Super User

Super User

ایران کے "باور تین سو تہتر" میزائل سسٹم نے صیہونیوں کی نیندیں اڑا دیں اور ذرائع ابلاغ نیز صیہونی حکومت کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے-

موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایران میں "باور تین سو تہتر" میزائل سسٹم کی رونمائی نے غاصب صیہونی حکومت کے جارح حکمرانوں کا چین و سکون چھین لیا ہے، حتی صیہونی ذرائع ابلاغ بھی اس پر اپنی بے چینی نہیں چھپا پا رہے ہیں۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل ون کے رپورٹر نے"باور تین سو تہتر" میزائل سسٹم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی فوجی پیشرفت کا عمل مسلسل جاری ہے۔ صیہونی رپورٹر نے کہا کہ ایران میں یوم مسلح افواج کے موقع پر ہونے والی پریڈ میں اسرائیل مردہ باد کے پلے کارڈوں کے ساتھ ہی ایس تھری ہنڈریڈ کے ایرانی ماڈل، "باور تین سو تہتر" سمیت جدید ترین میزائیل اور جنگی ساز و سامانوں کی نمائش کی گئی۔ صیہونی رپورٹر نے تاکید کے ساتھ کہا کہ سیاسی لحاظ سے بھی تہران، آسٹریلیا کے وزیر خارجہ سمیت مختلف مغربی مہمانوں کی میزبانی کر رہا ہے اور یہ آمد و رفت، لوزان ایٹمی معاہدے کا نتیجہ ہے۔ صیہونی رپورٹر نے یمن پر سعودی حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں اس بات کی صلاحیت نہیں ہے کہ یمن کے خلاف فوجی کاروائیوں کو نتیجے تک پہنچا سکے اور اسی چیز نے ایران کو اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ یمن کے عوام کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالی پر کھل کر تنقید کرے- صیہونی رپورٹر نے دعوی کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، تہران کی جانب مغرب کے جھکاؤ سے فا‏ئدہ اٹھاکر مشرق وسطی میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا رہا ہے-

 

 

ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے نیپال میں آنے والے تباہ کن زلزلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس ملک کی حکومت، عوام اور لقہ اجل بننے والوں کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیاہے-

ایران کے دفترخارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے نیپال کے دارالحکومت کاٹھمانڈو اور پوکھرا کے علاقوں میں آنے والے شدید زلزلے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اس دلخراش سانحے پر نیپال کی حکومت، قوم اور سانحے کا شکار ہونے والوں کے لواحقین کو تعزیت پیش کی ہے- مرضیہ افخم نے ایران کی حکومت اور قوم کی جانب سے نیپال کی حکومت اور قوم نیز زلزلے سے متاثرہ افراد سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحتیابی کی آرزو بھی کی- نیپال کی پولیس کا کہنا ہے کہ تباہ کن زلزلے میں لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ ملبے کے نیچے دبی لاشوں کو باہر نکالے جانے کی کاروائی ابھی جاری ہے اس رو سے مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے- نیپال میں ریکٹر اسکیل پر ریکارڈ کئے جانے والے سات اعشاریہ نو کے شدید جھٹکوں کے ساتھ آنے والے زلزلے میں کافی تباہی ہوئی ہے- دوسری جانب زلزلے کے نتیجے میں ایورسٹ کی چوٹی پر آنے والے برف کے طوفان اور گلشیر گرنے کی وجہ سے دسیوں کوہ پیما بھی پھنس گئے ہیں جن کے زندہ ہونے کی امید بھی کم ہی کی جارہی ہے-

 

 

(( ۔۔۔کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔ [1]

”۔۔۔ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

نیکیوں سے مزین ھونا اور برائیوں سے پرھیز کرنا

جو شخص اپنے ارادہ و اختیار اور شناخت و معرفت کے ذریعہ الٰھی حقائق (اخلاقی حسنات )اور عملی واقعیات ( احکام خداوندی) کو اپنے صفحہ دل پر نقش کرلیتا ھے، اس نقش کو ایمان کے روغن سے جلا دیتا ھے، اور زمانہ کے حوادث و آفات سے نجات پالیتا ھے، جس کے ذریعہ سے انسان بھترین سیرت اور خوبصورت وشائستہ صورت بنالیتا ھے۔

الٰھی حقائق یا اخلاقی حسنات خداوندعالم کے اسماء و صفات کے جلوے اور ارادہ پروردگار کے عملی واقعیات کے جلوے ھیں،اسی وجہ سے یہ چیزیں انسان کی سیرت و صورت کو بازار مصر میں حُسن یوسف کی طرح جلوہ دیتے ھیں، اور دنیا و آخرت میں اس کو خریدنے والے بھت سے معشوق نظر آتے ھیں۔

لیکن وہ انسان جو اپنے قلم و ارادہ و اختیار سے جھل و غفلت غرور و تکبر ،بُرے اخلاق اور برے اعمال کو اپنے صفحہ دل پرنقش کرلیتا ھے ، جس کی وجہ سے وہ گناھوں میں غرق ھوتا چلا جاتا ھے، جو انسان کی ھمیشگی ھلاکت کے باعث ھیں، انھیں کی وجہ سے ان کی صورت بدشکل اور تیرہ و تاریک ھوجاتی ھے۔

اخلاقی برائیاں ،بُرے اعمال شیطانی صفات کا انعکاس اور شیطانی حرکتوں کا نتیجہ ھیں، اسی وجہ سے انسان کی سیرت و صورت پر شیطانی نشانیاں دکھائی دیتی ھیں، جس کی بنا پر خدا، انبیاء اور ملائکہ نفرت کرتے ھیں اور دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اس کے دامن گیر ھوجاتی ھے۔

معنوی و روحانی زیبائی و برائی کے سلسلہ میں ھمیں قرآن مجید کی آیات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وائمہ معصومین علیھم السلام کی احادیث کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ ان الٰھی حقائق اور آسمانی تعلیمات سے آشنائی کے ذریعہ اپنے کو مزین کریں، اور توبہ و استغفار کے ذریعہ قرآن مجید کے فرمان کے مطابق اپنے ظاھر و باطن کی اصلاح کو کامل کرلیں:

(( وَإِذَا جَائَکَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ اٴَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوء اً بِجَھالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَصْلَحَ فَاٴَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔[2]

”اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ھماری آیت وں پر ایمان رکھتے ھیں تو ان سے کہئے کہ سلام علیکم ۔۔۔تمھارے پروردگار نے اپنے اوپررحمت لازم قرار دے لی ھے کہ تم میں جو بھی از روئے جھالت برائی کرے گا اور اس کے بعد تو بہ کر کے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے“۔

اھل ہدایت و صاحب فلاح

(( الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھم یُنفِقُونَ۔ وَالَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِمَا اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا اٴُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْآخِرَةِ ھم یُوقِنُونَ۔ اٴُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِنْ رَبِّھم وَاٴُوْلَئِکَ ھم الْمُفْلِحُونَ))۔[3]

”جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ھیں ۔پابندی سے پورے اھتمام کے ساتھ نماز ادا کر تے ھیں اور جو کچھ ھم نے رزق دیا ھے اس میں سے ھماری راہ میں خرچ بھی کرتے ھیں ۔وہ ان تمام باتوں پر بھی ایمان رکھتے ھیں جنھیں (اے رسول) ھم نے آپ پر نازل کیا ھے اور جو آپ سے پھلے نازل کی گئی ھیں اور آخرت پر بھی یقین رکھتے ھیں۔یھی وہ لوگ ھیں جو اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت کے حامل ھیں اور یھی لوگ فلاح یافتہ اور کامیاب ھیں“۔

مذکورہ آیت سے درج ذیل نتائج برآمد ھوتے ھیں:

۱۔ غیب پر ایمان ۔

۲۔ نماز قائم کرنا۔

۳۔ صدقہ اور حقوق کی ادائیگی۔

۴۔ قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں پر ایمان۔

۵۔ آخرت پر یقین۔

غیب پر ایمان

غیب سے مراد ایسے امور ھیں جن کو ظاھری حواس سے درک نھیں کیا جاسکتا، چونکہ ان کو حواس کے ذریعہ نھیں درک کیا جاسکتا لہٰذا ان کو غیبی امور کھا جاتا ھے۔

غیب ، ان حقائق کو کھتے ھیں جن کو دل اور عقل کی آنکھ سے درک کیا جاسکتا ھے،جس کے مصادیق خداوندعالم، فرشتے، برزخ، روز محشر، حساب، میزان اور جنت و جہنم ھے، ان کا بیان کرنا انبیاء ، ائمہ علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کی ذمہ داری ھے۔

ان حقائق پر ایمان رکھنے سے انسان کا باطن طیب و طاھر، روح صاف و پاکیزہ، تزکیہ نفس، روحی سکون  اور قلبی اطمینان حاصل ھوتا ھے نیز اعضاء و جوارح خدا و رسول اور اھل بیت علیھم السلام کے احکام کے پابند ھوجاتے ھیں۔

غیب پر ایمان رکھنے سے انسان میں تقویٰ پیدا ھوتا ھے، اس میں عدالت پیدا ھوتی ھے، اور انسان کی تمام استعداد شکوفہ ھوتی ھیں، یھی ایمان اس کے کمالات میں اضافہ کرتا ھے، نیز خداوندعالم کی خلافت و جانشینی حاصل ھونے کا راستہ ھموار ھوتا ھے۔

کتاب خدا ،قرآن مجید جو احسن الحدیث ، اصدق قول اور بھترین وعظ و نصیحت کرنے والی کتاب ھے،جس کے وحی ھونے کی صحت و استحکام میں کوئی شک و شبہ نھیں ھے، اس نے مختلف سوروں میں مختلف دلائل کے ذریعہ ثابت کیا ھے کہ قرآن کتاب خدا ھے، جن کی بنا پر انسان کو ذرہ برابر بھی شک نھیں رھتا، قرآن کریم کی بھت سی آیات میں غیب کے مکمل مصادیق بیان کئے گئے ھیں اور ان آیات کے ذیل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیھم السلام سے بھت اھم احادیث بیان ھوئی ھیں جن کے پر توجہ کرنے سے انسان کے لئے غیب پر ایمان و یقین کا راستہ ھموار ھوجاتا ھے۔

خدا

قرآن مجید نے خداوندعالم کو تمام کائنات اور تمام موجودات کے خالق کے عنوان سے پہچنوایا ھے، اور تمام انسانوں کو خدا کی عبادت کی دعوت دی ھے، اس کا شریک اس کی ضدو مثل اوراس کا کفوقرار دینے سے سخت منع کیا ھے اور اس کو غفلت و جھالت کا نتیجہ بتایا ھے، اور کسی چیز کو اس کے خلاف بیان کرنے کو فطرت و وجدان کے خلاف شمار کیا ھے، اس عالم ہستی میں صحیح غور و فکر کرنے کی رغبت دلائی ھے، اور فطری، عقلی، طبیعی اور علمی دلائل و شواہد کے ذریعہ غیر خدا کے خالق ھونے کو باطل قرار دیا ھے، اور اس جملہ کو بے بنیاد، بے معنی اور مسخرہ آمیز بتایا ھے کہ ”یہ چیزیں خود بخود وجود میں آگئی ھیں“ اس کی شدت کے ساتھ ردّ کی ھے اور علمی منطق اور عقل سلیم سے کوسوں دور بتایا ھے، المختصر: قرآن مجید نے اپنی آیات کے اندر انسان کے جھل اور غفلت جیسی بیماریوں کا علاج بتایا ھے، اورفطرت و وجدان کو جھنجھوڑتے ھوئے عقل و دل کی آنکھوں کے سامنے سے شک و تردید اور اوھام کے پردوں کو ہٹادیا ھے، اور خداوندعالم کے وجود کو دلائل کے ساتھ ثابت کیا ھے ، نیز اس معنی پر توجہ دلائی ھے کہ آئینہ ہستی کی حقیقت روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے، اور خدا کی ذات اقدس میں کسی کے لئے شک و تردید کا کوئی وجود نھیں ھے:

(( ۔۔۔ اٴَفِی اللهِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یَدْعُوکُمْ لِیَغْفِرَ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ۔۔۔))۔[4]

”۔۔۔ کیا تمھیں اللہ کے وجود کے بارے میں بھی شک ھے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ھے اور تمھیں اس لئے بلاتا ھے کہ تمھارے گناھوں کو معاف کردے۔۔“۔

((یَااٴَیُّھا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ الْاٴَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَاٴَنْزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہِ مِنْ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلاَتَجْعَلُوا لِلَّہِ اٴَندَادًا وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ))۔[5]

”اے انسانو! پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ۔اس پروردگار نے تمھارے لئے زمین کا فرش اور آسمان کا شامیانہ بنایا ھے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمھاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ھیں لہٰذا اس کے لئے جان بوجھ کر کسی کو ھمسر اور مثل نہ بناوٴ“۔

جی ھاں! اس نے ھمیں اور ھم سے پھلے انسانوں کو خلق کیا، آسمانوں کو بنایا، تمھاری زندگی کے لئے زمین کا فرش بچھایا، تمھارے لئے بارش برسائی، جس کی وجہ سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ھوئے، اگر یہ تمام عجیب و غریب چیزیں اس کا کام نھیں ھے تو پھر کس کا کام ھے؟

اگر کوئی کھتا ھے کہ ان تمام عجیب و غریب خلقت کی پیدائش کی علت ”تصادف“(یعنی اتفاقی) ھے تو اس کی مستحکم منطقی اور عقلی دلیل کیا ھے؟ اگر کھا گیاکہ یہ چیزیں خود بخود پیدا ھوگئیں تو کیا اس کائنات کی چیزیں پھلے سے موجود نھیں تھیں جو خود بخود وجود میں آگئیں، اس کے علاوہ جو چیز موجود ھے وہ خود بخود وجود میں آجائیں اس کے کوئی معنی نھیں ھیں، پس معلوم ھوا کہ ان تمام چیزوں کا خالق اور ان کو نظم دینے والا علیم و بصیر و خبیر ”اللہ تعالیٰ“ ھے جس نے ان تمام چیزوں کو وجود بخشا ھے، اور اس مضبوط اور مستحکم نظام کی بنیاد ڈالی ھے، لہٰذا انسان پر واجب ھے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے، اس کی عبادت و بندگی کرے تاکہ تقویٰ، پاکیزگی اور کمال کی معراج حاصل کرے:

(( اعْبُدُوا رَبَّکُمْ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون))۔[6]

