Super User
پاکستان میں جاری دہشت گردی پر تشویش
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں جاری دہشت گردی میں بیرونی عناصر کا ہاتھ ہونے کا امکان ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے سنیچر کو انٹیلیجنس بیورو حکام کے ساتھ ہونے والی نشست میں ملک کے حالات کا جائزہ لیا۔ اس نشست میں پاکستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کاروائیوں کا جائزہ لیا گیا۔ نواز شریف نے انتہا پسندی اور دہشتگردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان دہشتگردی کا مقابلہ کرکے ملک میں امن و امان قائم کرنا چاہتی ہے۔
پہلا سورہ جو رسول خدا ۖ پر نازل ہوا
ستائیس رجب سنہ چالیس عام الفیل کو پیغمبراکرم ۖ غار حرامیں اپنے رب سے دعاؤمناجات میں مشغول تھے کہ یکایک فرشتۂ وحی حضرت جبریل نازل ہوئے اور اپنے ہمراہ مژدۂ رسالت لاۓ اورسورۂ علق کی آیات کی تلاوت کی۔
اس خداکا نام لیکر پڑھو جس نے پیداکیاہے
اس نے انسان کو جمے ہوۓ خون سے پیداکیاہے
پڑھو اور تمھارا پروردگار بہت کریم ہے
جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے اورانسان کو وہ سب بتادیاہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔
۔۔۔۔۔
اس طرح خداکے نام اور توحید کے ساتھ تعلیم سے وحی و بعثت کا آغاز ہوا۔ یہاں ہم عید مبعث کے بارے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے میں نظریات پیش کررہےہیں۔
بعثت کہتے ہیں قیامت اور ہنگامہ کو، یا کسی کام کے لۓ اٹھایا جانا۔ یوم مبعث وہ دن ہے جس دن خداکی طرف سے پیغمبر اسلامۖ مبعوث بہ رسالت ہوۓ۔ بعثت پیغمبرۖ انسان کے لۓ شرک، بے انصافی، نسلی امتیاز اور جہل و فساد سے نجات پانے کی راہ کا آغاز ہے تاکہ انسان توحید، معنویت، اور عدالت وکرامت کی سمت قدم بڑھاۓ۔
بعثت نبویۖ۔ معنوی تحریک سے شروع ہوئی ۔اور عالم انسانیت میں ایک انقلاب برپاکردیا۔ یہ روحانی تحول مادہ پرست انسانوں کے لۓ مبدۂ خلقت کی سمت ہدایت کا باعث بنا۔ برائی سے روکا اور نیکیوں کی ترغیب دلائی۔ بعثت، رسالت نبویۖ ، تاریکیوں سے انسان کے نکلنے اور روشنی کی جانب حرکت کے آغاز سے شروع ہوئی۔
حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے جدّ بزرگوار حضرت رسول اکرمۖ کی بعثت کے دن کو سارے عالم کا افضل اور اشرف ترین دن قرار دیا۔آپ کی نظر میں رسول ختمی مرتبت ۖکی بعثت کےروزسے کسی بھی دن حتی بعثت انبیاۓ الوالعزم کے یوم بعثت کا بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
آپ فرماتے ہیں کہ یوم مبعث ایسا عظیم دن ہے کہ ازل سے ابد تک جس کی مثال نہیں ملتی۔اور نہ ملے گی۔ ایسے پیغمبرکا یوم مبعث، کہ جس نے تمام نفسانی اور ملکوتی مقامات کو درک کیاہے۔اور تمام ظاہری اور باطنی شریعتوں کا عالم ہے۔اور اس کے بعد کسی دوسرے نبی ورسول کی ضرورت ہی نہیں ہے۔بعثت، شائستہ انسانوں کے برائیوں سے پاک ہونے کا مژدہ ہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) بعثت کے موضوع پر، تزکیہ کو پہلی نظرمیں اس الہی اقدام کے ایک رکن کی حیثیت سے پیش کرتےہیں۔ تزکیہ، یعنی نیک صفات کا حامل ہونا، غلط رفتار کی اصلاح کرنا اور بری صفتوں کو دور کرنا۔ در حقیقت تزکیہ، انسان کے باطن کی تطہیر سے شروع ہوتاہے اور باطنی تطہیر کے بعد فرد کی ہستی اور شخصیت کے تکامل کا باعث بنتا ہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) تزکیہ کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوۓ انسانی معاشرے کے تمام افراد کے لۓ اخلاقی صفات کی اہمیت کو ایک عظیم ہدف بتاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں تزکیہ، بعثت کے بنیادی مقصد کے اعتبارسے معاشرے کے کسی خاص طبقہ سے مختص اور کسی جغرافیائی علاقےمیں محدود نہیں ہو سکتاہے۔
