Super User
خطیب جمعہ تہران: یہ خط مغربی نوجوانوں کے لیے دعوت فکر ہے
رپورٹ کے مطابق تہران کے خطیب نماز جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے کہا ہے کہ مغربی نوجوانوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے خط نے حق و باطل کے درمیان فرق کو نمایاں کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خط مغربی نوجوانوں کے لیے دعوت فکر ہے کہ وہ سوچیں کہ تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں اصل حقائق کیوں سامنے نہیں آ رہے ہیں۔ تہران کے خطیب نماز جمعہ نے کہا کہ مغربی نوجوانوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے خط میں دہشت گردی کے اسباب اور مغرب کے دہرے معیاروں کی انتہائی باریک بینی اور دانشمندی کے ساتھ نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی کا خط اسلامی انقلاب کے عالمی ہونے کی نوید ثابت ہوگا۔
وائٹ ہاوس کے سامنے سید الشہداء(ع) کا ماتم
سینکڑوں مسلمانوں نے امریکہ کے شہر واشنگٹن میں سید الشہداء کی عزاداری کی اور وائٹ ہاوس کے سامنے پرچم امام حسین (ع) کو لہرا کر دھشتگردوں اور دھشتگردانہ کاروائیوں میں امریکہ کی حمایت کی مذمت کی۔
واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے عزاداروں نے سیاہ لباس پہن کر وائٹ ہاوس کے سامنے عزاداری کی اور دنیا میں جاری دھشتگردی کے خلاف احتجاج کیا۔
ایرانی پارلیمنٹ کےاسپیکر: رہبرانقلاب اسلامی کے خط نے سامراجی طاقتوں کو بے نقاب کردیا
رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کے کھلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر علی لاریجانی نے کہاکہ یورپی نوجوانوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی کے خط نے سامراجی طاقتوں کے چہروں پر پڑی نقاب کھینچ کر اہم حقائق کو واضح کردیا ہے۔ انہوں نے کہا عالم اسلام شروع ہی سے جاہلانہ تشدد اور اندھے تعصبات کے خلاف جنگ کرتا چلا آیا ہے۔ اسپیکر علی لاریجانی نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی کے خط نے ،عقلانیت، حقائق اور باہمی ثقافتی احترام کی بنیاد پر، اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان رابطوں کی نئی بنیادیں فراہم کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، دراصل خطے کے عیار ڈکٹیٹروں کی خفیہ سازشوں اور بڑی طاقتوں کے انٹیلی جنس اداروں کی پیداوار ہے۔ ایران کے اسپیکر نے کہا کہ دہشت گردی کے سدباب کے لیے لشکرکشی کی ضرورت نہیں بلکہ لشکرکشی، دہشت گردی میں اضافے کا سبب بنے گی۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے خطے پر تسلط جمانے کی سوچ کو ترک، اور آمر حکمرانوں کے بجائے مسلمانوں کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ خطے کی صورتحال نے دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے خفیہ ہاتھوں کوآشکارہ کردیاہے- انہوں نے کہا کہ عراق اور شام میں داعش نے جب مسلمانوں کا خون بہانا شروع کیا تھا اسی وقت بعض ملکوں کے دہشت گردوں کے ساتھ تعاون کے شواہد سامنے آگئے تھے لیکن علاقائی اتحاد اور فوجی مداخلت کےنتیجے میں دہشت گردوں کے حامی مزیدکھل کر سامنے آگئے ہیں۔
مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر نے کہا کہ بعض ممالک یہ سمجھ رہے ہیں کہ خطے کی صورتحال کو درھم برھم کرکے اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بدامنی کا بحران انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
ہندوستان؛ تمل ناڈو سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد تین سو سے زائد ہو گئی
ارنا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ تمل ناڈو میں حالیہ شدید بارش اور سیلاب کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر تین سو پچیس ہوگئی ہے۔ واضح رہے کہ ریاست تمل ناڈو کے مختلف علاقے، حالیہ بارش اور سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، خاص طور سے چنئی، کڈلور اور کانجی پورم اضلاع میں شدید بارش اور پھر سیلاب کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بتاہی ہوئی ہے۔ بعض علاقے اب بھی زیر آب ہیں۔ اسی کے ساتھ امدادی کام بڑے پیمانے پر جاری ہیں اور ریاستی حکام کے ساتھ فوج اور سماجی تنظیمیں بھی امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔اگرچہ سیلابی پانی میں کمی ہونے سے حالات میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن متاثرہ اضلاع کے لوگوں میں اب بھی خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
ریاستی دارالحکومت چنئی اور ریاست کے کئی دیگر شہروں میں شدید بارش کے سبب بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع ہوگئی اور ٹیلی فون سروس بھی متاثر ہوئی ہے۔ بارش اور سیلاب نے سڑک، ریل اور ہوائی خدمات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق چنئی میں بہت سے سیلاب زدہ افراد کو غذائی اشیا، دوا اور پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ بعض علاقوں میں گھروں کی چھتوں پر پناہ لینے والے لوگ کھانے پینے کی اشیا کی قلت کے سبب ان کے لئے درخواست کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔
دریں اثنا سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی اور دیگر ضروری اشیا کی قلت کی وجہ سے لوگوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔ چنئی میں ہونے والے احتجاج کی وجہ سے شہر میں آمد و رفت بہت زیادہ متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تمل ناڈو کی ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں حالات معمول پر آجائیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا
رہبر انقلاب اسلامی سے بحریہ کے افسروں اور کمانڈروں کی ملاقات
۲۰۱۵/۱۱/۲۹ – اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اتوار کے دن بحریہ کے افسروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں سمندر کی اہمیت اور سمندر کے فوائد اور اس میں موجود مواقع سے فائدہ اٹھانے میں بحریہ کی قابل قدر پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اور بحریہ کی پیشرفت اور مضبوط اسٹرکچر پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ صالح، چاک و چوبند اور صحیح فکر اور مینجمنٹ کی حامل افردای قوت کے ساتھ ساتھ استقامت، راسخ عزم و ارادہ، خدا پر توکل اور روشن مستقبل کی امید وہ مددگار عناصر ہیں کہ جنہوں نے ایران اسلامی کو اس عظیم، تاریخی اور شایان شان کے مطابق مقام پر پہنچایا ہے۔
اس ملاقات میں کہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے قومی دن کی مناسبت سے انجام پائی تھی، سپریم لیڈر نے گذشتہ چند سالوں کے دوران بحریہ کی پیشرفت اور ترقی کو محسوس اور ملموس قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے سمندر کی اہمیت، عظمت اور حساسیت کو نظر انداز کیا جاتا تھا لیکن آج بحریہ نے بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن اب بھی مطلوبہ مقام تک فاصلہ موجود ہے۔
رہبر انقلاب نے سمندر کو دشمن کے خلاف طاقتور صف آرائی اور اسی کے ساتھ ساتھ دوستوں کے ساتھ موثر سرگرمی اور دوستانہ تعاون کی جگہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آزاد پانیوں تک رسائی، سمندر کے زریعے دنیا کی چاروں سمت کا آپس میں اتصال اور سمندر کی سطح پر ملکی دفاع کے امکانات سمندر کی مختلف برکتیں ہیں اور اعلی حکام اور عوام کو چاہئے کہ اس جانب توجہ کریں۔
آپ نے سمندر میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کی تاریخی شان و منزلت کے مطابق مطلوبہ مقام پر پہنچنے کو بحریہ کی عظیم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ ہم اب بھی آغاز سفر میں ہیں اور آپ اس کے مرد سفر ہیں تاکہ اس راستے میں موجود رکاوٹوں کو ہٹائیں اور مستقبل کے اس مطلوبہ ہدف اور امید کو حاصل کریں۔
سپریم لیڈر نے مکران کے ساحل اور دریائے عمان کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ علاقہ، بحریہ کے لئے اپنی ذمہ دارایاں پوری کرنے کی راہ میں ایک بنیادی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور خاص طور پر اس خطے کی بحالی کے لئے حکومت کو بھی لازمی احکامات جاری کئے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بحریہ کے مضبوط اسٹرکچر خاص طور پر لائق، صالح، چاک و چوبند اور ذمہ داری کا احساس کرنے والے اسٹاف کی تیاری کو بحریہ کی ذمہ داریوں کے محقق ہونے کا لازمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افرادی قوت اور اچھی مینجمنٹ خوب معجزہ گر ہوتی ہے، جیسا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران ملک کو مالی مشکلات اور مالی وسائل کی کمی کا سامنا تھا اور ابھی بھی یہ مشکل درپیش ہے، لیکن اس کے باوجود تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ مالی زرائع میں کمی اور مشکلات حتی خالی ہاتھ ہونے کے باوجود اگر اچھی مینجمنٹ ہو تو اس کے زریعے ان مشکلات سے عبور کیا جاسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رح کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کو افرادی قوت کے معجزات کا ایک جلوہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امام خمینی رح نے قدرت الہی پر تکیہ کرتے ہوئے اور اپنی بے مثال توانائی اور تاثیر کے زریعے ملت کے بحر بے کراں کی موجوں میں تلاطم پیدا کر دیا اور عالمی استکبار سے وابستہ اور بے پناہ وسائل اور امکانات کے حامل سیاسی نظام کا تختہ الٹ دیا۔
