Super User

Super User

(( ۔۔۔کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔ [1]

”۔۔۔ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

نیکیوں سے مزین ھونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰھی حقائق (اخلاقی حسنات )اور عملی واقعیات ( احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ھے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ھے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پالیتا ھے، جس کے ذریعہ سے انسان بھترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنالیتا ھے۔

الٰھی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ھیں،اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ھیں، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ھیں۔

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جھل و غفلت غرور و تکبر ،بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ھے ، جس کی وجہ سے وہ گناھوں میں غرق ھوتا چلا جاتا ھے، جو انسان کی ھمیشگی ھلاکت کے باعث ھیں، انھیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ھوجاتی ھے۔

اخلاقی برائیاں ،بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ھیں، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ھیں، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ھیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ھوجاتی ھے۔

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ھمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰھی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاھر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

(( وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[2]

”اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ھماری آیت وں پر ایمان رکھتے ھیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم ۔۔۔تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

اھل ہدایت و صاحب فلاح

(( الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھم یُنفِقُونَ۔ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ھم یُوقِنُونَ۔ اٴُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔[3]

”جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ھیں ۔پابندی سے پورے اھتمام کے ساتھ نماز ادا کر تے ھیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ھیں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ھیں جنھیں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل کیا ھے اور جو آپ سے پھلے نازل کی گئی ھیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ھیں۔یھی وہ لوگ ھیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ھیں اور یھی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ھیں“۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ھوتے ھیں:

۱۔ غیب پر ایمان ۔

۲۔ نماز قائم کرنا۔

۳۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

۴۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

۵۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ھیں جن کو ظاھری حواس سے درک نھیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ نھیں درک کیا جاسکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کھا جاتا ھے۔

غیب ، ان حقائق کو کھتے ھیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جاسکتا ھے،جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ھے، ان کا بیان کرنا انبیاء ، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ھے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاھر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون  اور قلبی اطمینان حاصل ھوتا ھے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کے احکام کے پابند ھوجاتے ھیں۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقویٰ پیدا ھوتا ھے، اس میں عدالت پیدا ھوتی ھے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ھوتی ھیں، یھی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ھے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ھونے کا راستہ ھموار ھوتا ھے۔

کتاب خدا ،قرآن مجید جو احسن الحدیث ، اصدق قول اور بھترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ھے،جس کے وحی ھونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ نھیں ھے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ھے کہ قرآن کتاب خدا ھے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک نھیں رھتا، قرآن کریم کی بھت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ھیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت اھم احادیث بیان ھوئی ھیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ھے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ھے، اس کا شریک اس کی ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ھے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتیجہ بتایا ھے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ھے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ھے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ھونے کو باطل قرار دیا ھے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ھے کہ ”یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ھیں“ اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ھے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ھے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ھے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ھوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوھام کے پردوں کو ہٹادیا ھے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ھے ، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ھے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود نھیں ھے:

(( ۔۔۔ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ۔۔۔))۔[4]

”۔۔۔ کیا تمھیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ھے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ھے اور تمھیں اس لئے بلاتا ھے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے۔۔“۔

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))۔[5]

”اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ھے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ھیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ھمسر اور مثل نہ بناوٴ“۔

جی ھاں! اس نے ھمیں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمھاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمھارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ھوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام نھیں ھے تو پھر کس کا کام ھے؟

اگر کوئی کھتا ھے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ”تصادف“(یعنی اتفاقی) ھے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ھے؟ اگر کھا گیاکہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ھوگئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پھلے سے موجود نھیں تھیں جو خود بخود وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ھے وہ خود بخود وجود میں آجائیں اس کے کوئی معنی نھیں ھیں، پس معلوم ھوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ”اللہ تعالیٰ“ ھے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ھے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ھے، لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقویٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

(( اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون))۔[6]

”۔۔۔تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ“۔

مفضل بن عمر کوفی کھتے ھیں: مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پھلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ھے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ھيں اور اپنا کام انجام دے رھی ھيں۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پھاڑوں کے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکےں۔

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جھاں ھر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پرھے جو اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ھے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ھے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جو خود اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ھی ھے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ھے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ھے!

مفضل کھتے ھیں: معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ھوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند ،سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ھوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ھے او رجھاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ھے اس کو کوئی تکلیف نھیں ھوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ نھیں ھے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ھے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ھوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ھوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کرپاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ھوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے۔

اگر سورج غروب نہ ھوتا اور رات کا وجود نہ ھوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ھوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ھوتی، ھاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کرپاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ھمیشہ دن ھوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ھمیشہ کام میں لگارھتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بھت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ھیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ھو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ھوجاتے!

اگر رات نہ ھوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ھوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رھتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایاجاتا ھے تاکہ اھل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ھوجائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ھیں تاکہ آرام کرلیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضدھیں دونوں ھی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ھیں۔

اے مفضل! غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ھیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ھے اکثر آباد زمین پر دن ۱۵/ گھنٹے سے زیادہ نھیں ھوتا اگر دن سو یا دوسو گھنٹے کا ھوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ھوئے ھلاک ھوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ھوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ھوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل نھیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ھلاک ھوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ھوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ھوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ھوگا کہ بھت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جھاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ھو تو وہ بر باد ھوجایا کرتی ھیں۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت او رگرمی مخفی ھوجاتی ھے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ھو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ھیں، بارش ھوتی ھے،جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ھوتے ھیں، فصل بھار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ھوتی ھے اور آہستہ آہستہ ظاھر ھوتے ھیں، کلیاں کھلنے لگتی ھیں، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ھیں،گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بھت سے پھل پکنے لگتے ھیں، حیوانات کے جسم میں بڑھی ھوئی رطوبت جذب ھوتی ھے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ھوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، فصل پائیز میں ھوا صاف ھوتی ھے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ھوجائیں اور بدن صحیح و سالم ھوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاھے تو گفتگو طولانی ھوجائے گی!

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ھے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ھوتی ھے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ھوتا تونور کی بھت سی جھتوں سے استفادہ نہ ھوتا، پھاڑ،دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ھوجاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاھتا ھے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ھے کہ اگر صبح کے وقت کھیں سورج کی روشنی نھیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وھاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ھے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ھوسکے، پس معلوم ھوا کہ کوئی جگہ ایسی نھیں ھے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ھے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ھوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ھوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ھے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ھے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، بھت سے لوگ وقت نہ ھونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ھوتے ھیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ھیں ان کو روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ھے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے رھیں۔

ستاروں کی دو قسم ھوتی ھیں، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ھیں، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ھیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ھیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں ھوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ھیں: ایک عمودی حرکت ھوتی ھے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ھے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ھوتی ھے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ھوتی ھے، جیسے اگر ایک چیونٹی چکّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چکّی داہنی جانب چلتی ھے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ھوتی ھيں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چکّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ھیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ھیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ھے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ھوتی تو یا سب ساکن ھوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ھوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ھوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے کھیں زیادہ ھے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ھے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں نھیں ھے ، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ھے کہ ھم ان کی حرکت کو درک نھیں کرسکتے، اور نہ ھی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ھے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ھوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنکھیں نابینا ھوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ھے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ھوسکتی ھے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ھوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ھوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنکھیں پریشان ھوجاتی ھيں اور کچھ دکھائی نھیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ھوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ھوسکے ، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ھے کہ یہ خود بخود بن گئی ھے، اور کسی نے اس کو نھیں بنایا ھے اور کسی نے منظم نھیں کیا ھے، یہ بات واضح ھے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ھے کہ ایک ماھر اور ھوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ھے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے تو پھر کس طرح ممکن ھے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی نھیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو نھیں پہچان سکتا؟[7]

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ھے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ھے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ھے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ھے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر نھیں ھے، اور یھی معرفت کاحق ھے۔[8]

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ھے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ھے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک نھیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ھے، اور یہ تمام موجوات فنا ھونے والی ھیں لیکن اس کی ذات باقی ھے ، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ھوتا ھے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے، وھی اول ھے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعالیٰ“ کھا گیا ھے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ھوا ھے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ھیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیکھیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ھے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ "Telescop"وغیرہ کے ذریعہ کشف ھونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ھیں ان ھی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“"Molecule" (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیکھیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم نھیں ھے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ھیں۔

 

Saturday, 25 April 2015 10:29

سوره المزمل

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
(1) اے میرے چادر لپیٹنے والے

﴿2﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
(2) رات کو اٹھو مگر ذرا کم

﴿3﴾ نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا 
(3) آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو

﴿4﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
(4) یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو

﴿5﴾ إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا 
(5) ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نازل کرنے والے ہیں

﴿6﴾ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْءًا وَأَقْوَمُ قِيلًا 
(6) بیشک رات کا اُٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے

﴿7﴾ إِنَّ لَكَ فِي اَلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا 
(7) یقینا آپ کے لئے دن میں بہت سے مشغولیات ہیں

﴿8﴾  وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
(8) اور آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کریں اور اسی کے ہو رہیں

﴿9﴾ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا
(9) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا آپ اسی کو اپنا نگراں بنالیں

﴿10﴾ وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا
(10) اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں

﴿11﴾ وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا 
(11) اور ہمیں اور ان دولت مند جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیں

﴿12﴾ إِنَّ لَدَيْنَا أَنكَالًا وَجَحِيمًا
(12) ہمارے پاس ان کے لئے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے

﴿13﴾ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا 
(13) اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے

﴿14﴾ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا
(14) جس دن زمین اور پہاڑ لرزہ میں آجائیں گے اور پہاڑ ریت کا ایک ٹیلہ بن جائیں گے

﴿15﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا 
(15) بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بناکر ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا

﴿16﴾ فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا
(16) تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا

﴿17﴾ فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا
(17) پھر تم بھی کفر اختیار کرو گے تو اس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا

﴿18﴾ السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا 
(18) جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہونے والا ہے

﴿19﴾ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا

(19) یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے

﴿20﴾ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(20) آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائےں گے اور بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاﺅگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔ اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے

 

فلسطین الآن کی رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے غزہ پٹی کے شہریوں کو مسجد الاقصی میں نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مقبوضہ فلسطین میں داخل نہیں ہونے دیا- اس رپورٹ کے مطابق صیہونیوں نے دعوی کیا کہ انھوں نے یہ اقدام غزہ سے تل ابیب کے اڈوں پر فائر کئے جانے والے راکٹ حملے پر احتجاج میں انجام دیا ہے- صیہونی عہدیدار یواف مردخای نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے دو سو شہری نماز جمعہ میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی- صیہونیوں کا یہ اقدام ایسے عالم میں انجام پایا ہے کہ فلسطینی استقامتی گروہوں نے صیہونیوں کے ٹھکانوں پر میزائل یا راکٹ فائر کرنے سے متعلق صیہونیوں کے الزام کو مسترد کردیا ہے-

 

 

(( لَقَدْ کَانَ فِي قَصَصِهـم عِبْرَةٌ لِاٴُوْلِي الْاٴَلْبَابِ---))[1]

