Super User

Super User

حزب اللہ لبنان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ نے المنار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ اسرائیل  مکڑی کے گھر سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے 2006 میں لبنان  پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں اسرائیل کی تاریخی شکست کی چودھویں سالگرہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان آج طاقت کے اس مرحلے تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ اسرائیل کے اندر ہر نقطہ کو نشانہ بنا سکتی ہے۔آج اسرائیل مکڑی کے گھر سے کہیں زيادہ کمزور ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ لبنانی عوام آج امن کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ امن انھیں باہمی اتحاد کی وجہ سے حاصل ہوا ۔ 2006 میں اسرائیل پر حزب اللہ کی کامیاب در حقیقت لبنانی عوام کی کامیابی تھی اور لبنانی عوام باہمی اتحاد کے ساتھ اسرائیل کی ہر جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ آمادہ ہیں۔

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ آج اسلامی مزاحمت کی طاقت سے اسرائیل خوفزدہ ہےاور اسلامی مزاحمت ہر دور کی نسبت زیادہ طاقتور بن گئی ہے ۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور اسرائیلی سیاستداں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر وہ ایک راکٹ داغیں گے تو انھیں اس کے جواب میں دس راکٹوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔آج پورا اسرائیل حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کے میزائلوں کے نشانے پر ہے اور بیشک آئندہ جنگ 2006 کی جنگ سے وسیع تر ہوگی اور یہ جنگ اسرائیل کی نابودی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

سید حسن نصر اللہ نے صدی معاملے کی شکست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صدی معاملے کے نتیجے میں خائن اور غدار عرب حکمرانوں کے چہرے مسلمانوں کے سامنے نمایاں ہوگئے ہیں۔

سید حسن نصر اللہ نے یمن جنگ میں یمنی عوام کی کامیابی کو یقینی قراردیتے ہوئے کہا کہ یمن میں سعودی عرب کی شکست یقینی ہے اور سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں شگاف پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سعودی رعب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش اور خیانت پہلے سے کہیں زيادہ نمایاں ہوگئی ہے۔

امام رضا اللہ کے نور کا ٹکڑا، اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاہرین ؑ کی آٹھویں کڑی ہیں جن سے اللہ نے رجس کو دوررکھا اوران کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھا جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔ مامون نے ائمہ طاہرین ؑ کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکرو ادیب عبداللہ بن مطرسے سوال کرتے ہوئے کہا: اہل بیت ؑ کے سلسلہ میں تمہاری کیا رائے ہے ؟عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا:میں اس طینت کے بارے میں کیاکہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوااوروحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آسکتی ہے ؟ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا ؑ بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا[1] ۔وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام ؑ عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ ؑ کے سلوک ، ذات کی ہو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:

آپ ؑ کی پرورش 
امام ؑ نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔یہ امام موسیٰ بن جعفر ؑ کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع وپرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہاء،اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔اسی بلند وبالا بیت الشرف میں امام رضا ؑ نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔آپ ؑ کا عرفان اور تقویٰامام رضا ؑ کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیااور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیااگرامام ؑ اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ ؑ کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔

آپ کے بلند وبالااخلاق
امام رضا ؑ بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموںیہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے[2]۔ ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا ؑ کو یہ فرماتے سنا ہے :ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خداکی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔امام ؑ نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔امام ؑ اپنے جدرسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔

آپ ؑ کا زہد
امام ؑ نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زہداختیارکیا،آپ ؑ کے جدبزرگوارامام امیرالمومنین ؑ نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔محمد بن عباد نے امام کے زہدکے متعلق روایت کی ہے :امام ؑ گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے ،آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے[3] ۔دنیا میں زہد اختیار کرنا امام ؑ کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام ؑ کو ولی عہد بنایاگیا تو آپ ؑ نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا،حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدیدکراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :لوگوں کاکسی شخص کی اقتداکرنااس شخص کیلئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کیلئے ذلت و رسوائی ہے ۔

آپ ؑ کے علوم کی وسعت
امام رضا ؑ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوں کہا ہے :میں نے علی بن موسی رضا ؑ سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوں میں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ ؑ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا[4] ‘‘۔ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا ؑ کونہیں دیکھامگریہ کہ آپ ؑ نے ہر سوال کا جواب دیا ہے [5]۔،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ ؑ اس کا جواب عطافرماتے تھے[6] ۔مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا ؑ )سے افضل کسی کو نہیں جانتا[7]۔ بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ ؑ پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام ؑ سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوں سے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ہوجائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1] حیاۃالامام رضا ؑ ، جلد ۱،صفحہ ۱۰۔

[2] نورالابصار، صفحہ۱۳۸۔

[3] عیون اخبار الرضا ؑ ،جلد ۲صفحہ ۱۷۸۔مناقب ،جلد ۴،صفحہ ۳۶۱۔

[4] کشف انعمہ، جلد۳ صفحہ۱۰۷۔

[5] ایک نسخہ میں الاعلم آیاہے۔

[6] حیاۃ الامام الجواد ؑ صفحہ۴۲۔

[7] اعیان الشیعہ ،جلد۴ صفحہ۲۰۰۔

صلوات خاصہ حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع)

اَللّـهُمَّ صَلِّ عَلى عَلِیِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا الْمُرْتَضَى الاِمامِ التَّقِیِّ النَّقِیِّ وَحُجَّتِکَ عَلى مَنْ فَوْقَ الاَرْضِ وَمَنْ تَحْتَ الثَّرى، الصِّدّیقِ الشَّهیدِ، صَلاةً کَثیرَةً تامَّةً زاکِیَةً مُتَواصِلَةً مُتَواتِرَةً مُتَرادِفَةً، کَاَفْضَلِ ما صَلَّیْتَ عَلى اَحَد مِنْ اَوْلِیائِکَ

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع ایک مقالے میں اسرائیلی معاشرے پر سید حسن نصر اللہ کے اثرات کا وسیع پیمانے پر ذکر کیا گیا ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل کو، سید حسن نصر اللہ کی وجہ سے کافی مسائل کا سامنا ہے ۔ صیہونی رہنما یہ اعتراف کرتے ہیں کہ سید نصر اللہ نے اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اسحاق شامیر کے اس مشہور نظریہ کا خاتمہ کر دیا ہے کہ عرب وہی عرب ہیں اور پانی وہی پانی ہے ۔ شامیر کا مطلب یہ تھا کہ یہ وہی عرب ہیں جنہیں 6 دنوں کے اندر ہم نے شکست دی تھی اور جن کے علاقوں پر قبضہ کیا تھا ۔

