Super User
رہبر انقلاب اسلامی سے عدلیہ کے سربراہ اور اہلکاروں کی ملاقات رہبر انقلاب: امریکہ مذاکرات کے ذریعے ایرانی عوام کی طاقت اور اقتدار کے عناصر کو سلب کرنا چاہتا ہے
عدلیہ کے سربراہ، ججوں اور دیگر عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مذاکرات کی امریکی پیشکش کو ایک فریب قرار دیا اور فرمایا کہ امریکی حکام ایرانی عوام کی طاقت کے عوامل سے خوفزدہ ہیں اور آگے آنے سے ڈرتے ہیں لہذا وہ مذاکرات کے ذریعے اس اسلحے اور طاقت کے عامل کو چھیننا چاہتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملت ایران کے خلاف دنیا کی شرپسند ترین حکومت، یعنی حکومت امریکہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات، توہین اور دشنام طرازی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا" ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ، اختلافات، لوٹ مار اور تباہی کا سبب بننے والی دنیا کی منفور ترین اور خبیث ترین حکومت، ایران کے غیور عوام پر ہر روز ناروا الزامات عائد کر رہی ہے لیکن ایران کے عوام امریکہ کے گھناؤنے اقدامات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور وہ پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ایرانی عوام کے خلاف کھلا ظلم قرار دیا اور فرمایا " پچھلے چار عشروں کے دوران ایرانی تشخص اور اسلامی خصوصیات کے امتزاج کے، منہ زور عالمی طاقتوں کے دباؤ سے ایرانی قوم کی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یہ بات زور دے کر فرمائی کہ ایران کے عوام مظلوم ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور بھی ہیں، خدا کے فضل سے بدستور پہاڑ کی مانند کھڑے ہوئے ہیں اور پوری قوت کے ساتھ طے شدہ اہداف اور مقاصد کی جانب قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔
آپ نے انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی تقریبات اور القدس ریلیوں اور ملک میں ہونے والے انتخابات میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت کو لائق تحسین اور قومی عزم و ارادے کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا: بعض حلقوں کی جانب سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کے باوجود ایران کے عوام رواں سال کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے کر قومی عظمت و وقار کا ثبوت پیش کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکیوں کی جانب سے انسانی حقوق جیسے معاملات سے ناجائز فائدہ اٹھائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم (امریکی) تقریبا تین سو بے گناہ مسافروں کو فضا میں قتل کر دیتے ہو، سعودی عرب کے تعاون سے یمن اور یمنی عوام کے خلاف جرائم کی تکرار کرتے ہو اور پھر بھی انسانی حقوق کا دم بھرتے ہو؟!!
بحرین کانفرنس کا مقصد، فلسطینی عوام اور اسلامی امت کو دھوکا دینا ہے: علی برکہ
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے لبنان میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے نمائندے “علی برکہ” کے ساتھ ’منامہ کانفرنس‘ اور ’صدی کی ڈیل‘ کے موضوع پر گفتگو کی ہے جسے قارئین کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
خیبر: امریکی نام نہاد امن منصوبے’ صدی کی ڈیل‘ کے نفاذ کے لیے امریکہ کا پہلا اقدام ’منامہ اقتصادی کانفرنس‘ کا انعقاد ہے آپ کا اس کانفرنس کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اور کیوں بحرین ہی اس کانفرنس کے لیے انتخاب کیا گیا ہے؟
۔ ’منامہ اقتصادی کانفرنس‘ کا انعقاد امریکی منصوبے ’صدی کی ڈیل‘ کے نفاذ کا مقدمہ ہے اور ہم بحرین میں اس کے انعقاد کی مذمت کرتے ہیں۔ عربی اور اسلامی ممالک سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ اس خائنانہ کانفرنس کی مذمت کریں۔ اس لیے کہ یہ کانفرنس صہیونیوں اور امریکیوں سے متعلق ہے اور اس کانفرنس کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو خاتمہ دینے اور اسے ایک سیاسی مسئلے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کانفرنس کے منعقد کرنے والے کوشش کر رہے ہیں کہ مسئلہ حق و باطل کو کھانے پینے والی چیزوں میں تبدیل کر دیں!۔ فلسطینی عوام غاصبوں کے ساتھ خوراک و پوشاک کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے، اپنے مقدسات کی بازیابی کے لیے اور اس سرزمین پر اپنی حکومت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں جس کا دار الحکومت قدس ہو۔ لہذا ہم قائل ہیں کہ بحرین کانفرنس فلسطینی عوام اور مسئلہ فلسطین کے خلاف امریکی اور صہیونی سازشوں کا حصہ ہے۔
خیبر: امریکہ سینچری ڈیل کے نفاذ کے لیے پہلے مرحلے پر ’مسئلہ اقتصاد‘ کو بحرین کانفرنس کی صورت میں بروئے کار لانا چاہتا ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اور بحرین کانفرنس میں فلسطینیوں کو معیشتی سہولیات دینے کے دعووں کے پس پردہ کیا مقاصد پوشیدہ ہیں؟
۔ امریکی حکومت کے ذریعے بحرین میں اقتصادی کانفرنس کے انعقاد کا مقصد فلسطینی عوام اور عربی اسلامی امت کو دھوکہ دینا ہے تاکہ امریکہ اس طریقے سے ظاہر کرے کہ اسے فلسطینی عوام کے معیشت کی فکر ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ امریکہ فلسطینی غاصبوں کے مظالم اور جرائم میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔
لہذا ہمیں نہ اقتصادی کانفرنسوں کی ضرورت ہے نہ سیاسی کانفرنسوں کی، بلکہ ہماری عربی اسلامی امت سے اپیل ہے کہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت کریں۔ امت مسلمہ ۱۳ سال سے غزہ پر جاری محاصرے کے خاتمہ کے لیے کوشش کرے، ہم اس کانفرنسوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس کانفرنس میں صہیونی ریاست کی شرکت کو مذموم سمجھتے ہیں جس کا مقصد عرب ممالک کے ساتھ روابط کو معمول پر لانا ہے۔ ہم اس کانفرنس کی مذمت کرتے ہیں اور جو عرب اور اسلامی ممالک اس میں شرکت کریں گے ان کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
خیبر: مسئلہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے کے لیے مزدور عرب حکومتوں کا صہیونیوں کے ساتھ مل جانا اور عالمی یوم القدس کی ریلیوں کو ناکام بنانا چہ معنی دارد؟
۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ عرب حکمرانوں کے صہیونی ریاست کے ساتھ ہر طرح کے روابط کی سخت مذمت کرتی ہے اور تاکید کرتی ہے کہ ان تعلقات کی بہتری گویا مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی پشت پر خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ مزاحمت اور واپسی ریلیاں تنہا راستہ ہے اپنے حقوق اور مقدسات کی بازیابی کا۔
عالمی یوم القدس کو بھی اس مقصد کی خاطر وجود میں لایا گیا کہ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا پہلا مسئلہ قرار دیا جائے، تمام امت مسلمہ قدس کو یہودی سازشوں اور ہتھکنڈوں سے آزادی دلانے کے لیے کوشاں رہے نہ خود صہیونیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں اور ان کے ساتھ چھپ چھپ کر ملاقاتیں کریں۔ لہذا بحرین کانفرنس میں بھی صہیونیوں کو دعوت دینا اور ان کے ساتھ ملاقاتیں کرنا مسئلہ فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ خیانت ہے۔
خیبر: فلسطینی مزاحمتی گروہ اور اسلامی ممالک کیسے سینچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں؟ واپسی ریلیوں کا اسے حوالے سے کیا کردار ہے؟
۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سینچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنائیں اس لیے کہ فلسطینی عوام اور تمام سیاسی گروہ اس کے مخالف ہیں۔ ملت فلسطین ہر دور سے زیادہ آج متحد ہے۔ اور تمام فلسطینی گروہ اس امریکی منصوبے کے مخالف ہیں۔ ہم مزاحمت، جہاد اور واپسی مارچ کے راستے کو جاری رکھیں گے تاکہ غزہ پر جاری محاصرے کو توڑ سکیں اور قدس کو آزاد کروا سکیں۔