”۔۔۔تم لوگ اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمھیں بھی پیدا کیا ھے اور تم سے پھلے والوں کو بھی خلق کیا ھے ۔شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرھیز گار بن جاوٴ“۔

مفضل بن عمر کوفی کھتے ھیں: مجھ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

وجود خدا کی سب سے پھلی دلیل اس دنیا کا نظم و ترتیب ھے کہ تمام چیزیں بغیر کسی کمی و نقصان کے اپنی جگہ پر موجود ھيں اور اپنا کام انجام دے رھی ھيں۔

مخلوقات کے لئے زمین کا فرش بچھایا گیا، آسمان پر زمین کے لئے روشنی دینے والے سورج چاند اور ستارے لٹکائے گئے، پھاڑوں کے اندر گرانبھا جواھرات قرار دئے گئے، ھر چیز میں ایک مصلحت رکھی گئی اور ان تمام چیزوں کو انسان کے اختیار میں دیدیا گیا، مختلف قسم کی گھاس، درخت اور حیوانات کو اس کے لئے خلق کیا تاکہ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرسکےں۔

اس دنیا کے نظم وترتیب کو دیکھو کہ جھاں ھر چیز ذرہ برابر کمی و نقصان کے بغیر اپنی مخصوص جگہ پرھے جو اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ یہ دنیا حکمت کے تحت پیدا کی گئی ھے، اس کے علاوہ تمام چیزوں کے درمیان ایک رابطہ پایا جاتا ھے اور سب ایک دوسرے کے محتاج ھیں جو خود اس بات کی بھترین دلیل ھے کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک ھی ھے، ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے والے نے ان تمام چیزوں کے درمیان الفت پیدا کی ھے اور ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرا کا محتاج قرار دیا ھے!

مفضل کھتے ھیں: معرفت خدا کی گفتگو کے تیسرے دن جب امام ششم کی خدمت میں حاضر ھوا، تو امام علیہ السلام نے فرمایا: آج چاند ،سورج اور ستاروں کے بارے میں گفتگو ھوگی:

اے مفضل! آسمان کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ھے او رجھاں تک انسان آسمان کو دیکھتا چلا جاتا ھے اس کو کوئی تکلیف نھیں ھوتی، کیونکہ نیلا رنگ نہ صرف یہ کہ آنکھ کے لئے نقصان دہ نھیں ھے بلکہ آنکھ کی طاقت کے لئے مفید بھی ھے۔

اگر سورج نہ نکلتا اور دن نہ ھوتا تو پھر دنیا کے تمام امور میں خلل واقع ھوجاتا، لوگ اپنے کاموں کو نہ کرپاتے، بغیر نور کے ان کی زندگی کا کوئی مزہ نہ ھوتا، یہ ایک ایسی حقیقت ھے جو روز روشن سے بھی زیادہ واضح ھے۔

اگر سورج غروب نہ ھوتا اور رات کا وجود نہ ھوتا تو لوگوں کو سکون حاصل نہ ھوتا اور ان کی تھکاوٹ دور نہ ھوتی، ھاضمہ نظام غذا کو ہضم نہ کرپاتا او راس غذائی طاقت کو دوسرے اعضاء تک نہ پہنچاتا۔

اگر ھمیشہ دن ھوا کرتا تو انسان لالچ کی وجہ سے ھمیشہ کام میں لگارھتا جس سے انسان کا بدن رفتہ رفتہ جواب دیدیتا، کیونکہ بھت سے لوگ مال دنیا جمع کرنے میں اس قدر لالچی ھیں کہ اگر رات کا اندھیرے ان کے کاموں میں مانع نہ ھو تا تو اس قدر کام کرتے کہ اپاہج ھوجاتے!

اگر رات نہ ھوا کرتی تو سورج کی گرمی سے زمین میں اس قدر گرمی پیدا ھوجاتی کہ روئے زمین پر کوئی حیوان اور درخت باقی نہ رھتا۔

اسی وجہ سے خداوندعالم نے سورج کو ایک چراغ کی طرح قرار دیا کہ ضرورت کے وقت اس کو جلایاجاتا ھے تاکہ اھل خانہ اپنی ضرورت سے فارغ ھوجائیں، اور پھر اس کو خاموش کردیتے ھیں تاکہ آرام کرلیں! پس نور اور اندھیرا جو ایک دوسرے کی ضدھیں دونوں ھی اس دنیا کے نظام اور انسانوں کے لئے خلق کئے گئے ھیں۔

اے مفضل! غور تو کرو کہ کس طرح سورج کے طلوع و غروب سے چار فصلیں وجود میں آتی ھیں تاکہ حیوانات او ردرخت رشد ونمو کرسکیں اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائیں۔

اسی طرح دن رات کی مدت کے بارے میں غور فکر کرو کہ کس طرح انسان کی مصلحت کا لحاظ رکھا گیا ھے اکثر آباد زمین پر دن ۱۵/ گھنٹے سے زیادہ نھیں ھوتا اگر دن سو یا دوسو گھنٹے کا ھوتا تو کوئی بھی جانداز زمین پر باقی نہ بچتا۔

کیونکہ اس قدر طولانی دن میں دوڑ دھوپ کرتے ھوئے ھلاک ھوجاتے، درخت وغیرہ سورج کی گرمی سے خشک ھوجاتے!

اسی طرح اگر سو یا دوسو گھنٹے کی رات ھوا کرتی، تمام جاندار روزی حاصل نھیں کرسکتے تھے اور بھوک سے ھلاک ھوجاتے، درختوں اور سبزیوں کی حرارت کم ھوجاتی، جس کے نتیجہ میںان کا خاتمہ ھوجاتا، جیسا کہ آپ نے دیکھا ھوگا کہ بھت سی گھاس اگر ایسی جگہ اُگ آئیں جھاں پر سورج کی روشنی نہ پڑے ھو تو وہ بر باد ھوجایا کرتی ھیں۔

سردیوں کے موسم میں درختوں اور نباتات کے اندر کی حرارت او رگرمی مخفی ھوجاتی ھے تاکہ ان میں پھلوں کا مادہ پیدا ھو، سردی کی وجہ سے بادل اٹھتے ھیں، بارش ھوتی ھے،جس سے حیوانوں کے بدن مضبوط ھوتے ھیں، فصل بھار میں درخت اور نباتات میں حرکت پیدا ھوتی ھے اور آہستہ آہستہ ظاھر ھوتے ھیں، کلیاں کھلنے لگتی ھیں، حیوانات بچے پیدا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے پاس جاتے ھیں،گرمی کے موسم میں گرمی کی وجہ سے بھت سے پھل پکنے لگتے ھیں، حیوانات کے جسم میں بڑھی ھوئی رطوبت جذب ھوتی ھے، اور روئے زمین کی رطوبت کم ھوتی تاکہ انسان عمارت کا کام اور دیگر کاموں کو آسانی سے انجام دے سکے، فصل پائیز میں ھوا صاف ھوتی ھے تاکہ انسان کے جسم کی بیماریاں دور ھوجائیں اور بدن صحیح و سالم ھوجائے، اگر کوئی شخص ان چار فصلوں کے فوائد بیان کرنا چاھے تو گفتگو طولانی ھوجائے گی!