آپ نے مقدس دفاع میں ملت ایران کی حیرت انگیز کامیابی اور بے پناہ سیاسی اور مسلحانہ حمایت اور امکانات اور وسائل کے حامل دشمن کو شکست دینے کو افرادی قوت کا ایک اور نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج ملت ایران اور مسلح افواج کی پیشرفت اور توانائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور استقامت، ارادے، راسخ عزم و ارادے، روشن مستقبل کی امید اور خدا پر توکل کے زریعے ملت ایران کی شان و منزلت کے مطابق پہلے سے روشن تر مستقبل کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران کے نیول چیف ایڈمیرل سیاری نے بحریہ کی سرگرمیوں پر مشتمل رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم سربلند، چاک و چوبند، اور بلند ہمتوں کے ساتھ بڑے بڑے قدم اٹھا رہے ہیں تاکہ بحریہ کے معیار کو ملت ایران کے شایان شان بنا سکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا یورپی جوانوں کے نام خط
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی ممالک کے جوانوں کے نام اپنے خط میں فرانس میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو باہمی مشاورت اور چارہ جوئی کے لئے زمینہ قرار دیتے ہوئے اور دنائے اسلام کے خلاف بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کے اثرات، اسرائیل کی غاصب حکومت کے دہشتگردانہ اقدامات کی حمایت اور دنیائے اسلام پر گذشتہ چند سالوں کے دوران ضرر رساں یلغاروں کا ذکر کرتے ہوئے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں آپ جوانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ لوگ درست شناخت اور غور و خوض کی بنیاد پر اور تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی دنیا کے ساتھ عزت پر مبنی اور صحیح اشتراک عمل کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں
رہبر انقلاب اسلامی کے خط کا متن درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یورپی جوانوں کے نام
فرانس میں اندھی دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر مجھے آپ جوانوں سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ میرے لئے یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے واقعات آپ جوانوں کے ساتھ گفتگو کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ دردناک واقعات باہمی مشاورت اور چارہ جوئی کا راستہ ہموار نہ کریں تو بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا۔ دنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسان کا غم بجائے خود بنی نوع انسان کے لئے رنج و اندوہ کا باعث ہے۔
ایسے مناظر کہ جن میں بچہ اپنے اعزاء و اقرباء کے سامنے موت کو گلے لگا رہا ہو، ماں کہ جس کی وجہ سے اس کے اہل خانہ کی خوشیاں غم میں تبدیل ہوجائیں، شوہر جو اپنی بیوی کے بے جان جسم کو تیزی کے ساتھ کسی سمت لے جا رہا ہو، یا وہ تماشائی کہ جسے یہ نہیں معلوم وہ چند لمحوں کے بعد خود اپنی زندگی کا آخری سین دیکھنے والا ہے، یہ وہ مناظر نہیں ہیں کہ جو انسان کے جذبات و احساسات کو نہ ابھارتے ہوں۔ ہر وہ شخص کہ جس میں محبت اور انسانیت پائي جاتی ہو۔ ان مناظر کو دیکھ کر متاثر اور رنج و الم کا شکار ہوجاتا ہے۔ چاہے اس طرح کے واقعات فرانس میں رونما ہوئے ہوں، فلسطین یا عراق، لبنان اور شام میں۔ یقینا ڈیڑھ ارب مسلمان اسی احساس کے حامل ہیں اور وہ اس طرح کے گھناؤنے واقعات میں ملوث افراد سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے بے زار ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آج کے رنج و الم ایک اچھے اور زیادہ محفوظ مستقبل کی تعمیر کا سبب نہ بنیں تو وہ صرف تلخ اور بے ثمر یادوں کی صورت میں باقی رہ جائیں گے ۔ میرا اس بات پر ایمان ہے کہ صرف آپ جوان ہی ہیں جو آج کی مشکلات سے سبق حاصل کر کے اس بات پر قادر ہو جائيں کہ مستقبل کی تعمیر کے لئے نئي راہیں تلاش کر سکیں اور ان غلط راستوں پر رکاوٹ بن جائیں کہ جو یورپ کو موجودہ مقام تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ آج دہشت گردی ہمارا اور آپ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ جس بدامنی اور اضطراب کا حالیہ واقعات کے دوران آپ لوگوں کو سامنا کرنا پڑا ہے ان مشکلات میں اور برسہا برس سے عراق، یمن، شام اور افغانستان کے لوگوں نے جو مشکلات برداشت کی ہیں ان میں دو اہم فرق پائے جاتے ہیں۔ پہلا فرق یہ ہے کہ اسلامی دنیا مختلف زاویوں سے نہایت ویسع اور بڑے پیمانے پر اور ایک بہت لمبے عرصے تک تشدد کی بھینٹ چڑھی ہے۔ دوسرے یہ کہ افسوس کہ اس تشدد کی ہمیشہ بعض بڑی طاقتوں کی جانب سے مختلف اور موثر انداز میں حمایت کی جاتی رہی ہے۔ آج شاید ہی کوئي ایسا فرد ہوگا جو القاعدہ، طالبان اور ان سے وابستہ منحوس گروہوں کو وجود میں لانے، ان کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں امریکہ کے کردار سے آگاہ نہ ہو۔ اس براہ راست حمایت کے علاوہ تکفیری دہشت گردی کے جانے پہچانے حامی پسماندہ ترین سیاسی نظام کے حامل ہونے کے باوجود ہمیشہ یورپ کے اتحادیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب خطے میں آگے کی جانب گامزن جمہوریت سے جنم لینے والے ترقی یافتہ اور روشن ترین نظریات کو بڑی بے رحمی کے ساتھ کچلا جاتا ہے۔ اسلامی دنیا میں بیداری کی تحریک کے ساتھ یورپ کا دوہرا رویہ یورپی پالیسیوں میں پائےجانے والے تضادات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس تضاد کی ایک تصویر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی حمایت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ فلسطین کے مظلوم عوام ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اگر یورپ کے عوام آج چند دنوں کے لئے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں اور وہ عوامی مقامات اور پرہجوم علاقوں میں جانے سے گریز کر رہے ہیں تو فلسطینی خاندان دسیوں برسوں سے حتی اپنے گھروں میں بھی غاصب صیہونی حکومت کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی مشینری سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ آج کونسے تشدد کا موازنہ صیہونی بستیوں کی تعمیر کے شدت ظلم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاسکتا ہے؟ یہ حکومت روزانہ فلسطینیوں کے گھروں کو ویران اور ان کے باغات اور کھیتوں کو نیست و نابود کر رہی ہے لیکن اس کے بااثر اتحادی یا کم از کم بظاہر آزاد بین الاقوامی ادارے موثر انداز میں اور سنجیدہ طور اس کی مذمت بھی نہیں کرتے حتی فلسطینیوں کو اپنا ساز و سامان دوسری جگہ منتقل کرنے اور غلہ جات کو اکٹھا کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی اور یہ سب کچھ وہ ان دہشت زدہ ، سہمی اور روتی ہوئي خواتین اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیتی ہے کہ جو اپنے گھرانے کے افراد کو زد وکوب ہوتا ہوا اور بعض اوقات ان کو خوفناک ٹارچر سیلوں میں منتقل کئے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیا آج کی دنیا میں آپ کو کوئی اور ایسا ظلم نظر آتا ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر یا اتنے زیادہ عرصے تک کیا گيا ہو؟ سڑک کے درمیان میں ایک ایسی خاتون کو گولی مار دی جائے جس کا جرم صرف یہ ہو کہ اس نے سر سے پاؤں تک مسلح فوجی کے خلاف احتجاج کیا ہے تو یہ دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس بربریت کا ارتکاب چونکہ ایک قابض حکومت کے فوجی کرتے ہیں تو کیا اسے دہشت گردی نہیں کہنا چاہئے؟ یا یہ تصاویر صرف اس لئے ہمارے ضمیر کو بیدار نہیں کرتیں کہ چونکہ ساٹھ برسوں کے دوران بارہا ان کو ٹیلی ویژن سے دیکھا جا چکا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا پر کئے جانے والے متعدد حملے بھی ، کہ جن کے دوران بے شمار جانی نقصان ہوا، یورپ کی متضاد منطق کا ایک اور نمونہ ہے۔ جن ممالک پر یلغارکی گئی ہے ان کو جہاں انسانی جانوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں وہ اپنی بنیادی اقتصادی اور صنعتی تنصیبات سے بھی محروم ہوچکے ہیں، ان کی ترقی و پیشرفت کا سفر یا تو رک چکا ہے یا اس کی رفتار کم ہوگئي ہے اور موارد میں وہ دسیوں سال پيچھے چلے گئے ہیں۔ اس کے باوجود نہایت گستاخانہ انداز میں ان سے کہا جاتا ہےکہ وہ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ ایسا کیسے ہوسکتاہے کہ کسی ملک کو ویرانے میں تبدیل کردیا جائے، اس کے شہروں اور دیہاتوں کو کھنڈرات میں بدل دیاجائے اور پھر ان سے کہا جائے کہ برائے مہربانی آپ لوگ اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھیں۔ کیا انہیں اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھنے یا المناک واقعات کو بھلا دینے کی تلقین کرنےکے بجائے ان سے سچے دل سے معافی مانگنا بہتر نہیں ہے؟ حالیہ برسوں کے دوران اسلامی دنیا کو جارحین کے بناوٹی چہروں اور منافقت سے جس الم و رنج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ مادّی نقصانات سے کم نہیں ہے۔
اے عزیز جوانو! مجھےامید ہے کہ آپ لوگ موجودہ اور آنے والے زمانے میں جھوٹ سے آلودہ اس ذہنیت کو بدل دیں گے وہ ذہنیت کہ جس کا بڑا فن دور رس مقاصد کو چھپانا اور نقصان دہ اغراض و مقاصد کی آرائش کرنا ہے۔ میرے نزدیک امن و امان کی برقراری کا پہلا مرحلہ تشدد پیدا کرنے والی اس فکر کو بدلنے سے عبارت ہے۔ یورپ کی پالیسی پر جب تک دوہرے معیارات چھائے رہیں گے اور جب تک دہشت گردی کے طاقتور حامی اسے اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرتے رہے گے اور جب تک حکومتوں کے مفادات کو انسانی اور اخلاقی اقدار پر ترجیح دی جاتی رہے گی تب تک تشدد کا سبب کسی اور چیز میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔
افسوس کہ برسہا برس سے یہ علل و اسباب تدریجا یورپ کی ثقافتی پالیسیوں میں بھی رسوخ کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک نرم اور خاموش یلغار شروع کر رکھی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی مقامی اور قومی ثقافت پر فخر کرتے ہیں۔ ایسی ثقافتیں کہ جو ثمر کا حامل اور بالیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیکڑوں برسوں سے انسانی معاشروں کی بطریق احسن پرورش کر رہی ہیں۔ اسلامی دنیا بھی اس امر سے مستثنی نہیں ہے۔ لیکن عصر حاضر میں یورپی دنیا جدید ترین آلات کا سہارا لے کر پوری دنیا پر ایک جیسی ثقافت اور کلچر مسلط کرنے کے درپے ہے۔ میں مغربی ثقافت کو دوسری قوموں پر مسلط کرنے اور آزاد ثقافتوں کو حقیر سمجھنے کو ایک خاموش اور بہت ہی نقصان دہ تشدد سمجھتا ہوں۔ ایسی حالتوں میں مالا مال ثقافتوں کو حقیر سمجھا جا رہا ہے اور ان کے قابل احترام ارکان کی توہین کی جا رہی ہے کہ جب ان کی متبادل ثقافتوں میں ان ثفافتوں کی جگہ لینے کی اہلیت نہیں ہے۔ مثلا جارحانہ رویہ اور اخلاقی بے راہ روی پر مبنی دو عوامل کی وجہ سے ، کہ جو یورپی ثقافت کے دو بنیادی ترکیبی عناصر میں تبدیل ہو چکے ہیں، اس ثقافت کا مقام خود اپنے اصلی مقام میں بھی گھٹ کر رہ گیا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم معنویت سے عاری، جنگ پسند اور فحش ثقافت کو تسلیم نہ کریں تو کیا ہم گناہ گار ہیں؟ اگر ہم فن و ہنر کے نام پر مختلف اشیاء کی صورت میں اپنے جوانوں کے طرف امنڈ کر آنے والے تباہ کن سیلاب کی روک تھام کریں تو کیا ہم قصور وار ہیں؟ میں ثقافتی رابطوں کی اہمیت کا انکار نہیں کرتا ۔ جب بھی مطلوبہ معاشروں کے احترام کے ساتھ اور طبیعی حالات میں یہ رابطے قائم کئے گئے تو ان کا نتیجہ ترقی و پیشرفت اور بالیدگی کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور اس کے برعکس زبردستی مسلط کئے گئے اور ناموزوں رابطے ناکام اور نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ داعش جیسے پست گروہ درآمد شدہ ثفافتوں کے ساتھ اسی طرح کے ناکام رابطوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر واقعی اعتقاد کے اعتبار سے کوئي مشکل ہوتی تو سامراجی دور سے قبل بھی اسلامی دنیا میں اس طرح کے واقعات پیش آتے حالانکہ تاریخ اس کے خلاف گواہی دے رہی ہے۔ مسلمہ تاریخی حقائق سے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک مسترد کی گئي انتہا پسندانہ فکر کے ساتھ سامراج کے رابطے نے، وہ بھی ایک بدو قبیلے میں، اس خطے میں انتہا پسندی کا بیج بویا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دینے والے دنیا کے سب سے زیادہ انسانی ترین اور اخلاقی ترین دینی مکتب سے داعش جیسی گندگی جنم لے سکے؟
دوسری جانب یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ یورپ میں پیدا ہونے والے اور اسی فکری اور روحانی ماحول میں پرورش پانے والے افراد اس طرح کے گروہوں میں کیوں شامل ہوتے ہیں؟ کیا یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ افراد ایک دو مرتبہ جنگی علاقوں کا دورہ کر کے اس حد تک انتہا پسند بن جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں پرگولیاں برسا دیں؟ یقینا آلودہ اور تشدد کو وجود میں لانے والے ماحول میں عرصۂ دراز تک نامناسب ثقافتی غذا سے پرورش پانے کے اثرات کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کا ایک ایسا جامع جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ جو معاشرے کی آشکارا اور خفیہ گندگیوں کی نشاندہی کر سکے۔
شاید صنعتی اور اقتصادی ترقی کے برسوں کے دوران عدم مساوات اور بعض اوقات قانونی اور اسٹرکچرل امتیازی سلوک کے نتیجے میں مغربی معاشرے کے بعض طبقات میں بوئي جانے والی شدید نفرت کی وجہ سے ایسا کینہ پیدا ہو گیا ہے کہ جو وقتا فوقتا ایک مرض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
بہرحال یہ اب آپ لوگ ہیں کہ جنہیں معاشرے کے اس ظاہری خول کو اتار پھینکنا ہے اور دشمنی اور کینے کا پتہ لگا کر اسے ختم کریں۔ شگافوں کو گہرا کرنےکے بجائے پر کرنا ہے۔ دہشت گردی سے مقابلے کے سلسلے میں سب سے بڑی غلطی عجلت پر مبنی وہ رد عمل ہے کہ جو موجودہ مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں تشکیل پانے والے مسلمان معاشرے کو، کہ جو کئي ملین سرگرم اور فرض شناس انسانوں پر مشتمل ہے ، تنہائی اور اضطراب میں مبتلا کرنے پر منتج ہونے والا ہر ایسا اقدام جو جذبات کی رو میں بہہ کر اور عجلت پسندی سے کام لے کر انجام دیا گيا ہو اور جو اس معاشرے کو اضطراب ، تنزلی اور خوف و ہراس میں مبتلا کردے اور پہلے سے زیادہ انہیں ان کے اصلی حقوق سے محروم کر دے اور انہیں میدان عمل سے دور کردے۔ اس سے نہ صرف مشکل حل نہیں ہوگی بلکہ اس سے فاصلے مزید بڑھیں گے اور کدورتوں میں وسعت آئے گی۔ سطحی تدابیر اور رد عمل میں انجام دیئے جانےوالے اقدامات کا ، خاص کر اگر ان کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے، سوائے موجودہ دھڑے بندیوں میں اضافہ کرنے اور آئندہ بحرانوں کا راستہ ہموار کرنے پر منتج ہونے کے علاوہ کوئي اور نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق بعض یورپی ممالک میں ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جو شہریوں کو مسلمانوں کی جاسوسی پر اکساتے ہیں۔ یہ ظالمانہ رویہ ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم لامحالہ ظالم کی طرف پلٹنے کی خصوصیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان اس ناقدری کے سزاوار بھی نہیں ہیں۔ مغربی دنیا صدیوں سے مسلمانوں کو بہت اچھی طرح پہنچانتی ہے۔ اس دن سے کہ جب یورپ والے اسلامی سرزمینوں میں مہمان تھے اور ان کی نظریں میزبانوں کی دولت پر جمی ہوئي تھیں۔ اور اس دن بھی کہ جب وہ میزبان تھے انہوں نے مسلمانوں کے کام اور ان کے افکار سے فائدہ اٹھایا ان کو مسلمانوں میں مہربانی اور صبر کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ بنابریں میں آپ جوانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ آپ لوگ درست شناخت اور غور و خوض کی بنیاد پر اور تلخ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی دنیا کے ساتھ عزت پر مبنی اور صحیح اشتراک عمل کی بنیاد رکھنے کی تیاری کریں۔ اس صورت میں وہ دن دور نہیں کہ آپ لوگ یہ دیکھ لیں گے کہ آپ جن بنیادوں پر اس عمارت کو استوار کریں گے وہ اپنے معماروں کے سروں پر اطمینان اور اعتماد کا سایہ کرے گی، ان کو امن و سکون کی گرماہٹ کا تحفہ دے گی اور صحفہ ہستی میں تابناک مستقبل کی امید کی کرن روشن کرے گی۔
سید علی خامنہ ای
8 آذر 1394
بمطابق ۲۹ نومبر ۲۰۱۵ عیسوی
امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ
اطلاعات کے مطابق امریکا کے کئی شہروں میں نسل پرستانہ اقدامات کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ان مظاہروں میں پولیس کی مداخلت کی وجہ سے تشدد پھوٹ پڑا۔
نیویارک پولیس نے بدھ کی رات شکاگو اور منیا پولیس میں ہونے والے مظاہرے کی حمایت اور نسل پرستی کی مذمت کرنے والے کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق نیویارک پولیس نے ان افراد کے علاوہ بھی دسیوں دیگر افراد کو گرفتار کیا ہے۔
ادھر شکاگو میں حالات کشیدہ مگر کنٹرول میں بتائے گئے ہیں۔ پولیس نے بدھ کے روز ایک ویڈیو فلم نشر کی تھی۔ اس ویڈیو فلم میں گزشتہ سال اکتوبر میں شکاگو میں ایک سترہ سالہ سیاہ فام لیکوان مک ڈونالڈ پر فائرنگ کا واقعہ دکھایا گیا ہے جس میں مک ڈونالڈ کو سولہ گولیاں لگیں۔ اس پرعوام نے سخت رد عمل کا اظہار اور احتجاج کیا۔
امریکی پولیس کے ایک سفید فام پولیس افسر جیسون وان ڈائک پر لیکوان مک ڈونالڈ کو جان بوجھ کر قتل کرنے کا الزام ہے۔ ویڈیو فلم میں ایک سفید فام پولیس افسر اس کے باوجود کہ ایک سیاہ فام نوجوان اس کی فائرنگ سے ہلاک ہوچکا ہے پھر بھی وہ افسر سیاہ فام نوجوان پرفائرنگ کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ فائرنگ کرنے والا یہ پولیس افسر قتل کے الزام میں جیل میں ہے۔
سیاہ فام نوجوان کے قتل کی ویڈیو فلم نشر ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس نے بھی رد عمل ظاہر کیا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے اس ویڈیو پر جس میں ایک سفید فام پولیس افسرایک سیاہ فام نوجوان کو سولہ گولیاں مارکر ہلاک کرتا ہے، افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ادھر منیسوٹا ریاست کے شہر منیا پولیس میں بھی مظاہرین ایک اور سیاہ فام امریکی شہری جے کلارک کے قتل کی ویڈیو فلم نشر کئے جانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جے کلارک کو ایسی حالت میں فائرنگ کرکے قتل کیا گیا تھا کہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ امریکا میں حالیہ مہینوں میں عوام نے متعدد بار نسل پرستانہ اورامتیازی سلوک اور سیاہ فام افراد کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی سے بولیویا کے صدر ایوو مورالس کی ملاقات
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بولیویا کے صدر اوو مورالیس سے ملاقات میں بولیویا اور لاطینی امریکا کے بعض دیگر ممالک کی استکبار کی دھونس اور دھمکیوں کے مقابلے میں جاذب نظر اور شجاعانہ استقامت کی قدردانی اور دنیا اور جنوبی امریکہ میں جوانوں کی ماہیت کو تبدیل کرنے کے لئے امریکہ کی خطرناک سیاست پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ مضبوط ارادوں اور تعلقات اور تعاون میں اضافے کے زریعے اس تسلط پسندانہ سیاست کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مستکبر امریکا کی توسیع پسندی کے مقابلے میں استقامت کو بولیویا اور صدر مورالس کا نہایت اہم بلکہ تیل کی صنعت کو قومیانے سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران پہلا ملک تھا جو امام خمینی کی خود مختار عوامی تحریک کے ذریعے امریکی تسلط سے پوری طرح باہر نکل آیا اور اس نے مشرق و مغرب کی سامراجی قوتوں اور ان کے انواع و اقسام کے عسکری، اقتصادی اور سیکورٹی دباؤ کے سامنے مزاحمت کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران ہر اس قوت کی حمایت کرتا ہے کہ جو دنیا میں کہیں بھی تسلط پسندی اور منہ زوری کا مقابلہ کررہی ہے۔
