Super User
رہبر انقلاب اسلامی: امریکی صیہونی اور تکفیری طاقتیں انقلاب اسلامی کے مد مقابل ایک بڑا محاذ
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے تناور درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے کے سلسلے میں دشمنوں کی معاندانہ کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنان اسلام اور انقلاب کی پوری توجہ اسلامی انقلاب کے تناور درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے پرمرکوز ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 19 دی سن 1356 ہجری شمسی میں قم کے عوام کے تاریخی قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قم کا یہ تاریخی واقعہ ناقابل فراموش واقعہ ہے یہ واقعہ کبھی پرانا ہونے والا نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مقابلے میں ایک بہت بڑا محاذ ہے جس میں امریکہ ، صہیونی اور وہابی تکفیری طاقتیں شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کے تمام تجزیئے اس بات پر مرکوز ہیں کہ وہ کس طرح انقلاب اسلامی کے اس تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، لیکن ان کی اب تک تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور آئندہ بھی ان کی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کو پائداربنانے کے سلسلے میں ہماری بھی پوری تلاش و کوشش جاری رہنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کی پیشرفت و ترقی اور اس کی پائداری ، دشمن کے لئے باعث حیرت اور باعث تعجب ہے اور وہ مختلف بہانوں کے ذریعہ انقلاب اسلامی کے مضبوط و مستحکم درخت کو اکھاڑ کر پھینکنے کی تلاش و کوشش کررہا ہے، آٹھ سالہ دفاع مقدس، اقتصادی پابندیاں اور علاقائی ممالک کو ایران کے خلاف اکسانا اور بڑھکانا دشمن کے شوم منصوبوں کا حصہ ہے لیکن ایرانی قوم اور حکام باہمی اتحاد و یکجہتی کے ساتھ امریکی، صہیونی اور وہابی تکفیری اتحاد کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام پر زوردیا کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے انقلاب اسلامی کو نئی اور تازہ روح بخشیں اور اچھے اور بہترین افراد کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں روانہ کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی سے عبداللہ عبداللہ کی ملاقات
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی ۔ رہبر انقلاب اسلامی نے عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ ایران ، افغانستان کی سلامتی اور ترقی کو اپنی سلامتی اور ترقی سمجھتا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کی بے پنا ہ گنجائش موجود ہے اور دونوں ممالک کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایران کی جانب سے سابق سویت یونین کے قبضے کی مخالفت نیزافغان مجاہدین کی بھرپور حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اس وقت بھی تقریبا تیس لاکھ افغان شہریوں کی میزبانی کررہا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے ایران میں فارغ التحصیل ہونے والے سولہ ہزار افغان طلبہ کی موجودگی کو افغانستان کے لیے قیمتی سرمایہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغان حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم یافتہ افراد کو ترغیب دلانے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے خصوصی منصوبہ بندی کرے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا فروغ دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہے جبکہ پانی کی تقسیم سمیت بعض معاملات پر پائے جانے والے اختلافات کو سچائی اور تعاون کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے افغانستان کے مجاہدین کو الگ تھلگ کرنے کی ماضی کی کوششوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرمایا کہ وار لارڈ جیسے ناموں سے مجاہدین کو گوشہ نشین کرنے کی پالیسی غلط ہے اور ایسے ملک میں جسے فوجی لشکرکشی اور ہمہ گیر بدامنی کا سامنا ہے، عوام کو جہادی جذبے کے ساتھ وطن کے دفاع کے لیے آمادہ رہنا چاہیے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے افغانستان میں امریکہ کے ہاتھوں شہریوں کے قتل عام اور اس ملک کو پہنچنے والے نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اب بھی افغانستان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن افغانستان کے عوام کے جذبہ جہاد اور دینداری کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ کوئی بھی قابض طاقت زیادہ دیر تک افغانستان میں ٹک نہیں پائی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان مضبوط تعلقات موجود ہیں
پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی اور مضبوط تعلقات موجود ہیں جو آنے والے وقت کے ساتہ مزید مضبوط ہوں گے.
یہ بات قاضی خلیل اللہ نے اپنی ہفتہ وار بریفینگ میں ارنا کے نمائندے کے سوال کے جواب میں کہی.
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان پر امن جوہری معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ایران مخالف پابندیوں کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں.