”يقينا ان کے واقعات صاحبان عقل کے لئے عبرت هـيں---“-

ايک نمونہ خاتون - آسيہ ،فرعون کي زوجہ

آسيہ ،فرعون کي زوجہ تهـي، وہ فرعون جس ميں غرور و تکبر کا نشہ بهـرا تهـا، جس کا نفس شرير تهـا اور جس کے عقائد اور اعمال باطل وفاسد تهـے-

قرآن مجيد نے فرعون کو متکبر، ظالم ، ستم گر اور خون بهـانے والے کے عنوان سے ياد کيا هـے اور اس کو ”طاغوت“ کا نام ديا هـے-

آسيہ ، فرعون کے ساتهـ زندگي بسر کرتي تهـي، اور فرعوني حکومت کي ملکہ تهـي، تمام چيزيں اس کے اختيار ميں تهـيں-

وہ بهـي اپنے شوهـر کي طرح فرمانروائي کرتي تهـي، اور اپني مرضي کے مطابق ملکي خزانہ سے فائدہ اٹهـاتي تهـي-

ايسے شوهـر کے ساتهـ زندگي، ايسي حکومت کے ساتهـ ايسے دربار کے اندر، اس قدر مال و دولت، اطاعت گزار غلام او رکنيزوں کے ساتهـ ميں اس کي ايک بهـترين زندگي تهـي-

ايک جوان اور قدرتمند خاتون نے اس ماحول ميں پيغمبر الٰهـي جناب موسي بن عمران کے ذريعہ الٰهـي پيغام سنا، اس نے اپنے شوهـر کے طور طريقے اور اعمال کے باطل هـونے کو سمجهـ ليا، چنانچہ نور حقيقت اس کے دل ميں چمک اٹهـا-

حالانکہ اس کو معلوم تهـا کہ ايمان لانے کي وجہ سے اس کي تمام خوشياں اور مقام و منصب چهـن سکتا هـے يهـاں تک کہ جان بهـي جاسکتي هـے، ليکن اس نے حق کو قبول کرليا اور وہ خداوندمهـربان پر ايمان لے آئي،اور اپنے گزشتہ اعمال سے توبہ کرلي اور نيک اعمال کے ذريعہ اپني آخرت کو آباد کرنے کي فکر ميں لگ گئي-

اس کا توبہ کرنا کوئي آسان کام نهـيں تهـا، اس کي وجہ سے اسے اپنا تمام مال و دولت اور منصب ترک کرنا پڑا، اور فرعون و فرعونيوں کي ملامت ضرب و شتم کو برداشت کرنا پڑا،ليکن پهـر بهـي وہ توبہ ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت کي طرف قدم آگے بڑهـاتي رهـي-

جناب آسيہ کي توبہ ،فرعون اور اس کے درباريوں کو ناگوار گزري، کيونکہ پورے شهـر ميں اس بات کي شهـرت هـوگئي کہ فرعون کي بيوي اور ملکہ نے فرعوني طور طريقہ کو ٹهـکراتے هـوئے مذهـب کليم اللہ کو منتخب کرليا هـے، سمجهـا بجهـاکر، ترغيب دلاکراور ڈرا دهـمکاکر بهـي آسيہ کے بڑهـتے قدم کو نهـيں روکا جاسکتا تهـا، وہ اپنے دل کي آنکهـوں سے حق کو ديکهـ کر قبول کرچکي تهـي، اس نے باطل کے کهـوکهـلے پن کو بهـي اچهـي طرح سمجهـ ليا تهـا، لہٰذا حق و حقيقت تک پہنچنے کے بعد اس کو هـاتهـ سے نهـيں کهـوسکتي تهـي اور کهـوکهـلے باطل کي طرف نهـيں لوٹ سکتي تهـي-

جي هـاں، يہ کيسے هـوسکتا هـے کہ خدا کو فرعون سے، حق کو باطل سے، نور کو ظلمت سے، صحيح کو غلط سے، آخرت کو دنيا سے، بہشت کو دوزخ سے، اورسعادت کو بدبختي سے بدل لے-

جناب آسيہ نے اپنے ايمان، توبہ و استغفار پر استقامت کي ، جبکہ فرعون دوبارہ باطل کي طرف لوٹا نے کے لئے کوشش کررهـا تهـا-

فرعون نے جناب آسيہ سے مقابلہ کي ٹهـان لي، غضبناک هـوا، اس کے غضب کي آگ بهـڑک اٹهـي، ليکن آسيہ کي ثابت قدمي کے مقابلہ ميں هـار گيا، اس نے آسيہ کو شکنجہ دينے کا حکم ديا، اور اس عظيم خاتون کے هـاتهـ پير کو باندهـ ديا، اور سخت سے سخت سزا دينے کے بعد پهـانسي کا حکم ديديا،اس نے اپنے جلادوں کو حکم ديا کہ اس کے اوپر بڑے بڑے پتهـر گرائے جائيں ،ليکن جناب آسيہ نے دنيا و آخرت کي سعادت و خوشبختي حاصل کرنے کے لئے صبر کيا، اور ان تمام سخت حالات ميں خدا سے لَو لگائے رکهـي-

جناب آسيہ کي حقيقي توبہ، ايمان و جهـاد، صبر و استقامت، يقين اور مستحکم عزم کي وجہ سے قرآن مجيد نے ان کو قيامت تک مومن و مومنات کے لئے نمونہ کے طور پر پہنچوايا هـے،تاکہ هـر زمانہ کے گناهـگار کے لئے عذر و بهـانہ کي کوئي گنجائش باقي نہ رہ جائے اور کوئي يہ نہ کہہ دے کہ توبہ، ايمان اور عمل صالح کا کوئي راستہ باقي نهـيں رهـا تهـا-

(( وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذينَ آمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعُوْنَ اِذْقالَتْ رَبِّ ابْنِ لي عِنْدَکَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنيٖ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہِ وَنَجِّني مِنَ الْقَوْمِ الظّالِمينَ))-[2]

”اورخد ا نے ايمان والوں کے لئے فرعون کي زوجہ کي مثال بيان کي کہ اس نے دعا کي کہ پروردگار ميرے لئے جنت ميں ايک گهـر بنادے اور مجهـے فرعون اور اس کے درباريوںسے نجات دلادے اور اس پوري ظالم قوم سے نجات عطا فرمادے “-

توبہ، ايمان، صبر اور استقامت کي بنا پر اس عظيم الشان خاتون کا مرتبہ اس بلندي پر پہنچا هـوا تهـا کہ رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے ان کے بارے ميں فرمايا:

”اِشْتاقَتِ الْجَنَّةُ اِلٰي اَرْبَعٍ مِنَ النِّساءِ :مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرانَ،وَآسِيَةَ بِنْتِ مُزاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ،وَخَديجَةَ بِنْتِ خُوَيْلَدٍزَوْجَةِ النَّبِيِّ فِي الدُّنْيا وَالآخِرَةِ،وَ فاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ:“-[3]

”جنت چار عورتوں کي مشتاق هـے، مريم بنت عمران، آسيہ بنت مزاحم زوجہ فرعون، خديجہ بنت خويلد دنيا و آخرت ميں هـمسر پيغمبر، اور فاطمہ بنت محمد -“

” شعوانہ “کي توبہ

مرحوم ملا احمد نراقي اپني عظيم الشان اخلاقي کتاب ”معراج السعادة“ ميں حقيقي توبہ کے سلسلہ ميں ايک عجيب و غريب واقعہ بيان کرتے هـيں:

شعوانہ ايک جوان رقّاصہ عورت تهـي، جس کي آواز نهـايت سريلي تهـي ، ليکن اس کو حلال و حرام پر کوئي توجہ نهـيں تهـي، شهـر بصرہ کے مالداروں کے يهـاں فسق و فجور کي کوئي ايسي محفل نہ تهـي جس ميں شعوانہ بلائي نہ جاتي هـو، وہ ان محفلوں ميں ناچ گانا کيا کرتي تهـي ، يهـي نهـيں بلکہ اس کے ساتهـ کچهـ لڑکياں اور عورتيں بهـي هـوتي تهـيں-

ايک روز اپنے سهـيليوں کے ساتهـ ايسي هـي محفلوں ميں جانے کے لئے ايک گلي سے گزر رهـي تهـي کہ اچانک ديکهـا کہ ايک گهـر سے نالہ و شيون کي آواز آرهـي هـے، اس نے تعجب کے ساتهـ سوال کيا: يہ کيسا شور هـے؟ اور اپني ايک سهـيلي کو حالات معلوم کرنے کے لئے بهـيج ديا، ليکن بهـت دير انتظار کے بعد بهـي وہ نہ پلٹي، اس نے دوسري سهـيلي کو بهـيجا، ليکن وہ بهـي واپس نہ آئي، تيسري کو بهـي روانہ کيا اور ہدايت کردي کہ جلد لوٹ کر آنا، چنانچہ جب وہ گئي اور تهـوڑي دير بعد لوٹ کر آئي تو اس نے بتايا کہ يہ سب نالہ و شيون بدکار اور گناهـگار افراد کا هـے!

شعوانہ نے کهـا:  ميں خود جاکر ديکهـتي هـوں کيا هـورهـا هـے-

جيسے هـي وہ وهـاں پہنچي اور ديکهـا کہ ايک واعظ لوگوں کو وعظ کررهـے هـيں، اور اس آيہ شريفہ کي تلاوت کررهـے هـيں:

(( إِذَا رَاٴَتْهـم مِنْ مَکَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهـا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا - وَإِذَا اٴُلْقُوا مِنْهـا مَکَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا ہُنَالِکَ ثُبُورًا))-[4]

”جب آتش (دوزخ) ان لوگوں کو دور سے ديکهـے گي تو يہ لوگ اس کے بهـڑکتے هـوئے شعلوں کي آوازيں سنيں گے- اور جب انهـيں زنجيروں ميں جکڑ کر کسي تنگ جگہ ميں ڈال ديا جائے گا تو وهـاں موت کي دهـائي ديں گے“-

جيسے هـي شعوانہ نے اس آيت کو سنا اور اس کے معني پر توجہ کي ، اس نے بهـي ايک چيخ ماري اور کهـا: اے واعظ ! ميں بهـي ايک گناهـگار هـوں، ميرا نامہ اعمال سياہ هـے، ميں بهـي شرمندہ اور پشيمان هـوں، اگر ميں توبہ کروں تو کيا ميري توبہ بارگاہ الٰهـي ميں قبول هـوسکتي هـے؟

واعظ نے کهـا: هـاں، تيرے گناہ بهـي قابل بخشش هـيں، اگرچہ شعوانہ کے برابر هـي کيوں نہ هـوں!

اس نے کهـا: وائے هـو مجهـ پر، ارے ميں هـي تو ”شعوانہ “هـوں ، افسوس کہ ميں کس قدر گناهـوں

سے آلودہ هـوں کہ لوگوں نے مجهـے گناهـگار کي ضرب المثل بناديا هـے!!

