Super User

Super User

شيخ صدوق(عليہ الرحمہ) نے معتبر سند کيساتھ حضرت امام علي بن موسی الرضا (ع)سے اور انھوں نے اپنے آبائے طاہرين (ع) کے حوالے سے حضرت اميرالمومنين (ع) سے روايت کي ہے کہ آپ نے فرمايا: ايک روز رسول اللہ نے ہميں خطبہ ديتے ہوئے ارشاد فرمايا : اے لوگو! تمہاري طرف رحمتوں اور برکتوں والا مہينہ آرہا ہے - جس ميں گناہ معاف ہوتے ہيں - يہ مہينہ خدا کے ہاں سارے مہينوں سے افضل و بہتر ہے- جس کے دن دوسرے مہينوں کے دنوں سے بہتر، جس کي راتيں دوسرے مہينوں کي راتوں سے بہتر اور جس کي گھڑياں دوسرے مہينوں کي گھڑيوں سے بہتر ہيں- يہي وہ مہينہ ہے جس ميں حق تعاليٰ نے تمہيں اپني مہمان نوازي ميں بلايا ہے اور اس مہينے ميں خدا نے تمہيں بزرگي والے لوگوں ميں قرار ديا ہے کہ اس ميں سانس لينا تمہاري تسبيح اور تمہارا سونا عبادت کا درجہ پاتا ہے - اس ميں تمہارے اعمال قبول کيے جاتے اور دعائيں منظور کي جاتي ہيں - پس تم اچھي نيت اور بري باتوں سے دلوں کے پاک کرنے کے ساتھ اس ماہ ميں خدا ئے تعاليٰ سے سوال کرو کہ وہ تم کو اس ماہ کے روزے رکھنے اور اس ميں تلاوتِ قرآن کرنے کي توفيق عطا کرے کيونکہ جو شخص اس بزرگی والے مہينے ميں خدا کي طرف سے بخشش سے محروم رہ گيا وہ بدبخت اور بدانجام ہوگا اس مہينے کي بھوک پياس ميں قيامت والي بھوک پياس کا تصور کرو، اپنے فقيروں اور مسکينوں کو صدقہ دو، بوڑھوں کي تعظيم کرو، چھوٹوں پر رحم کرواور رشتہ داروں کے ساتھ نرمي و مہرباني کرو اپني زبانوں کو ان باتوں سے بچاۆ کہ جو نہ کہني چاہئيں، جن چيزوں کا ديکھنا حلال نہيں ان سے اپني نگاہوں کو بچائے رکھو، جن چيزوں کا سننا تمہارے ليے روا نہيں ان سے اپنے کانوں کو بند رکھو، دوسرے لوگوں کے يتيم بچوں پر رحم کرو تا کہ تمہارے بعد لوگ تمہارے يتيم بچوں پر رحم کريں ،اپنے گناہوں سے توبہ کرو، خدا کي طرف رخ کرو، نمازوں کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے ليے اٹھاۆ کہ يہ بہترين اوقات ہيں جن ميں حق تعاليٰ اپنے بندوں کي طرف نظر رحمت فرماتا ہے اور جو بندے اس وقت اس سے مناجات کرتے ہيں وہ انکو جواب ديتا ہے اور جو بندے اسے پکارتے ہيں ان کي پکار سنتا اور قبول کرتا ہے۔

پیر کی شام رمضان المبارک کی آمد کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں قرآن کریم سے انس کی محفل کا آغاز ہوا جس میں قاریان قرآن کریم اور قرآنی دعائیں نیز مناجات پڑھنے والوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس محفل سے خطاب میں قرآن کریم کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس پر عمل کو دور حاضر میں بشریت اور اسلامی معاشروں کی بنیادی ترین ضرورت قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم سامراج، کفر اور طاغوتوں کے مقابلے میں استقامت پر تاکید کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ گذشتہ چالیس سال کے دوران ایرانی عوام کی روز افزوں عزت اور غیر معمولی پیشرفت قرآن کریم پر عمل اور استقامت کا نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ شیطانوں اور کفار پر غلبہ حاصل کرنے کا واحد راستہ استقامت ہے۔ آپ نے فرمایاکہ قرآنی تعلیمات سے دوری اور اس پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہی آج اسلامی دنیا مشکلات سے دوچار ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج بعض ملکوں کے صدور اور حکمراں اقوام کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہے ہیں، یہ وہی ہیں جن سے مقابلے کا قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے اور تاکید کی ہے کہ ان پر اعتماد نہ کرو۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چند سال قبل بعض ملکوں میں آنے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں اور عوامی انقلابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تحریکیں اور انقلابات، ان کی قدر نہ کئے جانے اور امریکا و اسرائیل پر اعتماد کی وجہ سے ناکام ہو گئے لیکن ایرانی عوام نے حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برکت سے کہ جن کی تحریک قرآنی تعلیمات پر استوار تھی، اس تحریک اور انقلاب کی قدر کی اور شروع دن سے ہی نہ صرف یہ کہ سامراجی طاقتوں پر اعتماد نہیں کیا بلکہ ان کے مقابلے میں استقامت سے کام لیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں قرآن کریم کو ایک بے نظیر فن پارہ قرار دیا اور فرمایا کہ قرآن سے لگاؤ معاشرے کے استحکام کا باعث بنتا ہے اور دنیاوی مسائل کے حل کے ساتھ آخرت کے لئے بھی باعث سعادت ہے- آپ نے فرمایا کہ قران کریم کو سمجھنے سے انواع و اقسام کے علوم و معارف کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ نے تاکید فرمائی کی تلاوت قران کی محفلوں کے ساتھ ہی قرآن کی تفسیر اور اس کے معانی و مفاہیم کے بیان کی محفلیں بھی منعقد کی جائیں تاکہ معاشرے میں قرآنی اور دینی تعلیمات کی سطح میں اضافہ ہو۔