ایک سوال کے جواب میں قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم کی روانگی کے بعد ایک پریس کانفرنس میں پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے بہت واضح طور پر کہا کہ یہ ایک خیر سگالی دورہ تھا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو فروغ دینا ہے.
آیت اللہ مکارم شیرازی کا شیخ الازہر کے نام خط
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم جناب شیخ ڈاکٹر احمد الطیب
سلام علیکم؛
خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی میلاد مبارک کے ایام کی مناسبت سے آپ اور الازہر شریف کے دیگر علماء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ طول تاریخ میں الازہر کی منطقی اور اتحاد پر مبنی پالیسیاں اور آپ کے گزشتہ عرصے میں اعتدال پسند نظریات، امید کی ایک ایسی کرن ہیں جس سے انتہاپسند اور پرتشدد تکفیری تنازعات اور رجحانات میں بھی امت مسلمہ کی امیدیں وابستہ ہیں۔ لیکن حالیہ تفرقہ انگیز اقدامات کہ جو الازہر کے نام سے انجام پائے ہیں جیسے؛ میڈیا میں شیعہ عقائد پر اعتراضات، بعض مزدور اور دشمنوں سے وابستہ چینلوں جن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں کی وجہ سے شیعوں کی طرف غیر واقعی چیزوں کی نسبت دینا، شیعہ مذہب کے خلاف مقالے، کتاب اور داستان نویسی کے مقابلے منعقد کرنا اور مصر میں اہل بیت اطہار(ع) کے پیروکاروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا اور ان کے لیے نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حتی مصر کی پارلیمنٹ میں ایک شیعہ نمائندے کو بھی قبول نہ کرنا اور اس طرح کے دیگر اقدامات جو الازہر کو خط اعتدال سے منحرف کر کے انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں کہ جن کا نتیجہ مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ کی آگ بھڑکانا اور الازہر کا اپنی تاریخی ساکھ داؤ پر لگا دینا ہے۔
کیا شرع مقدس اور عقل سلیم کی نگاہ میں اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل کا راہ حل ان کے علماء کے درمیان عالمانہ گفتگو ہے یا ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈے کرنا، مقابلے کروانا اور جنگی فضا قائم کرنا ہے؟
کیا ایک مذہب کے عقائد کو پہچاننے کے لیے حقائق کو اس مذہب کے پیشواؤں یا قابل اعتماد منابع سے لینا چاہیے یا دشمنوں سے وابستہ چینلوں، مفتن افراد اور قابل تنقید کتابوں میں پائی جانے والی ضعیف باتوں سے؟
کیا ایسے حالات میں جب اسلامی جمہوریہ ایران کو وجود میں آئے ہوئے ۳۵ سال ہو چکے ہیں آج تک کسی ایک مرجع تقلید نے میڈیا پر اہل سنت کے عقائد یا ان کے فقہی مسائل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور آج تک کسی حوزہ علمیہ کی جانب سے اہل سنت کے خلاف مقالہ نویسی کا مقابلہ نہیں رکھا گیا، الازہر کا تفرقہ انگیز اقدامات انجام دینا، اس کے اسلامی اتحاد اور تقریب مذاہب کے تئیں کاوشوں کا نتیجہ ہے؟ ایران اور افغانستان میں شیعہ اور سنی ایک ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں حتی انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اور کوئی مشکل نہیں پائی جاتی۔
اگر خدانخواستہ الازہر کے اس طرح کے اقدامات اہل سنت کے بعض متعصب ٹولوں کے اندر تشدد کی آگ بھڑکا دیں اور وہ اپنے ہم وطن شیعوں کا خون بہا دیں اور پھر اس کا رد عمل بھی سامنے آئے تو الازہر کے ذمہ دار افراد، مسلمانوں کے اس ناحق خون کا جواب بارگاہ رب العزت میں کیا دیں گے؟
میں جو ہمیشہ آپ کو پرامید نگاہ دیکھتا تھا اور دیکھتا ہوں، آج بھی آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ ٹھوس طریقے سے اس انحراف کا سد باب کریں گے اور الازہر کی ساکھ کو دشمنان اسلام ، وہابیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں داؤ پر لگنے سے بچائیں گے اس لیے کہ ممکن ہے آپ کے اطراف میں کچھ ایسے مفتن قسم کے افراد موجود ہوں جو آپ کو مختلف وسوسوں کے ذریعے خط اعتدال سے منحرف کر دیں لیکن امید ہے کہ آپ بھی شیخ محمود شلتوت اور تاریخ الازہر کے دیگر والا مقام شیوخ کی طرح خط اعتدال اور تقریب مذاہب کی راہ میں درخشاں ہوں گے۔ آپ سے صرف اسی بات کی امید ہے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ناصر مکارم شیرازی
