Super User

Super User

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران میں امام حسین ملٹری یونیورسٹی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی ہم نے جس اہم اور عظیم مشن کا آغاز کیا ہے اس کا راستہ سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے ہمیں دکھایا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای حضرت امام حسین علیہ السلام فوجی ٹریننگ یونیورسٹی میں گمنام شہداء مزار پر حاضر ہوئے اور دفاع مقدس کے شہیدوں  کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فوجی سپاہیوں سے خطاب میں ملک  و قوم کی خدمت کو بہت بڑي سعادت قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کا مستقبل ایرانی جوانوں کے ہاتھ میں ہے اور ملکی پیشرفت ، ترقی اور سلامتی میں جوانوں کا اہم اور بنیادی کردار ہے۔

آپ نے فرمایا کہ سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمادیا  کہ ظلم اور ظالم کے خلاف قیام ہی ہماری تحریک کا مقصد ہے اور آج اسلامی جمہوریہ ایران بھی اسی بنیاد پر ظلم کے خلاف جدوجہد اور مظلوموں کی حمایت کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے اور ہر حال میں اس پر عمل کرتا رہے گا۔

آپ نے فرمایا کہ پہلا اربعین بھی اتنا ہی اہمیت کا حامل تھا جتنا آج ہے۔ اربعین حسینی ایک غیر معمولی اور بے مثال ذریعہ ابلاغ ہے۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ پہلا اربعین اور چہلم عاشورا کا انتہائی طاقتور ذریعہ ابلاغ تھا اور یہ چالیس روز بنی امیہ اور سفیانیوں کی ظلم و جور کی دنیا میں حق کی منطق کی فرمانروائی اور حاکمیت کے ایام تھے۔

آپ نے فرمایا کہ اہل بیت اطہار نے چالیس روز کی اس تحریک میں ایک طوفان بپا کردیا تھا اور آج بھی یہ اربعین مارچ ایک پیچیدہ دنیا میں جہاں پروپیگنڈہ مشینریوں کا دور دورہ ہے اور ایسی آواز میں تبدیل ہوچکا ہے جو پوری دنیا تک پہنچ رہی ہے اور آج کے دور کا بھی اربعین ایک بے مثال ذریعہ ابلاغ ہے اور یہ ایسا عظیم واقعہ ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے اور یہ جوکہا جا رہا ہے کہ الحسین یجمعنا یہ ایک حقیقت ہے اور اس تحریک اور اربعین ملین مارچ کو روز بروز فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ آج کفر وصیہونینزم اور امریکا کا محاذ قوموں کا خون چوس کر جنگ کی آگ بھڑکا کر اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرکے بندگان خدا اور دیگر قوموں پر ظلم وستم کررہا ہے اور ایرانی عوام حضرت امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے فلسفہ کی بنیاد پر ہی ظالموں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اگر آج دشمنوں اور امریکا کے دباؤ کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات کی پیروی کا ہی نتیجہ ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے امریکا کے ذریعے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی پر پابندی عائد کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ آج بحمد اللہ سپاہ ملک کے اندر بھی سرخرو و صاحب عزت ہے اور ملک سے باہر بھی اس کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی عزت و وقار میں امریکی پابندیوں کے بعد اور زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے دفاعی میدانوں میں ایران کی کامیابیوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ البتہ ہمیں اس میدان میں کسی حد پر اکتفا نہیں کرنا ہے بلکہ اپنی دفاعی توانائیوں کو ہر لمحے بڑھانا ہے اور ایک لحظے کے لئے بھی غفلت نہیں کرنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام حسین یونیورسٹی کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے فرمایا: مجھے اس یونیورسٹی سے مختلف شعبوں ميں مزید پیشرفت کی توقع ہے میں تمام شعبوں میں اس یونیورسٹی کی پیشرفت کا خواہاں ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اربعین کو عاشورا کا طاقتور ، مضبوط و مستحکم  ابلاغی ذریعہ قراردیتے ہوئے فرمایا: عاشور سے  اربعین تک 40 دن کا فاصلہ بڑا عظیم فاصلہ ہے اس فاصلے میں حضرت زینب (ع) اور امام سجاد  نے شام  اور کوفہ میں عاشور کے حقیقی پیغام اور حق کی آواز کو دنیا تک پہنچایا اور سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرنے کے سلسلے میں حضرت زینب (س) اور حضرت امام سجاد (ع) نے اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں سفیانی حکومت سرنگوں ہوگئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " حسین (ع) یجمعنا " کے نعرے کو حقیقت پر مبنی نعرہ قراردیتے ہوئےفرمایا: حضرت امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں دنیا بھر کے تمام مسلمان اور دیگر فرقوں کے لوگ شریک ہیں آج دنیا حسین (ع) کے ساتھ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم امام حسین علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اس دور کے یزیدیوں کا مقابلہ کریں گے اوران کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور اپنے دینی اور شرعی ذمہ د اریوں پر عمل کرتے ہوئے آگے کی سمت گامزن رہیں گے۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکا نے شامی کردوں کو چشم زدن میں تنہا چھوڑ دیا اور ان سے منہ پھیر لیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہی انجام ان سب کا ہوگا جو امریکا پر بھروسہ کرتے ہیں -

سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکی حکام اپنے اتحادیوں سے منہ پھیر لیتے ہیں اور معاہدوں کا احترام نہیں کرتے ۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ امریکیوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ امریکیوں نے ہراس شخص کو تنہا چھوڑا اور منہ پھیرا ہے جس نے ان پر بھروسہ کیا ۔ انہوں نےکہا کہ جو بھی امریکا سے لو لگائے گا وہ ذلیل وخوار ہوگا - پیر کو امریکی صدر ٹرمپ اور ترک صدر اردوغان کے درمیان ٹیلی فونی گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ شمالی شام  میں کردوں کے زیرکنٹرول علاقوں پر فوجی کارروائی کرنے کے ترک حکومت کے فیصلےکے پیش نظر امریکی فوج اس علاقے سے باہر نکل رہی ہے -

شامی کرد واشنگٹن کے اتحادی ہیں ۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بھی اس ٹیلی فونی گفتگو کے بعد کہا ہے کہ وہ جلد ہی شام کے شمالی علاقوں میں کردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں شروع کرنےوالے ہیں -

دوسری جانب شامی کردوں کی ملیشیا سیرین ڈیموکریٹک فورس نے بھی خبردار کیا ہے کہ ترکی کا حملہ ایک وسیع جنگ میں تبدیل ہوجائے گا -

ترک فوج نے گذشتہ تین برسوں کے دوران ملک کی پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کئے گئے بل کے مطابق بارہا شام کے اندر فوجی کاررائیاں کی ہیں - شام کی حکومت نے بھی بارہا اپنی سرزمین پر ترک فوج کے فوجی اقدامات کو غاصبانہ اور اپنے اقتدار اعلی کے منافی قراردیتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے - شامی حکومت نے اس بار بھی کہا ہےکہ شام کے عوام اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی بھی ملک شام کی ایک بالشت زمین پر غاصبانہ قبضہ کرے -

شامی حکام نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ ممکنہ حملے سے باز رہے اور خود کو مہلکہ میں نہ ڈالے ۔ شامی کردوں کی ملیشیا نے بھی کہا ہے کہ ترک فوج کے حملے کی صورت میں ہم شام کے صدر بشار اسد کے ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں

غیرمعمولی صلاحیتوں اور ذہانت کے مالک اور سائنسی میدانوں میں سرگرم دو ہزار نوجوانوں نے بدھ کو رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی -

اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ باوجود اس کے کہ ہم ایٹم بم بنانے کی جانب قدم اٹھاسکتے تھے لیکن ہم نےاس راستے پر قدم نہیں رکھا اور اسلامی احکامات اور تعلیمات کی بنیاد پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو شرعی طور پر ہم نے حرام قرار دے دیا بنابریں کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایسے ہتھیاروں کو بنانے اور رکھنے پر سرمایہ لگائیں جن کا استعمال ہی مطلقا حرام ہے ۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کا خاصہ یہ ہے کہ اس نے سخت اور دشوار میدانوں، منجملہ سائنسی میدانوں میں اترنے کی ہمت عطا کی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ حقیقت ہے جس کی دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوا ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے متعدد میدانوں میں ملک کی سائنسی ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے مختلف شعبوں میں سانئسی استعداد و صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے ایران کی دفاعی قوت میں اضافے کے ساتھ ساتھ علم طب اور جدید میڈیکل سائنس ، بیماریوں کو کنٹرول کرنے ، انجینیئرنگ کے میدانوں ، بائیو ٹیکنالوجی، نانو ٹیکنالوجی اور پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی میں شاندار پیشرفت ہوئی ہے ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر تیز رفتار سائنسی ترقی کے ماحول میں ایران میں سائنسی ترقی کا عمل جاری رکھنے کو ضروری اور حیاتی قراردیا ۔

آپ نے ایرانی نوجوانوں میں پائے جانے والے قابل تعریف شوق وجذبے اور خود اعتمادی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر باصلاحیت اورغیرمعمولی ذہانت کا حامل نوجوان ایران کے جگر کا ٹکڑا ہے اس لئے ان کی مشکلات کو حل کرنے میں انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے ۔

رہبرانقلاب اسلامی نے نوجوان نسل کی عظیم اور شاندار کامیابیوں پر توجہ اور ان کی تشریح کو دانشوروں اور علمی شخصیات کی ذمہ داری قراردیا ۔

آپ نے چالیس سال قبل ایرانی یونیورسٹیوں کی سرگرمیوں اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چالیس برس بعد کے دور میں ایرانی یونیورسٹیوں کی ترقی و پیشرفت کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پچھلے چالیس برس کے دوران ایران میں علم و سائنس کے میدان میں جوترقی و پیشرفت ہوئی اس سے ، اسلامی انقلاب سے پہلے کی علمی سرگرمیوں کا کسی بھی صورت میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا -

رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایاکہ سائنسی اور علمی میدان میں یہ ترقی بھی ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم اورغیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایرانی نوجوانوں کی مدد سے علم و سائنس کے میدان میں ہم بام عروج پر پہنچیں گے بنابریں ایران کی نوجوان نسل کو اس ہدف کو اپنے پیش نظر رکھنا ہوگا ۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عظیم ثقافتی ایران کے دانشوروں کو یکجا کرنے کو ایک نابغہ معاشرے کی بالقوہ توانائی قراردیا اور فرمایا کہ مغربی ایشیا، عالم اسلام ، استقامتی محور حتی دنیا کے تمام ملکوں منجملہ امریکا اور یورپ میں بھی حق پسند دانشوروں اور سائنسدانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے اور ان سے رابطہ برقرار کرنے سے پاک و صاف اور شرافتمندانہ علم و سائنس اور صحیح سوچ و فکر کو رواج دینے کے لئے ایک منظم ادارہ اور تحریک کو وجود میں لایا جاسکتاہے۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قدس بریگیڈ کے کمانڈر نے غاصب صیہونی حکومت کی 2006 میں لبنان پر مسلط کردہ تینتس روزہ جارحیت کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی مزاحمت کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ جارحیت بند نہ ہوئی ہوتی تو اسرائیلی فوج ختم ہوجاتی۔

پاسداران انقلاب کی سپاہ قدس کے کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی نے ، رہبر انقلاب اسلامی اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی کتابوں اور تحریروں کے نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو میں لبنان کے خلاف، غاصب صیہونی حکومت کی تینتس روزہ جارحیت کی تفصیلات بیان کیں۔

انھوں نے کہا کہ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی اور اس خطے میں رعب و وحشت کی فضا قائم کرنا، غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ رجعت پسند عرب حکومتوں کی آشکارا اور خفیہ تعاون کے لئے فضا کو سازگار بنانا اور حزب اللہ سے نجات حاصل کرنا، لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی تینتس روزہ جارحیت کے، تین اہم اہداف تھے۔

جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی اس گفتگو میں، صیہونی حکومت کی تینتس روزہ جارحیت کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے ساتھ ایران کے اعلی رتبہ حکام کی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اس نشست میں، ان کی یعنی جنرل قاسم سلیمانی کی رپورٹ سننے کے بعد فرمایا کہ ، میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں اسی طرح کامیابی ملے گی جس طرح جنگ خندق میں کامیابی ملی تھی ۔

سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نے بتایا کہ وہ لبنان واپس گئے اور حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ تک رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی سفارشات اور ہدایات پہنچائیں ۔انھوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی کے اس پیغام نے حزب اللہ میں نئی روح پھونک دی اور حزب اللہ کو یقین ہوگیا کہ اس جنگ میں کامیابی اس کے قدم چومے گی ۔

جنرل قاسم سلیمانی نےتینتس روزہ جنگ میں حزب اللہ کی بعض جنگی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگوں کے برخلاف جن میں اگلے محاذ پر مورچے بنائے جاتے ہیں، اس جنگ میں کوئی ایک مرکز اگلا مورچہ نہیں تھا بلکہ ہر نقطہ ایک مورچہ تھا۔

سپاہ قدس کے کمانڈر نے اس جنگ میں صیہونیوں پر لگائے جانے والے حزب اللہ کی کاری ضربوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصراللہ کی تقریر کے دوران حزب اللہ نے اپنا پہلا میزائل داغا جس میں ایک اسرائیلی جنگی کشتی کو نشانہ بنایا گیا۔

جنرل قاسم سلیمانی نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ یہ جارحیت کس طرح بند ہوئی، اس وقت کے قطر کے وزیر خارجہ سے امریکی عہدیدار جان بولٹن اور اقوام متحدہ میں تعینات اسرائیلی سفیر کی ملاقات کا ذکر کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ اسرائیلیوں نے اپنی تمام شرطوں سے صرف نظر کرلیا اور حزب اللہ کی شرائط کو ماننے پر مجبور ہوگئے ۔انھوں نے بتایا کہ صیہونی حکومت نے حزب اللہ کی شرائط پر جنگ بندی کو قبول کیا اور اس طرح تینتس روزہ اسرائیلی جارحیت میں حزب اللہ کو فتح عظیم حاصل ہوئی ۔

رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر محمد امین روحانی نژاد نے حرم مطہر رضوی میں کہا : حضرت امام حسین علیہ السلام کا فریضہ لوگوں میں شعور پیدا کرنا اور دین میں تحریف کا سد باب کرنا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ تمام امور کا محور اور مرکز امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہونی چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایک الہی طاقت سے عبارت تھی اور امام عالیمقام اپنی اس تحریک کے ذریعے دین اسلام کے پیغام اور پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقاصد کو جاودانی بنانا چاہتے تھے ۔

پروفیسر محمد امین روحانی نژاد نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ قیام عاشورا دین اسلام کی بقا کا ضامن ہے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام  اور تحریک کا اثر اس قدر گہرا ہے کہ چودہ سو سال گذرجانے کے بعد بھی نہ صرف دنیا بھر کے شیعہ بلکہ دنیا کے تمام ادیان و مذاہب کے لوگ امام عالیمقام سے متوسل ومتمسک ہوتے ہیں اور آپ اور آپ کے باوفا اصحاب کی مظلومیت پر اشک غم بہاکر عزاداری کرتے ہيں ۔