اے واعظ! ميں توبہ کرتي هـوں اور اس کے بعد کوئي گناہ نہ کروں گي، اور اپنے دامن کو گناهـوں سے

بچاؤں گي اور گناهـگاروں کي محفل ميں قدم نهـيں رکهـوں گي-

واعظ نے کهـا: خداوندعالم تيري نسبت بهـي ”ارحم الراحمين“ هـے-

واقعاً شعوانہ نے توبہ کرلي، عبادت و بندگي ميں مشغول هـوگئي ،گناهـوں سے پيدا هـوئے گوشت کو

پگهـلاديا، سوز جگر، اور دل کي تڑپ سے آہ و بکا کرتي تهـي : هـائے ! يہ ميري دنيا هـے، تو آخرت کا

کيا عالم هـوگا، ليکن اس نے اپنے دل ميں ايک آواز کا احساس کيا: خدا کي عبادت ميں مشغول رہ، تب

آخرت ميں ديکهـنا کيا هـوتا هـے-

ايک يهـودي نو جوان کي توبہ

حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے هـيں:

 

ايک يهـودي نوجوان اکثر رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کي خدمت ميں آيا کرتا تهـا ، پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  بهـي اس کي آمد و رفت پر کوئي اعتراض نهـيں کيا کرتے تهـے بلکہ بعض اوقات تو اس کو کسي کام کے لئے بهـيج ديا کرتے تهـے، يا اس کے هـاتهـوں قوم يهـود کو خط بهـيج ديا کرتے تهـے-

ليکن ايک مرتبہ وہ چند روز تک نہ آيا، پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس کے بارے ميں سوال کيا، تو ايک شخص نے کهـا: ميں نے اس کو بهـت شديد بيماري کي حالت ميں ديکهـا هـے شايد يہ اس کا آخري دن هـو، يہ سن کر پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  چند اصحاب کے ساتهـ اس کي عيادت کے تشريف لئے گئے، وہ کوئي گفتگو نهـيں کرتا تهـا ليکن جب آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  وهـاں پہنچے تو وہ آپ کا جواب دينے لگا، چنانچہ رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس جوان کو آواز دي، اس جوان نے آنکهـيں کهـولي اور کهـا: لبيک يا ابا القاسم! آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: کهـو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، واني رسول الله“-

جيسے هـي اس نوجوان کي نظر اپنے باپ کي (ترچهـي نگاهـوں) پر پڑي ، وہ کچهـ نہ کہہ سکا، پيغمبر اکرم  نے اس کو دوبارہ شهـادتين کي دعوت دي ، اس مرتبہ بهـي اپنے باپ کي ترچهـي نگاهـوں کو ديکهـ کر خاموش رهـا، رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے تيسري مرتبہ اس کو يهـوديت سے توبہ کرنے اور شهـادتين کو قبول کرنے کي دعوت دي، اس جوان نے ايک بار پهـر اپنے باپ کي چهـرے پر نظر ڈالي، اس وقت پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: اگر تيري مرضي هـے تو شهـادتين قبول کرلے ورنہ خاموش رہ، اس وقت جوان نے اپنے باپ پر توجہ کئے بغير اپني مرضي سے شهـادتين کہہ ديں اور اس دنيا سے رخصت هـوگيا! پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس جوان کے باپ سے فرمايا: اس جوان کے لاشے کو هـمارے حوالے کردو، اور پهـر اپنے اصحاب سے فرمايا: اس کو غسل دو، کفن پہناؤ، اور ميرے پاس لاؤ تاکہ ميں اس پر نماز پڑهـوں، اس کے بعد اس يهـودي کے گهـر سے نکل آئے آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کهـتے جاتے تهـے:  خدايا تيرا شکر هـے کہ آج تو نے ميرے ذريعہ ايک نوجوان کو آتش جہنم سے نجات ديدي![5]

ايک دهـاتي کي بت پرستي سے توبہ

حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے هـيں: حضرت رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کسي جنگ کے لئے تشريف لے جارهـے تهـے ، ايک مقام پر اپنے اصحاب سے فرمايا: راستے ميں ايک شخص ملے گا، جس نے تين دن سے شيطان کي مخالفت پر کمر باندهـ رکهـي هـے، چنانچہ اصحاب ابهـي تهـوڑي هـي دور چلے تهـے کہ اس بيابان ميں ايک شخص کو د يکهـا، اس کا گوشت ہڈيوں سے چهـپکا هـوا تهـا، اس کي آنکهـيں دهـنسي هـوئي تهـيں، اس کے هـونٹ جنگل کي گهـاس کهـانے کي وجہ سے سبز هـوچکے تهـے، جيسے هـي وہ شخص آگے بڑهـا، اس نے رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کے بارے ميں معلوم کيا، اصحاب نے رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا تعارف کرايا، چنانچہ اس شخص نے پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  سے درخواست کي: مجهـے اسلام تعليم فرمائے : تو آپ نے فرمايا: کهـو: ”اشہد ان لا الہ الا الله، و اني رسول الله“-چنانچہ اس نے ان دونوں شهـادتوں کا اقرار کيا، آپ نے فرمايا: پانچوں وقت کي نماز پڑهـنا، ماہ رمضان المبارک ميں روزے رکهـنا، اس نے کهـا: ميں نے قبول کيا، فرمايا: حج کرنا، زکوٰة ادا کرنا، اور غسل جنابت کرنا، اس نے کهـا: ميں نے قبول کيا-

اس کے بعد آگے بڑهـ گئے،وہ بهـي ساتهـ تهـا ليکن اس کا اونٹ پيچهـے رہ گيا، رسول اسلام  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  رک گئے، اور اصحاب اس کي تلاش ميں نکل گئے، لشکر کے آخر ميں ديکهـا کہ اس کے اونٹ کا پير جنگلي چوهـوں کے بِل ميں دهـنس گيا هـے اور اس کي اور اس کے اونٹ کي گردن ٹوٹ گئي هـے، اور دونوں هـي ختم هـوگئے هـيں، چنانچہ يہ خبر آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  تک پہنچي-

جيسے هـي آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کو يہ خبر ملي فوراً حکم ديا، ايک خيمہ لگايا جائے اور اس کو غسل ديا جائے، غسل کے بعد خود آنحضرت خيمہ ميں تشريف لے گئے اور اس کو کفن پہنايا، خيمہ سے باهـر نکلے، اس حال ميں کہ آپ کي پيشاني سے پسينہ ٹپک رهـا تهـا، اور اپنے صحاب سے فرمايا: يہ ديهـاتي شخص بهـوکا اس دنيا سے گيا هـے، يہ وہ شخص تهـا جو ايمان لايا، اور اس نے ايمان کے بعد کسي پر ظلم و ستم نهـيں کيا، اپنے کو گناهـوں سے آلودہ نہ کيا، جنت کي حوريں بہشتي پهـلوں کے ساتهـ اس کي طرف آئيں اور پهـلوں سے اس کا منهـ بهـرديا، ان ميں ايک حور کهـتي تهـي: يا رسول اللہ! مجهـے اس کي زوجہ قرار ديں، دوسري کهـتي تهـي: مجهـے اس کي زوجہ قرار ديں![6]

شقيق بلخي کي توبہ

شقيق ”بلخ“ ايک مالدار شخص کا بيٹا تهـا ،وہ تجارت کے لئے ”روم“جايا کرتا تهـا، اور روم کے شهـروں ميں سير و تفريح کے لئے جايا کرتا تهـا، چنانچہ ايک بار روم کے کسي شهـر ميں بت پرستوں کا پروگرام ديکهـنے کے لئے بت خانہ ميں گيا، ديکهـا کہ بت خانہ کا ايک خادم اپنا سرمنڈوائے هـوئے اور ارغواني لباس پہنے هـوئے خدمت کررهـا هـے، اس سے کهـا: تيرا خدا صاحب علم و حکمت اور زندہ هـے،لہٰذا اسي کي عبادت کر، اور ان بے جان بتوں کي عبادت چهـوڑ دے کيونکہ يہ کوئي نفع يا نقصان نهـيں پہنچاتے- اس خادم نے جواب ديا: اگر انسان کا خدا  زندہ اور صاحب علم هـے تو وہ اس بات کي بهـي قدرت رکهـتا هـے کہ تجهـے تيرے شهـر ميں روزي دے سکے، پهـر تو کيوں مال و دولت حاصل کرنے کے لئے يهـاں آيا هـے اور يهـاں پر اپنے وقت اور پيسوں کو خرچ کرتا هـے؟

شقيق سادهـو کي باتيں سن کر خواب غفلت سے بيدار هـوگئے، اور دنيا پرستي سے کنارہ کشي کرلي، توبہ و استغفار کيا ، چنانچہ اس کا شمار  زمانہ کے بڑے عرفاء ميں هـونے لگا-

کهـتے هـيں: ميں نے ۷۰۰/ دانشورں سے پانچ چيزوں کے بارے ميں سوال کيا، سب نے دنيا کي مذمت کے بارے ميں هـي بتايا: ميں نے پوچهـا عاقل کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا کا عاشق نہ هـو،ميں نے سوال کيا: هـوشيار کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص دنيا (کي دولت) پر مغرور نہ هـو، ميں نے سوال کيا: ثروتمند کون هـے؟ جواب ملا: جو شخص خدا کي عطا پر خوش رهـے، ميں نے معلوم کيا: نادار کون هـے؟ جواب ديا: جو شخص زيادہ طلب کرے، ميں نے پوچهـا: بخيل کون هـے؟ تو سب نے کهـا: جو شخص حق خدا کو غريبوں اور محتاجوں تک نہ پہنچائے-[7]

فرشتے اور توبہ کرنے والوں کے گناہ

سورہ توبہ کي آيات کي تفسير ميں بيان هـوا هـے کہ فرشتے گناهـگار کے گناهـوں کو لوح محفوظ پر پيش کرتے هـيں، ليکن وهـاں پر گناهـوں کے بدلے حسنات اور نيکياں ديکهـتے هـيں، فوراً سجدہ ميں گرجاتے هـيں، اور بارگاہ الٰهـي ميں عرض کرتے هـيں: جو کچهـ اس بندے نے انجام ديا تهـا هـم نے وهـي کچهـ لکهـا تهـا ليکن اب هـم يهـاں وہ نهـيں ديکهـ رهـے هـيں!  جواب آتا هـے: صحيح کهـتے هـو، ليکن ميرا بندہ شرمندہ اور پشيمان هـوگيا اور روتا هـوا گڑگڑاتا هـوا ميرے در پر آگيا، ميں نے اس کے گناهـوں کو بخش ديا اور اس سے درگزر کيا، ميں نے اس پر اپنا لطف و کرم نچهـاور کرديا، ميں ”اکرم الاکرمين“هـوں-[8]

 

 

گناهـگار اور توبہ کي مهـلت

جس وقت شيطان لعنت خدا کا مستحق قرار ديا گيا تو اس نے خداوندعالم سے روز قيامت تک کي مهـلت مانگي، اللہ نے کهـا: ٹهـيک هـے مگر يہ مهـلت لے کر تو کيا کرے گا؟ جواب ديا: پروردگارا ! ميں آخري وقت تک تيرے بندوں سے دور نهـيں هـوں گا، يهـاں تک کہ اس کي روح پرواز کرجائے، آواز آئي: مجهـے اپني عزت و جلال کي قسم ، ميں بهـي اپنے بندوں کے لئے آخري وقت تک درِ توبہ کو بند نهـيں کروں گا-[9]