اب اسرائیلی یہی مانتے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ وہی عرب نہیں ہیں کیونکہ اب تک اسرائیلی فوج کے کمانڈر کہتے ہیں کہ حزب اللہ، ان کی فوج کے بعد، مشرق وسطی کی سب سے طاقتور فوج ہے ۔ یہ معجزہ سید حسن نصر اللہ کا ہی ہے کہ انہوں نے حزب اللہ نامی تحریک کو ایک طاقتور فوج میں بدل دیا ۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے بارے میں اسرائیلی کیا سوچتے ہیں، اس کی ایک مثال، اسرائیل کے اسکولوں میں سماجیات کی کتاب میں سید حسن نصر اللہ کے بارے میں کچھ باتوں کے ذکر ہے ۔ اسرائیل کے حکومتی نصاب میں شامل ایک کتاب میں لکھا ہے: حسن نصر اللہ غیر معمولی طور پر ایک معجزاتی شخصیت کے مالک نہیں اور انہیں اسرائیل کے بارے میں ہر چیز کی اطلاع ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ اسرائیلی معاشرے کی بہت اچھی شناخت رکھتے ہیں اور اپنی اس اطلاع کو متعدد مواقع پر نفسیاتی جنگ میں اسرائیلی معاشرے کو پیغامات دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ انہوں نے 2000 میں جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوجیوں کی پسپائی کے بعد اسرائیلی معاشرے کو مکڑی کا جالا کہا تھا جسے بڑی آسانی سے تباہ کیا جا سکتا ہے ۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس کے مطابق، حزب اللہ کی نفسیاتی جنگ اس حد تک موثر تھی کہ اسرائیلی فوجیوں کو اپنی توانائی پر شک ہونے لگا ۔ اخبار نے مزید لکھا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے خوف سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ۔ یہ خوف اسرائیل میں 1985 اور 2000 میں ہونے والے نقصانات سے پیدا ہوا ہے۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع ڈیوڈ داوود کے مقالے میں کہا گیا ہے کہ حزب اللہ، آئندہ کسی تصادم میں اسرائیل میں پیدا خوف سے استفادہ کرے گی جس نے اسرائیل کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ وہ الجلیل شہر کو فتح فتح کر سکتا ہے، اسرائیل پر دقیق نشانہ لگانے والے میزائلوں کی بارش کر سکتا ہے، امونیا گیس کے ذخائر اور ڈیمونا ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر سکتا ہے اور حزب اللہ نے یہ یقین، بغیر یہ سب کچھ کئے، اسرائیل کو دلا دیا ہے ۔

اسرائیلی اخبار ہارٹس میں شائع اس مقالے کے مقالہ نگار نے یہ اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ، اسرائیلی معاشرے کو یہ یقین دلانے میں بھی کامیاب ہو گیا ہے کہ جنوبی لبنان، اسرائیلی فوجیوں کی قبرستان بن جائے گا ۔

مقالہ نگار کے مطابق، ممکنہ نقصان سے اسرائیل کا خوف، جنوبی لبنان میں حزب اللہ سے اسرائیل کی شکست کی اصل وجہ تھی نہ کہ حزب اللہ کی فوجی طاقت اور یہی خوف 2006 میں وسیع جنگ سے اسرائیل کے پرہیز کی بھی اصل وجہ ہے، جیسا کہ اس مقالے میں لکھا ہے ۔

حزب اللہ سے اسرائیل کا یہی خوف، تل ابیب کی راہ میں جنگ شام سے وسیع پیمانے پر فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔

ہارٹس نے آخر میں لکھا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں، حزب اللہ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسرائیلی سرحد پر کچھ چوکیوں اور چھوٹے قصبوں پر قبضہ کر لے یا کچھ اسیروں کو اغوا یا قتل کر دے اور اس کا ویڈیو جاری کر دے تو اس طرح سے اسرائیلی فوجی یہ یقین کر لیں گے کہ اپنے شہریوں کی حفاظت کی توانائی نہیں رکھتے ہیں اس لئے وہ اپنی حکومت پر جنگ کے خاتمے کے لئے دباؤ ڈالیں گے اور اس طرح سے جنگ ختم ہو جائے گی اور اس کی تلخ یاد، اسرائیل کے لئے باقی رہے گی ۔

مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین کے سربراہ کے ساتھ خیبر کی گفتگو؛
بحرین کانفرنس کا مقصد اسرائیل کے ساتھ معاشی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات کی بحالی/ عرب حکمران امریکہ کے ملازم ہیں: شیخ حمود

