Super User
یوم القدس کی قرآنی بنیادیں اور فکر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ
یوم القدس کو لیکر قرآنی مبانی سے گفتگو کی ضرورت اس لئے ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے افکار کی روشنی میں جب ہم یوم القدس کو پیش کرتے ہیں تو جہان اسلام میں کبھی کبھی بعض ایسی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں جنکے پیش نظر یہ مسئلہ جس طرح ہے کھل کر سامنے نہیں آ پاتا اور ایک فرقے کے فقیہ و مجتہد کی جانب سے بیان کئے گئے مسئلہ کے طور ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنا ایک ایک نظریہ ہے، اور چونکہ وہ شیعہ ہیں لہذا شیعت کے افکار سے ہی اس نے فروغ حاصل کیا ہے اسکا جہان اہل سنت سے تعلق نہیں ہے ،لہذا ممکن ہے اس بات کی بنیاد پر بعض مقامات پر ایک شیعہ عالم کی جانب سے قدس کے مسئلہ کو پیش کرنا بعض حد بندیوں کا سبب بن جائے اور اس سے اس طرح استفاد ہ نہ کیا جا سکے جیسا کہ اسکا حق ہے ،ہم نے کوشش کی ہے کہ اس مسئلہ کو قرآنی نقطہ نظر سے بیان کیا جا سکے ۔
مسئلہ قدس کی وضاحت قرآن سے ہی کیوں ؟
قدس کے مسئلہ کو قرآن سے بیان کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ قرآنی گفتگو سے تمام اسلامی ممالک، تمام مسلمان اپنے تمام تر رجحانات و میلانات کے باوجود بہر مند ہو سکتے ہیں، مختلف ممالک میں آج ہمارا ایک بڑا درد اور بڑی مشکل یہ ہے کہ بعض اسلامی ممالک صہیونی حکومت سے سیاسی طور پر جڑے ہوئے ہیں اور انکے صہیونی ریاست سے سیاسی تعلقات ہیں ، لہذا جب بھی قدس کی بات ہوتی ہے تو بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایرانی آئیڈیالوجی کا الزام سامنے آتا ہے اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو قدس کے سلسلہ سے کچھ کر رہا ہے وہ ایرانی طرز فکر سے متاثر ہو کر کر رہا ہے، لیکن اگر گفتگو قرآنی ہو جائے تو اب ایران یا ایران کے علاوہ کہیں سے اسکا تعلق نہیں رہے گا اور ہم گفتگو کو بغیر کسی کی چھاپ پڑے آگے بڑھا سکتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں ہم اسے ایک خاص قوم کے درمیان محدود ہونے سے نکال سکتے ہیں ، کہ یہ کسی خاص علاقے میں منحصر نہیں ہے اسے ملک و قوم سے ماواراء ہو کر جب بیان کیا جائے گا تو ہم اس کے سایے میں بہت سے الگ الگ نظریات رکھنے والے افراد کو جمع کر سکتے ہیں جو قرآنی محور کے تحت قدس کے پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ ہم اپنی گفتگو کو دوحصوں میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے
پہلے حصہ میں ہم روز قدس کی منزلت اسکے مقام و مرتبہ کو بیان کریں گے فلسطین کے مسئلہ کے ساتھ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے افکار کی روشنی میں صہیونی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہونے کو بیان کریں گے اور دوسرے مرحلہ میں صہیونی ریاست کے خلاف سرگرم عمل ہونے اور صہیونیت کے خلاف لڑنے کے قرآنی مبانی کو واضح کریں گے ۔
اسرائیل کے خلاف امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جد و جہد کا سابقہ
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے تقریبا اپنی ۳۰۰ تقاریر اور پیغامات میں اسرائیل کے موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے، درحقیقت آپ نے مختلف انداز میں اس رجیم کی رد اور اس سے مقابلہ کے لئے مختلف نکات بیان کئے ہیں ۔
یہ اپنے آپ میں ایک قابل توجہ و قابل ملاحظہ اعداد و شمار ہیں، بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف دئے جانے والے بیانات یا آپکی اسرائیل مخالف سرگرمیاں انقلاب کے بعد یا یوم القدس کے بعد شروع ہوتی ہیں ،جبکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اپنی تحریک کے آغاز میں ہی اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی اسرائیل سے مخالفت کا ایک بڑا حصہ صہیونی حکومت کے ایرانی کے شہنشاہی نظام سے وسیع پیمانے پر قائم تجارتی تعلقات کی طرف پلٹتا ہے جس کے بموجب آپ نے اسرائیل کی مخالفت کی مثال کے طور پر اسرائیل و اعراب کی جنگ میں عربی ممالک نے تیل کی فراہمی روک دی تھی لیکن ایران نے عربی ممالک کی جگہ تیل بیچنا شروع کر دیا اور یوں اسرائیل کے خلاف ایک بڑے محاذ کی تشکیل میں رکاوٹ بنا ۔
اسی طرح امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ وسیع پیمانے پر تعلقات اس بات کا سبب بنے کہ اسرائیل کی پوزیشن ایران میں مضبوط ہو بالکل یہی کردار جو علاقے میں سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل کے لئے ادا کر رہا ہے ، سعودی عرب امریکہ کے ساتھ وسیع تعلقات کی بنیاد پر اس کوشش میں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھاوا دے ، دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی رجیم اور امریکہ کے ما بین وسیع تعلقات کی بنا پر ہر وہ ملک جس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر اور مضبوط ہوں گے خود بخود اسرائیل سے بھی رشتے مضبوط ہونگے اس وقت سعودی عرب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ، سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر اسرائیل سے بھی اچھے تعلقات بن رہے ہیں ۔
بہائی ایران میں اسرائیل کے نمائندے
اس گفتگو کے حاشیے میں ہم بات کہی جا سکتی ہے کہ پہلوی دور حکومت میں ایران میں اسرائیل کے اثر اور اسکی موجودگی کا بڑا حصہ بہائیوں کی طرف پلٹتا ہے ، بہر حال بہائی شیعوں کے درمیان ایک منحرف فرقے کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ انکا مرکز اسرائیل کے شہر حیفا میں ہے ، علاوہ از ایں ایران میں سب سے طولانی دور تک وزیر اعظم کے منصب پر قائم رہنے شخص کا تعلق بھی بہائیوں سے ہے چنانچہ ایران میں سب سے زیادہ وزارت عظمی کے عہدے پر رہنے والے شخص کا نام ہویدا ہے ۔
اسی بنیاد پر ہویدا کی وزارت عظمی کے زمانے میں ایران میں اسرائیل کی موجودگی بہت واضح طور پر نظر آتی ہے ۔
اور ہویدا ہی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ایران سے اسرائیل کی طرف سب سے زیادہ ہجرتیں ہوئیں یعنی ایران سے اسرائیل کی طرف جانے والے افراد کا زیادہ تر تعلق اسی دور سے ہے جب ہویدا کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی ، اسکا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنی تحریک کا آغاز اس دور میں کر رہے ہیں جب پہلوی حکومت کے صہیونی حکومت سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات بہت گہرے ہیں البتہ ان تعلقات کا ایک خاصہ حصہ اقتصادی تعلقات سے مخصوص ہے ۔
اسرائیل کے خلاف نبرد آزمائی کا آغاز
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ۱۹۶۳ ء میں اسلامی انقلاب کی تحریک کے آغاز میں اسرائیل سے مقابلہ کی گفتگو کا آغا ز کیا اور ایرانی عوام کے نام اپنے نوروز کے دئے جانے والے ۱۹۶۴ میں آپ نے حکومت وقت کے اوپر حملہ آور ہوتے ہوئے اپنے پیغام میں اس بات کا اعلان کیا کہ اس دور کی پہلوی حکومت اسرائیلی مفادات کی تکمیل کے سلسلہ سے مصروف عمل ہے مختلف صوبوں کی تنظیموں اور انجمنوں کی بحث میں بھی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی مخالفت کی وجہ صہیونیوں کا تسلط ہے ۔اس مقام پر بھی آپ اس سلسلہ سے سنجیدہ طور پر وارد عمل ہوتے ہوئے اسرائیل کے خطرے سے آگاہ کرتے ہیں ، البتہ بعض مقامات پر اسرائیلی رجیم کو خصوصی طور پر بعض مختلف شہر کے لوگوں کے لئے واضح کرتے ہیں مثال کے طور پر ۱۹۶۴ میں علماء یزد کے جواب میں لکھے گئے ایک خط کے جواب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اسرائیل کے خطرات کو بیان کرتے ہوئے پہلوی حکومت کو انتباہ دیتے ہیں۔
کیپیٹالیزشن
کیپیٹالیزشن capitulations کے موقع پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے جب اس مسئلہ پر اعتراض جتاتے ہوئے اپنی مخالفت کے دلائل کو بیان کیا تو اس وقت بھی آپ امریکہ اور اسرائیل کو ایک ساتھ قرار دیتے ہیں گو کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ان دونوں میں کسی بھی طرح کی جدائی کے قائل نہیں ایک ایک ہی چٹے بٹے کی صورت دونوں کو دیکھتے ہیں
امام خمینی کی جانب سے اسرائیل کے مقابل ایک زبردست اور سخت ترین موقف اس وقت سامنے آتا ہے جب آپ ۳۰ اپریل ۱۹۶۴ میں قم کی مسجد اعظم کی اپنی معروف تقریر کرتے ہیں اور اس کے بعد آپ کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ، یہاں پر آپ اسرائیل اور ایرانی شاہ کے خلاف لوگوںسے ڈٹ جانے لئے کہتے ہیں اور شا ہ کو اسرائیل کا حلیف قرار دیتے ہوئے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام مزاحمتی قدموں میں اسرائیل کے اوپر یلغار نظر آتی ہے ، آپ ۱۹۶۴ کے محرم میں بھی شاہ ایران کے اسرائیل سے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس پر تنقید کرتے ہیں یہاں تک کے ملک بد ر ہونے کے بعد تک یہی سلسلہ چلتا رہتا ہے ، مثلا ۱۹۶۳ میں فلسطینی مجاہدین اور فدائین کے ایک گروہ کے جواب میں اسرائیل سے مقابلہ کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ زکات اور صدقات کے مصارف کو فلسطین کا دفاع کرنے والوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے اتنا ہی نہیں ۱۹۷۱ میں شہنشاہی نظام کے ۲۵۰۰ سالہ جشن کے موقع پر آپ اس جشن کے ساتھ اسرائیل کے اس جشن میں موجود ہونے پر اعتراض کرتے ہیں ۔
شہنشاہی نظام کا اسرائیل سے تعاون امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی جانب سے اسرائیلی رجیم کی مخالفت کا ایک پہلو :
