سلیمانی

سلیمانی

سردار قاسم سلیمانی شہید صرف 19 سال کی عمر میں دوسرے بہت سے نوجوانوں کی طرح، انقلابیوں اور سپاہ کی طرف راغب ہوئے اور فوج میں ان کا داخلہ ان کی شہرت اور ترقی کی پہلی سیڑھی تھی۔ ان کی زندگی کا پہلا مشن کرمان میں مقیم طیاروں کی حفاظت کرنا تھا۔ بعد میں وہ تربیتی بیرکوں کے کمانڈر بنے اور اسی سال ایران عراق جنگ میں شرکت کی۔ ایران عراق جنگ کے پہلے مشن میں انہیں ثاراللہ فوج کی کمانڈ سونپی گئی۔ جو ایک اہم فوج بن گئی اور جنگ کے خاتمے پر اس کے کمانڈر قاسم سلیمانی تھے۔ سابق کمانڈر محمد علی جعفری کے مطابق شروع میں وہ زیادہ معروف نہیں تھے۔ تاہم، جنگ کے اختتام تک، وہ ایک اعلیٰ درجے کے کمانڈر بن چکے تھے۔ جنگ کے بعد، 8 سال تک انھوں نے انسداد منشیات مشن کی سربراہی کی۔ مگر سب سے اہم مشن جو ان کی زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ رہبر معظم کے فرمان کے مطابق انھیں قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ قدس فورس سپاہ کی بیرون ملک شاخ تھی، جو قاسم سلیمانی کے دور میں ایک بہت بڑی سکیورٹی، ثقافتی اور اقتصادی فوجی تنظیم بن گئی، جس کے تحت شام، عراق، لبنان، یمن، افغانستان اور فلسطین میں درجنوں ملیشیا گروپس بنے۔ پچھلی دہائی میں قدس فورس کی سرگرمیوں کا سب سے اہم پہلو سیاسی سرگرمیاں تھیں، قاسم سلیمانی کی ترقی اور شہرت ان کے کردار اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا نتیجہ تھی۔

مشرق وسطیٰ میں سیاسی کشیدگی اور شام میں بڑی علاقائی جنگ کے دوران قاسم سلیمانی کو خطے میں آیت اللہ خامنہ ای کے وزیر خارجہ کے طور پر جانا جانے لگا۔ قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی نے خود کو دنیا میں اسرائیل کے نمبر ایک دشمن کے طور پر متعارف کرایا، ایرانی سپاہ کی قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے امریکی حکومت کیخلاف اپنے طنز کا دائرہ بڑھا دیا۔ وہ شام اور عراق کی جنگوں میں ایران کے پہلے کمانڈر تھے، انہوں نے داعش کے کیس کو ہینڈل کیا اور ان کا خاتمہ کیا۔ عراق میں اماموں کے مزارات کی تعمیر نو کی صورت میں عراق اور ایران کے درمیان اربوں ڈالر کے بڑے اقتصادی اور تعمیراتی منصوبوں پر کام کیا، عراق کے بحران کو حل کرنیوالے نظام میں اہم ذمہ داری ادا کی۔ کردستان کی آزادی ہو، عراقی وزرائے اعظم کی تقرری اور خطے کے دوسرے بہت سے اہم واقعات اور فیصلے، یہ سب ان کے نام سے جڑے ہوئے تھے اور ان سب چیزوں کی وجہ سے وہ پچھلے چالیس سالوں میں ایرانی فورس کے سب سے اہم کمانڈر بن چکے تھے۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز "ذوالفقار" سے نوازا گیا۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جنرل سلیمانی پہلے شخص ہیں، جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔

قاسم سلیمانی کو بین الاقوامی شہرت دینے والے کردار نے انہیں ایک کرشماتی شخصیت بنا دیا تھا۔ قاسم سلیمانی کی تصویر ٹی شرٹس سے لے کر کمپیوٹر گیمز تک سب سے اوپر تھی اور ایرانی فورس کے سب سے مقبول چہرے کے طور پر ان کا نام سرفہرست تھا۔ سپاہ قدس کے کمانڈر افغانستان میں بھی فعال تھے۔ بعض مجاہدین کے بقول، وہ بارہا طالبان اور القاعدہ سے جنگ کے سلسلہ میں افغانستان کا سفر کرتے تھے۔ اسی طرح سے انہوں نے داخلی جنگ کے بعد افغانستان کی باز سازی کے سلسلہ میں بہت سے اقدام انجام دیئے ہیں۔ افغان فوجیوں کے مطابق ان کی شخصیت میں ایک اپنا پن تھا۔ وہ افغان اتحادیوں کیساتھ احترام سے پیش آتے تھے اور بلا تکلف ان کے دسترخوان پر بیٹھ جاتے تھے۔ انہیں کردستان کی داخلی جنگ، ایران عراق جنگ اور ایران و افغان سرحدوں پر منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے گروہوں سے مقابلے کا بڑا تجربہ تھا۔ اسرائیل کے لبنان پر حملے اور 33 روزہ جنگ  کے دوران قاسم سلیمانی بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی کمانڈ کے طور پر کنٹرول روم میں موجود رہے۔

