهَدُ لَقَدْ نَصَحْتَ للَّهِِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَخيک، فَنِعْمَ الْأَخُ الْمُواسى"، گواہی دیتا ہوں تونے خدا اور رسول کے لئے خیرخواہی کی اور اپنے بھائی کے لئے کتنا ہمدرد تھے۔۔۔(10)۔
نماز کی اہمیت کا خیال:
کربلا اور عاشورا کا ایک اور نمایاں درس نماز کا پابند ہونا اور اس کی پاسداری ہے امام حسین نے اقامہ نماز کی ترویج اور اس کے اہتمام کے لیے بے مثال اہتمام کیا۔ 9 محرم کو عمر سعد نے جب جنگ شروع کرنا چاہی تو آپ نے اپنے بھائی حضرت عباس کو بھیجا تا کہ ایک رات کی مہلت مانگیں تاکہ اس رات کو دعا اور نماز میں گزاریں۔ "أنّی کنتُ قد أحبّ الصّلاة له و تلاوةَ کتابه و کثرة الدّعاء و الاستغفار" میں نماز اور تلاوت قرآن و کثرت دعا و استغفار کو پسند کرتا ہوں۔(11) عاشورا کی ظہر کو جب ابو ثمامہ صائدی نے امام کو وقت نماز کی یاد دلائی تو امام نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ "قالَ: ذَكَرتَ الصَّلاةَ، جَعَلَكَ اللّهُ مِنَ المُصَلّينَ الذَّاكِرينَ" تونے نماز کی یاد دلائی، اللہ تمہیں ان نمازیوں میں سے قرار دے جو نماز کو یاد رکھتے ہیں۔
اور اس طرح سے دشمن کی تلواروں کے سائے میں نماز ادا کی۔ امام حسین نے یزید کے سیاہ ترین دور میں کہ جس میں اسلامی اقدار، پامال ہو رہی تھیں، شہادت کو سینے سے لگا کر اسلامی معاشرے کے اندر پھر سے شہادت کے حیات بخش کلچر کو زندہ کیا اور شہادت سے عشق کو معاشرے کے اندر کلچرل بنایا، جب امام نے سب کو خبر دی کہ کل شہید ہو جائیں گے تو حضرت قاسم ابن حسن کو یہ فکر لاحق ہوئی کہیں کم سنی کی وجہ سے میں شہادت سے محروم نہ رہ جاؤں اور امام سے سوال کیا، چچا جان آیا میرا نام بھی شہید ہونے والوں میں شامل ہے یا نہیں؟؟ امام نے قاسم سے امتحان لینے کے لئے پوچھا موت کو کیسے پاتے ہو؟ فرمایا "اَحْلَی مِنَ العَسَلِ" موت شہد سے زیادہ میٹھی لگتی ہے۔
صداقت اور سخاوت:
تحریک کربلا کے شروع سے لے کر آخر تک صداقت اور سخاوت موجزن تھی۔۔؟ اس کی واضح مثال امام کی حر سے ملاقات ہے، جب شراف کے مقام پر امام کی ملاقات حر اور اس کے سپاہیوں سے ہوئی اور انہوں نے آپ کا راستہ روکا، یہ لوگ آپ کی جان کے درپے تھے جب آپ نے دیکھا یہ لوگ پیاسے ہیں اپنے ساتھیوں کو حکم دیا ان سب کو پانی پلا دیں یہاں تک کہ پیاس سے نڈھال پیچھے رہ جانے والے ایک سپاہی کو آپ نے اپنے دست مبارک سے پانی پلایا۔
ادب و شرافت:
عاشورا کا ایک اور لازوال درس ادب اور شرافت و بزرگواری ہے۔ یہی خصوصيت امام کے ساتھیوں میں سے ہر ایک میں نمایاں طور پر دکھائی دی، کربلا کے اس سفر میں اس کی واضح مثال جب حر اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی، وہ انتہائی مؤدبانہ انداز میں امام کی خدمت میں آتے ہیں، اسی طرح حضرت عباس ہمیشہ امام کو میرے آقا میرے مولا کہہ کر یاد کرتے تھے۔ جب ہم جناب سیدہ زینب (س) کی رفتار کو دیکھتے ہیں ادب اور بزرگواری کی آخری منزل کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے انہوں نے اپنے دونوں فرزندوں کو اپنے بھائی کی عظیم تحریک کے لئے ہدیہ کر کے اسلام پر فدا کر دیا، آپ نہ صرف اپنے بچوں کے جنازے کی منتقلی کے وقت خیمے سے باہر نہ آئیں بلکہ کربلا سے شام تک ایک بار بھی اپنے بچوں پر گریہ نہیں کیا اور ہمیشہ سالار شہیدان کی مظلومیت بیان کرتی رہیں۔