سورج کی روشنی کی کیفیت پر غور و فکر کرو کہ جس کو خداوندعالم نے اس طرح قرار دیا ھے کہ پوری زمین اس کی روشنی سے فیضیاب ھوتی ھے، اگر سورج کے لئے طلوع و غروب نہ ھوتا تونور کی بھت سی جھتوں سے استفادہ نہ ھوتا، پھاڑ،دیوار اور چھت نور کی تابش میں مانع ھوجاتے، چونکہ خداوندعالم نور خورشید سے تمام زمین کو فیضیاب کرنا چاھتا ھے لہٰذا سورج کی روشنی کو اس طرح مرتب کیا ھے کہ اگر صبح کے وقت کھیں سورج کی روشنی نھیں پہنچتی تو دن کے دوسرے حصہ میں وھاں سورج کی روشنی پہنچ جاتی ھے، یا اگر کسی جگہ شام کے وقت روشنی نہ پہنچ سکے تو صبح کے وقت روشنی سے فیضیاب ھوسکے، پس معلوم ھوا کہ کوئی جگہ ایسی نھیں ھے جوسورج کی روشنی سے فائدہ نہ اٹھائے، واقعاً یہ خوش نصیبی ھے کہ خداوندعالم نے سورج کی روشنی کو زمین رہنے والے تمام موجودات چاھے وہ جمادات ھوں یا نباتات یا دوسری جاندار چیزیں سب کے لئے پیدا کی اور کسی کو بھی اس سے محروم نہ رکھا۔

اگر ایک سال تک سورج کی روشنی زمین پر نہ پڑتی تو زمین پر رہنے والوں کا کیا حال ھوتا؟ کیا کوئی زندہ رہ سکتا تھا؟

رات کا اندھیرا بھی انسان کے لئے مفید ھے جو اس کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ھے، لیکن چونکہ رات میں بھی کبھی روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، بھت سے لوگ وقت نہ ھونے یا گرمی کی وجہ سے رات میں کام کرنے پر مجبور ھوتے ھیں یا بعض مسافر رات کو سفر کرتے ھیں ان کو روشنی کی ضرورت ھوتی ھے، تو اس ضرورت کے تحت خداوندعالم نے چاند او رستاروں کو خلق فرمایا ھے تاکہ وہ اپنی نور افشانی سے خدا کی مخلوق کے لئے آسائش کا سامان فراھم کرےںاور اپنی منظم حرکت کے ذریعہ مسافروںکو راستہ کی طرف راہنمائی کریں اور کشی میں سوار مسافرین کو راستہ بھٹکنے سے روکے رھیں۔

ستاروں کی دو قسم ھوتی ھیں، ایک ثابت ستارے جو ایک جگہ اپنے معین فاصلہ پر رھتے ھیں، اور دوسرے ستارے گھومتے رھتے ھیں ایک برج سے دوسرے برج کی طرف جاتے ھیں ، یہ ستارے اپنے راستہ سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں ھوتے، ان کی حرکت کی بھی دو قسمیں ھیں: ایک عمودی حرکت ھوتی ھے جو دن رات میں مشرق سے مغرب کی طرف انجام پاتی ھے، اور دوسری اس کی اپنی مخصوص حرکت ھوتی ھے، اور وہ مغرب سے مشرق کی طرف ھوتی ھے، جیسے اگر ایک چیونٹی چکّی کے پاٹ پر بیٹھ کر بائیں جانب حرکت کرے درحالیکہ چکّی داہنی جانب چلتی ھے، لہٰذا چیونٹی کی دو حرکت ھوتی ھيں ایک اپنے ارادہ سے اور دوسری چکّی کی وجہ سے، کیا یہ ستارے جن میں بعض اپنی جگہ قائم ھیں اور بعض منظم طور پر حرکت کرتے ھیں کیا ان کی تدبیر خداوندحکیم کے علاوہ ممکن ھے؟ اگر کسی صاحب حکمت کی تدبیر نہ ھوتی تو یا سب ساکن ھوتے یا سب متحرک، اور اگر متحرک بھی ھوتے تو اتنا صحیح نظم و ضبط کھاں پیدا ھوتا؟

ستاروں کی رفتار انسانوں کے تصور سے کھیں زیادہ ھے، اور ان کی روشنی اس قدر شدید ھے کہ اس کو دیکھنے کی تاب کسی بھی آنکھ میں نھیں ھے ، خداوندعالم نے ھمارے اور ان کے درمیان اس قدر فاصلہ قرار دیا ھے کہ ھم ان کی حرکت کو درک نھیں کرسکتے، اور نہ ھی ان کی روشنی ھماری آنکھوں کے لئے نقصان دہ ھے، اگر اپنی مکمل رفتار کے ساتھ ھم سے نزدیک ھوتے، تو ان کے نور کی شدت کی وجہ سے ھماری آنکھیں نابینا ھوجاتیں، اسی طرح جب پے در پے بجلی کڑکتی وچمکتی ھے آنکھ کے لئے نقصان دہ ثابت ھوسکتی ھے، جس طرح سے اگر کچھ لوگ ایک کمرہ میں موجود ھوں اور وھاں پر تیز روشنی والے بلب روشن ھوں اور اچانک خاموش کردئے جائیں تو آنکھیں پریشان ھوجاتی ھيں اور کچھ دکھائی نھیں دیتا۔

اے مفضل! اگر رہٹ کے ذریعہ کسی کنویں سے پانی نکال کر کسی باغ کی سینچائی کی جائے، عمارت، کنویں اور پانی نکالنے کے وسائل اس قدر منظم اور قاعدہ کے تحت ھوں کہ باغ کی صحیح سنچائی ھوسکے ، اگر کسی ایسی رہٹ کو دیکھے تو کیا انسان کہہ سکتا ھے کہ یہ خود بخود بن گئی ھے، اور کسی نے اس کو نھیں بنایا ھے اور کسی نے منظم نھیں کیا ھے، یہ بات واضح ھے کہ عقل سلیم اس کے دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرتی ھے کہ ایک ماھر اور ھوشیار شخص نے اس رہٹ کو اس اندازسے بنایا ھے، اور جب انسان پانی نکالنے والی ایک چھوٹی سی چیز کو دیکھنے کے بعد اس کے بنانے والے کی طرف متوجہ ھوجاتا ھے تو پھر کس طرح ممکن ھے کہ ان تمام گھومنے والے اور ایک جگہ باقی رہنے والے ستاروں، شب و روز، سال کی چار فصلوں کو حساب شدہ دیکھے جبکہ ان میں ذرا بھی انحراف اور بے نظمی نھیں پائی جاتی تو کیا انسان اس قدر عظیم اور عجیب و غریب چیزوں کو دیکھ کر ان کے پیدا کرنے والے کو نھیں پہچان سکتا؟[7]

ایک شخص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضرھوکر عرض کرتا ھے: مجھے علم کے عجائبات سکھادیجئے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا: کیا تجھے اصل علم کے بارے میں کچھ خبر ھے جو عجائب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاھتا ھے؟ تو اس نے کھا: یا رسول اللہ! اصل علم کیا ھے؟ تو حضرت نے فرمایا: معرفت خدا، اور حق معرفت، اس نے کھا: حق معرفت کیا ھے؟ آپ نے فرمایا: خدا کی مثل و مانند اور شبیہ نہ ماننا، اور خدا کو واحد، احد، ظاھر، باطن، اول و آخر ماننا اور یہ کہ اس کا کوئی کفو و نظیر نھیں ھے، اور یھی معرفت کاحق ھے۔[8]