ہم اسلامی امت کو خطاب کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں پر بھروسہ کریں۔ فلسطینی عوام اور مزاحمت کی پشت پناہی کریں نہ یہ کہ امریکی دباؤ کے آگے تسلیم ہو جائیں اور صہیونی رہنماؤں کا اپنے دار الحکومتوں میں استقبال کریں فلسطینی عوام کبھی بھی تسلیم نہیں ہوں گے لہذا اسلامی امت کو فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرنا چاہیے اس لیے کہ دشمن صرف وقت اور طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔
خیبر: فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد صدی کی ڈیل منصوبے کی ناکامی میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے؟
۔ میں یہ تاکید سے کہتا ہوں کہ فلسطینی گروہوں کی صفوں میں اتحاد امریکی منصوبے صدی کی ڈیل کوناکام بنانے میں اہم ترین عامل ہے۔ ہم ابومازن اور تحریک فتح کے برادران کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ فلسطین میں اتحاد کی فضا قائم کریں اور اختلاف اور انتشار کا راستہ چھوڑ دیں اور مزاحمت کی راہ میں اتحاد کو ترجیح دیں۔ نیز صہیونی ریاست کے ساتھ سکیورٹی روابط اور سیاسی مذاکرات کو خاتمہ دیں اسلو معاہدے کو باطل قرار دے کر صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار کریں۔ لہذا پہلا قدم فلسطینیوں کو یکجا کرنا اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں اس مرحلے میں امریکی صہیونی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔ اگر مزاحمتی گروہوں میں یکجہتی پیدا ہو گی تو انشاء اللہ ہم صدی کی ڈیل منصوبے کو ناکام بنا پائیں گے۔
خیبر: آپ کا بہت بہت شکریہ جو آپ نے اپنا قیمتی وقت ہمیں دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی: صوبہ کردستان کے شہداء کی مجاہدت دیگر صوبوں کے شہداء کی نسبت بہت زیادہ رہی ہے
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کردستان کے شہیدوں کی شہادت ، مجاہدت اور فداکاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس علاقہ کے شہیدوں نےفداکاری اور مجاہدت کے شاندار نمونے پیش کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان ميں 5400 شہیدوں کی یاد میں کانفرنس منعقد کرنے والی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات میں فرمایا: صوبہ کردستان کے شہداء کی مجاہدت دیگر صوبوں کے شہداء کی نسبت بہت زیادہ رہی ہے اور اسی وجہ سےصوبہ کردستان کے شہیدوں کی فداکاری نمایاں ہے ان کا مقابلہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ اندرونی دشمنوں کے ساتھ بھی تھا ۔
رہبر معظم کے اس بیان کو آج صوب کردستان کے شہداء کی یاد میں منعقد ہونے والے کانفرنس میں پیش کیا گيا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے شہریوں کی اتحاد پر مبنی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کردستان کے عوام نے اختلاف اور تفرقہ پر مبنی تمام سازشوں اور کوششوں کو ناکام بنادیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہیدوں کی تکریم اور تعظیم کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدوں کی تعظیم و تکریم پوری قوم کے لئے سزاوار ہے۔
امام موسی صدر کا ایک خطاب حضرت زہرا (س) اور نماز
بسم الله الرحمن الرحیم
والحمد لله رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید خلقه وسید رسله محمد وآله الطاهرین.حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ کے سلسلے میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا بات اس جملے پر پہنچی جس میں حضرت زہرا (س) نے دین اسلام کا فلسفہ بیان کیا ہے اور واجبات اور دینی احکام کے دلائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔آپ (س) کے اس جملے کے بارے میں گفتگو جاری تھی «فَجَعَلَ اللهُ الإیمانَ تَطهیراً لَکُم مِن الشِّرکِ» ( خداوندعالم نے ایمان کو اس لیے قرار دیا تاکہ تم شرک سے پاک ہو جاو) اور کہا کہ یہ جملہ بظاہر تو بہت مختصر ہے لیکن اس میں معانی کا ایک دریا سمایا ہوا ہے۔ پچھلی تقریر میں اس بارے میں مختصر گفتگو ہوئی اور کہا گیا کہ اگر انسان اپنی زندگی میں کامیابی کی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ایک سمت و سو حرکت کرنا پڑے گی یعنی انسان کا کسی عمل کو انجام دلانے والا محرک صرف ایک ہی ہونا چاہیے تب وہ کمال تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر انسان مومن ہے تو اپنی تمام تر توانائیوں کے ذریعے اللہ کی خشنودی حاصل کرنے کی راہ میں لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ ایسا انسان اپنی زندگی میں بے انتہا مثبت اثرات کا حامل ہو سکتا ہے اور اس کی زندگی بابرکت ہو سکتی ہے۔ لیکن مشرک انسان چونکہ اس کے اندر محرک ایک نہیں ہوتا اس کی سمت و سو ایک نہیں ہوتی تو اس کا باطن کھوکھلا ہوتا ہے وہ اندر سے بٹا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی کامیاب زندگی نہیں ہوتی۔ ہم نے چند مثالوں سے یہ ثابت کیا تھا کہ انسان یا حیوان حتی ایک مرغا اگر ایک سمت و سو حرکت کرتا ہے تو کس طرح اس کے اندر حیرتک انگیز توانائیاں وجود پا جاتی ہیں۔ لہذا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس جملے کا خلاصہ یوں ہو گا کہ شرک ایک طرح کی روانی بیماری ہے کہ جس سے بدتر اور مہلک کوئی اور بیماری نہیں ہے اس لیے کہ شرک انسان کے وجود کو تقسیم کر دیتا ہے انسان کے باطن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اور اسے کمال کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔بنابرایں، شرک ایک قسم کی بیماری ہے اور ایمان اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ایمان انسان کو اس بیماری سے پاک کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے ایمان کو انسان کے لیے شرک سے پاک ہونے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہاں تک گزشتہ مجلس میں گفتگو ہوئی تھی۔ اس کے بعد آپ (س) عبادتوں کے فلسفے اور ان کے نتائج کے بارے میں گفتگو کا آغاز کرتی ہیں۔ نماز واجب ہوئی ہے تاکہ مومنین اپنے آپ کو اللہ کی بندگی کرنے کی مشق دیں اور خدا کی عبادت اور بندگی کو درک کریں۔ روزہ اور حج کے واجب ہونے کے بھی اپنے آثار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا یہ گفتگو کہاں کر رہی ہیں؟ مسجد میں نمازیوں کے درمیان۔ آپ نمازیوں سے یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے مسلمانو! یہ نمازیں اور یہ عبادتیں جو تم پر واجب ہوئی ہیں اس لیے نہیں ہیں کہ تم نماز پڑھنے کو عادت بنا لو اور نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد بھول جاو اور اسے صرف ایک ظاہری رسم و رواج میں تبدیل کر دو۔خداوند عالم نے اس وجہ سے نماز کو تم پر واجب قرار دیا ہے کہ نماز تمہیں برائیوں سے روکے، برے کاموں سے باز رکھے اور یہ نص قرآن کریم ہے «إِنَّ الصَّلوۃ تَنهی عَنِ الفَحشاءِ وَ المُنکَرِ»(۱) لہذا اے مسلمانوں تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسرے کے حق بھی غصب کر رہے ہو؟ نمازیں بھی پڑھ رہے ہو اور دوسروں پر ظلم بھی کر رہے ہو؟ نماز بھی پڑھ رہے ہو اور اہل حق کو اس کا حق نہیں دے رہے ہو؟حضرت فاطمہ زہرا(ع) مسجد میں بیٹھے ہوئے نمازیوں کو یہ فرما رہی ہیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو نماز کیوں واجب کی گئی؟ کیا اس لیے کہ ہر دن ایک بار دو بار یا پانچ بار مسجد میں آکر جانماز پر کھڑے ہو کر کچھ حرکتیں انجام دے دیں اور اس کے بعد چلیں جائیں؟ بس نماز صرف یہی ہے؟ کیا حقیقت نماز صرف یہی ہے؟ کیا خدا کو اس طرح کی نمازوں کی ضرورت ہے؟ ایسی نماز تو ہمارے دین میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہماری عبادت، ہمارے نماز، روزے، حج و زکات سے بے نیاز ہے۔ پس کیوں نماز واجب ہوئی ہے؟خداوند عالم نے نماز کو واجب کیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اطاعت اور بندگی کا سلیقہ پیدا ہو ان کے اندر بندگی کی روح پیدا ہو۔ نماز کا فلسفہ یہ ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے نماز انسان کو ہر طرح کی برائی سے روکتی ہے یعنی اس کے اندر خدا کی اطاعت اور بندگی کی روح پیدا کرتی ہے۔ یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور خدا سے تقرب کا ذریعہ ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سے انسان اللہ کا واقعی بندہ بن جاتا ہے۔ اب ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہماری نمازیں ہمیں گناہوں سے روکتی ہیں؟ کیا جب ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر گناہوں سے دور ہونے کا محرک پیدا ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نمازیں بھی چند حرکتیں ہیں ورزش ہے نماز نہیں ہے۔حضرت زہرا اس امت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ یہ نمازیں پڑھ رہی ہے لیکن کیایہ پیغمبر اسلام (ص) کے دیگر فرامین پر بھی عمل پیرا ہو رہی ہے؟ رسول خدا (ص) نے جو علی علیہ السلام کے بارے میں وصیت کی تھی کیا اس کو انہوں نے نہیں سنا ہے؟ کیا یہ لوگ کل تک رسول خدا (ص) کے ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے؟ کیا انہوں نے نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: «الساکِتُ عَنِ الحَقِّ شَیطانٌ أخرَسٌ" ( جو شخص حق بات کہنے پر خاموش ہو جائے وہ گونگا شیطان ہے) کیا انہوں نے ان باتوں کو رسول اسلام سے نہیں سنا تھا؟ کیسے انہوں نے اجازت سے دی ان کی آنکھوں کے سامنے حق اہل حق سے چھن جائے؟ ابھی تو حجۃ الواع اور اعلان ولایت امیر المومنین (ع) کو چار ہی مہینے گزرے تھے۔ کیا یہ لوگ بھول گئے؟ یا خود کو فراموشی میں ڈال دیا ہے؟ یا چپ ساد لی ہے؟ مگر ایسا نہیں ہے جو حق بات کہنے کے بجائے چپ ساد لے وہ گونگا شیطان ہے؟ کیوں ان کی نمازوں، عبادتوں، حج و دیگر اعمال نے انہیں حق کی حمایت کرنے سے روک دیا؟ اس لیے کہ عبادت ان کے لیے عادت بن چکی تھی ان کی عبادتیں اپنی اصلیت کو کھو چکی تھیں وہ صرف نماز کی شکل میں حرکات انجام دے کر چلے جاتے تھے۔حضرت زہرا(س) فرماتی ہیں: اے لوگو! ان نمازوں، روزوں ، حج و زکات اور امر و نہی کا کچھ معنی اور مفہوم بھی ہےْ کیسے تم نماز پڑھتے ہو اور غرور و تکبر بھی کرتے ہو؟ کیسے ایسی چیز ممکن ہے؟ نماز خدا کی اطاعت اور بندگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نماز خدا کے سامنے انکساری کے اظہار کی ایک مشق ہے۔ وہ نماز جس سے غرور پیدا ہو وہ نماز نہیں ہو سکتی جس کا حکم اللہ نے دیا ہے بلکہ یہ وہ نماز ہے جس کا حکم نفس امارہ دے رہا ہے۔ جس نماز کا حکم اللہ نے دیا ہے وہ نماز دل کو روشن کرتی ہے، نفس کو منکسر کرتی ہے، انسان کو متواضع کرتی ہے۔ ہم نماز میں کیا کرتے ہیں؟ کتنی مرتبہ خدا کا تذکرہ کرتے ہیں اس کا نام لیتے ہیں؟ شروع سے آخر نماز تک کتنی مرتبہ اس کے سامنے جھکتے ہیں؟ کتنی مرتبہ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اور اس کا سجدہ کرتے ہیں؟ سجدہ کا کیا مطلب ہے؟ انسان خدا کے سامنے سجدہ کرنے سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرا پورا وجود اور میری روح و جان خدا کے سامنے تسلیم ہے۔ اپنا سر اور پیشانی جو میری سربلندی اور میری عزت کی علامت ہے اسے اپنے معبود کے سامنے خاک پر رکھ دیتا ہوں۔ کیا نماز اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ کیوں سجدہ کرتے ہو؟ کیا کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے سجدہ کرنا جائز ہے؟ انسان کا سجدہ صرف خدا کے لیے ہونا چاہیے۔ ہم خدا کے علاوہ کسی کے سامنے اپنا سر نہیں جھکا سکتے۔ اس سجدہ کا کیا مطلب ہے؟سجدہ یعنی تواضع اور فروتنی کی آخری حد۔ سجدہ کی علامت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے۔ یعنی خدایا میں صرف تیرے آگے تسلیم ہوں لہذا اپنے سر اور پیشانی کو زمین پر رکھ دیتا ہوں۔ہم نماز کے وقت خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں۔ کیسے خدا کے ساتھ جی رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہم نماز میں خدا کے ساتھ ہم کلام نہیں ہوتے؟ کیا ہم نماز میں نہیں کہتے؟ «اِیّاکَ نَعبُدُ وَاِیّاکَ نَستَعینُ.»(۲) ہم کہتے ہیں صرف تو، تو کون ہے؟ کیا خدا نہیں ہے؟ خدا کو کہتے ہیں کہ صرف تیری عبادت کرتے ہیں۔ صرف تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ تیرے علاوہ کسی سے مدد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ لہذا آپ نماز میں اپنے پروردگار سے مناجات کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم کلام ہوتے ہیں اس کے سامنے سجدے اور رکوع کر رہے ہوتے ہیں۔ان تمام اعمال کو نتیجہ کیا ہے؟ غرور؟ تکبر؟ حدیث میں آیا ہے: «الغُرورُ شِرکٌ خَفیٌّ» غرور مخفی شرک ہے۔ انسان کو تکبر کرنےکا حق نہیں ہے۔ انسان کس چیز پر اپنے آپ کو بڑا سمجھے؟ قرآن کہتا ہے: «وَلاَ تَمْشِ فِی الأرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَن تَخْرِقَ الأرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً.»(۳) کس چیز پر فخر کریں اور اپنے آپ کو بڑا کہیں میں ایسا موجود ہوں جس کے پاس نہ اپنے نفع کا اختیار ہے نہ نقصان کا نہ زندگی کا نہ موت کا کچھ بھی تو میرا نہیں ہے۔ نہ دولت میری، نہ علم میرا، نہ اولاد میری، ہمارے پاس کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ ہم برہنہ دنیا میں آئے اور برہنہ دنیا سے جائیں گے۔ نہ کچھ لائے تھے اور نہ کچھ لے کر جائیںگے۔لہذا، یہ ثروت، یہ دولت، علم، طاقت زندگی ہمارے پاس امانت ہے۔ یہ چیزیں ہماری اپنی نہیں ہیں۔ ہم ان کے امین ہیں۔ پس غرور کس بات کا؟ وہ نماز جو انسان کے اندر غرور پیدا کرے نماز نہیں ہے۔ نماز وہ ہے جو انسان کے اندر سے غرور کو ختم کرے۔لہذا ہماری نمازوں کو ہمارے اندر تواضع پیدا کرنا چاہیے جب میں خدا کے سامنے سر سجدے میں رکھوں تو یہ احساس کروں کہ میں اپنے پروردگار کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں میرا سب کچھ اس کا ہے «إِنَّ صَلاَتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.»(۴) اس وقت مجھے یہ محسوس کرنا چاہیے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کون ہوں جو تکبر کروں؟ میں کون ہوں جو کسی سے انتقام لوں؟ میں تو ایک ناتوان، ضعیف اور بے کس موجود ہوں۔یہ نماز کے معنی کا خلاصہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ میں شیطان، دشمنوں اور ظالموں کے مقابلہمیں بھی ضعیف اور ناتوان بنا رہوں۔ اس لیے کہ ہماری قدرت اور طاقت اللہ کے لیے ہے نہ ہماری ذات کے لیے۔یہاں پر میں آپ کی توجہ کو اس اصطلاح ’’اعتماد بالنفس‘‘ کی طرف مبذول کرنا چاہوں ہوں گا۔ اعتماد بالنفس کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں فلاں کے اندر اعتماد بالنفس پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ نڈر اور شجاع ہے۔ اعتماد بالنفس غرور اور تکبر سے الگ ہے۔ توکل اور اعتماد بالنفس ایک قسم کا کمال ہے یعنی جب میں کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہوں، جب میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، جب میں زندگی کے کسی کام میں مشغول ہوتا ہوں تو اگر خدا پر بھروسہ کرتا ہوں تو قوی ہوں خدا پر بھروسے کے ذریعے قوی ہوں لیکن خود متواضع ہوں۔لیکن انسان اگر خود اپنے آپ پر بھروسہ کرے تو مغرور ہو جائے گا حق اور باطل کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر پائے گا۔ کبھی حق کی راہ پر چلے گا اور کبھی باطل کی راہ پر۔ لیکن اگر خدا پر بھروسہ ہے تو نہ مغرور ہو گا اور نہ متکبر، اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا اس کی صحیح راہ میں ہدایت کرے گا۔لہذا نماز بندوں کی صحیح تربیت کے لیے تمرین اور مشق ہے۔ نماز ایسا کارخانہ ہے جس میں انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔
امام رضا (ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام
1984 میں منعقد ہونے والی عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے لئے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ـ جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے ـ کا تاریخی پیغام ملاحظہ ہو جس میں آپ نے امام رضا (ع) کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے.