ظلم سے مقابلہ:
امام نے اپنے قیام کے ذریعے انسانوں کو ظلم سے مقابلہ، ظلم ستیزی اور ظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیا انسانیت کو یہ سکھایا کہ اگر ظالموں کے ہاتھ نہیں کاٹ سکتے تو خاموش بھی نہ رہیں۔ آپ نے یہ اہم ترین کام معاویہ کی زندگی کے آخری سالوں میں ہی شروع کیا۔ خطبہ منٰی جو معاویہ کی موت سے دو سال قبل مکے میں دو ہزار کے قریب صحابہ، تابعین اور دیگر افراد کو جمع کر کے ارشاد فرمایا۔ امام حسینؑ کے اس خطبے میں درج ذیل موضوعات پر بحث ہوئی ہے:
1۔ امام علیؑ اور خاندان عصمت و طہارت کی فضیلت اور ان آیات و روایات کو بیان کیا ہے جن میں اہل بیتؑ خاص کر امام علیؑ کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ منجملہ ان فضائل میں سد ابواب، واقعہ غدیر خم، مباہلہ، امام علی کے ہاتھوں خیبر کی فتح اور حدیث ثقلین۔
2۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف دعوت اور اسلام میں اس وظیفہ کی اہمیت۔
3۔ ستمگروں اور مفسدین کے خلاف قیام کرنے کو علماء کی اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف علماء کے سکوت اور خاموشی کے نقصانات اور علماء کا اس الہی وظیفے کی انجام دہی میں سہل انگاری پسندی کے بھیانک نتائج کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 12 جب آپ کو پتہ چلا کہ یزید مسلمانوں کا حاکم بن چکا ہے تو اس کی عملی مخالفت شروع کی اور اس کی سیاہ کاریوں اور بدکاریوں کو فاش کیا۔ آپ نے فرمایا یزید فاسق و فاجر، شرابی اور بے گناہوں کا قاتل ہے۔ 13
شجاعت و دلاوری:
امام جو ہدف رکھتے تھے اس راہ میں کوئی چیز امام کے دل میں خوف نہیں ڈال سکی اور نہ ہی اپنے ارادے سے منحرف کرسکی اور امام کو دشمن سے مقابلہ کرنے سے نہیں روک سکی اسی لئے جنگ جتنی تیز ہو جاتی تھی اور شہادت کا وقت قریب آتا امام کا مبارک چہرہ اور زیادہ درخشان ہوتا تھا اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ مقابلہ کیا۔
امام شناسی کا درس:
امام کوفہ والوں کو یوں لکھتے ہیں میری جان کی قسم لوگوں کا امام اور پیشوا وہ ہے جو قرآن کی بنیاد پر حکم کرے اور دین حق کی پیروی کرے اور خدا کی راہ میں سر تسلیم خم ہو۔ آپ نے اپنے اس فرمان کے ذریعے تمام طاغوت حاکموں کی رہبری پر خط بطلان کھینچ دیا اور دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ ایسے حاکموں کو قبول نہ کریں جو لوگوں کو گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کی خیر سے دور کرتے ہیں۔
اسلامی مقدسات کی حفاظت:
واقعہ عاشورا اگرچہ دین کی حفاظت اور اصلاح امت کی خاطر پیش آیا لیکن ساتھ ساتھ امام اور آپ کے باوفا اصحاب کا ہر فیصلہ اہمیت کا حامل ہے اور آپ کے پیروکاروں کے لئے انتہائی سبق آموز ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں کی نگاہ میں مکہ اور بیت اللہ کی بڑی حرمت و تقدس ہے، بڑا مقام ہے، جب آپ نے احساس کیا کہ یزید کے گماشتے مجھے اس حرم الہی میں حج کے موقع پر قتل کر دیں گے اور میری وجہ سے حرمت خانہ خدا شکستہ ہو جائے گی آپ نے فورا مکہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور عازم کوفہ ہوئے، لہٰذا آپ فرماتے ہیں "مکہ میں قتل ہونے سے مکے سے ایک بالشت باہر قتل ہونا بہتر ہے" آپ خانہ خدا کے تقدس کو بچانے کے لیے حج چھوڑ گئے۔
عفت اور حجاب کی پاسداری:
عاشوراء کے دروس میں سے ایک اہم ترین درس حجاب اور پردے کی پاسداری ہے اور یہ خواتین کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے عصر عاشورا لعینوں نے خیموں میں آگ لگائی، اہل حرم کی چادروں اور شہداء کےجسموں کے لباسوں کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ منقول ہے جب دشمن نے اہل حرم کو گھیر لیا اس وقت علی (ع) کی بیٹی کلثوم دشمنوں سے مخاطب ہو کر فرماتی ہے اے لعینو! تمہیں شرم نہیں آتی کہ خاندان رسالت کی بیبیوں کے سروں پر مناسب پردہ بھی نہیں تم دیکھنے جمع ہوگئے ہو! شہزادی زینب یزید کے دربار میں یذید سے مخاطب ہوکر فرماتی ہیں۔ "يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا" اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تونے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ 14
توحید کا درس:
ایک جملے میں حادثہ کربلا بیان کریں تو یہ ہوگا کربلا معارف اسلامی اور اسلامی اعتقادات سے بھری ایک مکمل کتاب ہے سب سے اہم ترین درس، کربلا میں درس توحید ہے امام حسین نے اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو لکھے گئے وصیت نامے میں سب سے پہلے خدا کی وحدانیت، رسول کی رسالت اور قیامت کے برحق ہونے کی شہادت دی، اس کے بعد اپنے جانے کے مقصد کو بیان فرمایا اس عظیم قربانی کے موقع پر آپ اور آپ کے باوفا ساتھیوں نے یہ واضح کیا کہ اگر امر دائر ہو جائے رضائے الہی اور رضائے غیر خدا میں، تو غیر الہی امور سے چشم پوشی و نظر انداز کر کے رضائے الہی کو حاصل کرنا دنیا کے تمام موحدین کے لئے عاشورا کا جاودانہ درس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
(1) بحارالانوار، ج45، ص51، مقتل خوارزمی ج2، ص32
(2) بحارالانوار، ج44، ص 192، مناقب شہر آشوب ج4، ص75
(3) شکوفائی عقل در پرتو نہضت حسنی اسرار ص 83
(4) موسوعہ امام؛ حسین ص 425، ح 412
(5) تاریخ طبری ج4، ص 304، بحار، ج44، ص 382
(6) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص53
(7) لہوف ص53، مثیرالاحزان 21
(8) معانی الاخبار ج3، ص288
(9) زیارت اربعین، مفاتیح الجنان
(10) زیارت حضرت عباس، مفاتیح الجنان
(11) بحار، ج 44، ص 392
(12) سخنان امام حسین از مدینہ تا کربلا، ص363
(13) مقتل خوارزمی ج1، ص184
(14) مقتل ابی مخنف مترجم سید علی محمد موسوی جزایری، قم، انتشارات امام حسن، چ اول، 80، ص 393