امریکہ کی طرف سے ایران پر نئی پابندیان مشترکہ جامع معاہدے کی خلاف ورزی
امریکہ کے ایک سیاسی تجزیہ نگار ’’سارہ فلوندرس‘‘ نے پریس ٹی وی کے ساتھ ایک انٹریو میں کہا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کی طرف سے نئی پابندیاں عائد کرنا ویانا آسٹریا میں ہوئے مشترکہ جامع معاہدے کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔
انہوں نے کہاکہ امریکی حکام اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اپنی دیرنہ دشمنی کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی معاندانہ اورتعصب پر مبنی پالیسیوں سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہےکہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس پر اعتبار نہیں کیاجاسکتا ہے ۔
انہوں نےکہاکہ امریکہ وہ ملک ہے جس نےکبھی بھی کسی معاہدے کی عزت نہیں کی ہے اورجوں ہی اس ملک کےحکمران کوئی معاہدہ طے کرتےہیں تواسے توڑنے کی وہ ہرممکن کوشش کرتے ہیں ۔
موصوف تجزیہ نگار نےکہاکہ امریکی سلطنت ایک ایسی سلطنت ہےجسکی بنیادہی جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکہ کی نئی پابندیوں کا کوئی اثرپڑنے والا نہیں ہے اور یہ امن پسند ملک جس طرح ماضی میں ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکاہے آئندہ بھی کرتا رہےگا ۔
رہبر انقلاب اسلامی سے عوام، اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء کی ملاقات
۲۰۱۵/۱۲/۲۹ -حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے موقع پر وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور منتظمین، اسلامی ممالک کے سفیروں اور مختلف طبقات زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے آج صبح رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر عظیم الشان ص اور حضرت امام صادق ع کے یوم ولادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے اور اسلام اور آنحضرت ص کی ولادت اور بعثت کو مردہ اور آفت زدہ دنیا میں زندگی کی روح پھونکے جانے اور حقیقی معنویت سے تعبیر کرتے ہوئے موجودہ دور میں دنیائے اسلام بالخصوص علماء اور دانشوروں کا اہم ترین وظیفہ ظلم و ستم، نسلی تعصب اور قساوت سے بھری ہوئی دنیا میں حقیقی اسلام اور معنویت کی روح پھونکنے کے لئے مجدانہ اور مجاہدانہ کوشش اور جد وجہد کو قرار دیا اور فرمایا کہ آج دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ اپنے علم و دانش اور عالمی وسائل اسی طرح عقل، خردمندی، تدبر اور بصیرت کو جدید اسلامی ثقافت کے احیاء کے لئے استعمال کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پیغمبر اکرم ص کے یوم ولادت کی تقریبات کے انعقاد کو اس وظیفے کے مقابلے میں بہت چھوٹا قرار دیا کہ جس کی عالم اسلام سے امید ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آج دنیائے اسلام کا وظیفہ صرف پیغمبر اسلام ص کا یوم ولادت منانا نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے حصول کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے۔
آپ نے فرمایا کہ جدید اسلامی تمدن، سرزمینوں پر قبضہ کرنے، انسانوں کے حقوق پامال کرنے اور اپنی ثقافت کو دوسری ملتوں پر مسلط کرنے اور ان چیزوں جیسا نہیں ہے کہ جو مغربی ممالک انجام دے رہے ہیں بلکہ اس کے معنی بشریت کو الہی فضیلتیں ہدیہ کرنے اور انسانوں کی بذات خود صحیح راستے کا انتخاب کرنے کے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغرب کی جانب سے اپنی تہذیب کی بنیاد رکھنے کے لئے دنیائے اسلام کے علم و دانش و فلسفے سے استفادہ کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ اس تہذیب میں ٹیکنالوجی، تیز رفتاری، سہولت و آسائش اور زندگی کے مختلف آلات و ابزار موجود ہیں لیکن اس میں بشریت کے لئے خوشبختی، سعادت اور عدالت موجود نہیں اور یہ اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ علی الظاہر زرق و برق سے لبریز نظر آنی والی مغربی تہذیب اب اخلاقیات کے لحاظ سے فاسد اور معنویت کے لحاظ سے کھوکھلی ہوچکی ہے اور اس بات کا اہل غرب خود بھی اعتراف کررہے ہیں۔