۲۵ اور ۲۶ جون کو بحرین کے دار الحکومت منامہ میں امریکی صدر کے یہودی داماد کی صدارت میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کے بارے میں جتنا شور شرابا مچایا گیا تھا جتنی ایٹوٹائزمنٹ کی گئی تھی اتنا کچھ نظر نہیں آیا اور ایک لاحاصل اور بے نتیجہ نشست ثابت ہوئی۔ اس درمیان بعض بحرینی عہدیدار جیسے وزیر خارجہ “خالد بن احمد آل خلیفہ” نے امریکہ اور اسرائیل کی چاپلوسی کرتے ہوئے فلسطینی کاز اور مسئلہ قدس کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی۔
ٹائمز آف اسرائیل نے اپنی رپورٹ میں لکھا: منامہ میں اسرائیلی تاجروں، نامہ نگاروں اور رپورٹرز کا پرتباک استقبال کیا گیا اور بحرینی حکمران جہاں جہاں وہ جاتے تھے ان کی ہمراہی کرتے تھے۔
دوسری جانب بحرین کے میڈیا کنسلٹنٹ “سلمان بن احمد الخلیفہ” نے اسرائیلی نامہ نگاروں اور رپورٹرز کو ایک مرغن عشائیہ بھی کھلا دیا۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی ”برین ہوک” (Brian Hook) نے “کان” ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں عرب اور صہیونیوں کے درمیان پائی جانے والی مماثلت کے بارے میں کہا: تم اپنی آنکھیں بند کر لیتے اور بحرین نشست میں عرب سربراہان کی باتوں کو غور سے سنتے تو متوجہ ہو جاتے کہ کیا ایک اسرائیلی عہدیدار گفتگو کر رہا ہے یا ایک عربی حکمران!
اسی حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے ‘مزاحمتی تحریک کی عالمی علماء یونین’ کے سربراہ شیخ “ماہر حمود” کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے جس کا ترجمہ اپنے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: گزشتہ ایام بحرین میں “صدی کی ڈیل” نامی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے ایک معاشی نشست کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ نیز بحرین کے سربراہان نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی ضرورت پر تاکید کی لیکن اس کے بعد انہوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ آپ کا اس بارے میں کیا تجزیہ ہے اور اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
۔ اس بارے میں اورعرب ممالک کے امریکہ کے ساتھ تعاون کے بارے میں میرا یقین ہے کہ خلیجی عرب ریاستیں ہوں یا اطراف و اکناف کے دیگر عرب ممالک، اس طرح کے امریکی اقدامات کو روکنے پر قادر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جب امریکی انہیں کسی کام کا حکم دے دیں تو وہ اس پر عمل کرنے میں مجبور ہیں اس لیے کہ ان کے پاس امریکہ کا مقابلہ کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ شام اور چند دوسرے ممالک کے علاوہ اکثر عرب ممالک اپنے حکمرانوں کو ‘امریکی ملازم’ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ہم نے چند سال قبل قطر میں دیکھی اور دوسری مثال آج دیکھ رہے ہیں، جب ڈونلڈ ٹرمپ کھلے عام کہتے ہیں کہ سعودی ہمارے بغیر چند روز زندہ نہیں رہ سکتے اور سعودی حکمران ان کا کوئی جواب نہیں دیتے اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ یہ چھوٹے یا بڑے تمام ممالک کسی بھی صورت میں امریکی دستور کی مخالفت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے۔ اس نشست کے انعقاد کے لیے بحرین کا انتخاب میرے خیال میں اس لیے کیا گیا تاکہ امریکہ یہ باور کروانا چاہے کہ صرف ریاض ہی امریکہ کی کٹھ پتلی نہیں ہے بلکہ دیگر عرب ریاستیں بھی اسی کے اشاروں پر ناچتی ہیں۔
خیبر: علمائے اسلام خصوصا تحریک مزاحمت کے حامی ممالک کے مفتیوں کا ایک جانب سے اور وہابی علما کا دوسری جانب سے اس نشست کے انعقاد کے حوالے سے کیا کردار رہا ہے؟
۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر علما اپنے اپنے ملکوں میں سرکاری ملازم ہیں اور اپنے حکمرانوں کے خلاف کوئی موقف نہیں اپنا سکتے۔ بعض دیگر بھی انہیں کا بازیچہ بنے ہوئے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ مذاکرات کے خواھشمند ہیں اور جو وہ کہتے ہیں اسی پر قانع ہیں۔ ٹھیک فرانسوی تیونسی علما کی طرح جو اسرائیلی فوجی افسروں کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے اور بعض امور میں ان کا تعاون بھی کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض علما نے صحیح اسلامی فکر سے اپنا ناطہ توڑ دیا ہے۔ چند ایک کوئی ٹھوس موقف اپنانا چاہتے ہیں لیکن توانائی نہیں رکھتے۔
خیبر: عالم اسلام، عرب اور بین الاقوامی اداروں کا ایسی نشست کے بارے میں کیا ردعمل رہا جو فلسطین کے بارے میں منعقد کی گئی لیکن کوئی ایک بھی فلسطینی اس میں حاضر نہیں تھا؟
۔ کویت، لبنان، شام اور عراق کے علاوہ کسی عرب ریاست کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس لیے کہ وہ کوئی ایسا موقف اختیار کر ہی نہیں سکتے جو امریکی صہیونی مفاد کے خلاف ہو۔ اور اگر امریکی پالیسیوں سے کنارہ گیری اختیار کریں گے تو انہیں امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک اسرائیلی عہدیدار نے ایک مرتبہ یہ اعلان کیا تھا کہ ‘یہ سب عرب ذلیل ہو کر ہماری طرف پلٹیں گے’۔ اس لیے کہ امریکہ ان تمام عرب حکمرانوں کا ایک دن میں سارا تخت و تاج الٹ سکتا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا اردن کے بادشاہ ملک عبد اللہ پہلے اس نشست میں شرکت کے مخالف تھے لیکن امریکہ نے آنکھیں دکھائیں تو فورا اپنا موقف بدل دیا۔ انسانی حقوق تنظیمیں بھی سب کی سب امریکہ اور اسرائیل کے مفاد کی راہ پر گامزن ہیں اور جب تک اسرائیل کی سالمیت محفوظ ہے یہ کوئی اعتراض نہیں سکتے۔
خیبر: منامہ نشست میں صہیونی میڈیا گروپ کی شرکت عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے میں کتنا موثر رہی؟ اور ایسے اقدامات کا کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟
اس نشست کا اصلی مقصد ہی کھلے عام عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی تھا۔ اسرائیلی بھی اس نشست میں حاضر ہونا چاہتے تھے لیکن امریکیوں نے بہتر سمجھا کہ وہ خود ہی اس نشست کی صدارت سمبھالیں اور صرف اسرائیل کے میڈیا گروہ کو دعوت دیں۔ اس نشست کا مقصد معاشی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر تعلقات کی بحالی تھی لیکن ہماری نظر میں یہ منصوبہ شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔

امام علی بن موسی الرضا (علیہ السلام) کی ولادت کے 25 سال بعد حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) یکم ذوالقعدۃالحرام سنہ 173 ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئیں۔ ان دونوں کی والدہ حضرت سیدہ نجمہ خاتون (سلام اللہ علیہا) تھیں جن کا تعلق موجودہ زمانے کے شمال افریقی ملک مراکش سے تھا؛ یوں ان دونوں نے ایک ہی والدہ کی آغوش میں پرورش پائی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کے والد ماجد حضرت امام موسی بن جعفر (علیہ السلام) مسلسل عباسی بادشاہوں کے اذیتکدوں میں اسیری کے ایام گذار رہے تھے اور بالآخر اسیری میں ہی جام شہادت نوش کرگئے؛ جبکہ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر ابھی 10 سال سے زیادہ نہ تھی چنانچہ آپ (سلام اللہ علیہا) کی پرورش کی ذمہ داری حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے سنبھالی۔

