سلیمانی

سلیمانی

ایکنا -  میڈل ایسٹ آئی کے مطابق پارلیمنٹ میں سال 2032 کے لیے فنڈ میں مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کی گیی ہے۔

یہ وہی جگہ ہے جہاں مودی سرکار خود کو مسلمان خواتین کے لیے نجات دہندہ پیش کرتی ہے درحالیکہ انکے سیاسی اور اجتماعی حقوق ضائع کیے جارہے ہیں۔

اقلیتوں کے فنڈ میں کمی سے اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے انکے اسکولوں کو ملنے والی رقم میں کمی ہوگی۔

حجاب سے لیکر کام کرنے، ہر جگہ مسلمان خواتین خطروں سے دوچار ہیں اور حکومتی دعوں کے برعکس مسلمان خواتین مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔

 

اگلے سال کے لیے اقلیتوں کے لیے فنڈ کو ۲۵۱۵ کروڑ روپیہ سے کم کرکے ۱۶۸۹ کروڑ کردی گیی ہے اور ٹیکنکل شعبوں میں بھی فنڈ کو خطرناک حد تک کم کردی گیی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دسمبر میں بھی مولانا آزاد تعلیمی فنڈ کو ختم کرنے کا اعلان ہوا تھا یہ مسلمان تعلیمی مسائل کو کم کرنے کے حوالے سے دس سال قبول منظور کیا گیا تھا۔

انڈیا میں مسلم طبقہ پہلے ہی سے تعلیمی شعبوں میں مسائل کا شکار ہے اور اعلی تعلیمی اداروں میں مسلمان طلبا کو داخلہ یا اسکالرشپ کم ہی ملتا ہے اور مسلم طلبا اکثر غیرسرکاری اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس معمولی امداد میں مزید کمی سے انکی مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔

وزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کاؤنٹرپنچ (CounterPunch.org) نامی ایک امریکی ویب سائٹ نے ایک مضمون شائع کیا ہے اور اس بات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح امریکہ میں میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس ملک میں رہنے والے مذہبی گروہوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ دوہرا سلوک کر رہے ہیں۔

اس آرٹیکل کے مطابق امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور وہاں کا میڈیا بھی مسلمانوں کی جاسوسی کو درست سمجھتا ہے لیکن اگر یہی کام عیسائیوں کے ساتھ کیا جائے تو ان کے مطابق یہ برا کام بن جاتا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والا دہشت گردانہ حملہ درحقیقت اس ملک میں ہونے والا بدترین دہشت گردانہ حملہ نہیں تھا، بلکہ، میری رائے میں، ایک سفید فام عیسائی قوم پرست، ٹموتھی میک ویگ کا اوکلاہوما سٹی کا حملہ زیادہ خطرناک تھا۔ اس شخص کے انتہا پسندوں سے قریبی تعلقات تھے۔

اس امریکی ویب سائٹ کی طرف سے اخذ کردہ نتیجہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں دائیں بازو کا میڈیا عیسائیت کو انتہائی مقدس مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے جب کہ وہ اسلام کو ایک مشتبہ مذہب کے طور پر پیش کرتا ہے۔ وہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں مذہبی کیتھولک کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی کئی خبریں اس سے قبل بھی شائع ہو چکی ہیں۔

سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جارحیت جاری، ایک اور کشمیری نوجوان شہید ہوگیا مقبوضہ وادی کے ضلع پلواما میں قابض بھارتی فوج نے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرکے سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لی۔ اہلکار چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے گھروں میں گھس گئے۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی جب کہ بزرگوں اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران ایمبولینس کو بھی علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ موبائل فون اور نیٹ سروس بھی معطل کردی گئی۔ بھارتی فوج نے ایک گھر پر اندھا دھند فائرنگ کرکے نوجوان کو شہید کردیا۔

،جنیوا میں تخفیف اسلحہ کی کانفرنس کے اعلیٰ سطحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ آج عالمی تخفیف اسلحہ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں بالخصوص جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے بغیر بین الاقوامی اور علاقائی امن و سلامتی کو مستحکم کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے آٹھ دہائیوں بعد جوہری تخفیف اسلحہ کا ہدف تمام بین الاقوامی کوششوں کے باوجود ابھی تک ناپید ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی توسیع کو جاری رکھا ہوا ہے اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاو کے متعلق اپنی ذمہ داری کو بالائے طاق رکھ کر نئی نسلیں تیار کر کے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنایا، جس نے این پی ٹی کو نقصان پہنچایا اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔

انہوں نے کہا کہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ کچھ جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستیں سمجھتی ہیں کہ جوہری عدم پھیلاو کا معاہدہ ﴿این پی ٹی﴾ صرف غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کو پابند بنانے کے لیے ہے نہ کہ خود ان کے لیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقوں کا قیام جوہری تخفیف اسلحہ اور امن و سلامتی کی جانب ایک بنیادی قدم ہے۔ صہیونی ریاست قانونی طور پر پابند بنانے والے کسی بھی بین الاقوامی معاہدے کا حصہ بنے بغیر اور کسی جوابدہی، حفاظتی اقدامات یا تصدیقی طریقہ کار کے تابع ہوئے بغیر امریکی حمایت سے ہر قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ذخیرہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

امیر عبداللہیان نے یہ بھی کہا کہ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس قانون شکن رجیم ﴿صہیونی ریاست﴾ نے تمام بین الاقوامی بنیادی جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن میں اپنے تمام پڑوسیوں کے خلاف جارحیت، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور متعدد پڑوسی ممالک کے علاقوں پر قبضے شامل ہیں۔ اس دہشت گرد رجیم نے کئی بے گناہ ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کیا ہے اور بار بار دھمکی دی ہے کہ وہ ہمارے ملک کی محفوظ پرامن ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے گی۔ اگر اس حکومت نے ایسی احمقانہ جارحیت کی تو اسے بھاری اور ناقابل برداشت قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ جے سی پی او اے کی موجودہ صورتحال امریکی پالیسیوں اور غلط حسابات کا نتیجہ ہے۔ ماضی کے تجربات نے ایران کو مزید احتیاط اور حساسیت کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور میں شامل ہونے کا درس دیا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران مارچ میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے آئندہ اجلاس کے کسی بھی ممکنہ غیر دانشمندانہ فیصلے کے متعلق خبردار کرتا ہے اور کہا کہ ایران مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر بھی زور دیا کہ وہ سیاسی نقطہ نظر کو ترک کر دے کیونکہ تکنیکی حل بہت قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں آئی اے ای اے کی دو تکنیکی ٹیموں نے ایران کا دورہ کیا اور ہم نے ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو بھی ایران کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ اگر ایجنسی اپنا سیاسی نقطہ نظر ترک کرتی ہے، تو ہم تکنیکی حل کے بہت قریب ہیں۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنی ایک ٹویٹ میں شام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے عرب ممالک کے پارلیمانوں کے وفد کے دورہ دمشق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ شام کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں حالیہ آغاز بشمول حالیہ تباہ کن زلزلے کے بعد شام سے اظہار یکجہتی کے لیے عرب ملکوں کے پارلیمانوں کے وفد کا دورہ دمشق حقیقت پسندانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی یکجہتی کی راہ میں ایک مثبت قدم ہے۔ 

انہوں نے مزید لکھا کہ خطے کے ممالک حقیقت پسندی اور ایک خود مختار قومی نقطہ نظر اختیار کر کے مکالمے اور علاقائی میکانزم کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں بشرطیکہ غیر ملکی تسلط پسند طاقتوں کی خواہشات کو نظر انداز کیا جائے۔ 

یاد رہے کہ عرب پارلیمنٹ کی یونین کے ایک وفد نے حال ہی میں حالیہ تباہ کن زلزلے کے بعد شامی حکومت سے یکجہتی کے اظہار کے لیے دمشق کا دورہ کیا تھا۔

در ایں اثنا اتوار کے روز عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحلبوسی کی سربراہی میں عرب پارلیمنٹس کے سربراہان کا وفد دمشق پہنچا اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد شام کی پارلیمنٹ کی میزبانی میں ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں مصر، عراق، متحدہ عرب امارات، لبنان، فلسطین اور اردن کی پارلیمانوں کے سربراہان نے خطاب کیا۔

عبرانی میڈیا نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے میں اپنی گاڑیوں پر پتھراؤ اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک افسر اور ایک فوجی سمیت متعدد اسرائیلی زخمی ہوئے، اور رام اللہ کے مغرب میں آباد کاروں کی بس میں آگ لگ گئی۔

سماء نیوز ایجنسی کے مطابق رام اللہ کے شمال میں وادی الحرامیہ کے قریب پتھراؤ سے ایک افسر اور ایک فوجی سمیت تین آباد کار زخمی ہو گئے۔

نیز نابلس کے جنوب مشرق میں قصرہ بستی کے قریب ایک کار پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون آباد کار زخمی اور چار افراد خوفزدہ ہوگئے۔

عبرانی ذرائع کے مطابق رام اللہ کے مغرب میں ایک آباد کار بس کو مودیین روڈ پر مولوٹوف کاک ٹیل پھینکے جانے کے بعد آگ لگ گئی۔
https://taghribnews.
 