آپ نے اس بات کی جانب تاکید کرتے ہوئے کہ اب دنیائے اسلام کی باری ہے کہ وہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے اقدامات کرے فرمایا کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لئے دنیائے اسلام کے سیاستدانوں سے امید نہیں رکھنی چاہئے اور وہ علمائے کرام اور روشنفکر افراد کہ جو مغرب سے وابستہ نہیں ہیں انہیں چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کے درمیان روشنفکری کے لئے اقدامات کریں اور جان لیں کہ اس تمدن کا احیاء ممکن ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیائے اسلام میں موجود امکانات اور توانائیوں من جملہ بہترین سرزمینوں، ممتاز جغرافیا، فراوان قدرتی ذخائر اور با صلاحیت افرادی قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ امکانات اسلام کی حقیقی تعلیمات کے ہمراہ ہوں تو اسلامی امت اپنی ہنرمندانہ تخلیقات کو علم، سیاست اور ٹیکنالوجی اور اسی طرح سماجی میدان میں محقق کرسکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کے نظام کو ان بزرگ اہداف تک پہنچنے کے لئے ایک نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے علمی، سیاسی اور اجتماعی لحاظ سے پسماندہ اور سیاسی لحاظ سے انحطاط کا شکار اور ملکی اعتبار سے ایک وابستہ ملک تھا لیکن آج اسلام کی برکت سے ملت ایران نے اپنے آپ کو پہچنوایا اور ملک سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم میں اہم ترقی و پیشرفت کا حامل ہوگیا اور جدید علوم تک رسائی حاصل کر کے آج دنیا کے چند بڑے ممالک میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
آپ نے اس مثال کو پوری اسلامی دنیا کے لئے قابل تقلید قرار دیا اور فرمایا کہ اس مقام تک پہنچنے کی کچھ شرائط ہیں اور اسکی شرط یہ ہے کہ ملتوں کے اوپر سے بڑی طاقتوں کا بھاری سایہ کم ہوجائے کہ جس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ بڑے اہداف کا حصول قیمت ادا کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی تمدن مغربی تمدن کے برخلاف، کسی بھی ملک کو زبردستی اپنے قبضے میں نہیں رکھتا فرمایا کہ جدید اسلامی تمدن کے احیاء کے لئے ہماری نظریں مغرب کی جانب نہیں ہونی چاہئیں اور ہمیں انکی مسکراہٹ اور انکے غصے کی فکر نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنی توانائیوں اور اپنے پاس موجود امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح سمت حرکت کرنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے جدید اسلامی تمدن کا راستہ روکنے کے لئے دشمن کا ایک ہتھیار مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جب سے شیعہ اور سنی کا موضوع امریکی اعلی حکام اور عہدیداروں کے درمیان مطرح ہے اہل فہم اور اہل نظر کو پریشانی لاحق ہوگئی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ جدید اور خطرناک سازشوں اور فتنوں کی تلاش میں ہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی اصل اسلام کے مخالف ہیں اور انکی جانب سے بعض فرقوں کی حمایت کے بارے میں اظہار خیال کے فریب میں نہیں آنا چاہئے فرمایا کہ امریکہ کے سابقہ صدر نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد اپنی گفتگو میں صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا تھا اور درحقیقت یہ بات عالمی استکبار کی اسلام سے جنگ کی نشاندہی کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ امریکی عہدیداروں کی اسلام کی حمایت پر مبنی گفتگو کو حقیقت کے برخلاف اور انکے نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ امریکی حکمران اصل اسلام کے مخالف ہیں اور اسکے برخلاف اظہار خیال کرتے ہیں ، یہ لوگ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے درپے ہیں اور اس کی واضح مثال داعش اور ان جیسے دوسرے دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانا ہے کہ جو امریکہ سے وابستہ ممالک کی دولت اور انکی سیاسی حمایت کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور دنیائے اسلام میں موجودہ حادثات اور بحران کا سبب بنے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی عہدیداروں کے اہل سنت کی حمایت اور اہل تشیع کی مخالفت میں دیئے گئے بیانات جھوٹ پر مبنی ہیں فرمایا کہ مگر غزہ کے عوام اہل سنت نہیں ہیں کہ جن کو یلغار اور دراندازی کا نشانہ بنایا گیا یا غرب اردن کے عوام سنی نہیں ہیں جن کو اتنا زیادہ دباو میں رکھا گیا ہے۔