پورے قرآن کریم میں اس مسلم اور ھمیشگی حقیقت پر توجہ دلائی گئی ھے کہ وہ حقیقت اصل جھان اوراس دنیا کو پیدا کرنے والے اور اس کو باقی رکھنے والی کی ھے، انسان کے حواس کو ظاھری آنکھوں سے درک نھیں کیا جاسکتا، لہٰذا غیب کھا جاتا ھے، اور یہ تمام موجوات فنا ھونے والی ھیں لیکن اس کی ذات باقی ھے ، نیز یہ کہ تمام موجوات کے لئے آغاز و انجام ھوتا ھے لیکن اس کے لئے کوئی آغاز اور انجام نھیں ھے، وھی اول ھے اور وھی آخر ۔

قرآن کریم کے تمام سوروں اور اس کی آیات میں اس حقیقت کو ”اللہ تعالیٰ“ کھا گیا ھے، اور ھر سورے میں متعدد بار تکرار ھوا ھے، اور تمام واقعیات اور تمام مخلوقات اسی واحد قھار کے اسم گرامی سے منسوب ھیں ۔

ھم جس مقدار میں خدا کی مخلوقات اور متعدد عالم کو ایک جگہ ضمیمہ کرکے مطالعہ کریں تو ھم دیکھیں گے:

یہ تمام مجموعہ ایک چھوٹے عالم کی طرح ایک نظام کی پیروی کرتا ھے یھاں تک کہ اگر تمام وسیع و عریض عالم کو جمع کریں اور انسانی علم و سائنس کے جدید وسائل جیسے ٹلسکوپ "Telescop"وغیرہ کے ذریعہ کشف ھونے والی چیزوں کو ملاحظہ کریں تو جو نظام اور قوانین ایک چھوٹے نظام میں دیکھے جاتے ھیں ان ھی کو مشاہدہ کریں گے، اور اگر عالَموں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے تجزیہ و تحلیل کریں یھاں تک کہ ایک چھوٹے سے ”مولکل“"Molecule" (یعنی کسی چیز کا سب سے چھوٹا جز )کو بھی دیکھیں گے تو ملاحظہ فرمائیں گے کہ اس کا نظام اس عظیم جھان سے کچھ بھی کم نھیں ھے، حالانکہ یہ تمام موجودات ایک دوسرے سے بالکل الگ ھیں۔

 

Saturday, 25 April 2015 10:29

سوره المزمل

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ
(1) اے میرے چادر لپیٹنے والے

﴿2﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا
(2) رات کو اٹھو مگر ذرا کم

﴿3﴾ نِصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا 
(3) آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر دو

﴿4﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
(4) یا کچھ زیادہ کردو اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو

﴿5﴾ إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا 
(5) ہم عنقریب تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نازل کرنے والے ہیں

﴿6﴾ إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْءًا وَأَقْوَمُ قِيلًا 
(6) بیشک رات کا اُٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے

﴿7﴾ إِنَّ لَكَ فِي اَلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِيلًا 
(7) یقینا آپ کے لئے دن میں بہت سے مشغولیات ہیں

﴿8﴾  وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا
(8) اور آپ اپنے رب کے نام کا ذکر کریں اور اسی کے ہو رہیں

﴿9﴾ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا
(9) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اور اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا آپ اسی کو اپنا نگراں بنالیں

﴿10﴾ وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا
(10) اور یہ لوگ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس پر صبر کریں اور انہیں خوبصورتی کے ساتھ اپنے سے الگ کردیں

﴿11﴾ وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا 
(11) اور ہمیں اور ان دولت مند جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیں

﴿12﴾ إِنَّ لَدَيْنَا أَنكَالًا وَجَحِيمًا
(12) ہمارے پاس ان کے لئے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ ہے

﴿13﴾ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا 
(13) اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے

﴿14﴾ يَوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلًا
(14) جس دن زمین اور پہاڑ لرزہ میں آجائیں گے اور پہاڑ ریت کا ایک ٹیلہ بن جائیں گے

﴿15﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا 
(15) بیشک ہم نے تم لوگوں کی طرف تمہارا گواہ بناکر ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا

﴿16﴾ فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلًا
(16) تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سخت گرفت میں لے لیا

﴿17﴾ فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا
(17) پھر تم بھی کفر اختیار کرو گے تو اس دن سے کس طرح بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنادے گا

﴿18﴾ السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا 
(18) جس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور یہ وعدہ بہرحال پورا ہونے والا ہے

﴿19﴾ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلًا

(19) یہ درحقیقت عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں اور جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کے راستے کو اختیار کرلے

﴿20﴾ إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
(20) آپ کا پروردگار جانتا ہے کہ دو تہائی رات کے قریب یا نصف شب یا ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک گروہ اور بھی ہے اور اللہ د ن و رات کا صحیح اندازہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ تم لوگ اس کا صحیح احصاءنہ کر سکوگے تو اس نے تمہارے اوپر مہربانی کر دی ہے اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑھ لو کہ وہ جانتا ہے کہ عنقریب تم میں سے بعض مریض ہوجائےں گے اور بعض رزق خدا کو تلاش کرنے کے لئے سفر میں چلے جائےں گے اور بعض راہِ خدا میں جہاد کریں گے تو جس قدر ممکن ہو تلاوت کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور پھر جو کچھ بھی اپنے نفس کے واسطے نیکی پیشگی پھیج دو گے اسے خدا کی بارگاہ میں حاضر پاﺅگے ،بہتر اور اجر کے اعتبار سے عظیم تر۔ اور اللہ سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربا ن ہے

 

فلسطین الآن کی رپورٹ کے مطابق صیہونی فوجیوں نے غزہ پٹی کے شہریوں کو مسجد الاقصی میں نماز جمعہ پڑھنے کے لئے مقبوضہ فلسطین میں داخل نہیں ہونے دیا- اس رپورٹ کے مطابق صیہونیوں نے دعوی کیا کہ انھوں نے یہ اقدام غزہ سے تل ابیب کے اڈوں پر فائر کئے جانے والے راکٹ حملے پر احتجاج میں انجام دیا ہے- صیہونی عہدیدار یواف مردخای نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے دو سو شہری نماز جمعہ میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی- صیہونیوں کا یہ اقدام ایسے عالم میں انجام پایا ہے کہ فلسطینی استقامتی گروہوں نے صیہونیوں کے ٹھکانوں پر میزائل یا راکٹ فائر کرنے سے متعلق صیہونیوں کے الزام کو مسترد کردیا ہے-

 

 

Wednesday, 22 April 2015 10:04

سوره الجن

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا 
(1) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے

﴿2﴾ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَن نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا 
(2) جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں اور کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے

﴿3﴾ وَأَنَّهُ تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا
(3) اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا

﴿4﴾ وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللَّهِ شَطَطًا 
(4) اور ہمارے بیوقوف لوگ طرح طرح کی بے ربط باتیں کررہے ہیں

﴿5﴾ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن تَقُولَ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا
(5) اور ہمارا خیال تو یہی تھا کہ انسان اور جناّت خدا کے خلاف جھوٹ نہ بولیں گے