 

فلسفہ امامت ،امام علیہ السلام کی نظر میں

منجملہ ان تمام چیزوں کے جو امام علیہ السلام کے بیا نا ت کے اس حصہ میں مجھے نہایت ہی اہم اور قابل توجہ نظر آئیں حضرت (ع)کے وہ ارشادات بھی ہیں جن میں اہل بیت علیہم السلام سے وابستہ افراد کے گزشتہ تجربات کا آپ نے ذکر فرمایا --- بیان کے اس حصہ میں جناب امام سجاد (ع)لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :کیا تم لوگوں کو یاد ہے (یا تم کو اس بات کی خبر ہے )کہ گزشتہ ادوار میں ظالم و جابر حکمرانوں نے تم پر کیا کیا زیادتیاں کی ہیں --- یہاں ان مصیبتوں اور زیادتیوں کی طرف اشارہ مقصود ہے جو محبان اہل بیت (ع)کو معاویہ ،یزید اور مروان وغیرہ کے ہاتھوں اٹھانی پڑی ہیں چنانچہ امام علیہ السلام کا اشارہ واقعہ کربلا ،واقعہ حرہ ،حجر بن عدی اور رشید ہجری وغیرہ کی شہادت نیز ایسے بہت سے مشہور و معروف ،اہم ترین حادثوں کی طرف ہے جس کا اہل بیت (ع) کے مطیع و ہمنوا افراد گزشتہ زمانوں میں ایک طویل مدت سے تجربہ کرتے چلے آرہے تھے اور وہ واقعات ان کے ذہنوں میں ابھی موجود تھے ۔ امام علیہ السلام چاہتے ہیں کہ گزشتہ تجربات اور تلخ ترین یادوں کو تازہ کرکے لوگوں کے مجاہدانہ عزم و ارادہ میں مزید پختگی پیدا کریں ۔مندرجہ ذیل عبارت پر ذرا توجہ فرمایئے:

فقد لعمری استدبرتم من الا مور الماضیة فی الایام الخالیة من فتن المتراکمة والانهماک فیها ماتستد لون به علی تجنب الغوة و “

میری جان کی قسم ،وہ گزشتہ واقعات جو تمھاری آنکھوں کے سامنے گزر چکے ہیں ---فتنوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جس میں ایک دنیا غرق نظر آتی تھی تم لوگوں کو ان حوادث و تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے --- اور ان کو اپنے لئے درس و استدلال بناتے ہوئے زمین پر فساد پرپا کرنے والے گمراہ اور بدعتی افراد سے دوری و اجتناب کر لینا چاہئے۔

یعنی تمھیں اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہے کہ اہل بغی و فساد ۔یعنی یہی حکام جور ،جب تسلط حاصل کر لیں گے تو تمھارے ساتھ کس طرح پیش آئیں گے ۔گزشتہ تجربات کی روشنی میں تم جانتے ہو کہ تمھیں ان لوگوں سے دور رہنا چاہئے ،اور ان کے مقابلہ میں صف آرائی کرنی چاہئے ۔

امام علیہ السلام نے اپنے بیان میں مسئلہ امامت کو بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ،مسئلہ امامت یعنی یہی خلافت و ولایت ،مسلمانوں پر حکومت کرنے اور نظام اسلامی کے نافذ کرنے کا مسئلہ ہے ،یہاں امام سجاد علیہ السلام مسئلہ امامت کتنے واضح انداز سے بیان کرتے ہیں جب کہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس قسم کے مسائل اس صراحت کے ساتھ عوام میں پیش نہیں کئے جا سکتے تھے امام (ع) فرماتے ہیں :

فقد موا امراللّٰه وطاعته وطاعته من اوجب اللّٰه طاعته “

فرمان الٰہی اور اطاعت رب کو مقدم سمجھو اور اس کی اطاعت و پیروی اختیار کرو جس کی اطاعت و پیروی خدانے واجب قرار دی ہے ۔