آپ نے ایک امریکی سیاستدان کی اس بات کو ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ کا دشمن اسلامیات ہے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکیوں کے لئے شیعہ اور سنی کے درمیان کوئی فرق نہیں، وہ ہر اس مسلمان کے مخالف ہیں کہ جو اسلام کے قوانین اور شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اسکے لئے جد وجہد کرتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مسلمانوں سے امریکیوں کی اصل مشکل اسلام کے احکامات اور اسکے احکام پر مسلمانوں کی پابندی اور جدید اسلامی تمدن کے قیام کے لئے جدوجہد کو قرار دیا اور فرمایا کہ اسی وجہ سے جب اسلامی بیداری کا آغاز ہوا تو یہ لوگ حیران و پریشان ہوگئے اور انہوں نے کوشش کی کہ اس کا راستہ روکیں اور بعض ممالک میں یہ کامیاب بھی ہوگئے لیکن اسلامی بیداری کو نابود نہیں کیا جاسکتا اور خداوند متعال کے کرم سے یہ اپنے اہداف حاصل کر کے رہے گی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مسلمانوں کے درمیان داخلی جنگ اور شام، یمن اور لیبیا جیسے ممالک کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ و برباد کرنا استکباری محاذ کا اصلی ہدف قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں اس سازش کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے اور سر تسلیم خم نہیں کرنا چاہئے بلکہ بصیرت کے حصول اور استقامت کی حفاظت کے زریعے اس سازش کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
آپ نے بحرین کے مسلمانوں پر مسلسل دباو کے مقابلے میں عالم اسلام کے سکوت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسی طرح یمن پر ایک سال سے جاری بمباری، شام اور عراق کے حالات اور نائیجیریا کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کیوں اس مومن شیخ مصلح تقریبی کے خلاف اس طرح کا اندوہناک واقعہ برپا کیا جائے اور ایک ہزار سے زیادہ افراد کو قتل کیا جائے اور اسکے فرزندوں کو بھی شہید کردیا جائے لیکن دنیائے اسلام خاموش تماشائی بنی رہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دنیائے اسلام کے دشمنوں کے اہداف نہایت خطرناک ہیں اور اسکے مقابلے میں ہم سب کا وظیفہ ہے کہ ہم با بصیرت اور بیدار ہوں اور علمائے اسلام اور روشنفکر افراد کا وظیفہ ہے کہ وہ عوام اور بیدار ضمیروں کے حامل سیاستدانوں سے ملاقات کریں اور اور انہیں حقیقیت سے آگاہ کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ ایسے عالم میں کہ جب زر و زور پر مشتمل دنیا دنیائے اسلام کے خلاف خطرناک سازشوں میں مشغول ہے تو کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ خواب غفلت کا شکار ہوجائے اور حقیقت سے آشنا نہ ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے صدر مملکت حسن روحانی نے نبی مکرم اسلام ص اور حضرت امام صادق ع کی ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام ص کو اخلاق اور پاکدامنی کا کامل نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ص دنیا کے لئے وحدت، اتحاد اور برادری کا تحفہ لے کر آئے۔
صدر مملکت نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ گذشتہ ہر دور کے مقابلے میں آج نبی مکرم ص کی پیروی کا بہت زیادہ ضرورت ہے کہا کہ ملی وحدت اور اپنے عظیم رہبر کی ہدایات کے سایے میں ہم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کامیابی کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
انہوں نے اس بات کی جانبا شارہ کرتے ہوئے کہ مجلس خبرگان رہبری اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات درپیش ہیں، ان انتخابات کو ملک کی عظمت و بزرگی کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہئے کہ ہم ان انتخابات میں اسلامی نظام اور اس ملک کی کامیابی کی فکر کریں۔
جناب روحانی نے ۹ دی کو ایرانی عوام کے حماسے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ۹ دی خاندان رسالت، نظام، قانون، ولایت فقیہ اور ولی فقیہ کے دفاع کا دن ہے۔