پروفیسر روحانی نژاد نے واقعہ کربلا کی معنویت و عظمت او ر اس کی تاثیر کو حریت اور انصاف پسندی کااصلی نعرہ قراردیا اور کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام تمام امتوں کے درمیان اتحاد کا سبب ہیں اور حضرت کے چاہنے والے دنیا بھرسے آپ کے روضہ منورہ کی زیارت کے لیے کربلائے معلی آتے ہیں لہذا تمام شیعوں کا فریضہ ہے کہ ا امام حسین علیہ السلام کے پیغامات کو صحیح طریقے سے لوگوں کے سامنے بیان کرکے ان پیغامات کو ہر طرح کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھیں ۔

رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر روحانی نژاد نے ایران کے اسلامی انقلاب میں تحریک عاشورا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور تحریک میں بہت زیادہ پیغامات اور عبرتیں موجود ہيں اور امام خمینی (رح) نے تحریک عاشورا سے الہام لے کر اور اس کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتے ہوئے شعور و آگہی پیدا کرنے والی اور دشمنوں کو شکست دینے والی ایک تحریک کی بنیاد ڈالی ۔

پروفیسر روحانی نژاد نے مزید کہا کہ جس چیز نے ایران کے اسلامی انقلاب کو دنیا کے دیگر انقلابات پر برتری دلائی ہے وہ تقوا ، ایثار و فداکاری اور اس مکتب پر اعتماد تھا جس کو حاصل کرنے کے لئے جانبازوں نے جنگ کی ۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں، اعلی افسران اور عہدیداروں نیز سپاہیوں نے بدھ کو تہران کے حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی خدمت میں حاضری دی ۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی استقامت و پائیداری اور اپنے راستے پر باقی رہنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سپاہ، انقلاب کے ہیجان کے دوران وجود میں آئی، دفاع مقدس کے تلاطم کے دوران اس نے رشد کیا اور بلوغ کو پہنچی اور آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے بعد کے دور میں بھی بغیر کسی لغزش کے تکامل کے راستے پرگامزن رہی ۔آپ نے فرمایا کہ ترقی یا زوال ایسی دو راہی ہے جس سے، انفرادی، سیاسی اور سماجی زندگی میں سبھی افراد تنظیمیں حتی انقلابات دوچار ہوتے ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سپاہ سے اس دوراہی پر بھی کوئی لغزش نہیں ہوئی اور اس نے کسی غلطی اور تنزلی کے بغیر اپنے تشخص کے بنیادی عناصر کو محفوظ اور بلندیاں طے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔رہبر انقلاب اسلامی نے سپاہ پاسدران سے امریکا ، سامراجی محاذ اور اس کے حلقہ بگوشوں کی دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، سپاہ پر امریکی پابندی اس دشمنی کا نمونہ ہے۔آپ نے فرمایا کہ اس دشمنی کی وجہ سپاہ پاسداران کی ترقی و پیشرفت ہے ۔

آپ نے فرمایا کہ امریکا کی اس دشمنی نے سپاہ کی عزت و سربلندی میں حتی دشمنوں کی نگاہ میں بھی اضافہ کردیا ہے۔آپ نے کفر کے متحدہ محاذ کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی توانائیوں کو قابل تعریف بتاتے ہوئے فرمایا کہ اس محاذ میں سپاہ کا کردار اتنا نمایا ں ہے کہ سپاہ مستکبرین، سامراجی طاقتوں اور سبھی بری قوتوں کی دشمنی کی آماجگاہ بن گئی ہے البتہ اس خبیث محاذ کی دشمنی سپاہ پاسدران کے لئے باعث فخر ہے۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بین الاقوامی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ علاقائی اور عالمی تغیرات پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دشمنوں نے جتنی زیادہ کوششیں اور سرمایہ کاری کی ہے اتنا ہی زیادہ نقصان کا سامنا کیا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ امریکی صدر نے اعتراف کیا ہے کہ علاقے میں سات ٹریلین ڈالر کا سرمایہ لگایا لیکن سوائے ناکامی اور شکست کے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد میں کمی کے بارے میں فرمایا کہ جیسا کہ حکومت نے اعلان کیا ہے ، یہ سلسلہ پوری سنجیدگی سے مطلوبہ نتیجے کے حصول تک جاری رہنا چاہئے اور یقینا یہ نتیجہ حاصل ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کے خلاف امریکیوں کی حداکثر دباؤ کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکی سمجھ رہے تھے کہ وہ حد اکثر باؤ کی پالیسی پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کو نرمی دکھانے پر مجبور کردیں گے۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خدا کی نصرت و مدد سے اب تک حد اکثر دباؤ کی پالیسی سے خود امریکیوں کے لئے ہی مشکلات پیدا ہوئی ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ گزشتہ دنوں انھوں نے ہمارے صدر سے ملاقات کے لئے گزارش اور التماس بھی کیا تاکہ دنیا پر یہ ظاہر کرسکیں کہ انہوں نے ایران کو جھکا لیا اور ایران کے صدر کو ملاقات پر مجبور کردیا ۔رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکام نے اپنے یورپی دوستوں کو بیچ میں ڈالا کہ کسی طرح صدر ایران سے ان کی ملاقات ہوجائے لیکن سرانجام ناکام رہے اور ان کی یہ پالیسی بھی شکست سے دوچار ہوگئی ۔

امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟‘‘

امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالی ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کے لیے اپنے دل میں بہت خاص مقام رکھتے تھے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔

9 محرم بوقت عصر صحرای کربلا میں عمر سعد کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور عمر سعد امام حسین(ع)کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". کوفی سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار۔

لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، امام(ع) اپنے خیمے کے سامنے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے بیٹھے تھے. بہن حضرت زینب(س) لشکر کوفہ میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". امام حسین(ع)نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا رسول اللہ(ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". امام حسین(ع)نے عباس بن علی(ع)کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں‘‘ ۔ امام کا یہ طرز تکلم حضرت عباس کی قدر اور منزلت کو بخوبی روشن کر دیتا ہے کہ وہ ایمان اور یقین کے عالیترین مرتبہ پر فائز ہیں۔

حضرت عباس(ع)، زہیر بن قین اور حبیب بن مظاہر سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "امیر کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا بیعت کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ". حضرت عباس(ع) نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں ابا عبداللہ (ع) کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع)کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ حضرت عباس(ع)اکیلے امام حسین(ع)کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں۔

امام حسین(ع)نے حضرت عباس(ع) سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں نماز بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔

جب تک عباس(ع) امام حسین(ع)کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں امام حسین(ع)کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔

ابوالفضل العباس(ع) دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور امام حسین(ع)کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی. ابن سعد نے امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا، اس دن امام حسین(ع)اور آپ(ع)کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا.

روز عاشور جب جناب عباس نے اپنے بھائی کو تنھا محسوس کیا تو ان کے پاس گئے اور میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: تم میرے علمبردار ہو میرے لشکر کے سردارہو ۔ عرض کیا: میرا دل تنگ ہو گیا ہے میں زندگی سے سیر ہو گیا ہوں میں ان منافقوں سے بدلنا لینا چاہتا ہوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ان بچوں کے لیے تھوڑا سا پانی مہیا کر کے جاو۔ جناب عباس دشمنوں کی طرف آئے اور ان کو جتنا وعظ و نصیحت کیا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ امام کے پاس واپس گئے اور قضیہ کی اطلاع دی۔
اتنے میں بچوں کی العطش کی صدائیں سنائی دیں۔ مشک کو اٹھایا۔ اور گھوڑے پر سوار ہوئے تاکہ فرات کی طرف جائیں۔ چار ہزار سپاہیوں نے جو فرات پر پیرا دے رہے تھے آپ کو محاصرہ میں لے لیا اور تیروں کی بارش شروع کر دی۔

انہیں دور بھگایا اور ایک روایت کے مطابق ان میں سے اسّی سپاہیوں کو فی نار جہنم کیا۔ فرات میں داخل ہوئے چلّو میں پانی لیا تاکہ اسے پئیں۔ مگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچوں کی پیاس یاد آ گئی۔ پانی کو پھینک دیا اور مشک کو پانی سے بھرا۔ اور اسے دائیں بازوں پر لگا کر خیموں کا رخ کیا۔ دشمنوں نے راستہ روک لیا۔اور ہر طرف سے آپ کو محاصرہ میں لے لیا۔ جناب عباس نے ان کے ساتھ جنگ شروع کر دی یہاں تک کہ نوفل ازرقی نے آپ کا دائیاں بازوں قلم کر دیا۔ مشک کو بائیں شانہ پر لٹکایا۔ نوفل نے دوسری ضربت سے بائیاں بازوں بھی قلم کر دیا۔ جناب عباس سے مشک کو دانتوں میں لیا اور گھوڑے کو دوڑایا۔ اتنے میں ایک تیر

مشک پر پیوست ہوا اور سارا پانی بہ گیا۔ دوسرا تیر آپ کے سینے پر لگا اور آپ زین سے زمین پر گرے۔ اور امام حسین علیہ السلام کو آواز دی۔ مولا ادرکنی۔

جب امام علیہ السلام آپ کے قریب پہنچے تو آپ خون میں لت پت ہو چکے تھے۔ امام علیہ السلام نے حسرت سے فرمایا: الان انکسر ظھری و قلت حیلتی"۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے چارہ ہو گیا۔
زیارت ناحیہ میں آپ پر یوں سلام کیا گیا ہے:

السَّلامُ عَلى أبى‏ الْفَضْلِ العَبَّاسِ بْنِ أَميرِالْمُؤمنينَ المُواسي أَخاهُ بِنَفْسِهِ، أَلآخِذُ لِغَدِهِ مِنْ أَمْسِهِ، الْفادى‏ لَهُ الواقى‏ السَّاعى‏ إِلَيْهِ بِمائِه، الْمَقطُوعَةِ يَداه- لَعَنَ اللَّهِ قاتِلَيهُ يَزيدَ بْنَ الرُّقادِ الجُهَنىّ، وَحَكيمِ بْنِ الطُّفَيلِ الطَّائى‏.
سلام ہو ابو الفضل العباس ابن امیر المومنین پر جنہوں نے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان نثار کر دی۔ جنہوں نے گزشتہ کل سے آئندہ کے لیے ذخیرہ کر لیا۔ جنہوں نے اپنے آپ کو ڈھال قرار دیا اور فدا کر دیا۔ اور پانی پہنچانے کی سعی ناتمام کی یہاں تک کہ دونوں ہاتھ قلم ہو گئے۔ خدا کی لعنت ہو ان کے قاتل یزید بن رقاد جہنی اور حکیم بن طفیل طائی پر ۔