امام علیہ السلام نے اس منزل میں امامت کی بنیاد اور فلسفہ کو شیعی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے خدا کے بعد وہ کون سے لوگ ہیں جن کی اطاعت کی جانی چاہئے ؟ وہ جن کی اطاعت خدا نے واجب قرار دی ہے اگر لوگ اس وقت اس مسئلہ پر غور فکر سے کام لیتے تو بڑی آسانی سے یہ نتیجہ نکال سکتے تھے کہ عبدالملک کی اطاعت واجب نہیں ہے کیوں کہ خدا کی طرف سے عبد الملک کی اطاعت واجب کئے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،عبد الملک کا اپنے تمام ظلم و جور اور بغی وفساد کی وجہ سے لائق اطاعت نہ ہونا ظاہر ہے ۔ یہاں پہلے تو امام علیہ السلام مسئلہ امامت بیان فرماتے ہیں اس کے بعد صرف ایک شبہ جو مخاطب کے ذہن میں باقی رہ جاتا ہے اس کا بھی ازالہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں :

ولا تقدموا الا مور الواردة علیکم من طاعة الطواغیت و فتنة زهرة الدنیا بین یدی امراللّٰه و طاعته و طاعة اولی الامر منکم “

اور جو کچھ تم پر طاغوتوں ------عبد الملک وغیرہ ------ کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے اس کو خدا کی اطاعت کے زمرہ میں رکھتے ہوئے خدا کی اطاعت اس کے رسول کی اطاعت اور اولی الامر کی اطاعت پر مقدم قرار نہ دو ۔

اصل میں امام علیہ السلام نے اپنے بیان کے اس ٹکڑے میں بھی مسئلہ امامت بڑی صراحت کے ساتھ پیش کر دیا ہے ۔

حضرت (ع) نے گزشتہ بیان میں بھی اور اس بیان میں بھی دو بنیادی اور اساسی مسائل پر توجہ دلائی ہے چنانچہ دونوں بیانات میں مذکورہ تین مراحل تبلیغ میں سے دو مرحلے یعنی لوگوں کے اسلامی افکار و عقائد کی یاد دہانی تاکہ لوگ عقائد اسلامی کا پاس و لحاظ کریں اور ان دینداری کا شوق پیدا ہو سکے اور اس کے بعد دوسرا مسئلہ ” ولایت امر“ یعنی نظام اسلامی میں حکومت و قیادت کا استحقاق واضح کرنا ہے ۔ امام علیہ السلام اس وقت لوگوں میں ان دونوں مسائل کو بیان کرتے ہیں اور درحقیقت اپنے مد نظر نظام علوی یعنی اسلامی و الٰہی نظام کی تبلیغ کرتے ہیں ۔

 

 

تنظیم کی ضرورت

امام علیہ السلام کے یہاں ایک تیسری نوعیت کے حامل بیانات بھی ملتے ہیں جوان دونوں سے بھی زیادہ توجہ کے مستحق ہیں ان بیانات میں حضرت (ع) کھلے طور پر لوگوں کو ایک اسلامی تنطیم کی تشکیل کی طرف متوجہ کرتے ہیں البتہ یہ بات ان ہی لوگوں کے درمیان ہوئی ہے جن کو امام (ع) کا اعتماد حاصل رہا ہے ورنہ اگر عام لوگوں کو اس قسم کی کسی جماعت کی تشکیل کی دعوت دی گئی ہوتی تو اس کا پردہ راز میں رہنا مشکل ہو جاتا اور حضرت (ع)کے لئے بڑی زحمت او رپریشانی کا سبب بن جاتا ۔خوش قسمتی سے ” تحف العقول “ میں اس نوعیت کے بیانات کا بھی ایک نمونہ موجود ہے جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں ۔امام (ع) کا بیان یوں شروع ہوتا ہے ۔

ان علامة الزاهدین فی الدنیا الراغبین فی الآخرة ترکهم کل خلیط و خلیل و رفضهم کل صاحب لایرید ما یریدون “

دنیا کے وہ زاہدین جو دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے اور اپنی دلچسپی آخرت پر مرکوز رکھتے ہیں ان کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ ان کے جو دوست اور ساتھی ہم فکر و ہم عقیدہ بلکہ ہم دل اور ہم مشرب نہیں ہوتے ان کو ترک کردیتے ہیں ۔کیا یہ واضح طور ایک شیعی تنظیم کے تشکیل کی دعوت نہیں ہے ؟!