گناهـگار اور توبہ کي اميد

ايک نيک اور صالح شخص کو ديکهـا گيا کہ بهـت زيادہ گريہ و زاري کررهـا هـے ، لوگوں نے گريہ و زاري کي وجہ پوچهـي؟ تو اس نے کهـا: اگر خداوند عالم مجهـ سے يہ کهـے کہ تجهـے گناهـوں کي وجہ سے گرم حمّام ميں هـميشہ کے لئے قيد کردوں گا ، تو يهـي کافي هـے کہ ميري آنکهـوں کے آنسو خشک نہ هـوں، ليکن کيا کيا جائے کہ اس نے گناهـگاروں کو عذاب جہنم کا مستحق قرار ديا هـے، وہ جہنم جس کي آگ کو ہزار سال بهـڑکايا گيا يهـاں تک کہ وہ سرخ هـوئي، ہزار سال تک اس کو سفيد کيا گيا، اور ہزار سال اس کو پهـونکا گيا يهـاں تک کہ سياہ هـوگئي، تو پهـر ميں اس ميں کيسے رہ سکتا هـوں؟ اس عذاب سے نجات کي اميد صرف خداوندعالم کي بارگاہ ميں توبہ و استغفار اور عذر خواهـي هـے-[10]

ايک سچا آدمي اور توبہ کرنے والا چور

”ابو عمر زجاجي “ايک نيک اور صالح انسان تهـے، موصوف کهـتے هـيں کہ ميري والدہ کا انتقال هـوگيا، ان کي ميراث ميں مجهـے ايک مکان ملا، ميں نے اس مکان کو بيچ ديا اور حج کرنے کے لئے روانہ هـوگيا، جس وقت سر زمين ”نينوا“پر پہنچا تو ايک چور سامنے آيا اور مجهـ سے کهـا: کيا هـے تمهـارے پاس؟

چنانچہ ميرے دل ميں يہ خيال پيدا هـوا کہ سچائي اور صداقت ايک پسنديدہ چيزهـے، جس کا خداوندعالم نے حکم ديا هـے، اچهـا هـے کہ اس چور سے بهـي حقيقت اور سچ بات کهـوں، چنانچہ ميں نے کهـا: ميري تهـيلي ميں پچاس دينار سے زيادہ نهـيں هـے، يہ سن کر اس چور نے کهـا: لاؤ وہ تهـيلي مجهـے دو، ميں نے وہ تهـيلي اس کو ديدي، چنانچہ اس چور نے ان دينار کو گنا اور مجهـے واپس کردئے، ميں نے اس سے کهـا: کيا هـوا؟ اس نے کهـا: ميں تمهـارے پيسے لے جانا چاهـتا تهـا، ليکن تم تو مجهـے لے چلے، اس کے چهـرے پرشرمندگي اور پشيماني کے آثار تهـے، معلوم هـورهـا تهـا کہ اس نے اپنے گزشتہ حالات سے توبہ کرلي هـے،اپنے سواري سے اترا، اور مجهـ سے سوار هـونے کے لئے کهـا: ميں نے کهـا: مجهـے سواري کي کوئي ضرورت نهـيں هـے، ليکن اس نے اصرار کيا ،چنانچہ ميں سوار هـوگيا، وہ پيدل هـي ميرے پيچهـے پيچهـے چل ديا، ميقات پہنچ کر احرام باندهـا، اور مسجد الحرام کي طرف روانہ هـوئے، اس نے حج کے تمام اعمال ميرے ساتهـ انجام دئے، اور وهـيں پر اس دنيا سے رخصت هـوگيا-[11]

ابو بصير کا پڑوسي

ايک پڑوسي کو اپنے دوسرے پڑوسي کا خيال رکهـنا چاہئے، بالکل ايک مهـربان بهـائي کي طرح ، اس کي پريشانيوں ميں مدد کرے، اس کي مشکلوں کو حل کرے، زمانہ کے حوادث ، بگاڑ سدهـار ميں اس کا تعاون کرے، ليکن جناب ابوبصير کا پڑوسي اس طرح نهـيں تهـا، اس کو بني عباس کي حکومت سے بهـت سا پيسہ ملتا تهـا، اسي طرح اس نے بهـت زيادہ دولت حاصل کرلي تهـي- ابوبصير کهـتے هـيں: هـمارے پڑوسي کے يهـاں چند ناچنے گانے والي کنيزيں تهـي، اور هـميشہ لهـو و لعب اور شراب خوري کے محفليں هـوا کرتي تهـيں جس ميں اس کے دوسرے دوست بهـي شريک هـوا کرتے تهـے، ميں چونکہ اهـل بيت عليهـم السلام کي تعليمات کا تربيت يافتہ تهـا، لہٰذا ميں اس کي اس حرکت سے پريشان تهـا، ميرے ذہن ميں پريشاني رهـتي تهـي، ميرے لئے سخت ناگوار تهـا، ميں نے کئي مرتبہ اس سے نرم لہجہ ميں کهـا ليکن اس نے اَن سني کردي اور ميري بات پر کوئي توجہ نہ دي، ليکن ميں نے امر بالمعروف او رنهـي عن المنکر ميں کوئي کوتاهـي نهـيں کي، اچانک ايک دن وہ ميرے پاس آيا اور کهـا: ميں شيطان کے جال ميں پهـنسا هـوا هـوں، اگر آپ ميري حالت اپنے مولا و آقا حضرت امام صادق عليہ السلام سے بيان کرےں شايد وہ توجہ کريں اور ميرے سلسلہ ميں مسيحائي نظر ڈال کر مجهـے اس گندگي، فساد اور بدبختي سے نجات دلائيں-

ابو بصير کهـتے هـيں: ميں نے اس کي باتوں کو سنا، اور قبول کرليا، ايک مدت کے بعد جب ميں مدينہ گيا اور امام صادق عليہ السلام کي خدمت ميں مشرف هـوا اور اس پڑوسي کے حالات امام عليہ السلام کو سنائے اور اس کے سلسلہ ميں اپني پريشاني کو بهـي بيان کيا-

تمام حالات سن کر امام عليہ السلام نے فرمايا: جب تم کوفہ پہنچنا تو وہ شخص تم سے ملنے کے لئے آئے گا، ميري طرف سے اس سے کہنا: اگر اپنے تمام برے کاموں سے کنارہ کشي کرلو، لهـو و لعب کو ترک کردو، اور تمام گناهـوں کو چهـوڑدو تو ميں تمهـاري جنت کا ضامن هـوں-

ابوبصير کهـتے هـيں: جب ميں کوفہ واپس آيا تو دوست و احباء ملنے کے لئے آئے، اور وہ شخص بهـي آيا، کچهـ دير کے بعد جب و ہ جانے لگا تو ميں نے اس سے کهـا: ذرا ٹهــرو ! مجهـے تم سے کچهـ گفتگو کرنا هـے، جب سب لوگ چلے گئے، اور اس کے علاوہ کوئي باقي نہ رهـا، تو ميں نے حضرت امام صادق عليہ السلام کا پيغام اس کو سنايا، اور مزيد کهـا: امام صادق عليہ السلام نے تجهـے سلام کهـلوايا هـے!

چنانچہ اس پڑوسي نے تعجب کے ساتهـ سوال کيا: تمهـيں خدا کي قسم! کيا واقعاً امام صادق عليہ السلام نے مجهـے سلام کهـلوايا هـے اور گناهـوں سے توبہ کرنے کي صورت ميں وہ ميرے لئے جنت کے ضامن هـيں!!  ميں نے قسم کهـائي کہ امام عليہ السلام نے يہ پيغام مع سلام تمهـارے لئے بهـيجا هـے-

اس نے کهـا:  يہ ميرے لئے کافي هـے، چند روز کے بعد مجهـے پيغام بهـجوايا کہ ميں تم سے ملنا چاهـتا هـوں، اس کے گهـر پر گيا دق الباب کيا، وہ دروازہ کے پيچهـے آکر کهـڑا هـوگيا درحاليکہ اس کے بدن پر لباس نهـيں تهـا اور کهـا: اے ابوبصير ! ميرے پاس جو کچهـ بهـي تهـا سب کو ان کے مالکوں تک پہنچاديا هـے، مال حرام سے سبکدوش هـوگيا هـوں،اور ميں نے اپنے تمام گناهـوں سے توبہ کرلي هـے-

ميں نے اس کے لئے لباس کا انتظام کيا، اور کبهـي کبهـي اس سے ملاقات کے لئے جاتا رهـا، اور اگر کوئي مشکل هـوتي تهـي تو اُس کو بهـي حل کرتا رهـا، چنانچہ ايک روز مجهـے پيغام بهـجوايا کہ ميں بيمار هـوگيا هـوں، اس کي عيادت کے لئے گيا، چند روز تک بيمار رهـا، ايک روز مرنے سے پهـلے چند منٹ کے لئے بے هـوش هـوگيا، جيسے هـي هـوش آيا، مسکراتے هـوئے مجهـ سے کهـا: اے ابوبصير امام صادق عليہ السلام نے اپنے وعدہ کو وفا کرديا، اور يہ کہہ کر اس دنيا سے رخصت هـوگيا-

ابو بصير کهـتے هـيں: ميں اس سال حج کے لئے گيا، اعمال حج بجالانے کے بعد زيارت رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اور امام صادق عليہ السلام سے ملاقات کے لئے مدينہ منورہ گيا، اور جب امام عليہ السلام سے ملاقات کے لئے مشرف هـوا تو ميرا ايک پاؤں حجرہ کے اندر تهـا اور ايک پاؤں حجرہ سے باهـر اس وقت حضرت امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اے ابوبصير! هـم نے تمهـارے پڑوسي کے بارے ميں کيا هـوا وعدہ پورا کرديا هـے![12]

شراب خور اور توبہ

مرحوم فيض کاشاني ،جو خود فيض و دانش کا سر چشمہ اور بصيرت کا مرکز تهـے موصوف اپني عظيم الشان کتاب ”محجة البيضاء“ ميں نقل کرتے هـيں:

ايک شراب خوار شخص تهـا جس کے يهـاں گناہ و معصيت کي محفل سجائي جاتي تهـي ،ايک روز اس نے اپنے دوستوں کو شراب خوري اور لهـوو لعب کے لئے دعوت دي اور اپنے غلام کو چار درهـم دئے تاکہ وہ بازار سے کچهـ کهـانے پينے کا سامان خريد لائے-

غلام راستہ ميں چلا جارهـا تهـا کہ اس نے ديکهـا منصور بن عمار کي نششت هـورهـي هـے، سوچا کہ ديکهـوں منصور بن عمار کيا کہہ رهـے هـيں؟ تو اس نے سنا کہ عمار اپنے پاس بيٹهـنے والوں سے کچهـ طلب کررهـے هـيں اور کہہ رهـے هـيں کہ کون هـے جو مجهـے چار درهـم دے تاکہ ميں اس کے لئے چار دعائيں کروں؟ غلام نے سوچا کہ ان معصيت کاروں کےلئے طعام وشراب خريدنے سے بهـتر هـے کہ يہ چار درهـم منصور بن عمار کو ديدوں تاکہ ميرے حق ميں چار دعائيں کرديں-