حضرت امام خمینی رہ تزکیۂ نفس کی مزید وضاحت کے لۓ سورۂ جمعہ کی دوسری آیت کی جانب اشارہ کرتےہیں جس میں خداوند کریم اپنے پیغمبر کی بعثت کا مقصد یوں بیان کرتاہے۔ وہ خدا وہ ہے جس نے امیین میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سےہے۔ جو آیات الہی کی ان پر تلاوت کرتاہے۔ ان کے نفسوں کو پاکیزہ بناتاہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ اگر چہ وہ اسکے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ اس آیۂ شریفہ کے مطابق خدانے لوگوں کے درمیان سے اپنا رسول مبعوث فرمایا اور اسکو چند امور پر مامور کیا ایک کام، لوگوں پر اللہ کی عظیم کتاب قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کرناہے۔ قرآن کریم ایک دسترخوان ہےخدا نے پیغمبر اکرمۖ کے ذریعے انسانوں کے درمیان جسے چنوادیاہے اور ہر فرد اپنی توانائی کے مطابق اس سے استفادہ کر رہاہے۔
حضرت امام خمینی(رہ) اس بارے میں فرماتےہیں ہدف بعثت، نزول سے انتہائے زمانہ تک، لوگوں کے درمیان اس دستر خوان کو بچھائےرکھناہے۔ رسول جو قرآن کی تلاوت اور اسی کتاب نیز اسی کتاب میں موجود حکمت کی تعلیم دیتاہے۔ بنا بریں بعثت کا ہدف نزول قرآن ہے اور تلاوت قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انسان تزکیۂ نفس پیداکرے اور نفوس ظلمات اور تاریکیوں سے نجات اور اس کتاب کی تعلیم اور حکمت درک کرنے کی صلاحیت حاصل کریں۔
حضرت امام خمینی (رہ)اس حقیقت کی مزید وضاحت یوں فرماتے ہیں۔جب تک تزکیہ نہ ہو کتاب و حکمت کی تعلیم ناممکن ہے۔جب تک انسان اپنے نہایت ہی تاریک حجاب سے نہیں نکلے گا۔خواہشات نفسانی میں گرفتار رہےگا۔خود پسندی کا شکار رہےگا۔اور اپنے نفس اور باطن میں ایجاد کردہ چیزوں میں الجھا رہےگا۔ اوراس وقت تک اس کے دل میں نور الہی جلوہ گرہونے کی صلاحیت اور توانائی پیدا نہیں ہو سکتی۔
۔۔۔۔۔
تزکیہ، جو بعثت کے ایک اہم اہداف میں سے ہے۔ اسکے معنی ہیں ظلمت نفس سے نکلنا اور معنویب کی پاکیزہ فضامیں داخلے کے لۓ اندرونی اور نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرنا۔حضرت امام خمینی (رہ) کے نقطۂ نظر سے لوگوں کے مابین تمام اختلافات کی جڑ، بلاشبہ وہ سر کشی ہے جو نفس انسان میں موجود ہے۔ اگر انسان اپنے مقام و منصب پر قانع نہ ہو تو یہ امر جارحیت اور اور اختلاف کا باعث بن سکتاہے اوریہ چیز ایک مزدور اور دیہاتی سے لےکر سربراہان مملکت تک میں پائی جاتی ہے چنانچہ تزکیہ اور پاکیزہ نفسی کا نہ ہونا، حکام اور سربراہان مملکت کے لۓ زیادہ خطرناک ہے۔
حضرت امام خمینی (رہ) اس مطلب کی وضاحت کرتے ہوۓ فرماتےہیں۔اگر معمولی افراد عدم تزکیہ کا شکار ہوں اور سرکشی کریں تو ان کی سرکشی بہت ہی محدود ہوگی۔ اگر ایک فرد،بازار۔ یادیہات میں سرکشی کرےتو یہ ممکن ہے کہ ایک محدود مقام اور علاقے میں فساد پھیلاۓ۔ لیکن اگر طغیان اور سرکشی کسی ایسی فرد میں پیدا ہو جائے جسے عوام نے تسلیم اور قبول کر لیاہے یعنی ایک ایسے عالم میں پیداہو گئی جس کو لوگ عالم دین کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں۔ یا ایک بادشاہ میں جسے لوگوں نے اپنا سلطان مان لیاہے، یا ایسے سربراہوں میں پیدا ہوگئی جنھیں عوام نے تسلیم کرلیاہے، تو یہ سرکشی کبھی ایک ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ کیونکہ جس نے زمام امور اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اسکا تزکیہ نہیں ہواہے۔
۔۔۔۔۔
پہلا سورہ جو رسول خدا ۖ پر نازل ہوا اور آپ کے مبعوث بہ رسالت ہونے کا باعث بنا، سورۂ علق تھا۔اس سورے کی ساتویں اور آٹھویں آیت میں خدا فرماتاہے:
یقینا انسان سرکشی کرتاہے،
جب وہ اپنے آپ کو مستغنی اور بے نیاز سمجھنے لگتاہے۔