صدر مملکت نے فرمایا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی سیکورٹی اور امن وامان رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدابیر اور انکے فرمودات کی روشنی میں حاصل ہوئی ہیں اور اس نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں اور وحدت میں اضافے اور دہشتگردی اور اغیار کی دنیائے اسلام میں مداخلت سے نجات وحدت میں اضفے کے زریعے حاصل ہوگی۔
صدر روحانی نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ دشمنوں نے عالم اسلام کو ایک دوسرے کے دست و گریبان کردیا ہے کہا کہ اگر عالم اسلام کے بڑے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے عمومی مسائل کی فکر کرتے تو یہ مسائل بہت آسانی کے ساتھ حل ہو سکتے تھے۔
انہوں نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ بعض اسلامی ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ثقافتی اور اقتصادی میدانوں میں تعاون کے بجائے خطے سے باہر موجود عوام سے تعاون کرتے ہیں کہا کہ یہ نہیات افسوس کا مقام ہے کہ بعض ممالک سیاسی میدان میں ایک ملک کی کامیابی پر پریشان ہوجاتے ہیں اور عالم اسلام کے سرمایے کو اغیار کے حوالے کردیتے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ جس ملک نے تیل کی قیمت میں کمی لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا اب اپنے اگلے سال کے بجٹ میں سو بیلین ڈالر کی کمی کا اعلان کرچکا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کوئی بھی کسی دوسرے کے لئے گڑھا کھودتا ہے وہ سب سے پہلے خود اسی گڑھے میں گرتا ہے۔
اس محفل کے اختتام پر وحدت اسلامی کانفرنس کے بعض مہمانوں نے رہبر انقلاب اسلامی سے بہت نزدیک سے ملاقات کی
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ
مغربی اترپردیش میں سخت سردی سے معمولات زندگی درہم برہم
اتراکھنڈ کی پہاڑیوں پر ہو رہی برف باری اور اترپردیش میں بریلی اور اطراف کے علاقوں میں چل رہی برفیلی سرد ہواؤں اور کہرے کے سبب آج بھی لوگ سخت سردی سے پریشان رہے ۔علاقے میں آج صبح بھی گھنا کہرا چھایا رہا۔ درجہ حرارت میں گراوٹ سے معمولات زندگی درہم برہم ہے اور لوگ شام ہوتے ہی اپنے گھروں میں چھُپنے کو مجبور ہیں۔سخت سردی اور گھنے کہرے سے ریلوے اور سڑک ٹریفک پر بھی اثر پڑ رہا ہے ۔ بریلی جنکشن سے گزرنے والی طویل دوری کی بیشتر ٹرینیں آج بھی اپنے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے تاخیر سے چل رہی تھیں۔
قدس میں ایک اور فلسطینی شہید
شہر بیت المقدس میں صیہونی فوجیوں کی فائرنگ میں مزید ایک فلسطینی شہید ہو گیا ہے-
رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحیت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے شہر بیت المقدس پر ایک فلسطینی نوجوان پر براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی شہید ہو گیا- دوسری طرف ہزاروں فلسطینیوں نے سنیچر کو ایک اڑتیس سالہ فلسطینی خاتون کے جلوس جنازہ میں جو جمعے کو رام اللہ میں صیہونی فوجیوں کی فائرنگ کا نشانہ بن کر شہید ہوگئی تھی، بڑی تعداد میں شرکت کی - فلسطین کی ہلال احمر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق اس فلسطینی خاتون کے جسم پر دس گولیوں کے نشان تھے - جس سے پتہ چلتا ہے کہ سفاک صیہونی فوجیوں نے اسے دس گولیاں ماری ہیں- فلسطینی ذرائع کے مطابق صیہونی فوجیوں کی جارحیت کے نتیجے میں سنیچر کو بھی دو فلسطینی شہید ہوئے تھے-
ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ جاری
ایٹمی سمجھوتے کے باوجود ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو نقصان پہنچانے والے اقدامات میں، اس پر دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگانا، ایران کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے یا ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے کا دعوی کہ جنھیں امریکہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان اقدامات نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بعد امریکی کانگرس میں وسیع شکل اختیار کر لی ہے۔ ایران کی طرف منسوب کیے گئے دہشت گردانہ اقدامات کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ کو تاوان ادا کرنے کے بہانے ایران کے سینٹرل بینک کے زرمبادلہ کے اثاثوں میں سے کچھ رقم نکالنے کی تجویز پیش کرنا اور سپاہ پاسداران کو دہشت گرد گروہوں کی نام نہاد فہرست میں شامل کرنا اس سلسلے میں کیے جانے والے بعض اقدامات ہیں۔