اسلامي فرقوں كے درميان سياسي اختلافات كي وجہ سے زيادہ گہرے ہوجانے والے نظرياتي اور عقائدي اختلافات كو مدنظر ركهتے ہوئے اتحاد كي راہ ميں دو طرح كے اقدام كئے گئے: بعض افراد نے تقريب مذاہب كا بيڑا اپنے سر اٹها ليا جس ميں شيعہ حوزہ ہائے علميہ اور الازهريونيورسٹي نے اپني علمي حيثيت و منزلت كے مطابق اتحاد كي راہ ميں قدم آگے بڑهائے۔ دوسرے بعض افراد نے بهي مذہبي اختلافات كے سلسلہ ميں گفتگو سے پرہيز كركے سياسي اتحاد برقرار كرنے كي كوشش كي اور مسلمانوں كي بےنظير طاقت كو مدنظر قرار ديا۔ • اتحاد؛ كاميابي كا ضامنجن اسلامي دانشوروں نے معاشرے ميں اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كي ہے ان ميں سے آيت اللہ بروجردي جيسي كاميابي كم ہي افراد كو ملي۔ افسوس كہ دونوں مذاہب ميں متعصب اور تفرقہ پسند افراد نيز مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كے لئے استعماري سازشوں كي وجہ سے بہت سي جگہوں پر اتحاد كے سلسلہ ميں كي جانے والي كوششيں ناكامياب رہيں۔ مسئلہ اتحاد بين المسلمين كا تعلق صرف اسلامي جمہوريہ كے قيام سے نہيں ہے بلكہ امام خميني(رہ) نے اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے اس كي جانب متوجہ كيا تها: ’’ہميں كاميابي كي اس كليد يعني اتحاد كلمہ اور قرآن مجيد پر اعتماد كي حفاظت كرني چاہئے اورہم سب لوگ شانہ بہ شانہ ہو كر قدم آگے بڑهائيں اور ايران ميں اسلامي جمہوريہ قائم كريں" آپ نے اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد بهي اس اہم مسئلہ كي جانب اشارہ فرمايا اور كہا:"اگر ہم اتحاد كلمہ اور اسلامي زندگي كي اس خصوصيت كہ جسميں تمام چيزِيں شامل ہيں، كا خيال ركهيں تو ہم آخر تك كامياب رہيں گے اور اگر خدانخواستہ وہ اس ميں خلل ڈاليں يا ہم سستي كا مظاہرہ كريں اور انكا مقابلہ نہ كريں يا اپنے طور پر يہ سوچ كر بيٹهے رہيں كہ ہم كامياب ہيں اور اس طرح سست ہوجائيں تو مجهے اس بات كا ڈر ہے كہ كہيں وہ انہي مسائل كو دوسرے نتائج كے ساته ہمارے سامنے نہ لے آئيں۔ اگر ہم استقامت كا مظاہرہ كريں اور اپنے پاس موجود افراد وطن كي صورت ميں موجود اس طاقت كي حفاظت كريں ، اتحاد كلمہ كي حفاظت كريں تو ہم سب كامياب رہيں گے"۔ امام خميني (رہ) اتحاد بين المسلمين كو اسلامي نظام كي علت وجود اور علت بقاء جانتے ہيں اور اسي عنصر كو مسلمانوں كي بقاء كا ضامن سمجهتے ہيں:"اگر مسلمان اس عزت و عظمت كو دوبارہ حاصل كرليں جو انہيں صدراسلام ميں حاصل تهي ، اسلام اور اتحاد كو مدنظر قرار ديں ، وہ اسلام كے سلسلہ ميں ہونے والا اتفاق نظر ہي تها كہ جسكي وجہ سے وہ غيرمعمولي طاقت و شجاعت كے مالك بن گئے تهے"۔ • اتحاد ايك شرعي فريضہامام (رہ) كے فرض شناس نظريہ كے مطابق سياسي اقدام بنيادي طور پر شرعي ذمہ داري ہے۔ اسي وجہ سے بہت سے سياسي مسائل ميں شركت مثلاً انتخابات ميں شركت يا مظاہروں اور اجلاس كے ذريعہ نظام كي حمايت جو سياسي دانشوروں كي نگاہ ميں لوگوں كے "حقوق" ميں سے ہيں، امام(رہ) كے نظريہ كے مطابق عوام كا فريضہ بهي ہے۔ آپ اتحاد پر توجہ نہ كرنے اور اسے ترك كرنے كو "گناہ كبيرہ" اور "عظيم جرم" شمار كرتے ہيں:"اگر كبهي ايسا اتفاق پيش آئے تو وہ بهي جرم ہے۔ آج اتحاد كو كمزور كرنا بہت بڑا جرم ہے"۔ يہي مسئلہ اس بات كا باعث بنا كہ امام اتحاد كي حفاظت اور اختلاف سے پرہيز كي خاطر (رہ) بہت سے مسائل يا امور كے سلسلہ ميں سكوت اختيار فرمائيں جو آپكے نظريہ كے موافق نہيں تهے ليكن عہديداران حكومت اور ذمہ دار افراد اس پر متفق تهے بلكہ آپ نے ايسے مواقع پر اتحاد كي فضا كو مزيد مستحكم كيا۔ آپ فرماتے ہيں:"ہم اپني خواہشات نفساني سے مكمل طور پر پرہيز نہيں كرسكتے ہيں ، ہمارے پاس ايسي طاقت نہيں ہے، ليكن اتني طاقت تو ہے كہ اسكا اظہار نہ كريں۔ ہم بات پر قادر نہيں ہيں كہ اگر كسي كے واقعاً مخالف ہيں تو دل ميں بهي مخالفت نہ ركهيں ليكن اس بات پر قادر ہيں كہ ميدان عمل ميں اسكا اظہار نہ كريں"۔ امام خميني(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد كي حدودامام(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد بہت وسيع حدود پر مشتمل ہے جس ميں داخلي قوتوں اور امت مسلمہ كا اتحاد شامل ہے۔ اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے داخلي عناصر كے سلسلہ ميں امام (رہ) كي نگاہ ميں سب سے اہم چيز ملك كے ديني اور ثقافتي عناصر كا آپسي اتحاد تها۔ آپ نے خداداد ذكاوت و ذہانت كي بنياد پر اس بات كي كوشش كي كہ داخلي گروہوں اور طاقتوں كے درميان اتحاد برقرار كريں كہ جنميں سے بعض كي جانب اشارہ كيا جارہا ہے:• مدرسہ اور يونيورسٹي كا اتحادامام(رہ) كي شخصيت ايسي تهي كہ آپ كو مدرسہ اور يونيورسٹي كي زيادہ تر شخصيات مانتي تهيں اسي وجہ سے آپ ہميشہ ان دونوں طبقوں كے درميان اختلاف كے خطرہ كے سلسلہ ميں متوجہ كرتے تهے۔آپ فرماتے ہيں:"ہم نے متعدد سال كي زحمتوں كے بعد يونيورسٹيز كو علماء، ديني مدارس اور طلاب ديني سے نزديك كيا ہے۔ ان مختلف طبقوں كو ايك دوسرے كے نزديك كيا ہے اور ہميشہ اس بات كي تاكيد كي ہے كہ اپنے درميان اتحاد كلمہ برقرار ركهئے تاكہ آپ خدمات انجام دے سكيں"۔اسكے بعد آپ مدرسہ اور يونيورسٹي كي مہارت كے سلسلہ ميں اشارہ فرماتے ہيں اور بعض افراد كو اسلامي مسائل كا ماہر اور بعض كو ملكي امور اور سياسي مسائل كا ماہر بتاتے ہيں نيز اسي وجہ سے دونوں كو مستقبل كي كاميابي كے لئے ضروري جانتے ہيں۔ آپ انقلاب اسلامي كے سلسلہ ميں اپني ايك تجزياتي گفتگو كے درميان فرماتے ہيں:"اگر اس تحريك كا نتيجہ صرف علماء اور روشن خيال افراد كا اتحاد ہو تب بهي مناسب ہے" آپكے مطابق مدرسہ اور يونيورسٹي كو اپني صلاحتيوں كے مطابق ايك دوسري كي تكميل كرني چاہئے اور انقلاب و نظام كے آخري ہدف كي راہ ميں قدم بڑهانا چاہئے۔ اسي وجہ سے آپ فرماتے ہيں:"ہم سب اس حقيقت سے واقف ہيں كہ يہ دو مركز درحقيقت ايك شجرہ طيبہ كي دو شاخيں ہيں اور ايك جسم كے دو ہاته ہيں كہ اگر يہ اصلاح كي كوشش كريں ،اپنے معنوي عہد و پيمان كي حفاظت كريں ، ايك دوسرے كے شانہ بہ شانہ خدمت خدا اور خلق خدا كے لئے قيام كريں تو قوم كو مادي اور معنوي دونوں اعتبار سے كمال كي منزلوں تك پہنچاديں گے اور ملك كي آزادي اور اسكے استقلال كي حفاظت كريں گے"۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد داخلي عناصر ميں اختلافات كے حالات زيادہ فراہم ہوگئے اسي طرح جنگ كے دوران مليٹري، سپاہ اور كميٹي كے درميان اختلاف بهي بہت اہم تها۔ امام(رہ) ہميشہ عسكري طاقتوں كے اتحاد اور انكے "يدواحدہ" ہونے پر تاكيد كرتے تهے اور انكے اختلاف كو جنگ ميں شكست كے مترادف سمجهتے تهے۔ دوسري جانب اسلامي ملك ميں موجود مختلف قوميتوں اور لہجوں نے بهي قومي اور مذہبي اختلافات كي راہ ہموار كردي تهي۔ كردستان، سيستان، تركمن صحرا وغيرہ كا بحران؛ ان سب كا تعلق امت مسلمہ كو منتشر كرنے اور اسكے درميان مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كي خاطر تها۔ امام خميني(رہ) نے اپني گفتگو كا ايك محور ان گروہوں ميں اتحاد اور ساري ايراني عوام كے مسلمان ہونے پر تاكيدكو قرار ديا۔ انقلاب كي كاميابي كے بعد حكومت اور عوام كا اتحاد، حكومت كے مختلف شعبوں كے درميان اتحاد، سياسي پارٹيوں كےدرميان اتحاد اور انہيں اسلام كے محورپر متحد كرنے كے سلسلہ ميں امام (رہ) نے خاص توجہ دي۔ بيروني معاملات ميں بهي مسلمانوں اور مستضعفوں كے درميان اتحاد آپكي ديرينہ آرزو تهي جسكے متعلق آپنے انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بہت زيادہ تاكيد فرمائي۔ اسرائيل كے مقابلہ ميں اتحادبين المسلمينامام خميني(رہ) كے بيانات اور تحريروں كے درميان بہت سے ايسے موضوعات ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں جنكے ذيل ميں آپ نے اسرائيل سے مقابلہ كرنے كے لئے مسلمانوں كے متحد ہونے كي تاكيد كي ہے اور مظلوم فلسطيني عوام پر اس غاصب حكومت كے مظالم بيان كئے ہيں ۔ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آپ ان بيانات كا تعلق انقلاب اسلامي كي كاميابي كے صرف بعد كے دور سے نہيں ہے بلكہ اس سے پہلے بهي آپ ان مسائل كي جانب افراد كو متوجہ كرتے رہتےتهے۔ آج مظلوم فلسطيني قوم پر صہيونيوں كے مظالم اور اسلامي ممالك كي مجرمانہ خاموشي كو مدنظر ركهتے ہوئے آپ كے ان اقدامات كي اہميت دوچنداں ہوجاتي ہے۔ ايك ايسا وقت تها جب صہيوني گماشتے ايران ميں حكمراني كررہے تهے اور انتہائي مخفيانہ طور پر كام كرنے والي جاسوسي تنظيم "ساواك" صہيوني ماہروں كے زير تعليم و نگراني كام كررہي تهي۔ ايران ميں انكانفوذ بے مثال تها۔ اگرچہ آپ عراق ميں جلاوطني كي زندگي گزار رہے تهے ليكن وہاں سے آپ نے بہ كمال شجاعت يہ پيغام ديا: "غيروں كا نشانہ قرآن اور علماء ہيں ․․․ ہم امريكا اور فلسطين كے يہوديوں كي خاطر ذلت برداشت كريں! قيد و بند كي صعوبتيں تحمل كريں اور سزائے موت كا سامنا كريں اور اس طرح غيروں كے مفادات كي قرباني بنتے رہيں!" ميں اپني شرعي ذمہ داري ادا كرتے ہوئے ايراني عوام اور مسلمانان عالم كو متوجہ كرتا ہوں كہ قرآن اور اسلام خطرے ميں ہے، ملك كا استقلال اور اسكا اقتصاد صہيونيوں كے قبضہ ميں ہے"۔ آپ صہيونيوں كے جرائم طشت از بام كرنے كي توجہ سے جيل جاتے ہيں، جلاوطن ہوتے ہيں ليكن آپ اس سلسلہ ميں كوئي كوتاہي نہيں كرتے ہيں۔ ايك دوسري جگہ آپ فرماتے ہيں:"ميں تقريباً بيس سال عالمي صہيونيت كے خطرات كي جانب متوجہ كررہا ہوں اور ميں آج بهي دنيا كے تمام آزادي طلب انقلابوں اور ايران كے انقلاب اسلامي كے لئے اسكے خطرہ كو پہلے سے كم نہيں سمجهتا ہوں۔ دنيا كو نگلنے كا ارادہ كرنے والي ان جونكوں نے مختلف حربے اپنا كر مستضعفين عالم كے خلاف اقدام اور قيام كيا ہے۔ دنيا كي آزاد قوموں كو ان خطرناك سازشوں كے مقابلہ ميں شجاعت و دليري كے ساته كهڑے ہوجانا چاہئے"۔  دوسري جانب فلسطين كي مظلوم عوام كي حمايت ميں مسلمانوں كو بيدار كرنے كے لئے روز قدس (ماہ مبارك رمضان كا آخري جمعہ) كا اعلان آپ كے اہم كارناموں ميں ہے۔ اقسام اتحادمجموعي طور پر امت مسلمہ كے تين طرح كے اتحاد كا تصور كيا جاسكتا ہے: اتحاد مطلقاتحاد مطلق سے مراد ہے عقايد ، احكام اور اسلامي تعليمات كے تمام اصول و فروع ميں متفقہونا۔ خصوصيات اور كفيات ميں آزادي فكر و نظر نيز اسلام كے بنيادي اصولوں ميں استدلال كي اہميت كو مدنظر ركهتے ہوئے يہ اتحاد ناممكن ہے۔ بالخصوص مختلف سليقوں اور طرز فكر كے باعث دانشوروں ميں اختلاف نظر، اسلامي مآخذ كے سلسلہ ميں معلومات كي كمي و زيادتي اور استدلال و مسائل كو سمجهنے ميں موثر ذہانت و ذكات كے اختلاف كو مدنظر ركهتے ہوئےيہ اتحاد غيرعملي ہے۔ مصلحتي اور وقتي اتحادوقتي اتحاد ديني تعليمات سے قطع نظر بيروني عوامل كي وجہ سے وجود ميں آتا ہے۔ كبهي كبهي ايسا ہوتا ہے كہ ان عناصر سے اسلامي سماج كو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ عام طور پر سنگين حالات ميں فرقہ وارانہ اختلافات بالائے طاق ركه دئے جاتے ہيں اور لوگوں ميں ايك قسم كا اتحاد پيدا ہوجاتا ہے۔ چونكہ اس طرح كا اتحاد بيروني عوامل سے موثر ہوتا ہے اور ديني تعليمات سے اسكا تعلق-