اسی لۓ حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے دوسرے مرحلے میں۔انسان کی سرکشی۔اور اس سے پیداہونے والے منفی نتائج اور خطرات کی جانب اشارہ کرتےہوۓ فرمایاہے۔تمام انسانوں کی صورت حال یہ ہے کہ ایک ذرا مستغنی بنےتو سرکشی کرنےلگتےہیں۔یعنی اگر تھوڑی سی دولت آگئی۔تو اسکے مطابق سرکشی پیداہوگئی۔ تھوڑا علم حاصل ہوگیا تو اس کے بقدر سرکشی آگئی۔مقام ومنصب ملا تواس کے معیار کے مطابق غرور اور سرکشی پیدا ہوگئی۔بعثت کامقصد۔یہ ہے کہ ہمیں ان سرکشی اور طغیان کی زنجیروں سے نجات دلاۓ۔اور ہمیں اپنے آپ کا تزکیہ کرنا چاہیے۔سامعین طغیان کہتےہیں اپنی حد سے آگے بڑھ جانے کو۔لفظ غنی کے معنی امیر اور تونگر ہے ۔اور یہ صفت خدا کے لۓ اس معنی میں ہے کہ وہ اتنااور ایسا غنی اور تونگر ہے کہ کسی کا بھی محتاج نہیں ہے ۔وہ خود قادر مطلق ہے لیکن انسان ۔جو احتیاج اور ناتوانی کا مظہر ہے ۔اگر وہ بےنیازی اور استغناء کا احساس کرے۔تو یہ اس کے غرور اور استکبار کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
استغنا اور بے نیازی اور اس کے نتیجے میں انسان کی سرکشی اور غرور و تکبر کے مصادیق بے شمار ہیں۔ جو چیز سرکشی اور فسادو برائی کا باعث بنتی ہے، خداکو فراموش کرنا اور اس کی مدد ونصرت کی عدم ضرورت کا احساس پیدا ہونا ہے۔ مالی استغنا پیداہونے کا ایک اہم عامل، اقتصادی اور مالی ضرورت سے بظاہر بے نیازی ہے اور مالی استغنا سماجی زندگی میں بے شمار برائیوں کاسرچشمہ ہے۔ علمی استغنا بھی۔طغیان اور سرکشی کے دیگر مصادیق میں سے ہے۔ایسا انسان اپنےآپ کو علامہ سمجھنے لگتاہے۔اور یہی امر اس کے غرور علمی اور راہ حق سے منحرف ہونے کا باعث بنتاہے۔
علمی استغنا انسانی معاشروں میں بےشمار نقصانات کا باعث بنتاہے اور کمال وسعادت کی سمت پیشر رفت کے لۓصحیح راستے کے انتخاب میں رکاوٹ بنتاہے۔ سیاسی استغنابھی، اقتدارپسندی جاہ ومقام پرستی میں متجلی ہوتاہے۔ استعماری اصول طاقت برائے اقتدار اور غلط سیاست۔ مذھب اخلاق اور تمام انسانی قدروں کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور یہ سبھی خداکو فراموش کرنے اور اقتدار کے وقت خداسے احساس بے نیازی کا مصداق ہیں۔
حضرت امام خمینی(رہ)بعثت کا ایک ہدف ومقصد ظلم کا خاتمہ ہے۔ آپ اس بارے میں فرماتےہیں۔بعثت رسول خداۖ اس لۓ ہے کہ انسانوں کو رفع ظلم کا طریقہ بتاۓ تاکہ لوگ بڑی اور استکباری طاقتوں کامقابلہ کر سکیں۔ بعثت اس لۓ ہوئی کہ لوگوں کے اخلاق کو سنوارے، اور ان کو روحانی اور جسمانی اعتبار سے ظلمتوں اور تاریکیوں سے نجات دلاۓ۔ تاریکیاں دور کرے اس کی جگہ نورلے آۓ۔ جہالت کی تاریکی دور کر کے ۔اس کی جگہ علم ودانائی کی روشنی پھیلائے اور ظلم کی تاریکی کی جگہ نور عدالت و انصاف جاگزیں کرے۔ بعثت نے ہمیں یہ سب کچھ بتایاہے۔ ہمیں بعثت نے یہ بتایا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور انہیں آپس میں متحد اختلاف و نزاع کا شکار کا نہیں ہونا چاہیے۔
سوره العلق
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ
(1) اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے
﴿2﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ
(2) اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے
﴿3﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ
(3) پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے
﴿4﴾ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ
(4) جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے
﴿5﴾ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
(5) اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا
﴿6﴾ كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَى
(6) بے شک انسان سرکشی کرتا ہے
﴿7﴾ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَى
(7) کہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے
﴿8﴾ إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى
(8) بے شک آپ کے رب کی طرف واپسی ہے
﴿9﴾ أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى
(9) کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو منع کرتا ہے
﴿10﴾ عَبْدًا إِذَا صَلَّى
(10) بندئہ خدا کو جب وہ نماز پڑھتا ہے
﴿11﴾ أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَى
(11) کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ بندہ ہدایت پر ہو