عباسی بادشاہ ہارون الرشید کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا مامون الرشید اپنے بھائی مامون کو قتل کرنے کے بعد مقام ملوکیت میں مستقر ہوا تو اس نے بھی اپنے غدار اسلاف کی مانند ائمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات کے فروغ کا راستہ روکنے کی ٹھانی اور سنہ 200 ہجری میں امام (علیہ السلام) کو اپنے دارالحکومت (مرو (Marw) میں بلوایا اور امام (علیہ السلام) نے یہ دعوت بامر مجبوری قبول کی لیکن اہل خاندان میں سے کسی کو بھی ساتھ لے کر نہيں گئے بلکہ اس سفر پر اکیلے روانہ ہوئے۔ گو کہ آپ (علیہ السلام) نے مرو روانہ ہونے سے قبل اہل خاندان کو بلوایا اور ان سے کہا: میرے اس سفر میں واپسی کا کوئی تصور نہیں ہے چنانچہ اہل خاندان نے آپ (علیہ السلام) کی موجودگی میں سوگ منایا۔ تجزیہ نگار مؤرخین کی رائے کے مطابق امام (علیہ السلام) نے ایسا کرکے درحقیقت اہل مدینہ کو بتانے کی کوشش کی کہ مامون کی دعوت ایک دوستانہ دعوت نہيں ہے اور آپ (ع) کو یہ دعوت مجبوری کی بنا پر قبول کرنی پڑ رہی ہے۔ اور دوسری طرف سے مامون کی طرف سے امام رضا (علیہ السلام) کو مرو لے جانے کے لئے، پورا لشکر مدینہ پہنچا تھا۔ حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) ایک سال بعد سنہ 201 ہجری میں اپنے چار بھائیوں اور کئی بھتیجوں کے ہمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوئیں اور جب یہ چھوٹا سا قافلہ شہر "ساوہ" کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم پر ان کے تعاقب ميں آنے والے دشمنان اہل بیت (علیہم السلام) نے ان کا راستہ روکا اور حملہ کیا۔ اس غیرمساوی اور غیرمنصفانہ لڑائی میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے چاروں بھائی اور باقی مرد ـ جن کی تعداد 23 تک پہنچتی تھی ـ شہید ہوگئے۔ حضرت معصومہ (سلام اللہ علیہا صدمے اور غم کی شدت سے بیمار پڑ گئیں اور ایک قول کے مطابق عباسی گماشتوں نے ایک مقامی عورت کے ذریعے انہیں زہر دلوایا۔ اسی دن، شام کو یہ خبر اہل قم اور قم میں "آل سعد" خاندان کو ملی تو موسی بن خزرج ان کے نمائندے کی حیثیت سے ـ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو قم تشریف آوری کی دعوت دینے کی غرض سے ـ قم سے ساوہ کی طرف روانہ ہوئے۔ موسی بن خزرج غمزدہ کاروان سے ملے اور سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قم آنے کی دعوت قبول کی تو موسی بن خزرج نے خود ہی آپ (سلام اللہ علیہا) کی سواری کی لگام سنبھالی اور قم میں اپنے گھر اور سرائے کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ جب حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) نے شہر ساوہ میں قدم دکھا تو آپ (سلام اللہ علیہا) اپنے اہل کاروان سے دریافت کیا: یہاں سے قم تک کتنا راستہ باقی ہے؟ اہل کاروان نے جواب دیا تو سیدہ (سلام اللہ علیہا) کو اپنے والد امام موسی کاظم (علیہ السلام) کی ایک پیشنگوئی یاد آئی چنانچہ اہل کاروان سے فرمایا: مجھے قم لے جاؤ کیونکہ میں نے اپنے والد سے کئي بار سنا ہے کہ "قم ہمارے پیروکاروں کا مرکز ہے"، چنانچہ عباسی حملے کے بعد زندہ رہنے والے افراد نے مرو اور خراسان جانے کے بجائے، قم کا راستہ لیا اور 23 ربیع الاول سنہ 201 ہجری کو قم المقدسہ میں داخل ہوئے۔ قم میں سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی تشریف آوری کی خبر اہل قم کے لئے بہت زیادہ سرور انگیز تھی۔ قم کے زعماء، عمائدین اور عام لوگ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کے استقبال کے لئے نکلے اور پروانہ وار آپ (سلام اللہ علیہا) کے شمع وجود کے گرد گھومنے لگے۔ ان سب کے آگے آگے شہر کے سب سے نامی گرامی بزرگ موسی بن خزرج الاشعری تھے جنہوں نے سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی اونٹنی کی لگام سنبھالی اور آپ (سلام اللہ علیہا) سے اپنے گھر میں سکونت پذیر ہونے کی درخواست کی جو سیدہ (سلام اللہ علیہا) نے قبول کرلی۔ کہتے ہیں موسی بن خزرج اپنی عمر کے آخری لمحوں تک اس واقعے میں حاصل ہونے والی سعادت کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) اپنے بھائی کی جدائی اور اپنے دیگر بھائیوں اور بھتیجوں کی مظلومت اور شہات (اور بروایتے زہر خورانی) کے بموجب سترہ دن تک بیمار رہیں جبکہ آپ (سلام اللہ علیہا) اپنی حالت سے بہتر آگاہ تھیں چنانچہ یہ ایام آپ (سلام اللہ علیہا) نے عبادت الہی اور معبود کے ساتھ راز و نیاز میں گذارے اور بالآخر 28 سال کی عمر ـ غریب الوطنی میں ـ دنیا سے رخصت ہوئیں اور پیروان اہل بیت (علیہم السلام) سوگ و ماتم میں ڈوب گئے۔ سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی عمر کی آخری عبادتگاہ آج کل "بیت النور" کہلاتی ہے جو اہل بیت عصمت و طہارت (علیہم السلام) کے شیدائیوں کی زیارتگاہ ہے۔ سب سے پہلے میرابوالفضل عراقی نے بیت النور کے برابر میں ایک مسجد تعمیر کی چنانچہ وہ محلہ اور اس کے اطراف میں ایک وسیع احاطہ "میدان میر" کے نام سے مشہور ہے۔وفات کے بعد آپ (سلام اللہ علیہا) کے پیکر مبارک کو غسل و کفن دینے کے بعد نہایت باشکوہ انداز سے "باغ بابلان" میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آج روضہ مبارکہ موجود ہے۔جب آپ (س) کی قبر تیار ہوئی تو یہ مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ آپ کے جسم اطہر کو قبر میں کون  اتارے گا؟؛ آل سعد کے متقی اور پرہیزگار اکابرین نے اپنے خاندان کے ایک عمررسیدہ شخص کو بلوایا کہ یہ ذمہ داری اس کے سپرد کی جائے لیکن اچانک دو نقاب پوش سوار قبلہ کی جانب رملہ (ریگستان) سے آتے ہوئے دکھائی دیئے. سوار جلد ہی نزدیک آکر گھوڑوں سے اترے ان میں سے ایک نے نماز جنازہ پڑھائی اورنمازکے بعد ایک نقاب پوش بزرگ قبر میں اترا اور دوسرے بزرگ نے جنازہ اٹھا کر اس کے ہاتھوں میں دے دیا تا کہ آپ (سلام اللہ علیہ) سپرد لحد کر سکے. وہ دونوں سوار تدفین کے بعد ـ کسی سے کچھ کہے سنے بغیر ـ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر اسی سمت میں چلے گئے جہاں سے آئے تھے اور انہیں کوئی بھی نہیں پہچان سکا۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ وہ دونوں سوار دونوں امام و حُجَجِ خدا تھے. حضرت فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) پرہیزگار ترین خواتین میں سے تھیں جو عالمہ اور محدثہ تھیں اور شیعہ اور سنی کتب میں آپ (سلام اللہ علیہا) سے متعدد حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ عبادت اور زہد آپ (سلام اللہ علیہا) کی وجہ شہرت تھی اور علم و فضل میں کمال کے مدارج پر فائز تھیں۔ سیدہ فاطمہ معصومہ (سلام اللہ علیہا) کے لئے کئی زیارت نامے وارد ہوئے ہیں جن میں سے ایک میں آپ کو "طاهره" (پاک و پاکیزہ)، "حميده" (قابل تعریف خصال کی مالک)، «برّۃ» (نیک اور بہترین تربیت سے بہرہ مند)، "نقيّہ" (پرہیزگار اور نیک خصال)، "مرضيه" (اللہ کی رضا یافتہ)، "رضيّه" (اللہ سے راضی)، "محدّثه"، "شفيعه" (یعنی روز جزا شفاعت کرنے والی) اور "معصومہ (مقام عصمت پر فائز) جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ لیکن آپ (سلام اللہ علیہا) کا مشہورترین لقب "معصومہ" ہے جو آپ (سلام اللہ علیہا) کے بھائی حضرت رضا (علیہ السلام) نے آپ کو عطا فرمایا ہے۔

تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ کتاب " ثواب الاعمال " اور " عیون الرضا " میں سعد بن سعد سے منقول ہے کہ میں نے حضرت امام رضا (ع) سے معصومہ (س) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: حضرت معصومہ (س) کی زیارت کا صلہ بہشت ہے ۔ سعد، امام رضا (ع) سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اے سعد جس نے حضرت معصومہ (س) کی زیارت کی اس پر جنت واجب ہے ۔

حضرت امام صادق (ع) نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کا حرم مکہ مکرمہ ہے پیغمبر (ص) کا حرم مدینہ ہے ،امیر المومنین (ع) کا حرم کوفہ ہے اور آل محمد کا حرم قم ہے۔ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے تین قم کی جانب کھلتے ہیں ،پھر امام (ع) نے فرمایا :میری اولاد میں سے ایک عورت جس کی شہادت قم میں ہوگی اور اس کا نام فاطمہ بنت موسیٰ ہوگا اور اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوجائیں گے ۔۔ (بحار ج/۶۰، ص/۲۸۸ )
حضرت معصومہ (س) کا اسم مبارک "فاطمہ" اور آپ کا مشہور لقب " معصومہ" ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: خاندان اہلبیت (ع) کی ایک بی بی قم میں دفن ہوں گی جس کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے خلاف سب سے بڑے شیطان کی طرف سے مضحکہ خیز پابندیوں سے، سب سے بڑے شیطان امریکہ اور اس کے احمق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بے بسی، مایوسی اور عجز عیاں ہوگیا ہے، اب یہ بات دنیا کو سمجھ لینا چاہیئے کہ امریکہ، عالمی صیہونزم اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ میں خار کی طرح سب سے زیادہ جو چبھتا ہے، وہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔

کہاں فرزند رسول حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اور کہاں ابلیس زادہ ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں نور چشم حضرت فاطمة الزہرا (ع) اور کہاں ہوا و ہوس زادہ ٹرمپ
کہاں اسد اللہ الغالب کا بہادر اور شجاع بیٹا اور کہاں معاملہ گر ذہن والا بزدل ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں الہٰی بصیرت رکھنے والا بینا قائد اور کہاں بہرہ اور اندھا (صم بکم عمی) ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عالم ربانی رہبر اور کہاں شیطان کا پیرو ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عابد شب زندہ دار پیشوا اور کہاں شراب پی کر اوندھے منہ مدہوش سونے والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں صائم النہار حاکم اور کہاں حرام خور، بلکہ خنزیر خور ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں مست عشق خدا اور کہاں مست عیاشی ڈونلڈ ٹرمپ

کہاں دنیا کو خاطر میں نہ لانے والا زاہد انسان اور کہاں دنیا زادہ حیوان ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں پرچم حق اٹھائے صدائے حق بلند کرنے والا سید اور کہاں باطل کا پرچم اٹھائے، گدھے جیسی مکروہ آواز والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں عدالت خواہ ولی فقیہ اور کہاں ظلم کا پجاری ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں مستضعفین کو مستکبرین کے مقابلے میں کھڑا کرنے والا حریت پسند اور کہاں حریت دشمن ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں غیرت مند اور باحیا شخصیت اور کہاں بےغیرتی اور بے حیائی کی آخری حدوں کو چھونے والا ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں صادق اور امین عبد خدا اور کہاں پرلے درجے کا جھوٹا اور مکار ڈونلڈ ٹرمپ
کہاں تمام شریف اور باضمیر انسانوں کے دلوں کا محبوب نائب امام اور کہاں منفور ترین، پست ترین اور گھٹیا خبیث ڈونلڈ ٹرمپ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادی جان لیں کہ آج کے اس معرکہ حق و باطل میں ہم اپنے رہبر کے ساتھ ہیں اور تو ہماری نگاہوں میں اور بھی منفور ہوگیا ہے، ہم اس معرکہ حق و باطل کے اس مرحلے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور اپنے رہبر کے ایک اشارے کے منتظر ہیں، ہم دنیا میں جہاں بھی ہیں، تمہارے اور تمہارے اتحادیوں کے لئے اس سرزمین کو جہنم بنا دیں گے اور طول تاریخ کے تمام مظلوموں کا انتقام قابیل اور ابوجہل کی نسل سے لے کر رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای پر بے معنی پابندیاں لگا کر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منہ پر تھوکا ہے، رہبر انقلاب کے فرزند ہر جگہ پیش آنے والے معرکہ حق و باطل میں میدان میں حاضر ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے اتحادیوں کو عبرت ناک شکست دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔
و ماالنصر الا مں عند اللہ العزیز الحکیم

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج حج کے امور میں ولی فقیہ کےنمائندے اور حج اہلکاروں نے ملاقات کی ۔ یہ ملاقات ہر سال حجاج بیت اللہ الحرام کے سرزمین وحی پر روانہ ہونے سے قبل انجام پذیر ہوتی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی حجاج کے سرپرست اور حج اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو ایک سیاسی ، عبادی اور دینی فریضہ قراردیتے ہوئے فرمایا: حج مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور یکجہتی کا بہترین مظہر ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج امریکہ کی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی واضح اور نمایاں ہے اگر آپ حج کے موسم میں امریکہ کی دشمنی کو مسلمانوں کے سامنے بیان نہیں کریں تو پھر کہاں بیان کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جن لوگوں کے پاس حج کے انتظامی امور ہیں انھیں حجاج بیت اللہ الحرام کے ساتھ اسلامی اور انسانی رفتار سے پیش آنا چاہیے۔ اور اللہ تعالی کے مہمانوں کی تعظيم اور تکریم کرنی چاہیے۔