۱۹۷۸ میں اسلامی انقلابی کی کامیابی سے کچھ پہلے ظاہر ستمبر کے مہینے میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ایک قابل غور اور زبردست تقریر کی ہے جس کے ایک حصہ میں آپ فرماتے ہیں :’’وہ چیزیں جنہوں نے ہمیں شاہ کے مقابل لا کھڑا کیا ہے ان میں ایک چیز یہ ہے کہ شاہ اسرائیل کا تعاون کرتا ہے ‘‘ یعنی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بات کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں کہ ہمارے انقلاب کے اسباب میں ایک سبب یہ ہے کہ شاہ اسرائیل کی مدد کرتا ہے اسکا تعاون کرتا ہے ، آگے چل کر آپ فرماتے ہیں ، ’’ میں نے ہمیشہ اپنی جانب سے بیان شدہ مطالب میں یہ بات کہی ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے کی ابتداء سے ہی شاہ ایران اسرائیل کی مدد کر رہا تھا اس کے ساتھ لگا ہوا تھا ، اور جب اسرائیل و مسلمانوں کے درمیان جنگ اپنے عروج پر تھی شاہ مسلمانوں کے تیل کو غصب کر کے اسرائیل کو دے رہا تھا اور یہ ہماری شاہ سے مخالفت کا ایک سبب ہے ‘‘
اس مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ انقلاب اسلامی کے ایک محور کو اسرائیل سے مقابلہ کی صورت بیان کرتے ہیں ، یہ ایک ایسا اہم پوائنٹ ہے جسے کم ہی بیان کیا جاتا ہے ، یہ اپنے آپ میں ایک انقلاب کے لئے بڑی بات ہے کہ اسکا معمار اپنی لڑائی کے ایک محور کو صہیونی ریاست کے خلاف جدو جہد سے مخصوص کرے ۔
اسرائیل کا سرچشمہ
۱۹۷۳ میں امریکہ و کینیڈا کے مقیم مسلمان اسٹوڈنس امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے نام ایک خط لکھتے ہیں :
امام خمینی رضوان اللہ تعالی ایک مختصر لیکن دلچسب جواب لکھتے ہیں اور اس میں اسرائیل کی حقیقیت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ اسرائیل مشرق و مغرب کی استعماری طاقتوں کی فکروں کے اختلاط کی پیداوار ہے چونکہ انہوں نے اسرائیل کو وجود میں لا کر جہان اسلام کو لوٹنے اور اسے تقسیم کرنے کا کام شروع کردیا ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ تمام استعماری طاقتیں اسرائیل کی مدد و پشت پناہی کر رہی ہیں ‘‘ یہ امام خمینی کا دو ڈھائی سطروں کا خط وہ ہے جو اس دور میں بین الاقوامی صورت حال کو سامنے رکھ رہا ہے کہ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد عالمی طاقتوں کی صورت حال کیا تھی اور اسی کے ساتھ یہ خط اسرائیل کی حقیقت کو بھی بے نقاب کر رہا ہے چنانچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس گفتگو کا رنگ مزید گہرا ہو جاتا ہے ، امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس انقلاب کو محض شیعہ انقلاب نہیں سمجھتے تھے حتی اسے آپ محض اسلامی بھی نہیں مانتے تھے بلکہ آپ اپنے انقلاب کو وسعت بخشتے ہوئے اسے مستکبروں کے خلاف وجود میں آنے والے انقلاب سے عبارت گردانتے تھے اور فرماتے تھے ’’ ہمارا انقلاب مستضفوں اور کمزوروں کا وہ انقلاب ہے جو مستکبروں کے مقابل وجود میں آیا ، دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو امام خمینی نے انقلاب کے مفہوم کو وسیع کر دیا اسکی ڈاکٹرین کو وسعت بخشی ، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اس دور اندیشی کے پیش نظر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل کے خلاف صرف مسلمان ہی احتجاج کر رہے ہوں یا اس وقت کی موجودہ صورت حال کے خلاف محض مسلمانوں نے ہی قیام کیا ہو بلکہ آپ اسے عمومی بنا دیتے ہیں ، اور یہ وہ فضا ہے جس میں اسرائیل سے مقابلہ کا رنگ اور گہرا ہو جاتا ہے یہ وہ کام ہے جو امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے انجام دیا ۔
بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
کیا اسرائیل سچ میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا؟
ویسے تو امام خامنہ ای نے آج سے چند برس قبل اسرائیل کے وجود کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کی ڈیڈ لائن دی تھی اور اس دن سے اہل ایمان و ایران و لبنان نے اسرائیل کا کائونٹ ڈائون شروع کر دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ جس دن ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا اور حضرت امام خمینی کی رہبری میں علماء کی قیادت میں ایک اسلامی نظام قائم ہوگیا، اسی دن سے اسرائیل کے دن گھٹنے شروع ہوگئے تھے، سب سے پہلے اسرائیل کی سفارت جو تہران میں قائم تھی، اس کو بند کر دیا گیا اور اسے پی ایل او کو دے دیا گیا، جس کی سربراہی یاسر عرفات کے پاس تھی، حالانکہ ایران میں یہودیوں کی اچھی تعداد (دیگر کئی ممالک کی بہ نسبت) رہتی ہے۔ اس کے بعد انقلابی اسلامی حکومت کی سربراہی میں پوری دنیا میں جمعة الوداع کو عالمی یوم القدس کے طور پہ منانے کا اعلان ہوگیا، امام خمینی نے فرمایا کہ جمعة الوداع یوم الاسلام اور یوم اللہ ہے، اس دن اپنی طاقت و قوت کا اظہار کیجئے اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گھروں سے باہر نکلیں، حتیٰ کہ اگر کوئی یوم القدس نہیں مناتا تو واجب ترک کرتا ہے۔
انہوں نے انقلاب سے بھی پہلے فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کیا تھا، ۱۹۶۸ء میں ایک انٹرویو میں آپ نے فرمایا کہ کہ زکات کا ایک حصہ فلسطینی مجاہدین کیلئے مختص کرنا چاہیئے، انقلاب کی کامیابی کے بعد تو امام خمینی نے فلسطینیوں کی ہر قسم کی مدد شروع کی اور اسلامی دنیا کو دعوت دی کہ ارض مقدس کی بازیابی کیلئے باہر نکلیں اور خدا پر توکل کریں، نہ کہ استکباری حکمرانوں پہ۔ امام خمینی نے برملا کہا کہ بیت المقدس کی آزادی صرف مسلح جہاد سے ہی ممکن ہے اور مسلمان اگر ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیلی سرحد پر ڈال دیں تو اسرائیل اس میں ڈوب جائے گا۔ انہوں نے فرمایا کہ اسرائیل کا ناجائز وجود امت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی مانند ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کینسر کا ایسا جرثومہ ہے، جسے جسم سے الگ کئے بنا امت مسلمہ کے جسم سے بیماری خاتمہ ممکن نہیں۔
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اسرائیل روز بروز مقبوضہ علاقوں میں امریکہ اور اپنے دیگر سرپرستوں کی ہلہ شیری سے نئی نئی بستیاں بنا رہا ہے اور اس مقدس سرزمین کے اصل وارثوں کو بے دخل کر رہا ہے، ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، انہیں گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، ان کے گھروں کو بلڈوزروں سے تاراج کیا جاتا ہے، انہیں قید و بند کی صعوبتیں دی جاتی ہیں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور جوانوں سب کو بلا تمیز تشدد اور ظلم و ستم کا شکار کیا جاتا ہے، حقوق انسانی کے عالمی ٹھیکیداروں اور اقوام متحدہ سمیت اسرائیل کی تمام بدمعاشیوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور مظالم کا یہ سلسلہ گذشتہ ستر سال سے زائد عرصہ ہوا جاری ہیں، ان میں روزانہ اضافہ ہوتا ہے، شقاوت و قساوت اور بے رحمی کے ایسے ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ الامان والحفیظ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسے سید حسن نصراللہ نے فرمایا تھا کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے، ایسا ہی ہے، ایک طرف فلسطین کی کئی نسلیں تباہی و بربادی کے یہ مناظر دیکھتے ہوئے جوان ہوئی ہیں اور دوسری طرف بزدل یہودی ہیں، جو ایک دو راکٹ گرنے پہ ہی تہہ خانوں میں چھپ جاتے ہیں، جبکہ فلسطینیوں نے موت کی آغوش میں، گولیوں اور بم دھماکوں کی گھن گرج میں جینے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ انہیں کچھ کھو جانے کا خوف نہیں جبکہ سنہرے خواب دکھا کر فلسطین میں دنیا بھر سے لائے گئے یہودیوں کیلئے ہنگامی صورتحال میں جینا مشکل ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یوم القدس کو عالمی سطح پر منانے سے مظلوم فلسطینیوں کو نئی روح مل جاتی ہے اور مجاہدین کے حوصلے بلند ہوتے ہیں، وہیں یہودیوں کیلئے یہ دن موت کا پیغام لاتا ہے کہ اس دن امت مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کا عہد کرتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم اپنے مقدس مقام کو واپس لیکر رہیں گے، چاہے اس کیلئے جتنی مرضی قربانیاں دینا پڑیں۔
اس وقت یوم القدس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے، اس لئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر جو یہودی ہیں، اس نے عرب خائنین کیساتھ مل کر سینچری ڈیل کے نام سے ایسا منصوبہ تیار کیا ہے، جسے قبول کرنے سے اسرائیل کو مزید کھلی چھٹی مل جائے گی اور فلسطینی بہت ہی محدود ہو جائیں گے۔ اگرچہ اس منصوبے کی تمام باتیں اور جزئیات ابھی سامنے نہیں آئیں، چند نکات مختلف اطراف سے ذکر ہو رہے ہیں اور اگلے ماہ بحرین میں اس حوالے ایک کانفرنس ہونے جا رہی ہے، جس میں یہ منصوبہ یعنی سینچری ڈیل منظور کی جانے کی توقع ہے۔ اس حوالے سے اہل فلسطین نے اس ڈیل کو یکسر مسترد کر دیا ہے، فلسطین کی تحریک مقاومت حماس، جہاد اسلامی کے علاوہ کئی دیگر گروہوں اور فلسطین کی موجودہ اتھارٹی نے بھی اسے ماننے سے انکار کیا ہے۔
ان حالات میں امت مسلمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک دن کیلئے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے اور یک زبان ہو کر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں صدا بلند کرے، تاکہ عالمی اداروں اور خائنین ملت کو علم ہو جائے کہ وہ کسی بھی صورت ایسے کسی منصوبے کو قبول نہیں کروا سکتے، جو فلسطینیوں کے بنیادی ترین حقوق کی پائمالی اور ان کی مقدس سرزمین سے علیحدگی کا باعث ہو۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ فلسطین کی جہادی و مزاحمتی جماعتیں اس وقت ایک صفحہ پر ہیں اور اسرائیل کو سبق سکھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار بیٹھی ہیں۔ چند ماہ پہلے ہی حماس نے اسرائیلی شہروں پر سینکڑوں میزائل داغ کر ہلچل مچا دی تھی۔ اسرائیل نے الزام لگایا تھا کہ حماس و جہاد اسلامی کو ایران اسلحہ و امداد دے رہا ہے، ایران نے کبھی اس کی تردید نہیں کی بلکہ رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے برملا فلسطینیوں کی مدد کا اعلان کر رکھا ہے، جو جاری رہتی ہے۔