﴿12﴾ أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى
(12) یا تقویٰ کا حکم دے تو روکنا کیسا ہے
﴿13﴾ أَرَأَيْتَ إِن كَذَّبَ وَتَوَلَّى
(13) کیا تم نے دیکھا کہ اگر اس کافر نے جھٹلایا اور منھ پھیر لیا
﴿14﴾ أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى
(14) تو کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہا ہے
﴿15﴾ كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ
(15) یاد رکھو اگر وہ روکنے سے باز نہ آیا تو ہم پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے
﴿16﴾ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ
(16) جھوٹے اور خطا کار کی پیشانی کے بال
﴿17﴾ فَلْيَدْعُ نَادِيَه
(17) پھر وہ اپنے ہم نشینوں کو بلائے
﴿18﴾ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ
(18) ہم بھی اپنے جلاد فرشتوں کوبلاتے ہیں
﴿19﴾ كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ
(19) دیکھو تم ہرگز اس کی اطاعت نہ کرنا اور سجدہ کرکے قرب خدا حاصل کرو
مرسل آعظم کی بعثت انسانوں کیلئے عظیم نعمت الھی ہے
آیت الله حسین وحید خراسانی نے اپنے تفسیر قران کریم نے کے درس میں جو مسجد آعظم قم میں سیکڑوں طلاب و افاضل کی شرکت میں منعقد ہوا سورہ مبارکہ «یس» کی تفسیر کی ۔
انہوں نے آیت «و إِذَا قِیلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَ مَا خَلْفَکُمْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: خداند متعال نے اس آیت میں آپ کے روبرو اور آپ کے پیچھے موجود حالت کے سلسلہ میں تقوا اختیار کرنے اور رحمت الھی کے اسباب کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
آیت الله وحید خراسانی نے اس آیت اور اس سے پہلے کی آیات کے مابین موجود رابطہ کی جانب اشارہ کیا اور کہا: گذشتہ آیات میں خداوند متعال نے تکوینی اور تدوینی آیات کو انسانوں کی بہ نسبت بیان کیا ہے ، اور قران کریم کا نزول عظیم آیت ہے ، آیات تکوینی کے بعد خالق اور مخلوق درمیان برزخ کی حالت کا تذکرہ کیا گیا ۔
حوزه علمیہ قم میں درس خارج فقہ و اصول کے مشھور استاد نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ خاتم الانبیاء (ص) کی بعثت انسانوں کے لئے عظیم نعمت ہے کہا: ان آیات کے بعد دلائل ،علم ، قدرت ، حکمت اور رحمت الھی کی باری آتی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا: ان تمام نعمتوں کے سلسلے میں انسان کی ذ٘مہ داری ہے کہ وہ تقوائے الھی اختیار کرے اور اپنے نفس کی حفاظت کرے ۔
حضرت آیت الله وحید خراسانی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قرآن کی حکمت یہ ہے کہ پہلے ادعی کرتا ہے اور اس کے بعد دلیل پیش کرتا ہے کہا: «مَا بَیْنَ أَیْدِیکُمْ و مَا خَلْفَکُمْ» کے سلسلہ میں مفسرین کے کلمات مختلف ہیں ، مگر جو کچھ بیان کے لائق ہے وہ امام جعفربن محمد الصادق(ع) سے منقول حلبی کی روایت ہے کہ حضرت نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ «مَا بَیْنَ أَیْدِیکُمْ » سے مراد گناہیں ہیں اور « مَا خَلْفَکُمْ » سے مراد اوقات ہیں ۔
قرآن کریم کے اس مشھور مفسر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جو آج انجام دیا ہے وہ اعمال ہے اور جو کچھ کل آئے گا وہ ان اعمال کی جزا ہے کہا: انسان کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے پرھیز کرے کیوں کہ ھر نعمت کا کفران اس نعمت کے ذریعہ سمجھا جائے گا ۔
انہوں نے بیان کیا: ھر انسان کی توھین اس شخص کی شخصیت کے لحاظ سے ہے، عالم کی توہین اور جاہل کی توہین برابر نہیں ہوسکتی ، کمالات کے مالک انسان کی توہین اور کمالات سے خالی انسانی کی توہین کو بھی برابر نہیں سمجھا سکتا ہے ۔
حضرت آیت الله وحید خراسانی مزید کہا: گناہ میں دوباتیں ہوتیں ہیں ، ہر گناہ چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اس میں پہلے لاتعداد اور بے حساب نعمت الھی کا کفران ہوتا ہے یعنی ایک گناہ ان تمام نعمتوں کا کفران ہے ۔