اسی بارے میں:

حضرت عباس علیہ السلام عظیم ترین صفات اور فضائل کا مظہر تھے شرافت ، شہامت ، وفا ، ایثار اور دلیری کا مجسم نمونہ تھے۔ واقعہ کربلا میں جناب عباس علیہ السلام نے مشکل ترین اور مصائب سے بھرے لمحات میں اپنے آقاومولا امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کی اور مکمل وفا داری کا مظاہرہ کیا اور مصائب کے پہاڑوں کو اپنے اوپر ٹوٹتے ہوئے دیکھا لیکن ان کے عزم وحوصلہ، ثابت قدمی اور وفا میں ذرا برابر بھی فرق نہ پڑا اور یہ ایک یقینی بات ہے کہ جن مصائب کا سامنا جناب عباس علیہ السلام نے کیا ان پر صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا فقط اس کے لئے ہی ممکن ہے کہ جو خدا کا مقرب ترین بندہ ہو اور جس کے دل کو خدا نے ہر امتحان کے لئے مضبوط بنا دیا ہو۔

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے تمام امور میں آپ ہی کو مرکز سمجھتے تھے اور آپ کے وجود کو لشکر کے برابر قرار دے کر عہدہ علمبرداری آپ ہی کے سپرد فرمایا۔

امام حسین ؑ آپؑ کی شہادت پر بہت روئے ۔ عرب شاعر نے کہا :

احق الناس ان یبکی علیہ فتی ابکی الحسین بکربلاء
اخوہ وابن والدہ علی ابوالفضل المضرج بالدماء
و من واساہ لا یثنیہ شئی و جادلہ علی عطش بماء
کتاب لہوف سید بن طاؤوس ، ص
۱۶۱
ترجمہ : لوگوں کے رونے کے زیادہ حقدار وہ جوان ہے کہ جس پر کربلاء میں امام حسین ؑ روئے ۔ وہ ان کے بھائی اور بابا علی ؑ کے بیٹے ہیں ۔ وہ حضرت ابوالفضل ہیں جو اپنے خون سے نہلا گئے ۔ اور اس نے اپنے بھائی کی مدد کی اور کسی چیز سے خوف کھائے بغیر ان کی راہ میں جہاد کیا اور اپنے بھائی کی پیاس کو یاد کر کے پانی سے اپنا منہ پھیرا ۔(انا للہ و انا الیہ راجعون)
تاریخ نگاروں نے شہادت ابوالفضل(ع) کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:

خوارزمی کہتے ہیں: عباس(ع) میدان کارزار میں اترے اور رجز خوانی کرتے ہوئے دشمنوں پر حملہ آور ہوئے اور متعدد دشمنوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کے بعد جام شہادت نوش کرگئے ۔ پس امام(ع) بھائی کے سرہانے حاضر ہوئے اور فرمایا:

الآن انْكَسر ظهری وقَلّت حيلتي؛ (ترجمہ: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے سہارا ہوگیا)