يہ سوچ کر اس نے وہ چار درهـم منصور کو ديتے هـوئے کهـا:  ميرے حق ميں چار دعائيں کردو، اس وقت منصور نے سوال کيا کہ تمهـاري دعائيں کيا کيا هـيں بيان کرو، اس نے کهـا: پهـلي دعا يہ کرو کہ خدا مجهـے غلامي کي زندگي سے آزاد کردے، دوسري دعا يہ هـے کہ ميرے مالک کو توبہ کي توفيق دے، اور تيسري دعا يہ کہ يہ چار درهـم مجهـے واپس مل جائيں ، اور چوتهـي دعا يہ کہ مجهـے اور ميرے مالک اور اس کے اهـل مجلس کو معاف کردے-

چنانچہ منصور نے يہ چار دعائيں اس کے حق ميں کيں اور وہ غلام خالي هـاتهـ اپنے آقاکے پاس چلا گيا-

اس کے آقا نے کهـا:  کهـاں تهـے؟ غلام نے کهـا:  ميں نے چار درهـم دے کر چار دعائيں خريدي هـيں، تو آقا نے سوال کيا وہ چار دعائيں کيا کيا هـيں کيا بيان تو کر؟ تو غلام نے کهـا: پهـلي دعا يہ تهـي کہ ميں آزاد هـوجاؤں، تو اس کے آقا نے کهـا جاؤ تم راہ خدا ميں آزاد هـو، اس نے کهـا: دوسري دعا يہ تهـي کہ ميرے آقا کو توبہ کي توفيق هـو، اس وقت آقا نے کهـا: ميں توبہ کرتا هـوں، اس نے کهـا: تيسري دعا يہ کہ ان چار درهـم کے بدلے مجهـے چار درهـم مل جائيں، چنانچہ يہ سن کر اس کے آقا نے چار درهـم عنايت کردئے ، ’اس نے کهـا: چوتهـي دعا يہ کہ خدا مجهـے، ميرے مالک او راس کے اهـل محفل کو بخش دے ، يہ سن کر اس کے آقا نے کهـا: جو کچهـ ميرے اختيار ميں تهـا ميں نے اس کو انجام ديا، تيري ، ميري اور اهـل مجلس کي بخشش ميرے هـاتهـ ميں نهـيں هـے-چنانچہ اسي رات اس نے خواب ميں ديکهـا کہ هـاتف غيبي کي آواز آئي کہ اے ميرے بندے!  تو نے اپنے فقر وناداري کے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل کيا،کيا هـم اپنے بے انتهـا کرم کے باوجود اپنے وظيفہ پر عمل نہ کريں، هـم نے تجهـے، تيرے غلام اور تمام اهـل مجلس کو بخش ديا-[13]

 توبہ کے ذريعہ مشکلات کا دور ھونا

”جابر جعفي“ مکتب اھل بيت عليھم السلام کے معتبر ترين راويوں ميں سے تھے، وہ حضرت رسول اکرم سے روايت کرتے ھيں: تين مسافر سفر کرتے ھوئے ايک پھاڑ کي غار ميں پہنچے، وھاں پر عبادت ميں مشغول ھوگئے ، اچانک ايک پتھر اوپر سے لڑھک کر غار کے دھانے پر آلگا اسے ديکھ کر ايسا معلوم ھوتا تھا جيسے وہ دروازہ بند کرنے کے لئے ھي بنايا گيا ھو ، چنانچہ ان لوگوں کو وھاں سے نکلنے کا کوئي راستہ دکھائي  نہ ديا!

 پريشان ھوکر يہ لوگ ايک دوسرے سے کہنے لگے: خدا کي قسم يھاں سے نکلنے کا کوئي راستہ نھيں ھے، مگر يہ کہ خدا ھي کوئي لطف و کرم فرمائے، کوئي نيک کام کريں ، خلوص کے ساتھ دعا کريں اور اپنے گناھوں سے توبہ کريں-

ان ميں سے پھلا شخص کھتا ھے: پالنے والے!  تو (تو جانتا ھے) کہ ميں ايک خوبصورت عورت کا عاشق ھوگيا تھا بھت زيادہ مال و دولت اس کو ديا تا کہ وہ ميرے ساتھ آجائے، ليکن جونھي اس کے پاس گيا، دوزخ کي ياد آگئي جس کے نتيجہ ميں اس سے الگ ھوگيا ؛ پالنے والے ! اسي عمل کا واسطہ ھم سے اس مصيبت کو دور فرما اور ھمارے لئے نجات کا سامان فراھم فرمادے ، بس جيسے ھي اس نے يہ کھا تو وہ پتھر تھوڑا سا کھسک گيا ھے -

دوسرے نے کھا:  پالنے والے!  تو جانتا ھے کہ ايک روز ميں کھيتوں ميں کام کرنے کے لئے کچھ مزدور لايا، آدھا درھم ان کي مزدوري معين کي، غروب کے وقت ان ميں سے ايک نے کھا: ميں نے دو مزدورں کے برابر کام کيا ھے لہٰذا مجھے ايک درھم ديجئے، ميں نے نھيں ديا، وہ مجھ سے ناراض ھوکر چلا گيا، ميں نے اس آدھے درھم کا زمين ميں بيج ڈالديا، اور اس سال بھت برکت ھوئي- ايک روز وہ مزدور آيا اور اس نے اپني مزدوري کا مطالبہ کيا، تو ميں نے اس کو اٹھارہ ہزار درھم دئے جو ميں نے اس زراعت سے حاصل کئے تھے، اور چند سال تک اس رقم کو رکھے ھوئے تھا، اور يہ کام ميں نے تيري رضا کے لئے انجام ديا تھا، تجھے اسي کام کا واسطہ ھم کو نجات ديدے- چنانچہ وہ پتھر تھوڑا اور کھسک گيا-

تيسرے نے کھا:  پالنے والے!  (تو خوب جانتا ھے کہ) ايک روز ميرے ماں باپ سورھے تھے ميں ان کے لئے کسي ظرف ميں دودھ لے کر گيا، ميں نے سوچا کہ اگر يہ دودھ کا ظرف زمين پر رکھ دوں تو کھيں والدين جاگ نہ جائےں، اور ميں نے ان کو خود نھيں اٹھايا بلکہ وہ دودھ کا ظرف لئے کھڑارھا يھاں تک کہ وہ خود سے بيدار ھوں- پالنے والے توخوب جانتا ھے کہ ميں نے وہ کام اور وہ زحمت صرف تيري رضا کےلئے اٹھائي تھي، پالنے والے اسي کام کے صدقہ ميں ھميں اس مصيبت سے نجات ديدے- چنانچہ اس شخص کي دعا سے پتھر او رکھسکا اور يہ تينوں اس غار سے باھر نکل آئے-[14]

ايک کفن چور کي توبہ

معاذ بن جبل روتے ھوئے رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کي خدمت ميں حاضر ھوئے اور آنحضرت کو سلام کيا، آپ نے جواب سلام ديتے ھوئے فرمايا: تمھارے رونے کي وجہ کيا ھے؟ تو انھوں نے کھا: ايک خوبصورت جوان مسجد کے پاس کھڑا ھوا اس طرح رورھا ھے جيسے اس کي ماں مرگئي ھو، وہ چاھتا ھے آپ سے ملاقات کرے، چنانچہ يہ سن کر آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: اس کو مسجد ميں بھيج دو، وہ جوان مسجد ميں داخل ھوا اور رسول اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  کو سلام کيا، آنحضرت نے جواب سلام ديا اور فرمايا: اے جوان ! رونے کي وجہ کيا ھے؟ اس نے عرض کيا: ميں کيوں نہ روؤں حالانکہ ميں نے ايسے ايسے گناہ انجام دئے ھيں کہ خدا وندعالم ان ميں سے بعض کي وجہ سے مجھے جہنم ميں بھيج سکتا ھے، ميں تو يہ مانتا ھوں کہ مجھے ميرے گناھوں کے بدلے دردناک عذاب ديا جائے اور خداوندعالم مجھے بالکل معاف نھيں کرسکتا-

پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا تو نے خدا کے ساتھ شرک کيا ھے؟ اس نے کھا: نھيں، ميں شرک سے پناہ چاھتا ھوں، آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا کسي نفس محترمہ کا قتل کيا ھے؟ اس نے کھا: نھيں، آپ نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں کو بخش دے گا اگرچہ بڑے بڑے پھاڑوں کے برابر ھي کيوں نہ ھو، اس نے کھا: ميرے گناہ بڑے بڑے پھاڑوں سے بھي بڑے ھيں، اس وقت پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: خداوندعالم تيرے گناھوں کو ضروربخش دے گا چاھے وہ ساتوں زمين ،دريا ، درخت ، ذرات اور زمين ميں دوسري موجوات کے برابر ھي کيوں نہ ھوں، بے شک تيرے گناہ قابل بخشش ھيں اگرچہ آسمان، ستاروں اورعرش و کرسي کے برابر ھي کيوں نہ ھوں! اس نے عرض کيا: ميرے گناہ ان تمام چيزوں سے بھي بڑے ھيں! پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے غيض کے عالم ميںاسے ديکھا اور فرمايا: اے جوان! تيرے اوپر افسوس ھے! کيا تيرے گناہ زيادہ بڑے ھيں يا تيرا خدا؟

يہ سن کر وہ جوان سجدے ميں گرپڑا اور کھا: پاک و پاکيزہ ھے ميرا پروردگار، يا رسول اللہ ! اس سے بزرگتر تو کوئي نھيں ھے، ميرا خدا تو ھر عظيم سے عظيم تر ھے، اس وقت آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے فرمايا: کيا بڑے گناھوں کو خدائے بزرگ کے علاوہ بھي کوئي معاف کرسکتا ھے؟ اس جوان نے کھا: نھيں يا رسول اللہ! قسم بخدا نھيں، اور اس کے بعد وہ خاموش ھوگيا-

پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے اس سے فرمايا: اے جوان وائے ھو تجھ پر! کيا تو مجھے اپنے گناھوں ميں سے کسي ايک گناہ کو بتاسکتا ھے؟ اس نے کھا: کيوں نھيں، ميں سات سال سے قبروں کو کھول کر مردوں کو باھر نکالتا ھوں اور ان کا کفن چوري کرليتا ھوں!

قبيلہ انصار سے ايک لڑکي کا انتقال ھوا ، جب لوگ اس کو دفن کرکے واپس آگئے، ميں رات ميں گيا، اس کو باھر نکالا، اور اس کا کفن نکال ليا، اس کو برہنہ ھي قبر ميں چھوڑديا، جب ميں واپس لوٹ رھا تھا شيطان نے مجھے ورغلايا، اور اس کے لئے ميري شھوت کو ابھارا، شيطاني وسوسہ نے اس کے بدن اور خوبصورتي نے مجھے اپنے جال ميں پھنسا ليا يھاں تک نفس غالب آگيا اور واپس لوٹا اور جوکام نھيں کرنا چاہئے تھا وہ کربيٹھا!!