مسئلۂ فلسطین بنی نوع انسان ـ بالخصوص مسلمین ـ کے لئے ایک المناک مسئلہ ہے، جو جرم یہودی ریاست نے اس ملک پر روا رکھا اس کے روحانی، نفسیاتی، فکری، معاشی، ثقافتی، سیاسی اور سماجی اثرات برسوں تک ناقابل تلافی ہیں اور انسانیت کے ہمدردوں اور مسلمین کے حافظے سے کبھی محو نہ ہوسکیں گے۔ پہلوی شہنشاہیت کے زمانے میں [ایران میں] فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں کوئی خطبہ یا بیان وغیرہ نہیں دیا جاتا تھا اور اگر جب بھی کہیں کسی خطبے یا تقریر کا آغاز ہوتا تھا؛ خفیہ ایجنسی “ساواک” مجلس پر حملہ آور ہوجاتی تھی اور تقریر کا پروگرام منسوخ ہوجاتا تھا۔
اسلامی انقلاب کے بعد امام خمینی (قدس سرہ) اور امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) نے مسئلۂ فلسطین کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان مسلسل زیر بحث اہم موضوع میں تبدیل کیا۔ چالیس سال سے مسئلۂ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک اہم اور بنیادی مسئلہ ہے اور اس ملک کے عوام اور اہل فکر و دانش کے ساتھ ساتھ بیرونی مفکرین کے لئے بھی مسئلۂ فلسطین کے فلسفے کی کافی شافی تشریح کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن اس اس یادداشت میں مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں “اسلامی انقلاب کے رہبر معظم امام خامنہ ای کی نظر میں مسئلۂ فلسطین کے بنیادی فقہی اصولوں” کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسئلۂ فلسطین کی تشریح کے سلسلے میں ایک نیا قدم اٹھایا جاسکے۔

سرزمین کا دفاع
فقہ میں جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔ زیادہ تر فقہاء نے ابتدائی جہاد کو معصوم کے لئے مختص کردیا ہے اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ ولی فقیہ بھی ابتدائی جہاد کا فرمان جاری کرسکتا ہے۔ جبکہ تمام شیعہ اور سنی فقہاء دفاعی جہاد کے وجود پر تاکید کرتے ہیں۔ دفاعی جہاد یعنی سرزمین کا دفاع اور مسلم ممالک کا دفاع، ایسے حال میں کہ اسلامی سرزمین اور اسلامی ممالک پر دشمنوں کی یلغار ہوئی ہو۔
خداوند متعال قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
“أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ * الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ ۔۔۔؛
اجازت دی جاتی ہے انہیں جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے، اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا ہے، اور بلاشبہ اللہ ان کی مدد پر قادر ہے * وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے”۔ (۱)
چنانچہ قرآن کریم کی آیات شریفہ کے مطابق ہی ہے کہ امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “ہمارے لئے مسئلۂ فلسطین ـ جیسا کہ میں نے کہا ـ ایک انسانی مسئلہ اور ایک اسلامی مسئلہ ہے”۔
اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم ان سرزمینوں کا دفا کریں جہاں مسلمان سکونت پذیر ہیں۔ اسلام نے ہم پر واجب کیا ہے کہ ہم مظلومین، ستمزہ لوگوں اور مستضعفین کے حقوق انہیں دلوا دیں؛ اسلام نے ہم پر لازم کیا ہے کہ ہم اپنے مال سے بھی اور اپنی جان سے بھی ان لوگوں کی مدد کو لپکیں جو “یا للمسلمین” (۲) کی آواز اٹھاتے ہیں”۔ (۳)
امام خامنہ ای اس فقہی حکم کے بارے میں فرماتے ہیں:
“مسلمانوں میں سے کوئی بھی فلسطین پر منطبق [شرعی] حکم کے اطلاق میں تذبذب اور تردد کا شکار نہیں ہے۔ یہ وہی مسئلہ ہے جو تمام فقہی کتب میں ـ جہاں جہاد کی بحث پیش کی گئی ہے ـ آیا ہے۔ اگر کفار آ کر مسلم ممالک پر قبضہ کریں یا انہیں محاصرہ کرلیں، جدید اور قدیم مسلم فقہاء میں سے کوئی بھی اس سلسلے میں جہاد کے واجب عینی (یا فرض عین) ہونے میں تذبذب کا شکار نہیں ہوا ہے۔ تمام اسلامی مذاہب اس سلسلے میں ہم فکر اور متفق القول ہیں۔ ابتدائی جہاد واجب کفائی (یا واجب بالکفایہ) ہے؛ لیکن یہ اس موضوع [مسئلۂ فلسطین] کے بغیر دوسرے مسائل میں ہے۔ دفاعی جہاد ـ جو دفاع کا آشکارترین مصداق بھی ہے ـ عینی واجب ہے”۔ (۴)

عقیدے کا مسئلہ نہ کہ ایک سیاسی مسئلہ
اسلامی جمہوریہ ہمیشہ سے کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کا علمبردار ہے۔ جیسا کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “قوم پرستوں نے سمجھ رکھا تھا کہ ہمارا ہدف غربت اور بھوک بھری دنیا میں اسلام کے عالمی قوانین کا نفاذ ہے؛ ہم کہتے ہیں کہ جب تک شرک اور کفر ہے، جہاد بھی ہے اور جب تک کہ جہاد ہے ہم بھی میدان میں ہیں”۔ (۵) لیکن انسانوں کی مظلومیت اور کفر و شرک کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ، مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی اور ایمانی مسئلہ بھی ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: “الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ” (۶) (جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں)؛ چنانچہ امام خامنہ ای مظلوم کے دفاع و تحفظ کو ایک سیاسی مسئلہ نہيں بلکہ اعتقادی اور ایمانی مسئلہ گردانتے ہیں اور فرماتے ہیں: “اسلامی جمہوریہ میں مسئلۂ فلسطین ہمارے لئے ایک تدبیری (Tactical) مسئلہ نہیں ہے، ایک سیاسی تزویر (Political Strategy) بھی نہیں ہے، عقیدے کا مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے، ایمان کا مسئلہ ہے”۔ (۷)

توحیدی تصورِ آفاق
فلسطین کی مدد کا ایک فقہی پہلو توحیدی تصورِ آفاق (Monotheistic worldview) ہے۔ توحید عربی لغت میں ” وَحَّدَ، یُوَحِّدُ” کا مصدر ہے اور اگر انسان اللہ کو ذات یکتا کے طور پر مانے اور اس کو ذات اور صفات میں ہر قسم کے شریک اور شبیہ سے منزہ جانے اس کو موحد اور یکتا پرست کہا جاتا ہے۔ (۸) امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “جتنی بھی بلائیں اور مصیبتیں آج مسلمانوں اور مسلم اقوام پر نازل ہورہی ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان توحید کے سائے میں زندگی کا راستہ کھو چکے ہیں”۔ (۹)
توحیدی تصورِ آفاق میں انسان سمجھتا ہے کہ ہر چیز اللہ کی ہے اور وہ اللہ کی کامل بندی کا اہتمام کرتا ہے۔ دولت، طاقت، شہرت وغیرہ کی ایسے انسان کی نگاہ میں ـ جو توحیدی نظریۂ آفاق کا مالک ہے ـ کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ وہ ان ساری چیزوں کو اللہ کی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی پورے عالم وجود کا مالک ہے اور تمام تر اشیاء اسی کے دست قدرت میں ہیں۔ اس انسان کا عقیدہ یہ ہے کہ پوری دنیا خدا کے قوانین اور اسی کی تدبیر و حکمت سے آگے بڑھ رہی ہے چنانچہ اسے اللہ کے سوا کسی غیر کی پرستش نہیں کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای فلسطین سے متعلق موقف کے سلسلے میں فرماتے ہیں: “اس موقف، اس تجزیئے اور اور اس نگاہ کا سرچشمہ کیا ہے؟ اگر یہ بندہ اور اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی جمہوریہ کے اندر فیصلہ ساز ادارے یہ موقف اپناتے اور ان کا اعلان کرتے ہیں، تو ان کا سرچشمہ کیا ہے؟ کیا اس کا سرچشمہ ایک محض سیاسی تصور ہے؟ نہیں! اس رائے اور اس موقف کا سرچشمہ دین [اسلام] ہے۔ ایک بیّن اور روشن معرفت، ایمان سے جنم والی شادابی اور طراوت، معرفت سے جنم والی حرکت، عقلمندی کی روح کو بروئے کار لانا اور بالآخر دنیا کے تمام موجودات کے بارے میں واضح اور شفاف تصورِ آفاق، یہ دین کی بنیاد ہے۔ دین پہلے درجے میں ایک معرفت اور ایک شناخت ہے؛ عالم اور انسان کی معرفت، اپنے فرائض کی معرفت، اپنے راستے اور اپنے ہدف کی معرفت، ان سب معرفتوں کا مجموعہ دین ہے۔ دین، انسان کو کائنات کا محور، اور دنیا کو اللہ کی خلقت، لطف و عنایت اور رحمت کا مجموعہ اور مظہر سمجھتا ہے؛ [یعنی توحید]؛ اور سمجھتا ہے کہ اس دنیا کی اساس اور عالم وجود کی عظیم نقشہ کشی میں اللہ کے دست قدرت و صُنع کا کردار ہے اور تمام امور کا فعالِ ما یشاء وہی ہے”۔ (۱۰)
نیز آپ قرآن کریم کو راہ نجات گردانتے ہوئے فرماتے ہیں: “ملت ایران جس قدر کے قرآن کے نزدیک پہنچی ہی اتنی ہی عزت کے قریب پہنچی ہے؛ نجات کے قریب پہنچی ہے؛ فلاح اور بہتری قریب پہنچی ہے؛ نصرت و کامیابی کے قریب پہنچی ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کی نجات کا راستہ اسلام اور قرآن کی قربت کا حصول ہے۔ فلسطین کی نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔ آپ دیکھ لیں؛ ایک غاصب ریاست مملکت فلسطین میں قائم ہوئی ہے۔ اس عرصے میں جدوجہد بھی ہوئی، لیکن کوئی جدوجہد آخر تک نہيں پہنچ سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس جدوجہد میں دین خدا، اسلامی ایمان اور قرآنی حکم کو معیار قرار نہيں دیا گیا تھا۔ آج فلسطینی قوم اسلام کے نام پر دشمن کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور اس جدوجہد نے دشمن کے بنیادی ستونوں پر لرزہ طاری کیا ہے”۔ (۱۱)