مسئلہ فلسطین کے ہمیشہ کے لیے خاتمے اور حالات کو بطور کلی اسرائیل کی حق میں تبدیل کرنے کی غرض سے امریکی صہیونی لابی نے صدی کی ڈیل نامی منصوبہ متعارف کروایا ہے۔ امریکی صدر نے برسراقتدار آنے کے ابتدائی دنوں سے آج تک اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا لیکن تاحال ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر سعد اللہ زارعی سے گفتگو کی ہے جو حسب ذیل ہے:
خیبر: صدی کی ڈیل کے حوالے سے منامہ کانفرنس کے بعد تقریبا تمام فلسطینی گروہوں میں ایک قسم کا اتحاد دیکھنے کو ملا اور تمام مزاحمتی گروہوں نے اس اجلاس کے خلاف موقف اختیار کیا، آپ کی نگاہ میں صدی کی ڈیل کا منصوبہ اور منامہ کانفرنس امریکہ اور صہیونی ریاست کے لیے کس حد تک کامیاب ثابت ہوئی ہے؟
۔ دیکھئے اس منصوبہ کا مرکزی پوئینٹ کیا ہے، اگر یہ مانتے ہیں کہ مرکزی پوئینٹ اور بنیادی مسئلہ صدی کی ڈیل اور عرب و فلسطین کے ساتھ تعلقات ہیں تو کہنا پڑے گا کہ صہیونیوں اور اس کے اتحادیوں نے اس مسئلے میں اگر چہ کم لیکن کامیابی حاصل کی ہے۔ منامہ کانفرنس میں اسرائیل کو ایک اہم کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ عربوں نے مسئلہ فلسطین کو پیٹھ دکھا دی اور اسرائیلی نمائندوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
عربوں نے نیز سرکاری طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے سے بھی چشم پوشی کر دی، صدی کی ڈیل بنیادی طور پر اس طرح سے تدوین کی گئی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ اسرائیل کے فائدہ میں حل ہو، یہ ایسے حال میں ہے کہ وہ عربی منصوبہ جو ۲۰۰۲ میں ملک عبد اللہ کے ذریعے بیروت میں عرب یونین کے اجلاس میں پیش کیا گیا، فلسطینی پناہ گزینوں کے سرزمین فلسطین میں واپس پلٹنے پر مبنی تھا، لیکن اس اہم مسئلہ پر منامہ نشست میں عربوں اور منجملہ سعودیوں نے خط بطلان کھینچ دیا اور یہ اہم قدم ہے اسرائیل کے لیے۔
یہ ماننا پڑے گا کہ صدی کی ڈیل اس حد تک صہیونیوں کے لئے سودآور ثابت ہوئی ہے۔ لیکن ایک بنیادی اور کلیدی سوال یہ ہے کہ وہ صدی کی ڈیل جو اسرائیل کے پیش نظر ہے وہ سرانجام کو پہنچی یا نہیں؟
اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اسرائیل اور عربوں کے درمیان تعلقات صرف ایک اجلاس میں خلاصہ نہیں ہوتے اور تعلقات کی بحالی کا مطلب در حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے سفارتخانے کھل جائیں، سیاسی اور معیشتی تعلقات برقرار ہو جائیں، کیا یہ امور موجودہ صورت حال کے پیش نظر ممکن ہیں؟
موجودہ صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی لابی چاہے وہ عربی ہو، غربی ہو یا یہودی حکمران ہوں، سب کے اوپر بے بسی طاری ہے۔ جس مقصد کو یہ ۷۰ سال کے عرصے میں پورا نہیں کر پائے وہ مقصد چند دنوں یا مہینوں میں پورا نہیں ہو سکتا۔
امریکی حکمران، اسرائیل کے اہم ترین حامی اور پشت پناہ ہیں۔ لیکن خود امریکہ سنگین مشکلات کا شکار ہے آج علاقے سے امریکی فوجوں کے انخلاء کا مسئلہ گرم چل رہا ہے، البتہ بعض علاقوں سے امریکی فوجی دستے نکل بھی چکے ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ آئندہ دس سال کے عرصے میں امریکی فوج کو مشرقی ایشیا ترکی سے لے کر افغانستان تک سب چھوڑنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس سے زیادہ ان کے لیے علاقے میں ٹکنا ممکن نہیں ہے۔ لہذا امریکہ کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے لیے اپنا دفاع کرنا بھی سخت ہو رہا ہے اسرائیل کا دفاع کرنا تو دور کی بات۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل حتیٰ یورپ کے اندر بھی تنہا پڑ رہا ہے وہ یورپ جنہوں نے اسرائیل کو جنم دیا۔ اس لیے کہ بالفور اعلامیہ جو اسرائیل کی تشکیل کا باعث بنا وہ برطانیہ نے ہی تو صادر کیا تھا۔ لیکن آج یورپ اپنے اندرونی مسائل میں اس قدر گرفتار ہے کہ اسے اسرائیل کے تحفظ کی فرصت ہی نہیں، آج مغربی ممالک سوائے مالی امداد کے صہیونی ریاست کی مدد نہیں کر سکتے۔
خیبر: اسرائیل کی اندورنی صورتحال کیا ہے؟ یہ رجیم کیا تن تنہا اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہے؟
مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں اور صہیونیوں کے حالات بھی مناسب نہیں ہیں، وہ اسرائیل جو ایک زمانے میں دعویدار تھا کہ وہ دنیا کی چوتھی اعلی فضائیہ اور پانچویں بڑی فوج کا مالک ہے آج وہ حماس کا مقابلہ کرنے سے بھی عاجز ہے اور دو دن کی جنگ کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیتا ہے۔ اور آج اسرائیلی اس کوشش میں ہیں کہ حماس اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کریں تاکہ اسرائیل کے ساتھ اس کا کوئی مطلب نہ ہو، البتہ حماس ایسی قرارداد پر دستخط کبھی بھی نہیں کرے گی۔ لہذا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج اسرائیل اپنا دفاع کرنے سے بھی قاصر ہے اور انتہائی کمزور ہو چکا ہے۔
خیبر: عربی حکومتیں کیا اسرائیل کی مدد کے لیے آگے نہیں بڑھیں گی؟
عرب بالخصوص سعودی جو اسرائیل کی حمایت کے علمبردار ہیں نیز صہیونی ریاست کا دفاع کرنے سے عاجز ہیں۔ اصلا ایسا کام عربوں کے بس میں نہیں ہے۔ خاص طور پر اس دور میں جب صہیونیوں اور ان کے اتحادی عربوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران نام کا ایک طاقتور بلاک سامنے ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مجتہدین کی کونسل یا مجلس خبرگان کے سربراہ اور اراکین سے خطاب کے دوران ملک کی صورتحال اور علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کے نعروں اور اس کے انقلابی اور سیاسی اثر و رسوخ کے دائرے میں روز افزوں وسعت کا جامع تجزیہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ دفاع مقدس کے دور کے واقعات اور سبق سے استفادہ کرنا اور انہیں معاشرے میں رواج دینا اہم ہے - آپ نے فرمایا کہ ملک کی ترقی وپیشرفت کو جاری رکھنے کا لازمہ اور بنیاد  اللہ پر توکل ، استقامت و پامردی ، مستقبل کے بارے میں پرامید رہنا نوجوانوں اور خاص طور پر انقلابی نوجوانوں پر اعتماد ، عوام اور بالخصوص انقلابی قوتوں کے درمیان اتحاد نیز ملکی پیداوار کی صحیح معنوں میں حمایت اور اغیار سے توقعات کو ختم کردینا ہے -