رہبر معظم کا پیغام عالمی امام رضا (ع) کانگریس کے نام:
امام رضا علیہ السلام کی ایام ولادت میں آپ (ع) کے آستان مبارک میں آپ (ع) کی علمی حیات کے بارے میں کانگریس کا انعقاد ائمۂ معصومین علیہم السلام کے روشن چہروں کو مزید عیاں کرنے اور ان عظیم الشان پیشواؤں کی کارناموں سے بھرپور مگر پرمشقت زندگی کی شناخت کی جانب ایک نیا قدم ہے. ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ائمہ علیہم السلام کی زندگی کی صحیح طور پر شناخت حاصل نہیں کی جاسکی ہے؛ حتی کہ مصائب اور صعوبتوں کے باوجود ان کے جہاد کی عظمت شیعیان اہل بیت (ع) کے لئے بھی روشن نہیں ہوسکی ہے.
ائمۂ طاہرین کی زندگی کے جس اہمترین پہلو کی طرف شائستہ انداز میں توجہ نہیں ہوئی ہے وہ ان کے "شدید سیاسی جدوجہد" کا عنصر ہے. پہلی صدی ہجری کی ابتدا ہی میں اسلامی خلافت سلطنت کی پیرایوں میں ڈھل گئی اور اسلامی امامت جابرانہ بادشاہت میں تبدیل ہوئی. ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے سیاسی حالات کے تناسب سے ہی اپنی سیاسی جدوجہد کو شدت بخشی. اس جدوجہد کا اہم ترین اور بنیادی مقصد اسلامی نظام اور امامت کے اصول پر مبنی حکومت کی تأسیس تھا.
تاریخ، ہارون عباسی کے دور میں امام رضا علیہ السلام کی دس سالہ زندگی اور اس کے بعد خراسان [میں مأمون] اور بغداد [میں امین] کے درمیان ہونے والی پانچ سالہ لڑائیوں کے بارے میں ہمیں کوئی خاص بات نہیں بتا سکی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام اس پندرہ سالہ عرصے میں اہل بیت (ع) کی اسی طویل المدت جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے جو عاشورا کے بعد شروع ہوئی تھی اور ان ہی اہداف کے حصول کے لئے کوشاں تھے.
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اختصار کے ساتھ امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے واقعے پر روشنی ڈالی جائے:
اس واقعے میں امام ہشتم علی بن موسی الرضا علیہ السلام ایک عظیم تاریخی تجربے سے گذرے اور آپ کو ایک خفیہ سیاسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں کامیابی یا ناکامی تشیع کی مقدر کی ترسیم میں مؤثر ہوسکتی تھی. مأمون امام ہشتم (ع) کو خراسان بلوا کر کئی اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا: سب سے پہلا اور سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اہل تشیع کی تند و تیز اور انقلابی سیاسی جدوجہد کو ایک پر امن اور بے خطر سیاسی سرگرمیوں میں تبدیل کیا جائے.... اہل تشیع تقیّہ کی حکمت عملی سے استفادہ کرتے ہوئے انتھک اور کبھی نہ ختم ہونے والی سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے تھے؛ دو اہم خصوصیات والی یہ جدوجہد خلافت کی بساط لپیٹنے میں اہم کردار ادا کررہی تھی اور وہ دو خصوصیات مظلومیت اور تقدس سے عبارت تھیں... مآمون اس اقدام کے ذریعے اہل تشیع کی جدوجہد کو ان دو مؤثر خصوصیات سے خالی کرنا چاہتا تھا. کیونکہ جن لوگوں کا زعیم و قائد خلافت کی مشینری کا ممتاز فرد اور وقت کے مطلق العنان بادشاہ کا ولیعہد ہو وہ لوگ مظلوم یا مقدس نہیں ہوتے.
مآمون کا دوسرا ہدف اہل تشیع کے اس اعتقاد کو غلط ظاہر کرنا تھا کہ اموی اور عباسی خلافتیں شرعی اور قانونی حیثیت نہیں رکھتیں اور اس طرح و ان دو خلافتوں کو قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا.
تیسرا ہدف امام (ع) کو اپنے اداروں کے قابو میں لانا چاہتا تھا کیوں کہ امام (ع) ہر قسم کی جدوجہد اور حکومت کی مخالفت کا محور سمجھے جاتے تھے. اور اگر امام (ع) ان کے قابو میں آتے تو سرکردہ علوی رہنما، انقلابی افراد اور جنگجو مجاہدین بھی حکومت کے قابو میں آسکتے تھے.
چوتھا ہدف یہ تھا کہ امام علیہ السلام جو ایک عوامی شخصیت، لوگوں کا قبلۂ امید اور سوالات و شکایات کا مرجع تھے کو حکومتی گماشتوں کی نگرانی میں لایا جائے اور رفتہ رفتہ ان کا عوامی چہرہ مخدوش کیا جائے اور ابتداء میں امام (ع) اور عوام اور دوسرے مرحلے میں امام (ع) اور عوام کی عقیدت و محبت کے درمیان فاصلے کی دیواریں کھڑی کی جائیں.
پانچواں ہدف یہ تھا کہ مأمون امام (ع) کو ولیعہد بنا کر اپنے لئے معنوی اور روحانی لبادہ تیار کرنا چاہتا تھا. فطری امر تھا کہ اس وقت کی دنیا میں لوگ اس کی تعریف و تمجید کرتے جس نے پیغمبر خدا (ص) کے ایک فرزند اور ایک مقدس اور معنوی شخصیت کو اپنا ولیعہد مقرر کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس منصب سے محروم رکھا تھا اور ہمیشہ صورت حال یہی ہے کہ جب دیندار لوگ دنیا پرستوں کی قربت حاصل کریں تو دینداروں کی حیثیت مجروح ہوجاتی ہے اور دنیا پرستوں کی حیثیت بہتر ہوجاتی ہے. مأمون کا چھٹا ہدف یہ تھا کہ اس کے اپنے خیال میں، امام (ع) ولیعہد بن کر اس کی خلافت کی توجیہ کرنے اور اس کا دفاع کرنے والی شخصیت میں تبدیل ہوجاتے. امرِ مسلم ہے کہ اگر علم و تقوی کے لحاظ سے امام (ع) کے رتبے کی کوئی شخصیت ـ جو عوام کی نظر میں رسول خدا (ص) کے فرزند کی حیثیت سے بے مثال حرمت و آبرو کے مالک تھے ـ حکومت وقت کے دور میں رونما والے حوادث اور واقعات کی توجیہ کرنے لگتی تو کوئی بھی مخالف صدا اس حکومت کی شرعی اور قانونی حیثیت کو مخدوش کرنے کے قابل نہ رہتی. یہی وہ ناقابل تسخیر حصار تھا جو خلافت کی خطاؤں اور خلیفہ بھونڈے اعمال کو آنکھوں سے پوشیدہ رکھ سکتا تھا.اس سیاسی چال کے مد مقابل امام علیہ السلام کی تدبیریں اور پالیسیاں: 1- جب امام علیہ السلام کو مدینہ سے خراسان بلوایا گیا، تو آپ (ع) نے مدینہ کے ماحول کو اپنی ناپسندیدگی اور کراہیت سے پر کردیا؛ حتی کہ امام (ع) کے اردگرد موجود افراد نے یقین کرلیا کہ امام رضا علیہ السلام کو وطن سے دور کرنے کے سلسلے میں مأمون کا ارادہ بدنیتی پر مبنی ہے.