امریکہ نے ایران کے ساتھ گذشتہ چالیس سال سے مخاصمت اور دشمنی کا رویہ اگر اپنا رکھا ہے تو اس میں سب سے اہم ترین مسئلہ یہی بیت المقدس کا ہے، جس کے قبضے کو اہل ایران کسی بھی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ایران فلسطینی مسئلہ سے دستبردار ہو جاتا تو اس کی تمام مشکلات ختم ہو جاتیں، پھر شام و عراق میں داعش یا القاعدہ کا وجود بھی نہیں ہوتا اور شام کی جو تباہی ہوئی، وہ بھی نہ ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے قضیئے کے پس پردہ اسرائیل کا تحفظ یقینی بنانا تھا، جس میں امریکہ کی جان ہے، مگر سب جانتے ہیں اور اب خود امریکی بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ انہیں ایران نے بدترین شکست سے دوچار کیا ہے، جو مقصد یہ رکھتے تھے، اس میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ شام میں حکومت کی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے رخصت ہوگئے، عراق کے مقدس مقامات کو تاراج کرنے کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے آج جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
اسرائیل جسے مضبوط اور اس کے دفاع کو یقینی و فول پروف بنانے کیلئے یہ سارا گیم پلان بنایا گیا تھا، آج شکست خوردہ اور خوف سے مرا جا رہا ہے، پہلے تو آئے روز ایران پر حملوں کی دھمکیاں دی جاتیں تھیں، اب اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے سازشی کھیل کھیلنے جا رہے ہیں اور امت مسلمہ کے خائنین کو ساتھ ملا کے سینچری ڈیل کے ذریعے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی سعی ناکام کی جا رہی ہے، شام و عراق سے مقاومت اسلامی کے بلاک نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، انکا اگلا نتیجہ اسرائیل کے کائونٹ ڈائون کی طرف بڑھنا ہے، ہمیں امید رکھنی چاہیئے کہ ہماری نسل کو وہ دن دیکھنا نصیب ہونگے، جب اسرائیل کا نجس وجود اس پاک و مقدس سرزمین سے مٹا دیا جائیگا۔ ان شاء اللہ
تحریر ارشاد حسین ناصر
رہبر انقلاب اسلامی: فلسطینی عوام کا دفاع اسلامی و شرعی ذمہ داری کے ساتھ انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں کے بعض اساتید ، ممتاز شخصیات اور دانشوروں سے ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسلامی اور دینی ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کا دفاع صرف اسلامی اور دینی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی اور اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدی معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: فلسطین کے بارے میں امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی عربوں کی گھناؤنی سازشیں ماضی میں بھی ناکام ہوئی ہے اور فلسطین کے بارے میں ان کا صدی معاملہ بھی ناکام ہوجائےگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینی عوام کا دفاع صرف اسلامی اور دینی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ فلسطینیوں کا دفاع انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی یوم قدس اس سال ہر سال کی نسبت کہیں زیادہ اسلامی اور انسانی جذبے کے تحت جوش و خروش کے ساتھ منایا جائےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور یورپی ممالک کی طرف سے مذاکرات کے مطالبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مذاکرات میں کوئی اشکال نہیں، ہم نے مشترکہ ایٹمی معاملے میں بھی مذاکرت کئے لیکن انھوں نے مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والے مشترکہ معاہدے کو ہی توڑ دیا اور بد اعتمادی کی فضا ایک بار پھر پیدا کردی ۔ وعدہ خلافی کرنے والے اور جھوٹے ممالک کے ساتھ کون بار بار مذاکرات کرےگا ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اب وہ مذاکرات کس موضوع کے بارے میں کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر وہ ایران کی ناموس کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو ایسے مذاکرات کی انھیں ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ ناموس کا مسئلہ ہے ، اگر وہ مذاکرات ایران کی دفاعی طاقت کے بارے میں یا ایران کے ریڈ خطوط کے بارے میں کرنا چاہتے ہیں تو ان موضوعات کے بارے میں بھی ان سے کوئی مذاکرات نہیں کرےگا۔ کیونکہ یہ مسئلہ ملکی اور قومی دفاع کا مسئلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی فرمایا: وہ مذاکرات کے ذریعہ دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں ان کا منصوبہ صرف دباؤ برقرار کرکے ایران کو اس کے اہداف سے پیچھے کرنا ہے اور ایرانی قوم کسی کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دےگی۔
صدی کی ڈیل! فلسطین کو لاحق خطرات
مسئلہ فلسطین تاریخ انسانیت میں ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کی بنیاد کو تلاش کیا جائے تو ایک سو سال قبل یعنی1917ء میں برطانوی سامراج کی جانب سے پیش کیا جانے والے اعلان بالفور تھا کہ جس کی بنیاد پر تمام یورپی و مغربی حکومتوں نے فلسطین پر ایک صہیونی جعلی ریاست قائم کرنے کی تجویز کو منظور کیا۔ فلسطینی عوام نے اس وقت بھی اس اعلان بالفور کو مسترد کیا تھا اور بعد میں بھی اقوام متحدہ کی چار بین الاقوامی سازشوں کے نتیجہ میں منظور کی جانے والی قرار دادوں کو بھی مسترد کیا جاتا رہا۔ یہ یقیناً فلسطین کے عوام کا بنیادی حق تھا اور ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ خود کریں، نہ کہ دنیا کی استعماری قوتیں فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ فلسطین کی غیور ملت نے ہر ایسی قرارداد اور عمل کی شدید مخالفت کی کہ جس کا فائدہ براہ راست یا بالواسطہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے قیام یا پھر اس کے بعد صہیونیوں کے حق میں جاتا تھا۔ فلسطینی عوام نے نہ صرف ایسی کوششوں کو مسترد کیا بلکہ جس حد تک ممکن ہوا جدوجہد بھی کی، ہڑتالوں سے لے کر مظاہروں تک اور ہر محاذ پر احتجاج کا دروازہ کھولے رکھا۔
بہرحال فلسطین کے مسئلہ کو اعلان بالفور سے اب تک ایک سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ دراصل فلسطین پر صہیونی قبضہ اور فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کی اصل تاریخ بھی ایک سو سالہ ہی بنتی ہے۔ اس دوران عالمی سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ ان ہتھکنڈوں میں فلسطین کے عوام پر جنگیں مسلط کرنا، ظلم و بربریت کرنا، گھروں سے بے گھر کرنا، جبری طور پر جلا وطن کرنا، بنیادی حقوق سے محروم کرنا سمیت خطے میں دہشت گرد گروہوں کو پروان چڑھا کر مسئلہ فلسطین کو مسلم دنیا میں صف اول کا مسئلہ بننے سے دور رکھنا۔ ایک سو سالہ دور میں فلسطینی تحریکوں کے سربراہان کو مذاکرات کی میز پر بھی بٹھایا گیا، لیکن نتیجہ میں امریکہ اور عالمی قوتوں نے ہمیشہ اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور اس کے بڑھتے ہوئے صہیونی عزائم کے سامنے سرتسلیم خم رکھا جبکہ ان نام نہاد مذاکرات کا ہمیشہ فلسطینیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اب صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صہیونیوں نے غزہ کی پٹی کو گذشتہ بارہ سال سے محاصرے میں لے رکھا ہے۔ انسانی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ایسے حالات میں فلسطین کے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔
فلسطین پر صہیونیوں کے ایک سو سالہ مظالم کی تاریخ کی سرپرستی کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی سامراج اور دنیا کے سب سے بڑے شیطان امریکہ نے فلسطین کا سودا کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ ایک سو سال پہلے سوداگر برطانوی سامراج کی شکل میں آئے تھے۔ پھر ایک سو سال تک امریکی سامراج فلسطینی عوام پر ہونے والے صہیونی مظالم کی سرپرستی کرتا رہا۔ اب ایک سو سال مکمل ہونے پر امریکی صدر نے خود کو دنیا میں چیمپئین منوانے اور اپنے اگلے انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے صہیونیوں کے ساتھ کئے گئے وہ تمام وعدے پورے کرنے کی ٹھان رکھی ہے، جو امریکی صدر ٹرمپ کو امریکہ میں صہیونی لابی کی حمایت دلوا سکتے ہیں۔ ان تمام وعدوں میں سب سے بڑا وعدہ مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کا ہے، جس کے لئے امریکہ نے ایک پلان ترتیب دیا ہے، جسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ ڈیل امریکی صدر کے داماد کوشنر نے صہیونی جعلی ریاست کے وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ترتیب دی ہے۔
اس ڈیل کے نتیجہ میں امریکہ چاہتا ہے کہ پورے خطے پر صہیونی بالادستی قائم ہو جائے اور مسئلہ فلسطین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکی خواہشات اور صہیونی من مانی کے مطابق ختم کر دیا جائے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر ’’صدی کی ڈیل‘‘ کا چرچہ گذشتہ ایک برس سے جاری ہے، لیکن اس معاہدے کے تفصیلی خدوخال مکمل طور پر سامنے نہیں آئے ہیں، کیونکہ امریکہ نے اس ڈیل کو خفیہ طور پر خطے کی تمام عرب و مسلمان حکومتوں سمیت یورپ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مخفی رکھا ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق امریکی ’’صدی کی ڈیل‘‘ نامی منصوبہ دراصل فلسطینیوں کو ان کے حق واپسی محروم کرنا چاہتا ہے، فلسطینی جو فلسطین واپسی کی عالمی تحریک چلا رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی ہو۔ اس واپسی کے عمل کو امریکہ اور اسرائیل صدی کی ڈیل کے تحت روکنا چاہتے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ فلسطین میں موجود تمام فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیل کر زمین کا کوئی چھوٹا ٹکڑا دے دیا جائے اور فلسطینیوں کو فلسطین سے دستبردار کر دیا جائے، جبکہ فلسطین کے عوام کا ایک ہی نعرہ ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے۔