بسم الله الرحمن الرحیم والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔
آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے  کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔
خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟
حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟
خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا  ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔
حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیا یہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ"  ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو  چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل  میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔
حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟  کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟
سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔
ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔
ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔
لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔
لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے  «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کر وں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔
یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہ میں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔
یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔
لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔
لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ نماز یعنی خدا کے ساتھ زندگی کرنا اور خدا کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا۔ جانتے ہیں انسان نماز سے کیا چیز حاصل کرتا ہے؟ خدا کی راہ میں قوی ہونا اور باطل کی راہ میں ناتوان ہونا۔ نہ باطل کے مقابلہ میں۔ نماز مومن کی معراج کا ذریعہ ہے۔ نماز اسے برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
حضرت زہرا (س) لوگوں سے یہ سوال کرتی ہیں کہ اے لوگو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور باطل کے مقابلے میں گھبراتے بھی ہو! تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور حق کو چھپاتے بھی ہو! کل خلافت کو غصب کر لیا اور آج فدک کو۔ تم جانتے ہو یہ میرے بابا کا مجھے دیا ہوا ہدیہ ہے۔ لیکن تم خاموش ہو گئے ہو۔ تم سب نے پیغمبر کی میری نسبت سفارشات کو سن رکھا ہے۔ پس کیوں خاموش ہو؟ تم میں سے ایک گروہ طمع اور لالچ کی خاطر اور دوسرا گروہ خوف اور ڈر کی خاطر خاموش ہو گیا۔ ایک گروہ لوٹ رہا ہے دوسرا ڈر رہا ہے۔ وہ نمازی جو خدا کے ساتھ ہم پیمان ہو کر زندگی گزارتے ہیں قوی ہوتے ہیں نہ ڈرپوک۔ جو انسان نماز پڑھتا ہے در حقیقت دن میں پانچ مرتبہ خدا کے ساتھ رابطہ پیدا کرتا ہے۔ کیا تمہارا خدا کےساتھ کوئی سروکار نہیں ہے؟ کیا تم خدا سے گفتگو نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں کہتے صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اگر خدا تمہارے دلوں میں نہیں ہے تمہارے سامنے حاضر اور ناظر نہیں ہے تو تم یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ کہو اس کی عبادت کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ جب تم خدا کو اپنے سامنے دیکھ کر اس کی عبادت کرتے ہو اس سے گفتگو کرتے ہو تو تمہیں کسی دوسرے سے نہیں ڈرنا چاہیے چونکہ جس شخص کا رابطہ اللہ سے ہے وہ کبھی نہیں ڈرتا۔ وہ کسی چیز کا طمع نہیں کرتا اس لیے کہ طمع بھی فقر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو باطنی طور پر فقیر ہو وہ دوسروں کی چیزوں کی لالچ کرتا ہے لیکن جس کے پاس خدا ہو وہ غنی اور بے نیاز ہوتا ہے۔ جناب زہرا (س) پوچھ رہی ہیں کیا تم نماز پڑھتے ہو؟ کیا تمہاری نمازیں تمہیں برائیوں سے نہیں روکتی ہیں؟ کیا تمہاری نمازیں تمہارے فقر کو دور نہیں کرتی؟ پس کیوں خاموش ہو؟
واضح ہے تمہاری عبادتیں عادتیں بن چکی ہیں اپنی اصلیت کھو چکی ہیں۔ سلام ہو آپ پر اے فاطمہ زہرا! گویا چودہ سال بعد بھی آپ کا خطاب ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ آپ ابھی ہم سے مخاطب ہیں۔ گویا آپ ہم سے فرما رہی ہیں: اے مسلمانو!، اے نماز گزارو! اے عبادت کرنے والو! کیسے تم نمازیں بھی پڑھتے ہو اور برائیاں بھی کرتے ہو؟
حقیقی نماز ایسی نہیں ہوا کرتی۔ نماز جہاد کی مشق کرواتی ہے۔ «إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا کَأَنَّهُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ.»(۵) نہیں دیکھتے نماز میں کیسے صفیں بچھتی ہیں اور کیسے سب ایک ساتھ تمام حرکات انجام دیتے ہیں کیسے سب ایک ساتھ رکوع و سجود کرتے ہیں؟ محراب کس لیے ہوتا ہے؟ کیوں ہر مسجد میں ایک محراب کی ضرورت ہوتی ہے؟ محراب یعنی جنگ کا ذریعہ۔ نماز انسان کو شیطان کے ساتھ جنگ کرنے کی مشق کرواتی ہے۔
نماز سماجی اقتدار کے حصول کی تمرین اور مشق ہے لیکن کون سا اقتدار؟ وہ اقتدار جس میں غرور نہ ہو۔ وہ اقتدار جو خود اپنے بل بوتے پر نہ ہو بلکہ خدا کی مدد سے ہو۔
لہذا فاطمہ زہرا (س) فرما رہی ہیں: کیوں تمہاری نمازوں نے تمہیں قوی نہیں کیا؟ کیوں تمہاری نمازوں نے تمہارے غرور کو نہیں توڑا؟ آپ یہ کہنا چاہتی ہیں: اے مسلمانو صحیح ہے کہ خدا نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے لیکن یہ حکم اس لیے نہیں ہے کہ اسے تمہاری نمازوں کی ضرورت ہے بلکہ خدا نے خود تمہاری تربیت کے لیے یہ حکم 

دیا ہے تاکہ تم خود اس کے ذریعے اپنی اصلاح کر سکو لیکن تم لوگوں نے جیسا کہ ظاہر ہے اس سے کما حقہ استفادہ نہیں کیا ہے اس لیے کہ تم لالچ اور خوف کی وجہ سے حق کے مقابلہ میں خاموش ہو گئے ہو جو پائمال ہو چکا ہے۔
اس کے بعد حضرت زہرا ہم سے مخاطب ہوتی ہیں اور فرماتی ہیں: اے مسلمانو! کیا تم بھی نماز پڑھتے ہو اور حق کے غصب ہونے پر راضی ہو؟ تم جانتے ہو کس وقت نماز قابل قبول ہے؟ تم جانتے ہو کہ تمہاری نمازیں قبول ہوتی ہیں یا نہیں؟ جب تم نماز پڑھو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے اندر ایک نئی قوت کے پیدا ہونے کا احساس کرو تو سمجھ لو کہ نماز قبول ہو گئی لیکن اگر نماز کے بعد اپنے اندر ضعف اور خوف کا احساس کرو تو جان لو کہ نماز رد ہو گئی۔ بزرگی اور عزت اللہ کی بندگی میں ہے اس لیے کہ حقیقی بڑھائی اور عزت کا مالک وہی ہے۔ حضرت زہرا (س) پوچھتی ہیں: کیوں خدا نے نماز تم پر واجب کی ہے؟ نماز انسان کو کامل کرنے کا کارخانہ ہے۔ کیا ہماری نمازوں کے اندر ایسی تاثیر پائی جاتی ہے؟
کسی حد تک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے اس فقرے پر گفتگو ہو چکی ہے اور امید ہے کہ اس کے معنی کسی حد تک واضح ہو چکے ہوں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

 

حوالہ جات
۱. «نماز انسان کو فحشا و منکر سے روکتی ہے (عنکبوت، ۴۵)
۲. «میں صرف تیری عبادت کرتا ہوں اور صرف تجھ سے مدد چاہتا ہوں.» (فاتحه، ۵)
۳. «اکڑ کر زمین پر مت چلو نہ تم زمین کو ہلا پاوں گے اور نہ پہاڑوں کی چوٹیوں تل پہنچ پاو.» (اسرا، ۳۷)
۴. «کہوں میری نماز، میری قربانی، میری زندگی، اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے.» (انعام، ۱۶۲)
۵. «خدا ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو خدا کی راہ میں اس سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف آوار ہوتے ہیں.» (ص، ۴)