امام (ع) نے مأمون کے حوالے سے اپنی منفی نگاہ اہل مدینہ کو پہنچا دی تھی. رسول خدا (ص) کے حرم سے وداع کرتے وقت، اہل خاندان سے وداع کرتے وقت، مدینہ سے نکلتے وقت، طواف کعبہ کے وقت جو آپ (ع) نے بعنوان طواف وداع انجام دیا ـ، قول و فعل کے ذریعے، دعا اور اشک و آہ کے زبانی آپ (ع) نے سب پر ثابت کیا کہ یہ سفر موت کا سفر ہے [اور اس سفر سے زندہ لوٹ کر آنے کی کوئی امید نہیں ہے]. مأمون اپنی سازش کے تحت جن لوگوں کو امام علیہ السلام کی نسبت بدظن اور اپنی نسبت پراعتماد کرنا چاہتا تھا ان کے دل ۔ سازش پر عملدرآمد کرنے کے ابتدائی لمحوں سے ہی ۔ مأمون کی نفرت اور اس کی نسبت بداعتمادی سے مالامال ہوگئے جو ان کے امام کو ظالمانہ انداز سے ان سے جدا کرکے قتلگاہ کی طرف لی جانا چاہتا تھا. 2- جب مأمون کے دارالحکومت ـ شہر مرو MARV ـ میں مأمون نے ولایت عہدی کی تجویز پیش کی تو امام (ع) نے یہ عہدہ قبول کرنے سے سختی سے انکار کیا اور جب تک مأمون نے آپ (ع) کو قتل کی دھمکی نہیں دی تھی امام نے یہ منصب قبول نہیں کیا تھا. یہ بات سب تک پہنچ گئی تھی کہ امام علیہ السلام نے مأمون کی جانب سے ابتداء میں خلافت کی پیشکش اور بعد میں ولیعہدی کی پیشکش ٹھکرا دی ہے.
حقیقت کچھ یوں تھی کہ سرکاری اہلکاروں کو مأمون کی چالوں کا علم نہیں تھا چنانچہ انہوں نے امام (ع) کے انکار کی خبر علاقے میں پھیلادی حتی مأمون کے وزیر فضل بن سہل نے سرکاری اہلکاروں کے ایک گروہ سے کہا کہ "میں نے آج تک خلافت کا عہدہ اتنا خوار و بے مقدار نہیں دیکھا تھا کہ امیرالمؤمنین (مأمون) علی بن موسی الرضا کو اس عہدے کی پیشکش کررہے ہیں اور علی بن موسی اس پیشکش کو مسترد کررہے ہیں!!.
3- تاہم علیبنموسیالرضا علیہ السلام نے ولایتعہدی کی پیشکش قبول کرلی اور شرط یہ رکھی کہ حکومت کے کسی بھی مسئلے میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ و صلح اور تقرری اور معزولی جیسے مسائل میں کوئی حکم نہیں دیں گے اور کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور مأمون ـ جو تصور کرتا تھا کہ یہ شرط ابتدائی مرحلے میں قابل برداشت ہے اور وہ رفتہ رفتہ امام (ع) کو سلطنت کے امور میں داخل کردے گا ـ یہ شرط قبول کرنے پر آمادہ ہوا. ظاہر ہے کہ اگر یہ شرط باقی رہتی تو مأمون کا منصوبہ خاک میں مل جاتا اور اس کے بیشتر اہداف و مقاصد حاصل نہ ہوتے. 4- مگر ان حالات سے امام علیہ السلام نے جو فائدہ اٹھایا وہ ان تمام مسائل سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
امام (ع) نے ولایتعہدی کا منصب قبول کرکے ایک ایسا اقدام کیا جو سنہ 40 ہجری میں اہل بیت (ع) کی خلافت کے خاتمے کے بعد ائمۂ طاہرین (ع) کی حیات طیبہ تک اور حتی سلسلۂ خلافت کے خاتمے تک بے مثال اور بے بدیل تھا اور وہ اقدام یہ تھا کہ آپ (ع) نے اسلامی قلمرو کی وسعتوں میں شیعہ امامت کا مدعا آشکار کردیا اور تقیہ کے دبیز پردوں کو چاک کرکے تشیع کا پیغام تمام مسلمانوں تک پہنچایا. خلافت کا بلند منبر آپ (ع) کے ہاتھ آگیا تھا اور امام (ع) نے اس منبر سے استفادہ کرکے ان حقائق کو آشکار کردیا جو ائمۂ طاہرین 150 برسوں تک تقیہ کے پس پردہ خاص افراد اور اصحاب و انصار کے سوا کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکے تھے.
رہبر انقلاب: ٹرمپ کی یہ اوقات نہیں کہ ان کو کوئی پیغام دیا جائے/ ہم امریکہ سے مذاکرات نہیں کریں گے
جاپان کے وزير اعظم شینزوآبے اور اس کے ہمراہ وفد نے آج صبح رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات اور گفتگو کی۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جاپان کے وزير اعظم کی طرف سے امریکی صدر ٹرمپ کا پیغام پیش کرنے کے رد عمل میں فرمایا: میں امریکی صدر ٹرمپ کو پیغام کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا ہوں اور نہ ہی اس کے پیغام کا جواب دوں گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی بدعہدی اور بداعتمادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکہ پر کوئی اعتماد نہیں ہے اور نہ ہی ہم امریکہ کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمیں آپ کی نیک نیتی، سنجیدگی اور حسن رفتار پر کوئی شک و شبہ نہیں ، آپ نے ٹرمپ کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا ہے ۔ میں ذاتی طور پر ٹرمپ کو پیغام کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا ہوں ، ٹرمپ کے لئے میرے پاس نہ کوئی پیغام ہے اور نہ ہی میں ٹرمپ کو کسی پیغام کا اہل سمجھتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کا محور جاپان کو قراردیتے ہوئے فرمایا: جاپان ایران کا دوست ملک ہے اگر چہ ہمیں جاپان کے بارے میں بھی شکوے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے ایران کی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کے جاپانی وزیر اعظم کے بیان کی طرف سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی امریکہ کے ساتھ مشکل ایرانی حکومت کو تبدیل کرنے کی نہیں، اگر امریکہ ایسا کرنا بھی چاہیے تو نہیں کرسکتا ۔امریکہ کے سابق صدور نے بھی اسلامی جمہوریہ ایران کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کی امریکی صدر ٹرمپ کی بات بالکل جھوٹ ہے اگر وہ ایسا کرسکتا تو ضرور کرتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاملے کے بارے میں گروپ 1+5 کے ضمن میں پانچ ، چھ سال تک امریکہ اور یورپ کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مذاکرات کامیاب بھی ہوگئے لیکن امریکہ نے اس عالمی معاہدے کو توڑ دیا ۔ لہذا جس ملک نے تمام معاہدوں کو توڑدیا ہو اس ملک کے ساتھ کون عقلمند آدمی دوبارہ مذاکرات کرےگا ؟۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کی ساخت کو روکنے کے امریکی عزم کے بارے میں جاپانی وزیر اعظم کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں۔ ایٹمی ہتھیار بنانے کی حرمت کے بارے میں میرا فتوی موجود ہے۔ اگر ہمارا ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ ہوتا تو امریکہ کچھ بھی نہیں کرسکتا تھا اور امریکہ کی عدم اجازت کا اس پر کوئی اثرنہ پڑتا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو عقل کے خلاف قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکہ کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ کس ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں یا نہ ہوں ،کیونکہ امریکہ کے پاس خود ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جاپانی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا: ایران آنے سے قبل امریکی صدر نے جنابعالی کے ساتھ ایران کے بارے میں گفتگو کی اور واپس امریکہ پہنچ کر ایران کے پیٹروکیمکل ادارے کے خلاف پابندیاں عائد کردیں ۔ کیا امریکہ کی یہ رفتاراس کی صداقت کا مظہر ہے؟ کیا امریکہ جھوٹا نہیں ہے؟ امریکہ کے بغیر بھی ہماری پیشرفت اور ترقی کا سلسلہ جاری رہےگا ہم امریکہ کے فریب میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی ہمیں ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور جاپان کے باہمی تعلقات کے فروغ کا خير مقدم کرتے ہوئے فرمایا: جاپان کو بھی بعض دیگر ممالک کی طرح امریکہ کی منہ زوری کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