اسی منصوبہ کا ایک حصہ مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس سے متعلق ہے کہ جس پر امریکی صدر نے پہلے ہی یکطرفہ اعلان کیا تھا کہ یروشلم شہر فلسطین کا نہیں صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت ہے، جبکہ تین ہزار سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یروشلم فلسطین کا ابدی دارالحکومت تھا۔ صدی
کی ڈیل کے خدوخال کے مطابق مرحلہ وار امریکی صدر نے امریکن سفارتخانہ کو بھی مقبوضہ فلسطین کے تل ابیب شہر سے نکال کر یروشلم میں منتقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے ان اقدامات کو دنیا بھر میں مذمت کا سامنا رہا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایسے فیصلوں کو مسترد کیا ہے۔ حالیہ دنوں امریکی صدر کی جانب سے شام کے علاقہ جولان کی پہاڑیوں سے متعلق بھی اسرائیل کا حق تسلیم کیا تھا، جس کو دنیا بھر میں شدید مذمت کا سامنا رہا اور مسلم دنیا سمیت یورپ نے بھی ایسے فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ مسلسل ایک سال میں امریکی صدر کے فلسطین و القدس سے متعلق یکطرفہ فیصلوں اور اعلانات نے یہ ثابت کیا ہے کہ دراصل امریکہ صدی کی ڈیل کے خدوخال پر ہی کاربند ہے اور آہستہ آہستہ اس معاہدے کے خدوخال کو اپنے جارحانہ عوامل کے ذریعے آشکار کر رہا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کے لئے فلسطین کو ختم کرنے کا ارادہ کرچکا ہے۔ اس مقصد کے لئے صدی کی ڈیل نامی معاہدے کے تحت خطے کی تمام عرب و مسلمان ریاستوں کو امریکہ نے معاشی پیکج کے نام پر اربوں ڈالر کا لالچ دے رکھا ہے جبکہ کئی ایک شہزادوں اور بادشاہوں کو اگلے پچاس برس کی بادشاہت کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔ بدلے میں امریکہ کو صدی کی ڈیل پر ان تمام عرب و مسلمان ممالک سے حمایت درکار ہے۔
موجودہ اطلاعات کے مطابق خطے کی تمام عرب خلیجی ریاستوں نے امریکہ کے فلسطین دشمن صدی کی ڈیل نامی معاہدے پر دستخط کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے، جبکہ ابھی تک اردن نے اس ڈیل کو مسترد کر رکھا ہے یا اس کے کچھ تحفظات ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں ایک سو سال بعد اعلان بالفور کی طرح ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کو ہی خطرات لاحق ہیں اور فلسطین کا مستقبل خطرے میں ہے، کیونکہ فلسطین کے مستقبل کا فیصلہ چاہے ماضی میں بالفور کرے یا حال میں ٹرمپ کرے، کبھی فلسطین کے حق میں ہو نہیں سکتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان و عرب حکومتیں فلسطین کے عوام کے ساتھ ہونے والی اس بدترین خیانت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور امریکہ کی کاسہ لیسی ترک کر دیں۔
تحریر صابر ابومریم
امام علی علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ یہودی کتابوں میں
راس الجالوت جو ایک یہودی عالم دین تھا نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی اور کچھ سوالات پوچھے اور درست جوابات ملنے پر مسلمان ہو گیا تھا اس گفتگو میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ ہے اس لیے اسے مکمل طور پر یہاں نقل کرتے ہیں:
امیر المومنین جنگ نہروان سے واپس آکر کوفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یہودیوں کا رہنما آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا اے امیر المومنین کچھ ایسی باتیں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں جن کا جواب پیغمبر یا وصی پیغمبر کے بغیر کوئی نہیں دے سکتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں گفتگو شروع کروں ورنہ واپس چلا جاؤں۔ فرمایا: برادر یہودی جو پوچھنا ہے پوچھ لو۔
یہودی نے عرض کیا: ہماری کتاب میں آیا ہے کہ خداوند عزو جل جب کسی پیغمبر کو مبعوث کرتا ہے تو اس کے خاندان میں سے کسی کو اس کا جانشین مقرر کر کے امت کے امور کو اس کے حوالے کرتا ہے اور امت سے عہد و پیمان لیتا ہے تاکہ وہ پیغمبر کے جانے کے بعد اس عہد و پیمان پر باقی رہیں اور اپنے عہد کے مطابق عمل کریں۔ خدا پیغمبروں کے جانشینوں کی ان کی زندگی میں بھی آزمائش کرتا ہے اور پیغمبروں کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان سے امتحان لیتا ہے مجھے آگاہ کریں کہ پیغمبروں کے جانشینوں کی آزمائش پیغمبروں کے دور حیات اور دور ممات میں کتنی مرتبہ ہوتی ہے اور اگر جانشین ان آزمائشوں میں کامیاب ہو جائیں تو ان کا سرانجام کیا ہوتا ہے؟
امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس نے بنی اسرائیل کے لیے دریائے نیل میں شگاف پیدا کر دیا اور موسی کے لیے راستہ بنا دیا اگر تمہارے سوالوں کے جوابات دے دوں تو اسلام قبول کرو گے؟ یہودی نے عرض کیا: جی ہاں۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: خداوند عالم پیغمبروں کے جانشینوں کی پیغمبروں کے دور حیات میں سات مقام پر آزمائش کرتا ہے تاکہ ان کی اطاعت و بندگی کو جانچ سکے اور اگر وہ ان مراحل میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پیغمبروں کو حکم دیتا ہے کہ جب تک زندہ ہیں ان کو اپنا معاون و مددگار قرار دیں اور جب دنیا سے اٹھ جائیں تو انہیں اپنا جانشین بنا کر جائیں اور تمام امتوں کو پیغمبروں کی اطاعت کے زیر سایہ ان کے جانشینوں کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔
اس کے بعد جانشینوں کو پیغمبروں کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی سات مقام پر آزمائش کرتا ہے تاکہ ان کے صبر کا اندازہ لگا سکے اور جب آزمائشوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو انہیں سعادت اور خوشبختی عطا کرتا ہے تاکہ اس کمال سعادت کے ساتھ اپنے پیغمبروں سے ملحق ہو جائیں۔
یہودیوں کے رہنما نے کہا: اے امیر المومنین صحیح فرمایا آپ نے، اب یہ بتائیں کہ آپ کو آپ کے پیغمبر کی زندگی میں کتنی مرتبہ مورد آزمائش قرار دیا گیا اور پیغمبر کے بعد کتنی مرتبہ اور سرانجام کیا ہوا؟
حضرت علی علیہ السلام نے یہودی کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اٹھو چلیں تاکہ میں تمہیں اس موضوع سے آگاہ کروں بعض اصحاب بھی ساتھ چل پڑے اور عرض کیا اے امیر المومنین ہمیں بھی اس ماجرا سے آگاہ کیجئے۔
فرمایا: مجھے خوف ہے کہ تمہارے قلوب اسے برداشت کرنے کی تاب نہ رکھ سکیں۔ عرض کیا: اے امیر المومنین کیوں؟ فرمایا: ان کارناموں کی وجہ سے جو تم میں سے بہت ساروں نے انجام دئے۔
مالک اشتر اٹھے اور عرض کیا اے امیر المومنین مجھے آگاہ کیجئے خدا کی قسم میں جانتا ہوں روئے زمین آپ کے علاوہ کوئی وصی پیغمبر نہیں ہے اور ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ہمارے پیغمبر کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا اور ہماری گردنیں آپ کے حکم اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ہیں۔
حضرت علی (ع) کی سات مقام پر آزمائش
حضرت علی علیہ السلام بیٹھ گئے اور اس یہودی عالم دین کی طرف رخ کیا اور فرمایا: اے برادر یہودی! بے شک خداوند عالم نے پیغمبر کے دور حیات میں مجھے سات مرتبہ آزمایا ہے۔ میں یہ بات اپنی تعریف کی خاطر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ خدا کا لطف و کرم تھا کہ میں ان تمام موارد میں مطیع پروردگار رہا۔ عرض کیا: کن کن مقام پر اے امیر المومنین؟
پہلا مقام؛
فرمایا: پہلا مقام وہ تھا جب خداوند عالم نے ہمارے نبی پر پہلی وحی نازل کی اور رسالت کی ذمہ داری ان کے دوش پر رکھی اور میں اس وقت اپنے گھرانے میں سب سے زیادہ کم سن تھا اور پیغمبر کے ہمراہ رہا کرتا تھا اور ان کے کام انجام دیتا تھا پیغمبر نے خاندان عبد المطلب کے تمام چھوٹے بڑے افراد کو دعوت دی تاکہ خدا کی توحید اور اپنی نبوت کا اعلان کریں سب نے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور آپ کا ساتھ دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوا آپ سے دور ہو گئے اور آپ کو تن تنہا چھوڑ دیا دوسرے لوگوں نے بھی پیغمبر کی مخالفت شروع کر دی اور کوئی بھی آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ صرف میں تھا جو اس کم سنی میں پیغمبر پر ایمان لیا اور آپ کی مدد کا وعدہ کیا اور بغیر کسی معمولی شک و تردید کے میں نے پیغمبر کی اطاعت کا اعلان کیا تین سال تک روئے زمین کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو پیغمبر کے
ساتھ نماز پڑھے جو پیغمبر سے احکام الہی دریافت کرے سوائے میرے اور خدیجہ بنت خویلد کے کہ خدا ان پر رحمت کرے، اس کے بعد آپ نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور پوچھا کیا ایسا نہیں ہوا تھا؟ سب نے عرض کیا: کیوں نہیں یا امیر المومنین ایسا ہی ہوا تھا؟
دوسرا مقام