مستضعفین کی حمایت
مسئلۂ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ، دنیا بھر کے مستضعفین سے منسلک ہے۔ جس طرح کہ امام خمینی (قدس سرہ) نے فرمایا: “ہمیں امید ہے کہ دنیا بھر کی مستضعف قوموں کے تمام طبقے متحد ہوجائیں۔ اس تحریک کو ـ جو کہ استکبار کے مد مقابل مستضعفین کی تحریک ہے ـ پوری دنیا میں پھیل جانا چاہئے؛ ایران کو تمام مستضعف اقوام کے لئے نقطۂ آغاز، نقطۂ اول اور نمونۂ عمل ہونا چاہئے۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۲) چنانچہ فلسطینیوں کی مدد و حمایت کا ایک فقہی اور قرآنی پہلو مستضعفین کی راہ میں جہاد سے عبارت ہے جس کا اعلان سورہ نساء کی آیت ۷۵ میں ہوا ہے۔
امام خامنہ ای اس سلسلے میں فرماتے ہیں: “امام خمینی (قدس سرہ) کی حیات مبارکہ سے آج تک اسلامی ایران کے ساتھ [دشمنان اسلام کی] دشمنی کا سبب یہ ہے کہ یہاں تمام تر پالیسیوں کو اسلامی معیاروں پر پرکھا جاتا ہے اور پھر اختیار یا مسترد کیا جاتا ہے۔ [اسلامی جمہوری نظام] فلسطینی، بوسنیائی، تاجک، افغان، کشمیری، چیچن، آذربائی جانی اقوام سمیت تمام مظلوم اقوام کی حمایت کرتا ہے کیونکہ قرآن نے صراحت کے ساتھ مستضعفین کی حمایت کو لازمی قرار دیا ہے؛ اور ارشاد فرمایا ہے:
“وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيراً؛
اور تم آخر کیوں نہیں جنگ کرتے اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کی [نجات کی] راہ میں جو کہتے ہیں کہ پروردگار! ہمیں اس بستی سے کہ جس کے باشندے ظالم ہیں، باہر نکال دے اور ہمارے لئے اپنی طرف سے کوئی سرپرست قرار دے اور اپنی جانب سے کسی کو مدد گار بنا دے۔ (۱۳)
[ہماری] اس [پالیسی] کے بموجب، ہی استکباری محاذ کے سرغنے صہیونی سازشیوں کی دلالی اور خناسی سے، اسلامی ایران کو اپنا پہلے درجے کا دشمن سمجھتے ہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ دشمنی برتتے ہیں”۔ (۱۴)

شیطان کا منصوبہ کمزور ہے
چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ تمام دشمنیوں، بغاوتوں، خانہ جنگیوں، عراق کی نمائندگی میں بہت ساری بیرونی مسلط کردہ جنگ، پابندیوں، دھمکیوں، رنگین بغاوتوں، فتنوں، دہشت گردیوں وغیرہ کا سامنا کرنے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ حالیہ برسوں میں مصر کا انقلاب اور بعض دوسرے ممالک کے انقلابات بہت تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ چالیس برسوں سے پورے فخر و اعزاز کے ساتھ سربلند ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ شیطان صاحب ایمان افراد کے آگے کمزور ہے۔ امام خمینی (قدس سرہ) نے انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے بعد کی ان تمام کامیابیوں کا سبب ایمان کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: “۔۔۔ مستضعف اقوام دیکھ لیں کہ ایران خالی ہاتھوں اور ایمان کی قوت اور اتحاد و اتفاق اور اسلام کا سہارا لے کر بڑی طاقتوں کے آگے سینہ سپر ہوا اور بڑی طاقتوں کو شکست دی؛ دوسری قوموں کے [مختلف] طبقے اس اسلامی علامت اور اس ایمانی علامت کی متابعت کریں اور دنیا کے تمام گوشوں میں مسلمین اٹھ کھڑے ہوں، یہی نہیں بلکہ مستضعفین اٹھ کھڑے ہوں۔ اللہ کا وعدہ تمام مستضعفین کے لئے ہے اور ارشاد ہے کہ “ہم مستضعفین پر احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ امام بن جائیں اور وارث بن جائیں”۔ (۱۵) (۱۶)
امام خامنہ ای بھی ایران، لبنان اور غزہ کے مسلمانوں کی کامیابیوں کو شیاطین کی کمزوری کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: “مسلمین تعاون اور قرآن و سنت کے متعین کردہ مشترکہ اصولوں کے سہارے اتنی طاقت پا سکیں گے کہ اس کثیر جہتی اہرمن [بدی کی قوت] کے آگے ڈٹ جائیں اور اس کو اپنے عزم اور ایمان کے آگے مغلوب کردیں۔ اسلامی ایران امام خمینی کبیر (قدس سرہ) کی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے اس کامیاب مزاحمت و استقامت کی نمایاں مثال ہے۔ وہ اسلامی ایران میں شکست کھا چکے ہیں اور آیت کریمہ “إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛ [۱۷] (شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا کرتا ہے)”، ایک بار پھر ایرانیوں کی آنکھوں کے سامنے مجسّم ہوئی۔ ہر دوسرے مقام پر جب عزم و ایمان پر استوار استقامت نے اقوام کو گھَمَنڈی طاقتوں کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے وہاں فتح مؤمنوں کو ملی ہے اور شکست و رسوائی ظالموں اور جابروں کا حتمی مقدر ٹہری ہے۔ لبنان کی ۳۳ روزہ نمایاں فتح اور حالیہ تین برسوں میں غزہ کا سربلند اور فاتحانہ جہاد، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے”۔ (۱۸)