جب شیعہ اور سنی کا خون مخلوط ہوجائے تو کون کر سکتا ہے الگ الگ
ایران کے ایک آنلاین نشریہ "اخوہ ڈاٹ کام" نے"وقتی خون شیعه و سنی کرد مخلوط شد "( جب شیعہ اور سنی کا خون مخلوط ہو گیا) کے عنوان سے ایک مراسلہ شائع کیا ہے اسکے دلنشین اور قابل رشک ہونے کے پیش نظر قارئین کے لئے ترجمہ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ مراسلے کی عین عبارت کا ترجمہ مندرجہ ذیل ملاحظہ فرمائيں:
محمد اللہ مرادی ، سپاہ سقز کا سابقہ کمانڈر اور شہید بروجردی کا ساتھی جنگجو کہ جو تنظیم پیشمرگان کا ایک بانی ہے اور کرد سنی مسلمان ہے کہ جو صرف ایک فوجی گروہ نہیں تھا بلکہ علاقے کے مذہبی اور غیر مذہبی انقلاب کے مخالفین کے ساتھ جنگ کرنے والا ایک ثقافتی اور عقیدتی گروہ تھا ۔وہ بذات خود کردستان کی ایک زندہ تاریخ شمار ہوتا ہے ،یہاں پر اس کا ایک یادگار واقعہ کہ جوایران عراق جنگ کے زمانے کا ہے نقل کرتے ہیں کہ جو پڑھنے کے لایق ہے ؛
شیعہ اور سنی کا خون مخلوط ہو گیا
شہید بہزاد ہمتی تحصیل دیواندرہ کا تحصیلدار اور شیعہ تھا ۔شہید محمدی کہ جو دیواندرہ کا میئر تھا وہ سنی تھا ،دونوں عوام اور انقلاب کے واقعی خدمت گذار تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کو آسان زندگی مہیا کر سکیں ۔انقلاب کے دشمنوں نے دونوں کو پکڑا اور دونوں کا سر ایک ساتھ قلم کر دیا اور ان کا خون مخلوط ہو کر بہنے لگا ،ان کے ایصال ثواب کی مجلس میں ہم نے لوگوں سے کہ جو ان کو بہت دوست رکھتے تھے کہا :کون ان دونوں کے خون کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتا ہے اور یہ بتا سکتا ہے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں ؟کون مسلکی علمی اختلاف کو نفاق اور نفرت کی جڑ سمجھتا ہے ؟خدا جانتا ہے کہ یہ دونوں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے فرزند تھے اور امام کے حکم سے میدان میں آتے تھے ۔جو لوگ اس حالت کو برداشت نہیں کر سکتے وہ جھوٹ کے سہارے قومی اور مسلکی اختلافات پر اعتقاد رکھتے ہیں ۔جو لوگ جو اس وقت غلط تصور میں مبتلا ہیں کہ پاسدار اب علاقے میں محبوبیت سے بہرہ مند نہیں ہیں لہذا ان کی جگہ ان چاپلوسوں کو دینی چاہیے جنہوں نے محاذ جنگ کا منہہ تک نہیں دیکھا وہ آئیں اور دیکھیں کہ جو لوگ مخلص ہیں اور لوگ جانتے ہیں کہ وہ خدا کی خاطر ان کی خدمت کرتے ہیں لوگ کس قدر ان کا احترام کرتے ہیں ۔اس طرح کے لوگ تھے اور اب بھی ہیں ۔ شہید پرویز کاک سوندی ، ابا حبیب ، شہید عثمان فرشتہ ،مرحوم حاج میکائیلی کہ میرے خیال میں ان کی موت بھی شہادت تھی انہوں نے ان دیہاتوں کو پاک کیا کہ جو انقلاب دشمنوں سے بھرے ہوئے تھے ۔شہید سعید ورمرز یار ، کاک جمیل ،شہید عبد اللہ رحیمی ، حاج ابراہیم ،بہزاد ہمتی ، اور شہید شہسواری کہ جو اس قدر خوبصورت تھے کہ ساتھی ان کو جمیل کہہ کر پکارتے تھے ۔امام جانتے تھے کہ ایک دن ان کو بھلا دیا جائے گا لہذا آپ نے یاد دلایا ؛ ایسا نہ ہونے دیں کہ شہادت وخون میں پیش قدمی کرنے والوں کو زندگی کے پیچ و خم میں فراموش کر دیا جائے !
شہید بروجردی کے اخلاص اور ان کی معنویت کا اثر
سقز کے علاقے میں ایک انقلاب دشمن دیہات کو ہم نے بڑی مشکل سے پاک کیا ہم نے لوگوں کو اطلاع دی کہ وہ سب ایک جگہ جمع ہوں ،میں نےایک دستی مائیک ہاتھ میں لیا اور ان سے گفتگو شروع کی میں نے ان سے کہا کہ انقلاب دشمن افراد کے دھوکے میں نہ آئیں اور میں نےانہیں جمہوری اسلامی کی خدمات کو یاد دلایا ۔ میں گفتگو کر ہی رہا تھا کہ ایک ہیلیکوپٹر دوسری جانب اترا ،ایک شخص بندوق کاندھے پر رکھے ہوئے ہماری جانب آیا ،لوگوں نے کہا کہ بروجردی ہے ۔ وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی وہ آئے اور میرے پاس کھڑے ہو گئے اونچا قد طاقتور بدن بھورے رنگ کی داڑھی والا وہ شخص بہت ہی با رونق تھا ۔جب میری بات ختم ہوئی تو انہوں نے کہا اے جوان تم بہت اچھی تقریر کرتے ہو ! ہم نے ایک دوسرے سے کچھ گپ شپ کی میں نے دیکھا کہ فوج تیار ہے اور توپوں کو بھی نصب کر دیا گیا ہے ،مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ گاوں والوں پر گولی باری نہ شروع کر دیں ! میں نے کہا :جناب آپ کا کیا ارادہ ہے ، گولی باری نہ شروع کر دینا یہ انسان ہیں ،انہوں نے کہامجھے معلوم ہے ،پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ایسا کچھ کریں گے کہ سب درست ہو جائے گا ،کیا میں بھی لوگوں سے بات کروں اگر آپ کی اجازت ہو تو ! میں نے کہا ،بسم اللہ ! انہوں نے تقریر شروع کی کہ بھیڑ میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کردی زبان میں گالی دی اور کہا : ہم آپ مزدوروں کے دھوکے میں نہیں آئیں گے اور آخری دم تک جمہوری اسلامی کے خلاف لڑیں گے ،میں نے کہا ترجمہ کروں کیا ؟ اس نے کہا نہیں میں سمجھ گیا کہ اس نے کیا کہا ہے ۔اس نے توہین کی ہے ۔ اس کے بعداس نے نہایت اطمئنان کے ساتھ کہا ؛ آو آپس میں بات کرتے ہیں ! اس دیہاتی نے کوئی جواب نہیں دیا یعنی وہ بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا ،بروجردی نے کہا اگر تم نہ بھی چاہو تب بھی اپنی بات کہوں گا ،اور کہا : اچھا آو اور مجھے مارو ! میں نہیں ڈرتا ۔ شہید بروجردی اس کی طرف گئے اور راستے میں اپنی بندوق کو کھولا اور پیچھے کی طرف پھینکا جسے میں نے پکڑ لیا ،انہوں نے اس شخص کو سینے سے لگایا اس کے سینے کو چوما اور کہا : مجھے تمہاری بہادری اچھی لگی ۔کیا اب تم میرے ساتھ کشتی لڑو گے ؟! انہوں نے اس کے چہرے کا بوسہ لیا اور اس کے پیراہن کے بٹن باندھنا شروع کیے ۔اس شخص نے شرمندہ ہو کر کہا : تم پاسدار فرشتوں کی مانند ہو تمہاری باتیں قرآن سے بھری ہوتی ہیں لیکن مجھے نوکروں سے نفرت ہے میں حکومت کا مخالف ہوں ۔
بروجردی نے کہا : اگر ہم فرشتے ہیں تو کیوں ہماری بات نہیں مانتے ؟ اس کے بعد اس نے پوچھا : یہاں مسجد ہے ؟ لوگوں نے کہا ؛ہاں ! اس نے کہا : چلتے ہیں مسجد میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں لوگوں کی بھیڑ دیہات کی مسجد کی جانب روانہ ہوئی بروجردی بھی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے روانہ ہوے اور اس سے گفتگو کرتے رہے ۔خدا جانتا ہے کہ ابھی ہم مسجد تک نہیں پہنچے تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسووں کی بارش ہو رہی ہے ۔یہ صرف اس اخلاص اور روحانیت کا اثر تھا کہ جو اس جیسے لوگوں کے اندر موجود تھا ۔جب دل خدائی ہو جاتا ہے تو تم اپنے مخالف کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہو ۔
مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