اس کے بعد فرمایا: اے برادر یہودی! دوسرا مقام وہ ہے جب تمام قریش پیغمبر کے قتل پر تل گئے اور انہوں نے دار الندوہ میں شیطان کی مدد سے یہ منصوبہ بنا لیا کہ ہر قبیلے سے ایک ایک آدمی تلوار لے کر آ جائے تاکہ سب مل کر پیغمبر کا قتل کر دیں، جبرئیل نازل ہوئے اور انہوں نے پیغمبر کو اس ماجرا سے آگاہ کیا اور خود کو بچانے کی ترکیب بھی بتائی۔ جس رات قریش کو حملہ کرنا تھا اس رات پیغمبر نے مجھے اپنے بستر پر سلایا تاکہ کوئی خبردار نہ ہو کہ پیغمبر گھر میں نہیں ہیں میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ بستر رسول پر سو گیا پیغمبر حکم الہی کے مطابق گھر سے نکل کر غار میں چلے گئے اور جب قریش کے مرد ننگی تلواریں لے کر میرے سرہانے پہنچے تو میری تلوار نے ان کی ننگی اور غیض و غضب سے بھری تلواروں کو روک دیا اور انہیں گھر سے باہر نکال دیا۔
اس کے بعد پھر امام علی علیہ السلام نے اصحاب سے پوچھا کیا ایسا نہیں ہوا؟ سب نے مل کر جواب دیا یا امیرالمومنین ایسا ہی ہوا۔
تیسرا مقام
میری تیسری منزل امتحان جنگ بدر تھی جب قریش کے بڑے بڑے سورما میدان جنگ میں مسلمانوں کو للکارنے لگے اور ان کا جواب دینے کے لیے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہوا رسول خدا نے مجھے اور حمزہ و عبیدہ کو میدان کارزار میں بھیج دیا میں اپنے دونوں ساتھیوں سے کم سن اور کم تجربہ تھا لیکن خدا نے مجھے شجاعت بخشی اور میں نے ولید اور شیبہ کا قتل کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا۔
اس کے بعد پھر آپ نے تصدیق کے لیے اصحاب سے پوچھا تو سب سے مل کر آپ کے کلام کی تصدیق کی۔
چوتھا مقام
حضرت علی علیہ السلام نے یہاں پر جنگ احد کا تذکرہ کیا اور مسلمانوں کی خیانت، پیغمبر اکرم کو تنہا میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ جانے اور مشرکین کی جانب سے پیغمبر کو گھیرے میں لے کر ان پر حملہ آور ہو جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ بھی اللہ کی جانب سے ایک میرے لیے ایک امتحان تھا کہ اتنے دشمنوں کے بیچ تنہا میں تھا جو پیغمبر کا دفاع کر رہا تھا اور اس دن ستر زخم میرے بدن پر لگے۔ آپ نے اپنے بدن سے ردا ہٹائی اور ایک ایک زخم مجمع میں موجود افراد کو دکھایا اور فرمایا کہ یہ میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں اللہ کے رسول کے کام آسکا۔
پانچواں مقام
اس کے بعد امیر المومنین نے جنگ خندق کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی جانثاری اور فداکاری کا ذکر کیا۔ آپ نے اپنے بیان میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب عرب کا سب سے بڑا سورما اور پہلوان عمرو بن عبد ود خندق پھاند کر میدان کارزار میں ’ھل من مبارز‘ پکارنے لگا تو مسلمانوں کے سروں پر پرندے بیٹھ گئے اور سب کے پسینے چھوٹ گئے پیغمبر اکرم نے اپنا عمامہ میرے سر پر باندھا اور ذوالفقار میرے ہاتھ میں دی خدا نے عمرو ود کو میرے ہاتھوں واصل جہنم کیا۔ یہاں پر امام علیہ السلام نے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس زخم کو بھی دکھایا جو عمرو ود نے آپ کے سر پر وارد کیا تھا۔
چھٹا مقام
حضرت علی علیہ السلام نے اس کے بعد جنگ خیبر اور آپ کے ہاتھوں قلعہ خیبر کا دروازہ اکھاڑے جانے کا تذکرہ کیا۔ اور فرمایا کہ صرف اللہ کی مدد سے میں نے اس جنگ کو جیتا اور قلعہ خیبر کو فتح کیا جسے مسلمان تین دن سے فتح نہ کرپائے تھے۔
ساتواں مقام
امیر المومنین نے آزمائش الہی کا ساتواں مقام وہ بیان کیا جب فتح مکہ سے پہلے اللہ نے خانہ کعبہ کے پاس سورہ برائت کی تلاوت کے ذریعے مشرکین سے برائت کا اعلان کروانا چاہا تو حکم ہوا اے محمد تمہارے یا تمہارے خاندان سے اس شخص کے علاوہ جو تمہارے جیسا ہو کوئی اس عمل کو انجام نہ دے تو رسول خدا نے حضرت علی علیہ السلام کا انتخاب کیا، آپ فرماتے ہیں کہ یہ کام ایسے دور میں مجھے سونپا گیا جب مشرکین مکہ اس قدر ہمارے دشمن تھے کہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے تھے لیکن میں نے مکہ میں جا کر سورہ برائت کی تلاوت کی اور اعلان برائت کر دیا۔
سرزمین فلسطین عرب عوام کے دلوں کی ڈھرکن
آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک ستم ظریفی یہ ہے کہ عام آدمی کو صحیح اور حقیقی واقعات کا علم ہی نہیں ہوتا۔ اطلاعات کے ذرائع پر سیاسی میلانات رکھنے والوں کو کنٹرول حاصل ہونے کی وجہ سے سچائی ایک نایاب شئے بن گئی ہے! مثال کے طور پر مغربی ذرائع ابلاغ، عرب اسرائیل جنگ، عربوں کی جانب سے تیل کی سربراہی پر پابندی، جس کی وجہ سے دنیا میں معاشی بے چینی پیدا ہوئی ہے، اس “ننھے منے” بے یارو مددگار اسرائیل کا ذکر خیر، جو ایسے دشمنوں کے نرغے میں گھرا ہوا ہے جو اس کو تسلیم کرنے اور اس سے گفت و شنید کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ تاہم ان کی یہ معلومات، تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی ہیں اور جس حقیقت کو وہ یا تو دبا دیتے ہیں یا چھپا دیتے ہیں اور جس سے وہ خود بھی لاعلم ہیں وہ در اصل یہ ہے کہ “ننھا منا” اسرائیل، ایک ایسا ملک ہے جو ایک دوسرے ملک، فلسطین کا خاتمہ کر کے عالم وجود میں آیا ہے۔
جب ۱۹۴۸ میں ایک نئے ملک اسرائیل کی داغ بیل ڈالی گئی تو کئی مغربی حلقوں میں یہ سمجھا گیا تھا کہ یہ نئی مملکت، مشرق وسطیٰ میں استحکام و ترقی کا ایک وسیلہ ثابت ہو گی اور عرب، جلد یا بدیر اس کے وجود کو تسلیم کر لیں گے۔
لیکن چالیس سال گزرنے کے باوجود آج بھی عرب اسی طرح غیر مصالحت پسند ہیں جس طرح کے وہ ابتدا میں تھے وہ لوگ جو مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور عربوں کی نفسیات نیز انسانی نفسیات سے فی نفسہ واقف ہیں اس بات کو تسلیم کریں گے کہ عرب، یورپی یہودیوں کو فلسطین میں کبھی بھی قبول نہیں کریں گے جس طرح کہ انہوں نے مشرق وسطیٰ پر حملہ آور مسیحیوں کو یا سکندر اعظم کے زمانے کے یورپی مشرکین کو قبول نہیں کیا تھا۔
اسی طرح عرب، سلطنت عثمانیہ کے غیر ملکی مسلم ترکوں سے بھی نبرد آزما رہے ہیں جنہوں نے ان کی سرزمین پر برسہا برس حکومت کی۔ الجیریا میں عرب فرانس سے جس نے وہاں تقریبا ایک سو سال تک اپنا تسلط جمائے رکھا تھا اس وقت تک لڑتے رہے جب تک کہ انہوں نے فرانسیسیوں کو اس علاقے سے نکال باہر نہ کیا۔
ان واضح تاریخی حقائق کے پیش نظر مشرق وسطیٰ میں اس وقت تک مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ فلسطینیوں کے مسئلہ کو اس بنیاد پر حل نہ کیا جائے کہ فلسطین کے عوام کے مکمل حقوق، علاقائی سالمیت کے ساتھ وطن کی شکل میں بحال نہ کئے جائیں۔ بالفاظ دیگر فلسطینیوں کو ان کی مملکت واپس نہ کر دی جائے، مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں فی الحقیقت لاینحل معلوم ہوتا ہے۔ چونکہ برطانیہ فلسطین کو اپنے انتداب سے نکال چکا ہے اس لیے اسرائیل کا مسئلہ عرب دنیا کے تعلق سے ایک ایسا قضیہ ہے جسے ادارہ اقوام متحدہ کو چکانا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ادارے نے ایسی قرار دادوں کی منظوری میں کافی خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے کہ جن کا مقصد اس کا حل تلاش کرنا تھا۔ اگر ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے نیک نیتی سے ذرا سی بھی کوشش کی جاتی تو نتیجہ بہت شاندار ہوتا۔ لیکن یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
۱۹۴۷ء میں اور پھر ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے سنجیدگی سے یہ اعلان کیا کہ فلسطینی عرب مہاجرین کو اس بات کا پورا پورا حق ہے وہ اپنے گھروں کو واپس ہوں اور اگر وہ اس حق سے استفادہ کے خواہاں نہ ہوں تو ان کے مادی نقصانات کی مکمل پابجائی کی جائے۔ فلسطینی مہاجر نہ اپنے گھر لوٹے اور نہ ہی انہیں کوئی معاوضہ ملا۔ وہ اب بھی مہاجر ہیں۔ ابھی تلک یہ جلا وطن لوگ محتاج، مفلس، فلاکت زدہ، بھوکے اور بدحال ہیں، جو کمیونسٹ پروپیگنڈے کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ انسان کے انسانوں سے ظالمانہ سلوک کی بدترین مثال ہے۔
لیکن اس صورت میں کم از کم ایک امر باعث اطمینان یہ ہے کہ فلسطین بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے اور عربوں کی جانب سے اسرائیل کی مخالفت کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کیونکر کمیونزم کے ملحدانہ عقیدے کی قبولیت بھی ان کی مخالفت کے جذبے کو ٹھنڈا نہیں کر سکتی۔
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ایک تحریری مقابلہ جو تمام قوموں کے ادیبوں کے لیے کھلا تھا، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے منعقد کیا گیا کہ “ہاتھی” کے موضوع پر کس کے مضمون کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ ایک جرمن ادیب نے ایک پر مغز مقالہ، “ہاتھی، ایک وضاحتی مطالعہ” پیش کیا۔ فرانسیسی قلمکار نے ایک مختصر سا مضمون “ہاتھی کی جنسی زندگی” پر لکھا۔ ایک انگریز نے ایک مختصر معلوماتی کتابچہ “مجھے ہاتھی کا شکار کرنا پڑا” تیار کیا۔ ڈنمارک کے ایک باشندے نے پکوان کی ایک کتاب “ہاتھی کے گوشت کے قتلوں سے پکوان کے چالیس طریقے” تحریر کیا۔ لیکن اس مقابلے میں حصہ لینے والے واحد عرب نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا “مسئلہ فلسطین کے حل میں ہاتھی کا کردار”!۔
اس میں شک نہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے لیکن یہ ایک موزوں طریقے پر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت اسرائیل کے وجود کے تعلق سے عرب احساسات کس قدر شدید ہیں۔ بلاشبہ کوئی بھی عرب علانیہ طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر سکتا کہ ایک نئی آزاد مملکت “اسرائیل”وجود میں آ چکی ہے البتہ وہ جذباتی طور پر یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ طاقت کے ذریعے اس کو نیست و نابود کر دیا جائے۔