اللہ کی نصرت
اللہ نے مؤمنین کو مسلسل وعدہ دیا ہے کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں خالصانہ جہاد کریں، تو اللہ کی نصرت سے، کامیابی ان کے قدم چومے گی اور اگر وہ کامیاب نہ ہوں تو انہیں اپنے ایمان میں شک کرنا چاہئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: “مَنْ أَحَدَّ سِنَانَ الْغَضَبِ لِلَّهِ قَوِيَ عَلَى قَتْلِ أَشِدَّاءِ الْبَاطِلِ؛ جو شخص اللہ کی خاطر سنانِ غضب کو تیز کر دیتا ہے، وہ باطل کے سورماؤں کے قتل پر توانا ہو جاتا ہے”۔ (۱۹) نیز قرآن کریم میں خداوند حکیم ارشاد فرماتا ہے:
“وَلاَ تَهِنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ؛ اور کمزوری نہ دکھاؤ اور رنجیدہ نہ ہو اور تم برتری رکھتے ہوا اگر تم ایمان رکھتے ہو”؛ (۲۰) چنانچہ صاحب ایمان ہونا جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی شرط ہے۔ امام خامنہ ای جدوجہد میں اللہ کی نصرت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہيں: “ہم جو کچھ قضیۂ فلسطین میں دیکھ رہے ہیں ـ کہ یہ پیشرفت قابل انکار نہیں ہے ـ وہ استکبار اور کفر کے محاذ کے مد مقابل محاذ مزاحمت کی روزافزوں طاقت ہے جو ایک واضح اور مشہور امر ہے۔ جو کچھ اس سلسلے میں دکھائی دے رہا ہے، اس کا سرچشمہ خدا پر ایمان اور جدوجہد میں معنویت کے عنصر کا شمول ہے۔
اگر ایک جدوجہد ایمان کے ہمراہ نہ ہو، وہ زدپذیر ہوجاتی ہے۔ صرف اس وقت جدوجہد کامیاب ہوگی جب اس میں اللہ پر ایمان اور اللہ پر توکل شامل ہو۔ دین کے جذبے اور اللہ کے وعدوں پر حقیقی ایمان اور اللہ پر توکل کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچائیں؛ خداوند متعال اور اس کے وعدوں پر حسن ظن [اور اعتماد] کو لوگوں کے درمیان تقویت پہنچانا چاہئے؛ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ؛ (اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس [کے دین] کی مدد کرے) (۲۱) وہ ہمیں یہ تلقین فرماتا ہے اور واضح فرماتا ہے، خداوند متعال سچا ہے۔ اگر ہم اس راہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھائیں، خدا کے لئے حرکت کریں، اللہ کی رضا و خوشنودی کو اپنا نصب العین قرار دیں، تو بےشک کامیابی ہمارے قدم چومے گی”۔ (۲۲)
استقامت فتح و کامیابی کی شرط
قرآن کریم میں متعدد مرتبہ استقامت اور دشمن کے سامنے ڈٹ جانے کی تلقین ہوئی ہے۔ قرآنی مفہوم میں “استقامت” قرآنی مفہوم میں ایک اصطلاح ہے دین اور حق کے راستے میں کجیوں، بگاڑ اور ٹیڑھے پن اور انحراف کے مقابلے میں پامردی اور ثابت قدمی کے لئے۔ (۲۳) اہل عراف کے نزدیک “اہل استقامت” اور “منزل استقامت” جیسی عبارتیں بروئے کار لائی گئی ہیں جو سلوک الی اللہ کے مراحل میں شامل ہیں۔ (۲۴) مفسرین اور فقہاء نے استقامت کو فتح و کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ امین الاسلام ابو علی فضل بن حسن طبرسی(رح) مجمع البیان میں سورہ شوری کی پندرہویں آیت (۲۵) کے ذیل میں استقامت کے بارے میں لکھتے ہیں: “اللہ کے فرمان کی تکمیل میں استقامت کرو، اور اس کو ترک نہ کرو اور اس کے مطابق عمل کرو”۔ (۲۶)
علامہ سید محمد حسین طباطبائی (رح) اسی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں: “خداوند متعال نے جملہ انبیاء کے لئے ایک ہی دین قرار دیا، لیکن امتیں دو جماعتوں میں منقسم ہوئیں: آباء و اجداد جو علم بھی رکھتے تھے اور باخبر بھی تھے لیکن انھوں نے دین میں اختلاف ڈال دیا اور دوسری جماعت نسلوں کی تھی جو حیرت سے دوچار ہوئیں؛ چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام امور کو تمہارے لئے قرار دیا جو وہ پچھلی امتوں کے لئے قرار دے چکا تھا؛ لہذا اے میرے پیغمبر(ص)! لوگوں کو دعوت دیجئے، اور چونکہ وہ دو جماعتوں میں منقسم ہوچکے ہیں ایک وہ جو حسد کا شکار ہے اور دوسری وہ جو شک و تذبذب کا شکار ہے، چنانچہ آپ جمے رہئے اور جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ویسا ہی کرتے رہئے اور لوگوں کی خواہشوں کی پیروی مت کیجئے۔ “فلذلك” میں “لام” “لامِ تعلیل” ہے اور کچھ مفسرین کا کہنا ہے کہ لام الی کے معنی میں آیا ہے اور جملے کے معنی کچھ یوں ہیں: “چنانچہ لوگوں کو اسی دین کی طرف بلایئے جو آپ کے لئے قرار دیا گیا ہے اور اپنے فریضے کی ادائیگی میں جم کر استقامت کیجئے”۔ اور “واستقم” فعل امر کا صیغہ ہے استقامت سے جس سے راغب اصفہانی کے بقول “سیدھے راستے پر گامزن رہنے پر مداومت مراد ہے”۔ (۲۷)

امام خامنہ ای بھی استقامت کے لازمی ہونے کے سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: “میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اپنا حق پلٹانے کے سلسلے میں فلسطینی قوم کی کامیابی اسلامی جمہوریہ کے قیام کے سلسلے میں ایرانی قوم کی کامیابی سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اُس دن جدوجہد کے دوران ہمارے پاس وسائل کی اس سے کہیں زیادہ قلت تھی جو آج غزہ اور مغربی کنارے میں آپ کے عوام کے پاس ہیں؛ لیکن یہ واقعہ بہرصورت رونما ہوا، یہ ناممکن کامیابی حاصل ہوئی اور انجام کو پہنچی؛ جدوجہد کے تسلسل کی برکت سے، خدا پر توکل کی برکت سے، ہمارے امام بزرگوار کی پرعزم اور مضبوط قیادت کی برکت سے؛ میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہے کہ یہ صورت حال پیش آئے کہ کچھ لوگ میدان پر نظر ڈالیں، امریکی طاقت کو دیکھیں، صہیونیوں کو حاصل مغرب کی پشت پناہی کو دیکھیں، امریکہ اور دنیا کے دوسرے نقاط میں صہیونیوں کے نیٹ ورک کی طاقت کو دیکھیں اور ان کی تشہیری طاقت کو دیکھیں اور سمجھیں کہ فلسطین کا فلسطینیوں کے پاس پلٹانا ایک ناممکن امر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، یہ ناممکن امر ممکن ہوجائے گا؛ بشرطیکہ استقامت اور پامردی ہو۔ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ” (۲۸) استقامت لازمی ہے، پامردی اور جم کر رہنا لازمی ہے، راستے پر مداومت سے چلتے رہنا لازمی ہے؛ راستے پر مداومت سے چلتے رہنے کی تمہیدات اور مقدمات میں سے آپ کے یہ اجتماعات ہیں، آپ کی یہ ہمآہنگیاں ہیں، آپ کی یہ تبلیغات ہیں، انھوں نے دنیا کی رائے عامہ میں زہر اگل دیا ہے”۔ (۲۹)

بقلم: سعید ابوالقاضی

حوالہ جات:
۱۔ سورہ حج، آیات ۳۹-۴۰۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: “مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِى يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو صبح کرے اور مسلمانوں کے معاملات کو اہمیت نہ دے وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جو بھی سن لے کسی آدمی کو جو پکار رہا ہے کہ “اے مسلمانو! میری مدد کو آؤ” اور جواب نہ دے، وہ مسلمان نہيں ہے”۔ (الکلینی، الکافی، ج۲، ص۱۶۴)
۳۔ خطبۂ جمعہ ـ تہران، ۱۷/۵/۱۳۵۹ھ ش | ۸ اگست ۱۹۸۰ع‍۔
۴۔ خطاب ۱۳/۹/۱۳۶۹ھ ش | ۴ دسمبر ۱۹۹۰ع‍
۵۔ امام خمینی(قدس سرہ)، صحیفہ نور، ج۲۱، ص۸۸۔
۶۔ “الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۷۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۸۔ https://islamqa.info/fa/answers/49030 معنای توحید و انواع آن
۹۔ خطاب ۱۳۷۷/۰۴/۲۱ھ ش | ۱۲ جولائی ۱۹۹۸ع‍
۱۰۔ صوبہ اردبیل کے نوجوانوں سے خطاب ۵/۵/۱۳۷۹ھ ش | ۲۶ جولائی ۲۰۰۰ع‍
۱۱۔ بیانات در مراسم اختتامیه مسابقات حفظ و قرائت قرآن کریم‌، ۹/۸/۱۳۷۹ھ ش | ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۰ع‍
۱۲۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۳۔ سورہ نساء، آیت ۷۵۔
۱۴۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام، ۱۴/۲/۱۳۷۴ھ ش | ۴ مئی ۱۹۹۵ع‍
۱۵۔ “وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ؛
اور ہمارا مقصود یہ ہے کہ احسان کریں ان پر جنہیں دنیا میں مستضعف بنایا [دبایا اور پیسا] گیا ہے اور [ہمارا ارادہ ہے کہ] ان ہی کو امام و پیشوا بنا دیں، ان ہی کو آخر میں وارث [یا قابض و متصرف] بنائیں”۔ (سورہ قصص، آیت ۵)
۱۶۔ امام خمینی (قدس سرہ)، صحیفۂ نور، ج۷، ص۲۹۲۔
۱۷۔ “الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفاً؛
جنہوں نے ایمان قبول کیا، وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنہوں نے کفر اختیار کیا وہ اقتدار باطل کی راہ میں جنگ کرتے ہیں تو شیطان کے حوالی موالی سے جنگ کرو۔ یقینا شیطان کا منصوبہ کمزور ہوا ہی کرتا ہے”۔ (سورہ نساء، آیت ۷۶)
۱۸۔ دنیا بھر کے حجاج کرام کے نام پیغام؛ ۵/۹/۱۳۸۸ھ ش | ۲۶ نومبر ۲۰۰۹ع‍
۱۹۔ امیرالمؤمنین(ع)، نہج البلاغہ، حکمت ۱۷۴۔
۲۰۔ سورہ آل عمران، آیت ۱۳۹۔
۲۱۔ “الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ؛
وہ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر کسی جرم و خطا کے سوا اس کے کہ ان کا قول یہ تھا کہ ہمارا مالک اللہ ہے اور اگر نہ ہوتا اللہ کا دفع کرنا بعض کو بعض کے ساتھ تو گرا دیئے جاتے راہبوں کے ٹھکانے اور گرجے اور یہودیوں کے عبادت کدے اور مسجدیں جن میں اللہ کے نام کا بہت ورد ہوتا ہے اور یقینا اللہ مدد کرے گا اس کی جو اس کی مدد کرے۔ بلاشبہ اللہ طاقت والا ہے، غالب آنے والا (سورہ حج، آیت ۴۰)
۲۲۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍
۲۳۔ ابن عاشور، تفسیر التحریر والتنویر، ج‌۱۱، ص‌۲۷۳٫
۲۴۔ محی الدین بن عربی، الفتوحات المکية، ج‌۲، ص‌۲۱۷؛ خواجه عبدالله انصاری، منازل السائرین، ص‌۴۲؛ ابن قيم الجوزية، مدارج السالکین، ج‌۲، ص‌۱۰۸٫
۲۵۔ “فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ؛ تو بس اسی کے لئے آپ دعوت دیتے رہئے اور مضبوطی سے استقامت کرتے رہئے [اور جمے رہئے] جیسا کہ آپ کو حکم ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کیجئے”۔
۲۶۔ فضل بن حسن طبرسی، تقسیر مجمع البیان، ج۹، ص۴۳۔
۲۷۔ طباطبائی، تفسیر المیزان، ص۳۳۔
۲۸۔ سورہ شوری، آیت۱۵۔
۲۹۔ غزہ کانفرنس کی افتتاحی نشست کے شرکاء سے خطاب؛ ۸/۱۲/۱۳۸۸ھ ش | ۲۷فروری ۲۰۱۰ع‍