اس بیان سے لوگوں کویہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جو ان کے مطالبات و خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے اور جن کے احساس و جذبات بالکل مختلف ہیں جو حکومت حق یعنی علوی نظام نہیں چاہتے وہ ان سے کنارہ کش ہو کر ان کے لئے اجنبی اور بیگانہ بن جائیں ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے یہاں آمد و رفت اور تعلقات ختم کر لیں یہ تعلقات ویسے ہی ہوں جیسے پہلے تھے یعنی ان سے ملیں لیکن احتیاط کے ساتھ ۔

امام فرماتے ہیں وہ لوگ جو تمھاری فکر و عزائم سے متفق نہ ہوں یا ہدف و مقصد سے ہم آہنگی نہ رکھتے ہوں ان کے ساتھ تمھارے معاملات اور آمد و رفت کسی اجنبی اور بیگانے کے مانند ہونی چاہئے ان سے دوستانہ تعلقات ختم کر دینے چاہئے ۔

میں سمجھتا ہوں اس طرح کے مزید بیانات خود امام سجاد علیہ السلام کے یہاں نیز دیگر ائمہ علیہم السلام کے یہاں بھی مل جائیں گے بلکہ دیگر ائمہ علیہم السلام کے ارشادات میں یہ چیزیں زیادہ مل جائے گی جہاں تک خود میری نظر ہے اس طرح کے بیانات امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر علیہ السلام نیزان کے بعد کے کم از کم تین چار ائمہ کے یہاں مجھے ملے ہیں حتی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات میں بھی منظم و مرتب اسلامی جماعت کی تشکیل کی طرف اشارے موجود ہیں ،البتہ یہاں اس تفصیل طلب موضوع پر زیادہ بحث کی کنجائش نہیںہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کے کچھ بیانات و ارشادات ایسے بھی ہیں جن میں پیش کئے جانے والے مطالب کلی نوعیت کے حامل ہیں ان میں ان مخصوص پہلوؤں کو مورد بحث نہیں قرار دیا گیا ہے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر امام سجاد (ع) کا ایک رسالہ ،حقوق سے متعلق ہے جو در اصل آپ کا ایک نہایت ہی مفصل خط ہے اور ہماری اصطلاح میں اس کو ایک مستقل رسالہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ،جی ہاں !یہ کتاب جو رسالہ حقوق کے نام سے مشہور ہے حضرت (ع)کا ایک خط ہے جو آپ نے اپنے کسی محب کو لکھا ہے اور اس میں ایک دوسرے کے تئیں انسانی حقوق و ذمہ داری کا ذکر فرمایا ہے ،یقینا یہ ایک رسالہ سے کم نہیں ہے ۔امام علیہ السلام نے اس خط میں مختلف جہتوں سے لوگوں کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے ۔مثلا خدا کے حقوق ،اعضا ؤجوارح کے حقوق ،کان کے حقوق ،آنکھ کے حقوق ،زبان کے حقوق ،ہاتھ کے حقوق وغیرہ اسی طرح اسلامی معاشرہ پر حاکم فرمانروا کے عوام پر کیا حقوق ہیں ،عوام کے حاکم پر کیاحقوق ہیں ،دوستوں کے حقوق ،پڑسیوں کے حقوق ،اہل خاندان کے حقوق ------ اور ان تمام حقوق کااس عنوان سے ذکر کیا گیا ہے جس کا ایک اسلامی نظام میں زندگی بسر کرنے والے شخص کو پاس لحا ظ رکھنا ضروری ہے گویا امام علیہ السلام نے بڑے ہی نرم انداز میں حکومت سے مقابلہ آرائی یا آئندہ نظام کا حوالہ دئیے بغیر مستقبل میں قائم کئے جانے والے نظام کی بنیادوں کو بیان کردیا ہے کہ اگر ایک روز خود امام سجاد (ع)کے زمانہ حیات میں (جس کا اگر چہ احتمال نہیں پایا جاتا تھا ) یا آپ کے بعد آنے والے زمانہ میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے تو مسلمانوں کے ذہن ایک دوسرے کے تئیں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے پہلے سے مانوس رہیں ۔دوسرے لفظوں میں لوگوں کو آئندہ متوقع اسلامی حکومت کے اسلام سے آشنا بنادینا چاہتے ہیں ۔یہ بھی امام علیہ السلام کے بیانات کی ایک قسم ہے جو بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے ۔