ساری دنیا خواہ کچھ ہی کہے، سچ پوچھئے تو آج بھی عربوں کے لیے در اصل اسرائیل ہی فلسطین ہے۔ جو ان کی دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور صدیوں سے محبت اور امن کی یہ سرزمین، مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں طور پر ایک مذہبی مسکن ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر صہیونیوں کی گرفت غیر فطری ہے۔ آخر کب تک ایک “شائی لاک” “انطونیو” (ولیم شیکسپیئر کا ڈراما “وینس کا سوداگر” کے دو اہم کردار) کو اپنی گرفت میں رکھ سکتا ہے؟
قرآن اور سیاست؛ یوم القدس کے قرآنی اصول اور نظریہ مزاحمت
بقلم ڈاکٹر محسن محمدی
قرآن کریم انسان کے لیے ایسی کتاب ہدایت ہے جس نے انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق گفتگو کی ہے اور اس کے لیے ہدایت کے راستے کھولے ہیں۔ ان گوشوں میں سے ایک انسان کی سماجی اور سیاسی زندگی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نے کچھ خاص اصول و قوانین پیش کئے ہیں اور ان اصول و قوانین کو توحیدی نظام پر قائم کیا ہے۔ قرآن کریم نے سیاسی و سماجی زندگی کے لیے جو نظام ہدایت پیش کیا ہے اس کا ایک اہم حصہ دشمن شناسی اور دشمنی کے مقابلے میں مزاحمتی آئیڈیالوجی کا انتخاب ہے۔
ایران کا اسلامی انقلاب، اسلام کے کچھ خاص اصولوں پر قائم ہے جن کی بنا پر وہ دین کو انسان کی انفرادی زندگی میں منحصر نہیں کرتا بلکہ سیاست اور معاشرے کو دینی دستورات کے لازم الاجراء ہونے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی حیثیت دیتا ہے۔ اسلامی انقلاب ایسے حالات میں کامیابی سے ہمکنار ہوا کہ دین بطور کلی سیاسی میدان سے حذف ہو چکا تھا اور اسے انسانی حیات کی خلوتوں اور گوشہ نشینیوں سے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ سیاسی نظریات اور سماجی نظام میں اس کا کوئی مقام اور اثر نظر نہیں آتا تھا۔ ان حالات و شرائط میں اسلامی انقلاب دینی قیادت کے ذریعے اور دینی افکار و اصولوں کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور اپنی کامیابی کے ساتھ عالم سیاست و سماجیت کے اہل نظر افراد کو انگشت بہ دنداں کر دیا تاکہ وہ ایک مرتبہ پھر اپنے افکار اور نظریات میں تجدید نظر کریں۔
اسلامی انقلاب کا ایک اہم ترین نتیجہ اور ماحاصل مزاحمت کے نظریہ کی ترویج ہے جو مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کے زیر سایہ اسلامی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت کے لیے یکجہتی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس نظریہ کا سب سے بڑا ماحصل اسلامی انقلاب کا صہیونی مخالف موقف ہے کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کو اسلامی مزاحمتی گروہوں کی حمایت اور صہیونی رژیم کی مخالفت کی طرف حرکت دیتا ہے۔
صہیونیت سے مقابلے کا نظریہ اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی رہبران انقلاب کی جانب سے وجود میں آیا۔ امام خمینی نے ۱۹۶۳ میں ایران کی شہنشاہی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران ہی اسرائیل کے خلاف مجاہدت کا بھی آغاز کر لیا تھا۔ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ امام خمینی نے فرمایا کہ “اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہیے”۔ نیز امام خمینی نے ماہ مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دے کر اس فکر کو پورے عالم اسلام میں پھیلا دیا اور یہ دن “عالمی یوم القدس” کے نام سے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے لوگ مسلمان اور غیر مسلمان اس دن سڑکوں پر نکل کر فلسطین کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں۔
امام خمینی کے اس اقدام نے در حقیقت عالم اسلام کو یہ باور کروا دیا کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلہ عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے اور اس میں کسی مذہب، فرقے، زبان یا علاقے کی کوئی قید نہیں ہے۔ بعد ازآں یہ پالیسی اور یہ موقف انقلاب اسلامی کے تمام رہبروں اور رہنماوں کا شعار رہا ہے۔
یہاں پر جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ نظریہ اور آئیڈیالوجی انقلاب اسلامی کی فکر ہے یا اس کے پیچھے دینی اور قرآنی اصول بھی حاکمفرما ہیں۔
یہ سوال اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسلامی انقلاب مذہبی اور قومی اقلیت کے اندر پایا جاتا ہے اور اس کے افکار کی عالم اسلام میں نشر و اشاعت کی راہ میں یہ رکاوٹ پائی جاتی ہے کہ یہ افکار ایرانی انقلاب کی تخلیق ہیں اور عالم اسلام کو ان افکار کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک بھی انہی مسائل اور افکار کا حصہ ہیں خاص طور پر جب عالم اسلام کے بعض افراد مسئلہ فلسطین کو ایک عربی مسئلہ اور اہل سنت سے متعلق گردانتے ہیں نہ کہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ۔
انقلاب اور رہبران انقلاب کے افکار کے اصولوں پر غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ صہیونی ریاست کے ساتھ مقابلے میں مسئلہ فلسطین اور مزاحمتی تحریک قرانی اصول میں سے ایک اصل ہے اور واضح ہے کہ قرآن کریم تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک ایک مشترکہ کتاب ہے کسی ایک قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم بنی اسرائیل اور صہیونیت کی قرآن کریم جو مسلمانوں کو بیداری، مجاہدت اور مقاومت کی دعوت دیتا ہے کی نگاہ سے تصویر کشی کرنا چاہیں اس وقت مزاحمتی تحریک کا نظریہ اسلامی انقلاب کی آئیڈیالوجی نہیں بلکہ مکمل طور پر ایک قرانی نظریہ ثابت ہو گا کہ تمام مسلمان اس میں مشترک اور سہیم ہیں۔
خداوند عالم قرآن کریم میں انبیائے الہی کی تاریخ اور ان کا اپنی قوموں کے ساتھ برتاؤ بیان کرتا ہے یہاں تک کہ بہت سارے سوروں کے نام ہی انبیاء کے ناموں پر رکھے گئے ہیں جیسے یونس، ہود، یوسف، ابراہیم ، لقمان، محمد، نوح، اور ایک سورہ خود انبیاء کے نام سے ہے۔ لیکن قرآن کریم کی زیادہ تر توجہ بنی اسرائیل کی تاریخ پر ہے اور قرآن کریم کا کوئی سورہ “موسی” کے نام سے ہوتا تو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہوتا اس لیے اس قدر اللہ نے جناب موسی اور بنی اسرائیل کے قصے کا قران کریم میں تذکرہ کیا ہے۔
قرآن کریم دین اسلام کی مقدس اور آخری نبی پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب ہے۔ واضح ہے کہ اس میں اسلامی تعلیمات یعنی عقائد، احکام اور اخلاق کو بیان کیا جانا چاہیے تھا نہ کہ تاریخ بنی اسرائیل کو، تو یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اسلام کی آسمانی کتاب اس حد تک بنی اسرائیل کا تذکرہ کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ بنی اسرائیل کی قرآن میں مجموعی تصویر منفی ہے اور خداوند عالم انہیں ان الفاظ سے یاد کرتا ہے؛ ناشکری قوم، نافرمان قوم، بہانہ جو، پیغمبروں کی قاتل کہ جو خداوند عالم اور اس کی نمائندوں کی ناراضگی کا سبب بنی ہے۔ قرآن کریم میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تذکرہ در حقیقت اس عنوان سے ہے کہ “ادب کس سے سیکھا؟ بے ادبوں سے”، تاکہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کے راستے پر نہ چلیں تاکہ خداوند عالم کے غیض و غضب میں گرفتار نہ ہوں۔
۲۔ بنی اسرائیل جو انبیاء کے قاتل معروف ہیں اور انہوں نے جناب صالح اور حضرت عیسی جیسے بزرگ انبیاء کو قتل کیا یا قتل کرنے کی کوشش کی اور آخری پیغمبر کے قتل کے منصوبے بھی بنائے اور ان کے دین کو مٹانے کے لیے کوئی لمحہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کا تذکرہ اس لیے کرتا ہے تاکہ مسلمان اپنے دشمنوں کو اچھے سے پہچانیں، اور ان کے مقابلے کے لیے بہترین تدبیریں تلاش کر سکیں اس لیے قرآن نے یہود کی دشمنی کو سخترین اور بدترین دشمنی قرار دیا ہے۔ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُواْ الْيَهُودَ …(مائدہ ۸۲)(آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں) اور بنی اسرائیل جو کرہ زمین پر فساد کا مرکز ہیں کے ساتھ جہاد کو مومنین کے لیے باعث فخر قرار دیا ہے:
وَقَضَینا إِلی بَنِی إِسْرائِیلَ فِی الْکتابِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْأَرضِ مَرَّتَینِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کبِیراً فَإِذا جاءَ وَعْدُ أُولاهُما بَعَثْنا عَلَیکمْ عِباداً لَنا أُولِی بَأْسٍ شَدِیدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّیارِ وَکانَ وَعْداً مَفْعُولاً (اسرا ۴، ۵)
(اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں یہ اطلاع دے دی تھی کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد کرو گے اور خوب بلندی حاصل کرو گے، اس کے بعد جب پہلے وعدے کا وقت آگیا تو ہم نے تمہارے اوپر اپنے بندوں کو مسلط کر دیا جو بہت سخت قسم کے جنگجو تھے اور انہوں نے تمہارے دیار میں چن چن کر تمہیں مارا اور یہ ہمارا ہونے والا وعدہ تھا۔)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں ان آیات کا واضح مصداق کون اور کہاں ہے؟ اگر ہم اپنے اطراف و اکناف میں معمولی غور و فکر کے ساتھ بھی نظر ڈالیں گے تو ہمیں عالمی صہیونیت اور قدس کی غاصب رژیم قرآن کریم کی ان آیات کی واضح مصداق دکھائی دے گی۔ لہذا ایسے موقع پر مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتہائی ہوشیاری کےساتھ اس رژیم کا مقابلہ کریں اور یہ یاد رکھیں کہ اس کا مقابلہ قرآنی زاویہ نگاہ سے جہاد فی سبیل اللہ کا مصداق ہے۔
اب یہ واضح ہوا کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو امام خمینی (رہ) نے کیوں یوم قدس کا نام دیا تاکہ ماہ مبارک جو اللہ کی عبادت اور بندگی کا سب سے بڑا مہینہ ہے اس مہینے میں راہ خدا میں جہاد کرنا اور دشمن کے سامنے اپنی طاقت کا لوہا منوانا اور سڑکوں پر نکل کر روزے کی زبان سے اسرائیل مردہ باد اور امریکہ مردہ باد کے نعرے لگا کر دشمن کی نابودی کی دعا کرنا اور یہ ثابت کرنا کہ ہم تیرے ظلم کے آگے دبنے والی قوم نہیں ہیں بلکہ اپنے خون کے آخری قطرے تک قبلہ اول کی نجات کے لیے لڑنے کو تیار ہیں، اس مہینے کے عظیم مناسک اور اعمال کا حصہ ہیں۔