انہوں نے آخر میں فرمایا: رسول اسلام(ص) نے فرمایا کہ تین چیز نے مجھے بوڑھا کردیا ہے، ایک سورہ واقعہ، قیامت کے دن بعض کو نیچے اور بعض کو اوپرلے جائیں گے ، اگر نیچے لے جارہے ہوں گے تو«اسفل سافلین» کے مصداق ہیں اور اگر اوپر لے جارہے ہوں گے تو «اعلی علیین » کے مالک ہے۔
رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے نمائندوں کی ملاقات
۲۰۱۵/۰۵/۲۷ – رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں نویں پارلیمنٹ کی باقی ماندہ ایک سال کی مدت میں سنجیدہ تلاش و کوشش جاری رکھنے اور انتخابات کے عوامل سے متاثر نہ ہونے ، حکومت اور دیگر قوا کے ساتھ تعاون و تعامل ، سن 1395 کے بجٹ اور چھٹےمنصوبے کے قانون کا جائزہ لینے کے سلسلے میں پائدار و مزاحمتی اقتصاد پر اہتمام اور انقلاب و نظام کے اصلی اصولوں پر استقامت کو پارلیمنٹ کے نمائندوں کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کی اقتصادی مشلات کے حل کی اصلی کلید ، اسی طرح ایٹمی معاملہ کو حل کرنے کی اصلی کنجی اندرونی ظرفیتوں اور مزاحمتی اقتصاد پر اعتماد اور تکیہ پر مبنی ہے۔ ملک میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے، مشکلات کا راہ حل اور راہ علاج اندرونی پیداوار کی تقویت اور مالی نظم و ضبط کی رعایت پر استوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں نویں پارلیمنٹ کے نمائندوں کے اچھے اقدامات اور گوششوں کی تعریف اور قدردانی کی اورپارلیمنٹ میں نمائندگی کی ایک سال کی باقی ماندہ مدت کو غنیمت موقع شمار کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ہوشیار رہیں اورباقی ماندہ ایک سال کی مدت میں انتخابات کی فضا آپ کی رفتار اور گفتارپر اثرانداز نہ ہونے پائے اور صرف حق کو معیار قراردیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کو چھٹے منصوبے پر مکمل توجہ مبذول کرنے اورقانون کے جائزے میں نمائندوں کو ذمہ داری کے آخری سال میں سستی اور غفلت سے دور رہنے کی سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: چھٹے منصوبے کا قانون بہت ہی اہم ہے کیونکہ حکومتیں اس کے اجراء کی پابند ہوں گی اور عوام کی زندگی بھی اس قانون کے زیر اثر قرار پائے گي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کو حکومت کے ساتھ تعاون و تعامل کے بارے میں تیسری سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حکومت دیگر قوا اور اداروں کے درمیان میں واقع ہے اور اس کی کارکردگی کے دیگر اداروں کی حرکت و پیشرفت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ، لہذا حکومت کے ساتھ تعامل اور تعاون بہت ضروری ہے اور یہ تعاون ہمدلی اور ہمزبانی کا حقیقی مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حسن ظن کو تعامل کی ایک شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: سؤ ظن ، سازش ، خیانت اور دوسرے سے سؤ استفادہ کرنے کے ذریعہ تعامل حاصل نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ہی حسن ظن دھوکہ کھانے اور خوش فہمی کے معنی میں بھی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تعامل اور اکراہ کے درمیان فرق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تعامل میں ملکی مفادات اور قانونی ذمہ داری نمائندوں اور وزراء کے پیش نظر رہنی چاہیے نہ ایکدوسرے کی غلط حمایت اور اکراہ و اجبار پر توجہ مبذول نہیں کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کمیشنوں میں وزراء کے ساتھ ادب و احترام پر مبنی رفتار کو تعامل کا ایک لازمی حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: نہ نمائندوں کو توہین آمیز رفتار رکھنی چاہیے اور نہ ہی حکومت اور وزراء کو سلطنت مآبانہ رفتار رکھنی چاہیے اور تمام موارد میں ادب کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی نمائندوں کو چوتھی سفارش مزاحمتی اور