امت اسلامی کے درمیان اتحاد، یکجہتی ، رواداری اور باہمی تعاون کے فروغ کی ضرورت کو آج ہر مسلمان محسوس کر رہا ہے ۔ افق گیتی پر رونما ہونے والے حالات اور تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے دنیا کے رنگ ہر مسلمان کے اندر یہ احساس جگا رہے ہیں کہ جہاں مسلمانوں کی بین الاقوامی برادری میں موجودہ ساکھ کو دیکھتے ہوئے قرآن جیسے خزینہ بے بہا کے حقیقی معارف کا اقوام عالم تک پہونچنا ضروری ہے وہیں ایک ایسے قرآنی سماج کی تشکیل بھی ناگزیر ہے جسے امت واحدہ کہا جا سکے ۔ ہم اس وقت تک اقوام عالم کے درمیان اپنا کھویا ہوا وقار بحال نہیں کر سکتے جب تک متحد نہ ہوں ،اس وقت تک دوسروں کو قرآن کے امن و سلامتی کے پیغام کو نہیں پہونچا سکتے جب تک اپنی قوم کے فرد فرد کو اتحاد و ھم دلی اور پیغام امن کا خوگر نہ بنا دیں ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اسکے اندر اپنی منتشر طاقتوں کو جمع کر کے اپنے اندر اتحاد پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے چنانچہ قرآن و احادیث میں جا بجا اسی بات کے پیش نظر اتحاد و انسجام کی دعوت کے ساتھ تفرقہ اور اختلاف سے پرہیز کرنے کی تلقین نظر آتی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے ۔ ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون ...ولا تکونوا کالذین تفرقو ا واختلفو من بعد ما جاءھم البینات و اولئک لھم عذاب الیم ..(آل عمران ۱۰۳،۱۰۴) اسی طرح حدیث میں ارشاد ہوتا ہے ۔ لا تختلفوا فان من قبلکم اختلفو فھلکوا۔ قرآن نے اختلاف کی اخروی سزا یعنی عذاب الہی کو بیان کیا ہے اور حدیث میں دنیاوی سزا یعنی ہلاکت کو بیان کیا گیا ہے ۔یقنیا اگر امت اسلامی قرآن اور حدیث کے آئینہ میں اپنے خدو خال سنوار لے تو اس منزل پر پہونچ سکتی ہے جہاں قرآن یہ نوید دے رہا ہے ’’ولتکن منکم امۃ یدعون ..... بس ضرورت ہے متحد ہو کر آگے بڑھنے کی، بیدار ہونے کی، جاگنے کی اگر ہم بیدار ہو گئے خواب غفلت سے جاگ گئے تو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔
مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق گرم تقاضا تو بھی ہو
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
بحرین اور سعودی عرب نے مسئلہ فلسطین سے غداری کر کے خطرناک دلدل میں قدم رکھ دیا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران میں مصلائے حضرت امام خمینی میں نمازعید الفطر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی گئی جس میں لاکھوں فرزندان اسلام نے شرکت کی۔
رہبرانقلاب اسلامی نے نماز عید کے خطبوں میں ایرانی عوام اور مسلمانان عالم کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے سلسلے میں سینچری ڈیل کے نام سے امریکہ کے خیانت آمیز اور سازشی منصوبے کو عالم اسلام کا اس وقت کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سینچری ڈیل کے سلسلے میں بحرین کی میزبانی میں ہونے والے اقتصادی اجلاس کو امریکی اجلاس قرار دیتے ہوئے فرمایا بحرین اور سعودی عرب کے حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین میں غداری و خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے خطرناک دلدل میں قدم رکھ دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ بحرین اور سعودی عرب جیسے ملکوں نے ہی سینچری ڈیل منصوبے کی زمین ہموار کی ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے سینچری ڈیل کی مخالفت کرنے والےعرب اور اسلامی ممالک اور فلسطینی تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: صدی کا معاملہ کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہو گا اور نہ ہی اپنےانجام کو پہنچے گا۔
رہبرانقلاب اسلامی نے اسی طرح عالمی یوم قدس کی ریلیوں میں ایران کے غیور و انقلابی عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمی یوم قدس کی شاندار ریلیوں عوام کی بھرپور اور مستحکم شرکت، عالمی سیاست اور ایرانی قوم کے دشمنوں کے عزم و ارادے کو بری طرح متاثر اور دشمنوں کے اندازوں کو غلط ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہےرہبر انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک میں قرآنی محفلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان المبارک میں ایرانی قوم، خاص طور پر نوجوانوں نے مساجد، امام بارگاہوں، اور دیگر مقدس مقامات پر اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز کئے اور سر بسجود ہوئے ۔
عالمی صہیونیت، مسئلہ فلسطین اور سابق علماء کی سرگرمیاں
ہمیشہ جب بھی اسلامی معاشرے کو کسی خطرے کا سامنا ہوا تو علمائے دین اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے میدان کارزار میں نکل آتے رہے ہیں اور اپنی جانوں تک کی قربانی دے کر خطرات کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ سرزمین فلسطین پر عالمی صہیونیت کے قابض ہو جانے کے بعد یہ دینی علماء ہی تھے جو اس عظیم خطرے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور امت مسلمہ کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کی۔ لیکن یہاں پرجو چیز حائز اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں زیادہ تر ایران اور عراق کے علماء ہی پیش قدم رہے ہیں۔ اگر چہ فلسطین سنی مذہب کے پیرو مسلمانوں کا ملک ہے لیکن کبھی بھی یہ مذہبی اختلاف اس بات کا باعث نہیں بنا کہ شیعہ علماء فلسطین کے حوالے سے اپنے موقف کو تبدیل کریں۔
اس اعتبار سے اہل تشیع کے بعض بزرگ اور ممتاز علماء جو صہیونیت کے خطرے کے مقابلے میں مجاہدت کرتے رہے ہیں ذیل میں ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛
آیت اللہ سید عبد الحسین شرف الدین
سید عبد الحسین شرف الدین صف اول کے ان ممتاز علماء میں سے ایک ہیں جو ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی تشکیل سے پہلے ہی یہودیوں کے خطرات کی طرف متوجہ تھے۔ وہ اس دور میں جب فلسطین برطانیہ کے زیر قبضہ تھا دنیا سے یہودیوں کی فسلطین ہجرت کو اس ملک کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیتے تھے۔ اگر چہ سید شرف الدین کی سرگرمیوں کا دائرہ لبنان میں محدود تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی پوری زندگی تلاش و کوشش کی کہ صہیونی ریاست کی تشکیل کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں۔ انہوں نے عالمی برادری سے بھی برطانیہ کے موقف کے خلاف اعتراض کرنے اور یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور صہیونیوں کی سرگرمیوں کو رکوانے کا مطالبہ کیا۔ (۱)
علامہ شیخ محمد حسین کاشف الغطاء
علامہ کاشف الغطاء کی نگاہ میں صہیونی ریاست کا مسئلہ ایک ایسا معضل تھا جو مغربی استکباری طاقتوں (امریکہ و برطانیہ) کے ذریعے وجود میں آیا۔ وہ تاکید کرتے تھے کہ تمام مسلمان اس مشکل کو برطرف کرنے کے لیے کوشش کریں۔ وہ صہیونیت کو تمام عالم اسلام کی مشکل قرار دیتے تھے کہ جو تین وجوہات کی بنا پر عالم اسلام کو درپیش تھی ایک مسلمانوں میں اتحاد کے نہ ہونے، دوسرے مسلمان حکومتوں کی کمزوری اور سب سے زیادہ اہم دوسری عالمی جنگ کے بعد عربوں اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہونے کی بنا پر اس سرطانی پھوڑے نے جنم لیا۔
انہوں نے کئی اسلامی ممالک کا سفر کیا، ۱۳۵۰ ھ کو انہوں نے قدس شریف کا دورہ کر کے مسلمانوں کو صہیونی جرائم کے خطرات سے آگاہ کیا۔ نیز اسرائیل کی تشکیل اور چھے روزہ جنگ کے بعد عرب ممالک کے سربراہوں کو جنگ میں کوتاہی کی وجہ سے ان کی مذمت کی اور اسرائیل کے مقابلہ کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ممالک سے اس جہاد میں شرکت کا مطالبہ کیا۔ (۲)
آیت اللہ شیخ عبد الکریم زنجانی
آیت اللہ زنجانی نے بھی مصر، لبنان، فلسطین اور شام کے ممالک میں سفر کر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کی اور انہیں استعماری طاقتوں کے خلاف مجاہدت کرنے کی ترغیب دلائی۔ انہوں نے فلسطینی مفتی سید محسن حسینی کی دعوت پر مسجد الاقصیٰ کی زیارت اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کے لیے فلسطین کا دورہ کیا۔ فلسطینی علماء اور عوام نے آیت اللہ زنجانی کا پرتباک استقبال کیا۔ انہوں نے ان کے درمیان صہیونیت اور استکباری طاقتوں کے خلاف پرجوش تقریر کی کہ جو وہاں کے لوگوں کے درمیان “خطبہ ناریہ” کے نام سے معروف ہو گیا۔