ایرانی قوم کا قطعی آپشن استقامت اور پائداری/ جنگ نہیں ہوگی/ مذاکرات زہر ہیں
اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی حکام اور اہلکاروں نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں حکام کی تقوی اور پرہیزگاری، عوامی امور پر توجہ اور بیت المال میں رعایت کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہویرہ ایران کے تینوں قوا کو اقتصادی مشکلات حل کرنے اور پیداوار کی رونق کے سلسلے میں سنجیدہ اقدامات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کے حالیہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایرانی عوام اور اسلامی نظام کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی مذموم کوشش کررہا ہے ایرانی حکام کو امریکہ کے شوم اور گھناؤنی منصوبوں پر حاص توجہ رکھنی چاہیے اور اس کے مکر و فریب میں نہیں آنا چاہیے امریکہ کی موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات زہر ہیں ۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دشمن کے مقابلے میں ایرانی قوم کے قطعی آپشن استقامت اور پائداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جنگ نہیں ہوگی ، امریکہ کے ساتھ مذاکرات زہر ہیں جنگ کی صورت میں امریکہ کو پسپائی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑےگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے خلاف امریکی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے مد مقابل ہمارے پاس دو آپشن ہیں یا ہم استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کریں یا دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کریں۔ تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جب بھی ہم نے دشمن کے مد مقابل استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالی نے ہمیں فتح عطا کی ہے لہذا دشمن کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت اور پائداری کا سلسلہ جاری رہےگا اور فتح ایرانی قوم کے قدم چومے گی۔
رمضان المبارک خود احتسابی اور ظلم کے خلاف تجدید عہد کا نام ہے
تقویم ایام اور سنین و شہور کا فلسفہ بہت قدیم ہے۔اس کے بادی النظر مباحث بڑے پیچیدہ ہیں۔ چونکہ پورے نظام کائنات کا استقر ار انھیں گردش ایام ِ ماہ سال پر انحصار رکھتا ہے۔ اگر ہم اس فسلفے کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں تو اس کی معنویت میں ایک نمایاں فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔اس لئے کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام افراد کا براہ راست تعلق کسی نہ کسی خاص مذہب و عقیدے سے ہی مربوط ہے۔یہ ایک الگ بات ہے کہ اُس کا اپنا ذاتی نظریہ کیا ہے۔لیکن میں یہاں پر اقوام عالم کے اس اجتماعی نظریات کی بات کرنے کوشش کر رہا ہوں۔ جس کی ڈور کہیں نہ کہیں جاکر مذہب و عقائد سے ہی جڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔لہذا، اس تناظر میں صرف ماہ و سال ہی نہیں بلکہ دنوں کی اپنی الگ الگ خاصیت ہوتی ہے۔ ہماراپورا انسانی سماج اپنی تمام تر مادی ترقیات کے ساتھ اپنے مذہبی عقاید کی ڈور تھامے ہوئے گردش لیل و نہار کی پشت پر سوار ہوکر ایام ، ماہ و سال کے اسی خظ مستقیم سے اپنی زندگی کے ایک لامتناہی سفر کی طرف ہمہ وقت متحرک نظر آتا ہے۔یہ سلسلہ لاکھوں کروروں سال سے یوں ہی بنا کسی توقف کے چلتا آرہا ہے اور ابد تک یہ سلسلہ یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔میں اسی تناظر میں رمضان المبارک کی محض شرعی گفتگو پر زورنہ دیتے ہوئے ،اس کے سماجی پہلووں پر بھی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔جہاں تک رمضان کے شرعی نصوص کی بات ہے تو اس کے لئے قرآن مجید میں ایک بہت ہی واضح آیت موجود ہے ۔جس کا ترجمہ یہ ہے۔’’اے ایمان لانے والو! تم پرروزے اسی طرح فرض قرار دیے گیے ہے، جیسا کہ پچھلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے ،تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔‘‘
اس آیت میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اللہ براہ راست اپنے مومن بندوں سے خطاب کررہا ہے ، اور روزے کی اہمیت کو اس پر واضح دلیل کے ساتھ پیش کررہا ہے ۔ کہ روزہ صرف تمہارے لئے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کی بھی امتوں پر فرض تھا۔قرآن کی آیت کا یہ جز روزے کے قدیمی روایت کی تاریخی وضاحت فرما رہا ہے۔اب آپ تھوڑی دیر مذہب سے ہٹ کر اسلام کی تمام عبادات کو گناہ و ثواب ،رحمت و عذاب کے دائرہ امکان سے نکل کر ان عبادات کا سماجی پہلوؤں سے منطقی تجزیہ کریں، تو آپ کو اس کی افادیت کا بھرپور احساس ہوگا کہ پروردگار عالم نے، جن عبادات کو ہمارے لئے فرض قرار دیا ہے ،اس کا تعلق اخرت سے کہیں زیادہ اس دنیا کے فوائدپر قطعی جواز رکھتا ہے۔لیکن مسئلہ اس بات کا ہے کہ مذہب کے نام پر ایک مخصوص طرز فکر کو معاشرے میں فروغ دینے والے مذہبی معلمین و مصلحین اپنی تقریروں اور انداز خظابت سے عوام کے ذہنوں میں اپنی خود ساختہ عظمت وجلالت کا مذہبی حوالوں سے کچھ ایسا خوف بٹھا دیتے ہیں، کہ انسان نفسیاتی طور سے اسی میں الجھ کر رہ جاتا ہے ، اور اُس کی ہر بات کو الہی فرمان سمجھ کر کسی تنقید و ایراداور چوں چرا کئے بغیر اُس کے آگے سراپا تسلیم ہوجاتاہے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کا تعلق ہر مذہب کے ساتھ ہے۔خاص کر عبادات کے سلسلے سے سادہ لوح انسانوں کو اتنے خواب دکھائے جاتے ہیں ۔جس کے اعداد شمار سے انسان خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی سمجھنے اور کہنے میں گریز تک نہیں کرتا ۔یا اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہونے والے صریحی احکام کی ایسی تاویلات و تشریحات پیش کی جاتی ہیں ۔جسے سننے کے بعد ایک خاطی اور گناہگار انسان کے ذہن میں خدا ئےمطلق کی ذات سے ،اُس کے ذہن و دل و دماغ میں ایک ایسا تصور جنم لینے لگتا ہے ۔جس کے تناظر میں وہ خود کو ایک ایسا مجرم تصور کرنے لگتا ہے۔جس کو جہنم کے سخت ترین عذاب کے علاوہ کچھ اور نہیں دکھائی دیتا ۔ایسی صورت میں وہ نفسیاتی طور پر خدائے کریم کے لطف و عنایت اور اس کے رحم و کرم سے خود کو محروم سمجھنے لگتا ہے۔ان دو صورتوں میں انسان کے ذاتی خسارے کے ساتھ مذہب کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نہ تو اسے اپنی ذات کا عرفان نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی خدا ئے علیم وخبیر کے وجود کی معرفت کا ادراک۔اس لئے ضروری ہے کہ اسلام کی تمام تر عبادات کی تفہیم ،قبر و برزخ ، دوزخ و جہنم اور جنت و حورو غلمان کے حصول تک ہی محدود نہ کی جائے،ورنہ انسان اپنی آخرت کے مفاد کو حاصل کرنے کی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے آخرت کے ساتھ اس دنیا کو بھی اپنے ہاتھ سے کھوسکتا ہے۔ ہمیں افسوس اسی بات کا ہے کہ ہم مجموعی طور پر عبادات کی فضیلت اور ثواب پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتے ہیں ۔لیکن ہم از سر نو ان عبادات کے سماجی اور معاشرتی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔جواسلامی نقطہ نظر سے قطعی درست نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دین و دنیا کو مساوی حیثیت حاصل ہے ،اس لئے آخرت کے حصول کرنے کے لئے دنیا کو ترک کرنے والوں کی اللہ نے مذمت کی ہے ،اور اسلام میں روہبانیت جیسے نظریات کی سخت تردید کی گئی ہے۔
اسلام میں مروجہ تمام دینی احکام و عبادات کے اساسی آئین میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کا بڑے توازن کے ساتھ ایک خوبصورت امتزاج رکھا ہے۔اسی لئے اسلام کی کوئیایسی عبادت نہیں ہے جس میں آخرت کے ساتھ انسان کی عائلی و سماجی زندگی کو پس انداز کیا گیاہو۔اسی طرح سے اسلام کی اہم عبادت روزہ بھی ہے ۔جس کو محض آخرت کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ان روزوں میں دنیاوی حکمت کو بھی پوشیدہ رکھا ،جس کی پابندی سے ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارا اسلامی سماج اپنی ایک الگ روش پر گامزن دکھائی دیتا ہے ۔اس وقت ہم رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کے شب و روز میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں اور برکتوں سےبھر پور فضا میں سانس لے رہے ہیں۔اس وقت پوری کائنات اللہ کے بندوں کی تسبیح و تحلیل اور اس سے راز و نیاز کی خنک ریز سرگوشیوں سے مامور ہے۔لیکن کیا ہم نے اس بات پر غور کیا یا توجہ دی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر روزے کو کیوں فرض قرار دیا، آخر اُ س بےنیاز ذات کو اپنے بندوں سے ایسی کونسی غرض وابستہ تھی کہ جس کی وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو روزے جیسی اعصابی و ذہنی مشقت میں مبتلا رہنے کا حکم دیدیا ،کیا وہ بغیر روزے اور نماز کے اپنے بندوں کو آخرت کی پُرتعیش سہولیتیں فراہم کرنے پر قادر نہیں۔اس بات سے کسی کوانکار نہیں کہ وہ ’’علی کل شئی قدیر ‘‘ ہے ۔لیکن اُ س نے اپنے بندوں پر روزے کو فرض قرار دے کر ہمارے معاشرے میں قائم طبقاتی نظام کی خلیج کو پُر کرنے کے لئے روزے کی شکل میں ایک لائحہ عمل کو ترتیب دیا ہے ۔ہمیں یہ بات یاد ہونی چاہئے کہ اگر ہم روزہ رکھتے ہیں تو ہمارے معاشرے میں غربت کی انتہائی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے افرادکی بھوک اور پیاس کا ہمیں خیال ہونا چاہئے۔اس کے لئے ہماری ذاتی و اجتماعی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے معاشرے کا کوئی بھی فرد غربت و افلاس کی وجہ سے خودکشی یا فاقوں کی اذیت سے دم نہ توڑنے پائے ۔اگر آپ روزہ رکھتے ہیں اور آپ کا پڑوسی اور اس کے بچے اپنی غربت کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبورہیں اور آپ اس کی استعانت کرنے سے صرف نظر فرمارہیں تو یاد رکھو تمہارا روزہ اور تمہاری عبادات کا کوئی ماحصل نہیں، ایسی عبادات بروز حشر تمہارے منھ پر مار دی جائیں گی۔