مقاومتی اقتصاد کے سلسلے میں تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں ایک باریک اور ظریف نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک میں مزاحمتی اقتصاد کے بارے میں ہمزبانی پائی جاتی ہے لیکن اس سلسلے میں ہمدلی بھی ہونی چاہیے اورہمیں گہرائی کے ساتھ مزاحمتی اقتصاد پر یقین رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے داخلی پیداوار کی تقویت کو ملک کی مشکلات کے حل کرنے کی اصلی کلید قراردیا اور پارلیمنٹ میں پیداوار کی راہ میں رکاوٹ دور کرنے کے سلسلے میں قانون کی منظور کی تعریف اور قدردانی کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم پیداوار کو تقویت پہنچائیں اور اندرونی ظرفیتوں سے بھر پوراستفادہ کریں تو ایٹمی معاملے جیسے بیرونی مسائل بھی آسانی کے ساتھ حل ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی مسئلہ کے لئے بہت سے راہ حل موجود ہیں جو سب کے سب داخلی پیداوار کی تقویت اور اندرونی ظرفیتوں سے استفادہ سے منسلک ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: ایٹمی مسئلہ کے علاوہ ہمیں جو مسائل امریکہ، مغربی ممالک اور صہیونیوں سے درپیش ہیں ان میں دوسرے مسائل کے علاوہ انسانی حقوق جیسے مسائل بھی موجود ہیں لیکن اگر ہم اپنی داخلی صلاحیتوں پر تکیہ کرتے ہوئے اندرونی مشکلات کو حل کرلیں گے تو ان مسائل کا حل بھی آسان ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمانی نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اسی بنیاد پر چھٹے منصوبے کے قانون کا جائزہ اور آئندہ سال کے بجٹ کے سلسلے میں مزاحمتی اقتصاد پر خصوصی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس میں موجود خامیوں کو دور کرنا چاہیے۔
تہران کا خطبہ نماز جمعہ
تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطیب نے کہا ہے کہ ایران کی فوجی تنصیبات کے معائنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی-
تہران کی مرکزی نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئی- تہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطیب نے ایٹمی مسئلے کے حل کے بہانے ایران کے فوجی اور سیکورٹی مراکز تک مغربی ملکوں کی دسترسی کو ناممکن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کے منافی قرار دیا- حجۃ الاسلام کاظم صدیقی نے ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے ایٹمی مذاکرات اور ایران کی فوجی تنصیبات کے معائنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی وہ جب چاہیں آزادانہ طور پر ان مقامات کا معائنہ کریں- انھوں نے کہا کہ یہ کام خلاف قانون ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اسے ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ تہران کے خطیب نماز جمعہ نے اس امر پر تاکیدکرتے ہوئے کہ ایران، مغرب کے سارے مطالبات تسلیم نہیں کرسکتا، کہا کہ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے خطوط کا تعیّن، رہبر انقلاب اسلامی کرتے ہیں اور جو مسئلہ رہبر انقلاب کے نظریے کے خلاف ہوگا، اسے قبول نہیں کیا جائےگا۔ حجۃ الاسلام صدیقی نے کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی، ایرانی قوم کا عظیم سرمایہ اور ملک کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہے- انہوں نے ایران کے ایٹمی حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ایٹمی مذاکرات کار، کہ جنہیں رہبر انقلاب اسلامی اور قوم کی حمایت حاصل ہے، قوت و اقتدار کے ساتھ ایران کی عزت و عظمت کے لئے کوشاں ہیں- حجۃ الاسلام صدیقی نے عہد شکنی میں امریکیوں کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان سمجھوتے کے باوجود ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنا،مذاکرات کے عمل میں ان کے فریبی افکار و عمل کو ثابت کرتا ہے- تہران کے خطیب نماز جمعہ نے اسی طرح عراق،لیبیا اور یمن جیسے ملکوں میں امن و امان درھم برھم کرنے کو امریکہ کا ایک اہم ہدف قرار دیا اور کہا کہ مغرب، مختلف بہانوں اور ہٹ دھرمی سے علاقے کی قوموں کے مفادات پر قابض ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاک چین راہداری منصوبہ: کل جماعتی کانفرنس جاری