اس وقت گويا ميں نے ايک آواز سني: اے جوان! روز قيامت کے مالک کي طرف سے تجھ پر وائے ھو! جس دن تجھے اور مجھے اس کي بارگاہ ميں پيش کيا جائے گا، ھائے تونے مجھے مردوں کے د رميان برہنہ کرديا ھے، مجھے قبر سے نکالا، ميرا کفن لے چلا اور مجھے جنابت کي حالت ميں چھوڑ ديا، ميں اسي حالت ميں روز قيامت محشور کي جاؤں گي، واے ھو تجھ پر آتش جہنم کي!

يہ سن کر پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  نے بلند آواز ميں پکارا: اے فاسق! يھاں سے دور چلاجا، ڈرتا ھوں کہ تيرے عذاب ميں ميں بھي جل جاؤں! تو آتش جہنم سے کتنا نزديک ھے؟!

وہ شخص مسجد سے باھر نکلا، کچھ کھانے پينے کا سامان ليا اور شھر سے باھر پھاڑ کي طرف چل ديا، حالانکہ موٹا اور کھردرا کپڑا پہنے ھوئے تھا، اور اپنے دونوں ھاتھوں کو اپني گردن سے باندھے ھوئے تھااور پکارتا جاتا تھا: خداوندا!  يہ بھلول تيرا بندہ ھے، ھاتھ بندھے تيري بارگاہ ميں حاضر ھے- پالنے والے!  تو مجھے جانتا ھے، ميرے گناھوں کو بھي جانتا ھے، ميں آج تيرے پشيمان بندوں کے قافلہ ميں ھوں، توبہ کے لئے تيرے پيغمبر کے پاس گيا تھا ليکن اس نے بھي مجھے دور کردياھے، پالنے والے تجھے تيري عزت و جلال اور سلطنت کا واسطہ کہ مجھے نااميد نہ کرنا، اے ميرے مولا و آقا! ميري دعا کو ردّ نہ کرنا اوراپني رحمت سے مايوس نہ کرنا-

وہ چاليس دن تک دعا و مناجات اورگريہ و زاري کرتا رھا، جنگل کے درندے اور حيوانات اس کے رونے سے روتے تھے! جب چاليس دن ھوگئے تو اپنے دونوں ھاتھوں کو بلند کرکے بارگاہ الٰھي ميں عرض کيا: پالنے والے ! اگر ميري دعا قبول اور ميرے گناہ بخش دئے گئے ھوں تو اپنے پيغمبر کو اس کي خبر دےدے، اور اگر ميري دعا قبول نہ ھوئي ھو اور ميرے گناہ بخشے نہ گئے ھوں نيز مجھ پر عذاب کرنے کا ارادہ ھو تو ميرے اوپر آتش نازل فرما تاکہ ميں جل جاؤں يا کسي دوسري عقوبت ميں مبتلا کردے تاکہ ميں ھلاک ھوجاؤں، بھر حال قيامت کي ذلت و رسوائي سے مجھے نجات ديدے-

چنانچہ اس موقع پر درج ذيل آيات نازل ھوئيں:

((وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھم ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِھم وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَي مَا فَعَلُوا وَھم يَعْلَمُونَ))-[15]

”اور يہ وہ لوگ ھيں کہ جب کوئي نماياں گناہ کرتے ھيں يا اپنے نفس پر ظلم کرتے ھيں تو خدا کو ياد کرکے اپنے گناھوں پر استغفار کرتے ھيں اور خدا کے علاوہ کون گناھوں کو معاف کرنے والاھے اور وہ اپنے کئے پر جان بوجھ کر اصرار نھيں کرتے “-

((اٴُوْلَئِکَ جَزَاؤُھم مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّھم وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھارُ خَالِدِينَ فِيھا وَنِعْمَ اٴَجْرُ الْعَامِلِينَ))-[16]

”يھي وہ لوگ ھيں جن کي جزا مغفرت ھے اور وہ جنت ھے جس کے نيچے نھريں جاري ھيں -وہ ھميشہ اسي ميں رہنے والے ھيں اور عمل کرنے کي يہ جزا بھترين جزاھے“-
 

ان دونوں آيتوں کے نزول کے بعد پيغمبر اکرم  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  مسکراتے ھوئے ان دو آيتوں کي تلاوت فرماتے ھوئے باھر تشريف لائے اور فرمايا: کوئي ھے جو مجھے اس توبہ کرنے والے جوان تک پہنچائے؟

معاذ بن جبل کھتے ھيں: يا رسول اللہ  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم !ھميں خبر ملي ھے کہ وہ جوان مدينہ سے باھر پھاڑوں ميں چھپا ھوا ھے، رسول خدا  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اپنے اصحاب کے ساتھ پھاڑ تک گئے ليکن جب وہ نہ ملا تو پھر پھاڑ کي بلندي پر پہنچے تو اس کو دو پتھروں کے درميان ديکھا کہ اپنے دونوں ھاتھ گردن سے باندھے ھوئے ھے، گرمي کي شدت سے اس کے چھرہ کا رنگ سياہ ھوگيا ھے، زيادہ رونے سے اس کي پلکيں گرچکي ھيںاور کھتا جاتا ھے: اے ميرے مولا و آقا!  ميري پيدائش اچھي قرار دي، ميراچھرہ خوبصورت بنايا، ميں نھيں جانتا کہ ميرے متعلق تيرا کيا ارادہ ھے، کيا مجھے آتش جہنم ميں جگہ دے گا يا اپنے جوار رحمت ميں جگہ   دے گا؟

خدايا !  پروردگار!  تو نے مجھ پر بھت احسان کئے ھيں اس ناچيز بندے پر تيري نعمتيں سايہ فگن ھيں، ميں نھيں جانتا کہ ميرا انجام کيا ھوگا، کيا مجھے بہشت ميں رکھے گا يا آتش جہنم ميں ڈالے گا؟

خدايا ! ميرے گناہ زمين و آسمان، عرش و کرسي سے بڑے ھيں، ميں نھيں جانتا ميرے گناہ کو بخش ديگا ،يا روز قيامت مجھے ذليل وخوار کرے گا-اس کي زبان پر يھي کلمات جاري ھيں، آنکھوں سے آنسو بہہ رھے ھيں، اور اپنے سر پر خاک ڈالتا جاتا ھے، حيوانات اس کے اردگرد جمع ھيں، پرندوں نے اس کے اوپر سايہ کيا ھوا ھے، اور اس کے ساتھ رورھے ھيں-

آنحضرت  صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم  اس کے نزديک آئے اس کے ھاتھوں کو کھولا، اس کے چھرہ کو صاف کيا اور فرمايا: اے بھلول ! تجھے بشارت ھو کہ خداوندعالم نے تجھے آتش جہنم سے آزاد کرديا ھے، اور اس کے بعد اصحاب کي طرف رخ کيا اور فرمايا: جس طرح بھلول نے گناھوںکي تلافي کي ھے تم بھي اسي طرح اپنے گناھوں کا جبران اور تلافي کرو، اور اس کے بعدان دونوں آيات کي تلاوت کي، اور بھلول کو بہشت کي بشارت دي-[17]

فضيل عياض کي توبہ
فضيل اگرچہ شروع ميں ايک راہزن تھا اور اپنے ساتھيوں کي مدد سے قافلوں کو روک کر ان کا مال و دولت چھين ليا کرتا تھا، ليکن فضيل کي مروت و ھمت بلند تھي، اگر قافلہ ميں کوئي عورت ھوتي تھي تو اس کا سامان نھيں ليتا تھا، اسي طرح اگر کسي کے پاس کم مال ھوتا تھا اس کو بھي نھيں ليتا تھا، اور جن سے مال و دولت ليتا بھي تھا ان کے پاس کچھ چيزيں چھوڑ ديتا تھا، اسي طرح خدا کي عبادت سے بھي منھ نھيں موڑتا تھا، نماز و روزہ سے غافل نھيں تھا، فضيل کے توبہ کے سلسلہ ميں يوں رقمطرازھے:

فضيل ، ايک عورت کا عاشق تھا ليکن اس تک رسائي نہ ھوتي تھي، کبھي کبھي اس عورت کے گھر کے پاس کي ديوار کے پاس جاتا تھا اور اس کي خاطر گريہ و زاري اور نالہ و فرياد کيا کرتا تھا، ايک رات کا واقعہ ھے کہ ايک قافلہ وھاں سے گزرھا تھا اور اس قافلہ ميں ايک شخص قرآن پڑھ رھا تھا چنانچہ اس نے جب يہ آيت پڑھي:

((اٴَلَمْ يَاٴْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا اٴَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھم لِذِکْرِ اللهِ ---))-[18]

”کيا صاحبان ايمان کے لئے ابھي وہ وقت نھيں آيا ھے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کي طرف سے نازل ھونے والے حق کے لئے نرم ھو جائيں “-

فضيل اس آيت کو سن کر ديوار سے گرپڑے اور کھا: پالنے والے! کيوں نھيں وہ وقت آگيا بلکہ اس کا وقت گزر گيا ھے، شرمندہ، پشيمان، حيران و پريشان اور گريہ و زاري کرتے ھوئے ايک ويرانہ کي طرف نکل پڑا، اس ويرانہ ميں ايک قافلہ رکا ھوا تھا، جھاں پر لوگ آپس ميں کہہ رھے تھے : چلو چلتے ھيں، سامان تيار کرو، دوسرا کھتا تھا: ابھي چلنے کا وقت نھيں ھوا ھے، کيونکہ ابھي فضيل راستہ ميں ھوگا ،وہ ھمارا

راستہ روک کر سارا مال و اسباب چھين لے گا، اس وقت فضيل نے پکارا: اے قافلہ والو! تم لوگوں کو بشارت ھے کہ اس خطرناک چور اور کم بخت راہزن نے توبہ کرلي ھے!