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے فلسطین علماء کونسل کے ترجمان اور مشاورتی کمیٹی کے سربراہ شیخ ’محمد صالح الموعد‘ کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛
خیبر: حالیہ دنوں بحرین میں اقتصادی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے جو امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کے نفاذ کے لیے مقدمہ کہی جا رہی ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی عربی معاشرے کو اس منصوبے سے مقابلے کے لیے سیاسی، ثقافتی، عسکری اور سفارتی اعتبار سے کیا اقدامات انجام دینا چاہیے؟
۔ صدی کی ڈیل کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ہم سب کو مل کر کافی تلاش و کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا سب سے پہلی چیز اسلامی عربی اتحاد ہے جو اس منصوبے کے مد مقابل تشکیل پانا چاہیے۔ دوسرے بین الاقوامی سطح پر کانفرنسیں کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسرے سینچری ڈیل کے مخالف گروہوں کو جگہ جگہ احتجاجی جلسے جلوس نکال کر اپنا موقف ظاہر کرنا چاہیے۔ چوتھے یہ کہ علمائے دین کو صہیونی ریاست کے ساتھ روابط برقرار کرنے کی حرمت پر فتاوا دینا چاہیے۔ تمام علمائے دین کو اس کے خلاف موقف اپنانا چاہیے۔ یہ چیز کافی موثر ثابت ہو گی۔ پانچویں یہ کہ اسلامی عربی امت اعتراض آمیز حرکات انجام دے، اور صرف مذمت کرنے پر اکتفا نہ کرے۔ سوشل میڈیا سے لے کر سڑکوں تک ہمیں اس اقدام کے خلاف اعتراض کرنا چاہیے۔ ملت فلسطین بھی اس راستے میں مکل تیاری رکھتی ہے اور واپسی ریلیوں کے ذریعے صہیونیوں کے مقابلے میں کھڑی ہے۔ فلسطینیوں کی اس راہ میں حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر: امریکہ نے صہیونی ریاست کے تحفظ کے لیے مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا اور اسرائیلی حکام نے بدلے میں ان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ کے نام پر رکھ دیا، آپ کا ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف کیا رد عمل ہے؟
۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جو اقدام بھی صہیونی دشمن کے فائدے میں انجام پائے گا وہ فلسطین پر کاری ضربت ہو گی اور ہم صہیونیوں کے اس وسعت طلبانہ نقشے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہ نہ صرف فلسطین کی زمینوں کو واپس نہیں کر رہے ہیں بلکہ عربی سرزمینوں جیسے گولان شام کا حصہ ہے پر بھی غاصبانہ قبضہ جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صہیونیوں نے گولان پہاڑیوں کا نام ٹرمپ رکھ کر ان کے عمل کی جزا دینا چاہی ہے لیکن شام کے عوام انہیں اس کام کی اجازت نہیں دیں گے وہ قومی اور اسلامی اتحاد کے ذریعے گولان پہاڑیوں کو واپس لے لیں گے۔ اسی طرح فلسطینی بھی غزہ پٹی، مغربی کنارے اور ۱۹۴۸ کی دیگر فلسطینی اراضی کو واپس لیں گے اور دشمن کو اس ملک سے نکال باہر کریں گے۔ یہ جنگ نسلوں کی جنگ ہے اور دشمن کا ہماری زمینوں میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔
خیبر: کیوں امریکہ نے سینچری ڈیل کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کو مرکزیت دی اورامریکہ اس طریقے سے ظاہر کر رہا ہے کہ گویا وہ فلسطینیوں کی اقتصادی مدد کرنا چاہتا ہے؟
۔ اس کانفرنس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جو سینچری ڈیل کے لیے مقدمہ قرار دی گئی ہے۔ اس لیے کہ اس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق دلوانے کے بجائے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینا ہے۔ ہم اس کانفرنس میں شرکت کی مذمت کرتے ہیں اور اس میں شرکت کو فلسطین، قرآن، اسلام اور خون شہدا کی نسبت خیانت جانتے ہیں۔ ٹرمپ اس کانفرنس کے عناوین کو دلچسپ بنا کر اس کے مقاصد پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اس کانفرنس کا اصلی مقصد مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا ہے۔ ہماری اپیل ہے کہ تمام عالم اسلام اور عرب، فلسطینیوں کا ساتھ دیں اور اس کانفرنس کی مذمت میں اپنی صدائے احتجاج بلند کریں۔
خیبر: سینچری ڈیل کی مخالفت ایسا عامل ہے جس سے تمام فلسطینی گروہوں میں اتحاد پیدا ہو چکا ہے۔ آپ اس وحدت کو امریکی صہیونی سازشوں کے مقابلے کے لیے کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۔ ہم اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے صہیونی سازشوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کے شروع میں صہیونیوں کے خلاف کچھ کاروائیاں انجام پائیں جو ان کی پسپائی کا سبب بنیں اور ایک بڑی کامیابی ہمیں حاصل ہوئی۔ دشمن فلسطینیوں کے اتحاد اور ان کی متحدانہ کاروائیوں سے خوف کھا گیا اور یہ وحدت دشمن سے مقابلے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اور دوسری جانب فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لیے واپسی ریلیاں بہت ہی حائز اہمیت ہیں۔ ہمارا شعار صہیونی دشمن کا مقابلہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ عربوں، مسلمانوں نیز اسلامی جمہوریہ ایران سب کو یکسو موقف اپنانا چاہیے تاکہ سینچری ڈیل کو شکست سے دوچار کر سکیں۔ اگر چہ یہ جنگ طولانی جنگ ہے لیکن حق صاحبان حق کو مل کر رہے گا۔
خیبر: بہت بہت شکریہ