قاسم سلیمانی عراق اور شام میں داعش کیخلاف برسر پیکار رہے۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں امن و امان کی بحالی کیلئے اس گروہ کے ساتھ مقابلہ شروع کیا اور داعش کو عراق سے نکال باہر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ 21 نومبر سنہ 2017ء کو جنرل قاسم سلیمانی نے خط میں آیت اللہ خامنہ ای کی خدمت میں داعش کی نابودی کا اعلان کیا۔ جو ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ سنہ 2019ء میں امریکی اخبار فارن پالیسی نے اپنے ایک خصوصی شمارہ میں، جس میں وہ ہر سال دنیا بھر کے 100 بہترین دانشمندوں کے نام تعارف کے طور پر شائع کرتا ہے، جنرل قاسم سلیمانی کا نام دنیا کے 10 منتخب دفاعی امنیتی مفکروں میں شامل کیا۔ قاسم سلیمانی کے اوپر کئی بار جان لیوا حملے کئے گئے۔ پہلی بار سنہ 1982ء میں ایک ڈاکٹر نے مشہد شہر میں ان پر جان لیوا حملہ کیا۔ اسی طرح کرمان شہر میں قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے افراد کو گرفتار کیا گیا اور بالآخر جنرل قاسم سلیمانی نے 3 جنوری 2020ء کو ایک دہشت گردانہ امریکی ڈرون حملے میں شہادت پائی۔ یہ حملہ ان کی گاڑی پر اس وقت کیا گیا، جب وہ بغداد ایئرپورٹ سے نکل رہے تھے۔ اس حملہ میں ان کیساتھ عراق کی رضاکار فورس کے نائب ابو مہدی المہندس سمیت بعض دیگر افراد بھی شہید ہوئے۔ اس حملے کے کچھ دیر بعد امریکی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ قاسم سلیمانی کی گاڑی پر حملہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حکم سے کیا گیا ہے۔

آپ کی شہادت پر دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ مختلف ممالک میں مظاہرے و احتجاج ہوئے اور ان کی یاد اور تعزیت میں ایران کے علاوہ پوری دنیا میں پروگرامز اور تعزیتی جلسے منعقد ہوئے۔ مختلف ممالک کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ان کی شہادت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تعزیتی پیغامات دیئے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے تعزیتی پیغام میں آپ کو مقاومتی بلاک کی بین الاقوامی شخصیت قرار دیا اور آپ کی شہادت کی مناسبت سے ایران میں تین دن سوگ کا اعلان کیا۔ اسی طرح مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر، اگنیس کالامرڈ۔(Agnès Callamard) نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کے قتل کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکہ کے مورخ ایروند ابراہمیان (Ervand Abrahamian) نے کہا کہ کہ اس سانحے سے پہلے ایرانی، امریکہ کو ایک سازش کار حکومت سمجھتے تھے، اس حادثے کے بعد سے ایک دہشت گرد حکومت بھی سمجھیں گے۔

قاسم سلیمانی کی شہادت کے نتیجے میں بعض اثرات و نتائج سامنے آئے:
قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کے بعد، عراق کی سیاسی پارٹیوں اور عوام نے امریکہ کی فوج کو عراق سے نکالنے کا مطالبہ کر دیا اور عراقی پارلیمنٹ نے 5 جنوری 2020ء میں ایک فوری جلسہ بلایا اور اس میں عراق سے امریکہ کی فوج کے انخلاء کا بل پاس کیا۔ 8 جنوری 2020ء کو ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے قاسم سلیمانی کے قتل کے بدلے میں امریکی فوج کے عراق میں عین الاسد ائیربیس پر میزائلوں سے حملہ کیا اور امریکہ کے سپر پاور کے دعوے کو ایران نے چکنا چور کر دیا، جب اس کے جدید ترین آلات ایرانی میزائل سے بے خبر اور ان کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہ گئے تھے۔ جس سے پوری دنیا میں امریکہ کی خوب جگ ہنشائی ہوئی۔ جمہوری اسلامی ایران کے کیلینڈر میں اس دن کو روز جہانی مقاومت کے عنوان سے ثبت کیا گیا ہے۔

قاسم سلیمانی شہید ساری زندگی حضرت زہراء سلام اللہ علیھا سے توسل کرتے رہے اور ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لئے ان کی شہادت کے ایام اور تدفین بھی ایام فاطمیہ سے جُڑ گئی۔ یہ ان کی عظیم شہادت کیلئے سعادت اور قبولیت کی بات ہے۔ قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کی تاریخی تشیع جنازہ عراق کی سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوام کی کثیر تعداد کی موجودگی میں عراق کے شہر بغداد، کربلا اور نجف میں ہوئی۔ اس کے بعد شہداء کے جنازے ایران منتقل ہوئے اور اہواز، مشہد، تہران اور قم میں تشییع جنازہ ہوئی۔ تہران میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور دیگر شہداء کے جنازے پر نماز جنازہ پڑھائی اور قاسم سلیمانی شہید کے تشییع جنازہ کو امام خمینی کے بعد تاریخ کا سب سے بڑا تشییع جنازہ قرار دیا۔ سپاہ پاسدار انقلاب اسلامی کے ترجمان کے مطابق 25 ملین لوگوں نے تشییع جنازہ میں شرکت کی۔