فارن پالیسی میگزین نے جمعہ کے روز شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس اقدامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ مسئلہ دو ہفتے قبل نیویارک میں بحران شام کے بارے میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں اٹھایا گیا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس کانفرنس میں خبردار کیا کہ اگر شام میں دہشت گردی کی بحث کا رخ ایران کی طرف موڑا گیا تو ہم بھی اپنی لسٹ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اس لسٹ میں سرفہرست ہے۔
سی آئی اے امریکہ کے سولہ انٹیلی جنس اداروں میں سے ایک ہے۔ سی آئی اے کہ جو خفیہ ہاتھ یا (hidden hand) کے نام سے شہرت رکھتی ہے، امریکی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے دوسروں ملکوں کے امور میں مداخلت کرنے اور وہاں کی حکومتوں کا تختہ الٹنے کے اقدامات کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال اگست انیس سو ترپن میں ایران میں قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے سلسلے میں سی آئی اے کے اقدامات تھے۔ نفسیاتی کارروائیاں، اقتصادی تباہ کاریاں اور دہشت گرد گروہوں کی تربیت کے علاوہ اپنے پیش نظر اور مطلوبہ ملکوں میں تخریب کارانہ اقدامات کرنے کے لیے ان دہشت گرد گروہوں کو استعمال کرنا سی آئی اے کی دیگر سرگرمیوں میں شامل ہے۔ ان اقدامات کی مثالوں کو انیس سو پچاس کے عشرے سے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے دستورالعمل اور امریکی صدور کی خواہشات اور احکامات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
انیس سو چون میں گوئٹے مالا کی حکومت کا خاتمہ، انیس سو اکسٹھ میں کیوبا میں فیڈل کاسترو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے (Bay of Pigs Invasion) کے نام سے امریکہ کی کارروائی، انیس سو ستر میں چلی میں آلندے کی حکومت کا خاتمہ اور نکاراگوا میں مداخلت، سی آئی اے کے اس سلسلے میں کیے جانے والے دیگر اقدامات میں سے ہیں۔ ریڈیو اور ٹی وی چینل قائم کرنا امریکہ کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سی آئی اے کے خفیہ اقدام کے طریقے ہیں۔ ریڈیو فردا اور صدائے امریکہ قائم کر کے نیز فارسی زبان کے سیٹلائٹ ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف یہ طریقہ استعمال کیا گیا ہے۔
امریکہ کے انیس سو سینتالیس کے قومی سلامتی کے قانون میں، اطلاعات و معلومات کو جمع کرنا اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرنا سی آئی اے کی اصلی ذمہ داری قرار دی گئی ہے، لیکن امریکی سیاستدان اس ادارے کو زیادہ تر دوسرے ملکوں میں اپنے فیصلوں پر درآمد کرنے اور خفیہ اقدامات انجام دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پابندیاں لاگو کرنے کے ذریعے معیشت و اقتصاد کی بنیادی تنصیبات کو تباہ کرنے کی سازش، ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت، سی آئی اے کے خفیہ اقدامات کا حصہ ہیں۔ اس قسم کے مقاصد کے ساتھ یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ دہشت گردی کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ شفاف ہو گا۔
بحران شام کو تقریبا پانچ سال کا عرصہ گزر رہا ہے اور امریکہ صرف شام کے اندر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور انھیں سیاسی میدان سے بےدخل کرنے کے درپے رہا ہے اور اسی بنا پر وہ سیاسی اور منطقی طریقوں سے بحران شام کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ امریکہ کو ایران پر الزامات لگانے کے بجائے علاقے کے بحرانوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری واضح کرنی چاہیے اور عمل میں دکھانا چاہیے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا سنجیدہ ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ ایران کے لیے امریکہ کے اہداف و مقاصد اور پالیسیوں کی ماہیت واضح و روشن ہے اور اگر یہ طے ہو کہ دہشت گردی کے حامیوں کی فہرست تیار کی جائے تو امریکہ اور سی آئی اے اس میں سرفہرست ہیں۔ اس سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے بیان کا اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہیے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