﴿6﴾ وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا 
(6) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جناّت کے بعض لوگوں کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوں نے گرفتاری میں اور اضافہ کردیا

﴿7﴾ وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَبْعَثَ اللَّهُ أَحَدًا 
(7) اور یہ کہ تمہاری طرح ان کا بھی خیال تھا کہ خدا کسی کو دوبارہ نہیں زندہ کرے گا

﴿8﴾ وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاء فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
(8) اور ہم نے آسمان کو دیکھا تو اسے سخت قسم کے نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا

﴿9﴾ وَأَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَن يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدْ لَهُ شِهَابًا رَّصَدًا 
(9) اور ہم پہلے بعض مقامات پر بیٹھ کر باتیں سن لیا کرتے تھے لیکن اب کوئی سننا چاہے گا تو اپنے لئے شعلوں کو تیار پائے گا

﴿10﴾ وَأَنَّا لَا نَدْرِي أَشَرٌّ أُرِيدَ بِمَن فِي الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا 
(10) اور ہمیں نہیں معلوم کہ اہل زمین کے لئے اس سے برائی مقصود ہے یا نیکی کا ارادہ کیا گیا ہے

﴿11﴾ وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَلِكَ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا
(11) اور ہم میں سے بعض نیک کردار ہیں اور بعض کے علاوہ ہیں اور ہم طرح طرح کے گروہ ہیں

﴿12﴾ وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَبًا 
(12) اور ہمارا خیال ہے کہ ہم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے اور نہ بھاگ کر اسے اپنی گرفت سے عاجز کرسکتے ہیں

﴿13﴾ وَأَنَّا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى آمَنَّا بِهِ فَمَن يُؤْمِن بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا
(13) اور ہم نے ہدایت کو سنا تو ہم تو ایمان لے آئے اب جو بھی اپنے پروردگار پر ایمان لائے گا اسے نہ خسارہ کا خوف ہوگا اور نہ ظلم و زیادتی کا

﴿14﴾ وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقَاسِطُونَ فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُوْلَئِكَ تَحَرَّوْا رَشَدًا 
(14) اور ہم میں سے بعض اطاعت گزار ہیں اور بعض نافرمان اور جو اطاعت گزار ہوگا اس نے ہدایت کی راہ پالی ہے

﴿15﴾ وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا 
(15) اور نافرمان تو جہنمّ کے کندے ہوگئے ہیں

﴿16﴾ وَأَلَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاء غَدَقًا
(16) اور اگر یہ لوگ سب ہدایت کے راستے پر ہوتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے

﴿17﴾ لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا
(17) تاکہ ان کا امتحان لے سکیں اور جو بھی اپنے رب کے ذکر سے اعراض کرے گا اسے سخت عذاب کے راستے پر چلنا پڑے گا

﴿18﴾ وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
(18) اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا

﴿19﴾ وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا
(19) اور یہ کہ جب بندہ خدا عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ لوگ اس کے گرد ہجوم کرکے گر پڑتے

﴿20﴾ قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
(20) پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف اپنے پروردگار کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتا ہوں

﴿21﴾ قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا 
(21) کہہ دیجئے کہ میں تمہارے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ فائدہ کا

﴿22﴾ قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا 
(22) کہہ دیجئے کہ اللہ کے مقابلہ میں میرا بھی بچانے والا کوئی نہیں ہے اور نہ میں کوئی پناہ گاہ پاتا ہوں

﴿23﴾ إِلَّا بَلَاغًا مِّنَ اللَّهِ وَرِسَالَاتِهِ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا
(23) مگر یہ کہ اپنے رب کے احکام اور پیغام کو پہنچادوں اور جو اللہ و رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لئے جہنم ّہے اور وہ اسی میں ہمیشہ رہنے والا ہے

﴿24﴾ حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَأَقَلُّ عَدَدًا
(24) یہاں تک کہ جب ان لوگوں نے اس عذاب کو دیکھ لیا جس کا وعدہ کیا گیا تھا تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کے مددگار کمزور اور کس کی تعداد کمتر ہے

﴿25﴾ قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا 
(25) کہہ دیجئے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وعدہ قریب ہی ہے یا ابھی خدا کوئی اور مدّت بھی قرار دے گا

﴿26﴾ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا
(26) وہ عالم الغیب ہے اور اپنے غیب پر کسی کو بھی مطلع نہیں کرتا ہے

﴿27﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
(27) مگر جس رسول کو پسند کرلے تو اس کے آگے پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے

﴿28﴾ لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا
(28) تاکہ وہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغامات کو پہنچادیا ہے اور وہ جس کے پاس جو کچھ بھی ہے اس پر حاوی ہے اور سب کے اعداد کا حساب رکھنے والا ہ

 

Wednesday, 22 April 2015 10:00

سوره نوح

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے


﴿1﴾ إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
(1) بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو دردناک عذاب کے آنے سے پہلے ڈراؤ

﴿2﴾ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
(2) انہوں نے کہا اے قوم میں تمہارے لئے واضح طور پر ڈرانے والا ہوں

﴿3﴾ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ
(3) کہ اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو

﴿4﴾ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاء لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
(4) وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو

﴿5﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا
(5) انہوں نے کہا پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن میں بھی بلایا اور رات میں بھی

﴿6﴾ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا
(6) پھر بھی میری دعوت کا کوئی اثر سوائے اس کے نہ ہوا کہ انہوں نے فرار اختیار کیا

﴿7﴾ وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا
(7) اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ تو انہیں معاف کردے تو انہوں نے اپنی انگلیوں کو کانوں میں رکھ لیا اور اپنے کپڑے اوڑھ لئے اور اپنی بات پر اڑ گئے اور شدت سے اکڑے رہے

﴿8﴾ ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا
(8) پھر میں نے ان کو علی الاعلان دعوت دی

﴿9﴾ ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا
(9) پھر میں نے اعلان بھی کیا اور خفیہ طور سے بھی دعوت دی

﴿10﴾ فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا 
(10) اور کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے

﴿11﴾  يُرْسِلِ السَّمَاء عَلَيْكُم مِّدْرَارًا
(11) وہ تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا

﴿12﴾ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا 
(12) اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں قرار دے گا

﴿13﴾ مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا
(13) آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی عظمت کا خیال نہیں کرتے ہو

﴿14﴾ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا 
(14) جب کہ اسی نے تمہیں مختلف انداز میں پیدا کیا ہے

﴿15﴾ أَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا
(15) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے کس طرح تہ بہ تہ سات آسمان بنائے ہیں

﴿16﴾ وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا
(16) اور قمر کو ان میں روشنی اور سورج کو روشن چراغ بنایا ہے

﴿17﴾ وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا 
(17) اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے

﴿18﴾ ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا
(18) پھر تمہیں اسی میں لے جائے گا اور پھر نئی شکل میں نکالے گا

﴿19﴾ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا
(19) اور اللہ ہی نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنادیا ہے

﴿20﴾ لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا
(20) تاکہ تم اس میں مختلف کشادہ راستوں پر چلو

﴿21﴾ قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا
(21) اور نوح نے کہا کہ پروردگار ان لوگوں نے میری نافرمانی کی ہے اور اس کا اتباع کرلیا ہے جو مال و اولاد میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں دے سکتا ہے