یوں شہید سردار قاسم سلیمانی کیساتھ ایک مسلسل جدوجہد کا عہد تمام ہوا، لیکن ان کا کردار ہمیشہ کیلئے زندہ رہ گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ اگر زندہ رہتے تو جو ایک کام باقی رہ گیا تھا، وہ بھی پورا ہو جانا تھا اور وہ تھا قدس کی آزادی۔ خدا کو یہی منظور تھا۔ لیکن بحیثیت مسلمان میرا یہ عقیدہ ہے کہ قدس کی آزادی کیلئے ان شاء اللہ وہ کسی اور سلیمانی کو جلد ہی بھیج دے گا۔ قاسم سلیمانی ایک ایسا مسلمان مجاہد لیڈر تھا، جس کے نام سے دشمن اسلام لرز اٹھتا تھا۔ عالم اسلام کے دشمنوں نے اسے دہشت گرد قرار دیا، لیکن وہ عالم اسلام کا حقیقی شہید او ہیرو تھا۔ آج دشمن ان کے نام والی پوسٹ کو سوشل میڈیا سے تو ہٹا سکتا ہے، بلاک کرسکتا ہے، لیکن قاسم سلیمانی کے کردار اور شخصیت نے عالم اسلام کے دلوں میں جو گھر بنایا ہے، اسے کبھی بھی نہیں مٹا سکتا۔ کبھی بھی نہیں۔

تحریر: شبیر احمد شگری

اب بھی قاسم سلیمانی کا نام دشمنوں کے دل میں رعب اور وحشت ڈال دیتا ہے۔ وہ تزویراتی منصوبہ بندی، بصیرت اور سوچ و ایمان کے ذریعے دشمنوں کا مقابلہ کرنے جیسے اصولوں کی بنیاد پر "مکتب سلیمانی" ایجاد کرنے میں کامیاب رہے۔ دشمنوں کو نابود کرنے والا شہر کے دور ترین حصے سے آیا۔ وہ مکتب امام خمینی رح کے نور کا ایک حصہ تھا جو ظالموں پر کسی قسم کا رحم یا نرمی نہیں دکھاتا تھا۔ اس کا دل حیدری شجاعت سے لبریز تھا۔ وہ دہشت گردوں کے مقابل ڈٹ گیا اور انہیں نیست و نابود کر ڈالا۔ اس نے حسینی جذبے سے غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں مزاحمت کی اور ناقابل شکست ہونے کی دعویدار فوج کے مقابلے میں فتح یاب ہوا۔ آج جنوبی لبنان اور اس کے جنوب میں واقع مقبوضہ فلسطین، شام اور عراق اس کی کامیابیوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔
 
شہید قاسم سلیمانی دنیا بھر سے ہزاروں جوانوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان جوانوں نے ان کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ان کی تعلیمات کو عملی شکل عطا کی۔ وہ ان تمام جوانوں کے رہبر اور رول ماڈل تھے۔ شہید قاسم سلیمانی ایک شجاع ہیرو اور عظیم لیڈر تھے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں حق کا پرچم لہرایا۔ جولائی 2006ء میں غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے دوران لبنان کے جنوبی گاوں اور محلے ان کی جدوجہد کے گواہ ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ وہ فتح کے معمار اور جنوبی لبنان کی واضح کامیابی کے بانی تھے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ ان کے بارے میں کہتے ہیں: "وہ مصیبت کے وقت حاضر ہونے والا شخص تھا۔ مشکل دنوں میں، جیسے 2006ء میں 33 روزہ جنگ تموز کے دوران وہ تہران سے دمشق آئے۔"
 
سید حسن نصراللہ مزید کہتے ہیں: "انہوں نے ہم سے رابطہ کیا اور کہنے لگےکہ میں جنوبی حصے میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ تمام پل تباہ ہو چکے ہیں، سڑکیں صیہونی بمباری کے نتیجے میں بند ہو چکی ہیں، صورتحال مکمل طور پر جنگی ہے اور ضاحیہ یا بیروت پہنچنا ناممکن ہے۔ لیکن انہوں نے بہت اصرار کیا اور کہا کہ اگر آپ میرے لئے گاڑی نہیں بھیجتے تب بھی میں آپ کے پاس آ جاوں گا۔ انہوں نے اصرار کیا اور آخرکار ضاحیہ پہنچ گئے اور کافی عرصہ ہمارے پاس رہے۔" شام میں، اس ملک کے خلاف عالمی جنگ کے دوران، شہید قاسم سلیمانی نے جنگ کیلئے رابطہ مہم چلانے، جنگ کی مدیریت کرنے اور پشت پناہی کرنے کیلئے اعلی درجہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ وہ ہمیشہ فرنٹ لائن پر تھے اور انہوں نے دفاعی جنگ کی حتمی فتح تک قیادت کی۔ ہم حتی روس میں انہیں دیکھتے ہیں۔
 