آپ نے بولیویا کے پاس موجود وسیع وسائل اور صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ توانائیاں، اور اسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان روابط اور تعاون کے مختلف امکانات، ملتوں کے مفادات میں اور سامراجی قوتوں کے مدمقابل استقامت میں مددگار واقع ہو سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیاسی خود مختاری اور اقتصادی خود کفالت کے لئے بولیویا کی معاشی ترقی کی کوششوں کو لازمی اور گراں قدر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ عملی (ہارڈویئر کے) میدان میں ترقی و پیشرفت کے ساتھ ساتھ فکری اور نظری (سافٹ ویئر کے) میدان میں بھی پیشرفت کے لئے توجہ کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دنیا اور اسی طرح لاطینی امریکا کے خطے میں جدید مواصلاتی ذرائع کی مدد سے مقامی افراد اور نوجوانوں کی سوچ اور ماہیت کو دگرگوں کر دینے کی امریکی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر امریکی اپنی اس پالیسی میں کامیاب ہو جائیں اور نوجوانوں کی فکر کو امریکی فکر میں تبدیل کر دیں تو پھر وہ کسی فوجی بغاوت اور مسلحانہ کارروائی اور سخت اقدامات کے بغیر ہی ملکوں پر مسلط ہوجائیں گے۔
آپ نے مقامی تشخص کو تقویت پہنچانا اور نوجوانوں کو اقدار سے روشناس کرانے کو امریکی سازش کے مقابلے کا موثر طریقہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خداوند متعال پر توکل کرتے ہوئے اور مضبوط ارادوں کے زریعے ان جنگوں کو جیتا جا سکتا ہے۔
اس ملاقات میں بولیویا کے صدر ایوو مورالس نے رہبر انقلاب اسلامی سے اپنی ملاقات پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جناب عالی کو تمام خود مختار انقلابی تحریکوں اور خاص طور پر لاطینی امریکا کے انقلابات کا قائد اور باپ سمجھتے ہیں اور ہم نے آپ کی قیمتی، امید افزا اور سبق آموز باتوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
صدر مورالس نے امریکی مداخلتوں کو مشکلات کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں نے عہدہ سنبھالتے ہی ایران سے تعلقات کی بابت امریکیوں کی وارننگ کے جواب میں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں اور دوسرے ملکوں سے روابط قائم کرنے کے لئے ہم کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
بولیویا کے صدر نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ ہم نے امریکیوں کو کبھی باج دیا ہے اور نہ دیں گے کہا کہ بولیویا کی تیل کی صنعت کو قومیا کر ہم نے اپنی خود مختاری اور آزاد ہونے کو ثابت کردیا ہے اور مغرب کی کئی سالوں پر مشتمل جارحیتوں کے سلسلے کو بھی ختم کردیا ہے۔
ایوو مورالس نے خود مختاری حاصل کرنے کے بعد ملک میں ہونے والی ترقی اور خدمات کو مغرب پر انحصار کے زمانے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بتاتے ہوئے اور سیاسی خود مختاری کے زیر سایہ اقتصادی خود انحصاری کے حصول کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج بولیویا کی جی ڈی پی 36 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جو اغیار پر انحصار کے دور کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔
بولیویا کے صدر نے سائنس و ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں میں ایران کے اہم تجربات اور وسیع صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور بولیویا دو تاریخی، ثقافتی اور عوامی اتحادی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ مختلف میدانوں میں دو طرفہ روابط کو اور فروغ ملے گا۔
ایوو مورالس نے کہا کہ بولیویا اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی ہمیشہ تعریف کرتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران ثابت قدمی سے اپنے راستے پر رواں دواں رہے گا۔
بولیویا کے صدر نے کہا کہ ایران جیسے انقلابی اور مزاحمتی ملکوں سے وسیع تعاون اور تعلقات کے زیر سایہ بولیویا بھی استقامت، استحکام اور توانائیوں سے آراستہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی سے عراق کے صدر فواد معصوم کی ملاقات
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے صبح عراق کے صدر فواد معصوم اور انکے ہمراہ آنے والے وفد سے ملاقات کے دوران ایران اور عراق کے باہمی تعلق کی گہرائی کو با سابقہ، تاریخی اور ایک خطے میں دو ہمسایہ ممالک کے تعلقات سے بھی زیادہ گہرا قرار دیا اور عراق میں ملی وحدت کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت عراق ایک عظیم اور قدیمی تاریخ کی حامل ملت ہے کہ جہاں ذہین اور با صلاحیت نوجوانوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور عراق کو اسکے شائستہ مقام تک پہنچانے کے لئے ان نوجوانوں کی استعداد سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہئے۔