غرض اس نے توبہ کي اور توبہ کے بعد ان لوگوں کو تلاش کرنا شروع کيا جن کا مال چھينا يا چوري کيا تھااور ان سے معافي مانگي[19]

چنانچہ ايک مدت کے بعد وہ بھت بڑے اور حقيقي عارف بن گئے اور لوگوں کي تعليم و تربيت ميں مشغول ھوگئے جن کے حکمت آميز کلمات اب بھي تاريخ ميں موجود ھيں-

تاليف: انصاريان
ترجمه: حيدري

 

[1] سورہٴ يوسف آيت ۱۱۱-
[2] سورہٴ تحريم آيت ۱۱-
[3] کشف الغمہ:۱/۴۶۶:بحار الانوار: ۴۳ص۵۳، باب ۳، حديث ۴۸، عبارت کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ-
[4] سورہٴ فرقان آيت ۱۲-۱۳-
[5] امالي شيخ صدوق عليہ الرحمہ، ص ۳۹۷، مجلس ۶۲ حديث ۱۰؛ بحار الانوار ج ۶ص ۲۶ باب ۲۰ حديث ۲۷-
[6] خرائج:ج ۱ص۸۸، فصل من روايات الخاصة؛ بحار الانوار: ۶۵ص۲۸۲، الاخبار، حديث ۳۸-
[7] روضات الجنات : ۴ ،ص۱۰۷-
[8] روضات البيان: ۲،ص۱۷۹-
[9] روح البيان: ۲،ص ۱۸۱-
[10]روضات البيان: ۲،ص۲۲۵-
[11] روضات البيان ،ج ۲،ص ۲۳۵-
[12] کشف الغمہ،ج۲،ص ۱۹۴؛ بحار الانوار ج ۴۷ /۱۴۵، باب ۵، حديث ۱۹۹-
[13] محجة البيضاء: ۷،ص ۲۶۷، کتاب الخوف والرجاء-
[14] نور الثقلين، ج۳ ص ۲۴۹-           
[15] سورہٴ آل عمران آيت ۱۳۵-
[16] سورہٴ آل عمران آيت ۱۳۶-
[17] امالي شيخ صدوق:۴۲،مجلس ۱۱، حديث۳؛ بحار الانوار: ۶/۳ ۲۳، باب ۲۰، حديث ۲۶-
[18] سورہٴ حديد آيت ۱۶-
[19] تذکرة الاولیاء ،ص۷۹-
 

 

Wednesday, 22 April 2015 10:04

سوره الجن

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا 
(1) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے

﴿2﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا 
(2) جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں اور کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے

﴿3﴾ وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا
(3) اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا

﴿4﴾ وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا 
(4) اور ہمارے بیوقوف لوگ طرح طرح کی بے ربط باتیں کررہے ہیں

﴿5﴾ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا
(5) اور ہمارا خیال تو یہی تھا کہ انسان اور جناّت خدا کے خلاف جھوٹ نہ بولیں گے

﴿6﴾ وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا 
(6) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جناّت کے بعض لوگوں کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوں نے گرفتاری میں اور اضافہ کردیا

﴿7﴾ وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا 
(7) اور یہ کہ تمہاری طرح ان کا بھی خیال تھا کہ خدا کسی کو دوبارہ نہیں زندہ کرے گا

﴿8﴾ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
(8) اور ہم نے آسمان کو دیکھا تو اسے سخت قسم کے نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا

﴿9﴾ وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا 
(9) اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننا چاہے گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا

﴿10﴾ وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا 
(10) اور ہمیں نہیں معلوم کہ اہل زمین کے لئے اس سے برائی مقصود ہے یا نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے

﴿11﴾ وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا
(11) اور ہم میں سے بعض نیک کردار ہیں اور بعض کے علاوہ ہیں اور ہم طرح طرح کے گروہ ہیں

﴿12﴾ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَبًا 
(12) اور ہمارا خیال ہے کہ ہم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اسے اپنی گرفت سے عاجز کرسکتے ہیں

﴿13﴾ وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَن يُؤْمِن بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا
(13) اور ہم نے ہدایت کو سنا تو ہم تو ایمان لے آئے اب جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا اسے نہ خسارہ کا خوف ہوگا اور نہ ظلم و زیادتی کا

﴿14﴾ وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُوْلَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا 
(14) اور ہم میں سے بعض اطاعت گزار ہیں اور بعض نافرمان اور جو اطاعت گزار ہوگا اس نے ہدایت کی راہ پالی ہے

﴿15﴾ وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا 
(15) اور نافرمان تو جہنمّ کے کندے ہوگئے ہیں

﴿16﴾ وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاء غَدَقًا
(16) اور اگر یہ لوگ سب ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے

﴿17﴾ لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا
(17) تاکہ ان کا امتحان لے سکیں اور جو بھی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرے گا اسے سخت عذاب کے راستے پر چلنا پڑے گا

﴿18﴾ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
(18) اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا

﴿19﴾ وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا
(19) اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ لوگ اس کے گرد ہجوم کرکے گر پڑتے

﴿20﴾ قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
(20) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا ہوں

﴿21﴾ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا 
(21) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ فائدہ کا

﴿22﴾ قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا 
(22) کہہ دیجئے کہ اللہ کے مقابلہ میں میرا بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے اور نہ میں کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں

﴿23﴾ إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا
(23) مگر یہ کہ اپنے رب کے احکام اور پیغام کو پہنچادوں اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ّہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے

﴿24﴾ حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا
(24) یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے اس عذاب کو دیکھ لیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور اور کس کی تعداد کمتر ہے

﴿25﴾ قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا 
(25) کہہ دیجئے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وعدہ قریب ہی ہے یا ابھی خدا کوئی اور مدّت بھی قرار دے گا

﴿26﴾ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا
(26) وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے

﴿27﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
(27) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے

﴿28﴾ لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
(28) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچادیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہ

 

Wednesday, 22 April 2015 10:00

سوره نوح

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(1) بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈراؤ

﴿2﴾ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
(2) انہوں نے کہا اے قوم میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

﴿3﴾ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ
(3) کہ اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

﴿4﴾ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاء لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(4) وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو

﴿5﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا
(5) انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی

﴿6﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا
(6) پھر بھی میری دعوت کا کوئی اثر سوائے اس کے نہ ہوا کہ انہوں نے فرار اختیار کیا

﴿7﴾ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
(7) اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا اور اپنے کپڑے اوڑھ لئے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدت سے اکڑے رہے

﴿8﴾ ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا
(8) پھر میں نے ان کو علی الاعلان دعوت دی

﴿9﴾ ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا
(9) پھر میں نے اعلان بھی کیا اور خفیہ طور سے بھی دعوت دی

﴿10﴾ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا 
(10) اور کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے

﴿11﴾  يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا
(11) وہ تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا

﴿12﴾ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا 
(12) اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں قرار دے گا

﴿13﴾ مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا
(13) آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا خیال نہیں کرتے ہو

﴿14﴾ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا 
(14) جب کہ اسی نے تمہیں مختلف انداز میں پیدا کیا ہے

﴿15﴾ أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا
(15) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں

﴿16﴾ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا
(16) اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے

﴿17﴾ وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا 
(17) اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے

﴿18﴾ ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا
(18) پھر تمہیں اسی میں لے جائے گا اور پھر نئی شکل میں نکالے گا

﴿19﴾ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا
(19) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنادیا ہے

﴿20﴾ لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا
(20) تاکہ تم اس میں مختلف کشادہ راستوں پر چلو

﴿21﴾ قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا
(21) اور نوح نے کہا کہ پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور اس کا اتباع کرلیا ہے جو مال و اولاد میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں دے سکتا ہے

﴿22﴾ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا
(22) اور ان لوگوں نے بہت بڑا مکر کیا ہے

﴿23﴾ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا
(23) اور لوگوں سے کہا ہے کہ خبردار اپنے خداؤں کو مت چھوڑ دینا اور ود, سواع, یغوث, یعوق, نسر کو نظرانداز نہ کردینا

﴿24﴾ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا 
(24) انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کردیا ہے اب تو ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرنا

﴿25﴾ مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا
(25) یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنم ّمیں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے

﴿26﴾ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا 
(26) اور نوح نے کہا کہ پروردگار اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا

﴿27﴾ إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
(27) کہ تو انہیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے

﴿28﴾ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا
(28) پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شے میں اضافہ نہ کرنا

 

 

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ ایران بدستور جنیوا معاہدے کی پابندی کر رہا ہے-

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا امانو نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران مشترکہ اقدام پروگرام کے تحت اپنے وعدوں کی پابندی کر رہا ہے- اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے نطنز اور فردو میں قائم یورینیم افزودہ کرنے کی ایٹمی تنصیبات اور اراک میں زیرتعمیر بھاری پانی کے پلانٹ میں معمول سے زیادہ سرگرمیاں انجام نہیں دی ہیں- واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ایک وفد نے یوکیا امانو کے نائب واریو رانتا کی سربراہی میں ایران کا دورہ کیا تھا-

 

 

Tuesday, 21 April 2015 09:58

سوره المعارج

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

 

﴿1﴾ سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ
(1) ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا

﴿2﴾ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ 
(2) جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے

﴿3﴾ مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ 
(3) یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے

﴿4﴾ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ 
(4) جس کی طرف فرشتے اور روح الامین بلند ہوتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے

﴿5﴾ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا
(5) لہذا آپ بہترین صبر سے کام لیں

﴿6﴾ إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا 
(6) یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں

﴿7﴾  وَنَرَاهُ قَرِيبًا
(7) اور ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں

﴿8﴾ يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاء كَالْمُهْلِ
(8) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوجائے گا

﴿9﴾ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ 
(9) اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون جیسے

﴿10﴾ وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
(10) اور کوئی ہمدرد کسی ہمدرد کا پرسانِ حال نہ ہوگا

﴿11﴾ يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ
(11) وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے

﴿12﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ
(12) اوربیوی اور بھائی کو

﴿13﴾ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْويهِ
(13) اور اس کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا

﴿14﴾ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ 
(14) اور روئے زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے

﴿15﴾ كَلَّا إِنَّهَا لَظَى
(15) ہرگز نہیں یہ آتش جہنمّ ہے

﴿16﴾ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى
(16) کھال اتار دینے والی

﴿17﴾ تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى
(17) ان سب کو آواز دے رہی ہے جو منہ پھیر کر جانے والے تھے

﴿18﴾ وَجَمَعَ فَأَوْعَى 
(18) اور جنہوں نے مال جمع کرکے بند کر رکھا تھا

﴿19﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
(19) بیشک انسان بڑا لالچی ہے

﴿20﴾ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا 
(20) جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے

﴿21﴾ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا 
(21) اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہو جاتا ہے

﴿22﴾ إِلَّا الْمُصَلِّينَ
(22) علاوہ ان نمازیوں کے

﴿23﴾ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ 
(23) جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں

﴿24﴾ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ
(24) اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے

﴿25﴾ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
(25) مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے

﴿26﴾ وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ 
(26) اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں

﴿27﴾ وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ 
(27) اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں

﴿28﴾ إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ
(28) بیشک عذاب پروردگار بے خوف رہنے والی چیز نہیں ہے

﴿29﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ 
(29) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

﴿30﴾ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ 
(30) علاوہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کے کہ اس پر ملامت نہیں کی جاتی ہے

﴿31﴾ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ 
(31) پھر جو اس کے علاوہ کا خواہشمند ہو وہ حد سے گزر جانے والا ہے

﴿32﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ 
(32) اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا خیال رکھنے والے ہیں

﴿33﴾ وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ 
(33) اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں

﴿34﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
(34) اور جو اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے ہیں

﴿35﴾ أُوْلَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ 
(35) یہی لوگ جنّت میں باعزّت طریقہ سے رہنے والے ہیں

﴿36﴾ فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ 
(36) پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں

﴿37﴾ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ
(37) داہیں بائیں سے گروہ در گروہ

﴿38﴾ أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ
(38) کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے

﴿39﴾ كَلَّا إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّمَّا يَعْلَمُونَ 
(39) ہرگز نہیں انہیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے

﴿40﴾ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ 
(40) میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں

﴿41﴾ عَلَى أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ 
(41) اس بات پر کہ ان کے بدلے ان سے بہتر افراد لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں

﴿42﴾ فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ 
(42) لہذا انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنے باطل میں ڈوبے رہیں اور کھیل تماشہ کرتے رہیں یہاں تک کہ اس دن سے ملاقات کریں جس کا وعدہ کیا گیا ہے