وہ اڑھائی گھنٹے تک روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں اسلامی مزاحمتی بلاک کی اسٹریٹجی سے آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سابق چیف کمانڈر اور آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر اعلی رحیم صفوی نے بتائی ہے۔ اسی طرح عراق کے علاقے کردستان میں شہید قاسم سلیمانی کے عظیم کارناموں کا ذکر ضروری ہے۔ انہوں نے وہاں داعش کو شکست دی اور کردستان انتظامیہ نے اس بارے میں کہا کہ اگر قاسم سلیمانی نہ ہوتے تو کردستان داعش کے قبضے میں چلا جاتا۔ جب ہم یہ تمام واقعات بیان کرتے ہیں تو ہمیں ماضی کو حال سے جوڑنا چاہئے اور یہ بھی بیان کرنا چاہئے کہ شہید قاسم سلیمانی نے کس طرح دسمبر 2017ء میں رہبر معظم انقلاب کو پیغام دیا کہ ہم نے شام اور عراق میں داعش کو شکست دے دی ہے۔
 
اور کس طرح اسی وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے ایران میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن آخرکار شہید قاسم کی دعا، نیک شہداء کے درجات میں بلندی اور رہبر معظم انقلاب کی آگاہی کی بدولت ایران دشمنوں کی تمام سازشوں پر غالب آ گیا۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی کے شجاعانہ اقدامات کا ذکر کرتے ہیں تو کیسے فلسطین سے ان کے عشق اور فلسطین کی آزادی کیلئے ان کی قربانیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟ تمام مجاہدین اور دنیا کے تمام حریت پسند انسانوں نے ان قربانیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ فلسطین میں مزاحمتی کمیٹیوں کے کمانڈر محمد البریم ابومجاہد کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی "امریکی صیہونی استکبار" کے خلاف جدوجہد اور مقابلے کی علامت تھے۔ وہ دنیا کے تمام آزادی پسند انسانوں کیلئے شجاعت اور فتح کی علامت ہیں۔ ابومجاہد مزید کہتے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے صیہونی رژیم کی بقا کیلئے عظیم چیلنج ایجاد کیا۔
 
اور وہ خطے پر قبضے اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار پر مبنی امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے مقبوضہ فلسطین میں مجاہدین تک اسلحہ پہنچانے اور اسلامی مزاحمت کی کامیابی کیلئے حکمت عملی تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ نومبر 2019ء میں دہشت گردی کو شکست دینے میں ان کی عظیم خدمات کی خاطر انہیں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا اعلی ترین میڈل یعنی ذوالفقار میڈل عطا کیا گیا۔ کیا وہ ایسا فرشتہ نہیں تھے جو ہمارے پاس آتا جاتا تھا؟ جیسا کہ امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے ان کی قبر میں رکھنے کیلئے اپنی عبا، جس میں انہوں نے چودہ سال تک نماز شب ادا کی تھی، اپنی ذاتی انگوٹھی، امام حسین علیہ السلام کا پرچم اور شہداء کی جانب سے خط عطا کیا اور ان کے بارے میں فرمایا: شہید قاسم سلیمانی انسان کے روپ میں ملت تھا اور وہ عالمی مزاحمتی بلاک کے شہداء کا سردار ہے۔

تحریر: نسرین نجم (عرب تجزیہ نگار)

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) شام میں امریکی دہشت گرد فوج کے غیر قانونی فوجی اڈے پر راکٹوں سے ایک بار پھر حملہ ہوا ہے ۔

روسی خبررساں ایجنسی اسپوتنک کی رپورٹ کے مطابق امریکی دہشت گردوں کے اڈے پر راکٹوں سے حملہ ہوا ہے ۔ امریکہ کا یہ فوجی اڈہ شام کے صوبے دیرالزور میں واقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اس فوجی اڈے پر کئی راکٹ فائر کئے گئے۔ راکٹ حملوں کے بعد دھماکوں کی شدید آوازیں سنائی دیں۔

امریکہ کے فوجی اڈے میں راکٹ حملے سے ابھی تک مالی اور ممکنہ جانی نقصان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔

23 نومبر کو بھی العمر آئل فیلڈ پر حملہ ہوا تھا۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران شمالی شام میں العمر آئل فیلڈ کے علاقے میں قائم امریکی غیر قانونی فوجی اڈہ بارہا راکٹ حملوں کی زد پر رہا ہے۔

شامی حکومت بارہا یہ واضح کر چکی ہے کہ مشرق اور شمال مشرقی شام کے علاقوں میں غیر قانونی طور پر موجود امریکی فوجیوں اور انکے حمایت یافتہ سیرین ڈیموکریٹک فورس (ایس دی ایف) نام سے موسوم دہشتگرد گروہ کا مقصد تیل کے ذخائر لوٹنے کےعلاوہ کچھ بھی نہیں اور ان کا یہ غیر قانونی سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز دیرالزور ہی کے علاقے میں محنت کشوں اور مزدوروں کی حامل تین بسوں پر دہشت گردانہ حملے میں بارہ افراد جاں بحق و زخمی ہوگئے تھے۔ شامی حکومت نے اس دہشتگردانہ حملے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیا تھا۔