ایک قسم وہ بھی ہے جس کا آپ صحیفہ سجادیہ میں مشاہدہ فرماتے ہیں ظاہر ہے صحیفہ سجادیہ سے متعلق کسی بحث کے لئے بڑی تفصیل و تشریح کی ضرورت ہے ۔مناسب یہی ہے کہ کوئی اس کتاب پر باقاعدہ کام کرے ۔صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں ان تمام موضوعات کو مورد سخن قرار دیا گیا ہے جن کی طرف بیدار و ہوشمند زندگی میں انسان متوجہ ہوتا ہے ۔ان دعاؤں میں زیادہ تر انسان کے قلبی روابط اور معنوی ارتباطات پر تکیہ کیا گیا ہے اس میں بے شمار مناجاتیں اور دعائیں مختلف انداز سے معنوی ارتقا ء کی خواہش و آرزو سے مملو ہیں ۔امام علیہ السلام نے ان دعاؤں کے ضمن میں دعاؤں کی ہی زبان سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی زندگی کا ذوق و شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

دعا کے ذریعہ جو فائدہ اٹھائے جا سکتے ہیں ان میں ایک وہ بھی ہے جسے میں بارہا ذکر کر چکا ہوں کہ دعا لوگوں کے قلوب میں ایک صحیح و سالم محرک و رجحان پیدا کردیتی ہے جس وقت آپ کہتے ہیں :

اللهم اجعل عواقب امورنا خیرا “

”خدایا ہمارا انجام بخیر فرما “

ظاہر ہے آپ کے دل میں اس وقت انجام کار کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور آپ عاقبت کی فکر میں لگ جاتے ہیں بعض وقت انسان اپنی عاقبت سے غافل رہ جاتا ہے اپنے حال میں مست زندگی گزارتا رہتا ہے اور اس بات کی فکر نہیں کرتا کہ عاقبت کا تصور انسانی سرنوشت کے تعین میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے ،جب دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے یک بیک ذہن اس طرف متوجہ ہوا اور انجام کار پر نظر رکھنے کا جذبہ بیدار ہوگیا ۔اور پھر آپ اس فکر میں پڑگئے کہ ایسے امور انجام دیں جو آپ (ع) کی عاقبت بہتربنا سکیں ویسے اس کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے یہ ایک دوسری بحث ہے ۔میں تو اس مثال کے ذریعہ صرف اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا کہ دعا کس طرح انسان کے اندر ایک صحیح اور سچا جذبہ بیدار کر دیتی ہے ۔صحیفہ سجادیہ(ع) ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک دعاؤں کے جامہ میںایسے ہی اعلیٰ جذبات و افکار سے معمور ہے جن پر انسان اگر غور کرے تو صرف یہی صحیفہ سجادیہ ایک معاشرہ کی اصلاح اور بیداری کے لئے کافی ہے ۔

فی الحال اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں البتہ اس کے علاوہ بھی ایسی بہت چھوٹی چھوٹی رواتیں ہیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں جس کا ایک نمونہ ہم گزشتہ بحث کے ذیل میں پیش کر چکے ہیں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

اولا حریدع هٰذه اللماظة لاهلها “

” لما ظلۃ “ یعنی کتے کا بچا ہوا کھانا ،ملاحظہ فرمایئے امام علیہ السلام کا یہ بیان کتنا اہم ہے ۔آیا ایک حریت پسند ایسا نہیں ہے جو کتّے کی بچی ہوئی غذا اس کے اہل کے لئے چھوڑدے !کتّے کی بچی ہوئی غذا کا کیا مطلب ہے ؟ یہی دنیوی آرائش ،اونچے اونچے محل ،شان و شوکت اور تڑک بھڑک ۔ وہ چیزیں جن کی طرف تمام کمزور دل افراد عبدالملک کے دور میں کھنچے چلے جارہے تھے ۔اسی چیز کو امام علیہ السلام نے لفظ لماظہ سے تعبیر کیا ہے ۔وہ تمام لوگ جو عبد الملک کی غلامی یا اس کے غلاموں کی غلامی میں مشغول تھے یا جو کچھ بھی ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا تھا اس سے راضی تھے ،ان سب کا مقصد یہی کتے کی بچی ہوئی غذا کا حاصل کرنا تھا امام علیہ السلام اسی لئے فرماتے ہیں کہ کتے کی بچی ہوئی غذا کے پیچھے نہ بھاگتے پھرو تاکہ مومنین کرام عبدالملک کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر اس کی طرف جذب نہ ہونے پائیں ۔