﴿22﴾ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا
(22) اور ان لوگوں نے بہت بڑا مکر کیا ہے

﴿23﴾ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا
(23) اور لوگوں سے کہا ہے کہ خبردار اپنے خداؤں کو مت چھوڑ دینا اور ود, سواع, یغوث, یعوق, نسر کو نظرانداز نہ کردینا

﴿24﴾ وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا 
(24) انہوں نے بہت سوں کو گمراہ کردیا ہے اب تو ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کوئی اضافہ نہ کرنا

﴿25﴾ مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَجِدُوا لَهُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَنصَارًا
(25) یہ سب اپنی غلطیوں کی بنا پر غرق کئے گئے ہیں اور پھر جہنم ّمیں داخل کردیئے گئے ہیں اور خدا کے علاوہ انہیں کوئی مددگار نہیں ملا ہے

﴿26﴾ وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا 
(26) اور نوح نے کہا کہ پروردگار اس زمین پر کافروں میں سے کسی بسنے والے کو نہ چھوڑنا

﴿27﴾ إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا
(27) کہ تو انہیں چھوڑ دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور فاجر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی نہ پیدا کریں گے

﴿28﴾ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا
(28) پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوجائیں اور تمام مومنین و مومنات کو بخش دے اور ظالموں کے لئے ہلاکت کے علاوہ کسی شے میں اضافہ نہ کرنا

 

 

ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ ایران بدستور جنیوا معاہدے کی پابندی کر رہا ہے-

رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے سربراہ یوکیا امانو نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران مشترکہ اقدام پروگرام کے تحت اپنے وعدوں کی پابندی کر رہا ہے- اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران نے نطنز اور فردو میں قائم یورینیم افزودہ کرنے کی ایٹمی تنصیبات اور اراک میں زیرتعمیر بھاری پانی کے پلانٹ میں معمول سے زیادہ سرگرمیاں انجام نہیں دی ہیں- واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ایک وفد نے یوکیا امانو کے نائب واریو رانتا کی سربراہی میں ایران کا دورہ کیا تھا-

 

 

Tuesday, 21 April 2015 09:58

سوره المعارج

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے

 

﴿1﴾ سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ
(1) ایک مانگنے والے نے واقع ہونے والے عذاب کا سوال کیا

﴿2﴾ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ 
(2) جس کا کافروں کے حق میں کوئی دفع کرنے والا نہیں ہے

﴿3﴾ مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ 
(3) یہ بلندیوں والے خدا کی طرف سے ہے

﴿4﴾ تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ 
(4) جس کی طرف فرشتے اور روح الامین بلند ہوتے ہیں اس ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے

﴿5﴾ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا
(5) لہذا آپ بہترین صبر سے کام لیں

﴿6﴾ إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا 
(6) یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں

﴿7﴾  وَنَرَاهُ قَرِيبًا
(7) اور ہم اسے قریب ہی دیکھ رہے ہیں

﴿8﴾ يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاء كَالْمُهْلِ
(8) جس دن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ہوجائے گا

﴿9﴾ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ 
(9) اور پہاڑ دھنکے ہوئے اون جیسے

﴿10﴾ وَلَا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيمًا
(10) اور کوئی ہمدرد کسی ہمدرد کا پرسانِ حال نہ ہوگا

﴿11﴾ يُبَصَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِي مِنْ عَذَابِ يَوْمِئِذٍ بِبَنِيهِ
(11) وہ سب ایک دوسرے کو دکھائے جائیں گے تو مجرم چاہے گا کہ کاش آج کے دن کے عذاب کے بدلے اس کی اولاد کو لے لیا جائے

﴿12﴾ وَصَاحِبَتِهِ وَأَخِيهِ
(12) اوربیوی اور بھائی کو

﴿13﴾ وَفَصِيلَتِهِ الَّتِي تُؤْويهِ
(13) اور اس کنبہ کو جس میں وہ رہتا تھا

﴿14﴾ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ يُنجِيهِ 
(14) اور روئے زمین کی ساری مخلوقات کو اور اسے نجات دے دی جائے

﴿15﴾ كَلَّا إِنَّهَا لَظَى
(15) ہرگز نہیں یہ آتش جہنمّ ہے

﴿16﴾ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى
(16) کھال اتار دینے والی

﴿17﴾ تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ وَتَوَلَّى
(17) ان سب کو آواز دے رہی ہے جو منہ پھیر کر جانے والے تھے

﴿18﴾ وَجَمَعَ فَأَوْعَى 
(18) اور جنہوں نے مال جمع کرکے بند کر رکھا تھا

﴿19﴾ إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا
(19) بیشک انسان بڑا لالچی ہے

﴿20﴾ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا 
(20) جب تکلیف پہنچ جاتی ہے تو فریادی بن جاتا ہے

﴿21﴾ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا 
(21) اور جب مال مل جاتا ہے تو بخیل ہو جاتا ہے

﴿22﴾ إِلَّا الْمُصَلِّينَ
(22) علاوہ ان نمازیوں کے

﴿23﴾ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ 
(23) جو اپنی نمازوں کی پابندی کرنے والے ہیں

﴿24﴾ وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ
(24) اور جن کے اموال میں ایک مقررہ حق معین ہے

﴿25﴾ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ
(25) مانگنے والے کے لئے اور نہ مانگنے والے کے لئے

﴿26﴾ وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ 
(26) اور جو لوگ روز قیامت کی تصدیق کرنے والے ہیں

﴿27﴾ وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ 
(27) اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں

﴿28﴾ إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونٍ
(28) بیشک عذاب پروردگار بے خوف رہنے والی چیز نہیں ہے

﴿29﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ 
(29) اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں

﴿30﴾ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ 
(30) علاوہ اپنی بیویوں اور کنیزوں کے کہ اس پر ملامت نہیں کی جاتی ہے

﴿31﴾ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاء ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ 
(31) پھر جو اس کے علاوہ کا خواہشمند ہو وہ حد سے گزر جانے والا ہے

﴿32﴾ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ 
(32) اور جو اپنی امانتوں اور عہد کا خیال رکھنے والے ہیں

﴿33﴾ وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ 
(33) اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہنے والے ہیں

﴿34﴾ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
(34) اور جو اپنی نمازوں کا خیال رکھنے والے ہیں

﴿35﴾ أُوْلَئِكَ فِي جَنَّاتٍ مُّكْرَمُونَ 
(35) یہی لوگ جنّت میں باعزّت طریقہ سے رہنے والے ہیں

﴿36﴾ فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ 
(36) پھر ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ آپ کی طرف بھاگے چلے آرہے ہیں

﴿37﴾ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ
(37) داہیں بائیں سے گروہ در گروہ

﴿38﴾ أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ أَن يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ
(38) کیا ان میں سے ہر ایک کی طمع یہ ہے کہ اسے جنت النعیم میں داخل کردیا جائے

﴿39﴾ كَلَّا إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّمَّا يَعْلَمُونَ 
(39) ہرگز نہیں انہیں تو معلوم ہے کہ ہم نے انہیں کس چیز سے پیدا کیا ہے

﴿40﴾ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ 
(40) میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں

﴿41﴾ عَلَى أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ 
(41) اس بات پر کہ ان کے بدلے ان سے بہتر افراد لے آئیں اور ہم عاجز نہیں ہیں