تہران، ارنا - بغداد میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر نے کہا ہے کہ دہشت گردی اور اس کی سازشوں کو شکست دینے میں دو شہیدوں جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی سرگرمیاں اور کردار ناقابل فراموش ہے۔

یہ بات محمد کاظم آل صادق نے جمعہ کے روز عراقی صوبے نینوا میں جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت کی تیسری سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ان شہید کمانڈروں نے دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلیے بہت کوششیں کی ہیں۔ شہید سلیمانی داعش کے حملے کے ابتدائی لمحات میں عراق گئے۔

ایرانی سفیر نے بتایا کہ عراق میں ایران کے سفیر نے مزید کہا کہ جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کی جدوجہد ناقابل فراموش ہے کیونکہ انہوں نے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنایا۔

آل صادق نے کہا کہ جنرل سلیمانی نے دہشت گردی کے خلاف مزاحمت اور جنگ کے لیے ایک تحریک کو بنایا جس سے خطے کے بہت سے بچے فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔

تین سال پہلے 3 جنوری کی صبح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سابق چیف کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، عراق میں داعش کے خلاف نبرد آزما حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابومہدی المہندس اور ان کے چند دیگر ساتھیوں کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب امریکی ڈرون طیارے کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ یہ حملہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم پر دہشت گرد امریکی فوج نے انجام دیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کاروائی میں امریکی فوج کو علاقائی ایجنٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی المہندس ایران اور عراق کے باقاعدہ سرکاری عہدیداران تھے لہذا امریکہ کی یہ دہشت گردانہ کاروائی تمام بین الاقوامی قوانین اور اور مقررات کی کھلی خلاف ورزی تھی۔

اکثر تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ نے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کنٹرول کرنے میں امریکیوں کی کمزوری اور بے چارگی مزید عیاں کرنے کے علاوہ خطے میں عالمی استکبار کی منصوبہ بندی کو بھی شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ امریکی حکمران گمان کر رہے تھے کہ شہید قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کا نتیجہ خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ رک جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن عوامی محبوبیت کے حامل اس فوجی کمانڈر کی شہادت سے نہ تو اسلامی وحدت کو نقصان پہنچا، نہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی کامیابیوں کا سلسلہ تھما اور نہ ہی مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کی توجہ کے مرکز سے باہر نکلا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شہید قاسم سلیمانی مختلف فوجی اور سفارتی محاذوں پر فعالیت انجام دینے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ میں وحدت اور مسئلہ فلسطین کی بھی بھرپور حمایت کرتے رہتے تھے۔

شہید قاسم سلیمانی اس بات پر پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مسئلہ فلسطین اصل میں امت مسلمہ کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور جہاں تک ممکن ہو بھرپور توانائی سے اس کی حمایت کرنی چاہئے۔ لہذا انہوں نے قدس شریف اور مقبوضہ فلسطین کو آزاد کروانے نیز غاصب صیہونی رژیم کے مکمل خاتمے اور خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت اور اتحاد ایجاد کرنے کو اپنا بنیادی ترین اصول بنا رکھا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی کا عقیدہ تھا کہ مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان وحدت کا فروغ، خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تقویت کا باعث بنتا ہے اور اگر اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان یہ وحدت قائم ہو جاتی ہے تو خطے میں امریکی مداخلت بند ہونے کے ساتھ ساتھ مجرم صیہونی رژیم کی کانپتی بنیادیں مزید کمزور ہو کر آخرکار نابود ہو جائیں گی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہید قاسم سلیمانی نے مختلف اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کے درمیان اتحاد اور وحدت کی فضا قائم کر کے اسلامی دنیا کو ایک ایسے راستے پر لگا دیا ہے جو متحدہ محاذ کی جانب گامزن ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خطے اور دنیا کے اہلسنت اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی اور وحدت پیدا ہو چکی ہے۔ اب یہ امید پیدا ہو چکی ہے کہ خداوند متعال کی خاص عنایت کے نتیجے میں امت مسلمہ عنقریب نئی اسلامی تہذیب و تمدن تشکیل پا سکے گی اور عظیم کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہو جائے گی۔ اگرچہ امت مسلمہ کی دشمن قوتیں اس میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں لیکن علماء اسلامی کی بیداری اور ہوشیاری کے نتیجے میں یہ سازشیں بے اثر ہو جائیں گی۔

غاصب صیہونی رژیم کے خلاف لبنان کی 33 روزہ جنگ اور فلسطینی مجاہد گروہوں کی جنگوں میں کامیابی نیز عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی نام نہاد خلافت کا خاتمہ، خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی باتوں کا آغاز اور اسلامی فرقوں اور اسلامی مزاحمتی گروہوں میں اتحاد اور وحدت کی فضا کا قیام شہید قاسم سلیمانی کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور یہ تمام کامیابیاں عنقریب اسلامی تہذیب و تمدن کے قیام کی نوید دے رہی ہیں۔ یہ تمام کامیابیاں، شہید قاسم سلیمانی کی مخصوص ہدایات کے زیر سایہ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ لیکن امریکی حکمران اس بات سے غافل تھے کہ اسلام جیسے عظیم مکتب میں شہادت وحدت اور نجات کا باعث بنتی ہے اور شہداء کا خون اسلامی دنیا کا مستقبل روشن کر دیتا ہے۔