اسلام کی تمام عبادات وہ چاہے جس شکل میں ہوں اگر ان کے فرائض کی دائیگی سے روح پر طاری انجمادی کیفیت کو توڑ کر اگر آپ اندر تحریک پیدا کررہی ہیں، اور دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہونے والے ظلم کے خلاف آپ کے اندر پوشیدہ استقامتی قوت کو متحرک کرتی ہیں،اور اپنےقومی و ملی حقوق کی بازیابی کے لئے جرات اظہار کا حوصلہ دیتی ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ آپ نے عبادت کی اصل روح کا ادراک کر لیا ہے۔اس لئےروزہ بنام رمضان محض خود کو بھوکا اور پیاسے رکھنے کا نام نہیں بلکہ یہ مہینہ خود احتسابی کے ساتھ ظلم کے خلاف تجدید عہد کا نام ہے۔لیکن مسلمان قوم اسلام کے لئے ایک ایسا المیہ بن چکی ہے جس کا اظہار سوائے تاسف کے اور کچھ نہیں، چونکہ یہ قوم پوری دنیا میں اپنے ہی خلاف ہورہی جارحیت کے خلاف کل بھی چپ تھی ، آج بھی چپ ہے اور کل بھی چپ رہنے کے امکان زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔لہذا میں اپنی بات کا اختتام اپنے اس شعر پر کرنا چاہتا ہوں۔
ابھی تو پابند مصلحت ہیں یہ تیرے جذبے اطاعتوں کے
تری طبیعت میں اے مسلماں نمودِ پیغمبری نہیں ہے
بقلم: شاہدؔ کمال
فلسطین کی مدد قرآنی نقطہ نظر سے
دشمنان اسلام اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے اکثر اوقات یہ شبہہ ذہنوں میں ڈالتے رہتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ تو ان کا اپنا اور قومی مسئلہ ہے ہمیں کیا ضرورت ہے ان کے ذاتی مسئلے میں مداخلت کرنے کی؟ لیکن قرآن کریم نے اس شبہے کا جواب دیا ہے جو درج ذیل سطروں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے؛
درج ذیل قرآنی دلائل کی بنا پر فلسطین کی مدد کرنا ہمارا دینی اور انسانی فریضہ ہے:
الف: اسلامی معاشرہ ایک امت ہے
اسلامی اصول اور تعلیمات کی بنا پر اسلامی سماج اور معاشرہ ایک پیکر ہے۔ یعنی جہاں بھی دنیا میں کوئی مسلمان رہتا ہے وہ اسلامی معاشرے کا حصہ ہے اگر چہ جغرافیائی اعتبار سے وہ ہمارے ملک یا شہر کا باشندہ نہیں ہے۔ اسلام میں خونی رشتہ، سرحد، ملک، قبیلہ، زبان، قوم، رنگ و نسل، وغیرہ اسلامی معاشرے کی تقسیم کا باعث نہیں بنتے یہ سب چیزیں عارضی ہیں اور اصالت صرف اسلام اور خدا و رسول پر ایمان کو حاصل ہے۔
اسلام ان تمام افراد کو جو اس الہی دین پر عقیدہ رکھتے ہیں ایک امت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں عقیدہ اور ایمان ہے جو رشتوں کو جوڑتا ہے اور اگر عیقدہ و ایمان نہ ہو تو جڑے ہوئے رشتے بھی توڑ دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے خداوند عالم سے اپنے بیٹے کی نجات کی دعا کی تو پروردگار عالم نے فرمایا: «يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ (۱) اے نوح یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے چونکہ اس کا کردار غیر صالح اور ناصحیح ہے۔ یعنی حضرت نوح (ع) سے بیٹے کا خونی رشتہ اور باپ بیٹے کی نسبت اس کی نجات کا باعث نہ بن سکی بلکہ ایمان اور عقیدہ تھا جو اس کو بچا سکتا۔ اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالنا بہت آسان ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف انسان کا عقیدہ اور عمل رشتوں کو جوڑتا ہے لہذا تمام مسلمان ایک امت اور ایک دوسرے کے بھائی ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں رہتے ہوں اور ان میں کوئی خونی رشتہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ» (۲) اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا پروردگار ہوں پس مجھ سے ڈرو۔
بنابرایں، فلسطینی قوم کی مدد کرنے کی سب سے پہلی دلیل یہ کہ یہ قوم اور ملت بھی مسلمان ہے اور مشترکہ عقائد کی بنا پر وہ ہمارے دینی بھائی ہیں اور بھائی کی ہر مشکل میں مدد کرنا ہمارا دینی فریضہ ہے۔ جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ» (۳) تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے۔
خداوند عالم دوسرے مقام پر یہاں تک فرماتا ہے کہ دو مسلمان گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو ان کے درمیان اصلاح کرو اگر چہ جنگ کے ذریعے، اس لیے کہ امت مسلمہ کی وحدت سب سے زیادہ اہم ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِن فَاءتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ» (۴) اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جھگڑا کریں تو تم سب ان کے درمیان صلح کراؤ اس کے بعد اگر ایک دوسرے پر ظلم کرے تو سب مل کر اس سے جنگ کرو جو زیادتی کرنے والا گروہ ہے یہاں تک کہ وہ بھی حکم خدا کی طرف واپس آ جائے۔ پھر اگر پلٹ آئے تو عدل کے ساتھ اصلاح کر دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
جب قرآن کریم مسلمانوں کو واضح حکم دیتا ہے کہ اگر اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے تمہیں جنگ بھی کرنا پڑے تو جنگ کرو تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف پیدا ہو تو ایسے میں اگر دشمنان اسلام، اسلامی معاشرے کو پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہوں اسلامی معاشرے کی جڑوں کو کاٹنے پر تلے ہوئے ہوں تو کیا ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو یہ سوچ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے کہ یہ تو فلاں ملک کا مسئلہ ہے یہ تو فلاں قوم کا مسئلہ ہے یہ تو سنیوں کا مسئلہ ہے یہ تو شیعوں کا مسئلہ ہے؟ قرآن کریم نے اہل ایمان کی بات کی ہے نہ کسی ملک کی نہ کسی قبیلے اور نہ فرقے کی۔ اہل ایمان کے ایک گروہ کو در پیش مشکل تمام مومنین کی مشکل ہے اور تمام اہل ایمان کو اس کے حل کے لیے کوشاں ہونا چاہیے۔
ب؛ فلسطین کی مدد ایک مومن اور مسلمان امت ہونے کے عنوان سے
قرآن کریم ہمیشہ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ دیگر مسلمانوں اور مومنوں کی مدد کے لیے آگے بڑھو اور ظالموں کے ساتھ پیکار کرو۔ قرآن کریم کے اسی حکم کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران اس عنوان سے کہ وہ پرچم اسلام کا علمبردار ہے گزشتہ چالیس سال سے فلسطین کی مدد کے لیے دوڑ رہا ہے «…إِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِى الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ… (۵) ۔۔ اگر دین کے
معاملے میں وہ تم سے مدد مانگیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم ان کی مدد کرو۔
نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معروف حدیث جس میں آپ فرماتے ہیں : «مَنْ أَصْبَحَ لَا یَهْتَمُّ بِأُمُورِ الْمُسْلِمِینَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ؛ جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی نسبت کسی اہمیت کا قائل نہ ہو وہ مسلمان نہیں ہے۔ (۶) لہذا اس حدیث کے پیش نظر تمام مسلمان ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح فلسطین کی مدد کے لیے جد و جہد کرنا چاہیے۔
فلسطین کی مدد ایک مستضعف قوم کے عنوان سے
خداوند عالم مسلمانوں سے صرف اس بات کا تقاضا نہیں کرتا کہ تم ایمان لے آو اور اس کے بعد خاموش بیٹھے رہو اور کچھ بھی نہ کرو۔ بلکہ وہ افراد جو ایمان لائے خدا ان سے بہت سے کاموں کا تقاضا کرتا ہے خدا کا ایک تقاضا مستضعفین اور کمزور لوگوں کی حمایت میں دشمنوں کے ساتھ جنگ ہے؛ «وَمَا لَكُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَان» (۷) اور آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جہاد نہیں کرتے ہو جنہیں کمزور بنا کر رکھا گیا ہے۔
مستضعفین یعنی دنیا کے کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کا واضح مصداق اس وقت ملت فلسطین ہے کہ جو ۷۰ سال سے زیادہ عرصے سے جعلی اور طفل کش صہیونی ریاست کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے۔ اس اعتبار سے قرآن کریم کی یہ آیت ہم سے مخاطب ہے کہ کیوں ان کی نجات کے لیے جد و جہد نہیں کرتے؟ قرآن بعد کی آیت میں فرماتا ہے: «الَّذِينَ آمَنُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُواْ أَوْلِيَاء الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا» (۸) ایمان والے ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ ہمیشہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں لہذا تم شیطان کے ساتھیوں سے جہاد کرو بیشک شیطان کا مکر بہت کمزورہوتا ہے۔
قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں طاغوت سے جہاد اور مستضعفین کی حمایت اہل ایمان کا فریضہ ہے اور آج ملت فلسطین اللہ کی راہ میں طاغوت کا مقابلہ کرنے میں سرفہرست ہے لہذا ان کی مدد کو پہنچنا تمام اہل ایمان کا فریضہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں: ’’اسلامی جمہوریہ ایران کے نزدیک مسئلہ فلسطین کوئی تاکتیکی مسئلہ نہیں، کوئی سیاسی اور تزویری مسئلہ نہیں، بلکہ عقیدتی مسئلہ ہے، دل کا مسئلہ ہے ایمان کا مسئلہ ہے‘‘۔ (۹)
بقلم مجید رحیمی
حواشی
[۱] . هود ۴۶
[۲] . مومنون ۵۲
[۳] . حجرات ۱۰
[۴] . حجرات ۹
[۵] . انفال ۷۲
[۶] . الكافی (ط – الإسلامیة) ؛ ج۲ ؛ ص۱۶۳
[۷] . نساء ۷۵
[۸] . نساء ۷۶
[۹] . غزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ۸/۱۲/۱۳۸۸




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