ترک وزير خارجہ نے کہا کہ ترکی کی تیل کی ریفائنریوں ميں تیل کے تصفیہ کے لئےمناسب وسائل نہیں ہیں اور ترکی کے پاس ایرانی تیل کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے دھمکی دی تھی کہ 2 مئی کو ایران سے تیل خریدنے والے چھ ممالک کے استثنی کو ختم کردیا جائےگا اور ان کی مدت میں مزید توسیع نہیں کی جائےگی ، امریکہ کے اس غیر قانونی فیصلے کو عالمی مزاحمت کا سامنا ہے۔

ہندوستانی وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے تیل پر پابندی لگا کر اس کی جگہ دوسرا آپشن تلاش کرنا آسان کام نہیں۔ لہذا ہندوستان کو ایران کے تیل پر پابندی سے مزید کچھ عرصہ تک استثنی دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق ہندوستانی وزير خارجہ کے اس مطالبے پر امریکی وزیر خارجہ نے کوئی توجہ نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق ہندوستان بظاہر الیکشن اور نئی حکومت کے آنے تک استثنی چاہتا تھا جسے امریکی وزیر خارجہ نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ امریکی صدر ٹرمپ ایران کے تیل پر پابندی عائد کرنے کے سلسلے میں مصمم ہیں۔ باخـر ذرائع کے مطابق ایران کے تیل کے خلاف امریکہ کا معاندانہ اقدام بھی اس کے ماضی کے اقدامات کی طرح ناکام ہوجائےگا۔

تیل کی عالمی تنظیم اوپیک کے سکریٹری جنرل محمد سینوسی بارکیندو نے تیل کی بین الاقوامی نمائش میں تیل کے بازار میں ایران کی موجودگی کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تیل کے بازار سے ایران کو حذف کرنا ناممکن ہے۔ تیل کی عالمی تنظیم اوپیک کے سکریٹری جنرل نے تیل گیس ، ریفائننگ اور پیٹرو کیمیکل کی 24 ویں بین الاقوامی نمائش کے مشاہدے کے دوران کہا ہے کہ ایران کو ماضی میں بھی ایسے چیلنجوں کا سامنا رہا ہے اور ایران موجودہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ اوپیک کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ اوپیک میں انفرادی فیصلے نہیں ہوتے بلکہ اجتماعی طور پر فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اوپیک کی تشکیل کو 60 سال بیت گئے ہیں اور ہم نے ہمیشہ رکن ممالک کے درمیان اتحاد برقرار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اوپیک کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ تیل کے بازآر سے ایران کو حذف کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اوپیک میں صلاح اور مشورے کے بعد فیصلے کئے جاتے ہیں ۔ اوپیک کسی خاص ملک کے مفادات کو نہیں بلکہ اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے البتہ رکن ممالک اپنے لئے ذاتی طور پر فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔

یوم معلم کی آمد کی مناسبت سے پورے ملک کے اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور معلمین کی بہت بڑی تعداد نے بدھ کو رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی-
رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں اساتذہ اور معلمین کو ایک قوم کے اہم ترین سرمائے یعنی انسانی سرمائے کا مربی قرار دیا اور فرمایا کہ اساتذہ اور معلمین ہی نئی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھتے ہیں اور وہی جہالت کا مقابلہ کرنے کے میدان کے مجاہد ہوتے ہیں-

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یوم معلم یا ٹیچر ڈے کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے شہید استاد آیت اللہ مطہری کو خراج عقیدت یش کیا اور فرمایا کہ شہید آیت اللہ مطہری حقیقی معنی میں ایک ہمدرد اور مخلص معلم تھے-

رہبر انقلاب اسلامی نے معلم و استاد اور وزارت تعلیم و تربیت کے کردار کو انتہائی اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ کسی ایک قوم کا سب سے عظیم سرمایہ انسانی سرمایہ ہوتا ہے کیونکہ ملک، انسانی سرمائے کے بغیر ان بعض دولتمند ملکوں کی طرح ہے کہ جن کی دولت حماقت آمیز طریقے سے انسانیت کے خائن اور غداروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے-

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ وزارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ دانا، توانا، خردمند، متقی و پرہیز گار، کار آمد اور شجاع و ہوشیار انسانوں کی تربیت کرے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ قوم متحد رہے گی تو دشمن کی سازشیں خود دشمن کی ہی طرف پلٹ جائیں گی اور ایران کے نوجوان امریکا کی شکست اور صیہونیزم کی ذلت کا مشاہدہ کریں گے-

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دشمن کی جنگی صف بندی اور اقتصادی و سیاسی میدان میں ان کی یلغار اور سائبراسپیس کے ذریعے حملہ کرنے کی دشمن کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکا اور صیہونیزم سبھی میدانوں میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آپ نے فرمایا کہ البتہ یہ چیز امریکا کی موجودہ حکومت سے ہی مخصوص نہیں ہے لیکن امریکا کی موجودہ حکومت کے صدر نے جو کام آسان کر دیا ہے وہ یہ کہ وہ کھل کر سامنے آگیا اور پوری دنیا اب امریکا کا اصلی چہرہ دیکھ رہی ہے-

آپ نے فرمایا کہ ایرانی قوم کے خلاف دشمن کی جنگی صف بندی کے مقابلے میں ایرانی عوام کو بھی پوری طرح تیار رہنا چاہئے اور ملک کے سبھی حکام، قوم کے ایک ایک فرد اور ہر شعبے میں سرگرم توانا اور ماہر افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آمادہ اور میدان میں موجود رہنا چاہئے-

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ البتہ بظاہر فوجی جنگ کے میدان میں دشمن نے صف بندی نہیں کی ہے لیکن ہماری مسلح افواج پوری طرح ہوشیار ہیں-

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں دین کا پرچم دنیا کے دیگر سبھی علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اونچا اور بلند ہے اور علم و سائنس میں ترقی و پیشرفت کے لحاظ آج ایران دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔

ہم اور آپ عصر انتظار میں جی  رہے ہیں  عصر انتظار میں جینے کے دو رخ ہیں ایک یہ کہ جس کے انتظار میں جی رہے ہیں اسکے لئے کیا کر ہے ہیں اگر انتطار کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں تو ہمار ا  یہ جینا عصرِ ظہور میں جینے جیسا ہی ہے فرق بس یہ ہے کہ ہمارا امام ہماری نظروں کے سے اوجھل ہے یہ اور بات ہے کہ نہ ہم اسکی نظروں سے اوجھل ہیں نہ ہمارے اعمال اسکی نظروں سے اوجھل ہیں ،عصر انتظار میں جینے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم جی تو رہے ہیں لیکن نہ ہمیں انتطار کے مفہوم کا پتہ ہے اور نہ ہی اسکے تقاضوں کا ایسے میں ہماری زندگی اور ہماری موت دونوں ہی یکساں ہیں  اس لئے کہ نہ ہم اپنے عصر کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی یہ عصر جس حجت خدا سے تکوینا جڑا ہے اس کو پہچانتے ہیں  ، کیا ہی بہتر ہے کہ انسان عصر انتظار میں ایسے جئیے کہ اسکا شمار عصر غیبت میں رہنے کے باجود میں ان لوگوں میں ہو جنہوں نے وقت کے امام کو درک کیا ہے  اور یہ تب ہو سکتا ہے جب ہم انتظار کے صحیح مفہوم ہو سمجھیں اور اسکے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے شاہراہ حیات پر آگے بڑھیں  اس لئے کہ  انتظار کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے ہم مجاہد کہلائیں گے ورنہ  محض عریضے  لکھ کر مجاوری ہی کر سکتے ہیں زندگی میں کوئی مجاہدت نظر نہیں آئے گی ، اگر انتظار کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں تو عریضے لکھنے کا انداز بھی مجاہدانہ ہوگا ورنہ  یہ بھی ایک رسم ہوگی اور ایک مجاورانہ طرز عمل  جس کے مقصد سے ہم ناواقف ہیں اور محض اس لئے انجام دے رہے ہیں کہ ایسا ہوتا چلا آیا ہے   ، چاہے عریضوں کا لکھا جانا ہو یا نیمہ شعبان میں چراغانی ہمارے عمل کو جو چیز وزنی بناتی ہے وہ کیفیت انتظار ہے  یوں تو  روایات میں انتظار کی جو فضیلت ہے وہ اپنی جگہ ہے ہی لیکن اس بات میں شک نہیں کہ انتظار کا مفہوم کافی حد تک ہمارے عمل کی نوعیت سے جڑا ہے اور ہم اس وقت انتظار کے معنی اور اسکی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں جب یہ جانیں کہ ہم اپنے وقت کے امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کاانتظار کیوں کر رہے ہیں ؟ اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم دیکھیں آپکی غیبت کی بنیاد پر وہ کونسی کمی ہمارے معاشرے میں ہے کونسانقص لازم آتا ہے جس کی بھرپائی ظہور کے علاوہ ممکن نہیں ہے

جب تک ہمارے اندر اضطرار کی پیاس نہیں ہوگی تب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے اسی لئے جہاں ہمیں حقیقت انتظار کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہیں ضرورت انتظار پر غور کرنے کی ضرورت ہے اسی کے ساتھ انتظار کے مختلف پہلووں کو سمجھنے کی ضرورت ہے انتظار کی آداب و آثار کو جاننے کی ضرورت ہے ۔