وہابی اور تکفیری افکار اور گروہوں کو وجود میں لانے اور انہیں شیعت کے خلاف استعمال کرنے میں عالمی صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں حجت الاسلام و المسلمین حدادپور جہرمی کے ساتھ خیبر ویب گاہ کے نمائندے نے ایک گفتگو کی ہے جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے۔
خیبر: وہابیت کو وجود میں لانے اور وہابی فکر کو ترویج دینے میں صہیونیت کا کیا کردار رہا ہے اس کے بارے میں کچھ بیان کریں۔
۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس موضوع پر ہم نے پہلے بھی گفتگو کی ہے اور اسی ویب سائٹ پر اسے شائع بھی کیا گیا میں اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سوال کے جواب کو پانچ حصوں میں عرض کرنا چاہوں گا۔
شیعہ سنی اتحاد استکباری طاقتوں کی سب سے بڑی پریشانی
۱۔ شیعہ سنی معاشرے پر نگاہ دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت کا چہرہ بہت ہی مطمئن، برادرانہ اور غیر انقلابی ہے، غیر انقلابی ہونے سے مراد ایران کا اسلامی انقلاب نہیں ہے بلکہ انقلاب سے مراد قیام اور تحریک ہے۔ اسی وجہ سے اہل سنت کبھی بھی شیعوں کے مقابلے میں کھڑے نہیں ہوئے۔ البتہ شیعہ و سنی علمائے دین ایک دوسرے کے ساتھ مکاتبات کرتے رہے ہیں اور یہی چیز ان دو گروہوں کے مشترکہ دشمنوں کے لیے ہمیشہ خطرے کی گھنٹی رہی ہے۔
۲۔ اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان اتحاد مشترکہ دشمن کے لئے سب سے بڑا خطرہ رہا ہے لہذا دشمنوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لیے شیعوں اور سنیوں کے درمیان دوگروہوں کو جنم دیا تاکہ ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کریں۔ شیعوں کے درمیان بہائیوں اور اہل سنت کے درمیان وہابیوں کو جنم دیا۔
وہابیت اہل سنت کا نقلی چہرہ
وہابیت در حقیقت انقلاب اور حکومت کے جذبے کے ساتھ اہل سنت کا ایک نقلی اور بناوٹی چہرہ ہے۔ لہذا نقلی چہرے نے اسلحہ اٹھایا اور حکومت کی تشکیل کے لیے جد و جہد شروع کی اور بین الاقوامی سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔
۳۔ اہل سنت سے سامراجیت، یہودیت، عیسائیت اور صہیونیت کو کوئی خطرہ نہیں تھا، ابھی بھی یہی صورتحال ہے، اور اہل سنت کی تعداد بڑھنے یا گھٹنے سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لہذا یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہابیت اور بہائیت کو صرف اس لیے جنم دیا گیا تاکہ شیعوں کو کمزور بنا سکیں۔ اس لیے کہ بہت سارے اہم اور موثر مفاہیم جیسے جہاد، امربالمعروف، نہی عن المنکر، عدل و انصاف کا قیام، سامراجیت کا مقابلہ، انقلاب، مستضعفین کی حکومت وغیرہ سب شیعہ مکتب فکر کا حصہ ہیں۔
لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ وہابیت ہو یا بہائیت ہو دونوں گروہوں کو شیعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا اور اس مسئلے کا شیعہ سنی اتحاد سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ شیعہ سنی اتحاد طول تاریخ میں اپنی جگہ مسلّم رہا ہے اور یہ گروہ اسی اتحاد کی رسی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
وہابی طرز تفکر میں مفہوم شہادت
۴۔ دشمنوں کی کوشش رہی ہے کہ شیعت کے مقدس ترین مفاہیم جیسے شہادت میں تحریف پیدا کریں اور ان کا اصلی چہرہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ مفہوم شہادت ایسا مقدس مفہوم ہے جو استقامت، پائیداری اور انتظار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ شہادت کو دوسرے لفظوں میں شیعت کی تسبیح کے دھاگے سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اس لیے کہ تمام ائمہ طاہرین درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے ائمہ میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اہل سنت بھی اس حقیقت سے آشنا ہیں اور لفظ شہید کو شیعوں کے لیے، امام علی علیہ السلام اور خصوصا امام حسین علیہ السلام کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اہل سنت کا فقہی مبنیٰ یہ ہو کہ شہید وہ ہوتا ہے جو میدان جنگ میں شہید ہو یا تلوار سے شہید ہو تب بھی اہل تشیع کے ائمہ ہی اس مفہوم کے مصادیق قرار پائیں گے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفہوم شہادت اہل تشیع سے ہی مخصوص ہے۔
لیکن دشمنوں نے یہ کوشش کی کہ شہادت کے مفہوم کو عقل و منطق اور فقہی مبانی سے دور کر کے اسے دوسرے فرقوں میں بھی عام کردیں۔ نتیجہ کے طور پر ہر دھشتگرد کو، ہر طرح کے قاتلانہ حملے میں مرنے والے کو، خودکش حملہ کرنے والے کو یا اس طرح کی دھشتگردانہ کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے کو شہید کا نام دے کر اسے سعادت اور جنت کے بشارت دے دیں۔
خیبر: ان باتوں کے پیش نظر یہ بتائیں کہ عالمی صہیونیت کس حد تک شیعت کے مقدسات کا چہرہ بگاڑنے میں کامیاب ہوئی ہے؟
۔ عالمی صہیونیت نے شیعت کے مقدس مفاہیم کو بگاڑنے کی بہت کوشش کی لیکن جتنی انہوں نے کوشش کی اتنا کامیاب نہیں ہوئے آپ اسی مفہوم شہادت کو لے لیں انہوں نے کتنی کوشش کی کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیریوں کو شہید کا لقب دیں اور اس مقدس مفہوم کا چہرہ مسخ کر دیں۔ لیکن میں پوری تحقیق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ صرف چند ایک وہابی علما اس بات کے معتقد ہیں کہ عراق و شام میں ہلاک ہونے والے تکفیری شہید ہوئے ہیں لیکن اہل سنت کے اکثر بزرگ علما کا ماننا ہے کہ ان لوگوں کا خون رائیگاں گیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں کوئی شیعہ عالم دین تکفیریوں کے مقابلے میں جانیں قربان کرنے والے شیعہ مجاہدوں کے خون کے رائیگاں جانے کا قائل نہیں ہے بلکہ سب کا ان کی شہادت پر اتفاق ہے۔
حقیقی تشیع کو مٹانے کے لیے تکفیری تشیع کے ایجاد کی کوشش
۵۔ پانچویں اور آخری بات جو گفتگو کا ایک نیا باب ہے اور اس موضوع پر مستقل گفتگو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بہت دقیق معلومات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل میں کچھ ایسے دینی مدارس اور تحقیقی مراکز قائم کئے گئے ہیں جہاں یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تشیع کے نام سے ایک نیا فرقہ وجود میں لایا جائے۔
اس لیے کہ اہل سنت کے اندر وہابیت اور اہل تشیع کے اندر بہائیت جیسے فرقے پیدا کر کے وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچے اور ان منصوبوں میں دشمن بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں لیکن اب جو فرقہ ایجاد کیا جا رہا ہے وہ تکفیری تشیع کا ہے افراطی تشیع کا ہے، یعنی شیعت کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا کیا جائے جو عقلانیت سے دور ہو اور احساسات و جذبات کی بنا پر انتہا پسندی کی جانب آگے بڑھے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہے کہ فرقہ یمانی، فرقہ سرخی اور فرقہ شیرازی انہیں کوششوں کا نتیجہ اور انہیں مراکز کی پیداوار ہیں۔
یمانی، سرخی اور شیرازی فرقے عالمی صہیونیت کے تازہ ترین ہتھکنڈے
حال حاضر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان تین فرقوں نے پوری ہم آہنگی کے ساتھ تین الگ الگ جگہوں پر اپنی سرگرمیاں شروع کر لی ہیں، فرقہ سرخی نے عراق میں، فرقہ یمانی نے ایران میں اور فرقہ شیرازی نے یورپ اور کچھ مرکزی شہروں جیسے قم، مشہد، کربلا اور نجف میں۔
آج دشمن ان تین فرقوں کو مضبوط بنانے میں انتھک کوشش کر رہا ہے اور شیعوں کے اصلی مراکز کے اندر ان کا نفوذ پیدا کر رہا ہے یعنی ممکن ہے کہ آپ کو حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف کے اندر بھی ان افکار کے حامل لوگ مل جائیں۔
لہذا اگر ہم مذکورہ ان پانچ نکتوں کو ایک دوسرے کے کنارے رکھ کر دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ تک پہنچے گے کہ صہیونیت کے شر سے نجات اللہ کی آخری حجت کے ظہور تک ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ رہبر انقلاب اسلامی کی پیش گوئی کے مطابق صہیونیت کا اصلی گڑھ یعنی اسرائیل نابودی کی طرف گامزن ہے لیکن صہیونی فکر کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہو گا یہ جنگ امام زمانہ (عج) کے ظہور تک جاری رہے گی۔
خیبر: بہت بہت شکریہ