﴿42﴾ فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّى يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ 
(42) لہذا انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنے باطل میں ڈوبے رہیں اور کھیل تماشہ کرتے رہیں یہاں تک کہ اس دن سے ملاقات کریں جس کا وعدہ کیا گیا ہے

﴿43﴾ يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ 
(43) جس دن یہ سب قبروں سے تیزی کے ساتھ نکلیں گے جس طرح کسی پرچم کی طرف بھاگے جارہے ہوں

﴿44﴾ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ 
(44) ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور ذلت ان پر چھائی ہوگی اور یہی وہ دن ہوگا جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے

 

۲۰۱۵/۰۴/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے فوج کے بعض اعلی کمانڈروں، اہلکاروں اور فوجی شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات میں مسلح افواج کو دینی و انقلابی جہات اور بصیرت کی تقویت اور حفاظت ، دفاعی توانائی اور ہتھیاروں کے اضافہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:  اسلامی جمہوریہ ایران علاقہ اور ہمسایہ ممالک کے لئے نہ کبھی خطرہ تھا اور نہ ہوگا لیکن ہر قسم کے حملے کے مقابلے میں مقتدرانہ طور پر عمل کیا جائے گا۔

یہ ملاقات یوم مسلح افواج کی مناسبت سے ہوئی ، مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے اس دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی ، اورانقلاب کے آغاز میں فوج کو ختم کرنے کے سلسلے میں بعض افراد کی کوششوں کے مقابلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی طرف سے 29 فروردین کو اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے نام سے موسوم کرنے کو ان کی ایک عظیم خلاقیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) کی ذہانت اور ہوشیاری کی وجہ  سےفوج قدرت اور قوت کے ساتھ باقی رہی ، اور مختلف میدانوں منجملہ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں اس نے ایک انقلابی مجموعہ کے طور پر اپنا نقش ایفا کیا اور ملک کے لئے افتخارکا باعث بن گئی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی خدمت اور اس کے اعلی اہداف کی راہ میں اور انقلاب اسلامی کے ساتھ  فوج کے کھڑا ہونے کو 29 فروردین کے حقیقی معنی قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی ایک اہم خصوصیت دینی احکام اور مقررات پر عمل پیرا رہنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے شکست یا کامیابی کے موقع پر بین الاقوامی قوانین  اور انسانی  اصولوں پر دنیا کی اکثرفوجوں کی طرف سے عمل نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا:  اس کا واضح نمونہ عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ کی رفتار میں نمایاں ہے جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی اصولوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں اور ہر جرم و جنایت کا ارتکاب کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن، غزہ اور لبنان پر مسلط کی جانی والی جنگوں کو بین الاقوامی قوانین پر عمل نہ کرنے کے واضح نمونے بیان کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج ہمیشہ اسلامی قوانین اور مقررات کی پابند رہی ہیں اور وہ کبھی بھی کامیابی کے موقع پرسرکشی نہیں کرتیں اور نہ خطرے کے موقع پر ممنوعہ طریقوں اورممنوعہ ہتھیاروں سے استفادہ کرتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دینی اصولوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی قوانین اور دینی اصولوں پرکارپابند ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی ممالک کے مسائل میں ایران کی مداخلت پر مبنی غلط پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ بے بنیاد الزامات حقائق کے بالکل خلاف ہیں کیونکہ ایران نے نہ دوسرے ممالک کے مسائل میں مداخلت کی ہے اور نہ کرےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو لوگ عام شہریوں، بچوں اور عورتوں پر حملہ کرتے ہیں ہم ان سے بیزار اور متنفر ہیں اورہمارا اس بات پر اعتقاد ہے کہ وہ لوگ اسلام اور انسانیت سے بےخبر ہیں ہم دوسرے ممالک کے مسائل میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی و الہی قوانین پر مسلح افواج کی پابندی کو ایرانی فوج کی نمایاں خصوصیت اور  ان کی عوام میں محبوبیت کا اصلی راز قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی دوسری خصوصیت ، روز افزوں دفاعی آمادگی ، جنگی وسائل اور ہتھیاروں کا ارتقاء ہے جسے آیہ شریفہ " «و اَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّه» کی پشتپناہی حاصل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلح افواج کی دفاعی اور فوجی ترقیات کو ملک کی سائنسی اور ٹیکنالوجی ترقیات کے ہمراہ  بہت ہی ممتاز اور نمایاں قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ ترقیات اور توانائیاں سخت دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے سائے میں حاصل ہوئی ہیں جو بہب ہی عظيم اور غیر معمولی ہیں  اور انھیں اسی سرعت کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلح افواج کی دفاعی ترقیات و پیشرفت  اور انھیں متوقف کرنے کے سلسلے میں  ایرانی قوم کے دشمنوں کی ناراضگی اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میزائل سسٹم اور ڈرون طیاروں کے شعبہ میں جاری ترقیات پر اپنی تبلیغاتی کوششوں کو مرکوز رکھا ہوا ہے لیکن عقل و منطق اور قرآن مجید کی آیہ شریفہ ہمیں کہتی ہے کہ ہم طاقت اور قدرت کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی پست دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد پھر ایک امریکی اہلکار نے میز پر تمام آپشنز موجود رہنے کی بات کی ہے وہ ایک طرف ایسی شیخی مارتے اور لاف گوئی کرتےہیں اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنی دفاعی ترقیات کو متوقف کرنا چاہیے البتہ ان کی یہ بات احمقانہ بات ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کبھی بھی اس احمقانہ بات کو قبول نہیں کرےگی اور ایرانی قوم نے ثابت کیا ہے کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ اپنا مقتدرانہ دفاع کرےگی اور متحدہ ہو کر غیر منطقی حملہ آور کا آہنی ہاتھوں سے مقابلہ کرےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف  نے فرمایا: وزارت دفاع ، فوج اور سپاہ کے تمام داروں کو اپنی دفاعی، فوجی اور رزمی صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کرنا چاہیے اور مکمل طور پر تیار رہنا چاہیے اور یہ ایک باقاعدہ دستور العمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی مسلح افواج بالخصوص فوج کے جذبات کو بہت ہی بلند و بالا قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج اپنی فوجی اور دفاعی توانائیوں کے باوجود کبھی بھی علاقائی اور ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہوں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ ، یورپ اور بعض ان کے پیروکار ممالک کی طرف سے ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش اور اسلامی جمہوریہ ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کےسلسلے میں ان کے مصنوعی افسانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ اور اسرائیل سب سے بڑا خطرہ ہیں جو بین الاقوامی ، اخلاقی اور دینی اصولوں اور قوانین کو پامال کرکے بغیر کسی روک ٹوک کے جہاں ضروری سمجھتے ہیں مداخلت کرتے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یمن کے دردناک حوادث اور یمن پر مسلط کردہ جنگ کی امریکہ اور مغرب کی طرف سے حمایت کو عالمی سطح پر بد امنی پھیلانے کا ایک واضح نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ، بےلگام طاقتوں کے برخلاف امن و سلامتی کو سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہے اور اپنی و دوسروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے استقامت کا مظاہرہ  اور دفاع کرتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی سکیورٹی کی حفاظت، سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی عام زندگی کی حفاظت سکیورٹی فورسز اور مسلح افواج کی اہم ذمہ داری ہے۔