انتظار اور اسکی حقیقت

اگر الفاظ کے صحیح معنی کا پتہ چل جائے تو انسان کے لئے کسی بھی مذہب کی شناخت اسکے اہداف  کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے چنانچہ جب ہم انتظار کے معنی دیکھتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ انتظار  مختلف امور میں ٹہر کر غور کرنے ، چشم براہ ہونے اور مستقبل کی امید رکھنے کے ہیں [۱]اس معنی کے پیش نظر دو  ممکنہ چیزیں سامنے آتی ہیں  ایک تو یہ ہے کہ انتطار ایک ایسی کیفیت ہے جس میں انسان غور و فکر کرتا ہے کسی معاملہ میں ٹہرتا ہے اور یہ کیفیت اسے روز مرہ کے کاموں سے روک دیتی ہے وہ اس لحاظ سے کہ کسی کا منتظر ہے ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھ جاتا ہے اور مستقبل کو آنے والے کے حوالے کر دیتا ہے کہ وہ آئے گا تو دیکھے گا کیا کرنا ہے فی الحال ہمارا کام تو انتطار کر نا ہے ، ایک دوسرا تصور انتظار یہ ہے کہ انسان کا انتظار ا س کے وجود میں حرکت کا سبب بنتا ہے انسان جسکا انتظار کر رہا ہے اسکے لئے ماحول کو فراہم کرتا ہے اسکی آمد کے لئے فضا کو سازگار بناتا ہے ، اسی لئے اصطلاح میں انتظار کو ایک ایسے مفہوم سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں بشریت کے بہتر مستقبل کی فکر کرنا  ایسے مستقبل کی راہ تکنا جس میں ظلم و انصافی نہ ہو  اور پوری دنیا میں عدالت قائم ہو  جیسی چیزیں بنیادی حیثت کی حامل ہیں چنانچہ انتظار  ایک ایسے منجی بشریت کی آمد کا انتظار ہے جو دنیا میں عدل و انصاف قائم کرے گا اور ظلم و ستم کی حکومت کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف کی حکومت قائم کرے گا [۲]    جب ہم  روایات و احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ انتطار  ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے رہنا نہیں ہے بلکہ انتظار ایک عمل ہے بلکہ اعمال میں سب سے افضل عمل ہے[۳] ، ایسا عمل جو عبادت سے عبارت ہے[۴] ایسا عمل جو عبادتوں میں بھی سب سےافض ہے[۵] ۔

جب انتظار عبادتوں میں سب سے افضل عبادت ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس عبادت کو بہتر سے بہتر طور پر انجام دیا جائے اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک منتظر کی خصوصیت کیا ہے ؟ جب ہم روایات میں ایک منتظر کی خصوصیت کو دیکھتے ہیں تو مفہوم روایت یوں ملتا ہے  :

جسکے لئے اصحاب قائم میں ہونا خوشی کی بات ہے تو اسے منتظر ہونا چاہیے ایسا منتظر جو جسکا عمل ورع کے ساتھ ہواور محاسن اخلاق پر عمل پیرا ں ہو [۶] اسکا مطلب یہ ہے جو تقوی اور ورع کے ساتھ جی رہا ہے وہی حقیقی منتظر ہے ، جس طرح ماہ مبارک رمضان میں روزہ سب رکھتے ہیں لیکن  کیفیت رورزہ الگ الگ  ہوتی ہے کسی کا روزہ بھوک اور پیاس سے زیادہ نہیں ہوتا کسی کا روزہ خاص ہوتا ہے کسی کا خاص الخاص ہوتا ہے  کوئی ایسا روزہ رکھتا ہے جوکھانے پینے کے ساتھ گناہوں سے بھی امساک کرتا ہے اسکے ہاتھ پیر آنکھ کان ناک سبھی روزہ رکھتے ہیں سارے اعضاء و جوارح سے روزہ رکھتا ہے[۷] کوئی اعضا وجوارح سے بڑھ کر اس منزل پر پہنچتا ہے کہ اسکا دل بھی روزہ رکھتا ہے[۸] یعنی دل میں بھی کوئی ایسا خیال نہیں آتا جو  اسکے رب سے جڑا نہ ہو  اسی طرح انتظار ہے کوئی انتظار میں صرف بیٹھ کر اپنے مولا کا انتظار کرتا  کوئی محض ہر جمعہ دعاءے ندبہ پڑھ کر انتظار کرتا ہے کوئی ادعیہ ماثور پڑھ کر انتظار کرتا ہے تو کوئی انکے سب کے ساتھ اپنے انتظار کو اپنے لئے میدان کارزار بنا لیتا ہے اور ہر اس محاذ پر دشمن سے نبرد آزما نظر آتا ہے جہاں لوگ دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں اسکے انتظار میں اور عام انتطار میں بہت فرق ہے  کوئی اس سے بھی بڑھ جاتا ہے اب اسکا انتظار  اسکے دل کا تابع نہیں ہوتا بلکہ اپنے دل کو اپنے امام کی اطاعت کا تابع بنا دیتا ہے اور کچھ امام وقت عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے ہٹ کر کچھ سوچتا ہی نہیں ہے  وہ خود کو بھی بدلتا ہے اور سماج اور معاشرے میں بھی تبدیلی کا خواہاں رہتا ہے وہ نہ خود سے راضی رہتا ہے نہ سماج او ر معاشرے سے راضی رہتا  اب یہ سایک عقلی قاعدہ ہے کہ جو بھی موجودہ حالات سے راضی نہیں ہے اور اسے قبول نہیں کرتا وہ حالات کی تبدیلی کا انتظار کر رہا ہے اور خود کو اس کے لئے تیار کر رہا ہے من انتظر امرا تھیا لہ ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے انتظار کا یہ مفہوم نکالا ہے کہ ہے اسکا مطلب خاموشی سے بیٹھ جانا ہے ، گوشہ نشینی اختیار کرنا ہے ، واضح ہے کہ انہوں نے انتظار کا غلط مفہوم اخذ کیا ہے اس لئے کہ انہوں نے حقیقت انتظار کو سمجھا ہی نہیں ہے اور تاریکی میں ایک تیر چلا دیا ہے جس کا کوئی مقصد و ہدف نہیں حتی یہاں تک بڑھ گئے کہ انہوں نے انتظار کو مذہبِ اعتراض تک کہہ دیا [۹]

البتہ انتظار اعتراض ہے لیکن اسکا صحیح رخ دیکھنے کی ضرورت ہے ، انتظار اعتراض ہے سماج کی برائیوں پر ، انتظار اعتراض ہے سماج میں پائی جانے والی نا انصافیوں پر ، انتطار اعتراض ہے  ظلم کے خلاف ، اس لئے کہ انتظار  موجودہ حالات کو بدلنے کی کوشش ہے یہی وہ اعتراض ہے جو سقیفہ   سامنے علی ع نے کیا اور یہ انتظار ایک اعتراض کی صورت رہے گا ، عدل و انصاف کے قائم ہونے تک ،حریت و آزادی کے حصول تک ، انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کے نکھرنے تک  ، حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انسانوں کو سونے اور چاندی کی کانوں سے تعبیر کیا ہے [۱۰]

ہم جانتے ہیں کہ اگر کان سے استفادہ کرنا ہے اگر کسی معدن سے فائدہ اٹھانا ہے تو ضروری ہے کہ کان کنی کےمراحل پر نظر ڈالی جائے کان کنی کا پہلا مرحلہ کشف  یعنی پہلی منزل یہ ہے کہ ہم ایسے مقام پر پہنچے جہاں واقعا ایک کان موجود ہو  واقعا سونا اور چاندی ہو پتہ چلا ہم ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سونا چاندی تو کیا کوئلہ بھی ملنا مشکل ہے ، تو پہلی منزل کان کو کشف کرنا اور ڈھونڈ نکالنا ہے دوسری منزل اس میں سے خزانے کو نکالنا ہے جسے استخراج کہتے ہیں تیسری منزل اسے نکالنے کے بعد مختلف شکلوں میں ڈھالنا ہے مثلا اگر لوہے کی کان ہے تو خالص لوہے کو نکال ہے اسے مختلف قالبوں میں ڈھالنا ہے ، اگر سونا چاندی ہے تو اب اسے مختلف ہاروں میں زینتی اشیاء میں ڈھالنا ہے تاکہ دیدہ زیب نظر آئے  اسکے بعد چوتھامرحلہ یہ ہے  کان اور معدن کی سمت اور جہت کا تعین کیا جائے کہ یہ جو کچھ ہے اور جو کچھ ہمیں ملا ہے اسے کس راہ میں صرف کرنا ہے کس کے لئے یہ سب ہے مقصد کیا ہے ؟ کیا مقصد انسان ہے  کیا مقصد یہی دنیا ہے یا پھر مقصد حیات اخروی ہے اب انسان کو سوچنا ہے کہ حیوانی راہوں میں اسے صرف کرنا ہے یا انسانی راستہ میں  جتنی بھی نعمتیں انسان کو ملی ہے انکا بھی یہی حال ہے انسان انہیں کہاں خرچ کر رہا ہے یہ سوال ہر جگہ ہے  کیا انسان ملنے والی نعمتوں کو حیوانی راہوں میں خرچ کر رہا ہے ؟ یا الہی راستوں میں  یہاں پر انتظار کی کیفیت سامنے آتی ہے ، ایک واقعی منتظر وہ ہے جو دنیا کی تمام تر سہولتوں کو تیار کرتا ہے کہ اپنے آقا و سلطان کے لئے اور انہیں کا انتظار کرتا ہے انہیں کے بارے میں سوچتا [۱۱]ہے

یہ وہ انتظار کی کیفیت ہے جسے ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام نے بیان کیا ہے  :

تم میں سے ہر ایک ہمارے قائم کے خروج کے لئےآمادہ رہے چاہے وہ ایک تیر کو مہیہ کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو چونکہ جب خدا یہ دیکھے گا کہ انسان نے مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نصرت کی نیت سے اسلحہ مہیہ کیا ہے تو امید ہے کہ خدا اسکی عمر کو طولانی کر دے کہ وہ  ظہور کو درک کر لے اور امام مہدی علیہ السلام کے یاور و مددگاروں میں قرار پائے [۱۲]۔