دین مبین اسلام کے آغاز سے ہی یہ حقیقت قابل مشاہدہ ہے کہ کس طرح شہدائے اسلام کا خون مسلمانوں اور دنیا بھر کے حریت فکر رکھنے والے انسانوں کی ہدایت اور ان میں وحدت کی فضا قائم ہونے کا باعث بنا ہے۔ اگر امریکی دہشت گرد اور خطے میں ان کے ایجنٹ اس حقیقت سے باخبر ہوتے کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ یوں قومی اور علاقائی وحدت کا باعث بن جائے گی اور شہید قاسم سلیمانی ایرانیوں اور امت مسلمہ کیلئے ایک ہیرو میں تبدیل ہو جائیں گے تو وہ ہر گز یہ مجرمانہ اقدام انجام نہ دیتے۔ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطے کے تمام اسلامی مزاحمتی گروہ آہنی عزم اور ارادے کے ساتھ امریکہ کے مقابل آن کھڑے ہوئے ہیں اور پوری طاقت سے امریکہ سے انتقام کے خواہاں ہیں۔ اسی طرح وہ خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کیلئے بھی پرعزم ہیں۔ لہذا شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے خون کا سب سے بڑا اثر مسئلہ فلسطین کی مرکزیت میں امت مسلمہ کا متحد ہو جانا ہے۔تحریر: سیروس فتح اللہ

 
کس قلم یا بیان میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا وصف بیان کرنے کی صلاحیت ہے؟ وہ فاطمہ س جو آیت "تطہیر" میں ہر قسم کی نجاست سے پاکیزہ واحد خاتون قرار پائی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو واقعہ "مباہلہ" میں پیغمبر اکرم ص، امام علی ع، امام حسن ع اور امام حسین ع کے ہمراہ واحد خاتون تھیں۔ وہ فاطمہ س جو سورہ کوثر میں خیر کثیر ہیں اور خداوند متعال کی جانب سے پیغمبر عظیم الشان ص کو خاص عطیہ ہیں۔ وہ فاطمہ س جو قرآن کریم کے بقول "یطعمون الطعام علی حبه" اور اپنی اور اپنے اہلخانہ کی افطاری مسلسل تین دن تک مسکین، یتیم اور اسیر کو بخشنے والی ہیں۔ وہ فاطمہ س جو رسول اکرم ص کے بقول "ام ابیہا" ہیں۔ وہ فاطمہ س جو ہر حال میں نبوت کی حامی تھیں اور پیغمبر اکرم ص کی مطیع اور ہمراہ تھیں۔
 
وہ فاطمہ س جن کی کائنات کی برترین ہستی اور حبیب خدا حضرت محمد مصطفی ص کی نظر میں ایسی قدر و منزلت تھی کہ جب بھی آتیں آنحضور ص اٹھا کر ان کا احترام کرتے، ان کی جانب بڑھتے اور ان کی پیشانی اور ہاتھوں پر بوسہ دیتے تھے۔ وہ فاطمہ س جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی واحد "کفو" تھیں اور انے کے قرآنی طرز زندگی نے جنت کے جوانوں کے سردار حسنین شریفین علیہما السلام جیسے بچوں کی تربیت کی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسی بے مثال بیٹی کو پالا۔ وہ فاطمہ س جو اپنی انفرادی، گھریلو اور اجتماعی زندگی میں قرآن کریم کا مجسم نمونہ تھیں۔ فاطمہ س وہی بے مثال گرانقدر خاتون ہیں جن کے والد عالم ہستی کے برترین باپ، حبیب خدا، خاتم النبیین اور رحمت للعالمین ہیں۔ وہ فاطمہ س جن کے شوہر قرآن ناطق، پیغمبر ص کی جان، ساقی کوثر، دوزخ اور بہشت تقسیم کرنے والے اور امیرالمومنین ہیں۔
 
وہ فاطمہ س جن کے بچے حسن و حسین اہل بہشت جوانوں کے سردار اور ام کلثوم اور زینب زہد و تقوی اور پاکدامنی و حیا کا مظہر ہیں۔ لہذا علی ع و فاطمہ س کی الہی تربیت کے نتیجے میں حضرت زینب س "پیغمبر کربلا" کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ فاطمہ س خدا پر پختہ عقیدہ رکھنے والی قرآن کے علوم سے آگاہ وہ جلیل القدر خاتون ہیں جنہوں نے رسول اکرم ص کی وفات کے بعد بھی نبوت اور نبوی میراث کی حمایت کا پرچم زمین پر نہیں گرنے دیا اور حقیقی محمدی ص اسلام یعنی امامت و ولایت کی حمایت جاری رکھی۔ جناب صدیقہ طاہرہ س نہ صرف مسلمان خواتین کیلئے مکمل اسوہ ہیں بلکہ ہر اہل معرفت، بصیر، حق مدار اور حق طلب انسان کیلئے مکمل رول ماڈل ہیں۔ وہ فاطمہ س جس نے خاتم الانبیاء ص کی رحلت کے بعد فتنوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے دور میں حق کی آواز بلند کی۔
 