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے اور معاہدے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اغیار سے امیدیں نہیں وابستہ کرنا چاہئے  ۔

رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکا اورغاصب صیہونی حکومت کو چھوڑکے کسی بھی ملک کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کا راستہ بند نہیں ہے ۔ آپ نے اسی کے ساتھ فرمایا کہ جن ملکووں نے اسلامی نظام کے خلاف دشمنی کا پرچم اٹھا رکھا ہے اور ان میں سرفہرست امریکا اور چند یورپی ممالک ہیں ، ان پر کبھی بھی اعتماد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ ایرانی عوام کے ساتھ کھلی دشمنی کررہے ہیں ۔آپ نے ایٹمی معاہدے کے بعد یورپ والوں کے طرز عمل اور اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور اسی طرح امریکا کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے اور ایران کے خلاف دیگر ظالمانہ پابندیاں لگانے کے بعد ، یورپی ملکوں کی روش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ والوں نے اپنے وعدوں کے برخلاف امریکی پابندیوں کے تعلق سے کوئی بھی عملی اقدام نہیں کیا اورآئندہ بھی بعید نظر آتا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے کے لئے کچھ کریں گے بنابریں یورپ والوں سے امیدختم کرلینی چاہئے ۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تمام تر دشمنوں کے باوجود حالات اور امور کے رخ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے میں بتایا اور فرمایا آج اسلامی جمہوری نظام نہ صرف یہ کہ چالیس سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوا ہے ، بلکہ دس سال پہلے کے مقابلے میں بھی زیادہ مستحکم ہوا ہے اور علاقے میں اس کی انقلابی طاقت و توانائی میں وسعت آئی ہے اور انقلاب کی جڑیں زیادہ مضبوط ہوئی ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام عہدیدار امریکہ سے مذاکرات نہ کرنے پر متفق ہیں۔

دینی مدارس میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر فقہا کے ایک گروپ سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکام کی جانب سے مذاکرات کی چال کا مقصد اپنی خواہشات کو مسلط اور یہ ثابت کرنا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی موثر واقع ہوئی ہے۔

آپ نے فرمایا کہ ایرانی عوام کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

رہبرانقلاب اسلامی نے مذاکرات کے حوالے سے امریکی حکام کے موقف میں پائے جانے والے تضاد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کبھی غیر مشروط مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور کبھی مذاکرات کے لیے بارہ شرائط کا اعلان کرتے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے بیانات امریکی سیاست کی آشفتگی کا نتیجہ یا پھر فریق مقابل کو دھوکہ دینے کا ایک حربہ ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ" اسلامی جمہوریہ ایران دھوکے میں نہیں آئے گا کیونکہ ہمارا راستہ واضح ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ کیا کرنا ہے۔"آپ نے فرمایا کہ امریکہ منصفانہ راہ حل کے لیے مذاکرت نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کا مقصد اپنے ناجائز مطالبات ایران پر مسلط کرنا ہے۔ ‏آپ نے فرمایا کہ" میں اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مذاکرات کا امریکی مقصد اپنے مطالبات مسلط کرنا ہے، لیکن امریکی حکام اس قدر گستاخ ہوگئے ہیں کہ اپنی زبان سے بھی یہ بات دوہرا رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے واضح کیا کہ اس قسم کے مذاکرات کے لیے انہیں (امریکیوں کو) ان لوگوں سے رجوع کرنا چاہیے جو ان کے لیے دودھ دینے والی گائے بنے ہوئے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران، مومنین کی جمہوریت، مسلمین کی جمہوریت اور عزت و سربلندی کی جمہوریت ہے۔

آیت العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ مذاکرات کے لیے امریکیوں کے اصرار اور یورپ والوں کو وساطت کے لیے استعمال کرنے کی ایک وجہ یہی یعنی دباؤ کی پالیسی کو کارگر ثابت کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یورپ والوں کے بارے میں پھر کسی اور وقت بات کروں گا لیکن ان کا اس بات پر اصرار کہ امریکی صدر کے ساتھ ایک میٹنگ کرلی جائے تو آپ کی تمام مشکلات حل ہوجائیں گی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کامیاب ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی کہ " اگر امریکہ اپنا بیان واپس لے لے، توبہ کرلے اور ایٹمی معاہدے میں، جس کی اس نے خلاف ورزی کی ہے، واپس آجائے، اس وقت یہ ممکن ہے کہ امریکہ ایٹمی معاہدے کے دیگر رکن ملکوں کے ہمراہ ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوجائے بصورت دیگر، اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکی عہدیداروں کے درمیان کسی بھی سطح پر مذاکرات نہیں ہو سکتے، نہ نیویارک میں نہ کہیں اور۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ پچھلے چالیس برس کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کو طرح طرح کی سازشوں کا سامنا رہا ہے لیکن دشمن ایران کو مغلوب نہیں کر پائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی کہ پچھلے چالیس برس کے دوران دشمنوں کی تمام پالیسیاں یکے بعد دیگرے ایران کی پالیسیوں کے سامنے ناکام ہوگئیں اور آئندہ بھی اسلامی جمہوریہ ایران اللہ کی مدد سے ان پر غلبہ پالے گا اور میدان عمل میں کامیاب اور سربلند رہے گا ۔