آپ نے اغیار کی شہ پر صدام کی جانب سے ۸ سالہ مسلط کردہ جنگ کے باوجود ایران اور عراق کے درمیان گہرے، صمیمانہ اور برادرانہ تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے ایک حیرت انگیز بات قرار دیا اور فرمایا کہ اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر پیدل سفر کرنے کی رسم دوستانہ تعلقات کا ایک نمونہ ہے اس طرح کہ عراق کے عوام اس موقع پر ایرانی زائرین کی پذیرائی کرنے کے لئے اپنی محبت اور انفاق میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور عراق کے اعلی حکام کو چاہئے کہ وہ ان دو ممالک کے مفادات کی خاطراس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عراق میں داعش کے فتنے پر نسبتا غلبہ پانے اور گذشتہ دنوں حاصل ہونے والی کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کیا اور عراق میں موجودہ ملی وحدت کی حفاظت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ عراق کی موجودہ حکومت کے اسٹرکچر میں صدر کو خاص اور اہم مقام حاصل ہے اور یہ منصب اختلافات میں کمی اور وحدت و اتحاد کو فروغ دینے میں خاطر خواہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
آپ نے بعض خارجی عناصر کی جانب سے عراق میں اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عراقی عوام چاہے شیعہ ہوں یا سنی، کرد ہوں یا عرب کئی صدیوں سے بغیر کسی مشکل کے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خطے کے بعض ممالک اور اسی طرح اغیار ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے اور ہر اس کام سے پرہیز کرنا چاہئے جس کی وجہ سے اختلافات میں اضافہ ہو۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اختلافات میں شدت اور ان اختلافات کے عمومی سطح تک پہنچنے کو اغیار کی مداخلت اور دراندزی کے لئے زمینہ فراہم کرنے سے تعبیر کرتے ہوئےفرمایا کہ ایسا ماحول نہ بننے دیا جائے جس کی وجہ سے امریکی علی الاعلان عراق کی تقسیم کی بات کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ کیوں عراق جیسے بزرگ ممالک کہ جو ثروت اور ہزارھا سالہ تاریخ کے حامل ہیں انکے ٹکڑے کرکے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں بانٹ دیا جائے، تاکہ وہاں ہمیشہ اختلافات اور جنگ چلتی رہے۔
آپ نے فرمایا کہ قطعا عراقی حکام اپنے خارجہ تعلقات اور امریکہ سے بھی اپنے تعلقات کو اپنے ملک اور عوام کے منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کریں گے۔لیکن امریکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ عراق کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کریں اور جو بولنا چاہیں بولیں اور جو اقدام کرنا چاہیں انجام دیں۔
رہبر انقلاب نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ آج عراق اپنی عظیم ملت اور اسی طرح اپنے با صلاحیت اور ذہین نوجوانوں کی وجہ سے ماضی کے عراق سے بالکل مختلف ہے فرمایا کہ عراقی نوجوان اب بیدار ہوچکے ہیں اور اپنی قدرت و طاقت سے انہوں نے استفادہ کرنا شروع کیا ہے اور ایسے نوجوان کبھی بھی امریکہ کے زیر اثر نہیں آئیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عراق داعش کے مقابلے میں عراق کی عوامی رضاکار فورس کو عراقی جوانوں کی بیداری اور قدرت کا روشن مصداق قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ عراق کو اس کے اصل اور شائستہ مقام پر پہنچانے کے لئے عراقی جوانوں کی ظرفیت اور توانائی سے پہلے سے زیادہ استفادہ کیا جانا چاہئے۔
آپ نے علمی، سائنسی اور دفاعی ٹیکنالوجیز اور تجربات کی عراق منتقلی کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کی ہمہ جانبہ آمادگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سلسلے میں کوشش کی جانی چاہئے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی سطح میں اضافہ ہوسکے۔
اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ عراق کے صدر فواد معصوم نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات پر بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے عراقی عوام اور اعلی حکام کے درمیان ایک مجتہد اور مرجع تقلید کے عنوان سے حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت اور گفتگو کے اثر و رسوخ اور احترام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں وحدت کے قیام اور ہر طرح کے اختلافات سے پرہیز کے سلسلے میں آپ کی نصیحتیں قطعا اثرگذار ہوں گی۔
عراق کے صدر نے داعش کے عراق پر حملے اور سخت ترین حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے عراق کی مدد کئے جانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اور عراق اور ایران کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی اقداروں میں اشتراک پائے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پہلے سے زیادہ فروغ اور مختلف میدانوں میں ایران کی توانائیوں اور تجربات سے استفادے کے خواہاں ہیں۔
صدر فواد معصوم نے عراق کی موجودہ صورتحال اور داخلی وحدت اور ہماہنگی کو پہلے سے زیادہ بہتر قرار دیتے ہوئے کہا کہ داعش سے مقابلے میں بہت زیادہ توفیقات ہمارے شامل حال ہوئی ہیں اور فوج، عوامی رضاکار فورس اور کرد پیشمرگہ کی باہمی ہماہنگی داعش پر کاری وار ثابت ہوئی ہے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