وہ فاطمہ س جس نے رحلت رسول اکرم ص کے بعد خدا پر پختہ ایمان کے ساتھ حق کا ساتھ دیتے ہوئے انتہائی شجاعانہ انداز میں شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی حمایت کا پرچم بلند کیا۔ وہ پرچم جسے بلند رکھنے پر خود رسول خدا ص بارہا تاکید کر چکے تھے اور خداوند حکیم کا وہ اہم حکم جو رسول خدا ص کی جانب سے علی علیہ السلام کی وصایت، امامت اور ولایت کے اعلان، ابلاغ اور وصیت پر مبنی تھا اور خداوند متعال نے اس اعلان کو رسول خدا ص کی پوری رسالت کے ہم پلہ قرار دیا تھا۔ اور اس حکم کے اعلان اور ابلاغ کے بعد خداوند منان نے آیہ کریمہ "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔" نازل فرمائی تاکہ امامت، ولایت اور پیغمبر ص کے بعد ان کی جانشینی کی اہمیت پر تاریخ بھر کیلئے ہمیشگی گواہ بن جائے۔
 
حضرت زہرا س جنہوں نے اس پرچم کو اونچا رکھنے کیلئے کس قدر مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں۔ وہ پرچم جو صراط مستقیم کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو آئین محمدی ص اور سنت نبوی ص کی بقا کا پرچم ہے۔ وہ پرچم جو ہر قسم کے انحراف سے دوری اور امامت و ولایت کے راستے کی جانب ہدایت کا پرچم ہے۔ حضرت صدیقہ طاہرہ س عالم ہستی کا عظیم راز اور شب قدر کی حقیقت ہیں اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں ان کے مقام کی عظمت بے مثال ہے۔ انہوں نے نبوت و امامت و ولایت کی حامی کے روپ میں ایک لمحے کیلئے بھی اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ حتی اس وقت جب ان کے گھر کا دروازہ جلایا گیا۔ وہ دروازہ جس پر کبھی رسول خدا ص دستک دیا کرتے تھے اور اس گھر والوں پر سلام بھیجتے تھے۔
 
ظلم و ستم سے اس عظیم خاتون کا پہلو توڑ دیا گیا اور رسول خدا ص کی بیٹی کی بے حرمتی کی گئی اور حتی اس کا گریہ بھی برداشت نہیں کیا گیا جو البتہ مزاحمت، احتجاج اور حق طلبی کا گریہ تھا۔ لیکن فاطمہ س ہمیشہ تک "راہ" بھی ہے، "نشانی" بھی ہے، "رہنما" بھی ہے، "رہبر" بھی ہے اور مزاحمت کا رول ماڈل بھی ہے۔ جب تک ان کی سانسوں میں سانس تھا وہ حق طلبی، انصاف طلبی، دین محمدی ص، سنت نبوی ص اور امامت و ولایت امیرالمومنین علی ع سے پیچھے نہیں ہٹیں۔ حتی انہوں نے امام علی ع کو وصیت کی کہ رات کو غسل دیا جائے، رات کو جنازہ اٹھایا جائے اور ان پر ظلم و ستم کرنے والوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دی جائے۔ ان کی چھپی ہوئی قبر امام مہدی عج کے قیام تک حق محوری اور نبوت و امامت کی حمایت کا پرچم بنی رہے گی۔
اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها و سرالمستودع فیها بعدد ما احاط به علمک
 
 
 

 امریکا کی 60 فیصد آبادی کو موسم سرما کے بدترین اور سرد ترین طوفان کی وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔

امریکا میں موسم سرما کا بڑا طوفان، لاکھوں افراد بجلی سے محروم، سیکڑوں پروازیں معطل

 

ریاست مونٹانا، جنوبی ڈکوٹا اور  وائیومنگ میں درجہ حرارت منفی 45 تک گر گیا، نیویارک، جارجیا،کینٹکی، اوکلاہوما سمیت کئی امریکی ریاستوں میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے، مختلف حادثات میں ہلاکتوں کی تعداد 19ہوگئی ہے۔

بد ترین برفانی طوفان سے ملک بھر میں 8 ہزار سے زائد پروازیں منسوخ اور 25 ہزار سے زیادہ تاخیر کا شکار ہوئیں، سڑکوں پر پھسلن سے درجنوں گاڑیاں حادثات کا شکار ہوئیں، 15 لاکھ سے زیادہ افراد کو بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔

طوفان کے باعث نیوانگلینڈ، نیویارک، نیوجرسی کے ساحلی علاقوں میں سیلابی کیفیت پید اہوگئی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی
 

نیویارک سٹی میں ساحلی علاقوں کی سڑکیں زیر آب آنے سے پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں کئی انچ پانی میں ڈوب گئیں، متاثرہ ساحلی علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات نے مشرقی ریاستوں میں اتوار تک خطرناک سردی کی شدت برقرار رہنے کی پیشین گوئی کی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی
 