انہوں نے اپنے اس خطاب میں اسرائیلی رہنماوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“کیا تم خدا کے ساتھ جنگ کرو گے؟ جبکہ خدا کی کامیابی یقینی ہے۔ وہ جو فلسطین میں اسرائیل نامی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ یہودیوں کے لیے ایک اقتدار اور عزت حاصل کریں اور اس مقصد تک پہنچنے کے لیے مسلمانوں کے ساتھ جنگ کریں، انہیں جان لینا چاہیے کہ وہ اس خدا کے ساتھ برسرپیکار ہیں جس نے یہودیوں کے لیے ذلت اور پستی قرار دی ہے۔ (۳)
آیت اللہ سید محسن طباطبائی حکیم
آیت اللہ حکیم خود بھی اسلامی تحریک آزادی تنظیم کی مدد کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ انہوں نے بیت المقدس کی نجات کے لیے فلسطین اور اسلامی وحدت کے لیے متعدد بار کئی اہم بیانات جاری کئے۔ انہوں نے عراقی حکومت کو برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے خلاف عوام کو احتجاجی مظاہرے کرنے سے روکنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا یہاں تک کہ عراقی حکومت ان سے معافی مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ (۴)
آیت اللہ سید ابوالقاسم کاشانی
آیت اللہ کاشانی کی جہادی سرگرمیاں ۱۹۴۷ سے پہلے کی طرف پلٹی ہیں ۱۹۴۷ میں ایام اربعین کے موقع پر ہزاروں عزادار آپ کے محلے میں جمع ہوئے آپ نے اس دور کو امام حسین (ع) کے زمانے سے موازنہ کرتے ہوئے لوگوں کو ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا: “فلسطین میں ہمارے بھائی سخت حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان کے گھروں اور زمینوں پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ ان کی جان و مال اور عزت یہودیوں کے ہاتھوں تاراج ہو رہی ہے، دنیا کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں اور ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں”۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مسلمانان عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “کیا یہ درست ہے کہ دنیا کی پست ترین قوم مسلمانوں کے ساتھ اس طرح سے ناروا سلوک کرے اور مسلمان آرام و سکون سے بیٹھے رہیں”۔
اسی سال آیت اللہ کاشانی نے فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک بیانیہ جاری کر کے غاصب اسرائیلی حکومت کی تشکیل کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے نہ صرف بیان جاری کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ لوگوں کو تہران کی شاہی مسجد (موجودہ مسجد امام خمینی) میں فلسطین کی حمایت میں احتجاجی اجتماع کرنے کی دعوت دی۔ یہ چیز باعث بنی کہ حکومت وقت نے انہیں اس اجتماع میں تقریر کرنے سے روک دیا۔ آیت اللہ کاشانی نے اسرائیل کے خلاف اپنی مجاہدت جاری رکھی اور آخر کار شاہی حکومت انہیں لبنان ملک بدر کرنے پر مجبور ہو گئی۔ ملک بدر کرنے سے نہ صرف آیت اللہ کاشانی کی اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ لبنان میں یہ سرگرمیاں مزید شعلہ ور ہوئیں اور آخرکار حکومت ایران کو انہیں واپس وطن لوٹانا پڑا۔ (۵)
آیت اللہ بروجردی
عالم تشیع کے اس مرجع تقلید کی سرگرمیاں صرف ایران میں محدود نہیں تھیں بلکہ صہیونی ریاست کی تشکیل اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہوئی جنگ کے بعد آیت اللہ بروجردی نے ایک بیان جاری کر کے مسلمانان عالم کو صہیونی ریاست کے خلاف اور فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے اپنے اس بیانیے میں فلسطینی عوام کے ساتھ یہودیوں اور صہیونیوں کے غیر انسانی برتاو کی وجہ سے مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی کامیابی اور یہودیوں کی شکست کے لیے اجتماعی طور پر دعا کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ (۶)
آیت اللہ محمود طالقانی
آیت اللہ طالقانی نے ۱۹۴۸ء سے صہیونیت کے خلاف اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ایران کے عوام کو صہیونیت کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے کئی بیانیے جاری کئے اور تقریریں کیں۔ آیت اللہ طالقانی کے لیے یہ مسئلہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ۱۹۷۹ میں اپنی شہادت سے بیس دن پہلے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کو امت مسلمہ کا اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور عالم اسلام سے مطالبہ کیا کہ قدس کی آزادی کو اپنے امور میں سرفہرست قرار دیں۔ (۷)
علامہ طباطبائی
سید ہادی خسرو شاہی علامہ طباطبائی کے بارے میں کہتے ہیں: آپ علمی سرگرمیوں کے علاوہ عالم اسلام کے اہم مسائل کے بارے میں بھی اظہار رائے کرتے تھے ان اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ فلسطین تھا۔ علامہ طباطبائی آقائے مطہری اور سید ابوالفضل زنجانی کے ہمراہ تہران کے ایک بینک میں مشترکہ اکاونٹ کھلواتے ہیں اور لوگوں کو فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
انہوں نے یہ اقدام اس حدیث «من سمع رجلاً ینادی یا للمسلمین فلم یُجبیه فلیس بمسلم» کی روشنی میں انجام دیا لیکن بعد میں حکومتی کارندوں “ساواک” نے یہ اکاونٹ بند کروا کر اس حوالے سے انجام پانے والی سرگرمیوں کو روک دیا۔(۸)
آیت اللہ گلپائیگانی
آیت اللہ گلپائیگانی نے چھے روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران ایک بیانیہ جاری کر کے فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے مسجد الاقصیٰ کے آتش سوزی کے واقعہ کے موقع پر بھی ایک سخت بیانیہ جاری کیا اور مسجد اعظم قم میں اس اقدام کے خلاف تقریر کی۔ (۹)
صہیونی ریاست کی تشکیل کے بعد امام خمینی (رہ) کے علاوہ کئی دیگر علماء جیسے آیت اللہ میلانی، آیت اللہ مرعشی نجفی، آیت اللہ خوئی، آیت اللہ بہبہانی، آیت اللہ سید عبد اللہ شیرازی، امام موسی صدر۔۔۔ نے فلسطینی عوام کے دفاع اور غاصب اسرائیل کے ظالمانہ رویے کے خلاف مجاہدت کی اور یہ انہیں مجاہدتوں اور زحمتوں کا نتیجہ ہے کہ آج مسئلہ فلسطین پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے پوری دنیا میں صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا جاتا ہے اور آج عالمی یوم القدس کے موقع پر پوری دنیا میں احتجاجی جلوس نکانے جاتے ہیں۔ (۱۱)
بقلم میلاد پور عسگری
حواشی
۱ – http://wikinoor.ir
۲- http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=5995.
۳- https://zanjan.ichto.ir/database/agentType/View/PropertyID/79.
۴- http://ir-psri.com/Show.php?Page=ViewArticle&ArticleID=221.
۵- http://www.irdc.ir/fa/news/1914.
۶- http://www.iichs.ir/News-4470.
۷- http://ir-psri.com/Show.php?Page=ViewArticle&ArticleID=1121.
http://navideshahed.com/fa/news/390306.
۸- https://www.mashreghnews.ir/news/911271.
۹- http://ir-psri.com/Show.php?page=ViewNews&NewsID=6179&cat=7
۱۰- http://www.rahmag.ir/content.php?id=184.
۱۱- https://hawzah.net/fa/Magazine/View/3814/3825/23462.




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