پاک چین راہداری منصوبے پر اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس جاری ہے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس طرح کی سرمایہ کاری ماضی میں نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے تحت ترقیاتی منصوبے شفاف انداز میں آگے بڑھیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ پاک چین راہداری کے منصوبے کو پاکستان کی قسمت بدلنے کے حوالے سے ایک 'گیم چینجر' کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس منصوبے کے روٹ میں مبینہ تبدیلی پر اعتراض کررہی
سوره التين
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ
(1) قسم ہے انجیر اور زیتون کی
﴿2﴾ وَطُورِ سِينِينَ
(2) اور طورسینین کی
﴿3﴾ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ
(3) اور اس امن والے شہر کی
﴿4﴾ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
(4) ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے
﴿5﴾ ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ
(5) پھر ہم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا ہے
﴿6﴾ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ
(6) علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیئے تو ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے
﴿7﴾ فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ
(7) پھر تم کو روز جزا کے بارے میں کون جھٹلا سکتا ہے
﴿8﴾ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ
(8) کیا خدا سب سے بڑا حاکم اور فیصلہ کرنے والا نہیں ہے
سوره الشرح
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے
﴿1﴾ أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ
(1) کیا ہم نے آپ کے سینہ کو گشادہ نہیں کیا
﴿2﴾ وَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ
(2) اور کیا آپ کو بوجھ کو اتار نہیں لیا
﴿3﴾ الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
(3) جس نے آپ کی کمر کو توڑدیا تھا
﴿4﴾ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
(4) اور آپ کے ذکر کو بلند کردیا
﴿5﴾ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
(5) ہاں زحمت کے ساتھ آسانی بھی ہے۔
﴿6﴾ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
(6) بے شک تکلیف کے ساتھ سہولت بہی ہے۔
﴿7﴾ فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ
(7) لہذا جب آپ فارغ ہوجائیں تو نصب کردیں۔
﴿8﴾ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ
(8) اور اپنے رب کی طرف رخ کریں
ہندوستان میں شدید گرمی، 500 افراد ہلاک
جنوبی ہندوستان میں شدید گرمی کا قہر جاری ہے جس کے نتیجے میں پانچ سو افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ہندوستانی میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں اتوار کو درجہ حرارت اڑتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ ہفتے کے روز ریاست آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں شدید گرمی کے سبب ایک سو تیس افراد کی موت واقع ہوئی جن میں سے بیشتر مزدور ہیں۔ ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ میں کہا ہے کہ اتوار کو ریاست آندھرا پردیش میں بھی درجہ حرارت تقریبا سینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ ہندوستان کے محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ آنےوالے دنوں میں درجہ حرارت مزید بڑھے گا اور اگلے کچھ دنوں میں گرمی مزید جان لیوا ہوسکتی ہے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