امریکی میڈیا کے مطابق کئی مشرقی ریاستوں میں دہائیوں بعد سرد ترین کرسمس منایا جائےگا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے موسم کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے عوام سے کہا ہے کہ وہ مقامی حکام کی وارننگ پر عمل کریں۔

امریکا کے علاوہ کینیڈا کے مشرقی حصے کو بھی شدید سردی اور برف باری کا سامنا ہے، ٹورنٹو میں بھی متعدد پروازیں منسوخی یا تاخیر کا شکار ہیں۔

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ جارح سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف وحشیانہ جارحیت اور اس ملک کا ظالمانہ محاصرہ جاری رکھے جانے سے یمن میں مختلف قسم کی شدید ترین بیماریان پھیل رہی ہیں۔

المسیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یمن کی نیشنل سالویشن حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نجیب القباطی نے اعلان کیا ہے کہ سعودی اتحاد، یمن مین طبی مراکز تک کو جارحیت کا نشانہ بناتا رہا ہے اور وہ دوائیں تک ملک میں منتقل کئے جانے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یمن کے محاصرے سے ملک میں مختلف قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
القباطی نے کہا کہ یمن کے تیل و گیس پر سعودی اتحاد کے قبضے سے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے اور ملک کو شدید ترین بجٹ خسارے اور اقتصادی مسائل کا سامنا ہے۔
اس ترجمان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے انسانی فرائص پر عمل کرے اور یمن پر سعودی اتحاد کی جارحیت بند کرائے۔
اس ترجمان نے کہا کہ یمن میں کورونا سمیت مختلف بیماریوں اور امراض کا مقابلہ کرنے کے لئے دواؤں اور طبی وسائل کی اشد ضرورت ہے۔

سحرنیوز/ایران: ایران کے دفتر خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ بعض عرب و اسلامی ملکوں کی جانب سے تعلقات بنائے جانے کے بارے میں کئے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ غاصب صیہونی حکومت اور اس کے ناجائز اور غیر قانونی ہونے کے بارے میں ایران کا موقف مکل صاف و شفاف ہے۔
انھوں ںے کہا کہ  عرب و اسلامی ملکوں کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کئے جانے سے علاقے میں امن و استحکام اور فلسطینیوں کے حقوق کی بحالی میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
ناصر کنعانی نے کہا کہ فلسطینی، مسلمانان عالم سے اپنے حقوق کی حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ علاقے کی قومیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار کئے جانے کے خلاف ہیں اور انھوں نے اس غاصب حکومت کے ساتھ عرب و اسلامی ملکوں کے تعلقات کا کبھی خیرمقدم نہیں کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امید ہے کہ علاقے میں غاصب صیہونی حکومت کے ناجائز وجود کے خطرے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ علاقے کے بعض ملکوں منجملہ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار کئے ہیں جس پر دیگر عرب و اسلامی ملکوں اور مختلف اقوام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے آج قم المقدسہ میں مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) میں افغانستان کی شیعہ علماء کونسل کے اراکین کے منعقدہ اجلاس میں افغانستان میں اس کونسل کی اہمیت اور اسے مزید تقویت دینے پر روشنی ڈالی، اور افغانستان میں مکتب اہل بیت (ع) کو مزید وسعت دینے پر کی تاکید کی۔

انہوں نے اپنی تقریر کے شروع میں ایام فاطمیہ پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: حضرت زہرا (س) کا شیعوں پر حق حاصل ہے، جیسا کہ مرحوم آیت اللہ فضل لنکرانی نے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی کہ شیعوں پر حضرت زہرا (س) دو بڑے احسان ہیں: پہلا یہ کہ ائمہ معصومین علیہم السلام حضرت زہرا (س) کی اولاد ہیں جن کی بدولت آج حقیقی اسلام ہم تک پہنچا ہے، اور دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد آپ نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حمایت کی۔

مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام کے سربراہ نے کہا: آج شیعہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، خواہ ایران، افغانستان یا دنیا کے دیگر حصوں میں ہوں، سب حضرت صدیقہ طاہرہ (س) کی بدولت ہیں اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں شیعہ حضرت زہرا (س) کی برکت سے روز بروز کامیاب ہوتے جائیں گے۔

آیت اللہ فاضل لنکرانی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے افغان شیعہ علماء کونسل کی اہمیت و حیثیت پر گفتگو کی اور کہا: واضح ہے کہ یہ کونسل پاک اور خالص نیت اور مکمل تدبیر کے ساتھ تشکیل دی گئی تھی اور آج اس کونسل کے ثمرات پہلے سے کہیں زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں افغانستان میں شعائر شیعہ پر خصوصی توجہ دینے کی تاکید کی اور کہا: خیال رہے کہ اس ملک میں شعائر شیعہ ختم نہ ہو جائیں، ایام فاطمیہ میں مجالس عزا اور عزاداری کا اہتمام کریں، اور دوسری مناسبتوں جیسے محرم، صفر وغیرہ میں بھی مذہبی تقریبات کو زیادہ سے زیادہ منعقد کریں۔