یہ انتظار کی وہ کیفیت ہے جو مطلوب ہے کہ اگر کوئی ایک تیر  کا انتظام بھی کرتا ہے تو گویا وہخود کو تیار کر رہا ہے ایک قیام کے لئے اور کیوں نہ ہو امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ایک لقب قائم ہے  اور جب یہ لفظ آئے تو احتراما اٹھ کھڑا ہونا ضروری ہے  اس قیام کی اجتماعی بھی ہمیں انتظار کے اس مفہوم کی طرف متوجہ کر رہی ہے جہاں انتظار محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نام  نہیں ہے  بلکہ یہ قیام ہمیں بتا رہا ہے کہ آج ہمارا ہادی و رہبر ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم اسکا نام آتے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ ہمارے سامنے ہو اور ہم بیٹھے رہیں چنانچہ یہ عمل بھی قیام و جہاد کی ایک علامت ہے [۱۳] بعض لوگوں نے اس انتظار سے بہت غلط مفہوم اخذ کیا ہے کہ ہم سے  کچھ مطلب واسطہ نہیں ہے سب کچھ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو کرنا ہے ہمیں تو بس انکے آنے کی دعاء کرنا ہے  جبکہ ائمہ طاہرین علیھم  السلام کی تعلیمات  کچھ اور ہی ہیں  چنانچہ راوی کہتا ہے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا  مولا لوگ کہتے ہیں  جب مہدی  ع کا قیام ہوگا تو سارے کام خودبخود ہو جائیں گے اور ایک حجامت کے برابر بھی خون نہیں نکلے گا  آپ نے فرمایا: ہرگز ایسا نہیں ہے  خدا کی قسم  اگر ایسا ہی ہوتا کہ سارے کام خود بخود انجام پاتے تو یہ کام تو اس وقت  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے ہونا چاہیے تھا جب آپ کے داندان مبارک شہید ہو گئے تھے اور چہرہ پر زخم لگا تھا ، ہرگز ایسا نہیں ہے کہ کام اپنے آپ بن جائے ۔ خدا کی قسم اس وقت تک کام نہیں بنے گا جب تک ہم اور تم خون پسینے میں غرق نہ ہو جاءیں اس مقام پر امام علیہ السلام نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا ۔

اس حدیث سے واضح ہے کہ انتظار کی کیفت میں عمل پوشیدہ ہے اور کچھ بھی بیٹھے رہنے سے حاصل نہیں ہوگا جب تک آگے نہ بڑھا جائے اسی لئے انتظار محبوب ترین عمل ہے کہ اس میں حرکت ہے ایک مقصدیت ہے منزل کی طرف بڑھنے کی لگن ہے یا محض بیٹھ کر دعائیں پڑھ لینے کو محبوب ترین عمل سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟

مفہوم انتطار کی غلط تشریح ہے اگر کوئی یہ کہے کہ ہمیں خامو ش بیٹھ کر بس دعاء کرنا ہے اور کچھ نہیں ہے ،  ہرگز یہ معقول نہیں ہے ایک سامنے کی مثال سے واضح ہے ، فرض  کریں ہمارے یہاں الیکشن چل رہے ہیں ، فسطائی طاقتوں سے قوم و ملک کے ساتھ ہمیں بھی بھی خطرہ ہے جو کچھ گزشتہ چند برسوں میں ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا اب ہم اگر چاہتے ہیں کہ انہیں شکست ہو تو کیا صرف دعاوں سے کام چلے گا کیا صرف امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کاکی ولادت کا جشن منانے سے کام چلے گا ، ہرگز نہیں  بلکہ ہمیں خود اٹھنا ہوگا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہوگا اسے تقسیم ہونے سے روکنا ہوگا اور متحد ہو کر اپنے دشمن کے خلاف اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرنا ہوگا اس طرح ہم دشمن کو شکست دے سکتے ہیں اور اسی متحد حرکت کو انتظار کا نام دیا جائے گا اگر ہم واقعی ایسی حکومت کے منتظر ہیں جہاں لوگوں کو انصاف ملے جہاں ظلم کی جگہ نہ ہو تو ہمیں اپنے سماج اور معاشرے میں اپنی طاقت اور توانائی بھر عدل و انصاف کے قیام کی جدو جہد کرنا ہوگی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی  ہم اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب اپنی توانائیوں کو انتظار کی راہ میں استعمال میں لائیں   اگر ہمارا امام دنیا کو عدل و انصاف سے بھرنے کے لئے آئے گا تو ہماری یہ ادنی ذمہ داری ہو تی ہے کہ ظلم و ستم سے مقابلہ کے لئے کم از کم اپنی اتنی طاقت کو استعمال کریں ہو ہمارے ملک کے آئین نے ووٹ کی صورت ہمیں دی ہے  شک نہیں کہ اس سے ہم پورے ملک کو نہیں بدل سکتے   جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا لیکن تبدیلی کی طرف ایک قدم اٹھا سکتے ہیں یا کم از کم اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کہ ہم نے اپنا ووٹ کسی ظالم کو نہیں دیا ہے  یہ انتظار کا وہ بنیادی تقاضا ہے جس پر عمل یہ بتائے گا کہ ہم کس عدل و انصاف کے پرچم دار کا انتظار کر رہے ہیں ۔

 

بقلم سید نجیب الحسن زیدی

 

حواشی:

[۱] ۔ تاج العروس، زبیدی، ج۷، ص۵۳۹، محب الدین، نشر دارالفکر، لبنان، ۱۴۱۴هـ ق.

۔التحقیق فی کلمات  القرآن ، حسن مصطفوی جلد ۱۲ ص ۱۶۶

[۲]  ۔ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج ۷، ص ۳۸۱؛ عزیز اللّه حیدری، انسان معاصر، ص ۳۲.

[۳]  ۔  اَفْضَلُ اَعْمالِ اُمَّتِى اِنتظارُ الفَرَجِ مِنَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ ،شیخ صدوق, عیون اخبارالرضا۷، ج ۲، ص ۳۶؛ شیخ صدوق, کمال الدین و تمام النعمة، ج ۲، ص ۶۴۴

[۴]  ۔  اِنتِظارُ الفَرَجِ عِبَادَةٌ؛اربلی، کشف‏ الغمة فی معرفة الائمة، ج ۲، ص ۱۰۱؛ شیخ طوسی،  أمالی، ص ۴۰۵٫

[۵]  ۔ اَفضَلُ العِبادَةِ اِنتِظارُ الفَرَجِ، شیخ صدوق،  کمال‏الدین و تمام النعمة، ج ۱، ص ۲۸۷؛  ر.ک: ترمذی، سنن ترمذی، ج ۵، ص ۵۶۵٫

[۶]  ۔ من سر ان یکون من اصحاب القائم فلینتظرو لیعمل  بالورع وا محاسن الاخلاق  ، بحار الانوار، جلد ۵۲، ص ۱۴۰

[۷]  ۔ إِذَا صُمْتَ فَلْيَصُمْ سَمْعُكَ وَ بَصَرُكَ وَ شَعْرُكَ وَ جِلْدُكَ وَ عَدَّدَ أَشْيَاءَ غَيْرَ هَذَا وَ قَالَ لَا يَكُونُ يَوْمُ صَوْمِكَ كَيَوْمِ فِطْرِك‏

تصنيف غرر الحكم و درر الكلم‏ ، عبد الواحد تميمى آمدى‏ ص۱۷۶ ح ۳۳۶۲ ؛

صوم النفس إمساك الحواس الخمس عن سائر المآثم و خلو القلب عن جميع أسباب الشر

۳ ) الكافی،كلینی ج ۴ ص ۸۷ح۱؛ تهذيب‏الأحكام ،طوسی،ج ۴ ،ص ۱۹۴؛ من لا یحضره الفقیه،ج ۲، ص ۱۰۸ بحارالأنوار،مجلسی، ج ۹۳، ص ۲۹۲ح ۱۵ ؛

[۸]  ۔ صَومُ القَلبِ خَيرٌ مِن صِيامِ اللِّسانِ وَ صِيامُ اللِّسانِ خَيرٌ مِن صِيامِ البَطنِ ]إحياء علوم الدين : ج ۱ ص ۳۵۰ ، المحجّة البيضاء : ج ۲ ص ۱۳۱ .

[۹]  ۔  انتظار ،فصلنامہ علمی تخصصی  ویژہ امام مھدی علیہ السلام ،  ص ۸۲ سال اول شمارہ اول پاییز ۱۳۸۰

[۱۰]  ۔  اَلّناسُ معادِنُ كَمَعادِنِ الَّذهَبِ وَ الْفِضَّةِ ، كافى، ج ۸، ص ۱۷۷؛ من لا يحضره الفقيه، ج ۴، ص ۳۸۰؛ بحار الانوار، ج ۵۸، ص ۶۵ و ۱۰۶؛ ج ۶۴، ص ۱

[۱۱]  ۔  و یوطئون للمہدی سلطانہ ، میزان الحکمہ ، جلد ۲ ص ۵۶۸

[۱۲]  ۔ ليعدن احدكم لخروج القائم ولو سهما، فان الله اذا علم ذلك من نيته رجوت لان ينسي في عمره حتي يدركه و يكون من اعوانه و انصاره‏.

بحارالانوار، ج‏۵۲، ص‏۳۶۶

[۱۳]  ۔ الغیبۃ ، نعمانی ، بحار الانوار ، جلد ۵۲ ، ص ۳۵۸

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کتاب کی 32 ویں بین الاقوامی نمائش کے مختلف شعبوں کا قریب سے مشاہدہ کیا۔
اس موقع پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر ثقافت اور ارشادی اسلامی عباس صالحی بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ہمراہ تھے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کتابوں کے مختلف شعبوں کے دورے کے دوران کتاب کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں ناشرین کے ساتھ گفتگو اور تبادلہ خیال کیا۔