اس طرح کے نہایت ہی قابل توجہ انقلابی بیانات امام علیہ السلام کے ارشادات میں بہت ملتے ہیں

امام زین العابدین (ع)کی زندگی ( ایک تحقیقی مطالعہ )

مؤلف: حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي حَفَظَہُ اللّٰہُ

کوئٹہ میں ایرانی قونصل جنرل حسن درویش وند نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے علاوہ گوادر بندرگاہ کے بجلی کے منصوبے اور اس علاقے میں سمندری سہولیات کا بھی جائزہ لیا۔

ایرانی قونصل جنرل حسن درویش وند نے پاکستان کی بندرگاہ گوادر کے دورے کے موقع پر گوادر کے حکام سے ملاقات کی اور کسٹم کے شعبے میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دینے نیز مشترکہ سرحدی منڈیوں کو فعال کرنے کے لئے ایران کی آمادگی کا اظہار کیا۔

ایران کے قونصل جنرل درویش وند کا گوادر بندرگاہ کا دورہ ایران سے گوادر بندرگاہ تک بجلی کی ترسیل کے نئے منصوبے کے افتتاح کے نزدیک ہوا جو کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے وزیراعظم کی موجودگی میں اس منصوبے کا افتتاح کیا جائے گا۔

درویش وند نے پاکستانی حکام سے ملاقات کے علاوہ گوادر بندرگاہ کے بجلی کے منصوبے اور اس علاقے میں سمندری سہولیات کا بھی جائزہ لیا۔

انہوں نے دونوں ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان کی زمینی اور سمندری سرحدوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بندرگاہی شہروں میں دونوں ممالک کے تجارتی رابطوں کو فروغ دینے اور سمندری علاقے میں باہمی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر زور دیا۔

درویش وند نے گوادر  چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری  کے سربراہ اور اراکین سے بھی ملاقات کی اور فریقین نے سرحدوں کی ترقی، نقل و حمل کے مسائل، مشترکہ سرحدی منڈیوں کو فعال کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو آسان بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر برائے بین الاقوامی امور علی اکبر ولایتی نے فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ کے ساتھ فون پر گفتگو کی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران غاصب صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی قوم کے اتحاد کی تعریف کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مشیر برائے بین الاقوامی امور نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ اور فلسطینی عوام کی مقاومت کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔

دوسری جانب اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکریٹری جنرل نے فلسطینی عوام کے جدوجہد جاری رکھنے اور قابضین کا مقابلہ کرنے کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی القدس اور پوری فلسطینی سرزمین کی آزادی تک مزاحمت جاری رکھیں گے۔

النخالہ نے زور دے کر کہا کہ مقاومت عقبہ کانفرنس کی مخالفت اور مذمت کرتی ہے جس میں فلسطینی عوام کے مقاومت کے حق اور مجاہدین کی جد و جہد نشانہ بنایا گیا ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی مسلح افواج کے کمانڈر میجر جنرل محمد باقری نے پاسداران اسلامی انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی کے نام میں ایک پیغام میں ان کو حضرت امام حسین (ع) کے یوم ولات اور پاسدار کے دن پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ پاسداران انقلاب اسلامی کا وجودی فلسفہ، جس نے انقلاب کی حفاظت اور نظام اور قوم کی ضروریات کو پورا کرنے اور مختلف دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے اور ان کو ذلت کا شکار کرنے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، کی جڑیں مذہبی ثقافت اور تعلیمات اور حسینی عاشورا کا شاندار اور ابدی واقعہ ہے۔

میجر جنرل باقری نے مزید کہا کہ آج امت اسلامیہ کے باوفا اور مجاہد فرزندوں کی ایک بڑی تعداد پاسداران انقلاب اور اسلامی نظام کے نعرے کبساتھ، سامراجیت، دہشت گردی، امریکہ کی دہشت گرد حکومت اور جعلی صہیونی ریاست اور ان کے اتحادیوں کی جنگی جنونیت اور جرائم کے خلاف بہادری اور ایمانداری کے ساتھ کھڑے ہیں۔