﴿43﴾ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ 
(43) جس دن یہ سب قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے جس طرح کسی پرچم کی طرف بھاگے جارہے ہوں

﴿44﴾ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ 
(44) ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ذلت ان پر چھائی ہوگی اور یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے

 

۲۰۱۵/۰۴/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے فوج کے بعض اعلی کمانڈروں، اہلکاروں اور فوجی شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں مسلح افواج کو دینی و انقلابی جہات اور بصیرت کی تقویت اور حفاظت ، دفاعی توانائی اور ہتھیاروں کے اضافہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:  اسلامی جمہوریہ ایران علاقہ اور ہمسایہ ممالک کے لئے نہ کبھی خطرہ تھا اور نہ ہوگا لیکن ہر قسم کے حملے کے مقابلے میں مقتدرانہ طور پر عمل کیا جائے گا۔

یہ ملاقات یوم مسلح افواج کی مناسبت سے ہوئی ، مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے اس دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی ، اورانقلاب کے آغاز میں فوج کو ختم کرنے کے سلسلے میں بعض افراد کی کوششوں کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی طرف سے 29 فروردین کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے نام سے موسوم کرنے کو ان کی ایک عظیم خلاقیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ  سےفوج قدرت اور قوت کے ساتھ باقی رہی ، اور مختلف میدانوں منجملہ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں اس نے ایک انقلابی مجموعہ کے طور پر اپنا نقش ایفا کیا اور ملک کے لئے افتخارکا باعث بن گئی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی خدمت اور اس کے اعلی اہداف کی راہ میں اور انقلاب اسلامی کے ساتھ  فوج کے کھڑا ہونے کو 29 فروردین کے حقیقی معنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ایک اہم خصوصیت دینی احکام اور مقررات پر عمل پیرا رہنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شکست یا کامیابی کے موقع پر بین الاقوامی قوانین  اور انسانی  اصولوں پر دنیا کی اکثرفوجوں کی طرف سے عمل نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا:  اس کا واضح نمونہ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی رفتار میں نمایاں ہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں اور ہر جرم و جنایت کا ارتکاب کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن، غزہ اور لبنان پر مسلط کی جانی والی جنگوں کو بین الاقوامی قوانین پر عمل نہ کرنے کے واضح نمونے بیان کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج ہمیشہ اسلامی قوانین اور مقررات کی پابند رہی ہیں اور وہ کبھی بھی کامیابی کے موقع پرسرکشی نہیں کرتیں اور نہ خطرے کے موقع پر ممنوعہ طریقوں اورممنوعہ ہتھیاروں سے استفادہ کرتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دینی اصولوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قوانین اور دینی اصولوں پرکارپابند ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی ممالک کے مسائل میں ایران کی مداخلت پر مبنی غلط پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ بے بنیاد الزامات حقائق کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ ایران نے نہ دوسرے ممالک کے مسائل میں مداخلت کی ہے اور نہ کرےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو لوگ عام شہریوں، بچوں اور عورتوں پر حملہ کرتے ہیں ہم ان سے بیزار اور متنفر ہیں اورہمارا اس بات پر اعتقاد ہے کہ وہ لوگ اسلام اور انسانیت سے بےخبر ہیں ہم دوسرے ممالک کے مسائل میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی و الہی قوانین پر مسلح افواج کی پابندی کو ایرانی فوج کی نمایاں خصوصیت اور  ان کی عوام میں محبوبیت کا اصلی راز قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی دوسری خصوصیت ، روز افزوں دفاعی آمادگی ، جنگی وسائل اور ہتھیاروں کا ارتقاء ہے جسے آیہ شریفہ " «و اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّه» کی پشتپناہی حاصل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلح افواج کی دفاعی اور فوجی ترقیات کو ملک کی سائنسی اور ٹیکنالوجی ترقیات کے ہمراہ  بہت ہی ممتاز اور نمایاں قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ ترقیات اور توانائیاں سخت دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے سائے میں حاصل ہوئی ہیں جو بہب ہی عظيم اور غیر معمولی ہیں  اور انھیں اسی سرعت کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلح افواج کی دفاعی ترقیات و پیشرفت  اور انھیں متوقف کرنے کے سلسلے میں  ایرانی قوم کے دشمنوں کی ناراضگی اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میزائل سسٹم اور ڈرون طیاروں کے شعبہ میں جاری ترقیات پر اپنی تبلیغاتی کوششوں کو مرکوز رکھا ہوا ہے لیکن عقل و منطق اور قرآن مجید کی آیہ شریفہ ہمیں کہتی ہے کہ ہم طاقت اور قدرت کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی پست دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد پھر ایک امریکی اہلکار نے میز پر تمام آپشنز موجود رہنے کی بات کی ہے وہ ایک طرف ایسی شیخی مارتے اور لاف گوئی کرتےہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی دفاعی ترقیات کو متوقف کرنا چاہیے البتہ ان کی یہ بات احمقانہ بات ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کبھی بھی اس احمقانہ بات کو قبول نہیں کرےگی اور ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ اپنا مقتدرانہ دفاع کرےگی اور متحدہ ہو کر غیر منطقی حملہ آور کا آہنی ہاتھوں سے مقابلہ کرےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف  نے فرمایا: وزارت دفاع ، فوج اور سپاہ کے تمام داروں کو اپنی دفاعی، فوجی اور رزمی صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کرنا چاہیے اور مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے اور یہ ایک باقاعدہ دستور العمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی مسلح افواج بالخصوص فوج کے جذبات کو بہت ہی بلند و بالا قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج اپنی فوجی اور دفاعی توانائیوں کے باوجود کبھی بھی علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہوں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ ، یورپ اور بعض ان کے پیروکار ممالک کی طرف سے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور اسلامی جمہوریہ ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کےسلسلے میں ان کے مصنوعی افسانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ اور اسرائیل سب سے بڑا خطرہ ہیں جو بین الاقوامی ، اخلاقی اور دینی اصولوں اور قوانین کو پامال کرکے بغیر کسی روک ٹوک کے جہاں ضروری سمجھتے ہیں مداخلت کرتے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن کے دردناک حوادث اور یمن پر مسلط کردہ جنگ کی امریکہ اور مغرب کی طرف سے حمایت کو عالمی سطح پر بد امنی پھیلانے کا ایک واضح نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ، بےلگام طاقتوں کے برخلاف امن و سلامتی کو سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہے اور اپنی و دوسروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے استقامت کا مظاہرہ  اور دفاع کرتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی سکیورٹی کی حفاظت، سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی عام زندگی کی حفاظت سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج کی اہم ذمہ داری ہے۔

 

۲۰۱۵/۰۴/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کو افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان بہت زيادہ تاریخی ، ثقافتی مشترکات و ارتباطات نیز اسلامی معارف اور فارسی زبان کے رشد و فروغ میں افغانستان کے علماء اور ادباء کے نقش کو بہت ممتاز قراردیتے ہوئے فرمایا: افغانستان ، انسانی و ثقافتی وسائل کے علاوہ قدرتی وسائل سے بھی سرشار ہے، اور ان تمام ظرفیتوں اور مشترکات کے ذریعہ دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو فروغ دینے کے سلسلے میں استفادہ کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران و افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئےٹھوس عزم و ارادہ کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں اور بعض علاقائی ممالک کو افغانستان کی ظرفیتوں کا علم نہیں ہے اوروہ  دونوں ممالک کے باہمی تعاون اور ہمدلی کے حق میں بھی نہیں ہیں لیکن ایران اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کی پیشرفت اور سلامتی کو اپنی پیشرفت اور سلامتی سمجھتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور سفارتی اور ثقافتی شعبوں میں ایران کی بیشمار ترقیات و تجربات کو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعاون کو ہموار کرنے کی راہیں شمار کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان مہاجرین، پانی، حمل و نقل اور سکیورٹی کے تمام مسائل قابل حل ہیں اور ان تمام مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ ایک مقررہ وقت کے اندر جائزہ لیکر حل کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مہاجرین کے اہم مسئلہ کو حل کرنے اور ایران کے مختلف مدارس میں ہزاروں افغان مہاجرین کی تحصیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: افغانستان کے عوام بہت بڑی استعداد ، صلاحیت اور ذہانت کے مالک ہیں اور علم کے حصول میں اس استعداد سے درست اور بھر پور استفادہ کرنا چاہیےکیونکہ افغانستان کی تعمیر نو کے لئے تعلیم یافتہ افغانیوں کی بہت زيادہ ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہران کو افغانی بھائیوں کا گھر قراردیا اور ہمسایہ حکومت کے ساتھ  پائدار دوستی اور ارتباطات کی طرف اشارہ کیا اورافغان حکومت اور قوم کی اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کی توقع ظاہر کی ۔

اس ملاقات میں صدر روحانی بھی موجود تھے، افغانستان کے صدرجناب محمد اشرف غنی نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور ایران و افغانستان کے درمیان قدیم و عمیق تاریخی اور ثقافتی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارا مقصد یہ ہے کہ افغانستان علاقہ میں ایک مواصلاتی مرکز میں تبدیل ہوجائے اور علاقہ میں ارتباطات کے چوراہے کے عنوان سے اپنا سابقہ تشخص بحال کرلے۔

افغانستان کے صدر نے ایران اور افغانستان کو در پیش مشترکہ خطرات اور مشترکہ مواقع  کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: ہمارا سیاسی عزم دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو فروغ دینے پر استوار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ اور مثبت نقاط کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

افغان صدر نے افغان حکومت کی پالیسیوں کو اندرونی کشیدگی اور جھگڑوں کو باہمی تعاون میں تبدیل کرنے پر استوار قراردیا  اور دوطرفہ روابط کے سلسلے میں دہشت گردی، منشیات، مہاجرین ، سرحدی پانیوں جیسی مشکلات اور مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: دونوں ممالک کے درمیان مسائل کو دونوں حکومت کے سیاسی عزم کے ساتھ شیڈول کے مطابق حل و فصل اور جس کا منصوبہ اس سفر میں طے کیا جائے گا ۔

جناب اشرف غنی نےمنشیات کی اسمگلنگ کے مسئلہ میں ایران کے سب سے زیادہ نقصان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمسایہ ممالک میں سے کسی نے بھی مشیات کے خطرے کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا جتنا ایران نے لیا ہے اور ایران کی طرح کسی بھی ملک نے اس کا مقابلہ نہیں کیا ہے اور میں آیا ہوں تاکہ ایران کے ساتھ ملکر منشیات جیسی تباہ کن بلا کا مقابلہ کروں ۔

افغانستان کے صدر نے حمل و نقل، سرمایہ کاری ، ثقافتی اور اقتصادی تعاون کے سلسلے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ اور رہبر معظم انقلاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ایران نے آپ کی دانشمندانہ زعامت اور قیادت کے سائے میں اپنے تاریخی تشخص کو مضبوط بنالیا، اورہمیں  آپ کی خردمندانہ اور دانشمندانہ رہبری اور زعامت کے سائے میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے فروغ کی توقع ہے۔